سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 142

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

یہ ایک غزل ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ نفس اور شیطان کا آپس میں کیا تعلق ہے اور اس کا انسان کے اوپر کیا اثر ہوتا ہے۔

نفس اور شیطان

نفس اپنا بہت ہی ناداں ہے بہت ذہین ہے جو شیطاں ہے دھوکہ دینے پہ تلا ہے یہ ہمیش اور مرا نفس اس کا میزباں ہے

تشریح:

یعنی اگر میرا نفس اس کا ساتھ نہ دے تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ شیطان جو کچھ بھی کرتا ہے نفس کے ذریعہ سے کرتا ہے۔


دونوں یہ مل کے مجھے مارتے ہیں اور مری روح اس پہ نوحہ کناں ہے نفس مرا داؤ میں شیطان کے آئے نفس میں شیطانیت تبھی جواں ہے نفس پہ پیر رکھ کے ذکر کرنا علاج میرا اس میں ہی نہاں ہے یہ دونوں کام بہت آساں ہو شبیر گر میسر تجھے پیر مغاں ہے

٭٭-----٭٭


ذکر کرنا

رستہ بھر کچھ نہیں کرتے ہیں ہم ذکر کر لیں خدا کا کم سے کم دل پڑا غفلتوں میں دنیا کی کیوں نہ ہو عقل اپنے پہ ماتم اتنا غفلت کو توڑنا ہے کہ ذکر ہو یاد، کر سکے پیہم پھر ترا دل کرے محسوس ظلمت آنکھ سے لائے جو کہ غیر محرم

تشریح:

جو انسان ذاکر ہوتا ہے اسے اس ظلمت کا پتا چل جاتا ہے جو غیر محرم کو دیکھنے سے ہوتی ہے۔ جب تک انسان ذاکر نہ ہو اسے ظلمت محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ تو انجوائے کرتا ہے۔ لیکن جس وقت ذاکر ہوتا ہے، تب اگر غلطی سے بھی نظر پڑ جائے تو فوراً ظلمت کا احساس ہوتا ہے کہ میں نے کیا کر دیا، کیونکہ وہ نور جو اس نے ذکر سے حاصل کیا ہوتا ہے وہ چلا جاتا ہے، اور اس کے دل پہ ایک اندھیرا سا چھا جاتا ہے۔


تو پھر مقام حضوری میں رہے اور شریعت پہ رہے مستحکم کلمہ کا ورد ہو شبیرؔ نصیب جس وقت آئے ترا آخر دم

تشریح:

حسنِ خاتمہ، حضوری، شریعت پر استحکام اور ظلمت کا احساس۔ ان چاروں کا تعلق ذکر کے ساتھ ہے۔ یہ چاروں چیزیں ذکر سے حاصل ہوتی ہیں۔

٭٭-----٭٭

حیا

اَلْحَیَاءُ نِصْفُ الْاِیْمَان (مشکوۃ: 431)

ترجمہ: ”حیا نصف ایمان ہے“

روشنی گر آنکھ میں حیا کی ہے تو سمجھ یہ کہ دل میں پاکی ہے بے حیا بن کے جو بھی چاہے کر اس سے ہی نکلی ہوس ناکی ہے لگتی اچھی نہیں ہے یہ حالت نوجوانوں میں جو بے باکی ہے کان حیا سوز گانے سنتے ہوں یہ نشانی دلِ تباہ کی ہے اور زباں پر بھی احتیاط نہ ہو یہ علامت دل کی خطا کی ہے دل میں گر اس کو بسا لو گے شبیرؔ بہترین صورت یہ تقویٰ کی ہے

٭٭-----٭٭

جو موافق ہوں شریعت کے وہ الہام ہیں ٹھیک چاہے اخبار ہوں اشعار ہوں سب کام ہیں ٹھیک ان سے قرآن سنت کی مخالفت نہ ہو اور جن کا الہام ہے گر ان کے صبح شام ہیں ٹھیک ان کی صحبت میں ملا کرتا ہے اللہ کا عشق وہ جو آنکھوں سے لٹاتے ہیں عشق کے جام ہیں ٹھیک ان کے الفاظ کی تاثیر دل بدل ڈالے ان میں سارے ہی سفید فام و سیاہ فام ہیں ٹھیک دل سے سنتے ہیں دل کے نالے جو پوشیدہ ہیں اس پہ حیرت نہ ہو ممکن ہے یہ نظام ہیں ٹھیک دل کو اللہ کے لیے ان کے دل سے جوڑ لینا شبیرؔ شک نہ کریں ایسے انتظام ہیں ٹھیک

٭٭-----٭٭

اللہ کی نظروں میں انسان کب گرتا ہے


جب کبھی دل میں یہ آئے کہ میں ہوں اچھا تو کہے وہ خود کو کہ پہلے اگر تھے اب نہیں ہو

تشریح:

اگر کبھی دل میں آ جائے کہ میں اچھا ہو گیا ہوں تو دل کو کہو کہ اگر پہلے اچھے تھے بھی تو اب نہیں رہےکیونکہ تم نے اپنے آپ کو اچھا سمجھ لیا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جواپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہوتا ہے، اللہ کی نظروں میں گر رہا ہوتا ہے۔


کیونکہ جس وقت کوئی خود کو سمجھے اچھا اگر تو اسی وقت گرا اللہ کی نظروں میں ہے وہ اپنی اچھائیوں میں فضل اس کی آئے نظر تو اس کا فضل اس کو سمجھو اس پہ شکر کرو جب کبھی تجھ کو دکھائے تجھے دشمن اچھا تو بھگانے کے لیے اس کے تعوّذ بھی پڑھو برائی اپنی نظر آنا کشف اعلیٰ ہے پھر ساری عمر نظر ان کی ہی اصلاح پہ رکھو بندگی اس کی بہت اعلیٰ ہی حالت ہے شبیر لے کے تو اس کو شرع پر استقامت پہ چلو

تشریح:

جب انسان ذکر کرتا ہے تو ظلمت کا ادراک ہوتا ہے، اپنی برائیاں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں۔ مجھے کل ایک صاحب کا فون آیا کہہ رہے تھے میں جتنا جتنا ذکر کر رہا ہوں اپنی برائیوں کا پتا چل رہا ہے۔

جس کو اپنی برائیوں کا پتا چل رہا ہے، اس کا مطلب ہے ذکر کے ذریعے اس کی آنکھوں سے پردے ہٹ رہے ہیں۔ وہ جو چیزیں پہلے نہیں دیکھ سکتا تھا اب دیکھ رہا ہے۔ چیزیں پہلے بھی موجود ہوتی ہیں لیکن آدمی دیکھ نہیں پا رہا ہوتا، جیسے جیسے آنکھ بہتر ہوتی جاتی ہے پردے اٹھ رہے ہوتے ہیں، انسان کو پتا چل رہا ہوتا ہے کہ مجھ میں یہ یہ برائیاں بھی ہیں۔

٭٭----٭٭

عالم کیفیت میں دل سے خطاب


اے دل ترا اب میں نہیں وہ ہے ترا آقا اب اس کی مان کے چلنا ذرا بھی ہمیں دکھا وہ تجھ پہ مجھ سے زیادہ مہربان رہے ہیں تو اس کا تو ہے نفس بھی بنا دے ناں تو اس کا اے دل ترا اب میں نہیں وہ ہے ترا آقا اب اس کی مان کے چلنا ذرا بھی ہمیں دکھا

تشریح:

انسان دل سے خطاب کر رہا ہے کہ اب میں تیرا مالک نہیں ہوں، اللہ ہی تیرا مالک ہے۔ اب اس کی مانواور اس طرح مانو کہ اپنے نفس کو بھی اس کا بنا دو، یعنی وہ بھی اس کی مان کے چلے۔

٭٭----٭٭

چلنا ذرا سنبھل کے

دلِ ناداں ذرا سنبھل کے عشق کے رستے پہ جانا سنبھل کے ادب یہاں پہ ہے پہلی سیڑھی اس پہ توچڑھ کے آنا سنبھل کے قدم قدم پہ ہیں چھپے رہزن کتنے کتنے نئے بہروپ بھرے اپنی منزل کو طے تو کرنا ہے ان سے خود کو بچانا سنبھل کے یہ عشق کی آگ ہے اس کو دیکھو مگر اندر سے یہ گلزار سمجھو اس سمندر کو خود میں بھرنا ہے خود کو اس سے جلانا سنبھل کے یہاں پر وصلِ یار کے واسطے روئے تُو بار بار تُو روئے یہ کوئی کھیل کی نہیں ہے بات عشق اور اس کا پانا سنبھل کے تو کہ جس راہ پہ گامزن ہے اب اس میں کانٹے ہیں وسوسوں کے بہت زخمی زخمی ہیں گو قدم تیرے ان پہ مرہم لگانا سنبھل کے طور بھی عشق کی آگ میں جل جائے کبھی معراج بھی ہوجائے نصیب عشق لگے پر نظر یہ آئے نہیں سر نہ اوپر اٹھانا سنبھل کے تیرا اس عشق میں جل جانے میں جانتا ہوں میں کہ تیرا ہے سکوں تیرا جل جانا ہو منظور اسے جل کے خود کو دکھانا سنبھل کے اب کہ منزل یہ تیری سیدھی ہےاب تو رکنے کا نام بھی تو نہ لے در یار پر بھی جا کے رکنا نہیں خود کو اس کا بنانا سنبھل کے

تشریح:

یہ بہت گہرا شعر ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ دو طریق ہیں۔ ایک سیر الی اللہ ہے، ایک سیر فی اللہ ہے۔ سیر الی اللہ میں انسان سیکھتا ہے کہ مجھے کرنا کیا ہے۔ اس کو نسبت کہتے ہیں۔ سیر الی اللہ طے کر کے صاحب نسبت ہو جاتا ہے۔ صاحب نسبت ہونے کے بعد سیر فی اللہ شروع ہوتا ہے، اس میں کوئی limit نہیں جتنا آگے جا سکے چلا جائے۔ بالفاظ دیگر پہلے سیکھتا ہے، پھر اس سیکھے ہوئے کو استعمال کرکے چلنا شروع کردیتا ہے۔

تو ہے شبیرؔ کا پر شبیرؔ کی نہ مان، مان اس کا جسے تجھ کو ہے دیا عشق میں ایسا ہی تو پھر ہوتا ہے یہی سب کو سکھانا سنبھل کے

٭٭-----٭٭

زندگی کیسے گزاریں


کہاں جرأت مری گناہ اپنے شمار کروں بجائے اس کے میں کیوں نہ استغفار کروں میں غلطیوں کا ہوں پتلا میں تو انسان ہوں ناں اس طرح رہ کے خود کو اور بھی کیوں خوار کروں میں اس کا بندہ ہوں بندوں پہ مہربان ہے وہ اس مہربانی پہ میں کیوں نہ اس سے پیار کروں فضل اس کا جو ہو سب کچھ مرا ہو ٹھیک فوراً یہ نہ ہو تو کیا کوشش اگر ہزار کروں دست بہ دعا ہوں الٰہی فضل مجھ پر فرما میں ترا بن کے تجھ پہ خود کو میں نثار کروں کہیں گمراہ نہ بنوں نہ کہیں خود رائے بنوں میں صرف اور صرف ترے محبوب پہ اعتبار کروں مجھ کو سنت ترے محبوب کی ہو حاصل ہر دم موت کے وقت میں شیطاں کو شرمسار کروں موت کے وقت مجھے کلمہ طیبہ ہو نصیب ابھی بھی پڑھ میں اس میں کیوں ادھار کروں تو کہے حشر میں دیکھ کر مجھے میرا ہے شبیر بابِ جنت پہ پھر میں شکر کا اظہار کروں وقت و جاں مال صلاحیتیں محدود ساری سامنے منزلِ آخر کا خوف ہے طاری ان کو منصوبے سے کر دیں استعمال خوب ورنہ کہیں بھگتیں نہ ہم وہاں سزا اس کی بھاری

تشریح:

جو چیزیں ہمیں دی گئی ہیں وقت، جان، مال اور صلاحیتیں۔ یہ محدود ہیں لہٰذا ان کو صحیح اور منصوبے کے مطابق استعمال کرنا چاہیے۔


سوال نمبر1:

جو اس سے پہلے آپ نے یہاں پہ یہ کہا تھا کہ مجذوب بن جاتے ہیں، یعنی کیسےمجذوب بن جاتے ہیں؟

جواب:

ہماری ہر چیز محدود ہے۔ ہمارا پیسہ بھی محدود ہے، وقت بھی محدود ہے اور صلاحیتیں بھی محدود ہیں۔ ان کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنا ہے، اس طرح کہ دئیے گئے وقت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ہم نے انجینئرنگ میں industry organization management کے کورس میں یہ مثال پڑھی تھی کہ fatigue کیا ہوتی ہے۔ لیکچر کے دوران اس بات کو سمجھاتے ہوئے کہا گیا کہ اپنی انگلی کو پچاس دفعہ اٹھائیں، پھر ایک منٹ تک کا وقفہ کریں، پھر پچاس مرتبہ اٹھا کر ایک منٹ کا وقفہ کریں۔ چاہے چھ ماہ تک روزانہ کئی کئی مرتبہ ایسے کرتے رہیں، آپ کو کوئی بھی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ ایک ہی دفعہ 1500 دفعہ کر لیں تو انگلی بیٹھ جائے گی اس کے ٹشوز کام کرنا بند کر دیں گے اور آپ تھک جائیں گے۔ اسی کو fatigue کہتے ہیں۔

اسی طرح دماغ کی بھی ایک حد ہے۔ اگر آپ اس حد کے اندر رہ کر اصلاحی ذکر کریں اور شیخ کامل کی ہدایت کے مطابق کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن اگر آپ شیخ سے پوچھے بغیر اصلاحی ذکر کریں اور جتنی آپ کی حد ہے اس حد کو عبور کر جائیں تو عین ممکن ہے کہ آپ پاگل ہو جائیں۔ جو بندہ اس طرح پاگل ہو جائے اسے مجذوب کہتے ہیں۔ اس پاگل اور عام پاگلوں میں فرق ہوتا ہے۔ یہ پاگل اللہ کی محبت میں پاگل ہوا ہے، اللہ کی محبت میں آ کر اتنا زیادہ ذکر کیا کہ اس کے دماغ پہ اثر ہو گیا۔ اس وجہ سے اللہ کے ہاں اس کا ایک درجہ ہوتا ہے۔ لیکن عمل کے لحاظ سے یہ بالکل لاش بن جاتا ہے۔ اس کے عمل کا کھاتہ بالکل صفر ہوجاتا ہے۔ اس کا عمل آگے نہیں بڑھتا۔ یہ چلتی پھرتی لاش ہے۔ اگر اس کی کسی نے توہین کی یا اس کو نقصان پہنچایا تو اس کو سزا بھی ملتی ہے۔ ایسے لوگوں کو مجذوب کہتے ہیں۔ اس کو بزرگ مان لیں تو بھی کوئی حرج نہیں لیکن یاد رہے کہ اس بزرگ کی کوئی بات ماننی نہیں ہے۔ کیونکہ یہ out of control ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو نہیں بچا سکا، تمہیں کیا بچائے گا۔ بلکہ ان کی بات ماننے میں آپ کے لئے خطرہ ہے، کہیں آپ بھی مجذوب نہ بن جائے۔ اس لئے ان سے دور بھاگنا چاہیے۔ ان کے سامنے نہیں آنا چاہیے، اگر اتفاق سے سامنا ہو جائے تو بے ادبی نہ کریں۔ یہ شریعت پہ چلنے والے نہیں ہوتے کیونکہ شریعت کے مکلف نہیں ہوتے۔ عام لوگ ان کو بزرگ سمجھتے ہیں ان کے پیچھے پھرتے ہیں۔ ان کے پیچھے پھرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر کچھ مل سکتا ہے تو مرشدین سے مل سکتا ہے کیونکہ اللہ پاک ان کو ہدایت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ان کو خود پر کنٹرول ہوتا ہے، وہ سالکین کو بھی کنٹرول کر سکتے ہیں۔ وہ آپ میں دیکھ لیتے ہیں، اگر آپ میں جذب کا مادہ ہو تو آپ کو نپے تلے طریقے سے ذکر وغیرہ کرواتے ہیں۔

پھر مجذوب دو قسم کے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو وہ جس کا میں نے ابھی ذکر کیا، یعنی جو بالکل عقل و ہوش سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ دوسری قسم کے مجذوب وہ ہوتے ہیں جن کے قال پر حال غالب ہوتا ہے، ان میں بھی جذب ہوتا لیکن وہ کنٹرول میں ہوتا ہے۔ ان کے اعمال میں اثر زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو عموماً قلندر کہتے ہیں۔ بعض لوگ ان کو مجذوب بھی کہتے ہیں۔ ایسے لوگ باہوش ہوتے ہیں، ان کی صحبت میں فائدہ بھی ہوتا ہے اور ترقی بھی ہوتی ہے۔ ان کی بات میں اثر بہت ہوتا ہے۔

تصوف کو جاننے والے ساٹھ ستر فیصد لوگ مجذوبوں کے پیچھے پڑتے ہیں، مرشدین کی قدر نہیں کرتے۔ حالانکہ انہیں مجذوبوں سے کچھ نہیں ملتا، بلکہ نقصان ہوتا ہے۔ بہت سارے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے، اور مجذوبوں کے پیچھے ہی لگے رہتے ہیں۔ میں اس کو ڈائجسٹی تصوف کہتا ہوں۔ایسے لوگ ڈائجسٹوں میں قصے کہانیاں پڑھ چکے ہوتے ہیں، ان کے مطابق مجذوبوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ اس لئے اس کو ڈائجسٹی تصوف کہتا ہوں۔

دعا

ہر اک شخص کو ہے دعا کی ضرورت ہے ہر چیز میں خدا کی ضرورت دعا کرنے والے نہ رکنا دعا سے دعا تیری ارض و سما کی ضرورت دعا کرنے والے نہ مایوس ہونا مسلسل ہیں اس میں صدا کی ضرورت وہ چاہے تو دے دے تجھے جو تو چاہے کہ ہے یہ ہر اک مبتلا کی ضرورت ہر اک شخص کو ہے دعا کی ضرورت کرے دور تجھ سے مصیبت کوئی اور تجھے اس میں بھی ہو عطا کی ضرورت یا کر دے جمع اس کا اجر وہاں پر کرے پوری تیری وہاں کی ضرورت دعا کرنا شبیر کہ حکم خدا ہے کہ تجھ کو ہے اس کی رضا کی ضرورت

تشریح:

اس غزل میں دعا کے بارے میں ایک confusion دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ایسی بات نہیں ہے۔ دعا تین طرح سے قبول ہوتی ہے۔ یا وہ چیز دے دی جاتی ہے جو چاہیے۔ اگر اس میں حکمت نہیں ہے تو اس کے بدلے کوئی مصیبت دور کر دی جاتی ہے یا پھر آخرت میں ذخیرہ کر دیا جاتا ہے۔ تینوں صورتوں میں ہمیں فائدہ مل رہا ہے۔ دعا کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ دعا ہوتی کیا ہے۔ دعا اللہ کے سامنے زاری اور فریاد ہے۔ اپنے آپ کو اللہ پاک کے قریب کرنے کا ایک ذریعہ اور رستہ ہے۔

٭٭----٭٭

دعا

خدایا مجھ کو زندگی میں عافیت دے دے سب تکالیف و مصائب سے تو راحت دے دے دور کرنا ان مشکلات کا آسان ہے تجھے میں تجھ سے مانگ لوں ہر چیز اجازت دے دے میں تیرا بندہ ہوں آداب بندگی بھی سکھا پسند تجھ کو جو آئے وہی حالت دے دے تیرے حبیب کی امت کو میں بدنام نہ کروں کتنا پیارا اے خدایا راہ سنت دے دے اچھے اعمال کے لئے مجھے قبول فرما زندگی لمبی عافیت اچھی صحت دے دے تجھ کو پانے کا ہو جذبہ مجھے ہر وقت حاصل تجھ کو یاد رکھنے کی ہر وقت سعادت دے دے قلب سلیم عطا کر مجھے اب یا مُعطی نفس پہ قابو کے لئے بھی مجھے قوت دے دے ہو شریعت پہ میرا نفس مطمئن کر دے میں تیرا ہی رہوں یا رب ایسی حالت دے دے وہی قابل ہے تیرے در پہ جو قبول ہوا واسطے اس کے الٰہی قبولیت دے دے میں ایک آنکھ بھر گناہ کی طرف نہ دیکھوں نظر تو پاک دے گناہ سے نفرت دے دے مجھ کو حاصل رہے ہر دم ترا اب نظر کرم تجھے پسند جو ہے وہ ہی کیفیت دے دے روز محشر مجھے حاصل ہو تری لطف کی نظر مانگتا شبیرؔ ہے رضا کی جگہ جنت دے دے۔

اللھم آمین۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔آمین

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن