سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 141

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 1:

دعا کیسے مانگنی چاہیے اور اس کے آداب کیا ہیں، کیا دل میں دعا مانگی جا سکتی ہے یا ہونٹوں کا ھلنا ضروری ہے اور لمبی دعا مانگنی چاہیے یا مختصر مانگنی چاہیے؟

جواب:

دعا بہت اہم عبادت ہے جیسے حدیث شریف میں آتا ہے: "اَلدُّعَاءُ مُخُّ الْعِبَادَة" اور "اَلدُّعَاءُ ھُوَ الْعِبَادَة" دعا عبادت کا مغز ہے اور دعا اصل عبادت ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں دعا کی بہت قدر کرنی چاہیے اور دعا کو دعا کے طریقے سے مانگنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ہم یہ موقع ضائع کر دیں۔ مثال کے طور پر کوئی درخواست کسی بادشاہ، وزیر یا کسی افسر کو دینا چاہیں تو درخواست دینے کا طریقہ کیا ہوتا ہے۔ دو طریقے بہت زیادہ نا پسند کئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ رخ ادھر ادھر کر کے دیں تو درخواست قابل قبول نہیں ہو گی چاہے وہ کتنا ہی مستحق ہو، یا پھر آپ لہرا کے دے دیں جیسے پے پرواہ آدمی کرتا ہے۔ تب بھی وہ درخواست قبول نہیں ہو سکتی۔ اسی طریقے ہماری دعاؤں میں توجہ نہیں ہوتی حالانکہ دعا میں توجہ الی اللہ سب سے اعظم کام ہے۔ توجہ اس کی بنیاد ہے ورنہ وہ دعا نہیں رہتی۔ ہاتھ اٹھا کے دعا مانگنا یا اول آخر درود شریف پڑھنا یہ سب دعا کی قبولیت کے آداب ہیں جو اسباب میں آتے ہیں، لیکن توجہ الی اللہ بنیاد ہے۔ ایک انسان سارے آداب پورے کر لے، اول آخر درود شریف پڑھ لے، بعد میں دعا عربی میں کر لے۔ قرآنی دعا، پھر حدیث کی دعا وغیرہ لیکن اس دوران وہ ادھر ادھر دیکھتا رہے تو وہ ورد ہے، دعا نہیں ہے۔ لوگ اکثر رٹی رٹائی دعا کرتے ہیں۔ ادھر ادھر دیکھتے ہیں، سوچ کہیں اور ہوتی ہے۔ دعا کے لئے بے شک اختصار ہو مثلاً بہت زیادہ وقت فارغ نہیں کر سکتا یا توجہ نہیں کر سکتا تو مختصر کہہ دے کہ اے اللہ تو مجھ سے راضی ہو جا۔ آمین۔ یہ بہت بڑی دعا ہے۔ اے اللہ میرے ساتھ خیر کا معاملہ فرما دے۔ اے اللہ مجھے مستجاب الدعوات بنا دے۔ یہ سب چھوٹی چھوٹی اور مکمل دعائیں ہیں۔ لہٰذا اتنی دعا کر کے انسان اٹھ جائے، زیادہ تفصیل سے نہ مانگے۔ اکثر نماز کے بعد میں بہت تفصیلی دعا نہیں مانگتا، کبھی کبھی مجلس کے بعد سب کے لئے دعا کرنی ہوتی ہے تو وہ تفصیلی ہو سکتی ہے لیکن میری اکثر دعا مختصر ہوتی ہے۔ اور اکثر میرے ہونٹ بھی نہیں ہل رہے ہوتے۔ کیونکہ اکثر میری دعا قلبی ہوتی ہے۔ البتہ سب سے اہم چیز توجہ الی اللہ ہے، باقی ساری چیزوں کی کمی اس سے پوری ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ بعض لوگ دعا کے اندر الفاظ تھوڑے سے ترنم سے پڑھتے ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے لہرا کے کاغذ دینا۔ جیسے "اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا اٰتنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً" یہ کیا مانگنے کا طریقہ ہوا؟ کبھی کسی انسان سے آپ نے اس طرح مانگا ہے؟ مانگنا سیکھنا ہے تو بھیک مانگنے والوں سے سیکھیں۔ وہ لہجہ اور تمام الفاظ کا خیال رکھتے ہیں کہ جو نہیں دینا چاہتے وہ بھی دے دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ فیاض ہے، بہت زیادہ جواد ہے لیکن ہم کم از کم طریقہ درست کر لیں۔

سوال 2:

اگر کسی کا تکبیر اولیٰ کا چلہ چل رہا ہو اور وہ ایک دن نماز میں اس وقت پہنچے کہ پہلی رکعت ہو گئی ہو تو اسے اس میں شامل ہونا چاہیے یا اس کے پاس یہ option موجود ہے کہ ساتھ کچھ ساتھی موجود ہوں تو نماز ختم ہونے کا انتظار کر کے بعد میں اپنی جماعت کروا لے؟

جواب:

تکبیر اولیٰ کے چلے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان جماعت میں regular ہو جائے۔ مثلاً کہیں جانا ہے تو اس کے دل میں یہ خیال ہو کہ میری جماعت کس جگہ آئے گی؟ یہ مستحب ہے اور واقعی اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی با قاعدہ ایک کے نہج پہ آ جاتی ہے۔ جن لوگوں نے کیا ہے وہ مبارک ہیں اور جن لوگوں نے نہیں کیا تو وہ کر لیں۔ البتہ اپنی جماعت کروانے کا دستور نکالنا اس کے مزاج کے خلاف ہے کیونکہ اہتمام نہیں رہے گا، بلکہ شاید عدم اہتمام کی طرف سلسلہ چل پڑے کہ پھر جماعت کا خیال نہیں رہے گا۔ ایک انسان مسجد میں جائے اور جماعت ہو چکی ہو تو حدیث شریف کے مطابق اس کو جماعت کا پورا اجر ملے گا لیکن یہ اس صورت میں ہے جب اس کو کوئی عذر لاحق ہو گیا ہو مثلاً وقت تبدیل ہو گیا یا اس کی گھڑی خراب ہو گئی یا کوئی اور عذر ہو جس کی وجہ سے اس کو پتا نہ چل سکا۔ البتہ وقت بھی ہے، جا بھی سکتا ہے اور سستی کر رہا ہے جس کی وجہ سے وہاں جا کے پتا چلا کہ نماز ہو گئی تو اس کا اجر نہیں ملے گا۔ کیوں کہ وہ اپنی سستی کی وجہ سے رہ گیا۔ البتہ بعد میں اپنی جماعت کرانی چاہیے یا نہیں یہ کسی مفتی صاحب سے پوچھا جائے۔ حالانکہ میرا تکبیر اولیٰ کا چلہ کئی مرتبہ ہو چکا ہے، اب ہمت نہیں ہوتی تھی کہ میں اس جماعت کو چھوڑ کے کوئی اور جماعت کرا لوں۔ البتہ اگر مفتی صاحب گنجائش دے دیں تو وہ زیادہ وسیع علم رکھتے ہیں۔ ہمارے ایک ساتھی کہنے لگے کہ میں عصر کی فرض نماز سے پہلے 4 رکعت سنت پڑھنے کا عادی ہوں۔ ایک دفعہ مسجد میں جماعت ہو رہی تھی تو میں نے جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ میں نے جا کے پہلے چار رکعت سنتیں پڑھیں اور اس کے بعد چار رکعت فرض پڑھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اس کا بنیادی concept کتنا کمزور ہے! کیوں کہ عصر کی سنت عصر کے لئے نہیں ہے بلکہ جماعت کے لئے ہے۔ یعنی انسان جب مسجد میں پہنچے گا تو اگر فوراً فرض پڑھے گا تو اس میں یکسوئی نہیں ملے گی۔ جیسے انسان دکان سے نکل کر فوراً نماز میں کھڑا ہو تو اس کے دماغ میں دکان ہی ہو گی۔ تو اس کو چار رکعت پڑھنی چاہیے یا کم از کم دو رکعت پڑھنی چاہیے تاکہ فرض نماز یکسوئی کے ساتھ ادا ہو جائے۔ ان کو شاید اس بات کا علم نہیں تھا۔

سوال 3:

رمضان میں چونکہ شیاطین بند ہو جاتے ہیں اور آج کل کیا جتنے گناہ اور سستیاں ہو رہی ہیں وہ ہمارے نفس کی وجہ سے ہیں؟ ہم با آسانی عام دنوں کے گناہوں کو differentiate کر سکتے ہیں۔ وہ نفس کہتا ہے یا شیطان کی وجہ سے ہیں؟

جواب:

دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ نفس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں اور inertia کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔ inertia سے مراد یہ ہے کہ جو چیز چل رہی ہو وہ ٹھہرنے میں وقت لیتی ہے اگرچہ اس پہ طاقت روک بھی دی جائے۔ اور اگر رکی ہوئی ہو تو چلنے میں ذرا وقت لیتی ہے کیوں کہ شیطان ہمارے اوپر 11 مہینے مسلط رہا ہے تو 11 مہینوں کا کچھ اثر تو ہو گا۔ البتہ inertia کی وجہ سے اس ایک مہینے کا پھر 11 مہینوں پر اثر ہو گا۔ اگر وہ اُس طرف سے inertia ہے تو یہ اِس طرف سے inertia ہے۔ لیکن ان 11 مہینوں کا اثر ہمارے اوپر لازمی طور پر ہو گا اور نفس ہمارے ساتھ ہے ہی، اس کا بھی اثر ہو گا۔

سوال 4:

اگر انسان کی قوت فیصلہ کمزور ہو تو کیا اس صورت میں ہر چیز اللہ پر چھوڑ دے؟ کیونکہ اس کو فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور یہ سوچ کہ جو ہو گا دیکھا جائے گا لیکن بعد میں جب پریشانی ہو تو کیا یہ سمجھا جائے گا کہ توکل نہیں تھا؟

جواب:

ایک ہوتا ہے کسی چیز سے فرار اور ایک ہوتا ہے توکل۔ فرار کو ہم توکل نہیں کہہ سکتے۔ یہ مجوزہ صورت فرار کی ہے، توکل کی نہیں ہے۔

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا

پھر انجام اس کی تیزی کا مقدر کے حوالے کر

یعنی اپنے اسباب تو ایسے استعمال کر جیسے تو کسی اور چیز کو جان ہی نہیں رہا۔ لیکن جب اسباب اختیار کر لے تو پھر اس پر تکیہ ایسا چھوڑ جیسے تو نے اسباب اختیار ہی نہیں کئے۔ اللہ والے ایسے ہی کرتے ہیں۔ اس کے بارے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے با قاعدہ اشعار کہے ہیں۔ توکل میں ہم اسباب کو نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ اسباب اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔ اسباب سے اعراض کرنا، اللہ پاک کی حکمت سے اعراض کرنا ہے۔ کئی اسباب فرض عین ہوتے ہیں اور ان کے انکار سے گناہ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰلِک کھانا پینا چھوڑ دے اور مر جائے تو مردار مر گیا۔ چنانچہ کھانا کھانا سبب ہے۔ اسباب اختیار کرنا کہیں فرض ہے، کہیں پر سنت ہے اور کہیں مستحب ہے۔ بہر حال اسباب اللہ کے بنائے ہوئے ہیں، ان کو ہم نہیں چھوڑ سکتے۔ لیکن جس وقت اسباب اختیار کر لیں پھر نتیجہ خدا پر چھوڑیں۔ جب اللہ پاک کرتے ہیں تو معمولی اسباب سے بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن اسباب اختیار کرتے وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ معمولی اسباب سے بھی کر لیتے ہیں بلکہ اس وقت پورے اسباب اختیار کرنے چاہئیں۔ اگر زیادہ نہیں کر سکتے تو جتنے میسر ہیں اتنے کر لو۔ کسی گاؤں میں ڈاکٹر نہ ہو صرف کمپاؤنڈر ہو اور acute مسئلہ ہو جائے۔ آپ اس کو ہسپتال پہنچانے سے پہلے کمپاؤنڈر کو دکھائیں گے، کیوں کہ وہ آپ سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ بتائے گا کہ ہسپتال پہنچنا ہے یا پہلے یہیں First aid دینی ہے۔ وہ تم سے زیادہ بہتر جانتا ہے، تم سے اس کا علم زیادہ ہے۔ تم اپنے فیصلے پہ عمل کرو اور اس کو ہسپتال لے جاؤ تو ممکن ہے کہ مریض درمیان ہی میں ختم ہو جائے۔ معلوم ہوا بعض دفعہ جتنے اسباب میسر ہوں ان کو استعمال کرنا چاہیے لیکن آئیڈیل اسباب کے انتظار میں معمولی اسباب کی نا قدری کرنا غلط ہے اور اچھے اسباب کے ہوتے ہوئے نا کافی اسباب اختیار کرنا بھی غلط ہے۔

سوال 5:

قوت فیصلہ حاصل کرنے کے لئے کیا تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں؟

جواب:

جو انسان اپنے آپ کو ہر چیز کا ذمہ دار ٹھہرائے اس کے اندر قوت فیصلہ نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ confuse ہو جاتا ہے کہ میں کیا کروں؟ یہ بھی نہیں ہو سکتا اور وہ بھی نہیں، پریشان ہو جاتا ہے۔ لیکن جس وقت انسان سوچتا ہے کہ میرا کام available اسباب اختیار کرنا ہے کہ جتنا مجھ سے ہو سکے گا میں کروں گا باقی نتیجے خدا کے ہاتھ میں ہیں۔ یہ قوت فیصلہ اس کے پاس آ گئی تو اب اگر پورے اسباب نہ ہوں تو معمولی اسباب بھی اس کے حق میں جا سکتے ہیں۔ در اصل ہم لوگ اس کو نظر میں نہیں لاتے۔ ہر شخص میں قوت فیصلہ ہوتی ہے۔ آپ comparison کے طریقے سے قوت فیصلہ کر سکتے ہیں۔ مثلاً دو دن کی روٹی پڑی ہو اور تازہ روٹی بھی پڑی ہو تو کون سی کھائیں گے؟ معلوم ہوا چیزوں کے بارے میں ذہن clear ہونا چاہیے اسی طرح Medical ground پر یا Engineering ground پر یا جو عام زندگی کے مسائل میں جو ان کے اسباب ہیں ان کے اندر تقابل کر لو۔ merit پر فیصلہ کر لو۔ جیسے انسانوں میں merit کے اوپر فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چیزوں میں بھی merit پر فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ہم دیکھیں کہ کون سے اسباب دنیا میں زیادہ چلتے ہیں۔ بس اس کے مطابق آدمی کام کر لے باقی نتیجہ خدا پر چھوڑ دے۔ ایک آدمی بالکل ہی اپنے آپ کو بدھو بنا لے تو اس کا علاج نہیں ہے۔ جس طرح ایک شخص ایک گمراہ آدمی کو ووٹ دینا چاہتا تھا۔ جب ووٹ دے رہا تھا تو کہتا ہے: اے اللہ! مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا کرے گا میں تو صرف جو جانتا ہوں وہ کر رہا ہوں۔ حالانکہ اس کو سامنے نظر آ رہا ہے وہ اندھا نہیں ہے۔ اصول بالکل واضح ہے کہ "اَھْوَنُ الْبَلِيَّتَيْنِ" ”جو کم درجے کا شر ہے اس کے ساتھ ہو جانا“ کہا جاتا ہے: یہ بھی خراب ہے وہ بھی خراب ہے میں کیا کروں؟ کون کتنا خراب ہے اس کو دیکھو۔ اور کسی کی خرابی کا اثر کہاں مجھ پر پڑتا ہے، ملک پہ پڑتا ہے یا اسلام پہ پڑتا ہے۔ یعنی ہر چیز کا اپنا اپنا measurement ہے۔ اصل میں گند اپنے اندر ہوتا ہے اور کہتے ہیں قوت فیصلہ نہیں ہے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔ انسان تھوڑا سا سوچے اور merit پر فیصلہ کرے تو جواب مل جاتا ہے۔

سوال 6:

قوت ارادی اور قوت فیصلہ ایک ہی چیز کے دو aspect ہیں؟

جواب:

یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ قوت فیصلہ کے بعد قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں لاہور جاؤں یا نہ جاؤں، یہاں پر قوت فیصلہ کام کرے گی اور جب آپ نے فیصلہ کر لیا تو پھر اسباب سے کام لے کر ہمت کر کے پہنچنا، یہ قوت ارادی ہے۔ بعض لوگ مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں، وہاں قوت ارادی کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی مشکلات کے اوپر قابو پانا قوت ارادی سے ہوتا ہے اور confusion کو دور کرنا قوت فیصلہ پر ہوتا ہے۔ قوت ارادی جس کو ہم Will power کہتے ہیں۔

ایک شخص کو سانپ نے ڈس لیا اس کو پتا ہے کہ گاڑی میرے پاس ہے اور سانپ کے زہر کے اثر سے paralysis ہونا شروع ہو گیا۔ اور اس کی ویکسین تقریباً پانچ کلو میٹر کے فاصلے پہ ہسپتال میں موجود ہے۔ وہ عین ٹائم پہ پہنچ گیا تو بچ سکتا ہے۔ جس میں Will power نہیں ہو گی تو ایک تو سانپ کے زہر کی وجہ سے ہاتھ پیر شل ہو رہے ہوتے ہیں اور دوسرا کمزوری کی وجہ سے مزید collapse ہو جاتا ہے اور ختم ہو جاتا ہے۔ البتہ ایسی حالتوں میں عجیب عجیب کام کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ اسباب پر اسباب فیل ہو رہے ہوتے ہیں لیکن وہ لڑ رہے ہوتے ہیں۔ مرنا تو ہے ہی، تو لڑتے لڑتے کیوں نہ مریں؟ وہ شخص پہلے موبائل پہ try کرے گا کہ اس کا کوئی دوست وغیرہ ہے تو اس کو اطلاع کر دے۔ موبائل کی بیٹری ختم ہو گی تو کوشش کر کے گھسٹتے گھسٹتے گاڑی کے اندر بیٹھ گیا اور گیئر لگا کے چل پڑا اور آخر کار ہسٌپتال پہنچ جاتا ہے اور ویکسین لگ جاتی ہے۔ معلوم ہوا اگر Will power کسی میں نہ ہو تو واقعی ایسے لوگ مر جاتے ہیں۔ جنگوں میں اس قسم کے بہت سارے واقعات ہوتے ہیں کہ شہ رگ کٹی ہوئی ہے اور اس پہ ہاتھ رکھ کے بھاگ رہے ہیں، انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عجیب صفات دی ہوئی ہیں۔ یہ جب سختی پہ آ جاتا ہے تو بہت سخت ہو جاتا ہے اور جب relax کرنے پہ آ جاتا ہے تو بہت کچھ relax کر دیتا ہے۔

جب تاتاری عالم اسلام پہ چھانے لگے تب مسلمانوں میں Will power ختم ہو چکی تھی۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ تاتاری کسی مسلمان کو کہتا کہ تم زمین پہ الٹے لیٹ جاؤ، میں گھر جا کر چھری لاتا ہوں اور تمہیں ذبح کرتا ہوں۔ وہ بھاگتا نہیں تھا بلکہ لیٹا ہی رہتا اور تاتاری چھری لا کر اس کو ذبح کر دیتا۔ یعنی اس حد تک Will power ختم ہو چکی تھی۔ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے مصر کے ایک بادشاہ کو تاتاریوں کے ساتھ جنگ کے لئے تیار کیا۔ وہ کہتا تھا کہ ہم ضرور فتح حاصل کریں گے۔ اس وقت کے علماء نے اس کو کہا: کم از کم ان شاء اللہ تو کہو۔ اس نے جواب دیا: ان شاء اللہ کہنا ضروری ہے لیکن تم لوگوں نے اس کو چونکہ کمزوری کا symbol بنایا ہوا ہے لہٰذا میں کہوں گا بعون اللہ۔ یعنی اللہ کی مدد سے ہم فتح حاصل کریں گے اور وہ واحد جماعت تھی جس نے تاتاریوں کو شکست دی۔ باقی ہر جگہ سے مار پڑی تھی۔ معلوم ہوا انسان کو Will power۔ gain کرنا چاہیے اور قوت فیصلہ بھی بہت ضروری چیز ہے۔ اگر کسی میں دونوں چیزیں ہوں تو اس کے لئے راستہ بڑا صاف ہے۔

سوال 7:

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک قول ہے میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا۔ اس کی ذرا تفصیل بتا دیں؟

جواب:

ما شاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک ملفوظ ہے: "عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم" ”میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے پہچانا ہے“ ہمارے پاس جتنی Will power ہے اور جتنی Decision power ہے اس کو exercise کرنے کے بعد اور وسائل ہاتھ میں ہونے کے با وجود وہ کام نہیں ہوتا، تو کس نے کام نہیں ہونے دیا؟ لیکن اگر آپ وسائل اور Will power استعمال ہی نہ کریں پھر رب کو نہیں پہچان سکتے۔ اسی statement کے اندر یہ بات موجود ہے۔ یعنی عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم، یعنی عزائم موجود تھے اور ان کے ٹوٹنے سے ہی اللہ تعالیٰ کو پہچانا۔

ایک بہت زبردست specialist ہے، دوائیاں موجود ہیں، تجربہ بھی موجود ہے۔ اپنے تجربے سے مریض کو اچھی دوا دی لیکن پھر بھی مریض مر گیا۔ بس پھر یہی کہا جائے گا کہ زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ پشتو کہتے ہیں: الله تعالی د درله د منګی اوبه دارو کړی ”اللہ تعالیٰ تمہارے لئے گھڑے کا پانی دوا بنا دے“ بعض کے لئے بن جاتا ہے۔ اور کہیں نا کافی اسباب یا کچھ بھی نہیں ہوتا لیکن کام ہو جاتا ہے۔ یعنی نا کافی اسباب میں راستہ نکالنے والا بھی اللہ ہے اور بہترین اسباب کو فیل کرنے والا بھی اللہ ہے۔

میری انجینئرنگ کا Final year مکمل ہو گیا تو بہت اچھی ڈگری تھی۔ 1st division with honors یہ بڑی ڈگری ہوتی ہے۔ پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر شپ کے اسباب سارے میسر تھے۔ کیونکہ چیئرمین میرا ایسا دوست تھا کہ وہ کلاس میں کہتا ہے: It is because of few people I am here otherwise I would straight away go to America۔ دوسرے طلبہ اس کو تنگ کرتے تھے۔ میں ان کے گھر پہنچ جاتا کہ سر آپ ڈر گئے؟ لیکن تھے وہ بہت honest۔ 4 پوسٹیں تھیں اور تیسرا نمبر میرا تھا۔ نمبر کے لحاظ سے معاملہ clear تھا اور میری یہی سوچ تھی کہ میرا کام ہونا ہی ہے۔ میں نے کسی اور جگہ apply نہیں کیا۔ خدا کی شان کہ عین appointment کے لئے جس دن انٹرویو ہونے والا تھا اسی دن دو پوسٹیں گر گئیں اور 4 کی جگہ 2 رہ گئیں اور تیسرا نمبر میرا تھا۔ اب چونکہ سارے chances ختم ہو گئے، سب لوگ اپنی اپنی جگہ apply کر چکے تھے اور vacancies ختم ہو گئی تھیں۔ تو 1st division with honors degree کے ساتھ ساڑھے آٹھ مہینے میں نے بے روزگاری دیکھی ہے۔ اخیر میں جب لوگوں نے بہت تنگ کیا کہ رشوت کے بغیر کام نہیں ہو سکتا اور میں رشوت نہیں دینا چاہتا تھا تو ایک دن میں نے بڑی اضطراری حالت میں قرآن پاک کھولا کہ میری اس حالت کے بارے میں کیا ہے۔ سامنے جو آیت لکھی ہوئی تھی وہ یہ تھی۔ ﴿عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْءًا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْءًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ وَ اللهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 216)

ترجمہ: ”عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔“

جب یہ آیت دیکھی تو سوچا کہ اس میں کوئی بڑی حکمت ہے جس کی وجہ سے ایسا ہوا ہے لہٰذا میری tension دور ہو گئی اور چند دن بعد مجھے اللہ پاک نے ایک ایسے صاحب کے ذریعے جاب دلوا دی جو اس کے بعد دس سال تک مزید بے روز گار تھے۔ یعنی اسباب نہیں تھے لیکن کام ہو گیا۔ جب جاب مل گئی اور ذرا سوچ ٹھکانے آئی تو میں نے سوچا کہ اس میں حکمت کیا تھی؟ اللہ پاک نے دل پر یہ القا فرما دیا کہ اس میں حکمت یہ تھی کہ اگر مجھے فوراً جاب مل جاتی تو میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ میں بہت قابل تھا جس کی وجہ سے مجھے جاب مل گئی اور یہ بہت غلط سوچ تھی۔ پہلے میری قابلیت کے بھرم کو توڑا گیا۔ پھر ایک ایسے آدمی کے ذریعے جاب دلوا دی جو خود بے روز گار تھا۔ پتا چلا کہ ہمیں استعمال تو ان چیزوں کو کرنا چاہیے لیکن پھر دل نہیں لگانا چاہیے۔ اللہ نے مجھے ساڑھے آٹھ مہینے کی بے روز گاری کے بعد اتنا بڑا سبق دیا۔ اللہ پاک نے مجھے ایک ذہنی گند سے بچایا کہ مجھے اپنے اوپر بھروسہ ہوتا لیکن الحمد للہ، اللہ نے اپنے اوپر بھروسہ سکھایا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جو فرمایا: "عَرَفْتُ رَبِّیْ بِفَسْخِ الْعَزَائِم" یہ Will power کے خلاف نہیں ہے۔ انسان فیصلہ کر لے، ارادہ کر لے، محنت کر لے، تمام اسباب اختیار کر لے اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دے۔ اگر اللہ پاک چاہے گا تو کام ہو گا، اللہ نہیں چاہے گا تو پھر نہیں ہو گا۔ ان باتوں کی صحیح تشریح نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگ گڑبڑ کر جاتے ہیں۔

ایک دفعہ ہمارے ایک کلاس فیلو غائب ہو گئے، FSC کا امتحان قریب تھا۔ کافی دنوں کے بعد حاضر ہوئے تو سب نے پوچھا: اتنے دن کدھر تھے؟ کہا: میں چلہ لگانے کے لئے گیا تھا۔ میں نے کہا: یہ چلے کے دن ہیں؟ کیا بزرگوں سے آپ نے مشورہ نہیں کیا تھا؟ بزرگ تو امتحانوں کے دنوں میں چلے کے لئے نہیں بھیجتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کام کے دنوں میں کام کرو اور جب چھٹیاں ہوں تو اس میں تبلیغ کے لئے جاؤ۔ امتحان کی تیاری کے اتنے دن آپ نے ضائع کر دئیے۔ کہتے ہیں: یہ تو اللہ پر ہے، اللہ پاس کرے گا۔ میں نے کہا: لگتا ہے آپ نے ہمیشہ کے لئے تبلیغ چھوڑنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بظاہر لگتا ہے کہ تم 3rd division میں پاس ہو گے کیوں کہ تم نے غلطی کی ہے، یا فیل ہو گے اور آئندہ کے لئے تبلیغی جماعت کو چھوڑ دو گے۔ بعینہ اسی طرح ہوا کہ 3rd division میں پاس ہو گیا اور تبلیغ کو ایسا چھوڑا کہ پھر اس کا کوئی نام بھی اس کے سامنے نہیں لے سکتا تھا۔ شیطان نے کام کر دیا۔ آخر بزرگوں سے مشورہ اس لئے ہوتا ہے کہ وہ تجربہ کار ہوتے ہیں، ہم نوجوان جذباتی ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میں نے یہی کام کرنا ہے۔ ٹھیک ہے لیکن اسباب کی قدر کہاں سے آئے گی؟ ایک دفعہ تبلیغی جماعت کے تیسرے امیر حضرت مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پیغام بھیجا کہ پشاور یونیورسٹی میں جو عرب سٹوڈنٹس ہیں، آپ ان پر توجہ فرمائیں تاکہ یہ پڑھیں اور کامیاب ہوں۔ کامیاب ہو کر اپنے ملکوں میں واپس جائیں ورنہ ان کا نا کام ہو کر اپنے ملکوں میں جانا ان کے ملکوں میں تبلیغ کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے مترادف ہو گا۔ حضرت نے ڈاکٹر فدا صاحب کی ان پہ نظر رکھنے کی ڈیوٹی لگا دی۔ ڈاکٹر فدا صاحب خود واقعہ سناتے ہیں کہ میں حضرت کو بتایا کہ یہ پڑھیں گے نہیں۔ پوچھا: وہ کیسے؟ عرض کی: یہ پورا دن گشتوں میں لگاتے ہیں اور شام کو اپنی کار گزاری دوسرے لوگوں کو سناتے ہیں۔ اس کے بعد چونکہ نمازی کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاتے ہیں تو خود پکاتے ہیں اور پھر جب یہ سب کچھ کر لیتے ہیں تو اتنا تھک چکے ہوتے ہیں کہ کرسی پر ہی سونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ ان حالات میں پڑھ نہیں سکتے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب خود تبلیغی جماعت کے بہت senior اور فعال حضرات میں سے ہیں لیکن انہوں نے کیسا نقشہ کھینچا! کہ جو اسباب کا بالکل خیال نہیں رکھتے تو اس میں دو باتیں ہوتی ہیں۔ ایک study ہوتی ہے جو مشکل کام ہے تو کسی مقدس انداز میں اس سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ دوسرا سب کچھ اللہ پہ ڈالنا۔ حالانکہ اللہ پاک نے ہر چیز کے لئے اسباب بنائے ہیں، ان کو اختیار کر کے پھر اللہ پر توکل کرو۔ اس کے دو رخ ہیں۔ اگر دونوں رخوں کو بیک وقت کوئی نہ جانتا ہو تو balance out ہو جاتا ہے لہٰذا پھر نقصان ہو جاتا ہے۔ نقصان سے بچنے کے لئے دونوں کا بیک وقت ہونا ضروری ہے۔

سوال 8:

رمضان کے بعد جو عید کے تین دن ہوتے ہیں اگر ان میں آدمی خرافات سے بچ جائے تو اس کا اثر آگے بھی رہتا ہے۔ اسی طرح اگر ان دنوں میں گناہوں میں پڑ گیا تو اس کا بھی اثر آ گے رہتا ہے۔ تو ان دنون میں گناہوں سے کیسے بچا جائے؟

جواب:

سوال بڑا پیارا ہے۔ میں سکردو گیا تھا وہاں راستے میں گلگت کی پہاڑیاں نظر آتی ہیں جن پہ برف ہوتی ہے حالانکہ ہم اکتوبر میں گئے تھے۔ یعنی پوری گرمی گزر گئی تھی اور برف نہیں پگھلی تھی۔ پگھل کر باریک ہو جاتی ہے اور اس کے فورًا بعد برف باری شروع ہو جاتی ہے کیونکہ اونچی جگہ ہے۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا: برف اس لئے بچ گئی ہے کہ اس کو اس سال کی گرمی ختم نہیں کر سکی۔ اگلے سال برف باری دوبارہ ہو گی اور اس پر مزید برف پڑے گی اس کے بعد گرمیوں کا موسم اس کو پگھلانے کی کوشش کرے گا لیکن جیسے پہلے نہیں پگھلی اسی طرح دوبارہ بھی نہیں پگھلے گی بلکہ مزید بڑھتی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے گلیشئیر بن جائے گا۔ ایک صاف پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بن جائے گا۔ اسی طرح رمضان شریف میں چونکہ شیطان کو باندھا گیا ہوتا ہے اور نفس کمزور ہو چکا ہوتا ہے لہٰذا نیکیوں کا خوب موقع ہوتا ہے اور نیکیوں کی عادت بنانے کا بھی خوب موقع ہوتا ہے۔ آپ نے نیکیاں لے لیں اور وہ سٹور میں چلی گئیں لیکن آپ کی عادتیں tools ہیں۔ رمضان میں آپ کی عادتیں اچھی بن گئی ہیں تو عید کے تین دنوں میں شیطان ان کو dynamite کرے گا۔ وہ آپ کو ایسے ماحولوں میں لے جائے گا اور ایسے مشغلوں میں پھنسائے گا اور ایسے آزادانہ کام کرائے گا کہ جو کچھ آپ نے پورا مہینہ کمایا ہے وہ تین دن میں گنوا دیں گے۔ اس کے بعد پوری طرح شیطان کے لئے expose ہو جائیں گے۔ پھر وہ مزید آپ کے اوپر محنت کرے گا۔ رمضان میں ماحول ہوتا ہے تو انسان بچ جاتا ہے۔ زمانی ماحول بھی ہوتا ہے اور مکانی ماحول بھی ہوتا ہے۔ رمضان زمانی ماحول ہے۔ اگر زمانی ماحول چلا جائے تو مکانی ماحول ہی رہ گیا لیکن زمانی و مکانی دونوں ماحول ہیں تو نورٌ علی نور ہے۔ پھر تو اور زیادہ فائدہ ہے لیکن زمانی ماحول چلا گیا صرف مکانی ماحول رہ گیا۔ تو آپ نے اپنے آپ کو مکانی ماحول کے ساتھ رکھنا ہے۔ سبحان اللہ دل میں اللہ تعالیٰ نے عجیب بات ڈالی۔ قرآن پاک میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا﴾ (الکھف: 28)

ترجمہ: ”اور اپنے آپ کو استقامت سے ان لوگوں کے ساتھ رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو اس لئے پکارتے ہیں کہ وہ اس کی خوشنودی کے طلبگار ہیں۔ اور تمہاری آنکھیں دنیوی زندگی کی خوبصورتی کی تلاش میں ایسے لوگوں سے ہٹنے نہ پائیں۔ اور کسی ایسے شخص کا کہنا نہ مانو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے، اور جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا، اور جس کا معاملہ حد سے گزر چکا ہے۔

اس آیت میں جواب مل گیا۔ یعنی ہم ایسے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں جو صبح و شام ذکر کرتے ہیں۔ آخر عید ان کی بھی ہوئی ہو گی اور تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا والے بھی گزاریں گے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا طریقہ ہو گا۔ اللہ کا شکر ہے جب قربانی ہوتی ہے تو خوشی ہوتی ہے اور ہم آپس میں دعوتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح عید میں بھی لوگ آپس میں ایک دوسرے کی دعوت کرتے ہیں۔ دین دار دین داروں کی دعوتیں کرتے ہیں اور ان کی آپس میں محفلیں ہوتی ہیں۔ لیکن دوسرے لوگوں کی دعوتیں اگر زیادہ اونچی فیملی ہے تو انٹرکان میں ہو گی یا کسی پی سی یا شالامار میں ہو گی۔ اور پھر بازاروں میں پھرنا بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بغیر کام کے بازاروں میں پھرتے ہیں حالانکہ بازار اللہ تعالیٰ کے ہاں نا پسندیدہ جگہوں میں سے ایک جگہ ہے۔ بازاروں میں بلا وجہ پھرنا دل کی تباہی کی علامت ہے۔ جو دل مسجد میں نہ ٹھہر سکے اور بازاروں میں ٹھہرنے کا خواہش مند ہو تو یہ اشارہ ہے کہ اس کا دل تباہ ہے۔ جن کا دل بنا ہوتا ہے وہ مسجدوں میں آ کر ایک سکون سا محسوس کرتے ہیں کہ تھوڑی دیر اور بھی ادھر بیٹھیں رہیں۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن