اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
فضائل اعمال میں ایک حدیث پڑھی تھی، جس کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ کہ جنت میں جانے کے بعد جنتی لوگوں کو صرف ایک دکھ ہو گا کہ جو لمحہ دنیا میں اللہ کی یاد کے بغیر گزارا تھا اس پر انہیں غم ہو گا، اس کے علاوہ اور کوئی دکھ نہ ہو گا۔ دنیا میں ہم ذکر کرتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور عبادت کے علاوہ جو وقت ہوتا ہے اس میں بات چیت کرتے ہیں یا کبھی کوئی خبر غم کی یا خوشی کی سنی تو ذہن دوسری طرف چلا جاتا ہے اور کچھ وقت کے لئے اللہ یاد نہیں ہوتا۔ ایسے وقت میں بندہ کیا کرے؟ کیا ایسے وقت کا بھی جنت میں افسوس ہو گا؟
جواب:
اچھا سوال ہے۔ دو باتوں پہ انسان کو زیادہ دکھ ہو گا۔ ایک تو یہ کہ انسان دنیا میں اگر ذکر سے غافل رہا ہو گا، کیوں کہ ذکر انتہائی آسان عبادت ہے اور ہر وقت کی جا سکتی ہے اس پر پابندیاں بھی نہیں ہیں۔ اس وجہ سے دکھ ہو گا کہ اتنی آسان عبادت جو ہم ہر وقت کر سکتے تھے وہ ہم نے کیوں نہیں کی! جیسے لاہور کا پانچ، ساڑھے پانچ گھنٹے گاڑی کا سفر ہوتا ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق اس دوران بیس، بائیس ہزار دفعہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ پڑھا جا سکتا ہے۔ تقریباً اتنی ہی مرتبہ چھوٹا درود شریف بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ کوئی سفر کرے تو دنیا میں پتا نہیں چلے گا کہ ہم نے کیا نقصان کیا، کبھی اُدھر دیکھا کبھی اِدھر دیکھا، کبھی بات چیت کی، کبھی سو گئے۔ لیکن آخرت میں پتا چل جائے گا کہ ہم کیا کر سکتے تھے اور اس کی کیا برکات تھیں۔ پھر افسوس ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو تکالیف، پریشانیاں مسلمانوں کو پہنچتی ہیں ان پے ملنے والے اجر کو جب لوگ دیکھیں گے تو بعض لوگ کہیں گے کاش! ہماری جلد بھی قینچیوں سے کاٹی جاتی، آج ہمیں بھی اس کا اجر مل جاتا۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذکر مُثبت ہے اور تکالیف منفی ہیں۔ منفی پہ صبر ہے اور منفی پہ صبر بھی مثبِت بن جاتا ہے۔ معلوم ہوا دو چیزیں ایسی ہیں جن پہ انسان کو بڑا ہی دکھ ہو گا۔ انسان تکالیف کو زبردستی نہیں لا سکتا تو اس کی کمی ذکر سے پوری کی جا سکتی ہے۔ کثرت کے ساتھ ذکر کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی یاد کے ذریعہ جو اس کو نعمتیں ملیں گی وہ اس چیز کو کم کریں گی ورنہ واقعی وہاں پر تکلیف بہت ہو گی کیوں کہ ہم بہت سارا وقت یہاں ضائع کر دیتے ہیں۔
جب آپ خانقاہ آتے ہیں تو میں ذرا سختی کرتا ہوں تاکہ آئندہ کے لئے آپ کی ذکر کرنے کی عادت بن جائے اور یہاں پر بھی وقت ضائع نہ ہو۔ خانقاہ میں انسان اپنی اصلاح کے لئے آتا ہے۔ یہاں پر بھی انسان متوجہ نہ ہو تو اس کا آخرت میں پتا چلے گا کہ ہم نے اتنا بڑا نقصان کیا۔ غفلت کے ماحول میں غافل رہنا الگ بات ہے لیکن ذکر کے ماحول میں غافل رہنا افسوس ناک ہے۔ ہماری اس وقت آپ پر سختیاں نسبتاً آپ کے لئے وہاں کی خوشیاں ہیں۔ کہتے ہیں: "جورِ استاد بہ ز مہرِ پدر" ”استاد کی ڈانٹ باپ کے پیار سے زیادہ اچھی ہے“ یعنی جس مقصد کے لئے آیا اگر وہ مقصد پورا نہ ہو تو پھر غلط بات ہے۔ بعض لوگ عام دنیا میں بھی غفلت میں نہیں ہوتے بلکہ اللہ پاک کی یاد میں رہتے ہیں۔ مثلاً ایک بزرگ جو صاحبِ کشف تھے وہ فرما رہے تھے کہ ایک شخص خانہ کعبہ کے پردے کو پکڑے ہوئے زار و قطار رو رہا تھا۔ کہتے ہیں: میں نے جب اس کے دل کی طرف دیکھا تو اس میں دنیا ہی دنیا تھی اور ایک شخص بازار میں تھان پر تھان بیچ رہا تھا اس کے دل کی طرف دیکھا تو اللہ کی طرف متوجہ تھا۔ معلوم ہوا اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً جس کو اللہ جل شانہ بے حد نواز رہا ہے اور انسان اس پے شکر کر رہا ہے، اس چیز کا اپنے آپ کو قابل نہیں سمجھ رہا بلکہ اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھ رہا ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ ہے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ جا رہے تھے تو راستے بھر لطیفے سناتے رہے۔ لوگ ہنس رہے تھے۔ جب منزل پے پہنچ گئے تو لوگوں سے پوچھا: کیا آپ لوگ اس دوران اللہ سے غافل ہو گئے تھے؟ انہوں نے کہا: جی ہم غافل ہو گئے تھے۔ فرمایا: الحمد للہ میں غافل نہیں ہوا تھا۔ جو لطیفے سنا سنا کے بھی غافل نہ ہوا تو یہ کیا چیز تھی؟ معلوم ہوا دل کو ایسا بناؤ کہ وہ ہر وقت اللہ کی طرف متوجہ رہے۔ جو کام بھی کرے اللہ کی رضا کے لئے کرے۔ جیسے صحابہ کے لئے یہ لفظ قرآن پاک میں ہے "وَلَا تَطْرُدِ ٱلَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِٱلْغَدٰوةِ وَٱلْعَشِىِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ" (الانعام: 52)
ترجمہ: ”اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے پکارتے رہتے ہیں۔“
جب اللہ کی رضا چاہیں گے تو دنیا میں بھی چاہیں گے، آخرت میں بھی اور دین میں بھی چاہیں گے۔ ان کا سب کچھ اللہ کے لئے ہو جائے گا۔ لیکن اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے خلوت در انجمن کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلوت در انجمن نقشبندی بزرگوں کی اصطلاح ہے۔ یعنی انجمن میں لوگوں کے درمیان ہو کر بھی اللہ کے ساتھ ہے، لوگوں کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ نسبتاً کافی مشکل ہے کیوں کہ لوگوں کے اندر رہ کر لوگوں کے اندر نہ ہونا مشکل کام ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں۔
سوال 2:
کہتے ہیں کہ رمضان المبارک میں شیطان باندھ دیئے جاتے ہیں پھر بھی نماز کی حالت میں وساوس آتے ہیں۔ کیا ہمارے نفس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے یا دنیا کی محبت کی وجہ سے ہے؟
جواب:
اچھا سوال ہے۔ دو باتوں کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ ایک ہیں ”وساوس“ اور دوسرا ”حدیث نفس“ ہوتا ہے۔ وسوسہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔ حدیث نفس، نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر آپ کو ایک چیز پسند ہے اور نماز کے اندر مسلسل آپ کو اسی کا خیال آ رہا ہے تو یہ حدیث نفس ہے، یہ وسوسہ نہیں ہے۔ وسوسہ اور حدیث نفس کے اندر بہت بڑا فرق یہ ہے کہ وسوسہ ایک جیسا نہیں ہوتا بلکہ مسلسل تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ اگر آپ ایک وسوسے سے بچیں گے تو شیطان دوسرا ڈال دے گا، دوسرے سے بچیں گے، تیسرا ڈال دے گا کیوں کہ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کو کون سا وسوسہ ڈالا جائے، اس کو اس سے غرض ہے کہ تمہیں اپنے اللہ سے دور کیا جائے جب کہ حدیث نفس میں ایک ہی چیز مسلسل چل رہی ہوتی ہے۔ کیوں کہ وہ نفس کی خواہش ہوتی ہے۔
سوال 3:
جب ہم کسی چیز کو یاد کرتے ہیں تو اس کا خیال ذہن میں آتا ہے۔ تو جب ہم اللہ کو ذکر کر کے یاد کریں تو پھر اپنے ذہن میں کیا لانا چاہیے؟ دوسروں کو یاد کرنے سے ان کا خیال آ جاتا ہے لیکن اللہ کا ذکر کرتے وقت کیا ذہن میں لائیں کیونکہ اللہ تو وراء الوراء ہے۔
جواب:
ما شاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ تین مرحلوں سے انسان گزرتا ہے۔ پہلے انسان اللہ کے ذکر کو یاد کرتا ہے یعنی ذکر کی طرف متوجہ ہوتا ہے پھر ذاکر یعنی دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور پھر مذکور یعنی اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ معلوم ہوا سب ذکر لا الہ الا اللہ۔ الا اللہ۔ اللہُ اللہ اللہ یہ سب سلسلے اس کی طرف چل رہے ہیں۔ آخری stage وہی ہے: "اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّكَ تَرَاہ فَاِنْ لَّم تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاكَ" (البخاری، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ”تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے۔ پس اگر تو یہ نہیں کر سکتا تو بے شک وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔“
اگر ہم باقی چیزوں کے بارے میں یاد کریں تو خیال میں آتا ہے لیکن اللہ کیسے خیال میں آئے گا؟ جیسے انسان دیکھ رہا ہو، یہ ایک کیفیت ہے اور کیفیت الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ یہ جس کو حاصل ہوتی ہے وہی جان سکتا ہے۔ دل کی کیفیت جب ایسی بن جائے جیسے گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے تو پھر جب بھی وہ اللہ کو یاد کرے گا تو اس طرف چلا جائے گا۔ مختلف طریقے ہیں جیسے تصوف میں اللہ پاک کے صفاتی ناموں کا یاد کرنا، رحمن کی طرف توجہ، رحیم کی طرف توجہ۔ اس میں نور بھی ہے، ہادی بھی ہے۔ اخیر میں کہتے ہیں کہ ان کو بھی درمیان سے نکالو یعنی براہ راست اللہ کی طرف انسان متوجہ ہو جائے۔ جیسے سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ کا ”ہو“ ہے۔
الف اللہ چنبے دی بوٹی میرے مرشد من وِچ لائی ہو۔
”ہو“ میں کوئی صفت نہیں ہے۔ یہ اسم ضمیر ہے اور خالص اس کی طرف اشارہ ہے۔ جب کسی کا ہو بن جائے پھر وہ ہو کے ذریعہ سے سب کچھ کرتا ہے۔ ہمارے سلسلہ چشتیہ نظامیہ میں اور قادریہ میں اس کا خصوصی ذکر ہے۔ جیسے اللہ ہو، اللہ ہو۔ ’’اللہ‘‘ باہر نکالتے ہیں ’’ہو‘‘ اندر لاتے ہیں۔ پھر صرف ہو، ہو، ہو کرتے ہیں۔ جب پختہ ہو جاتا ہے تو پھر وہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں آدمی معذرت ہی کر سکتا ہے کہ جب تک وہ کیفیت حاصل نہ ہو، اس کا ادراک نہیں کروایا جا سکتا۔ صرف اس کی لفظی انداز میں یا علمی انداز میں تشریح کی جا سکتی ہے۔ البتہ جس وقت کسی کو حضوری کی وہبی کیفیت حاصل ہو جائے پھر وہ محسوس کرتا ہے۔ ان ظاہری آنکھوں سے اللہ پاک کو دیکھا ہی نہیں جا سکتا۔ موسی علیہ السلام سے فرمایا گیا تھا: ﴿لَنْ تَرٰىنِیْ﴾ (الأعراف: 143) اور آپ ﷺ کے بارے میں ہے کہ معراج شریف میں اللہ پاک کا دیدار ہوا تھا۔ علمی لحاظ سے یہ بھی اختلافی ہے۔ کچھ علماء کرام کہتے ہیں کہ ہاں ایسا ہوا ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نہیں ہوا۔ اس وجہ سے اس دنیا میں حقیقی آنکھوں سے دیکھنا نا ممکن ہے لیکن دل کی آنکھوں سے دیکھنا الگ بات ہے، وہ dimensions ہی الگ ہے، وہ نظام ہی الگ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ پھر اللہ پاک نے میرے سینے پہ ہاتھ رکھا اور اس کی ٹھنڈک میں نے دور تک محسوس کی۔ یہ ایک کیفیت ہے۔ پوچھا کہ ملأ اعلی کس چیز میں جھگڑ رہے ہیں؟ فرمایا: یا اللہ مجھے معلوم نہیں ہے۔ پھر فرمایا کہ اللہ پاک نے میرے سینے پے ہاتھ رکھا ہے۔ فضائل اعمال میں حدیث شریف موجود ہے۔
سوال 4:
حضرت! وسوسہ کا علاج تو یہ ہے کہ اس کی طرف توجہ نہ کی جائے لیکن حدیث نفس کے بارے میں بتائیں کہ اس کا کیا علاج ہے؟
جواب:
اصل میں دونوں باتوں میں ایک ہی نتیجہ ہے کہ نہ وسوسہ کی طرف توجہ کرنی چاہیے، نہ حدیث نفس کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ اس میں sources میں تو فرق ہے۔ یعنی شیطان کی طرف سے وسوسہ ہے اور نفس کی طرف سے حدیث نفس ہے لیکن وقتی علاج دونوں کا ایک ہی ہے کہ توجہ نہ کرو۔ نفس جتنا سیدھا ہوتا جائے گا حدیث نفس اتنا کم ہوتا جائے گا۔
کلام
وسوسہ اور حدیث نفس:
نفس چاہے کہ ہو خواہش پوری
چاہے گناہ ہو یا ہو یہ ثواب
اور شیطان کی خواہش ہے یہ
کہ عاقبت ہماری ہو وے خراب
جو مسلسل رہے اور ختم نہ ہو
حدیث نفس ہے دبا دے اسے
بدل بدل کے برے خیال آئیں
وسوسہ ہے بس اسے چھوڑیں جناب
نفس کا علاج دبانے سے ہے اور شیطان کا علاج یہ ہے کہ پرواہ نہ کرے۔
جسم اپنا ہے مشین اعمال کا
اور دل کیفیت و احوال کا
دل کی آنکھیں کان ہوں سب ٹھیک تو
ڈھنگ جانے نفس کے استعمال کا
نفس بھی مانے حکم جو دل کرے
حال بھی ہو خیال رکھے قال کا
یعنی حال بھی موجود ہو لیکن شریعت کا بھی خیال رکھے۔
اور ذہن بھی دل کا تابع بن سکے
بندہ بن جائے نہ اپنے خیال کا
اپنے خیال کے پیچھے نہیں پڑنا۔ آج کل یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ میرے خیال میں ایسے ہونا چاہیے ویسے ہونا چاہیے۔ ہمارے خیال کی حیثیت ہی کیا ہے؟ شریعت کے مقابلے میں خیال کی کیا اہمیت؟
بندگی رب کی ملے پھر خوب خوب
کیا مزہ ہو گا پھر اس کے حال کا
ہو اگر یہ سب تمنائے محض
پھر محض کھیل قیل و قال کا
نفس اس کو دیکھ کے ہاتھ ملتا ہے
ہاں ارادہ ہو پکا ہمت بھی ہو
شیخ مل جائے اگر کمال کا
پھر ہو خواب شرمندۂ تعبیر شبیر
ہو فضل پھر رب ذوالجلال کا
معلوم ہوا انسان کو پوری زندگی عمل میں گزارنی چاہیے۔ کیفیات کی زبان نہیں ہوتی لیکن اگر کسی درجے میں ہوتی ہے تو وہ شاعری ہوتی ہے۔
پیاس بجھتی نہیں ہے جام چڑھانے کے بعد
ساقیا ہاتھ نہ روکنا اس پیمانے کے بعد
ہے یہ میخانۂِ عشاق صبح شام ملے
صبح کی صبح ملے اور شام آنے کے بعد
پی کے دیوانے بنے ہیں پر اتنے ہوش میں ہیں
کام میں جتے ہیں اشارہ سا ہی پانے کے بعد
یعنی حقیقی عشق یوں بے ہوشی نہیں لاتا کہ انسان اعمال سے ہی کٹ جائے بلکہ دیگر اعمال پہ لاتا ہے۔
(کیفیت)
کون پلاتا ہے مجھے گوشۂ تنہائی میں
ڈالتا پانی بھی ہے آگ سلگانے کے بعد
عشق جب اور بڑھےگا تو مزہ آئے گا
دل دِکھائے گا مرا دل کے چھپانے کے بعد
یہ محبت ہے یہ اک آگ ہے کیسے یہ چھپے
کیا پتا کیا ہو پیمانہ چھلک جانے کے بعد
کب تلک یوں ہی پیمانوں کی بات چلتی رہے
دور سارے ہوں مگر اس کے پلانے کے بعد
آگ پٹرول کی جب پانی سے بجھتی ہی نہیں
کیا بجھے آگ مری اس کے جلانے کے بعد
اب سمندر بھی نہ کافی ہو بجھانے کے لیے
ہاں بجھے یہ تو بجھے اس کے ہی پانے کے بعد
بے قراری مرے دل کی تجھے معلوم تو ہے
میں سب کا غیر ہوا تیرے اپنانے کے بعد
آج کل یہ بات ٪100 فٹ ہوتی ہے کہ جو اس کا ہوتا ہے دوسروں کا غیر ہو جاتا ہے۔ یہ بات بیک وقت حاصل ہونا بڑا مشکل ہے کہ لوگ یہاں بھی ہوں اور ادھر بھی ہوں۔
حد اس کے پیار کی کوئی نہیں ہو سکتی ہے
آگ ہے اور ابھرتی ہے دبانے کے بعد
موت خوش رنگ مرے دل کو نہ ہو کیوں اب شبیر
وعدہ اس کا جو ملنے کا ہے مرنے کے بعد
یہ کیفیات ہیں اور جب ان میں جان آتی ہے تو پھر وہ والی بات نہیں رہتی جو آپ نے کہی ہے۔ یہ بھی کیفیت ہے لیکن ذرا ملی جلی کیفیت ہے جیسے کسی کو گدگداتے ہیں۔
دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے
میں وصلِ یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے
اس زیست کا ہر لمحہ امانت ہے اس کی جب
یہ اس کے لئے ہی صرف ہو اس پہ آؤں میں کیسے
وہی غفلت والی بات ہے کہ ہر وقت پھر اس پہ ہی افسوس ہو گا۔
ہر دم وہ چاہے میری نظر اس کی طرف ہو
اغیار کے اشاروں سے دل بچاؤں میں کیسے
نفس اور حدیث نفس اغیار کے اشارے ہیں۔
دل مطمئن تو اس پہ ہے کہ اس کا ہی رہے
پر نفس کو اس پہ مطمئن کراؤں میں کیسے
آنکھوں کے سامنے شر ہے جس میں خیر ہے مخفی
اس خیر میں شر سے آنکھیں اب ہٹاؤں میں کیسے
سامنے نا محرم آ رہا ہو تو وہ شر ہے لیکن اس سے منہ موڑنا خیر ہے۔اس میں اللہ تعالیٰ کی خوشبو بھی ہے۔ کس طریقے سے میں اس شر سے آنکھیں ہٹاؤں تاکہ خیر حاصل کر لوں؟ کچھ سیکھنا پڑے گا۔
جو شیخ کی دہلیز ہے پکڑو اسے شبیر
بہتر ہو اس سے بھی وہ گر بتاؤں میں کیسے
ہم یہی کر سکتے ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ سب سوالوں کا جواب آ گیا۔
عَجب نہیں ہے یہ وہ میرے خیالوں میں ہے
جو خوش نصیب ہیں لوگ وہ ان کے دلوں میں ہے
یہ کائنات ہر اک چیز اس کے دم سے ہے
جو اس کو جان لے تو وہ ہی سیانوں میں ہے
جس کو محبوب ہوں ہر وقت سنتیں اس کی
ہو وہ مؤمن بخدا رب کے وہ پیاروں میں ہے
دل محبت سے ہو پُر اس کی زباں پر ہو درود
اور سنت پر ہو عمل کام یہ کاموں میں ہے
سارے محبوبوں کے ست سے ہے بنا یہ محبوب
وہ عقلمند ہے جو اس کے دیوانوں میں ہے
میرے ليے یہ سعادت کچھ کم نہیں ہے شبیر
کہ میرا نام اس کے چاہنے والوں میں ہے
اب مزید اس کی طرف جاتے ہیں۔
دل عشق سے لبریز خیالوں میں وہ موجود
سورج کی روشنی میں ہواؤں میں وہ موجود
اس کے ہی ارادے سے ہر اک چیز ہے قائم
ہے چاند میں موجود ستاروں میں وہ موجود
جس دل میں بصیرت ہو وہ دیکھے اسے ہر وقت
ہر آن ہر جگہ مشاہدوں میں وہ موجود
(بصیرت یعنی جس سے دل کی آنکھیں جس کی کھلی ہیں)
کیا فعل ہے ممکن اگر اس کا نہ ہو فاعل
ایسے ہی سوالوں کے جوابوں میں وہ موجود
فطرت کے مطابق ہے رخ بگاڑ کی طرف
اجزائے منتشر سے تعمیروں میں وہ موجود
entropy بگاڑ کی طرف جا رہی ہے تو کیسے اجزائے منتشر سے ساری چیزیں تعمیر ہو رہی ہیں؟
تھوڑی سی اپنے آپ کی تخلیق ہو سامنے
انسان میں موجود نظاموں میں وہ موجود
گر عقل نفس زدہ نہ ہو اور حق کی طلب ہو
سر بستہ کائنات کے رازوں میں وہ موجود
شبیر تم طلب دل بیدار تو کر لو
سچی طلب کے ساتھ دعاؤں میں وہ موجود
واقعی اگر کسی کو دعا مل جائے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ میں اللہ کے قریب ہوں۔ گویا کہ ذکر اور دعا اللہ تعالیٰ کے ادراک کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔
جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو عشق ہو جائے تو وہ ایک البیلی عشق ہوتا ہے۔ وہ دنیا کی چیزوں کے عشق کی طرح نہیں ہوتا، اس کے رنگ پھر نرالے ہیں۔
عشق کی آگ چپکے چپکے جلے
اور دل خدا سے چپکے چپکے ملے
تیرتی رہتی نمی آنکھ میں ہو
پر ادب سے کوئی آنسو نہ گرے
شمع کی طرح پگھلنا تو ہو
پر ادب سے قدم اپنا نہ ہلے
دل میں اک آگ عشق کی برپا ہو
پر نظر آئیں نہ اس کے شعلے
آنکھیں دید کو ترستی رہیں
منہ سے چپ ہو اور کوئی اف نہ کرے
عشق کی آگ لگائے تو لگے
لگے شبیر تو پھر وہ نہ بجھے
انسان کو آہستہ آہستہ ان چیزوں کا احساس ہوتا ہے۔ لوگوں کا ہر عمل اللہ کا بن جاتا ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں۔
یہ ہنسنا یہ رونا خدا کے لئے ہو
یہ جاگنا یہ سونا خدا کے لئے ہو
خدا کی مدد اور تائید ہووے
اگر کام ہونا خدا کے لئے ہو
یہ پانا ہے بالکل یہ پانا ہے بالکل
اگر خود کو کھونا خدا کے لئے ہو
دھلے حبِ دنیا سے دل میرا ہو صاف
مگر اس کا دھونا خدا کے لئے ہو
جو بوئے یہاں پر وہاں کاٹے شبیر
مگر اس کا بونا خدا کے لئے ہو
ہر کام خدا کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ یہی تصوف ہے کہ انسان ہر چیز اللہ کے لئے کرے "مَنْ کَانَ لِلہِ کَانَ اللہُ لَہٗ"
ترجمہ: ”جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا۔“
ہمارے بس میں اپنے آپ کو اللہ کا بنانا ہے۔ اللہ کا ہمارے لئے ہونا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ البتہ یہ اس کا وعدہ ہے اور اللہ کے وعدے پہ یقین کرنا چاہیے۔ ہم اپنے آپ کو اللہ کا کر دیں تو اللہ ہمارا ہو جائے گا۔
قلب میرا ہو سلیم ایسا بنانا مجھ کو
جن کے تو ساتھ ہے ایسوں سے ملانا مجھ کو
تو مرے دل میں رہے میں تری نظروں میں رہوں
اپنی نظروں سے الٰہی نہ گرانا مجھ کو
وسعت قلبی کا شیشہ مجھے عطا کرنا
تنگ نظری سے ہمیشہ تو بچانا مجھ کو
نفس میرا ہو شریعت پہ مطمئن یا رب
اور تو اپنا بنا دینا دیوانہ مجھ کو
آمد شعر ہے اور کیف ہے، ہے فضل ترا
اپنے آدابِ محبت بھی سکھانا مجھ کو
ترا بندہ ہوں میں خاکی جو ہے شبیر موسوم
رہِ شبیر حقیقت میں دکھانا مجھ کو
ہماری ایک غزل ہے جس میں مجرم میں جیم سے ایک نقطہ ہٹا دو تو محرم بن جائے گا۔ صرف ایک نقطے کا فرق ہے۔
سر حق کی معرفت میں ذرا تو جھکا کے دیکھ
جو تُو ہے ترے دل میں اسے تُو مٹا کے دیکھ
کتنے فضول کام ہمارے نظر آئیں
تھوڑا سا شہرتوں سے تصور ہٹا کے دیکھ
یہ کیمرے اور یہ لاؤڈ سپیکروں پہ اعلان وغیرہ اور یہ اخبار کی خبریں، یہ فیشن وغیرہ سب فضول شوق ہیں۔ سارے کیسے ختم ہوں گے؟
مسئلے جو تیرےحل نہ ہوئے مال سے اگر
کچھ اس سے تو نادار کو بھی تو کھلا کے دیکھ
کب تک تو بے مہار لذتوں میں رہے گا
ان کو تو شریعت کے دائرے میں لا کے دیکھ
اخلاق حمیدہ سے مسلح تو خود کو کر
اخلاق ذمیمہ کے رذائل دبا کے دیکھ
دنیا کی چیزیں آئیں نظر ساری تجھ کو ہیچ
اللہ کا تصور ذرا دل میں سجا کے دیکھ
ہر چیز کے ڈر نے تجھے بزدل بنا دیا
ناراضئِ خدا سے تو دل کو ڈرا کے دیکھ
کتنوں کو منانے میں تو ناکام ہوا ہے
توبہ سے ذات بحت کو ذرا تو منا کے دیکھ
دل عشق سے ہو لبریز عقل اس کی ہو خادم
اور قیِد شریعت میں بھی دونوں کو لا کے دیکھ
مجرم سے تو محرم بنے اک آن میں شبیر
دنیا کو چھوڑ اس کو تو دل میں سما کے دیکھ
وہ دل میں آ جائے تو مجرم سے محرم بن گیا اور سارا معاملہ ہی ٹھیک ہو جائے گا۔ اس وجہ سے صوفیاء اسی پہ محنت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں: یہ مدرسہ نہیں پڑھاتے، یہ نہیں کرتے، وہ نہیں کرتے حالانکہ ہر چیز یہی تو کرتے ہیں۔ بس اللہ کا ذکر کرو دل کی طرف متوجہ رہو، اصل میں اسی ایک بات سے ساری چیزیں ہو رہی ہیں۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جو اس راستے کے آشنا اور جاننے والے ہیں وہ فرماتے ہیں:
بینی اندر خود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا
اپنے اندر علوم انبیاء کو پھر دیکھو گے۔ کیونکہ انبیا پہ تو وحی آتی ہے، جو اب نہیں آ سکتی لیکن الہام آ سکتا ہے۔ چنانچہ ساری چیزیں جو اللہ کے علم میں ہیں وہ آنے لگیں گی۔
ایک بہت بڑے محدث اور عالم حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو گئے۔ جو بالکل ان پڑھ تھے۔ انہوں نے حضرت عبد العزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ کی شہرت سنی ہوئی تھی، انہوں نے ایک sentence بنایا کہ اس میں ایک لفظ قرآن کا لیا جیسے فرعون۔ اب کون جانتا ہے کہ یہ قرآن سے لیا ہو گا۔ ایک لفظ حدیث سے لیا، ایک حدیث قدسی سے لیا اور ایک عام عربی کا لفظ لیا اور ایک sentence بنا دیا۔ حضرت کو دکھا کر پوچھا: حضرت یہ کیا ہے؟ جو قرآن سے لیا گیا تھا اس پہ ہاتھ رکھ کے فرمایا: یہ قرآن سے ہے۔ جو حدیث سے لیا گیا تھا اس پہ ہاتھ رکھا کہ یہ حدیث سے ہے۔ حدیث قدسی کا کہا: یہ نہ حدیث ہے نہ قرآن ہے اس کے درمیان درمیان کوئی چیز ہے۔ اتنے امی تھے کہ حدیث قدسی کے نام کا بھی علم نہیں تھا۔ عام عربی کے بارے میں فرمایا: اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا: حضرت ساری چیزیں آپ نے صحیح بتائی ہیں۔ آپ کو معلوم کیسے ہو گیا؟ فرمایا: اور تو کچھ مجھے معلوم نہیں البتہ قرآن و حدیث کے نور کے بارے میں مجھے معلوم ہے کہ کیسا ہوتا ہے۔ جن الفاظ سے قرآن و حدیث کا نور آ رہا تھا میں سمجھ گیا اور جو ان کے درمیان کا نور تھا میں نے کہا کہ یہ درمیان کی چیز ہے۔ عرض کی: حضرت اس کو حدیث قدسی کہتے ہیں اور پھر حضرت سے بیعت ہو گئے۔ اسی طرح فضائل اعمال میں لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کے فضائل میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک بہت بڑے عالم ایک بزرگ سے بیعت ہوئے۔ انہوں نے ان کو لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کا ذکر تلقین کیا اور ساتھ فرمایا کہ بس فرض نماز پڑھو اور صرف یہ ذکر کرو اور کچھ نہ کرو۔ کچھ دنوں میں حضرت کو پتا چل گیا کہ وہ قرآن پاک کا درس دیتے ہیں۔ پیغام بھجوا دیا کہ یہ درس موقوف کرو۔ اب لوگوں کو باتیں کرنے کا زبردست موقع مل گیا کہ یہ مرید بھی زندیق ہے اور شیخ بھی زندیق ہے۔ قرآن کا درس رکوا دیا وغیرہ۔ لیکن مرید بھی پکے تھے اور شیخ بھی پکے تھے لہٰذا ان کے اوپر لوگوں کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کچھ عرصے کے بعد لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہ کے ذکر نے اثر کر دیا تو فرمایا: اب قرآن کا درس شروع کر لیں۔ جب درس شروع کیا گیا تو عالم نے فرمایا: میں پہلے وہ بیان کرتا تھا جو میں نے پڑھا تھا یعنی کتابی علم۔ اب جو میں نے قرآن کھولا تو ہر چیز کے پیچھے علوم کا سمندر نظر آ رہا ہے۔ یعنی وہ علوم بھی جو میں نے نہیں پڑھے لیکن آ رہے ہیں۔ اس لئے فرمایا کہ:
بینی اندر خود علوم انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا
لیکن یہ یاد رکھیے کہ اللہ پاک کی سنت عادیہ ہے کہ اللہ جل شانہ اسباب میں قدرت کو چھپاتے ہیں لہٰذا یہ واقعات بھی ہیں کہ بالکل ان پڑھوں کو بہت کچھ دے دیا لیکن ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ عموماً ایک عالم کے ساتھ اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت کو شامل کر دیا تو وہ عالم بحر ذخار ہو گیا۔ جیسے مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے کہاں سے پڑھا تھا کیونکہ وہ عجیب باتیں کرتے ہیں جو کتابوں میں نہیں ملتیں۔ مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ادھر ہی سے پڑھا تھا جہاں سے ہم نے پڑھا ہے۔ بس اللہ کی مرضی ہے کسی کو سوئی کے ناکے کے برابر دے دیتے ہیں اور کسی کو سمندر کے برابر دے دیتے ہیں۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں لکنت نہیں تھی لیکن جب تقریر کرتے تھے تو لکنت ہو جاتی تھی، اٹک جاتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا: حضرت! ویسے آپ باتیں صحیح کرتے ہیں لیکن جب تقریر کرتے ہیں اٹک جاتے ہیں کیا وجہ ہے؟ فرمایا: کیا کروں ایک ایک چیز کے چودہ، پندرہ معانی سامنے آ جاتے ہیں۔ مجھے درمیان میں سے لینا پڑتا ہے تو پھر سوچنے میں ذرا اٹک جاتا ہوں۔ یعنی علم اتنا زیادہ تھا کہ چننے میں مشکل ہو جاتی تھی۔ جیسے کسی کے سامنے بہت اچھی اچھی بہت ساری چیزیں پڑی ہوں تو اس میں سے pick کرنے میں ٹائم لگتا ہے۔
ایک خاص concept اس میں دیا گیا ہے جس کا نام ہے ”بجتا کٹورا“
بجتا زیادہ کٹورا خالی ہے
جو بھرا ہو وہ شور سے عاری ہے
وہ ٹھک ٹھک کرتا ہے اور شور نہیں کرتا۔
صرف ظاہر پہ جو ہیں مست ہیں وہ
گردن دل والوں نے جھکا لی ہے
ظاہر والے شور کرتے ہیں کہ یہ ہو گیا وہ ہو گیا لیکن دل والے گردن جھکا کے بیٹھے رہتے ہیں۔ اپنے یار کے ساتھ مشغول ہوتے ہیں۔ ان کو کسی کے ساتھ کوئی کام نہیں ہوتا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿صِبْغَةَ اللهِۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً٘﴾ (البقرۃ: 138)
ترجمہ: ”(اے مسلمانوں! کہہ دو) ہم پر تو اللہ نے اپنا رنگ چڑھا دیا ہے اور کون ہے جو اللہ سے بہتر رنگ چڑھائے؟ اور ہم صرف اسی کی عبادت کرتے ہیں۔“
اصل میں عیسائی زرد رنگ میں ڈبو دیتے ہیں، بپتسمہ کرواتے ہیں۔ تو اللہ پاک نے فرمایا کہ اللہ کا رنگ سب سے اچھا ہے۔
مجھے اپنے رنگ میں رنگ دے مرا اپنا رنگ نہیں ہے
ترا رنگ ہی مرا رنگ ہو مری آرزو اب یہی ہے
ترا رنگ سب پہ ہے غالب سارے رنگ جذب ہوں اس میں
گو نظر میں ہو یہ سیاہ پر یہی اصل میں روشنی ہے
تصور ذات بحت کا رنگ سیاہ ہے اس لئے وہ سب رنگوں کو جذب کر لیتا ہے۔
مرا رنگ فانی مٹے گا ترا رنگ اس پہ چڑھے گا
یہ فنا بقا کا ہے راستہ یہی بات میں نے سنی ہے
پہلے فنا ہو گا پھر اس کے بعد بقا ہے۔ یعنی اپنا رنگ جب مٹے گا تو یہ فنا ہے پھر اس کا رنگ چڑھے گا۔
میں ہوں خاک خاک کا میں ہوں مگر کس طرف میں ہوں منسوب
میں خطا کا پتلا یقیناً پر امید اس سے تو بھی ہے
مری لاج رکھ لے خدایا کروں سلسلہ نہ میں بد نام
بعض دفعہ تکلیفیں آتی ہیں تو لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ انسان کو جب حقیقت کا پتا ہو تو پھر نہیں گھبراتا، تکلیف کا احساس ضرور ہوتا ہے کیونکہ تکلیف کا احساس حیات کی علامت ہے لیکن اس سے بے صبری اور نا شکری نہ ہونا معرفت کی علامت ہے۔
پھول کے ساتھ تو کانٹا بھی لگا ہوتا ہے
خوشی کے پیچھے کبھی غم بھی چھپا ہوتا ہے
نہ دیکھو یہ کبھی بھولے سے بھی کہ کیا نہ ملا
ہے کامیاب جس نے شکر کیا ہوتا ہے
شکر کر شکر کہ ہوں اور نعمتیں زیادہ
نا شکری سے بھلا کس کا بھلا ہوتا ہے
جو ہو راضی برضا اس کی کامیاب ہے وہ
ان ہی کو اس نے تو آغوش میں لیا ہوتا ہے
زندگی بھر ہو ترا کام اس کو یاد کرنا
سکون قلب اس نے اس میں رکھا ہوتا ہے
چھوڑ دو اپنی خواہشات وہی چاہ تو بھی
جو وہ چاہتا ہے تو پھر دیکھ کیا ہوتا ہے
کر نظر اپنے عمل پر کیا بندگی ہے یہی
جو ہو بندہ تو وہ آقا پہ مٹا ہوتا ہے
جس کی اپنے عمل پہ نظر گئی وہ کیسا بندہ ہے؟
ابتلاء اور محبت یہ ہے لازم ملزوم
عشق عمارت ہے تو دروازہ فنا ہوتا ہے
وصل چاہتے ہو تو پھر دیکھو واصلین کے دل
وہ واصلین کے شبیر دل میں بسا ہوتا ہے
تصور شیخ ایک مشکل topic ہے۔ آج کل کے لحاظ سے مشکل ہے، پہلے مشکل نہیں تھا کیونکہ آج کل طبیعتوں میں گڑبڑ ہے۔ اچھی چیز بھی بعض دفعہ خراب ہو جاتی ہے۔ اس میں چونکہ لوگوں کو کبھی کبھی ندائے غیب کی طرف خیال چلا جاتا ہے تو اس وجہ سے پھر اس کو منع کیا جاتا ہے لیکن اصل میں یہ خراب نہیں ہے بلکہ اس کا فائدہ ہے۔ اس لئے ہمارے بزرگ نہیں دیتے لیکن جب ملتا ہے تو اس کو روکتے بھی نہیں ہیں۔
تصورِ شیخ
ہم تصور میں شیخ کو دیکھیں اور شیخ کے فیض سے ملے ہم کو خدا
شرک کیسے یہ تصور ہے کہ اس سے کیا ہوتے ہیں خدا سے جدا
یہ تو اک پل ہے جس پہ ہم گزر کے آگے پا جائیں منزلِ مقصود
شیخ کا کام ہے ملانا اس سے فرض اپنا کرتا وہ اس سے ہے ادا
ہاں مگر جس میں احتیاط نہیں، نہیں جائز اسے تصور یہ
ممکن ہے اس کے منہ سے نکلے کبھی غیب میں بصیغۂ حاضر کچھ ندا
اس لئے اپنے بزرگ دیتے نہیں یہ تصور عوام کو آج کل
کسی نا سمجھ کے کلام سے نہ ہو کوئی لفظ شرک کا کبھی ہویدا
ہاں مگر خود بخود کسی کو ملے اس کو روکتے بھی نہیں اس سے کہ
اپنی نعمت کی لاج رکھتے ہیں وہ شبیر اس کی یہ عادت ہے سدا
ایک عالم ہیں جو عامل بھی ہیں۔ وہ کسی استاد سے عملیات سیکھ رہے تھے جس میں بعض چلے لگانے ہوتے ہیں، جس میں استاد کا پیچھے بیٹھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس میں کچھ خطرے بھی ہوتے ہیں۔ چنانچہ استاد نے کہا: تم چلو اور کام شروع کرو، میں بھی پہنچنے والا ہوں۔ لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے وہ پہنچ نہ سکے اور وہ چلہ شروع کر چکے تھے اور سامنے دوسری چیزیں فعال ہو گئیں جو ڈرانے لگیں۔ جب ان کو ارد گرد سے ساری چیزیں دبانے لگیں۔ انہوں نے سوچا کہ بس اب میں حصار سے نکل کر بھاگ جاؤں۔ ان کے سامنے دیوار تھی وہ دیوار گر گئی اور ادھر سے وہ استاد باہر آئے اور کہا: خبردار! اگر اپنی جگہ سے اٹھے۔ بیٹھ جاؤ! ہلنا نہیں اپنی جگہ سے۔ بولے: مجھے تسلی ہو گئی اور بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد استاد بھی پہنچ گئے۔ میں نے جب بتایا تو انہوں نے کہا: یہ اللہ کی طرف سے مدد تھی مجھے تو پتا بھی نہیں۔ اللہ جل شانہ جس ذریعے سے بھی مدد کرنا چاہے، ممکن ہے کوئی فرشتہ میری شکل میں آیا ہو کیونکہ کسی اور شکل میں آتا تو آپ گھبرا جاتے۔ لیکن یہ سلسلے کی برکت ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
ایک خاتون کا مجھے فون آیا، وہ سرد علاقوں میں گئی ہوئیں ہیں۔ وہاں ایک ٹائیگر آ گیا۔ کبھی پہاڑوں سے نیچے اتر آتا ہے۔ وائلڈ لائف والے شکار کرنے کے لئے یا پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے اناؤنس کر دیا کہ رات کو کوئی باہر نہ رہے۔ عورت ذات ہے وہ بیچاری ڈر رہی تھی۔ کہتی ہے: جیسے میں سو جاتی تو آپ آ جاتے اور کہتے: گھبرانا نہیں کچھ بھی نہیں ہو گا۔ میں نے کہا: مجھے پتا بھی نہیں لیکن یہ سلسلے کی برکت ہے، اللہ تعالیٰ تجھے تسلی دے رہا تھا۔ سلسلے کی برکت یہی ہوتی ہے کہ اللہ جل شانہ اس کے ذریعے مدد فرماتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں اگر خواب میں ہو سکتی ہیں تو تصور میں بھی ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ ایسی چیزوں کو follow نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کو اللہ کی مدد سمجھنا چاہیے۔
England میں ایک فیملی ہے جو میرے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ان میں سے مرد کا فون آیا کہ میری بیوی کیا کہتی ہے؟ میں نے کہا: مجھے کیا پتا کیا کہتی ہے؟ کہتا ہے: آپ اس سے خود سنیں۔ اس نے اپنی بیوی کو ٹیلیفون دیا۔ اس نے کہا: شاہ صاحب! میں مراقبہ کر رہی تھی تو میں نے دیکھا کہ آپ آ گئے اور آپ میرے ساتھ بیٹھ گئے اور ہمارے ساتھ ذکر شروع کیا۔ اس وقت مجھے خیال ہی نہیں آیا کہ آپ اتنی دور کیسے آ سکتے ہیں؟ جس وقت میرا مراقبہ ختم ہو گیا تو آپ بھی نہیں تھے۔ میں نے میاں کو بتایا کہ اس طرح ہوا ہے۔ اس کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا: مجھے پتا بھی نہیں، مجھے تو آپ بتا رہی ہیں البتہ عین ممکن ہے کہ تمہیں یہ خیال ہو چکا ہو کہ ہم اتنے دور ہیں تو سلسلے کا فیض کیسے پہنچے گا؟ اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس خیال کا جواب دیا ہے کہ اگر یہ چیز یہاں پہنچ سکتی ہے تو سب چیزیں پہنچ سکتی ہیں۔ پھر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اگر میں اس کو اس تشریح کے ساتھ نہ بتاؤں تو اس میں پورا موجود شرک بن جائے گا کیونکہ پھر لوگ کہیں گے: پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ بس ہر جگہ پہنچ جائیں گے۔ شرک اسی طرح شروع ہوتا ہے، بنیاد اس کی ادھر سے ہی پڑتی ہے۔ اکثر تصوف کی کتابوں میں واقعات لکھے ہوتے ہیں جو بغیر کسی کامل کی راہنمائی کے نہیں پڑھنا چاہئیں۔ کیونکہ کچھ واقعات بغیر تشریح کے لکھے ہوتے ہیں، اگر تشریح صحیح نہ ہو تو آدمی اس سے غلط مطلب لے سکتا ہے۔ نتیجتاً گمراہ ہو سکتا ہے۔ واقعات صحیح ہوتے ہیں۔ جیسے میں نے کچھ واقعات ابھی سنائے ہیں۔ اگر ہم بھی تھوڑا سا خیال رکھیں تو پھر ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
وَ مَا عَلَينَآ إلَّا البَلَاغ