اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
کیا شب قدر کا ثواب ہزار مہینوں سے زیادہ ہے؟ اس کا وقت کب سے کب تک ہوتا ہے اور ہمیں اس رات میں کون کون سی عبادات انجام دینی چاہئیں؟ اور سنا ہے کہ ان طاق راتوں میں سے کسی رات میں کوئی ایک لمحہ قبولیت کا ہوتا ہے جس میں کچھ روشنی وغیرہ ہوتی ہے، لیکن وہ ہر ایک کو پتا نہیں چلتا۔
جواب:
اس کا اجر ہزار مہینوں سے زیادہ دیا جاتا ہے جیسے کوئی ایک پارہ تلاوت کرے تو ایسا ہے جیسے اس نے ہزار مہینے سے زیادہ ہر رات میں ایک پارہ تلاوت کیا ہے یا دس رکعات نفل پڑھے تو جیسے دس رکعات اس نے ہزار مہینے سے زیادہ ہر رات میں پڑھی ہیں۔ بنص قرآن یہ رات غروب آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک ہے۔ اس وجہ سے یہ عمومی باتیں سوچنا چھوڑ دیں کہ کوئی لمحہ ایسا ہوتا ہے، یقیناً وہ لمحہ ہوتا ہے لیکن وہ فرشتوں کی آمد کا لمحہ ہوتا ہے جس میں کوئی روشنی ہوتی ہے یا چیزیں سجدے میں پڑی ہوتی ہیں۔ لیکن یہ ہر ایک کو نطر نہیں آتا کیونکہ یہ کشفی چیز ہے، جس کو کشف ہوتا ہے اس کو نظر آتا ہے باقی لوگوں کو نظر نہیں آتا لہذا جنہوں نے کہا ہے، ٹھیک کہا ہے۔ لیکن عام لوگ اس کا انتظار نہ کریں۔ در اصل رات غروب آفتاب سے شروع ہو جاتی ہے۔ آپ غروب آفتاب کے فوراً بعد اپنی زندگی کو سب سے زیادہ قیمتی سمجھیں اور ایک ایک لمحے کو مختلف ثواب کے کاموں میں استعمال کریں۔ مثلاً اگر آپ نفل پڑھ سکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن بعض دفعہ انسان چلتے چلتے نفل نہیں پڑھ سکتا تو چلتے چلتے ذکر کیا جا سکتا ہے، درود شریف پڑھا جا سکتا ہے، قرآن پاک اگر یاد ہو تو اس کی تلاوت کر سکتا ہے۔ دو کام بہت زیادہ اہم ہیں اور سب کو کرنے چاہئیں۔ جس رات میں شب قدر کا گمان ہو تو کم از کم اس دن مغرب اور عشاء کی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھ لے۔ تکبیر اولیٰ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی ساتھ ہی اللہ اکبر کہو۔ اور پھر گھر آتے جاتے راستے میں ذکر کرتے رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ تراویح اہتمام کے ساتھ پڑھو۔ اگر کوئی مسجد میں پڑھنے والا ہے تو مسجد میں پڑھے اور اگر کہیں اور پڑھتا ہے تو ٹھیک ہے۔ لیکن بہر حال اہتمام کے ساتھ پڑھے۔ اس میں بھی تکبیر اولیٰ کا خیال رکھے۔
اگر کوئی شخص اعتکاف کرے تو اس کو مسائل سے آ گاہ کیا جاتا ہے۔ اصل مسئلہ مقامی حضرات کا ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اگر گھر میں ماحول ایسا نہ ہو کہ وہاں عبادت کر سکے تو وہ بھی رات مسجد میں گزارے اور اگر گھر میں ماحول بنا سکتا ہے تو یہ زیادہ بہتر ہے کہ گھر والوں کو بھی معمولات میں لگا دے۔ گٹھلیاں بچھا دے یا درود شریف یا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یا استغفار وغیرہ کا کہے۔ بہتر یہ ہے کہ پہلے دس رکعات نفل پڑھ لئے جائیں، اس کے بعد ایک پارہ تلاوت کیا جائے، اس کے بعد ایک ہزار مرتبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، ایک ہزار مرتبہ استغفار، ایک ہزار مرتبہ درود شریف، اس کے بعد مناجات مقبول کی ایک منزل پڑھ لے۔ اگر وہ نہیں ہے تو چار پانچ منٹ دعائیں مانگ لے۔ اس کے بعد پھر دس رکعات نفل، ایک پارہ تلاوت اور ہزار مرتبہ تسبیح، پھر مناجات مقبول کی ایک منزل پڑھے۔ اس رات میں کسی ایک وقت صلاۃ التسبیح بھی پڑھ لے۔ مناجات مقبول قرآن و حدیث کی دعائیں ہیں لیکن اپنی زبان میں اپنے دل کی دعائیں بھی ضرور کریں۔ اور ایک دعا جو اسی خاص رات کے لئے منصوص ہے کہ: "اَللّٰھُمَّ اِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی" اٹھتے بیٹھتے یہ دعا ضرور پڑھے، یہ دعا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتائی گئی تھی۔ اس طریقے سے آپ سحری تک اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے، چاہے گھر میں ہوں یا مسجد میں ہوں تو ان شاء اللہ بہت فائدہ ہو گا۔ بہر حال اپنی دعاؤں میں پوری امت کو یاد رکھے اور مجھے بھی یاد رکھے اور یہ دعا کم از کم ضرور کرے کہ اے اللہ مجھے معاف کر دے اور مجھے مستجاب الدعوات بنا دے۔ آمین۔
سوال 2:
شاہ صاحب تصوف کی مختصر اور جامع تعریف کر دیں۔
جواب:
تصوف کی جامع تعریفات بہت سی ہیں لیکن میں ایک آسان ترین تعریف بتا دیتا ہوں کہ طاہری اعمال یعنی نماز، روزہ، زکوۃ، حج اور معاملات، معاشرت اور اخلاق۔ یہ سب لوگ برتتے ہیں اور سب کرتے ہیں، ان کے اندر روحانیت اور جان آ جائے۔ یہ صرف اللہ کے لئے ہونے لگیں ان کا اور کوئی مقصد نہ رہے۔ باقی جو روحانی بیماریاں ہیں اِن سب کے ساتھ وہ خود بخود ختم ہو جائیں گی۔
سوال 3:
اگر کوئی شخص چاہے کہ مجھے جذب سے ہی تعلیم مل جائے تاکہ تمام بیماریاں جلد ختم ہو جائیں، کیا ایسا ممکن ہے؟
جواب:
کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤ اور کہو کہ میرا فلاں دوائی سے علاج کر دیں کیوں کہ مجھے یہ علاج بہت پسند ہے۔ ڈاکٹر کہے گا: ڈاکٹر تو ہے یا میں ہوں؟ اگر آپ کو پتا ہے تو پھر اپنے گھر میں بیٹھ کے اپنا علاج کریں۔ یہ ایک اصولی جواب ہے۔ ہمارا کام شیخِ کامل کو چننا ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جو جذب کے specialist ہیں، انہوں نے فرمایا ہے:
قال را بگزار مرد حال شو
پیش مرد کاملے پامال شو
قال کو چھوڑ دو اور حال کو اپنا لو، یعنی اس کے اندر جو جذب کی حالت ہے اس کو اپنا لو اور اس کے لئے کسی مرد کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔ مرد کامل شیخ کامل ہی ہے۔ معلوم ہوا اپنے آپ کو شیخ کامل کے سامنے پامال کرنا ضروری ہے اور یہی جذب ہے جس کے ذریعہ آپ کو سب کچھ حاصل ہو جائے گا۔ اگر یہ جذب آپ نہیں کر سکتے تو باقی جذب بھی نہیں کر سکیں گے۔ جذب میں اپنے آپ کو پامال اور Complete surrender کرنا ہوتا ہے۔ اگر یہ چیز آپ کو شیخ کامل کے سامنے حاصل نہیں ہو رہی تو پھر کون سا طریقہ ہے جو آپ کو جذب سے روشناس کرا دے؟
سوال 4:
سنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدوں سے حضرت سید علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”کشف المحجوب“ کے بارے میں فرمایا تھا کہ اگر کوئی بندہ بغیر شیخ کے معرفت حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ یہ تصنیف پڑھے۔ کیا کتاب سے کوئی واصل ہو سکتا ہے؟ اور اس کی اصلاح ہو سکتی ہے؟
جواب:
اس وقت مجھے یہ ملفوظ یاد نہیں ہے اور ظاہر ہے جب تک پورا ملفوظ سامنے نہ آئے تو اس کے بارے میں بات کرنا ممکن نہیں ہے۔ شاید اس طرح نہ ہو کیوں کہ تصوف کا علم تو کتابوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی کیفیت کتاب سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مثلاً کون سی کتاب آپ کو ”محبت“ کی تعلیم دے سکتی ہے۔ یہ چیز کتاب کی بات ہے ہی نہیں بلکہ یہ دل سے دل کو منتقل ہوتی ہے۔
پیش مرد کاملے پامال شو
یہ بات اسی لئے فرمائی گئی ہے۔ اور ابتدا سے لے کے ہمارے سارے کے سارے اکابر اس کے قائل ہیں کہ شیخِ کامل کے بغیر یہ راستہ طے نہیں ہوتا لہٰذا اگر ”کشف المحجوب“ کے اوپر بھی عمل کرنا ہے تو اس میں بھی شیخ کامل کا بتایا گیا ہے۔ شیخ کامل ڈھونڈنا پڑے گا، اگر کسی اور حوالے سے نہیں ڈھونڈنا چاہتے تو چلو کشف المحجوب کے حوالے سے ڈھونڈ لیں۔ معلوم ہوا شیخ کامل ڈھونڈنا پڑے گا۔
سوال 5:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات سے پتا چلا کہ اصل چیز اصلاح نفس ہے، اتباع سنت ہے، اختیار کو استعمال کرنا ضروری ہے وغیرہ۔ جس کا میرے اوپر ایک اثر ہوا کہ اصلاحی اذکار کے جو اثرات ہوتے ہیں ان کا زیادہ شوق پیدا نہیں ہوا۔ آپ سے جب احوال مثلاً جسم کا ذرہ ذرہ کا ذکر کرنا، سجدہ کرنا، لطائف کا جاری ہونا، اچھے الفاظ میں سنا تو پتا چلا کہ ان چیزوں کا بھی شوق ہونا چاہیے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نفس کی مکمل اصلاح اور اتباع سنت اور مندرجہ بالا چیزیں لازم ملزوم ہیں؟ اگر ہیں تو کیا یہ احوال بغیر ان کے حصول کے شوق کے بھی حاصل ہو جاتے ہیں؟
جواب:
مشہور مقولہ ہے: نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان۔ کسی بھی چیز کو اگر آدھا سمجھا جائے تو مسئلہ بڑھ جاتا ہے۔ آپ کی بات میں کوئی بھی بات غلط نہیں ہے۔ اصلاح نفس اصل چیز ہے۔ اتباع سنت اصل چیز ہے۔ اختیار کو استعمال کرنا اصل چیز ہے۔ لیکن ان سب باتوں میں ایک چیز کو واضح نہیں کیا گیا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا لکھا ہے کہ یہ چیزیں بغیر کسی شیخ کامل کے حاصل نہیں ہوتیں۔ اب وہ چیز بھول گئے اور یہ چیز یاد رکھی۔ اصلاح نفس ایک مقصد ہے۔ اتباع سنت ایک مقصد ہے۔ اختیار کا استعمال کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ لیکن مقاصد کے ذرائع کا نہیں بتایا گیا۔ سب سے بڑا ذریعہ شیخ کامل کی تلاش اور اس کی اتباع ہے۔ اور ذرائع میں جیسے شیخ ذکر کا طریقہ بتا دے یا مجاہدہ بتا دے جس کے ساتھ احوال کا پیدا ہونا ہے۔ اس میں دو قسم کے احوال ہیں۔ ایک وہ احوال ہیں جو لازمی ہونے چاہئیں۔ مثال کے طور پر اعمال کے اندر جان ہونا بھی حال کہلاتا ہے۔ اور ایک وہ ہیں جو Side effects ہیں۔ جس میں آنکھوں سے آنسو آنا وغیرہ۔ یہ لازم و ملزوم نہیں ہیں، لیکن اگر ہوں تو محمود ہیں۔ مقصود احوال بھی اسی سے حاصل ہوں گے اور محمود احوال بھی اسی سے حاصل ہوں گے۔ معلوم ہوا اصل ذریعے کا خیال رکھنا چاہیے۔ دیگر ساری چیزیں خود بخود ہوتی رہیں گی۔
سوال 6:
غوث، قطب، ابدال یہ کون سے مقامات ہیں؟ کیا اس زمانہ میں لوگ ان مقامات پر فائز ہیں؟ یہ مقامات کس طرح ملتے ہیں؟ مفصل جواب کی درخواست ہے۔
جواب:
مفصل جواب نہیں دیا جائے گا، اس کے لئے وقت نہیں ہے۔ البتہ اتنا بتاتا ہوں کہ غوث، قطب، ابدال اولیاء اللہ کی قسمیں ہیں۔ اللہ جل شانہ غوث کے ذریعے مدد فرماتے ہیں، یہ نہیں کہ غوث مدد کرتے ہیں۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں: غوث الثقلین، غیاث الطالبین۔ کیا حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کسی انسان سے مدد کے طالب تھے؟ بالکل نہیں۔ لیکن اللہ جل شانہ ایسے لوگوں کو ذریعہ بناتے ہیں۔ ان میں بعض حضرات کی fix تعداد ہوتی ہے۔ مثلاً غوث یا ابدال کی تعداد پوری دنیا میں چالیس ہوتی ہے۔ ان میں سے اگر کوئی فوت ہو جائے تو اس کی جگہ لینے کے لئے فوراً دوسرے کی تشکیل ہو جاتی ہے۔ چالیس کی تعداد مستقل قائم رہتی ہے لیکن یہ تکوینی امور سے متعلق لوگ ہیں۔ یعنی جیسے فرشتوں سے اللہ تعالیٰ کام لیتے ہیں۔ میکائیل علیہ السلام سے، جبرائیل علیہ السلام سے، عزرائیل علیہ السلام۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انسانوں میں بھی جن سے کام لیتے ہیں ان میں یہ لوگ ہوتے ہیں۔ یہ لوگ چھپے ہوتے ہیں، یہ مقامات کسب کے ذریعے سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لئے لوگ چنے جاتے ہیں۔ جن کو چن لیا جاتا ہے وہ بے شک کہیں پر بھی ہوں ان کو اطلاع بھی ہو جائے گی۔ ان کو لایا بھی جائے گا اور ان پہ یہ بھی appointments ہیں۔ یعنی جب کسی کا انتخاب ہو جائے گا تو با قاعدہ اس کو posting وغیرہ سب کچھ بتا دیا جائے گا۔ یہ لوگ عموماً ایسے لوگوں کے جامے میں ہوتے ہیں جن کو لوگ کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اور عموماً اپنے اپنے کام میں لگے ہوتے ہیں۔ بہر حال میں اس میں تفصیل میں نہیں جا سکتا۔ اگر کوئی اس کی تفصیل پڑھنا چاہتا ہے تو میری کتاب ”تصوف کا خلاصہ“ میں اس کا کچھ جواب موجود ہے۔
سوال 7:
Sir جس انسان کے اندر تکبر ہوتا ہے اسے پتا ہوتا ہے کہ مجھ میں تکبر ہے؟ اسی طرح گندگی کو ہاتھ لگانے سے بندے کا دل تھوڑا سا تنگ ہوتا ہے، کیا یہ تکبر کی علامت ہے؟
جواب:
تکبر کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو دوسرے سے اچھا سمجھے۔ دوسرے سے اچھا سمجھنا کسی حقیقی چیز کی وجہ سے نہیں، مثلاً ایک عالم ہے اور دوسرا عالم نہیں ہے تو اگر عالم کہہ دے کہ میں عالم ہوں تو یہ تکبر نہیں ہے کیوں کہ جیسے کوئی زیادہ پی ایچ ڈی ہو اور دوسرا f s c ہو تو P.H.D والا F.S.C والے سے زیادہ جانتا ہے۔ P.H.D والا کہہ دے کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا، یہ تو جھوٹ ہو گا۔ البتہ کوئی شخص اپنے آپ کو اس علم کی بنیاد پہ مقبول عند اللہ سمجھتا ہو تو یہ درست نہیں، کیوں کہ اس کا فیصلہ اللہ کے پاس ہے۔ یا کہے کہ میرا علم اللہ کے ہاں زیادہ مقبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس مقبولیت ہی بنیادی چیز ہے لہٰذا اگر کسی کے پاس ڈھیروں علم ہو لیکن وہ اللہ کے ہاں مقبول نہ ہو تو اس کو اس کا کیا فائدہ؟ اور اگر کسی کے پاس تھوڑا سا علم ہو لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے تو اس کو بہت کچھ حاصل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مثال کے طور پر کوئی شخص مقبول ہونے کے لحاظ سے تو اپنے آپ کو بڑا نہیں سمجھتا لیکن کسی اور کے ساتھ حقارت کا معاملہ کرتا ہے تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہے کیوں کہ انسان اپنے آپ کو نہیں جانتا جس کی وجہ سے ایسا کرتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے کہا تھا: تجھے پتا ہے کہ میں کون ہوں؟ فرمایا: جی بالکل پتا ہے۔ تم پہلے گندے قطرے تھے، اب گندگی کے ڈول ہو، پھر اس کے بعد گندگی کے ڈھیر ہو گے۔ ماضی، حال، مستقل تینوں بتا دیئے۔ معلوم ہوا اگر انسان اپنے آپ کو جانتا ہو تو کوئی اپنے آپ کو اچھا یا بڑا نہیں کہہ سکتا۔ ہمارے جسم کے اندر سے کوئی بھی چیز نکلے وہ گند ہی ہے۔ سب سے کم گند تھوک ہے۔ لیکن کیا کوئی اپنا تھوک چاٹتا ہے؟ اپنے تھوک سے بھی آدمی کو گھن آتی ہے۔ جو چیز ایک دفعہ منہ میں چلی گئی وہ واپس آ گئی تو دوبارہ اس کو نہیں کھا سکتا۔ اس میں تو کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اس کو صرف تھوک ہی لگا ہے۔ معلوم ہوا ہم اس کے قائل ہیں کہ ہمارے اندر گند ہی گند ہے۔ صرف استحضار نہیں ہے۔ اگر کسی کو استحضار نہ ہو اس کو تو پتا نہیں چلے گا۔ اگر اس چیز کا استحضار ہونا شروع ہو جائے پھر اس کو پتا چلنا شروع ہو جائے گا۔ جیسے آپ نے فرمایا کہ گند کے ساتھ انسان کو تکلیف ہوتی ہے، یہ تکبر نہیں ہے۔ کیوں کہ تکلیف کسی بھی چیز سے ہو سکتی ہے لیکن اس کی وجہ سے اگر اس کو کم سمجھا جائے تو پھر اپنے آپ کو سب سے کم سمجھو۔ تمہارے اندر گند ہی گند ہے۔ اپنے آپ کو کسی سے بڑا نہ سمجھو، نہ کسی کو اپنے سے حقیر سمجھو۔ تاہم انسان کو کسی چیز سے تکلیف ہوتی ہے تو اس سے بے شک اپنے آپ کو بچاؤ بلکہ اس میں شریعت آپ کی مدد کرتی ہے۔ جیسے حدیث کا مفہوم ہے: جو مسجد میں آتا ہے وہ کوئی بد بودار چیز کھا کے نہ آئے۔ پہلے اچھی طرح کلی کر لے کیوں کہ اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے اور شریف لوگوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ جب گرمیاں ہوتی ہیں تو خوشبو وغیرہ لگا لیا کرے تاکہ پسینہ کی بد بو سے دوسرے لوگ پریشان نہ ہوں۔ گھر کے بارے میں فرمایا کہ گندگی نہ ڈالو جیسے یہود ڈالا کرتے ہیں کیونکہ اس سے انسان پریشان ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اس میں تو شریعت ہماری مدد کرتی ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے کسی کو حقیر سمجھنا، شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
سوال 8:
کسی کو نفس کی کچھ شکل نظر آئے جس سے وہ گھبرا بھی جائے اور وہ بہت طاقت والا ہے تو اس کی کیا تعبیر ہو گی۔
جواب:
دو امور ہوتے ہیں۔ ایک حقیقی یعنی اپنے ظاہری آنکھوں سے عام حالت میں ہر ایک کو نظر آنے والی چیز۔ دوسری چیز کشفی آنکھ سے دیکھنا، یعنی عام آنکھ سے وہ چیز نہیں دیکھی جا سکتی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے لیکن یہ چیز ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی۔ اگر کسی کے سامنے کشفی طور پر نفس کی شکل متشکل ہو جائے تو اس کو اللہ پاک اس کی سمجھ بھی عطا فرما دیں گے کہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے۔ وہ اپنے شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ جاری رکھے، ان کو بتائے کہ میں نے اس طرح دیکھا ہے۔ اور مجھے اس طرح محسوس ہوا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کسی نے خواب دیکھا ہو۔ خواب میں بھی بہت سی چیزیں متشکل ہو جاتی ہیں۔ لوگ خواب کی تعبیر اپنے شیخ سے لیتے ہیں۔ اسی طرح کشفوں کی تعبیر بھی شیخ سے لینی چاہیے کیوں کہ بعض دفعہ کشف صحیح ہوتا ہے لیکن صحیح سمجھ نہیں آ رہا ہوتا۔ جس کی وجہ سے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی کشفاً کسی چیز کو دیکھے تو اپنے شیخ کو بتا دے۔ شیخ اس کو سمجھا دے گا کہ اس میں کیا پیغام ہے۔
سوال 9:
پہلے وقتوں میں لوگ شیخ کامل کی تلاش میں سفر کرتے تھے، جب انہیں مل جاتا تو کافی وقت اپنی اصلاح کے لیے وہاں گزارتے تھے۔ اب زمانہ کافی ماڈرن ہے، لوگوں کے پاس وقت بھی کم ہوتا ہے اور گھر والے بھی اس چیز کو اہمیت ذرا کم دیتے ہیں۔ سالک کو یا بندے کو کتنا وقت اپنے شیخ کو دینا چاہیے؟
جواب:
یہ میرے دل کا سوال ہے۔ پہلے وقتوں میں واقعی لوگ بہت وقت دیتے تھے بلکہ جب وہ اس کے لئے چل پڑتے تو واپس تب ہی آتے جب ان کی اصلاح ہو چکی ہوتی تھی۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ 14 سال غائب رہے، اس سے پہلے گھر مڑ کے دیکھا ہی نہیں۔ اسی طرح ہمارے بڑے بڑے حضرات جیسے بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ نے جب علم حاصل کر لیا تو اس کے بعد ماوراء النہر چلے گئے اور وہاں ایک ایسے صاحب کے ساتھ 2 سال گزارے جو کسی سے بھی بات نہیں کرتے تھے۔ ابھی خانقاہ سراجیہ میں ایک بزرگ گزرے ہیں حاجی صدر الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ انہوں نے ڈیڑھ سال حضرت کے پاس گزارا اور ڈیڑھ سال کے بعد حضرت نے ان کو خلافت دی اور فرمایا کہ اب گھر چلے جاؤ۔ وہ خانقاہ سے نہیں جانا چاہتے تھے لیکن ان کو زبردستی خانقاہ سے رخصت کر دیا کہ اب تمہاری اپنے علاقے میں ضرورت ہے۔ اب تم وہاں کے لوگوں کی پیاس بجھاؤ۔ ان کی تشکیل ہو گئی اور ان کو بھیج دیا گیا۔ جیسے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ 20 سال اپنے شیخ کے ساتھ رہے پھر ان کی تشکیل ہو گئی۔ میں اپنے ساتھیوں سے یہی کہا کرتا ہوں کہ ہفتے کے دن عصر سے لے کر اِشراق تک ہمارا جوڑ ہوتا ہے۔ اس کا ہم نے 12 گھنٹے کا دورانیہ رکھا ہے جو آدھا دن ہو جاتا ہے اور سال میں 52 ہفتے ہوتے ہیں، گویا کہ سال میں 26 دن ہو جاتے ہیں۔ اور 10 سال میں 260 دن ہو جاتے ہیں۔ 20، 22 سال میں تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ بن جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ پہلے وقتوں میں لوگ ڈیڑھ سال مسلسل گزار لیتے تھے، اب اگر مسلسل نہیں گزار سکتے تو چلو اسی طریقے سے کر لیا کرو۔ عصر سے لے کر اِشراق تک کے جوڑ میں شریک ہو جایا کرو تو ان شاء اللہ العزیز اس کے ذریعے ذہن بنتا جائے گا اور نفس کی اصلاح ہوتی جائے گی۔ اور اگر کوئی اس کو تیز کرنا چاہتا ہے تو خانقاہ کھلی ہوتی ہے۔ بہر حال دل اور وقت لگانے سے فائدہ ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ میرے پاس ٹائم نہیں ہے تو یہ بات اس لئے غلط ہوتی ہے کہ حضرت مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ بیان میں فرما رہے تھے کہ ایک عورت آئی اور وہ میری پڑوسن تھی، اس نے روتے روتے کہا کہ مفتی صاحب! میرے بیٹے کو تبلیغ والے 4 مہینے کے لئے لے جا رہے ہیں، میں اس کے بغیر زندہ ہی نہیں رہ سکتی، اس کو رکوا دیں۔ مفتی صاحب نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں مائی، آپ کا مرنا ہم دیکھ نہیں سکتے، میں مرکز والوں سے کہہ دیتا ہوں وہ آپ کے بیٹے کو نہیں لے جائیں گے۔ میں نے مرکز والوں سے کہہ دیا اور وہ نہیں گیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ آئی اور کہا کہ مفتی صاحب دعا کریں، ایک سال کی training کے لئے میرا بیٹا جاپان جا رہا ہے۔ فرمایا: ماں جی! میں یہ دعا نہیں کر سکتا کیونکہ میں آپ کی موت کی دعا نہیں کر سکتا۔ اس نے کہا: وہ کیسے؟ انہوں نے کہا: آپ نے خود ہی کہا تھا کہ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ تو ایک سال ہے اور وہ 4 مہینے تھے۔ چار مہینے میں تم مر رہی تھی اب ایک سال میں کیسے زندہ رہو گی؟ مقصد یہ ہے کہ لوگوں کا دوغلا معیار ہوتا ہے۔ دنیا کے لئے سالوں باہر رہتے ہیں، بیوی کو بھی فکر نہیں ہوتی کیونکہ پیسے بھیج رہا ہوتا ہے۔ دین کے لئے دو دن چلا جائے تو چیخ اٹھتی ہے کہ یہ کیا ہو گیا؟ تمہارے اوپر ظلم کرتا ہے تو کوستی کیوں ہو؟ جب تک جس کی اصلاح نہیں ہو گی تو وہ بھیڑیا ہی ہو گا، جو کچھ تمہارے ساتھ کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔ میرے ساتھ جن کا تعلق ہوتا ہے وہ جب اس قسم کی بات کرتی ہیں تو میں کہتا ہوں: گھر میں رہ کر کوئی ٹھیک نہیں ہوتا، اگر آپ نے اس کو ٹھیک کروانا ہے تو پھر یہاں بھیج دیا کرو ورنہ پھر شکایت مت کیا کرو۔ اصلاح کروانی ہے تو کچھ لو اور کچھ دو ہوتا ہے، انسان کچھ دیتا ہے تو پھر لیتا ہے۔ اللہ جل شانہ کسی سے مجبور نہیں ہے کہ ایک آدمی محنت کر کے لے اور دوسرا آدمی گھر بیٹھے مفت میں لے لے، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ پاک کے ہاں ہر چیز کا اپنا ایک اندازہ ہے۔ اس کے لئے کوشش، محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بلکہ وقت بھی لگانا ہے اور دل بھی لگانا ہے پھر اصلاح ہو جائے گی۔ اللہ تعالی میری بھی اصلاح فرمائے اور آپ کی بھی اصلاح فرمائے۔
سوال 10:
شاہ صاحب کون سی تصوف کی کتاب پڑھنی چاہیے اور کون سی نہیں پڑھنی چاہیے؟
جواب:
اصل میں تصوف بنیادی طور پر کتابوں سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ البتہ کتابیں اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ مدد کر سکتی ہیں جن کے ذریعے آدمی کو سمجھایا جائے کہ تصوف ہے کیا۔ کیوں کہ بہت سارے لوگ جو تصوف کے خلاف ہیں وہ غلط پیروں کے غلط اعمال کی وجہ سے ہیں۔ تو ایسی کتابیں پڑھنی چاہئیں جن سے لوگوں کو پتا چلے کہ غلط پیر صحیح تصوف کے نمائندے نہیں ہیں۔ لہٰذا آپ لوگ صحیح تصوف کو بد نام نہ کریں۔ اس سلسلے میں صاحب نسبت بزرگ کی تصوف کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب دیکھی جا سکتی ہے۔ لیکن تصوف کی گہرائی میں شیخ کے انتخاب کے بغیر نہیں جانا چاہیے کیوں کہ اس میں ذوقیات کا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چشتی ذوق الگ ہے، نقشبندی ذوق الگ ہے، سہروردی ذوق الگ ہے اور قادری ذوق الگ ہے۔ شیخ آپ کو کون سے ذوق پہ چلا رہا ہے، یہ اس کو پتا ہوتا ہے۔ آپ دوسرے ذوق والی کتاب پڑھیں گے تو خواہ مخواہ پریشان ہو جائیں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں جو مجاہدات یا ذکر ہوتے ہیں وہ specific نہیں ہوتے بلکہ شیخ ان کو specific کرتا ہے کہ کس کو دیئے جائیں اور کس کو نہ دیئے جائیں۔ لہٰذا اگر کتاب سے کوئی وظیفہ پڑھتا ہے یا لکھتا ہے تو یہ بہت بڑی بے اصولی کی بات ہے۔ جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا کتابوں سے وظائف نہیں لئے جاتے۔ بعض دفعہ کوئی کتاب سے وظیفہ لے لیتا ہے، وہ صحیح وظیفہ بھی لے لے اور میرے پاس آئے تو میں اس کو کم از کم اس وقت رکوا دیتا ہوں تاکہ اس کو سمجھ آ جائے کہ اس نے اصولی غلطی کی ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے قرآن میں رائے سے تفسیر کی اس نے اگر صحیح تفسیر بھی کی تب بھی غلطی کی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص کتابوں سے وظیفے لے لے، اگر اس نے صحیح بھی کیا ہے تو بھی غلطی کی ہے۔ اس کی غلطی درست کرنا ضروری ہے کیوں کہ اس وظیفے سے اگر اس کو اتفاقاً فائدہ ہو گیا تو کوئی اور وظیفہ بھی پڑھ سکتا ہے جس سے اس کو نقصان ہو۔ معلوم ہوا تصوف کے اعمال کے بارے میں کتابیں نہیں پڑھنی چاہئیں۔ البتہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ ذہن بنانے کے لئے پڑھے جا سکتے ہیں، اس کے بعد ملفوظات شریف تصوف کے مبادیات کے بارے میں بڑے مفید ہیں۔ اس کے لئے ہم نے الحمد للہ انٹرنیٹ پر کچھ انتظام کیا ہوا ہے۔ جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کو ہم ان شاء اللہ مزید آ گے بھی بڑھا رہے ہیں۔
سوال 11:
روحانی قبض کی حالت میں جب سالک سے معمولات چھوٹ جائیں، کسی عمل میں دل نہ لگے تو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
آپ کو اعمال کے اندر مزہ آئے یا نہ آئے یہ اللہ جل شانہ کا فیصلہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کر لے کہ کسی کو مزہ آئے تو اس کو بسط کی حالت کہتے ہیں اور جب یہ فیصلہ کر لے کہ مزہ نہ آئے تو اس کو قبض کی حالت کہتے ہیں۔ اب چاہے قبض کی حالت ہو یا بسط کی حالت ہو، اعمال کرنے ضروری ہوتے ہیں۔ کیوں کہ گاڑی اسی سے چلتی ہے۔ اگر تمہیں اعمال کے اندر مزہ آتا ہے اور اعمال کرتے ہو تو اس سے دل کی اصلاح ہو رہی ہے، جیسے ذکر کر رہے ہو مزہ آتا ہے تو دل کی اصلاح ہو رہی ہے۔ نفس کی اصلاح نہیں ہو رہی کیونکہ نفس کی اصلاح مجاہدہ میں ہوتی ہے جس میں انسان کو کوئی کام نا گوار ہو اور کرنا پڑ جائے تو اس سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔ اگر آپ کو اعمال کے اندر مزہ نہیں آ رہا پھر بھی آپ کر رہے ہیں تو آپ کے دل کی بھی اصلاح ہو گی اور نفس کی بھی اصلاح ہو گی کیوں کہ آپ چونکہ اعمال کر رہے ہیں تو دل کی اصلاح اس عمل سے ہو رہی ہے جیسے ذکر یا دعا سے۔ مجاہدہ یہ ہے کہ آپ کا کوئی معمول ہے لیکن اس کے کرنے کا آپ کا دل نہیں چاہ رہا لیکن آپ مجبوراً حکم سمجھ کر کر رہے ہیں، اس سے آپ کے نفس کی اصلاح ہو رہی ہے کہ نفس کو ہر نا گوار عمل کے اوپر پابند اور قابو کرنا اور اس سے وہ کام کروانا یہ نفس کی اصلاح ہے۔ جب میرے پاس کوئی ایسا شخص آتا ہے تو میں اسے کہتا ہوں: خدا کے بندے! جب ایک فائدہ تھا اس وقت کر رہے تھے جب دو فائدے ہونا شروع ہوئے تو اس وقت چھوڑ رہے ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس اگر کوئی ایسا شخص آ جاتا تو فرماتے خدا کے بندو! جب سو فیصد نمبر لینے کا وقت آیا اس وقت چھوڑ رہے ہو۔ کیوں کہ جس وقت انسان کے دل میں اس کو مزہ آ رہا ہوتا ہے تو مزے کے کچھ نمبر کٹ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ گاڑی کو دھکا دے رہے ہیں، اگر آپ خود دے رہے ہیں تو آپ کو تنخواہ الگ ملے گی۔ لیکن دو آدمی بھی ساتھ مل کر دھکا دے رہے ہیں تو آپ کی تنخواہ کم ہو گی۔ چنانچہ اگر آپ کو مزہ دلوا رہا ہے تو ساتھ ساتھ یہ مزہ تنخواہ میں بھی کمی کروا رہا ہے۔ آپ کو پھر اتنا زیادہ فائدہ تو نہیں ہو گا۔ اعمال نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ البتہ شیخ کو اطلاع کرنی چاہیے، ممکن ہے وہ اعمال کے اندر کچھ تبدیلی کر دے۔ لیکن جب تک وہ نہ کہے اس وقت تک اپنی مرضی سے اعمال میں تبدیلی نہ کرے۔ اس کو چلائے رکھے، اسی سے دونوں فائدے حاصل ہوتے رہیں گے۔
سوال 12:
حضرت آپ نے فرمایا کہ شیخ کو یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ مرید کو کس سلسلے سے مناسبت ہے۔ آپ ما شاء اللہ چاروں سلسلوں سے ہیں، لیکن اگر کوئی شیخ کسی ایک سلسلے سے ہو اور اس کے مرید کی مناسبت کسی دوسرے سلسلے سے ہو اور وہ جان لیں کہ میرے سے اس کو فائدہ نہیں ہو رہا تو کیا اس کو کسی اور شیخ کے پاس refer کر دے؟
جواب:
ہم جو مناسبت کی بات کرتے ہیں وہ اس لئے کہ ایسے بہت سارے مشائخ ہوتے ہیں جن میں آٹھ نشانیاں پوری ہوتی ہیں لیکن ان میں آپ کے لئے کون سا شیخ ہونا چاہیے؟ اس کی مناسبت کیسے ہو گی؟ مناسبت کا مطلب یہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ اٹھیں، بیٹھیں۔ مجالست و مکاتبت کریں۔ پھر دیکھیں کہ آپ کا آپس میں کوئی حجاب وغیرہ تو نہیں ہے، کوئی ایسی بات تو نہیں ہے جس کی وجہ سے رکاوٹ محسوس ہو رہی ہو۔ اگر کوئی ایسی بات ہو تو پھر مشائخ میں بھی دو قسم کے شیخ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے طریقے کے بڑے پابند ہوتے ہیں، اس کے علاوہ کسی اور طریقے پہ نہیں جانا چاہتے۔ دوسرے وہ حضرات ہوتے ہیں کہ ان کے پاس کسی اور نسبت کا کوئی شخص آ جائے تو اس کے لئے اپنے آپ کو تبدیل کرتے ہیں۔ اور اگر تبدیل نہیں کر سکتے تو پھر بتا دیتے ہیں کہ تمہارا حصہ میرے ساتھ مقرر نہیں ہے۔ بعض بزرگوں نے بعض لوگوں کو لوٹایا ہے کہ آپ کا حصہ میرے ساتھ نہیں ہے۔ بنوری ٹاؤن میں ایک شخص Christian سے مسلمان ہوئے۔ پھر ان کو بیعت کرنی تھی۔ ان کو شیخ طفیل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا گیا جو نقشبندی بزرگ تھے۔ انہوں نے جب ان کو دیکھا اور مراقبہ کیا تو فرمایا: آپ کا حصہ میرے ساتھ نہیں لکھا ہوا۔ ان کو ایک اور بزرگ کے پاس بھیجا جو چشتی سلسلے کے تھے۔ انہوں نے ان کو کمرے میں بند کر دیا اور خود بھی ساتھ بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ نکلے تو ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی کا نشہ ٹوٹ گیا ہو۔ اور پھر وہ ان سے بیعت بھی ہو گئے اور ان کے ساتھ مناسبت بھی تھی۔ پہلے وقتوں میں یہ چیز بہت ہوا کرتی تھی کہ بعض دفعہ مشائخ رخصت کر دیا کرتے تھے کہ آپ کی ہمارے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ آج کل چونکہ بحکمت ایسا کرنا بڑا مشکل ہو رہا ہے لہٰذا اگر کوئی اس قسم کی بات ہو اور بالکل ہی تنگی ہو، چل ہی نہیں سکتا ہو تو اس کے لئے پھر یہ راستہ ہے کہ خاموشی کے ساتھ جس کے ساتھ بہت مناسبت ہو اس شیخ کے پاس چلا جائے۔ پہلے والے شیخ کی بالکل برائی نہ کرے کیوں کہ اس میں نقصان ہے۔ اور دوسرے شیخ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑے اور اس کی کوئی تاویل کر لے اور ان کو اچھے الفاظ میں یاد کرے، ان کے ادب اور احترام میں کمی نہ آنے دے۔ لیکن بات دوسرے شیخ کی مانے جن کے ساتھ مناسبت ہے تاکہ اس کو فائدہ ہو کیوں کہ اپنا فائدہ عزیز ہے۔ شیخ چنتے وقت صرف یہ نہیں کہ سونگھتے رہیں بلکہ تھوڑا سا ٹیسٹ کریں کہ واقعی مجھے ان کے ساتھ مناسبت ہے یا نہیں ہے؟ اگر واقعتاً کسی کے ساتھ مناسبت نکل آئے اور پہلے کے ساتھ نہ ہو تو پھر اس طرح کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں احتیاط ضروری ہے۔
سوال 13:
حضرت اگر سالک کو کسی سنت کا پتا چلے جیسے کہ لنگی باندھنا، نبیذ پینا اور کم کھانا، اچھا کپڑا نہ پہننا۔ ان سنتوں پہ عمل کرنے کا اس کا دل چاہے تو کیا اس میں بھی اپنے شیخ سے پوچھ کے کرے؟
جواب:
دنیا میں کھانے کی بڑی اچھی اچھی چیزیں ہیں جو صحت مند لوگ کھاتے ہیں تو بڑے مزے کرتے ہیں، بہت خوش ہوتے ہیں۔ بیمار کے لئے وہ چیزیں منع ہوتی ہیں۔ کسی ڈاکٹر سے کوئی مریض علاج کروا رہا ہوتا ہے تو ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھتاہے کہ کیا فلاں چیز میں کھا سکتا ہوں؟ ڈاکٹر کہتا ہے: جب صحت اچھی ہو جائے گی تب کھا لینا لیکن فی الحال آپ کے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔ چیزوں کی اچھائی تو حقیقت ہوتی ہے لیکن آیا آپ کے احوال ایسے ہیں یا نہیں؟ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِدھر آپ نے پگڑی باندھی اور اُدھر آپ کی بیوی طلاق کا مطالبہ کر دے۔ پگڑی باندھنا مستحب ہے اور طلاق دینا بہت خطرناک بات ہے۔ اس وجہ سے شیخ کے ساتھ مشورہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بعض دفعہ مشورہ نہ کرنے سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ میں نے جب سنا کہ cousin سے پردہ کرنا ضروری ہے اور غیر محارم سے بھی پردہ کرنا ضروری ہے تو میں نے پردہ شروع کر دیا۔ میرے خلاف میرے خاندان میں طوفان سا مچ گیا۔ کچھ لوگوں نے بڑے بڑے القابات دے دیئے کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے، یہ مغرور ہو گیا ہے۔ ان میں بزرگ لوگ بھی تھے یعنی اچھے نمازی لوگ بھی شامل تھے۔ وہ کہتے تھے: یہ تو بہنیں ہوتی ہیں، اس کے دماغ میں فتور آ گیا ہے۔ میں پریشان ہو گیا کہ یہ لوگ اس طرح کیوں کہتے ہیں! کم از کم سمجھ دار لوگوں کو نہیں کہنا چاہیے۔ میں حضرت مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس یہ اشکال لے کے گیا کہ یہ لوگ اس طرح کیوں کہہ رہے ہیں؟ حضرت نے مجھ سے پوچھا: کیا تم نے مجھ سے پوچھ کر شروع کیا تھا؟ میں نے کہا: نہیں حضرت غلطی ہو گئی۔ فرمایا: بس یہی غلطی تمہیں پکڑ رہی ہے۔ اگر مجھ سے پوچھ لیتے تو میں کہتا کہ جس طرح تم بازار میں ہوتے ہو تو اس وقت پردہ کرنا فرض ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ اس وقت کیا کرتے ہو کیونکہ اس وقت عورتوں پہ آپ کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ میں نے کہا: جی میں نظر نیچے رکھتا ہوں۔ فرمایا: اگر مجھ سے پوچھتے تو میں یہی کہتا کہ ادھر بھی نظر نیچے رکھا کرو۔ آپ کا کام بھی ہو جاتا اور کوئی مسئلہ بھی نہ ہوتا لیکن اب چونکہ تم کر چکے ہو لہٰذا اس طریقے کو زیادہ آ گے مت بڑھاؤ اور جو میں نے بتایا اس پر عمل شروع کرو۔ پھر میں نے جب یہ کہا کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کا دماغ خراب ہے۔ حضرت کو جلال آ گیا اور فرمایا: جو تم کر رہے ہو وہی ٹھیک ہے، شریعت یہی کہتی ہے۔ ہم صرف جوڑ پیدا کرنے کے لئے یہ طریقہ بتاتے ہیں ورنہ شریعت کا حکم یہی ہے جس پر تم عمل کر رہے ہو۔ مقصد یہ ہے کہ اگر شیخ سے پوچھ کر کیا جائے تو وہ ذرا مناسب طریقہ بتا دیتے ہیں۔ میں نے شیخ سے پگڑی کے بارے میں پوچھا تھا۔ فرمایا: جمعہ کی نماز کے لئے باندھ لیا کرو۔ کیونکہ اگر آپ دفتر میں یا دوسری کسی جگہ باندھیں گے تو لوگ آپ سے وہی امید رکھیں گے جیسے داڑھی کے بارے میں لوگوں کے concepts ہیں کہ بس یہ ولی اللہ بن گیا۔ اب اس سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی تو اگر پگڑی باندھ لی تو پھر سونے پہ سہاگہ والی بات ہو گی۔ داڑھی بھی ہو اور پگڑی بھی ہو تو پھر آپ پکے مولوی ہیں۔ پھر وہ آپ سے فتوے بھی لیں گے۔ آج کل کے دور میں ایسا ہی ہے۔ واقعی بعض لوگ مفتی بن جاتے ہیں تو بڑا نقصان ہو جاتا ہے۔ وہ جاکر مولویوں سے مقابلے بھی شروع کر دیتے ہیں۔ یعنی ایک خوبی کی وجہ سے اتنے سارے نقصانات ہو گئے۔ لہٰذا ایسے لوگوں کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ چنانچہ مشائخ ان تمام چیزوں کو دیکھ کر فیصلے کرتے ہیں جن کے لئے جتنا ہضم ہوتا ہے اس کے لئے اتنے کا ہی انتخاب کرتے ہیں۔
سوال 14:
حضرت غیبت کے بارے میں کافی confusion رہتی ہے کہ کیا چیز غیبت میں آتی ہے اور کیا چیز غیبت میں نہیں آتی؟ بعض دفعہ ہم اکثر سیاستدانوں کو discuss کر رہے ہوتے ہیں یا اپنے دفتروں میں اپنے حکام بالا کی ذات کے بارے میں باتیں کر رہے ہوتے ہیں، کیا ہماری ایسی discussion بھی غیبت ہیں؟
جواب:
غیبت کی تعریف یہ ہے کہ انسان کسی کے سامنے اس کی غلطی بیان نہ کر سکتا ہو اور اس کی پیٹھ پیچھے بیان کرنے لگے، چاہے اس کے اندر وہ عیب موجود ہو۔ تو یہ غیبت میں آتا ہے۔ کیوں کہ آپ ﷺ نے جب یہ بات فرمائی تو کسی نے پوچھا: اگر اس میں وہ عیب ہو تو پھر بھی غیبت ہے؟ فرمایا: یہی غیبت ہے۔ اگر وہ بات اس میں نہ ہو تو بہتان ہے جو غیبت سے زیادہ بری چیز ہے۔ جہاں تک سیاست دانوں کی بات ہے تو عام لوگوں کو ان پہ بات نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ وہ مبتلا نہیں ہیں۔ انگریزی کا ایک مقولہ ہے کہ سب سے کمزور لوگ شخصیتوں کے اوپر بات کر رہے ہوتے ہیں اور جو ان سے اچھے ہوتے ہیں وہ واقعات میں بات کرتے ہیں۔
Small minds discuss people, average minds discuss events and great minds discuss ideas and act in silence.
اور سب سے اچھے لوگ خاموشی سے کام کرتے ہیں۔ معلوم ہوا خواہ مخواہ اس قسم کی گفتگو سے عام لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نقصان ہی ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ سیاست اسلام آباد کے آفسوں میں discuss ہوتی ہے اور سب سے کم ووٹ اسلام آباد میں ڈالے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب الیکشن کی چھٹیاں مل جاتی ہیں تو لوگ اپنے گاؤں کو چلے جاتے ہیں اور ووٹ نہیں دیتے۔ بھئی جو آدمی ووٹ نہیں دے رہا اس کو سیاست پہ discuss کرنے کا کیا حق ہے؟ وہ خواہ مخواہ حظ نفس کے لئے discuss کر رہا ہے۔ البتہ اگر کوئی صحیح سیاست دان کسی دوسرے سیاست دان کے بارے میں بولتا ہو جو برائی کی طرف لا رہا ہے۔ ظاہر ہے ہماری طرف سے بھی صحیح سیاست دان ہی سوال کرے گا کیونکہ ہم مخاطب ہی نہیں ہیں۔ ان کو ہم کہیں گے کہ تمہیں حق ہے کیوں کہ تم دوسروں کو ان کے شر سے بچانا چاہتے ہو جس کے لئے ان کے شر کو سامنے لانا ضروری ہو گا۔ لیکن عام لوگوں کے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔ ایسے لوگ خاموشی کے ساتھ کام کریں اور جب وقت آ جائے تو صحیح لوگوں کو ووٹ دے دیں۔ اتنی بات کافی ہے۔
سوال 15:
شیخ کی توجہ کا مطلب سمجھا دیں۔
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ توجہ دعائے قلبی ہوتی ہے، کیوں کہ کرتا تو سب کچھ اللہ ہی ہے۔ مثال کے طور پر میں کہوں: اے اللہ! فلاں کو یہ چیز دے دو۔ یہ دعائے لفظی ہے۔ اور میں دل میں کہوں: یا اللہ! یہ چیز ان کو دے دو۔ اور میں اس کے ساتھ اپنی نسبت کے اوپر بھی تھوڑا سا استحضار کر لوں اور اس کے ذریعے مانگوں تو اس کی قبولیت کے امکانات اور بڑھ جاتے ہیں۔ ایک دفعہ کراچی کے ایک ہسپتال میں اپنی ایک رشتہ دار خاتون کی عیادت کے لیے گیا جو میری مرید بھی تھیں۔ اس وقت ان کا Blood pressure ہائی تھا۔ انہوں نے کہا: پانی دم کر دو۔ میں نے دم کیا اور ساتھ ہی میں نے سلسلے کا تصور کر لیا جس سے ان کو فائدہ ہو گیا۔ کیونکہ وہ سلسلے میں شامل تھیں اور وہ دم کرنا گویا کہ اللہ پاک سے مانگنا تھا تو اس کے اندر اللہ پاک نے تاثیر ڈال دی۔ معلوم ہوا توجہ مختلف طریقوں سے ہوتی ہے۔ بہر حال انسان اللہ پاک سے چاہ رہا ہوتا ہے کہ اس کا یہ کام ہو جائے اور اس کے ساتھ کوئی نسبت بھی شامل ہوتی ہے تو پھر وہ زیادہ کار آمد ہو جاتی ہے۔ باقی جہاں تک جوگیوں کی توجہ کی بات ہے وہ الگ چیز ہے، وہ استدراجی چیزیں ہیں، جن کے لئے وہ مشقیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیزوں کے اندر تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ جیسے hypnotism کے ذریعے با قاعدہ لوگوں کو گرا سکتے ہیں لیکن وہ سفلی چیزیں ہوتی ہیں۔ لیکن اس کا توڑ بھی ہوتا ہے کہ آپ آیۃ الکرسی پڑھ لیا کریں۔ آپ کے اوپر اثر نہیں ہو گا۔ لیکن جو بزرگوں کی توجہ ہوتی ہے وہ اللہ پاک کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ وہ اللہ تعالی سے مانگتے ہیں تو اللہ جل شانہ وہ کام کر دیتے ہیں۔
سوال 16:
قرآن مجید میں آتا ہے کہ یہ نور بھی ہے اور شفا بھی ہے۔ تو کیا روحانی بیماریوں اور جادو وغیرہ کے توڑ کے لئے قرآن پاک کی تلاوت کی جا سکتی ہے؟
جواب:
قرآن اللہ پاک کا کلام ہے اور اس کے اندر شفا بھی ہے۔ اس کی بہت ساری برکات اور انوارات ہیں لہٰذا جو لوگ قرآن پڑھتے رہتے ہیں جنات کی شر سے اور مختلف چیزوں سے اللہ تعالیٰ ان کو محفوظ کرتے رہتے ہیں۔ اس کے ذریعے انسان اللہ پاک سے استغاثہ کر سکتا ہے اور اللہ جل شانہ سے مدد مانگ سکتا ہے۔ جہاں تک جادو کی بات ہے تو یہ ایک آزمائش اور امتحان ہے جیسے ہاروت ماروت کا واقعہ قرآن پاک میں موجود ہے کہ ان کو امتحان کے لئے بھیجا گیا تھا تو جب لوگ ان کے پاس آتے تو ان سے کہہ دیتے کہ یہ جادو ہے، یہ کفر ہے۔ اگر تم کرو گے تو کافر ہو جاؤ گے۔ اس کے با وجود بھی اگر کوئی کہتا کہ مجھے سکھا دیں تو پھر وہ سکھا دیتے۔ اور وہ نافذ بھی ہو جاتا لیکن وہ بری چیزیں تھیں۔ سفلی چیزوں کا توڑ بھی ہوتا ہے، ان کا توڑ قرآن کے ذریعے اور دیگر ذرائع سے ہوتا ہے۔ جو جادو کرتا ہے اس کا ایمان چلا جاتا ہے لیکن جو کرواتا ہے اس کا بھی ایمان جاتے رہنے کا بڑا قوی اندیشہ ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی اس طرف بالکل نہ جائے، سخت ترین دشمن کے لئے بھی ایسا نہ کرے۔ چنانچہ اس سے اپنے آپ کو بچائے رکھے۔ باقی اس سے اپنی حفاظت کرنا ایک فن ہے اور برکت ہے۔ برکت قرآن ہے اور فن یہ ہے کہ جاننے والے لوگوں سے طریقہ معلوم کر لے۔
سوال 17:
جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میں سب گناہوں کو معاف کر دوں گا پر میں شرک کرنے والوں کو معاف نہیں کروں گا۔ میں ایک جگہ پر گیا تھا وہاں دیکھا کہ ان کے ہاں ایک پیر آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنا نائب ایک عورت کو بنایا ہوا ہے۔ وہ اپنے مزار پر عورتوں کو تعویز وغیرہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ یہ ایسے ہو جائیں، ان سب کو اولاد دے دیں وغیرہ۔ لوگ ان کو سجدہ وغیرہ بھی کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو جہالت کی انتہا ہے۔ وہاں کسی نے کہا: آپ کو نہیں پتا یہ پیر صاحب بہت پہنچے ہوئے ہیں۔
جواب:
ایسے لوگوں کو ہم صوفی نہیں کہتے۔ یہ تصوف کے جامے میں ڈاکو ہیں۔ صحیح لوگ عام لوگوں سے زیادہ توحید پہ پکے ہوتے ہیں اور بدعات سے متنفر ہوتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بدعات سے بچاتے ہیں، شرک سے بچاتے ہیں۔ ایسے لوگ کم از کم اس طرف جا ہی نہیں سکتے۔ لیکن غلط لوگوں کی سزا اچھے لوگوں کو دینا دنیا کے کسی قانون میں نہٰیں ہے۔ برے ڈاکٹروں کی سزا اچھے ڈاکٹروں کو دینا کہ ان کے پاس کوئی نہ جائے۔ دھوکہ باز دکان دار، نمبر 2 مال بیچنے والے، ان کی سزا آپ صحیح دکان داروں کو دیں تو کون آپ کو انصاف والا کہے گا؟ اللہ نے آنکھیں دی ہوئی ہیں، عقل دی ہوئی ہے۔ آپ ایسے لوگوں کے پاس گئے ہی کیوں؟ آپ کو فوراً سمجھ جانا چاہیے کہ یہاں پہ گڑبڑ ہے، ایسے لوگوں کے پاس نہیں جانا چاہیے۔ لیکن اگر آپ نے کسی کے پاس جانا ہی ہے تو 8 نشانیاں بیانات میں میں نے بتائی ہوئی ہیں وہ آپ دیکھ لیں اس کے بعد آپ بے شک جائیں۔ پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا ان شاء اللہ۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين