اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت! ممکن ہے کہ یہ سوالات directly تصوّف سے related نہ لگیں، لیکن میں نے جس context میں پوچھنے کی کوشش کی ہے اس کا تعلق تھوڑا تصوّف سے ہے اور وہ ego سے related ہے۔ مثلاً بھیگ مانگنے والوں کے بارے میں ego اگر کسی جگہ involved ہوتی ہے، مثلاً بعض اوقات بندہ کسی ہٹے کٹے نوجوان کو دیکھتا ہے یا کسی ہٹی کٹی عورت کو دیکھتا ہے، تو اس میں میرا personally مائنڈ یہ ہے کہ اس کو discourage اس طریقے سے کیا جائے کہ آپ اسے پیسے نہ دیں، تاکہ At least آپ اپنا حصہ اس کے گناہ کے اندر نہ ڈالیں، لیکن unknowingly دماغ میں ان کے لئے بری feeling آتی ہے کہ وہ اس طرح کیوں کر رہا ہے۔ وہ جا کر محنت کیوں نہیں کرتا؟ کیا یہ ego کی وجہ سے ہے کہ میں اپنے آپ کو بہت اچھا سمجھتا ہوں اور ان کو چھوٹا سمجھ رہا ہوں یا اس میں بھی کوئی مسئلہ ہے یا یہ کس چیز سے related ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ میری Negative feelings ہیں۔
جواب:
یہ تصوّف سے متعلق سوال ہے، اس لئے کہ آپ اس میں اپنے ان خیالات کی اصلاح چاہتے ہیں جو آپ کو ان کے بارے میں آتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ سوال کرنے کے اہل نہیں ہیں یعنی ان کے پاس کچھ ہے یا وہ کما سکتے ہیں تو ان کے لئے سوال کرنا حرام ہے اور حرام کو encourage نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ (المائدہ: 2)
ترجمہ:1 ’’اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو‘‘۔
یعنی جو حرام اور گناہ کا کام ہے اس میں تعاون نہیں کیا جاسکتا۔ اور بھیک مانگنا گناہ ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور آکر کچھ سوال کیا، تو آپ ﷺ نے خود ان کے لئے کام کا بندوبست کیا، اس طرح کہ لکڑی کاٹنے کا کلہاڑا اس کے لئے تیار کروا دیا اور پھر فرمایا کہ جاؤ، اس سے لکڑیاں کاٹ کے لایا کرو اور ان کو بیچا کرو، یہ تمہارے لئے مانگنے سے بہتر ہے۔ (ابن ماجہ: 2198)
یعنی آپ ﷺ نے ان کو اس مسئلہ میں encourage نہیں کیا کیونکہ اس کی سزا بہت سخت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ سوال کے اہل نہیں ہیں، لیکن پھر بھی وہ سوال کرتے ہوں تو قیامت کے دن وہ ایسی حالت میں آئیں گے کہ ان کے چہرے پر بالکل گوشت نہیں ہوگا بلکہ ہڈیاں ہی ہڈیاں ہوں گی۔ (بلوغ المرام: 516)
اس لئے ان کو encourage نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن جہاں تک اپنی feeling کی بات ہے، تو یہ صرف اس بارے میں نہیں بلکہ تمام گناہوں کے بارے میں ہے کہ اگر کسی کو گناہ میں مبتلا دیکھا جائے تو اس گناہ کو برا سمجھا جائے لیکن گناہگار کو برا نہ سمجھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو پتا ہی نہیں ہے کہ اس کی آخری حالت کیسی ہوگی اور اپنی حالت کیا ہوگی، لہٰذا جب میں اپنے بارے میں نہیں جانتا تو پھر میں دوسرے کے بارے میں کیسے کچھ کہہ سکتا ہوں۔ بلکہ کسی عالم نے تو یہاں تک کہا ہے کہ یزید پر اگر آپ کو لعنت کرنی ہو تو اس وقت کرو جب تمہیں اپنے بارے میں پتا چل جائے کہ آپ کی حالت اس سے اچھی ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ اس کا علم تو موت کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے غیر ضروری طور پر آدمی ان چیزوں میں اپنے آپ کو involve نہ کرے۔ لہٰذا اس کے بارے میں جو جذبات ہیں اس کو اپنا وسوسہ سمجھے اور وسوسے کی پروا نہ کرے۔ البتہ اس کام کو برا سمجھا جائے کیونکہ وہ غلط کام ہے اور غلط کام کو encourage نہیں کرنا چاہئے، اس لئے اس کام کو برا سمجھا جاسکتا ہے۔
سوال نمبر 2:
اور سر! دوسرا سوال میں نے یہ پوچھنا تھا کہ جو اولیاءِ کرام ہوتے ہیں یہ understood بات ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ اور یہ بھی out of question ہے کہ کوئی صحابہ کے level پر پہنچ سکے۔ مگر اولیاءِ کرام کے level پر جو لوگ ہیں جیسے جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بہت سننے میں آیا ہے کہ وہ صوفیاء کے سردار مانے جاتے تھے، حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بھی یہ بہت آیا ہے، تو یہ level کا جو difference ہے یہ کس base پر ہوتا ہے؟ جس طرح حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے جو ٹیچر تھے، ان کا نام شاید ہم تک اتنا زیادہ نہیں پہنچا جتنا کہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کا پہنچا ہے، تو My question is کہ میں امام غزالی کی books پڑھتا ہوں جس میں وہ کہتے ہیں کہ ان کے زمانے میں لوگ چار چار سو نفل یا ہزار ہزار نفل پڑھتے تھے لیکن میرے لئے یہ Physically possible نہیں ہے کہ میں اس زمانہ میں ہزار نفل یا چار سو نفل پڑھ سکوں۔ تو یہ کس چیز پر dependent تھا یعنی وہ اس level کو distinguish کس basis پر کیا جاتا تھا؟ کہ میں اس جیسا نہیں کرسکتا، کیا مجھے ایسا کرنا چاہئے کہ مجھے بھی کوئی purity یا اللہ تعالیٰ کی وہ محبت نصیب ہوجائے کہ جو ان کو تھی؟
جواب:
بہت اچھا سوال ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتے ہیں:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (یونس:62-63)
ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقویٰ اختیار کیے رہے‘‘۔
اور دوسری جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾ (الحجرات: 13)
ترجمہ: ’’در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
پس ایمان تو سب مسلمانوں میں common ہے اور ایمان میں سب برابر ہیں۔ لہٰذا اس میں تو کوئی difference نہیں ہے۔ difference اگر ہے تو تقویٰ میں ہے۔ لہٰذا جس کا تقویٰ زیادہ ہوگا وہ بڑا ولی اللہ ہوگا۔ یہی بات اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں بیان فرمائی ہے:
﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ﴾ (الحجرات: 13)
ترجمہ: ’’در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔
تقویٰ دل کی ایک کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان اللہ پاک کی ناراضگی سے ڈرتا ہے، یہ تقویٰ کا آسان ترین مفہوم ہے۔ لیکن تقویٰ کی پیمائش عام آدمی نہیں کرسکتا اگرچہ ظاہری اعمال کے ذریعے سے کسی نہ کسی حد تک پیمائش کی جاسکتی ہے کہ جب دیکھیں کہ ایک انسان بالکل شریعت کے مطابق چلتا ہے اور اللہ پاک سے ڈرتا ہے اور چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق زندگی گزارتا ہے تو اس کے بارے میں گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ متقی ہے، لیکن اس کی جو اصل حالت ہے، یہ وہ لوگ جانتے ہیں جن کے دل اللہ پاک نے اس چیز کے لئے کھولے ہوتے ہیں۔ جیسے سائنسدان کو سائنسدان جانتا ہے، ہم کسی کو بڑا سائنسدان نہیں کہہ سکتے، اگرچہ تھوڑا بہت ہم بھی جانتے ہوتے ہیں، لیکن جو اصل میں باریک چیزیں ہوتی ہیں، جن کے بارے میں عوام نہیں جانتی اور سائنسدان اس پر ریسرچ کر رہے ہوتے ہیں، تو جو اس کا ماہر ہوتا ہے اسے پتا چلتا ہے کہ یہ چیز کتنی difficult ہے، کتنی آسان ہے، کتنی مشکل ہے، کتنی اہم ہے۔ اور جب کوئی بڑا سائنسدان کسی سائنسدان کے بارے میں کہہ دے کہ یہ بڑا سائنسدان ہے تو اس کی value ہوتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ ’’قدرِ جوہر جوہری می شناست‘‘ کہ جوہر کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔ اسی طرح جو اولیاء اللہ گنے چنے ہیں اور پھر ان کی ایک chain سی بن جاتی ہے، پھر وہ جن کے بارے میں کہہ دیں کہ یہ اچھا ہے، پھر اس کے بعد دوسرا جو ان کے بارے میں کہہ دے کہ یہ اچھا ہے، گویا کہ ہمارے پاس تواتر کے ساتھ ایک چیز چلی آرہی ہوتی ہے۔ مثلاً شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لوگوں نے کہہ دیا (جو اس وقت مانے ہوئے لوگ تھے) تو لوگوں کے درمیان ان کا image بن گیا۔ پھر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جس کے بارے میں کہا ہوگا تو ان کے بارے میں لوگوں کا اچھا گمان بن جاتا ہے، یہ چیز ابھی تک ہمارے پاس چلی آرہی ہے، گویا کہ یہ تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہوتی ہے۔ جیسا کہ بعض حضرات نے فارمولے کے طور پر یہ بتایا کہ دین متواتر ہے اور تواتر سے ثابت ہے یعنی دین continuity کے ساتھ آیا ہوا ہے اور continuity سے ثابت ہوتا ہے، اگرچہ اس بارے میں ہم لوگ حتمی رائے تو قائم نہیں کرسکتے لیکن جو انسان کے دل کو تسلی دینے کے لئے کافی ہے وہ یہ ہے کہ بڑوں نے ان کے بارے میں کیا کہا ہے، ہمارے لئے بس وہ چیز کافی ہونی چاہئے۔
سوال نمبر 3:
حضرت! یہ بیچ میں تھوڑا stupid سا سوال ہے کہ ایک جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ سے بندے کو عشق ہوجائے تو وہ کہتا ہے جو تمہاری مرضی (اللہ کی مرضی) ہے وہی میری مرضی ہے، لیکن اگر بندے پر بیماری آجائے یا اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش آجائے تو پھر وہ بندہ دعا مانگتا ہے، یہ چیز تھوڑی کلئیر نہیں ہو رہی کہ اس جگہ یہ change ہے، جبکہ دوسری جگہ پر یہ کہتا ہے کہ جو تیری مرضی ہے وہ میری مرضی ہے، تو اس کا conflict کس طریقے سے ہے؟
جواب:
حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ مصائب کے فضائل بیان کردیئے کہ جو تکالیف آتی ہیں اس کا یہ اجر ہوتا ہے اور اس کا یہ اجر ہوتا ہے، اسی دوران ایک صاحب نے کہا کہ حضرت! میں بڑی تکلیف میں ہوں، میرے لئے دعا فرمائیں۔ لوگ حیران ہوگئے کہ اب حضرت کیا کریں گے، کیونکہ حضرت نے خود ہی تکالیف کے فضائل بیان کئے ہیں تو اب حضرت خود کیا کریں گے۔ حضرت نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا اور فرمایا یا اللہ! بہتر تو یہی ہے یعنی تکالیف ہی بہتر ہیں، اس کا اجر زیادہ ہے کیونکہ یہ تیری طرف سے آئی ہوئی ہیں اور اس میں ہمارا کوئی اختیار بھی نہیں ہے کہ جو ہم اس کے بارے میں کہہ دیں کہ یہ نہیں ہونی چاہئیں، لیکن ہم کمزور ہیں اور تو کمزوروں کو اس تکلیف کے بغیر بھی دے سکتا ہے، لہٰذا ہم اپنی کمزوری کی بنیاد پر تجھ سے عافیت کی درخواست کرتے ہیں، عافیت مانگنا تجھے پسند بھی ہے، اس لئے تو ہمیں عافیت عطا فرما۔ چنانچہ حضرت نے یہاں دونوں چیزوں کو جمع کردیا، اس چیز کو کاٹا بھی نہیں یعنی اپنی بات کی نفی بھی نہیں کی لیکن دعا بھی مانگ لی۔ لہٰذا جو لوگ محبت والے ہوتے ہیں تو محبت کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، ایک محبت کا رنگ یہ ہے کہ جو اللہ کی مرضی ہے میری بھی وہی مرضی ہے۔ جیسا کہ مشہور مقولہ ہے ’’جدھر مولا ادھر شاہ دولا‘‘۔ دراصل شاہ دولا رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ تھے۔ لوگ ان کے پاس گئے کہ حضرت! دریا اپنا رخ بدل رہا ہے اس کا رخ گاؤں کی طرف ہورہا ہے، یعنی جس گاؤں کے وہ تھے اسی کی طرف اس کا رخ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پھاوڑا لے آؤ، جب پھاوڑا لایا گیا (لوگوں نے کہا شاید کوئی ٹوٹکہ کرنا چاہتے ہیں) تو حضرت اس کو کندھے پر رکھ کر جا رہے تھے اور لوگ پیچھے پیچھے کافی بڑے جلوس کی صورت میں تھے۔ حضرت دریا کے پاس پہنچ گئے اور اپنے گاؤں کی طرف رخ بنانے لگے، لوگوں نے کہا حضرت! یہ کیا کر رہے ہیں؟ یہ تو آپ گاؤں کی طرف اس کا راستہ بنا رہے ہیں۔ فرمایا ’’جدھر مولا ادھر شاہ دولا‘‘ یعنی اگر اللہ پاک کو میرا گاؤں تباہ کرنا پسند ہے تو سب سے پہلے میں تباہ کروں گا، تو یہ محبت کا ایک رنگ ہے۔ اور ایک رنگ محبت کا یہ ہے کہ اللہ پاک عاجزی چاہتا ہے، اور وہ کوئی تکلیف اس لئے بھیجتا ہے کہ ہم عاجزی کریں اور وہ اللہ کو پسند ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک دفعہ بیماری میں فریاد کر رہے تھے، کسی نے کہا حضرت! آپ بھی؟ فرمایا جب اللہ پاک میری عاجزی دیکھنا چاہتا ہے تو کیا میں پہلوان بن جاؤں؟ تو محبت کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور یہ سب محبت کے رنگ ہیں، اس وجہ سے اس کو بھی ہم ٹھیک کہتے ہیں اور اس کو بھی ہم ٹھیک کہتے ہیں۔
سوال نمبر 4:
ایک سوال یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کا جو واقعہ ہے کہ وہ نعوذ باللہ آپ ﷺ کو قتل کرنے جا رہے تھے، لیکن ایک آیت سورۂ کہف کی پڑھی گئی تو ان کے دل کا حال بالکل بدل گیا اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ اگرچہ حضور پاک ﷺ کی دعا بھی ان کے ساتھ تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو قبول فرمایا ہوگا۔ لیکن عادۃً صرف ایک انسان کے لحاظ سے دیکھا جائے تو بظاہر ایک آیت ان کے اسلام کا سبب بنی اور پھر اس کے بعد ان کا مرتبہ آج بھی ہمارے ہاں مسلم ہے اور ہمیں پتا ہے کہ ان کا کیا لیول ہے۔ سوال یہ کہ آج ہم پر یہ فرق کیوں نہیں پڑتا کہ ہم پر بھی ان کی طرح یا ان جیسا believe ہوسکے یا ان جیسی ہمیں اللہ سے یا رسول پاک ﷺ سے محبت ہوسکے یا وہ effect ہم پر بھی ہوسکے جو قرآن اُن پر کرتا تھا۔ یہ language کے barrier کی وجہ سے ہے یا ہماری اپنی impurities کی وجہ سے ہے یا کسی اور وجہ سے ہے؟
جواب:
ماشاء اللہ بہت اچھا سوال ہے۔ اللہ جل شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں:
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرىٰ لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
جس کے پاس دل ہو، یعنی اس کا دل بنا ہوا ہو اور جس کا دل بنا ہوا ہوگا تو وہ خود براہ راست قرآن سے لے گا، ایک ایک لفظ اس پر اثر کرے گا اور اگر دل بنا ہوا نہیں ہے، تو پھر اثر نہیں کرے گا۔ البتہ اگر دل بنا ہوا نہیں ہے لیکن کسی بنے ہوئے دل سے اگر وہ سن لے تو پھر بھی اثر کرے گا۔ اور ہمارا آج کل جتنا دل بنا ہوا ہے اتنا اثر اس پر ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص گناہ کرنا چاہتا ہے، لیکن قرآنِ پاک کی ایک آیت اس کے سامنے آجاتی ہے اور وہ اس گناہ سے رک جاتا ہے، تو اس کے لئے یہ کافی ہے کیونکہ مقصد حاصل ہوگیا کہ وہ گناہ سے رک گیا۔ اگرچہ اس سے آپ کو اس کی بڑی بزرگی نظر نہیں آرہی ہوگی، لیکن وہ گناہ سے رک گیا تو یہ قرآن نے اثر کیا ہے۔ حرم شریف میں ایک دفعہ میں اوپر چھت پر واپس جارہا تھا، (وہاں لوگ چونکہ خانہ کعبہ یا دوسری چیزوں کے ادب کا زیادہ خیال نہیں کرتے) تو ایک مصری سو رہا تھا اور اس کے پیر بالکل خانہ کعبہ کی طرف تھے اور ایک صاحب بالکل اس کے سرہانے بیٹھے ہوئے قرآنِ پاک کی تلاوت کر رہے تھے۔ کیونکہ جو سو رہا تھا اس کو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، لیکن جو جاگ رہا تھا اور تلاوت کر رہا تھا اس کے کان میں میں نے آہستہ سے کہا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ذٰلِكَۗ وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآىٕرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوْبِ﴾ (الحج: 32)
ترجمہ: ’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔
وہ چونکہ عرب تھا اس لئے وہ فوراً سمجھ گیا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں، مجھے ترجمہ، تشریح یا تقریر نہیں کرنی پڑی کہ خانہ کعبہ کی طرف پیر نہیں کرنے چاہئیں۔ میں نے اور کوئی بات نہیں کی، ابھی میری یہ بات ختم ہوئی اور اس نے فوراً اپنے ساتھی کو جگا دیا اور اس کے پیر خانہ کعبہ کی طرف سے ہٹوا دیئے۔ یہ قرآن نے اثر کیا تھا، جس کی وجہ سے اس کو فوراً احساس ہوگیا کہ یہ تو قرآن میں کہا گیا ہے۔ لیکن پہلے ان کو خیال نہیں تھا، جیسے ہی ان کو خیال ہوگیا کہ قرآن کا یہ حکم ہے تو فوراً اس پر عمل کے لئے تیار ہوگئے۔ لہٰذا قرآن اب بھی اثر کرتا ہے، لیکن مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہم اپنے دلوں کے بنانے کی فکر ہی نہیں کرتے، جب دل بن جائے اور جتنا بن گیا اتنا اثر ضرور کرے گا۔ اعمال کے لحاظ سے کرے گا اور کیفیت کے لحاظ سے بھی کرے گا۔ آج بھی الحمد للہ! ایسے اللہ والے ہیں کہ ان کی زبان سے جو کوئی قرآنِ پاک سنتا ہے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں، کیفیت بدل جاتی ہے۔ Karlsruhe (کارلسرو) میں ایک دفعہ ہمارے ایک بزرگ شیخ عبد اللہ العزام رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے تھے، جو کہ عرب تھے، انہوں نے صبح کی نماز پڑھائی وہ غالباً ’’سورۃ الانفال‘‘ کی تلاوت کر رہے تھے اور سارے لوگ پیچھے کھڑے ہوئے رو رہے تھے، کیونکہ ان کی آواز میں ایسا اثر تھا اور یہ ان کے دل کی کیفیت کی وجہ سے تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان بالکل سچ ہے۔
﴿اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾
(ق: 37)
ترجمہ:’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
وہ بھی وہی عام آیتیں پڑھ رھے تھے جو ہم سب جگہ سنتے ہیں، لیکن ان سے جو لوگ سن رہے تھے وہ سب رو رہے تھے۔ آخر کیا بات تھی! کہ اس میں اتنا اثر تھا؟ کیونکہ ان کے دل میں اثر تھا، اس لئے جب وہ قرآنِ پاک کی تلاوت کررہے تھے تو پتا چل رہا تھا۔ اس لئے اہل اللہ کے پاس جانا چاہئے کہ اہل اللہ کے جو دل ہوتے ہیں وہ کیمیا ہوتے ہیں، ان سے عام بات بھی اگر آپ سنیں گے تو معاملہ بدل جائے گا۔ غالباً حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ ان کے بیٹے نے کہا کہ حضرت! میں کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں، انہوں اجازت دے دی تو انہوں نے بڑا عالمانہ بیان کیا، لیکن لوگ ٹس سے مس نہیں ہوئے، یعنی لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ بیٹھے تنکے ونکے توڑ رہے تھے، پھر حضرت نے ان سے کہا کہ اب آپ آجائیں اور حضرت ممبر پر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ رات کو میں نے تہجد کے لئے کچھ دودھ بچایا ہوا تھا کہ صبح تہجد کے لئے جب اٹھوں گا تو وہ دودھ پی لوں گا لیکن بلی آئی اور پنجہ مار کر سارا دودھ گرا دیا۔ حضرت کا اتنا کہنا تھا کہ سارا مجمع دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، تو حضرت کا بیٹا حیران ہوگیا کہ حضرت! میں نے علوم کے دریا بہا دیئے لیکن کسی پر اثر نہیں ہوا اور آپ نے صرف ایک عام واقعہ بیان کردیا کہ دودھ گر گیا جبکہ دودھ تو گرتا ہی رہتا ہے، اس میں اثر کی کیا بات؟ حضرت نے کہا بیٹا! تو زبان سے بات کرتا ہے اور میں دل سے بات کرتا ہوں اور جہاں دل involve ہوتا ہے تو معاملہ الگ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا مسئلہ یہ ہے کہ جیسے آپ فرما رہے تھے اور آپ ٹھیک فرما رہے تھے، چونکہ آج کل دل پر محنت نہیں ہو رہی اور جتنی محنت نہیں ہو رہی اس کے اثرات بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ نہ قرآن کا اثر ہو رہا ہے، نہ حدیث شریف کا اثر ہو رہا ہے، نہ بزرگوں کی باتوں کا اثر ہو رہا ہے، کیونکہ دل پر محنت نہیں ہو رہی، اگر اب بھی محنت ہوجائے تو سب کچھ وہی ہے، اللہ بھی وہی ہے، قرآن بھی وہی ہے اور دین بھی وہی ہے، کچھ بھی آگے پیچھے نہیں ہوا۔
سوال نمبر 5:
حضرت! یہ جو آیت ہے۔
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ (ق: 37)
ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔
اس میں تیسری چیز بھی ہے یا دو ہی باتیں ہیں، یعنی آخر میں جو شہید ہے۔
جواب:
اس میں تیسری چیز بھی ہے اور وہ شہید ہے یعنی اہتمام کے ساتھ سننے والا۔ جیسے شہادت دینے والا کہ گویا وہ معاملہ دیکھ رہا ہے، ایسے ہی نصیحت سننے والا کہ ہمہ گوش، ہمہ تن متوجہ ہو گویا کہ یہ کسی کو دیکھ رہا ہے بالکل متوجہ ہوکر۔ یہ اصل میں شہید کا Superlative degree ہے جیسے علیم ہے۔
سوال نمبر 6:
بندہ ایک کوشش کرتا ہے۔ جیسے کسی کی اگر کوشش ہو کہ مجھ سے تہجد کی نماز کبھی بھی قضاء نہ ہو اور وہ کوشش بھی کرتا ہے، لیکن obviously اس کے ساتھ نفس بھی ہے، اس لئے اگر وہ نہیں اٹھ سکا جیسے آج کل Daily routine بندے کی اسی طرح ہوتی ہے کہ بارہ، ساڑھے بارہ بج ہی جاتے ہیں، اس لئے اگر وہ نہیں اٹھ سکا، تو اس سے بندہ محبت کا comparison نفس کے ساتھ کس طرح کرے؟ کہ اگر وہ نہیں اٹھ سکتا تو اس کی محبت میں کمی ہے یا اس کا کیا حساب ہے؟
جواب:
دو factors ہیں، جو بہت اہم ہیں، ایک دل ہے اور ایک نفس ہے۔ بزرگوں نے اس کی مثال ایسی دی ہے کہ نفس کی مثال گاڑی کی ہے اور دل ڈرائیور ہے۔ اب گاڑی چلتی ہے یعنی وہ سسٹم ہے اور ڈرائیور چلاتا ہے، لہٰذا جو چیزیں ڈرائیور کے لئے ضروری ہیں کہ اس کا skill بھی ہو، وہ الرٹ بھی ہو، اس کو نظر بھی صحیح آتا ہو یعنی یہ تمام چیزیں ہوں تو پھر وہ گاڑی صحیح چلائے گا اور گاڑی تب صحیح چلے گی جب گاڑی ٹھیک ہوگی، اس کا انجن ٹھیک ہوگا، گیئر ٹھیک ہوگا، بریک ٹھیک ہوگی، accelator ٹھیک ہوگا اور باقی تمام چیزیں بھی ٹھیک ہوں گی تو پھر گاڑی صحیح چلے گی۔ لہٰذا دونوں کا بیک وقت ٹھیک ہونا ضروری ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی ٹھیک نہیں ہوگا تو کام صحیح نہیں ہوگا بلکہ کام خراب ہوجائے گا۔ اسی طرح اگر دل ٹھیک ہے تو انسان صحیح ارادہ کرے گا، کوشش بھی کرے گا لیکن نفس اگر ٹھیک نہیں ہے تو وہ آڑے گا، resist کرے گا اور اس پر نفس کڑھے گا کہ میں نے یہ کیوں کیا ہے یعنی ایسا کیوں ہوا ہے تو وہ کڑھے گا، روئے گا، تلملائے گا لیکن کر کچھ بھی نہیں سکے گا، کیونکہ اس کا نفس کنٹرول ہوگا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے آپ Hydrogen کا غبارہ لے لیں کہ اس کے اندر Hydrogen گیس بھرا ہو تو اس کی وجہ سے وہ غبارہ اوپر اٹھتا ہے لیکن اس کے ساتھ اگر آپ ایک چھوٹا سا پتھر باندھ لیں تو اس پتھر کی وجہ سے وہ نیچے آئے گا، گویا کہ دو Opposite forces ہیں، غبارہ کی Hydrogen وہ اس کو اوپر لے جارہا ہے اور پتھر اس کو نیچے لا رہا ہے، چنانچہ اگر غبارے کی لفٹ اگر پتھر کے weight سے زیادہ ہے تو وہ اوپر جائے گا اور اگر پتھر کا weight غبارے کے لفٹ سے زیادہ ہے تو نیچے آئے گا اور اگر برابر ہو تو ایک جگہ پر کھڑا ہوجائے گا، نہ کم ہوگا نہ زیادہ ہوگا۔ جب یہ تین صورتیں ہیں، تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ایک انسان کی روحانیت جو دل کے ذریعے سے آتی ہے اگر وہ زیادہ ہے تو نفس کے ثقل کو بھی دل اپنے ساتھ کھینچ لے گا اور اس کو ٹھیک کر لے گا، بلکہ اس کو ٹھیک کروا دے گا اور اگر پتھر کے weight کو کم کردیا جائے تو تھوڑی روحانیت بھی کام آجائے گی یعنی وہ چل پڑے گا۔ اور اگر دونوں کو بیک وقت یعنی روحانیت کو بڑھا دو اور weight کو کم کردو تو پھر نُوْرٌ عَلیٰ نُوْرِِ ہوجائے گا۔ نقشبندی حضرات دل پر زیادہ محنت کرتے ہیں، چشتی حضرات نفس پر زیادہ محنت کرتے ہیں اور آج کل یعنی موجودہ دور میں مجبوراً لوگ دونوں پر محنت کرتے ہیں، کیونکہ حالات بہت گڑبڑ ہوگئے ہیں، اب دل پر بھی محنت کرنی پڑتی ہے اور نفس پر بھی محنت کرنی پڑتی ہے تب کام ہوتا ہے یعنی تھوڑا اِدھر تھوڑا اُدھر۔ کیونکہ نہ دل والی محنت ہماری پوری ہے اور نہ نفس والی محنت ہماری پوری ہے، اس لئے اِدھر بھی کام کرنا اور اُدھر بھی کام کرنا ہے۔ اب آپ کی تہجد والی جو بات ہے کہ آپ نے اپنے دل کی وجہ سے ارادہ کر لیا، لیکن آیا کہ کیا آپ کے ارادہ کو آپ کے نفس نے مان لیا؟ نہیں بلکہ وہ resist کرے گا اور اگر اس کی resistance اس لیول کی ہے کہ آپ کے دل کی طاقت اتنی نہیں ہے تو آپ نہیں اٹھ سکتے بلکہ بس ابھی اٹھتا ہوں، ابھی اٹھتا ہوں، کہہ کر سو جائیں گے اور تہجد کا ٹائم تو کیا شاید فرض نماز کا بھی وقت گزر جائے لیکن آپ اٹھ نہیں سکیں گے۔ لہٰذا ایسی صورتحال میں یہی بہتر ہوتا ہے کہ تہجد کے لئے الارم نہ ہی لگایا جائے کیونکہ اگر الارم لگائے گا اور الارم تہجد کے لئے بج گیا لیکن وہ تہجد کے لئے نہ اٹھ سکا تو فرض نماز بھی چلی جائے گی، کیونکہ دوبارہ تو الارم وہ سیٹ نہیں کرے گا جس کی وجہ سے فجر کی نماز بھی قضا ہوجائے گی۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ وہ نفس کی اتنی demand جو minimum ہے، جس کی وجہ سے وہ ہمارے اوپر سوار ہوتا ہے کہ وہ تہجد کے لئے نہ اٹھے یہ بات مان لے، تاکہ فرض نماز کے لئے کم از کم وہ اٹھے اور وہ risk میں نہ چلی جائے۔ اور ایسی صورت میں ہم بتاتے ہیں کہ بھائی! عشاء کے بعد تہجد کی نیت سے چار رکعت پڑھ لیا کرو اگرچہ وہ کم درجہ کی ہیں لیکن نہ ہونے سے بہتر ہے، اس لئے اس پر عمل کر لے۔ لیکن اس دوران اپنے دل پر محنت جاری رکھے، اپنے نفس کے اوپر محنت جاری رکھے اور جب یہ محنت اس لیول پر پہنچ جائے گی، جس میں نفس کی resistance کم ہوجائے گی یا دل کی قوت بڑھ جائے گی تو اس صورت میں ان شاء اللہ! تہجد کے لئے اٹھنا نصیب بھی ہوجائے گا۔ اور پھر اس صورت میں اس پر عمل بھی ہوسکتا ہے۔
سوال نمبر 7:
حضرت! مناجات کے بارے ایک عالم کے بیان میں سنا تھا جس کا مفہوم اس طرح ہے کہ ہر امتی کے چوبیس گھنٹے کی زندگی میں ایک ایسا وقت آنا چاہئے جس میں وہ اللہ تعالیٰ سے رو رو کے مناجات کرے۔
جواب:
لفظِ ’’مناجات‘‘ نجات سے تعلق رکھتا ہے یعنی جس کے ذریعے سے آپ اللہ پاک سے نجات مانگتے ہیں۔ ایک کتاب ہے ’’مناجات مقبول‘‘ جس میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن اور حدیث کی دعاؤں کو جمع کیا ہے اور پھر ان کو سات حصوں پر تقسیم کیا ہے اور ہر حصہ کو ایک دن کے لئے مخصوص کردیا ہے، تاکہ ہر مخصوص دن میں جو پڑھے گا تو سات دنوں میں یعنی پورے ہفتہ میں ساری دعائیں پوری ہوجائیں گی۔ یہ ’’مناجات مقبول‘‘ کہلاتے ہیں اور بہترین وقت تہجد کا وقت ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ تہجد کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ جل شانہٗ کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا؟ ہے کوئی پریشانی میں مبتلا؟ کہ اس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی حاجت والا؟ کہ اس کی حاجت پوری کروں اور یہ مسلسل اعلان ہورہا ہوتا ہے یہاں تک کہ فجر کی اذان کا وقت ہوجاتا ہے (بخاری: 1145) یعنی صبح صادق ہوجاتی ہے۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے، اس لئے بہترین وقت مناجات کے لئے تہجد کا وقت ہے۔ لیکن کبھی کبھی کیفیات ایسی آجاتی ہیں (اور وہ اللہ پاک کی مرضی سے ہوتی ہیں) کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی ایسے اوقات اپنے بندے پر بھیج دیتے ہیں کہ بے شک وہ اس وقت چل رہا ہو یا بیٹھا ہوا ہو یا لیٹا ہوا ہو لیکن وہ کیفیت اس کو ایسی محسوس ہوجاتی ہے کہ جیسے بس وہ اللہ کے سامنے ہے اور اللہ پاک سے وہ مانگ رہا ہے، ایسی کیفیات بڑی قیمتی ہوتی ہیں، اس لئے ان اوقات کو ضائع نہ کیا جائے بلکہ اس وقت اللہ تعالیٰ سے خوب دل کھول کر مانگنا چاہئے اور اس میں ہرگز نہیں تھکنا چاہئے، کیونکہ یہ بڑے قیمتی لمحات ہوتے ہیں اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہوتے ہیں۔ انسان جب اپنی دعاؤں میں روتا ہے تو یہ رونا دو قسم کا ہوتا ہے، ایک گرم آنسو والا، ایک ٹھنڈے آنسو والا، آپ نے کبھی غور کیا ہے؟ آپ نے کبھی غور نہیں کیا ہوگا۔ خیر گرم آنسو بھی ہوتے ہیں اور ٹھنڈے آنسو بھی ہوتے ہیں، گرم آنسوؤں میں انسان کی اپنی effort قلبی involve ہوتی ہے، یعنی جو انسان کوشش کر کے روتا ہے، یہ گرم آنسو ہوتے ہیں اور جو ٹھنڈے آنسو ہوتے ہیں وہ اللہ کی طرف سے gifted ہوتے ہیں، یعنی اس کے لئے اس نے کوئی effort نہیں کی لیکن وہ اترنا شروع ہوگئے تو یہ بڑے قیمتی آنسو ہوتے ہیں، اس وقت اللہ پاک سے خوب مانگنا چاہئے۔ اس لئے جو مناجات کا وقت ہے، ایک تو یہ اختیاری ہے یعنی تہجد کا وقت یہ بہترین وقت ہے اور ہر نماز کے بعد بھی وقت ہوتا ہے، کیونکہ نماز کے بعد بھی دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، ایسے ہی قرآن پاک کے ختم کے بعد، درود شریف کے بعد، یعنی یہ دعا کی قبولیت کے مختلف ذرائع ہیں اور تہجد کا وقت بذات خود بہت بڑی نعمت ہے، ایسے ہی افطاری کے وقت کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں، جمعہ کے دن جو آخری وقت ہوتا ہے یہ بھی قیمتی اوقات میں سے ہے، اس لئے اس میں انسان خوب مناجات کرے اور اگر غیر اختیاری طور پر کوئی وقت مل جائے تو پھر اس کو کیش کرائیں۔
سوال نمبر 8:
سر! لوگ Different type کے ہوتے ہیں، ایک ہوتا ہے جو naturally ذرا محبت کی طرف inclinde ہوتا ہے اور ایک ذرا ڈر کی طرف inclinde ہوتا ہے۔ اب اگر میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کیونکہ ہر جگہ پر (جس جگہ پر بھی میں پڑھتا ہوں) یہ لکھا گیا ہے کہ اللہ سے ڈرنا چاہئے، لیکن اس feeling کو جو چیز overcome کرتی ہے وہ زیادہ محبت والی side ہے کہ جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ Side as compared to جلال والی side زیادہ مؤثر نظر آتی ہے، اس لئے مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ اس میں کس طریقے سے سوچنا چاہئے یا کیا feel کرنا چاہئے؟
جواب:
یہ phases ہیں۔ اپنے آپ کو اعمال پر لانے کے لئے ترغیب اور ترہیب دونوں چیزیں چل رہی ہوتی ہیں۔ جیسے آپ کسی فیکٹری کے ملازمین کو convince کرتے ہیں تو اس کے دو طریقے ہوتے ہیں، ڈرانا بھی ہوتا ہے اور آپ ان کو کچھ چیزوں پر motivate بھی کرتے ہیں، یعنی ترغیب و ترہیب دونوں چلتی ہیں۔ ایسے ہی نفس کے لئے بھی ترغیب و ترہیب کے سلسلے چلتے رہتے ہیں، کسی کے لئے ڈر والی بات زیادہ اہم ہوتی ہے، جبکہ کسی کے لئے محبت والی بات یعنی ترغیب والی بات بہت اہم ہوتی ہے۔ لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ نوجوانوں کے لئے ڈر والا طریقہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ وہ ڈر کو برداشت بھی کرسکتے ہیں اور موقع بھی ان کے پاس ہوتا ہے، البتہ جو بوڑھے ہوتے ہیں ان کے لئے محبت والی بات زیادہ بہتر ہوتی ہے کیونکہ وہ ڈر کو برداشت ہی نہیں کرسکتے، وہ اس سٹیج پر ہوتے ہیں کہ ان کو امید دلانے والی بات زیادہ یاد کرانی چاہئے، اس طریقے سے وہ راہِ راست پر آجاتے ہیں۔ لیکن ایک بات میں عرض کرتا ہوں کہ محبت کے الوان مختلف ہوتے ہیں، جو ڈر محبت سے آجائے وہ سب سے بڑا ڈر ہے اور وہ ڈر یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اوپر یہ حالت طاری ہوجاتی ہے کہ کہیں میرا محبوب مجھ سے خفا نہ ہوجائے، اس کا ایک ایک پل پھر ایسے گزرتا ہے جیسے وہ پھانسی کے اوپر کھڑا ہے، یعنی اس کا ایک ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے کہ کہیں میرا محبوب ناراض نہ ہوجائے۔ ایسے لوگ پھر تھر تھر کانپ رہے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جو ڈر ہوتا ہے وہ سانپ اور شیر سے ڈرنے کی طرح نہیں ہوتا اور ان کا ڈر جو ہوتا ہے وہ اپنے لئے بھی نہیں ہوتا بلکہ ان کا ڈر محبوب کی جو عظمت اور جو محبت ان کے دل میں ہے اس کی وجہ سے ہوتا ہے، پھر وہ بات بالکل مختلف ہوجاتی ہے۔ لہٰذا جو ڈر محبت کی وجہ سے پیدا ہوجائے تو وہ بہت زیادہ رسوخ والا بھی ہے اور اعمال کے لحاظ سے دل کے اندر اثر کرنے والا بھی ہے اور اللہ پاک کے ہاں بھی بہت پسندیدہ ہے۔ اور جس کو ہم تقویٰ کہتے ہیں وہ تقریباً یہی کیفیت ہوتی ہے، جس میں انسان اللہ پاک کی ناراضگی سے ڈرتا ہے، جیسے میں نے اس وقت تعریف کی تھی کہ اللہ پاک کی ناراضگی سے ڈرتا ہے اور وہ محبت کے پیرائے میں ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کو ذرہ بھر بھی ناراض نہیں کرسکتے بلکہ وہ ناراض کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک مجذوب تھے۔ (مجذوبوں کا معاملہ ذرا مختلف ہوتا ہے کیونکہ وہ direct باتیں کرتے ہیں) کسی نے ان سے کہا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ کو آپ دیکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کمال ہے! مجھ سے تو ایک لمحہ بھی اگر وہ چھپ جائے تو میں زندہ نہیں رہ سکوں گا۔ کیونکہ جن کو اللہ کے ساتھ محبت ہوتی ہے وہ ہر حال میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، اور پھر اس وجہ سے انہوں ڈر بھی ہوتا ہے۔
سوال نمبر 9:
سر آپ کی ویب سائٹ میں Frequently asked questions تھے، ان میں سے ایک چیز میں نے Spiritual teacher کے بارے میں پڑھی تھی، اس میں آپ نے لکھا تھا کہ ہر teacher کا جو بھی student ہوتا ہے وہ اس کی سوچ کو analyze کرکے اس کے بعد اس چیز کا جو بھی impurities ہوتا ہے، تو وہ ان کو ختم کرنے لئے ان کے different طریقے استعمال کرتے ہیں تو کیا یہ Principle ہے؟
It stands valid for the Prophet (peace be upon him) and his disciples
یعنی صحابہ کرام بھی تو Varried personalities تھیں اور رسولِ پاک ان کے Spiritual teacher تھے، تو اگر آپ ﷺ ہر صحابی کو ایک different لیول کے مطابق ایک چیز بتاتے تھے، تو? What does that mean کہ حدیث سے جو باتیں ہمارے تک پہنچی ہیں کہ ہر ایک صحابی کے لئے Different level کے مطابق وہ باتیں کی گئی ہیں، اب ہمیں جو لیول understand کرنا ہے، وہ کس لحاظ سے کرنا ہے؟
جواب:
یہاں پر میں دو چیزیں corelate کرنا چاہوں گا۔ ایک بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کا مقام یہ ہے کہ صحابہ کرام کو اللہ جل شانہٗ نے ایک پوری امت بنا کر مبعوث فرمایا ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ ایک ذاتِ واحد تھے، آپ ﷺ ایک جامع ترین ہستی تھی، لیکن لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا تھا کہ آپ ﷺ تو شہری ہیں اور ہم دیہاتی ہیں، آپ ﷺ تو بڑے اونچے خاندان کے ہیں اور ہم غلام ہیں، آپ ﷺ تو ایسے ہیں اور ہم ایسے نہیں ہیں، آپ ﷺ تو مرد ہیں جبکہ ہم تو عورتیں ہیں، یعنی لوگ مختلف questions کرسکتے تھے، تو اللہ جل شانہٗ نے صحابہ کرام کی قوم کو مبعوث فرمایا کیونکہ ان کے مختلف حالات تھے، یعنی کوئی دیہاتی ہے، کوئی شہری ہے، کوئی بہت تیز ہے، کوئی بہت سادہ ہے، کوئی عالم ہے، کوئی کم جاننے والا ہے، تقریباً ہر variety کا آپ کو صحابی مل جائے گا۔ اب ایک طرف تو یہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ ﷺ سے اپنے اپنے طریقے سے لے لیا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دل نے دل سے لیا۔ مثال کے طور پر مختلف رنگ کے آئینے پڑیں ہیں اور ایک لائٹ درمیان میں پڑی ہو اور وہ آئینے اس کے سامنے ہوں تو ہر آئینہ اپنے اپنے رنگ سے چمکے گا، یعنی لائٹ تو ایک ہے لیکن اس ایک لائٹ سے ہر آئینہ اپنے اپنے رنگ کے مطابق چمک رہا ہے۔ اب یہاں پر ایک بات تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کے قلبِ اطہر سے صحابہ کرام کے قلوب نے جو لے لیا، جس سے ان کی زندگی میں انقلاب آگیا اور وہ انقلاب اپنے اپنے رخ پر آیا، جیسے کہ ان کے حالات تھے، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنا رنگ آیا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنا رنگ آیا، اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنا رنگ آیا، حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں اپنا رنگ آیا، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنا رنگ آیا، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اپنا رنگ آیا یعنی ہر ایک میں اپنے اپنے انقلاب کا رنگ آگیا اور وہ ان متعلقہ لوگوں کے لئے رہنما بن گئے، جن کے لئے وہ تھے یعنی variety کے لحاظ سے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے جن کی سپیشلی تربیت فرمائی ہے اور جو صحابہ کرام کو مختلف طریقوں سے handle کیا ہے، یہ مشائخ کے لئے ہے کہ تربیت کے طریقے ہر ایک کے لئے مختلف ہوتے ہیں، سب کے لئے ایک جیسا طریقہ نہیں ہے، یعنی یہ ایک لاٹھی والی بات نہیں ہے بلکہ ہر ایک کے ساتھ different معاملہ ہوگا، لہٰذا یہ طریقہ مشائخ کے لئے ہے۔ لیکن آپ ﷺ کے قلب سے جو فیض لینا تھا وہ اتنا زیادہ واضح اور بین ہے کہ اس میں باقی تمام چیزیں نسبتاً چھپ جاتی ہیں، اس لئے آج کل مشائخ مختلف طریقے بتاتے ہیں، یعنی نو (9) طریقے بتاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ کے زمانے کا بُعد ہے۔ مثلاً ابھی تھوڑی دیر پہلے میں ایک کتاب اپنے ساتھی کو دکھا رہا تھا، جس میں لکھا تھا کہ جب آفتاب چمک رہا ہوتا ہے تو لوگ اس میں آسانی سے کتاب پڑھ لیتے ہیں اور اس میں کوئی مشکل نہیں ہوتی، لیکن جب آفتاب غروب ہوجائے تو تھوڑی دیر تو اس کی روشنی ہوتی ہے، پھر جب اس کی روشنی ختم ہوجاتی ہے تو لائٹ جلانی پڑتی ہے، کوئی بلب، کوئی شمع، الغرض جو بھی جس موقع کے مطابق ہو وہ جلانی پڑتی ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی کی آنکھ اگر کام نہیں کرتی تو عینک بھی لگانی پڑتی ہے۔ یعنی It depends upon the need کہ اس وقت کون سی چیز کی ضرورت ہے اور یہ ضرورت پر منحصر ہے۔ ایسے ہی آپ ﷺ کی موجودگی میں صحابہ کرام میں اس لائٹ سے ہی بہت بڑا انقلاب آجاتا تھا اور ان کو بہت ساری باتیں نہیں بتانی پڑتی تھیں، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ تھوڑے تھوڑے سوالات کیا کرو۔ لیکن جب صحابہ کرام کا دور گزر گیا اور تابعین کا دور آیا تو پتا چلا کہ وہ لائٹ کم ہوگئی ہے، اب مزید لائٹیں جلانی پڑیں گی تو اس کے لئے پھر مختلف قسم کے قیودات کی بھی ضرورت پڑ گئی، جیسے ذکر خاص طریقے سے کرنا اور زور لگا کے کرنا تاکہ وہ چیزیں آجائیں۔ پھر اس زمانے کے بعد لائٹ اور کم ہوگئی تو اور مسائل پیدا ہوگئے، لوگوں میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی تو پھر اس کے لئے Correction factors بھی آگئے۔ لہٰذا یہ دوسرا طریقہ حسبِ ضرورت ہے، کیونکہ صحابہ کرام کی جو زندگی ہے وہ آپ ﷺ کے قلب کی روشنی کو مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے پہنچانے کا ایک sample ہے۔
سوال نمبر 10:
حضرت! ہوسکتا ہے کہ یہ سوال تصوّف سے اتنا related نہ ہو، لیکن جو اعمال ہیں اور ان سے related جو senser ہے، جیسے آج کے دور میں unfortunately فرقے وغیرہ اتنے بن گئے ہیں کہ جس طرح آپ نے کہا کہ سعودی عرب میں وہ بعض چیزوں کو allow نہیں کرتے، جیسے کعبہ کی respect وغیرہ اور جو بھی ان کا حساب کتاب ہے، تو specifically اس چیز کو promote کرنے کے لئے صرف Mechanical actions کی importance ہے، اس میں ہم کیا کریں؟ کیونکہ تصوّف تو ہے ہی Total sesnser۔
جواب:
اصل میں دونوں ہیں۔ Spiritual sense اس کا دل والا ہے اور جبر کرکے action کروانا یہ اس کا نفس والا ہے، اور دونوں چیزیں ضروری ہیں، جیسے میں نے پہلے عرض کیا۔ اور وہاں دل والا factor چونکہ بہت زیادہ کم ہوگیا ہے، اس وجہ سے یہ چیزیں تقریباً سمجھ سے ہی باہر ہوگئیں ہیں، جس کو آپ essence کہتے ہیں۔ اب اگر ان کو کوئی سمجھانا بھی چاہتا ہے تو نہیں سمجھ سکتے، وہ شاید ان چیزوں کو اب فضول کہنے لگے ہیں کہ اس کی تو value ہی نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ ہے کہ جیسے تکبر کا اگر آپ کو علم ہوگیا تو بس تکبر نکل گیا، حالانکہ تکبر کے علم ہونے سے تکبر نہیں نکلتا، جیسے صبر کا علم ہونے سے صبر نہیں آتا، شکر کا علم ہونے سے شکر نہیں آتا، بلکہ یہ وہ چیزیں ہیں جو practically حاصل کرنی ہوتی ہیں، اور تصوّف ان چیزوں کو practically حاصل کرنے ہی کا نام ہے۔ لیکن وہ شاید سمجھتے ہیں کہ بس جب ہمیں پتا چل گیا تو یہ کافی ہے، اب ہم اس پر عمل کریں، لیکن جب عمل نہیں ہوتا تو پھر وہ اپنے لئے کچھ آسانیاں ڈھونڈ لیتے ہیں، کہتے ہیں بس اس طرح ہے یعنی وہ چیزوں کو change کر لیتے ہیں۔ اور یہود میں بھی اسی طرح مسئلہ گڑبڑ ہوگیا تھا وہ بھی دین کو change کرنے لگے تھے کیونکہ ان کا نفس ان پر غالب ہوگیا۔ جب شریعت ان سے کسی عمل کی demand کرتی تو وہ کہتے نہیں فلاں بھی تو اس طرح کرتا تھا، فلاں بھی تو اس طرح کرتا تھا، یہاں سے variation start ہوگئی تھی۔ لہٰذا یہ ساری چیزیں ان چیزوں کو نہ جاننے کی وجہ سے اور نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
سوال نمبر 11:
حضرت! ego کے بارے میں پوچھنا تھا کہ یہ کیا ہے؟ اور اس کے consequences کیا ہیں؟ اور اس کو ختم کرنے کے لئے بندہ کیا کر سکتا ہے؟ جواب:
میرا خیال ہے ego سے آپ کی مراد انانیت ہے اور self ہے۔ ego سے انسان خدا سے بالکل ہی Opposite extreme پر ہوجاتا ہے، کیونکہ جو انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے تو وہ اتنا اللہ سے غافل ہے، اور جتنا اس کو اپنے بارے میں کمزوری کا خیال آئے کہ میں کمزور ہوں اور مجھے کس چیز کی ضرورت ہے، تو اتنا ہی وہ اللہ کو پہچانے گا۔ جیسے فرمایا: ’’فَمَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ‘‘ کہ جس نے اپنے آپ کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا۔ یعنی اس نے اپنی کمزوری کو پہچانا، یہ نہیں کہ اپنی ego کو پہچانا، یہاں لوگ الٹا سمجھتے ہیں۔ یعنی جس نے اپنی کمزوری کو پہچانا کہ میں کتنا کمزور ہوں تو اس نے اپنے رب کو پہچان لیا، کیونکہ اس کو اپنے رب کی ضرورت ہوگئی ہے۔ مثلاً جس چیز کی مجھے ضرورت نہیں ہوتی، جیسے یہ عینک ہے اگر مجھے اس کی ضرورت نہ پڑے تو میں اسے بھول جاؤں گا، یہ رومال ہے اگر اس کی مجھے ضرورت نہ پڑے تو میں رومال بھول جاؤں گا، ایسے ہی قلم کی جس وقت مجھے ضرورت پڑے گی اس وقت مجھے یاد آئے گا کہ قلم کدھر گیا، وہ تو فلاں جگہ رہ گیا، جلدی سے گاڑی موڑو فلاں جگہ قلم رہ گیا ہے، جاکر اسے واپس لاتے ہیں۔ پس یہی طریقہ ہے کہ اگر ایک انسان اپنی کمزوریوں کو یاد رکھے گا تو اسے اللہ پاک کی ضرورت کا احساس ہوگا، وہ اللہ پاک کی مدد کا اپنے آپ کو محتاج سمجھے گا۔ لہٰذا وہ ہولی سولی پھر اللہ کا بنتا جائے گا۔ اللہ کا بننا بقا ہے اور اپنے نفس کی کمزویوں کو دیکھنا اور اپنے نفس کو کچھ نہ سمجھنا یہ فنا ہے۔ مثلاً میں ego کے against جارہا ہوں یعنی اسے کم کر رہا ہوں، پہلے ٪100 ego تھا اب ٪80 رہ گیا تو ٪20 فنا ہوگیا، پھر جب ٪60 ego رہ گیا تو میں ٪40 فنا ہوگیا، لیکن ٪40 باقی ہوگیا کہ وہ اس طرف چلا گیا اور اللہ کا ہوگیا جب ٪60 فنا ہوگیا تو اب ٪60 باقی ہوگیا، ٪80 فنا ہوگیا تو ٪80 باقی ہوگیا ٪100 فنا ہوگیا تو ٪100 باقی ہوگیا، یہ ہے تصوّف کی بات یعنی تصوّف یہی چیز انسان میں لاتا ہے۔
یعنی فنا کا concept یہی چیز ہے کہ اپنے آپ کو وہ dison کرتا ہے اور اس میں بندگی کا concept آتا رہتا ہے، اور (نعوذ باللہ من ذلک) خدائی والا جو concept ہے کہ میں سب کچھ کرسکتا ہوں وہ ختم ہوتا جاتا ہے اور بندگی کا concept آتا جاتا ہے۔ اگرچہ اپنے آپ کو کوئی خدا نہیں کہتا، لیکن عملی طور پر اس طرح کرتا ہے کہ جیسے میں سب کچھ کرسکتا ہوں، تو یہ چیز ختم ہوتی جاتی ہے اور ٹوٹتی جاتی ہے۔ وہ جیسے ٹوٹتی جاتی ہے تو اُدھر یہ بنتا جاتا ہے۔ جیسے ایک خاتون کو میں نے سجدے کا مراقبہ دیا تھا (یہ ایک مراقبہ ہمارے ہاں ہے جو بعد میں آتا ہے، جس میں یہ تصوّر کیا جاتا ہے کہ میرے جسم کا ذرہ ذرہ اللہ کے سامنے سجدے میں ہے) یہ مراقبہ جب میں نے اسے دیا تو اس نے اس مراقبہ کی حالت میں دیکھا کہ میں ختم ہو رہی ہوں حتیٰ کہ میرا weight بھی ختم ہو رہا ہے کیونکہ اس میں عجیب و غریب واقعات ہوتے ہیں اور اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں، تو گویا کہ وہ بھی weightless ہو رہی ہے۔ کہتی ہیں جیسے جیسے میں ختم ہو رہی ہوں ویسے ویسے میں اپنے طور پر کوئی نئی چیز بنتی جا رہی ہوں، یعنی میں ہوں یہی، لیکن کوئی نئی چیز ہوتی ہے، میں وہ بنتی جا رہی ہوں۔ کہتی ہیں مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیا چیز ہے کہ میں ختم بھی ہو رہی ہوں اور بنتی بھی جا رہی ہوں، یہ کیا مسئلہ ہے؟ اس کو تردد سا ہوگیا کہ میں یہ شاید کوئی غلط کررہی ہوں۔ اس نے مجھے جب فون کیا تو میں نے کہا کہ بالکل تمہارا concept clear ہے، کیونکہ تمہیں اللہ پاک دکھا رہا ہے کہ جتنی تم فنا ہو رہی ہو اتنی بقا تمہیں حاصل ہو رہی ہے اور ایسے ہی ہوتا ہے، جیسے simultenously ہوتا ہے، یعنی جتنا انسان فنا ہوتا ہے اتنا باقی ہوتا جاتا ہے، تو یہ آپ کو اللہ تعالیٰ دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا انسان اپنی کمزوریوں کو جیسے جیسے دیکھے گا ویسے ویسے اللہ کو پہچانے گا۔ جیسے شیطان میں ego تھا اس لئے اس نے کہا، فرمانِ الٰہی ہے:
﴿خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَارِِ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنِِ﴾ (الأعراف: 12)
ترجمہ: ’’تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اور اس کو مٹی سے پیدا کیا‘‘۔
اور آدم علیہ السلام میں فنا تھا، اس لئے انہوں نے کہا:
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الأعراف: 23)
ترجمہ: ’’دونوں بول اٹھے کہ: اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔
یہاں پر دیکھیں کہ ایک طرف نبوت ہے اور دوسری طرف شیطانیت ہے، تو ego شیطانیت ہے اور شیطان کی طرف جانے والی بات ہے۔ اور جتنی کسی میں یہ چیز ہوتی ہے تو وہ اتنا غافل ہوتا ہے یعنی وہ اللہ پاک کو نہیں پہچان سکتا، اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اس کو حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور تصوّف میں جو معرفت الٰہیہ حاصل ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو lose کرنے سے حاصل ہوتی ہے، اس میں اپنے آپ کو lose کیا جاتا ہے، ورنہ آدمی تو ’’اَنَا وَلَا غَیْرِیْ‘‘ کا نعرہ لگاتا ہے کہ بس میں ہوں اور باقی کوئی نہیں ہے۔ کسی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کہا کہ آپ نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟ حضرت چونکہ بہت جہاندیدہ بزرگ تھے، اس لئے فرمایا کہ کیوں نہیں جانتا، میں آپ کو جانتا ہوں، تم پہلے گندگی کا قطرہ تھے، اب گندگی کے ڈھول ہو، پھر گندگی کے ڈھیر ہوگے، یعنی ماضی، حال، مستقبل تینوں بتا دیئے کہ ماضی میں گندگی کے قطرے تھے کیونکہ اسی سے آدمی بنا ہے، اور اب گندگی کے ڈھول ہو کہ ہمارے جسم کے اندر جو بھی ہے وہ گندہ ہے، جو باہر آتا ہے وہ گندہ ہے حتیٰ کہ جو سب سے زیادہ پاک چیز باہر آنے والی ہے وہ تھوک ہے، لیکن اپنی تھوک کو بھی کوئی نہیں چاٹتا، جب خود کی تھوک نہیں چاٹتا تو دوسرے کی کیا چاٹے گا۔ گویا گندگی کو انسان feel کرتا ہے۔ اور فرمایا کہ پھر اس کے بعد گندگی کے ڈھیر ہوگے یعنی قبر میں۔ اس وجہ سے اگر انسان کے اندر یہ چیز آجائے تو انسان اپنے آپ کو understand کرتا ہے اور پھر اللہ پاک کو بھی understand کر لیتا ہے۔ بس یہی صورتحال ہوتی ہے۔
سوال نمبر 12:
حضرت! مجھے بدگمانی بہت جلدی ہوجاتی ہے اور اس بدگمانی کا مجھے احساس بھی ہوجاتا ہے کہ یہ میں غلط کر رہی ہوں، لیکن بہرحال بدگمانی جلدی ہوتی ہے، تو اس کے بارے رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
شریعت کا حکم ہے کہ ’’ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا‘‘ کہ مومنین کے ساتھ اچھا گمان رکھو۔ اس لئے بدگمانی سے بچنا ضروری ہے۔ ایک ہوتا ہے یقین اور ایک ہوتا ہے گمان، یقین کا معاملہ تو یہ ہے کہ جیسے آپ کو ایک چیز نظر آرہی ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے نظر آرہی ہے، لیکن اس کے بارے میں بھی احکامات ہیں کہ اِس چیز کو برا سمجھا جائے اور اُس کو برا نہ سمجھا جائے یعنی اس صورت میں بھی یہ بات ہے جبکہ آپ کو یقین ہے اور آپ کو نظر آرہا ہے۔ مثلاً ایک آدمی آپ کے سامنے جھوٹ بول رہا ہے، اس جھوٹ بولنے کو تو آپ غلط سمجھیں کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَی الْكٰذِبِیْنَ﴾ (آل عمران: 61)
ترجمہ: ’’اور جو جھوٹے ہوں ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔
لیکن آپ گناہ گار کو برا نہ سمجھیں، کیوںکہ عین ممکن ہے کہ اللہ پاک اس کو توبہ کی توفیق دے اور آپ کے ساتھ کچھ ایسا مسئلہ ہوجائے اور آپ اس سے بھی زیادہ خراب ہوجائیں۔ اس وجہ سے آخری وقت یعنی مآل کے لحاظ سے سوچ کر اس کو اچھا سمجھیں اور اپنے آپ کو برا سمجھیں۔ دوسری بات جو گمان والی ہے، جس میں confirm بھی نہیں ہے بلکہ صرف خیال ہے اور خیال میں دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں کہ ٹھیک ہو اور ٹھیک نہ ہو۔ لہٰذا اُس صورت میں اس سے بھی زیادہ یعنی Superlative degree میں بات آجائے گی کہ ہم اس کے اوپر rely نہ کریں اور کہہ دیں کہ عین ممکن ہے کہ ایسا نہ ہو، بلکہ ممکن ہے کہ اس کے پاس کوئی عذر ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ میری سمجھ صحیح نہ ہو۔ ان تمام احتمالات کو سامنے لا کر اس کے بارے میں انسان غلط بات نہ سوچے اور اس میں کہہ دے کہ میں کیوں اپنے آپ کو بدگمانی کی وجہ سے خراب کروں، بلکہ اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے، میں اپنے آپ کو اس میں نہیں involve کرنا چاہتا۔ اس طریقے سے انسان اپنے آپ کو بدگمانی سے بچا سکتا ہے، جیسے کہتے ہیں کہ بولنے سے پہلے سوچو، اسی طرح کسی کے بارے میں خیال بنانے سے پہلے اور خیال کو ذہن میں واضح کرنے سے پہلے انسان اس چیز کو سوچے کہ اللہ پاک کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے، جب یہ سوچ آئے گی تو اللہ جل شانہٗ اس چیز کو دفع فرما دیں گے۔ اور اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بھی پڑھ لیا کرے، کیونکہ یہ شیطانی وسوسہ ہے اس لئے اس کو رفع کرنے کے لئے یہ پڑھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر 13:
حضرت! ایک اور چیز جو آپ کی ویپ سائٹ پر mention کی ہوئی ہے، undelivered مجاہدہ، undeliver مجاہدہ۔ undelivered یعنی غیر اختیاری مجاہدہ اس کے بارے میں پوچھنا تھا کہ اگر کسی بندے کو اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے امتحان میں ڈالا ہو، اب یہ امتحان چونکہ اس کا personal مجاہدہ ہے، اس لئے نہ کوئی دوسرا بندہ اسے سمجھ سکتا ہے اور نہ وہ کسی بندے کو سمجھا سکتا ہے، کیونکہ وہ اس کا صرف ایک Personal and unique مجاہدہ ہے۔ تو کیا وہ (جس کا مجاہدہ ہے) اسے اپنے شیخ کے through یا کسی دعا کے through یا اس process کے through یعنی بیعت کر کے یا حساب کتاب کر کے اس سے نکل سکتا ہے؟ یا اسے soul کی کوئی impurity consider کی جائے، یعنی جو بندے کا شیخ ہوگا کہ جس کی اس نے بیعت کی ہوگی۔ تو اس کی کس چیز کے ساتھ dealing کی جائے گی؟
جواب:
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ لیکن اس کے کئی roots ہیں، یعنی اس کا جواب اتنا simple نہیں ہے۔ کیونکہ غیر اختیاری مجاہدہ اللہ پاک کی تشکیل ہے، اللہ جل شانہٗ جس کے لئے جو بھیجنا چاہتا ہے بھیج دیتا ہے، اسی لئے اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک دن کا غیر اختیاری مجاہدے کا اجر برسوں کے اختیاری مجاہدات سے زیادہ ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اختیاری مجاہدات میں انوارات زیادہ ہوتے ہیں اور غیر اختیاری مجاہدات میں انسان کے اندر capability بڑھتی ہے اور صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔ لہٰذا اگر کسی پر غیر اختیاری مجاہدہ آجائے، تو اس کو اللہ کی طرف سے سمجھ کر اس پر صبر کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو اختیاری صورتیں اس غیر اختیاری مجاہدہ کو کم کرنے کی ہیں ان کو ضرور اختیار کرے۔ مثلاً بیماری آگئی تو علاج شروع کر لے، مقدمہ آگیا تو اس سے نکلنے کی صورتیں بنائے، یعنی مشورہ کرے یا جو بھی طریقہ اس سے نکلنے کا ہو وہ اختیار کرے، اس سے منع نہیں ہے، لیکن اگر پھر بھی ختم نہ ہو تو پھر وہ غیر اختیاری مجاہدہ ہے، یعنی پھر اس پر عمل کرنے کی بات ہے۔ اور اختیاری طور پر اس سے بچنے کے راستے شریعت کے اندر رہتے ہوئے آپ اختیار کرسکتے ہیں، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ باقی یہ کہ یہ ہوتا کیوں ہے؟ یہ بتا دیتا ہوں۔ فرمایا: اس قسم کے جو حالات پیش آتے ہیں اور جو مصیبت آتی ہے اس کی تین وجوہات ہیں، یا تو وہ سزا ہوتی ہے کہ کوئی غلط کام اس سے ہوچکا ہوتا ہے جس کی اسے سزا ملتی ہے، یا پھر اس مصیبت کی وجہ سے اس کے گناہ معاف کرائے جاتے ہیں، یا پھر اللہ تعالیٰ کو اس کے درجات بڑھانا مقصود ہوتا ہے۔ لیکن اب یہ پتا کیسے چلے گا کہ تین اقسام میں سے یہ کون سی قسم ہے، اس کے لئے فرمایا کہ دیکھو اگر یہ شخص اس مصیبت کے ساتھ اول فول بھی بک رہا ہے یعنی بجائے صبر کرنے کے اول فول بک رہا ہے کہ میں ہی اس کے لئے نظر آرہا ہوں، کسی اور پر یہ کیوں نہیں آئی۔ تو سمجھو کہ یہ سزا ہے، کیونکہ اس اول فول کی وجہ سے اس کے گناہ تو ابھی معاف نہیں ہو رہے، اس لئے یہ سزا ہی ہے۔ اور اگر وہ صبر کر رہا ہے اور زبان سے کچھ نہیں کہہ رہا تو یہ اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ اور اگر وہ شکر کر رہا ہے کہ یا اللہ! میں تو اس سے بھی زیادہ کا قابل تھا، لیکن تو نے میرے ساتھ آسانی کا معاملہ کیا ہے، تو یہ اس کے رفعِ درجات کا ذریعہ ہے۔ جیسے ایک دفعہ ایک بزرگ اپنے مریدوں کے ساتھ جا رہے تھے کہ راستے میں ایک عورت گند پھینک رہی تھی، اس بیچاری کو نہیں پتا تھا کہ کون جا رہا ہے، اگرچہ غلطی تو اس کی تھی کہ اس طرح بغیر دیکھے نہیں پھینکنا چاہئے تھا، یہ ایک شرعی مسئلہ ہے۔ بہرحال اس سے یہ غلطی ہوئی اور اس نے ٹوکرا پھینکا اور سارا گند اس بزرگ کے اوپر آگیا، یہ حضرات چونکہ جمعہ کی نماز کے لئے جا رہے تھے، اور صاف کپڑے پہنے ہوئے اور نہائے ہوئے تھے۔ لہٰذا یہ بزرگ گند میں لت پت ہوگئے، اس پر مریدوں کا تو برا حال ہوگیا، قریب تھا کہ اس گھر پر حملہ کردیں، یہ بزرگ فوراً کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ بھائی! کچھ کرنے سے پہلے میری بات سنو، مجھے بتاؤ کہ جس کے اعمال ایسے ہوں کہ اس پر پتھر برسنے چاہئیں لیکن پتھر کی بجائے اس پر یہ گند ڈالا جائے، جس کے ذریعے سے اس سے درگزر والا معاملہ کیا جائے تو کیا یہ اس کے لئے بہتر ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم تو وہ لوگ ہیں کہ ہمارے اوپر پتھر برسنے چاہئیں لیکن ہمیں پتھروں کی بجائے یہ چیز دی گئی ہے۔ اور یہ تکلیف تو دور ہوجائے گی کہ ہم نہائیں گے اور صاف کپڑے پہنیں گے تو پھر ایسے ہی ہوجائیں گے، لیکن ہم اس سے زیادہ کے اہل تھے۔ لہٰذا جن حضرات پر مجاہدہ آتا ہے اور وہ اس شق کو سامنے رکھتے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ پاک نے ان کے درجات بڑھانے ہیں۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جتنی تکلیف مجھے دی گئی ہے اتنی دنیا میں شاید کسی کو نہیں دی گئی۔ (ترمذی، حدیث نمبر: 2472)۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ تکالیف انبیاء پر ہوا کرتی ہیں، پھر ان پر جو ان سے قریب ہوتے ہیں، پھر ان پر جو ان سے قریب ہوتے ہیں، آدمی کو اس کے دین کے مطابق آزمایا جاتا ہے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 1481) اور آپ ﷺ کو جو تکلیف دی گئی ہے یقیناً یہ گناہوں کی وجہ سے نہیں ہے، نہ ہی سزا کے طور پر ہے، بلکہ یہ رفعِ درجات کے لئے ہے۔ لہٰذا نیک لوگوں کے اوپر جو مصائب آتے ہیں، تکالیف آتی ہیں وہ ان کے درجات کو بلند کرنے کے لئے ہوتی ہیں، اور جو عام لوگوں کے اوپر مصائب آتے ہیں وہ ان کے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے ہوتے ہیں اور جو شیطان اور شیطانوں کے ساتھیوں پر آتے ہیں وہ سزا کے طور پر آتے ہیں۔
سوال نمبر 14:
حضرت! جب بھی کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتا ہوں، لیکن توبہ دل کی کیفیت سے نہیں ہوتی، صرف توبہ کے الفاظ ہی ہوتے ہیں۔ کیا ایسی توبہ قبول ہوگی؟ اور دل کی کیفیت کیسے حاصل کی جائے کہ دل حقیقت میں نادم ہو۔ نیز توبہ کے آداب بھی بیان کردیجئے۔
جواب:
سبحان اللہ! بڑا اچھا سوال ہے۔ آپ یہ تو بہت اچھا کرتے ہیں کہ اگر کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتے ہیں، اس توبہ پر شکر کر لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے کم از کم ڈھیٹ گناہگار نہیں بنایا، یہ بھی بہت بڑی بات ہے، اس لئے اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہئے کہ آپ توبہ کرتے ہیں۔ اور صرف الفاظ سے توبہ کرنا، یہ بھی توبہ نہ کرنے سے بہتر ہے، کیونکہ عین ممکن ہے کہ اللہ پاک ان الفاظ ہی کو قبول فرما لے اور اس کے ساتھ پھر حقیقت بھی شامل فرما دے۔ البتہ کوشش جاری رکھنی چاہئے کہ الفاظ کے ساتھ دل کی کیفیت بھی حاصل ہوجائے۔ اور اسی کے لئے تصوّف کی ساری تعلیم ہے یعنی ذکر پر مداومت، اپنے شیخ کے ساتھ رابطہ، یہی چیز اس کا طریقۂ کار ہے کہ اگر انسان اس پر عمل کرتا رہے یعنی شیخ کے ساتھ تعلق ہو اور معمولات پر استقامت ہو تو ان شاء اللہ العزیز اللہ تعالیٰ اس کی کیفیت بھی نصیب فرما دیں گے۔ اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے۔
سوال نمبر 15:
حضرت! اگر کسی کو کبھی یہ بات محسوس ہوجائے کہ مخلوق کی عظمت کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کم سمجھ رہا ہے تو اس میں کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا جب ذکر کریں تو ’’لَا اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ مخلوق کی عظمت کو دل سے نکال لیا کریں اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کو لایا کریں، یہ ذکر اسی لئے کرایا جاتا ہے۔
ابھی چونکہ توبہ کی بات ہوئی ہے، اس لئے توبہ کے بارے میں جو لکھا ہے وہ تھوڑا سا بتا دیتا ہوں۔ اصل میں توبہ بہت پاورفل چیز ہے، اللہ تعالیٰ جس کو نوازتا ہے تو توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔
گناہ سے بچنا، گناہ نہ کرنا
اگر یہ ہوے تو توبہ کرنا
پسند رب کو ہے تیری توبہ
بگڑ گئے جب تو پھر سدھرنا
بڑھائی جتنی بڑی کریں ہم
بڑا ہے اس سے وہ یاد رکھنا
بڑے بنو نہ، بڑا وہی ہے
بڑا بس اس کو ہی تو سمجھنا
کرم تو اس کا عظیم تر ہے
تو جھولی اپنی بھی کھولے رکھنا
نہ سمجھو خود کو تم مستحق، پر
کہ ایسی جرات سے بھی ہے ڈرنا
وہ عاجزوں پہ ہے مہرباں جب
تو عاجزی کیوں کرو نہ حاصل
کہ ماننے کا ارادہ لے کے تو مانگتے، مانگتے ہے آگے بڑھنا
اسی نے محبوب کو، اپنے محبوب طریقے خود ہی بتا دیئے ہیں
انہی طریقوں پہ چلتے جانا گر اس کا محبوب ہے تجھ کو بننا
ہے اس کا محبوب، ہمارا محبوب، طریقے محبوب کہ کیوں نہ محبوب
ہے کاش سمجھیں کہ ایسا کیوں ہے، ہمارا دشمن کے پیچھے چلنا
ہمارے نفسوں کی خواہشیں بھی کشش ہیں رکھتی بہت ہی زیادہ
نہ ہو جو جائز، مجاہدے سے انہیں ہمیشہ دبا کے رکھنا
ہمارا نفس ہے ہماری گاڑی تو دل کو اس پہ سوار کر لے
تو ایسے سائق کو نفس کے واسطے بھی چاہئے ہے کچھ سنورنا
سنورنا یہ ہے، سمجھ وہ جائے کہ میرا محبوب اصل میں ہے کون
میں کس کو مانوں، میں کس کو چھوڑوں، مجھے ہے کس سے ہو کیسے بچنا
ملے جو رہبر طریقتِ ہو طریقہ میں پھر آسانیاں ہوں
تو دل بھی رستہ عجیب پائے کہ مشکلوں سے ہے یوں نکلنا
یہ برکتوں کے ہی سلسلے ہیں، انہی میں تائید ہے اس کی ملتی
راہ نبی پہ دل سے چلنا کبھی نہ تم کو اس سے ہٹنا
یہ دل کی باتیں ہیں ان کو سمجھو قلم ہے شبیرؔ کا اب رواں جب
کہ اس کا دل ہے ٹھکانہ اس کا تو چاہئے ہے اس کا اس میں بسنا
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔