سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 152

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مسجد حاجی الف دین - امین ٹاؤن راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

بعد تسلیم باتعظیم سوال یہ ہے کہ ہم خواتین نیٹ پر جب براہ راست یا record بیانات سنتی ہیں، تو اس وقت ذکر لسانی کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اسی طرح جب جوڑ ہوتا ہے اور خواتین خطاب کر رہی ہوتی ہیں، اس وقت ذکر لسانی کرنا بہتر ہے یا نہ کرنا بہتر ہے، یا درود شریف کا ورد کرنا کیسا ہے؟ اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ سلسلے کی 2 معزز خواتین نے 2 باتیں کہیں جن کی وجہ سے بہت پریشان ہوگئی ہوں، ایک نے کہا کہ شیخ کو لمبی چوڑی کہانیاں نہیں سناتے اور دوسری نے خط و کتابت کے حوالے سے کہا کہ میرا خط لکھنے کو دل بہت چاہتا ہے لیکن ڈر لگتا ہے کہ کوئی بونگی نہ ماروں۔ سوال یہ ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے کہ دونوں کام نہ کروں؟ کیونکہ فون پر بھی گڑبڑ ہوجاتی ہے، ایک بار جب کال کی تو غلطی سے حضرت کی بات کاٹ دی، جس پر بعد میں بہت پشیمانی ہوئی کہ خلاف ادب کام کیا۔ حالانکہ خط و کتاب و calls میں میرا مقصد تعلق مضبوط کرنا ہوتا ہے۔

جواب:

یہ واقعی فکر انگیز خط ہے۔ اس میں یہ جو فرما رہی ہیں کہ اگر ہم recorded بیانات سنیں یا براہ راست بیانات سنیں تو اس وقت کیا ذکر لسانی کرنا چاہئے یا نہیں؟ دراصل بیان سننے کے لئے اگر شیخ کی مجلس میں کوئی بیٹھا ہو تو بات اور ہوتی ہے اور اگر شیخ کی مجلس سے باہر بیٹھا ہو تو پھر بات دوسری ہوتی ہے۔ اگر کسی کا تعلق اتنا مضبوط ہوجائے کہ وہ کہیں پر بھی ہو، لیکن اس کے دل کا تعلق شیخ کے دل کے ساتھ ہی ہو، (اور ایسے لوگ موجود ہیں) تو ان کے لئے تو وہی بات ہوگی جو شیخ کی مجلس کی بات ہے، لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ بیانات سننا علمی فائدے کے لئے ہوں گے، علمی استفادہ کرنے کے لئے ہوں گے، اور علمی بیانات میں توجہ علم پر ہوتی ہے، لہٰذا اس صورت میں اگر ذکر لسانی کرنے سے توجہ اس کی طرف اتنی جاتی ہو کہ پھر وہ بات سمجھنا ممکن نہ ہو، تو اس وقت ذکر لسانی نہیں کرنا چاہئے کیونکہ دو کاموں میں سے ایک کرے، بیان سنے یا پھر ذکر کرے۔ ذکر کا اپنا فائدہ ہے اور بیان کا اپنا فائدہ ہے۔ بیان کا فائدہ علمی ہے اور ذکر کا فائدہ کیفیت کے لحاظ سے ہے، لہٰذا دونوں اہم چیزیں ہیں۔ اور جس علم کا عمل کے ساتھ تعلق ہو اور جس علم پر کچھ بنیادی مفاہیم کا انحصار ہو تو ان کو حاصل کرنا ہوتا ہے، اس وجہ سے فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص صبح کے وقت ایک علم کا باب سیکھے تو وہ 100 رکعات نفل سے بہتر ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نماز بھی ذکر کی ایک صورت ہے اور ایسی صورت میں ذکر نماز کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے بالخصوص وہ علم جو عمل سے متعلق ہو یعنی جس میں مفاہیم کے بارے میں انسان سمجھنا چاہتا ہو۔ لہٰذا اگر ذکر لسانی سے اس میں گڑ بڑ ہوتی ہو تو پھر ذکر لسانی کو چھوڑنا چاہئے، ورنہ دونوں اگر ساتھ ساتھ کرسکتی ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ ذکر لسانی بیشک کتنی ہی غفلت سے کیوں نہ ہو لیکن بقول حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ ذکر لسانی جس میں محض ہونٹ ہل رہے ہوں اور اس کا دھیان مکمل اس کی طرف نہ ہو بلکہ بیان کی طرف دھیان ہو تو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس سے وہ انسان تھک جاتا ہو اور اکتاہٹ ہوتی ہو یا مضمون سمجھنے میں مشکلات ہوں تو پھر ذکر لسانی کو روکنا چاہئے۔ یہی حکم درود شریف کا بھی ہے اور دوسرے اوراد کا بھی یہی حکم ہے۔

دوسری بات جو شیخ سے رابطے کے متعلق ہے کہ ایک نے کہا کہ شیخ کو لمبی چوڑی کہانیاں نہیں سناتے، یہ بات تو صحیح ہے کہ واقعی شیخ کو لمبی چوڑی کہانیاں نہیں سنانی چاہئیں کیونکہ مقصود کہانیاں سنانا نہیں ہے بلکہ تربیت مقصود ہے۔ اور پھر چونکہ شیخ پر سب لوگوں کا حق ہے، اب اگر سارے لوگ کہانیاں سنانا شروع کریں گے تو پھر بہت سارے لوگ رہ جائیں گے اور ان کو پھر وقت نہیں ملے گا اور شیخ بھی چونکہ محدود وقت رکھتا ہے، کیونکہ لا محدود وقت تو کسی کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے کہانیاں نہیں، بلکہ کوشش یہ کرنی چاہئے کہ نفسِ مضمون بھی متأثر نہ ہو اور بات بھی مختصر مگر جامع ہو۔ البتہ شیخ اگر اس کے بارے میں مزید پوچھ لے تو پھر ٹھیک ہے، اس کو پھر جتنی تفصیل کی ضرورت ہو اتنا بتا دیا جائے، لیکن خود بات اتنی رکھے کہ مختصر ہو مگر جامع ہو۔ اور اس میں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے کہ ایک وقت میں بہت ساری چیزوں کے بارے میں سوال نہ ہوں، بلکہ مختلف چیزوں کے بارے میں باری باری سوالات ہوں۔ جس طرح ایک خط ایک چیز کے بارے میں، دوسرا خط دوسری چیز کے بارے اور تیسرا خط تیسری چیز کے بارے میں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک رزیلے کے بارے میں ایک خط ہونا چاہئے، یعنی 2 یا 3 کے بارے میں نہیں ہونا چاہئے، تو اس سے پھر اس پر عمل ہوجائے گا یعنی لمبی کہانیاں نہیں ہوں گی اور فائدہ بھی ہوگا۔ اور دوسری خاتون نے جو خط و کتابت کے حوالے سے کہا کہ ’’میں کہیں خط میں کوئی بونگی نہ ماروں‘‘ تو یہ بھی ٹھیک ہے، احتیاط کرنی چاہئے، لیکن جیسے گاڑی ہوتی ہے، تو گاڑی میں accelerator بھی ہوتا ہے، break بھی ہوتی ہے۔ accelerator کی افادیت یہ ہے کہ اگر accelerator نہ دبایا جائے تو گاڑی نہیں چلے گی اور break کی افادیت یہ ہے کہ اگر break صحیح وقت پر نہ دبائی جائے تو پھر accident ہوگا، جبکہ accident سے بچنا بھی ضروری ہے اور گاڑی کا چلنا بھی اپنی منزل پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ لہٰذا خط و کتابت رابطے کے لئے ضروری ہے، لیکن بونگیاں مارنے سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک نے عقل اسی لئے دی ہوئی ہے کہ انسان عقل سے کام لے کر اپنے آپ کو بچاتا رہے، جیسے گاڑی ہم بچاتے رہتے ہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ غلطیاں انسان سے ہوتی ہیں، لیکن شیخ دیکھتا ہے کہ وہ غلطیاں کس رخ کی ہیں، آیا وہ احتیاط کرنے کی وجہ سے ہوئی ہیں یا بے احتیاطی کی وجہ سے ہوئی ہیں یعنی غفلت کی وجہ سے ہوئی ہیں، بے پرواہی کی وجہ سے ہوئی ہیں، تو ہر دو کا حکم الگ الگ ہے۔ بعض دفعہ احتیاط کی وجہ سے بھی غلطیاں ہوجاتی ہیں، لیکن اس سے دل پر برا اثر نہیں پڑتا۔ اور اگر بے احتیاطی اور غفلت سے ہوتی ہوں تو غفلت کو دور کرنا چاہئے اور احتیاط کرنا چاہئے تاکہ اپنی بات بھی پہنچا دی جائے اور نقصان بھی نہ ہو۔

سوال نمبر 2:

بعد تسلیم باتعظیم عرض ہے کہ حضرت جی رمضان المبارک میں 5 پارے روزانہ کے حساب سے 4 قرآن پاک مکمل ہوئے، اور جو قرآن پاک رمضان المبارک سے پہلے شروع کیا تھا اس کے 10 پارے باقی تھے وہ بھی آغاز میں مکمل کئے، اس کے بعد 4 قرآن پاک مکمل ہوئے اور پانچواں شروع کیا تو اس کے 10 پارے پڑھ سکی تھی، اس لئے وہ بھی ایصال ثواب کردیئے۔ آخری روزے میں اگلا قرآن پاک شروع کردیا۔ ہر رات حسب توفیق تہجد کے کچھ نفل بھی پڑھے، اوابین، چاشت اور اشراق بھی پڑھی، اس کے علاوہ قضاء عمری کی نمازوں کا بھی معمول رکھا۔ آخری عشرے کی صرف 2 راتیں مکمل طور پر عبادت میں صرف کرسکی ایک تئیسویں اور ایک ستائیسویں۔ تئیسویں کی فجر پڑھ کر اپنے پڑوس والی ممانی سے ایک بات پر لعن طعن کی وجہ سے یہ ساری رات ضائع کردی، لیکن اس کے بعد اللّٰہ پاک کے فضل سے اسی روزے کے افطار سے پہلے پہلے اللّٰہ پاک نے ان سے معافی مانگنے کی توفیق عطا فرمائی۔ پورے رمضان میں صرف ایک بار صلاۃ التسبیح پڑھی اور ایک بار شب جائزہ میں پڑھی۔ رمضان المبارک میں آنسو بھی زیادہ نہیں بہے، صرف ایک دو بار اپنے گناہوں پر ندامت سے آنسو بہائے۔ شبِ جائزہ میں زیادہ تر لوگوں کی طرح مجھے بھی مجبوراً گھر والوں کے ساتھ shopping پر نکلنا پڑا، لیکن اللّٰہ پاک کے ساتھ دعاؤں کی صورت میں مسلسل رابطہ رکھا کہ اس شدید رش میں کسی نامحرم سے ٹکر نہ ہو یا بد نظری نہ ہو اور بار بار بازار والی دعا اور درود تنجینا کا ورد بھی جاری رکھا، الحمد للّٰہ! اللّٰہ پاک نے دونوں چیزوں سے پناہ میں رکھا۔ اس بار اعتکاف نہیں کرسکی، لیکن چھوٹی بہن کو اعتکاف میں بٹھا کر اس کی خدمت کی۔ ہر سال عید کی خوشی میں مجھ سے اعمال پر صبر نہیں ہوتا تھا یعنی ہر عمل چھوٹ جاتا تھا۔ اس بار کافی کوشش کی اعمال پر باقاعدگی کی، اس کے باوجود بھی دوسرے دن کا مراقبہ رہ گیا۔ پورے رمضان میں ایک دن بھی مراقبے کا ناغہ نہیں ہوا، لیکن عید کے دن مہمانوں کی آمد و رفت کی وجہ سے مسئلہ ہوگیا۔ جمعہ، جمعہ 8 دن میں 2 دن مراقبے کا ناغہ ہوا اور 6 دن مراقبہ کیا، لیکن رمضان کے بعد سے تو محسوس بھی نہیں ہوا کہ ایک دن بھی مراقبہ کیا ہو، کیونکہ معمول set ہی نہیں ہو پایا۔ جب بھی مراقبہ کرتی ہوں تو نیند آجاتی ہے، چاہے فجر کے بعد، چاہے عصر کے بعد یا عشاء کے بعد، آج مراقبے کی کافی فکر پیدا ہوئی تھی تو آج الحمد للّٰہ! مغرب کے بعد مراقبہ کیا، اس لئے پھر نیند نہیں آئی۔ عید گزرنے کے بعد معمولات پر پابندی نہیں ہو پا رہی، مثلاً ایک دن قرآن پاک نہ پڑھا تو اگلے دن double پڑھ لیا، ایک دن مسنون تسبیحات نہ پڑھیں تو اگلے دن اکٹھی پڑھ لیں یعنی اس طرح کے حالات چل رہے ہیں۔ آج کل زیادہ تر دنیاوی کام کاج میں زیادہ لگاؤ ناغے کا سبب ہے، نفس کے آگے ہار جاتی ہوں، تہجد کے وقت جاگ بھی رہی ہوں لیکن سستی کی وجہ سے تہجد نہیں پڑھتی یعنی آنکھ کھل جائے تب بھی نہیں پڑھتی۔ رمضان میں تہجد کا ناغہ نہ ہونے کی وجہ یہ بھی تھی کہ وتر تہجد کے ساتھ پڑھنے کے لئے چھوڑ دیتی تھی، عید پر یہ نسخہ آزمایا تو وہ بھی قضا ہوگئے اور تہجد بھی رہ گئی۔ الغرض عید کے بعد سے حالات اچھے نہیں جا رہے۔ حضرت جی! کچھ معمول نفل، واجب اور قضا نمازوں کا اور کفارے کے روزوں کا پوچھنا ہے کہ کیسے رکھوں؟ مجھے معمول کے طور پر ایام بیض اور سوموار اور جمعرات کے روزوں کی تاکید ہے، اس کے علاوہ اس بار شوال کے چھے روزے بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بات یہ پوچھنی ہے کہ رمضان میں مستورات کی تبلیغی جماعت پڑوس میں آئی تھی تو انہوں نے 40 دن تک بلاناغہ فضائل اعمال کی گھر میں تعلیم کرنے کی بہت تاکید کی تھی، اس وجہ سے اجازت درکار ہے۔

جواب:

ماشاء اللّٰہ! فکر کی باتیں ہیں۔ میرے خیال میں باقی تو آپ نے سن لیا، البتہ بنیادی بات جو اس میں ہے، وہ یہ ہے کہ رمضان کی برکات تو ہوتی ہیں اور عید کی مشکلات بھی ہوتی ہیں، مسائل بھی ہوتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علاج بھی ہوتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ وہ برکات جو رمضان کی تھیں جس کی وجہ سے اعمال ہوئے، اللہ تعالیٰ وہ قبول فرمائے اور آئندہ ان اعمال کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں ایک بات اس میں کرنا چاہوں گا کہ غلطی تو ہوتی ہے، لیکن غلطی سے سبق حاصل کرنا یہ مقصود ہوتا ہے۔ اگر غلطی سے کوئی سبق حاصل کر لے تو وہ تجربہ بن جاتا ہے۔ لہٰذا اگر ان غلطیوں سے (جن کی وجہ سے ناغے ہوئے ہیں، جن کی وجہ سے معمولات متأثر ہوئے ہیں) سبق سیکھا جائے اور جس وجہ سے یہ ہوئی ہیں ان کو کنٹرول کیا جائے تو یہ بہت بڑا علم ہے اور بہت بڑا تجربہ ہے۔ اس وجہ سے ان چیزوں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس تجربے کو استعمال کرنا چاہئے۔ اور میرے خیال میں عید کے دنوں میں اور اعتکاف یا اعمال کی وجہ سے جو تھکاوٹ ہوتی ہے، اور پھر اس کی وجہ سے ابتدا میں جو اثرات ہوتے ہیں وہ اثرات آگے پھیل جاتے ہیں، لہٰذا اس کا طریقہ یہ ہے کہ ابتدا میں دو یا تین دن نیند کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے اور ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے معمولات بھی کئے جائیں، پھر اس کے بعد اپنے معمولات کا اجراء ہوجائے گا۔ اور اس میں یہ بھی دیکھیں کہ کون سے اوقات میں زیادہ بہتر ہے، کیونکہ رمضان کے معمولات الگ ہوتے ہیں اور غیر رمضان کے معمولات الگ ہوتے ہیں، غیر رمضان میں ضروری نہیں کہ آپ کے لئے وہی وقت مفید ہو جو رمضان میں مفید تھا۔ لہٰذا اوقات کی تبدیلی مناسب ہے۔ اس وجہ سے دیکھنا چاہئے کہ رمضان میں ہمارے لئے معمولات کا کون سا وقت بہتر ہے اور غیر رمضان میں کون سا وقت معمولات کے لئے بہتر ہے، اگر اس طرف دیکھا جائے تو میرے خیال میں کچھ آسانیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ باقی جو گزشتہ غلطیاں ہوئی ہیں ان پر استغفار کرنا چاہئے اور آئندہ کے لئے سوچنا چاہئے اور اس میں ہمت کرنی چاہئے کیونکہ یہ کام تو ہمت کے ہیں، کوئی بھی دوسرے کے لئے یہ کام نہیں کرسکتا بلکہ یہ تو ہر ایک کے اپنے اپنے کام ہوتے ہیں۔ البتہ دوسروں کے لئے دعا کی جاسکتی ہے لیکن ان کے ساتھ ہاتھ نہیں بٹایا جاسکتا، بلکہ اس میں ہر ایک کا اپنا اپنا account ہے۔ لہٰذا اس میں کوشش اپنی اپنی کرنی ہوتی ہے اور وہ کوشش یہی ہے کہ ہمت کرے، ہمت سے اللّٰہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں:

﴿وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا﴾ ‌(العنکبوت: 69)

ترجمہ1: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔

لہٰذا آئندہ اس سے سبق حاصل کر کے جو تجربہ حاصل ہو اس سے اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔

سوال نمبر 3:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حضرت! یہ جو اللّٰہ کی محبت ہے، یہ نفلی اعمال کرنے سے زیادہ آسانی سے حاصل ہوتی ہے یا برے کاموں سے رکنے سے زیادہ آسانی سے حاصل ہوتی ہے؟

جواب:

پیٹرول گاڑی کے First gear میں چلانے سے گاڑی میں پیدا ہوتا ہے یا Top gear میں چلانے سے پیدا ہوتا ہے؟ (سائل کا جواب) حضرت! پیٹرول تو گاڑی کے انجن میں پہلے سے ہوگا اور وہ دونوں گیروں میں آئے گا۔ یعنی آپ کہتے ہیں کہ پیٹرول ان گیروں میں استعمال ہوتا ہے، پیدا نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح محبت ان چیزوں سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ محبت ان چیزوں میں استعمال ہوتی ہے۔ اعمال میں محبت استعمال ہوتی ہے۔ یہ غلطی تبلیغی جماعت والوں کی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ گشت سے ’’اللّٰہ کا تعلق‘‘ پیدا ہوتا ہے، حالانکہ گشت میں اللّٰہ کا تعلق استعمال ہوتا ہے، یعنی ذکر سے محبت پیدا ہوتی ہے اور گشت میں استعمال ہوتی ہے۔ اسی لئے تو مولانا الیاس رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں گشت میں میوات جاتا ہوں تو صالحین کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں، لیکن اس کے باوجود لوگوں سے ملنے کی وجہ سے میرے دل پر اثر آجاتا ہے، پھر اس کو دور کرنے کے لئے میں ’’راۓ پور شریف‘‘ یا ’’سہارنپور شریف‘‘ چلا جاتا ہوں یا پھر مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ لہٰذا محبت ایک کیفیت ہے اور یہ کیفیت پیدا کرنے والی چیزوں کے ساتھ پیدا ہوتی ہے، مثلاً اہل محبت کی مجلس میں بیٹھنے سے، اہل محبت کی کتابیں پڑھنے سے، اہل محبت کے ساتھ تعلق رکھنے سے اور ذکر اللّٰہ کرنے سے اور ذکر کی کثرت کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسے اصلاحی ذکر ہے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ اس میں ہم جو تصور کرتے ہیں، تو ان چیزوں سے محبت پیدا ہوتی ہے اور پھر وہ محبت ان چیزوں میں استعمال ہوجاتی ہے۔ دراصل شریعت پر چلنا مقصود ہے، لیکن شریعت پر چلنے کے لئے دو رکاوٹیں ہیں، ایک نفس، دوسرا شیطان۔ جب اس کو دور کریں گے تو شریعت پر چلنا نصیب ہوگا۔ اس کو دور کرنے کے لئے کچھ طریقے ہیں، ایک مجاہدہ ہے اور ایک ذکر ہے۔ مجاہدہ اور ذکر سے نفس اور شیطان کی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں، اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ شریعت پر چلنا آسان فرما دیتے ہیں۔ ورنہ بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بقول ’’تم جو اعمال کرتے ہو، وہ تمہارا نفس کھا جاتا ہے‘‘ یعنی جو نماز پڑھو گے نفس کھا جائے گا، روزے رکھو گے وہ نفس کھا جائے گا۔ یعنی عجب پیدا ہوگا کہ میں نے اتنی نمازیں پڑھی ہیں، میں نے اتنے روزے رکھے ہیں، میں نے یہ کیا، میں نے ایسا کیا، تو اس طرح عجب پیدا ہوگا۔ لیکن جب اللّٰہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی تو پھر عجب پیدا نہیں ہوگا بلکہ عاجزی پیدا ہوگی اور وہ کہے گا کہ اللّٰہ اتنے عظیم ہیں، میں نے کیا کیا؟ میں نے تو اس کا حق ادا نہیں کیا بلکہ میں نے تو ان چیزوں کو خراب کردیا۔ تو کیا خیال ہے زیادہ نمازیں پڑھنے سے یہ کیفیت پیدا ہوگی؟ آپ یقین کیجئے کہ جن کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو بعض بزرگ ان کے سارے نفلی اعمال بند کر دیتے ہیں اور یہی مرید کا سب سے بڑا امتحان ہوتا ہے کہ شیخ جب اس کے نفلی اعمال بند کرتا ہے تو اس کے اوپر ایک حال آتا ہے اور شیطان اس کو استعمال کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو! تیرا شیخ تیرے نفلی اعمال چھڑا رہا ہے، پتا نہیں حسد ہوگیا یا کیا ہوگیا ہے۔ حالانکہ شیخ اس سے وہ چیز ہٹانا چاہتا ہے یعنی جو خشکی اس کی طبیعت میں آئی ہے، جس کی وجہ سے اس کو عجب ہو رہا ہے، جس کی وجہ سے اس کو مسائل پیدا ہو رہے ہیں، بزرگی پیدا ہو رہی ہے، اس کو ہٹانا چاہتا ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ایسا بھی کرتے ہیں، اس وجہ سے محبت پیدا کرنے کے اپنے ذرائع ہیں۔

سوال نمبر 4:

حضرت! مقصود بہت سی چیزیں ہیں، جیسے اللّٰہ کی رضا مقصد ہونا چاہئے، اس لئے لوگوں کا کام جگہ جگہ پھرنے کا ہے۔ اور جس طرح اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو اللّٰہ کے حکم کے مطابق کام کرے گا تو وہ جنتی ہے۔ تو کیا جنت بھی مقصود نہیں ہے؟

جواب:

اللّٰہ کی رضا مقصودِ اعلی ہے۔ پھر اللّٰہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بہت ساری چیزیں ہوسکتی ہیں، مثال کے طور پر اللّٰہ پاک اس پر راضی ہو کہ ہم جنت مانگیں اور دوزخ سے پناہ مانگیں تو اس میں اصل جنت مانگنا تو مقصود نہیں ہوا بلکہ اللّٰہ کی رضا مقصود ہوئی ہے۔ نماز پڑھنا اللّٰہ کی رضا کے لئے، ذکر کرنا اللّٰہ کی رضا کے لئے، رزق حلال کمانا اللّٰہ کی رضا کے لئے، اب یہ جتنی چیزیں ہیں یہ سب اللّٰہ کی رضا کے لئے ہیں، تو اس لئے اللّٰہ کی رضا مقصود اعلی ہے۔ البتہ باقی دوسری چیزیں جو اس مقصود کو حاصل کرنے کے لئے ہیں، ان کو ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ مقصود نہیں ہیں بلکہ وہ اللّٰہ کی رضا کے تابع ہیں اور اللّٰہ کی رضا کے لئے ہیں۔

سوال نمبر 5:

اکثر علماء یہ شعر پڑھتے ہیں،

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر

جواب:

دراصل یہ اعلی مقام والوں کے لئے ہے، عوام کے لئے نہیں ہے۔ ایسے شعروں سے غلط لوگوں نے بڑے فائدے اٹھائے ہیں، کیونکہ کچھ لوگ ایسے شعروں کو پڑھ کر اعمال میں تعطل پیدا کر لیتے ہیں، اور اعمال کے تعطل کا جو لوگ شکار ہوتے ہیں تو اس وجہ سے ان کے لئے یہ غلط ہے۔ لہٰذا شریعت کے سارے کام وہ کرے گا، کیونکہ دین کوئی نیا نہیں آئے گا اور اللّٰہ پاک نے ہمیں جن چیزوں کا مکلف کیا ہے، وہ ہم کریں گے، البتہ اس میں نیت کس چیز کی ہونی چاہئے؟ وہ ایک الگ بات ہے۔ نیت اس میں یہ ہو جیسا کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ وہ اللّٰہ کی رضا ہے اور اللّٰہ کی رضا میں بے لوثی ہے، اس میں خود بخود وہ چیز آجاتی ہے یعنی آپ کوئی چیز خود طلب نہیں کرتے بلکہ وہ اللّٰہ پر چھوڑ دیتے ہیں کہ میرے لئے جو فیصلہ اللّٰہ کا ہوگا وہی بہتر ہے، لیکن میں اللّٰہ کی رضا چاہتا ہوں۔ ہمارے شیخ بھی فرمایا کرتے ہیں:

نہ آہ چاہتا ہوں نہ واہ چاہتا ہوں

خدا کے لئے میں خدا چاہتا ہوں

لہٰذا یہ والی بات صحیح ہے کہ ہمیں کسی اور چیز سے غرض نہیں ہے بلکہ ہمیں تو اللّٰہ تعالیٰ کی رضا سے غرض ہے۔ لیکن اللّٰہ پاک کی رضا کے لئے جن چیزوں کے بارے میں اللّٰہ پاک نے صراحتاً احکامات دیئے ہیں، ان کو چھوڑا نہیں جاسکتا، بلکہ کریں گے تب ہی اللّٰہ کی رضا حاصل ہوگی۔ اس وجہ سے ان دونوں باتوں میں آپس میں تناقض نہیں ہے۔ صرف یہ بات ہے کہ نیت اس میں یہ ہے کہ فوری نتیجہ نہیں چاہتا بلکہ اصل میں اللّٰہ پاک کو راضی کرنا چاہتا ہے اور اللّٰہ پر اپنا فیصلہ چھوڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿وَاُفَوِّضُ اَمۡرِىۡۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ﴾ (الغافر: 44)

ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

لہٰذا یہ دو چیزیں جمع کردو یعنی تفویض اور رضا، تو بس کافی ہے۔ یہی علامہ اقبال کے شعر کا مفہوم ہوگا۔ ہم لوگ ذرا تھوڑا سا نیچے level پر آجائیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے، ورنہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) بعض لوگ تو اتنا نیچے اور اوپر آجاتے ہیں کہ بس چند روز نمازیں پڑھ لیں تو سمجھتے ہیں کہ ہم بزرگ ہوگئے ہیں اور پھر (بقول بزرگوں کے) وحی کے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں کہ اب کوئی فرشتہ آئے گا اور ہمیں کچھ بتائے گا یا پھر اچھے اچھے خواب نظر آئیں گے اور انعامات ملنے لگیں گے اور جن پیروں کے ساتھ تعلق ہوگا تو ہر خط میں یہ انتظار ہوتا ہے کہ ابھی خلافت مل گئی، یعنی ان چیزوں میں پڑے رہیں گے۔ یہ بے غرض نہیں ہوا بلکہ یہ بیمار ہوتا ہے۔

سوال نمبر 6:

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔ جب سے معمولات کا chart fill کرنا شروع کیا ہے، اس وقت سے دل میں یہ احساس آتا ہے کہ یہ تو تم ریا کاری کر رہے ہو، سیدھے سیدھے معمولات یہ تو تم دنیا کو دکھانے کے لئے کر رہے۔ اس احساس سے کس طری نکلا جائے؟

جواب:

جب آدمی بیمار ہوتا ہے تو کیا خیال ہے، علاج کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے؟ شفا تو اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن علاج کرنا چاہئے یا نہیں؟ اگر کسی پردے کی جگہ پر پھوڑا ہے، ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس کو کھولو میں نے دیکھنا ہے، تو اب اس کی ایک شرعی حدود ہے کہ وہ اس سے زیادہ نہ دیکھے، لیکن اتنا دیکھنا اور دکھانا تو لازم ہے۔ اگر آپ کہہ دیں کہ بس اللّٰہ تعالیٰ ہی علاج کریں گے، لہٰذا میں نہیں دکھاتا، تو کیا خیال ہے! اس کو کیا بولو گے؟ دوسری بات کہ ڈاکٹر کو آپ اپنے احوال بتاتے ہیں، تو آپ یہ بھی بتاتے ہیں کہ مجھے فلاں تکلیف ہے اور یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ دوائی شروع کرنے سے یہ چیز ٹھیک ہوگئی ہے۔ اب بتائیں! ٹھیک ہے یا غلط ہے؟ لہٰذا معمولات کا چاٹ بھی اسی قبیل سے ہے، کیونکہ یہ علاج کے لئے ہے نہ کہ ریا کے لئے۔ البتہ شیخ کے علاوہ کسی اور کو بتانا یہ ریا ہوگی، لیکن شیخ کو بتانے میں ریا نہیں ہے، کیونکہ شیخ کو بتانا علاج کے لئے ہے اور علاج کے لئے جو چیز بتائی جائے وہ ریا نہیں ہوتی۔ جیسے کسی اور کو خفیہ جگہ نہیں دکھانی ہوتی، وہ حرام ہے، لیکن ڈاکٹر کو دکھانا حرام نہیں ہے۔

سوال نمبر 7:

السلام علیکم۔ نفس کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟

جواب:

سوال چند الفاظ کا ہے، لیکن جواب چند الفاظ کا نہیں ہے۔ نفس کو کنٹرول کرنا ہی سارا تصوف ہے، کیونکہ شیطان کو کنٹرول کرنے کا حکم نہیں ہے، بلکہ اس کی تو بات نہیں ماننی، لیکن نفس کو کنٹرول کرنے کا حکم ہے۔ اس کے لئے پھر کسی کو اپنا رہبر بنانا پڑتا ہے اور پھر رہبر کی بات ماننی پڑتی ہے۔ یہ سوال بالکل ایسا ہے جیسے کوئی کہے کہ بیماری کو کیسے کنٹرول کیا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس کے لئے کسی ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے اور ڈاکٹر کی بات ماننی پڑتی ہے اور دوائی بھی کھانی پڑتی ہے اور جو پرہیز ہوتا ہے وہ بھی کرنا پڑتا ہے، پھر اس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ علاج بھی ہوتا جاتا ہے۔ اور نفس کو کنٹرول کرنے کے لئے جس ڈاکٹر سے انسان کا رابطہ ہو یعنی شیخ کے ساتھ تو اس کی بات ماننی پڑتی ہے۔ وہ دو چیزوں سے اس کا علاج کرتا ہے، ذکر کے ذریعے سے اور مجاہدے کے ذریعے سے۔ مجاہدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں سے روک سکتے ہیں، کچھ چیزوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ کریں (جو مشکل ہوتی ہیں) اور وہ کرنی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر کہہ دے exercise کرنی ہے، اب exercise بیشک مشکل ہو لیکن کرنی پڑتی ہے۔ اسی طریقے سے جو شیخ بتائے اس کو بھی کرنا پڑتا ہے اور جن چیزوں سے بچنے کے لئے کہہ دے ان سے بچنا پڑتا ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ رابطہ رکھنا پڑتا ہے کہ جو چیزیں وہ کر رہے ہیں یا کر رہی ہیں، وہ کیسے ہو رہی ہیں، پھر اس کے بعد وہ مزید اپنے نسخوں کو تبدیل کرتا ہے یا اسی کو جاری رکھتا ہے۔ اور یہ رابطہ جانبین کا ہے یعنی اس علاج کے لئے مفید ہے اور آہستہ آہستہ یہ علاج ہوتا جائے گا۔ اب اس میں جو ذرائع ہیں وہ تو میں نے بتا دئیے، لیکن کچھ موانع ہیں، جن کی وجہ سے سارا علاج خراب ہوسکتا ہے۔ ان موانع میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ایک مخالفتِ شیخ ہے، مخالفت سنت ہے، کچھ music ہیں، حسن پرستی ہے یعنی اس سے بچنا ہے، اور تعجیل یعنی جلدی مچانا ہے، مثال کے طور پر ٹی بی کا علاج 9 مہینے میں ہوتا ہے یا 18 مہینے میں، لیکن آدمی کہتا ہے کہ یہ دو دن میں ہوجائے، تو وہ ڈاکٹر کا دماغ کھا کر کیا فائدہ حاصل کرے گا! ڈاکٹر کہے گا کہ بھائی! یہ اپنے وقت پر ہوگا، آپ نے بس وہ دوائی کھانی ہے جو میں بتاؤں گا اور اپنے ٹیسٹ وغیرہ کروانے ہیں جو میں بتاؤں گا، باقی یہ اپنے وقت پر ہوگا۔ اب چاہئے کہ وہ ڈاکٹر کے ساتھ حیل و حجت نہ کرے بلکہ جیسے وہ بتاتا جائے ویسے وہ کرتا جائے اور جلدی نہ مچائے کیونکہ جلدی مچانے سے کام خراب ہوسکتا ہے۔ اس میں بھی جلدی مچانے سے کام خراب ہوسکتا ہے۔ اس ترتیب سے ان شاء اللّٰہ نفس کنٹرول ہوتا جائے گا۔ جتنا جس کا مقدر ہے اتنا ہوجائے گا۔

سوال نمبر 8:

حضرت! جیسے تین شعبے ہیں سیاست دان ہیں، علماء ہیں اور صوفیاء ہیں۔ چنانچہ تصوف بھی ایک شعبہ ہے۔ کیا باقی سب شعبوں کے لئے بھی تصوف کا شعبہ حاصل کرنا ضروری ہے؟

جواب:

ہر شعبے کا ایک حصہ فرض عین ہوتا ہے اور ایک حصہ فرض کفایہ ہوتا ہے۔ جو حصہ فرض عین ہوتا ہے وہ ہر ایک کے لئے ہر شعبے کا ہے، مثلاً علم کا ایک حصہ فرض عین ہے یعنی اتنا علم کہ 24 گھنٹے اس کے ذریعے سے شریعت پر چل سکے یہ فرض عین ہے۔ حدیث پاک ہے۔

’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلىٰ كُلِّ مُسْلِمٍ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: 224)

ترجمہ: ’’علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘۔

لہٰذا اتنی اصلاح ہر شخص کے اوپر فرض عین ہے کہ وہ کہیں حرام میں مبتلا نہ ہوجائے، چاہے وہ دل کے اعمال سے متعلق ہے، چاہے وہ ظاہر کے اعمال سے متعلق ہے۔ اس وجہ سے اتنی اصلاح سب پر فرض ہوگی، علماء پر بھی، تبلیغ والوں پر بھی، مدرسے والوں پر بھی، سیاست والوں پر بھی اور جہاد والوں پر بھی یہ اصلاح فرض ہوگی۔ اسی طریقے سے اگر دشمن چڑھائی کردے تو سب پر جہاد فرض ہوجائے گا، پھر چاہے وہ صوفی ہے، چاہے وہ عالم ہے، یا چاہے وہ کوئی بھی ہے، لیکن اس کے اوپر جہاد فرض ہوجائے گا۔ اور اس طریقے سے اتنی تبلیغ کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں اور ان کو صحیح بات سمجھائیں، یہ ہر ایک پر فرض ہے۔ حدیث پاک ہے:

’’أَلَا كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهٖ‘‘ (سنن ابی داؤد: 2928)

ترجمہ: ’’خبردار! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہوگی ‘‘۔

لہٰذا اتنی تبلیغ ہر ایک کے اوپر فرض ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جس شعبے کو بھی لے لو ہر ایک شعبے میں جو فرض عین حصہ ہے وہ سب کے اوپر فرض ہے۔ ایسے ہی تصوف کا بھی اتنا حصہ سب کے اوپر فرض ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! تبلیغ والے یہ سمجھتے ہیں کہ صرف تبلیغ ہی اہم ہے اور باقی چیزیں غیر اہم ہیں۔ اسی طرح جو علماء ہیں وہ علم حاصل کرنے کو ہی اہم کہتے ہیں۔ اور کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو تصوف کو سمجھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے، اس لحاظ سے میرے ذہن میں یہ سوال آیا ہے۔

جواب:

آپ کا سوال بڑا اچھا تھا اور یہ عملی سوال تھا۔ اس کے بارے میں کبھی کبھی میں مذاق کیا کرتا ہوں (سمجھانے کے لئے کہتا ہوں) کہ اگر کسی سے پوچھا جائے کہ دل بہت ضروری ہے یا دماغ، تو اس کو کیا جواب دیں گے؟ جواب یہی ہے کہ یہ دونوں ضروری ہیں۔ اسی طریقے سے جتنے شعبے ہیں، وہ سارے کے سارے ضروری ہیں مجموعی طور پر۔ اس وجہ سے جو ضروری شعبے ہیں ان کی مخالفت نہیں کرنی چاہئے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ میں کتنے شعبوں میں کام کرسکتا ہوں۔ یہ ایک دوسرا سوال ہے، عین ممکن ہے کہ آپ اپنے بزرگوں کو دیکھیں کہ کوئی بزرگ 2 شعبوں کو چلا رہا ہے تو کوئی 3 کو چلا رہا ہے اور کوئی 1 کو چلا رہا ہے، لیکن مانتے سب کو ہیں۔ اسی طریقے سے ہم لوگ بھی مانیں گے سب کو اگرچہ ہم چلا ایک شعبے کو رہے ہوں یا 2 کو چلا رہے ہوں یا 3 کو چلا رہے ہوں، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا ظرف، اپنی طاقت اور اپنے حالات ہیں۔ حالات بھی بہت بڑی چیز ہیں، بعض لوگوں کے لئے حالات ایسے ہوتے ہیں کہ وہ صرف ایک یا دو شعبوں سے زیادہ نہیں چلا سکتے، مجبوریاں ہوتی ہیں، مثلاً دفتر کا ملازم ہے، تو اب ظاہر ہے کہ اس میں کچھ limitations آجاتی ہیں اور جو نہیں ہے تو ان کے لئے آسانیاں ہوتی ہیں۔ اس وجہ سے جو بھی اور جس شعبے میں بھی ہے اور جس شعبے کو بھی وہ چلائے اس میں کوئی حرج نہیں ہے یعنی باقی شعبوں کو اگر وہ صحیح سمجھتا ہے اور ان کو ضروری سمجھتا ہے اور ان کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق تعاون کرتا ہے تو پھر اس کے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی بھی شعبے کی کوئی مخالفت کرتا ہے تو یہ مناسب نہیں ہے، اس سے پھر اس کا پوچھا جائے گا۔

سوال نمبر 10:

حضرت! آج کل بین الاقوامی اتحاد پر بڑا زور دیا جاتا ہے۔ اور مختلف فکر کے لوگ اتحاد کی دعوت دیتے ہیں، ان کی اتحاد کے ساتھ کی کیا شکل ہے؟

جواب:

دیکھیں! اتحاد کی بھی حدود ہیں۔ ہمارا جو دین ہے، یہ Man made دین نہیں ہے، بلکہ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے، پیغمبر کا بنایا ہوا نہیں ہے، بلکہ پیغمبر بھی ہمیں وہی پہنچاتا ہے جو اللّٰہ پاک نے ان کو دیا ہے۔

﴿اَلۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌﴾ (المائدہ: 3)

ترجمہ: ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لئے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لئے) پسند کر لیا‘‘۔

اب دیکھیں! اس میں کون کہہ رہا ہے! اللّٰہ کہہ رہا ہے کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا، اور تمہارے اوپر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے اسلام کو بطورِ دین پسند کر لیا۔ البتہ پہنچانے والے آپ ﷺ ہیں۔ اسی طریقے سے اگر ہم لوگ کسی کو خیر کی طرف اور دین کی طرف دعوت دیتے ہیں تو اس کے لئے ہم لوگ ان کے ساتھ مدارات تو کرسکتے ہیں یعنی ان کے ساتھ نرمی برت سکتے ہیں اور ان کی کچھ چیزوں کو وقتی طور پر برداشت کرسکتے ہیں، تاکہ وہ ہماری بات سمجھ جائیں اور ہم لوگ ان کے ساتھ بات کرنے کے قابل ہوجائیں۔ لیکن یہ نہیں کہ ہم اپنے دین میں سے کسی چیز کو ان کے لئے کم کردیں، یہ ہمارے domain ہی میں نہیں ہے۔ اگر کوئی ہم سے یہ چاہے گا تو پھر قرآن پاک کی ایک سورت specially اس کے لئے اتری ہے۔

﴿قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ ۝ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۝ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۝ وَلَاۤ اَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدْتُّمْ ۝ وَلَاۤ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَاۤ اَعْبُدُ ۝ لَكُمْ دِيْنُكُم وَلِيَ دِيْنِ﴾ (الکفرون: 1-6)

ترجمہ: ’’تم کہہ دو کہ: اے حق کا انکار کرنے والو۔ میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ اور تم اس کی عبادت نہیں کرتے جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں (آئندہ) اس کی عبادت کرنے والا ہوں جس کی عبادت تم کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین‘‘۔

لہٰذا یہ کہنا پڑے گا کہ ہم لوگ آزاد نہیں ہیں بلکہ ہم لوگ پابند ہیں، ہم لوگ اپنی طرف سے کچھ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا اتحاد کی جتنی بھی کوششیں ہیں وہ اس limit کے اندر اندر ہوں گی، مثال کے طور پر اگر میں اتحاد کی کوشش کو یہ کہہ دوں کہ کسی کے دین پر حملہ نہ کیا جائے اور ان کو بزور دین تبدیل کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ تو یہ ٹھیک ہے۔ اللہ فرماتے ہیں:

﴿لَاۤ اِكۡرَاهَ فِىْ الدِّيۡنِ‌ۙ﴾ (البقرہ: 256)

ترجمہ: ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے‘‘۔

لہٰذا میں اگر کسی کے اوپر زبردستی نہیں کرتا اور اس پر سب قائل ہوجاتے ہیں تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ ہمارے دین کا تو یہ جز ہے، صرف عمل میں لانے کی بات ہے۔ اسی طریقے سے جن جن چیزوں کی ہمیں دین اجازت دیتا ہے تو اس میں وہ ہم لوگوں کے ساتھ comment بھی کرسکتے ہیں، ان کو ہم نافذ بھی کرسکتے ہیں اور دوسرے لوگوں سے بھی demand کریں گے۔ لیکن یہ بات کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) وہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن آپ کہہ دیں کہ نمازیں چار ہیں، تو اب بیشک وہ مسلمان ہوجائے لیکن میں نے اگر چار نمازیں مان لیں تو میں کافر ہوجاؤں گا۔ میرے بس میں یہ نہیں ہے، یہ میرا domain ہی نہیں ہے۔ لہٰذا اتحاد کی وہ کوشش جس میں شریعت کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں، وہ جائز نہیں۔

سوال نمبر 11:

اس میں بھی خاص طور پر بہت سے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور وہ اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں، خاص طور پر جیسے شیعہ حضرات۔ لہٰذا جب کوئی مشترکہ کوشش ہو تو سارے مسلمانوں اور کافروں کو کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

اس کے لئے قرآن پاک کی ایک آیت ہے:

﴿تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ﴾ (آل عمران: 64)

ترجمہ: ’’ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو‘‘۔

مثال کے طور پر جو کافر ہیں، ان کو ہم مشترکہ طور پر کافر کہتے ہیں، اب اگر ان کے خلاف متحد ہوجائیں تو اس میں تو مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ تو اس وقت آجاتا ہے کہ مثلاً اگر مجھ سے کوئی کہتا ہے کہ صحابہ کرام کو آپ غلط کہو تو ہم آپ کے ساتھ ہوجائیں گے۔ تو یہ ہمارا domain ہی نہیں ہے، اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے۔ لہٰذا یہ حدود ہیں، اور ان حدود کا خیال رکھنا دین ہے اور دین تو نام ہی حدود کا ہے۔ مثلاً میرے اس گھر کی حدود ہیں، اس گھر کے اندر اندر ہی میرا حکم چل سکتا ہے، اس سے باہر نہیں چل سکتا۔ اس سے باہر اگر میں کہوں گا تو اپنے لئے مصیبت بناؤں گا۔

کچھ چیزیں مزید الحمد للّٰہ فکر آگہی میں آگئی ہیں۔ چونکہ یہ سوال و جواب کے انداز میں ہیں، لہٰذا اس سے فائدہ کافی ہوتا ہے، بالخصوص اصلاحی مفاہیم کی صورت میں concepts clear کرنے کے لئے بہت مفید ہے۔ ہماری کتاب جو ’’پیغام محبت‘‘ ہے، اس سے تو محبت پیدا ہوتی ہے۔ لیکن یہ جو ’’فکر آگہی‘‘ ہے یہ ذہنی اصلاح کے لئے ہے جسے ہم ذہن سازی کہتے ہیں تاکہ کم از کم کسی چیز کے بارے میں ہم جان لیں کہ کون سی چیز صحیح ہے اور کون سی چیز غلط ہے۔

’کشف کی حقیقت:

ایک مرید دوسرے مرید سے کہتا ہے:

ہمارے سلسلے کی دیکھو برکات کیا ہیں

مجھ سے پوچھو کہ آج کل میرے حالات کیا ہیں

مجھ پہ احوال دوسروں کے اب کھل جاتے ہیں

وہ جیسے ہوتے ہیں اندر سے نظر آتے ہیں

میرا رب فضل سے مجھ کو یہ سب دکھاتے ہیں

پردے آنکھوں سے میرے روز روز ہٹاتے ہیں

جن کی اصلاح نہیں ہوئی ہو وہ معلوم ہو سب

معلوم مقام ہو ان کا کسی کو دیکھوں جب

کشف ایک صلاحیت ہے، جس کو بھی یہ حاصل ہو، جیسے کسی کی دور کی یا قریب کی تیز نظر ہو، تو اس سے انکار نہیں ہوتا لیکن تیز اور دور کی نظر کی limits کیا ہیں؟ وہ ذرا الگ الگ سمجھنا چاہئے۔

دوسرا مرید کہتا ہے:

میرے بھائی مجھے خطرہ سا نظر آتا ہے

سلسلے سے تیرا انداز نہیں میل کھاتا ہے

چلیں اب شیخ سے ہو معلوم حقیقت اس کی

ہم پہ کھل جائے اس طرح کچھ حیثیت اس کی

ہم کو معلوم ہو طریق میں حاجت اس کی

گو کہ آپ سے تو جان لی ہے برکت اس کی

مگر طریق میں اس کا خیر وشر تو شیخ جانے

وہ جو اس میں کہے تو بس وہ میرا دل مانے

اب دونوں شیخ کی طرف آتے ہیں، پہلا مرید شیخ سے پوچھتا ہے۔

اے میرے شیخ یہ میرا دوست کشف مانتا نہیں

کشف کے بارے میں کچھ بھی شاید یہ جانتا نہیں

اس لئے کشف کو طریق میں حق گردانتا نہیں

اس لئے حق اور اہل حق کو یہ پہچانتا نہیں

کیا بزرگوں کو کشف ہوتا نہیں یہ ہے حق

یا کسی طرح سے ان کا کہیں الٹا ہے سبب

اس نے اپنا مدعیٰ پیش کردیا۔ اب دوسرا مرید کہتا ہے:

اے میرے شیخ مجھے کشف سے انکار نہیں

میں کہتا تھا کہ بس کشف پہ مدار نہیں

اور ان کشفی نظائر کا اعتبار نہیں

پر میری بات سمجھنے کو یہ تیار نہیں

اب تو اس بات میں آپ کا ہی قول فیصل ہوگا

اب آپ ہی سے ہمارا یہ مسئلہ حل ہوگا

یعنی دونوں نے ان پر بات چھوڑ دی۔ سبحان اللّٰہ! شیخ جواب دیتا ہے:

میرے بیٹوں کشف ایک چیز غیر اختیاری ہے

اس میں دھوکے کا بھی امکان بہت بھاری ہے

اس سے بچنا بھی اہل کشف کی ذمہ داری ہے

جو کہ پھنس جائے اس میں اس کی بہت خواری ہے

ہاں مگر کشفِ بزرگان سے انکار نہیں

مگر کمال کا اس پر کوئی مدار نہیں

اس کے حصول کا خیال ہے مگر اخلاص کی نفی

خود بخود ہووے بدوں طلب ہو تو پھر ہو یہ صحیح

کچھ مگر اس کی حیثیت نہیں ہے پیش وحی

جو مطابق ہو اس کا وحی تو ٹھیک وہی

قابلیت کوئی سمجھے ایسے تو ٹھیک ہے بات

قبولیت کا تعلق نہیں ہے اس کے ساتھ

یعنی قابلیت مان لیتے ہیں لیکن قبولیت نہیں کیونکہ وہ اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے۔

کشف اپنے عیوب کا ہو کبھی چاہئے اگر

اپنی اصلاح کے لئے ہے یہ بہت اچھی نظر

نہ کہ یہ آنکھ ہو مرکوز دوسروں کے عیوب پر

بے ضرورت ہو اگر یہ ہے، یہ شیطان کا اثر

وہ اگر شیخ ہو تو اس سے مستثنیٰ ہے وہ

کیونکہ اصلاح میں دوسروں کے مبتلا ہے وہ

ڈاکٹر ٹیسٹ لکھ دیتے ہیں، یہ بھی کشف ہے۔ لیکن وہ اختیاری کشف ہے اور یہ غیر اختیاری کشف ہوتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ شیخ کو دیتا ہے کہ اس کو کشف ہوگیا تو وہ اس سے کچھ فائدہ اٹھا لے گا، لیکن وہ دوسری چیزوں سے اس کو compare کرے گا اور وہ قرآن و سنت سے آزاد نہیں ہے۔

جس کو حاصل نہ ہو اس کی سعی نہ کرے

جس کو حاصل ہو ناجائز پیش قدمی نہ کرے

جو شریعت کا مخالف ہو تو وہی نہ کرے

اپنی اصلاح سے غفلت شبیر کبھی نہ کرے

عشق کے میدان میں کھلونے سے دل بہلانا نہ ہو

یہ جو ہیں کھیل تماشے تو ان پہ آنا نہ ہو

یعنی یہ کھیل تماشے ہیں اور کھیل تماشوں میں اپنے دل کو بہلانا نہیں چاہئے کہ بس مجھے کشف ہوتا ہے اور یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا۔ ان باتوں میں انسان کو نہیں پڑنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ بس ہماری حفاظت فرمائے۔

ایک پیر کی اپنے مرید کے بارے میں پریشانی:

فلاں مرید کہ مجھ کو سمجھ کیوں آئے نہیں

کیوں کسی طرح بھی ترقی اس نے پائی نہیں

فکر میں اس کی میں روحانی زندگی کے لئے

کوشش میں جتنی کروں اس کی ترقی کے لئے

جتنا سمجھاؤں اسے اس کی بہتری کے لئے

وہ بھی کوشش کرے خوبی سے ہاں اسی کے لئے

کوئی کوشش میری کارگر کیوں نظر آتی نہیں

میں اس سے ہی پوچھوں پریشانی تو یہ جاتی نہیں

شیخ کی اپنے مرید کے بارے میں پریشانی:

اب پیر مرید سے پوچھتا ہے:

میرے بیٹے یہاں تو کس نیت سے آیا تھا

خیال کونسا ہے تیرے دل پہ چھایا تھا

اس خانقاہ میں ڈیرہ کیوں جمایا تھا

کس طرح تو نے یہاں کہاں سوئے پایا تھا

کیونکہ نیت پہ ہے مدار جو سارے اعمال

بعد اسکے ہیں سارے قال اور سارے احوال

میں تیرے دل کے ارادے سے خبردار نہیں

یعنی کشف سے انکار کر لے گا کہ مجھے کشف نہیں ہوتا۔

میں تیرے دل کے ارادے سے خبردار نہیں

تیری خدمت سے گو مجھے کوئی انکار نہیں

بے اس کے جان آگے بڑھنے کو تیار نہیں

کہ اس طریق میں میرا کوئی اختیار نہیں

خدا ہی دل کے ارادے سے ہوتے ہیں آگاہ

وہی ہر ایک کو دکھاتے ہیں اس طریق میں راہ

اب مرید جواب دیتا ہے۔

اے میرے شیخ میرا دل چاہے کہ حاصل میں کروں

جو آپ کے پاس ہے اس سے خود کو واصل میں کروں

خیر و خوبی سے طے پھر سارے منازل میں کروں

پھر باقی لوگوں کو اس کام میں شامل میں کروں

میں بھی خدمت کروں دین کی جو آپ کرتے ہیں

مجھے یقین ہے آپ حق کی راہ پہ چلتے ہیں

آپ کی خدمات کو دیکھ کر منہ میں پانی آئے

جو بھی آئے ہے پاس آپ کے وہ فیض پائے

آپ کے در سے خالی ہاتھ نہ کوئی جائے

کاش مجھ کو بھی ہو حاصل یہ سعادت آئے

میں بھی مخلوق کو آپ کی طرح فیض یاب کروں

رب کی مخلوق پہ شفقت میں بے حساب کروں

پیر صاحب چونک پڑتے ہیں اور کہتے ہیں:

اوہ! یہی بات تو رکاوٹ ہے ترقی میں تیری

یہی تو روڑا ہے اب جانوں میں سعی میں تیری

اب کوئی شک نہیں کوئی بھی بے حسی میں تیری

اف کیا ظلمات بھری چیز ہے روشنی میں تیری

ابھی سے تو نے پیر بننے کی ٹھان لی ہے

میں کہوں اس سے تو بس اخلاص کی تو نے جان لی ہے

اپنی اصلاح ہی پہ ہے کامیابی کے نوید

پیر بننے کی نیت کی نہیں ہے کوئی خرید

ایسی نیت نہیں ہے کچھ مگر اصلاح میں چیت

ایسی نیت ہو تو مجھ سے کیا سنو گے مزید

یہاں تو عشق اور فنا کا ہے کاروبار بیٹے

کیا ایسے کام کے لئے ہے تو تیار بیٹھے

جب تو عاشق ہے، مشیخت سے تیرا کام کیا ہے

جس میں دنیا کی نجاست ہو تو وہ جام کیا ہے

یہ دل میں چور تیرا تسخیرِ خاص و عام کیا ہے

تجھ کو معلوم ہے ایسے خیال کا انجام کیا ہے

اس کے دربار میں پاک دل ہی کی پہنچ ہے بس

پہنچنا چاہے کوئی دربار میں اس کی ہر ایک بس

کچھ لینا چاہو تو اس خیال سے توبہ کر لو

نوری دنیا ہے اس سے بھی خود کو جدا کر لو

اپنی کوشش کرو اور رب پہ بھروسہ کر لو

اس کے دربار میں بے دریغ خود کو فنا کر لو

بھول جا فخر کی چیزیں اور خاکسار بن جا

اس کی نعمت سے بہر یاب شکر گزار بن جا

اب مرید توبہ کرتا ہے۔

میں اپنے خیال سے میرے شیخ توبہ کرتا ہوں

یہ جو گھاٹی میں گرا تھا اس سے نکلتا ہوں

راستہ اخلاص کا نظر آیا اس پہ چلتا ہوں

اب تو میں عشقِ الہی کا دم ہی بھرتا ہوں

اپنی اصلاح ہی کی نیت دل میں اب ٹھان لی ہے

کہ اس طریق کی حقیقت بھی میں نے جان لی ہے

میرے الٰہ مجھے اس راہ میں قبول کرے

اب میرے دل میں صرف وہ ہی رہے وہی رہے

مجھے شیطان کے وساوس سے تو اب دور رکھے

جو بھی سالک ہے بنے ایسا اب شبیر کہے

اس بڑے فتنے سے یا رب اب بچانا ہم کو

ہے جو طریق الصفہ اس پہ چلانا ہم کو

تشریح:

کیسے معصومیت کے ساتھ وہ بات کر رہا تھا کہ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ میں بھی وہی کام کروں جو آپ کر رہے ہیں۔ اب اگر شیطان اس کو سمجھائے کہ تو شیخ کا اتباع کر رہا ہے کہ تو شیخ کی طرح ہونا چاہتا ہے تو یہ کتنی اچھی بات ہے۔ لیکن اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ خود کرے گا یا شیخ سے کروائے گا؟ اگر شیخ سے کروائے گا تو فیصلہ یہی ہے۔ یہ اصل میں گھاٹیاں ہوتی ہیں اور یہ گھاٹیاں بہت زبردست ہیں، اس کو کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن بہرحال اس میں گھاٹیاں ہیں۔

کچھ میراث کے مسائل کے بارے میں اشعار ہیں۔ کیونکہ یہ بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ شاگرد استاد سے کہتا ہے:

میرے استاد میرے بہنوں نے پریشان ہے کیا

مجھ سے حصہ وہ مانگتی ہیں میرے والد کا

میں تو چاہوں کہ میں خود ان کا خیال رکھتا رہوں

میں ان کی شادی پہ اچھا جہیز بھی دے دوں

جو شادی شدہ ہے ان کا خیال بھی رکھوں

ہے جو چھوٹے ہیں ان کی تعلیم میں میں خرچ کروں

کیا ان کاموں میں ان کا مجھ پہ اعتبار نہیں

میراث تقسیم کرنے اس لئے تیار نہیں

کیا یہ غیروں کی طرح مانگنا میراث کا ہے درست

کیا محبت ہے جو میراث لینے میں ہے چست

ان کی خدمت کروں دل و جان سے اور نہ ہوں میں سست

ان کے کاموں میں میں مصروف دکھاؤں نہ پشت

حیف اس پر کیا یہ انداز بے اعتباری کا

کیا ہو علاج میرے بہنوں کی بیماری کا

یہ شکایت ہے یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹنے والی بات ہے۔ کام خود خراب کر رہا ہے اور شکایت بہنوں کی کر رہا ہے۔

استاذ کیا کہہ رہا ہے؟

میرے بیٹے میں سمجھتا تھا کہ تم جانتے ہو

حکم اللّٰہ کا جو بھی ہے تم اس کو مانتے ہو

ہائے افسوس آپ کے بارے میں غلط خیال ہے میرا

تم اور خدا میں جانے زیادہ کون سوال ہے میرا

کیا عبث سارا ہے جو بھی وہ قیل و قال ہے میرا

تیری باتوں سے یقیناً اب برا حال ہے میرا

اب تو جانوں میں کدھر اصل بے اعتبار تو ہے

دین کو جانتے ہی نہیں اور شتر بے مہار تو ہے

خدا نے جن کو دیا حصہ وہ ان کا ہی ہے وہ ان کا ہی ہے

خود ساختہ رسموں کی ہوا البتہ بھی چلی ہے

اہل و عیال کا اپنے طور پہ جدا حق بھی ہے

میراث جہیز کے دینے سے کیا ختم ہوئی ہے

اگر یہ بات ہو جہیز اپنے پاس رکھ لینا

مگر جو حصہ ہو میراث کا ان کو دے دینا

میراث کا حصہ فرائض میں ہے شمار، دیکھو

اس سے غفلت میں بہت سخت شیطان کا وار دیکھو

اگلی آیت میں ان کا قہر جبار دیکھو

دوزخ تصور میں ان کے لئے تیار دیکھو

چڑھانا بات اپنے خدا کے بعد یہ کیسا ہے

کیا گھس گیا ہے تیرے دل میں پیسہ ہے

خدا کی بات پہ اپنی بات بڑھایا نہ کرو

خود اپنے پاؤں پہ کلہاڑی چلایا نہ کرو

مقابلے میں اس کے نکتے اٹھایا نہ کرو

دل میں کچھ مال کی محبت یوں بٹھایا نہ کرو

جو ان کا حق ہے تو دینا اسے خوشی سے تو

تاکہ پھر ہوسکو دونوں جہاں میں تم سرخرو

یہ ہندوؤں کی جو باتیں ہیں ان کو بھول جانا

یہ رسومات کے طریقے ہیں ان کو بھول جانا

یہ تو شیطان کی علتیں ہیں ان کو بھول جانا

اس میں جو نفس کی لذتیں ہیں ان کو بھول جانا

اب صرف یاد رکھ کے تو خدا کا بندہ ہے

کیونکہ یاد نہ ہو جب تلک تو تو گندہ ہے

﴿تَاۡكُلُوۡنَ التُّرَاثَ﴾ کا گلہ اللّٰہ سے سنو

اور ﴿بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَةَ﴾ کا بھی اللّٰہ سے سنو

میراث نہ دینے کا بھی فیصلہ اللّٰہ سے سنو

اور جو دیتے ہیں تو ان کا صلہ اللّٰہ سے سنو

کبھی قرآن کو عمل کی نیت سے دیکھیں

ورنہ کرتوت تو اس قابل ہیں نہ اپنے دیکھیں

میراث کے بارے میں رکوع سورہ نساء کا پڑھ

عمل کر اس کو رفعت کی تو زینوں پہ چڑھ

بچ دنیا کی محبت سے اپنی خطاؤں کی جڑ

اور خدا کی محبت لینے واسطے تو آگے بڑھ

تاکہ شیطان کے شر سے تو بچاؤ خود کو

طریق مستوی پر اب چلاؤ خود کو

میرے استاد تو نے کھول دی ہیں میری آنکھیں

لگاؤں دیکھنے قرآن میں یہ میں اپنی آنکھیں

میں تو ظالم تھا ظلم خود پہ کر رہا تھا میں

وہ جو آگ تھی وہ پیٹ میں بھر رہا تھا میں

اور جہنم کے گڑھوں کے گڑھوں میں اتر رہا تھا میں

اور بے موت شیطانی موت مر رہا تھا میں

تو نے استاد مجھے زندہ کیا زندہ ہوں میں

جو کیا پہلے اس پر بہت شرمندہ ہوں میں

میں اب میراث اپنے ہاتھوں سے بہنوں کو دوں گا

گو کہ میں مستحق نہیں پر دعائیں لوں گا

آئندہ راستے کو غور سے میں دیکھوں گا

میں اب شیطان کے ہاتھوں میں نفس نہ چھوڑوں گا

اب میں طریقِ مصطفیٰ پہ چلنا چاہوں گا

اور اس طریق پہ خدا سے ملنا چاہوں گا

سوال نمبر 12:

’’مثنوی‘‘ کا درس جو اس دفعہ ہوا تھا اس میں ایک بات آپ نے فرمائی تھی کہ دنیا اور آخرت جو دونوں چاہتے ہیں، تو اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔ یا تو آخرت یا پھر دنیا۔ اس میں کچھ خواتین بھی تھیں، ان کو یہ بات پوری طرح سمجھ نہیں آئی۔ کیونکہ ایک طرف ہے کہ:

﴿رَبَّنَآ اٰتِنَا فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً﴾ (البقرہ: 201)

ترجمہ: ’’اے ہمار پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما‘‘۔

تو یہ بات مزید clear کردیں کہ دنیا اور آخرت دونوں میں کیسے جمع ہوں؟

جواب:

میں ایک بات کر چکا ہوں، لیکن چلو اس کو دوبارہ دہراتا ہوں۔ قرآن پاک کی ایک آیت ہے۔

﴿وَاُفَوِّضُ اَمۡرِىۡۤ اِلَى اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ بَصِيۡرٌۢ بِالۡعِبَادِ﴾ (الغافر: 44)

ترجمہ: ’’اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ یقیناً اللہ سارے بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔

اس کے پہلے حصے میں میرا عمل ہے کہ میں اللّٰہ پر اپنی بات چھوڑتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ اللّٰہ علیم بھی ہے، حکیم بھی ہے، مہربان بھی ہے، جب یہ والی بات سمجھ میں آگئی تو میں اس پر چھوڑتا ہوں کہ یہ بات تو وہ جانتا ہے کہ میری مشکلات کیا ہیں؟ میرے مسائل کیا ہیں؟ وہ سارے میرے مسائل حل کردے گا۔ اب یہ کیا ہے؟ یہ دنیا بھی ہے اور دین بھی ہے۔ یہ نہیں کہ انسان دنیا کو بالکل چھوڑ دے اور دنیا میں رہے ہی نہیں۔ لیکن جو مذموم دنیا ہے وہ چھوڑے گا، کیونکہ مذموم دنیا اللّٰہ کے حکم سے روکنے والی ہوتی ہے۔ اسی لئے میں نے اسی میں کہہ دیا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ یہ مالدار تھے، حضرت داؤد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام بھی مالدار تھے، لیکن انہوں نے مال کے لئے اللّٰہ پاک کو ناراض نہیں کیا۔ لہٰذا جب میں اللّٰہ پر بات چھوڑتا ہوں تو میں صحیح دین دار بنتا ہوں۔ دین میں میرے لئے جو جائز دنیا رکھی ہے وہ میں حاصل کروں گا، تو اس میں دین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی، اور وہ مجھے مل جائے گی۔ کیونکہ اگر میں آزاد دنیا (جس میں کوئی پابندی نہ ہو) اور دین دونوں کو اکٹھا کروں گا تو پھر دنیا دار بن جاؤں گا۔

سوال نمبر 13:

اگر کسی کے دل میں مال کی محبت ہوجائے، اور مال ملنے کی خواہش بھی ہو اور مال مل بھی جائے، (البتہ یہ بعد کی بات ہے کہ اسے کشف کہا جائے گا) تو جیسے آپ کام کرتے ہیں کوئی ایریا مل جاتے ہیں مال سے انسان خوش ہوتا ہے۔

جواب:

خوش ہونا اگر شکر کی طرف لے جا رہا ہے تو پھر تو یہ دین ہے۔ اگر خوش ہونا اللّٰہ کی مخالفت میں جا رہا ہے تو یہ بے دینی ہے۔ کیونکہ ایک ہی بات ہے کہ خوشی میں انسان اللّٰہ کا شکر بھی ادا کرتا ہے اور خوشی میں انسان بے قابو بھی ہوجاتا ہے اور وہ اللّٰہ تعالیٰ کے دین سے باغی ہوجاتا ہے۔ یہ جتنے مالدار لوگ جو دین کی باتیں نہیں سنتے، یہ مال کی وجہ سے ہی ہے، ان کو ایسا نشہ ہے کہ جو شراب کے نشے سے کم نہیں ہے۔ اس وقت انسان اپنے فائدے اور نقصان کو نہیں دیکھتا۔ قارون نے جو اپنے آپ کو مارا، وہ کس لئے مارا؟ نبی کی مخالفت کی صرف مال کی محبت کی وجہ سے، لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام بادشاہ تھے، انہوں نے شکر کیا تو اللّٰہ پاک نے ان کو بڑے رتبے دئیے۔ لہٰذا مال کی جو محبت ہے اس کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر مال کی محبت ہمیں اللّٰہ کی محبت سے دور کر رہی ہے تو وہ مذموم ہے۔ اور اگر اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کے قریب کر رہی ہے تو وہ دین ہے اور اگر نہ دور کر رہی ہے، نہ ہی قریب کر رہی ہے تو وہ ایک مباح چیز ہے، جس کا نہ فائدہ ہے، نہ نقصان ہے۔ اس وجہ سے اپنے نفس کی اصلاح اس طرح کرنی ہوتی ہے کہ وہ مذموم مال کو طلب کرنا نہ چاہے۔ بس اتنی اصلاح فرضِ عین ہے، باقی بالکل مال کو نہ چاہنا اور سب کچھ اللّٰہ پر چھوڑنا، یہ مستحب ہے۔ یہ ہر ایک کا کام نہیں ہے، اس لئے آج کل کے دور میں ہم مستحب کی طرف نہیں لے جاتے بلکہ ہم صرف فرض تک ہی لاتے ہیں۔ کیونکہ فرض تو فرض ہے، اس کو چھوڑنا حرام ہے۔ مثلاً آپ دیکھیں آنکھوں کی لذت کہ اگر آپ باغ میں چلے جائیں اور پھولوں کو دیکھیں، کیاریوں کو دیکھیں تو یہ ایک مباح چیز ہے اور تفریح ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے اپنے ذہن کو معطر کر کے قرآن پاک کی تلاوت میں اور ذکر میں اور اللّٰہ پاک کی محبت میں استعمال کرتے ہیں تو یہ دین ہے۔ اور اگر آپ اس کو بے دینی کے لئے استعمال کرتے ہیں تو یہ بے دینی ہے۔ اسی طریقے سے جو بھی لذات ہیں، مثال کے طور پر television ہے وہ بھی آنکھوں کی لذت ہے، لیکن وہ حرام ہے۔ تو ہم یہاں تک لاتے ہیں کہ یہ حرام چیزیں آنکھوں کی چھوٹ جائیں، اور اتنی پابندی کروا دیتے ہیں کہ حرام سے انسان بچ جائے، باقی جو مباح چیزیں ہیں وہ ہم نہیں روکتے، البتہ مباح میں انہماک سے روکتے ہیں کہ صرف انہی کے پیچھے نہ لگیں، اس میں ہم روکتے ہیں۔ لیکن فی نفسہ مباح سے نہیں روکتے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ




  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔