nashist-128_.04-06-2013.19.40.13
Majlis-No. 20191231، Date:
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا (الشمس: 9، 10) وَ قَالَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَام: "اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃ"
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْم۔
ہمارے شیخ صوفی محمد اقبال مدنی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ فرمانے لگے کہ مجھے ہر سوال کا جواب آتا ہے۔ ہم بڑے حیران ہوئے کہ حضرت نے کبھی اس طرح کا دعویٰ نہیں فرمایا۔ تھوڑی دیر بعد مسکرا کر فرمایا کیونکہ مجھے یہ کہنا آتا ہے کہ مجھے اس کا جواب معلوم نہیں۔ اگر کوئی ایسا سوال ہو جس کا جواب معلوم نہ ہو تو ہم صاف کہہ دیتے ہیں کہ اس کا جواب ہمیں معلوم نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کمزور ہے۔ ایک دفعہ ہمارے جرمن نو مسلم بھائی جو اکثر تبلیغ پہ جایا کرتے تھے۔ ایک دن جا رہے تھے تو میں نے پوچھا: آپ نے بیان کی کوئی تیاری کی ہے؟ کہتے ہیں: نہیں کی۔ میں نے کہا: کیوں؟ کہتے ہیں:
اللہ will send right word at right time or silence at right time
اللہ پاک صحیح الفاظ صحیح وقت پہ بھیج دیں گے یا صحیح خاموشی صحیح وقت پر بھیج دیں گے۔ چنانچہ اگر ہمیں سوال کا جواب آتا ہو گا تو ہم بتا دیں گے اگر نہیں آتا ہو گا تو ان شاء اللہ کسی سے پوچھ کے بتا دیں گے۔
سوال 1:
حضرت صاحب کوئی شخص ایک سے زیادہ شیوخ کا مرید بن سکتا ہے؟
جواب:
ایک وقت ایسا کرنا درت نہیں اس کی مثال ڈاکٹر اور مریض کی طرح ہے۔ جیسے کہ ایک سے زیادہ ڈاکٹروں سے بیک وقت علاج نہیں ہو سکتا، ایسا کریں گے تو نقصان ہو گا۔ چنانچہ شیخ بنانے کی شرائط معلوم کی جائیں اور پھر ان شرائط اور نشانیوں کو دیکھ کر جس کے ساتھ سب سے زیادہ مناسبت ہو ان کے ساتھ بیعت کا تعلق قائم کیا جائے۔ البتہ اگر ایک شیخ فوت ہو جائے تو پھر تجدیدِ بیعت کرنا مناسب ہے۔ اگر فوت نہیں ہوا لیکن اتنا دور ہے کہ اس کے ساتھ تعلق ہی قائم نہیں کیا جا سکتا تو بہتر یہ ہے کہ ان کی اجازت سے کسی اور شیخ سے رابطہ قائم کر لو، اس کو شیخ تعلیم کہتے ہیں۔ پھر دور والے شیخ کی بات نہیں چلے گی بلکہ قریب والے شیخ کی چلے گی۔ برکت دور والے کی چلے گی لیکن تعلیم قریب والے کی ہو گی۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ شیخ سے بیعت کر لی لیکن بعد میں پتا چلا کہ مجھے ان کے ساتھ بالکل مناسبت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اُس شیخ کو اطلاع دیئے بغیر دوسرے شیخ سے رجوع کیا جائے کیونکہ اگر ان کو بتائے گا تو تکلیف ہو گی اور اُس شیخ کے بارے میں کوئی غلط بات زبان سے نہ نکالے۔ اگر ان کی کوئی بات سمجھ نہ آئے تو اُس کو اِس پر موقوف کرے کہ مجھے ان کے ساتھ مناسبت نہیں ہے یا ان کی بات مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن ان کے بارے میں کوئی بد زبانی یا بد گمانی نہ کرے۔ البتہ اپنے موجودہ شیخ کے ساتھ اپنے علاج کے لئے رابطہ مضبوط رکھے۔ ہدایت دینے والا اللہ ہے۔ اللہ جل شانہ کے لئے ذریعہ ڈھونڈھنا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ہدایت عطا فرما دے۔ ﴿وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ﴾ (المائدۃ: 35) یہ نہیں دیکھنا چاہیے کون سا شیخ بڑا ہے۔ یہ بڑے چھوٹے کی بات نہیں ہے۔ تربیلا ڈیم کے پاس اگر آپ سو واٹ کا بلب لگائیں گے اور یہاں پر سو واٹ کا بلب لگائیں گے تو دونوں کی روشنی برابر ہو گی۔ حالانکہ تربیلا ڈیم میں بجلی produce ہو رہی ہے اور یہاں پر ہم بہت دور ہیں۔ اسی طرح مرغی کا انڈہ اگر مرغی کے نیچے رکھا جائے تو مرغی کا بچہ نکلتا ہے اور بطخ کا انڈہ اگر مرغی کے نیچے رکھا جائے تو اس سے بطخ کا بچہ نکلتا ہے کیوں کہ انڈہ بطخ کا ہے۔ اگر کسی کی استعداد زیادہ ہے تو وہ ایک چھوٹے شیخ سے بھی فیض حاصل کر کے بڑا شیخ بن جائے گا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کے مرید تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کے مرید تھے۔ حضرت باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ یہ سب کسی کے مرید تھے۔ مقصد یہ ہے کہ اس پر منحصر نہیں ہے کہ کون بڑا ہے اور کون چھوٹا ہے! اصل بات ماننا ہے اور مشائخ کی آٹھ نشانیاں سیکھ لی جائیں اور دیکھ لیا جائے کہ وہ کن میں موجود ہیں! پھر اپنی مناسبت دیکھی جائے، مناسبت ہو تو سبحان اللہ بالکل ٹھیک ہے۔
سوال 2:
حضرت اگر شیخ بہت دور ہے اور ہم نے دوسرا مرشد منتخب کر لیا تو ہم وظائف دونوں کے پڑھیں گے؟
جواب:
موجودہ شیخ کو شیخ کے طور پہ مانیں گے۔ ایک بہت بڑے بزرگ خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بہت بلند فرمائے، ان کے فوت ہونے کے بعد ایک صاحب مجھ سے بیعت ہو گئے۔ جو پہلے ان کے مرید تھے اور عالم تھے۔ بعد میں ان کی ملاقات خواب خواجہ صاحب کے ساتھ ہو گئی۔ خواجہ صاحب نے ان کو نصیحت فرمائی کہ اب شاہ صاحب کو خان محمد سمجھو، اب یہی تمہارے شیخ ہیں۔ اگر ان کی بات مانو گے تو وہی فائدہ ملے گا جو میرے ساتھ ملا کرتا تھا۔ اصل دینے والا اللہ ہے۔ اصل مقصد ماننا ہے۔ جو مانے گا اور اللہ کے لئے تعلق رکھے گا اللہ پاک اس کے لئے وہ ساری چیزیں بھیجیں گے ان شاء اللہ العزیز۔
سوال 3:
حضرت مناسبت کا کیسے پتا چلتا ہے؟ بندہ کیسے فیصلہ کرے کہ مناسبت پیدا ہو گئی ہے؟
جواب:
مناسبت نہ ہونے کا بتا دیتا ہوں تو مناسبت سمجھ میں آ جائے گی۔ کیونکہ سائے کے ذریعہ دھوپ پہچانی جاتی ہے۔ چنانچہ جس کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی اس کی اچھی بات بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ذہن میں وسوسے اور اشکالات آتے رہتے ہیں اور رکاوٹ بنتی ہے۔ لیکن جس کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اس کی عام باتیں بھی بڑی اچھی لگتی ہیں اور اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں عالم ارواح میں جو قریب قریب بیٹھے تھے ان کے ساتھ دنیا میں مناسبت ہوتی ہے اور جن کی آپس میں پیٹھ تھی یا دور بیٹھے تھے ان کے ساتھ دنیا میں مناسبت نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں کی بات بلا وجہ دل نہیں مان رہا ہو گا اور بعض بلا وجہ ہی آپ کو ایسے محسوس ہوں گے کہ آپ کا دل ان کی بات مان رہا ہو گا۔ معلوم ہوا ایک کے ساتھ مناسبت نہیں اور دوسرے کے ساتھ ہے۔
سوال 4:
توسل بالرسول کے ساتھ دعا کرنے کا خوبصورت ترین طریقہ بتا دیں کہ جو اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں رد نہ ہو۔ اور پیغمبر ﷺ کے توسل کے ساتھ دعا کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے؟
جواب:
یہ سوال تصوف کے بارے میں نہیں ہے بلکہ علمی سوال ہے۔ یہ مفتی صاحب سے پوچھا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ البتہ الحمد للہ اکابر سے جو سنا ہے وہ میں عرض کر سکتا ہوں۔ لیکن تصوف کے معاملے میں اگر کوئی میری مختصر بات سے سیر حاصل نہ ہوا اور اس کو فائدہ نہیں ہوا تو اس کے دل میں شک پڑ جائے گا۔ اگر کسی مرید کے دل میں شک پڑ گیا تو اس کو نقصان ہو گا۔ اس وجہ سے مجمع عام میں اس بارے میں بات سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی سوال کا جواب مجھ سے ہی چاہتا ہے تو خانقاہ تشریف لا سکتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع پہ بالخصوص اختلافی موضوعات بیان کرنا مناسب نہیں ہوتے۔ کیوں کہ اس سے شیطان کو راستہ ملتا ہے، وہ خواہ مخواہ مسلمانوں کو آپس میں توڑ دیتا ہے۔ اس میں دونوں طرف بڑے بڑے لوگ موجود ہیں لہٰذا ہم دونوں کے درمیان کیوں فیصلہ کریں؟ میرا جو مسلک ہے وہ میں بتا دوں گا اور ہر ایک کو اس کے ساتھ اختلاف کرنے کا حق حاصل بھی ہو گا۔ کیوں کہ میں کوئی final authority نہیں ہوں۔ تو جیسے میں نے عرض کیا کہ تصوف کے بارے میں اگر کوئی سوال ہو تو پوچھا جا سکتا ہے۔ اس سوال سے اگر میں ایک اور فائدہ اٹھا لوں تو مناسب ہے کہ شریعت اور طریقت کے بارے میں بہت سے لوگوں کو اشکالات ہوتے ہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ شریعت الگ ہے اور طریقت الگ ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ دونوں باتیں صحیح ہیں لیکن interpretation مختلف ہے۔ شریعت اللہ پاک کا حکم ہے، حضور ﷺ کے راستہ سے ہمیں پہنچی ہے، ہم سب کا اس کے اوپر عمل کرنا فرض ہے۔ لیکن اس میں دو رکاوٹیں ہیں۔ ایک شیطان اور دوسرا نفس۔ انسان جانتا بھی ہے کہ شریعت کا حکم یہ ہے لیکن اس پہ عمل نہیں کر پاتا۔ مثلاً بہت سارے لوگ شراب پینا حرام مانتے ہیں، زنا کو حرام مانتے ہیں، دھوکہ کو حرام مانتے ہیں، قتل کرنے کو حرام مانتے ہیں لیکن بعض شراب بھی پیتے ہیں، زنا بھی کرتے ہیں۔ یعنی ان سے عمل نہیں ہو رہا۔ کیونکہ نفس اور شیطان درمیان میں ہوتا ہے۔ شیطان کے اغوا میں نہ آئے اور شیطان کی بات نہیں مانے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا﴾ (فاطر: 6)
ترجمہ: ”یقین جانو کہ شیطان تمہارا دشمن ہے، اس لئے اس کو دشمن ہی سمجھتے رہو۔“
اور نفس کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰى 0 وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰى﴾ (الاعلی: 14، 15) اور فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا﴾ (الشمس: 9، 10) تزکیہ کا حکم ہے اور اگر تزکیہ نہیں ہو گا تو سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ لہٰذا نفس کی اصلاح کا حکم ہے اور اس کو ہم تصوف کہتے ہیں۔ اس کا مقصد شریعت پر آنا ہوتا ہے۔ پس شریعت ہمارا مقصد ہے اور تصوف اس کا ذریعہ ہے۔ اسی وجہ سے اس کو طریقت بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت ہم طریقت کو سمجھنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر میں شریعت کے بارے میں سمجھانے لگوں تو یہ مجلس لا محدود ہو جائے گی۔ ممکن ہے تصوف کے بارے میں جو ضروری باتیں لوگ جاننا چاہتے ہوں ان کو وقت ہی نہ ملے۔ اس وجہ سے بھی اس وقت کو ہم صرف تصوف کی حد تک ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سمجھانے کے لئے مدرسے ملیں گے، منبر ملیں گے لیکن طریقت سمجھانے کے لئے بہت کم لوگ ملیں گے۔ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جو تقریباً ہزار کتابوں سے زیادہ کے مصنف ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ فرمایا: دل چاہتا ہے کہ مجھ سے تصوف کے علاوہ کوئی اور بات نہ پوچھی جائے کیوں کہ فقہ کی خدمت کرنے والے، حدیث کی خدمت کرنے والے، قرآن کی خدمت کرنے والے بہت ہیں اور اپنا اپنا کام کر رہے ہیں لیکن اس کی خدمت کرنے والے بہت تھوڑے ہیں۔ اگر حضرت اپنے آپ کو اس کام کے لئے مخصوص کرنا چاہتے تھے تو ہم کسی اور کام کے ہیں بھی نہیں۔ چنانچہ شریعت کے بارے میں مفتیان کرام موجود ہیں اور اگر مجھ سے ہی پوچھنا چاہتے ہیں تو بلا تکلف خانقاہ تشریف لے آئیں۔
سوال 5:
شیخ کی داڑھی ہونا لازمی ہے یا clean shave شخص بھی شیخ ہو سکتا ہے؟
جواب:
ٍبڑا اچھا سوال ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے کیوں کہ اس سے ایک علم کا chapter کھل جاتا ہے۔ شیخ کو جاننے کی آٹھ نشانیاں یہ ہیں۔ پہلی بات: اس کا عقیدہ صحابہ کا عقیدہ ہو۔ کیوں کہ اللہ پاک نے قرآن میں صحابہ کا عقیدہ ہی معیار بتایا ہے۔ ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللهُۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ﴾ (البقرۃ: 137)
ترجمہ: ”اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔“
تو صحابہ کا عقیدہ معیاری ہے لہٰذا شیخ کا عقیدہ یہی ہونا چاہیے۔ دوسری بات: اس کو فرض عین درجہ کا علم حاصل ہونا چاہیے کیوں کہ ہر مسلمان پر اتنا علم حاصل کرنا فرض ہے کہ چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق زندگی گزار سکے۔ حدیث مبارکہ ہے: "طَلَبُ الْعِلْم فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِم" پس فرض عین درجہ کا علم اس کے پاس ہونا چاہیے۔ تیسری بات: چوبیس گھنٹے شریعت پر عمل ہو۔ چوتھی بات: ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچا ہو، درمیان میں کوئی gap نہ ہو۔ جیسے حدیث شریفہ کے سلسلے میں کوئی gap نہیں ہوتا۔ انقطاع نہیں ہوتا۔ اسی طرح صحبتِ شیخ کے اندر کوئی انقطاع نہیں ہونا چاہیے۔ پانچویں بات: اجازت حاصل ہو۔ اجازت کی مثال degree کی طرح ہے۔ چھٹی بات: ان کا فیض جاری ہو۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے۔ یعنی کسی ڈاکٹر کے پاس بہت سارے لوگ جاتے ہیں جن میں سے اکثر اگر صحت یاب ہوتے ہوں تو ہم کہتے ہیں اس کے ہاتھ میں شفا ہے۔ اسی طرح جس شیخ کے پاس لوگ جاتے ہوں ان میں سے اکثر کو فیض مل جاتا ہو اور اکثر کی زندگی بدل جاتی ہو۔ تو ہم کہتے ہیں کہ اس کے پاس اللہ نے فیض رکھا ہوا ہے۔ ساتویں بات: مروت نہ کرتا ہو بلکہ اصلاح کرتا ہو۔ آٹھویں بات: ان کی مجلس میں اللہ یاد آتا ہو اور دنیا کی محبت کم ہوتی ہو۔ جس شیخ کی مجلس میں دنیا کی محبت بڑھ جائے تو وہ دنیا دار ہے۔ وہاں نہیں جانا چاہیے۔ اور جس شیخ شخص کی مجلس میں اللہ پاک کی محبت بڑھ جائے اور دنیا کی محبت کم ہو جائے تو وہ اللہ والا ہے۔ اور ان کے ساتھ مناسبت بھی ہونی چاہیے۔ تیسرے نقطے میں آپ کا جواب آ گیا کہ اس کو چوبیس گھنٹے شریعت پر عمل کرنا ہے۔ پس ایسا شیخ جو ظاہرِ شریعت پہ عمل نہیں کرتا وہ شیخ بننے کا اہل نہیں ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذالک وہ جہنمی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کسی گناہ گار کو بھی معاف کر سکتا ہے۔ لیکن وہ مقتدا بننے کا اہل نہیں ہے۔ کیونکہ فاسق کا اکرام کرنا حدیث شریفہ کے مطابق دین کو مٹانے کے مترادف ہے۔ اور اگر کوئی ایسے شیخ کا اکرام کرے گا تو فاسق کا اکرام لازم آئے گا لہٰذا یہ دین کو گرانے کے مترادف ہو گا۔ ایسا شیخ نہیں پکڑنا چاہیے جو ظاہری طور پر شریعت پر نہ چلتا ہو۔
سوال 6:
اگر کسی شیخ سے انسان کی مناسبت نہ ہو تو اس کے لئے کیا حکم ہے؟ دوسرا یہ ہے کہ اگر انسان کسی شیخ سے بیعت کا تعلق قائم نہ کرے بلکہ صرف اصلاحی تعلق ہو تو آیا اس وہ کامل ولی بن سکتا ہے یا نہیں؟
جواب:
بہت اچھا عملی سوال ہے۔ بعض دفعہ accidently آدمی کسی ایسے شخص سے بیعت ہو جاتا ہے اور بعد میں پتا چلتا ہے کہ اس سے مناسبت نہیں ہے۔ اس کو اطلاع دیئے بغیر جس شیخ کے ساتھ مناسبت ہو اس کی طرف منتقل ہو جائے۔ اسی کو شیخ تسلیم کرلے۔ پہلے والے شیخ کے بارے میں کوئی منفی کلمہ یا بد گمانی دل میں نہ رکھے۔ البتہ اس کو انتظامی امور میں سے سمجھ کر اپنے آپ کو دوسرے شیخ کی طرف transfer کر لے۔ اور دوسرا جو سوال ہے کہ بیعت کا تعلق نہ ہو لیکن اصلاح کا تعلق رکھا جا سکتا ہے یا نہیں؟ تو بالکل رکھا جا سکتا ہے۔ مقصود بیعت نہیں ہے بلکہ اصلاح ہے ۔ شریعت میں بیعت کا حکم سنتِ مستحبہ کا ہے۔ مثلاً اس پہ ثواب ملے گا۔ لیکن اس کے لئے شرط نہیں ہے۔ البتہ اس میں شرط یہ ہے کہ ایک ہی شیخ سے تعلق رکھا جائے اور بار بار تبدیل نہ کیا جائے۔ کیوں کہ اصلاح موت تک ضروری ہے۔ جیسے آپ نے ایک شیخ بنا لیا۔ اس کے ساتھ جب آپ کا ملنا جلنا ہو گا، آپ ان کے ساتھ رابطہ کریں گے تو وہ آپ کے بارے میں جاننا شروع کرے گا۔ جیسے جس ڈاکٹر سے آپ علاج کرواتے ہیں وہ آپ کے بارے میں جاننا شروع ہو جاتا ہے۔ جو آپ کا فیملی ڈاکٹر ہوتا ہے تو بعض دفعہ آپ کو شاید بتانے کی بھی ضرورت نہ پڑے وہ چہرہ سے ہی اندازہ لگا لے گا کہ اس کو فلاں بیماری ہے۔ لیکن اگر آپ ڈاکٹر بدلتے رہیں تو ہر ایک کے لئے آپ ایک نیا تجربہ ہوں گے۔ اس پوزیشن تک پہنچنے میں وہ بہت ٹائم لگائے گا۔ لہٰذا بلا وجہ شیخ تبدیل نہ کیا جائے لیکن مجبوراً اگر تبدیل کرنا ہو تو تبدیل کر لے۔ اگر آپ بغیر بیعت کے بھی کسی کو شیخ مان لیں اور انہی کے ساتھ رہیں اور اپنی اصلاح کا رابطہ ان کے ساتھ بر قرار رکھیں تو یہ اس شخص سے بہتر ہے جس نے بیعت تو کی ہے لیکن رابطہ نہیں کرتا۔ البتہ بیعت کی برکت ہوتی ہے۔ چونکہ انسان سلسلے میں آ جاتا ہے۔ سلسلے کی جملہ برکات اس کو مفت میں حاصل ہو جاتی ہیں جس میں اس کی کوئی محنت نہیں ہوتی۔ برکات کو حاصل کرنے کے لئے بیعت کافی مفید ہے اور آج کل نفسیاتی طور پر بیعت ہی سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ بیعت سے انسان مطمئن ہو جاتا ہے، پھر ادھر ادھر نہیں جاتا، ورنہ عموماً تجربے کرتا رہتا ہے۔ ایک کے ساتھ چند دن گزار لئے پھر دوسرے کے ساتھ چند دن گزارے اور ایک قسم کے testing period میں چلتا رہتا ہے نتیجتاً محروم ہی رہتا ہے۔ آج کل چونکہ ہم میں اتنی زیادہ پختگی نہیں ہے نتیجتاً loose کرتے رہتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ بیعت کرے لیکن اگر کوئی determent mind کا اور will power والا ہے اور اپنی بات پہ جم سکتا ہے تو پھر شیخ سمجھ کر بغیر بیعت کے تربیت حاصل کی جا سکتی ہے اور ان شاء اللہ اسے فائدہ ہو گا۔
سوال 7:
حضرت! مرشدین کو اپنے مریدوں کے متعلق القاء ہوتا ہے؟
جواب:
القاء کا مطلب کوئی اور اس کے دل میں ڈالے۔ یہ کوئی اور اللہ ہی ہو گا۔ اللہ پاک سب کچھ کر سکتے ہیں۔ لیکن اللہ جل شانہٗ ہمارے لئے مجبور نہیں ہے، اپنی مرضی کا ہے مختار ہے۔ لہٰذا اگر القاء کرنا چاہے تو بھی اس کی مرضی، نہ کرنا چاہے تو بھی اس کی مرضی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جو پیغمبر ہیں، یہ کسی شیخ کا واقعہ نہیں بلکہ پیغمبر کا واقعہ ہے۔ ان کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام بالکل قریب ہی کنعان کے کنوئیں میں ہیں لیکن انہیں نہیں پتا۔ اور جب القاء ہوا تو ابھی یوسف علیہ السلام کی قمیص مصر سے چلی ہی تھی کہ فرمایا: میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ بیٹوں نے کہا کہ آپ سٹھیا گئے ہو نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰلِک۔ آپ خوشبو کیسے محسوس کر رہے ہیں؟ فرمایا: بچو میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے اور پھر جب وہ قمیص آ گئی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: میں نہ کہتا تھا؟ پہلے واقعے کو دیکھو تو وہ اس وقت بھی پیغمبر تھے، دوسرے واقعے کو دیکھو تو وہ اس وقت بھی پیغمبر ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اُس وقت اللہ نے اپنی حکمت کے مطابق نہیں چاہا اور اِس وقت اللہ نے چاہا تو اس وقت ہو گیا۔ اس وجہ سے اللہ جل شانہٗ چاہے تو شیخ کو القا کر دے چاہے اور اگر چاہے تو نہ کرے۔
میں اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہونے کے بعد جب پہلے دن ان کی مجلس میں گیا تو حضرت جو باتیں فرما رہے تھے وہ ساری وہی تھیں جو میرے دل میں تھیں۔ جو میں سننا چاہتا تھا وہ سب وہی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ میں بڑا خوش قسمت آ دمی ہوں کہ ایسے موقع پہ آ گیا کہ حضرت اسی پہ بات فرما رہے ہیں۔ ذہن القاء کی طرف نہیں گیا بلکہ اپنی خوش قسمتی پہ ناز ہونے لگا۔ یہ مرض تو ہم میں ہوتا ہے۔ دوسرے دن گیا تو پھر بھی یہی صورت حال۔ تیسرے دن گیا پھر بھی یہی صورت حال۔ میں نے سوچا کہ میں کچھ زیادہ ہی خوش نصیب ہوں کہ ہر دفعہ ایسے ہی ہو رہا ہے۔ میں نے اپنے ڈاکٹر شیر حسن صاحب سے یہ بات ذکر کی کہ میں بہت خوش نصیب ہوں۔ تیسرا دن ایسے ہی جا رہا ہے۔ انہوں نے فرمایا: صرف آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہم سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ کی مرضی، اللہ پاک چاہتے تھے کہ ہمیں حضرت سے کے ذریعے سے یہ دیا جائے۔ لیکن اگر نہ بتانا چاہے تو قریب ہی کوئی ہو گا لیکن پتا نہیں ہو گا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک واقعہ ”حکایات اولیاء“ کتاب میں لکھا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو جب اس کتاب کا پتا چلا تو بہت خوش ہو گئے تھے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک طالب علم حضرت کا خادم تھا۔ لیکن لڑکوں کے ساتھ مسائل ہوتے ہیں، تو اس کا کسی لڑکی کے ساتھ تعلق ہو گیا۔ اور ان کا رات کو ملنے کا پروگرام بھی بن گیا۔ اس طالب علم نے حضرت کے پیر دبائے تاکہ حضرت سو جائیں اور مجھے راستہ مل جائے۔ جب حضرت سو گئے تو یہ لڑکا اٹھ کر meeting point کی طرف چل پڑا۔ وہاں پہنچا تو یک دم موسم خراب ہو گیا اور اتنا خراب ہوا اور گرج، چمک اتنی شدید ہوئی کہ وہ لڑکی اپنے گھر کی طرف بھاگی اور لڑکا واپسی کی طرٖ پلٹا اور مل ہی نہ سکے۔ جب واپس پہنچا تو دیکھا کہ حضرت مراقبہ کی حالت میں چارپائی پہ بیٹھے ہیں اور سر نیچے کیا ہوا ہے۔ اور پھر حضرت آرام سے لیٹ گئے۔ معلوم ہوا اللہ پاک کی ذات جس وقت جو چاہے کر لیتا ہے۔ "یَا سَارِیَہ اِلَی الْجَبَل!" حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مشہور واقعہ ہے۔ اس وجہ سے یہ ساری باتیں ممکن ہیں۔ لیکن ضروری نہیں ہیں۔ چنانچہ اپنے احوال شیخ سے چھپانے نہیں چاہئیں اس بنیاد پر کہ بس اس کو پتا چل ہی گیا ہو گا۔ تم بتا دو، بے شک اس کو پتا ہو اور نہ پتا ہو پھر بھی بتاؤ۔ تمہارا کام بتانا ہے کیونکہ تمہارے بتانے سے تمہاری حالت بدلے گی۔ آپ میں طلب ہونی چاہیے۔ جب تک طلب نہیں آئے گی اللہ پاک نہیں دے گا۔ پشتو میں کہتے ہیں بچہ جب تک نہ روئے ماں بھی دودھ نہیں دیتی۔ لہٰذا طلب یہی ہے کہ پوچھنا چاہیے، بتانا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔
سوال 8:
پنجیالہ میں ایک پیر فضل محمود صاحب تھے۔ میں شروع میں ان سے بیعت تھا۔ ڈی آئی خان میں میرے ایک دوست قمر صاحب میرے پیر بھائی ہیں جو ہر سال حج پہ جاتے ہیں۔ بڑے نیک آدمی ہیں۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے لئے میری بیٹی کا رشتہ مانگا۔ میں نے ان سے کہا: آپ کا بیٹا نماز نہیں پڑھتا، میں ایسے آدمی کو اپنی بچی کا رشتہ نہیں دینا چاہتا۔ ایک دن وہ میرے گھر آئے اور کہا کہ پیر صاحب کے پاس چلتے ہیں۔ ہم پیر صاحب کے پاس پہنچے تو باتوں کے دوران پیر صاحب نے ان سے کہا: قمر صاحب! ارشد صاحب کو تنگ مت کرو۔ میں حیران ہو گیا کہ مجھے انہوں نے کب تنگ کیا ہے؟ جب ہم واپسی کے لئے گاڑی میں بیٹھے تو قمر صاحب نے کہا کہ میں لایا اس لئے تھا کہ پیر صاحب کے ذریعہ آپ پہ پریشر ڈالوں، لیکن انہوں نے مجھے ہی منع کر دیا۔
جواب:
اللہ پاک کے پاس بہت ذریعے ہیں اور اللہ جل شانہ جس کام کو کرنا چاہے کر لیتا ہے۔ فرمانِ خدا وندی ہے: ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾ (البروج: 16) تصوف کو سمجھنے کے لئے اللہ جل شانہ کی قدرتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ بہت سارے لوگ قدرتوں کو نہیں سمجھتے نتیجتاً شیخ کو خدا کا درجہ دینے لگتے ہیں اور گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ شیخ خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے۔ اللہ پاک اس کو استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ اس کو ذریعہ بنا رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی کتاب کو ذریعہ بنانا چاہے تو بنا سکتا ہے۔ کسی پتھر کو ذریعہ بنا سکتا ہے۔ ابابیل کو ذریعہ بنا سکتا ہے تو شیخ کو بھی بنا سکتا۔ اللہ پاک مالک ہے۔ جس طرح بھی چاہے کر لیتا ہے۔ لہٰذا جب تک تو اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پہ یقین ہو گا کوئی پریشانی اور کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ سب کچھ ممکن ہے۔ البتہ ہم چونکہ طالب ہیں لہٰذا ہم اپنی طلب کا اظہار کرتے رہیں گے چاہے ان کو پتا ہو چاہے نہ ہو۔
سوال 9:
کسی کا اپنے شیخ کے ساتھ تین، چار سال تعلق رہا اور اس کے بعد شیخ وفات پا گئے تو کیا اس کے بعد بھی فیض آئے گا اور کیا نئے شیخ کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہے؟
جواب:
بڑا اچھا سوال ہے۔ اگر تربیت کی تکمیل نہیں ہوئی تو کسی اور سے تکمیل کرائے۔ تکمیل کسی زندہ سے کروانی ہوتی ہے۔ اگر کسی فوت شدہ سے ممکن ہوتی تو آپ ﷺ کی موجودگی میں کسی بزرگ کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ آپ ﷺ ساری امت کے لئے کافی تھے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ آپ ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ شہید اگر زندہ ہے تو نبی یقیناً زندہ ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ انتظامی امر ہے کہ زندہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو آپ ﷺ نے خواب میں ایک بزرگ سے بیعت کروایا۔ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دلوایا۔ ان بزرگ کو وہ جانتے نہیں تھے لیکن خواب میں ہی ان کی شکل اتنی زبردست ذہن میں بیٹھ گئی کہ وہ نقش بالکل محفوظ رہا۔ جیسے جاگتے میں انسان کسی کو دیکھتا ہے۔ اب حضرت با قاعدہ ان کی تلاش میں نکلے لیکن وہ مل نہیں رہے! ایک دن کسی نے کہا: سنا ہے آپ کسی شیخ کی تلاش میں ہیں؟ یہاں گاؤں جھنجھانہ ہے وہاں بھی ایک بزرگ ہیں۔ ذرا ان کو بھی دیکھ لیں، ممکن ہے آپ کا مطلب پورا ہو جائے۔ حضرت با قاعدہ سفر کر کے گئے اور جیسے ہی ان کے چہرہ پہ نظر پڑی پتا چلا کہ یہ وہی ہیں۔ حضرت ان کے قدموں میں پڑ گئے کہ مجھے اپنا فرزند بنا لیں۔ حضرت نے انہیں اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اٹھایا ور فرمایا: تمہیں اپنے خواب کے اوپر پورا یقین ہے، یعنی حضرت کو بھی پتا چل گیا تھا۔ مقصد یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی طرف بھیجا تھا۔ اور اللہ پاک نے آپ ﷺ کے ذریعہ سے کیا۔ چنانچہ فوت شدہ بزرگ کی برکت قائم رہتی ہے لیکن تربیت ختم ہو جاتی ہے۔
ہمارے ایک ساتھی ڈاکٹر ارشد تقویم صاحب خود چاروں سلسلوں کے شیخ ہیں۔ وہ فرما رہے تھے کہ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مجھے بڑی محبت تھی۔ خواب میں میں نے ان کو دیکھا تو میں نے ان سے درخواست کی کہ حضرت آپ مجھے بیعت فرما لیں۔ حضرت نے فرمایا: بیٹا اب تو میں یہ کام نہیں کرتا۔ اب یہ کام وہ کرتے ہیں، انگلی سے اشارہ کیا تو میں نے دیکھا کہ مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ تھے جو حضرت کے بیٹے تھے۔وہ ایک دیگ سے چاول بھر بھر کے لوگوں میں تقسیم کر رہے ہیں۔ جب یہ جاگ گئے تو حسن اتفاق سے انگلینڈ میں تھے اور انگلینڈ میں حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب کا دورا ہوا اور وہ چونکہ ڈاکٹر ارشد تقویم صاحب کے والد صاحب کو جانتے تھے۔ کیونکہ کے دونوں آپس میں ہم سبق تھے۔ تو بڑے خوش ہوئے اور ان کو بیعت کر لیا۔ اور ابھی میں نے آپ کو خواجہ خان محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ والی بات بھی سنائی۔ معلوم ہوا فوت شدہ بزرگ چاہے کتنے ہی بڑے بزرگ کیوں نہ ہوں، ان کی بزرگی اپنی جگہ، ان کی برکت اپنی جگہ لیکن تربیت کسی زندہ شیخ سے ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر تکمیل نہ ہوچکی ہو تو تکمیل کسی اور سے کروانی چاہیے۔
سوال 10:
السلام علیکم! حضرت تکمیل سے کیا مراد ہے؟
جواب:
تکمیل سے مراد تربیت مکمل ہو جائے۔ نفس شریعت کا تابع ہو جائے۔ یعنی جب تک نفس کے اندر رکاوٹ اور ٹیڑھ پن موجود ہے اس وقت تک تکمیل نہیں ہوئی۔ جب یہ ہو جائے تو تکمیل ہو گئی اور اس کی اطلاع پھر شیخ ہی کرتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
سوال 11:
ہمارے پہلے پیر فضل محمود رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں ایک کتاب ”نفحات الانس“ recommend کی تھی۔ اس کا مقصد کیا ہے؟
جواب:
”نفحات“ یعنی سانس اور ”اُنس“ یعنی کسی کے ساتھ مانوس ہو جانا۔ مطلب یہ ہے کہ یہ وہ لمحہ ہے جس میں انسان اللہ کے ساتھ مانوس ہوتا ہے۔ جس میں اکثر اولیائے کرام کے واقعات ہیں۔
سوال 12:
حضرت بعض اوقات ایسے بھی مشائخ ہیں جن کی عمر ما شاء اللہ کافی زیادہ ہو چکی ہے اور حیات ہیں اور ان سے رابطہ بھی ممکن ہے لیکن عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے اپنی بات اپنے مریدین تک convey کرنے میں ان کو پرابلم ہوتی ہے۔ ان کے آس پاس کے جو خادم ہوتے ہیں وہ ان کو convey کرتے ہیں۔ لیکن اس کے اندر ان کے اپنے کی نفس چیزیں شامل ہو جاتی ہیں جس میں نقصانات ہوتے ہیں اور لوگ اس پہ چل پڑتے ہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟
جواب:
ہم نے اپنے بزرگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ ایک خاص عمر تک پہنچ جاتے ہیں جس کے بعد وہ تربیت کا حق ادا نہ کر سکتے ہوں تو پھر وہ مریدین کو اپنے خلفاء کے حوالے کر دیتے ہیں یا پھر کسی اور شیخ کے بارے میں بتا دیتے ہیں اور معذوری کا اظہار کر دیتے ہیں۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ حدیث شریف پڑھاتے تھے۔ ایک دفعہ اونٹ کے اوپر سوار ہو کر جا رہے تھے۔ اور اس وقت تک حضرت نابینا ہو گئے تھے۔ ایک جگہ انہوں نے سر نیچے کر دیا۔ شاگردوں نے اس کی وجہ پوچھی۔ فرمایا: کیا ادھر درخت وغیرہ نہیں ہے؟ کہا: نہیں ہے۔ فوراً اونٹ کو ادھر ہی بٹھایا اور فرمایا کہ قریب جو بستیاں ہیں وہاں کے سب سے بوڑھے لوگوں کو بلا لاؤ۔ شاگرد بلا لائے۔ حضرت نے ان سے پوچھا: جہاں میرا اونٹ بیٹھا ہوا ہے اس سے کچھ پہلے یہاں کوئی درخت تھا یا نہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں درخت تھا، اس کو کاٹ دیا گیا ہے۔ فرمایا: الحمد للہ، ورنہ میں کل سے درس بند کرنے والا تھا کہ شاید میرا حافظہ کمزور ہو گیا ہے، اب میں اس قابل نہیں ہوں کہ میں درس دے سکوں۔ یعنی اگر انسان اپنی صلاحیتوں کو کسی کام کے نہ کرنے کے برابر پائے تو پھر دیانت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو معذور declare کر دے۔ بہر حال برکت ختم نہیں ہوتی، البتہ تربیت کا عنصر کم ہو جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ کسی بڑے شیخ سے اس لئے بیعت ہوتے ہیں کہ ان کا نام بہت مشہور ہوتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیں زیادہ فائدہ ہو گا۔ حالانکہ میں نے عرض کیا ہے کہ تربیلا ڈیم میں سو واٹ کا بلب اور یہاں کا بلب ایک جیسے جلتے ہیں۔ چھوٹے شیخ میں بھی اللہ ہی فیض ڈالتا ہے اور بڑے شیخ میں بھی اللہ ہی فیض ڈالتا ہے۔ اس وجہ سے یہ نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ دیکھنا چاہیے کہ میری مناسبت کس کے ساتھ ہے اور میرا رابطہ کس کے ساتھ زیادہ ہو سکتا ہے؟ اگر یہ چیز موجود ہے تو پھر اللہ پاک اس کو ذریعہ بنا لیں گے۔ ہمیں مقصدیت پہ نظر کرنی چاہیے، افسانویت پر نہیں۔
سوال 13:
بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بڑا بزرگ ہے، غوث ہے۔ کیا کسی بزرگ کو غوث کہنا جائز ہے؟
جواب:
غوث کا مطلب ہے ”پہنچنے والا“ یہ ”اَستَغِیث“ سے ہے۔ یہ ساری چیزیں تقابلی ہیں جس کو ہم انگریزی میں relative کہتے ہیں۔ ایک چیز کا دوسری کے ساتھ تعلق ہوتا ہے لیکن چونکہ عوام کو بعض چیزوں کا نقصان ہوتا ہے لہٰذا ایسی اصطلاحات جن سے ان کو نقصانات ہو، وہ ان کے سامنے نہیں بولنی چاہئیں۔ لیکن عرفِ عام میں جو تصوف کی اصطلاح ہے اُس میں غوث اس بزرگ کو کہتے ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ پاک لوگوں کو مدد پہنچاتے ہیں۔ خود وہ شخص نہیں کرتے ہیں بلکہ اللہ پاک مدد کرتے ہیں۔ جیسے غوث اعظم اور غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بہت مشہور ہے۔ اسی طرح حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کو داتا گنج بخش کہتے ہیں۔ میں خود احتیاط کرتا ہوں، میں کبھی داتا گنج بخش نہیں کہتا لیکن ان کے بارے میں بد گمانی نہیں کرتا کیوں کہ میں اس چیز کو جانتا ہوں کہ وہ صرف ایک ذریعہ کے طور پر ہیں۔ جو لوگ اس چیز کو جانتے ہیں ان کو نقصان نہیں ہو گا لیکن جو نہیں جانتے ان کو نقصان ہو سکتا ہے۔ لہٰذا خود احتیاط کرنی چاہیے اور دوسروں کے بارے میں بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔ جیسے مولانا غلام غوث ہزاروی بہت بڑے عالم تھے۔ اگر اس لفظ میں ایسی کوئی بات ہوتی تو وہ اپنا یہ نام نہ رہنے دیتے۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی غوث ہوتا ہے۔
سوال 14:
تزکیۂ نفس کا تصوف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا تصوف اور خودی میں کوئی فرق ہے؟
جواب:
تصوف اور تزکیہ دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ تزکیہ نفس کے پاک کرنے کو، نفس کے رذائل کے دبانے کو کہتے ہیں۔ اور یہی تصوف کا کام ہے۔ تصوف کے کئی نام ہیں۔ تصوف، طریقت، تزکیہ، احسان اور تقویٰ۔ جہاں تک خودی کی بات ہے تو علامہ اقبال مرحوم نے ایک بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ انسان کو اللہ نے جو صلاحیتیں دی ہیں ان کا ادراک کر لے اور اس کے تقاضوں پر عمل کر کے اللہ پاک کی مدد کو حاصل کر لے۔ اس کو خودی کہتے ہیں۔ وہ لوگ اس وقت ہندوستان میں غلامی کے دور سے گزر رہے تھے اور لوگوں میں اتنی حد تک پست ذہنیت پیدا ہو چکی تھی کہ وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ انگریزوں کو اپنے ملک سے نکالا جا سکتا ہے یا ہم ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں یا ہم ان سے جیت سکتے ہیں، وہ ہمت ہی ہار گئے تھے۔ علامہ اقبال ان کو یہ تصور دلانا چاہتے ہیں کہ بھئی تم معمولی لوگ نہیں ہو، تمہارے ساتھ تو اللہ ہیں۔
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الہ الا اللہ
"لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ" کے ساتھ اس کو باندھ لیا۔ یعنی "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ" کے ذریعہ سے تم اس چیز کو حاصل کر سکتے ہو۔ یہ اس کا راز ہے۔ دوسری جگہ کہا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اگر خودی کو انسان علامہ اقبال کی definition کے مطابق بلند کرے گا تو "لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ" پر محنت کرے۔ یعنی دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت کو دل میں لا کر اللہ کا ہو جانا۔ جب ایسا ہو جائے گا تو اللہ پاک اس کی بات مانیں گے۔ بہر حال خودی ایک اصطلاح ہے۔ البتہ آج کل کے دور میں چونکہ ہم غلامی کے دور سے نہیں گزر رہے لہٰذا خودی کی تعریف کو بدلنا ضروری ہے۔ علامہ اقبال کی ضرورت تو پوری ہو گئی۔ اب ہمیں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف آنا پڑے گا۔ یعنی تصور بے خودی۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے دو شعروں سے آپ کو اس کا اندازہ ہو جائے گا۔
جہد کن در بے خودی خود را بیاب
ختم شد واللہ اعلم بالصواب
کوشش کر لو بے خودی میں تاکہ تم خود کو دریافت کر لو۔ خود کو پانا خودی ہے۔ یعنی خودی کا ذریعہ بے خودی ہے۔ یعنی یہاں سے تصوف شروع ہو جاتا ہے۔ بے خودی کا مطلب فنا فی اللہ ہے۔ انسان اللہ کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ در ہیچ سمجھ لے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ جیسے لا الہ الا اللہ میں لا الہ، ساری دنیا پہ ایک تلوار چلاتے ہیں تو اپنے اوپر بھی چلائیں کہ اللہ پاک کے سامنے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ جب فنا حاصل ہو جائے گی تو فنا کا لازمی حصہ بقا ہے۔ جیسے تمہارے پاس 50 روپے ہیں۔ حقیقت میں یہ 50 روپے فانی ہیں۔ اگر یہ خیرات کر دو تو پھر یہ باقی ہیں۔ یعنی تم اللہ کے لئے اپنی صلاحیتیں استعمال کر لو۔ اللہ کے لئے اپنے آپ کو فنا کر دو تو اللہ کے نزدیک باقی ہو جاؤ گے۔ اس کو بقا کہتے ہیں۔ فنا بے خودی ہے اور بقا خودی ہے اور بقا کا ذریعہ فنا ہے۔ جب تک کوئی فنا نہیں ہوتا اس وقت تک بقاء حاصل نہیں ہوتی۔ لہٰذا طریقہ بھی اختیار کرنا ہے اور مقصد بھی پانا ہے۔ مقصد یہاں پر بقا ہے لیکن اس کا طریقہ فنا ہے۔ لہٰذا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی تعبیر میں زیادہ جامعیت ہے۔ آج کل کے دور میں چونکہ لوگوں نے علامہ اقبال کے concept کو نہیں سمجھا لہٰذا گمراہیوں میں پڑ گئے اور عجب کی طرف چلے گئے ہیں۔ یعنی اپنے آپ کو کچھ سمجھنے لگے۔ اور یہ غلط بات ہے۔ علامہ اقبال اس سے نکالنا چاہتے تھے۔ یہ چیز چونکہ اب علامہ اقبال کے شعر سے سمجھ میں نہیں آتی لہٰذا ہمیں originally مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف جانا پڑے گا۔ انہوں نے بہت clearly دونوں چیزیں ایک ہی شعر میں بیان کی ہیں۔
جہد کن در بے خودی خود را بیاب
ختم شد واللہ اعلم بالصواب۔
سوال 15:
حضرت! جس طرح بزرگ فرماتے ہیں کہ 4 مجاہدات ہوتے ہیں۔ کم بولنا، کم سونا، کم کھانا اور لوگوں سے کم ملنا۔ اس سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے۔ چنانچہ حسد، کینہ، بغض وغیرہ جو نفس کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ان سے کیسے ٹھیک ہو جاتے ہیں؟
جواب:
ہمارے اندر دو چیزیں ہیں۔ ایک قلب ہے اور دوسرا نفس ہے۔ قلب میں دو چیزیں ہیں۔ ایک القائے شیطانی ہے اور دوسرا القائے رحمانی ہے۔ قلبِ ذاکر کا الہامِ شیطانی کنٹرول ہو جاتا ہے۔ اور الہامِ رحمانی تیز ہو جاتا ہے۔ لہٰذا دل ہدایت شناس ہو جاتا ہے۔ پس وہ قرآن پڑھتا ہے تو قرآن سے ہدایت۔ سنت پڑھتا ہے تو سنت سے ہدایت۔ بزرگوں کی خدمت میں ہے تو بزرگوں سے ہدایت۔ یعنی اس کو ہر چیز سے ہدایت ملتی ہے۔ لیکن اگر قلب ہدایت شناس نہ ہو تو پھر ایسا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ”یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو یا جو حاضر دماغ بن کر کا دھرے۔“
اصل میں نفس actions کا سسٹم ہے۔ آپ نفس کو گاڑی سمجھ لیں اور دل کو ڈرائیور سمجھ لیں۔ اگر گاڑی کے سارے systems ٹھیک نہ ہوں تو ڈرائیور چاہے کتنا ہی با کمال ہو جائے گاڑی نہیں چلے گی۔ اور گاڑی first class ہو لیکن ڈرائیور انتہائی اناڑی ہو تو گاڑی غلط چلے گی۔ چنانچہ دل اور نفس دونوں کی محنت کی ضرورت ہے۔ نفس کی محنت کی اپنی significance ہے اور دل کی محنت کی اپنی significance ہے۔ نفس کے لئے یہ مجاہدات ہیں کہ جب ایکشن آئے گا تو دل کی طرف سے order آئے گا کہ فلاں کام کرو تو اس کے لئے نفس کی مزاحمت والا نظام کمزور ہو چکا ہو تاکہ وہ مزاحمت نہ کر سکے۔ کیونکہ انسان جب زیادہ کھاتا ہے تو نفس باغی ہو جاتا ہے۔ جب زیادہ سوتا ہے تو نفس باغی ہو جاتا ہے۔ جب زیادہ بولتا ہے تو نفس باغی ہو جاتا ہے اور جب زیادہ کھلا ڈلا ملتا ہے تو بھی نفس باغی ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ان چیزوں کے اوپر کنٹرول آ جائے تو نفس کے اوپر کنٹرول آ گیا۔ اِدھر سے چیز بھی صحیح آئے اور اُدھر سے عمل بھی صحیح ہو جائے تو پھر فائدہ ہو گا ان شاء اللہ۔
سوال 16:
حضرت جی! کچھ لوگوں کی profession ایسی ہوتی ہے کہ لوگوں سے ملنا جلنا بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عجیب مثال دی ہے۔ بہت simple simple الفاظ میں بڑی چیزیں بتائی ہیں۔ فرمایا: کنجڑا اگر سارا دن کہتا رہے: امرود لے! لو امرود لے لو! تو اس کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ اور اگر کوئی آدمی بغیر ضرورت کے کسی سے یہ پوچھے کہ کدھر جا رہے ہو تو اس کے دل میں ظلمت آ جائے گی۔ کیونکہ اس نے لایعنی کام کیا۔ جس کی نہ دنیا میں ضرورت ہے نہ آخرت میں ضرورت ہے۔ جس میں کوئی پڑ جائے گا تو نقصان ہو گا اور کوئی گناہ کا کام ہوا تو ڈبل نقصان ہو گا۔ گناہ سے بھی بچنا ہے اور لا یعنی سے بھی بچنا ہے۔ اگر آپ کی ایسی profession رزق حلال کے لئے ہے تو حدیث شریف ہے کہ "کَسْبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃ" ”کسب حلال فرض نمازوں کے بعد فرض ہے۔“ یہ فرض آپ ادا کر رہے ہیں تو اس میں آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن اس میں تمام شرعی احکام کو پورا کرنا لازمی ہو گا، ایسے نہیں کہ آپ عورتوں کے ساتھ ہاتھ ملانا شروع کر دیں۔ اس کا نقصان ہو گا۔ لیکن آپ اگر ضرورت کے درجہ میں رہیں گے تو نقصان نہیں ہو گا۔ بلکہ مجاہدہ کا اجر ملے گا۔
سوال 17:
حضرت! شیخ کے سید ہونے سے کوئی added advantage ہوتا ہے؟
جواب:
اس کے بارے میں کچھ experience سے نہیں بول رہا لیکن حدیث شریف کے حوالے سے بات کرتا ہوں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ محبت کرو کیوں کہ وہ تمہیں نعمتیں دیتا ہے اور میرے ساتھ محبت کرو کیوں کہ اللہ کو مجھ سے محبت ہے اور میرے لئے میرے اہل بیت کے ساتھ محبت کرو۔ اور یہ بھی فرمایا کہ دو چیزیں جدا نہیں ہوں گی، جب تک حوض کوثر پہ ملاقات نہ ہو جائے۔ ایک کتاب اللہ اور ایک میرے اہل بیت۔ اس وجہ سے ہمارے جتنے بھی امام گزرے ہیں، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سب اپنے دور میں اہل بیت کے قریب رہے ہیں۔ ہر ایک کسی نہ کسی کے ساتھ لگا رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تھے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے لحاظ سے۔ اس سے پتا چلا کہ ہمارے چاروں اماموں نے اس پر عمل کیا ہے۔ اور اپنے آپ کو محفوظ کر دیا ہے۔ لہٰذا اگر سادات اپنے راستے پہ صحیح چل رہے ہیں یعنی آپ ﷺ کے حوالے سے اللہ کے ساتھ ملانا تو پھر زیادہ فائدہ ہو گا۔ البتہ صرف سید ہونا کافی نہیں ہے کیوں کہ آپ ﷺ نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا تھا کہ تم صرف میری وجہ سے نہیں بچو گی بلکہ خود عمل کرنا پڑے گا۔ لہٰذا دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ سادات پھول نہ جائیں کہ بس ہم فٹ ہی فٹ ہیں۔ ایک بخاری سیدہ تھی اور بہاولپور کے قریب استانیوں میں میرا بیان تھا۔ وہ اٹھیں اور انہوں نے کہا کہ شاہ صاحب! میں سیدہ ہوں کیا میں بھی کسی سے بیعت ہو سکتی ہوں؟ ان کا خیال تھا کہ سادات کسی سے بیعت نہیں ہوں گے جیسے تصور پایا جاتا ہے۔ میں نے کہا: آپ کے آباء و اجداد کسی سے بیعت ہوئے تھے؟ کہتی ہیں: جی ہوئے تھے۔ میں نے کہا: پھر آپ بھی ہو سکتی ہیں۔ ہمارے ایک جد احمد رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ان کا ایک واقعہ مشہور ہے۔ وہ شیخ کامل کی تلاش میں کچھ لوگوں کے ساتھ نکلے۔ اس وقت اس طرح نکلنے کا رواج تھا۔ ایک جگہ پڑاؤ کیا اور سائے میں بیٹھ گئے اور آپس میں بات چیت کر رہے تھے کہ کس طرف جائیں؟ یعنی آپس میں شیخ کامل کی تلاش کے بارے میں مشورہ کرنے لگے۔ وہاں ایک گاؤ بان تھے جو گائے چرا رہے تھے اور رنگ و چہرے سے بھی اتنے خوبصورت نہیں تھے۔ وہ ان کے قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے مامور ہوں۔ انہوں نے کہا: روئے زمین پر اس وقت مجھ سے بڑا ولی کوئی نہیں ہے۔ یہ سن کر سب لوگ ان سے بیعت ہو گئے اور دیکھا دیکھی میں ہمارے جد بھی ان سے بیعت ہو گئے لیکن دل سے نہیں ہوئے۔ جو سچے دل سے بیعت ہوئے ان کو تھوڑے ہی دنوں میں ترقی ہونے لگی اور ہمارے جد کافی پیچھے رہ گئے۔ اب ان کو احساس ہوا کہ تو اپنے آپ کو سید سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہے، یہی وجہ ہے جو پیچھے رہ گیا۔ جب ان کو احساس ہوا تو پیرانی صاحبہ سے عرض کیا کہ آپ مرشد سے میری سفارش کر لیں۔ مجھ پر توجہ فرما دیں تاکہ مجھے بھی فائدہ ہو۔ انہوں نے کہہ دیا لیکن فائدہ نہیں ہوا۔ اب ایک اضطراری کیفیت ہو گئی۔ ایک دن حضرت تہجد کے وقت جا رہے تھے تو ایک چٹائی میں انہوں نے اپنے آپ کو باندھ کر حضرت کے راستے میں ڈال دیا۔ اندھیرے کی وجہ سے حضرت کو اس سے ٹھوکر لگی تو اندازہ ہو گیا کہ کوئی انسان ہے۔ پوچھا: کون ہے؟ عرض کی: احمد جو علم اور سیادت کے نشہ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ بس یہی بات تھی جو حضرت کہلوانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ان کو چٹائی سے نکالا، گلے سے لگا لیا اور اپنے ساتھ مسجد لے گئے۔ نماز پڑھی اور اجازت دے دی۔ بنے تو ہوئے تھے۔ مسئلہ صرف رکاوٹ کا تھا۔ معلوم ہوا دونوں کام ضروری ہیں۔ اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا آپ ﷺ کی سنت ہے اور صحابہ کرام کا طریقہ ہے۔ اور آپ ﷺ کے ساتھ جو نسبتیں ہیں ان کی اپنی ایک فضیلت ہے۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب بنے ہوں گے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن