اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
اگر ایک انسان بار بار توبہ کرتا ہے اور پھر گناہ ہو جاتا ہے تو ایسے انسان کو سچی توبہ کیسے نصیب ہو گی؟
جواب:
سوال بہت اہم ہے اور یہ بات کافی لوگوں کو پیش آتی ہے کیونکہ انسان کے اندر نفس موجود ہے اور شیطان اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اللہ جل شانہ کا اپنا ایک نظام ہدایت ہے جس سے متاثر ہو کر انسان توبہ کرتا ہے اور شیطانی نظام جو نفس کی خواہشات کو استعمال کرتا ہے اس کے ذریعے سے انسان گناہ کرتا ہے۔ نفس کی تین قسمیں ہیں۔ ایک نفسِ امّارہ ہے جس کی اصلاح نہیں ہوئی ہوتی، جس کے بارے میں قرآن پاک میں ہے کہ یہ برائی کی طرف ہی مائل کرتا ہے۔ اس کو توبہ کرنے کی کوئی فکر نہیں ہوتی، وہ گناہوں میں لگا رہتا ہے، غافل ہوتا ہے اور اپنے آپ کو تباہ کرتا رہتا ہے۔ پھر اگر کسی طریقے سے اس کو اپنی اصلاح کرانے کی توفیق ہو جائے تو جس اصلاحی نظام کے ساتھ وہ وابستہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنے اوپر چیک لگا دیتا ہے۔ نتیجتاً اگر اس سے کوئی گناہ ہوتا ہے تو اس کو کھٹک ہوتی ہے، پشیمانی ہوتی ہے، ندامت ہوتی ہے۔ اس کو دوبارہ توبہ کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے اور اس کا گناہ معاف ہو جاتا ہے۔ لیکن شیطان موجود ہے اور نفس کی پوری اصلاح بھی نہیں ہوئی لہٰذا اس سے دوبارہ بھی گناہ کا امکان موجود ہوتا ہے۔ دوبارہ گناہ کرے گا تو دوبارہ توبہ کی ضرورت ہو گی کیوں کہ اللہ جل شانہ نے یہ راستہ بند نہیں کیا۔ یہ راستہ موت کے وقت بند ہوتا ہے یا جب قیامت کی آخری نشانیاں ظاہر ہو جائیں گی تب توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ جیسے فرعون کی توبہ قبول نہیں ہوئی، اس نے کہا تھا: "اٰمنتُ بِرَبِّ موسیٰ وَ ھَارُون" اس کے جواب میں اس سے کہا گیا کہ اب ایمان لانے کا فائدہ نہیں حالانکہ ابھی تک تم نا فرمانی کرتے رہے ہو۔ جب تک موت کے آثار شروع نہیں ہوئے توبہ کرنے کا موقع ہے۔ قرآن و احادیث میں یہ چیزیں واضح ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص دن میں ستر مرتبہ توبہ توڑے اور پھر توبہ کر لے تو اللہ پاک اس کی توبہ پھر بھی قبول فرماتے ہیں جب کوئی توبہ کرتا ہے تو اللہ پاک بہت خوش ہوتے ہیں۔ چنانچہ جس نفس کی اتنی اصلاح ہو چکی ہو کہ وہ روشنی دیکھ چکا ہو اس کو نفسِ لوّامہ کہتے ہیں۔ اس روشنی کی وجہ سے اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نے گناہ کیا ہے کیوں کہ جب تک یہ روشنی کسی کو حاصل نہ ہو تب تک اس کو پتا بھی نہیں چلتا کہ میں گناہ کر رہا ہوں، بلکہ بعض دفعہ وہ اس گناہ پے مُصِر ہوتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس پہ لانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جتنی روشنی وہ دیکھ لے اور اس کو علم ہو جائے کہ میں نے گناہ کیا ہے تو تائب ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ بھی قیمتی نفس ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھائی ہے لہٰذا اس کو معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ بہر حال جس وقت انسان توبہ کر لیتا ہے تو توبہ کے تمام فوائد اس کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً گزشتہ سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، بے شک اس نے ابھی ایک منٹ پہلے توبہ کی اور پھر توڑ دی اور پھر دوبارہ توبہ کی تو اب بھی اس کو توبہ کے سارے فوائد حاصل ہیں کیوں کہ ابھی اس کے موت کے آثار شروع نہیں ہوئے۔
کسی کو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ توبہ کرتے ہو پھر گناہ کرتے ہو، پھر توبہ کرتے ہو پھر گناہ کرتے ہو تو اس توبہ سے کیا فائدہ ہو گا؟ اس کے جواب میں یہ سوچا جائے کہ یہ بھی تو اللہ کا فضل ہے کہ دوبارہ توبہ کی توفیق ہو جاتی ہے، اگر اللہ پاک توفیق نہ دے تو پھر ان لوگوں میں شمار ہوں گے جو نفس امارہ والے ہیں۔ اس سے تو ہم ترقی کر چکے ہیں لہٰذا دوبارہ واپس کیوں جائیں؟ بلکہ آ گے نفس مطمئنہ کی طرف جانا چاہیے۔
نفس مطمئنہ مسلسل محنت سے حاصل ہوتا ہے۔ اپنی محنت جاری رکھو جب تک نفس مطمئنہ حاصل نہیں تو نفس لوامہ والے معاملات نہ چھوڑو۔ اس سے شیطان کے سارے منصوبے فیل ہو جاتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب بات فرمائی ہے کہ جس شخص سے بار بار گناہ ہوتا ہو تو اس کو چاہیے کہ بار بار توبہ کرے اور ساتھ صلوۃ التوبہ بھی پڑھے۔ اگر کوئی ہونٹ ہلائے بغیر بھی دل میں توبہ کر لے تو وہ بھی قبول ہو جاتی ہے اور توبہ کے تمام فوائد اس کو حاصل ہو جاتے ہیں۔ لیکن جو صلوۃ التوبہ پڑھتا ہے اس پہ اللہ تعالیٰ مزید اس کو نماز کا اجر دیتے ہیں اور اس کوشش کا اجر دیتے ہیں۔ فرمایا کہ جو شخص ہر دفعہ توبہ کے ساتھ صلوۃ التوبہ پڑھتا ہے تو شیطان اس کو خود ہی گناہ سے چھڑا دیتا ہے کیوں کہ وہ دیکھتا ہے کہ اس کو میں اللہ سے دور کرنے کے لئے گناہ کراتا ہوں۔ توبہ سے اس کا گناہ بھی معاف ہو جاتا ہے اور صلوۃ التوبہ سے مزید ترقی کر لیتا ہے۔ بجائے اللہ سے دور ہونے کے یہ تو ترقی کر رہا ہے، میں اسے کیوں ترقی کرواؤں! جو شخص شیطان پر یہ ظاہر کر دے کہ تُو بے شک مجھ سے گناہ کراتا رہ، میں توبہ ضرور کروں گا۔ ایسے شخص سے پھر شیطان خود گناہ ترک کروا دیتا ہے کہ یہ آدمی میرے بس کا نہیں۔ حضرت نے فرمایا: اگر کوئی گناہ سے تنگ آیا ہوا ہو اور اس کو چھوڑنا چاہتے ہو، تو صلوۃ التوبہ کے ساتھ بار بار اس پہ توبہ کرے تو شیطان اس سے خود ہی ایک دن یہ گناہ چھڑوا دے گا۔
آج کل کے دور میں شیطان نے بڑی محنت کی ہے۔ اس میں ایک محنت یہ بھی ہے کہ لوگوں کے ذہن میں بٹھایا ہے کہ کسی ایسے شخص کے پاس چلے جاؤ جو ایک نظر کر دے اور اس سے پوری اصلاح ہو جائے۔ خود بخود تمہاری نمازیں بھی ہونے لگیں، خود بخود تمہارے روزے بھی ہونے لگیں، حج بھی ہونے لگیں اور دیگر ترقیات بھی ہونے لگیں، آج تم گناہ گار سے گناہ گار آدمی ہو لیکن کل جب اٹھو تو ولی اللہ بن کے اٹھو۔ یہ آج کل کے لوگوں کی سوچ ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ کا یہ طریقہ نہیں تھا، آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو alert رکھا ہے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے زیادہ آپ ﷺ کو اولاد میں محبوب اور کوئی نہیں تھا، سیدۃ النساء اھل الجنۃ کا ان کو خطاب ملا ہے۔ ان سے ایک دن فرما رہے ہیں کہ بیٹی آخرت میں میری وجہ سے تو نہیں بچے گی بلکہ تجھے خود اپنا عمل کرنا پڑے گا۔ یعنی مسلسل عمل کرنا پڑے گا۔
یقیں محکم، عمل پیہم، محبّت فاتحِ عالم
جہادِ زِندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
یعنی ہمیں مسلسل عمل کرنا چاہیے۔ اللہ کا حکم یہی ہے کہ جب تک دم میں دم ہے ہم لوگوں کو کام کرنا پڑے گا۔ مسلسل جنگ کرنی پڑے گی۔ ہم امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ علم نہیں رکھتے۔ امام صاحب امامِ اہلِ سنت ہیں اور ان سے محبت ہونا اہل سنت ہونے کی علامت ہے۔ امام صاحب جب بستر مرگ پہ تھے تو غشی طاری ہو گئی، بیٹے سمجھنے لگے کہ شاید آخری وقت آ گیا ہے، انہوں نے کلمہ کی تلقین شروع کی۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ساتھ بیٹھ کے لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ امام صاحب کی زبان سے بار بار نکل رہا تھا ”ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں، ابھی نہیں“۔ بیٹے حیران ہو گئے کہ یا اللہ! امام صاحب ہر وقت ذاکر و شاغل رہتے تھے اور آخری وقت میں یہ کیا ہو گیا کہ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ کے مقابلہ میں کہہ رہے ہیں کہ ابھی نہیں، ابھی نہیں۔ چونکہ وہ آخری وقت نہیں تھا بلکہ صرف غشی طاری ہوئی تھی، اس سے افاقہ ہوا تو بیٹوں کی جان میں جان آئی اور انہوں نے پوچھا: ہم لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ پڑھ رہے تھے اور آپ فرماتے تھے کہ ابھی نہیں، ابھی نہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کا لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ نہیں سنا۔ مجھے سامنے شیطان نظر آ رہا تھا، اس کو بھی یہی خیال ہوا کہ یہ جا رہا ہے کیوں کہ شیطان عالم غیب نہیں ہے، یہ پکی بات ہے۔ وہ بھی اندازے لگاتا ہے۔ چنانچہ اس کو اندازہ ہوا گیا کہ یہ ابھی جا رہا ہے، جیسے بیٹوں کو اندازہ ہو گیا۔ وہ امام صاحب کے سامنے آ گیا اور اس نے کہا: احمد تو مجھ سے بچ کے چلا گیا، افسوس احمد۔ وہ سر پہ خاک ڈال رہا تھا اور یہ بات دہرا رہا تھا۔ امام احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ابھی نہیں، ابھی میں زندہ ہوں۔ ابھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ واقعتاً آخر وقت میں بھی انسان گڑبڑ ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے مسلسل عمل کی ضرورت ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے خط لکھ کے پوچھا کہ حضرت کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے اطمینان ہو جائے؟ اطمینان نہیں ہو رہا۔ حضرت نے فرمایا: مجھ سے کفر کی بات پوچھتے ہو؟ اپنی زندگی میں اپنے بارے میں اطمینان کہ میں ٹھیک ہوں، یہ کفر ہے۔ معلوم ہوا انسان کو اپنے اوپر کبھی بھی اعتبار نہیں ہونا چاہیے۔ فرمایا: اسی ادھیڑ بن میں لگے رہنا چاہیے اور کام کرتے رہنا چاہیے۔ اسی میں ہی جان نکل جائے۔ بس یہی کامیابی ہے۔ اس وجہ سے ہمیں کوشش جاری رکھنی چاہیے اور اصلاحی طریقوں میں سے جس اصلاحی طریقے کے ساتھ مناسبت ہو اس میں لگے رہنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ پہ بھروسہ کرنا چاہیے، اپنی کوششوں میں کمی نہیں کرنی چاہیے تو ایک دن ان شاء اللہ نفس مطمئنہ بھی حاصل ہو جائے گا۔ پھر اللہ پاک ساری چیزوں کو آسان بنا دیں گے۔ لیکن آسانی کے لئے یہ کام مت کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو پورا کرنے کے لئے کرو۔ پھر جب اللہ پاک جس چیز کو بھی آسان بنا دے اس پہ اللہ کا شکر ادا کرو۔ اگر اسی عزم و ہمت کے ساتھ کام جاری رہے گا تو کامیابی ان شاء اللہ یقینی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے اور آپ سب کو بھی۔
سوال 2:
I have just opened email and was honestly not expecting reply from you because of your engagements جزاك اللہ for your reply yes I am a far lacking in my ذکر but الحمد للہ in this month again I have started ذکر regularly after fajar prayer الحمد للہ due to your prayers always دعا گو for you remember me specially in your prayers.
جواب:
یہ ایک نوجوان لیکچرار کا email ہے اور اس نے مجھے پچھلی دفعہ بھی email کیا تھا۔ جس کے جواب میں، میں نے پوچھا تھا کہ آپ ذکر کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ کامیابی کی توقع کر رہے ہیں تو دوائی کھانی پڑے گی۔ کوئی ڈاکٹر آپ کو دوائی لکھ دے اور آپ دوائی کھائے بغیر دوبارہ اس کے پاس چلے جائیں کہ مجھے فائدہ نہیں ہوا تو وہ ڈاکٹر اظہار افسوس ہی کرے گا۔ آپ ڈاکٹر صاحب سے کہہ دیں کہ مجھے معاف کر دیں۔ وہ کہے گا: میں آپ کو ایک کروڑ مرتبہ معاف کرتا ہوں لیکن اس سے آپ کا علاج نہیں ہو گا۔ معلوم ہوا علاج دوائی سے ہوتا ہے۔
ہمارے ذکر کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ غذائی ہے، جیسے تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار، یہ ہم سو سو مرتبہ بتاتے ہیں۔ اس سے اجر ملتا ہے اور روحانیت میں ترقی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے اللہ پاک کو انسان جب بھی، جس طریقے سے بھی یاد کرے گا اس سے روحانیت میں ترقی ہو گی۔ جیسے آپ اچھا کھانا کھائیں تو آپ کو قوت ملے گی۔ دوسرا ذکر علاجی ہے۔ جیسے ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ“ ”اِلَّا اللہ“ ”اَللہُ اللہ“ ”اَللہ“ وغیرہ۔ یہ روحانی بیماریوں کو ٹھیک کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ حضرت مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ تبلیغی جماعت کے بڑے تھے اور اکثر ہدایات رائے ونڈ میں دیا کرتے تھے۔ ان کی ہدایات بڑی کام کی ہوتی تھیں اور کار گزاری بھی سنتے تھے۔ ایک دن ہدایات دے رہے تھے، اس میں ایک عجیب بات فرمائی کہ ہم بھی آپ کو ذکر بتاتے ہیں اور مشائخ بھی آپ کو ذکر بتاتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ آپ ہمارا بتایا ہوا ذکر بھی کریں کیوں کہ یہ بھی غذائیت والا ذکر ہے اور ان کا بتایا ہوا ذکر بھی کریں کیوں کہ وہ علاجی ذکر ہے۔ اگر کبھی ایسا وقت ہو کہ آپ صرف ایک کر سکیں تو ہمارا بتایا ہوا ذکر مؤخر کر دیں اور مشائخ والا ذکر پورا کر لیا کریں کیوں کہ وہ ذکر علاجی ہے۔ یہ متفقہ مسئلہ ہے کہ دوائی اور غذا میں آپ کو ایک ہی لینی پڑے تو پھر دوائی لینی پڑتی ہے اور غذا کو مؤخر کیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ بیماری کا علاج ہے۔ غذا تب ہضم ہو گی جب علاج ہو گا۔ اور اس مجلس میں چونکہ عرب حضرات بھی بیٹھے ہوئے تھے اس لئے فوراً یہ بھی فرمایا کہ میری اس بات کا ترجمہ نہیں ہونا چاہیے۔ کیوں کہ ان کو یہ بات سمجھانا آسان نہیں تھا۔ گویا اس سے ان حضرات کی بصیرت کا پتا چلتا ہے۔
چنانچہ ہمارے علاج کا جو غذائی حصہ ہے وہ بھی کرنا چاہیے اور جو اس کا علاجی حصہ ہے وہ بھی کرنا چاہیے۔ لیکن علاجی حصہ کسی بھی حالت میں نہیں چھوڑنا چاہیے۔ غذائی ذکر آپ چلتے پھرتے کر لو کیوں کہ وہ ثواب کی چیز ہے لیکن علاجی ذکر کو اس طریقے سے as prescribed by the physician کر لو۔ دوائی کے اوپر لکھا ہوتا ہے کہ جیسے ڈاکٹر کہہ دے ویسے استعمال کرو۔ ڈاکٹر کو پتا ہے کہ کھانے کے بعد کھاؤ گے تو کیا ہو گا اور کھانے سے پہلے کھاؤ گے تو کیا ہو گا! اسی طرح ذکر بیٹھ کے کرو گے تو کیا ہو گا اور اگر لیٹ کے کرو گے تو کیا ہو گا! ساری باتوں کا شیخ کو ہی پتا ہوتا ہے۔ جس طریقے سے شیخ نے بتایا اسی طریقے سے کرنا، با قاعدگی کے ساتھ کرنا، اس میں ناغہ نہ کرنا مریض کی ذمہ داری ہے۔ یہ ڈاکٹر کی ذمہ داری نہیں ہے۔ ڈاکٹر لٹھ لے کے آپ کے پیچھے نہیں پڑ سکتا کہ آپ نے دوائی کھائی ہے یا نہیں؟ اس کو کیا پتا کہ آپ کیا کر رہے ہیں لہٰذا ذکر کرتے رہنا چاہیے، پھر امید کرنی چاہیے کہ اللہ پاک اپنے فضل سے آپ کی بیماریوں کو درست کر دے گا۔ اس جواب پر اس کا response بڑا اچھا آیا ہے اور اس نوجوان لیکچرار نے کہا ہے کہ الحمد للہ میں نے اس پہ عمل کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب میں فجر کے بعد ذکر کر لیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ توفیقات سے نوازے اور اس کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے اس اچھے response پر بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہمارے ساتھ مریدوں کا مسئلہ تقریباً اولاد جیسا ہوتا ہے۔ اولاد بیمار ہو جائے اور باپ ڈاکٹر ہو تو اس کا response کیا ہو گا اور کوئی عام patient آئے تو اس کے ساتھ کیسا ہو گا؟ دونوں میں فرق ہے۔ چنانچہ ہمارے ساتھ صرف بیمار والا مسئلہ نہیں ہے کہ بس ہم ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئےکہ آپ کو دوائی بتا دی اور بس فارغ۔ نہیں بلکہ ہمیں فکر ہوتی ہے۔ جب فکر ہوتی ہے اور کسی کو دیکھتے ہیں کہ چلنا شروع کر دیا تو خوش بھی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیقات سے نوازے۔
سوال 3:
اللہ تعالیٰ نے سہولت دی ہے کہ بندے سے گناہ ہو جائے تو توبہ کرتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ اس ارادے سے گناہ کرتے ہیں کہ میں بعد میں توبہ کر لوں گا۔ لگتا ہے جیسے نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا چاہتے ہوں۔ وہ سوچتا ہے کہ میں یہ کام کر لیتا ہوں اور بعد ویسے بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے تو توبہ کر لوں گا۔ توبہ کرنے کا منصوص طریقہ کیا ہے؟
جواب:
واقعتاً ماحول میں بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں۔ ہم شیطان سے غافل ہیں شیطان ہم سے غافل نہیں ہے۔ جیسے انسان دوائیاں استعمال کرتا ہے، حالانکہ دوائیوں میں ملاوٹ بھی ہوتی ہے، دو نمبر دوائیاں ہوتی ہیں جو بہت نقصان پہنچاتی ہیں۔ یعنی medicine کو exploit کر دیں، اس کو ہی غلط کر دیں تو آدمی کیا کرے۔ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جو لوگوں کے گردے نکال لیتے ہیں، بغیر ضرورت operation کر دیتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اس نظام کا حصہ ہیں۔ شیطان بہت فعال ہے، وہ دھوکہ دینے کے طریقوں میں کوئی کمی نہیں کرتا۔ گناہوں سے نکلنے کے لئے توبہ انتہائی مؤثر tool ہے۔ لیکن شیطان اس کو بھی exploit کر سکتا ہے۔ آپ نے جو ایک صورت بتائی یہ اسی کی ایک کوشش ہے کہ وہ توبہ کو آپ کے سامنے یوں پیش کرتا ہے جس سے بجائے فائدے کے الٹا نقصان ہو جائے۔ اگر کوئی توبہ اس نیت سے کرے کہ میں اس کو دوبارہ توڑ دوں گا تو یہ توبہ نہیں ہے۔ کیوں کہ توبہ تین چیزوں پر محیط ہے: اپنے گناہ پر ندامت۔ at least یہ تو ماننا پڑے گا۔ دوسری بات: اس سے رک جانا۔ تیسری بات: اس کو آئندہ نہ کرنے کا عزم۔ اگر یہ تین چیزیں آپ کے پاس ہیں تو آپ کی توبہ under the condition ہے کہ اس میں کوئی قضا والی بات نہ ہو یا اس میں کسی کا حق involve نہ ہو۔ ان تین شرطوں کے ساتھ آپ کی توبہ قبول ہو جائے گی اور اگر کسی کا کوئی حق مارا ہے تو وہ بھی پورا کرنا پڑے گا۔ آپ نے آئندہ نہ کرنے کی نیت سے توبہ کر لی لیکن پھر نفس نے شرارت کی اور دوبارہ آپ سے غلطی ہو گئی تو پھر توبہ کر لو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم توبہ توڑنے کے لئے توبہ کرو۔ کیونکہ یہ اپنے آپ کو bluff کرنے جیسا ہے۔ جیسے اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان: 13)
ترجمہ: ”یقین جانو شرک برا بھاری ظلم ہے۔“
یہ بھی اپنے آپ پر ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کر سکتا، اللہ پاک یکتا ہے۔ چنانچہ جو شرک کرے گا وہ اپنا نقصان کرے گا۔ اسی طریقے سے جو گناہ کرتا ہے اس کا نقصان خود اس کو ہوتا ہے۔ انسان کو کم از کم اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے دروازے اپنے اوپر بند نہیں کرنے چاہئیں۔ یعنی میرا ارادہ نہ کرنے کا ہو اور پھر بھی ہو گیا تو دوبارہ توبہ کر لے۔ میں کسی کو ذہن میں رکھ کر کوئی بات نہیں کر رہا لیکن مثال دے رہا ہوں جیسے کوئی شخص داڑھی نہیں رکھتا۔ وہ جب بھی اپنے نفس کی شرارت کی وجہ سے shave کرتا ہے، اگر اس چیز کو اچھا نہیں سمجھتا تو پشیمان ہوتا ہے لیکن اس کو رکھنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ وہ کہتا ہے کہ میں توبہ کرتا ہوں کہ آئندہ نہیں کروں گا۔ لیکن دوبارہ shave کر لی تو پھر بھی اس کی توبہ قبول ہو جائے گی اور گزشتہ گناہ معاف ہو جائے گا۔ پھر کر لی تو پھر توبہ کر لے۔ روز کر رہا ہے تو روز توبہ کرے۔ اس طرح اس کے پاس ایک دن کا گناہ ہو گا اور جو شخص توبہ نہیں کر رہا تو جتنے دن اس نے داڑھی نہیں رکھی، ان سب کا گناہ ہو گا۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ اگر ایک آدمی واقعتاً اس کو اچھا نہیں سمجھتا لیکن معاشرے کا pressure برداشت نہیں ہو رہا اور اس سے غلطی ہو رہی ہے، اس غلطی کو دور کرنے کے لئے وہ روزانہ توبہ کر رہا ہے تو یہ ان لوگوں میں شامل ہے جن کی توبہ بار بار قبول ہو رہی ہے اور اگر وہ اس پر convince ہے کہ مجھے داڑھی نہیں رکھنی۔ البتہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے لئے کہتا ہے کہ میں توبہ کر لیتا ہوں۔ تو یہ صورت حال الگ ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اصلاحی لائن کے اندر سب سے پہلی چیز concept ہے، انسان کا concept ٹھیک ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ گناہ کو گناہ سمجھے۔ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ اگر تم کسی برے کام کو ہوتے دیکھو تو اس کو ہاتھ سے روکو، ہاتھ سے روکنے کی قوت نہ ہو تو زبان سے اس کو برا کہو، یہ بھی اگر ہمت نہیں ہے تو دل سے کم از کم اس کو برا سمجھو اور یہ "اَضعَفُ الِایمَان" ہے۔ یعنی یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔ اگر انسان اس کو برا سمجھے گا تو کم از کم اس سے نکلنا چاہے گا اور جب نکلنا چاہے گا تو توبہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے بعد اگر شیطان یا نفس کے چکر میں آ کر دوبارہ غلطی کرے تو جب تک موت نہیں آئے گی توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ یہ مثال میں نے اس لئے دی کیونکہ عورتوں کے لئے پردہ، مردوں کے لئے داڑھی، یہ معاشرتی مسئلہ بن گیا ہے۔ عورتیں جب پردہ شروع کرتی ہیں تو ان کے اپنے خاندان کے لوگ اور سہیلیاں ان پر تابڑ توڑ حملے شروع کر دیتے ہیں کہ پردہ دل کا ہونا چاہیے اور دل صاف ہونا چاہیے وغیرہ۔ دوسری طرف مردوں کی داڑھی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اسلام میں داڑھی ہے، داڑھی میں اسلام نہیں ہے۔ خدا کے بندے کیوں اپنے آپ کو خراب کرتے ہو؟ justify مت کرو۔ شرمندہ مسلمان گناہ گار تو ہے لیکن اللہ کے قریب ہے۔ لیکن باغی مسلمان اللہ سے دور ہے۔ گناہ کے اوپر جرأت کرنا، اس کو اپنا right سمجھنا، اس کو defend کرنا، اس کی دعوت دینا بغاوت، تعدی اور تباہی ہے۔ لیکن شرمندگی کے ساتھ آدمی گناہ کرتا ہے کہ میں بچنا چاہتا ہوں لیکن بار بار غلطی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نمونے دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو شریعت کو نافذ کرنا تھا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض دفعہ تکوینی طور پر صحابہ کرام سے ایسے کام کروا دئیے کہ ان کو بہت بڑی توبہ کی توفیق ہو گئی۔ اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ سارے حجاز والوں پہ تقسیم کی جائے تو سب کی مغفرت کے لئے کافی ہے۔ جو لوگ ان پہ اعتراض کرتے ہیں وہ ان کی غلطی کو دیکھتے ہیں، توبہ کو نہیں دیکھتے۔ معلوم ہوا ہمارے پاس توبہ ایک بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اس ہتھیار کو شیطان کے خلاف اور اپنے نفس کے خلاف استعمال کرنا چاہیے۔ اپنے ذہن کو شیطان کے ہاتھوں pollute نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اس کا سب سے آسان طریقہ صحبت صالحین ہے۔ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس مجلس میں ہر قسم کے لوگ آتے تھے۔ ایسے لوگ بھی ہوتے تھے جو drunk ہوتے تھے۔ پھر بھی ان کے ساتھ مولانا صاحب کی محبت ہوتی تھی۔ بعض آہستہ آہستہ ولی اللہ بھی بن جاتے تھے۔ معلوم ہوا شرمندگی کے ساتھ انسان توبہ کرتا رہے تو اللہ کی توفیقات شامل ہوتی رہتی ہیں اور اللہ پاک اس کو راستے پہ لے ہی آتے ہیں۔ لیکن بغاوت والا مادہ خطرناک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بغاوت سے نکال دے۔
سوال 4:
درس کے دوران اگر بندے کے دل میں ذکر الٰہی بے اختیار چل رہا ہو تو کیا اس کی گنجائش ہے؟
جواب:
جو کام آپ کے ارادہ میں نہیں ہے وہ اگر گناہ کا بھی ہے تو اس پر پکڑ نہیں ہے۔ جیسے وسوسے آتے ہیں۔ وہ آپ کے اختیار میں نہیں ہیں، آپ خود نہیں لا رہے ہیں تو اس پر بھی گرفت نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کا نام ہے اس پر گرفت کیوں ہو گی؟ البتہ مجلس کے آداب میں یہ لکھا ہے کہ شیخ کی مجلس میں لسانی ذکر کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ لسانی ذکر مستحب ہے اور اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ اس وقت اپنے دل کو مکمل طور پر شیخ کے دل کی طرف متوجہ رکھے کہ جو چیزیں اللہ کی طرف سے شیخ کی طرف آ رہی ہیں وہ میرے دل میں بھی آ جائیں۔ جتنی زیادہ توجہ وہ کرے گا اتنی زیادہ چیزیں اس کو ملیں گی۔ جیسے فرض نماز جب کھڑی ہو جائے نماز تو کیا آپ نعتیں سن سکتے ہیں یا قرآن پاک کی تلاوت سن سکتے ہیں؟ والدین کی زیارت محبت کے ساتھ ہو تو اس پر اجر ملتا ہے۔ کیا اس وقت وہ کر سکتے ہیں؟ کوئی کام نہیں کر سکتے کیوں کہ اس وقت آپ ایک فرض کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی طریقے سے جو اپنی اصلاح کے کام میں لگ جاتا ہے تو شیخ کی طرف متوجہ رہنا اس کے لئے بہترین طریقہ ہے۔ اس وجہ سے مشائخ کرام نے لکھا ہے کہ شیخ کی مجلس کے آداب یہ ہیں کہ وہاں لسانی ذکر کو مؤخر کیا جائے اور بعد میں کیا جائے۔ البتہ اگر اس کا دل ذکر کے ساتھ مانوس ہو تو شیخ کی مجلس میں وہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ شیخ کی وجہ سے اللہ یاد آتا ہے چونکہ شیخ اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ لہٰذا اس پہ کوئی پابندی نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درجات اللہ تعالیٰ بہت بلند فرمائے۔ بہت بڑے بزرگوں میں سے تھے۔ ایک دفعہ ایک صاحب نے کہا کہ حضرت مجھے نماز میں بھی آپ کا خیال آتا ہے۔ حضرت نے ان کو سب کے سامنے ایک تھپڑ لگایا کہ نماز میں مجھے یاد کرتے ہو؟ کچھ ہی عرصے بعد میرا بھی یہی حال ہو گیا کہ نماز میں مجھے بھی مولانا صاحب بڑی وضاحت کے ساتھ یاد آ رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ تھپڑ میرے نصیب میں ہے۔ اگر نہیں بتاتا تو بھی غلط ہے اور بتاتا ہوں تو تھپڑ کھانا پڑے گا، میں نے سوچا کہ تھپڑ کھانے کے لئے تیار ہو جاؤ لیکن بتانا ضروری ہے ورنہ خیانت ہو گی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے حضرت سے عرض کیا کہ نماز میں بھی مجھے آپ یاد آ جاتے ہیں۔ فرمایا: تم یاد کرتے ہو یا خود خیال آ جاتا ہے؟ میں نے کہا: خود ہی آ جاتا ہے۔ فرمایا: کوئی بات نہیں یہ محبت کی وجہ سے ہے، اللہ مبارک فرمائے۔ میں نے کسی سے یہ چیز سمجھانے کے لئے کہا کہ تم شیخ کی مجلس میں ہو، شیخ کے ساتھ صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے ہو، آپ کی وہ نماز اچھی ہو گی یا اس کے علاوہ اچھی ہو گی؟ اس نے کہا: شیخ کی ساتھ ہوں گا تو وہ زیادہ اچھی ہو گی۔ میں نے کہا: اگر آپ کے تصور میں آ جائے کہ آپ اس کے ساتھ ہیں تو وہ اچھی ہو گی یا بری ہو گی؟ الحمد للہ اللہ کا احسان ہے کہ ہمیں ابھی بھی مولانا صاحب یاد آ جاتے ہیں جب کہ حضرت وفات پا گئے ہیں۔ ہماری حالت بدل جاتی ہے اور فائدہ ہو جاتا ہے۔ اسی کو لوگ تصورِ شیخ کہتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ شیخ چونکہ ذریعہ ہے۔ لہٰذا اپنے لئے اس ذریعہ کو اس کے آداب کو جان کر زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ معلوم ہوا کسی سے غیر اختیاری طور پر کچھ گناہ ہو جائے تو پھر بھی اس کی گرفت نہیں ہے تو اگر کوئی اچھا کام ہو رہا ہو اس پہ گرفت کیوں کریں گے؟
سوال 5:
آپ نے دو طریقے بتائے جو بہت آسان ہیں۔ ایک یہ کہ رات سونے سے پہلے اپنے اعمال پہ توبہ کر کے سوئیں۔ دوسرا یہ کہ اگلے دن کی اچھی اچھی نیتیں کر لے کہ فلاں فلاں کام کروں گا۔ میں نیت کرتا ہوں کہ نماز میں کوتاہی نہیں کروں گا۔ اس کے علاوہ ذہن میں زیادہ اچھی نیتیں ہی نہیں آتیں۔
جواب:
بہت اچھا عملی سوال ہے۔ میں یہ عرض کرتا رہتا ہوں کہ مفت کی نیکیاں کیسے کمائی جائیں اور مفت کی مشکلات سے کیسے نکلا جائے؟ چنانچہ اگر ایک انسان صبح سویرے اچھی اچھی نیتیں کر لے ”اِنَّمَا الْاَعْمَال بِالنِّیَّات“ (البخاری، حدیث نمبر: 1) کے لحاظ سے اس کا اجر مل جاتا ہے۔ اگر وہ کام ہو جائے تو دس گنا اجر مل جاتا ہے اور اگر وہ نہ ہو تو ایک گنا اجر ختم نہیں ہوتا۔ جتنی نیتیں آپ نے کی ہیں وہ سب آپ کے کھاتے میں چلی گئیں۔ رات کو سونے سے پہلے صلوۃ التوبہ پڑھ کے سو جائے تاکہ جو گناہ ہو چکے ہوں وہ معاف ہو جائیں۔ گناہ یعنی منفی چیز کو آپ ختم کر رہے ہو اور مُثبت کو مفت میں لے رہے ہو۔ یہ آگے بڑھنے کا آسان طریقہ ہے جس میں آپ کچھ بھی نہیں کر رہے لیکن آپ کو اتنا بڑا فائدہ مل رہا ہے۔ آپ کہتے ہیں: کیا نیتیں کروں؟ اللہ پاک نے ذہن میں عجیب بات ڈالی ہے، اللہ پاک کی قدرت ہے کہ جس وقت جو بھی ذہن میں ڈال دے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! یہ جو کہتے ہیں کہ ادنی سے ادنی جنتی کو بھی دس گنا دنیا کے برابر جنت ملے گی تو اس جنت کے ساتھ وہ کیا کریں گے؟ حضرت نے فرمایا: تو بڑا ہی بد ذوق آدمی ہے۔ مجھے بتا کیا تو حضور ﷺ کی دعوت کرنا چاہے گا یا نہیں؟ کیونکہ وہاں دعوتیں ہوں گی۔ وقت ہی وقت ہو گا۔ وہاں نہ ختم ہونے والا وقت ہے اور نہ ختم ہونے والے مزے ہیں۔ وہ جنت ہے۔ چنانچہ اگر آپ کا ارادہ ہو کہ آپ ﷺ کی دعوت کی جائے۔ تو کیا آپ ﷺ اکیلے آئیں گے؟ ممکن ہے وہ اپنے ساتھ پوری امت کو لے آئیں تو پھر کدھر جگہ بناؤ گے؟ ذرا موٹے دماغ کے آدمی کو سمجھانا اسی طریقے سے ہوتا ہے ورنہ اور بھی بہت سی ضرورتیں ہو سکتی ہیں۔ جیسے دو ساتھیوں کے اندر لڑائی ہو، آپ کہتے ہیں کہ میں ان کے درمیان صلح کراؤں گا۔ آپ بازار کی طرف جائیں اور ارادہ ہو کہ میں راستے میں سب کو سلام کروں گا۔ میں اپنے گھر والوں کو بہشتی زیور کی تعلیم دوں گا۔ میں ذکر کروں گا، دعائیں کروں گا یہ نیتیں ہو سکتی ہیں۔ یہ possible نیتیں ہیں۔ آپ لوگوں کو سلام کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بہت ساری نیتیں سوچ سوچ کر لکھیں۔ اور صبح اٹھیں اور جو کام کر سکتے ہیں وہ کریں کہ میں فلاں کام کر سکتا ہوں اور فلاں کر سکتا ہوں وغیرہ۔ جیسے لوگ ڈائری لکھتے ہیں۔ پھر نیتیں کر کے جو جو آپ کے لئے ممکن ہو اس پہ کام جاری رکھیں، جو ہو گیا تو سبحان اللہ۔ دو لوگوں کے درمیان صلح کرانا بہت بڑا عمل ہے لیکن اس سے لوگ نا بہت واقف ہیں۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ اللہ چاہتا ہے ان کا جوڑ ہو اور شیطان توڑ ڈالتا ہے۔ جب آپ ان میں صلح کروائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے نظام ہدایت کی آپ کڑی بن رہے ہیں۔ اکثر میاں بیوی کے درمیان شیطان لڑائی ڈال دیتا ہے اور اس پہ بڑا خوش ہوتا ہے۔ ان کے رشتہ دار آپس میں ان کی صلح کرا دیتے ہیں۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ حضرت مولانا یوسف کاندھلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو تبلیغی جماعت کے دوسرے امیر تھے، ان کی وفات جس بیان کے بعد ہوئی ہے اس بیان کا غالباً پہلا حصہ یہی تھا کہ فرمایا: افسوس! امت سے امت پنا چلا گیا۔ بعض لوگ بڑے اچھے اخلاق والے ہوں گے، اچھے اعمال والے ہوں گے لیکن ان کی کسی بات سے امت میں توڑ آ جائے گا اور وہ جہنم میں چلے جائیں گے۔ اور بعض عام لوگ ہوں گے لیکن ان کی کسی بات سے امت میں جوڑ آ جائے گا اور وہ جنت میں چلے جائیں گے۔ معاشرتی طور پر یہ بہت بڑا عمل ہے۔ اسی طرح لوگوں کو تعلیم دینا بہت بڑا عمل ہے۔ گھر والوں کا سب سے زیادہ حق ہوتا ہے۔ آپ سوچ سوچ کر لوگوں سے information collect کر لیں اور صبح اٹھ کے ڈائری کی طور پر نیت کر لیں کہ میں نے آج فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ یہ آپ کے پاس سعادتوں کی کنجی ہے۔ یعنی ایک لائحہ عمل آ جاتا ہے اس کے مطابق آپ کے ذہن میں صرف وہ چیزیں گزر بھی گئیں تو اس کا بھی آپ کو فائدہ ہو جائے گا۔ کیوں کہ اگلی دفعہ اس پر کچھ نہ کچھ عمل ہو جائے گا۔ بہر حال ایک تو یہ عمل ہے اور دوسرا گناہوں سے توبہ کرنا ہے، جس کی ہمیں ہر وقت ضرورت ہے لیکن رات کو سونے سے پہلے کم از کم ہم اس پہ لازمی عمل کریں، جس کا فائدہ یہ ہو گا کہ روز کے گناہ wash ہو جایا کریں گے۔ میں نے لوگوں کو ایک جرنیلی قسم کا وظیفہ بتانا شروع کیا ہے۔ فجر سے لے کر دوپہر تک ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ“ پڑھیں اور دوپہر سے لے کے غروب آفتاب تک درود شریف پڑھیں۔ غروب آفتاب کے بعد استغفار کریں۔ آخر میں استغفار اس لئے ہے کہ آخری وقت موت کی طرح ہے۔ یعنی ہم سو رہے ہیں تو موت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیا پتا دوبارہ اٹھنے کی توفیق ہے یا نہیں ہے! لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پورا اسلام ہے۔ آپ اس کا ورد کر رہے ہیں تو آپ کے لا شعور میں یہ بات راسخ ہو رہی ہو گی کہ آپ نے دین پر چلنا ہے۔ اور درود شریف کے ذریعے برکت اور رحمت ہے، آپ کے سارے کام ہوں گے۔ یہ main piller ہے۔ آپ کو حرکت بھی مل گئی، برکت بھی مل گئی اور غلطی سے بچنے کی آپ کو ایک سہولت بھی مل گئی۔
سوال 6:
کئی دنوں سے محسوس ہو رہا ہے میرے کمرے میں کچھ ہے۔ تین یا چار مرتبہ ایسا ہوا کہ میں اپنے کمرے کا بلب بند کرتا ہوں تو خود بخود جل جاتا ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی میرے کان میں آیتیں پڑھ رہا ہو۔ جب میں نیم خواب میں ہوتا ہوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی میرے اوپر بیٹھا ہو اور کبھی کبھی میرے گھر کی کنڈی خود بخود کھل جاتی ہے اور کبھی بند ہو جاتی ہے۔ کیا یہ میرا وہم ہے؟
جواب:
اس میں کوئی تصوف والی بات نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً آج کل بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر پیر کو عامل سمجھا جاتا ہے اور ہر عامل کو پیر سمجھا جاتا ہے۔ عاملوں کو پیر کی طرح مانتے ہیں چاہے وہ شیعہ ہو یا چاہے فاسق، فاجر ہو۔ گمراہی کا ایک راستہ کھل جاتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ ہر پیر سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ یہ عملیات بھی جانتا ہو گا حالانکہ ضروری نہیں ہے۔ ممکن ہے عملیات کے قریب سے بھی نہ گزرا ہو۔ البتہ برکت سے انکار نہیں۔ لیکن برکت اس کے ساتھ اصلاحی تعلق رکھنے سے آئے گی۔ آپ ایک چیز کو misuse کر رہے ہیں تو اس سے برکت نہیں آئے گی۔ مثال کے طور پر آپ نے اصلاح کے لئے کسی پیر سے تعلق قائم کر لیا۔ اللہ جل شانہ نے اس تعلق کو قبول فرما لیا۔ اس سے آپ کی اصلاح بھی ہو گی اور دنیاوی مسئلے بھی حل ہونا شروع ہو جائیں۔ آپ کو نظر آئے گا کہ میرا دنیا کا فلاں فلاں مسئلہ حل ہو گیا۔ لیکن اگر آپ کی نیت اس کے لئے آنے کی تھی تو سارا کچھ چلا جائے گا۔ "اِنَّمَا الْاَعْمَال بِالنِّیَّات" آپ کی نیت اللہ کو لینا ہے، آپ اللہ پاک کے لئے آئے ہوئے ہیں، ظاہر ہے اس نیت کے مقابلے میں دوسری نیتیں اچھی نہیں ہیں۔ لوگوں نے اب میرے ساتھ ایک عجیب کام شروع کر دیا ہے، میرا مزاج چونکہ جانتے ہیں کہ ان باتوں سے ناراض ہوتا ہوں تو دو سال کے بعد ٹیلی فون کریں گے کہ میں نے آپ کا بتایا ہوا وظیفہ شروع کر لیا ہے۔ پہلے مجھے ذرا نرم کرنے کی کوشش کریں گے۔ ساری باتیں کر کے اخیر میں اپنی مطلب کی بات کہیں گے۔ چونکہ میں بھی تجربہ کار ہو گیا تو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ مجھے تیار کر رہے ہیں۔ چنانچہ اخیر میں کہتے ہیں: حضرت! آج کل میرے کاروبار کا بڑا مسئلہ ہے، مہربانی کر کے دعا کریں۔ مجھے سعودیہ عرب سے ایک خاتون کا ٹیلیفون آیا کہ حضرت! ہم میاں بیوی آپ سے دو سال پہلے بیعت ہوئے تھے اور یہاں ہمارے ساتھ عجیب کام ہو جاتا ہے کہ ہمارے کپڑے صندوق میں پڑے پڑے کٹ جاتے ہیں، کبھی جل جاتے ہیں۔ میں نے کہا: بی بی! ان دو سالوں میں کبھی آپ نے اس بارے میں مجھے ٹیلیفون نہیں کیا ہے کہ میں کون سا وظیفہ کر رہی ہوں۔ وہ پورا ہو گیا یا نہیں ہوا۔ آپ نے کبھی نمازوں کے بارے میں نہیں پوچھا، آپ نے اپنے احوال کے بارے میں کبھی کچھ نہیں بتایا۔ ان دو سال میں آپ کو پیر صاحب کا خیال صرف اپنے کام کے لئے آیا۔ میں آپ کو کوئی جواب نہیں دوں گا۔ تین دن سوچو اور اپنا ذہن بناؤ کہ میرے ساتھ تعلق کس لئے رکھنا ہے؟ اللہ کے لئے رکھنا ہے یا دنیا کے لئے رکھنا ہے؟ دنیا کے لئے رکھنا ہے تو جواب نہیں دوں گا بیشک میرے ساتھ تعلق توڑ دو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میں اس کی اجازت دے دوں تو آپ کو ادھر بیٹھنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ پھر سارے وہ لوگ بیٹھیں گے جن کے ساتھ بوتلیں ہوں گی اور وہ پانی دم کرانے آئے ہوں گے۔ کبھی کوئی تعویذ لینے آیا ہو گا۔ اس مسئلے کے اندر میں سخت ہوں اور سخت ہونا پڑتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آج کل کے دور میں مجھ جیسا اکھڑ قسم کا پیر ہونا چاہیے۔ مجبوری ہے ورنہ لوگ پیروں کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ آج کل پیر اور کَمِّی میں کوئی فرق نہیں رہا۔ کم از کم پنجاب اور سندھ کی سطح پر لوگوں نے پیر کو کَمِّی کی طرح سمجھ لیا ہے۔ سال میں ان کو کچھ پیسے دیتے ہیں، یہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نماز پڑھ لو۔ نہیں سنتے۔ کہتے ہیں: روزہ رکھو۔ نہیں سنتے۔ اگر کہتے ہیں کہ اپنا حلیہ درست کر لو۔ نہیں سنتے۔ پیر ہمارے کھیت میں آ جائے اور دعا کر لے اور ہمارے کھیت ٹھیک ٹھاک ہو جائیں۔ ہماری دکان میں آ کر دعا کر لیں۔ ہم ان کے گھر مٹھائی لے جائیں۔ بس ہمارے کاروبار ٹھیک چلنے لگیں۔ آج کل کے دور میں یہ ہے پیر کا کام۔ جس نے صحیح معنوں میں پیری کرنی ہے ان کو ان چیزوں سے نکلنا پڑے گا۔ الحمد للہ ہم نے نیت کی ہے، اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ نیت کی ہے کہ ہم اپنے صحیح بزرگوں کے نقش قدم پہ چلیں، ہمیں ان چیزوں سے واسطہ نہ ہو۔ چونکہ اس کا جواب میرے ذمے نہیں ہے، اس لئے میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ یہ subject to condition نہیں ہے۔ مجھے سب سے پہلے اس بات کا بتائیں کہ آپ کے معمولات کیا ہیں؟ جب مجھے یقین ہو جائے گا کہ یہ میری بات سنتا ہے تو اگر ان کے یہ واقعات accidently ہوئے تو پھر میں جواب دوں گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کون صاحب ہیں، اگر میرے ساتھ رابطہ کر لیں تو i am not the person to be ask for this۔
ایک دفعہ میں قصور گیا۔ وہاں بہت سارے لوگ مجھ سے بیعت ہیں جن میں علماء بھی ہیں، قاری صاحبان بھی ہیں بڑے اچھے اچھے لوگ ہیں۔ وہاں ایک مولانا صاحب ہمارے ساتھی ہیں۔ وہ تعارف کروا رہے تھے کہ یہ بھی آپ سے بیعت ہے، وہ بھی آپ سے بیعت ہے وغیرہ۔ جب تعارف ہو گیا تو میں نے کہا مولانا یہ المیہ نہیں ہے کہ آپ ان کا تعارف کروا رہے ہیں؟ کیا مجھے ان کے تعارف کی ضرورت رہنی چاہیے؟ مرید تو بیٹوں کی طرح ہوتا ہے، بیٹوں کو کوئی نہیں بھول سکتا۔ لیکن بیٹا شکل ہی نہ دکھائے اور رابطہ ہی نہ ہو تو بیعت ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ معلوم ہوا ان چیزوں کو درست کرنا پڑے گا۔ لوگوں نے mechanical انداز میں سمجھنا شروع کیا ہے کہ کوئی بٹن دبا دے گا اور ساری چیز چل پڑیں گی۔ حالانکہ یہ mechanical نہیں بلکہ spiritual ہے۔ spirit کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور دل کا تعلق اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے پھر سارے کام ہوں گے۔ نماز آپ بے شک پوری حضور ﷺ کے طریقے پر پڑھ لیں لیکن دل میں نیت یہ ہو کہ لوگ کہیں کتنا اچھا نمازی ہے۔ تو نماز نہیں رہی۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: "اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْن" (کشف الخفاء للعجلونی، ج2، ص40) ترجمہ: ”نماز دین کا ستون ہے“ اس وجہ سے ہمیں اپنے دل کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لئے جو ذرائع ہیں ان کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے۔ بعض دفعہ میں تھوڑا غصے سے کہتا ہوں: خدا کے بندو! کچھ تو اللہ کے لئے چھوڑو، ہر چیز دنیا کے لئے استعمال کرتے ہو۔ کچھ اللہ کے لئے ہو جس میں دنیا شامل نہ ہو۔ میں جب سٹوڈنٹ تھا تو ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گیا۔ ہم میں بھی بیماریاں موجود تھیں، ہم آسمان سے نہیں ٹپکے تھے۔ میں نے کہا: حضرت! سر میں درد ہے، آپ دم کر دیں۔ ہم عالم سمجھ کر کہہ دیتے۔ کبھی کہتے: میرا پیپر کچھ خراب ہو گیا ہے، دعا فرما دیں، وہ ہاتھ اٹھا لیتے۔ اسی طرح میں نے اس دن بھی کہہ دیا۔ حضرت نے دم کرنا شروع کر دیا۔ حضرت کے پاس ایک مہمان آئے ہوئے تھے انہوں نے حضرت سے پوچھا: حضرت آپ کے پاس دنیا کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں اور دین کے لئے کتنے لوگ آتے ہیں؟ بس یہ سوال سننا تھا کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گیا کہ یہ تو ہم دنیا کے لئے آ رہے ہیں۔ اس کے بعد میں نے ارادہ کیا کہ اب حضرت سے دنیا کی کوئی چیز نہیں کہوں گا۔ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے، میں حضرت سے کیوں کہوں؟ اللہ تعالیٰ سے کہہ سکتا ہوں۔ یہاں میں اللہ کے لئے آؤں گا۔ اللہ بہت غیور ذات ہے اور بہت نوازتے ہیں۔ ادھر میں نے یہ بات سوچی، ادھر اللہ پاک نے ایک فیصلہ کیا کہ حضرت نے خود مجھ سے پوچھنا شروع کر دیا۔ بیٹا! آپ کا امتحان کیسا ہو رہا ہے؟ بیٹا! صحت تو ٹھیک ہے کچھ مسئلہ تو نہیں ہے؟ معلوم ہوا اللہ کے لئے ان چیزوں کو چھوڑ دو پھر دیکھو اللہ کیسے دیتے ہیں۔ کسی چیز کو تو اللہ کے لئے رکھو، ان چیزوں کو کیوں exploit کرتے ہو؟ دنیا اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ وہ اگر دینا چاہے تو اس کے لئے آپ کو تگ و دو کی ضرورت نہیں ہو گی۔ آپ ﷺ کو اختیار دے دیا گیا کہ چاہیں تو پہاڑ سونے کے ہو جائیں اور آپ کے ساتھ چلیں۔ آپ ﷺ نے یہ اختیار نہیں لیا۔ معلوم ہوا ہمیں چیزوں کو اس انداز میں لینا چاہیے جیسے آپ ﷺ نے لیا ہے۔ البتہ ہم کمزور ہیں اور اللہ پاک ہماری کمزوریاں ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ لہٰذا ہماری کمزوریوں پر وہ امتحان نہیں آئیں گے جو بڑوں کے اوپر آئے تھے۔ کیونکہ کمزوروں کے ساتھ کمزوروں والا معاملہ ہوتا ہے۔ اپنے آپ کو کمزور سمجھتے رہو اور اللہ کے سامنے بچھتے رہو۔ اللہ پاک سے مانگتے رہو۔ اللہ کریم کے پاس سب کچھ ہے۔ میں کسی کو اپنے اوپر dependent کرا دوں کہ ہر چیز کے لئے میرے پاس آؤ۔ یہ اس کے ساتھ اچھائی ہے یا یہ ہے کہ میں اس کو اللہ پاک سے مانگنا سکھا دوں۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے۔
میں ایک بار کراچی میں کسی سرکاری کام سے گیا تھا، ہوٹل جے بیز میں قیام تھا۔ صبح فجر کی نماز کے لئے نکل رہا تھا۔ چونکہ ان ہوٹلوں میں سرکاری ڈیوٹیوں والے ہی زیادہ تر ٹھہرتے ہیں۔ وہاں بیروں کو پتا تھا کہ میں فلاں محکمہ میں ہوں۔ چنانچہ ایک بیرا نماز پڑھ کر مصلے پہ بیٹھے ہوئے دعا مانگ رہا تھا کہ اے اللہ! میرا بیٹا بے روزگار ہے وغیرہ۔ سنانے کے لئے اونچی آواز سے مانگ رہا تھا اور چونکہ میں بقول اس کے دین دار آدمی ہوں تو میرا دل پسیج جائے گا۔ مجھے بلا لے گا کہ تیرا بیٹا بے روزگار ہے تو درخواست دے دے وغیرہ۔ اور کام بن جائے گا۔ میں نے بہت افسوس کیا کہ اس خدا کے بندے کو اگر اتنی توفیق ہوتی کہ چپکے سے اللہ سے مانگتا تو عین ممکن ہے اللہ مجھے ہی استعمال کر لیتا۔ نا ممکن نہیں تھا کہ میرے دل میں ڈال دیتا۔ معلوم ہوا ہمیشہ اللہ سے مانگنا چاہیے اور باقی کام جو ہم سے اللہ کروانا چاہتا ہے وہ ہم کریں۔"مَن کَانِ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ" ”جو اللہ کا بن گیا اللہ اس کا بن گیا۔“ اپنا سب کچھ اللہ کے لئے چھوڑو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی طرف سے سب کچھ دے دے گا۔ یہی فنا و بقا ہے۔ اسی کے ساتھ سب کچھ ملتا ہے۔ بس اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين