اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ اَمَّا بَعْدُ
بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت! میرے روحانی حالات چوبیس گھنٹوں میں ایک سے زیادہ مرتبہ بدلتے ہیں، کبھی بہت اچھے اور کبھی بہت برے ہو جاتے ہیں۔ اس بنا پر کبھی کبھی دل میں خیال آتا ہے کہ میرا تزکیہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا کوئی حل بتا دیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
جسمانی طور پر بعض بیماریاں تقریباً تقریباً لا علاج ہوتی ہیں، ایسے مریضوں کو ڈاکٹر بھی جواب دے دیتے ہیں کہ آپ کا علاج نہیں ہو سکتا۔ اس کے باوجود وہ لوگ تھک ہار کر بیٹھ نہیں جاتے، بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ڈاکٹر سے علاج نہ ہو سکے تو دوسرے ڈاکٹر سے کروائیں، دوسرے ڈاکٹر سے نہ ہو سکے تو تیسرے ڈاکٹر سے کروا لیں۔ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں، ان کے دل میں امید ہوتی ہے کہ ممکن ہے وہ کسی کے ذریعہ شفا یاب ہو جائیں۔ کچھ بیماریوں جیسے ٹی بی یا ہیپاٹائٹس کا علاج کافی مشکل، طویل اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن لوگ ساری تکلیفیں برداشت کر کے علاج کرتے ہیں۔ دنیا کے معاملے میں جسمانی بیماریوں کے بارے میں لوگ مایوس نہیں ہوتے بلکہ ہمت اور کوشش کرتے ہیں، پیسے بھی دیتے ہیں، وقت بھی خرچ کرتے ہیں، تکلیف بھی اٹھاتے ہیں، بعض دفعہ آپریشن کرنا پڑے تو آپریشن بھی کرواتے ہیں۔ جب جسمانی علاج کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ ساری زندگی دوائیوں پہ گزارنا منظور کر لیتے ہیں تو پھر روحانی علاج کے بارے میں اتنا جلدی کیوں تھک جائیں اور ایسا کیوں سوچیں کہ ہمارا علاج نہیں ہو سکتا؟ یہاں تو مایوسی کی بات ہے ہی نہیں، یہاں تو یہ معاملہ ہے کہ جو لوگ کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد ضرور بالضرور فرماتے ہیں، اللہ پاک نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَاؕ﴾ (العنكبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
جب اللہ پاک کی طرف سے پختہ وعدہ ہے کہ جو کوشش کرے گا، اللہ کی طرف سے ضرور بالضرور اس کی مدد ہوگی، تو اس کی طرف سے اب کوئی کمی نہیں، کمی ہماری کوشش میں ہے لہٰذا ہمیں اس کمی کو دور کرنا چاہیے۔
اکثر لوگوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوشش مکمل نہیں کرتے۔ مثلاً اگر کسی کو بتا دیا جائے کہ آپ تہجد پڑھیں تو وہ کہتے ہیں یہ تو میرے لئے بڑا مشکل ہے۔ اگر کسی کو کہہ دیا جائے کہ آپ روزے رکھیں تو وہ بھی ان کے لئے مشکل ہوتا ہے۔ پھر کہتے ہیں پتا نہیں میرا علاج ہو گا یا نہیں ہو گا؟ علاج تو ہوتا ہے لیکن لوگ اس کے لئے کوشش کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے ہم مجبوراً اتنا ہی بتاتے ہیں جتنا وہ کر سکتے ہوں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ علاج ہوتا نہیں، علاج ضرور ہوتا ہے۔ بعض بالکل مایوس لوگوں کو جب ہم یہ کہتے ہیں کہ خانقاہ آ جاؤ، یہاں ہمارے ساتھ ایک مہینہ گزارو، آخر جسمانی بیماریوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں بھی تو لوگ داخل ہوتے ہیں، آپ خانقاہ کو روحانی بیماریوں کا ہسپتال سمجھیں اور کچھ وقت کے لئے یہاں آ جائیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تو چھٹی نہیں ملتی۔ ایسے لوگوں سے پوچھا جائے کہ جب ہسپتال میں جانا ہوتا ہے پھر کیسے چھٹی ملتی ہے؟ جو کام انسان کو ہر صورت کرنا ہی ہو اس کے لئے چھٹی کرنی پڑ تی ہے۔
معلوم ہوا کہ علاج ہوتا ہے لیکن لوگ علاج کرنا نہیں چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ بس کوئی مجھ پر دم کر دے، میری طرف دیکھے اور میں ٹھیک ہو جاؤں۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ایسا نہیں ہے۔ اس کے لئے محنت شرط ہے۔ ہاں دنیا کے مقابلہ میں اس پہ کم محنت لگتی ہے۔ آپ موازنہ کر لیں۔ دنیا کی 20، 30 سال کی مختصر زندگی کے لئے ہمیں جاب چاہیے ہوتی ہے۔ اس کے لئے تقریباً 16 سال انسان محنت کرتا ہے۔ پھر بھی کسی کو ملتا ہے کسی کو نہیں ملتا۔ کیا کوئی میٹرک کا سٹوڈنٹ ایسا کہتا ہے کہ جاب ملنا کنفرم بات تو نہیں ہے، اس لئے میٹرک نہیں کرتے۔ ایسا کوئی نہیں کہتا بلکہ کہتے ہیں کہ ہمت کرو۔ وہاں پر ہمت کا درس دیا جاتا ہے اور یہاں چند سال کی محنت کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ یہ سارے شیطان کے وساوس ہیں۔ ان وسوسوں کی طرف نہیں دیکھنا چاہیے۔ انسان کو دیکھنا چاہیے کہ میرے اندر اللہ نے کتنی صلاحیت رکھی ہے۔ میں نے ان صلاحیتوں کو استعمال کیا یا نہیں کیا؟ پہلے ان صلاحیتوں کو استعمال کریں پھر اللہ پاک سے مانگیں اور اللہ جل شانہ کے فضل پر امید رکھیں تو ان شاء اللہ، اللہ پاک رستہ بنا دیں گے۔ کیوں کہ اللہ پاک کا وعدہ ہےکہ کوشش کرنے والوں کے لئے ضرور راستہ مہیا کرتے ہیں۔
سوال نمبر2:
حضرت نماز میں بہت زیادہ خیالات آتے ہیں۔ توجہ قائم نہیں رہتی۔ کل سے ذکر شروع کیا ہے تو پہلے سے بھی زیادہ خیالات آ رہے ہیں۔ عام حالت میں کم آتے ہیں، نماز اور ذکر میں بہت زیادہ آتے ہیں۔
جواب:
ایک ہے ہماری کوشش اور ایک ہے شیطان کی کوشش۔ یہ دونوں کوششیں چل رہی ہیں۔ آپ نے ذکر شروع کیا یہ آپ کی طرف سے کوشش ہے۔ اس کے بعد آپ کو خیالات زیادہ آنے لگے، یہ شیطان کی کوشش ہے۔ ذکر شروع کرنے کے بعد اس نے زیادہ کوشش اس لئے کی کہ اس کو خطرہ ہو گیا کہ اب یہ میرے ہاتھ سے نکل جائے گا، لہٰذا اس نے اپنی کوشش بڑھا دی۔
کہتے ہیں ایک مسلمان بعد میں قادیانی ہو گیا تھا۔ اس کی ایک مولوی صاحب کے ساتھ ملاقات ہو گئی، جو پہلے سے اس کو جانتے تھے۔ وہ قادیانی اس مولوی صاحب سے کہنے لگا کہ جب میں آپ لوگوں کے مذہب پہ تھا اس وقت مجھے نماز میں بہت زیادہ وسوسے آتے تھے، جب سے میں احمدی ہو گیا ہوں، مجھے بالکل وسوسے نہیں آتے۔ وہ سمجھ رہا تھا شاید وساوس کا نہ آنا حق مذہب ہونے کی علامت ہے۔ مولوی صاحب نے اسے کہا: یہی تو تمہارے مذہب کے باطل ہونے کی علامت ہے۔ اس نے کہا: وہ کیسے؟ مولوی صاحب نے کہا: مجھے بتاؤ چور کہاں جائے گا؟ جہاں کچھ مال ہو گا وہاں جائے گا یا جہاں صرف گوبر ہی گوبر ہو گا، ادھر جائے گا؟
اس نے کہا: جہاں مال ہو گا وہیں جائے گا۔
انہوں نے کہا: تمہارے پاس جو اصل مال یعنی ایمان کی دولت تھی، وہ تو شیطان نے تم سے لوٹ لی ہے، اب تمہارے پاس رہ کیا گیا ہے؟ اب وہ بھلا کس لئے آئے گا؟ اب اس نے نہیں آنا، جب تک تم اس دین پر ہو شیطان تمہاری طرف سے بے فکر ہے کہ یہ تو پہلے جہنمی ہے لہٰذا اس نے تمہیں کوئی وسوسہ نہیں ڈالنا۔ ہاں! اگر تم واپس مسلمان ہو جاؤ تو اس کو دوبارہ تمہاری فکر ہو گی اور وہ پھر وسوسہ ڈالے گا۔
اسی مثال سے سمجھ لیں کہ آپ نے جب سے ذکر شروع کیا ہے شیطان کو فکر ہو گئی ہے، لہٰذا وہ آپ کے دل میں وسوسے ڈال رہا ہے۔ ان وساوس کی وجہ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا مقابلہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو وسوسے از خود آتے ہیں ان کی پروا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی راستہ پہ جا رہا ہو، کسی جگہ کتا بندھا ہوا ہو اور وہ اس مسافر کو دیکھ کر زور دار آواز سے بھونکنے لگے تو مسافر اس کی فکر نہیں کرتا، وہ کہتا ہے کہ یہ تو بندھا ہوا ہے، اس وقت اس کے پاس بھونکنے کے علاوہ اور کچھ ہے ہی نہیں۔ وہ راہ گیر یہ سوچ کر خاموشی سے گزر جائے گا۔ اسی طرح ہمیں بھی وسوسوں کی کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے۔ بس یہی سمجھیں کہ کوئی کتابھونک رہا ہے، جس کے ذمہ دار ہم نہیں ہیں۔ ہم اپنے کام کے ذمہ دار ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں" وسوسے لانے سے تو پرہیز کرنا چاہیے لیکن وسوسے آنے کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔ اس کی طرف دھیان ہی نہیں کرنا چاہیے۔ بس دھیان اپنی نماز کی طرف کرنا چاہیے۔ بس ایک شور سا ہو گا جس کی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
سوال نمبر3:
حضرت والا! بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اس کی عقل پر پردہ آ جاتا ہے۔ اسے بخوبی پتا ہوتا ہے کہ یہ نفسانی خواہش ہے، اس کے باوجود وہ اس کام کے لئے تاویلیں گھڑ لیتا ہے اور اللہ کے حکم کو چھوڑ دیتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ حلال مال ہے، لیکن اس کے بارے میں مختلف شبہے آ رہے ہوتے ہیں، یہ بات کنفرم نہیں ہوتی کہ یہ حلال ہے یا حرام۔ ان مسائل کو انسان کس طرح حل کر سکتا ہے؟
جواب:
چار چیزیں ہیں۔ ایمان، عقل، نفس اور دل۔
ایمان ہمیں ان باتوں کی خبر دیتا ہے جن کو ہم لوگ اپنی عقل سے نہیں جان سکتے۔ یہ باتیں ہمیں پیغمبر کی طرف سے بتائی جاتی ہیں اور ہم ان پر ایمان لاتے ہیں۔
عقل ایک صلاحیت ہے جس کے ذریعہ سے انسان معلومات کو جمع کر کے ان کا تجزیہ و اندازہ کر سکتا ہے اور نتیجہ نکالتا ہے۔
نفس کے اندر خواہشات رکھی گئی ہیں۔ ان خواہشات کی مختلف اقسام ہیں۔ کچھ آنکھوں سے متعلق ہیں کچھ کانوں سے متعلق، کچھ زبان سے متعلق، کچھ دل سے متعلق، کچھ دماغ سے متعلق، کچھ ہاتھ پاؤں اور جسم کے باقی اعضاء سے متعلق ہیں۔ جب انسان کو کوئی نفسانی خواہش ہوتی ہے اور اس نے ایمان کے زور سے اپنے نفس کی تربیت نہیں کی ہوتی تو وہ نفس کے کہے پر چل پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کی عقل نفس آلود ہو جاتی ہے اور اب وہ نفس کے لئے استعمال ہونے لگتی ہے۔
مثلاً ایک چور چوری کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنی عقل کو چوری کے لئے استعمال کرے گا کہ میں کیسے بہترین طریقہ سے چوری کروں جس میں کوئی سراغ نہ رہ جائے۔ اس کی عقل چوری کے لئے استعمال ہو گی۔ کوئی فراڈیا ہے تو اس کی عقل فراڈ کے لئے استعمال ہو گی۔ نوسرباز ہے تو اس کی عقل نوسربازی کے لئے استعمال ہو جائے گی۔ corrupt ہے تو corruption کے لئے استعمال ہو جائے گی۔ کیوں کہ اب اس کی عقل کو نفس نے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جب تک تربیت نہیں ہو گی اس کی عقل اس کے نفس کی غلام بنی رہے گی اور اگر تربیت ہو جائے تو پھر یہی عقل اللہ پاک کے احکامات کو سمجھنے کے لئے اور نفس کو کنٹرول کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے، اُس وقت ایمان عقل پہ حاوی ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے اِس کو عقلِ ایمانی کہتے ہیں، پہلی قسم کو عقلِ نفسانی کہتے ہیں۔
عقلِ ایمانی عقل کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم کو معلوم کرتی ہے اور انسان کو بتاتی ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، آپ ﷺ آخری نبی ہیں، لہٰذا اگر مجھے کوئی حکم معلوم کرنا ہے تو قرآن و سنت سے معلوم کرنا ہے۔ جب انسان کی عقل عقلِ ایمانی بن جائے تو یہ عقل قرآن کو سمجھنے کے لئے استعمال ہو گی، آپ ﷺ کی سنت و سیرت پر عمل کے لئے استعمال ہو گی۔
تمام مجتہدین اور فقہاء بہت اعلیٰ درجہ کے عقل مند تھے لیکن ان کی عقل دین کی خدمت کے لئے استعمال ہوئی۔ ہم ان کے برابر عقل مند تو نہیں ہیں لیکن ہم یہ کر سکتے ہیں کہ ان کے پیچھے چلیں اور ان کی پیروی کے لئے عقل استعمال کر لیں۔ ہم لوگ اس طریقہ سے ان حضرات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ یہاں بھی عقل استعمال ہو گی۔
تو یہ عقل کے دو رخ ہیں۔ ایک طرف ایمان ہے، دوسری طرف نفس ہے۔ اگر شیخ کی تربیت کے ذریعے عقل کا رخ ایمان کی طرف ہو گیا تو پھر اس کا استعمال ایمان کے لئے ہوگا اور اس کے ذریعے خیر تک پہنچنا آسان ہو جائے گا، اپنے نفس کو کنٹرول کرنا آسان ہو جائے گا۔ اب یہ آدمی اپنی عقل کو نفس کی غلامی کی بجائے نفسےکی شر سے بچنے کے لئے استعمال کرے گا۔
تو یہ آپ کے سوال کے پہلے حصہ کا جواب ہو گیا کہ ہماری نفسانی خواہشات سے عقل پہ پردہ نہیں پڑتا بلکہ عقل ان کے لئے استعمال ہو جاتی ہے، عقل نفس کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے۔ یہودی بہت عقل مند ہیں لیکن اس وقت ان کی عقل شیطانیت اور دجالیت کے لئے استعمال ہو رہی ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان پر دو سو سال حکومت کی، یہ ان کی عقل کا ہی کرشمہ تھا۔ بہر کیف! خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی عقل ایمان کے لئے استعمال کرنی چاہیے۔
بعض دفعہ مال کے حلال و حرام ہونے کے بارے میں شبہ گزرتا ہے۔ اس کی تین صورتیں ہیں۔
واضح طور پر حلال۔
واضح طور پر حرام
حلال اور حرام کے درمیان مشتبہ مال
حدیث شریف میں آتا ہے:
”اَلْحَلَالُ بَيِّنٌ، والْحَرَامُ بَيِّنٌ وَ بَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَات“ (سنن الترمذي: 1205)
ترجمہ: ”حلال واضح ہے حرام بھی واضح ہے، ان کے درمیان مشتبہات ہیں“۔
جس نے اپنے آپ کو مشتبہ امور سے بچا لیا، اس نے اپنے ایمان کو خالص کر دیا۔
اب اگر کسی کو توفیق ہوجائے تو وہ اپنے آپ کو مشتبہ امور سے بچاتا ہے تو وہ حرام سے لازماً بچ جائے گا۔ لوگوں کے مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ بعض مسلمان بیرونی ممالک میں جاتے ہیں تو سور کا گوشت نہیں کھاتے شراب پی لیتے ہیں، حالانکہ دونوں حرام ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی معاشرتی تربیت اس طرح ہوئی ہوتی ہےکہ ان کے ذہن میں شراب کی حرمت اتنی راسخ نہیں جتنی سور کی حرمت راسخ ہے۔
آج ہی یہ بات ہمارے گھر میں ہو رہی تھی کہ بعض لوگ واشنگ مشین میں دودھ کی بالائی نکالتے ہیں۔ ہمارے گھر والوں نے کہا کہ میں تو کبھی بھی یہ بالائی نہیں کھا سکوں گی، کیوں کہ واشنگ مشین کے ذریعے نکلی ہے۔ میں نے کہا ہو سکتا ہے وہ جس واشنگ مشین کو اس کام کے لئے استعمال کرتے ہوں وہ انہوں نے اسی کے لئے مختص کی ہو، اس میں کپڑے وغیرہ نہ دھوتے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو پھر بلائی صاف ہی ہو گی اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسری مشینیں بھی تو ہوتی ہیں، یہ بھی ان ہی کی طرح ایک مشین ہی ہے۔ لیکن چونکہ انہوں نے آج تک واشنگ مشین کپڑے وغیرہ دھونے کے لئے ہی استعمال کی ہے اس لئے انہیں اس سے کراہت آتی ہے کہ واشنگ مشین میں کوئی کھانے کی چیز بنائی جائے، انہیں لگتا ہے کہ وہ چیز گندی ہوگی، یہ نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اسی طرح بعض لوگوں کے لئے مال کے معاملے میں بچنا آسان ہوتا ہے لیکن کچھ دوسری نفسانی برائیوں سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔
تین چیزیں نفس کی بڑی بیماریاں ہیں۔
ایک حبِ جاہ، بڑا بننے کا شوق۔
دوسری حبِ باہ، لذتوں کا شوق۔
تیسری حبِ مال، مال کا شوق۔
یہ تینوں different ہیں۔ ضروری نہیں کہ جس کو حب جاہ ہو اس کو حب باہ بھی ہو۔ بعض کو حب جاہ بہت زیادہ ہوتی ہے، حب باہ اتنی نہیں ہوتی۔ مثلاً یہ ڈوموں (میراسیوں) میں حب مال زیادہ ہوتی ہے، بعض اوقات مال کے لئے عزت بھی خراب کر لیتے ہیں، یہ سب کچھ وہ پیسوں کے لئے کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں حب مال ہے، حب جاہ نہیں ہے۔ بعض لوگوں میں مال کی محبت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ان کی حب باہ ختم ہو جاتی ہے کہ اچھا کھانا نہیں کھا سکتے، اچھا پی نہیں سکتے اچھا گھر نہیں لے سکتے، کیونکہ ان میں مال خرچ ہوتا ہے۔
بعض لوگوں میں حب جاہ اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے لئے مال کو قربان کر دیتے ہیں، جو شادیوں میں فضول خرچیاں کرتے ہیں یہ حب جاہ کے ہی مریض ہوتے ہیں، بلکہ ایسے لوگ جاہ کے لئے بعض دفعہ اپنی خواہشیں بھی قربان کردیتے ہیں۔
بعض لوگوں میں حب باہ کا عنصر اتنا powerful ہوتا ہے کہ وہ اپنی لذتوں کے لئے پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہیں اور اس کی خاطر اپنی عزت بھی قربان کر لیتے ہیں، جیسے کچھ لوگ ایسے پیٹو ہوتے ہیں کہ کھانے کے اوپر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں، انہیں نہ مال کی پروا ہوتی ہے نہ عزت کی، بس ان کی جسمانی خواہشات پوری ہونی چاہئیں انہیں اسی سے مطلب ہوتا ہے۔
معلوم ہوا کہ بعض دفعہ حب جاہ بہت powerful ہوتی ہے، بعض دفعہ حب باہ بہت powerful ہوتی ہے اور بعض مرتبہ حب مال انتہا درجے کی ہوتی ہے۔ یہ تینوں چیزیں الگ الگ ہیں۔ جس میں حب جاہ زیادہ ہو وہ جاہ کی خاطر مال اور خواہشات کو بھی قربان کر سکتا ہے۔ جن میں حب باہ زیادہ ہو وہ اس کے پیچھے مال اور عزت دونوں کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں اور جن میں حب مال زیادہ ہوتی ہے وہ مال کے لئے عزت اور خواہشات دونوں قربان کر دیتے ہیں۔
یہ ساری تفصیل بتانے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو یہ بات سمجھ آ جائے کہ انسان نفسانی خواہشات کے مقابلے میں کمزور کیوں پڑ جاتا ہے اور حلال و حرام میں متردد کیوں ہو جاتا ہے۔ اس سب کی وجہ یہ ہی ہوتی ہے کہ کسی میں حب باہ کا عنصر طاقتور ہوتا ہے، کسی میں حب جاہ زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں حب مال بہت ہوتی ہے۔
البتہ حب باہ میں پھسلنے کا نقصان کم ہے۔ اس لئے کہ حب باہ والوں کو توبہ کی توفیق جلدی ہوتی ہے جبکہ حب مال اور حب جاہ والوں کو توبہ کی توفیق کم ہوتی ہے اور دیر سے ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے، فرمایا کہ دو بھیڑیے بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے، جتنا کہ یہ دو بیماریاں مال کی محبت اور عزت کی محبت انسان کو تباہ کرتی ہیں۔
مال کی محبت بڑی خطرناک بیماری ہے۔ آپ سود خوروں کو دیکھیں، انہیں خوب پتا ہوتا ہے کہ سود حرام ہے، وہ نمازیں بھی پڑھتے ہیں، بڑی بڑی تسبیح بھی پھرواتے ہیں لیکن سود کو نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر کوئی ان کو سمجھائے تو اس کے لئے تاویلیں گھڑ لیتے ہیں۔
حب جاہ سے نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ آسان حب باہ سے نکلنا ہے، آدمی کو اس کا جلدی احساس ہو جاتا اور وہ توبہ کر لیتا ہے۔ آدمی اس میں مبتلا بھی جلدی ہوتا ہے اور نکلتا بھی جلدی ہے۔ اس کی مثال لوہے کی طرح ہے، لوہا بھی جلدی گرم ہوتا ہے اور جلدی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ حب جاہ اور حب مال کی مثال پانی کی طرح ہے، پانی دیر سے گرم ہوتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ان سب کا علاج اپنی مکمل اصلاح کروانا اور راہ سلوک طے کرنا ہے۔
سوال نمبر4:
جب نماز کی نیت باندھ لیتا ہوں تو دنیا کے خیال کا ہجوم آجاتا ہے، دنیا کے کاروبار اور دنیا کے لوگوں میں دماغ کھو جاتا ہے، جب یہ سوچتا ہوں کہ ان کو ذہن سے نکال دوں، اللہ والوں کا سوچوں تو اللہ کی طرف سے دھیان ہٹ جاتا ہے اور بزرگوں کا خیال آنے لگ جاتا ہے۔ کیا نماز میں اولیاء اللہ کا خیال آنا درست ہے؟
جواب:
نماز میں اللہ کی طرف دھیان کر لو، اللہ والوں کی طرف نہیں۔ اللہ کی طرف دھیان کا مطلب یہ ہے کہ آپ تصور کر لیں کہ آپ اللہ کے سامنے کھڑے ہیں اور اس کو اپنی نماز سنا رہے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ تصور کر لے کہ خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو کچے حافظ کی طرح رک رک کے نماز پڑھیں۔ ہر ہر عمل رک رک کے کریں اور ہر عمل کرتے ہوئے دل میں علیحدہ علیحدہ نیت کریں، مثلاً دل میں سوچیں کہ میں اب رکوع میں جا رہا ہوں، اب میں سجدہ میں جا رہا ہوں۔ ان چیزوں کو سیکھنا چاہیے، ان چیزوں میں اپنے آپ کو مشغول کرنا چاہیے۔ نماز میں اللہ والوں کی طرف دھیان نہیں جانا چاہیے، اللہ کی طرف دھیان جانا چاہیے۔ نماز صرف اللہ کے لئے ہے۔
سوال نمبر5:
حضرت! اشرافِ نفس سے کس طرح بچا جا سکتا ہے؟
جواب:
پہلے سمجھیں کہ اشرافِ نفس ہوتا کیا ہے۔ اشرافِ نفس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی امید کرے کہ اس کے پاس جو فلاں چیز ہے وہ میں اس سے لے لوں یا وہ خود مجھے دے دے۔ یہ اشرافِ نفس ہے۔
مثلاً میں کسی سے ملنے جاؤں، کھانے کی خوشبو آ رہی ہو، میں سوچوں کہ یہ مجھے بھی کہہ دے کہ کھانا کھا لو، تو یہ اشرافِ نفس ہے۔ کوئی سفر پہ جا رہا ہے تو دوسرا آدمی سوچے کہ یہ میرا کرایہ بھی ادا کردے تو یہ اشرافِ نفس ہے۔ ان چیزوں کو اشرافِ نفس کہتے ہیں۔ اشرافِ نفس سے بچنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک بذریعہ یقین اور ایک بذریعہ management۔ یقین کے ذریعے اشرافِ نفس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ پر یقین ہونا چاہیے، اللہ سے امید ہونی چاہیے، اللہ پاک ہی سے مانگنا چاہیے کسی انسان سے نہیں مانگنا چاہیے، نہ دل سے نہ دماغ سے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو کسی کے دل میں ڈال دے، وہ اس کا کام ہے ہمارا کام نہیں۔ ہم تو اللہ پاک سے مانگیں گے۔ کسی اور سے امید نہیں رکھنی چاہیے، کسی ایسی چیز کی طمع نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ پاک کی ذات پر اپنا یقین پختہ رکھنا چاہیے۔ یہ ہے یقین کے ذریعے اشرافِ نفس سے بچنے کا طریقہ اور یہی اصل اصلاح ہے۔ جب تک یہ نہ ہو تب تک management والے طریقے سے کام چلانا چاہیے۔ سارے رذائل کا اصل علاج سلوک طے کرنا ہے لیکن فوری طور پر جب کوئی چیز سامنے آجائے تو پھر کوئی management کرنی پڑتی ہے۔
اشرافِ نفس کے لئے management یہ ہے کہ آدمی ایسے وقت میں کسی کے ہاں نہ جائے جو ان کے کھانے کا وقت ہو۔ دوسرا یہ کہ جب دل میں کسی کے بارے میں یہ بات آئے کہ یہ میری فلاں ضرورت پوری کر دے، تو یہ سوچے کہ یہ انسان میری خواہش کو پورا نہیں کر سکتا اگر یہ دینا چاہے اور اللہ نہ چاہے تو مجھے کبھی نہیں مل سکتا، لہٰذا میں اس سے کیوں مانگوں، مجھے اس سے نہیں مانگنا چاہیے۔
کہیں سفر پہ آنا جانا ہو، تو یہ صورت اختیار کر کے اشرافِ نفس سے بچا جا سکتا ہے کہ یا تو سب اپنا اپنا کرایہ دیں یا پھر سب لوگ پیسے جمع کر کے کسی ایک کو دے دیں کہ وہ سب کے لئے انتظام کرلے۔ کرایہ کا انتظام ہو جائے گا اور کھانے پینے کا بھی مشترکہ سسٹم ہو جائے گا۔ کسی پہ بوجھ نہیں آئے گا۔ اس طرح مختلف مواقع پر مختلف قسم کی مینجمنٹ سے آدمی اشرافِ نفس سے اپنے آپ کو بچا سکتا ہے۔
سوال نمبر6:
جنت کے بارے میں سوال ہے کہ یہ کیا ہے؟
جواب:
اللہ جل شانہ نے ہر چیز کو اپنی حکمت سے پیدا کیا ہے اور اس کے لئے قواعد و ضوابط بھی حکمت سے مقرر کیے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے انسان کو یہاں اپنی معرفت اور عبادت کے لئے بھیجا ہے۔ جو لوگ اللہ کی اس منشا پر پورے اترتے ہیں، ان کو اللہ پاک اپنے فضل سے جنت نصیب فرما دیتے ہیں، اور جو لوگ اس منشا پہ پورے نہیں اترتے انہیں دوزخ میں بھیج دیتے ہیں۔ یہ سزا اور جزا کا ایک طریقہ ہے کہ جو کامیاب ہوں ان کو نوازا جائے اور جو ناکام ہوں ان کو سزا دی جائے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو خالصتاً اللہ کی محبت میں اعمال کرتے ہیں جیسے قرآن پاک میں ہے:
﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ﴾ (الکہف: 28)
ترجمہ: ”وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔“
یعنی وہ اللہ پاک کی رضا چاہتے ہیں، ان کو جنت کی پروا نہیں ہوتی، ان کی مطمح نظر صرف اللہ تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے۔ ہونا تو ایسا ہی چاہیے، لیکن چونکہ سارے لوگ اس پر پورے نہیں اتر سکتے اس لئے اللہ جل شانہ نے سب کو اس بات کا مکلف نہیں کیا اور یہ چاہا کہ لوگ جنت کو مانگیں، با قاعدہ دعا سکھلائی گئی:
”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُكَ الْجَنَّة“
ترجمہ: ”اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں۔“
رمضان شریف میں چار چیزوں کی کثرت کی ترغیب دی گئی ہے۔ جن میں ایک جنت مانگنا اور دوزخ سے پناہ مانگنا بھی ہے۔ جنت چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی جگہ ہے لہٰذا جنت کو مانگنا اللہ پاک کی رضا کا قائم مقام ہے۔ کچھ لوگ اس لئے جنت مانگتے ہیں کہ اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ جنت مانگو اور وہ اللہ پاک کی منشا کے مطابق جنت مانگ رہے ہیں اور کچھ لوگ خالصتاً جنت ہی کو مقصود سمجھتے ہیں، وہ بھی درست ہیں ہاں پہلی قسم کے لوگوں کا درجہ زیادہ ہے، لیکن یہ بعد والے بھی نقصان میں نہیں ہیں۔
سوال نمبر7:
بہن بھائیوں اور باقی لوگوں سے اچھے سلوک کی توقع رکھنا یہ اشرافِ نفس میں آتا ہے؟
جواب:
نہیں، یہ اشرافِ نفس میں نہیں آتا، مثلاً کسی آدمی کے پاس میرے دس روپے ہیں اور میں چاہوں کہ وہ مجھے دس روپے دے دے، تو میرا یہ چاہنا اشرافِ نفس میں نہیں ہے کیونکہ وہ دس روپے میرے ہیں، اگر میں اس سے اپنے دس روپے مانگتا ہوں تو یہ میرا حق ہے، یہ اشراف نفس نہیں ہے۔ اسی طرح بہن بھائیوں کے آپس میں حقوق ہوتے ہیں، اپنا حق طلب کرنا اشراف نفس میں نہیں آتا، البتہ اپنے حق سے زیادہ نہ مانگے، اپنے حق سے زیادہ مانگنا اشراف نفس میں آئے گا، اور اپنے حق سے زیادہ لینا ظلم ہے۔ اگر کوئی کسی سے اپنے حق کی حد تک حسن سلوک کی خواہش رکھتا ہے، عزت نفس کا خواہمند ہے تو یہ اس کا حق ہے۔ لہٰذا اگر کوئی کسی سے عزتِ نفس مانگتا ہے تو یہ اشراف نفس نہیں، بلکہ اس کا حق ہے۔
حقوق و فرائض کا سلسلہ کافی طویل ہے۔ جب لوگ اپنے اپنے فرائض پورے کر لیں تو سب کے حقوق ادا ہو جائیں گے اور جب سب لوگ ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں گے تو سب کے فرائض ادا ہو جائیں گے۔ یہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ لہذا اس میں اشراف نفس نہیں ہے، البتہ بعض دفعہ ہم لوگ جھوٹی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، یہ غلط بات ہے۔ مثلاً میں غلطی ہونے کے باوجود یہ چاہوں کہ مجھے حق پر سمجھا جائے تو یہ غلط بات ہے، یہ میرا حق نہیں ہے۔
”لَا طَاعَۃ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ“ (صحیح مسلم: 1840)
ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جو خالق کی نافرمانی کی طرف لے جائے جائز نہیں ہے“۔
لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے حقوق وفرائض کا تعین قرآن و سنت سے فقہ کی تشریح کے مطابق کرلیں اور ان حقوق کے پورا ہونے کی امید رکھیں تو اس کو اشرافِ نفس نہیں کہا جائے گا۔
جنت کے لوگوں کے بارے میں ایک کلام سنا دیتا ہوں۔
کلام
کہا جنہوں نے کہ اللہ رب ہمارے ہیں قائم اس عہد پہ پھر زندگی میں سارے ہیں
موت کے وقت فرشتے پھر ان سے ملتے ہیں ان سے کہتے ہیں کہ اللہ کے وہ پیارے ہیں
تمہیں نہ خوف ہو نہ غم تمہارے ساتھ ہیں ہم تمہارے ساتھ یہاں دن ہم نے گزارے ہیں
تم کو جنت کی بشارت ہو جس کا وعدہ تھا وہاں پر لطف ہی لطف وارے نیارے ہیں
وہاں من چاہی زندگی ہے اور منہ مانگی بھی خدا نے دن تمہارے کیسے اب سنوارے ہیں
ہے مہربان تم پہ اب خدا غفور و رحیم یعنی مہمانی ہے اس کی جو رب تمہارے ہیں
خدایا ان میں اب شبیر بھی شامل فرما جو نرغہ میں شیطان کے ہیں نفس کے مارے ہیں
تشریح:
یہ تمام غزل قرآن پاک کی درج ذیل آیات مبارکہ کے مفہوم پر مشتمل ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (30) نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ (31) نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۠ (32)﴾ (فصلت)
ترجمہ: ”جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہوجاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے جو تم منگوانا چاہو یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے جس کی بخشش بھی بہت ہے جس کی رحمت بھی کامل “۔
اللہ جل شانہ نے مومنین کے لئے جنت بنائی ہے اور قرآن مجید میں اس کو اپنی طرف سے اپنے نیک بندوں کے لئے میزبانی فرمایا ہے۔ اس وجہ سے جنت مانگنا کوئی غلط بات نہیں بلکہ محمود ومطلوب ہے البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ اللہ کی محبت کو جنت کی طلب پر غالب کرنا یہ اعلیٰ درجہ کی محبت ہے اور یہ درجہ اولیاء میں بھی چند حضرات کو ہی حاصل ہوتا ہے۔
حضرت سعید الدین مرغشی رحمۃ اللہ علیہ کو اخیر وقت میں جنت دکھائی گئی تو انہوں نے آسمان کی طرف رخ کیا اور کہا یا اللہ! اگر میں نے سب کچھ اس کے لئے کیا ہے تو پھر میں نے پوری زندگی ضائع کر دی۔ اللہ پاک نے جنت کا نظارا ہٹاکر ان پہ تجلی خاص کر دی، اسی تجلی کے دوران انہوں نے جان جانِ آفریں کے سپرد کی۔
آپ ﷺ نے بھی اخیر وقت میں فرمایا تھا ”بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلیٰ“ اب تو رفیق اعلیٰ ہی درکار ہے۔ صرف ایک ہی بات اب تو رفیق اعلیٰ ہی درکار ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ آخری وقت میں خواجہ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھتے تھے۔
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی اب تو آ جا اب تو خلوت ہو گئی
یعنی ادھر ادھر کی ساری تمنائیں ختم ہو گئیں اب ایک ہی تمنا ہے۔ اور وہ اے اللہ تیری ذات ہے۔
لہٰذا اللہ کی محبت کو ہر چیز پہ غالب رکھنا یہ اعلیٰ درجہ کا مقام ہے اور یقیناً ایسے لوگوں کو اعلیٰ درجہ کی جنت بھی مل جائے گی۔ لیکن اس کا دار ومدار نیت پر ہے۔ کوئی آدمی سارے اعمال جنت کے لئے کرتا ہے اور کوئی خاص اللہ کے لئے کرتا ہے۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ اللہ کا حکم سمجھ کر جنت مانگنا اور اللہ کی رضا کے لئے جنت مانگنا بڑی بات ہے۔ لیکن فی نفسہٖ جنت کے لئے اعمال کرنا اس سے کم درجہ کی بات ہے۔
ہمارا ایک کلام ہے جس میں خواہشات اور جنت والی بات کے بارے میں اشعار ہیں۔ کلام عنوان ہے ”ایک آرزو“
ایک آرزو
کاش دل میں جو ہے وہ سب قلم پہ آجائے دل مجذوب جذب کا راستہ دکھا جائے
اپنے محبوب کی ایک ایک ادا جانو خوب ہر ادا غیر کی یہ ہر ایک ادا کھا جائے
دل بیدار کی آنکھوں سے اسے دیکھو گے تو سب سمجھ آئے اگر یہ کوئی سمجھا جائے
ایک خواہشات کی محفل ایک ذاکرین کی ہے باہمی دست و گریبان اس کو پا جائے
دل عاشق کو اتارا ہے اکھاڑے میں یہاں کاش عشق کا شعلہ نفس کے زور کو جلا جائے
نفس کو باندھ یہ باندھنے میں بھلا رہتا ہے عشق کا ہار مگر دل کو تو پہنا جائے
ہر ادا اپنی تو سرشار سنت کرلے شبیر ہر ادا حسنِ ازل کو پھر تیری بھا جائے۔
تشریح:
آخری اور اصل چیز یہی ہے کہ ہر ادا حسن ازل کو پھر تیری بھا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہماری ایک اور غزل ہے، جس میں آج کل کے زمانے میں ایک غلط فہمی کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ بہت سارے لوگ اس میں پڑے ہوئے ہیں کہ صرف علم کافی ہے، بس وہ حاصل ہو جائے تو سب کچھ حاصل ہو گیا حالانکہ علم کافی نہیں ہے، علم اصل نہیں ہے بلکہ علم اپنا مقصد حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ مقصد اس علم پر عمل ہے۔ تمام علوم کا مقصد در اصل یہ ہے کہ ان پر عمل کیا جائے۔ عمل تب ہو سکتا ہے جب علم حاصل ہو، گویا علم مقصود بالغرض ہے اور عمل مقصود اصلی ہے۔ اس غزل میں یہی بات کی گئی ہے۔
صرف علم ہی کافی نہیں ہمت بھی ضروری اور اس پہ ہمیشہ استقامت بھی ضروری
تعلیم سے ہم کو ملے رستے کا پتا تو اس رستے پر چلنے کی حرکت بھی ضروری
رستے میں کوئی ڈاکو اگر راستہ روکے تو اس سے اپنے آپ کی حفاظت بھی ضروری
کھائی اگر ہو کوئی رستے میں تو پھر ان سے بچنے کے لئے محنت بھی ضروریکئی تقاضے نفس کے شیطان ہے ڈاکو ہے ان سے بچنے کی صلاحیت بھی ضروری
تعلیم سے معلوم ہو شبیر کریں کیا تو اس کے لئے پھر ہے تربیت بھی ضروری
تشریح:
تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ معلوم ہو جائے کہ کرنا کیا ہے اور معلوم ہو جانے کے بعد صحیح عمل کے لئے تربیت ضروری ہے۔
خانقاہوں اور مدرسوں کا جوڑ
خانقاہیں اگر درست نہیں ساری آج کل مدرسے کیا ہیں سارے اہل حق پہ مشتمل
کھوٹے سکوں کا چلنا ہے دلیل کھروں کی موجودگی ماحول میں ان کو دیکھنے تو چل
یہ مدرسے تعلیم کے پانے کے لئے ہیں پر تربیت کے پانے کا مسئلہ بھی ہووے حل
اس کے لئے نظام بھی کچھ سوچ لینا ہے اپنے بڑوں کو دیکھو کہ کیسے بنے کامل
جب علم ضروری ہے مدرسے بھی ضروری خانقاہیں کیوں نہیں ہیں اگر چاہیے عمل
یہی بڑوں کا راستہ اس پہ چل شبیر خطرے کی یہ گھنٹی ہے نہ یہ راستہ بدل
تشریح:
بہت سارے حضرات کہتے ہیں کہ فلاں خانقاہ خراب ہے فلاں ایسے ہے اور فلاں ویسے ہے۔ ہر طبقے اور جگہ پر بہت ساری چیزیں خراب ہوتی ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان سے فائدہ نہ اٹھایا جائے اور بالکل چھوڑ دیا جائے۔ بہت سارے مسلمان خراب ہیں کیا اس وجہ سے اسلام سے نکل جانا چاہیے؟ بعض لوگ کہتے ہیں ہم داڑھی اس لئے نہیں رکھتے کہ اگر ہم داڑھی رکھ کر گناہ کریں گے تو اسلام کی بد نامی ہو جائے گی، تو کیا مسلمانوں کی بری حرکتوں کی وجہ سے اسلام بد نام نہیں ہوتا؟ کیا خیال ہے اس وجہ سے اسلام بھی چھوڑ دیں۔
ہم لوگوں کو practical انداز میں سوچنا چاہیے اس سے ہی فائدہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
عمل کے لئے خانقاہ کی ضرورت ہے۔ اسی طرح علم کے لئے علماء کی ضرورت ہے تربیت کے لئے مشائخ کی ضرورت ہے۔ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ہمارے جتنے بھی اکابر ہیں وہ اسی طریقے پہ گئے ہیں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے دین میں جو ترقی دی ہے، اور دین کی جو خدمت ان سے لی ہے، وہ اسی راستے کے توسط سے لی ہے۔ انہوں نے عمل بھی حاصل کیا اور ساتھ مشائخ سے تعلق بھی رکھا جس کی وجہ سے اللہ پاک نے ان کی تربیت فرما دی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ یہ تینوں حضرات حاجی امداد اللہ مہاجر مکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے، حاجی صاحب ان تینوں سے بڑے عالم نہیں تھے، لیکن یہ حضرات اپنے علم و کمال کے باوجود حاجی صاحب کی طرف گئے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ علم اصل مقصود نہیں، اصل مقصود اس علم پر عمل ہے۔ اللہ جل شانہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن