اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
السلام علیکم حضرت انسان جب کوئی اچھا کام کر لے تو اس کے دل میں یہ بات آ جاتی ہے کہ میں نے یہ کام اچھا کیا۔ یہ تو بزرگی ہے۔ اس کا کیا علاج ہے کہ یہ خیال دل میں نہ آئے؟
جواب:
اللہ پاک کے احکام واضح ہوتے ہیں مثلاً نماز کے احکامات بالکل واضح ہیں۔ لیکن ہم ان پر کتنا عمل کرتے ہیں، اس میں ہمارا قلبی خشوع کتنا ہوتا ہے، ہماری نیت کس حد تک خالص ہوتی ہے۔ اس کا صحیح پتا تو اللہ کو ہی ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کوئی اچھا عمل کر لے تو اس کے بارے میں حتمی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اچھا عمل کیا ہے یا نہیں کیا۔ اچھا عمل کرکے بھی انسان یہ confirm نہیں کر سکتا کہ یہ ٹھیک سے ہوا یا نہیں ہوا۔ لہٰذا اس کے بارے میں یہ رائے قائم کرنا کہ میں نے اچھا کام کر لیا۔ یہ ذرا کم علمی اور بے وقوفی کی بات لگتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر اچھا کام ہو بھی گیا تو اس کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہیے نہ کہ اپنا کمال۔ اگر اللہ پاک کی توفیق شامل حال نہ ہوتی تو ہم لوگ یہ عمل نہ کر سکتے۔ یہ بھی اللہ پاک کی توفیق سے ہوا۔ پس جو کام اللہ نے کیا ہے، اس کے بارے میں ہم لوگ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میں نے اچھا کام کیا۔ البتہ اس پر اللہ کا شکر ادا کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں ایک اچھے عمل کی توفیق عطا فرمائی۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ عمل میری وجہ سے خراب ہوگیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے قبول ہو جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ کسی عمل کی قبولیت کی یہ علامت بھی بتائی جاتی ہے کہ انسان اس کو اپنا کمال نہیں سمجھتا بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے اس کی قبولیت کا سوالی ہوتا ہے۔ اور اللہ کی طرف اس کی نظر جاتی ہے اپنے پہ نظر نہیں جاتی۔ یہ اس کی قبولیت کی علامت ہوتی ہے۔ جس عمل میں انسان کی نظر اپنے اوپر جائے تو یہ خطرہ کی بات ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جو شخص کسی وقت اپنے آپ کو اچھا کہہ دے تو وہ اپنے آپ کو یہ سمجھائے کہ پہلے اگر میں اچھا بھی تھا تو اب اچھا نہیں رہا۔ کیونکہ اب میں نے یہ سوچ لیا کہ میں اچھا ہوں۔ اپنے آپ کو اچھا سمجھنا اچھا نہیں ہوتا۔ لہٰذا میں نے یہ سمجھ کر ایک غلط کام کر دیا اس لئے پہلے اگر میں اچھا تھا بھی تو اب اچھا نہیں رہا۔ تو پھر میں کیسے اپنے آپ کو اچھا کہہ سکتا ہوں۔
اگر آدمی اپنے آپ کو اچھا نہیں کہے گا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کا امیدوار ہو گا اور اگر اپنے آپ کو اچھا کہتا ہے تو اس طرح سوچنے سے وہ برا ہو گیا۔ دونوں صورتوں میں بزرگی کہیں نہیں ہے۔ اگر کسی کو بزرگی کا خیال آتا ہے تو یہ اس کی کم علمی اور بے وقوفی ہے۔ اپنی بے وقوفی سے توبہ کرنا چاہیے، اللہ پاک سے اچھے کام کی توفیق مانگنی چاہیے اور اس کے فضل کا امیدوار ہونا چاہیے کیوں کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
”اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ“ (صحیح مسلم: 2675)
ترجمہ: ”میں بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے“۔
اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھے اور اپنے آپ سےسوء ظن رکھے۔ حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میرے شیخ شہاب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے دو نصیحتیں کی ہیں:
بر خود خوش بیں مباش۔ بر غیر بد بیں مباش۔
اپنے اوپر خوش گمانی نہ کرو اور دوسرے کے اوپر بد گمانی نہ کرو۔ جیسے دوسروں کے اوپر بد گمانی کرنا برا ہے ایسے ہی اپنے اوپر نیک گمان کرنا برا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال نمبر2:
I did forty days task assigned with success almost one and a half year back and did بیعت in last رمضان now which to seek guidance what to do on daily basis as I discontinued the same afterwards, please guide me.
جواب:
فرماتے ہیں کہ میں نے چالیس دن کا ذکر کامیابی کے ساتھ کر لیا ہے۔ میں آپ سے گذشتہ رمضان میں بیعت ہوا تھا۔ اب میں چاہتا ہوں کہ آپ میری رہنمائی کریں کہ میں روزانہ کیا کروں؟ کیوں کہ میں نے اس کے بعد ذکر discontinue کر دیا تھا۔
ڈیڑھ سال کے بعد پھر خوش آمدید مرحبا! کہتے ہیں صبح کا بھولا شام کو گھر آ جائے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ بس ان کا دن تھوڑا سا لمبا ہے، تقریباً ڈیڑھ سال پر مشتمل ہے۔ بہرحال شام کو واپس تو آ گئے۔ اب اگر کوشش کریں گے اور امید ہے کہ اس حساب سے دو تین دن کام کریں گے تو کامیاب ہو جائیں گے۔ دو تین دن کی بات ہے لیکن وہ دن ڈیڑھ سال کا ہونا چاہیے۔ امید ہے ان شاء اللہ العزیز چند دن میں کامیابی مل جائے گی۔ سب سے پہلے تو آپ دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھیں کہ میں نے اتنی سستی کیوں کی۔
کل مجھ سے ایک کیپٹن صاحب کہہ رہے تھے کہ مجھے ایسے لگ رہا ہے کہ آپ ناراض ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کو کیوں ایسا لگ رہا ہے؟ کہتے ہیں: ”میں نے خواب دیکھا ہے جس میں آپ مجھ سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں“۔ میں نے کہا: ”اگر خواب میں شیخ دکھائی دے تو اس سے مراد سلسلہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ سے سلسلہ ناراض ہے۔ مجھے علم نہیں ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ہے لیکن لگتا یہ ہے کہ آپ سے سلسلہ ناراض ہے، جب سلسلہ ناراض ہوتا ہے تو اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ اپنی سستی کو دور کریں۔ ان شاء اللہ سلسلہ راضی ہو جائے گا۔
تو آپ بھی سستی دور کر لیں۔ میں آپ کو ذکر بتاتا ہوں اسے نوٹ کر لیں۔ روزانہ ایک سو دفعہ تیسرا کلمہ، سو دفعہ درود شریف اور سو دفعہ استغفار۔ یہ تو آپ نے عمر بھر کرنا ہے اس کو کبھی نہیں چھوڑنا۔ اس کے علاوہ ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“سو دفعہ، ”اِلَّا اللّٰہ“سو دفعہ، ”اَللّٰہُ اللّٰہ“ سو دفعہ اور اللہ اللہ سو دفعہ یہ روزانہ پابندی کے ساتھ کریں۔ یہ ایک مہینہ کے لئے ہے۔ ایک مہینہ کے بعد مجھے contact کر لیں۔ اگر میرے ساتھ کسی وجہ سے رابطہ نہ ہو سکے تو اسی ذکر کو جاری رکھیں، ختم نہ کریں۔ اگر آپ کہیں قریب ہیں تو آپ خانقاہ میں آنا جانا شروع کر لیں۔ بے شک ہفتہ میں ایک دن ہی آ جایا کریں تاکہ ذرا تازگی آجائے اور عمل کرنے کی توفیق ہو جائے۔ اس کے علاوہ مزید ذکر کرنا چاہتے ہیں تو فجر سے لے کے دوپہر تک ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ“ جتنا ممکن ہو پڑھ لیں۔ دوپہر سے لے کے غروب آفتاب تک درود شریف اور غروب آفتاب کے بعد ”اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ رَبّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَیْہِ“ جتنا زیادہ ممکن ہو پڑھ لیا کریں۔ ایک مہینہ کے بعد دوبارہ رابطہ کریں۔
سوال نمبر3:
حضرت السلام علیکم! میں آپ سے بیعت ہوں درج ذیل مسئلوں کا شکار ہوں، ان کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
1: ذکر Complete نہیں کیا۔
2: نماز نہیں پڑھتا۔
3: نظر پر بالکل قابو نہیں۔
4 : لوگوں کی پرواہ زیادہ کرتا ہوں۔
:5اور پانچویں بات یہ کہ پریشان رہتا ہوں۔
جواب:
آپ نے اپنے احوال صاف گوئی سے بتائے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ بیمار انسان ڈاکٹر کو اپنا سارا کچا چٹھا بتاتا ہے اور ڈاکٹر اس کے علاج میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا، کوئی مروت نہیں رکھتا، تب ہی اس کا علاج ہو پاتا ہے۔ آپ نے ہم سے اپنی مسائل کا حل پوچھا ہے۔ کہتے ہیں: ”المُسْتَشَارُ مُؤَتَمَنٌ“۔ ”جس سے مشورہ مانگا جائے وہ امانت دار ہے“۔ وہ اس امانت کا پاس رکھتے ہوئے مشورہ مانگنے والے کو وہی جواب دے گا جو اس کے لئے صحیح ہے، اس میں کوئی مروت اور لحاظ نہیں رکھے گا۔ آپ چونکہ مجھ سے بیعت بھی ہیں اور شیخ کے لئے لازم ہے کہ مروت بالکل نہ کرے۔ شیخ کی علامات و شرائط میں سے باقاعدہ ساتویں شرط ہی یہ ہے کہ وہ اصلاح میں مروت نہ کرتا ہو۔ لہٰذا مجھ پر تو مروت حرام ہے، اس مسئلہ میں آپ کے ساتھ کوئی مروت نہیں رکھ سکتا۔ میں صاف صاف بات عرض کروں گا۔
آپ نے ذکر complete نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اب ذکر مکمل کر لیں۔ جب تک آپ دوا نہیں کھائیں گے صرف اس بات کی اطلاع دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کہ میں نے دوا نہیں کھائی۔ اطلاع دینے سے کم از کم یہ ہوگا کہ آپ کو ایک دفعہ اور نصیحت کر دی جائے گی کہ اپنا ذکر پورا کریں۔ اس نصیحت کے علاوہ ہم اور کیا کر سکتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر نے مریض کو دوا دی ہو اور ہدایت کی ہو ان دواؤں کو اس طریقے سے استعمال کریں، اتنے عرصہ تک استعمال کرنے کے بعد میرے پاس آ کراپنی حالت بتائیں۔ مریض مطلوبہ مدت کے بعد ڈاکٹر کے پاس آئے اور کہے کہ میں نے دوائی نہیں کھائی تو ڈاکٹر صاحب سوائے اس کے اور کیا کہیں گےکہ بھئی فائدہ نقصان آپ کا اپنا ہے اگر اپنی بیماری دور کرنا چاہتے ہو تو دوائی کھانی پڑے گی۔ اسی طرح ہم بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر اپنا علاج کرنا ہے تو ذکر تو کرنا پڑے گا۔ لہٰذا ذکر شروع کر لیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کب بیعت ہوئے اور آپ کو کون سا ذکر دیا تھا۔ جو بھی ذکر دیا تھا، فوراً مجھے ای میل کر یں کہ آپ کو کون سا ذکر دیا گیا تھا تاکہ اس کے حساب سے آپ کو بتا دیا جائے کہ اب کیا کرنا ہے۔
آپ نے کہا کہ نماز نہیں پڑھتا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ نماز پڑھنے کا حکم میرا نہیں یہ اللہ کا حکم ہے، اس کا جواب اللہ کو دینا پڑے گا۔
روز محشر کہ جاں گداز بوداولیں پرسش نماز بود
روز محشر کا دن بہت خطرناک ہے۔ سب سے پہلے نماز کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
”اَلصَّلوٰۃُ عِمَادُ الدِّیْن“ (الجامع الصغیرللسیوطی:5167)
ترجمہ: ”نماز دین کا ستون ہے“۔
نیز حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ ”کافر اور مسلمان میں نماز کا فرق ہے“۔ اگرچہ ہمارے علماء کرام نے اس کو زجر پہ محمول کیا، لیکن بہرحال نماز کے بعد کفر ہی آتا ہے۔ اگر آدمی نماز چھوڑ دے تو اس کے بعد پھر یہی ہو سکتا ہے کہ کافر ہو جائے۔ اس لئے آپ فوراً نماز شروع کر لیں۔ میرے اوپر احسان نہ کریں بلکہ اپنے اوپر احسان کریں۔ اگر آپ نہیں پڑھیں گے تو آپ ہی بھگتیں گے۔ اللہ نہ کرے اگر آپ اس حالت میں فوت ہو گئے تو بالکل جہنم کا تر نوالہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ نماز فوراً شروع کر لیں۔ اس کے اندر ذرہ بھر بھی سستی کی گنجائش نہیں ہے۔ جو نمازیں قضا ہوئی ہیں ان کی قضا شروع کر لیں، ہر نماز کے ساتھ ایک نماز کی قضا پڑھ لیا کریں۔ اللہ جل شانہ حفاظت فرمائے۔
آپ نے لکھا کہ نظر پہ بالکل قابو نہیں ہے۔ نماز پڑھنا فرائض میں سب سے اونچا فرض ہے۔ بد نظری کرنا حرام ہے اور حرام سے بچنا یعنی نظر کی حفاظت کرنا فرض ہے۔ آپ دو فرض چھوڑ رہے ہیں اور ایک حرام میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی نظر پر قابو نہیں ہے، تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ آپ بتائیں کہ جس کی طرف آپ دیکھ رہے ہوں اس کا والد یا آپ کا والد یا آپ کا استاد اس وقت آپ کو دیکھ رہا ہو، کیا پھر بھی آپ بد نظری کرتے رہیں گے؟ اپنے دل سے پوچھ کے دیکھیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ ان لوگوں کی موجودگی میں آپ بدنظری نہیں کریں گے تو اللہ پاک کا اس سے زیادہ حق ہے کہ آپ اللہ سے شرم کریں۔ لہٰذا اپنی نظروں کی حفاظت کریں۔
آپ نے کہا کہ لوگوں کی پرواہ زیادہ کرتا ہوں۔ اس پر میں آپ کو ایک شعر سناتا ہوں۔ ؎
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہےہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی پرواہ نہیں کرتا تو پھر بہت سارے لوگوں کی پرواہ کرے گا۔ یہ by default ہے۔ یہ جو قاتل لوگ ہوتے ہیں۔ یہ قتل کرتے وقت صرف ایک آدمی کے لئے اپنے آپ کو نیچا نہیں کر سکتے پھر ساری زندگی ہر ایک کے لئے نیچا ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس والوں کے لئے بھی نیچے ہوتے رہتے ہیں مفروروں کے لئے بھی نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ چودھریوں کے بھی نیچے ہوتے رہتے ہیں خانوں کے بھی نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کارِ بد کرتے وقت ذرا نیچے ہو جاتے، اپنے آپ پہ قابو پا لیتے تو ہر مسئلہ سے بچت ہو جاتی۔ اسی طرح جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے نیچے نہیں کرتے وہ سب کے نیچے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک سزا ہوتی ہے۔ اس سزا سے نکلنے کا یہی طریقہ ہے کہ اللہ پاک کی پرواہ کرنا شروع کر لیں۔
﴿فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ﴾ (البقرۃ: 150)
ترجمہ: ”ان کا کچھ خوف نہ رکھو، ہاں میرا خوف رکھو “۔
لہٰذا ہمیں اللہ پاک کی پرواہ کرنی چاہیے باقی لوگوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
آپ نے لکھا کہ پریشان رہتا ہوں۔ یہ جتنی باتیں آپ نے بتائی ہیں پریشانی کے لئے کافی ہیں۔ پریشانی سے نکلنے کا وہی راستہ ہے جو میں نے ابھی عرض کر دیا ہے۔ لہٰذا جیسے ہی آپ یہ سن لیں۔ فورًا مجھے اپنا ذکر email کر دیں۔ دوسرا یہ ہے کہ صلوۃ التوبہ پڑھیں۔ اس کے بعد مجھ سے رابطہ کریں، ان شاء اللہ مزید باتیں تب عرض کر دوں گا۔
سوال نمبر4:
السلام علیکم حضرت جی! میں صبح ساڑھے سات بجے سکول جاتی ہوں، دن دو بجے واپس آ جاتی ہوں۔ ہمارے قریب ہی ایک خواتین کا مدرسہ ہے، اس میں داخلہ لینا چاہ رہی ہوں۔ رہنمائی فرما دیں کہ حفظ میں داخلہ لوں یا تجوید میں، یا کسی میں بھی داخلہ نہ لوں؟
جواب:
سبحان اللہ بہت اچھا ارادہ ہے۔ آپ دو بجے واپس آ جاتی ہیں، اگر مدرسہ کے اوقات شام کے ہیں تو اس میں آپ داخلہ لے سکتی ہیں۔ آپ ابتداءً تجوید میں داخلہ لے لیں کیوں کہ تجوید کے ذریعہ قرآن پاک کو پڑھنا حفظ کرنے سے زیادہ ضروری ہے۔ قرآن مجید حفظ کرنا مستحب ہے، جبکہ تجوید کے ساتھ قرآن مجید پڑھنا واجب ہے۔ خواتین کے لئے حفظ میں نسبتاً زیادہ مسائل ہوتے ہیں۔ لہٰذا خواتین کے لئے میں عموماً حفظِ قرآن recommend نہیں کرتا، زیادہ تر خواتین اس کی حفاظت نہیں کر سکتیں۔ ان کے مسائل کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے قرآن مجید یاد رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بہرحال اگر حفظ کرنا بھی ہو تو پہلے تجوید مکمل کر لیں۔ اس کے علاوہ حفظ کے بارے میں اپنے آپ کو جانچ بھی لیں کہ آپ یاد کر پائیں گی یا نہیں۔ پہلے بڑی سورتیں مثلاً سورۂ کہف، سورۂ یٰس، سورۂ واقعہ اور سورۂ تبارک الذی یاد کر لیں۔ اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ آپ کے حفظ کی استعداد کیسی ہے۔ اس سے استعداد کا بھی پتا چل جائے گا اور اگر ان سورتوں کے یاد کرنے کے بعد آپ مزید یاد نہ بھی کر سکیں تو کم از کم اس کا فائدہ ضرور ہو گا۔ کیونکہ یہ سورتیں عام زندگی میں پڑھنا بہت سے مسائل کے حل کا سبب بنتا ہے۔ بالخصوص ہر جمعہ کو سورۂ کہف پڑھنے سے انسان فتنوں سے محفوظ رہتا ہے۔ سورۂ یس شریف صبح کے وقت یا شام کو پڑھنے سے انسان کے سارے مسائل حل ہوتے رہتے ہیں۔ سورۂ تبارک الذی قبر کے عذاب سے بچانے کے لئے بہت اہم ہے۔ اور سورۂ واقعہ فاقوں سے حفاظت کا سبب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بچیوں کو باقاعدہ سورۂ واقعہ یاد کرواتے تھے۔ لہٰذا آپ ابتداءً تجوید میں داخلہ لیں۔ اگر بعد میں حفظ کرنا ہے تو سورتیں یاد کرکے دیکھ لیں کہ کیسی استعدادہے، پھر اس کے مطابق ارادہ کر لیں۔
سوال نمبر5:
حضرت صاحب! میں پہلے مراقبہ کرتی تھی۔ اب مراقبہ میں کچھ کمزوری آ گئی ہے۔ وہ کمزوری یہ ہے کہ مراقبہ کرتے ہوئے بار بار وقت دیکھتی ہوں کہ ختم ہوا ہے یا نہیں ہوا۔
جواب:
مراقبہ خواتین کے لئے خصوصی طور پر اور مردوں کے لئے بھی اصلاح کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے، لہٰذا اس میں اہتمام بہت ضروری ہے۔ وقت کا پتا نہ چلنے کی وجہ سے اگر وقت کو بار بار دیکھنے کا مسئلہ پیش آتا تو اس کا علاج یہ ہے کہ جتنی دیر کا مراقبہ ہے اتنی دیر کا reminder لگا لیں۔ جب الارم بجے گا تو خود بخود پتا چل جائے گا کہ وقت ختم ہوگیا ہے۔ اتنی دیر تک آپ اطمینان کے ساتھ بے فکر ہو کے اپنا مراقبہ کرتی رہیں۔ آپ مراقبہ اس طریقہ سے کریں کہ تصور کر لیں کہ میرے دل میں ایک زبان بن گئی ہے، وہ اللہ اللہ کر رہی ہے اور میں اس کو سن رہی ہوں۔ اس طریقہ سے آپ کو کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوگا، بلکہ آپ کا کام صرف سننا ہوگا، اگر کچھ محسوس ہو رہا ہے تو بھی ٹھیک، نہیں ہورہا تو بھی ٹھیک۔ اگر نہیں ہو رہا تو اس کو نہ دیکھیں کہ محسوس نہیں ہو رہا۔ کیونکہ نہ ہوتے ہوتے ایک دن ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا طریقہ ہی یہ ہے کہ یہ ابتداءً محسوس نہیں ہوتا۔ ممکن ہے کسی کا انتظار سالوں پہ محیط ہو جائے۔ بعض لوگوں کو کئی سال لگ جاتے ہیں، لیکن اگر وہ مستقل مزاجی سے لگیں رہیں تو ایک دن محسوس ہوجاتا ہے۔ بعض لوگوں کو جلدی بھی ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جس طرح اللہ نے استطاعت دی ہے اس کے مطابق کام کریں اور اس کے لئے مجاہدہ کریں۔ اپنے آپ کو پابند کریں، مستقل مزاجی سے کرتی رہیں تاکہ آپ آگے چل سکیں۔
سوال نمبر6:
کسی جگہ پہ مولانا مودودی صاحب کی تفسیر پڑھائی جا رہی تھی۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں لہٰذا ہم سیاسی باتیں نہیں کرتے۔ سیاسی بات سے قطع نظر کر کے صرف میرٹ کی بنیاد پر کسی اور تفسیر کا رد کیے بغیر عرض کروں گا کہ کس تفسیر کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ موجودہ تفاسیر میں بہت ساری تفاسیر بہترین بھی ہیں، کچھ درمیانے درجہ کی بھی ہیں اور کچھ دنیا دار لوگوں نے اپنے دنیاوی مقاصد کے لئے بھی لکھی ہیں۔ جتنی تفاسیر میری نظر سے گزری ہیں ان میں دو تفسیریں میں recommend کرتا ہوں۔ ایک تفسیر معارف القرآن اور ایک تفسیر عثمانی۔ اگر کسی کے پاس وقت نہیں ہے اور مختصر تفسیر پڑھنا چاہتے ہیں تو تفسیر عثمانی پڑھیں۔ کیوں کہ یہ مختصر تفسیر ہے، اس میں تحت اللفظ ترجمہ ہے۔ اس میں انہوں نے راجح ترین تفسیر دی ہوتی ہے، مرجوح کو لیتے ہی نہیں۔ نتیجتاً انسان کا وقت بچ جاتا ہے اور مستند ترین بات سامنے آ جاتی ہے۔ دوسری تفسیر معارف القرآن ہے۔ اس میں دو تفسیریں اور دو ترجمے ہیں۔ تفصیلی مباحث بھی ہیں۔ اس وجہ سے یہ تفسیر عوام و خواص دونوں کے لئے مفید ہے۔ دو ترجمے اس طرح ہیں کہ ایک لفظی ترجمہ ہے، ہر لفظ کا الگ سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک با محاورہ ترجمہ ہے۔ با محاورہ ترجمہ کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ قوسین کے بغیر خط کشیدہ الفاظ آیت کا ترجمہ ہوتے ہیں اور اگر قوسین میں لکھے الفاظ ملا لیں تو وہ مختصر تفسیر بن جاتی ہے۔ اس میں معارف و مسائل کے عنوان سے معرکۃ الآراء مباحث ہوتے ہیں، ایسے موضوعات جن کی تفصیل ضروری ہے انہیں اس عنوان کے تحت الگ سے لکھا گیا ہے۔ اس وجہ سے اگر کوئی صاحب کوئی article لکھنا چاہتا ہے یا مزید تفصیل جاننا چاہتا ہے اس کے لئے یہ مفصل تفسیر زیادہ مفید رہتی ہے۔ اور اگر کوئی تھوڑی دیر میں پڑھنا چاہے تو اس کے لئے با محاورہ ترجمہ اور تفسیر پڑھنے سے کام پورا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن کے مصنف مفتی بھی ہیں، اس لئے ان کی تفسیر میں جو مسائل لکھے ہوئے ہیں ان کا درجہ فتویٰ کا ہے تو ان مسائل کے لئے الگ سے فتویٰ لینے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔
سوال نمبر7:
حضرت صاحب۔ کیا مودودی صاحب کی تفسیر سیاسی بنیادوں پہ لکھی گئی ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
میں اگر جواب دینا چاہتا تو اسی وقت جواب دے دیتا۔ اس کا جواب میں انٹرنیٹ پر نہیں دوں گا، ویسے آف لائن بتا دوں گا۔
سوال نمبر8:
حضرت شاہ صاحب السلام علیکم! مہربانی فرما کر میرے ان سوالات و اشکالات کا جواب دے کر تسلی فرمائیں۔
خواتین کا دین کے لئے اپنے گھر سے باہر جانا کیسا ہے۔ اس پر ثواب کی امید کی جا سکتی ہے؟
اگر پردہ کا مکمل انتظام ہو تو ہم تراویح کے لئے مسجد جا سکتی ہیں؟
آپ فرماتے ہیں کہ جو حضرات پنڈی اسلام آباد میں مقیم ہیں اور آپ کی مجلس انٹرنیٹ پر سنتے ہیں تو انہیں فائدہ زیادہ نہیں ہوتا انہیں خانقاہ میں آنا چاہیے۔ کیا یہ بات خواتین کے لئے بھی ہے؟ بالخصوص اتوار کی خواتین کی مجلس کے حوالہ سے اس سوال کا جواب دیجیے۔
حضرت! میرے بچے میری بات نہیں سنتے، مہربانی فرما کر کوئی دعا تجویز کر دیں اور بچوں کی پرورش میں ماں باپ کے کردار پر کسی مجلس میں بیان کر دیں۔ آپ سے فون پر رابطہ کرتے ہوئے حیا آتی ہے جس کی وجہ سے ابھی تک ابتدائی ذکر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اگر آپ کا کلام کتابی شکل میں چھپ گیا ہے تو اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
جواب:
دیکھیں شیطان کیسے چکر چلاتا ہے۔ shopping کے لئے جاتے ہوئے کبھی کسی نے سوچا ہے کہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے یا نہیں دیتی؟ کبھی نہیں سوچتے۔ کوئی مرگ ہو جائے تو اس کے لئے جانے میں کبھی بھی کوئی خاتون نہیں سوچتی کہ اس کے لئے جانا چاہیے یا نہیں جانا چاہیے، یہاں تک کہ جن جگہوں پہ جانے کی کھلی ممانعت ہے وہاں پر کوئی نہیں پوچھتا۔ پوچھتا ہے تو وہیں پوچھتا ہے جہاں کوئی فائدہ ہونے والا ہو۔ کیوں کہ شیطان پیچھے ہے۔ میں آپ کو کئی مثالیں دے سکتا ہوں کہ آپ ﷺ نے خواتین کو جمع کرکے باقاعدہ بیان فرمایا۔ تب وہ اپنے گھروں سے نکل کر ہی بیان میں آئی ہوں گی۔ اس کے علاوہ خواتین با قاعدہ مسئلے پوچھنے کے لئے آپ ﷺ کے پاس آتی تھیں۔ پھر خواتین باقاعدہ بیعت ہونے کے لئے آپ ﷺ کے پاس آئی ہیں۔ ظاہر ہے گھروں سے نکلی ہیں تب ہی آئی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین سے صحابہ کرام نے سیکھا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے باقاعدہ مرد صحابہ مسئلے پوچھتے تھے، وہ مسئلے جو صرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہی معلوم تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانبین کا طریقہ موجود ہے۔ لہٰذا آج بھی اگر اُس مقصد کے لئے حیا کے طریقہ سے پردہ کر کے کوئی خاتون گھر سے نکلتی ہے تو اس پر ثواب ہوگا اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ سنت کے مطابق ہے، ہاں حیا اور پردہ ضروری ہے۔ اب راستے کے تو ہم ذمہ دار نہیں ہیں کیونکہ اس پر ہمارا کنٹرول نہیں ہے لیکن یہاں آ کر الحمد للہ حیا کے ساتھ رہتی ہیں۔ یہاں خواتین کے لئے باقاعدہ basement موجود ہے۔ ان کے ساتھ ہمارا براہ راست کوئی رابطہ نہیں ہوتا صرف ٹیلی فون اور مائیک کے ذریعہ رابطہ ہوتا ہے۔ اگر خواتین پردے اور حیا کا خیال رکھتے ہوئے آتی ہیں تو ماشاء اللہ ان کو فائدہ ہو گا۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
تراویح کے لئےخواتین کا نکلنا۔ اس میں علماء کرام کی مختلف آراء ہیں۔ کیونکہ عورتوں کے اوپر جماعت لازم نہیں ہے۔ وہ اپنے گھروں میں اپنی اپنی نماز پڑھ لیا کریں کیونکہ آپ ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ عورت کے لئے اپنے گھر کی نماز میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمل کروا لیا۔ آپ ﷺ نے base بتائی اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باقاعدہ اس پہ عمل کر کے پابندی لگائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس خواتین گئیں اور کہاکہ آپ ﷺ نے نہیں روکا، ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہیں روکا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیوں روکا؟ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ جیسے حالات آج کل ہیں، اگر یہ حالات آپ ﷺ کے وقت میں ہوتے یا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہوتے تو وہ بھی پابندی لگا دیتے۔
اس لحاظ سے نہ نکلنا بہتر ہے کیونکہ یہ مقصد گھر میں حاصل ہو رہا ہے۔ جب کہ بیان والا مقصد گھر میں حاصل ہی نہیں ہو رہا۔ اس کے لئے ماحول چاہیے اور گھر میں ماحول نہیں ہوتا۔ گھر میں بے شک آپ انٹرنیٹ پہ بیان سن لیں لیکن وہاں ماحول نہیں ملتا۔ ہاں جو آ نہیں سکتے جیسے وہ لوگ جو لاہور میں ہیں، کراچی میں ہیں، امریکہ میں ہیں، برطانیہ میں ہیں یا آسٹریلیا میں ہیں ان کے لئے چونکہ معذوری ہے اور معذوری میں اللہ تعالیٰ پورا پورا اجر دے دیتے ہیں۔ اگر ان کو فائدہ ہو رہا ہے اور پنڈی اسلام آباد والوں کو فائدہ نہیں ہو رہا ہے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اُن کی معذوری ہے اور اِن کی معذوری نہیں ہے۔ اس کا موازنہ آپ خود کر سکتی ہیں۔ آپ خانقاہ میں آ کر بیان سنیں پھر اپنے گھر میں انٹرنیٹ پر سنیں، پھر دیکھیں آپ کو زیادہ فائدہ کس چیز میں محسوس کر رہی ہیں۔
بچوں کی تربیت کے اوپر میں بیان کرتا رہتا ہوں۔ کسی اور وقت بھی کر لوں گا ان شاء اللہ۔
ہمارا کلام کتابی شکل میں موجود ہے۔ ایک کتاب ”شاہراہ محبت“چھپ چکی ہے۔ خانقاہ سے اس کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ”پیغام محبت“ ان شاء اللہ دو تین ہفتے میں چھپ جائے گی۔
سوال نمبر9:
السلام علیکم۔ حضرت میں نے آپ کو اپنی کزن کی طلاق کے مسئلے کے بارے میں بتایا تھا۔ آپ نے مجھے فرمایا تھا کہ میں اسے کہوں کہ وہ خود ای میل کرے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس کے Husband کو اس نے یہ بات نہیں بتائی کہ اس نے مجھے اپنے گناہ اور طلاق والے جملے کے بارے میں بتایا ہے۔ وہ دبئی میں ہے اور اس کا Husband کسی اور جگہ ہے۔ وہ اس کو کسی سے بات نہیں کرنے دیتا۔ ایسے لگتا ہے صرف اپنے موبائل پر بات کرواتا ہے۔ وہ بھی یہاں سے اس کی امی کافی دنوں بعد فون کرتی ہے۔ مجھ سے ایک دفعہ بھی بات نہیں ہوئی۔ اب میں اس کو یہ بات کیسے بتاؤں کہ آپ کو وہ اپنے مسئلہ کے بارے میں ای میل کرے۔ آپ سے گزارش ہے کہ آپ مجھے بتائیں کہ میں اس صورت میں کیا کروں؟
جواب:
میں پوچھتا ہوں اس صورت میں میں آپ کو کیا جواب دوں!آپ نے سارے رستے روک دیئے۔ جب تک مجھے clear مسئلہ معلوم نہیں ہو گا میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ مسئلہ آپ جس طریقہ سے معلوم کرنا چاہیں کر لیں اور وہ clearly مجھے لکھ کے بھیجیں، میں جواب دوں گا۔ یہ نازک مسئلے ہیں اس میں بلا وجہ گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ جب تک مجھے واضح مسئلہ معلوم نہیں ہوگا میں اس پہ کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ کسی بھی طرح واضح مسئلہ معلوم کرکے مجھے ای میل کر دیں اگر مجھے معلوم ہوگا تو بتا دوں گا ورنہ مفتی صاحب سے ڈسکس کرکے جواب دے دوں گا۔ پہیلیاں بجھوانا نہ میرا کام ہے نہ آپ کا ہونا چاہیے۔ ان مسائل میں clarity اور شفافیت بہت ضروری ہے، جس کا موقع شاید آپ کے پاس نہیں ہے۔ آپ معذور ہیں تو پھر میں آپ سے زیادہ معذور ہوں۔
سوال نمبر10:
حضرت صاحب! انسان کو کیسے پتا چلتا ہے کہ مجھ میں اخلاص ہے یا نہیں ہے۔ کیا یہ کوئی ایسی چیز ہے جو achieve کی جاتی ہے یا اس کی Intensity سب لوگوں کے لئے different ہوتی ہے؟ ازراہِ کرم اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
میں آپ کو اخلاص کے بارے میں نہیں بتاؤں گا، ریا کے بارے میں بتا دوں گا۔ اس لئے کہ ریا کا نہ ہونا اخلاص ہے۔ ریا اختیاری چیز ہے، غیر اختیاری نہیں ہے۔ مثلاً ایک آدمی کوئی کام اللہ کے لئے بھی کر رہا ہے اور لوگوں کے لئے بھی کر رہا ہے کہ لوگ مجھ سے خوش ہو جائیں تو اس کا یہ کام اللہ کے لئے خاص نہیں ہے لہٰذا اس میں ریا ہے، اگرچہ یہ اللہ کے لئے بھی ہے لیکن اللہ کے لئے خاص نہیں ہے۔ اللہ پاک نے چونکہ فرمایا ہے کہ میں سارے شریکوں سے بے نیاز ہوں۔ اگر آدمی کوئی کام میرے لئے بھی کرے اور دوسرے کے لئے بھی کر لے تو میں اپنا حصہ بھی اس کے لئے چھوڑ دیتا ہوں، لہٰذا وہ سارا دوسروں کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ پس اگر کوئی اختیاری طور پر ایسا کرتا ہے مثلاً نماز پڑھتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ لوگ مجھے دیکھیں کہ میں نمازی ہوں، ظاہر ہے وہ ریا ہی ہے۔ ہاں اگر خود بخود وسوسہ آ جائے تو ریا کا وسوسہ ریا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ارادہ کر لے تو پھر ریا بن جاتی ہے۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک واقعہ ہے، جھوٹا ہے یا سچا یہ نہیں معلوم۔ ایک آدمی اپنے بچہ کے ساتھ کسی دعوت میں چلا گیا۔ وہاں لمبی نماز پڑھی اور کھانا تھوڑا کھایا۔ جب گھر پہنچے تو گھر والوں سے کہا کہ مجھے کھانا دیں۔ بچہ نے کہا: آپ نے وہاں کھانا کھایا تو تھا۔ اس نے جواب دیا کہ وہاں کم کھانا کھایا تھا کیونکہ میں لوگوں کے سامنے زیادہ کھانا نہیں کھانا چاہتاتھا۔ بچہ نے کہا تو پھر آپ نماز بھی دوبارہ پڑھ لیں، وہ بھی آپ نے لوگوں کو دکھانے کے لئے لمبی پڑھی ہوگی۔
بعض لوگ صرف لوگوں کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض لوگ خلط ملط معاملہ رکھتے ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تین قسم کے لوگ سب سے پہلے جہنم میں جائیں گے۔ ایک عالم جو ریا کار ہو گا۔ ایک سخی جو ریا کار ہو گا اور ایک شہید جو ریا کار ہو گا۔ حالانکہ تینوں بڑے اعلیٰ درجہ کے مقامات ہیں، لیکن ریا کی وجہ سے سب سے پہلے یہ لوگ جہنم میں جائیں گے کیونکہ انہوں نے یہ کام اللہ کے لئے نہیں کیا ہو گا۔ لہٰذا اختیاری طور پر عمل اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ اختیاری طور پر اللہ کے لئے ہی کر رہے ہیں اور آپ کے دل میں وسوسہ آ گیا تو وسوسہ معاف ہے، اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے، لہٰذا اس کی پرواہ نہ کریں۔ ہاں اگر وسوسہ آ یا اور آپ بھی وسوسہ کے ساتھ چل پڑیں تو پھر معاملہ مختلف ہے۔ اختیاری طور پر اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھیں تو یہ اخلاص ہے۔
سوال نمبر11:
حدیث شریف کے مطابق اعمال کا دارومدار نیت پہ ہے۔ ابھی آپ نے عرض کیا کہ بندہ اگر نماز پڑھ رہا ہے لیکن وہ لوگوں کا خیال بھی لے آتا ہے تو اسے اس کا گناہ مل رہا ہے، ثواب نہیں مل رہا۔ اسی طرح اگر ایک انسان سے جہالت اور علم کی کمی کی وجہ سے شرک ہو جائے یا کفر ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اس کا علاج توبہ ہے۔ چاہے ایسا کام قصداً کیا ہو، چاہے غلطی سے کیا ہو، جان بوجھ کر کیا ہو یا بے علمی اور جہالت سے کیا ہو، ہر صورت میں اس کا علاج توبہ ہے۔ انسان کو توبہ کرتے رہنا چاہیے۔ تاکہ اگر بے خبری میں کوئی گناہ ہوا ہو تو وہ معاف ہو جائے اور علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ جہالت کی وجہ سے ہونے والے نقصان سے بچا جا سکے۔
سوال نمبر12:
حضرت صاحب! کسی کام کو کرنے کی ہر آدمی کی الگ استعداد ہوتی ہے۔ وہ اسی کے مطابق اس کام کو کر سکے گا اور اس سے اتنا ہی پوچھا جائے گا۔ اس حساب سے نفس پر پابندی لگانا بھی ہر بندے کی اپنی استعداد کے مطابق ہوگا۔ نفس پر پابندی لگانے کی کیا حدود ہیں کتنی پابندی لگانی چاہیے۔ مثلاً میرا نفس کہتا ہے کہ میں نرم بستر پر، فوم کے بیڈ پر سویا کروں، تو کیا میرا جھونپڑے میں یا زمین پر سو کر نفس پہ پابندی لگانا ٹھیک ہوگا۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
جو نفس آپ سے گناہ کروائے اور آپ کو خیر کے کام سے روک دے، اس کی مخالفت لازم ہے۔ جو نفس آپ سے صرف راحت طلب کرے، جس میں کوئی گناہ نہ ہو اس کی مخالفت کرنا ضروری نہیں ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو نرم نرم بستروں پر ذکر کرتے ہوں ان کو اس سے نہ روکو، کیونکہ اس کے ذریعہ سے اللہ پاک ان کو درجہ دیتے ہیں۔ اللہ پاک شکر سے بھی راضی ہوتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور درجات عطا فرماتے ہیں اور صبر سے بھی اللہ پاک راضی ہوتے ہیں، خوش ہوتے ہیں اور درجات عطا فرماتے ہیں۔ اگر کوئی تکلیف میں صبر کر رہا ہے، جس سے اس کو اجر مل رہا ہے اسی طرح اگر کوئی آدمی راحت میں ہے، اسے اللہ تعالیٰ نے نعمت دی ہے اور جائز طریقہ سے دی ہے، اس میں کوئی اشراف نفس نہیں ہے، کوئی حرام شامل نہیں ہے، کوئی سوال نہیں ہے اور وہ اس پہ شکر کر رہاہے تو اللہ تعالیٰ اس پر بھی اس کو اجر دیتے ہیں۔ نفس کی مخالفت صرف اور صرف شریعت پر عمل کرنے کے لئے کی جاتی ہے۔ جہاں نفس شریعت پر عمل کرنے میں رکاوٹ ڈال رہا ہو وہاں نفس کی پکی مخالفت کرنی چاہیے۔ چونکہ اس کا پتا نہیں ہوتا کہ کب میرا راستہ روکے گا، عین وقت پہ پتا چلتا ہے، اس لئے پہلے سے اس کو train کرنا چاہیے۔ مشقتوں کو برداشت کرنے کا عادی بنانا چاہیے۔ بزرگوں کے پاس لوگ اسی چیز کی تربیت کروانے کے لئے آتے ہیں۔
سوال نمبر13:
آپ جو مراقبہ کا طریقہ بتاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان مراقبہ کرتے ہوئے تھک جاتا ہے۔ ٹھیک سے توجہ نہیں رہتی، جیسے بغیر توجہ کے کوئی ورد کیا جاتا ہے، اس طرح کا معاملہ ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ تو نہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔
جواب:
اس میں کئی مراحل ہیں۔ آغاز میں ہی مکمل توجہ حاصل نہیں ہو جاتی۔ اس میں آہستہ آہستہ انسان ترقی کر رہا ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے میں کچھ بھی نہیں ہوتا، دوسرے مرحلے میں دماغ یکسو ہونے لگتا ہے۔ تیسرے مرحلے میں دل ساتھ دینے لگتا ہے۔ چوتھے مرحلے میں روح میں محسوس ہو رہا ہوتا ہے۔ اس طرح بڑھتا رہتا ہے اور ترقی ہوتی رہتی ہے۔ ؏
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اس کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مستقل مزاجی سے شیخ کی ہدایت کے مطابق عمل کرتے رہیں، ان شاء اللہ ایک دن مکمل یکسوئی حاصل ہو جائے گی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن