سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 151

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 1:

ایک مقولہ ہے کہ جہاں سوال پہ سوال ہوتا ہے وہاں محبت پہ زوال ہوتا ہے، اس کی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب:

ممکن ہے کسی کا مقولہ کسی خاص پس منظر کی وجہ سے ہو۔ یہ اس بات طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ جب انسان زیادہ سوال کرتا ہے تو اس میں شاید محبّت کی کمی ہوتی ہے۔ جیسے یہود اللہ پاک کے حکم کے بارے میں بہت سارے سوالات کرتے تھے اور صحابہ کرام بہت کم سوال کیا کرتے تھے۔ لیکن جہاں سوال مطلوب ہوں وہاں محبّت کا زوال نہیں آتا کیوں کہ تین باتیں ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ انسان دل سے ایک چیز کو مان لے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کو اچھی طرح جان لے اور تیسری بات یہ ہے کہ اس پر اچھی طرح عمل کرے۔ مان لینے کا تعلق ایمان کے ساتھ ہے اور جان لینے کا تعلق علم کے ساتھ ہے۔ جس بات کا تعلق علم کے ساتھ ہو گا اس میں تو سوال ہوں گے۔ چنانچہ جس طالب علم میں چوں چراں نہ ہو تو وہ علم حاصل نہیں کر سکتا۔ یعنی جب تک وہ سوال نہیں کرے گا اس کو صحیح بات کا پتا نہیں چل سکتا اور مرید کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس کو کوئی کام بولو اور وہ آ گے سے سوال کرے تو پھر اس کو فائدہ نہیں ہو سکتا۔ آپ کی بات شاید دوسرے رخ کے ساتھ ہے کہ ایک بات واضح طور پہ صحیح کہی گئی ہے پھر بھی اس کے اندر قیل و قال شروع ہو جائے تو وہ عمل نہ کرنے کی نشانی ہوتی ہے اور یہ چیز محبّت میں کمی کی طرف چلی جاتی ہے لیکن جہاں تک concepts clear کرنے کا تعلق ہے تو وہاں سوال ہونے چاہئیں۔ اسی وجہ سے ہم یہاں کہتے ہیں کہ سوال کرو، تاکہ لوگوں کو صحیح چیزوں کا پتا چل جائے تو یہاں محبّت کے زوال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سوال 2:

کسی کے معمول میں اوابین شامل ہوں اور وہ بیان کی وجہ سے شیخ کی مجلس میں رہا اور اوابین نہ پڑھ سکا۔ مثلاً جیسے اتوار کو مغرب کے بعد فوراً بیان شروع ہو جاتا ہے کیونکہ وہ کسی مسجد میں ہوتا ہے اور نوافل کا وقت نہیں ملتا تو وہ اپنے معمولات کے پرچے میں اس بات کی کیسے وضاحت کرے؟

جواب:

نیچے کچھ لائنیں ہیں ان میں وضاحت کی جا سکتی ہے۔ وہ اسی لئے رکھی گئی ہیں کہ اگر کسی خاص نقطہ کے بارے میں بتانا ہو تو اس میں نشانی دے کر وہاں اس کی تشریح کر دی جائے۔

سوال 3:

معمولات کے پرچے میں فرض نمازوں کے بارے میں ظاہر ہے ہر بندہ ہی لکھے گا۔ اس کے بعد ذکر، درود شریف، تیسرا کلمہ، استغفار اور مراقبہ ہدایت کے مطابق یہ خانے ہر بندہ fill کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ جیسے تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، عشاء کے بعد چار نفل اور سورۃ یسین، سورۃ ملک، تلاوت قرآن پاک، مزید درود شریف اور چہل درود شریف اور مناجات مقبول۔ کیا ہر بندہ اس بارے میں بھی لکھے یا شیخ سے پوچھ کر اِن میں سے کچھ اعمال لینے چاہئیں۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔

جواب:

در اصل یہ چیز اس لئے رکھی گئی ہے کہ جیسے کسی ڈاکٹر کے پاس بہت رش ہو اور ڈاکٹر کے نسخہ لکھنے میں کافی وقت صرف ہوتا ہو۔ اس سے بچنے کے لئے اس نے کچھ رہنما پرہیز کی چیزیں لکھی ہوتی ہیں۔ انہیں ٹک مارک کرتا ہے۔ اسی طریقے سے یہاں پر بھی ساری باتیں ہم نے لکھیں ہیں لیکن ساری چیزیں سارے لوگ نہیں کر پاتے، اس لئے جتنا دیا گیا ہے وہ تو ہے ہی اور جتنا نہیں دیا گیا اور کوئی کر سکتا ہو تو کر لینا چاہیے۔ اور یہ غذائی ذکر سے متعلق ہیں یعنی ثواب اور اجر والی چیزیں ہیں تو کس کا دل نہیں چاہتا ہو گا کہ زیادہ اجر کمائے؟ لیکن اس کی مصروفیات یا اس کی حالت کے مطابق اگر شیخ کو اس کے بارے میں شرح صدر نہیں ہے کہ جب تک معلومات نہ ہوں تو وہ نہیں دے پاتا تاکہ سب لوگوں کے ساتھ ایک جیسی بات نہ ہو بلکہ ہر ایک کے موقعے کے مطابق ہو۔ اس لئے لوگوں کو پھر خود پوچھنا چاہیے کہ میرے پاس ٹائم ہے، میں اگر یہ کرنا چاہوں تو کر لوں؟ ویسے بھی ہم نے کہا ہے کہ بعض چیزوں کے بارے میں اگر کوئی مستقل معمول نہیں بنا سکتا تو اس کے ساتھ اپنے آپ کو عادی کرنے کے لئے عارضی معمول بنا لے۔ اس کو معمول ظاہر نہ کرے لیکن اس کے اوپر عمل شروع کر دے اور جب پختگی ہو جائے تو پھر معمول بنا لے۔ اگر کوئی کرنا چاہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ممانعت نہیں ہوتی۔ ممانعت اس صورت میں ہوتی جب بعض لوگوں کے مزاجوں میں کچھ اعمال کرنے کی وجہ سے خشکی آ جاتی ہے جس سے ان کا پاگل پن کی طرف جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ایسے لوگوں کو روکا جاتا ہے۔ میں نے ایک خاتون کو بہت سے اعمال کرنے سے روکا تھا، وہ Breaking point پہ آنے والی تھی۔ مجھ سے پوچھے بغیر اس نے بہت سارے اذکار شروع کر دئیے تھے اور اس کو خشکی چڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے اس کو نیند نہیں آ رہی تھی اور کچھ مسائل پیدا ہو گئے تھے۔ میں نے حکماً اسے چند اذکار دے دئیے اور باقیوں سے روک دیا۔ آج ان کا شکریہ کا فون آ گیا کہ: الحمد للہ اس سے فائدہ ہو گیا۔ اور وہ دوبارہ اپنے نارمل لیول پہ آ گئیں ہیں۔ کبھی کبھار ضرورت پڑتی ہے تو ہم مجبوراً اس طرح کرتے ہیں۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے: بعض دفعہ مریض کے لئے ملائی بھی روک دی جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صحت مند لوگ بھی نہ کھائیں۔ لیکن دنیا کی چیزوں میں ڈاکٹر منع کرے تو کہتے ہیں: نہ منع کرے تو اچھا ہے۔ لیکن ان چیزوں میں کہتے ہیں: بالکل جی ماننا چاہیے۔ تو اگر لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تو بتا دیا جائے گا کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔

سوال 4:

ہمارے معاشرے میں یہ بات پسند نہیں کی جاتی کہ لڑکی کا رشتہ خود والدین مانگیں، وہ اسی انتظار میں ہوتے ہیں کہ کوئی رشتہ آ جائے لیکن اگر مناسب رشتہ نہ آئے اور لڑکی کی عمر بھی گزرتی جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ ہم لڑکیاں والدین کو اس بارے میں کیا کچھ کہہ سکتی ہیں یا پھر اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے اور اگر کہنا بھی ہو تو کس کو کہیں اور کیسے کہیں؟

جواب:

ایک خاتون نے آج کل کے ایک بہت بڑے مسئلے کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔ بعض باتیں genuine ہوتی ہیں لیکن رواج کی وجہ سے ان میں بڑی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں۔ واقعی یہ بہت عملی بات ہے۔ پرانے دور میں لوگ رواجوں کے اتنا زیادہ پابند نہیں ہوتے تھے بلکہ وہ شریعت کے مطابق بات کرتے تھے۔ لہٰذا اگر کسی گھر میں کوئی لڑکی بالغ ہو جاتی تو وہ با قاعدہ اعلان سا کر دیتے تھے کہ میرے گھر میں اب بالغ لڑکی ہے، اگر کوئی اس کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو آ جائے، ہم اس سے بات کر لیں گے۔ ایسے مسائل میں یہی چیز ہونی چاہیے۔

در اصل شیطان نے جائز چیزوں کو بہت مشکل بنا دیا ہے اور نا جائز چیزوں کو آسان بنا دیا ہے۔ اگر جائز چیزوں کو آسان بنایا جائے تو شاید اس قسم کے مسئلے پیش ہی نہ آئیں۔ اول تو والدین کو خود اس کا احساس ہونا چاہیے، ان کو رشتے وقت پر کرنے چاہئیں لیکن کبھی کبھی عجیب و غریب بات ہو جاتی ہے، جیسے ہمارے ایک ساتھی کی ایک بچی ہے، ابھی میڈیکل کالج میں ہے، اس کے لئے بڑا اچھا رشتہ آیا لیکن انہوں نے کہا: ابھی بچی پڑھ رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ والد کو رشتہ مانگنے والوں پے بہت غصّہ آیا حالانکہ لڑکی کی عمر جب گزر جاتی ہے بیشک وہ ڈاکٹر بن جائے تو اس کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اس کے بعد اس کو رشتہ ملنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرے پاس فون آتے ہیں، ڈاکٹروں کے بھی آتے ہیں دوسرے لوگوں کے بھی آتے ہیں۔ جب شادی کا وقت ہوتا ہے تو گھر بٹھائے رکھتے ہیں اور جب وقت گزر جائے تو پھر اچھے رشتے ڈھونڈتے رہتے ہیں لیکن پھر معاملہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ یہ ہمارے رواجوں کی خرابی کی بات ہے۔ وقت پر شادی کے بارے میں سوچنا چاہیے لہٰذا اس وقت اچھے رشتے مل جاتے ہیں۔ ایک تو اس وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔ دوسرا نقصان اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہر ایک نے اپنا ایک آئیڈیل اور معیار بنایا ہوتا ہے۔ خاندانوں نے بھی بنایا ہوتا ہے اور لڑکے، لڑکیوں نے بھی بنایا ہوتا ہے۔ وہ قدرتی معیار نہیں ہوتا بلکہ صرف ایک نظری معیار ہوتا ہے۔ ان کو جب مناسب رشتے آ جاتے ہیں تو وہ ان کے معیار کے مطابق نہیں ہوتے نتیجتاً وہ انکار کر دیتے ہیں۔ بعد میں جب ان کی value down ہو جاتی ہے تو پھر فائدہ نہیں رہتا۔ اس وجہ سے ہمیں صحیح معیار کو real انداز میں لینا چاہیے۔

مجھے کراچی سے ایک تینتیس سال کی لڑکی کا ای میل آیا کہ میری ابھی تک شادی نہیں ہوئی ہے میں کیا کروں؟ میرے لئے کوئی وظیفہ بتا دیں۔ میں نے کہا: میں آپ کو وظیفہ بھی بتا دوں گا، لیکن میں آپ کو ایک اصول بھی سمجھا دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر ایک لائن میں لاکھوں لڑکے اپنی اپنی ڈیمانڈ کے نمبروں کے لحاظ سے کھڑے ہیں۔ پہلا نمبر، دوسرا نمبر، تیسرا نمبر، چوتھا نمبر۔ اسی طرح لاکھوں لڑکیوں کی قطار ہے۔ اب اگر کوئی لڑکی دو ہزارویں پوزیشن پر ہے اور وہ پہلے نمبر والے لڑکے کو چُنے، تو کیا یہ ممکن ہے؟ آخر اس لڑکے کی بھی ڈیمانڈ ہو گی اسی طرح دو ہزارویں پوزیشن پر کوئی لڑکا پہلی پوزیشن کی لڑکی کو چُنے تو کیا یہ ممکن ہے؟ تو genuine طریقہ یہ ہے کہ دو ہزار والے دو ہزار والے کو چنے، تو کام جلدی ہو جائے گا۔ یہ ای میل میں نے کر دیا۔ اس کا فوراً جواب آیا کہ میں سمجھ گئی۔ ایک سال کے اندر اندر اس کی شادی ہو گئی۔ الحمد للہ بہت خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔ یہ تھیوری ثابت ہو گئی کہ غلطی ہماری اپنی ہے۔ ہم نیچرل انداز میں نہیں سوچتے بلکہ آئیڈیل انداز میں سوچتے ہیں تو Ideal never exists یعنی عنقا(پرانے زمانے میں پایا جانے والا پرندہ) کے پیچھے بھاگنے والی بات ہے۔ اس وجہ سے ہمیں real انداز میں سوچنا چاہیے پھر ان شاء اللہ معاملہ بڑا آسان ہے۔

جہاں تک یہ سوال ہے کہ لڑکیاں اس میں کیا رول ادا کر سکتی ہیں تو ان کا رول یہی ہے کہ عین وقت پر جب رشتہ آ جائے تو وہ صحیح فیصلہ کریں اور والدین کو relax کریں۔ لڑکی اپنے آئیڈیل کو نیچرل بنائے باقی کام والدین کا ہے۔ ان کو اس کا احساس ہونا چاہیے اور ان کو صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ کرنا چاہیے۔

سوال 5:

کسی کا ذکر کا معمول مغرب کے بعد ہے اور اس دن خانقاہ بھی جانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے اس کو اپنا ذکر مؤخر کرنا پڑتا ہے اور تجربے سے یہ بھی ثابت ہو کہ خانقاہ جانے سے نسبتاً اس کو زیادہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، ایسی صورت میں وہ کیا کرے؟

جواب:

وہ اپنی دو ٹائمنگ رکھ لے۔ ویسے تو مغرب کے بعد کرتا رہے لیکن جس دن خانقاہ آنا ہو اس دن کوئی اور وقت مقرر کر لے۔ یہ اس کا معمول ہو گا۔ کیونکہ بنیادی طور پر وقت کی پابندی ناغہ سے بچنے کے لئے ہے۔ اگر اس کی وجہ سے ناغہ ہو جائے تو پھر اس کو change کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ناغہ سے بچنے کے لئے ہمارے پاس دوسرا ایک آپشن موجود ہو کہ اس صورت میں ہم فلاں وقت کریں گے۔ جیسے آج میرا ارادہ ہے خانقاہ جانے کا تو میں فجر کے بعد اگر کر لوں اور پھر مستقل ایک ٹائم بنا دوں کہ جس دن میں خانقاہ جاؤں گا اس دن فجر کے بعد اپنے معمولات کروں گا۔اس طرح ٹائم ٹیبل بنایا جا سکتا ہے۔

سوال 6:

کیا ویب سائٹ پر اس طرح کی سہولت کوئی ہو سکتی ہے کہ اپنی معروف خانقاہوں کے ایڈریس یا mapping کر دی جائے کہ جو لوگ لاہور یا کراچی میں رہتے ہیں انہیں بندہ یہ بتا سکے کہ یہاں خانقاہ ہے۔

جواب:

یہ ہم نے سوچا تھا بلکہ ہم نے پورا اس کا ڈیٹا بیس بنانے کا ارادہ کیا تھا لیکن سیکورٹی reasons کی وجہ سے اس کو موخر کیا گیا۔ مشورہ یہی دیا گیا کہ ایسی چیزوں کو ویب سائٹ پر نہ دیا جائے کیوں کہ اس سے بعض لوگوں کو مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ البتہ ویب سائٹ کے اوپر ایک کال سنٹر بنایا جا سکتا ہے کہ جس سے معلومات لی جا سکیں اور ان سے بر وقت رابطہ کیا جا سکتا ہے چونکہ genuine لوگ ہیں تو ان کو بتایا جا سکتا ہے، genuine نہیں ہوں گے تو نہیں بتائیں گے۔

سوال 7:

حضرت! جس طرح انسان کسی پے احسان کر لے لیکن اس کو پھر باقی رکھنا بڑا مشکل ہوتا ہے تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی محبت دل میں آ جائے پھر وہ ایسا نہیں کرے گا لیکن جب تک نہیں آئے گی تب تک اس چیز سے بچنا ہے۔ اس چیز کو انسان کیسے سمجھ سکتا ہے؟

جواب:

اللہ جل شانہ نے ہمیں عقل دی ہے۔ یہ عقل اگر صحیح استعمال ہو تو پھر انسان شریعت کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ مثلاً جن پہ احسان کیا تو آپ عقل سے کام لیں کہ کیا میں اس چیز کو ضائع کرنا چاہوں گا؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ (البقرۃ: 263)

اچھی بات اس صدقے سے اچھی ہے جس کو بعد میں جتانے کے ذریعہ یا ایذاء پہنچانے کے ذریعہ ضائع کیا جائے۔ اگر کوئی احسان کرنا چاہے تو اپنے آپ کو ذہنی طور پر اس کے لئے تیار کر لے کہ میں اس کو ضائع نہیں کروں گا اور جب کبھی ایسا کوئی موقع آئے تو اس بات کی یاد دہانی اپنے آپ کو کرا لیا کرے اور احسان کو ضائع کرنے کی غلطی ہونے لگے تو اپنے آپ کو سمجھائے کہ میں کیوں اس طرح کروں؟ صرف اس میں نہیں ہے بلکہ ہر ہر رذیلے سے بچنے کا یہی طریقہ ہے۔ رذائل سے shortcut میں بھی بچنے کی صورتیں ہوتی ہیں اور Long run میں مستقل طور پہ بچنے کی بھی صورتیں ہوتی ہیں۔ جیسے غصّے کے بارے میں ہے کہ بیٹھ جائے، بیٹھا ہو تو لیٹ جائے ورنہ پانی پئے، جگہ تبدیل کرے یہ سارے Short term ہیں۔ یعنی تربیت نہیں ہوئی لیکن عقل کو اتنا پتا ہے کہ غصّہ اچھی بات نہیں ہے۔ غصّہ آ گیا تو غصّے کے اس phase سے میں اپنے آپ کو کیسے نکال سکتا ہوں؟ تو یہ تھوڑے تھوڑے steps ہیں جن کے ذریعے واقعی فائدہ ہو جاتا ہے لیکن اگر بالکل اصلاح ہو جائے تو پھر اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کیونکہ پھر غلط بات پہ غصّہ ہی نہیں آئے گا۔ چنانچہ جب کبھی کوئی رذیلے کے بارے میں پوچھتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ اصل علاج پوری تربیت ہے لیکن جب تک نہ ہو تو یہ کریں۔ یہاں پر بھی اس قسم بات ہے کہ پھر عقل سے کام لیں اور اس کو ضائع ہونے سے بچا لیں۔ اور اگر کسی نے عقل بیچ کے کھائی ہے تو میرے خیال میں پھر ہم لا جواب ہو جائیں گے۔

سوال 8:

کینہ اور بغض وغیرہ انسان کے دل ہی دل میں ہوتے ہیں۔ وہ ظاہر نہیں کرتا لیکن کبھی ظاہر ہو جائے تو گالی گلوچ ہوتی ہے اور لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی آخر کار غصے کے After effects میں وہی چیزیں شروع ہو جاتی ہیں۔

جواب:

یہاں پر بھی عقل کا استعمال ہو گا۔ جیسے اس کو پتا ہو کہ کینہ رکھنے سے میری دعائیں قبول نہیں ہوں گی اور میرے اعمال قبول نہیں ہوں گے۔ کہتے ہیں کہ پیر اور جمعرات کے دن مشرک کے علاوہ سب لوگوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کسی کے دل میں کینہ ہو تو اس کو postpone کر دیا جاتا ہے کہ جب تک وہ آپس میں اپنے معاملات بہتر نہ کریں ان کی مغفرت نہیں کی جاتی۔ اس صورت میں اپنی عقل استعمال کر کے اپنے آپ کو کینہ وغیرہ سے بچائیں۔ کہہ دیں کہ میرے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔ اگر دل سے نہیں نکال سکتا تو اس کے تقاضے پہ عمل نہ کرے۔ یعنی اگر کسی تقاضے کی وجہ سے کوئی چیز آئی تھی کہ اس کو یہ نقصان پہنچا دے تو اس وقت یہ نہ کرے اور اپنے آپ کو بچائے اور اپنے آپ کو سمجھاتا رہے۔ چنانچہ وہ کینہ وسوسے کی صورت اختیار کر لے گا اور active کینہ نہیں ہو گا۔

سوال 9:

اگر کسی کی پوری اصلاح نہیں ہوئی بلکہ ابھی وہ کوشش کر رہا ہے۔ لیکن دنیا کے کاموں کے لئے بازاروں وغیرہ میں گھومتا ہے جہاں کافی غلط قسم کے کام ہو رہے ہوتے ہیں جن کی طرف ذہن متوجہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کو فوری طور پر کیا کرنا چاہیے جس سے کم از کم کسی گناہ سے بچ سکے؟

جواب:

اول تو ایسی جگہوں پہ جانا نہیں چاہیے جہاں اس قسم کا مسءلہ ہو۔ البتہ اگر انسان کسی ضروری کام سے جاتا ہے تو پھر نگاہیں نیچے کر کے جائے اور جلد از جلد اس کام سے فارغ ہو کر واپس آنے کی کوشش کرے۔ مدد کے طور پر ایک دعا پڑھتا رہے: "یَا ھَادِیُ یَا نُوْر لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم" چوتھا کلمہ جو بازار کی دعا ہے وہ بھی پڑھ لیں اور یہ دعا بھی پڑھتے رہیں، ان شاء اللہ اللہ تعالی کی حفاظت میں ہوں گے اور ذہن کو یہ مستحضر کرتے رہیں کہ اگر اسی وقت میری موت آ گئی تو کیسی خطرناک موت ہو گی! یہ چیز ان کو ان شاء اللہ بچائے رکھے گی۔

سوال 10:

اللہ تعالیٰ کی ذات اصل ہے اس کے علاوہ ہر چیز ناقص ہے۔ یہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ اب انسان بعض اوقات کچھ عرصہ کے لیے تعجیل کرتا ہے اور کم پہ قناعت کر لیتا ہے۔ آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ حضرت سعید الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ کو جنت دکھائی گئی انہوں نے ٹھکرا دیا۔ اب عبدیت کا تقاضا اور اس کا اونچا مقام کیا ہے؟ اللہ کی دی ہوئی نعمتیں اور انعامات کو قبول کیا جائے یا ان کو اللہ کی اطاعت کے مقابلے میں ٹھکرا دیا جائے؟

جواب:

آپ ﷺ سے زیادہ اونچا مقام کسی کا نہیں ہے لہٰذا آپ ﷺ نے آخیر وقت میں جو کیا تھا وہی عبدیت کا اونچا مقام ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تھا: "اَللّٰہُمَّ الرَّفِیقَ الْاَعْلٰی"(بخاری شریف، حدیث نمبر: 4463)

ترجمہ: ”اب تو رفیقِ اعلٰی ہی درکار ہے۔“

لہٰذا آپ ﷺ نے جو مانگا تھا وہی حضرت سعید الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ نے مانگا۔ چنانچہ انہوں نے سنّت کا اتباع کیا ہے۔ باقی جتنا جس کا بس ہے اتنا وہ کر لیتا ہے۔ چوں کہ اللہ پاک سب پر مہربان ہیں اور ایک بڑا طبقہ اتنے اونچے مقام پر نہیں جا سکتا، اس وجہ سے بڑے طبقے کے لئے جو چیز ہے وہ ہر ایک کے لئے open ہے اور وہ یہی ہے کہ "اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ الْجَنَّة وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ" کہ اے اللہ! میں آپ سے جنّت مانگتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں۔ اور جو دوزخ سے بچ گیا اس کے بارے میں قرآن پاک میں آتا ہے کہ وہ بہت بڑی کامیابی کو پا گیا۔ معلوم ہوا زیادہ تر لوگوں کے لئے یہی ہے البتہ اگر ہم بڑے مقام والوں کے مقام کو نہیں پا سکتے تو ان پہ اعتراض بھی نہیں کر سکتے۔

سوال 11:

بعض اوقات جب محبت share ہو جاتی ہے جیسے والدین کی محبت، گھر والوں کی محبت، وطن کی محبت یعنی اس کی جو جائز صورتیں ہیں، یہ آ گے اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف پہنچاتی ہیں یا ان سب کا اپنا الگ الگ حصہ ہوتا ہے؟

جواب:

جائز محبّت سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک نے اس کو جائز قرار دیا۔ اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی محبّت کا تابع کر دیا پس یہ محبّت اللہ پاک کی محبّت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ البتہ اللہ کی محبّت ان سب کے اوپر غالب اور زیادہ مستحضر ہونی چاہیے تاکہ یہ محبتیں اللہ تعالی کی محبّت کے لئے حجاب نہ بن جائیں۔ چونکہ یہ جائز محبتیں ہیں لہٰذا ان میں کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ ان کو priority اتنی دے جتنی ان کو اللہ تعالی نے دی ہے۔ یعنی "لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِق" (بخاری شریف، حدیث نمبر 2955)

ترجمہ: ”مخلوق میں سے کسی کی اطاعت نہیں ایسے کام میں جس میں اللہ کی نا فرمانی لازم آئے۔“

اگر اللہ کی محبّت سے وہ محبّت زیادہ ہو گی چاہے وہ جائز بھی ہو گی لیکن نا جائز ہو جائے گی۔ یعنی اس کو priority اتنی ہی دینی چاہیے جتنی specified ہے۔

سوال 12:

آپ کے نزدیک سالکین کو زیادہ نقصان statistically یعنی سستی یا غفلت سے ہوتا ہے یا گناہوں سے یا یہ جو نورانی حجابات ہیں ان سے ہوتا ہے؟ اس میں سب سے زیادہ نقصان کن چیزوں سے ہو رہا ہوتا ہے؟

جواب:

غفلت سے۔ باقی چیزیں اس کے ساتھ attached ہیں۔

سوال 13:

حضرت بعض اوقات انسان کوئی کام normally حالات میں شاید سنت کے مطابق نہ کرتا ہو یا اس کی اتنی پرواہ نہ کرتا ہو لیکن اگر شیخ سامنے ہو بے شک وہ اس کی طرف دیکھ بھی نہ رہا ہو لیکن وہ اس وقت وہ کام بڑے محتاط انداز میں سنت کے مطابق کر جاتا ہے۔ یہ کس وجہ سے ہوتا ہے؟

جواب:

یہ نیچرل ہے۔ آپ ﷺ نے غالباً ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا: میں آپ کو سن رہا تھا جب آپ پڑھ رہے تھے۔ عرض کی: مجھے اگر پتا ہوتا تو میں اور زیادہ سنوار کے پڑھتا۔ شیخ کے ساتھ محبّت نیچرل ہے اور یہ محبّت اللہ کے لئے ہوتی ہے۔ جیسے شیخ کی نشانیوں میں آٹھویں نشانی یہ ہے کہ اللہ یاد آ جائے۔ جب اللہ یاد آ جائے گا تو پھر کام بنے گا پھر آسانی ہو جائے گی۔ اسی لئے تصور شیخ کو ذریعہ بنایا گیا تھا۔ تصوف میں تصور شیخ با قاعدہ کروایا جاتا تھا۔ اب بھی بعض سلسلوں میں یہ چیز موجود ہے۔ لیکن چوں کہ اب لوگوں میں وہ احتیاط نہیں رہی، شیخ کے تصور سے بعض دفعہ ان کی شکل بھی متشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے حالات میں بعض لوگ شیخ کو حاضر ناظر سمجھنے لگتے ہیں، یہ چونکہ ہمارے عقیدے کے خلاف ہے لہٰذا لوگوں کو بچانے کے لئے ہم تصور شیخ نہیں بتاتے۔ لیکن اگر کسی کا عقیدہ صحیح ہے تو تصور شیخ آج بھی ایسے ہی مفید ہے جیسے پہلے مفید تھا۔ ہمیں اپنے شیخ جب بھی یاد آ جاتے ہیں تو الحمد للہ ہمیں فائدہ ہو جاتا ہے۔ جیسے آپ نے فرمایا کہ شیخ کی موجودگی میں انسان کو اچھے اعمال کی توفیق ہو جاتی ہے، اسی طرح شیخ کے تصور میں ہونے سے بھی اچھے اعمال کی توفیق ہو جاتی ہے۔ اسی کے لئے یہ تصور کروایا جاتا تھا۔ شیخ کے تصور کے بارے میں ہماری ایک نظم ہے۔

نظم

ہم تصور میں شیخ کو دیکھیں اور شیخ کے فیض سے ملے ہم کو خدا

شرک کیسے یہ تصور ہے کہ اس سے کیا ہوتے ہیں خدا سے جدا

یہ تو اک پل ہے جس پہ ہم گزر کے آ گے پا جائیں منزلِ مقصود

شیخ کا کام ہے ملانا اس سے فرض اپنا کرتے ہیں وہ اس سے ادا

ہاں مگر جس میں احتیاط نہ ہو، نہیں جائز اسے تصور یہ

ممکن ہے اس کے منہ سے نکلے کبھی غیب میں بصیغۂ حاضر کچھ ندا

اس لئے اپنے بزرگ دیتے نہیں یہ تصور عوام کو آج کل

کسی نا سمجھ کے کلام سے نہ ہو کوئی لفظ شرک کا کبھی ہویدا

ہاں مگر خود بخود کسی کو ملے اس کو روکتے بھی نہیں اس سے کہ

اپنی نعمت کی لاج رکھتے ہیں وہ شبیر اس کی یہ عادت ہے سدا

اس لئے جب خود بہ خود کسی کو مل جاتا ہے تو اس کو نہیں روکتے لیکن اگر خود نہیں ملا تو دیتے بھی نہیں ہیں۔ یہ اصل میں ایک ادب ہے۔

شیخ کی مرید کے لئے کیا حیثیت ہوتی ہے۔ یہ ایک زبردست کلام ہے۔

نظم

یہ یقیناً بزرگوں سے ہے شنید

نبی(ﷺ) کا نائب شیخ برائے مرید

مظہر اللہ کی صفت ہادی کا

اور اخروی کامیابی کا نوید

نظر آئے شیخ جب تجھے سوچتا ہوں

تو ياد آئے اس کو جو میں دیکھتا ہوں

مرا شیخ مجھ کو تجھی سے ملا دے

میں عاشق ہوں تیرا تجھ ہی کو میں چاہوں

مرا شیخ مجھے دیکھ کر مسکرائے

ہو خوش دیکھ کر یہ کہ میں بھی ترا ہوں

یہ دل کا تعلق ہی ہے اس کے دل سے

جدھر بھی وہ جائے تو میں بھی وہاں ہوں

میں ان میں فنا ہو کے تجھ ہی کو دیکھوں

کہ نقش قدم پہ میں ان کے چلا ہوں

محبت میں شیخ کے ہوا تیرا شبیر

فنا ہو کے اس میں، میں تجھ پر مٹا ہوں

چنانچہ ان چیزوں کو محفوظ بھی رکھنا ہوتا ہے کیوں کہ مفید چیزیں ہیں اور ان کو غلط چیز کے لئے استعمال بھی نہیں کرنا ہوتا۔ کیوں کہ ہر مفید چیز کی حفاظت کرنی پڑتی ہے، اس کو غلط چیز کے لئے بھی استعمال کرنا ممکن ہوتا ہے۔ جیسے چھری، بندوق وغیرہ اپنی حفاظت کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن ان سے اپنی حفاظت بھی کرنی ہوتی ہے کہ کہیں خود ہمیں ہی نہ مار دے۔ اس طریقے سے ہر وہ چیز جس کے غلط استعمال سے انسان ڈرتا ہے وہ غلط نہیں ہوتی بلکہ اس کا غلط استعمال غلط ہوتا ہے۔

سوال 14:

Normal routine میں اگر ہم کوئی نیک کام کرنے کا سوچیں یا اپنی ترتیب سے ہٹ کے کرنے کا سوچیں تو کچھ کوتاہیاں ہوتی ہیں لیکن اگر ہم شیخ کا اتباع کرنا شروع کر دیں تو ہمارے فرائض وغیرہ تو سیدھے ہو جاتے ہیں لیکن دل کا رجحان گناہوں کی طرف بھی زیادہ بڑھتا ہے۔ یہ اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

Mathematics کے ذریعہ سے پروف کا ایک طریقہ ہوتا ہے کہ Extreme value suppose کی جاتی ہے جس سے دیکھتے ہیں کہ رزلٹ کیا آتا ہے؟ اس سے پھر conclusion draw کرتے ہیں۔ کافر کو زیادہ وسوسے آئیں گے یا مسلمان کو زیادہ وسوسے آئیں گے؟ مسلمان کو آئیں گے۔ کیا خیال ہے نَعُوذُ بِاللهِ مِن ذٰلِك اسلام چھوڑنا چاہیے؟ وسوسے آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا ہے چونکہ وہ مسلمان ہے لہٰذا اس کا ہر ہر عمل اس کو اللہ کے قریب لے جا رہا ہے لہٰذا شیطان کی Full attention اس کی طرف ہے کہ کوئی عمل بھی اس کا اللہ تعالی کے قریب جانے والا نہ ہو۔ پھر وہ compromise کرتا ہے، اگر کسی کو کبیرہ میں نہیں ڈال سکتا تو صغیرہ میں ڈال دیتا ہے۔ اگر صغیرہ میں نہیں ڈال سکتا تو نیکی سے روک دیتا ہے۔ نیکی سے نہیں روک سکتا تو کسی لا یعنی کام میں کوئی priority اس کی اس طرح سیٹ کر لیتا ہے جس میں وہ چکّر میں آ سکتا ہے۔ کیوں کہ شیطان ہر ایک کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکتا بلکہ ہر ایک کے لئے اس نے الگ جال بنایا ہوتا ہے۔ معلوم ہوا اگر اسلام کی حالت میں ہو تو وسوسے سے بچنا ممکن نہیں لیکن وساوس میں شدّت اس وقت آتی ہے جب انسان ایک اور خیر کی طرف step اٹھائے اور شیخ کے پاس آ جائے۔ شیخ کے پاس آنے کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ شیطان کی رینج سے اور باہر نکل رہا ہے، جب اس کی اصلاح ہو جائے گی تو بہت ساری باتوں میں شیطان بے بس ہو جائے گا تو اور زیادہ زور لگائے گا۔ اس وقت اس کا مقابلہ کرنا چاہیے یہاں تک کہ اس کو اس حد تک رسوخ حاصل ہو جائے کہ پھر وہ اس سے خود اپنے آپ کو نہ بچا سکے۔ معلوم ہوا اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے خوش ہونا چاہیے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی statement تھا کہ شیطان کے وسوسوں سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ خوش ہونا چاہیے۔ اس خوشی کو دیکھ کر شیطان بھی گھبرا جاتا ہے اور وہ وسوسے ڈالنا چھوڑ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر جب اللہ پاک کی ذات کے بارے میں وسوسے آئیں تو سمجھو کہ اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق اتنا مضبوط ہو گیا کہ شیطان اس سے ڈر گیا۔ جب آپ ﷺ کے بارے میں وسوسے آ جائیں تو سمجھو کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تعلق اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ شیطان اس سے ڈر گیا اور جب شیخ کے بارے میں وسوسے آنے لگیں تو آپ کہیں کہ شیخ کے ساتھ میرا تعلق اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ شیطان اس سے ڈر گیا۔ لہٰذا اس سے خوش ہونا چاہیے کہ اچھا ہوا شیطان کو فکر ہو گئی، الحمد للہ میں اس کے ان لوگوں میں آ گیا جن پہ وہ غصّہ ہے۔ تو اگر ہمارا دشمن ہم پہ غصّہ ہو تو کیا اچھا نہیں ہو گا؟ Mathematics کام آ گئی ما شاء اللہ۔

نظم

ایک پیر کی اپنے مرید کے بارے میں پریشانی:

فلاں مرید کی مجھ کو سمجھ کیوں آئی نہیں؟

کیوں کسی طرح بھی ترقی اس نے پائی نہیں؟

فکر میں اس کی میں، روحانی زندگی کے لئے

کوشش میں جتنی کروں اس کی ترقی کے لئے

جتنا سمجھاؤں اسے، اس کی بہتری کے لئے

وہ بھی کوشش کرے خوبی سے ہاں اسی کے لئے

کوئی کوشش مری کارگر کیوں نظر آتی نہیں

اس سے ہی پوچھوں، پریشانی کیوں یہ جاتی نہیں

پیر مرید سے پوچھتا ہے:

میرے بیٹے، یہاں تو کس نیت سے آیا ہے؟

خیال کون سا یہ تیرے دل پہ چھایا ہے؟

اس خانقاہ میں ڈیرہ کیوں جمایا ہے؟

کس طرح تو نے یہاں کا سراغ پایا ہے؟

کیونکہ نیت پہ ہیں مدار جو سارے اعمال

بعد اس کے ہیں، سارے قال اور سارے احوال

میں ترے دل کے ارادے سے خبر دار نہیں

تیری خدمت سے مجھے گو کوئی انکار نہیں

بے اس کے جانے آگے بڑھنے کو تیار نہیں

کہ اس طریق میں میرا کوئی اختیار نہیں

خدا ہی دل کے ارادے سے ہوتے ہیں آگاہ

وہی ہر ایک کو دکھاتے ہیں اس طریق میں راہ

مرید جواب دیتا ہے:

اے مرے شیخ، مرا دل چاہے کہ حاصل میں کروں

جو آپ کے پاس ہے اس سے خود کو واصل میں کروں

خیر خوبی سے طے پھر سارے منازل میں کروں

پھر باقی لوگوں کو اس کام میں شامل میں کروں

میں بھی خدمت کروں دیں کی جو آپ کرتے ہیں

مجھے یقین ہے آپ حق کی راہ پہ چلتے ہیں

کتنی اچھی باتیں کر رہا ہے۔

آپ کی خدمات کو دیکھ کر منہ میں پانی آئے

جو بھی آیا ہے پاس آپ کے وہ فیض پائے

آپ کے در سے خالی ہاتھ نہ کوئی جائے

کاش مجھ کو بھی ہو حاصل یہ سعادت ہائے

میں بھی مخلوق کو آپ کی طرح فیضیاب کروں

رب کی مخلوق پہ شفقت، میں بے حساب کروں

مرید نے جب اپنا حال بتا دیا تو پیر چونک پڑا اور کہا:

اوہ یہی بات تو رکاوٹ ہے ترقی میں تری

یہی تو روڑہ ہے اب جانوں سعی میں تری

اب کوئی شک نہیں، کوئی بھی بے حسی میں تری

اف کہ ظلمات بھری چیز ہے روشنی میں تری

یعنی یہ نوری حجاب ہے۔

ابھی سے تو نے پیر بننے کی ٹھان لی ہے

میں کہوں اس سے بس، اخلاص کی تو نے جان لی ہے

یعنی اخلاص سے تو نے جان نکال لی۔

اپنی اصلاح ہی پہ ہے کامیابی کی نوید

پیر بننے کی نیت کی نہیں ہے کوئی خرید

ایسی نیت نہیں ہے کچھ، مگر اصلاح میں چھید

ایسی نیت ہو تو مجھ سے کیا سنو گے مزید

یہاں تو عشق اور فنا کا ہے کاروبار بیٹے

کیا ایسے کام کے لیے ہے تو تیار بیٹے؟

جب تو عاشق ہے، مشیخت سے ترا کام ہے کیا

جس میں دنیا کی نجاست ہو تو وہ جام ہے کیا

یہ دل میں چور ترا تسخیر خاص و عام ہے کیا

تجھ کو معلوم ہے ایسے خیال کا انجام ہے کیا

اس کے دربار میں، پاک دل ہی کی پہنچ ہے بس

پہنچنا چاہے گو دربار میں اس کی ہر کس

ہر ایک ادھر جانا چاہتا ہے لیکن اس کے دربار میں پہنچ صرف پاک دل والے کی ہے۔

کچھ لینا چاہو تو اس خیال سے توبہ کر لو

نوری دنیا ہے اس سے بھی خود کو جدا کر لو

اپنی کوشش کرو اور رب پہ بھروسہ کر لو

اس کے دربار میں بے دریغ خود کو فنا کر لو

بھول جا فخر کی چیزیں اور خاکسار بن جا

اس کی نعمت سے بہریاب، شکر گزار بن جا

اب مرید توبہ کرتا ہے:

میں اپنے خیال سے، مرے شیخ توبہ کرتا ہوں

یہ جو گھاٹی میں گرا تھا اس سے نکلتا ہوں

راستہ اخلاص کا نظر آیا اس پہ چلتا ہوں

اب تو میں عشقِ الٰہی کا ہی دم بھرتا ہوں

اپنی اصلاح ہی کی نیت دل میں اب ٹھان لی ہے

کہ اس طریق کی حقیقت بھی میں نے جان لی ہے

مرے الٰہ مجھے اس راہ میں قبول کرے

اب مرے دل میں صرف وہ ہی رہے، وہ ہی رہے

مجھے شیطان کے وساوس سے تو اب دور رکھے

جو بھی سالک ہے، بنے ایسا اب شبیر کہے

اس بڑے فتنے سے یا رب، اب بچانا ہم کو

ہے جو طریقِ صفا، اس پہ چلانا ہم کو

یعنی انسان کیسی کیسی گھاٹیوں میں گر جاتا ہے۔ یہ بہت خطرناک باتیں ہیں۔

سوال 15:

حضرت جس طرح ان اشعار میں بھی یہ بات تھی اور انسان کے ذہن میں بھی یہ سوال آ سکتا ہے کہ اگر ظلماتی حجاب ہو تو اس کا تو پتا چل جائے گا کہ یہ میں برا کر رہا ہوں لیکن اگر نورانی حجاب ہو تو اس کا پتا کیسے چلے گا؟

جواب:

شیخ کو پتا چل جاتا ہے جب مرید اپنے احوال بتاتا ہے اور شیخ اس سے منع کر دیتا ہے۔

کشفیات کی حقیقت

ایک مرید دوسرے مرید سے کہتا ہے:

ہمارے سلسلے کے دیکھو برکات کیا ہیں

مجھ سے پوچھو کہ آج کل میرے حالات کیا ہیں

مجھ پہ احوال دوسروں کے اب کھل جاتے ہیں

وہ جیسے ہوتے ہیں اندر سے نظر آتے ہیں

مرے رب، فضل سے مجھ کو یہ سب دکھاتے ہیں

پردے آنکھوں سے مری روز روز ہٹاتے ہیں

جس کی اصلاح نہیں ہوئی ہو وہ معلوم ہو سب

معلوم مقام ہو ان کا کسی کو دیکھوں جب

دوسرا مرید کہتا ہے:

میرے بھائی، مجھے خطرہ سا نظر آتا ہے

سلسلے سے تیرا انداز نہیں میل کھاتا ہے

چلیں اب شیخ سے ہو معلوم حقیقت اس کی

ہم پہ کھل جائے اس طرح کچھ حیثیت اس کی

ہم کو معلوم ہو طریق میں حاجت اس کی

گو کہ آپ سے تو جان لی ہے برکت اس کی

مگر طریق میں اس کا خیر و شر تو شیخ جانے

وہ جو اس میں کہے، تو بس وہ مرا دل مانے

اب وہ شیخ کے پاس جاتے ہیں۔ پہلا مرید شیخ سے پوچھتا ہے:

اے مرے شیخ یہ مرا دوست کشف مانتا نہیں

کشف کے بارے میں کچھ بھی شاید یہ جانتا نہیں

اس لئے کشف کو طریق میں حق گردانتا نہیں

اس لئے حق اور اہل حق کو یہ پہچانتا نہیں

کیا بزرگوں کو کشف ہوتا نہیں ہے یہ حق؟

یا اس طرح سے ان کا کہیں الٹا ہے سبق؟

دوسرا مرید کہتا ہے:

اے مرے شیخ مجھے کشف سے انکار نہیں

میں یہ کہتا تھا کہ بس کشف پر مدار نہیں

اور ان کشفی نظائر کا اعتبار نہیں

پر مری بات سمجھنے کو یہ تیار نہیں

اب تو اس بات میں آپ کا ہی قول فیصل ہو گا

آپ ہی سے ہمارا یہ مسئلہ حل ہو گا

اب شیخ فیصلہ کرتا ہے:

مرے بیٹو کشف ایک چیز غیر اختیاری ہے

اس میں دھوکے کا بھی امکان بہت بھاری ہے

اس سے بچنا بھی اہل کشف کی ذمہ داری ہے

جو کہ پھنس جائے اس میں اس کی بہت خواری ہے

ہاں مگر کشفِ بزرگان سے انکار نہیں

مگر کمال کا اس پر کوئی مدار نہیں

یعنی بزرگ بن گئے ہوں تو ان کو کشف بھی ہو رہا ہو گا۔ یہ نہیں ہے کہ کشف ہو رہا ہے تو بزرگ بن گئے۔

اس کے حصول کا خیال ہے مگر اخلاص کی نفی

خود بخود ہووے بدوں طلب تو پھر ہو یہ صحیح

کچھ مگر اس کی حیثیت نہیں ہے پیشِ وحی

جو مطابق ہو اس کا وحی تو ہے ٹھیک وہی

قابلیت کوئی سمجھے اسے تو ٹھیک ہے بات

یہاں تک جائز ہے۔

قبولیت کا تعلق نہیں ہے اس کے ساتھ

معلوم ہوا قبولیت چاہیے۔

یہ الہامی مضامین ہیں خدا کی قسم، یہ میرے بس کی باتیں نہیں ہیں۔ کون اس کو اس طرح جوڑ سکتا ہے؟ یعنی قابلیت اور قبولیت والی ساری باتیں ہمارے بس کی بات نہیں۔

کشف اپنے عیوب کا ہو کبھی چاہیے گر

اگر کسی کو چاہیے تو اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے۔

اپنی اصلاح کے لئے ہے یہ بہت اچھی نظر

نہ کہ آنکھ ہو مرکوز دوسروں کے عیوب پر

بے ضرورت ہو اگر یہ ہے شیطاں کا اثر

ہو اگر شیخ کو تو اس سے مستثنیٰ ہے وہ

کیونکہ اصلاح میں دوسروں کی مبتلا ہے وہ

شیخ مجبور ہے اس کو اگر اللہ پاک اصلاح کے لئے کسی کا کشف کرا دے تو وہ خود نہیں کرنا چاہتا اس کو اللہ تعالیٰ کرا رہا ہے وہ ذریعہ بن رہا ہے تو وہ مجبور ہے۔ باقی لوگوں کو کشف کی کیا ضروت ہے؟ وہ کیوں کشفوں کے پیچھے پھر رہے ہیں؟

جس کو حاصل نہ ہو اس کی وہ سعی نہ کرے

جس کو حاصل ہو نا جائز پیش قدمی نہ کرے

جو شریعت کا مخالف ہو تو وہی نہ کرے

اپنی اصلاح سے غفلت شبیر کبھی نہ کرے

آخری شعر بہت زبردست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمایا

عشق کے میدان میں کھلونوں سے دل بہلانا نہ ہو

یہ جو ہیں کھیل تماشے، تو ان پہ آنا نہ ہو

یعنی یہ کھیل تماشے ہیں ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔ فلاں چیز نظر آ جائے، فلاں چیز نظر آ جائے۔ یہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کرنے والی بات ہے۔

خانقاہی تعلقات کا دنیا کے لئے استعمال۔

یار مرا بچہ جو بیمار بہت رہتا ہے

اس کے علاج کے بارے میں تو کیا کہتا ہے؟

اس خانقاہ میں ڈاکٹر بہت سے آتے ہیں

ہمارے شیخ سے اصلاح وہ سب پاتے ہیں

ساتھی بعض اپنے کچھ علاج ان سے کرواتے ہیں

ان میں بچوں کے بھی ایکسپرٹ بعض کہلاتے ہیں

کیا اپنے بچے کا علاج ان سے کرواؤں نہیں؟

کیا اپنے بچے کو بیماری سے بچاؤں نہیں؟

دوسرا مرید کہتا ہے:

بھائی یہ ٹھیک ہے بچے کا علاج کرنا ہے

مگر اخلاص سے نکلنے سے بہت ڈرنا ہے

ٹھیک ہے تھوڑا سا فائدہ اس سے حاصل ہو گا

مگر دنیا سے ملوث یہ اپنا دل ہو گا

کیونکہ دنیا پہ ہی اپنا یہ دل مائل ہو گا

اپنی روحانی ترقی میں یہ حائل ہو گا

دنیا اور دین ہوں اکٹھے تو ہو دنیا کی جیت

کہ عاجلہ سے محبت ہی ہے دنیا کی ریت

اب پہلا مرید کہتا ہے:

ہم زبردستی کب علاج ان سے کرواتے ہیں؟

مفت انعام خدا کا خدا سے پاتے ہیں

وقت کلینک پر اگر جانے سے بچاتے ہیں

وہ وقت دین کے استعمال میں ہم لاتے ہیں

ہاں مگر ٹھیک ہے ہم شیخ سے ہی پوچھ لیں اب

کہ کسی بات پہ ہم لوگ مطمئن ہوں سب

اب فیصلہ شیخ پر چھوڑ دیا تو شیخ کیا کہتا ہے:

میرے بیٹو رب نے دی ہیں یہ نعمتیں دیکھو

ان نعمتوں میں ہی پھر اس کی حکمتیں دیکھو

ان نعمتوں کے پھر حصول کی محنتیں دیکھو

اور جو لوگوں کی مختلف ہیں حالتیں دیکھو

سب کے اوقات سب کے مال ملکیت ان کی

اور پھر ان سب کا استعمال حکومت ان کی

طیب خاطر کے بغیر ان سے کوئی چیز لینا

یا ان کی مرضی کے بغیر کوئی تکلیف دینا

سوچ حکومت میں یہ ان کی مداخلت ہے نا

ہوتی تکلیف ہے ہر ایک کو جو اس سے نا

کسی کی حکومت میں کوئی مداخلت کرے تو تکلیف ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟

ہم اپنی دنیا ان کے دین پر منحصر کیوں کریں؟

ایسا بے جا جو تصرف ہے پر خدا سے ڈریں

کہیں اس کے لئے ہم دین سے رکاوٹ نہ بنیں

تو ضرورت بہت اس کی ہے کہ حدود میں رہیں

ہم طمع لوگوں سے کوئی نہ اپنے دیں پہ رکھیں

کہ یہ اخلاص کا مخالف ہے تو ہم اس سے بچیں

ان سے گر چاہیے کوئی بھی ہو خدمت لینا

تو ہمارا ہو پھر ضرور اس پہ اجرت دینا

یعنی اگر لینا ہے تو اجرت دے دو۔

ان سے گر چاہیے کوئی بھی ہو خدمت لینا

تو ہمارا ہو پھر ضرور اس پہ اجرت دینا

کسی سے بھی کبھی دنیا کا نہ کریں ہم سوال

سوال کیا کہ ہم نہ دل میں اس کا رکھیں خیال

اس کا گر دین ہو بنیاد تو کیسا ہے یہ حال

دین کا بیچنا دنیا پہ ہے شیطان کا جال

عشق کے زور سے یہ جال توڑنا ہے شبیر

حق پہ کب رہتا ہے، ہو جائے جو خواہش کا اسیر

مقصد یہ ہے کہ جو تعلقات خانقاہ کے ہیں ان کو اللہ کے لئے استعمال کیا جائے، اپنی ذات کے لئے نہیں۔

یہ چیز واقعی بہت عجیب ہے۔ شیطان بہت بڑی چیز سے رخ موڑ کے تھوڑے فائدہ کی طرف مائل کرتا ہے۔ قرآن کے حافظ آج کل کتنے زیادہ ہیں۔ اتنی عظیم چیز کو کن چیزوں کے لئے استعمال کرتے ہیں؟ بس بے چارے پھنس جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ معمولی معمولی باتوں کے لئے اپنا دینی سٹیٹس قربان کر دیتے ہیں۔

ایک بزرگ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کوئی تھان خرید رہے تھے۔ نرخ طے کر رہے تھے۔ بزرگ نرخ طے کرتے ہیں تاکہ لوگ ان کو دھوکہ نہ دے سکیں۔ دکان دار اس قیمت پہ تیار نہیں تھا جس پہ حضرت لینا چاہتے تھے۔ پاس کھڑے ہوئے شخص نے کہا: خدا کے بندے! پتا ہے یہ کون ہیں؟ یہ سعید بن مسیب ہیں۔ اس نے جیسے ہی ان کا نام سنا اس کے ہاتھ پیر پھول گئے۔ کہتا ہے: حضرت بس آپ کے لئے یہی ٹھیک ہے جو آپ کہہ رہے ہیں۔ حضرت نے تھان ہاتھوں سے نیچے رکھ دیا اور فورًا یہ کہہ کر دکان سے نکل گئے کہ میں اپنے آپ کو اتنے تھوڑے پیسوں پہ نہیں بیچ سکتا۔ یعنی جو مقام اللہ نے مجھے دیا ہے اس کو میں اس چیز کے لئے قربان نہیں کر سکتا۔ یہ ایک چیز ہوتی ہے جو اللہ پاک نے عنایت فرمائی ہوتی ہے چنانچہ ایسی چیزوں کے لئے ان کو استعمال نہ کیا جائے۔ مثلاً کرنسی کو کیوں justification کیا ہے؟ اگر جنس کے بدلے جنس خریدیں گے تو جیسے آپ کے پاس آٹا ہے تو وہ اپنے ساتھ لیکر پھرتے رہیں گے پھر اس کے بدلے جو چیز لیں گے وہ لیکر پھرتے رہیں گے۔ اس کے لئے پھر ہر وقت آپ کے پاس سوزوکی ہونی چاہیے یعنی اچھا خاصا مشکل کام ہو گا۔ اس کے لئے درمیان میں کوئی ایسی چیز ہو جو انٹر میڈیٹ ہو اور دوسرا اس کو چینج کر لے جیسے فارن ایکسچینج۔ چنانچہ آپ بھی پیسوں پہ چیز بیچتے اور خریدتے ہیں۔ دوسرا بھی پیسوں کے ذریعے بیچتا اور خریدتا ہے۔ کسی کی سروسز ہیں، کسی کا مال ہے، کسی کی پروڈکشن ہے مختلف لوگ مختلف کام کر رہے ہیں اور سب چیزیں پیسوں پہ آ رہی ہیں لہٰذا یہ پیسہ درمیان میں flow کر رہا ہوتا ہے اور لوگوں کے کام ہو رہے ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کا کام بھی ہو رہا ہوتا ہے، انجینئرنگ کا کام بھی ہو رہا ہوتا ہے، پروفیسر کا کام بھی ہو رہا ہوتا ہے، مزدور کا کام بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ درمیان میں لنک ہے۔ اگر ہم لوگ آپس میں یہی چیز رکھیں تو سب کو اپنا اپنا حق ملے گا، گناہ اور نقصان بھی نہیں ہو گا۔ بالکل ایسی ہی مثال ہے کہ سب لوگ اگر رشوت نہ لیں تو سب لوگ راحت سے ہوں گے، بغیر رشوت کے سب کا کام ہو گا۔ اگر ایک آدمی ایک سے رشوت لیتا ہے، دوسرا اس سے رشوت لیتا ہے، تیسرا اس سے لیتا ہے اور یہ سرکل میں چلتا رہتا ہے اور کوئی آدمی بھی نہیں بچتا، سارے لوگ جہنم کے لئے تیار ہو رہے ہوتے ہیں۔ اگر بغیر رشوت کے کر رہے ہوتے تو سب لوگ جنت کے لئے تیار ہو رہے ہوتے اور سب کے کام بھی ہو رہے ہوتے۔ اس وجہ سے اگر ہمارے ساتھیوں میں بھی کچھ لوگوں کی سروسز ہیں، کچھ لوگوں کا مال ہے اگر وہ اس طریقے سے کام کریں تو گناہ گار بھی نہیں ہوں گے اور کام بھی ہو رہا ہو گا، غیرت بھی داؤ پہ نہیں لگے گی، ہر ایک اپنا اپنا کام سیل کرے گا۔

آپ assignment پہ پیسے رکھیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی اپنی فیس رکھیں۔ کوئی گاڑی رینٹ پے لے تو اس کے پیسے لے کوئی مسءلہ نہیں، فیول کے ہی لے لیں یا وقت کے لے لیں، سروس کے لے لیں۔ جتنی بھی رسومات یا رواج ہیں ان کے اندر سب کے ساتھ ہوتا ہے مثلاً کوئی دے رہا ہے تو بعد میں لے بھی رہا ہے۔ معاملہ تو پھر وہیں ہے۔ اگر ٹرانزیکشن ہی ہے تو صحیح طریقہ سے کرو۔

میرے سامنے اس طرح کے بہت سارے واقعات اور تجربے ہیں۔ اگر کوئی آدمی آپ کے سامنے برا محسوس کر کے نہیں کہہ رہا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بعد میں بھی نہیں کہے گا۔ کبھی موقعہ آئے تو بول پڑتا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات تھی لیکن طیب خاطر نہیں ہوئی۔ میڈیکل سپیشلسٹ ڈاکٹروں کے پاس کچھ اچھے لوگوں کا آنا جانا تھا، انہوں نے پھر اور لوگوں کو بھی ساتھ لانا شروع کر دیا اور ان بے چاروں کا سارا وقت ان کے ساتھ ہی گزر جاتا۔ حتی کہ ڈاکٹروں کو ڈھیٹ ہو کر مجبوراً انکار کرنا پڑا۔ اب کیا عزت رہ گئی؟ یہ theoretical باتیں نہیں ہیں الحمد للہ ہر چیز کے پیچھے کوئی تجربہ ہوتا ہے۔ اس طرح پھر سلسلوں کی بد نامی ہوتی ہے، علماء کی بد نامی ہوتی ہے۔

ایک صاحب کی گاڑی تھی اور کچھ لوگوں کا ان کی گاڑی میں بزرگوں کے ہاں آنا جانا تھا۔ ان بزرگوں کے پاس جو مہمان وغیرہ آتے تو ان کو بھیجتے کہ اپنی گاڑی پہ لے آؤ۔ ایک دن مجھے خود اس گاڑی والے نے کہا: فلاں آدمی آیا اور اس طرح چوڑا ہو کے بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کہ اس کے دل کی اصل بات زبان پے آ گئی۔ اگر کوئی آپ کے سامنے نہیں کہتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ محسوس نہیں کر رہا۔ بعض دفعہ موقعے پہ کہتا ہے لیکن ہر جگہ نہیں کہتا۔ آپ خود assume کر لو کیوں اپنے آپ کو خطرے میں ڈالتے ہو؟ چنانچہ اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہیے۔ یہ دین کی غیرت اور حمیت ہے۔

پہلے وقتوں میں بھیک مانگنے والے کہتے تھے: پانچ روپے کا سوال ہے، دس روپے کا سوال ہے۔ اب کہتے ہیں: ایک مس کال کا سوال ہے، ایک کال کا سوال ہے۔ پھر کمال کی بات ہے کہ اگر کسی نے کال کے لئے موبائل دے دیا تو کافی لمبی کر دیتے ہیں کیونکہ دوسرے کا مال خرچ ہو رہا ہوتا ہے۔ بھئی اگر آپ نے کوئی ضروری بات کرنی ہے تو ضروری بات دو باتوں میں ختم ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر میں ملتان جا رہا ہوں اور میں نے گھر اطلاع کرنی ہے کہ میں پہنچ گیا۔ اب ٹیلی فون میں نے ملا دیا اور کہا: السلام علیکم میں ملتان پہنچ گیا، بس اتنی سی بات۔ لیکن اس پہ بس نہیں کرتے، احساس ہی نہیں ہے۔ احساس پیدا ہونا چاہیے کہ دوسروں کے مال کو کیسے خرچ کیا جائے؟ طیب خاطر کیا ہوتا ہے؟ دوسروں کو کس حد تک زیر بار لایا جا سکتا ہے؟ اس کی limitations کیا ہیں؟ اگر میں اس کی جگہ پہ ہوتا تو میں کیا کرتا؟ یہ assume کریں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ حیات صاحب کو میں نے ایک دن کہا: آپ پچاس روپے چیکنگ کی فیس رکھ لیں۔ وہ تیار نہیں ہوئے۔ میں نے کہا: میں تمہارے فائدے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ پھر یوں ہی لوگ تنگ کرنے کے لئے نہیں آئیں گے بلکہ جو ضرورت مند ہوں گے صرف وہی آئیں گے۔

ایک ڈاکٹر صاحب کے ساتھ اس قسم کے مسائل تھے۔ کسی صحیح عامل کے پاس گئے۔ انہوں نے ان سے کسی عمل کے بارہ ہزار روپے طلب کئے اور مشروط کر دیا کہ اگر کام نہ ہوا تو نہیں لیں گے۔ انہوں نے یوسف صاحب کو بتایا کہ فلاں عامل اتنے پیسے مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: آپ ان کی genuineness چیک کر لیں کہ آیا وہ صحیح عامل ہیں یا نہیں۔ آپ کی بیماری کی وجہ سے ایک C.T Scan پر آپ کے دس، بارہ ہزار روپے لگ ہی جائیں گے تو اگر وہ عامل آپ کو اس سے بچا رہے ہیں تو آپ ان کو یہ رقم دے دیں۔ آخر آپ بھی پیسے لیتے ہیں، کیا اس کا پیسے لینا جائز نہیں؟ بات صحیح ہے۔ حدیث شریف کے مطابق چالیس بکریوں تک لے سکتا ہے، وہ جو سورہ فاتحہ کا دم کیا تھا۔ آج کل چالیس بکریوں کی کتنی قیمت بنتی ہے؟ ایک بکری کی قیمت نو دس ہزاربنتی ہے۔ چالیس بکریوں کے حساب سے تقریباً چار لاکھ روپے تک لے سکتا ہے۔ اب چونکہ دوسرے کی چیز ہے تو پرواہ نہیں حالانکہ وہ بڑا رسک لیتے ہیں، جنات وغیرہ کا معاملہ کوئی معمولی بات نہیں ہوتی۔ وہ عاملوں کو بھی پڑ سکتے ہیں، ان کی جان بھی چلی جاتی ہے۔ البتہ دھوکے باز ہو تو وہ تو معاملہ ہی الگ ہے۔ دھوکے باز ڈاکٹر کو بھی پیسے نہیں دینے چاہئیں۔ جیسے genuine ڈاکٹر کو پیسے دینا جائز ہے، genuine انجینئر کو پیسے دینا جائز ہے، ویسے ہی genuine عامل کو بھی پیسے دینا جائز ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں عامل نہیں ہوں لہٰذا میری باتوں میں زور ہے۔ اگر میں عامل ہوتا تو پھر میں depress ہو کر بات کرتا کیونکہ لوگ کہتے کہ میں اپنے لئے کہہ رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

وَمَا عَلَينَآ إلَّا البَلَاغ