اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
The modern world accepts all the teachings of Islam. State the above hypothesis with examples.
Question 2: Describe the contribution of Muslim scientists in the field of Islam.
جواب:
اصل میں یہ دو سوال پوچھے ہیں، لیکن سوال کا انداز انوکھا سا ہے، اس وجہ سے میں نے کہا کہ بھائی! اگر میرے exams ہیں، اور آپ پیپر لے رہے ہیں تو پورے سوال کر لیں یعنی پانچ سوال کر لیں کیونکہ پانچ سوال کا پیپر ہوتا ہے۔ اگر کچھ اور ہو تو پھر بتا دیجئے۔ اس نے پھر email بھیجا:
These questions are not any lesson, just I want to know these answers.
لیکن سوال کرنے کا طریقہ بدلنا چاہئے، یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ لیکن اس کو چلو ضرورت ہوگی، ممکن ہے کچھ CSS وغیرہ کی تیاری کرنا چاہتا ہوگا، کیونکہ اس قسم کے سوالات اس میں آتے ہیں۔ لیکن جتنی ہم help کرسکتے ہیں وہ کر دیتے ہیں کیونکہ مسلمان کی help کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
جہاں تک پہلا سوال ہے تو دراصل مجھے پتا نہیں ہے کہ hypothesis کس کی ہے، I don't know it is ایسی کوئی hypothesis میں نے نہیں سنی۔ ایک خوش فہمی ہوسکتی ہے، شیطان بہت پاورفل ہے وہ اسلام کے قریب کسی کو نہیں آنے دیتا۔ اللہ نے شیطان کا جو پس منظر بیان کیا ہے یعنی جو اللہ کے ساتھ اس کا dialogue ہے، اس کے اخیر میں یہی کہا تھا کہ میں ان کے راستے میں بیٹھ جاؤں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے آؤں گا، آگے سے آوں گا اور پیچھے سے آؤں گا اور ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تو ان میں سے بہت کم کو شکر گزار پائے گا۔ یہ قرآن کی بات ہے۔ شیطان اس پر قائم ہے۔ لہٰذا شیطان اپنے منصوبے میں کافی کامیاب نظر آتا ہے۔ اسلام کی جو بالکل واضح باتیں ہیں، وہ بھی آج کل لوگ مشکوک بنا رہے ہیں، اور خود مسلمان اپنے اندر الحاد سے شگاف ڈال رہے ہیں، ان کے نظریات کو confuse کیا جا رہا۔ باقی اسلام کی اپنی خوبی ہے، اپنا حسن ہے، اس سے کوئی انکار نہیں ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿الٓمّٓۚ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ﴾ (البقرہ: 1-2)
ترجمہ1: ’’الم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے‘‘۔
میرے خیال میں جو پہلی بات ہے یعنی ﴿لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾ اس میں قرآن پاک کی حقیقت ہے کہ اس کے اندر کوئی شک نہیں، یہ بیشک اللہ کا کلام ہے۔ لیکن ﴿هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ﴾ فرمایا گیا ہے کہ جو اللہ سے ڈرنے والے ہیں، یہ ان کے لئے ہدایت ہے، اگرچہ قرآن اپنی جگہ برحق ہے، لیکن جو لوگ شک کرنے والے ہیں، ان کے ذہن میں اور عقل میں شک ہے، ان کو شیطان نے biased بنایا ہوا ہے اور شیطان ان کو حقیقت سے دور لے جا رہا ہے۔ لہٰذا ماڈرن ورلڈ نے اسلام کے بارے میں confusions create کی ہیں، یہ الگ بات ہے کہ اسلام کا حسن اپنی جگہ موجود ہے۔ اس لئے جو بھی طالب ہوگا اسلام اس کو مل جائے گا، اور جو بھی حقیقت کا طالب ہوگا اس کو راستہ مل جائے گا۔ لیکن جو طالب نہیں ہے، تو پھر اللہ پاک نے بھی فرمایا ہے کہ اگر تم ہدایت نہیں چاہوں گے اور تم کراہت کرو گے تو میں بھی تمھیں ہدایت نہیں دوں گا۔ جیسے اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:
﴿اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ﴾ (ہود: 28)
ترجمہ: ’’تو کیا ہم اس کو تم پر زبردستی مسلط کردیں جبکہ تم اسے ناپسند کرتے ہو؟‘‘
اور جو طالب ہیں ان کے لئے فرمایا:
﴿وَالَّذِيۡنَ جَاهَدُوۡا فِيۡنَا لَنَهۡدِيَنَّهُمۡ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ’’اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے‘‘۔
لہٰذا یہ چیزیں اپنی جگہ طے شدہ ہیں کہ جو لوگ ہدایت چاہتے ہیں تو اللہ پاک ان لوگوں کو ضرور بضرور ہدایت کے راستے سجھا دیتے ہیں۔ اور جو لوگ نہیں چاہتے تو اللہ تعالیٰ ان کو زبردستی نہیں کرتے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿لَاۤ اِكۡرَاهَ فِىْ الدِّيۡنِۙ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَىِّۚ﴾ (البقرہ: 256)
ترجمہ: ’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں ہے، ہدایت کا راستہ گمراہی سے ممتاز ہوکر واضح ہو چکا ہے‘‘۔
یعنی اسلام کے اندر کوئی جبر نہیں ہے، بلکہ اسلام کا جو صحیح راستہ ہے وہ واضح ہوگیا ہے اور بغاوت سے جدا ہوگیا ہے۔ لہٰذا اب جو لوگ طالب ہیں ان کو تو ضرور بالضرور اللہ تعالیٰ ہدایت کے راستے سجھائیں گے۔ ہم نے الحمد للہ cases دیکھے ہیں کہ جو لوگ یورپ اور امریکہ میں طالب تھے ان کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت پہنچا دی، وہ محروم نہیں رہے اور جو لوگ نہیں چاہتے تو خانہ کعبہ کے اندر بیٹھ کر بھی محروم ہیں۔ جو لوگ نہیں چاہتے تھے تو پھر پیغمبر کی بیوی، پیغمبر کے والد، پیغمبر کا بیٹا اور پیغمبر کا چچا بھی محروم رہا۔ اور چاہنے والوں میں فرعون کی بیوی اور نمرود کی بیٹی ہدایت حاصل کر لیتے ہیں، تو یہ ہمارے پاس examples ہیں، قرآن میں examples ہیں، حدیث شریف میں examples ہیں۔ لہٰذا بات وہی ہے کہ اللہ جل شانہٗ کسی پر زبردستی نہیں کرتے، بلکہ جن لوگوں کو طلب ہے تو وہ فرعون جیسے باغی کے گھر میں بھی رہ کر مسلمان ہے اور بلکہ اعلیٰ درجہ کی مسلمان ہے، صدیقہ ہیں۔ اور نمرود کی بیٹی ہدایت پا لیتی ہے، وہ نمرود جو ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے والا تھا، اور لوط علیہ السلام کی بیوی محروم لوگوں میں ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِیْنَ﴾ (الأعراف: 83)
ترجمہ: ’’(ان کی بیوی) باقی لوگوں میں شامل رہی (جو عذاب کا نشانہ بنے)‘‘۔
اسی طرح نوح علیہ السلام کا بیٹا محروم رہا۔ تو جب یہ بات ہے تو پھر ہم لوگ کیوں خوش فہمیوں میں مبتلا ہوں! اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں واضح کردی ہیں۔ اب وضاحت چونکہ موجود ہے، لہٰذا ہم لوگ خواہ مخواہ اپنے آپ کو طفل تسلیاں نہ دیں بلکہ اسلام کی حقانیت کو ہم بیان کردیں اور پیش کردیں کہ وہ اپنی جگہ برحق ہے، چاہے اس کو کوئی مانے یا نہ مانے۔ جیسے کہتے ہیں کہ اسلام کمزور ہے۔ نہیں بالکل نہیں اسلام کبھی کمزور نہیں ہوتا بلکہ مسلمان کمزور ہوتا ہے۔ اسلام میں کیا تبدیلی کوئی لا سکتا ہے! جیسے قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتا، اسی طرح اسلام میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ اسلام اپنی جگہ پر برحق ہے، اور پھر یہ بات بھی ہے کہ اخیر وقت تک ایک جماعت حق پر رہے گی اور ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پروا نہیں کرے گی۔ لہٰذا ختم بالکل نہیں ہوگا اور جب ختم ہوجائے گا تو پھر قیامت آجائے گی، پھر کائنات کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن جب تک کوئی ایک آدمی بھی مسلمان زمین پر موجود ہے تو قیامت نہیں آئے گی۔
دوسرا سوال ہے:
Describe the contribution of Muslim scientists in field of Islam۔
میرے خیال میں یہ تو بہت سارے لوگ ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس پر کچھ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے، لیکن بہرحال آج کے دور کے مسلمان scientist اور پہلے دور کے مسلمان scientist ان میں کافی فرق ہے۔ الخوارزم کی کتاب ’’الجبر و المقابلہ‘‘ اس کا جو دیباچہ ہے وہ میں نے پڑھا ہے، عربی میں ہے، انسان حیران ہوجاتا ہے، بالکل ایسا ہے جیسے کوئی حدیث کی کتاب کا خطبہ لکھتا ہے، ایسی چیز ہے۔ اخیر میں وہ وجہ بیان کرتے ہیں کہ میں یہ کتاب اس لئے لکھ رہا ہوں کہ مسلمانوں کو زمینوں کی پیمائش میں اور اس طرح چیزوں کے حساب کتاب میں مشکلات پیش آرہی تھی، تو میں نے کہا کہ ان کے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے میں کتاب لکھوں۔ یہ پہلی کتاب تھی ’’الجبراء‘‘ کی دنیا میں، جو ریاضی کی بنیاد بنی، صحیح معنوں میں ابتدا اس کتاب سے ہوئی ہے، جو انہوں نے مسلمانوں کے لئے لکھی ہے۔ لہٰذا یہ اسلام کے لئے ہی تھی اگرچہ بعد میں دوسرے لوگوں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا، اسی طرح جابر بن حیان کی کیمسٹری ہے، اس نے اس لحاظ سے مسلمانوں کی خدمت کی۔ اور یہ جو aestronomy ہے اس پر بہت کام ہوا ہے، ابو ریحان البیرونی نے اس پر کافی ریسرچ کی ہے اور جو عمرانیات ہے، اس نے اور ابن خلدون نے یہ کام کیا ہے۔ آج کل جدید دور میں جو مسلمان ہیں، انہوں نے کمپیوٹر کے ذریعے قرآن پاک کی خدمت کی، قرآن پاک کا باقاعدہ analysis کیا کہ اس میں کتنی آیتیں کس چیز کی ہیں، کتنی آیتیں کس چیز کی ہیں، کس subject کی ہیں اور کمال کی بات ہے کہ algorithum اس میں پایا جاتا ہے، آدمی حیران ہوجاتا ہے، بس 19/19 matrix بن جاتا ہے، یعنی یہ ﷽ اگر یہ سورۃ الانفال اور سورۃ التوبہ کے درمیان میں ہوتی تو یہ 19/19 matrix نہ بنتا، لیکن وہ نہیں ہے تو یہ 19/19 matrix بنتا ہے، اس طرح پورا analysis قرآن کا انہوں نے کیا ہے۔ اور آج کل دیکھیں! کہ مسلمان جو علماء ہیں، جو کتابوں کی سرچ کرتے ہیں، پوری کی پوری لائبریری چند سی ڈیز پر آجاتی ہیں، یہ الفیہ اور شاملہ یہ کتنا بڑا کام ہے۔ پہلے حافظوں سے پوچھ لیتے تھے کہ قرآن میں یہ آیت کدھر ہے یا اس موضوع پر کہاں ہے، لیکن اب آپ کے پاس سافٹ ویئر ہے، آپ جو اس کو keyword دے دیں وہ آپ کو نکال دیں گے۔ ایک دفعہ مدرسہ میں میری بیٹی کے ساتھ ایسا ہوا کہ کسی نے ’’دعائے نور‘‘ کا بتایا کہ اس کی یہ فضیلت ہے۔ میں نے سی ڈی لے لی جو میرے پاس ’’الفیہ‘‘ کی سی ڈی تھی، جس میں ہزار کتابیں حدیث کی تھیں، میں نے اس دعا کا کوئی لفظ لے کر سرچ پر لگا دیا، لیکن پوری کی پوری سی ڈی گزر گئی اور اس میں وہ دعا نہیں آئی، میں نے کہا بیٹی! تمھارے خیال میں یہ ہوسکتا ہے کہ سی ڈی خراب ہے، تو چلو ٹیسٹ کر لیتے ہیں کہ سی ڈی خراب ہے یا نہیں، میں نے کہا کہ یہ سامنے پڑی ہوئی جو کتب ہیں ان میں سے کوئی حدیث کی کتاب لے لو، اس نے ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ اٹھائی، میں نے کہا اس میں سے کوئی حدیث ڈھونڈو، اس نے ایک حدیث لے لی، میں نے کہا اس میں سے کوئی لفظ بتاؤ، لفظ بتایا اور میں نے سرچ لگایا تو پوری لسٹ آگئی کہ فلاں کتاب میں، فلاں کتاب میں اور فلاں کتاب میں یعنی سارا بتا دیا۔ میں نے کہا یہ سی ڈی کام کر رہی ہے یا نہیں کر رہی؟ کہتی کر رہی ہے، میں نے کہا کہ دیکھو! پھر ’’دعائے نور‘‘ کہیں پر نہیں ملی، اس لئے یہ موضوع روایت ہے۔ لہٰذا دیکھیں کام ہے یا نہیں ہے! اس لئے ماشاء اللہ! انہوں نے ایسے کام کیے ہیں۔ اگر ’’شاملہ‘‘ میں سرچ کیا جائے قرآن پاک، یا حدیث شریف، یا فقہ تو ماشاء اللہ بہت ساری کتابیں پڑی ہوئی ہیں۔ اس لئے آج کل ریسرچ کرنا بہت آسان ہے۔ میں نے میراث کی جو کتاب لکھی ہے، اگر میرے پاس یہ سافٹ ویئر نہ ہوتے تو شاید میں نہ لکھ سکتا ’’فہم المیراث پر مدلل کتاب‘‘ میں نے یوں کیا تھا کہ قرآن سے اور احادیث شریفہ سے میراث کے موضوع پر مواد لیا۔ اور ان دنوں میرے پاس صرف ایک سی ڈی تھی جس میں نو احادیث شریفہ کی کتابیں تھیں، ’’صحاح ستہ‘‘، ’’مسند امام احمد بن حنبل‘‘، ’’مسند دارمی‘‘ اور ’’موطا امام مالک‘‘ یہ نو کتابوں کی سی ڈی میرے پاس تھی، میں نے اس پر سرچ لگایا کہ میراث کے موضوع پر جو جو اس کے پاس ہے وہ مجھے دے دے، تو ساری کی ساری وہ احادیث شریفہ اس نے مجھے دے دی، تو اس کی میں نے ایک فائل بنا دی، ایک فائل میں رکھنے کے بعد پھر قرآن پاک میں جو ایک رکوع ہے وہ میں نے لیا، بس اس کے بعد پھر میں بیٹھ گیا اور لکھنا شروع کردیا، جہاں جہاں جس جس چیز کی ضرورت تھی یعنی قرآن کی آیتوں کی یا حدیث کی وہ میں لگاتا گیا تو ایک کتاب بن گئی۔ اگرچہ ایک دن میں نہیں بنی لیکن راستہ تو مل گیا اور محنت کام کر گئی۔ اس لئے یہ چیزیں بہت اہم ہیں۔ انٹرنیٹ کی facilities کو لوگ استعمال کرتے ہیں، سی ڈیز کی facilities کو لوگ استعمال کرتے ہیں، softwares لکھتے ہیں، ہم نے میراث کا سافٹ ویئر لکھا ہے۔ الحمد للہ! اور نمازوں کے اوقات کا سافٹ ویئر لکھا ہے، اس لئے یہ سارے کام ہیں۔ اور سائنس پر تو بے تحاشا کام ہے، میں کیا کیا بتاؤں! اس پر تو سیر حاصل گفتگو کرنا مشکل ہے، لیکن بہرحال میرے خیال میں پشتو کی ایک ضرب المثل ہے: ’’اصيل ته اشاره کم اصل ته لوړ‘‘ کہ جو اصیل ہے اس کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے، اور جو کم اصل ہوتا ہے اس کے لئے پھر ڈانگ ہے۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں ہیں، اب اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے لیکن بہرحال یہ ہیں اور بہت ساری چیزیں ہیں۔ جو لوگ خدمت کر رہے ہیں اور ایسے لوگوں کی آج کل ہمیں ضرورت بھی ہے، scientist کی ضرورت ہے، انجینئر کی ضرورت ہے اور ڈاکٹروں کی ضرورت ہے۔ ایک دفعہ حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتھم نے مجھ سے فرمایا شبیر! ایک لسٹ بناؤ انجینئروں کی، سائنسدانوں کی، ڈاکٹروں کی اور جس جس فیلڈ کے بھی لوگ ہیں جو دیندار ہیں ان کی لسٹ بنا دو اور ہمیں دے دو تاکہ اگر ہمیں کسی مسئلہ میں ان سے مشورہ کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو وہ ہمیں معلوم ہوں اور ہم ان کے ساتھ مشورہ کرسکیں۔ میں نے کہا حضرت! آپ دعا فرمائیں لسٹ ہمارے پاس موجود ہے، الحمد للہ! ہمارے پاس لوگ ہیں، وہ کہتے کہاں ہیں؟ میں نے PIEAS کا بتایا، اور کہا PIEAS میں سارے موجود ہیں یعنی ہر قسم کے سائنسدان ہیں، ہر قسم کا انجینئر ہے اور ہر قسم کے ڈاکٹر بھی ہیں اور اکثر دیندار بھی ہیں الحمد للہ۔ لہٰذا آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا۔ انہوں نے پھر مجھے ایک سوال دیا تھا، تو میں نے کہا تھا کہ فی الحال میں جواب دے دیتا ہوں، لیکن ہمارے ہاں اس کا ایک ماہر بھی ہے اس سے بھی میں مشورہ کر لوں گا، اگر میرے سوال میں کوئی غلطی ہوئی تو وہ بتا دے گا، تو کام شروع ہوگیا۔ لہٰذا یہ چیزیں ممکن ہیں اور ہونی بھی چاہئیں اور الحمد للہ ہو بھی رہی ہیں، اس لئے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ لیکن اس صاحب سے پھر مجھے ایک بار کہنا پڑا کہ سوال ذرا اچھے طریقے سے کر لیا کریں، سوال میں انداز احتیاج والا ہو، نہ کہ امتحان والا، کیونکہ یہ بے ادبی اور گستاخی ہے۔ کیا آپ کسی استاذ سے اس انداز میں پوچھ سکتے ہیں؟ describe کسی استاذ سے آپ کہہ سکتے ہیں؟ استاذ سے یہ انداز تو پوچھنے کا نہیں ہوگا۔ چونکہ ہماری تو ذمہ داری ہے، ہم اس پوزیشن پر بیٹھے ہوئے ہیں کہ اگر ہم کسی کی اصلاح نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ اس لئے جواب دینے کے ساتھ ساتھ یہ اصلاح بھی ضروری تھی کہ سوال کرنے کا انداز ٹھیک ہونا چاہئے، تکبرانہ انداز نہیں ہونا چاہئے۔ ایک دفعہ میں بات کر رہا تھا تو ایک صاحب اس پر اعتراضات کر رہے تھے اور عنوان یہ بنایا ہوا تھا کہ میں آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں، لیکن کر اعتراضات رہے تھے۔ میں نے کہا حضرت! آپ مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں تو میرے طریقے پر سیکھیں گے یا اپنے طریقے پر سیکھیں گے؟ اصول تو یہ ہے کہ جس سے سیکھا جاتا ہے اس کے اصولوں کے طریقوں پر سیکھا جاتا ہے۔ استاذ کے طریقے پر شاگرد سیکھتا ہے، اپنے طریقے پر نہیں سیکھ سکتا، یہ طریقہ الٹا ہے، اس لئے یا تو اپنے آپ کو شاگرد بنا لو تاکہ میں اپنے طریقے پر آپ کو سیکھاؤں یا پھر اس کو چھوڑ دیں، کیونکہ اس کو آپ سیکھنا نہیں چاہتے۔ لیکن اس نے اپنا وتیرہ چھوڑا نہیں تو میں نے بھی پھر بتایا نہیں، کیونکہ علم میں غیرت ہونی چاہئے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے الحمد للہ! ہمیں یہ علمی غیرت والی نعمت ملی ہے۔ ایک دفعہ ’’بیشتی زیور‘‘ پر کچھ لوگوں نے اعتراضات شروع کیے تو حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ بہت بڑے عالم تھے لیکن بڑے متواضع عالم تھے، تو وہ لوگ ان کے سامنے آئے اور ان کو بہت زیادہ تنگ کیا کہ اس کی کیا دلیل ہے اور اس کی کیا دلیل ہے؟ حضرت ان کو اپنے طور پر سمجھاتے رہے کہ اتنے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ خود تشریف لائے، حضرت مولانا خلیل احمد سهارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: سبحان اللہ! مصنف خود آگئے ہیں۔ لہٰذا آپ کے سوالوں کے جوابات وہ دے دیں گے اور میں جا رہا ہوں۔ جب حضرت کے حوالے کیا تو انہوں نے وہی اعتراضات پیش کر لئے، اب حضرت کا تو چونکہ اپنا انداز تھا، تو فرمایا کہ ’’بہشتی زیور‘‘ میں صرف انہی چیزوں کو آپ نہیں سمجھے یا اس کے علاوہ بھی کچھ اور چیزوں کو نہیں سمجھا؟ فرمایا کہ اگر آپ اجازت دیں تو پھر میں آپ سے پوچھ لوں کہ باقی چیزیں آپ سمجھ گئے ہیں؟ اب کون حضرت کو امتحان دے سکتا تھا! اس لئے کہنے لگے نہیں جی، کچھ اور چیزیں بھی ہیں، فرمایا پھر اس کی تخصیص کیوں؟ اس کے بارے میں کیوں پوچھ رہے ہو اور باقی کے بارے میں کیوں نہیں پوچھ رہے؟ آخر آپ نے ان سوالوں کو کیوں منتخب کیا جبکہ باقی بھی بقول آپ کے آپ نہیں سمجھے، تو کیا وجہ ہے کہ آپ نے صرف انہی کو کیوں رکھا ہے؟ اس کا جواب دو پھر میں جواب دوں گا۔ اب وہ بڑبڑ کرنے لگے کہ یہ تو جواب نہیں دینا چاہتا، اور وہ بھاگ گئے۔ حضرت نے کہا کہ ایسے لوگوں کو ایسے ہی جواب ملتا ہے، ایسے کو تیسے۔ لہٰذا جیسے کوئی ہوتا ہے اسی طرح اس کو جواب ملتا ہے۔ الحمد للہ! ہمیں اپنے اکابر سے یہ سبق ملا ہے کہ دین کی عزت کروانا، علم کی عزت کروانا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی اتنی سستی چیز نہیں کہ کوئی بھی آجائے اور چڑھ دوڑے۔ اگرچہ کسی جگہ یہ کام ہوسکتا ہوگا لیکن ہمارے ساتھ نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا یہ میری نصیحت ہے کہ آئندہ اپنے سوال کا انداز ٹھیک کریں، متکبرانہ انداز چھوڑیں، امتحانی انداز چھوڑ دیں بلکہ احتیاجی انداز اختیار کر لیں کہ مجھے یہ چیز نہیں آتی آپ بتائیے۔ کیونکہ describe the contribution of Muslim scientists تو کوئی امتحانی پرچے کا سوال ہے، جیسے کوئی ممتحن کسی کا امتحان لینا چاہتا ہو۔ خیر اچھی بات ہوگئی اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرما دے۔
سوال نمبر 2:
حضرت! جو قوت ارادی ہے کیا اس میں اضافہ ہوسکتا ہے؟
جواب:
اصل میں بعض چیزیں لوگوں میں موجود ہوتی ہیں، لیکن ان کے ساتھ کچھ موانع بھی موجود ہوتے ہیں، جیسے ایک حسین صورت ہو اور اس کے اوپر کچھ گندی چیزیں لگی ہوئی ہوں، تو وہ گندا نظر آرہا ہوتا ہے، اب اگر ان سے ان چیزوں کو ہٹا دیا جائے تو وہ اپنی اصلی صورت میں نکل آئے گا، اب اس کو حسین کیا نہیں گیا، لیکن اس کے حسن کو نکھارا گیا ہے یعنی اس کی جو رکاوٹ تھی وہ دور کی گئی ہے۔ ایسے ہی بعض لوگوں میں قوت ارادی ہوتی ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ مسائل ہوتے ہیں، ان مسائل کو دور کرنے سے ان کی اصل قوت ارادی سامنے آجائے گی۔ لہٰذا کوشش صرف ان چیزوں کی کی جاسکتی ہے، لیکن جو اصل قوت ارادی ہے اس میں اضافہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ وہ تو جیسے جس کی ہے اسی طرح رہے گی، لیکن جو موانع ہیں ان کو ہٹایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایک شخص کو زیادہ یاد نہیں رہتا، یہ اس کے موانع میں سے ہے، تو بتائیں! قوت ارادی متأثر ہوگی یا نہیں ہوگی؟ جس چیز کو بھول گیا تو اس کا فیصلہ کیا کرے گا؟ کیونکہ انفارمیشن اس کے سامنے پوری نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چاہئے کہ یہ نوٹس لینا سیکھے، ڈائری لکھنا سیکھے، اس طریقے سے جو چیزیں ارادے کے لئے چاہئے ہوتی ہیں وہ اس کے سامنے ہوں گی، پھر فیصلہ زیادہ آسانی کے ساتھ ہوگا۔ جو management کے کورس ہوتے ہیں ان میں یہ چیزیں پڑھائی جاتی ہیں کہ کیسے آپ ان چیزوں کو manage کریں گے! اس میں یہ tools بتائے جاتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے آرٹ اور ایک ہوتی ہے سائنس، آرٹ کی definition یہ ہے کہ وہ خداداد ہوتا ہے، اس کو آپ کم اور زیادہ نہیں کرسکتے، البتہ اس کو نکھار سکتے ہیں، مثلاً جو شاعر پیدا ہوا ہے، وہ شاعر ہوگا لیکن جو شاعر پیدا نہیں ہوا، اس کو آپ شاعر نہیں بنا سکتے۔ البتہ جو شاعر پیدا ہوا ہے اس کی شاعری کو آپ بہتر کرسکتے ہیں، اس کے لئے استاذ پکڑتے ہیں اور اصلاح لیتے ہیں، اور یہ ساری چیزیں ابتدا میں ہوتی ہیں، ممکن ہے کہ بعد میں وہ اپنے استاذ سے زیادہ اچھا شاعر بن جائے، لیکن ابتدا میں اس کو سیکھنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر چیز کے اصول ہیں، غزل کا اپنا اصول ہے، نظم کا اپنا اصول ہے۔ اس لئے ان چیزوں کو سیکھنا پڑے گا، اگر ان چیزوں کا پتا نہیں ہوگا تو پھر وہ کیا شاعری کرے گا! خاک شاعری کرے گا! لہٰذا یہ چیز ہے کہ اس کا کچھ حصہ information based اور کچھ حصہ God gifted ہے۔ اب جو حصہ God gifted ہے، اس کو آپ change نہیں کرسکتے، وہ تو اپنی جگہ پر ہوگا، لیکن جو چیزیں آپ تجربہ کے ساتھ مزید شامل کرسکتے ہیں یعنی Information point of view سے اور Management point of view سے، وہ آپ کرسکتے ہیں۔ اس طریقے سے جو قوت ارادی ہے، اس کے موانع کو دور کرنے کے ذریعے سے اس کو بھی آپ improve کرسکتے ہیں۔ باقی اس میں جو قدرتی عطیہ ہے اس کو کم و بیش نہیں کیا جاسکتا۔
سوال نمبر 3:
نفس کی اصلاح میں قوت ارادی کا کیا roll ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ! نفس کی اصلاح میں بہت بڑا roll ہے۔ دیکھیں! علم آپ کو یہ پتا دیتا ہے کہ کون سی چیز جائز ہے، کون سی چیز ناجائز ہے، کون سی چیز حلال ہے، کون سی چیز حرام ہے اور کون سی چیز کو کس طرح کرنا ہے، یہ آپ کو علم بتاتا ہے۔ لیکن عمل جب آپ کو کرنا ہوگا تو اس میں آپ کو دو چیزوں کا مقابلہ کرنا ہوگا، ایک شیطان کا اور دوسرا نفس کا۔ شیطان intelligent ہے وہ آپ کے نفس کو use کرے گا، اور آپ کو اپنے راستے سے ہٹائے گا۔ نفس بیوقوف ہے وہ اپنی خیر اور شر کو نہیں جانتا بس وہ اپنی ضد پر اڑا رہتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ میں نے یہ کرنا ہے، لیکن وہ بات نہیں مانے گا۔ لہٰذا دونوں صورتوں میں قوت ارادی استعمال ہوتی ہے، البتہ تھوڑی سی different طریقے سے یہ قوت ارادی شیطان کے خلاف استعمال ہوتی ہے کہ میں نے بس اس کی بات نہیں سننی، چاہے کچھ بھی کرو، وسوسے آرہے ہوں لیکن پروا نہ کرو یعنی سنی ان سنی کرنا یہ شیطان کے ساتھ ہے۔ اور نفس کا یہ معاملہ ہے کہ اس کو دباتے جانا ہے، اور جب وہ ناجائز چیز کو کرنا چاہے تو وہ نہیں کرنا بلکہ اس سے بچنا ہے۔ اور جو چیز شریعت کا حکم ہے لیکن یہ اس سے انکار کرے تو اس کو کروانا ہے، اس طریقے سے یہ ٹھیک ہوتا جائے گا۔ لہٰذا جس سے آپ کروائیں گے یہ قوت ارادی ہے یعنی درمیان میں قوت ارادی ہے کہ جس سے آپ نفس کو دباتے جائیں گے اور نفس کی بات نہیں مانیں گے۔ آج کل یہی کمی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ خود بخود سارے کام ہوجائیں، جبکہ خود بخود تو کچھ نہیں ہوتا بلکہ کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ایک ڈرائیور ہے، آپ نے اس کو سارا کچھ سکھا دیا ہے، سٹیرنگ پر بیٹھنا بھی سکھا دیا ہے، لیکن وہ بیٹھ کر ہل ہی نہیں رہا تو اب آپ اس کا کیا کریں گے؟ یہی کہ بھائی! شروع کرو، اس کو پھر آہستہ آہستہ مشکل مشکل جگہوں پر بھی لے جائیں گے اور یہی طریقہ ہوتا ہے یعنی اس کو ہمت کرنی پڑے گی، کیونکہ ہر وقت تو استاذ اس کے پاس نہیں ہوگا بلکہ ڈرائیونگ تو اس کو خود ہی کرنی پڑے گی، اور اس طرح انسان اپنی گاڑی کو خود ہی چلائے گا، اگرچہ سیکھنے کے لئے اپنے استاذ سے پوچھے گا، اس کے ساتھ تعلق رکھے گا، لیکن کام خود ہی کرنا پڑے گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا آج کل کے دور لحاظ سے ایک زریں اصول ہے کہ ہمت کرنی ہے، ہمت کا کوئی substitute نہیں ہے، نہ کوئی وظیفہ، نہ کوئی اور چیز، بلکہ ہمت آپ نے خود کرنی ہے۔ البتہ وہ کام آپ کے لئے تجربہ کے لحاظ سے اور علم کے لحاظ سے آسان بنایا جاسکتا ہے، اور اللہ بھی آپ کے لئے برکت کے لحاظ سے آسان کردے گا، لیکن بہرحال ہمت کرنی پڑے گی۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’که روټۍ خوړل آسان دی خو نوړۍ جوړول غواړی‘‘ کہ اگرچہ روٹی کھانا آسان ہے لیکن نوالہ تو بنانا پڑے گا۔ تو یہی چیز ہے کہ ہمت کرنی پڑے گی، اس کے بعد پھر اپنی اپنی پرواز ہے۔
سوال نمبر 4:
آپ جو بات کر رہے تھے، اسی حوالے سے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ﴾ (ابراھیم: 7)
ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔
یعنی شکر پر نعمتوں میں اضافہ ہوگا تو کیا یہ اضافہ بنیادی صلاحیتوں پر شکر کرنے پر بھی ہوگا؟
جواب:
یہ نعمت کے بارے میں ہے۔ جو بھی چیز نعمت کی definition میں آتی ہے، یعنی جو بھی نعمت جس کو بھی ملی ہے وہ اگر اس پر شکر ادا کرے گا تو اللہ جل شانہٗ اس کو بڑھا دے گا، صلاحیتیں ہوں یا جو بھی نعمت ہو یعنی جس کو آپ نعمت کہہ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 5:
حضرت! اکثر آپ بیانات میں فرماتے ہیں کہ سلوک اور جذب یہ دو ذرائع ہیں، یا اپنے extremes ہیں۔ پھر جذب کے اندر آپ فرماتے ہیں کہ یہ راستہ مختصر ہے، لیکن پُر خطر ہے۔ پُر خطر سے کیا مراد ہے؟
جواب:
یہ میں نہیں کہتا بلکہ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ حضرت نے یہ فرمایا ہے اور بہت کمال کی یہ بات ہے۔ حضرت چونکہ اس صدی کے مجدد ہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان پر دونوں چیزیں بہت زیادہ کھولی تھیں، سلوک کو بھی اور جذب کو بھی۔ سلوک میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے پیروکار ہیں اور جذب میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے، اور یہ دونوں اپنی اپنی فیلڈ کے ماہر ہیں، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے سلوک میں بہت زیادہ استفادہ کیا ہے۔ حضرت نے ’’خطبات الاحکام‘‘ میں لکھا ہے کہ میں نے حضرت غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل سے یہ مضامین جمع کیے ہیں۔ تو یہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی فیلڈ ہے۔ اور یہ جذب حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی فیلڈ ہے۔ پُر خطر سے مراد صرف یہ ہے کہ جذب میں چونکہ محبت ہے، تو اب جتنا High power engine ہوگا اور اس سے آپ گاڑی چلائیں گے تو نقصان ہوسکتا ہے، مثال کے طور پر موٹر سائیکل ہے، جو دو ہزار سی سی ہے، اب یہ گویا کہ اڑتا ہے، اس سے پھر آپ jump بھی لگاتے ہیں کیونکہ یہ بہت پاورفل ہوتی ہے، لیکن غلط جگہ پر اگر jump لگایا تو پھر پتا چل جائے گا کہ ایسا گرے گا کہ لڑھکتا جائے گا، اور وہ اس سے بہت جلدی پہنچے گا، لیکن اگر mishandle ہوگیا تو ہڈی پسلی ایک ہوسکتی ہے۔ جذب میں بھی یہی چیز ہے کہ اگر کنٹرول نہیں ہوا تو آدمی مجذوب ہوسکتا ہے، سارا کچھ fuse ہوجائے گا۔ اس کے لئے بہت پاورفل شیخ چاہئے جو اس کو کنٹرول کرے اور اس کو کنٹرول سے باہر نہ جانے دے۔ اس لئے فرمایا کہ جذب طریقہ تو مختصر ہے لیکن پُر خطر ہے۔ اور سلوک کا طریقہ محفوظ ہے، کیوںکہ ایک ایک کر کے آپ کر رہے ہیں، لیکن ہے یہ لمبا۔ آج کل ہم لوگوں نے بلکہ ہمارے بزرگوں نے combination بنائی ہوئی ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ہماری تکمیل بذریعہ جذب ہوتی ہے۔ گویا تکمیل اینڈ ہوتی ہے، لہٰذا پہلے ایک خاص حد تک سلوک طے کرایا جاتا ہے، جب سلوک طے ہوجاتا ہے تو پھر اس کو کم از کم جگہیں معلوم ہوجاتی ہیں کہ کون سی صحیح ہے، کون سی غلط ہے، کیا طریقہ کرنا ہے، کیا نہیں کرنا چاہئے۔ لہٰذا اتنا اس کو علم ہوجاتا ہے، اب اگر یہ اڑتا ہے تو طریقے سے اڑتا ہے۔ تو ہمارے ہاں ابتدا میں سلوک اور پھر جذب ہے۔
حضرت مولانا اشرف صاحب نے (اللہ تعالیٰ نے حضرت کو بڑے درجات عطا فرمائے ہیں) مجھے بہت کم ذکر دیا تھا۔ حضرت کو دوسرے دن پتا چل گیا کہ اگر اس کو mishandle کیا گیا تو یہ مجذوب ہوجائے گا۔ اس لئے باقی لوگوں کو ذکر دیتے تھے اور نہ کرنے پر ناراض بھی ہوتے تھے کہ ذکر کیوں نہیں کرتے؟ تو لوگ ذکر کرتے نہیں تھے اور میں خود مانگتا تھا اور وہ مجھے نہیں دیتے تھے، جب کبھی مانگتا تو کہتے تیرے پاس وقت ہے؟ اب میں کیا کہہ سکتا تھا، فرماتے بس یہ کافی ہے۔ تین تسبیحات میرے لئے کافی عرصہ چلائیں۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، ’’اَللہ اَللہ‘‘ اور ’’اَللہ‘‘ بس۔ پھر کافی عرصے کے بعد چار تسبیحات کردیں یعنی ’’اِلَّا اَللہُ‘‘ بھی سو دفعہ کردیا، سالہا سال بڑھاتے ہی نہیں تھے۔ اور پھر ایک وقت آگیا کہ خود فرمایا کہ اب جو مرضی کرو، جتنا کرو۔ تو ساری پابندی اٹھا دی۔ مقصد یہ ہے کہ ایک طریقہ تھا۔ ایک دفعہ باقاعدہ مارشل لاء آرڈر میسج میرے بارے میں نشر کیا تھا کہ کوئی بھی اس کو مسئلہ نہیں بتائے گا بلکہ اس کو صرف میں مسئلہ بتاؤں گا۔ ایک دفعہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ کسی بات کے ذیل میں یہ قصہ آگیا کہ ایک بزرگ تھے جو باسی روٹی کھاتے تھے، کسی نے پوچھا کہ حضرت! یہ باسی روٹی آپ کیوں کھاتے ہیں؟ فرمایا: یہ آپ ﷺ کی زندگی کے قریب ہوتی ہے، (کیونکہ محبت والا معاملہ تھا) اچانک میں حضرت کو نظر آگیا تو فوراً فرمایا تم گرم روٹی کھاؤ گے، پھر فرمایا کہ اگر اس کو میں نہ کہتا تو اس نے کل سے شروع کر دینا تھا۔ حضرت کو چونکہ پتا تھا کہ میرا پیٹ خراب رہتا ہے، اس لئے حضرت نے instructions پاس کردیئے۔ اب الحمد للہ گرم روٹی اللہ کھلاتا ہے، شکر الحمد للہ! اللہ مجھے گرم روٹی کھلاتا ہے تو مجھے حضرت یاد آجاتے ہیں کہ حضرت نے فرمایا تھا کہ تم گرم روتی کھاؤ گے۔ گویا گرم روٹی کھانا میرے لئے حضرت کی یاداشت کی صورت بن گئی۔ یہ میں اس لئے عرض کرتا ہوں کہ یہ حضرات بہت پاورفل لوگ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ کنٹرول کرتے ہیں۔ اس طرح نہیں کہ ہوا میں اڑاتے جاؤ کیونکہ یہ طریقہ نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک کا اپنا اپنا stamina ہوتا ہے، ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے، لہٰذا جس کا جتنا stamina ہے، اس حساب سے چلاتے ہیں۔
سوال نمبر 6:
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ انسان جب نماز شروع کرتا ہے تو دل میں بہت ہوتا ہے کہ میں وسوسے نہیں لاؤں گا، خشوع و خضوع سے نماز پڑھوں گا، لیکن شیطان بہرحال وسوسے ڈال دیتا ہے۔ نیت کے بعد سے سلام تک ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایسی نماز کے بارے میں کیا حکم ہے، قبول ہوگی یا نہیں؟
جواب:
اصل میں مکمل اس چیز کا چھوٹنا یہ تو ذہین آدمی کے لئے ناممکن ہے۔ یہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ہیں کہ ’’ذہین آدمی کے لئے‘‘ اس سے مکمل چھوٹ جانا یہ ناممکن ہے کیونکہ ذہین آدمی کا دماغ ہر dimension میں سوچتا ہے، اس پر آپ جتنے checks لگائیں گے یہ اتنا زیادہ distrub ہوگا یعنی اگر آپ کہتے ہیں کہ میں نے یہ نہیں سوچنا تو وہی مباحثہ شروع ہوجائے گا، پھر کیا کریں گے! کہ جس چیز سے بچنا تھا وہ زیادہ ہوگئی۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان چیزوں کی طرف نہ سوچیں، نہ دیکھیں بلکہ آپ صرف ایک چیز ذہن میں رکھیں کہ میں نے نماز کو باقاعدہ نیت کے ساتھ پڑھنا ہے، تو اس میں آپ ہر سجدہ کے وقت دل میں نیت کریں کہ اب میں سجدے میں جا رہا ہوں، اب میں رکوع میں جا رہا ہوں، اب میں قیام کر رہا ہوں، اب میں قومہ کر رہا ہوں یعنی ہر چیز کے لئے۔ اور جس وقت قیام کر رہے ہوں تو آپ تصور کریں کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں یعنی منفی نہ سوچیں بلکہ مثبت سوچیں۔ منفی سے مراد مقابلہ کہ یہ نہیں ہونا چاہئے، یہ نہیں ہونا چاہئے۔ لہٰذا یہ نہ کریں بلکہ صرف مثبت سوچیں۔ اس طرح آپ کی سوچ نماز والی ہوگی، اور اگر منفی والی سوچ ہوئی تو وہ نماز والی سوچ نہیں ہوگی۔ لہٰذا صرف آپ نماز کا مثبت سوچیں، اس وقت بیشک آپ سوچ رہے ہوں گے لیکن وہ نماز والی سوچ ہوگی، اس صورت میں آپ کی نماز میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، بلکہ نماز اچھی ہوگی۔ تو اب آپ بس یہ طریقہ کر لیں، پھر ان شاء اللہ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ورنہ اگر آپ بالکل خالی الذہن ہوکر نماز پڑھیں، تو لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ ذہین آدمی کے لئے impossible ہے، یہ ناممکن ہے۔ اس لئے جو کہتے ہیں کہ انہیں یکسوئی زیادہ ہوتی ہے تو یہ کم ذہن والے ہوتے ہیں، کیونکہ کند ذہن لوگوں کو یکسوئی زیادہ ہوتی ہے اور جلدی حاصل ہوتی ہے، اسی وجہ سے خواتین کو مردوں کے مقابلہ میں یکسوئی جلدی حاصل ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ان کا مراقبہ چالیس دن کے بعد شروع ہوجاتا ہے، جبکہ مردوں کا بعض دفعہ تو سالوں میں بھی نہیں ہوتا۔ اور جو عورتیں زیادہ ذہین ہوں گی تو ان کا بھی مراقبہ آسانی سے شروع نہیں ہوگا۔ دو تین عورتیں میرے ساتھ ایسی متعلق رہی ہیں کہ جن کا مراقبہ کسی طریقے سے بھی نہیں ہو رہا تھا، کئی طریقوں سے کروایا لیکن نہیں ہوتا تھا، اخیر میں ان کو ذکر بالجہر پر لے آیا، پھر ان کا مراقبہ شروع ہوا۔ پھر ان کا ذکر بالجہر ختم کروایا۔ اسی لئے مردوں کے لئے ذکر بالجہر مجبوری ہے، اس کے بغیر آج کل مراقبہ بہت مشکل ہے۔
سوال نمبر 7:
کسی چیز کا طلب کرنا اور قوتِ ارادی میں کیا فرق ہے؟
جواب:
طلب تو ایک علیحدہ چیز ہے۔ قوتِ ارادی یہ ہے کہ آپ ایک چیز چاہتے ہیں، پھر اس چاہت کو کیسے حاصل کرتے ہیں، اس کے لئے قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر میں ڈاکٹر بننا چاہتا ہوں، تو یہ ایک طلب ہے، اب study کرنا، صبح کو اٹھنا، تیاری کرنا، کالج جانا اور ساری اسائمنٹ کرنا یہ ساری چیزیں قوت ارادی ہیں۔ لیکن آپ کے ذہن میں اگر ڈاکٹر بننے کی طلب ہوگی تو قوتِ ارادی استعمال کرسکیں گے۔
If you are mentally convinced
اگر آپ ذہنی طور پر مطمئن ہیں کہ میں نے یہ کام کرنا ہے تو جتنا آپ مطمئن ہیں اتنا آپ قربانی دے سکیں گے، تو یہ والی بات ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی حادثہ ہوجاتا ہے، جیسے میرا حادثہ ہوا تھا تو ہاتھ ٹوٹ گیا تھا، اس وقت بہت احتیاط کرنی ہوتی ہے کہ کہیں جھٹکا نہ لگے اور یہ نہ کرے، وہ نہ کرے اور نیند میں بھی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ ایک دفعہ مجھے ضرب لگی تھی اور یہ ہاتھ اس طرح رکھا ہوا تھا کہ مجھے بڑی فکر ہوئی کہ پتا نہیں کہیں جوڑ ہل تو نہیں گیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے بچا لیا تھا۔ لہٰذا احتیاط بہت کرنی ہوتی ہے، پھر اس کے بعد احتیاط کی وجہ سے جسم ہوشیار ہوجاتا ہے۔ پھر extra وہ خیال رکھتا ہے، تو گویا biological ڈر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ جیسے ایک biological گھڑی ہے انسان کے اندر، اسی طرح biological خوف بھی ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں! جب کوئی پتھر آتا ہے تو انسان فوراً ہاتھ اس کی طرف کرتا ہے تو یہ biological خوف ہے کہ وہ اپنے سر کو بچاتا ہے، یہ priority اس کے دماغ کے اندر پہلے سے موجود ہے کہ سر ہاتھ سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا ہاتھ کی قربانی دے کر وہ سر بچاتا ہے کیونکہ ہاتھ کو تو وہ پتھر لگے گا۔ اسی طریقے سے جب انسان کے اندر خوف پیدا ہوگیا تو اب اگر وہ صحت مند ہوگیا یعنی ڈاکٹروں کے نزدیک صحت مند ہوگیا، ٪100 یونین ہوگیا، آپ کا ہاتھ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن وہ اس ڈر کی وجہ سے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگائے گا، اگرچہ ڈاکٹر کہے گا کہ اسے پکڑو۔ وہ آپ کے اس خوف کو کم کرے گا، اس کے لئے پھر قوت ارادی کی ضرورت ہوگی۔ یعنی جو انسان کے اندر خود resistance موجود ہے، اس کو cover کرنے کے لئے پھر قوت ارادی کی ضرورت ہوگی، ورنہ وہ نہیں کرسکے گا اور ایسے ہی رہے گا۔
سوال نمبر 8:
اس طلب کے بھی کوئی موانع ہوتے ہیں؟ کیونکہ انسان میں ایک چیز کی طلب ہوتی ہے مگر وہ کام نہیں ہو پاتا۔
جواب:
خواہشات نفس اس کے موانع ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمۃ: ’’خبردار (اے کافروں) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔
اب فوری چیز کیا ہے۔ مثلاً جو لوگ شوگر کے بیمار ہیں، انکے لئے میں اکثر مثال دیتا ہوں کہ ’’میٹھی چیز‘‘ فوری حاصل ہونے والی چیز ہے اور اس کے ساتھ جو نقصان ہوتا ہے وہ بعد میں آنے والی چیز ہے۔ شوگر کے بیمار اچھے خاصے ہوشیار لوگ بھی ہوتے ہیں، دوسرے لوگوں کو عقل سیکھانے والے ہوتے ہیں، لیکن اس مسئلہ میں خود فیل ہوجاتے ہیں، کوئی میٹھی چیز آگئی تو بس فوراً کھا لی۔ میں اپنے چچا کا واقعہ بتاتا ہوں جو بہت ذہین تھے، ہمارے خاندان میں بہت extra ذہن تھا۔ جب وہ آتے تو سب لوگوں کو عقل سکھاتے تھے۔ ایک مرتبہ وہ ہمارے گھر میں آئے، ان دنوں ہمیں نہیں پتا تھا کہ ان کو شوگر ہے، کبھی معلوم ہی نہیں ہوا تھا یا پھر کسی نے بتایا ہی نہیں تھا۔ ہم نے 7up پیش کی، 7up میں سات چمچے چینی ہوتی ہے اور یہ اچھی خاصی چینی کی مقدار ہوتی ہے، تو یہ ان کو ہم نے دے دی۔ وہ اس چیز کو جانتا تھا لیکن پی کر کہا کہ مجھے تو شوگر ہے، تو پہلے کیا نہیں کہہ سکتے تھے؟ اگرچہ بعد میں پھر ہم نے کبھی میٹھا نہیں دیا، لیکن وہ تو پی لی۔ لہٰذا بات یہ ہے کہ اس کے جو موانع ہیں وہ یہی ہیں یعنی نفس کی خواہشات۔ جتنا جتنا آپ اس کو دباتے جائیں گے تو یہ پھر مانتا جائے گا اور یہ پھر صحیح کام کے لئے تیار ہوتا جائے گا اور برے کام سے بچنے میں بھی ہمت دکھائے گا۔ ورنہ یہ حقیقت ہے کہ واقعتاً انسان بھول جاتا ہے۔ کوئی اور چیز اگر چاہئے ہوتی ہے تو اس کی وجہ سے اسے دوسری چیز یاد آجاتی ہے اور کہتا ہے کہ مجھے تو یہ چیز چاہئے تھی۔ یہاں پر ایک خاتون تھی جو بڑی جھولی طبیعت کی خاتون تھی، ہر چیز کو مذاق میں اڑا دیتی تھی، اس پر کوئی اور سوکن آگئی، جس وجہ سے وہ کافی پریشان تھی، dishearted تھی، ہمارے گھر والوں نے اس سے کہا کہ آپ نے اس کے لئے کچھ وظائف وغیرہ نہیں کیے؟ انہوں نے کہا کہ کیے تھے، سوا لاکھ مرتبہ آیت کریمہ پڑھی تھی، لیکن میرے خیال میں انہوں نے تین لاکھ مرتبہ پڑھی ہوگی۔ یہ اچھی اور نیک دل خاتون ہے کہ اپنے غم کو چھپا لیتی ہے۔
سوال نمبر 9:
توفیق الہیٰ اور قلب کی طلب میں کیا فرق ہے؟
جواب:
دیکھیں! چند چیزیں انسان ذہن میں رکھے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ ایک بات تو یہ ہے کہ (نعوذ باللہ من ذلک) اللہ پاک بے انصافی نہیں فرماتے، اس لئے مواقع تو سب کو فراہم کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً میں ایک چیز کو اٹھانا چاہتا ہوں، تو میرا ارادہ اور طلب اس میں شامل ہے، لیکن اسے اٹھانے دینا، یہ توفیق ہے۔ اگر وہ روک دے تو میں کیسے اٹھاؤں گا! تو مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے حصے کا کام کریں تو اللہ پاک پیچھے نہیں رہیں گے بلکہ وہ زیادہ دیں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’إِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ إِليَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا‘‘ (بخاری: 7536)
ترجمہ: ’’جو بندہ میری طرف ایک بالشت قریب آتا ہے، تو میں اس کی طرف ایک ہاتھ قریب ہوتا ہوں‘‘۔
اب یہ جملہ کہ ’’جو میری طرف آئے گا‘‘ یہ سب کو شامل ہے، یہ نہیں کہ فلاں، فلاں اور فلاں اس جملے میں شامل نہیں۔ نہیں بلکہ جو میری طرف ایک بالشت آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف ایک ہاتھ جاتی ہے اور جو میری طرف ایک ہاتھ آتا تو میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے اور جو میری طرف چل کے آتا ہے تو میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔ (بخاری: 7536)
لہٰذا ہم لوگ اگر اپنے حصے کا کام کر لیں تو اللہ پاک ضرور مدد فرماتے ہیں۔ حضرت مولانا تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شعر پڑھا ہے:
اس کے الطاف تو ہیں عام شہیدی سب پر
تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا
یعنی یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں تو چاہتا تھا لیکن عمل ہوا ہی نہیں۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ایک دفعہ ایک چور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وقت میں پکڑا گیا، اس پر جب حد جاری ہو رہی تھی تو اس نے کہا کہ مجھے معاف کردیں پہلی دفعہ مجھ سے یہ غلطی ہوئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نہیں! یہ ناممکن ہے، کیونکہ اللہ پاک تین دفعہ چانس ضرور دیتا ہے، اس لئے یہ تیری پہلی دفعہ غلطی نہیں ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اپنے حصے کا کام کرنا چاہئے۔ بہت سارے لوگ اسی گڑبڑ میں مبتلا ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ من ذلک) اللہ تعالیٰ کے ساتھ bargaining کرتے ہیں کہ اگر اللہ کرے گا تو میں کروں گا، یہ سراسر گستاخی اور بے ادبی ہے۔ تو کون ہوتا ہے اللہ کے ساتھ حساب کرنے والا؟ بلکہ اللہ تعالیٰ حساب کرے گا۔ تم unconditional کام کرو، اللہ تعالیٰ بہت زیادہ نوازیں گے۔ اللہ پاک تو بہت دیتے ہیں۔
سوال نمبر 10:
حضرت! کمزور ایمان اور مضبوط ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ ایک شک اور ایک یقین، اگر شک آئے تو کیا ایمان رہتا ہے؟
جواب:
دیکھیں! ان کی حالت بھی وہی ہے جو میری حالت مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے تھی، جو مولانا صاحب نے فرمایا کہ ان کو ہر ایک مسئلہ نہیں بتائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میری حالت حضرت پر کھلی ہوئی تھی۔ تو یہ شکی مزاج آدمی ہے، اس کا سوال اس کو شک کی بیماری کی وجہ سے ہے۔ اس وجہ سے اس نے یہ سوال کیا ہے، اور کوئی وجہ نہیں ہے۔ دیکھو! جو چیز آپ مانتے ہیں تو یہ ایمان ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ اللہ ایک ہے، اس میں کیا شک ہے آپ کو؟ آپ جانتے ہیں کہ اسلام صحیح مذہب ہے، اس میں کیا شک ہے آپ کو؟ آپ جانتے ہیں کہ آپ ﷺ آخری پیغمبر ہیں، تو اس میں کیا شک ہے؟ پھر مسئلہ کیا ہے؟ البتہ جہاں تک انسان عمل نہیں کرسکتا تو وہ جیسے میں نے عرض کیا کہ نفس کی خواہشات کی وجہ سے عمل نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ صحابہ سے بھی نفس کی خواہشات کی وجہ سے اگر کوئی بھول چوک ہوئی ہے تو اس پر انہوں نے نفس کو خوب سزا دی ہے۔ لیکن بھول چوک تو ہوئی، اور نمونے کے طور پر سامنے آگئی۔ لہٰذا نفس کی وجہ سے انسان بھول جاتا ہے۔ مثلاً میں نے کہا کہ ایک خواہش غالب آگئی تو انسان آخرت کو بھول گیا۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَؕ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمۃ: ’’خبردار (اے کافروں) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔
یعنی جو آخرت کی بات بھول گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کو آخرت پر ایمان نہیں ہے۔ آخرت پر تو اس وقت ایمان ہے، لیکن اس کی آنکھوں پر خواہشات نفس کا پردہ آگیا۔ کیونکہ جس وقت وہ پردہ ہٹ گیا تو فوراً توبہ کر لے گا۔ اس وجہ سے کوئی ڈرنے کی بات نہیں ہے۔ اب یہ جواب کوئی اور اس کو نہیں دے سکتا تھا۔ یہی تو ہوتا ہے پیر پکڑنے کا فائدہ، کیونکہ مجھے اس کے بارے میں کیا پتا ہوتا اگر یہ میرا مرید نہ ہوتا! مجھے تو یہ پتا نہ ہوتا کہ یہ کون ہے اور کیا خیالات ہیں۔ یہ جا کر بھرے مجمع میں سوال کر رہا ہو اور میں ایسی کوئی سخت بات کر لیتا تو بیچارہ collapse ہوجاتا، ختم، ہسپتال پہنچ جاتا۔ ایک دفعہ میں حضرت کے سامنے بیٹھا ہوا تھا، سردیوں کے دن تھے، جرابیں میں نے اتاری ہوئی تھیں، حضرت نے دیکھ لیا تو فرمایا: کیوں اتاری ہوئی ہیں؟ میں اب خاموش، حضرت کو چونکہ پتا ہے، اس لئے فرمایا: پہن لو، میں نے پہن لیں۔ فرمایا: قسم کھا سکتے ہو کہ ناپاک ہیں؟ میں نے کہا نہیں، بس پاک ہیں، پھر میں نے آہستہ ذرا ہلکی آواز میں کہا کہ حضرت! خود تو نماز اس میں پڑھ لوں گا لیکن کسی اور کو نہیں پڑھا سکوں گا۔ فرمایا: نہیں، جب خود پڑھ سکتے ہو تو دوسروں کو بھی پڑھا سکتے ہو۔ اب میرا یہ علاج کوئی اور نہیں کرسکتا تھا، یہی تو اس لائن کے مزے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم خود سب کچھ کر لیں گے۔ تو خود کریں پھر۔ اصل میں اس میں یہی advantage ہوتا ہے، اگر صحیح پیر مل جائے تو یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے، کام بہت آسان ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر خود رابطہ نہ رکھے (جیسے یہ نہیں رکھتا) تو پھر ظاہر ہے کہ یہ اپنی کمزوری ہوتی ہے، اس کا پھر نقصان بھی ہوتا ہے۔ لیکن اگر باقاعدگی کے ساتھ رابطہ رکھے تو چلتا رہے گا اور ترقی کرتا جائے گا اور نقصان سے بچتا رہے گا اور چیزیں آسان ہوتی جائیں گی۔
یہ ایک کیفیت ہے۔ اس کا عنوان ہے کتنے طوفان سمندر میں چھپا رکھے ہیں۔
کتنے طوفان سمندر میں چھپا رکھے ہیں
کتنے ضربوں کے اثر دل میں دبا رکھے ہیں
ضرب لگنے سے محبت کی لہر نے دل سے
جانے کیا کتنے حجابات اٹھا رکھے ہیں
آپ جب سامنے ہوتے ہیں میرے ہر پل تو
سرِ تسلیم ہے خم کندھے جھکا رکھے ہیں
ٹوٹ کر ٹوٹنے سے میں ہوں جو بنا تو ایسے
توڑ کر کتنے ہی عشاق بنا رکھے ہیں
تشریح:
یہ اصل میں اس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے: ’’أَنَا عِنْدَ الْمُنْكَسِرَةِ قُلُوْبُهُمْ‘‘ (الزہد لاحمد بن حنبل، حدیث نمبر: 391) کہ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہوں۔ یہ اللہ پاک کا ایک نظام ہے جس کے ذریعے سے اللہ پاک اپنی طرف لاتے ہیں۔
مٹی ہے گود میں ہی راہ یہ عاجزی ہے شبیر
مٹنے مٹنے کے خاکے یوں مٹا رکھے ہیں
تشریح:
یہ ایک خواب کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی کسی کا خواب ہے کہ اس نے گود میں مٹی دیکھی اور دیکھا کہ وہ ہیرہ بن گیا ہے۔ میں نے اس کی تعبیر یہ دی کہ عاجزی سے انسان اس طرح کمال پر پہنچتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:
’’مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللَّهُ‘‘ (مسند الشہاب: 1)
ترجمہ: ’’جو شخص اللہ کے لیے تواضع اختیار کرے، اللہ اسے رفعت سے نوازتا ہے‘‘۔
چنانچہ مٹی عاجزی ہے اور ہیرہ بننے سے مراد یہ ہے کہ وہ کمال کو پہنچ گیا۔
اب آگے اس کا نتیجہ ہے۔
جو کاغذ پہ تصویر اپنی تھی دل میں:
جو سوچا تھا چھوڑا ہے اب کیا بنوں
میں نظروں میں خود اپنی کیسے رہوں
جو کاغذ پہ تصویر تھی دل میں پہلے
اِسے پھاڑ کر اب تو تجھ سے کہوں
پسند جو بھی تصویر میری ہو تجھ کو
بنا لے میری کور کاغذ میں ہوں
تشریح:
یہ جو آدمی کہتا ہے کہ بس یہ ہو، یہ ہو اور یہ ہو، تو جو انسان اللہ کو جان لیتا ہے اور اللہ پاک کی مہربانی کو بھی جان لیتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ میرے بارے میں جو فیصلہ اللہ کرے گا وہ سب سے بہتر ہوگا۔ مجھے ساری معلومات کہاں ہیں۔ میں کیا کرسکتا ہوں۔
میں ویسے رہوں جو تجھ کو پسند
جو تجھ کو ہو مطلوب میں وہ کروں
مجھے اب اپنا کہلوا دیجئے
یہی اپنے بارے میں اب میں سنوں
میرا نقص ثابت ہے ہر چیز میں
ہے غائب میری جو کہ تھی اکڑ خوں
کرم کی نگاہ کا میں طالب شبیرؔ
کرم کی نگاہ لے کے آگے چلوں
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ انسان بس ایک ہی چیز ذہن میں رکھے کہ میں اس کا بن جاؤں اور وہ مجھے اپنا سمجھے۔ اور جس وقت انسان کو اپنا نقص نظر آجاتا ہے تو اس کا سارا غرور غائب ہوجاتا ہے۔ اس وقت تک وہ اکڑخوں میں مبتلا ہوگا جب تک وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھ رہا ہے۔ ہمارے بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جب اپنے ڈھول کا پول کھل جائے تو پھر پتا چلتا ہے کہ میں کیا اور میں کیا اور میں کیا ہوں۔
اب یہ ہے اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے اللہ ہمیں نصیب فرمائے۔
اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے
اس کے سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے
میں سرِ مو اس کے رستے سے کبھی نہ ہٹوں
یہ مرا ذوق بنے ایسی طبعیت دے دے
تو مرے دل میں رہے اور مرا دل اس کی طرف
تو ہی جب چاہے تو اس پر استقامت دے دے
حق مجھے حق ہی نظر آئے اور باطل باطل
دلِ بیدار ہو نصیب نورِ فراست دے دے
سامنے میرے ہمیشہ ہو ترا حسن ازل
اس پہ میں مر مٹوں دنیا سے تو نفرت دے دے
اپنے محبوب کی سیرت سے روشناس فرما
پھر اتباع میں اس کی حسنِ سیرت دے دے
ہر ادا اسکی یقیناً جو تجھے پیاری ہے
اس کے پانے کی مجھے بھی تو سعادت دے دے
تو نے ہی ڈالی تھی دل میں جو اسکے فکر اُمت
طفیل اس کے مجھے بھی دردِ اُمت دے دے
میرے مولا میں ہوں کمزور اور ناتواں انساں
میں تجھ کو راضی کروں اس کی تو قوت دے دے
میں تجھے یاد کروں اور تو مجھے یاد رکھے
فہمِ قرآں ہو نصیب ذوقِ تلاوت دے دے
میں ترے سامنے گم سم کھڑا ہونا سیکھوں
تو مجھے دیکھ کے خوش ہو ایسی حالت دے دے
مجھ سا ناچیز کبھی تیری ثنا کیا کرسکے
کچھ بھی ہو میرے خدایا قبولیت دے دے
اب جان و مال وقت و اولا د ہو شبیر کی قبول
اس کے پیش کرنے کی مجھ کو استطاعت دے دے
تشریح:
یہ جذبی دعا ہے۔ میرے ہاتھ پر جو چوٹ لگ گئی تھی، کسی نے مجھے کہا کہ بھائی! کیا ہے کہ آپ کو چوٹ لگ گئی؟ تو اس وقت دو شعر اس کے جواب میں ہوگئے تھے، پھر میں نے اس کو غزل بنا لیا۔ وہ یہ ہے۔
چوٹ پر چوٹ کھلائے ہے تو
اور پھر خود ہی بچائے ہے تو
جو ہیں گم گشتہ راہِ منزل سے
ان کو رستہ بھی دکھائے ہے تو
غلطیاں اور گناہ جو کر لیں
ایک توبہ سے مٹائے ہے تو
ہم پہ ہے ہم سے مہربان زیادہ
خود سے خود سے ہی ملائے ہے تو
ہو کے ہر چیز میں ظاہر بھی تو
کس طرح خود کو چھپائے ہے تو
دل مرا تجھ پہ مر مٹا ہے جو
اس کو بھی کھینچ کے لائے ہے تو
میں کسی اور کا کیا ذکر کروں
جب سے دل میں مرے آئے ہے تو
کر قبول اب یہ بندگی میری
بندہ اپنا جو بنائے ہے تو
رستہ اپنے حبیب کا دے دے
اپنوں کو جس پہ چلائے ہے تو
جاگنے دینا نہ ان کو تو کبھی
جن رذائل کو سلائے ہے تو
اب کسی اور کی پروا کیا کروں
مرے دل میں جب سمائے ہے تو
کیا کہوں یہ جو ہیں اشعارِ ِشبیر ؔ
فضل سے مجھ کو سکھائے ہے تو
دلِ بیدار:
دلِ بیدار ہی قرآن سے ہدایت لے لے
دلِ ذاکر ہی تو اللہ سے حکمت لے لے
اپنے ارد گرد ہمارے ہیں یہاں چیزیں سب
بس رکاوٹ نہ ہو دل میں ہر سعادت لے لے
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔