سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 138

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

انسان کا مقصد حیات بتا دیں، کیونکہ مجھے بہت وساوس آتے ہیں۔ اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا، اس کی وضاحت کر دیں۔

جواب:

جہاں تک انسان کے مقصدِ حیات کی بات ہے تو اللہ جل شانہ نے انسان اور جنات کے بارے میں قرآن پاک میں وضاحت کے ساتھ فرمایا ہے: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56)

ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔“

اس سے پتا چلا کہ انسان کو اللہ جل شانہ نے بندگی کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ بندگی وہ چیز ہے جو عبد سے بھی نیچے کی جگہ ہے کیوں کہ غلاموں کے حقوق ہوتے ہیں لیکن بندے کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ لیکن جب بندوں پے نوازش کی نظر ہوتی ہے تو پھر ان کو اپنی طرف سے مامور بھی کر دیا جاتا ہے اور اسی کو خلیفہ کہتے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے انسان کو بندگی کے لئے پیدا کیا۔ لیکن اللہ پاک نے اس کو اپنے احکامات کا مامور کرنے کے لئے خلیفہ بھی بنایا ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے ﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ: 30)

ترجمہ: ”اور (اس وقت کا تذکرہ سنو) جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں وہ کہنے لگے کیا آپ زمین میں ایسی مخلوق پیدا کریں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون خرابہ کرے حالانکہ ہم آپ کی تسبیح اور حمد و تقدیس میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ نے کہا: میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔“

چونکہ فرشتوں کو معلوم نہیں تھا تو اللہ پاک نے صراحتاً، حکماً فرمایا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہیں اس بات کو ماننا پڑے گا۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

اب ایک بڑی نعمت کا ذکر کیا جاتا ہے جو جملہ بنی آدم پر کی گئی اور وہ حضرت آدم علیہ السلام کی آفرینش کا قصہ ہے جو تفصیل سے بیان کیا گیا اور ان کو خلیفۃ اللہ بنایا گیا۔ پہلی آیت میں جو ﴿خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (البقرۃ: 29) فرمایا تھا۔ اس میں کسی کو انکار پیش آئے تو قصہ آدم سے اس کا جواب بھی بخوبی ہو گیا۔

ملائکہ کو جب یہ خلجان ہوا کہ ایسی مخلوق کہ جس میں مفسد اور خونریز تک ہوں گے ہم جیسے مطیع اور فرمانبردار کے ہوتے ان کو خلیفہ بنانے کی کیا وجہ ہو گی؟ تو بطریق استفادہ یہ سوال کیا۔ اعتراض ہرگز نہ تھا۔ رہا یہ امر کہ ملائکہ کو بنی آدم کا حال کیونکر معلوم ہوا؟ اس میں بہت سے احتملات ہیں۔ جنات پر قیاس کیا یا حق تعالیٰ نے پہلے بتا دیا تھا یا لوح محفوظ پر لکھا دیکھا یا سمجھ گئے کہ حاکم و خلیفہ کی ضرورت جبھی ہو گی جب ظلم و فساد ہو گا یا حضرت آدم علیہ السلام کے قالب کو دیکھ کر بطور قیافہ سمجھ گئے ہوں اور جیسا کہ ابلیس نے حضرت آدم کو دیکھ کر کہا کہ بہکول ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔

حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ جل شانہ نے ہمارا بابا بنایا ہے۔ یعنی سب انسان انہی سے پیدا ہوئے ہیں لہٰذا انسانیت کا پورا ایک مرکزی نقطہ آدم علیہ السلام ہیں۔ انسانیت کے اس مقام کو واضح کرنے کے لئے کہ سب خادم ہوں گے، فرشتوں سے سجدہ کروایا گیا جو تمام مخلوقات کے سردار ہیں۔ یہ علامتی سجدہ تھا کہ ان احکامات کے وہ تابع ہوں گے اور ان کے خادم ہوں گے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ 0 نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَؕ﴾ (حم السجدۃ: 30-31)

ترجمہ: ”(دوسری طرف) جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ نہ کسی بات کا غم کرو اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے جو تم منگوانا چاہو“

اس دنیا میں کس لئے تھے؟ ظاہر ہے نیک لوگوں کے تعاون پر مامور ہیں۔ پورے نظام کائنات کو چلانے والے بھی ہیں جن کا اصل فائدہ انسان اٹھاتا ہے۔ معلوم ہوا انسان کو اللہ پاک نے جو مقام دیا وہ یہ ہے کہ یہ اللہ کی مان کے چلے گا تو سب کچھ اس کا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

سب کچھ انسان کا ہے لیکن اگر یہ نہیں مانے گا تو چونکہ اتنے بڑے مقام سے اس نے اعراض کیا ہے تو اس کی سزا بھی سخت ہو گی۔ یہ خلافت کا بنیادی فلسفہ ہے۔

باقی جہاں تک وساوس کی بات ہے تو وساوس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے، شریعت کی بات کو ماننا چاہیے۔

سوال 2:

السلام علیکم

I wanted to inform you that nowadays, I do a lot of بد گمانی.

اللہ don’t like this. I tried to control it but still I am not fully successful. It has been happening for the last two weeks. I didn’t inform you before because I didn’t realize it. I am doing بد گمانی. Please help me. please tell me what to think of others?

دوسروں کے بارے میں کیا گمان ہونا چاہیے؟ آپ مجھے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے بارے میں بتا سکتے ہیں؟

Can you recommend any book related to حقوق اللہ and حقوق العباد?

میں لوگوں سے صرف اللہ کے لئے تعلق رکھوں اور ان سے اپنے لئے کچھ امید نہ رکھوں، صرف ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے ان کے ساتھ رہوں اور جب ادا ہو جائے تو واپس عبادات میں لگ جاؤں۔ میں ٹھیک سوچ رہی ہوں؟

Right is only this that I should give them their right. it's not their right that I should keep thinking of them to make them happy.

جواب:

یہ کوئی بچی ہے جو ایک بات میں confuse ہے۔ سب سے پہلے اس نے بد گمانی کا پوچھا ہے۔ ایک ہوتا ہے یقینی معاملہ اور ایک ہوتا ہے کسی چیز کے بارے میں انسان کو خیال ہو، ظن ہو، گمان ہو۔ دو قسم کے لوگ ہیں، عام لوگ ہیں اور ایک جو کسی کام پر مامور ہوں۔ مثلاً کوئی کسی جرم کی تفتیش کر رہا ہے تو اس کے لئے بد گمانی جائز ہے بلکہ وہ بد گمانی سے ہی start کرے گا۔ لیکن عام لوگ نیک گمان رکھیں۔ "ظنُّوْا الْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا" مومن کا گمان دوسرے کے بارے میں اچھا ہونا چاہیے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12)

ترجمہ: ”بے شک بعض گمان گناہ کے ہوتے ہیں۔“

کسی کے بارے میں ہم بلا وجہ بغیر کسی تحقیق کے گمان قائم نہیں کر سکتے۔ بہتر ہے یہ کہ ہم لوگوں کے ساتھ اچھا گمان رکھیں۔ بے شک اس میں وہ چیز ہو جس کے بارے میں گمان آ رہا ہے کیوں کہ جب تک یقین نہ ہو بد گمانی نہ کرے۔ البتہ اس کی اپنی نیت اس کے ساتھ ہے اگر وہ گڑبڑ کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ اس کی نیت والا معاملہ کرے گا اور اس پر اس کو اجر عطا فرمائے گا۔ لیکن وہ بد گمانی سے بچنے کے لئے اس کے اوپر نیک گمان کر رہا ہے تو اللہ تعالیٰ اِس کو اس کا اجر دے رہا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ جب تک کسی کے بارے میں یقین کی بات نہ آئے اس وقت تک اس کے بارے میں غلط بات نہ سوچے۔ غلط بات اگر اس کے ذہن میں آئے تو اس کو ذہن میں قائم نہ ہونے دے۔ بس ایک وسوسہ کی حد تک ہی اس کو رکھے کہ جیسے وسوسہ آتا ہے اور وسوسہ پہ عمل نہیں ہوتا۔ اس سے زیادہ اس کو نہ بڑھائے۔

پھر انہوں نے پوچھا کہ لوگوں کے بارے میں کیا گمان رکھنا جائز ہے؟

لوگوں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے، برا گمان نہیں رکھنا چاہیے۔

جہاں تک حقوق اللہ اور حقوق العباد کی بات ہے تو اللہ جل شانہ کے بہت سارے حقوق ہیں جن میں اللہ پاک کا ایک ماننا، اللہ کی تمام صفات کا اقرار کرنا، اللہ پاک کی عبادت کرنا کسی اور کی عبادت نہ کرنا، اللہ ہی سے مانگنا کسی اور سے نہ مانگنا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات اور اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں۔ بندوں کے حقوق یہ ہیں کہ جیسے انسان معاشرے میں رہتا ہے تو لوگوں کے ساتھ مختلف کاموں میں واسطے پڑتے رہتے ہیں۔ مثلاً راہ گیروں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے تو ان کو سلام کرنا۔ یہ مسلمان پر مسلمان کا حق ہے۔ راستہ میں ان کے لئے کوئی تکلیف دہ چیز نہ چھوڑی جائے۔ لوگ راستہ میں اس طریقہ سے چلیں کہ کسی کو نقصان نہ پہنچائیں، گھروں میں نہ جھانکیں، ان کی پردہ گیریاں نہ کریں۔ اسی طرح بہن بھائیوں کے حقوق ہیں، رشتہ داروں کے حقوق ہیں، والدین کے اور اولاد کے حقوق ہیں۔ چنانچہ بہت سے حقوق بنتے ہیں۔ اس مختصر سے مضمون میں یہ اتنی لمبی بات نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لئے ہماری website پر فقہ کا ایک section ہے۔ اس میں معاشرت کے باب میں یہ باتیں موجود ہیں۔ ہماری website میں ایک chapter کے اندر ترتیب سے سب کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کے حقوق، آپ ﷺ کے حقوق، صحابہ کرام کے حقوق، علماء کے حقوق، والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق، شریک حیات کے حقوق، رشتہ داروں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق، عام مسلمانوں کے حقوق، انسانیت، ملک و قوم کے حقوق۔ یہ تو بہت بڑا مضمون ہے۔

دوسرا آپ نے کہا کہ میں لوگوں سے صرف اللہ کے لئے تعلق رکھوں اور ان سے اپنے لئے کچھ نہ امید رکھوں۔

یہ ہوشیاری کی بات ہے کیونکہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو لوگوں سے امیدیں نہ رکھو۔ فرمایا کہ مجھ سے بھی امید نہ رکھو۔ صرف ان کے حقوق ادا کرنے کے لئے ان کے ساتھ تعلق رکھیں کیونکہ یہ ضروری ہے۔ جب وہ ادا ہو جائیں تو دوبارہ عبادت کی طرف آ جائیں۔ چونکہ ہمیں عبادت کے لئے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ صحیح سوچ ہے اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔

سوال 3:

السلام علیکم! مرید کا شیخ کے ساتھ تعلق رکھنے اور اپنے احوال بتانے کے با وجود اگر مرید کی حالت میں بہتری نہ آئے تو اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟

جواب:

آدھی بات بتا دی آدھی نہیں بتائی کہ شیخ کو بتانا ہے، لیکن شیخ نے جو بتایا ہے اس پر عمل بھی کیا ہے؟ یہ نہیں بتایا۔ اگر شیخ کے بتائی ہوئی بات پر عمل نہ ہو تو پھر کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟ کیا کسی ڈاکٹر سے نسخہ لکھوا کر مریض ٹھیک ہو جاتا ہے؟ صرف نسخہ لکھوانے میں مریض ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ نسخہ پر عمل کرنے سے ٹھیک ہوتا ہے اور فوراً ٹھیک نہیں ہوتا بلکہ وہ جزوی ٹھیک ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ پھر دوبارہ report کرنا پڑتا ہے۔ پھر شیخ بتاتا ہے اور اس طرح آپس میں رابطےکا کافی بڑا دور ہوتا ہے جس کے بعد مریض ٹھیک ہوتا ہے۔ یہ امراض زیادہ لطیف ہیں اس وجہ سے صرف بتانے کی بات نہیں ہے بلکہ عمل بھی کرنا پڑتا ہے۔ ابھی انہوں نے دوسرے جز کے بارے میں کچھ نہیں بتایا اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کہ جو بتایا جاتا ہے اس پر عمل نہیں کیا جاتا۔ نتیجتاً اس کا نتیجہ سامنے ہے، پھر فائدہ نہیں ہوتا۔

سوال 4:

اگر بندہ دوسرے لوگوں سے اس نیت سے تصوف کی بات کر لے کہ اگر وہ اس طرف آ جائیں اور پھر وہ جو نیک کام کریں گے ہمیں بھی اس کا اجر ملے گا اور صدقہ جاریہ بھی ہو جائے گا۔ لیکن کبھی کبھی ذہن میں یہ آتا ہے کہ بس اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ اس کے بارے میں ذرا بتا دیں؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ اول تو یہ ہے کہ صدقہ جاریہ بھی ہے، لیکن اس سے زیادہ یہ سوچ کر بولنا چاہیے کہ اُس کا حق ہے جس پر اگر کوئی بھی اجر نہ ملے تب بھی اس کا حق سمجھ کر بتانا چاہیے کہ جس چیز سے مجھے فائدہ ہو رہا ہے تو کم از کم میں اس کو اطلاع کر دوں۔ لیکن اپنا حق اس کے حق سے زیادہ ہے۔ اول خویش بعد درویش۔ پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہے اس کے بعد اُس کی طرف جانا ہے۔ جیسے میں اکثر مثال دیا کرتا ہوں کہ جہاز میں جب مختصر سی training دیتے ہیں کہ اگر گیس کم ہو جائے تو oxygen والے ماسک پہلے خود لگائیں اس کے بعد بچہ یا بیمار ہو تو اس کو لگائیں۔ پہلے خود کو لگانے سے مراد یہ ہے کہ اگر یہ پہلے معذور کو یا بچہ کو لگاتا ہے اور اُس دوران خود بے ہوش ہو گیا تو بچہ بھی جان سے گیا اور یہ بھی گیا کیونکہ دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہو گا، صرف اُس کے لگانے سے تو کام نہیں ہو گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر خود کو لگا دیا تو کم از کم ایک بچ جائے گا اور یہی پھر دوسرے کو بچانے کا بھی ذریعہ بن سکتا ہے۔ اسی طریقہ سے اگر خود ہی خراب ہو گیا تو باقیوں کو بھی خراب کرے گا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کو ایک بدو نے نصیحت کی تھی کہ اے عمر! اگر تمہاری وجہ سے لاکھوں لوگ جنت میں پہنچ جائیں اور تم خود جہنم میں پہنچ جاؤ تو پھر کیا ہو گا؟ اس وجہ سے اپنا خیال بہت ضروری ہے۔ آج کل ایک فیشن بھی ہے کہ جب کوئی کسی سے ٹیلی فون پہ بات کرتا ہے تو کہتا ہے اپنا خیال رکھنا۔ لیکن اپنے آپ کو کہہ رہا ہوں کہ مجھے اپنا خیال رکھنا چاہیے۔ پہلے ہمیں اپنا خیال رکھنا چاہیے۔ لوگوں کو اچھی بات پہنچانا ان کا حق ہے لیکن اپنے حق سے زیادہ نہیں ہے، اس مسئلہ میں ایثار نہیں ہے۔ ایثار دنیاوی چیزوں میں ہے۔ اگر کسی کی آخرت تباہ ہو رہی ہو تو دوسرے کو کہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کسی کی جوتیوں کی حفاظت کے لئے اپنی گٹھڑی کو گم نہ کریں۔ چنانچہ ایسا نہ ہو کہ دوسروں کی خدمت کا اتنا جذبہ ہو کہ اپنے آپ کو بھول جائے اور کام خراب ہو جائے۔ آخرت کے معاملے میں اپنے نقصان کی بنیاد پر دوسروں کو فائدہ نہیں دینا۔

جیسے سوالات کئے گئے کہ ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے؟ اسی سلسلہ میں غزل ہے:

اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی

پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی

مطلوب وصل یار ہے اس زندگی میں جب

اس وصل سے پھر خود کو کیوں جدا کرے کوئی

اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے

ہر آن میں بس اس کو ہی دیکھا کرے کوئی

اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی

پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی

سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے

میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی

مقصود کائنات کا دنیا نہیں مقصود

دھکے کیوں اس کے واسطے کھایا کرے کوئی

یہ دل جو اس کے واسطے پیدا کیا گیا

جو غیر ہے اس میں نہ اب آیا کرے کوئی

جو دردِ دل نصیب تھا رومی کو عشق میں

پڑھ مثنوی کو کیوں نہ پھر جلا کرے کوئی

شبیر اتر اب ذرا مے خانۂ دل میں

اب تو شراب عشق ہی پیا کرے کوئی

تقریباً یہ پوری غزل اس بات کا جواب ہے کہ ہمارے آنے کا مقصد کیا ہے؟ ہم اس لئے آئے ہیں کہ اس کی پہچان لیں اور اسی کے بن جائیں۔ یعنی معرفت اور عبدیت۔ عبدیت کی تکمیل معرفت سے ہوتی ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو جانتا ہے اور اللہ کو جانتا ہے تو پھر عبدیت ہو جاتی ہے اور عبدیت کے لئے یہ مقصود ہے۔ معلوم ہوا دو کام ہیں۔ عبدیت ہے اور معرفت ہے۔ ”اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی“ یعنی پھر اس کی زندگی کا حق کیا ہے؟ دنیا میں بہت سے لوگ بہت سے عجیب لوگوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ کچھ لوگ دشمنوں کے لئے کام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے زندگی کا کیا حق ادا کیا؟ ان کی زندگی تباہ ہو گئی۔ یہ دوبارہ نہیں ملے گی۔ دشمنوں کے لئے، غلط لوگوں کے لئے، اچھے لوگوں کے خلاف استعمال ہونا تباہی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ ہدایت عطا فرمائے۔

اس کا بنے اگر نہیں تو کیا کرے کوئی

پھر کیسے زندگی کا حق ادا کرے کوئی

مطلوب وصل یار ہے اس زندگی میں جب

اس وصل سے پھر خود کو کیوں جدا کرے کوئی

جب ہمارا مطلوب یہاں پر اس کے ساتھ وصل ہے تو پھر اس کے راستے میں جو لوگ آتے ہیں ہم ان کے ساتھ کیوں ہو جاتے ہیں؟

اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے

یہ جو ہماری زندگی کا مقصد ہے اس کا کیا مقصود ہے؟ یعنی اللہ کو پانا ہے۔ پھر اسی کے حکم کو دیکھنا چاہیے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لا طَاعَةَ لِمخلُوق فِي مَعصِيَةِ الخَالِق" (ترمذی، حدیث نمبر: 1707)

ترجمہ: ”مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نا فرمانی ہو جائز نہیں ہے۔“

لوگ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہماری یہ مجبوری یا وہ مجبوری تھی، یہ کہنے سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے

سب کچھ میرا ضائع ہو جائے کوئی بات نہیں۔ اگر میں نے اس کو پا لیا تو میں کامیاب ہو گیا ہوں۔

میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی۔

میرا کیا مقابلہ ہے کہ میں یہ دیکھوں کہ لوگوں کے بنگلے ہیں، کاریں ہیں، فلاں فلاں ہے۔ میرے پاس کچھ نہیں، میں تو مارا گیا۔ کسی کے پاس کچھ بھی ہو میری بلا سے، مجھے کیا!۔ اگر ان کا مقصود مال و دولت ہے تو چلو ٹھیک ہے۔ میں ان کے پیچھے جانے والا نہیں۔

اس امتحانِ زیست میں مقصود وہی ہے

ہر آن میں بس اس کو ہی دیکھا کرے کوئی۔

یعنی میری زندگی کا مقصد اللہ کو پانا ہے۔ چنانچہ مجھے اسی کی طرف دیکھنا ہے۔

سب کچھ بھی کھو کے ٹھیک ہے پاؤں اگر اسے

میری بلا سے غیر کو چاہا کرے کوئی۔

کوئی کسی انگریز کے پیچھے لگا ہوا ہے، کوئی کسی اور فیشن کے پیچھے لگا ہوا ہے، انگریز کو خوش کرنا چاہتا ہے۔ مجھے ایسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں۔ میرا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ میں اللہ کو راضی کروں۔

مقصود کائنات کا دنیا نہیں مقصود۔

انسان کائنات کا مقصود ہے۔ کیونکہ ایک بھی انسان جو اللہ اللہ کہنے کرنے والا نہیں ہو گا تو کائنات ختم کر دی جائے گی۔ حدیث شریف میں ہے آخری ایک شخص بھی اللہ اللہ کہنے والا رہے گا تو قیامت نہیں آئے گی۔ جب وہ بھی نہیں رہے گا پھر اس کے بعد قیامت آ جائے گی۔ معلوم ہوا ذکر کرنے والا انسان مقصودِ کائنات ہے۔

دھکے کیوں اس کے واسطے کھایا کرے کوئی

در اصل ہمارے اصل نکت (باریک باتیں) پہنچانے والے پیغمبر ہیں۔ پیغمبروں نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ پھر صحابہ کرام نے زندگی کیسے گزاری؟ پھر فقہاء اور اولیاء اللہ نے اپنی زندگی کیسے گزاری؟ اب ہم کن کے پیچھے جا رہے ہیں؟

یہ دل جو اس کے واسطے پیدا کیا گیا

جو غیر ہے اس میں نہ اب آیا کرے کوئی۔

دل اللہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس دل میں کسی اور کو نہیں لانا چاہیے۔ یہ دل اللہ کا ہے۔

جو دردِ دل نصیب تھا رومی کو عشق میں

پڑھ مثنوی کے کیوں نہ پھر جلا کرے کوئی

مثنوی کا سارا زور بھی اسی پر ہے کہ انسان اللہ کا بن جائے۔ مثنوی کو جو پڑھے گا اس کو بھی یہ درد نصیب ہو جائے گا۔ وہ اسی طریقے سے جلنا شروع ہو جائے گا جس طرح مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ جل رہے تھے۔

شبیر اتر اب ذرا میخانۂ دل میں

اب تو شراب عشق ہی پیا کرے کوئی

شبیر کہتا ہے کہ اب ذرا دل کی دنیا میں اتر جاؤ۔ ذہن کی دنیا تنگ کرنے والی ہے۔ دل کی دنیا میں اتر جاؤ اور اللہ کے عشق میں اپنے آپ کو فنا کر دو۔ اسی پہ ساری زندگی گزارو۔ یہی تمہارا راستہ ہے۔

سوال 4:

آپ نے فرمایا تھا کہ جو انسان جتنا جتنا اپنے نفس کو پہچانتا ہے اتنا اتنا وہ خدا کو پہچانتا ہے اس کی ذرا وضاحت فرما دیں۔

جواب:

"مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ"

ترجمہ: ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔“

اللہ پاک کی پہچان میں نفس ہی رکاوٹ ہے۔ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں اللہ پاک کا دیدار ہوا۔ اللہ تعالیٰ سے پوچھا: یا اللہ! تجھ تک پہنچنے کا راستہ کون سا ہے؟ فرمایا: "دَعْ نَفسَک وَ تَعَال"

ترجمہ: ”اپنے نفس کو چھوڑ دو اور میرے پاس آ جاؤ۔“

گویا کہ اللہ جل شانہ کی معرفت میں اور اس کی عبدیت میں اصل رکاوٹ نفس ہے۔ میں نے سارا بیان نفس کے خلاف کیا ہے کیونکہ ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے اور لوہا لوہے کو کاٹتا ہے۔ دنیا کی محبت ہمیں اللہ کی محبت سے دور کر رہی ہے۔ اگر ہم دنیا کی محبتیں crush کر دیں تو اللہ تعالیٰ کی محبت رہ جائے گی۔ "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ" جو اپنے نفس کی کدورتوں کو اور اس کی گڑبڑوں کو پہچان لے کہ یہ کیسے کیسے مجھے اللہ تعالیٰ سے دور کر رہا ہے، جتنا جتنا اس کو پہچانے گا اللہ تعالیٰ اس کی سمجھ میں آتا جائے گا۔ اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی۔ یعنی نفس کا حجاب درمیان سے ہٹتا جائے گا۔ یہ نفس کی معرفت ہے۔

سوال 5:

السلام علیکم اپنے شیخ کے مزاج کو کیسے جانا جا سکتا ہے؟

جواب:

محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھا دے گی۔ یعنی شیخ کے ساتھ اگر محبت ہو جائے تو خود ہی آداب وہ سکھا دے گی، یہ بہت بڑی استاد ہے۔ جب تک محبت نہ ہو بلکہ مطلب ہو جیسے کہتے ہیں کہ فلاں بڑا مطلبی آدمی ہے۔ معلوم ہوا مطلب الگ چیز ہے اور محبت الگ چیز ہے۔ کچھ لوگوں کو شیخ سے مطلب ہوتا ہے اور کچھ کو شیخ کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ جن کو مطلب ہوتا ہے ان کو اپنے مطلب کی چیزیں معلوم ہوتی جائیں گی اور محبت ایسی چیز ہے جو انسان کو محبوب کا تابع بنا دیتی ہے۔ اس کا دل ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ جس کو جتنی زیادہ محبت ہوتی ہے اتنا زیادہ اس کا مزاج شناس ہو جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال دیکھ لو آپ ﷺ کے ساتھ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو، پھر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھو۔ یعنی درجہ بدرجہ۔ یہ مزاج شناسی محبت کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ اس میں عقل کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن عقل صحیح استعمال ہو جائے اور عقل صحیح استعمال تب ہوتی ہے جب محبت ہوتی ہے پھر وہ سوچتے ہیں کہ میرا شیخ کس چیز پہ خوش ہوتا ہے اور کس چیز پہ نا راض ہوتا ہے؟ اس کے سکھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے اوقات کیا ہیں؟ اس کو راحت کس چیز سے ملتی ہے اور تکلیف کس چیز سے ہوتی ہے؟ یہی مزاج شناسی ہے۔ جیسے شیخ نے ایک وقت سوال جواب کے لئے فارغ رکھا ہوا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت کوئی سوال نہیں کرتا اور جب شیخ نماز کے لئے مسجد جانے لگے تو راستہ میں اس کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگتا ہے، یہ مزاج شناسی نہیں ہے۔ اگر کوئی پردے والی بات ہے تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ یا تو اس کو کسی دوسرے کی طرف سے سوال بنا کر پوچھا جائے، کیوں کہ لوگوں کی پردے والی چیزوں کا بھی علاج ہونا چاہیے۔ اور اگر بالکل ہی رازدارانہ ہے اور خطرہ ہے کسی طریقہ سے پتا نہ چل جائے تو کاغذ پہ لکھ کے دے دو۔ پھر شیخ دیکھ لے گا کہ اگر آپ کے لئے علیحدہ مجلس کی ضرورت ہو تو آپ کو ٹائم دے دے گا ورنہ اشاروں میں جواب دے دے گا یا لکھ کر جواب دے دے گا۔ یعنی بجائے اس کے کہ میں اپنی راحت کو دیکھوں کیوں کہ جو مطلبی ہوتا ہے وہ اپنی راحت اور اپنی آسانی اور اپنے فائدہ کو دیکھتا ہے۔ پشتو میں کہتے ہیں ”مطلبی په خټه اور لګوی“ جو مطلبی ہوتا ہے وہ کیچڑ کو بھی آگ لگاتا ہے۔ یعنی اس کو تکلیف ہو یا خوشی ہو، وہ اپنی بات کرتا ہے۔

میں استانیوں کے داخلے کر رہا تھا جس کے لئے ہم انٹرویو وغیرہ لے رہے تھے۔ میرے پاس ایک شخص آئے اور انہوں نے کہا: مجھ سے کسی نے کہا کہ خواتین کا ٹیسٹ ہوا ہے اور وہ سارا معاملہ شبیر صاحب کے پاس ہے اور ان کو ایک نوکری چاہیے۔ میں نے ان سے کہا: شبیر صاحب ہمارے اپنے یار دوست ہیں، ان کو میں کسی وقت بھی کہہ سکتا ہوں، آپ کو فکر نہیں کرنی چاہیے۔ میں ان کو کہہ دوں گا تو وہ کر لیں گے۔ میں نے کہا: بھئی بات سنو! کیا آپ کو مجھ پر اعتماد ہے کہ میں حق کام کروں گا نا حق نہیں کروں گا؟ کہتے ہیں: بالکل!۔ میں نے کہا: پھر جس کا حق ہو گا اس کو مل جائے گا، ہم ٹیسٹ لے چکے ہیں، ہم نا جائز کام نہیں کریں گے، جس کا حق ہو گا اس کو دیں گے۔ نا حق کو حق والے کا حق نہیں دیں گے۔ آپ بے فکر رہیں۔ ان شاء اللہ بغیر پوچھے کام ہو جائے گا جو حق ہو گا۔ اب وہ گھوم گھام اور گھیر گھار کے وہی بات کہتا کہ جی وہ بہت غریب family ہے ان کے گھر میں بڑے مسائل ہیں۔ میں نے کہا: جتنے لوگوں نے ٹیسٹ دیا ہے، سارے غریب ہیں، مال دار اس میدان میں نہیں آتے۔ ورنہ عورت کا گھر سے نکلنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ ان شاء اللہ العزیز غریب سے غریب شخص کا بھی اگر حق ہو گا تو ہم نہیں چھوڑیں گے، ضرور اس کا حق دلا کر دیں گے۔ پھر وہ تیسری طرف سے آیا اور مزید پینترے بدلے۔ آخر میں نے کہا: بھئی بات سنو! ایک گھنٹہ ہو گیا ہے، میں نے آپ کو لب لباب بتایا ہے۔ میں آپ کا کام کرتا ہوں کوئی مشکل نہیں ہے بس صرف مجھے آپ ایک surety دے دیں تو آپ کا کام ہو جائے گا۔ وہ خوش ہو گیا۔ میں نے کہا: میں جو کروں گا اس سے آپ بھی راضی ہوں گے اور اللہ بھی راضی ہو گا اور اگر اختلاف ہو گیا، اللہ راضی نہیں ہوتا اور آپ راضی ہوتے ہو تو میں آپ کو راضی کرنے کے لئے اللہ کو نا راض نہیں کر سکتا۔ یہ بات سن کر وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر میں نے اس کو چائے پلائی کہ ذرا طبیعت ٹھیک ہو جائے پھر اس کو رخصت کر دیا کیوں کہ دوست یار تھا۔ جو مطلبی ہوتا ہے وہ کیچڑ کو آگ لگاتا ہے۔ اس وجہ سے فکر نہیں کرنی چاہیے۔ وہ اپنے مطلب کو دیکھتا ہے وہ اس کو نہیں دیکھتا کہ شیخ کو تکلیف ہو رہی ہے، عین ممکن ہے اس کو نیند سے جگا کے کہہ دے: جی میرے ساتھ یہ ہو رہا ہے۔ خدا کے بندے، ہر چیز کا اپنا طریقہ ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ اپنا فضل فرمائے۔ ہم لوگ کمزور ہیں، اللہ پاک سے مانگنا چاہیے کہ جو ہمارے اندر کمیاں ہیں اللہ پاک درست فرمائے۔

وَ مَا عَلَيْنَآ إلَّا البَلَاغُ