سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 140

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

غیب پر ایمان کیا ہے اور کیا آپ ﷺ پر ایمان لانا بھی غیب پر ایمان لانا ہے؟

جواب:

غیب پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ انسان جن چیزوں کا ظاہری آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کر سکتا، اس کے اپنے تجربات سے بھی وہ چیز ثابت نہیں ہو سکتی بلکہ اللہ جل شانہ کی طرف سے قرآن میں یا آپ ﷺ کی طرف سے حدیث میں کسی چیز کی خبر دی گئی ہو، اس کو ماننا غیب پر ایمان کہلاتا ہے۔ مثلاً جنت اور دوزخ کی مثال لے لیں۔ کوئی کتنے ہی مشاہدات اور تجربات کرنا چاہے جنت اور جہنم کو نہیں دیکھ سکتا۔ اسی طرح فرشتوں کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ گزشتہ پیغمبروں کو نہیں دیکھا جا سکتا۔ ان کے بارے میں ہماری تاریخ خاموش ہے معلومات ہی نہیں ہیں۔ ایسی چیزوں کو ماننا غیب پر ایمان ہے۔ اسی طرح جو تفصیلات اللہ اور اللہ کے رسول نے بتائی ہیں ان کو ماننا غیب پر ایمان ہے۔ سارے ایمان آپ ﷺ پر ایمان کی طرف لوٹتے ہیں کیوں کہ آپ ﷺ سے ہی ان سب باتوں کا علم ہوا اور آپ ﷺ کی زندگی سب کے سامنے تھی۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کی 40 سالہ زندگی سب کے سامنے تھی۔ آپ ﷺ نے جب پہلی دعوت دی تھی تو فرمایا تھا:

”اگر میں تمہیں کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے کوئی دشمن ہے اور وہ ہم پر حملہ آور ہونے والا ہے،کیا تم اس کا یقین کر لو گے؟“

سب نے کہا: ”ہاں ہاں کیوں نہیں۔ کیوں کہ ہم نے آپ کو صادق اور امین ہی پایا ہے“۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے دعوت دی تو کفار چیخ اٹھے اور ماننے سے انکار کر دیا۔ ابو لہب نے فوراً کہا کہ تیرے ہاتھ ٹوٹیں تونے ہمیں اس لئے جمع کیا تھا؟

اللہ پاک نے انہی کا جواب انہی کے الفاظ میں دیا:

﴿تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ (لہب: 1)

آپ ﷺ نے پہلے اپنی زندگی کو بنیاد بنا کر سوال کیا تھا اور اس کا جواب مثبت آیا تھا، اس کے بعد آپ ﷺ نے دعوت دی تھی۔ ہر نبی اپنی امت کے لئے تمام ایمانوں کا اولین ثبوت ہوتا ہے۔ اللہ پر ایمان لانا بھی آپ ﷺ کی وجہ سے ہے کیوں کہ اس کے بارے میں سب کچھ آپ ﷺ نے ہی بتایا ہے نہ اس سے پہلے کسی نے اللہ کو دیکھا، نہ اس کے بعد کسی نے اللہ کو دیکھا اور نہ ہی کوئی زندگی میں دیکھ سکتا ہے۔ اسی طرح قرآن پر ایمان در اصل آپ ﷺ پر ہی ایمان ہے۔ کیونکہ قرآن کو قرآن کہنے والے اور اس کے بارے میں بتانے والے آپ ﷺ ہی ہیں۔

منکرین حدیث کہتے ہیں کہ ہم قرآن کو مانتے ہیں، حدیث کو نہیں مانتے۔ ان کو ہمارے علماء جواب دیتے ہیں کہ قرآن بھی تو حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن کی روایت قرون اولیٰ سے اب تک حدیث کے ذریعہ منتقل ہوکر ہم تک پہنچی ہے۔ لہٰذا قرآن بھی حدیث سے ثابت ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حدیث شریف سے قرآن پاک کی تشریح نہیں ہو سکتی۔ ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ کی جو تشریح آپ ﷺ نے فرمائی ہے اس کے علاوہ کوئی اور تشریح کی جا سکتی ہے؟ قرآن کی تشریح بھی حدیث ہی کرتی ہے۔ حدیث شریف درمیان میں نہ ہو تو قرآن کی تشریح نہیں ہوسکتی۔

اصل میں شیطان یوں کرتا ہے کہ بنیادیں کمزور کرتا ہے۔ مثلاًآپ صحابہ کو ماننے سے انکار کر لیں تو آپ ﷺ سے بھی آپ کو کچھ نہیں ملے گا، ان کے بغیر آپ نبی ﷺ تک پہنچیں گے ہی نہیں۔ آپ ﷺ کی بات کیسے آپ تک پہنچے گی؟ درمیان والے واسطہ اور کڑی کو ہی آپ ہٹا دیں تو وہ آپ ﷺ کی بات آپ تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟ تو صحابہ کرام کی زندگی آپ ﷺ کی زندگی تک پہنچنے کے لئے بنیاد ہے۔ اور آپ ﷺ اللہ جل شانہ سے لینے کے لئے بنیاد ہیں۔ فقہاء کرام صحابہ کرام سے لینے کے لئے بنیاد ہیں۔ علماء کرام فقہاء کرام سے لینے کے لئے بنیاد ہیں۔ شیطان پہلی سیڑھی پہ حملہ کرے گا تاکہ یہ سارے ہی کٹ جائیں۔ علماء سے بد ظن کرے گا۔ علماء کو مانتے ہیں تو فقہاء سے بد ظن کرے گا۔ فقہاء کو مان لیا تو صحابہ سے بد ظن کرے گا۔ کسی نہ کسی سٹیج پر درمیان سے کوئی چیز ضرور خراب کرے گا جس سے آپ وہاں تک نہ پہنچ سکیں، جہاں تک پہنچنا ہے۔

آپ ﷺ پر ایمان لانا غیب پر ایمان نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ تو سارے ایمانوں کی بنیاد ہے۔ آپ ﷺ کی پوری زندگی کے حالات ہم تاریخ کے ذریعہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی پوری تاریخ سے موجود ہے۔ احادیث شریفہ میں موجود ہے۔ اسماء الرجال کا فن موجود ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی واضح ہے۔ یہاں تک کہ کسی انسان کی زندگی کے جو گوشے چھپے ہوتے ہیں، جنہیں کوئی دریافت نہیں کر سکتا وہ بھی اللہ پاک نے ظاہر کر دیئے تاکہ آپ ﷺ کی تعلیم ان شعبوں میں بھی ہمیں حاصل ہو جائے۔ آپ ﷺ کی زندگی اظہر من الشمس ہے لہٰذا وہ غیب نہیں ہے وہ ظاہر ہے۔ پھر اس کی بنیاد پر ہم سارے غیب کو مانتے ہیں۔

سوال نمبر2:

حضرت حسد کے بارے میں آتا ہے کہ یہ نیکیوں کو ضائع کر دیتا ہے۔ اگر ایک بندہ نیکیاں کر رہا ہے،اس کے دل میں حسد کی بیماری بھی ہے۔ لیکن اسے احساس ہو چکا ہے کہ مجھ میں یہ بیماری ہے اور اس کا علاج شروع کر چکا ہے۔ علاج کے دوران وہ جو نیکیاں کرے گا کیا وہ بھی ضائع ہوتی رہیں گی؟ کیونکہ ابھی حسد اس کے دل میں موجود ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

حسد ساری نیکیوں کو تو ضائع نہیں کرتا۔ جتنا حسد ہوتا ہے اتنی نیکیاں ضائع ہوتی ہیں۔ مثلاً آج آپ نے کسی سے حسد محسوس کیا تو ساری گذشتہ نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی، بلکہ جس وقت آپ حسد کر رہے ہیں، اس وقت نیکیاں ضائع ہونی شروع ہو جائیں گی جس وقت آپ حسد نہیں کر رہے اس وقت نیکیاں ضائع ہونا رُک جائیں گی۔ حدیث شریف میں ضائع کرنے کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھاتا ہے جیسے لکڑی کو آگ کھاتی ہے۔ جب لکڑی کو آگ لگ جائے تو ساری لکڑی فورًا نہیں جلتی۔ اسی طرح حسد نیکیوں کو کھانا شروع کر دیتا ہے۔ آپ علاج شروع کر دیں۔ علاج شروع کرنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہو گی۔ حسد کم ہونا شروع ہو گا جس سے نیکیاں جلنا بھی کم ہوں گی۔ آہستہ آہستہ حسد بالکل ختم ہو جائے گا اور نیکیاں محفوظ ہو جائیں گی۔ اس طرح بتدریج سارا کام ہوتا ہے۔

سوال نمبر3:

تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز باجماعت کا چلہ تو مردوں کے لئے ہوتا ہے۔ کیونکہ نماز باجماعت انہی پہ فرض ہے۔ اگر عورتیں اس فضیلت کو حاصل کرنا چاہیں تو وہ کیا کریں گی؟

جواب:

عورتوں کے اوپر جماعت لازم نہیں ہے، لہٰذا ان کے لئے یہ چیز نہیں ہے۔ خواتین کے لئے اللہ پاک نے الگ فقہ بنوائی ہے۔ شاید وہ فقہ عام نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے خواتین کو بڑی پریشانیاں ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ایک دفعہ کہیں سے وہ رسالہ ڈھونڈ کر اس کو پڑھ کر سناؤں کہ خواتین کو گھر کے کاموں پہ کیا اجر ملتا ہے،شوہر کی خدمت پر کیا ملتا ہے، بچوں کی خدمت پہ کیا ملتا ہے، بچہ ہونے پہ کیا ملتا ہے، ان کی پرورش پہ کیا ملتا ہے، دودھ پلانے پہ کیا ملتا ہے۔ان کے لئے یہ فضائل حاصل کرنے کے بہت سارے sources ہیں لیکن شاید یہ اتنے عام نہیں ہیں، معلوم نہیں ہیں یا پھر ان کی طرف دھیان نہیں ہے۔ خواتین میں یہ چیز عام ہونی چاہیے۔ کہیں سے یہ رسالہ مجھے مل جائے تو میں ان شاء اللہ اس کو خواتین کے بیان میں پڑھ کے سنا دوں گا تاکہ ان کو معلوم ہوجائے کہ ان چیزوں پہ انہیں کیا اجر ملتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا اپنا استحبابی سلسلہ ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ اگر کوئی مستحب پر عمل نہیں کرتا تو آپ اس کو ملامت نہ کریں عین ممکن ہے کہ اس کے پاس کوئی اور مستحب ایسا ہو جس کے ذریعہ سے وہ کما رہا ہو اور آپ کو پتا نہ ہو۔ ہر ایک کے اپنے اپنے مستحبات کے ذریعے ہوتے ہیں جیسے بعض لوگ مال دار ہوتے ہیں وہ مال کو خرچ کرتے ہیں۔ وہ اس ذریعہ سے مستحب چیزیں کماتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے ہمت دی ہوتی ہے وہ رفاہی کام کرتے رہتے ہیں ان کے ذریعہ سے کماتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ عبادات کے ذریعہ سے کماتے رہتے ہیں، کچھ لوگ قلبی نیکیوں کے ذریعہ مستحبات کماتے ہیں۔ یہ ہر ایک کے اپنے اپنے کمانے کے نظام ہیں۔ لہٰذا عورتیں احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں۔ ان شاء اللہ ان کو یہ ساری چیزیں بتائی جائیں گی کہ ان کو ان چیزوں پہ ایسا کیا ملتا ہے جو مردوں کو بھی نہیں ملتا۔ مردوں کے پاس وہ ذریعہ ہے ہی نہیں۔ بہرحال یہ حرص اچھی ہے۔ اس کی قدر کرنی چاہیے۔

آپ ﷺ سےسوال کیا گیا تھا کہ یا رسول اللہ! مرد حضرات جہاد کرتے ہیں اور مختلف مشکلات اور تکالیف کے ذریعہ سے ان کو اجر ملتا ہے۔ ہمارے لئے کیا ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا: آپ فرمایا کہ آپ کا جہاد حج ہے۔

سوال نمبر 4:

حسد کو کیسے کنٹرول کیا جائے اور اس کا علاج کیا ہے؟

جواب:

ایک ہوتا ہے حسد کا تقاضااور ایک ہوتا ہے حسد۔ حسد کے تقاضے پر کوئی سزا نہیں ہے، بلکہ اگر دل میں حسد کا تقاضا آئے اور اسے کنٹرول کر لیا جائے تو اس پر اجر ہے۔ حسد یہ ہوتا ہے کہ آپ واقعی دل میں کسی کے بارے میں برا سوچنے لگ جائیں۔ اس کا زبردست توڑ یہ ہے کہ اگر کسی کے ساتھ حسد ہو تو آپ لوگوں کے سامنے اس کی نیکیاں بیان کرتے جائیں۔ بیان کرتے جاؤ اور اجر لیتے جاؤ۔ یہ حسد کا ایک زبردست توڑ ہے۔ جس کے ساتھ حسد ہو اس کی برائیاں ہی بیان کی جاتی ہیں یا اسے تکلیف پہنچانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ آپ اس کی جگہ اس کو راحت پہنچانے کا بندوبست کرتے ہو اس کے لئے دعائیں کرتے ہو اس کی اچھائیاں بیان کرتے ہو تو اس سے حسد کا توڑ ہوتا ہے۔ ایسا کرنا حسد کا علاج بھی ہے اور اس سے بچت بھی ہے۔

سوال نمبر5:

حضرت! جس طرح مال کی محبت کے بارے میں ہے کہ مال کی محبت تب ہی ختم ہو سکتی ہے جب اللہ کی محبت آ جائے لیکن اگر کسی کے دل میں اللہ کی محبت نہ ہو تو اس کے دل میں دنیا کی محبت ہی ہوگی۔ لیکن اسے عقلی طور پر علم ہوگا کہ میرے دل میں اس وقت دنیا کی محبت ہے، مجھے یہ محبت ختم کرنی ہے اور اس کے شر سے بچنا ہے۔ انسان ایسا کیا کرے کہ دنیا اور مال کی محبت کے شر سے بچ جائے۔ عقلی طور پر اس چیز کو کیسے درست کرے؟

جواب:

اللہ جل شانہ کی محبت ہو تو یہ ساری چیزیں آسان ہوجاتی ہیں۔ جب تک اللہ پاک کی محبت حاصل نہیں ہے اس وقت بھی اس سے بچا جا سکتا ہے۔ اگرچہ وہ دائمی نہیں ہوتا، پھر بھی تھوڑی دیر کے لئے کوشش کی جا سکتی ہے۔ اور یہ کوشش صرف مال کی محبت سے بچاؤ کے لئے ہی نہیں بلکہ ہر رذیلہ سے بچاؤ کے لئے کی جا سکتی ہے۔ جیسے غصہ کے بارے میں ہے کہ اصل علاج تو پورا سلوک طے کرنا ہے لیکن فوری علاج یہ بتایا گیا ہے کہ اگر آپ کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیں، پانی پی لیں،جگہ بدل لیں،اس کو سامنے سے ہٹا دیں یا خود اس کے سامنے سے ہٹ جائیں۔ یہ اس کا instant علاج ہے complete علاج نہیں ہے۔ لیکن first aid کے طور پہ کام آ سکتا ہے۔ حب مال میں بھی یہی بات ہے۔ مال کی محدود محبت گناہ نہیں ہے۔ اتنی محبت جس سے ضرورتیں پوری ہوں انسان زندگی آسانی سے گزار سکے، کوئی گناہ نہیں ہے۔ البتہ مال کی لامحدود محبت گناہ ہے۔ محدود چیزیں حبِّ مال کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس کے لئے management کی ضرورت ہے۔ ایک آدمی کاہل ہے،کام نہیں کر رہا اور کہتا ہے میں اتنا مال دار ہوجاؤں کہ دنیا میں مجھ سے بڑا کوئی مال دار نہ ہو۔ آپ اس سے کہیں گے تم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے۔ایسے آدمی کو سمجھایا جائے گا کہ جتنی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے کام کرو۔ اسے کام کرنا پڑے گا۔ ضرورتیں پوری کرنے کے لئے کام کرنا مال کی محبت میں نہیں آتا بلکہ بہادری میں آتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا ہے، سوال سے بچنا چاہتا ہے، اشرافِ نفس سے بچنا چاہتا ہے۔اِس پر اُس کو اجر ملتا ہے:

کَسبُ الْحَلَاْلِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ(مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 2781)

ترجمہ: ’’فرائض کے بعد کسبِ حلال کی تلاش بھی فرض ہے۔‘‘

لہٰذا محدود مال کو طلب کرنا جس سے آپ کی ضروریات پوری ہوجائیں، یہ حب مال نہیں کہلاتا۔ اس کی ممانعت نہیں ہے۔ مال کو ضرورت پوری کرنے کے لئے پسند کرنا حب مال میں نہیں آتا کیوں کہ اس کی limit ہے، لیکن مال کو صرف مال کے طور پہ پسند کیا جائے تو اس کی کوئی limit نہیں ہے۔ بہت سارے لوگوں کی ضروریات عام طریقوں سے پوری ہوجاتی ہیں لیکن وہ اس پہ بس نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں فلاں آدمی مجھ سے آگے ہے، مجھے اس سے آگے جانا ہے۔ وہ ہمیشہ انیس بیس کے چکر میں رہتے ہیں۔ یہ حب مال ہے۔ اس کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کسی کے پاس سونے کی ایک وادی ہو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس ایک اور وادی ہو، آدمی کے پیٹ کو قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔

اس کا عقلی تجزیہ یہ ہے کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ مجھے بہت زیادہ مال ہی چاہیے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ کس لئے اتنا مال چاہیے، اس سے آپ کو کیا مطلوب ہے؟ مال مطلوب ہے یا کوئی اور چیز مطلوب ہے؟ اگر وہ کہے کہ میں اس سے قلبی اطمینان حاصل کرنا چاہتا ہوں اور وہ مال حاصل کرنے کے بعد ہی ملے گا کیونکہ مال سے راحت ملتی ہے۔ تو اسے کہا جائے گا کہ بے حد و حساب مال راحت نہیں بلکہ مصیبتوں اور بے چینی کی جڑ ہے۔ اگر تمہیں راحت مطلوب ہے تو اس کو چھوڑ دو ورنہ تمہیں کبھی اطمینان حاصل نہیں ہوسکے گا۔ اطمینان تو اللہ تعالی کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔

﴿اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُؕ (رعد: 28)

ترجمہ: ”یا درکھو کہ صرف اللہ کا ذکر ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ “

اطمینان اللہ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے، وہ مال داروں کو حاصل نہیں ہے، وہ فقیروں کو حاصل ہے۔ ان مال داروں کو حاصل ہے جو فقیروں کے در پہ آتے ہیں، جو فقیروں کے پاس ہوتے ہیں، جو فقیروں کے ساتھ چلتے ہیں، عام مال داروں کوحاصل نہیں ہے۔

ایک عیسائی تارک الدنیا راہب تھا۔ ایک بادشاہ اس کا بڑا معتقد تھا، اس سے ملنے گیا تو وہ اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا دھوپ تاپ رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔ اس نے کہا: اس وقت آپ میرے سامنے سے ہٹ جائیں کیوں کہ دھوپ رکی ہوئی ہے، بس میری یہی خواہش ہے۔

بہرحال! مال کی بے جا محبت فضولیات میں سے ہے، حماقتوں میں سے ہے۔

سوال نمبر6:

روزہ مرہ زندگی کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے مال کی طلب کرنا یا اتنے مال کی طلب کرنا جو اگلے ماہ یا اگلے سال تک کام آ سکے، یہ بھی مال کی بے جا محبت میں آ ئے گا؟

جواب:

دیکھیں آپ کی بارہ مہینے کی تنخواہ یا کاروبار کا نفع ہو، اس میں آپ نے سب کچھ adjust کرنا ہو، اس adjustment کے لئے اگر آپ یہ کرتے ہیں تو یہ حب مال میں نہیں آتا۔ بلکہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ آپ مینجمنٹ کے لئے اور بے جا خرچ سے بچنے کے لئے کر رہے ہیں۔ کیوں کہ بعد میں آپ کو مہنگا ملے گا، جب مہنگا ملے گا تو اس پہ زیادہ خرچ آئے گا، اس کے لئے آپ کو زیادہ بھاگ دوڑ کرنی پڑے گی۔ یہ تو management ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں۔ اگر آپ اس طریقے سے چیزوں کو پس انداز کرلیں تاکہ بعد میں استعمال ہوسکیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ چیزیں بخل کی range میں نہیں جانی چاہئیں۔

سوال نمبر7:

ایک انسان کے پاس کپڑے اور کھانا وغیرہ سب کچھ ہے لیکن وہ اچھا پہننے اور اچھا کھانے کے لیے کوشش کرتا ہے۔ کیا یہ بھی مال کی محبت ہے؟

جواب:

اگر وہ ایک لامحدود چکر میں پھنس گیا پھر تو مال کی محبت ہے۔ کیوں کہ ہر چیز سے بہتر دوسری چیز ہوسکتی ہے۔ مثلاً میرا کام بہت عرصے سے کمپیوٹر پر ہوتا ہے۔ میں کمپیوٹر کا بہت استعمال کرتا ہوں اور دفتر میں بھی میں ان لوگوں میں سے تھا جو کمپیوٹر بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنے کام کی نوعیت کو دیکھتا تھا کہ اس کے لئے مجھے کس level کا کمپیوٹر چاہیے۔ اس ریکوائرمنٹ کو 486بھی پورا کرتا تھا۔ میں کافی عرصہ تک وہی استعمال کرتا رہا اور وہ میرے پاس اچھا چلتا رہا میری ضرورت پوری کرتا رہا۔ لہٰذا جتنے سے احسن انداز میں ضرورت پوری ہو جائے اتنے پہ اکتفا کر لیں۔ خوب سے خوب تر کی دوڑ نہ لگائیں۔ یہ دوڑ لا محدود ہے، اس کی کوئی حد نہیں۔

میں کہتا ہوں کہ فیشن کرنے والے لوگ دنیا کے احمق ترین لوگ ہوتے ہیں۔ فیشن کرنے والا کپڑوں میں درزیوں کا اندھا مقلد ہوتا ہے۔ درزی ان کو بے وقوف بنا تے ہیں۔ایسا آدمی جوتوں میں موچیوں کا مقلد ہے وہ ان کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ وہ نت نئے ڈیزائن بناتے ہیں اور ان کو چکر دیتے رہتے ہیں یہ اس چکر میں گھومتے رہتے ہیں۔ ابھی پہلا فیشن ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آ جاتا ہے، لوگ اسی چکر میں لگے رہتے ہیں۔

آپ فیشن سے میری طرح بے نیاز ہوجائیں، بادشاہ ہوں گے۔ الحمد للہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ نہ کپڑوں کی پریشانی ہوتی ہے نہ جوتوں کی پریشانی ہوتی ہے نہ ٹوپی کی پریشانی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں فیشنی نہیں ہوں۔ جو فیشنی نہیں ہوتا اس کو کیا پریشانی ہے، پریشانی تو اس کو ہے جو فیشنی ہو۔ یہ جتنی چیزیں نظر آ رہی ہیں یہ بھی میری اپنی نہیں ہیں۔ یہ لوگوں نے اس طرح کیا ہے ورنہ میرا یہ بھی ڈیزائن نہیں ہے۔ میرا بالکل وہی سادہ طریقہ چل رہا ہے۔ الحمد للہ اس پر مجھے کبھی پریشانی نہیں ہوتی ہے۔

سوال نمبر8:

حضرت رمضان میں شیطان بند ہوتا ہے۔ اس کے باوجود گناہ کے خیالات آتے ہیں اور ایک ہی قسم کے خیالات مستقل آ رہے ہیں۔ کیا یہ شیطان ہے؟

جواب:

ایک ہوتا ہے وسوسہ اور ایک ہوتا ہے حدیث نفس۔ نفس ایک دم ختم نہیں ہوتا۔ رمضان شریف میں نفس پہ آہستہ آہستہ چوٹ پڑتی ہے۔ مثلاً آپ کو کوئی چیز پسند ہے اور بار بار اس کے بارے میں خیال آ رہا ہے چاہے وہ گناہ ہی کیوں نہ ہوتو یہ حدیث نفس ہے۔ رمضان شریف میں حدیث نفس تو ختم نہیں ہوتی،البتہ وسوسہ ختم ہو سکتا ہے۔

سوال نمبر9:

حضرت۔ شیخ کا مزاج کیسے جان سکتے ہیں اور اس کےتمام آداب کا خیال رکھتے ہوئے اس کی محبت کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

جواب:

یہ سوال پہلے بھی کیا گیا ہے اور میں اس کا جواب تفصیل سے دے چکا ہوں۔ اس لئے اب مختصر طور پر جواب دے دیتا ہوں۔ اگر شیخ کی محبت ہو تو سبھی کچھ حاصل ہو جاتا ہے۔ ؏

محبت خود تجھے آدابِ محبت سکھا دے گی

جس کو شیخ کے ساتھ محبت ہو تو یہ محبت ہی انسان کی استاد ہوتی ہے۔ وہ مزاج کو بھی جان لیتے ہیں اور ان کو خوش کرنے کے نظام کو بھی جان لیتے ہیں۔ وہ خود بخود اتنی research کر لیتے ہیں کہ ان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ شیخ کا مزاج کیا ہے۔ اگر کسی کو شیخ کے ساتھ حقیقی محبت ہو، واقعی بے لوث محبت ہو،جس کے بدلے کوئی چیز نہیں چاہیے ہو تو اسے اس محبت کی برکت سے سبھی کچھ سمجھ آجاتا ہے، شرط یہ ہے کہ سچی اور بے لوث محبت ہو۔ بزرگ بننے یا کسی اور مطلب کے لئے نہ ہو۔ اگر کسی کوکسی مطلب کے لئے محبت ہو، مزاج تو وہ بھی جان لیتا ہے اور سمجھ جاتا ہے کہ مجھے میرا مطلب کس طریقے سے حاصل ہو گا۔

ایک بار ہم کسی علمی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے تو ایک صاحب مجھ سے کچھ اشکالات بیان کرنے لگے اور ساتھ یہ بھی کہنے لگے کہ میں آپ سے سیکھنا چاہتا ہوں۔

میں نے کہا: استاذ کی مرضی کے مطابق سیکھنا ہوتا ہے یا شاگرد اپنی مرضی کے مطابق سیکھتا ہے؟

کہتے ہیں: استاذ کی مرضی کے مطابق۔

میں نے کہا: بس پھر میری مرضی کے مطابق چلیں میں آپ کو سکھا دوں گا۔ ٹائم بھی بتا دوں گا طریقہ بھی بتا دوں گا، سب کچھ بتا دوں گا۔ آپ اپنا مزاج نہیں چلائیں گے۔

لیکن وہ صرف گڑبڑ کرنا چاہتا تھا اس کی گڑبڑ کو میں نے اس طریقے سے ختم کیا۔ اگر واقعی کوئی آدمی کچھ سیکھنا چاہے تو وہ شیخ کی مرضی مطابق ہی سیکھتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک صحابی کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔ ان سے بات کرنا چاہتے تھے۔ جیسے ہی وہ گھر کے اندر چلے گئے، تو اب ان کی private life شروع ہو گئی۔ صحابہ تو اس مسئلہ سے بہت آگاہ تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس اُدھر ہی کھڑے ہو گئے کہ جب کسی کام سے باہر آئیں گے تو پھر میں اپنی بات کروں گا۔ کافی گھنٹوں بعد وہ باہر آئے تو پوچھا کہ حضرت آپ کب سے آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے آپ گھر آئے میں بھی تب سے کھڑا ہوں۔ انہوں نے کہا: آپ مجھے بلا لیتے۔ فرمایا: آپ کی private life میں مداخلت کا مجھے کوئی حق نہیں اور یہ میرا ضروری کام تھا میں اس کے لئے انتظار کر سکتا تھاتو آپ پر بوجھ کیوں ڈالتا۔

دیکھو یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ شیخ کا مزاج سمجھنے سے متعلق ایک بات عرض کرتا ہوں۔ مثلاً آپ کے شیخ کا مزاج ایسا ہے کہ اس نے ہر چیز کے لئے وقت مقرر کیا ہوا ہے اور آپ چاہتے ہیں کہ نہیں جب بھی مجھے ضرورت پیش آئے اسی وقت پوچھوں۔ تو یہ مزاج شناسی تو نہ ہوئی۔ ایسا کرنے سے مقصد بھی پورا نہیں ہو گا اور عین ممکن ہے کہ شیخ ناراض ہو جائے۔ بجائے فائدہ کے نقصان ہونے لگے۔ جو نظام وضع کیا گیا ہے اس نظام کے ساتھ چلنا مزاج شناسی اور محبت کے حصول کا ہی ایک طریقہ ہے۔ فائدہ اسی میں ہو گا،اس کے علاوہ تو فائدہ ہی نہیں ہو گا۔ بے لوث محبت بہت بڑا استاد ہے۔ وہ تو ایسی بات ہے کہ پوری correction ہوجاتی ہے۔ اس میں انسان کی اپنی انانیت ختم ہوجاتی ہے۔ محبت خود وہ چیزیں سامنے لے آتی ہے جن سے شیخ کو خوشی ہوتی ہے۔ جیسے ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آپﷺ کےسب سے زیادہ مزاج شناس تھے۔ یہ محبت ہی کا کرشمہ تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غار ثور میں اتنی نیکیاں دلوا دیں کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ساری عمر کی نیکیاں اس تک نہیں پہنچ سکتی تھیں۔ یہ بے لوث محبت ہی تھی ورنہ اس وقت وہ نماز نہیں پڑھ رہے تھے، روزے نہیں رکھ رہے تھے یا حج نہیں کر رہے تھے۔ کون سا عمل کر رہے تھے؟ وہ کون سی چیز تھی جس پر اتنا زیادہ اجر مل گیا۔وہ یہی بے لوث محبت تھی کہ آپ ﷺ کو اپنے کندھوں پہ اٹھا کے پنجوں کے بل غار کے اندر داخل ہونا۔غار میں داخل ہونا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے، پھر پنجوں کے بل چلنا، پھر ایک ہستی کو اپنی کمر کے اوپر بٹھا کر چلنا۔ یہ تینوں چیزیں کتنی مشکل ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےیہ مجاہدہ کیا، اس کا سبب صرف بے لوث محبت ہی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے غار کے سارے سوراخ بند کر دیئے۔ اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر سوراخوں میں دے دے کر بند کرتے گئے یہاں تک کہ کپڑے ختم ہوگئے لیکن ایک سوراخ رہ گیا اس پر اپنے پاؤں کے انگوٹھے رکھ دیئے تاکہ وہاں سے کوئی سانپ وغیرہ باہر نہ آ جائے۔ یہ سب بے لوث محبت کا ہی کرشمہ تھا۔ اس پھر ایسا ہوا کہ سانپ نے ڈس لیا، کیوں کہ سانپ کو بھی محبت تھی آپ ﷺ کے ساتھ، وہ بھی آپ ﷺ کا دیدار کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کا راستہ بند ہو گیا، وہ غصہ ہو گیا اور اس نے ڈس لیا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کے ڈسنے سے بہت سخت تکلیف ہوئی، تکلیف کی وجہ سے آنکھوں سے آنسو آئے اور آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پہ گرے کیونکہ آپ ﷺ کا سر مبارک ان کی گود میں تھا۔ آپ ﷺ کی آنکھ کھل گئی، دیکھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ پتا چلا کہ سانپ نے ڈس لیا ہے۔ آپ ﷺ نے اس جگہ پر لعاب دہن لگا دیاوہ ٹھیک ہو گئے۔

ہجرت کے تین دن اور غار ثور کے قیام کے دوران پیش آنے والے واقعات کو میں بے لوث محبت کا شاہکار کہتا ہوں اور غار حرا کے واقعات کو خلوت کا شاہکار کہتا ہوں۔ یہ دونوں تصوف کے مضامین ہیں۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو کس نے سکھایا تھا؟ اسی بے لوث محبت نے سکھایا تھا! غار کے سوراخوں پہ پاؤں رکھنا کس نے سکھایا تھا؟ بے لوث محبت نے سکھایا تھا! اپنی کمر پہ بٹھا کے پنجوں کے بل چل کر غار کے اندر جانا کس نے سکھایا تھا؟ بے لوث محبت نے سکھایا تھا! اس لئے اگر بے لوث محبت ہو تو پھر راستہ خود بخود مل جاتا ہے۔ میں اس لئے زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ یہ subject ایسا ہے کہ اس پر ساری چیزیں حالات پر منحصر ہوتی ہیں۔ ہر حال میں مختلف نظام ہوتے ہیں لیکن استاذ ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے بے لوث محبت۔

ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس بہت بھیڑ ہو گئی، بہت لوگ آ گئے۔ انہوں نے سوچا کہ اتنے لوگوں کی تربیت میں نہیں کر سکتا، اس لئے میں ایک امتحان لیتا ہوں جو جو اس امتحان میں پاس ہوگیا اس کی تربیت کروں گا۔ انہوں نے آواز لگائی کہ ہے کوئی شخص جو میرے لئے قربان ہونا چاہے..!! ایک شخص اٹھا۔ اسے اوپر لے جایا گیا،تھوڑی دیر کے بعد پرنالے سے خون بہنا شروع ہو گیا جیسے اسے ذبح کر دیا گیا ہو۔ دوسری دفعہ آواز لگائی کہ ہے کوئی شخص جو میرے اوپر قربان ہونا چاہے۔ دوسری دفعہ ایک آدمی اٹھا۔ اسے بھی اوپر لے جایا گیا اور تھوڑی دیر بعد پھر خون بہنا شروع ہو گیا۔ تیسری دفعہ پھر حضرت نے آواز لگائی کہ اب کوئی شخص ہے جو مجھ پہ قربان ہونا چاہے۔ ایک شخص اٹھا، آدھے راستہ تک ہی چلا تھا کہ چیخ ماری اور بے ہوش ہوگیا۔ اس کے بعد پھر کوئی نہیں اٹھا۔ انہوں نے کہا بھئی کوئی اور ہے تو بتاؤ۔ کوئی نہیں اٹھا۔ حضرت نے کہا بھئی آ جاؤ۔ لوگوں نے دیکھا کہ پہلے دونوں اشخاص نیچے اتر رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں بکروں کی سریاں ہیں۔ جو خون بہا تھا وہ بکروں کا تھا، ان بکروں کو ذبح کیا گیا تھا۔ حضرت نے فرمایا :میرے امتحان میں یہ ڈھائی لوگ پاس ہوئے ہیں، میں بس ان ڈھائی لوگوں کی تربیت کروں گا۔ باقی لوگ اپنا اپنا کام کرو۔ وہ جو چیخ مار کے بےہوش ہوا تھا اس کو آدھا قرار دیا کہ کم از کم اٹھا تو تھا۔

اس پر باقاعدہ discussion ہوئی ہے کہ ان میں بہادر کون تھا۔ کچھ لوگوں نے کہا: جو پہلے اٹھا تھا وہ بہادر تھا۔ کچھ نے کہا: دوسرا بہادر تھا کہ اس نے تو نظارہ بھی دیکھ لیا کہ پہلا آدمی ذبح ہو گیا، پھر بھی وہ اٹھا اور اپنے آپ کو پیش کیا، پہلے والے کو تو پتا نہیں تھا کہ کیا ہونا ہے۔ شاید تیسرا اس لئے بے ہوش ہو گیا کہ اس نے دونوں کو دیکھا تھا۔

سوال نمبر10:

دعا کے ظاہری و باطنی لوازمات کیا ہیں اور دعا کیسے کرنی چاہیے؟

جواب:

کچھ ہیں دعا کے لوازمات اور کچھ ہیں دعا کے آداب۔ آداب اس لئے ہوتے ہیں کہ دعا بہتر طریقے سے ہو اور اس کی قبولیت بڑھ جائے۔ لوازمات کے بغیر دعا دعا ہی نہیں رہتی۔ دعا کے لوازمات میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ دعا اس طرح مانگی جائے کہ اس میں مانگنا پایا جائے، عاجزی سے مانگنے والی کیفیت شامل ہو۔

کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ آپ کو کسی افسر سے کام ہو، آپ اس کو درخواست دینا چاہیں اور وہ درخواست آپ اس کو اس طرح دیں کہ اس کی طرف دیکھیں بھی نہ اور بس یوں ہی درخواست لہرا کر دکھائیں اور واپس چلے آئیں۔ اس چیز کو درخواست تو نہیں کہا جائے گا بلکہ تکبر کہا جائے گا۔ اسی طرح دعا اللہ سے مانگنے کو کہتے ہیں۔ لہٰذا دعا مانگتے ہوئے اللہ کی طرف پوری توجہ مرکوز ہونی چاہیے، قلب و جسم دونوں ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔ یہ بنیادی چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو دعا exist ہی نہیں کرے گی۔

دعاؤں میں بعض ایسی دعائیں ہیں جن میں ہاتھ نہیں اٹھائے جاتے لیکن یہ چیز یعنی مانگنے والی کیفیت اور دل کا استحضار ان دعاؤں میں بھی لازم ہے۔ مثلاً آپ بیت الخلا میں داخل ہوتے ہوئے پڑھتے ہیں: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَآئِثِجب آپ اس میں اَللّٰہُمَّ کہتے ہیں تب آپ کی توجہ مکمل طور پر اللہ کی طرف ہونی چاہیے۔ اسی طرح اذان کے بعد کی دعا ہےیا کھانے کے بعد کی دعا ہے، ان میں ہاتھ تو نہیں اٹھائے جاتے لیکن اللہ کی طرف توجہ کرنا اور اس سے مانگنے کی کیفیت دل میں ہونا شرط ہے۔

دعا کے آدب حالات کے مطابق ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ ہاتھ اٹھانا آداب میں شامل ہے اور بعض دفعہ ہاتھ نہ اٹھانا آداب میں ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ چیزیں دعا کی قبولیت سے مانع ہوتی ہیں وہ نہیں ہونی چاہئیں۔ مثلاً رزق حرام نہیں ہونا چاہیے،دعا میں شرکیہ الفاظ نہیں ہونے چاہئیں۔

اس لئے میں کہتا ہوں کہ جو اس concept کو لے کر دعا کرے گا وہ دعا میں لہرائے ہوئے الفاظ استعمال نہیں کرے گا۔ آج کل مساجد میں لوگ دعائیں اس طرح مانگتے ہیں جیسے ذکر کا ورد کر رہے ہوں یا گنگنا کر کوئی نعت نظم پڑھ رہے ہوں۔ اِسے ورد تو کہا جا سکتا ہے تلاوت نہیں کہا جا سکتا۔ دعا میں انسان کو اللہ کی طرف مکمل توجہ دینا چاہیے۔ یہ بنیاد ہے،اگر یہ نہیں ہوگی تو دعا کی قبولیت کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوسکتے ہیں بلکہ اس طرح مانگنے پر عتاب بھی ہوسکتا ہے۔ یہ آداب انسان کو سیکھ لینے چاہئیں۔ آداب میں کمی بیشی تو ہو سکتی ہے لیکن بنیاد ختم نہیں ہوتی۔ آداب کی بھی ضرورت ہے اور لوازمات کی بھی۔ ایسا نہ ہو کہ لوازما ت کو اختیار کر کے آداب کو ہی چھوڑ دیں۔

جیسے ایک بزرگ کو الہام ہوگیا کہ میری آدھی دعائیں قبول ہوگئیں ہیں آدھی نہیں ہوئی۔ دریافت کیا کہ ایسا کیوں ہے؟

جواب ملا کہ جب آپ دعائیں کر رہے تھے تو سردی کی وجہ سے آپ کا ایک ہاتھ اندر تھا ایک ہاتھ باہر تھا۔ آپ ایک ہاتھ سے دعا کر رہے تھے۔ یہ آداب کی بات تھی۔

میں کچھ اشعار لکھے تھے۔ ان پہ نظر ثانی کر رہا تھا، ساتھ ساتھ کتاب کی سیٹنگ بھی دیکھ رہا تھا۔ اس سیٹنگ میں طریقہ یہ تھا کہ اگر کسی غزل میں چھ سے زیادہ اشعار ہوجائیں تو وہ next page پہ شفٹ ہوجاتی ہے۔ اب اگر ایک یا دو شعر زیادہ ہوگئے تواگلے صفحے پہ اس غزل کے ایک دو بقیہ شعر آ جاتے ہیں اور باقی صفحہ پہ دو رباعیاں سیٹ کرنی ہوتی ہیں۔ اور اگر چار یا پانچ شعر زیادہ ہوجائیں تو مجھے ایک رباعی سیٹ کرنی ہوتی ہے۔ کسی غزل کا ایک شعر زیادہ ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ اس میں سے ایک شعر کم کردوں تاکہ غزل پوری ہوجائے اور مجھے کوئی رباعی سیٹ نہ کرنی پڑے۔ میں یہی سیٹنگ کر رہا تھا کہ چند غزلیں ایسی آئیں جن میں دعائیں تھیں۔ یقین جانیں مجھے کسی شعر کو کم کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا کہیں ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ یہ حساب کر دیں کہ اس نے چونکہ مانگا نہیں اس لئے میں دیتا نہیں۔ اگر ایسا ہوا تو میں کیا کروں گا۔ اللہ پاک نے اگر میری زبان سے کوئی دعا کے الفاظ نکلوائے ہیں،اللہ پاک مجھے دے رہا ہے،خدا نخواستہ میں اس کو کاٹ دوں اور اس پر ہی فیصلہ ہوجائے تو میں کیا کروں گا۔ اس لئے مجھے ان اشعار کو کاٹنے کی ہمت نہیں ہوئی، یہ ایک دعائیہ غزل تھی، میں نے اس میں غالباً 5، 6 شعر بڑھا دیے۔

بہرحال انسان کو ان آداب کا خیال رکھنا چاہیے اور بنیاد سے ہٹنا نہیں چاہیے، ایک ہی چیز بنیاد ہے اور وہ ہے توجہ الی اللہ۔

سوال نمبر11:

حضرت نفس کے حقوق اور نفس کے حظوظ کے بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

نفس کے حقوق اور نفس کے حظوط کی مثال ایسے ہے جیسے ضرورت اور خواہش۔ خواہشات limitless ہیں ان کی حد نہیں ہے، جبکہ ضرورتیں محدود ہیں۔ اسی طرح نفس کے حقوق محدود ہیں اور حظوظ یعنی مزے غیر محدود ہیں۔

حقوق محدود ہیں وہ پورے ہو جاتے ہیں۔ مثلاً آپ اتنا سوئیں کہ بیمار نہ ہوںاور ہشاش بشاش رہ کر کام کر سکیں، یہ نفس کا حق ہے۔ لیکن آپ سوتے ہی رہیں جتنا آپ کا جی چاہے، یہ نفس کے حظوظ میں سے ہے۔ آپ اتنا کھائیں کہ بیمار نہ ہوں اور مر نہ جائیں، یہ نفس کا حق ہے، لیکن آپ بے تکان لذیذ ترین چیزیں کھاتے رہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے، یہ نفس کے حظوظ میں سے ہے۔ حقوق محدود ومتعین ہوتے ہیں، کتابوں میں لکھے ہوئے ہوتےہیں جبکہ حظوظ لامحدود ہیں اور اتنے زیادہ ہیں کہ شاید کتابوں میں پورے لکھے بھی نہیں جا سکیں۔

دنیا اور امتحان

دنیا نہیں ہے ایک ہے یہ امتحان گاہ ہر ایک پہ پرچہ ہے مگر ہے جدا جدا کس کو دیا بہت ہے کسی کو بہت ہی کم پرچہ کسی کا شکر کا اور صبر کسی کا

مقام شکر

فضل خدایا سلسلے پہ ہمارا تیرا بہت زیاد ہے رحمت کی نظر کیا تیرا بس ہم تو شکر اب ہر آن کریں خدایا تیرا کبھی بھی شکر ہو سکا نہیں ادا تیرا

دل میرا تجھ پہ مرمٹا ہے جو اس کو بھی کھینچ کے لایا ہے تو میں کسی اور کا کیا ذکر کروں جب سے دل میں میرے آیا ہے تو

دل بیدار ہی قرآن سے ہدایت لے لے دل ذاکر ہی تو اللہ سے حکمت لے لے اپنے ارد گرد ہمارے ہیں یہاں چیزیں سب بس رکاوٹ نہ ہو دل میں ہر سعادت لے لے نور آنے سے ہی ظلمت بھاگے علم آنے سے جہالت بھاگے دل ہو بیدار نور پر نور ہو دل سے دنیا کی محبت بھاگے

تشریح:

علم آنے سے جہالت بھاگتی ہے۔دنیا کی محبت دل سے نکلنے سے نور آتا ہے۔ ایک نور علم کا ہے اور ایک نور دنیا کی محبت کے نہ ہونے کا ہے۔جب یہ دونوں اکٹھے ہو جائیں تو نور علی نور ہو جائے گا۔


رحم کر اس کے بندوں پر تو ہو گا رحم تجھ پر بھی کہ بندے اس کا کنبہ ہے خبر لے اس کے کنبہ کی مگر وہ لوگ جو دشمن ہیں کنبہ کے ان پر رحم کرنا ہے ظلم مظلوم پر تو ان کا نہ ساتھ ہو تیری

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ