اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
یہ ایک غزل ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نفس اور شیطان کا آپس میں کیا تعلق ہے اور اس کا انسان کے اوپر کیا اثر ہوتا ہے۔
نفس اور شیطان
نفس اپنا بہت ہی ناداں ہےبہت ذہین ہے جو شیطاں ہےدھوکہ دینے پہ تلا ہے یہ ہمیشاور مرا نفس اس کا میزباں ہے
تشریح:
یعنی اگر میرا نفس اس کا ساتھ نہ دے تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ شیطان جو کچھ بھی کرتا ہے نفس کے ذریعہ سے کرتا ہے۔
دونوں یہ مل کے مجھے مارتے ہیںاور مری روح اس پہ نوحہ کناں ہے نفس مرا داؤ میں شیطان کے آئےنفس میں شیطانیت تبھی جواں ہےنفس پہ پیر رکھ کے ذکر کرناعلاج میرا اس میں ہی نہاں ہےیہ دونوں کام بہت آساں ہو شبیرگر میسر تجھے پیر مغاں ہے
٭٭-----٭٭
ذکر کرنا
رستہ بھر کچھ نہیں کرتے ہیں ہمذکر کر لیں خدا کا کم سے کمدل پڑا غفلتوں میں دنیا کیکیوں نہ ہو عقل اپنے پہ ماتماتنا غفلت کو توڑنا ہے کہذکر ہو یاد، کر سکے پیہمپھر ترا دل کرے محسوس ظلمتآنکھ سے لائے جو کہ غیر محرم
تشریح:
جو انسان ذاکر ہوتا ہے اسے اس ظلمت کا پتا چل جاتا ہے جو غیر محرم کو دیکھنے سے ہوتی ہے۔ جب تک انسان ذاکر نہ ہو اسے ظلمت محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ تو انجوائے کرتا ہے۔ لیکن جس وقت ذاکر ہوتا ہے، تب اگر غلطی سے بھی نظر پڑ جائے تو فوراً ظلمت کا احساس ہوتا ہے کہ میں نے کیا کر دیا، کیونکہ وہ نور جو اس نے ذکر سے حاصل کیا ہوتا ہے وہ چلا جاتا ہے، اور اس کے دل پہ ایک اندھیرا سا چھا جاتا ہے۔
تو پھر مقام حضوری میں رہےاور شریعت پہ رہے مستحکمکلمہ کا ورد ہو شبیرؔ نصیبجس وقت آئے ترا آخر دم
تشریح:
حسنِ خاتمہ، حضوری، شریعت پر استحکام اور ظلمت کا احساس۔ ان چاروں کا تعلق ذکر کے ساتھ ہے۔ یہ چاروں چیزیں ذکر سے حاصل ہوتی ہیں۔
٭٭-----٭٭
حیا
اَلْحَیَاءُ نِصْفُ الْاِیْمَان (مشکوۃ: 431)
ترجمہ: ”حیا نصف ایمان ہے“
روشنی گر آنکھ میں حیا کی ہےتو سمجھ یہ کہ دل میں پاکی ہےبے حیا بن کے جو بھی چاہے کراس سے ہی نکلی ہوس ناکی ہےلگتی اچھی نہیں ہے یہ حالتنوجوانوں میں جو بے باکی ہےکان حیا سوز گانے سنتے ہوںیہ نشانی دلِ تباہ کی ہےاور زباں پر بھی احتیاط نہ ہویہ علامت دل کی خطا کی ہےدل میں گر اس کو بسا لو گے شبیرؔبہترین صورت یہ تقویٰ کی ہے
٭٭-----٭٭
جو موافق ہوں شریعت کے وہ الہام ہیں ٹھیکچاہے اخبار ہوں اشعار ہوں سب کام ہیں ٹھیکان سے قرآن سنت کی مخالفت نہ ہو اورجن کا الہام ہے گر ان کے صبح شام ہیں ٹھیکان کی صحبت میں ملا کرتا ہے اللہ کا عشقوہ جو آنکھوں سے لٹاتے ہیں عشق کے جام ہیں ٹھیکان کے الفاظ کی تاثیر دل بدل ڈالےان میں سارے ہی سفید فام و سیاہ فام ہیں ٹھیک دل سے سنتے ہیں دل کے نالے جو پوشیدہ ہیںاس پہ حیرت نہ ہو ممکن ہے یہ نظام ہیں ٹھیکدل کو اللہ کے لیے ان کے دل سے جوڑ لیناشبیرؔ شک نہ کریں ایسے انتظام ہیں ٹھیک
٭٭-----٭٭
اللہ کی نظروں میں انسان کب گرتا ہے
جب کبھی دل میں یہ آئے کہ میں ہوں اچھا توکہے وہ خود کو کہ پہلے اگر تھے اب نہیں ہو
تشریح:
اگر کبھی دل میں آ جائے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں تو دل کو کہو کہ اگر پہلے اچھے تھے بھی تو اب نہیں رہےکیونکہ تم نے اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جواپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، اللہ کی نظروں میں گر رہا ہوتا ہے۔
کیونکہ جس وقت کوئی خود کو سمجھے اچھا اگرتو اسی وقت گرا اللہ کی نظروں میں ہے وہاپنی اچھائیوں میں فضل اس کی آئے نظرتو اس کا فضل اس کو سمجھو اس پہ شکر کروجب کبھی تجھ کو دکھائے تجھے دشمن اچھاتو بھگانے کے لیے اس کے تعوّذ بھی پڑھوبرائی اپنی نظر آنا کشف اعلیٰ ہےپھر ساری عمر نظر ان کی ہی اصلاح پہ رکھوبندگی اس کی بہت اعلیٰ ہی حالت ہے شبیرلے کے تو اس کو شرع پر استقامت پہ چلو
تشریح:
جب انسان ذکر کرتا ہے تو ظلمت کا ادراک ہوتا ہے، اپنی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ مجھے کل ایک صاحب کا فون آیا کہہ رہے تھے میں جتنا جتنا ذکر کر رہا ہوں اپنی برائیوں کا پتا چل رہا ہے۔
جس کو اپنی برائیوں کا پتا چل رہا ہے، اس کا مطلب ہے ذکر کے ذریعے اس کی آنکھوں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ وہ جو چیزیں پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا اب دیکھ رہا ہے۔ چیزیں پہلے بھی موجود ہوتی ہیں لیکن آدمی دیکھ نہیں پا رہا ہوتا، جیسے جیسے آنکھ بہتر ہوتی جاتی ہے پردے اٹھ رہے ہوتے ہیں، انسان کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ مجھ میں یہ یہ برائیاں بھی ہیں۔
٭٭----٭٭
عالم کیفیت میں دل سے خطاب
اے دل ترا اب میں نہیں وہ ہے ترا آقااب اس کی مان کے چلنا ذرا بھی ہمیں دکھاوہ تجھ پہ مجھ سے زیادہ مہربان رہے ہیںتو اس کا تو ہے نفس بھی بنا دے ناں تو اس کااے دل ترا اب میں نہیں وہ ہے ترا آقااب اس کی مان کے چلنا ذرا بھی ہمیں دکھا
تشریح:
انسان دل سے خطاب کر رہا ہے کہ اب میں تیرا مالک نہیں ہوں، اللہ ہی تیرا مالک ہے۔ اب اس کی مانواور اس طرح مانو کہ اپنے نفس کو بھی اس کا بنا دو، یعنی وہ بھی اس کی مان کے چلے۔
٭٭----٭٭
چلنا ذرا سنبھل کے
دلِ ناداں ذرا سنبھل کے عشق کے رستے پہ جانا سنبھل کےادب یہاں پہ ہے پہلی سیڑھی اس پہ توچڑھ کے آنا سنبھل کےقدم قدم پہ ہیں چھپے رہزن کتنے کتنے نئے بہروپ بھرےاپنی منزل کو طے تو کرنا ہے ان سے خود کو بچانا سنبھل کےیہ عشق کی آگ ہے اس کو دیکھو مگر اندر سے یہ گلزار سمجھواس سمندر کو خود میں بھرنا ہے خود کو اس سے جلانا سنبھل کےیہاں پر وصلِ یار کے واسطے روئے تُو بار بار تُو روئےیہ کوئی کھیل کی نہیں ہے بات عشق اور اس کا پانا سنبھل کےتو کہ جس راہ پہ گامزن ہے اب اس میں کانٹے ہیں وسوسوں کے بہتزخمی زخمی ہیں گو قدم تیرے ان پہ مرہم لگانا سنبھل کےطور بھی عشق کی آگ میں جل جائے کبھی معراج بھی ہوجائے نصیبعشق لگے پر نظر یہ آئے نہیں سر نہ اوپر اٹھانا سنبھل کےتیرا اس عشق میں جل جانے میں جانتا ہوں میں کہ تیرا ہے سکوںتیرا جل جانا ہو منظور اسے جل کے خود کو دکھانا سنبھل کے اب کہ منزل یہ تیری سیدھی ہےاب تو رکنے کا نام بھی تو نہ لےدر یار پر بھی جا کے رکنا نہیں خود کو اس کا بنانا سنبھل کے
تشریح:
یہ بہت گہرا شعر ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دو طریق ہیں۔ ایک سیر الی اللہ ہے، ایک سیر فی اللہ ہے۔ سیر الی اللہ میں انسان سیکھتا ہے کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ اس کو نسبت کہتے ہیں۔ سیر الی اللہ طے کر کے صاحب نسبت ہو جاتا ہے۔ صاحب نسبت ہونے کے بعد سیر فی اللہ شروع ہوتا ہے، اس میں کوئی limit نہیں جتنا آگے جا سکے چلا جائے۔ بالفاظ دیگر پہلے سیکھتا ہے، پھر اس سیکھے ہوئے کو استعمال کرکے چلنا شروع کردیتا ہے۔
تو ہے شبیرؔ کا پر شبیرؔ کی نہ مان، مان اس کا جسے تجھ کو ہے دیاعشق میں ایسا ہی تو پھر ہوتا ہے یہی سب کو سکھانا سنبھل کے
٭٭-----٭٭
زندگی کیسے گزاریں
کہاں جرأت مری گناہ اپنے شمار کروںبجائے اس کے میں کیوں نہ استغفار کروںمیں غلطیوں کا ہوں پتلا میں تو انسان ہوں ناںاس طرح رہ کے خود کو اور بھی کیوں خوار کروںمیں اس کا بندہ ہوں بندوں پہ مہربان ہے وہاس مہربانی پہ میں کیوں نہ اس سے پیار کروںفضل اس کا جو ہو سب کچھ مرا ہو ٹھیک فوراًیہ نہ ہو تو کیا کوشش اگر ہزار کروںدست بہ دعا ہوں الٰہی فضل مجھ پر فرمامیں ترا بن کے تجھ پہ خود کو میں نثار کروںکہیں گمراہ نہ بنوں نہ کہیں خود رائے بنوںمیں صرف اور صرف ترے محبوب پہ اعتبار کروںمجھ کو سنت ترے محبوب کی ہو حاصل ہر دمموت کے وقت میں شیطاں کو شرمسار کروںموت کے وقت مجھے کلمہ طیبہ ہو نصیبابھی بھی پڑھ میں اس میں کیوں ادھار کروںتو کہے حشر میں دیکھ کر مجھے میرا ہے شبیربابِ جنت پہ پھر میں شکر کا اظہار کروںوقت و جاں مال صلاحیتیں محدود ساریسامنے منزلِ آخر کا خوف ہے طاریان کو منصوبے سے کر دیں استعمال خوب ورنہکہیں بھگتیں نہ ہم وہاں سزا اس کی بھاری
تشریح:
جو چیزیں ہمیں دی گئی ہیں وقت، جان، مال اور صلاحیتیں۔ یہ محدود ہیں لہٰذا ان کو صحیح اور منصوبے کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔
سوال نمبر1:
جو اس سے پہلے آپ نے یہاں پہ یہ کہا تھا کہ مجذوب بن جاتے ہیں، یعنی کیسےمجذوب بن جاتے ہیں؟
جواب:
ہماری ہر چیز محدود ہے۔ ہمارا پیسہ بھی محدود ہے، وقت بھی محدود ہے اور صلاحیتیں بھی محدود ہیں۔ ان کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنا ہے، اس طرح کہ دئیے گئے وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔
میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم نے انجینئرنگ میں industry organization management کے کورس میں یہ مثال پڑھی تھی کہ fatigue کیا ہوتی ہے۔ لیکچر کے دوران اس بات کو سمجھاتے ہوئے کہا گیا کہ اپنی انگلی کو پچاس دفعہ اٹھائیں، پھر ایک منٹ تک کا وقفہ کریں، پھر پچاس مرتبہ اٹھا کر ایک منٹ کا وقفہ کریں۔ چاہے چھ ماہ تک روزانہ کئی کئی مرتبہ ایسے کرتے رہیں، آپ کو کوئی بھی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ ایک ہی دفعہ 1500 دفعہ کر لیں تو انگلی بیٹھ جائے گی اس کے ٹشوز کام کرنا بند کر دیں گے اور آپ تھک جائیں گے۔ اسی کو fatigue کہتے ہیں۔
اسی طرح دماغ کی بھی ایک حد ہے۔ اگر آپ اس حد کے اندر رہ کر اصلاحی ذکر کریں اور شیخ کامل کی ہدایت کے مطابق کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر آپ شیخ سے پوچھے بغیر اصلاحی ذکر کریں اور جتنی آپ کی حد ہے اس حد کو عبور کر جائیں تو عین ممکن ہے کہ آپ پاگل ہو جائیں۔ جو بندہ اس طرح پاگل ہو جائے اسے مجذوب کہتے ہیں۔ اس پاگل اور عام پاگلوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ پاگل اللہ کی محبت میں پاگل ہوا ہے، اللہ کی محبت میں آ کر اتنا زیادہ ذکر کیا کہ اس کے دماغ پہ اثر ہو گیا۔ اس وجہ سے اللہ کے ہاں اس کا ایک درجہ ہوتا ہے۔ لیکن عمل کے لحاظ سے یہ بالکل لاش بن جاتا ہے۔ اس کے عمل کا کھاتہ بالکل صفر ہوجاتا ہے۔ اس کا عمل آگے نہیں بڑھتا۔ یہ چلتی پھرتی لاش ہے۔ اگر اس کی کسی نے توہین کی یا اس کو نقصان پہنچایا تو اس کو سزا بھی ملتی ہے۔ ایسے لوگوں کو مجذوب کہتے ہیں۔ اس کو بزرگ مان لیں تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن یاد رہے کہ اس بزرگ کی کوئی بات ماننی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ out of control ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکا، تمہیں کیا بچائے گا۔ بلکہ ان کی بات ماننے میں آپ کے لئے خطرہ ہے، کہیں آپ بھی مجذوب نہ بن جائے۔ اس لئے ان سے دور بھاگنا چاہیے۔ ان کے سامنے نہیں آنا چاہیے، اگر اتفاق سے سامنا ہو جائے تو بے ادبی نہ کریں۔ یہ شریعت پہ چلنے والے نہیں ہوتے کیونکہ شریعت کے مکلف نہیں ہوتے۔ عام لوگ ان کو بزرگ سمجھتے ہیں ان کے پیچھے پھرتے ہیں۔ ان کے پیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کچھ مل سکتا ہے تو مرشدین سے مل سکتا ہے کیونکہ اللہ پاک ان کو ہدایت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کو خود پر کنٹرول ہوتا ہے، وہ سالکین کو بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ وہ آپ میں دیکھ لیتے ہیں، اگر آپ میں جذب کا مادہ ہو تو آپ کو نپے تلے طریقے سے ذکر وغیرہ کرواتے ہیں۔
پھر مجذوب دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا، یعنی جو بالکل عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ دوسری قسم کے مجذوب وہ ہوتے ہیں جن کے قال پر حال غالب ہوتا ہے، ان میں بھی جذب ہوتا لیکن وہ کنٹرول میں ہوتا ہے۔ ان کے اعمال میں اثر زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو عموماً قلندر کہتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو مجذوب بھی کہتے ہیں۔ ایسے لوگ باہوش ہوتے ہیں، ان کی صحبت میں فائدہ بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے۔ ان کی بات میں اثر بہت ہوتا ہے۔
تصوف کو جاننے والے ساٹھ ستر فیصد لوگ مجذوبوں کے پیچھے پڑتے ہیں، مرشدین کی قدر نہیں کرتے۔ حالانکہ انہیں مجذوبوں سے کچھ نہیں ملتا، بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے، اور مجذوبوں کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں۔ میں اس کو ڈائجسٹی تصوف کہتا ہوں۔ایسے لوگ ڈائجسٹوں میں قصے کہانیاں پڑھ چکے ہوتے ہیں، ان کے مطابق مجذوبوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے اس کو ڈائجسٹی تصوف کہتا ہوں۔
دعا
ہر اک شخص کو ہے دعا کی ضرورتہے ہر چیز میں خدا کی ضرورت دعا کرنے والے نہ رکنا دعا سے دعا تیری ارض و سما کی ضرورتدعا کرنے والے نہ مایوس ہونامسلسل ہیں اس میں صدا کی ضرورتوہ چاہے تو دے دے تجھے جو تو چاہےکہ ہے یہ ہر اک مبتلا کی ضرورتہر اک شخص کو ہے دعا کی ضرورتکرے دور تجھ سے مصیبت کوئی اورتجھے اس میں بھی ہو عطا کی ضرورتیا کر دے جمع اس کا اجر وہاں پر کرے پوری تیری وہاں کی ضرورتدعا کرنا شبیر کہ حکم خدا ہےکہ تجھ کو ہے اس کی رضا کی ضرورت
تشریح:
اس غزل میں دعا کے بارے میں ایک confusion دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ دعا تین طرح سے قبول ہوتی ہے۔ یا وہ چیز دے دی جاتی ہے جو چاہیے۔ اگر اس میں حکمت نہیں ہے تو اس کے بدلے کوئی مصیبت دور کر دی جاتی ہے یا پھر آخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ تینوں صورتوں میں ہمیں فائدہ مل رہا ہے۔ دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ دعا ہوتی کیا ہے۔ دعا اللہ کے سامنے زاری اور فریاد ہے۔ اپنے آپ کو اللہ پاک کے قریب کرنے کا ایک ذریعہ اور رستہ ہے۔
٭٭----٭٭
دعا
خدایا مجھ کو زندگی میں عافیت دے دےسب تکالیف و مصائب سے تو راحت دے دےدور کرنا ان مشکلات کا آسان ہے تجھےمیں تجھ سے مانگ لوں ہر چیز اجازت دے دےمیں تیرا بندہ ہوں آداب بندگی بھی سکھاپسند تجھ کو جو آئے وہی حالت دے دےتیرے حبیب کی امت کو میں بدنام نہ کروںکتنا پیارا اے خدایا راہ سنت دے دےاچھے اعمال کے لئے مجھے قبول فرمازندگی لمبی عافیت اچھی صحت دے دےتجھ کو پانے کا ہو جذبہ مجھے ہر وقت حاصلتجھ کو یاد رکھنے کی ہر وقت سعادت دے دےقلب سلیم عطا کر مجھے اب یا مُعطینفس پہ قابو کے لئے بھی مجھے قوت دے دےہو شریعت پہ میرا نفس مطمئن کر دےمیں تیرا ہی رہوں یا رب ایسی حالت دے دےوہی قابل ہے تیرے در پہ جو قبول ہواواسطے اس کے الٰہی قبولیت دے دےمیں ایک آنکھ بھر گناہ کی طرف نہ دیکھوںنظر تو پاک دے گناہ سے نفرت دے دےمجھ کو حاصل رہے ہر دم ترا اب نظر کرمتجھے پسند جو ہے وہ ہی کیفیت دے دےروز محشر مجھے حاصل ہو تری لطف کی نظرمانگتا شبیرؔ ہے رضا کی جگہ جنت دے دے۔
اللھم آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔آمین
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن