سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 129

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

نماز میں اللہ کو دیکھنا کس طرح حاصل کروں گا؟ اگر نعوذ باللہ، اللہ کو جسم ثابت کروں گا تو کافر ہو جاؤں گا۔ مہربانی فرما کر دل کا وسوسہ نکال دیجئے۔

جواب:

اچھا اور علمی سوال ہے۔ ایک ہے اللہ پاک کا وجود اور ایک ہے اللہ کا موجود ہونا۔ یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ اللہ کا وجود، یہ جسم ثابت کرنا ہے جو کفر ہے۔ یہ ”مُجَسمہ“ کا عقیدہ ہے جو کفر ہے۔ لیکن اللہ کا موجود ہونا دل کی آنکھوں سے محسوس کرنا، یقیناً اس پر بغیر جانے ایمان ہے۔ یعنی کسی کا بھی یہ ایمان نہیں ہونا چاہیے کہ اللہ جسم کے ساتھ موجود ہے لیکن اس کو محسوس کرنا کیفیتاً ہے تاکہ اعمال کے اوپر اثر آ جائے اور یہی تصوف ہے۔ اس کا پہلا حصہ عقیدہ ہے کہ اللہ ہر جگہ موجود ہے اور اس کا دوسرا حصہ کیفیت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی موجودگی کو محسوس کیا جائے۔ مثال کے طور پر میں جانتا ہوں کہ پنڈی میں ہوں، لیکن میں اس کو محسوس کر لوں کہ میں پنڈی میں ہوں یا میں جانتا ہوں کہ اس وقت آپ میرے سامنے ہیں لیکن میں اس کو محسوس کر لوں کہ آپ لوگ میرے سامنے ہیں۔ مثلاً بعض دفعہ کوئی بڑا آدمی کسی کے ساتھ موجود ہوتا ہے، ساتھ بیٹھا ہوتا ہے لیکن اس کو پتا نہیں ہوتا۔ جیسے جیسے اس کو احساس ہوتا جاتا ہے تو اس کا اثر ہوتا جاتا ہے۔ اسی طریقہ سے اللہ پاک کی موجودگی کو محسوس کرنا۔ آپ ﷺ نے دو باتیں بتلائی ہیں کہ "اَن تَعبُدَ اللہَ کَاَنّکَ تَرَاہ" تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے، یعنی کیفیتاً۔ "فَاِن لَّم تَکُن تَرَاہُ فَاِنّہ یَرَاک" (البخاری، حدیث نمبر: 50) اور اگر تو اس کو دیکھ نہیں رہا یعنی یہ کیفیت تجھے حاصل نہیں تو بے شک تجھے یہ کیفیت حاصل ہونا چاہیے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ یہ دونوں باتیں عالم محسوسات اور کیفیات میں سے ہیں۔ اس وجہ سے عقیدے پہ اثر نہیں پڑے گا۔ وجود کا عقیدہ نہیں ہے بلکہ موجودگی کا عقیدہ ہے۔

سوال 2:

اگر کسی کو یہ کیفیت ابھی حاصل نہیں ہو رہی، تو وہ اگر خانہ کعبہ وغیرہ کا تصور کرے تو کیا یہ مناسب ہے؟

جواب:

اگر کسی کو یہ کیفیت حاصل نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو موجود پائے تو اگر خانہ کعبہ دیکھا ہوا ہے جیسے حج یا عمرہ کیا ہے تو پھر اس کے لئے یہ تصور آسان ہو جاتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے ہوں۔ اگر یہ بھی کسی کو مشکل ہو تو پھر وہ کچے حافظ کی طرح نماز پڑھے۔ یعنی قرات سوچ سوچ کے کرے اور ہر عمل کی دل میں علیحدہ نیت کر لے کہ اب میں سجدے میں جا رہا ہوں، اب میں رکوع میں جا رہا ہوں۔ اس طریقہ سے نماز کے اندر دل کی مشغلولیت ہو جاتی ہے اور یہی مقصود ہے۔ اسی سے خشوع پیدا ہوتا ہے جو نماز کے اندر ضروری ہے۔

سوال 3:

جو لوگ بعض اوقات بیماری یا کسی حاجت کے لئے اکتالیس مرتبہ سورۃ یسین پڑھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ درست ہے؟

جواب:

بالکل جائز ہے کیوں کہ سورۂ یسین کی برکات حدیث شریف سے ثابت ہیں۔ ان برکات کو حاصل کرنے کے لئے مختلف تجربات ہیں۔ تجربات سے جو باتیں ثابت ہوں وہ بھی بزرگوں کے طریقے ہیں۔ چنانچہ اکتالیس مرتبہ سورہ یسین اور سات دفعہ مُبِینوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے۔

سوال 4:

I have a very basic question. Please let me know what is love?

جواب:

محبت ایک ایسا جذبہ ہوتا ہے جو انسان کے اوپر حاوی ہو جاتا ہے اور باقی چیزوں سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ یعنی ذہن کا کسی خاص طرف کسی وجہ سے ایسا متوجہ ہونا کہ اس کی چاہت ساری چاہتوں پہ غالب آ جائے۔ یہ محبت کہلاتی ہے۔ اس وجہ سے دنیا کی بھی محبت ہوتی ہے، بعض دفعہ کسی بھی چیز کے ساتھ اتنی attachment ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے بہت ساری چیزوں کو قربان کیا جاتا ہے۔ چنانچہ محبت کی دو قسمیں ہیں ایک محبتِ ایمانی اور ایک محبتِ مشاہدہ۔ محبت ایمانی اعلی ہے کیوں کہ جو محبت ایمان کے ذریعہ حاصل ہو وہ انسان کو آخرت میں فائدہ دے گی۔ محبتِ مشاہدہ ہے ایک امتحان ہے۔ امتحان میں پاس ہونا ضروری ہے لہٰذا جتنا حصہ اس کا محبت ایمانی کے ساتھ ٹکراؤ میں آتا ہے اس سے اپنے آپ کو روکنا لازم ہوتا ہے۔ مثلاً آپ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ مجھے اپنے والدین اپنی اولاد بلکہ سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب نہ سمجھے۔ یہ سب مشاہداتی محبیں ہیں۔ آپ ﷺ کی محبت ان سب سے زیادہ ہونا لازم ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت تو آپ ﷺ نے مانگی ہے لہٰذا وہ محبت بھی سب پر غالب ہونی چاہیے۔ جو محبت اللہ کے لئے ہو وہ محبتِِ خداوندی کے خلاف نہیں ہے۔ مثلاً آپ ﷺ کی محبت اور ان لوگوں کی محبت جو اللہ کے ساتھ محبت کرتے ہیں وہ اللہ کے لئے ہے لہٰذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن وہ محبت جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے باغی کر دے اور آپ ﷺ کی محبت سے برگشتہ کر دے تو وہ غلط ہے۔ اس کو نکالنا ضروری ہے۔ اس لئے فرمایا: "حُبُّ الدُّنْیا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَة" (جامع الاحادیث للسیوطی، جلد 41، حدیث نمبر: 326)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔

لہذا دنیا کی محبت کو نکالنا پڑے گا دل سے۔

سوال 5:

حضرت جی میری ملازمت ایک ٹیلی کام کمپنی میں سعودی عرب کے ایک شہر میں ہے۔ میرے ساتھ تقریباً پندرہ لڑکے ہیں۔ سب پٹھان ہیں، مگر نماز نہیں پڑھتے۔ میں بھی آج کل سستی کرتا ہوں سب لڑکے ٹوپی اور داڑھی کی سنت کی وجہ سے کافی عزت کرتے ہیں اور امیر کہتے ہیں۔ سوچ رہا تھا کہ ان کو دعوت دوں پھر اللہ نے دل میں ڈالا کہ فضائل اعمال سے تعلیم شروع کی جائے۔ میں نے سب سے بات کی تو سب راضی تھے۔ تعلیم شروع ہو گئی۔ فضائل اعمال ہمارے پاس نہیں تھی۔ میں نے نیٹ سے laptop میں download کی اور وہاں سے دیکھ کے پڑھی الحمد للہ تعالیٰ کام شروع ہو گیا جس سے مجھے بھی فائدہ ہو گیا اور لڑکوں کو بھی۔ ان شاء اللہ حضرت جی ایک تو آپ کو بتلانا مقصود ہے کہ آپ دعاؤں میں یاد رکھیں۔ دوسرا یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اور کیا طریقہ اختیار کروں کہ مجھے بھی فائدہ ہو اور ان لڑکوں کو بھی؟ خصوصاً دعاؤں کا محتاج۔

جواب:

ماشاء اللہ بڑی اچھی فکر ہے اور یہ ہوتا ہے کہ انسان جب دنیا کی چیزوں میں بہت زیادہ مصروف ہو جاتا ہے تو پھر ایمانی کاموں سے غفلت ہو جاتی ہے۔ ملازمت بھی اس قسم کا کام ہے کہ جب انسان ہمہ تن اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو پھر باقی کاموں میں سستی ہونے لگتی ہے۔ سستی کا علاج چستی ہے۔ یعنی وعیدوں کو یاد کیا جائے کہ ایک نماز کو قضا کرنا ایسا ہے جیسے سارا مال تباہ ہو جائے، سارے اہل و عیال تباہ ہو جائیں۔ اس کو سامنے رکھ کر نماز بالکل نہ چھوڑی جائے اور کوشش کی جائے کہ دوسروں کو بھی نماز کی دعوت دی جائے۔ اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان خود نماز کے اوپر قائم ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ ایک شخص یا داعی ہوتا ہے یا مدعو ہوتا ہے۔ اگر وہ دعوت نہیں دیتا تو پھر وہ مدعو ہو جاتا ہے، پھر لوگ اس کو دعوت دیتے ہیں۔ پس انسان کے دل میں ہونا چاہیے کہ میں خود بھی دین پر عمل کروں اور باقی لوگوں کو بھی نیک اعمال کی دعوت دوں۔ آپ نے بہت اچھا کیا فضائل اعمال سے تعلیم شروع کی۔ باقی ہمارے بزرگوں کی تحریرات میں بڑا نور ہے اور ان سے بہت فائدہ ہوتا ہے اور بلا شبہ فضائل اعمال قرآن کے بعد شاید سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ اس وجہ سے اس میں بڑی برکت ہے۔ فی الحال یہی کریں اور پھر آہستہ آہستہ ان کو مزید باتوں کی طرف لایا جائے۔ مثلاً ہماری website tazkia.org پر بہت ساری چیزیں موجود ہیں ان میں سے جو مفید ہوں ان کی بھی تعلیم کی جائے۔ اس پہ مسائل موجود ہیں جو آہستہ آہستہ سمجھائے جائیں، اس کے بعد عمل کی دعوت ہو۔ ایک دوسرے کو یاد دہانی کا جذبہ ہو، آپ ان کو کہیں وہ آپ کو کہیں۔ اس طریقے سے سارے لوگ ایک مٹھی ہو کر شیطان کا مقابلہ کر سکیں گے اور اللہ جل شانہ توفیق عطا فرما دیں گے۔ بہر حال یہ طریقہ جاری رکھیں اور اس کی کار گزاری مجھے بھیج دیا کریں۔ مزید جس وقت مناسب ہو گا اس وقت ان شاء اللہ بتا دیا جائے گا۔

سوال 6:

There is one question. I don’t know where it is حضرت? I want my اصلاح but I don’t know how I want to ask with whom I should tie a knot of بیعت? I mean how can I know that a person is good for me as a شیخ. I am really confused. Please guide me.

جواب:

جہاں تک میرا خیال ہے یہ کسی پاکستانی کا سوال ہے لہٰذا میں اردو میں جواب دیتا ہوں اگر سمجھ نہ آئے تو دوبارہ پوچھا جائے پھر میں انگریزی میں جواب دے دوں گا۔ دو کتابیں نیٹ کے اوپر پڑی ہوئی ہیں۔ شاید آپ نے بھی نیٹ سے approach کیا ہے۔ tazkia.org پر وزٹ کر لیں اس پر دو کتابیں پڑی ہیں ”زبدۃ التصوف“ اور دوسری ”تصوف کا خلاصہ“۔ ان میں آپ کو شیخ کی نشانیاں مل جائیں گی۔ اس سے آپ کو زیادہ تفصیل سے پتا چل جائے گا۔ میں مختصراً اتنا بتا دیتا ہوں کہ جس کو شیخ بنانا ہو اس میں کم از کم 8 نشانیاں ہونی چاہئیں۔ وہ شخص شیخ کے طور پہ qualify کرتا ہو۔ پھر آپ کی اس کے ساتھ مناسبت ہو۔ 8 Qualifying conditions ہیں جن میں سے پہلی condition یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو۔ عقیدے کا معیار چونکہ انبیاء کے بعد صرف صحابہ کرام کو بنایا گیا ہے اس وجہ سے صحابہ کے عقیدہ کو دیکھا جائے۔ اس طرح ہمارا بھی عقیدہ ہونا چاہیے اور شیخ کا بھی ہونا چاہیے۔ صحابہ کا عقیدہ ہمارے لئے معیار ہے۔

نمبر 2 اتنا علم ہو کہ چوبیس گھنٹے شریعت پر عمل کر سکتا ہو۔ یہ فرض عین علم کہلاتا ہے۔ یہ اس کو حاصل ہو، ہمیں بھی حاصل ہونا چاہیے۔

نمبر 3 چوبیس گھنٹے شریعت پر عمل ہو۔ یہ ہمیں بھی ہونا چاہیے۔ یہ چیز ہمیں ان لوگوں سے کاٹ دے گی جو غیر متشرع ہوتے ہیں اور پیر کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پھر ہم نہیں جائیں گے۔

نمبر 4 اس کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہو جن کو ہم عرف میں سلاسل کہتے ہیں۔ اسی طرح حدیث کے بھی سلاسل ہوتے ہیں جیسے ہم حدیث کے راویوں کا سلسلہ لکھتے ہیں کہ فلاں نے فلاں سے سنا، فلاں نے فلاں سے سنا۔ اس طریقہ سے یہ سلسلہ آپ ﷺ تک پہنچتا ہے۔ بیچ میں سے اگر کوئی کڑی mis ہو جائے تو ہم اس کو حدیث نہیں مانتے۔ اسی طریقے سے آپ ﷺ کے قلب اطہر سے نور آتا ہے، صحابہ کو نور آیا تو صحابہ کے قلوب نورانی ہو گئے۔ پھر صحابہ کے قلوب سے تابعین کے قلوب نورانی ہو گئے۔ پھر تابعین کے قلوب سے تبع تابعین کے قلوب نورانی ہو گئے۔ پھر اس کے بعد آ گے یہی سلسلہ چلتا رہا۔ ہم تک مسلسل یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے۔ درمیان میں اگر کہیں کوئی کڑی missing نظر آ جائے تو پھر یہ درست نہیں ہو گا لہٰذا وہ نور جو برکت کو حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے وہ اگر نہیں ہو گا تو پھر ہم لوگ اس کو qualify نہیں کرتے۔

نمبر 5 اس کو اجازت بھی ہو۔ جیسے کہ ڈگری ہوتی ہے۔

نمبر 6 اس کا فیض جاری ہو، یعنی جو لوگ بھی ان کے پاس اصلاح کے لئے آتے ہوں ان میں اکثر کو فائدہ ہوتا ہو۔

نمبر 7 مروت نہ کرتا ہو بلکہ اصلاح کرتا ہو۔ یعنی کسی میں کوئی عیب ہو تو بتا سکے۔

نمبر 8 اس کو دیکھ کر، اس کے ساتھ رابطے میں اللہ یاد آ جائے اور دنیا کی محبت کم ہو جائے۔

اگر کوئی ایسا مل جائے تو ضرور ان سے بیعت کر لیں۔ البتہ اپنی مناسبت دیکھ لیں۔ مناسبت سے مراد یہ ہے کہ اس کی مجلس میں اس کی مکاتبت سے آپ کو فائدہ ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر آپ کو فائدہ ہوتا ہے تو پھر compare کر لیں، جس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہو اس سے بیعت ہو جائیں۔ میرے خیال میں یہ بات صحیح ہے۔

سوال 7:

ایک خاتون کی طرف سے ہے

Respected and honorable شیخ, tell me one thing kindly. While reading newspapers or anything like this, for example Islamic literature, magazines or college books, in normal way that people are normally used to, just view these things with eyes while reciting درود پاک orally side by side. Should I wait or read this عمل because in this way I usually completed the given target but with غافل قلب . So I need your advice.

جواب:

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جب نا بینا ہو گئے تھے تو ان سے ملنے کے لئے حضرت مولانا یحییٰ صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد تھے اور مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ، دونوں حضرات گئے۔ جب حضرت کے دروازے پر دستک دی تو حضرت باہر تشریف لائے چونکہ نابینا تھے تو پوچھا کون؟ مولانا یحییٰ صاحب نے فرمایا: یحیی اور الیاس۔ حضرت نے فرمایا: سنو! چاہے کتنی غفلت کے ساتھ ذکر کیا جائے پھر بھی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس بات کو واقعی سنہرے حروف سے لکھنا چاہیے کیونکہ غفلت اور ذکر یہ دو متضاد چیزیں ہیں۔ اگر کوئی غافل ہے تو اس کو غفلت سے نکالنے کا ذریعہ ذکر ہے۔ پہلی دفعہ جب وہ ذکر کرے گا تو یقیناً اس کو غفلت ہو گی۔ لیکن اس سے وہ ذکر کی طرف آئے گا تو غفلت میں کمی ہو گی۔ پھر وہ کم غفلت کے ساتھ ذکر کرے گا تو مزید غفلت میں کمی ہو گی۔ پھر مزید کم غفلت کے ساتھ ذکر کرے تو مزید غفلت میں کمی ہو گی۔ اس طریقے سے اس کی progress جاری رہے گی لہٰذا کسی کو روکنا نہیں چاہیے چاہے وہ غافل قلب کے ساتھ ہی ذکر کر رہا ہو۔ لیکن جیسے ہم انگریزی میں کہتے ہیں: It is very good but there is chance for improvement۔ تو ہم کہتے ہیں: Yes! It is very good but there is chance for improvement۔ اور Chance for improvement یہی ہے کہ آہستہ آہستہ۔ آپ نے books وغیرہ پڑھی ہیں۔ اول بات تو یہ ہے کہ یہ چیزیں بضرورت ہونی چاہئیں بلا ضرورت بالکل نہیں ہونی چاہئیں ورنہ غفلت کا بہت بڑا سبب بن جاتا ہے۔ یعنی literature کھلے ڈالے طریقے سے نہیں پڑھنا چاہیے بلکہ دیکھنا چاہیے کہ مجھے واقعی اس سے کوئی فائدہ ہو رہا ہے یا نہیں۔ کیوں کہ لا یعنی اس کو کہتے ہیں جس میں نہ تو جائز دنیا کا فائدہ ہو اور نہ آخرت کا فائدہ ہو۔ جیسے بعض لوگ اخبار الف سے لے کر یے تک پڑھتے ہیں اور اشتہارات بھی پڑھ لیتے ہیں۔ خدا کے بندے کیا ضرورت ہے آپ کو اس میں اتنا وقت لگانے کی؟ بس سرخیاں پڑھ لو اور اس کے اندر آپ کو کون سی خبر کے ساتھ interest ہے اس کو زیادہ پڑھ لو لیکن بلا وجہ آپ اس پہ اتنا زیادہ وقت کیوں ضائع کرتے ہو؟ البتہ کورس کی کتابیں پڑھنا یا کوئی دینی کتاب پڑھنا، اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں ٹارگٹ پورا کرتا ہوں تو اگرچہ اس کے ثواب کے لحاظ سے کمی ہو گی لیکن اس کو ذکر گنا جائے گا، درود شریف گنا جائے گا۔ بہر حال غیر ضروری مطالعہ کو بہت کم کرنا چاہیے اور اس کی جگہ ذکر کرنا چاہیے لیکن اگر ساتھ ساتھ بھی کوئی تھوڑا ذکر کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس میں فائدہ ہے اگرچہ کم ہے۔

سوال 8:

عرض ہے کہ حال کچھ زیادہ ہی برا ہو گیا ہے۔ قرآن پاک کے مطابق ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 5) حضرت جی کل رات عشاء کی نماز قضاء ہو گئی اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ۔ آنکھ کھلی تو انتہائے سحر کا وقت ہو چکا تھا۔ میں سوچنے لگی کہ حضرت جی فرماتے ہیں اگر بندہ نوافل وغیرہ پڑھتا ہو تو شیطان پہلے نوافل پر حملہ کرتا ہے۔ جب میں نوافل اوابین اور اشراق پڑھتی ہوں تو پھر بھی کیسے اس نے فرض پر حملہ کر دیا؟ تب خیال آیا کہ تلاوت بھی تو واجب ہے اور قضاء نمازوں کی ادائیگی بھی اور سنتیں بھی تو بہت سی ہیں جن پر میں عمل نہیں کرتی۔ پس معلوم ہو گیا کہ کہاں کہاں کوتاہی ہو رہی ہے جو شیطان کو یہاں تک ہمت اور وسائل حاصل ہو گئے ہیں۔ Most recent بیانات میں نشست سنی تھی جن میں خواتین کو بہت زیادہ تاکید کی گئی تھی کہ اول وقت پر نماز ادا کریں اور تہجد کے متعلق اتوار کا بیان بھی سنا تھا اس کے با وجود نصیحت دل پر اثر کیوں نہیں کر رہی، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا بلکہ نصیحت دل پر اثر کر ہی جاتی ہے دل میں وہ کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن نفس تیار ہی نہیں ہو رہا بلکہ بالکل بے قابو ہو گیا ہے۔ حضرت جی مجھے لگتا ہے کہ اگر میں نے کچھ حاصل کیا بھی تھا تو سب کچھ آہستہ آہستہ گنوا رہی ہوں۔ مذاق میں جھوٹ بولنے کی بھی بہت بری عادت پڑ گئی ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں میں مثلاً کوئی پوچھے پانی دیا ہے ابو کو؟ تو کہہ دیا نہیں۔ چولہا بند کیا تو کہہ دیا نہیں حالانکہ کام کر دیئے ہوتے ہیں لیکن عادت ہی خراب ہو گئی۔ بے خیالی میں جھوٹ بول دیتی ہوں۔ اس حالت پر اتنی شرمندگی ہوئی جب ایک کلاس فیلو کو کہہ دیا کہ میں نے آپ کو USB واپس کر دی۔ وہ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد میرے پاس آئی تو میں نے کہا: میں مذاق کر رہی تھی۔ اس نے کہا: اچھا! میرا خیال تھا کہ تم مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتی ہو گی۔ اب سوچتی ہوں کہ شروع سے معلوم ہے کہ بھنویں بنوانے والے پر لعنت ہے لیکن مجھے یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ جھوٹ بولنے والے پر بھی لعنت ہے۔ میرے خیال میں میرے شمار میں یہ چیز نہیں آتی اور حد تو یہ ہے کہ روز بروز اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ معلوم نہیں کیا بنے گا؟

جواب:

فکر مند خط ہے اللہ تعالیٰ مزید فکر بڑھا دے تاکہ عمل کی توفیق ہو جائے۔ محض فکر کافی نہیں ہوتی، لیکن فکر ہوتی ہے تو پھر عمل ہوتا ہے۔ یعنی سب فکر کرنے والوں کو عمل کی توفیق نہیں ہوتی۔ بعض دفعہ شیطان اسی چکر میں لگا دیتا ہے کہ اس کی tension یا پچھتاوے کو کہنے کے ساتھ دور کرتا ہے کہ چلو کہہ دو بس اب مزید کچھ عمل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ایک غلط بات ہے اس طرح بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ پچھتاوے کے بعد اپنے عمل کی اصلاح بھی ہونی چاہیے اور عمل کی اصلاح یہ ہے کہ ہر چیز کو ایک experience کے طور پہ لینا چاہیے۔ اگر کوئی حادثہ ہو جائے اور حادثہ کی وجہ سے کسی کو experience حاصل ہو گیا اور جس کی وجہ سے مزید حادثات سے رک گیا تو اس نے gain کر لیا۔ لیکن اگر وہ اس کو بھول جائے اور پھر بھی غافل ہی رہے تو پھر کئی مرتبہ اور بھی حاثات ہوتے ہیں۔ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔ یہ اسی طرف اشارہ ہے کہ اگر ایک غلطی کر لی تو اس کے بعد دوسری غلطی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سے learn کرنا چاہیے۔ آپ کے پاس Particular case میں theoretical یا philosophical انداز میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مجھ پر شیطان نے حملہ کیوں کیا؟ بس اتنی بات certain ہے کہ حملہ کر دیا جس وجہ سے بھی کیا۔ اب شیطان کا راستہ روکنا ہے کہ اب میں کس طرح بچ جاؤں؟ میرے خیال میں جواب آپ نے خود بھی دیا ہے اور وہ یہ کہ خواتین کے لئے چونکہ جماعت کی پابندی نہیں ہوتی لہٰذا وہ نماز کو postpone کرتی رہتی ہیں اور postpone کرنا ہی خطا ہو جاتی ہے۔ بالخصوص عشاء کی نماز میں postpone کرنا بہت خطرناک ہے، بعض دفعہ انسان تھکا ہوتا ہے، صرف سستانے کے لئے لیٹ جاتا ہے اور نیند آ جاتی ہے اور جب آنکھ کھلتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ سحری کا وقت ہو گیا۔ لہٰذا عورتیں اپنے اوپر یہ لازم کر لیں کہ جیسے ہی وقت داخل ہو جائے فوراً نماز پڑھ لیں۔ کیوں کہ کام بعد میں بھی کرنے ہیں اور نماز بھی پڑھنی ہے۔ آئندہ اس قسم کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ آپ نے کم از کم ایک تشخیص بالکل صحیح کی ہے کہ دل کڑھتا ہے۔ معلوم ہوا دل کو ذکر سے فائدہ ہوا ہے، لیکن نفس نہیں مانتا تو پھر نفس کو سزا دینی چاہیے تبھی وہ ٹھیک ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی یہ ترتیب ہے کہ اگر ایک نماز قضا ہو جائے تو اول توبہ کرے اور تین روزے رکھ لے تاکہ نفس کو اتنی سرزنش ہو جائے کہ پھر آئندہ نماز قضا کرنے کی جرأت نہ کرے۔ جھوٹ بولنا بہت بری عادت ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ﴾ (آل عمران: 61)

ترجمہ: ”اور جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔“

مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ البتہ اگر اس کا کوئی اور معنی نکلتا ہو تو ٹھیک ہے۔ مثلاً آپ ﷺ نے ایک بڑھیا سے فرمایا کہ بوڑھیاں جنت میں نہیں جائیں گی۔ وہ رونے لگی۔ فرمایا کہ اس وقت وہ جوان ہو چکی ہوں گی۔ یعنی ان کو جوان بنا دیا جائے گا۔ یہ مذاق بھی تھا لیکن جھوٹ بھی نہیں تھا۔ ایسا مذاق کرنے کی تو گنجائش ہے۔ لیکن اگر اس میں جھوٹ آ جائے تو غلط بات ہو گی۔ اس بچی نے صحیح کہا کہ میرے خیال میں تم مذاق میں بھی جھوٹ نہیں بولتی ہو گی۔ اس کا آپ کے اوپر بڑا اچھا گمان ہے۔ اس گمان کا regard کرنا چاہیے اور آئندہ کے لئے ایسا کوئی راستہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ بہر حال صرف اپنے آپ کو برا کہنا کافی نہیں بلکہ اچھائی کے لئے کوشش کرنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے اور آپ سب کو بھی دے

سوال 9:

بعد از سلام گزارش عرض ہے کہ میرا تعلق فلاں جگہ سے ہے۔ میں نے 2011 میں وہاں پر موجود یونیورسٹی سے M.A Political Science کی ڈگری لینے کے بعد سرکاری نوکری حاصل کرنے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانی شروع کی ہیں۔ دن بدن معاشرت خراب ہو رہی ہے۔ بے روزگاری کا عرصہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ میرا تعلق غریب گھرانے سے ہے۔ والدین نے زمینداری کر کے مجھے ڈگری دلا دی مگر اب بوڑھے والدین اور بہن بھائیوں کے لئے کچھ کرنے سے قاصر ہوں۔ پاکستان کے مختلف شہروں میں تلاش معاش کے سلسلے میں بزرگوں سے ملتا رہا ہوں۔ لاہور میں ایک صاحب نے وظیفہ بتایا تھا کہ ستر ہزار مرتبہ پہلے کلمے کا ورد کریں تو روزگار کا مسئلہ حل ہو گا۔ میں نے کئی مرتبہ وہ ورد بھی کیا مگر گورنمنٹ کی ملازمت حاصل کرنے میں تا حال ناکام ہوں۔ کسی شیخ کی تلاش میں تھا تو میرے ایک دوست نے آپ کا تعارف کرا دیا اس کے بعد تین مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا ہوں مگر اپنے احوال سنانے کا موقع نہیں ملا۔ امید ہے آپ ضرور میری مدد فرمائیں گے۔

جواب:

اس میں ایک تو یہ بات ہے کہ سرکاری نوکری حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ کرے نصیب ہو جائے۔ لیکن صرف سرکاری نوکریاں نہیں ہوتی اور نوکریاں بھی ہوتی ہیں۔ سرکاری نوکریوں کے امیدواروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، کچھ لوگوں کو ملے گی کچھ لوگوں کو نہیں ملے گی۔ competition بہت زیادہ ہو جاتا ہے لہٰذا پہلے کوئی نہ کوئی کام شروع کرنا چاہیے تاکہ اپنے معاش کا بوجھ اٹھایا جائے۔ اس کے بعد اگلے سٹیج کے طور پہ بہتر سے بہتر تلاش کرنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر فوراً اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونا چاہیں تو کوئی ایسی نوکری وغیرہ جیسے سکول میں پڑھانا ہے تاکہ اتنے پیسے تو ملیں کہ گزارہ وغیرہ ہو سکے۔ بعض لوگ اپنے معیار کو سامنے رکھتے ہیں اور اس سے نیچے نہیں آتے لیکن حالات انسان کے قابو میں نہیں ہوتے۔ اس وجہ سے انسان کو وہ کرنا چاہیے جو اس کے لئے مفید ہو، نہ کہ وہ جو وہ چاہتا ہو۔ بہرحال وظائف میں اثر ہوتا ہے لیکن ساتھ ساتھ competition والی بات ہوتی ہے۔

ایک عورت کی سوکن آ گئی، اس سے دوسری عورتوں نے پوچھا کہ آپ نے اس کے لئے کچھ پڑھا نہیں تھا۔ وہ بڑی jolly طبیعت کی عورت تھی۔ اس نے کہا: ڈیڑھ لاکھ مرتبہ آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھا تھا لیکن جو آئی ہے شاید اس نے تین لاکھ پڑھا ہو گا۔ معلوم ہوا باقی لوگ بھی وظیفے کرتے ہیں، اس وجہ سے صرف وظیفوں پہ فیصلے نہیں ہوتے، کچھ اور چیزیں بھی کرنی ہوتی ہیں۔ اول تو کسی مناسب طریقے سے معاش کی حالت درست کرنے کے لئے اپنے لیول سے نیچے آ کے کچھ نہ کچھ کام شروع کرنا چاہیے پھر بعد میں کوشش کرنی چاہیے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سروس کا مطلب ملازمت، ملازمت کا مطلب نوکری کرنا اور کسی کو کوئی نوکر کہہ دے تو نا راض بھی ہو جاتا ہے۔ لیکن نوکری کہنے سے کوئی نا راض نہیں ہوتا۔ ہمارے پاکستان، ہندوستان میں یہ کلچر بہت زیادہ ہے کہ لوگ تعلیم کا مقصد صرف نوکری کرنا سمجھتے ہیں، اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں سمجھتے جبکہ نوکریاں محدود ہوتی ہیں اس وجہ سے ٹینشن ہوتی ہے۔ معلوم ہوا تعلیم نوکریوں کے لئے نہیں بلکہ سمجھ کے لئے ہے لیکن بہر حال اپنی معاش کے درست کرنے کے لئے آپ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں کیونکہ کام کرنا پڑے گا۔ لیکن تعلیم کو اس کے ساتھ tie نہ کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ اس سے ملازمت ہی مقصود ہو۔ باقی یہ ہے کہ شیخ کی تلاش اگر ملازمت کے لئے تھی تو یہ بہت غلط سوچ ہے۔ میں نے دنیا میں کوئی ایسا شیخ نہیں دیکھا جو ملازمت دیتا ہو یا ملازمت کے لئے وظیفے دیتا ہو۔ شیخ کا مقصود اپنی اصلاح ہے۔ اپنی اصلاح کی نیت سے شیخ کو تلاش کرنا چاہیے۔ کسی شیخ کے فرضِ منصبی میں یہ نہیں ہے کہ وہ ملازمت کے لئے وظائف دے یا اس کے لئے دعائیں کرے۔ شیخ کی جو آٹھ نشانیاں ہیں ان میں کچھ اور مقصد ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ وہ اصلاح کر سکتا ہو۔ اپنی اصلاح کے لئے شیخ کے پاس آیا جاتا ہے۔ وہ وظیفے دلاتا رہے یا ملازمتیں دلاتا رہے تو یہ غلط سوچ ہے، اس پر توبہ کرنی چاہیے۔

سوال 10:

حضرت صاحب کراچی میں ہمارے جاننے والے ہیں، کافی دیندار ہیں۔ انہوں نے محفل میں بیٹھے ہوئے بہت سارے لوگوں کے سامنے بتایا کہ اہل کتاب یعنی نبی علیہ السلام کے امتی جو مسلمان نہیں ہوئے یعنی عیسائی یا دوسرے اہل کتاب، ان میں جو نیک لوگ ہیں وہ بھی جنت میں جائیں گے۔ اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔

جواب:

یہ تو عقیدے کا مسئلہ ہے۔ عقائد کے بارے میں قرآن میں بھی آیا ہے کہ کون کون سے عقیدے ہونے چاہئیں اور احادیث شریفہ میں بہت تفصیل کے ساتھ س کا ذکر آیا ہے۔ ضروری عقائد کا انکار کفر ہوتا ہے۔ باقی باتوں میں تو دوسرے مذاہب والے شریک ہو سکتے ہیں لیکن آپ ﷺ کو پیغمبر ماننا اور آپ ﷺ کو آخری پیغمبر ماننا یہ ایک ایسی بات ہے جو مسلمانوں کو باقی لوگوں سے ذرا ممتاز کر دیتی ہے، اس وجہ سے یہ لازم ہے۔ جب وہ عقائد صراحتاً دوسری قرآنی آیات اور احادیث شریفہ سے ثابت ہوئے تو ان کی تاویل نہیں کی جائے گی کہ وہ صراحتاً ہیں اور یہ اشارتاً ہیں۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ ان میں جو مسلمان ہو جائے اور وہ نیک کام کرے جیسے عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ ﷺ کا عمل بھی یہی تھا کہ انہی کو مسلمان سمجھتے تھے۔ باقیوں کو نہیں سمجھا، نہ ان کے جنت میں جانے کا کوئی قائل تھا۔ بلکہ جتنا اہل کتاب میں کوئی دین دار ہو اور وہ آپ ﷺ کا امتی ہو لیکن مسلمان نہیں ہوا تو وہ زیادہ خطرناک ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے دوسرے لوگ گمراہ ہوں گے۔ اگر آپ کے دوست نے اس سے توبہ نہیں کی تو اندیشہ ہے کہ کافر نہ ہو جائے۔ کیوں کہ کافر کو کافر نہ سمجھنا بھی کفر ہے۔ وہ اس عقیدے سے توبہ کریں۔

سوال 11:

حضرت صاحب میرا ایک دوست ہے، وہ کسی شعبے میں Assistant Director ہے۔ ابھی جب میری اس سے ملاقات ہوئی تھی تو میرے ساتھ دین کے حوالے سے کافی دیر بیٹھا تھا۔ تقدیر کے بارے میں اس نے پوچھا تھا کہ اگر ایک انسان غیر مسلم پیدا ہوا ہے تو بعد میں اس کو سزا کیوں مل رہی ہے اور اگر کوئی بندہ جس کا اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں لکھا ہوا ہے کہ یہ قتل کرے گا تو آخرت میں اس کے لئے سزا کیوں ہے؟ میں نے اس کو کچھ نہیں بتایا۔

جواب:

اصل میں تقدیر کے مسئلے میں اجمال پہ ایمان لانا چاہیے تفصیل میں نہیں جانا چاہیے کیوں یہ صفاتِ الہی سے تعلق رکھتی ہے اور صفاتِ الٰہی کا کامل ادراک کوئی بھی نہیں کر سکتا کیوں کہ اللہ پاک کی ہر صفت لا محدود ہے اور ہمارا ذہن محدود ہے۔ محدود لا محدود کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ تقدیر کی ساری باتیں کسی کی سمجھ میں آ جائیں البتہ اجمالی طور پر ہم یوں کہہ سکتے ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرۃ: 286) لہٰذا جب حکم دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا فائدہ بھی ہو گا۔ اللہ پاک نے بغیر فائدے کے کسی چیز کا حکم نہیں دیا۔ اللہ پاک نے دعا کا حکم دیا ہے۔ دعا براہ راست تقدیر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اگر کوئی چیز لکھی ہوئی ہے تو پھر اس کے لئے دعا کیوں کی جاتی ہے؟ معلوم ہوا اس سے فائدہ ہو گا تبھی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے جتنا رزق لکھا ہوا ہے وہ مل کے رہے گا لیکن پھر لوگ کام کیوں کرتے ہیں؟ گھر بیٹھ جائیں۔ وہاں یہ بات نہیں سوچتے کہ جو لکھا ہوا ہے بس وہ مل جائے گا۔ یہ اس کا منہ توڑ جواب ہے۔ اس شخص کو بھی توبہ کرنی چاہیے، یہ بھی کفریہ عقیدہ ہے۔ جو تقدیر میں یہ بات کرتا ہے کہ جب اللہ پاک نے کافر لکھا ہے تو پھر اس کے بعد یہ سب کیوں ہو گا؟ اللہ پاک نے جو حکم دیا ہے اس کو ماننا لازم ہے، چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ ہم اللہ کے محتاج ہیں اللہ ہمارا محتاج نہیں ہے۔ کان سے پکڑ کر جہنم میں گرا دے گا، پھر کیا کرو گے؟ لوگوں میں کفریہ عقائد پھیلے ہوئے ہیں، زیادہ تر غلط literature اور غلط میڈیا کی وجہ سے چیزیں وجود میں آئی ہیں۔ پرانے دور میں بھی یہ چیزیں تھیں لیکن اِس وقت ان کو publicity بہت ہو گئی ہے۔ پہلے یہ چیزیں دبی ہوئی تھیں، کسی کسی کے ساتھ ایسا ہوتا تھا، یہ شر اتنا نہیں پھیلتا تھا۔ آج کل میڈیا کی وجہ سے جلدی پھیل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس شر سے ہر ایک کو بچائے۔ اگر وہ اتنا زیادہ ایمان رکھتا ہے تو پھر وہ گھر بیٹھ جائے اور اپنی بیماری کا علاج کیوں کرتا ہے؟ اگر اللہ پاک نے مرنا لکھا ہے تو بے شک کتنا ہی علاج کرے گا آخر مرے گا۔ مرے گا تو پھر علاج کیوں کرتا ہے؟ ایسے سوالوں پہ مجھے غصہ آتا ہے اور آپ ﷺ کو بھی غصہ آتا تھا۔ کیوں کہ یہ اپنے domain سے باہر والی باتیں ہیں۔ انسان اپنے domain کو پہچانے کہ میرا domain کتنا ہے؟ جیسے اگر کوئی بادشاہ سے کہہ دے کہ آپ یہ کام کیوں کر رہے ہو؟ معلوم ہوا اپنی domain سے باہر نہیں جانا چاہیے۔ اپنے کپڑوں میں رہنا چاہیے۔ یہ غصہ آپ پر نہیں ہے بلکہ اس صاحب پر ہے جس نے ایسی باتیں کی ہیں اور یہ غصہ ضروری ہے تاکہ اس کی intensity سمجھ میں آ جائے۔

ایک دفعہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے کہا: حضرت! اگر میرا یہ کام نہیں ہو گا تو میں عیسائی ہو جاؤں گا۔ حضرت نے اس کو ایک زور دار تھپڑ مارا۔ جاؤ خبیث عیسائی ہو جاؤ اللہ تعالیٰ کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تو اپنے آپ کو کیا سمجھتا ہے؟ اس نے کہا: حضرت اگر اور مارنا ہے تو ماریں ویسے دماغ ٹھیک ہو گیا ہے۔ معلوم ہوا لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ لکھا ہے جو بہت interesting ہے۔ کوئی شخص غلط فلسفی تھا۔ کسی کے کھیت سے فروٹ وغیرہ کھانے لگا۔ اس شخص نے پکڑ لیا اور پوچھا اس طرح کیوں کیا؟ اس نے کہا: دیکھو باغ بھی خدا کا، تو بھی خدا کا، میں بھی خدا کا۔ میں نے اگر اس سے کھا لیا تو کیا ہوا؟ باغ کا مالک بڑا ہوشیار تھا اس نے سوچا کہ اس کے ساتھ میں کیا مغز ماری کروں گا تو اس نے خادم کو آواز دی کہ رسی لے آؤ۔ وہ رسی لے آیا۔ کہا: اس کو باندھ دو۔ باندھ دیا۔ کہتا ہے: ڈنڈا بھی لے آؤ۔ ڈنڈا بھی لے آیا۔ پھر اس کو مارنے لگے تو وہ چیخنے لگا کہ مجھے کیوں مارتے ہو؟ اس نے کہا دیکھو میں بھی خدا کا، رسی بھی خدا کی، ڈنڈا بھی خدا کا اور تو بھی خدا کا۔ میں اگر تجھے مارتا ہوں تو کیوں چیختا ہے؟ اس پر اس نے کہا اختیار است، اختیار است، اختیار است۔ یعنی ٹھیک ہے جی، بالکل ہے بالکل ہے۔ ایسے لوگوں کا اور کوئی علاج نہیں اور میرے خیال میں یہ ان کے ساتھ اچھائی ہو گی کہ جو ڈنڈے ہمیشہ کے لئے اُدھر پڑیں گے اس سے بہتر ہے کہ اِدھر تھوڑی دیر کے لئے پڑ جائیں۔

سوال 12:

احساسِ ندامت کے ساتھ اور جتنی بھی توبہ کی ضروری شرائط ہیں، ان کے حساب سے اگر انسان سابقہ گناہوں پہ توبہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ تواب ہیں اور توبہ کرنے والے کو اللہ معاف کرنے والے ہیں۔ لیکن اطمینان قلب کو کس طرح حاصل کرے؟ یعنی توبہ کے بعد اگر اطمینان نہیں ہو رہا تو کیا کرنا چاہیے؟ اور اگر وساوس آتے ہوں کہ شاید میری توبہ قبول نہیں ہوئی تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

اس کا گناہ معاف ہونا ضروری ہے یا اس پر اطمینان قلب ہونا ضروری ہے؟ یقیناً گناہ معاف ہونا ضروری ہے۔ توبہ سے گناہ معاف ہوتا ہے۔ بے شک اطمینان قلب ہو یا نہ ہو۔ اطمینان قلب کی فکر نہیں کرنی چاہیے، اپنے گناہ کے معاف ہونے کی فکر کرنی چاہیے۔ اچھی طرح ایک دفعہ رو دھو کے اللہ پاک سے معافی مانگے اور پھر اس کا سوچے بھی نہیں، بس توبہ کی چار شرائط پوری کر لے۔ اس کے بعد پھر زیادہ نہ سوچے ورنہ شیطان اس کو دوبارہ ورغلائے گا۔ وسوسے کی تو پرواہ ہی نہیں کرنی چاہیے۔ وسوسہ آئے اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے اور خود سے لانا بھی نہیں چاہیے۔

سوال 13:

حضرت کچھ لوگ رشوت لیتے ہیں یا اور کسی غیر شرعی طریقے سے بچوں کو پالتے ہیں اور وہ بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو معاشرے کے اندر ان کا اخلاق ٹھیک نہیں ہوتا اور بہت سی غلط کاریوں میں پڑے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے لوگ کہتے ہیں کہ ان کا والد ایسا تھا جس کی وجہ سے اس کا بیٹا یا بیٹی بھی ایسے ہیں۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔

جواب:

حرام رزق کا اثر پڑتا ہے۔ اعمال کی توفیق سلب ہو سکتی ہے۔ خود اس شخص سے بھی اور جن کو کھلاتا ہے ان سے بھی۔ اگر وہ مجاہدہ کر کے اس سے نکلنا چاہیں تو نکل سکتے ہیں لیکن آزمائش میں تو پڑ گئے۔ معلوم ہوا رزقِ حلال کھلانا چاہیے۔ حرام مال سے پالنے میں بڑے مفاسد ہیں۔ ایک دفعہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کسی بچے کو حرامی کہا تو اس کی والدہ بڑی پریشان ہو گئی تو فرمایا: نسبی حرامی نہیں ہے بلکہ حرام مال سے پلا ہوا ہے۔ پس انسان کو اپنا رزق پاک رکھنا چاہیے، پیٹ میں حرام نہیں جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حلال رزق نصیب فرمائے۔

ہمارا مری کا جوڑ اس لئے تھا کہ وہاں کے غفلت کے ماحول میں اللہ کی یاد کو دل میں پیدا کیا جائے تاکہ غفلت کا ماحول اللہ کی یاد کے ماحول میں بدل جائے۔ نیز انسان سیر الی اللہ تک جب پہنچتا ہے یعنی اس کا دل ذکر سے اتنا مانوس ہو جاتا ہے کہ پھر ہر چیز میں اس کو اللہ یاد آتا ہے اور وہی چیزیں ذکر کا ذریعہ بن جاتی ہیں جو غفلت کو دل میں لانے والی ہیں۔ اس کے بارے میں کچھ کلام پڑھا گیا تھا جو یہ ہے:

کلام

کاش دل میں جو ہے وہ سب قلم پہ آ جائے

دل مجذوب جذب کا راستہ دکھا جائے

اپنے محبوب کی ایک ایک ادا جانو خوب

ہر ادا غیر کی یہ ایک ادا کھا جائے

یہ مظاہر میرے محبوب کے بلاوے ہیں

نفس و شیطاں کا شر گر نہ ان پہ چھا جائے

دل بیدار کی آنکھوں سے ان کو دیکھو گے تو

سب سمجھ آئے مگر یہ کوئی سمجھا جائے

ایک خواہشات کی محفل ایک ذاکرین کی ہے

باہمی دست و گریبان ان کو پا جائے

دل عاشق کو اکھاڑے میں اتارا ہے یہاں

کیونکہ وہاں پر مقابلہ ہے۔

دل عاشق کو اکھاڑے میں اتارا ہے یہاں

کاش اس کا شعلہ نفس کے زور کو جلا جائے

نفس کو باندھ یہ باندھنے میں بھلا رہتا ہے

عشق کا ہار مگر دل کو تو پہنا جائے

ہر ادا اپنی تو سرشارِ سنت کر لے شبیر

ہر ادا حسنِ ازل کو پھر تیری بھا جائے

یہ ہماری ایک تمنا والی کیفیت تھی۔ اب جو وہاں کے حالات تھے وہ یہ تھے:

کلام

حسن کی دنیا سرِ راہ لٹ رہی ہے آج

یہ بے حسی کی ہوا کیسی اب چلی ہے آج

نفس نے حسن کا سنگھار کیا ہے آج خوب

عقلِ ایمانی کی میت بھی یہ پڑی ہے آج


اکبر الٰہ آبادی مرحوم نے فرمایا تھا:

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

اگر اس قسم کے حالات ہوں تو عقل ایمانی کی میت ہے۔


قہقہے کھوکھلے ہر رخ پہ سنے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا پہ ویرانی سی چھائی ہے آج

نعمت ہر ایک ذریعہ خدا کے شکر کا ہے

ان نعمتوں پہ دیکھ شکر ادا کی ہے آج

ہم شہوتوں کی دنیا میں ڈوبے جاتے ہیں

دلوں کی دنیا اس کے ذکر سے خالی ہے آج

عشق سینے سے لگا لینا اس کے ذکر کے ساتھ

نفس کو شبیر دے لگام جو باغی ہے آج


اسی قسم کا اور ہے:

کلام

یہ مناظر یہ آوازیں یہ رنگینی یہ شباب

تھام لے دل کو کہیں ہو نہ اس میں جاؤ خراب

ہر ایک پتا اس کی یاد کا پتا دیتا ہے

بشرطیکہ ترے دل میں اس کی یاد ہو جناب

یہ اپنی آنکھیں اپنے کان اور زبان دیکھ لینا

یہ کسی اور کی ہیں دینا پڑے گا جو حساب

اب تو تو محو خواب غفلت دنیا ہے یہاں

خود سے ہی جاگ ورنہ تجھ کو جگا لے گا عذاب

دل پہ ضربوں سے جگانے کا عمل تیز کر لے

سوتا رہنا نہیں ہے سخت کہ ہے اس کا عذاب

یہ مزے دنیا کے جنت کے مزوں کی ہے خبر

تجھ پہ کھل جائے شبیر اصلی مزوں کا آب و تاب


لیکن یہ باتیں پتا نہیں کتنی سمجھ میں آتی ہیں اور کتنا ان پر عمل ہوتا ہے۔ آخری غزل اسی بارے میں تھی۔


سمجھ میں آ جائے اے کاش شاعری میری

ورنہ ہے سامنے اپنی تو بے بسی میری

کس طرح روح کی آواز پہنچا دوں انہیں

جس نے کانوں سے گو غزل اپنی سنی میری

دل کی آواز دل کے کان ہی سن پاتے ہیں

نہ رکاوٹ بنے کہیں اس میں کمی میری

نفس و شیطان کہاں ان کو سنوا دے گا یہ

وہ نہ چاہیں تو چلے بس ان پہ کیسی میری

بس دعا ہے کہ اب شبیر کی مدد ہو خدا

گو کامیاب نہ ہو کوشش تو ہے صحیح میری


یہ وہاں کے حالات کے مطابق کلام تھا اللہ جل شانہ بسہمیں اپنی معرفت نصیب فرما دے۔

اب پشتو کا غزل ہے لیکن ساتھ ساتھ میں ترجمہ کر لوں گا:


مړ احساس

چې پهٔ مينې دَ دنيا کښې چا ژوند تېر کړو

هغهٔ خپله بلا ګانو کښې ځان ګېر کړو

يو بلا ده چې پهٔ خلقو کښې اوچت شم

يعنې خلقو کښې ئې خپله ځان غټ شمېر کړو

بله دا چې څوک پهٔ مال پسې مړ کيږي

چا پهٔ دې باندې خپل مال له قسمت ډېر کړو؟

بله دا چې پهٔ لذاتو کښې ځان غرق کړي

دَ نفس جال کښې ئې ځان خپله تېر و بېر کړو

لکه مړے دے پهٔ مړ احساس شبيؔره

دَ دنيا پهٔ ياد کښې چا چې خپل رب هېر کړو


ترجمہ: یہ ہے مردہ احساس

جس نے بھی دنیا کی محبت میں زندگی گزاری۔ اس نے اپنے لئے خود بلاؤں کو دعوت دی۔

پہلی بلا یہ ہے کہ میں لوگوں میں زیادہ نمایاں ہو جاؤں اور اپنے آپ کو بڑا سمجھ لیا۔ دوسرا یہ ہے کہ مال کے پیچھے پڑا ہو اگرچہ کوئی بھی اس کو اپنی قسمت سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ تیسرا یہ ہے کہ لذات میں اپنے آپ کو غرق کر دے جس کی وجہ سے نفس کے جال میں پوری طرح پھنس جاتا ہے۔ اور وہ شخص مردہ ہے اس مردہ احساس کے ساتھ شبیر۔ جس نے دنیا کی یاد میں اپنے رب کو بھلا دیا۔


پکار دي

همېشه مونږ ته پکارده دَ خدائے مينه

زمونږ هم زړۂ کښې پکار ده چې دا وي نه

دَ هغهٔ يو همېشه مونږ دَ هغهٔ شو

سلسله دَ مينې دا قائمه شينه

دَ هغهٔ مينه پهٔ زړۂ کښې مې هر دم وے

اؤ دا زړۂ مې لهٔ اغيار نه لرې يینه

چې دَ حسنِ ازل کړي دعویٰ دَ مينې

نو دَ زړۂ دروازې لرې دې ساتينه

دے نازک غزل، لږ تم شه اے شبيؔره

غلط نهٔ شې دې کښې تهٔ لارې اصلي نه


ترجمہ: یعنی ہمیشہ ہمیں اللہ کی محبت چاہیے، ہمارے دل میں یہ ہونی چاہیے اور اس کے ہم ہیں اور چاہیے کہ ہم اس کے ہی رہیں اور اللہ کے ساتھ ہمارا محبت کا رشتہ قائم ہو جائے چاہیے کہ اس کی محبت ہمارے دل میں ہمیشہ رہے اور یہ ہمارا دل کسی غیر کا نہ بنے اور جو بھی حسن ازل کا دعویٰ محبت کا کرے تو اس کو دل کے سارے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں اور یہ نازک غزل ہے۔ ٹھہرو! اے شبیر! کہیں اصلی راستے سے تم ہٹ نہ جاؤ۔


ډېر

فضل دَ هغهٔ خو بې حساب دے ډېر

دلته زمونږ خپل حالت خراب دے ډېر

بيا بيا پهٔ اعمالو کښې ګړ بړ کوو

دې باندې مې زړۂ کښې پېچ و تاب دے ډېر

کله چې زۂ ګورم دَ هغهٔ در ته

ښکاري چې کرم ئی لاجواب دے ډېر

حلم دَ هغهٔ دے ډېر خو ځان ساته

ولې چې بيا سخت ئې هم عذاب دے ډېر

ويرې دَ اميد مينځ کښې شبيؔره يه

زور ورکړے دې باندې کتاب دے ډېر


اس کا فضل تو بے حساب ہے لیکن ہماری اپنی حالت بہت خراب ہے۔ میں بار بار اعمال کے اندر گڑبڑ کرتا ہوں، اس پر پھر دل میں پیچ و تاب زیادہ ہوتا ہے۔ جب میں اس کے در کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو اس کے کرم کو لا جواب پاتا ہوں۔ اس کا حلم بہت زیاد ہے لیکن اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اس کا عذاب بھی بہت سخت ہے اور ہمشہ امید اور خوف کے درمیان رہو اے شبیر! کیونکہ کتاب میں اس پر بڑا زور دیا ہے۔ یعنی نہ امید کی طرف زیادہ جھک جاؤ اور دوسری طرف۔


جذب کے بارے میں ہے

جذب


جذب زړۂ کښې دَ معشوق اول راتلل کیٔ

کرشمې خپلې پخپله بيا ښودل کیٔ

دے هغه غواړي چې غواړي ترې معشوق خپل

يعني دے بس دَ معشوق پهٔ مرضۍ تلل کیٔ

زړۂ دَدهٔ عرش اصغر وي ځان پرې پوه کړه

دنيا کله دَ هغهٔ مقصد کېدے شي

دے هغه غواړي معشوق چې ترې غوښتل کیٔ

اخرت هغه هر وخت چې يادول کیٔ

پهٔ وَ ما رميت اذ رميت کښې ده

اشاره شبيؔره تا پرې خبرول کیٔ



ترجہ: یعنی اول معشوق کی محبت دل میں آتی ہے اس کے بعد اس کے کرشمے دکھائے جاتے ہیں اور جو ایسی حالت میں ہو جاتا ہے تو پھر وہ وہی حالت چاہتا ہے۔ یعنی اپنے ارادے کو فنا کر لیتا ہے۔ یعنی اس کا مکمل بن جاتا ہے اور دل عرش اصغر پر اپنے آپ کو خبر دار کرو۔ یعنی اس دل کے اوپر جو کچھ وہ چاہتا ہے پھر ہوتا ہے۔ اور دنیا اس کا کب مقصد بن سکتا ہے جب وہ آخرت ہی کو ہر وقت یاد کرتا ہے۔ وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ کے اندر اشارہ ہے شبیر، تجھے اس کے ذریعہ سے خبر دار کیا جا رہا ہے۔

اب دعا کے لئے ہے

دپاره

لاس اوس اوچت کړیٔ دَ دعا دپاره

دَ ځان دپاره دَ هر چا دپاره

نن صبا څومره پرېشان يو مونږہ

ځئ چې سوچ وکړو خېر صلا دپاره

لاره يوہ لرو دَ دوست دَخدائے بس

خو چې دا وي خدائےﷻ دَ رضا دپاره

هرڅهٔ کول دي عاقبت دپاره

اؤ کول نهٔ دي دَ دنيا دپاره

زمان مکان سره څهٔ کار نهٔ لرو

يو پېدا شوي دَ الله دپاره

دغه پېغام دې شي قبول لهٔ مونږه

دَ هر يو خېر دَ ابتدا دپاره

شبؔيره هر ځائے دَ هغهٔ يو بس مونږ

دے نصيحت زما اؤ ستا دپاره


وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الحَمْدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِینَ