خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی ، پاکستان
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدْ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 01:
ایک صاحب نے سعودی عرب سے ای میل کیا ہے اور کچھ سوالات بھیجے ہیں لیکن یہ سوالات گزشتہ اتوار کے لیے بھیجے تھے، لیکن اس وقت غالباً ہمارا پروگرام درمیان میں کسی وجہ سے متاثر ہو گیا تھا تو اس کے جوابات نہیں دیئے جا سکے، آج ان شاء اللہ ان کے ای میل کا جواب دیں گے۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت جی چند سوالات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت جی تبلیغی جماعت کے ساتھی صرف اس کام کو دعوت الی اللہ کہتے ہیں جس میں ان کے ساتھ گشت کرنا اور سہ روزہ لگانا شامل ہو، براہ راست نہیں مگر ان کی گفتگو سے یہی حاصل ہوتا ہے۔ ان کی بات کس حد تک درست ہے؟ وضاحت فرما کر بندے کے اشکال کو دور فرما دیں۔
سوال نمبر 2:
حضرت جی! میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھی کو آپ کا ملفوظ مبارک سنایا کہ جماعت والے بے طلب لوگوں میں طلب پیدا کرنا اور جب طلب پیدا ہو تو ان کو اصلاح کروانے کے لیے مشائخ کے پاس بھیجنا ہے۔ اس پر اس صاحب نے کہا: جماعت میں نکلنے سے اصلاح ہو جاتی ہے، جماعت کا امیر ہوتا ہے، سب کو نفس پر پاؤں رکھتے ہوئے امیر کی بات ماننی پڑتی ہے، اس طرح سے اصلاح ہو جاتی ہے۔ حضرت جی اس طرح کیا اصلاح نفس ممکن ہے؟
سوال نمبر 3:
حضرت جی! میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھیوں سے کہا: میرے حضرت فرماتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں خانقاہیں زیادہ تھیں اور لوگ کم تھے، آج کل کے دور میں لوگ زیادہ ہیں اور خانقاہیں بہت کم، اس پر اس صاحب نے کہا کہ خانقاہ کی ضرورت تبلیغی جماعت پوری کر رہی ہے اس کا دائرہ کار بھی بہت بڑا ہے، حضرت جی! اس صاحب کے مطابق دین کے مختلف کام ایک دوسرے کے نعم البدل ہو سکتے ہیں۔؟
سوال نمبر 4:
حضرت جی جماعت کے ساتھی اس بات کے جواب میں کہ رہے تھے تبلیغی جماعت کے بزرگ فرماتے ہیں جب کسی حلقہ میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو quality of production کم ہو جاتی ہے، یہی صورتحال ہماری جماعت کے ساتھ ہے۔ حضرت جی! کیا دین کے معاملے میں ایسا عذر پیش کرنے کی گنجائش ہے؟
جواب:
میرے خیال میں یہ سوالات کافی عرصے سے اٹھ رہے ہیں اور ہمارے اکابر نے ان کے جوابات بھی دیے ہیں۔ دیوبند کا فتویٰ بھی اس کے بارے میں آج کل آچکا ہے، تو میں اس بارے میں چند اصولی باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
جن حضرات کو اپنی اصلاح مقصود ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم لوگ صحیح بات تک پہنچ جائیں تو ان لوگوں کے لیے یہ بات کچھ نہ کچھ اثر رکھے گی، لیکن جنہوں نے اپنے ذہن میں کوئی خاص بات بٹھا رکھی ہو گی، اس کے علاوہ کوئی اور بات سننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے، وہ ہمارے مخاطب بھی نہیں ہیں اور ان سے بات کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ انسان کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا ہوتا ہے، سارے لوگوں کو مطمئن کرنا بھی ہمارا کام نہیں ہے اور ان سے بالکل مستغنی ہونا بھی ہمارا کام نہیں ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ مناسب طریقے سے جواب دے دیا جائے، باقی ان کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے، یہی ہم کہہ سکتے ہیں۔
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو یہ بات اگرچہ واقعی نظر آرہی ہے کہ ان حضرات کے نزدیک صرف تبلیغی جماعت کا کام ہی دین کا کام ہے، کوئی اور کام نہیں ہے۔ لیکن میرے خیال میں یہ نظریہ سب کا نہیں ہے، بہت سارے تبلیغی جماعت کے حضرات اس چیز سے آگاہ ہیں کہ تبلیغی جماعت کا کام علماء کا اور مشائخ کا فیض باقی لوگوں تک پہنچانا ہے اور وہ مشائخ کے ساتھ تعلق بھی رکھتے ہیں اور علماء سے علم بھی حاصل کرتے ہیں اور اصولی بنیاد پر اس دعوت کو عام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ میرے خیال میں وہی تبلیغی جماعت کے صحیح وارث ہیں اور وہی تبلیغی جماعت والے کہلائے جاسکتے ہیں، جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو کہتے ہیں کہ صرف یہی ایک کام ہے تو یہ ان کے اصول کے خلاف ہے۔ چونکہ مجھے معلوم ہے کہ رائیونڈ میں ہمارے ایک حضرت مولانا مصطفی صاحب تشریف رکھتے تھے، مقیمین حضرات میں سے تھے اور بڑے مرتبے کے لوگوں میں سے تھے۔ تبلیغی جماعت میں ان کے مرتبے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں گے، اور یہ ہمارے senior تبلیغی حضرات کو معلوم ہو گا کہ وہ جانے والی جماعتوں کو ہدایات بھی دیا کرتے تھے اور کار گزاری بھی سنتے تھے، حضرت کا رائیونڈ میں ایسا مقام تھا۔ حضرت چونکہ بہت ہی زیادہ گہری باتیں کرتے تھے، لہٰذا اکثر میں ان کی مجلس میں ان کی ہدایات سننے کے لیے بہت توجہ کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا، اس وجہ سے مجھے ان کی باتیں اکثر یاد ہیں۔ ایک موقع پر حضرت نے ایک عجیب بات فرمائی، فرمایا کہ جو جماعت والے ساتھی ہیں، اگر کوئی نیا آدمی جماعت میں آ جائے تو خبردار اس کی تربیت کرنا شروع نہ کر دیں، تربیت کرنا ہمارا کام نہیں ہے یہ مشائخ کا کام ہے، ہمارا کام صرف اکرام کرنا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی نیا آدمی آئے اور آپ کہہ رہے ہوں که چلو اس کی تربیت کر دیتے ہیں اور مسجد کے کنویں کا ڈول نکالتے ہیں تاکہ آپ کی تربیت ہو جائے۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے، ہم لوگ تربیت نہیں کرتے، ہم لوگ صرف اکرام کرتے ہیں، یہ مشائخ کا کام ہے، ان کو کرنے دیں۔
دوسری بات یہ کہ حضرت نے بھی ایک موقع پر فرمایا اور عام طور پر بھی اور میرے خیال میں ابھی تک یہ اصول چلا آ رہا ہے اس میں شاید کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ جماعت میں مسائل کے اوپر بات چیت کی ممانعت ہے۔ فرماتے ہیں کہ اپنے اپنے علاقے کے علماء سے سیکھو اور جماعت میں مسائل کے اوپر گفتگو نہ کرو، اس کی وجہ بہت ظاہر ہے کہ مختلف مسلکوں کے لوگ جماعت میں چل رہے ہوتے ہیں، اگر مسائل کے بارے میں بات ہو گی تو اختلافی مسائل بھی آئیں گے، اس کی وجہ سے جماعت میں توڑ پیدا ہو گا، نتیجتا جماعت کا کام نہیں چل سکے گا۔ اس اصول کے پیش نظر جماعت میں مسائل کی تعلیم بھی نہیں ہوتی۔ پتا چلا کہ علمی کام بھی جماعت میں نہیں ہو سکتا، اس میں صرف فضائل بیان ہوں گے، چھ نمبر سارے فضائل ہی ہیں، اس میں مسائل کہاں ہیں؟ باقاعدہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ کوئی غیر عالم چھ نمبر سے باہر نہ نکلے، یعنی چھ نمبر میں ہی گفتگو کرے آگے پیچھے کوئی بات نہ کرے۔ معلوم ہوا کہ جماعت میں علمی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ اور حضرت مولانا مصطفی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر حضرات جیسے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا زکریا رحمۃ اللہ علیہ کے ارشادات مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ جماعت میں تربیت کا کام بھی نہیں ہے بلکہ وہ مشائخ کے ہاں ہے۔ لہذا مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ تربیت کے لیے اپنی جماعت کو رائے پور شریف یا سہارن پور شریف شیوخ کے پاس بھیجا کرتے تھے۔
حضرت کے ملفوظات میں ہے کہ جب میں میوات گشت کے لیے جاتا ہوں تو میں اپنی حفاظت کے لیے صلحاء کی جماعت کو ساتھ لے جاتا ہوں اس کے باوجود لوگوں کے ساتھ ملنے سے میرے دل پر اثر ہو جاتا ہے پھر اثر کو دور کرنے کے لیے میں رائے پور شریف یا سہارن پور شریف جاتا ہوں یا مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔
حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بالکل وضاحت کے ساتھ لکھا ہے، ابھی بھی تبلیغی حضرات فضائلِ اعمال سے تعلیم کرتے ہیں۔ میں یہاں بھی آپ کے سامنے سنا دیتا ہوں ان شاء اللہ العزیز کافی ساری باتیں clear ہو جائیں گی، لہٰذا اس پر الجھنے کی ضرورت نہیں ہے، مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ فضائلِ تبلیغ کی فصل اول ہے، اس کا آغاز آیت قرآن سے ہے، حضرت شیخ الحدیث رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قَالَ اللہُ عَزَّ اِسمُہٗ: ﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَا اِلَی اللہِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْن﴾ (حم السجدہ: 33)
ترجمہ حضرت نے بیان القرآن سے لیا ہے۔
”اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے، جو خدا کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں“۔
آگے حضرت فرماتے ہیں: مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص بھی اللہ تعالی کی طرف کسی کو بلائے وہ اس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے، خواہ کسی طریق سے بلائے مثلاً انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام معجزہ وغیرہ سے بلاتے ہیں اور علماء دلائل سے، مجاہدین تلوار سے اور موذنین اذان سے، غرض جو بھی کسی شخص کو دعوت الی الخیر کرے وہ اس میں داخل ہے، خواہ اعمال ظاہرہ کی طرف بلائے یا اعمال باطنہ کی طرف، جیسا کہ مشائخ صوفیہ معرفت الی اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔
اب دیکھ لیں! حضرت نے بالکل وضاحت کے ساتھ لکھ دیا کہ دعوت الی اللہ کے کام کے بہت سارے طریقے ہیں، یہ صرف چند طریقے حضرت نے بیان فرما دیے، لیکن حضرت نے کم از کم اس کو ایک طریق میں دائر نہیں فرمایا کہ صرف تبلیغ ہی دعوت الی اللہ کا طریقہ ہے، باقی طریقے نہیں ہیں۔
تو اپنے اپنے شعبے میں جو بھی محنت کر رہے ہیں، چاہے مجاہدین جہاد میں محنت کر رہے ہیں، یا مؤذنین اذان میں محنت کر رہے ہیں، یا علماء کرام اپنے دلائل میں محنت کر رہے ہیں، یا مشائخ اپنی خانقاہوں میں محنت کر رہے ہیں، یہ سب بقول حضرت کے دعوت الی اللہ میں شامل ہے اور فضائل اعمال کی حیثیت تبلیغی جماعت کے اندر میرے خیال میں بالکل ظاہر ہے که ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے، اگر اس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے تو اب کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال ایک تو یہ بات ہو گئی کہ دعوت الی اللہ کا صرف یہ کام نہیں ہے، بلکہ دعوت الی اللہ کے دوسرے بھی کام ہیں اور ایسے ہی اہم ہیں جیسے کہ یہ اہم ہے۔ اس کا مطلب تبلیغ کی اہمیت کو ختم کرنا نہیں ہے، یہ بہت اہم کام ہے، لیکن دل بہت زیادہ اہم ہے۔ تو کیا خیال ہے دماغ کو ختم کر دو! یا دماغ کا بہت اہم کام ہے تو کیا پھیپھڑوں کو نکال دو! ظاہر ہے ہر چیز کی اپنی اپنی ایک اہمیت ہے۔ درجہ بندی ہو سکتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ایک اہم چیز ہو تو اس کی بنیاد پر دوسری چیزوں کو باہر نکال دیں، کسی کو بھی نہیں نکالا جاسکتا، چاہے وہ کم سے کم چیز کیوں نہ ہو۔ مثلاً گردوں کو نکال کے دیکھو کیا ہو گا؟۔
دین کے جتنے بھی شعبے ہیں، سارے اپنے اپنے لحاظ سے اہم ہیں، یہ دین کے مورچے ہیں اور ہر جگہ سے دین کی حفاظت ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مسئلے میں تعصب نہیں کرنا چاہیے۔ یہ صرف اور صرف بعض لوگ جو بیچارے نہ دین دار ہوتے ہیں، نہ علماء ہوتے ہیں، نہ مشائخ کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں، بس وہ جماعت کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ تین چار مہینے وقت لگا کے وہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب سب سے زیادہ سمجھ دار ہم ہیں۔ یہ ایسے لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ یاد رکھو! اصول کی بات ہے کہ جس کام کو کرکے انسان میں تکبر آجائے، اس کو چھوڑنا اس کے لیے ضروری ہے۔ جس کو تبلیغ کے اندر اتنا تکبر آجائے اور وہ مشائخ کی بے حرمتی کرنے لگے، علمائے کرام کی توہین کرنے لگے، یا دین کے دوسرے کاموں پر تنقید کرنے لگے، تو اس کو کچھ وقت کے لیے تبلیغ سے باہر نکلنا چاہیے، اپنی اصلاح کرنی چاہیے، پھر تبلیغ میں واپس آنا چاہیے، ان کے لیے واجب ہے اور ضروری ہے کہ وہ کسی شیخ کی صحبت میں رہیں، علماء کی صحبت میں رہیں تاکہ ان کی پہلے علمی اصلاح ہو جائے، اس کے بعد ان کی تربیت ہو جائے، پھر وہ دین کے کام کے لیے کار آمد ہو جائیں گے۔ ورنہ وہ فتنہ اور شر ہی پھیلائیں گے، ایسے لوگوں کی اپنی اصلاح بہت ضروری ہے۔ لہٰذا جو اس قسم کی بات کرتے ہیں میرے خیال میں غلط ہے۔ البتہ یہ بات مانتا ہوں کہ سارے تبلیغی ایسے نہیں ہیں، چند نا سمجھ لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اور ان کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ ”حضرت جی میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھی کو آپ کا ملفوظ مبارک سنایا کہ جماعت والے بے طلب لوگوں میں طلب پیدا کرنا اور جب طلب پیدا ہو تو ان کو اصلاح کروانے کے لیے مشائخ کے پاس بھیجنا ہے تو اس پر اس صاحب نے کہا جماعت میں نکلنے سے اصلاح ہو جاتی ہے“۔
میں نے ابھی اس بارے میں بات کی ہے کہ مولانا مصطفی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی بات ٹھیک ہے یا اس شخص کی؟ مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو کہ جماعت کے ذمہ داروں میں سے تھے اور باقاعدہ ہدایات دیا کرتے تھے، ایسے بزرگ کی بات ماننی چاہیے یا لڑکے کی بات ماننی چاہیے! اس لڑکے کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے، اس کو سمجھنا چاہیے کہ میں غلطی پر ہوں، کیوں کہ جماعت میں نکلنے سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے، لیکن اس صورت میں فائدہ ہوتا ہے جب دین کے دوسرے شعبوں کی قدر ہو، اکرام ہو، اور جماعت میں سیکھنے کے ارادے سے نکلا ہو، اس ارادہ سے اگر کوئی جائے گا تو اس کو فائدہ ہو گا۔ لیکن اگر وہ سکھانے کے لیے جائے گا، دوسروں کی تنقیص کرے گا، تو اس کی اپنی اصلاح نہیں ہو گی تو وہ دوسروں کی کیا اصلاح کرے گا! جو خود گندہ ہو وہ دوسرے کو کیا صاف کرے گا! لہذا ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کروانی چاہیے۔
اور یہ بات کہ ”جماعت کا امیر ہوتا ہے سب کو نفس پر پاؤں رکھتے ہوئے امیر کی بات ماننی پڑتی ہے“۔
جواب:
امیر کی بات تو ہر جگہ ماننی پڑتی ہے جہاد میں نہیں ماننی پڑتی؟ مدرسہ میں اپنے استاد کی بات نہیں ماننی پڑتی؟ خانقاہ میں اپنے شیخ کی بات نہیں ماننی پڑتی؟ یہ تو ہر جگہ ہے۔ اس میں جماعت کی تخصیص نہیں ہے۔ اس بنیاد پر یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ اس سے اصلاح ہو جاتی ہے، اصلاح کے اپنے طریقے ہیں اور وہ مشائخ کے ہاں ہوتے ہیں، جیسا کہ حضرت مولانا مصطفی صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے۔ البتہ جماعت کام کرنے کا ایک میدان ہے، جماعت کی مثال ایسے ہے جیسے خون اور جسم کے باقی اعضاء کے اپنے اپنے شعبے ہیں، جیسے دل، دماغ، پھیپھڑے اور گردے ہوتے ہیں ہر ایک کا اپنا اپنا کام ہوتا ہے۔ خون کا کیا کام ہوتا ہے؟ جہاں خوراک پیدا ہوتی ہے، اسی خوراک کو لے کر پورے جسم میں پہنچانا۔ اسی طرح علماء، مشائخ، اور دوسرے حضرات جو محنت کرتے ہیں ان سب کی محنتوں کو اپنی اپنی جگہ تک پہنچانا تبلیغی جماعت کا کام ہے۔ اگر یہ اپنے اس کام سے ہٹ جائیں اور کسی اور کام کو اپنے ذمے لینے لگیں تو اس سے کتنا نقصان ہو گا! اپنا کام تو چھوڑ دیا باقی لوگوں کا کام کرنے لگے۔ بہرحال ان کا کام بہت اہم ہے، اس کو ہم غیر اہم نہیں سمجھتے، لیکن اہم کام کو بھی صحیح طریقے سے کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کو یہ سیکھنا چاہیے کہ اگر کوئی غلطی نکل آئے تو اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
اور یہ بات کہ ”حضرت جی! میں نے تبلیغی جماعت کے ساتھیوں سے کہا میرے حضرت فرماتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں خانقاہیں زیادہ تھیں اور لوگ کم تھے آج کل کے دور میں لوگ زیادہ ہیں اور خانقاہیں بہت کم اس پر اس صاحب نے کہا کہ خانقاہ کی ضرورت تبلیغی جماعت پوری کر رہی ہے، اس کا دائرہ کار بھی بہت بڑا ہے، حضرت جی! اس صاحب کے مطابق دین کے مختلف کام ایک دوسرے کے نعم البدل ہو سکتے ہیں“؟
جواب:
در اصل میں نے بتا دیا کہ تبلیغی جماعت کا کام ایک خاص رخ کا کام ہے، یعنی دین کی دعوت اور دین کی دعوت میں طلب پیدا کرنا۔ یہ کتنا بڑا کام ہے؟ بے طلب لوگوں میں طلب پیدا کرنا۔ لیکن ان کی طلب کو پورا کرنے کے لیے دو قسم کی طلب ہو سکتی ہے: ایک علمی طلب ہوتی ہے اور ایک تربیت کی طلب ہوتی ہے۔ تعلیم کے لیے مدارس ہیں اور تربیت کے لیے خانقاہیں ہیں۔ وہ اپنے اپنے طور پر ان لوگوں کی ذمہ داریاں ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے یہی کیا ہے۔ جماعت میں جو لوگ تھے، حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تشکیل کی کسی کو کسی بزرگ کے پاس بھیج دیا، اور کسی کو کسی بزرگ کے پاس بھیج دیا، خود بھی بیعت تھے اور بیعت کرتے تھے۔ حضرت مولانا انعام الحسن رحمۃ اللہ علیہ بھی بیعت تھے اور بیعت کرتے تھے۔ اسی طرح جماعت میں اب بھی ایسے حضرات موجود ہیں جیسے مولانا نذر الرحمن صاحب اور دوسرے حضرات جو بیعت کرتے ہیں اور بیعت تھے، ان حضرات کی اپنی اپنی خانقاہیں ہیں، بہت سے حضرات اب بھی کام کر رہے ہیں۔ مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ نہیں تھی؟ ان کی بھی اپنی خانقاہ تھی، ان کا اپنا مدرسہ بھی تھا، تو کیا خیال ہے جماعت میں چل کے اپنا مدرسہ ختم کر دیا؟ اپنی خانقاہ بھی ختم کر دی؟ آخر حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ علیہ کہاں تشریف لائے تھے؟ وہ ان کی جگہ پر تشریف لائے تھے، تبلیغی جماعت کے مرکز میں تشریف نہیں لائے تھے۔ تو یہ دعوی کرنا کہ بس کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے، یہ غلط ہے۔ جس طرح مدارس کی اپنی حیثیت ہے، جماعت والے بھی مدارس بناتے ہیں اور مدارس میں طلبہ کو تعلیم دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کو بھی خانقاہیں بنانی چاہئیں اور خانقاہوں میں لوگوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ صرف ہماری خانقاہوں میں لوگ آئیں، ان کو اپنی خانقاہیں بنانی چاہئیں، لیکن تربیت خانقاہوں میں ہوتی ہے، تعلیم مدارس میں حاصل ہوتی ہے۔ البتہ جماعت کی یہ بات ٹھیک ہے کہ دعوت کو سب لوگوں تک پہنچانا ہے، بے طلب لوگوں میں طلب پیدا کرنی ہے، یہ کام ضرور کریں۔
اور یہ بات کہ ”حضرت جی جماعت کے ساتھی اس بات کے جواب میں کہہ رہے تھے کہ تبلیغی جماعت کے بزرگ فرماتے ہیں جب کسی حلقہ میں لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو quality of production کم ہو جاتی ہے یہی صورتحال ہماری جماعت کے ساتھ ہے حضرت جی کیا دین کے معاملے میں ایسا عذر پیش کرنے کی گنجائش ہے؟
جواب:
اس بات سے انکار نہیں ہے، لیکن quality of production کم ہونے پر مطمئن نہیں ہونا چاہیے، quality کو بہتر کرنے کے اور ذرائع پیدا کرنے چاہئیں، مثال کے طور پر خانقاہیں بنائیں، زیادہ تعداد میں مدارس بنائیں، جتنے جتنے لوگ کام کر رہے ہوں ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی سامان پیدا کر لیں، تو quality کم نہیں ہو گی۔ اگر آپ ایک بھیڑ کی طرح بے ہنگم جماعت تیار کر لیں، جن کا نہ سر ہو، نہ پیر، جو مرضی میں آئے بات کریں، جہاں سے پکڑے جہاں بھیجیں تو اس سے quality تو کم ہو گی، یہ تو اپنی ذمہ داری پر کم کر رہے ہیں۔ quality of production کو improve کرنے کے ذرائع کو اختیار کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ جماعت والوں کو اپنی خانقاہیں بنانی چاہئیں، جیسے انہوں نے مدارس بنائے ہیں، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر انہوں نے یہ کام چھوڑ دیا تو quality کم ہو گی ہی، quality جس وجہ سے کمزور ہے اس وجہ کو ختم کر لیں تو quality بہتر ہو جائے گی۔ کیا خیال ہے کسی کی ترقی ہو گئی اور اس کی ایک فیکٹری کی جگہ دو فیکٹریاں ہو گئیں، تو کیا وہ اپنی quality کو کم کر دے گا؟ دنیا میں تو ایسا نہیں ہوتا، دنیا میں لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کے لیے تو نام ہی کافی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی quality کو بھی maintain کر رہے ہوں گے، quality کو maintain کرنا چاہیے۔ مثلاً کسی کا اچھا کپڑا چل پڑا اور لوگوں نے پسند کرنا شروع کر دیا، انہوں نے ایک فیکٹری کی جگہ دو فیکٹریاں لگائیں، تو کیا خیال ہے کہ اب وہ اپنی quality کم کر لیں؟ دوسری فیکٹری کی quality کے لیے بھی وہ ایسا ہی سامان پیدا کریں گے جس طرح سے پہلی فیکٹری کے لیے کیا ہے۔
اسی طریقہ سے یہ حضرات بھی quality کو produce کرنے کے لیے جو چیزیں ہیں، اگر اختیار کریں گے تو ان شاء اللہ العزیز اللہ پاک ان کی مدد فرمائیں گے۔ quality بھی اچھی ہو گی، quantity بھی اچھی ہو گی۔ اللہ کرے یہ جماعت پھلے پھولے۔ یہ جماعت ہماری اپنی جماعت ہے، ہمارے بزرگوں کی جماعت ہے، ہم تو چاہتے ہیں کہ یہ جماعت حق پر رہے اور دین کی بات پوری دنیا میں اسی طرح پھیلائیں، ہماری نمائندہ جماعت ہے۔ لیکن جو لوگ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں، اگر وہ نادان ہیں تو ایسے نادانوں سے بچنا چاہیے، کیونکہ نادان دوست انسان کو بہت خراب کرتا ہے۔ اور اگر کسی کے ایجنٹ ہیں تو اللہ تعالی ان کے شر سے ہمیں بچائے۔ اس طرح بھی ہوتا ہے، بڑی جماعتوں میں ایجنٹ بھی آ جاتے ہیں اور اس قسم کی باتیں کرکے لوگوں کے ذہنوں کو خراب کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے آمین
سوال 02:
ایک نے لکھا ہے حضرت جی!
Hazrat Ji I want to collect all letters and emails along with your replies in my diary. I want your kind permission for barka?
جواب:
ٹھیک ہے، No problem ، آپ کر سکتے ہیں۔
سوال 03:
حضرت جی!
If any معمول can’t be done on that day, is it possible to do it the next day before زوال?
جواب:
زوال والی بات نہیں ہے لیکن فجر کے فوراً بعد کر لیں۔
سوال 04:
الحمد اللہ Offering six days قضا، قضاء عمری per day and offering نفل نماز only two رکعت each as per your advice. Kindly guide me what to do with صلوۃ التسبیح?
محتاج دعا۔
جواب:
آپ صلوۃ التسبیح ہفتے میں ایک دفعہ پڑھ لیا کریں اور باقی اعمال اس طرح کر لیا کریں، میرے خیال میں صلوۃ التسبیح جمعہ کے دن پڑھ لیا کریں اور باقی دنوں میں یہی معمول رکھیں۔
سوال 05:
ایک لمبا ای میل آیا ہے میں اس کا سٹارٹ سنا دیتا ہوں تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ ان کے خط کا جواب ہے، باقی چونکہ پرسنل بات ہے مجلس میں کہنے کی ضرورت نہیں، البتہ اس کا میں جواب دے دوں گا۔
I am sorry for troubling you again and probably hurt you in my last email. I am so sorry! But yesterday everything became clear to me when I went through yesterday's lecture on ujab once again and also visited your website tasawuf section and came across the same position. It was mere confusion. It cleared my mind and started feeling right and better (I have edited it but it should kindly be listened to again from the audio because I have changed the whole structure and words of the sentences)
جواب:
میرے خیال میں اب اپنی بات کو انہوں نے محسوس کیا ہو گا، تو ٹھیک ہے۔ اور اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کے اوپر یہ چیزیں کلیر کر دیں اور میں اس میں ناراض نہیں ہوں۔ البتہ میں ہر چیز کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا۔ بعض چیزیں میرے لیے informative ہوتی ہیں، انہیں میں اپنے ساتھ رکھ لیتا ہوں، اور ان کا جواب ضروری نہیں ہوتا۔ لیکن جس چیز کا جواب ضروری ہوتا ہے وہ میں دے دیتا ہوں۔ آپ کے ساتھ بھی میں یہی کرتا ہوں، آپ کی ساری emails میں پڑھ لیتا ہوں، لیکن سب کا جواب نہیں دیا کرتا، کیونکہ وہ آپ کے personal matters کے بارے میں بھی بات ہوتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ بعض دفعہ وہ کافی لمبی ہو جاتی ہے، تو لمبی email کا جواب اس پروگرام میں مناسب نہیں۔
سوال 06:
حضرت کل کے مثنوی کے درس میں بات ہوئی تھی کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں اچھے یا برے۔ یعنی ہم دونوں کے درمیان ایک different لائن کھینچ رہے ہیں کہ یہ اچھے ہیں اور یہ برے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے اندر کچھ اچھی qualities بھی ہوتی ہیں اور کچھ خامیاں بھی ہوتی ہیں۔ ان کے ساتھ ہم کس طرح کا طرز عمل اختیار کریں؟۔ آپ نے فرمایا تھا کہ ہمیں چاہیے ہم اچھے لوگوں کی نظر میں اچھے نظر آئیں، اور برے لوگوں کی نظر میں اچھا بننے کی کوشش نہ کریں، دونوں کی نظر میں ایک وقت میں ہم اچھے نظر نہیں آ سکتے۔
جواب:
آپ نے یہ سوال clear کر دیا که کل مثنوی شریف کے درس میں یہ بات آئی تھی۔ وہ میری ذاتی بات تھی، اس وجہ سے ان کو confusion ہو گئی، مثنوی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ خود میری اپنی ایک سوچ تھی کہ انسان کو اچھے لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہیے اور برے لوگوں کی نظروں میں اچھا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ یہ ایک نظریاتی اچھائی اور نظریاتی برائی کی بات ہے، عمل کے لحاظ سے نہیں، کیوں کہ بہت سارے لوگ عملی طور پر کافی برے ہوتے ہیں، لیکن وہ اچھائی کو اچھائی سمجھتے ہیں اور برائی کو برائی سمجھتے ہیں۔ میں ان کی بات نہیں کر رہا۔ مثلاً ایک شخص جوا کھیلتا ہے لیکن اپنے بیٹے کو جوا نہیں کھیلنے دیتا کیونکہ وہ جوئے کو برا سمجھتا ہے۔ لیکن جو جوئے کو اچھا سمجھ رہا ہے، میں اس کی بات کر رہا تھا۔
اسی طریقے سے جو نظریاتی طور پر برائی کو اچھا سمجھتے ہیں اور اس سسٹم کا حصہ ہیں جو برائی پھیلا رہے ہوں تو ان کی نظروں میں ہم اچھے نہیں ہو سکتے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگوں سے گناہ ہوتے ہیں، لیکن وہ گناہ کو گناہ سمجھتے ہوئے اس پر پشیمان ہوتے ہیں، اگر گناہ کو گناہ نہ سمجھیں تو پشیمان کیوں ہوں؟ اور وہ اچھے لوگوں کو اچھا سمجھتے ہیں کیونکہ کہتے ہیں، دیکھو! ہم سے تو گناہ ہوئے ہیں ہم تو ایسے ہیں، یہ تو بڑے اچھے لوگ ہیں۔ تو میرے خیال میں جو نسبتاً پارسا نظر آنے والے لوگ ہیں، ان سے بھی زیادہ ان کو اچھا سمجھتے ہیں، تو ایسے لوگوں کی بات نہیں ہو رہی تھی۔ جو نظریاتی طور پر برائی کو پسند کرنے والے ہیں اور نظریاتی طور پر جو اچھائی کو پسند کرنے والے ہیں ان کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔
سوال:
حضرت اسی تناظر میں کچھ لوگ جو نظریاتی طور پر برے ہوتے ہیں تو بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود تو اچھے ہوتے ہیں، لیکن غلط فہمی کی وجہ سے ان کے ساتھ ہو جاتے ہیں، تو کیا ان کو سمجھانا چاہیے یا ان سے بھی درگزر کرنا چاہیے؟
جواب:
میرے خیال میں آپ بات کو کچھ بھول رہے ہیں یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ ان کو دعوت نہ دیں، میں نے یہ کہا ہے کہ آپ ان سے اثر نہ لیں، اور ان کی نگاہوں میں اچھا بننے کی کوشش نہ کریں۔ بعض لوگ اگر غلط فہمی میں مبتلا ہیں تو آپ ان کو دعوت دیں بلکہ دعوت تو سب کو دیں اس میں جو نظریاتی طور پر برے ہیں ان کو بھی دعوت دیں۔ کیونکہ دعوت تو ان کو بھی دینی چاہیے۔ لیکن اگر وہ آپ کی دعوت نہیں مانتے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ایسے ہی ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض کافروں کے بارے میں فرمایا گیا: ﴿وَانْتَظِرْ اِنَّھُمْ مُّنْتَظِرُوْنَ﴾ (السجدة: 30) اور کسی کے بارے میں یہ بھی تھا:﴿فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا﴾ (شورٰی: 48) که آپ کو ہم نے کسی پر داروغہ نہیں بنایا۔ تو کچھ لوگ ایسے تھے جن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی فرمایا گیا کہ آپ ان کے بارے میں زیادہ پریشان نہ ہوں، جو لوگ آپ کی بات سننے والے نہیں، ماننے والے نہیں، تو آپ ان کا انتظار کریں، میں بھی انتظار کر رہا ہوں۔
تو دعوت سب کو دینی چاہیے، لیکن اگر وہ اثر نہ لیں تو اس سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم ان کی نگاہوں میں اچھا بننے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کہ جب وہ ہمیں certificate دیں گے کہ آپ اچھے ہیں تو پھر ہم اچھے ہو جائیں گے، ہمیں کہنا چاہیے که ہمارے لیے اللہ اور اللہ کا رسول کافی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک موقع پر فرمایا قرآن پاک کی سورت کے مطابق ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾ (الكافرون: 1 - 6) تو کسی موقع پر ﴿لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ﴾ کی بات کرنی پڑتی ہے۔ البتہ دعوت کا میدان کھلا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن یہ میں نے صرف اس لیے کہا تھا کہ احساس کمتری نہ آنے پائے۔
سوال 07:
اگر انسان دین کے کسی ایک شعبے میں کام کر رہا ہے اور دوسرے شعبوں کو حق سمجھتا ہے تو کیا یہ ضروری ہے کہ ان شعبوں میں کام کر کے وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرے کہ وہ حق پہ ہیں یا پھر یہ کافی ہے کہ وہ دل سے انہیں اچھا سمجھتا ہے۔
جواب:
یہ حالات پر منحصر ہے، بعض دفعہ ایسا موقع ہوتا ہے بعض دفعہ نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ کا دل چاہے گا بھی لیکن اس وقت آپ کے لیے موقع نہیں ہو گا تو آپ اپنی زبان سے اقرار کر سکتے ہیں کہ یہ بالکل صحیح ہیں، میں ان کے ساتھ ہوں، میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں، البتہ میں اس وقت جا نہیں سکتا مجبوری ہے۔ مثال کے طور پر ہمارا خانقاہ والا کام ہے، ہمارے پاس طالبین دور دور سے آتے ہیں، ان میں طلب ہوتی ہے، مثلاً ہمارے سامنے ابھی ما شا اللہ لاہور کے حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی طریقے سے کبھی کسی جگہ سے آتے ہیں، کبھی کسی جگہ سے آ جاتے ہیں۔ ہم ان کے پیچھے نہیں گیے بلکہ یہ ہمارے پیچھے آ گیے۔ جن لوگوں میں طلب نہیں ہوتی ان کے پیچھے جانا پڑتا ہے ﴿عَبَسَ وَ تَوَلّٰی﴾ (العبس: 1) سے بالکل صاف پتا چل گیا کہ اللہ جل شانہ نے فیصلہ فرمایا کہ جن میں طلب ہے ان کا حق پہلے ہے، اور ان لوگوں سے زیادہ ہے جن میں طلب نہیں ہے۔ ان کفار کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی مشکل سے جمع کیا تھا اور بڑے نیک ارادے سے جمع کیا تھا کہ ان کو دین کی بات پہنچائیں، لیکن اس وقت عبد اللہ ابن مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ نابینا صحابی تھے ان کو علم نہیں تھا کہ کون بیٹھے ہیں، سامنے آکر انہوں نے مسئلہ پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت پر بوجھ آیا اور محسوس کیا کہ یہ تو اپنا تھا، یہ تو بعد میں بھی آسکتا تھا، تو اس بات پر اللہ تعالی نے آیات اتاریں کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، یہ جو طالب ہے اس کا حق پہلے ہے، بے شک سارے لوگ اس طرح ہو جائیں تو مجھے کیا پرواہ اگر یہ ایمان نہیں لاتے!۔ تو معلوم ہوا کہ طالبین کا حق پہلے ہوتا ہے۔
ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے، کیوں کہ اگر کوئی خانقاہ میں آجائے اور ہم یہاں موجود نہ ہوں تو یہ کیا کریں گے؟ یہ محسوس کریں گے کہ دیکھو! ہم ادھر آگیے اور وہ ادھر چلے گیے۔ تو ہماری ایک مجبوری ہے، ایسی صورت میں ہم زبان سے کہیں گے کہ یہ ہمارا کام ہے اور ہم ان کے ساتھ ہیں اور ہماری نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں، ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ البتہ ہماری ایک اور ذمہ داری بھی ہے اور وہ ذمہ داری یہ ہے کہ حق کو حق کہنا، باطل کو باطل کہنا، اور باطل اگر اس صورت میں ہو کہ وہ کسی نیک کام میں یا اچھے کام میں کوئی خرابی ڈال رہا ہو تو اس سے انسان کو زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ تبلیغی جماعت ایک نیک تحریک اور نیک کام ہے، اس کے اندر اگر کوئی خرابی ڈالے گا تو ہمیں زیادہ تکلیف ہو گی کیونکہ ہمارا کام ہے۔ ایسے غلط کام کے پیچھے ہم پڑیں گے اور اس کی اصلاح بھی کریں گے اس کے بارے میں بات بھی کریں گے، اس کو بے شک کوئی اپنی نادانی کی وجہ سے تبلیغ کی مخالفت کہے اس بارے میں ہم ان کے ساتھ صرف ہمدردی کر سکتے ہیں، لیکن ہم اپنے اللہ کے علاوہ کسی اور کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں، ہم لِلہ فی اللہ وہ بات کریں گے جو بات صحیح ہو اور غلط بات کا انکار کریں گے اور اس کی اصلاح کریں گے، یہ ہماری مجبوری ہے۔ البتہ محبت ان کے ساتھ ہے جو صحیح کام کرنے والے ہیں، یقیناً دل ان کے لیے دعا گو ہے که اللہ تعالی ان کو مزید ترقیات عطا فرمائے۔
سوال 08:
حضور پاک ﷺ کے زمانے کے بعد جب صحابہ کرام کا دور آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ عورتیں مسجد میں نماز نہ پڑھیں۔ اگر کچھ لوگ حضور پاک ﷺ کی بات لیتے ہیں، صحابہ کی بات نہیں لیتے تو آپ اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟
جواب:
میرے سامنے اس وقت دو روایتیں ہیں، ان کی بنیاد پر اس مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ" ”تمہارے اوپر میری سنت کا اتباع لازم ہے اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کا اتباع لازم ہے“۔ اور "مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ" ”جس پر میں چلا ہوں اور میرے صحابہ چلے ہیں“۔ دوسری بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات مبارکہ کی تشریح کی جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئیں تھیں۔ ان کی تشریح کا حق ہمیں نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہ یہ باتیں کھلی ہوئی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر وحی آگئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سمجھایا گیا تھا، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان آیات مبارکہ کی تشریح کر سکتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال کی تشریح صحابہ کرام ہی کر سکتے تھے، ہم ان سے زیادہ اہل نہیں ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے اقوال اور افعال اور احوال مبارک سے جو نتائج اخذ کرنے ہیں وہ فقہاء ہی کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ ان کے جاننے والے ہیں، انہوں نے اس پر محنت کی ہے اور ان کو اللہ تعالی نے اس کا سلیقہ بھی دیا ہوتا ہے۔ "لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ" ہر شعبے کے اندر اس شعبے کا ماہر ہوتا ہے۔
فقہاء کو فقاہت کے کام میں مہارت حاصل ہے، لہٰذا وہ اس پہ کام کر سکتے ہیں۔ اس ترتیب سے اگر ہم دیکھیں گے تو جو فیصلہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول یا عمل کے بارے میں صحابہ کرام نے کیا ہے اس کو ہم چیلنج نہیں کر سکتے، البتہ کوئی صحابی چیلنج کر سکتا ہے۔ اگر صحابی چیلنج کرے گا تو پھر ہم یہ دیکھیں گے کہ راجع اور مرجوع کے اصول کے مطابق کون زیادہ فقیہ صحابی ہے اور کون کم فقیہ ہے لہذا جو بڑے فقیہ ہوں گے ہم ان کی بات لے لیں گے اور جو کم ہوں گے ان کی بات کو مؤخر کریں گے۔ علمی طور پر اسی طرح فیصلہ ہوتا ہے۔
کچھ عورتوں کو اعتراض ہو گیا، اشکال ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسجد میں جانے سے نہیں روکا اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے نہیں روکا چوں کہ صحابیات تھیں وہ صحابی کے فعل پہ اعتراض کر سکتی تھیں، لہذا وہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس گئیں، عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بھی صحابیہ اور زوجہ مطہرہ تھیں، ہماری ماں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حالات جو عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے وقت میں ہیں اگر میرے والد صاحب کے وقت میں ہوتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوتے تو ان کا بھی یہی فیصلہ ہوتا، اور وہ بھی عورتوں کو روک دیتے۔ اس سے پتا چلا کہ یہ حالات پر منحصر ہے۔ اس کی تشریح عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کردی اور وہ عورتیں مطمئن بھی ہو گئیں۔
جب حالات پر منحصر ہے تو اب موجودہ دور کے حالات زیادہ خراب ہیں یا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے وقت کے حالات زیادہ خراب تھے؟ یقینی بات ہے کہ اس دور کے حالات زیادہ خراب ہیں، لہذا اس دور میں اگر عورتوں کو مسجدوں میں جانے سے روکا جائے گا تو وہ بالکل صحیح بات ہو گی۔ عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اور صحابہ اور صحابیات رضی اللہ عنہم کے فیصلے کے مطابق تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اس priority کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کی بات کی تشریح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کر سکتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی صحابہ تشریح کر سکتے ہیں اور صحابہ کے اقوال کی فقہائے کرام تشریح کر سکتے ہیں۔
سوال 09:
گناہ کر کر کے جو دل کا مرض پیدا ہو جاتا ہے وہ ذکر کے ذریعے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
جواب:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث شریف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر چیز کے لیے صفائی کا ایک آلہ ہوتا ہے اور دل کے لیے صفائی کا آلہ ذکر ہے“ معلوم ہوا کہ ذکر ہی دل کی اصلاح کے لیے ایک tool ہے، ایک ذریعہ ہے ﴿اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب﴾ (الرعد: 28) ”آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ تعالی کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے“۔ اطمینان دو قسم کا ہے عام طور پر لوگ اطمینان خوشی کو کہتے ہیں کہ انسان کا دل خوش ہو جاتا ہے تو آدمی کہتا ہے کہ اطمینان ہو گیا۔ نہیں بھائی! نیک کاموں پر اطمینان ہو مثلاً نماز پڑھنے پر اطمینان ہو، پھر دل نماز پڑھنے کو چاہے گا، دل روزہ رکھنے کو چاہے گا، دل صحیح معاملات کو چاہے گا، یہ بھی تو اطمینان ہے۔ اصلاح ہو گی۔ نیک کاموں کے لیے تیار اور برے کاموں سے متنفر ہو جانا یہ بھی اطمینان ہے۔ لوگ صرف ایک اطمینان کو لیتے ہیں، دوسرے اطمینان کو نہیں لیتے، ﴿اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب﴾ (الرعد: 28) ”آگاہ ہو جاؤ دلوں کو اللہ تعالی کی یاد سے اطمینان ہو جاتا ہے“۔ تو ایک رنگ اس میں دل کی خوشی کا ہے، اور دوسرا رنگ اصلاح کا ہے۔