سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 127

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

السلام علیکم

I have two questions in rather whether Shopkeeper has written in his shop that he doesn’t deal with Qadianis. please enlighten in the تعلیم of اسلام should we cut of there non-Muslims minorities?

جواب:

Actually there are 2 types of non Muslims. one those non muslims who declare themselves they are non muslims, there is no problem to do business with them just like prophet ﷺ used to have trades with other people like Jews and Christians so there is no problem that if these are all according to some clear instructions of اسلام. But if some non muslim they don’t declare themselves as non muslims and they consider themselves Muslims so they are not non Muslims only, but they are also زندیقین، زنادقہ , زندیق are those people who destroy the foundation of اسلام just like one of foundation of اسلام is ختم نبوت that Prophet ﷺ is the last prophet. So as Qadianis they do this for therefore they are not simple non-Muslims they are the non-Muslims who are زندیقین as well, and with those people it is not allowed to have trade to favor them or to have some good relations with them, its not possible. So, with them it’s not possible.

سوال نمبر2:

Normally we use right hand for religious food but sometimes I use left hand for تسبیح or hundred beats. Please advise me if this is not a good action.

جواب:

Yes! it is a rule that one has to use right hand for good actions for example like eating, like you can say having قرآن in hand writing and all these things, but if collectively one can use both the hands for some purpose so those are also allowed, for example “مصافحہ” مصافحہ is done with two hands, so in this case it is allowed and “تسبیحات فاطمی” as well, we can use two hands, just like counting with fingers, تو so we can use two hands the calculation pattern of Sunnah “انامل” its also uses of two hands for that purpose, so therefore it is not forbidden.

سوال نمبر3:

اگر گاڑی میں گانے لگے ہوں تو کیا ایسے اوقات میں تسبیحات درود شریف، استغفار یا مراقبہ وغیرہ کیے جا سکتے ہیں؟

جواب:

بازاروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جب بازار میں پہنچو تو چوتھا کلمہ پڑھ لیا کرو، اس کا اجر تیس لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتا ہے۔ بازار میں سب کچھ ہوتا ہے، یہ ساری خرافات بازار میں ہوتی ہیں، بازار کی تمام خرافات سے بچنے کا ذریعہ یہی ہے۔ میں ایک دفعہ سوچ رہا تھا کہ اس کا اتنا بڑا اجر کیوں ہے تو میرے دل میں آیا کہ چونکہ بازار میں تمام اشیاء ہوتی ہیں انسان کا دل اللہ سے ہٹا کر غیر اللہ کی طرف مائل کرنے والی ہوتی ہیں۔ چیزیں ایسے سلیقہ سے رکھی گئی ہوتی ہیں کہ ہر ایک کا دل چاہتا ہے کہ میں ان کو خرید لوں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کے پاس حلال مال نہ ہو تو حرام کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔ اگر حرام کے لیے تیار نہ بھی ہوں تو کم از کم دنیا کی محبت میں ضرور مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اب اپنے دل کو دنیا کی محبت سے موڑنے کے لیے اس کو اللہ کی طرف موڑنا ہوتا ہے۔ چوتھا کلمہ کلمۂ توحید ہے۔ یہ اللہ کی طرف توجہ کرواتا ہے۔

”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، لَہُ الْمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ یُحْیِی وَ یُمِیْتُ وَ ھُوَ حَیٌّ لَّا یَمُوْتُ اَبَدًا اَبَدًا ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَام بِیَدِہِ الْخَیْرُ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیئٍ قَدِیْرٌ“

اگر آپ اس کے معنی میں غور کریں تو اس میں توحید ہے، اللہ پاک کے ہر چیز پہ قادر ہونے کا بیان ہے، اللہ پاک کے سب کچھ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ اس لیے اسے پڑھنے سے دل اللہ پاک کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بازار میں گھومتے ہوئے یہ کلمہ پڑھنا چاہیے۔ بازار میں مراقبہ نہیں کر سکتے، کیونکہ مراقبہ میں یکسوئی چاہیے ہوتی ہے اور بازار میں یکسوئی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ایک اور وظیفہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ وظیفہ ہمیں ہمارے شیخ نے بتایا تھا۔ بازار جاتے ہوئے اس کا ورد بھی کیا جا سکتا ہے: ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ یہ وظیفہ ایسے تمام مواقع کے لیے مفید ہے جن کے دوران برائی کی طرف جانے کا امکان ہو۔ ہمارے شیخ نے با قاعدہ یہ وظیفہ بتایا تھا اور فرمایا تھا کہ آپ جب بھی ایسی جگہوں پہ گزریں جو اللہ پاک سے غافل کرنے والی ہوں، مثلاً ہندووں کے مندروں کے پاس سے، میوزک والی جگہوں سے اور فسق و فجور والی جگہوں سے گزریں تو اس وقت یہ وظیفہ کر لیا کریں۔ ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیم۔ اس کی برکت سے وہاں کے شیاطین تمہیں نہیں چمٹیں گے۔ چونکہ گانوں کے ساتھ بھی شیاطین ہوتے ہیں وہ انسان کو چمٹ جاتے ہیں۔ کہیں پر گانے لگے ہوں اور انہیں بند کرنا انسان کے اختیار میں ہو تو بند کرنا چاہیے اور اگر اختیار میں نہ ہو مثلاً آپ کے بند کرنے سے فتنہ کا اندیشہ ہوتا ہو تو پھر اس وظیفہ کا ورد کرتے رہیں۔ اگر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو بند کروا دینے چاہئیں، سب کا بھلا ہو جائے گا۔ لیکن اگر ایسی صورت حال ہے کہ فتنہ کا اندیشہ ہو تو پھر ان کو منع نہ کرے لیکن اپنے آپ کو بچائے، اور یہ وظیفہ ”یَا ھَادِیُ یَا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِپڑھتا رہے۔

سوال نمبر4:

بزرگ فرماتے ہیں کہ انسان کو دن میں آٹھ گھنٹے عبادت، آٹھ گھنٹے دنیا کے کام اور آٹھ گھنٹے آرام کرنا چاہیے۔ ان عبادات والے آٹھ گھنٹوں کی کیا ترتیب ہونی چاہیے؟

جواب:

کچھ کاموں کا تعلق اللہ پاک کے ساتھ بالواسطہ ہوتا ہے اور کچھ کام بلا واسطہ ہوتے ہیں۔ دین کے کام عبادات وغیرہ کا تعلق تو بلا واسطہ اللہ پاک کے ساتھ ہوتا ہے، وہ تو اجر کا باعث ہوتے ہیں۔ مومن کے لیے دنیا کے کام بھی اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ بنتے ہیں اگر وہ کام کرتے ہوئے اس کی نیت دین کی ہو۔ مثلاً کمانا اس نیت سے ہو کہ میں حلال اختیار کروں حرام سے بچ جاؤں، اشراف نفس سے بچ جاؤں، تو یہ کمانا عبادت بن جاتا ہے۔ اس طرح لوگوں کی خدمت کرنا، والدین کی خدمت اور گھر والوں کی خدمت کرنا یہ سب عبادات میں شمار ہو سکتے ہیں اگر ان سے نیت اللہ پاک کو راضی کرنے کی ہو۔

بلا واسطہ عبادت ایک علیحدہ چیز ہے کیوں کہ اسی بلا واسطہ عبادت سے ہی انسان کو اتنی طاقت ملتی ہے کہ وہ بالواسطہ عبادات کو اللہ کے لیے کر سکتا ہے، ورنہ وہ دنیا کے لیے ہو جائیں گی۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ذکر کی ایک intensity ہوتی ہے اس تک پہنچنے کے لیے کوشش کرنی ہوتی ہے، جب اس intensity تک انسان پہنچ جاتا ہے تو پھر اس کے لیے ہر چیز ذکر بن جاتی ہے کیوں کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی محبت ایسی رچ بس جاتی ہے کہ وہ جس چیز کو بھی دیکھتا ہے اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ یاد آتے ہیں، اللہ پاک کا یاد آنا ہی اس کے لیے ذکر جاتا ہے۔ قرآن پاک میں ہے:

﴿تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُۙ۔ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًاؕ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُۙ۔ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاؕ مَا تَرٰى فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍؕ فَارْجِـــعِ الْبَصَرَۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۔ ثُمَّ ارْجِـــعِ الْبَصَرَ كَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ اِلَیْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَّ هُوَ حَسِیْرٌ۔ وَ لَقَدْ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَ جَعَلْنٰهَا رُجُوْمًا لِّلشَّیٰطِیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِیْرِ﴾ (الملک: 1-5)

ترجمہ:” بڑی شان ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ جس نے موت اور زندگی اس لیے پیدا کی تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے، اور وہی ہے جو مکمل اقتدار کا مالک، بہت بخشنے والا ہے۔ جس نے سات آسمان اوپر تلے پیدا کیے، تم خدائے رحمن کی تخلیق میں کوئی فرق نہیں پاؤ گے۔ اب پھر سے نظر دوڑا کر دیکھو کیا تمہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟ پھر بار بار نظر دوڑاؤ، نتیجہ یہی ہوگا کہ نظر تھک ہار کر تمہارے اپس نامراد لوٹ آئے گی۔ اور ہم نے قریب والے آسمان کو روشن چراغوں سے سجا رکھا ہے، اور ان کو شیطانوں پر پتھر برسانے کا ذریعہ بھی بنایا ہے، اور ان کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ “

ان آیات میں آسمان میں موجود اللہ پاک کی قدرت کے مناظر کی طرف دیکھنے کا حکم ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ مقصود ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کی طرف انسان کے ذہن کا انتقال کرایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے مظاہر کو دیکھ کر اسے یاد کرنا اور اس کی قدرتوں کا اعتراف کرنا ہی اصل ذکر ہے۔ لہٰذا اگر ذکر کی intensity حاصل ہو جائے تو اس کے بعد اس کے لیے ہر چیز ذکر کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر انسان بلا واسطہ عبادات میں انہماک رکھے تو بالواسطہ عبادات بھی حقیقی عبادات کی طرح بن جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بالواسطہ عبادات صرف نام کی حد تک عبادات رہ جاتی ہیں کام کی عبادات نہیں ہوتیں۔ ان میں دنیا ہی دنیا ہوتی ہے، بلکہ اگر کچھ بگاڑ آ جائے تو دین کی چیزیں بھی دنیا بن جاتی ہیں۔ نماز بھی دنیا بن جاتی ہے روزہ بھی دنیا بن جاتا ہے زکوۃ بھی دنیا بن جاتی ہے حج بھی دنیا بن جاتا ہے، لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا جو پہلے اللہ کی رضا کے لیے کرتے تھے وہ بھی دنیا بن جاتا ہے، والدین کی خدمت دنیا بن جاتی ہے، بچوں کی خدمت دنیا بن جاتی ہے، الغرض ہر چیز دنیا بن جاتی ہے۔

ہمیں مستقل طور پر اس پر محنت کرنی چاہیے کہ ہمارے بلا واسطہ اعمال زیادہ سے زیادہ جان دار ہوں۔ بلا واسطہ عبادات دو طریقوں سے ہو سکتی ہیں۔ ایک قسم جیسے نماز، روزہ، زکوۃ، حج، ذکر اور تسبیحات وغیرہ اجر والے ذکرہیں۔ ان کے اندر جان لانے کے لیے اصلاحی ذکر کیا جاتا ہے۔ ہماری ترقی کا راز اصلاحی ذکر اور صحبت صالحین میں ہے۔

انفاس عیسی میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک عجیب ملفوظ ہے۔ حضرت نے غالباً عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک شعر سے اس مضمون کو نکالا ہے۔ فرماتے ہیں: ” اگر موقع ملے تو شیخ کی خدمت میں رہو۔ شیخ کے ساتھ رہنے کا موقع نہ ملے تو بیوی کے ساتھ رہو، بیوی کے ساتھ رہنے کا موقع بھی نہ ہو تو پھر اللہ کا ذکر کرو۔ “

شیخ کی صحبت میں صحبتِ صالحین میسر ہوگی۔ بیوی کے ساتھ رہنے میں حفاظت ہے، منفی سے بچاؤ ہے۔ اگر یہ دونوں نہ ہوں تو پھر ذکر اللہ ہے۔ لہٰذا براہ راست اللہ تعالیٰ کے تعلق کو حاصل کرنے والے اعمال زیادہ کرنے چاہئیں، آٹھ گھنٹے میں ہم یہی کریں گے، فرائض، سنن، نوافل، معمولات اور ذکر واذکار کریں گے۔، یعنی وہ کام جو براہ راست دین ہوتے ہیں۔

سوال نمبر5:

ذکر کی intensity سے کیا مراد ہے؟

جواب:

ذکر کی intensity سے مراد یہ ہے کہ ذکر کی رسائی آپ کے دل میں کہاں تک ہوئی ہے۔ جیسے ہوا بھرنے والے پمپ کو جتنا زور سے دباتے ہیں ہوا اتنی زیادہ بھری جاتی ہے، اس کی intensity اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ آپ کا ذکر جتنا راسخ ہو گا، آپ کے جسم میں اتنا زیادہ اس کا اثر ہوگا، مثلاً پہلے قلب میں اثر ہوگا، پھر لطیفۂ روح تک پہنچے گا، پھر لطیفۂ سر تک، پھر لطیفۂ خفی تک، اس کے بعد لطیفۂ اخفٰی تک پہنچے گا، پھر اس سے بڑھ کر پورے جسم کے اندر یہ ذکر سرایت کر جائے گا، جسے ہم سلطان الاذکار کہتے ہیں۔ ذکر کی intensity سے یہ مراد ہے کہ آپ اتنا ذکر کریں، اتنا ذکر کریں، اتنا ذکر کریں کہ آپ کو ہر طرف اللہ ہی اللہ نظر آنے لگے۔ جب یہ کیفیت حاصل ہو جائے تو پھر واقعتاً انسان کو ہر چیز میں اللہ پاک یاد آتے ہیں۔

سوال نمبر6:

اگر آدمی سونے سے پہلے اعمال کر کے سوئے اور سونے کی نیت یہ کرے کہ میں سو کر آرام کروں گا جس سے مجھ میں طاقت آئے گی، اس طاقت سے میں مزید نیک اعمال کر سکوں گا اور اللہ پاک کی عبادت کروں گا تو کیا یہ سونا بھی عبادت بن جائے گا؟

جواب:

جی ہاں بالکل! اگر سنت طریقہ پہ سو جائے اور یہ نیت کر لے کہ اس سے مجھے جو طاقت حاصل ہو گی اسے عبادات، اللہ تعالیٰ کی یاد اور اللہ تعالیٰ کے کاموں میں خرچ کروں گا تو یہ سونا بھی عبادت بن جائے گا۔ لیکن یہ بالواسطہ عبادت ہو گی، بلا واسطہ نہیں ہو گی۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ آٹھ گھنٹے نیند کے شمار کرکے سارے نوافل چھوڑ دیں کہ جی ہماری نیند عبادت ہے، عبادت تو ہم نے سو کے کرلی، نفل وغیرہ پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ سونا وغیرہ عبادت بن بھی جائے تو وہ براہ راست عبادات کے برابر نہیں ہو سکتا۔

سوال نمبر7:

اگر ایک گناہ ہو گیا اور اس پر ایک مرتبہ صلوۃ التوبہ پڑھ لی تو کیا پھر بھی شیخ کو بتانا ضروری ہوتا ہے؟

جواب:

اگر آپ شیخ کو بتانے میں یہ فارمولا بنا لیں کہ بری چیزیں بتانی ہیں اور اچھی نہیں بتانی تو اس کا مطلب ہے آپ نے فیصلہ کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا کہ یہ فیصلہ میں خود ہی کروں گا کہ کون سی چیزیں اچھی ہیں اور کون سی بری ہیں۔ اگر آپ خود فیصلہ کریں گے تو آپ سے غلطی ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے جس چیز کو آپ اچھا سمجھ رہے ہوں، وہ اچھی نہ ہو اور جس چیز کو آپ اچھا نہیں سمجھ رہے عین ممکن ہے کہ وہ اچھی ہو اور آپ کی سمجھ کا قصور ہو۔ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ تمام رطب و یابس اجمالی انداز میں شیخ تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ البتہ اگر شیخ کسی چیز کی تفصیل معلوم کرنا چاہے تو پھر آپ اس چیز کی تفصیل بتا دیں۔ اگر آپ خود فیصلہ کر لیں کہ میں یہ بتاؤں گا اور یہ نہیں بتاؤں گا تو اس میں شیطان ضرور اپنا حصہ ڈال دے گا۔ میں نے اصولی بات بتائی ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے تاکہ آپ کے پاس ایک فارمولا آ جائے اور آپ اس کے مطابق شیخ کو بتاسکیں۔

حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہے: ”الحمد للہ میری کوئی چیز اپنے شیخ سے مخفی نہیں ہے۔“ دیکھیں وہ ہر چیز اپنے شیخ کو بتاتے تھے، حالانکہ بہت بڑے عالم تھے، تصوف کے بارے میں ضروری درجہ کی معلومات ان کو بہت ساری حاصل تھیں۔ صحیح عالم تصوف کے بارے میں بہت کچھ جانتے اور سمجھتے ہیں۔ مفتی نعیم بخاری صاحب ہمارے ساتھ منسلک ہیں۔ وہ مفتی ہیں، انہوں نے تصوف کو بھی پڑھا ہے اور بقول ان کے مجھ سے زیادہ پڑھا ہے لیکن جب وہ کوئی step لیتے ہیں تو مجھے ضرور بتاتے ہیں، پھر میں ان کی جو خدمت کر سکتا ہوں، کر دیتا ہوں۔

الغرض اس کا فیصلہ اپنے پاس رکھنا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ اس کا دارومدار شیخ پر رکھنا چاہیے۔

سوال نمبر8:

تکبر اور عجب میں فرق کیسے کرتے ہیں۔ کیا یہ حب جاہ کے شعبے ہیں؟

جواب:

جی ہاں! یہ دونوں حب جاہ کے شعبے ہیں، یہ دونوں جاہی امراض ہیں۔ تکبر اور عجب کے اندر صرف ایک فرق ہے۔ تکبر میں اپنے آپ کو بڑا سمجھا جاتا ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھ کر چھوٹا سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ عجب میں دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ضروری نہیں ہے، اس میں اپنے آپ کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ عجب کی صورت میں انسان کو اپنے اندر بڑی بڑی خوبیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں۔ باقی یہ دونوں جاہی امراض ہیں۔

سوال نمبر9:

یہ جو دنیا میں گزارا وغیرہ کرنے کے لیے ہم مختلف قسم کے انتظام کرتے ہیں، کیا یہ بھی دنیا کی محبت شامل ہوتے ہیں،یا دین میں شامل ہوں گے؟

جواب:

حدیث شریف میں ہے:

”حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ“ (مسند احمد، باب الذھد، ص:1187)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے“۔

اگر دنیا کا انتظام وغیرہ کرنے کا مقصد اللہ کی رضا ہے تو یہ بھی دین میں آ جائے گا، لیکن اگر اس کا مقصد اللہ کی رضا نہ ہو تو پھر یہ دنیا میں شامل ہوگا دین میں نہیں، کیونکہ تب یہ اللہ کے لیے نہیں رہا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین بھی دنیا کا انتظام کیا کرتے تھے، مگر ان کے دل میں دنیا کی محبت نہیں تھی، وہ یہ کام بھی محض اللہ کے لیے کیا کرتے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک واقعہ ہے۔ ایک بار ان کے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا تھا، اس نے سوچا کہ میں خلیفہ کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا تو زیادہ بہتر کھانا کھا سکوں گا۔ حضرت عمر نے ان کو کسی اور جگہ بٹھانا چاہا لیکن انہوں نے کہا میں آپ کے ساتھ ہی کھاؤں گا۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اب جو روٹی سب سے زیادہ سخت تھی وہ خلیفہ کے سامنے تھی۔

حضرت عمر کا مشہور مقولہ ہے:”اگر فرات کے کنارے ایک کتا بھوک سے مرتا ہے تو اس کا بھی عمر ذمہ دار ہے“۔ ان باتوں سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ دنیا کے کاموں کا منتظم کون ہو سکتا ہے۔ رفاہی اسٹیٹ کا نظریہ انہوں نے ہی پیش کیا ہے۔ اب تمام رفاہی اسٹیٹس کے نظریات کی بنیاد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تھیوری پر ہے۔ علوم کے لیے اللہ پاک نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ذریعہ بنایا جبکہ انتظامی امور اور رفاہی کاموں کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذریعہ بنایا، ایثار اور قربانی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علامت بنایا، خود سپردگی اور جان فروشی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نمونہ بنایا ہے۔ یہ مختلف چیزیں ہیں۔

اگر اللہ تعالیٰ کی محبت صحیح معنوں میں ہو تو اس کے تین مراحل ہوں گے۔ 1۔ دنیا کی محبت۔ 2۔دنیا کی محبت نہ ہونا۔ 3۔ اللہ کی محبت۔

دنیا کی محبت میں سب چیزیں دنیا کے لیے ہوں گی۔ دنیا کی محبت کے نہ ہونے میں بے انتظامی ہو گی۔ کوئی چیز چاہیے ہی نہیں ہو گی تو کوئی کچھ کرے گا ہی نہیں۔ ایک جوگی پن اور رہبانیت کا دور دورہ ہوگا۔ اور اگر اللہ کی محبت آ جائے تو پھر ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی، دین کے کام ہوں یا دنیا کے کام، ہر چیز میں اللہ کی رضا کا پہلو آ جائے گا۔ مقصد یہ بن جائے گا کہ جو اسائنمنٹ اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے اس کے ساتھ پورا پورا انصاف ہو جائے۔ اگر نیت درست ہو جائے گی اور مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہوگا تو پھر ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔

سوال نمبر10:

اچھا کھانا، اچھا پہننا، اچھا گھر بنانا اور آج کل کے دور میں اچھی سواری، یہ سارے دنیا داری کے کام ہیں۔ ان میں کتنی گنجائش ہے۔ کیونکہ یہ ہے تو دنیا، لیکن اس کے بغیر انسان نا مکمل رہتا ہے۔ اس کی کہاں تک گنجائش ہے اور اس کو کیا سمجھنا چاہیے؟

جواب:

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ پاک نے کتنا دیا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ پاک نے کتنا دیا تھا۔ داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے کتنا دیا تھا۔ حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ پاک نے کتنا دیا تھا۔ ان سب کو دیکھ کر ہم لوگوں کے سامنے یہ بات آتی ہے کہ ان کا سب کچھ اللہ کے لیے تھا اور وہ ان سب چیزوں کو اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اللہ جل شانہ کے لیےاستعمال کرتے تھے اور اللہ کے لیے استعمال کرتے کرتے ان کی اپنی ذات کے لیے بھی استعمال ہو جاتا تھا۔ جیسے کوئی مہمان آجائے تو کھانے کا حساب نہیں ہوتا، اس کے ساتھ ہی میزبان بھی کھا لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا سب کچھ چونکہ اللہ کے لیے ہوتا ہے لہٰذا بظاہر تو نظر آتا ہے کہ ان کی گاڑی ہے، ان کا مکان ہے ان کا status ہے۔ یہ ساری چیزیں ان کی ملکیت نظر آتی ہیں لیکن ہوتی وہ اللہ کے لیے ہیں۔ وہ یہ چیزیں اپنے نفس کے لیے نہیں رکھتے، بلکہ اللہ کے لیے رکھتے ہیں اور اللہ کے لیے وہ چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ البتہ امتحان کے مواقع آتے رہتے ہیں۔ پھر پتا چلتا ہے کہ صرف دعویٰ ہے یا واقعی اس پر عمل بھی ہے۔ امتحان کے مواقع آتے رہتے ہیں جن سے پتا چلتا رہتا ہے کہ واقعی اپنی ذات کے لیے ہے یا اللہ کے لیے ہے۔ جن کا اللہ کے لیے ہوتا ہے، ان کا پتا چل جاتا ہے کہ ان کا سب کچھ اللہ کے لیے ہے۔ جن کا ذات کے لیے ہوتا ہے ان کا بھی پتا چل جاتا ہے۔

سوال نمبر11:

کہتے ہیں کہ تصوف کا پہلا قدم رونے سے شروع ہوتا ہے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

یہ آپ نے کہاں پڑھا ہےکہ تصوف کا پہلا قدم رونے سے شروع ہوتا ہے؟ تصوف کا پہلا قدم رونے سے نہیں بلکہ تصوف کا پہلا قدم نیت سے ہے کہ آپ تصوف میں سب سے پہلے اپنی اصلاح کی نیت کرتے ہیں، پھر اصلاح کے لیے جو پروسیجر اور طریقہ مطلوب ہوتا ہے اس کے مطابق چلتے ہیں۔ فلسفی نہ بنو بلکہ عملی صوفی بنو۔ فلسفیانہ چیزوں سے پرہیز کرو۔ ہمیں فلسفی نہیں بننا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ تصوف بھی ایک عمل ہے، اس کا دار ومدار بھی نیت پر ہے۔ سب سے پہلے اپنی اصلاح کی نیت ہو گی۔ اس کے بعد اپنا سارا معاملہ شیخ کے ہاتھ میں دینا ہوگا، وہ اگر آپ کو رونے پہ لگا دے تو رونا شروع کر لیں، ہنسنے پہ لگا دے تو ہنسنا شروع کر لیں، سونے پہ لگا دے تو سونا شروع کر لیں، جاگنے پہ لگا دے تو جاگنا شروع کر لیں۔ خود سے نہ سونے کو ضروری سمجھیں نہ جاگنے کو ضروری سمجھیں، نہ رونے کو ضروری سمجھیں نہ ہنسنے کو ضروری سمجھیں۔

حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ، حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفاء میں سے تھے، ان کو ابو البکاء کا خطاب ملا تھا، وہ بہت روتے تھے۔ ایک اور بزرگ تھے، وہ بھی حضرت کے خلیفہ تھے، ان کو ضحاک کا لقب ملا تھا، وہ ہنستے رہتے تھے۔ ان حضرات کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ اسی طرح حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہنستے ہنساتے رہتے تھے اور اس حد تک خوش مزاجی فرماتے تھے کہ لوگ حیران ہو جاتے تھے۔ ایک صاحب نے اعتراض بھی کیاکہ یہ کیسے پیر ہیں یہ تو ہنستے ہنساتے رہتے ہیں، لطیفے سنتے اور سناتے رہتے ہیں۔ میں نے اس صاحب کو جواب دیا کہ خدا کے بندے ان کے سامنے جتنے لوگ بیٹھے ہیں سارے کھاتے پیتے لوگ ہیں اور دنیا کی ہر برائی کر سکتے ہیں۔ اگر حضرت نے ان کو چند لطیفوں پہ ٹرخا کر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور برائیوں سے روک دیا ہے تو اچھا کیا یا غلط کیا ؟ حضرت یہی تو کر رہے ہیں۔

ایک دفعہ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ کسی سفر میں تھے، لطیفوں پہ لطیفے سنا رہے تھے، لوگ ہنس رہے تھے۔ منزل پہ پہنچ کے پوچھا : کیا آپ میں سے کوئی غافل ہوا تھا؟ سب نے کہا: حضرت ہم سب ہی غافل تھے۔ فرمایا: الحمد للہ میں غافل نہیں ہوا تھا۔

یہ واقعات عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اصل مقصود نہ رونا ہے نہ ہنسنا ہے، نہ سونا ہے نہ جاگنا ہے۔ سب سے پہلے اپنی نیت درست کرنی ہے،اس کے بعد شیخ کی رہنمائی میں درست طریقہ کے مطابق عمل کرنا ہے۔

سوال نمبر12:

حضرت شیخ کو صرف معمولات و اذکار سے متعلق مسائل بتائے جائیں یا دیگر معاشرت وغیرہ سے متعلقہ مسائل بھی بتائے جائیں؟

جواب:

اگر انسان خود ہی فیصلہ کرنے لگے تو شیطان کو راستہ مل جائے گا، وہ کچھ چیزوں کو آپ کے لیے اچھا ظاہر کروا دے گا اور آپ سمجھیں گے کہ میں اس مسئلہ میں صحیح راستہ پہ جا رہا ہوں، اس کے بارے شیخ کو بتانا ضروری نہیں ہےاور فلاں مسئلہ میں ٹھیک نہیں جا رہا، اس کے بارے میں شیخ کو بتا دیتا ہوں۔ جب شیخ کو بتائیں گے تو پتا چلے گا کہ آپ صحیح جا رہے ہیں یا صحیح نہیں جا رہے۔ جیسےابھی آپ نے ایک بات کی تو آپ کو پتا چل گیا کہ رونا مقصود نہیں ہے۔ اسی طرح سالک جب ساری باتیں بتاتا ہے تو پھر پتا چلتا ہے کہ میں ٹھیک کر رہا ہوں یا غلط۔ لہٰذا سب سے پہلے نیت درست کرنی ہے، پھر طریقہ درست کرنا ہے۔ طریقہ درست اس طرح کرنا ہے کہ شیخ سے پوچھا جائے، شیخ جو طریقہ بتائے اس پہ صحیح نیت کے ساتھ عمل کرنا ہے۔ اس میں جو مسائل اور مشکلات یا کچھ حالات پیش آئیں وہ شیخ کو بتانے ہیں، وہ ان کی correction کرے گا،اس کے مطابق آپ نے کام کرنا ہے۔یہ سلسلہ جنبانی کا آپس میں چلتا رہے اور ان شاء اللہ کسی وقت اللہ پاک اس میں اصلاح کی صورتیں پیدا فرما دے گا۔

سوال نمبر13:

شیخ کو بتانے کے معاملے میں کچھ باتیں ذہن میں گھومتی رہتی ہیں، لیکن آدمی یہ کہتا ہے کہ یہ تو محض خیالات ہیں ان کو share کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسی باتیں شیخ کو بتانا چاہئیں یا نہیں؟

جواب:

شیخ نے اگر اس موضوع پر کچھ بتایا ہے یا آپ کو کچھ سمجھایا ہے اور اس کے مطابق اختیاری عمل میں آپ سستی کر رہے ہیں تو اس سستی کو دور کر لیں۔ جن چیزوں کے بارے میں شیخ نے بتایا ہوا ہے ان کے بارے میں بار بار مت بتائیں کہ جی مجھ سے یہ سستی ہو گئی ہے، بلکہ اس سستی کو دور کریں۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ڈاکٹر نے دوائی دی کہ اسے روزانہ کھا لیا کریں۔ آپ نے ایک دن کھائی اور پھر روزانہ بتاتے ہیں کہ میں نے دوائی نہیں کھائی تو اس بتانے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا، اس کے بجائے آپ دوائی کھانے میں سستی کرنا چھوڑ دیں، دوائی استعمال کریں اور جو اثر محسوس ہو اس کے بارے میں اطلاع کریں۔ ہمارے ہاں بھی معاملہ اسی طرح ہے کہ شیخ نے جو معمول دیا ہو اگر اس میں سستی ہو رہی ہے تو بار بار سستی کی اطلاع کے بجائے اس سستی کو دور کر کے معمول کی پابندی کریں، پھر اطلاع دیں۔ آپ کو اپنی ذمہ داری نبھانی ہے۔ آج کل لوگوں نے معمول بنا لیا ہے۔ کہہ دیتے ہیں کہ جی مجھ سے یہ کام نہیں ہوتا۔ اگر نہیں ہوتا تو آرام سے گھر بیٹھ جاؤ خواہ مخواہ اپنے آپ کو تکلیف کیوں دیتے ہو۔ تم جب بیمار ہو جاتے ہو تو اس وقت ہسپتالوں میں بھی جاتے ہو، لائنوں میں بھی لگتے ہو، گرم و سرد ساری چیزیں جھیلتے ہو، ڈانٹیں بھی کھاتے ہو، دفتر سے چھٹیاں بھی لیتے ہو،ہر قسم کی پریشانیاں جھیلتے ہو، سب کچھ کرتے ہو۔ وہاں آپ کو کبھی بھی وسوسہ نہیں آتا کہ میرا فلاں کام خراب ہو جائے گا، کیونکہ وہاں آپ کے سامنے ایک ٹارگٹ موجود ہے۔ میں پوچھتا ہوں یہ ٹارگٹ یہاں کیوں موجود نہیں ہے۔ ساری سستیاں یہیں کیوں آتی ہیں؟ اس وجہ سے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سستی کا علاج چستی ہے۔ اگر ٹھیک ہونا ہے تو سستی نہ کرو۔ اگر ٹھیک نہیں ہونا تو پھر تمہاری مرضی ہے۔ جو خود ٹھیک نہ ہونا چاہے اس کا کوئی علاج نہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں بالکل صاف فرماتے تھے کہ میں لاعلاج امراض کا علاج نہیں کرتا، جس نے ٹھیک نہیں ہونا میرے پاس نہ آئے جس نے ٹھیک ہونا ہے میرے پاس آئے،علاج بتانا میرا کام ہے اس سے میں انکار نہیں کرتا، لیکن میرے پاس وہی آئے جس کا ارادہ علاج کا ہو، جس کا ارادہ اپنے علاج کا نہیں ہے خواہ مخواہ وقت گزاری کر رہا ہے، دنیا میں کوئی شخص اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ لہٰذا سستی کے بارے میں بار بار مت بتائیں، بلکہ اس کا علاج کریں۔

ہم چونکہ آخری دور کے ہیں، آخری دور میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں، اسی حساب سے اللہ پاک وسائل بھی مہیا فرماتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہمارے لیے کچھ حفاظت کے رستے بنائے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک کا کرم ہے کہ اللہ نے ہمیں یہ ترتیب سمجھائی کہ ہم نے معمولات کا پرچہ بنایا ہوا ہے، جو اس کو ہرماہ fill کرے گا اس کی screening ہوتی جائے گی۔ یہ ایک ایسا format ہے جس سے ہمیں پتا چلتا جائے گا کہ یہ کیا کر رہا ہے۔ اس میں کچھ hidden questions ہیں جن کے جواب سے ہمیں اندازہ ہو جاتا ہے، جب آپ ان سوالات کا جواب دیں گے تو اس پہ مزید تفصیلات پوچھی جا سکتی ہیں، جن کے جوابات سے پتا چل جائے گا کہ اصل مسئلہ کیا ہے، جب مسئلہ معلوم ہو جائے گا تو مسئلہ کا حل بھی معلوم ہوجائے گا۔ کئی لوگ اس ڈر سے معمولات کا پرچہ دیتے ہی نہیں کہ ہمارا پتا نہ چل جائے۔ ٹھیک ہے نہ دیں، اگر یہاں پتا نہ چلا تو آخرت میں پتا چل جائے گا، اس وقت تو کوئی بہانہ قبول نہیں ہوگا۔ اس لیے جو موقع اللہ نے یہاں دیا ہے اسے استعمال کرو۔ اگر کوئی آدمی ہر ماہ پابندی سے معمولات کا پرچہ ٹھیک طرح سے بھرتا رہے تو اس کی آدھی اصلاح اسی سے شروع ہو جاتی ہے۔ اس شروعات سے مزید مسائل معلوم ہوں گے، روحانی بیماریوں کی جڑوں کا پتا چلتا جائے گا، امراض کی تشخیص ہوتی جائے گی، جس کے بعد علاج بھی ہوتا جائے گا۔ اور کچھ نہ ہو تو کم از کم احساس ذمہ داری آ جائے گا۔ اپنی غلطیوں کا احساس اور انہیں صحیح کرنے کی ذمہ داری کا ادراک ہونا، یہ باقاعدہ اصلاح کا ایک راستہ ہے۔ پشتو میں ایک محاورہ ہے:”په بوسو کښي اوبه بوتلل “۔”بھس کے نیچے پانی لے جانا“۔ یعنی پتا نہ چلے کہ کدھر جا رہا ہے۔ جب کسی چیز کو چھپانا ہو ”په بوسو کښي اوبه بوتلل “۔ہم کہتے ہیں کہ ذرا بھس کو ہٹا دو تاکہ پتا چلے کہ پانی کس طرف جا رہا ہے،بات کلئیر ہو جائے۔ تو یہ بات کا کلیئر ہونا اسی معمولات کا پرچہ فل کرنے سے ہوگا۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم اپنے احوال کیسے بیان کریں، مجھ سے کہتے ہیں کہ ہمیں پتا ہی نہیں کہ احوال کیا ہوتے ہیں اور کیسے بیان کرنے چاہئیں۔ ہمارے پاس اس کا بے حدعمدہ حل ہے کہ ہم نے اس کا ایک پرچہ بنایا ہوا ہے، اسے فِل کرنا ہی احوال بتانے کا طریقہ ہے۔ جو لوگ اسے fill کریں گے اس سے ہمیں ان کے آدھے سے زیادہ احوال معلوم ہو جائیں۔ اس پرچہ کو دیکھنے کے بعد مزید کسی چیز کی ضرورت ہوگی تو ہم خود ہی پوچھ لیں گے، جس سے بات اور واضح ہو جائے گا۔

جب ہم نے یہ معمولات کے پرچہ والا طریقہ شروع کیا تو بڑے بڑے پردہ نشینوں کے پردے اٹھ گئے۔ جو باتیں بہت کرتے تھے، باتوں کے بادشاہ تھے، لیکن جب حالات و معمولات کا علم ہوا تو پتا چلا کتنے پانی میں ہیں۔ ایک صاحب اپنے تئیں تقریباً بزرگی کی صف اول میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب معمولات کا پرچہ فل کیا تو پتا چلا کہ فجر کی نماز ہی ادا نہیں ہو پا رہی۔ میں نے کہا: کدھر ہے آپ کی بزرگی؟ وہ بزرگی کدھر چلی گئی کہ فجر کی نماز ہی چھوٹ رہی ہے، خدا کے بندو! کہاں کی بزرگی؟ جب میں نے ان کو یہ تفصیل بتائی تو بڑے خوش ہوئے، کہتے ہیں: اللہ کا شکر ہے کہ میں جال سے باہر نکل آیا ورنہ میں تو اپنے آپ کو بزرگ سمجھے بیٹھا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ میں تو بہت آگے ہوں۔ پتا چلا کہ ابھی تو اس کا کام ہی شروع نہیں ہوا۔ اسی طرح خواتین میں بھی بعض باتوں میں بہت آگے تھیں، ایسا لگتا تھا شاید صفِ اول کی ذمہ دار خواتین ہیں لیکن جب معمولات کے چارٹ آ گئے تو پتا چلا کہ ان کی تو بنیادی چیزیں بھی پوری نہیں ہیں۔ پھر ان کو بتایا گیا کہ پہلے ان چیزوں کو پورا کرو۔ انہوں نے ان کوتاہیوں کو ختم کرنے پہ کام کرنا شروع کیا، ا اللہ پاک نے آسانی فرمائی۔ رستے کھل گئے۔

سوال نمبر14:

حضرت جی! اگر کمرے میں کوئی ساتھی سو رہا ہے جس کا صبح اٹھنے کا کوئی مخصوص ٹائم نہیں ہے، اکثر اوقات دیر سے اٹھتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم نے نماز فجر کے معمولات، تلاوت اور ذکر و اذکار وغیرہ کرنے ہوں، جس کے لیے لائٹ جلانے کی ضرورت پڑے، لائٹ جلانے سے اور ہماری آواز وغیرہ سے اسے تکلیف ہوگی اس کی نیند خراب ہوگی، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

جو کام آپ اندھیرے میں کر سکتے ہیں مثلاً نماز اور ذکر و اذکار وغیرہ، وہ تو آپ لائٹ بند رہتے ہوئے بھی کمرے میں بھی کر سکتے ہیں۔ اور جن کاموں کے لیے لائٹ کی ضرورت ہو یا ان میں آواز بلند ہوتی ہو، وہ کام آپ کمرے سے باہر بر آمدے یا صحن میں جا کر کر لیں۔ ان کو disturb کرنا ضروری نہیں ہے۔ اگرچہ جب فرض نماز کا وقت ہو جائے تب لائٹ جلانا انسان کا حق بن جاتا ہے۔ کیوں کہ’’ اَلصَّلَاۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم‘‘ کے مطابق سب کو نماز کے لیے اٹھنا چاہیے، لیکن بعض جگہوں پہ ایسا کرنا فتنہ کا باعث بن جاتا ہے۔ ہم یہ بات اس لیے کہتے ہیں کہ کسی اور کو ڈسٹرب نہ کیا جائے، الگ سے اپنی نماز ادا کر لی جائے، تاکہ فتنہ سے بچت رہے، ورنہ جس وقت فرض نماز کا وقت ہو جائے اس وقت کسی کو سونے کا حق نہیں ہے۔ الّا یہ کہ مریض ہواور وہ اول وقت میں نماز پڑھ کرسو جائے تو اس کا حق بنتا ہے۔لیکن یہ سہولت ایسے آدمی کے لیے نہیں ہے جسے کوئی عذر نہ ہو، عام آدمی کے لیے تو جماعت کی نماز ضروری ہے، اسے جماعت کی نماز کے وقت اٹھنا چاہیے لیکن چونکہ بعض اوقات فتنہ کی صورت بن جاتی ہے۔ جن لوگوں نے نماز نہیں پڑھنی، آپ ان کی موجودگی میں لائٹ جلائیں تو ممکن ہے کہ ان کے منہ سے مذہب کے بارے میں کچھ ایسی باتیں نکل جائیں جس سے وہ کافر ہو جائے، اس کو کفر سے بچانے کے لیے آپ کو مجبوراً surrender کرنا پڑتا ہے۔

ایک بار ماہ رمضان کے دوران میں ایک بس میں سفر کر رہا تھا۔ میرے پاس چھوٹا سا قرآن پاک تھا۔ میں نے اس کو نکالا اور تلاوت شروع کردی۔ اگلی سیٹ والوں میں سے کسی نے ڈرائیور سے کہا کہ میوزک لگائیں۔ اس نے گانے لگا دئیے۔ driver کو پتا نہیں تھا کہ میں تلاوت کر رہا ہوں، شاید ان گانا لگوانے والوں کو بھی پتا نہ ہو کیونکہ وہ مجھ سے اگلی سیٹ پہ تھے۔ کنڈیکٹر پچھلی سیٹ پہ تھا اس نے مجھے تلاوت کرتے دیکھا تو driver کو جا کے بتایا کہ ایک شخص تلاوت کر رہا ہے لہٰذا میوزک بند کر دو۔ ڈرائیور نے میوزک بند کردیا۔ ان لوگوں نے پوچھا کہ کیوں بند کیا؟ انہوں نے بتایا کہ ایک آدمی تلاوت کر رہا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہم بھی بس میں بیٹھے ہیں ہمارا بھی حق ہے، تم گانے دوبارہ چلا دو۔ میں نے اسی وقت فوراً قرآن مجید بند کرکے جیب میں رکھ لیا اور ساتھ والے آدمی سے کہا کہ میرا حق بنتا ہے میں اس پہ لڑ بھی سکتا ہوں، لیکن مجھے خطرہ ہے کہ یہ آدمی کافر ہو جائے گا۔ اگر میں نے اپنی طرف سے ایک بات بھی کی تو اس نے منہ سے کوئی ایسی بات زبان سے نکالنی ہے کہ اس کے کافر ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ میں اس کو اپنی وجہ سے کافر نہیں بننے دینا چاہتا۔ تلاوت کرنا مستحب ہے اور اس کو کفر سے بچانا فرض ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو آج کل کرنا پڑتی ہے۔ اس point of view سے آدمی کچھ out of the way مفاہمت پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پشتو میں اس کے لیے ایک ضرب المثل ہے، کہتے ہیں: ”غل نه تختی نو مل دي وتختی“ اگر چور نہیں بھاگتا تو دوسرا بھاگ جائے۔ بہرحال اس قسم کی چیزوں میں انسان کو فتنہ سے بچاؤ کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر15:

حضرت! صحیح وقت پر صحیح بات اور اصلی نکتہ کا سمجھ میں آ جانا، اس کے لیے اصلاح ضروری ہے یا علم کا ہونا ضروری ہے؟

جواب:

مجھ سے یہ سوال کسی میٹرک کے ایک سٹوڈنٹ نے کیا تھا، جس کا تعلق ایک علمی خاندان سے تھا۔ میں اس وقت انجینئرنگ کا سٹوڈنٹ تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے مطالعہ بہت کیا ہے لیکن میرا مطالعہ با قاعدہ مطالعہ نہیں ہے، اس میں اچھا بھی ہے برا بھی ہے، آپ کا مطالعہ ماشاء اللہ علمی ہے، کیوں کہ آپ علمی خاندان سے ہیں، آپ بتائیں کہ میں اب اگر مطالعہ کرنا چاہوں تو کہاں سے شروع کروں؟

اس نے کہا کہ مطالعہ کرنے سے آپ کا مقصد کیا ہے، علم حاصل کرنا چاہتے ہیں یا اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں؟ اگر علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے پاس بہت سارے علماء کی تصنیفات ہیں، میں وہ آپ کو بھیج دوں گا آپ کو کچھ نہ کچھ علم حاصل ہونا شروع ہو جائے گا۔

میں نے کہا : اصلاح ضروری ہے، کیونکہ اصلاح ہی سے علم کا صحیح استعمال ہو گا۔

اس نے کہا: پھر آپ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات اور مواعظ پڑھیں اس میں اصلاح زیادہ ہے۔

انہوں نے مجھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ و ملفوظات بھجوا دئیے۔ اس سے کام شروع ہو گیا۔

صحیح بات کی سمجھ نہ آنے کی وجہ اگر نفس ہے تو جب تک نفس کی اصلاح نہیں ہو گی اس وقت تک آپ کو صحیح بات سمجھ نہیں آ سکے گی۔ مثال کے طور پر دو آدمیوں کے درمیان مقدمہ بازی چل رہی ہے، ایک کو شریعت کے قانون پہ فائدہ ہوتا ہے جبکہ دوسرے کو ملکی قانون کے مطابق فائدہ ہوتا ہے۔ جس کو شریعت کے قانون میں فائدہ نظر آتا ہے وہ کہتا ہے شریعت پہ چلیں گے اور جس کو ملکی قانون میں فائدہ ہوتا ہے وہ بڑی ڈھٹائی کے ساتھ کہتا ہے کہ ملکی قانون پہ چلیں گے۔ حالانکہ اس میں کفرتک کا خطرہ ہے۔ لیکن اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے اس کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ میں کتنی بڑی غلطی کررہا ہوں۔

لہٰذا فرض عین درجے کی اصلاح کروانا ضروری ہے اور فرض عین درجے کا علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔ جہاں تک فرض کفایہ درجہ کا تعلق ہے، اس میں options ہیں کہ آپ کس رخ پہ جانا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ جن کی اصلاح ہو چکی ہے ان کے لیے تھوڑا علم بھی کافی ہو جاتا ہے، بلکہ علماء کرام نے یہاں تک لکھا ہے کہ بے علم لوگوں کی اصلاح کی صورت میں کامیابی ہو جاتی ہے لیکن اصلاح نہ ہونے کی صورت میں علم میں کامیابی نہیں ہے۔ اصلاح ہونے کی صورت میں بغیر علم کے بھی کامیابی اس طرح ہو جاتی ہے، کہ جس کی اصلاح ہو جائے وہ اپنے آپ کو محتاج سمجھتا ہے، لہٰذا علماء کے پاس جاتا ہے اور علم حاصل کرتا ہے، اس لیے کامیاب ہو جاتا ہے۔ جبکہ دوسری صورت میں اگر کوئی عالم ہو اور اس کی اصلاح نہ ہوئی تو اسے علم کا فائدہ نہیں ہوگا۔لہٰذا اصلاح ضروری ہے، اسے باقی چیزوں پر فوقیت دینی چاہیے، لیکن فرض عین درجہ کے علم کو قربان کرکے نہیں، فرض عین درجہ کے علم کا درجہ ہر چیز سے پہلے ہے۔ اس وجہ سے ہم نے حدیث جبریل کی روشنی میں اپنی website پر تین sections بنائے ہیں۔، ایک عقائد کا ہے، دوسرا فقہ کا ہے جو فرض عین درجہ کا علم ہے، تیسرا تصوف کا ہے جو تصوف کے علم کے بارے میں بتاتا ہے، جس پر شیخ کی ہدایات کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ اگر کوئی ہماری website سے فائدہ اٹھانا چاہے تو ان شاء اللہ فرض عین درجہ کا علم حاصل ہو جائے گا۔

کلام

ایک فکر

حسن اخلاق سے گرے کتنے فسق کے عشق پہ مرنے والے کتنے محروم ہو گئے حق سے عشق کو فسق سمجھنے والے

تشریح:

دونوں طرف معاملہ گڑبڑ ہے! جو فسق کے اوپر فدا ہو رہے ہیں وہ حسن اخلاق سے گر جاتے ہیں جو اس کو عشق سمجھتے ہیں! اور جو ہر عشق کو فسق سمجھتے ہیں وہ صحیح عشق سے محروم ہو جاتے ہیں۔

حق تو یہ ہے کہ حق کو چھوڑ نہیں اور باطل سے رشتے جوڑ نہیں آگ سے بچنا ہو جن کو وہ بنیں فسق سے ہر حال میں بچنے والے حسن فانی پہ دل نہ آئے تیرا تو کہے حسن ازل کے سامنے جو بھی ہو اس کی اجازت سے ہو جیت جاتے ہیں سنبھلنے والے

تشریح:

حسن ازل کے سامنے حسن فانی کی کیا حیثیت ہے۔ لیکن اگر اس کی اجازت ہے یا اس کا حکم ہے جیسے شادی وغیرہ، تو پھر ٹھیک ہے۔ اور وہی جیت جاتے ہیں جو سنبھل جاتے ہیں۔

خوف غم سے وہ پریشاں ہوں گے آج ڈر سے جو ہیں آزاد اس کے خوف غم سے وہاں آزاد ہوں گے اس سے ہر حال میں ڈرنے والے

تشریح:

یہاں اگر خوف و غم کسی کے پاس نہیں ہے یعنی تقویٰ نہیں ہے۔ تو دین کے لیے جو خوف و غم ہے وہ تقویٰ ہے۔ یہاں دین کے لیے خوف و غم اپنا لو وہاں خوف و غم ختم ہو جائے گا، یہی ولایت ہے۔

﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۖ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس: 62-63)

ترجمہ: ” یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔ “

”یَتَّقُوْن“ میں دنیا میں اللہ سے ڈرتے رہنے کا بیان ہے، اور قیامت کے دن لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ“ اس کا نتیجہ ہے۔

اپنی آنکھوں کے گرا دے پردے آج بے پردہ ہیں کچھ پردہ نشیں دل کی آنکھوں پہ ہے جن کا پردہ وادیِ شر میں ہیں بھٹکنے والے کاش ان کو بھی کچھ سمجھ ہوتی اس کی ظلمت کا کچھ احساس ہوتا کچھ عاقبت کا خیال کر لیتے حد سے شبیرؔ گزرنے والے

٭٭-----٭٭

پشتو زبان میں ایک کلام ہے، ساتھ ترجمہ بھی عرض کرتا ہوں۔

غواړي زړهٔ مې چې دا مينې کړمه جمع پهٔ دې ټولو باندې اور ولګومه يو دَ خدائے مينه بس پرېږدمه پهٔ زړۂ کښې هله ماته به ملاؤ شي لاره سمه بل دَ هغو چې هغهٔ سره کړي مينه نازولي دَ هغهٔ هم خوښومه هغه مونږ سره کړي مينه بې غرضه بې غرضه پرې دا ژوند قربانومه عشق دَ مينې صله کله څهٔٔ غوښتے شي زړۂ خالي لهٔ هر څهٔٔ بس اوس ورکومه چې پهٔ مينه دَ هغهٔ کښې خرنډ جوړيږي دے دشمن مې زۂ هغهٔ ته نهٔ ګورمه دا فاني حسن دَدې ژوند امتحان دے ازلي حسن پهٔ دې کله پرېږدمه پهٔ خپل زړۂ دَ هغهٔ نوم پهٔ زور زور اخلم زۂ پهٔ دې دَ هغهٔ مينه رابلمه احساسات خپل ئې دَ مينې غلامان کړم هغه ګورم، هغه وينمه، اورمه غفلت کفر دے دَدې لارې شبيؔره زړۂ پهٔ ذکر دَ هغهٔ ښهٔ ويښومه

ترجمہ:

میں چیزوں کی محبتوں کو جمع کر رہا ہوں اور ان سب کو آگ لگاتا ہوں۔ یہ طریق جذب ہے۔ میں ساری چیزوں کی محبتوں کو جمع کرتا ہوں اور ان سب کو آگ لگاتا ہوں صرف ایک خدا کی محبت کو اپنے دل میں چھوڑتا ہوں پھر مجھے صحیح راستہ ملے گا۔ جو اس کے ساتھ محبت کرتے ہیں ان کی محبت کو بھی میں چاہتا ہوں اور وہی ہیں جو ہمارے ساتھ بے لوث محبت کرنے والے ہیں اس وجہ سے میں بھی بے غرض اس کے اوپر اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے تیار ہوں۔

عشق اپنی محبت کا صلہ کیسے مانگ سکتا ہے، اس وجہ سے میں بھی خالی دل ہو کے اس کو سب کچھ دے رہا ہوں۔جو بھی اس کی محبت میں رکاوٹ بنے وہ میرا دشمن ہے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں ہے۔ فانی حسن یہ تو زندگی کا امتحان ہے اس کے لیے میں ازلی حسن کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔ اس وجہ سے میں اپنے دل پر اس کا نام زور زور سے لے رہا ہوں کہ میں اس دل کو منور کر لوں۔ میں اپنے احساسات کو اس کی محبت کا غلام بنا رہا ہوں، پس میں اسی کو دیکھ رہا ہوں اسی کو دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں اور اسی کو سن رہا ہوں یعنی میری پانچوں حسیں اسی کے لیے ہیں۔

اس راستے میں غفلت کفر ہے اے شبیر! اس وجہ سے ذکر کے ذریعے سے میں اپنے آپ کو خوب جگا رہا ہوں

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن