سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 119

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

ایک بندہ جو پورے دھیان، توجہ اور فکر کے ساتھ تبلیغی جماعت میں کام کر رہا ہو، (چونکہ اگر وہ صحیح انداز سے کام کر رہا ہو تو اس کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے تو) کیا اس کا بھی بیعت ہونا ضروری ہے؟

جواب:

یہ سوال توجہ طلب ہے۔ دیکھیں! چاہے وہ تبلیغی جماعت کا کام ہو، چاہے کسی مدرسے کا کام ہو، چاہے جہاد کا کام ہو، چاہے دینی سیاست کا کام ہو، یا چاہے کسی اور کام میں کتنی ہی مصروفیت کیوں نہ ہو، بہرصورت اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینا ضروری ہے اور اپنی اصلاح کرنا فرض ہے۔ جبکہ باقی لوگوں کی اصلاح کرنا یہ فرض کفایہ ہے۔ جیسے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ کسی بدو نے کہا تھا کہ اگر آپ کی وجہ سے لاکھوں لوگ جنت میں چلے جائیں اور آپ خود دوزخ میں چلے جائیں تو پھر کیا ہوگا؟ یہ سن کر حضرت بہت ڈر گئے۔ اگرچہ تبلیغی جماعت کا کام بہت اچھا کام ہے، اللہ تعالیٰ مزید توفیقات سے نوازے اور اس میں زیادہ سے زیادہ وقت لگانے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ تو خیر ہے ہی اچھا کام۔ لیکن اس کام کو اچھی طرح کرنے کا حکم ہے۔ اور کوئی بھی کام اچھی طرح انسان تب کرسکتا ہے جب انسان کی اصلاح ہوچکی ہو، ورنہ اس کام کو بھی خراب کر دے گا۔ لہٰذا کم از کم اس نیت سے ہی اپنی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے، تاکہ اس کام کو کہیں نقصان نہ پہنچاوے۔ اس لئے کہ انسان کے ساتھ ہر وقت شیطان اور نفس لگے ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ سمجھ رہا ہو کہ میں خدا کے لئے کام کر رہا ہوں، حالانکہ وہ اپنے نفس کے لئے کچھ کر رہا ہو، جس کی وجہ سے باقی لوگوں کو نقصان ہوجائے اور وہ ہمیشہ کے لئے کام سے کٹ جائیں یا کچھ اور مسئلہ ہوجائے۔ اور اس قسم کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں۔ مثلاً بہت سارے لوگ مدرسے میں کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ دوسرے مدرسوں کے لئے رکاؤٹ بن جاتے ہیں، بہت سارے لوگ سیاست میں کام کر رہے ہوتے ہیں اور دوسرے سیاست کے کام کرنے والوں کے لئے رکاؤٹ بن جاتے ہیں۔ ایسے ہی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو جماعت میں کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ جماعت کے لئے رکاؤٹ بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اپنی اصلاح ضروری ہے اور اپنی اصلاح کے لئے بیعت ہے اور یہ بیعت اصل میں اصلاح کا ایک ذریعہ ہے، اگر اس کے بغیر اصلاح ہوجائے تو سبحان اللہ! ٹھیک ہے، لیکن اس کے بغیر عموماً، عادتاً اصلاح تقریباً، تقریباً محال ہے۔ الا ماشاء اللہ! کہ اللہ پاک کسی کے ساتھ استثنائی معاملہ کر لے تو اس پر بالکل اللہ پاک قادر ہیں۔ لیکن بہرحال استثنائی چیزوں کے اوپر معاملہ نہیں depend ہوتا۔ لہٰذا اپنے آپ کی اصلاح کی فکر کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے بیعت بہت مفید ہے۔ اور اگر وہ بیعت ہوجائے تو جس سے بیعت ہوگا کم از کم اس کو اپنے کام کے جو طریقے ہیں وہ بتا دے گا، اس سے ان کو فائدہ ہوگا یعنی ان کو پتا چلے گا اور پھر وہ ان کو وہی کام دے گا جو اس کے لئے مفید ہوگا، جس سے پھر تبلیغ کے کام کے اندر چلتے چلتے ہی اصلاح ہوجائے گی۔ کیونکہ معمولات اس طرح بتائے جائیں گے اور طریقے ایسے بتائے جائیں گے جو جماعت کے مناسب ہوں گے۔ لہٰذا اس وجہ سے اس کے لئے کوئی استثنائی بات نہیں ہے، بلکہ اور زیادہ ضروری ہے کیونکہ جتنی اونچی پرواز کسی کی ہو تو اگر وہاں غلطی ہوجائے تو نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اور زیادہ ضروری ہے کہ اگر جماعت کے اندر کوئی کام کر رہا ہو تو اس کو کسی نہ کسی کے ساتھ روحانی تعلق بنانا چاہئے جس کو بیعت کہتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

میں نے آپ کا بیان ’’عملیات کا حکم‘‘ سنا ہے، جس میں یہ ہے کہ جو چیز تم کو نفع دے اس کی حرص کرو، اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو اور عاجز مت بنو۔ مہربانی فرما کر اس کی وضاحت راضی برضا اور توکل کی روشنی میں کیجئے۔

جواب:

اصل میں یہاں یہ حکم ہے کہ جو چیز تم کو نفع دے اس کی تم حرص کرو۔ تاہم یہاں نفع سے مراد اصلی نفع ہے، جس کو تم نفع سمجھتے ہو وہ نہیں۔ کیونکہ دنیادار تو دنیا میں ہی نفع سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ اس میں حرص کریں گے تو پھر یہ وہی حرص ہوگی جس سے روکا جاتا ہے۔ اس لئے اگر ایسی چیز ہو جو واقعی نفع دے تو اس کے لئے حرص کرنی چاہئے۔ میرے خیال میں یہ بات اگر اس انداز میں کی جائے تو پھر اگلی بات کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وہ صاف ہوجاتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ سے ہر صورت میں مدد مانگنی چاہئے، کیونکہ اللہ پاک کی مدد کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ مقصد یہ ہے کہ اس کے لئے اسباب اختیار کرلو اور پھر اللہ پاک سے مدد بھی مانگو تاکہ مسبب الاسباب ان اسباب کے اندر اثر ڈال دے۔ ’’اور عاجز مت بنو‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان سستی نہ کرے، اپنے آپ کو یہ نہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کرسکتا بلکہ اللہ پاک نے جتنے وسائل دیئے ہیں، جتنی صلاحیتیں دی ہیں، ان صلاحیتوں کو استعمال کرے۔ اس صورت میں راضی برضا بھی ہوگیا اور توکل بھی ہوگیا۔ کیونکہ توکل کا مطلب یہی ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ سے کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا اونٹ کے پیر کو باندھ کر توکل کریں یا اس کو ویسے ہی چھوڑ دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اونٹ کے پیر کو باندھ کر توکل کرو۔ یعنی اسباب اختیار کرکے توکل کرو۔ مثلاً گاڑی میں اچھی طرح لاک لگا دو جو بہترین لاک ہو، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر چھوڑ دو کیونکہ اگر اللہ پاک کی مدد نہیں ہوگی تو اس کے ساتھ بھی وہ چلی جائے گی۔ یہ نہیں کہ بس آپ یہ کہہ دیں کہ اللہ پاک مالک ہے جیسا کہ بعض لوگ اس طرح کرتے ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک تو یقیناً مالک ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ بنایا ہوتا ہے۔ مثلاً کھانا، یہ کوئی مؤثّرِ حقیقی نہیں ہے، اگر اللہ پاک اس کے اندر اثر نہ ڈالے تو اس سے انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا، لیکن کیا کھانا کھائے بغیر کوئی خالی پیٹ چھوڑتا ہے کہ اللہ مالک ہے؟ اس وقت تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ اللہ مالک ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ کھانا کھا لوں پھر اس کے بعد اللہ پاک اس کو پورا کرے گا۔ لہٰذا یہ کام دوسرے کاموں میں بھی ہوسکتا ہے۔

سوال نمبر 3:

ایک عام مسلمان کے لئے ضروری باتوں کی دعوت کس طرح ہونی چاہئے؟ یعنی ایک بندہ اگر نماز نہیں پڑھ رہا تو اس کو کس طریقے سے سمجھانا چاہئے یا کسی ایسے بندے کے پاس لے جانا چاہئے کہ وہ اس کو سمجھا دے؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ تصوف کے حوالے سے کسی کو کس طرح دعوت دیں کہ وہ آئیں اور تصوّف کا سلسلہ اختیار کریں؟

جواب:

دونوں سوال دعوت سے متعلق ہیں۔ دعوت میں ایک چیز تو بہت ضروری ہے اور وہ ہے نرمی۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام کو جب فرعون کے پاس بھیجا گیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نرمی اختیار کرو۔ لہٰذا فرعون کے لئے اگر نرمی کی جاسکتی ہے تو میرے خیال میں باقی مسلمان تو ان سے کم برے ہیں۔ اس وجہ سے نرمی اختیار کرنی چاہئے۔ بعض لوگوں کے اندر تیزی ہوتی ہے، جب وہ دعوت دیتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ڈانٹ رہے ہوں، جس سے اور نقصان پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ وہی بات ہے جیسے میں نے پہلے عرض کیا کہ اگر اپنی اصلاح نہ ہوئی ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ رکاوٹ بن جائے، تو یہاں پر بھی ایسی ہی بات ہے۔ اس لئے دعوت دینے میں ہمیشہ نرمی اختیار کرنی چاہئے اور موقع محل دیکھنا چاہیے، یعنی موقع شناسی، محل شناسی، مردم شناسی یہ تین صفات انسان کے اندر ہونی چاہئیں کہ وہ جب دعوت دے رہا ہو تو موقع شناسی، محل شناسی، مردم شناسی کا خیال رکھے۔ موقع شناسی سے مراد یہ ہے کہ وہ موقع اس وقت دعوت دینے کا ہے یا نہیں ہے اور کس طرح دعوت دینے کا ہے۔ مثلاً ایک انسان دفتر جا رہا ہو اور اپنی چیزوں کو دیکھ رہا ہو یا ڈھونڈ رہا ہو کہ فلاں چیز بھی لے جانی ہے اور فلاں چیز بھی لے جانی ہے۔ آپ اس وقت اس کو دعوت دیں تو وہ کیا کہے گا؟ ممکن ہے کہ اس کی زبان سے کوئی غلط بات نہ نکل آئے۔ محل شناسی سے مراد یہ ہے کہ دیکھیں کہاں پر وہ دعوت دے رہا ہے، مسجد میں دے رہا ہے، بازار میں دے رہا ہے، سینما ہال میں دے رہا ہے یا ٹیلی ویژن دیکھنے والوں کو دے رہا ہے یعنی کون سا وقت اور کون سی جگہ ہے اس کے حساب سے اپنی strategy یعنی لائحہ عمل بنانا پڑے گا، ورنہ عین ممکن ہے کہ جو مسجد والا طریقہ ہے وہ بازار میں استعمال ہوجائے تو وہ بالکل فیل ہوجائے گا اور جو بازار والا طریقہ ہے وہ مسجد میں استعمال کیا جائے تو وہ فیل ہوجائے گا۔ تیسرا مردم شناسی ہے۔ مردم شناسی سے مراد یہ ہے کہ میں کس سے بات کر رہا ہوں، والد سے بات کر رہا ہوں، بیٹے سے بات کر رہا ہوں، بھائی سے بات کر رہا ہوں، کسی راہگیر سے بات کر رہا ہوں، کسی دکاندار سے بات کر رہا ہوں یا کسی پروفیسر سے بات کر رہا ہوں، کیونکہ ہر ایک کی اپنی اپنی psychology ہوتی ہیں اور ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے۔ جیسے والد کا مقام الگ ہے، ان کے ساتھ آپ وہ بات نہیں کرسکتے، بیٹے کے لئے سلسلہ الگ ہے۔ تو یہ مردم شناسی ہے۔ مردم شناسی میں بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے کیونکہ ہر شخص کے ساتھ ایک جیسی بات نہیں کی جاسکتی۔ مثلاً ایک دفعہ ایسا ہوا کہ تبلیغی جماعت میں اجتماع کے موقع پر کسی نے بیان سنا، جس بیان سے بہت سارے لوگوں نے وقت لگانے کا ارادہ کیا اور وقت لگانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، تو اس نے کہا یہ تو زبردست بیان ہے، لہٰذا اس بیان کو پورا رٹ لیا اور پھر پورا رٹ کر جب اپنے علاقہ میں بیان کیا تو کوئی بھی نہیں اٹھا، انہوں نے کہا کمال ہے! وہاں تو بہت سارے لوگ اٹھے تھے اور یہاں پر کوئی بھی نہیں اٹھا یہ کیا بات ہے؟ اس نے اپنے جماعت کے کسی سینئر ساتھی سے بات کی کہ دیکھیں! وہاں پر اس بیان کی وجہ سے بہت سارے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور یہاں پر میں نے وہی بیان ہو بہو کیا لیکن یہاں کوئی نہیں اٹھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے کس قسم کے مجمع سے بات کی تھی؟ وہ غریب لوگ تھے یا مالدار لوگ تھے؟ اس نے کہا کہ وہ مالدار لوگ تھے تو انہوں نے کہا کہ اجتماع میں جن سے بات ہوئی تھی وہ غریب لوگ تھے۔ لہٰذا غریب لوگوں کے ساتھ جو بات ہو اگر وہ آپ مالدار لوگوں کے ساتھ کریں گے تو ان پر اثر نہیں ہوگا بلکہ معاملہ ہی الٹ ہوسکتا ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جو علماء سے بات ہو رہی ہو تو وہاں کوئی غیر عالم نہ جائے ورنہ سخت نقصان ہوجائے گا۔ اسی طریقے سے مشائخ کے اندر جب بات ہو تو وہاں پر بھی عام آدمی نہ جائے، سخت نقصان ہوجائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے اور اپنی اپنی سمجھ ہوتی ہے اور اپنے اپنے حالات ہوتے ہیں، اس لحاظ سے ان تمام چیزوں کو سیکھنا پڑتا ہے۔ میرے خیال میں ان چیزوں پر اگر انسان غور کرے تو پھر کچھ نہ کچھ بات چل سکتی ہے۔ البتہ نرمی کے ساتھ بات کر لے اور اس میں اس شخص کا مقام اپنے ذہن میں ہو اور دوسری بات یہ ہے کہ اپنے آپ کو محتاج سمجھے کہ میں محتاج ہوں حقیقت کا اور صحیح طریقے کا تو پھر کچھ نہ کچھ دعوت میں اثر آہی جاتا ہے۔ لیکن اگر اپنے آپ کو کامل سمجھ کر دوسرے کو دعوت دے تو اس سے اکثر معاملہ الٹا ہوجاتا ہے، اس کے اندر reaction develop ہوجاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کو دیکھنا چاہئے تو پھر ان شاء اللہ! کچھ نہ کچھ صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ باقی جہاں تک تصوّف کی بات ہے یا اعمال کی دعوت کی بات ہے تو یہ ایک ہی چیز ہے، اس میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ البتہ اس سے ایک step آگے ہے۔ مثلاً آپ صرف نماز پڑھنے کے لئے اگر دعوت دیتے ہیں تو وہ اس وقت کے عمل کے بارے میں ہے۔ اور اگر تصوّف کے بارے میں آپ دعوت دے رہے ہیں تو یہ مستقبل کے سارے اعمال کی دعوت ہے۔ جس میں قلبی اعمال بھی ہیں، قالبی اعمال بھی سارے آجاتے ہیں۔ گویا کہ آپ اس کے لئے لوگوں کو تیار کر لیتے ہیں کہ دیکھو! ہمارے دلوں کے اندر جو دنیا کی محبت ہے اگر یہ نہیں نکلے گی تو اس سے کیا کیا نقصان ہوں گے؟ کیا کیا مسائل ہوں گے؟ اور ہمارے پاس ٹائم ہی اتنا ہے اگر اس میں اصلاح ہوجائے تو سبحان اللہ! پھر تو سارے اعمال ٹھیک ہوں گے اور ہم تمام چیزوں کے نقصان سے بھی بچ جائیں گے۔ تو اس طریقے سے جس کے لئے جو الفاظ مناسب ہوں اس کو اختیار کرکے دعوت دی جائے۔

سوال نمبر 4:

آج کل ووٹ ڈالنے کا زمانہ ہے۔ اکثر لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کس کو ووٹ ڈالیں گے؟ کیونکہ بندے کو خود پتہ نہیں ہوتا کہ یہ کس نیت سے پوچھ رہا ہے، اب اگر فرض کریں کہ کوئی بتا بھی دے تو پھر وہ آگے سے بحث میں الجھ جاتا ہے کہ وہ تو فراڈیا ہے، وہ تو ایسا اور ویسا ہے۔ بندہ اس سے کہے کہ چلو تم کوئی دلیل دے دو۔ تو وہ بھی اس کے پاس نہیں ہوتی، لیکن مفت میں بحث و مباحثہ شروع کردیتے ہیں، ایسے لوگوں سے کس طرح بچنا چاہئے؟

جواب:

سبحان اللہ! بڑی اچھی بات ہے۔ اصل میں بنیادی بات یہ ہے کہ جس سے آپ بات کر رہے ہیں آیا وہ بات سننے کے لئے تیار ہے یا نہیں ہے۔ اگر وہ بات سننے کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر بات ہی نہیں کرنی چاہئے۔ ’’بات سننے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ جو بھی حق سمجھیں کیا وہ اس پر غور کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں۔ اگر وہ تیار ہی نہیں ہے تو پھر ان سے کہہ دیں کہ بھائی! پوچھنے کی بات ہی کیا ہے؟ ضرورت ہی کیا ہے؟ جو کرنا ہے وہ خود کر لیں، مجھ سے آپ کیوں پوچھتے ہیں؟ اگر آپ مجھے دعوت دینا چاہتے ہیں تو دعوت کے الفاظ میں دعوت دیں، پھر میں اس پر سوچوں گا۔ آپ کو حق ہے مجھے دعوت دینے کا اور دعوت آپ نے دے دی اور مجھے حق ہے کہ میں اس پر سوچوں کہ جو چیز مناسب ہے اس پر عمل کر لوں اور اگر میرے لئے مناسب نہ ہو تو میں کسی کی تقلید اس میں نہیں کروں گا کیونکہ مجھے اپنے آپ کو دیکھنا ہے کہ آیا مجھے اس سے فائدہ ہوتا ہے یا نقصان ہوتا ہے۔ اس طریقے سے ان شاء اللہ العزیز بات آگے نہیں بڑھے گی۔ یعنی پہلے سے ہی یہ طے کر لیں کہ آپ بات کس لئے پوچھ رہے ہیں، عمل کرنے کی نیت سے پوچھ رہے ہیں، بحث کرنے کے لئے پوچھ رہے ہیں، آخر کس نقطۂ نظر سے آپ پوچھ رہے ہیں۔ اگر بحث کرنے کے لئے پوچھ رہے ہیں تو میرے پاس ان چیزوں کے لئے وقت نہیں ہے، کیونکہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں، اس لئے آپ کسی سیاسی آدمی سے بحث کرو۔ اور اگر آپ پوچھنا چاہتے ہیں اور مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس کو سنو اور جو کچھ کرنا چاہتے ہو وہ کرو اور اگر آپ مجھے دعوت دینا چاہتے ہیں تو مجھے دعوت دو پھر میری بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ بس آپ مجھے دعوت دو میں اس کے اوپر عمل کرتا ہوں۔ یہ دو، تین باتیں ہوگئیں، اس کے علاوہ چوتھی بات نہیں ہوسکتی، چوتھی بات کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ لہٰذا بحث بڑھے گی ہی نہیں، کیونکہ آپ نے boundaries بتا دی ہیں اور جب boundaries بتا دی تو آگے کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ لہٰذا اسی طرح بات کریں کہ بھائی! ایک تو میں بحث نہیں کرنا چاہتا کہ میں سیاسی آدمی نہیں ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا آپ مجھے دعوت دے رہے ہیں یا مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں؟ اگر مجھ سے سیکھنا چاہتے ہیں تو میں آپ کو پابند نہیں کرتا کہ میری بات پر ضرور عمل کریں لیکن جو میں حق سمجھتا ہوں وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں باقی آپ کی مرضی۔ اور اگر آپ مجھے دعوت دینا چاہتے ہیں تو میں کوئی بات نہیں کرتا آپ مجھے دعوت دیں میں اس پر غور کروں گا اگر میرے لئے مناسب ہوا تو پھر ضرور عمل کروں گا۔ اس طرح پھر بحث نہیں بن سکتی۔

سوال نمبر 5:

انفاس عیسیٰ کی تعلیم میں آیا تھا کہ جو قلندر ہوتا ہے وہ قلب کے مستحب قلبی اعمال کو بھی نہیں چھوڑتا۔ تو قلبی اعمال کے بارے میں ذرا بتا دیجئے۔

جواب:

دراصل ایک ہوتا توکلِ واجب اور ایک ہوتا ہے توکلِ مستحب۔ توکلِ واجب وہ ہے جو انسان کو حرام سے روک دے اور توکلِ مستحب وہ ہے جو انسان کو مستحب سے غافل نہ کرے۔ مثلاً زکوٰۃ نہ دینا یہ حرام ہے، تو اتنا توکل لازم ہے کہ کم از کم زکوٰۃ ادا کردے، یہ واجب ہے۔ لیکن اب مزید کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں اللہ کے راستے میں خیرات کر دوں، یہ مستحب ہے۔ لہٰذا جو قلندر ہوگا وہ اپنے ساتھ کچھ نہیں رکھے گا بلکہ وہ کہے گا کہ اللہ میرا مالک ہے، اس نے مجھے آج جو دیا ہوا ہے وہ میں اگر خرچ کر لوں گا تو وہ اس سے زیادہ دے گا، اس لئے میں اپنے ساتھ کیوں رکھوں؟ اور اللہ کے ساتھ کیوں نہ رکھوں؟ یعنی قلندر اس طرح ہوتا ہے کہ وہ مصلحت کی پروا نہیں کرتا۔ جیسے ہمارے بہت سارے لوگ مصلحتوں کی پروا کرتے ہیں، لیکن قلندر مصلحتوں کی پروا نہیں کرتا، بلکہ وہ کہتا ہے کہ جب اللہ ہے تو پھر باقی مصلحتیں کدھر ہیں۔ اسی لئے علامہ اقبال نے کہا تھا:

پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے تو من تیرا نہ تن

یعنی غیر کے ساتھ اگر آپ نے سمجھوتا کر لیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا کچھ بھی نہیں رہا۔ تو قلندر ان چیزوں میں strong ہوتا ہے۔ باقی ممکن ہے کہ نفلی اعمال اتنے زیادہ نہ کرتا ہو اور نفلی اعمال میں دوسروں سے کم ہو، لیکن دل کے اعمال میں بہت آگے ہوتا ہے۔

سوال نمبر 6:

السلام علیکم۔ حضرت! نفس پر قابو جبر سے پانا چاہئے یا نرمی سے؟ میری بہن کہہ رہی تھی کہ (چونکہ ایک لڑکی کا بیان کے دوران لہجہ بہت سخت تھا تو میں نے کہا) نفس کی اصلاح جبر سے ہوتی ہے۔ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟

جواب:

یہ وہی بات ہے جو ابھی میں تھوڑی دیر پہلے کہہ چکا ہوں۔ یعنی واقعی بعض حضرات جب بیان کرتے ہیں تو وہ بہت سخت لہجہ اختیار کرتے ہیں، جس سے بعض دفعہ نقصان ہوجاتا ہے۔ البتہ ان کے دل میں اگر آپ کی اتنی جگہ بنی ہوئی ہو کہ آپ کی سختی ان کو نرمی نظر آئے، پھر تو یہ ٹھیک ہے، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر ایسی جگہ نہیں بنی ہوئی، بلکہ نئے لوگ ہیں، تو ان پر سختی نہیں ہونی چاہئے۔ یعنی سب کو اپنا مرید نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ مریدوں کے ساتھ سختی کی جاسکتی ہے، اس لئے کہ ان کے ساتھ اگر سختی نہیں ہوگی تو ان کا علاج کیسے ہوگا، اس لئے ان کے ساتھ سختی کی جاسکتی ہے۔ لیکن ہر ایک تو مرید نہیں ہوتا، اس لئے اگر کوئی کسی کا مرید نہیں ہے تو پھر اکرام کے ساتھ چلے، طریقہ سے بات کرے، نرمی سے بات کرے، اسی میں خیر ہے۔ ورنہ پھر عین ممکن ہے کہ ہماری وجہ سے کوئی ٹوٹ نہ جائے۔ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے تھے کہ ایک صاحب ان کے ساتھ بڑے مانوس ہوگئے، مرید تو نہیں تھے، لیکن جماعت کی وجہ سے مانوس ہوگئے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے دل میں آیا کہ شاید اب یہ بہت قریب ہوگیا ہے، اب میں ذرا اس کے ساتھ کچھ بات کرسکتا ہوں، چونکہ اس کی داڑھی نہیں تھی تو میں نے داڑھی کے بارے میں بات کی، لیکن میری بات کے بعد پھر وہ آیا ہی نہیں۔ حضرت غالباً تین چار دن تک اس وجہ سے نہیں سو سکے اور بار بار افسوس کر رہے تھے کہ ٹھنڈے توے پر آٹا ڈال دیا اور آٹا بھی ضائع ہوگیا۔ چونکہ حضرت کو ایک ایک آدمی کی فکر تھی، اس لئے ان کو اس کا احساس تھا کہ میری وجہ سے کوئی ٹوٹ نہ جائے۔ لیکن یہ فارمولا مشائخ کے لئے نہیں ہے بلکہ اپنے مریدوں کے بارے میں ان کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ بے شک سختی کریں اگر سختی کا موقع ہو۔ حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ ایسے مسئلہ پر بول رہے تھے جو کافی ٹیڑھا تھا اور سمجھ میں آسانی سے نہیں آرہا تھا، تو بڑے جلال سے فرمایا کہ جولاب چاہئے! آنتوں میں سدے پڑے ہوئے ہیں۔ یعنی اس کے لئے اچھی طرح آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے مشائخ سختی کرسکتے ہیں، اور ان کی بات الگ ہے کیونکہ ان کی لوگ سنتے ہیں اور ان سے سننے کے لئے آتے ہیں۔ لیکن ہر شخص ایسا نہیں ہوتا کہ اس کی سخت بات لوگ سنیں اور عین ممکن ہے کہ ایک بات بھی نہ سنیں بلکہ شاید لڑائی ہی شروع نہ ہوجائے کہ تم کون ہو مجھے بتانے والے؟ اس وجہ سے انسان کو ذرا محتاط ہونا چاہئے۔ مامون الرشید بڑے حلیم الطبع بادشاہ گزرے ہیں۔ ایک مرتبہ راستے میں ایک موچی نے انہیں بڑی سختی سے ڈانٹا تو مامون الرشید نے بہت نرمی سے کہا کہ اللہ پاک نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تھا اور نرمی کے ساتھ بات کرنے کا فرمایا تھا، اور آپ موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ بڑے نہیں ہیں اور میں فرعون سے زیادہ برا نہیں ہوں۔ مطلب یہ تھا کہ آپ بھی میرے ساتھ نرمی سے بات کریں۔ خیر وہ تو حلیم الطبع تھے اس لئے انہوں نے اس انداز میں بات کی، ورنہ عین ممکن ہے کہ دوسرا آدمی جو حلیم الطبع نہ ہو وہ کچھ اور طریقے سے بات کر لے۔ اس وجہ سے عام شخص جو کسی کا پیر نہ ہو بلکہ پیر کو بھی غیر مرید کے ساتھ ایسے انداز میں بات نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ جب تک اس نے اپنی اصلاح کے لئے اُس کو مانا نہیں ہے تو پھر کیوں اس کے ساتھ اس انداز میں بات کرتا ہے؟ لہٰذا مشائخ کا وہ بیان جو عوام میں ہو اس کو مرید اپنے لئے نہ لیں کیونکہ مریدوں کے لیول سے وہ کافی نیچے ہوتا ہے، بلکہ مرید ان کی وہ باتیں لیں جو ان سے کی گئی ہوں۔ مثلاً کوئی بات ان سے کی گئی ہو اور کوئی اور بات عوامی بیان میں ہوچکی ہو تو اس عوامی بیان کی وجہ سے اُس بات کو کینسل نہ سمجھے بلکہ وہ ان سے کی گئی ہے، اور ان کے لئے ایسی بات مناسب تھی جبکہ دوسروں کے لئے ایسی بات مناسب نہیں ہے۔ مثلاً کسی مرید کی نماز قضاء ہوگئی تو اس کو کہہ دیا کہ تین روزے رکھو اور جو شخص غیر مرید تھے ان کو کہہ دیا کہ بھائی! نماز نہیں قضا کرنی چاہئے اور اگر قضا ہوجائے تو قضا نماز پڑھنی چاہئے اور توبہ کرنی چاہئے۔ اب وہ بات جو مرید کو کہی تھی کہ تین روزے رکھو، وہ اُس بیان سے اِس بات کو کینسل نہ سمجھے، اس لئے کہ یہ اس کو نہیں کہا، بلکہ اس کے لئے الگ بات ہے۔ کیونکہ یہ علاج میں ہے۔ اس وجہ سے ان تمام چیزوں کا ذہن میں خیال رکھنا چاہئے۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی! ایک بات ہے، لیکن مجھے معلوم نہیں کہ یہ مال کی محبت ہے یا میں مال کی زیادتی سے ڈرتی ہوں۔ اس وقت میرے پاس کچھ روپے ہیں جو میں نے ضرورت کے لئے رکھے ہوئے ہیں۔ اگر مجھے کچھ کھانے پینے کو دل چاہے تو میں زیادہ تر اپنے پیسے نہیں نکالتی بلکہ امی سے مانگتی ہوں لیکن امی بھی منع کردیتی ہیں تو پھر میرا دل بہت خراب ہوتا ہے کہ مجھے بیس تیس روپے بھی امی نہیں دے سکتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایک بزرگ یہاں مہینے میں ایک بار آتے ہیں، میں انہیں ضرور پیسے دیتی ہوں، پہلے پچاس روپے میں نے انہیں دیئے، پھر کچھ ماہ بعد وہ آئے تو میرا پیسے دینے کا بہت دل چاہا لیکن میں نے خود سے ہی کہہ دیا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اب میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اتنے پیسے کیا چیز ہیں؟ اگر میرے پاس اس سے زیادہ ہوتے تو میں کیا کرتی؟ اور میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اللہ مجھے کبھی اتنے پیسے نہ دے کہ مجھ پر حج فرض ہوجائے، لیکن میں پھر بھی حج کروں اور کبھی میرے مال پر زکوٰۃ نہ آئے، لیکن صدقہ اور خیرات میں کرتی رہوں کیونکہ مجھے بہت ڈر لگتا ہے کہ اللہ نہ کرے کہ اگر میں فرض پورا نہ کروں تو کیا بنے گا؟ حضرت جی! میری رہنمائی فرمائیں کہ مال جمع کرنا کیسا ہے اور یہ سوچنا اور اس طرح کی سوچ کا دل میں آنا کیسا ہے؟

جواب:

تھوڑی دیر پہلے ایک بات ہوئی ہے میرے خیال میں اسی کو میں recall کرتا ہوں۔ ایک توکلِ واجب ہے اور دوسرا توکلِ مستحب ہے۔ مبتدی کے لئے توکلِ واجب ہی کو دیکھنا چاہئے اور توکلِ مستحب بعد کی بات ہے، وہ جب انسان اس پوزیشن پر پہنچ جائے تو پھر کرے، بلکہ پھر کسی کے کہنے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ لہٰذا واجب یہ ہے کہ اگر اس مال میں زکوٰۃ آجائے تو زکوٰۃ ضرور دے، اگر حج فرض ہوجائے تو حج ضرور کرے اور اگر کوئی اور شریعت کا مالی جرمانہ آئے تو اس کو ضرور دے، جیسے بعض دفعہ نذر مانی تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ واجب کو پورا کرنا واجب ہے اور جو مستحبات ہیں، تو مستحبات میں شیخ سے پوچھ لیا کریں۔ کیونکہ ہر ایک کے اپنے اپنے احوال ہوتے ہیں، بعض دفعہ مستحبات پر کوئی عمل کرلیتا ہے لیکن دل اتنا نہیں بنا ہوتا اس لئے بعد میں پشیمان ہوجاتا ہے یا تنگ ہوجاتا ہے اور پھر اس کا ثواب بھی ضائع کردیتا ہے، بلکہ بعض دفعہ اور بھی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس وجہ سے مستحبات کے بارے میں ہم ہر ایک کو نہیں بتاتے کیونکہ ہر ایک کی یہ بات نہیں ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ کچھ ایسے لوگ ہوں کہ اگر ان کو کہا جائے کہ سارا مال خرچ کر لو تو وہ کر لیں گے اور بعض ایسے ہوں کہ اگر ان کو پانچ سو روپے کا بھی بتا دیا تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں، گویا variations بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا اس پر کوئی General law تو نہیں بن سکتی بلکہ حالات کے مطابق ہی بات ہوتی ہے۔ لیکن جو مبتدی ہے ان کے لئے وہ چیز جو واجب ہے اس کو پورا کرنا ضروری ہے باقی مستحب کی باری جب آجائے گی تو پھر ان شاء اللہ! ان کو بتا دیا جائے گا۔ اور اس وقت اس مال کو ہم حرام محبت نہیں کہتے، لہٰذا اگر کوئی اپنے حلال مال کو مستحب میں خرچ کرنے سے رکتا ہے تو اس کو ہم حرام نہیں کہتے کیونکہ شریعت بھی اس کو حرام نہیں کہتی، اس لئے ہم بھی اس کو حرام محبت نہیں کہتے، بلکہ ہم اس کو صرف یہ کہیں گے کہ ابھی اس کا مقام وہ نہیں بنا جس میں یہ چیز آجاتی ہے۔ اس وجہ سے اطمینان رکھیں، بے شک پیسے جمع کرلیں حلال طریقے سے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، البتہ اس کے حقوق ادا کرتی رہیں قربانی، زکوٰۃ اور حج ان تمام چیزوں کو پورا کریں۔ باقی اطمینان رکھیں، اور واقعی اگر کسی کو بیس تیس روپے دینے کا ارادہ ہوجائے تو اس میں حرج نہیں ہے اور اگر نہ دے سکیں تو کوئی پروا نہیں۔

سوال نمبر 8:

جو لوگ تصوّف کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کی طرف نہیں آتے یہ تو چلو الگ بات ہے لیکن اس کے بارے میں جو منفی تصوّر رکھتے ہیں، کیا یہ گناہ گار نہیں؟

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا اس میں جو ارشاد ہے وہ بتا دیتا ہوں، کیونکہ یہ چیزیں نازک ہوتی ہیں اس لئے انسان ذمہ دار بن جاتا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:

با مدعی بگوید اسرارِ عشق و مستی

یعنی جو انکار کرنے والا ہے اس سے عشق و مستی کے اسرار نہ بیان کیا کرو اس کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ وہ اس سے محروم ہے۔ اس لئے جو مخالفت کرتے ہیں ان کے لئے تو یہ شعر ہے۔ البتہ دعا ان کے لئے کی جاسکتی ہے، لیکن بہرحال اپنے دل کو اس سے چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ بہت سارے لوگ بہت ساری چیزوں سے محروم ہیں، ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ اللہ پاک نے ہمیں بچایا ہوا ہے الحمد للہ! اور اگر وہ خوشگوار موڈ میں ہو اور اپنا دوست ہو، ساتھی ہو، اور اس کو کوئی غلط فہمی ہو تو اس کی غلط فہمی کو طریقے کے ساتھ دور کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا اگر مناسب موقع ہو تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ لیکن اس پر اتنا زیادہ پریشان نہیں ہونا چاہئے کہ اس کو موت و زندگی کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے دے تو تین طریقے حضرت نے بتائے ہیں۔ اس میں اخیار والا طریقہ تو تصوّف کے بغیر بھی ہوسکتا ہے یعنی انسان Will power کو استعمال کر کے اور اپنے علم نافع کے ساتھ سیکھ کر اس پر عمل کر لیا کرے، یہ ہے بہت مشکل، بلکہ سب سے زیادہ مشکل طریقہ یہی ہے اور فائدہ بھی کم ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی آدمی دوسرا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہتا تو ٹھیک ہے اس کی مرضی ہے کہ اگر وہ کرنا چاہے تو کر لے۔ لیکن ہے مشکل، مشکل بھی ہے اور فائدہ بھی اتنا نہیں ہوتا، کیونکہ دھکا سٹارٹ گاڑی ہے دھکے لگانا پڑیں گے۔ اور اگر کسی کو محبت کا انجن میسر نہیں ہے تو پھر گاڑی چلانا بڑا مشکل ہے۔ اور اگر وہ محبت کے انجن کی طرف آتا ہے اور سمجھتا ہے یا سمجھ جاتا ہے تو یہ اس stage پر اس کی خوش قسمتی ہے، ورنہ وہ محروم ہے اور اس پر افسوس کیا جاسکتا ہے، لیکن اس پر دل نہیں چھوٹا کرنا چاہئے، البتہ دوسروں کو ان کے شر سے بچایا جاسکتا ہے، مثلاً کسی پر وہ محنت کر رہے ہیں تو ان کو طریقے سے سمجھا دیا جائے تاکہ ہم اپنی ذمہ داری پوری کر لیں۔

سوال نمبر 9:

اپنے ماتحتوں کے اوپر جو غصہ کیا جاتا ہے، اس سے لوگ کیوں نہیں رکتے؟

جواب:

اصل میں یہاں غصے کے محل کو دیکھنا پڑے گا کہ کہاں پر غصے ہو رہا ہے۔ جہاں پر شرعاً غصہ جائز تھا، وہاں نہیں روکا جائے گا اور جہاں پر شرعاً غصہ جائز نہیں تھا وہاں روکا جائے گا۔ البتہ روکنے والے کون ہیں، یہ الگ بات ہے یعنی اگر کوئی ایسا روکنے والا ہو جس سے مزید فتنہ بنتا ہو اور معاملہ بہت زیادہ بڑھتا ہو تو پھر اُس کو روکا جائے گا کہ ایسا نہ کرے، ورنہ اور معاملہ خراب ہوجائے گا۔ جیسے ہمارے دفتری معاملات میں boss کا معاملہ ہوتا ہے، وہ ایسے ہی چلتے ہیں، یعنی سب لوگ اس چیز کو جانتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلطی پر ہے ماتحت پر غصہ کرنے کے حوالے سے، لیکن سب لوگ اس کے ساتھ adjust کر لیتے ہیں۔ لہٰذا اگر دنیا کے لئے کوئی adjust کرسکتا ہے تو دین کے لئے بھی adjust کیا جاسکتا ہے۔ ٹھیک ہے اس کو غلط سمجھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، لیکن بہرحال adjust تو کرنا پڑے گا اور زیادہ بڑی خیر کے واسطے adjust کرنا چاہئے۔ اور اس کے لئے جو خیر کے پہلو ہوسکتے ہیں ان کے لئے سوچا بھی جاسکتا ہے، دعا بھی کی جاسکتی ہے۔ یعنی سوچا بھی جائے کہ کسی طریقے سے ہوجائے اور پھر دعا بھی کرنی چاہئے تاکہ (اللہ تعالیٰ کرے کہ) اس کے دل میں نرمی آجائے، فہم آجائے اور اس سے یہ بات تسلیم کر لے۔

سوال نمبر 10:

After listening to your bayan, I offered صلوٰۃ التوبہ with two rakat and made up my mind to do پردہ. Everytime I go out without it, I will immediately make توبہ ان شاء اللہ just as you say. Please make dua for me that اللہ تعالیٰ give me توفیق and strength for this! But I don’t have Islamic clothes so I use my ڈوپٹہ itself for this. I also wanted to ask my husband but I was not able to gather enough courage so I wrote on a paper that I embraced islam with heart and mind and it was important for me to do parda. He says that he does not understand me. I didn’t say anything after that.


. جواب:

یہ ایک ایسے معاشرہ کی بات کر رہی ہیں جہاں پر اسلامی اقدار نہیں ہیں۔ لیکن الحمد للہ! ان کو بیان سننے سے فائدہ ہوا اور اس نے پردہ کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، جس کی وجہ سے گھر میں اس کی پردے کے خلاف مخالفت ہے۔ ایسے ہی ایک خاتون پر مجھے بہت افسوس ہوا جو ہمارے ’’جہانگیرہ‘‘ کی تھی اور وہ یہاں پنڈی میں بھی کسی فیملی میں بیاہی ہوئی تھی، اس کو طلاق صرف اس بات پر ہوئی کہ وہ پردہ نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ یعنی اس حد تک ظلم ہو رہا ہے۔ اور بہت ساری عورتیں اور بچیاں اس مسئلہ میں مظلوم ہیں جو شریعت پر آنا چاہتی ہیں اور شریعت پر چلنا چاہتی ہیں لیکن ان کے گھر والے ان کو اس کے لئے نہیں چھوڑتے۔ ظاہر ہے کہ ان کے دل پر بڑے مشکل حالات گزرتے ہیں لیکن ان واقعات والوں کو میں ایک تسلی دیتا ہوں کہ آپ فرعون کی بیوی آسیہ سے سیکھیں۔ فرعون کافر تھا اور بڑا کافر تھا اور اس کی بیوی آسیہ مسلمان تھی، ولیہ تھی۔ سوچیں کہ کس حکمت کے ساتھ اس نے اس کے ساتھ گزارا کیا ہوگا۔ یعنی اللہ پاک نے نمونے کے لئے ہر قسم کے واقعات رکھے ہوئے ہیں۔ مثلاً نمرود کی بیٹی اور فرعون کی بیوی یہ ہمارے لئے بہت بڑا نمونہ ہے اس قسم کے واقعات کے لئے۔ لہٰذا اس پر دل چھوٹا نہ کریں بلکہ اس کو اجر کا بے انتہا اور بڑا ذخیرہ سمجھیں کہ اس پر بہت بڑا اجر ملتا ہے اور ارادہ کرنے سے ماشاء اللہ! آپ کو تو فائدہ ہو ہی رہا ہے۔ دعا بھی جاری رکھیں، میں بھی دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اچھے حالات نصیب فرمائے اور جلد سے جلد اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانی کی صورتیں پیدا فرمائے۔ لیکن اگر مشکل حالات ہیں تو ان کو اللہ کے لئے برداشت کرنا چاہئے، کیونکہ اس پر بہت بڑا اجر ہے، یعنی extreme ہمارے سامنے ہے کہ لوط علیہ السلام کی بیوی اور نوح علیہ السلام کی بیوی اور نوح علیہ السلام کا بیٹا یہ تینوں جہنمی ہیں اور فرعون کی بیوی اور نمرود کی بیٹی یہ جنتی ہیں۔ لہٰذا ہر قسم کے حالات ہیں، اس وجہ سے نہ تو مایوس ہونا چاہئے اور نہ ہی اترانا چاہئے، بلکہ دونوں کے درمیان اگر اللہ تعالیٰ نے اچھی حالت دی ہے تو اس پر شکر کرنا چاہئے اور خدانخواستہ اگر مشکل حالات ہیں تو اس پر صبر کرنا چاہئے، اس میں ہی خیر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر 11:

السلام علیکم۔ حضرت جی! میں بہت پریشان ہوں۔ آج کے پروگرام میں شرکت کرنے سے کچھ دل صاف ہوا ہے۔ میں اپنے بارے میں بہت اداس ہوچکی ہوں، لگتا ہے کہ میری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی، آج صبر کی جو نشانی بتائی ہے اس حساب سے میں تو صبر نہیں کرتی۔ حضرت! میرے پہلے جیسے عمل نہیں رہے۔ آج سے کوئی سات یا آٹھ دن پہلے Wrong call آئی جس سے دو یا اڑھائی سال پہلے رابطہ تھا، کال اٹینڈ کرنے کا بہت دل کرنے لگا، لیکن میں نے کال تو نہیں اٹھائی، البتہ طبیعت بہت بگڑ گئی، نہ نماز میں دل لگ رہا ہے اور نہ مراقبہ میں۔ میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں لیکن بہت خوف محسوس ہونے لگتا تھا۔ اس دن مراقبہ بھی نہیں کیا اور نہ تسبیحات وغیرہ پڑھیں، بس لیٹی رہی اور سوتی رہی۔ اگلے دن بھی کچھ ایسی ہی صورت حال رہی، پھر جان لگا کر اگلے دن مراقبہ کرنے لگی لیکن دل نہیں لگا۔ اگلے دن پھر دوبارہ کال آئی اور میں نے اٹینڈ کرلی پر آواز سن کر پھر بند کردی۔ حضرت میں شرعی پردہ کرتی ہوں۔ کسی نا محرم کی آواز سننا، بات کرنا منع ہے یہ بھی میں جانتی ہوں اور عمل بھی کرتی ہوں لیکن اس بندے کے معاملہ میں پتہ نہیں میرے دل میں کیا آتا ہے۔ میں بہت پریشان ہوں، میں کسی سے کہہ نہیں سکتی، بہت روتی ہوں لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا، میرے سارے عمل گڑبڑ ہو رہے ہیں۔ میرے دل میں اس کا خیال آگیا ہے۔ اب اللہ کا شکر ہے کالز آنا بند ہوگئی ہیں۔

جواب:

یہ جو بچی بات کر رہی ہے، آج کل یہ بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ کال اور یہ messaging بہت نقصان دہ چیزیں ہیں۔ اصل یہی بات ہے جو ہم کرتے ہیں لیکن لوگ اس کو سمجھتے نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں ابتدا ہی سے ان دروازوں کو بند رکھو، کیونکہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک دفعہ آپ دیکھ لیں اور پھر رک جائیں یا ایک دفعہ رابطہ کر لیں اور پھر بند کر لیں بلکہ یہ معاملہ اور مشکل ہوتا جاتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کہ کوئی جہاز ہے اور اس کے اندر چھوٹا سا ایک سوراخ ہوگیا ہے اور پانی اس سے آنے لگا ہے، ابھی اس کو بند کرنا جبکہ یہ چھوٹا ہے بہت آسان ہے، لیکن اگر اس کا خیال نہیں کیا اور یہ تھوڑا سا بڑا ہوگیا، پھر اگر آپ بند کرنا بھی چاہیں گے تو بند نہیں ہوگا اور پھر اور زیادہ مشکل ہوجائے گی، لیکن عمل تو پھر بھی کرنا پڑے گا ورنہ اس سے زیادہ بڑی برائی آئے گی۔ لہٰذا اس وجہ سے ہم یہی کہتے ہیں کہ آپ بھی بند رکھیں اور یوں سمجھیں کہ جتنی بار میں بند رکھوں گی لیکن مجھے خیال ہوگا کہ میں بند نہ رکھوں اتنا ہی مجھے اجر ملے گا۔ کیونکہ اگر کسی نامحرم کے اوپر انسان کی اتفاقی نظر پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کے ڈر سے انسان اس کو چھوڑ دے اور رخ اللہ کے ڈر سے پھیر لے تو فرماتے ہیں کہ اس کو اللہ پاک ایسی عبادت نصیب فرمائیں گے جس سے وہ اپنے ایمان کی حلاوت اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ گویا کہ آپ یوں سمجھیں کہ اللہ پاک نے آپ کے لئے ایمان کی حلاوت کا بندوبست کر لیا ہے۔ اب یہ جو دل میں آرہا ہے اس کو تو آپ ختم نہیں کرسکتیں لیکن اپنے ارادے اور اپنے عمل سے یہ تو کرسکتی ہیں۔ لہٰذا اگر آپ اس پر عمل کر رہی ہیں تو خوش ہوجائیں کہ اللہ پاک نے آپ کے لئے ایمان کی حلاوت کا بندوبست کیا ہے۔ اور اس پر گھبرانا نہیں چاہئے۔ باقی جہاں تک مراقبے کی بات ہے، اس کے بارے میں میں عرض کروں گا کہ مراقبہ تو ان چیزوں کو ختم کرنے کے لئے ہے۔ جتنا جتنا اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کا تعلق مضبوط ہوگا اتنا اتنا ان چیزوں کے ساتھ تعلق آپ کا کمزور ہوتا جائے گا۔ لہٰذا ایسی حالت میں تو مراقبہ اور ضروری ہے، چاہے دل لگے یا نہ لگے۔ جیسے کسی کا بھی دوائی کھانے کو دل نہیں کرتا، کیونکہ انسان جب دوائی کھاتا ہے تو کوئی شوق سے تھوڑا کھاتا ہے؟ لیکن کھانی پڑتی ہے۔ اسی طریقے سے مراقبہ بھی دوائی ہے، اس لئے آپ یہ نہ سمجھیں کہ مجھے اس میں مزہ آئے گا تو میں یہ مراقبہ کروں گی، بلکہ چاہے مزہ آئے چاہے نہ آئے اور چاہے تکلیف ہو بہر صورت اس کو اپنے اوپر لازم کر لیں۔ ان شاء اللہ العزیز! یہ آپ کے لئے راستہ نکال لے گا۔ جیسے اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں:

﴿وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰـهَ يَجْعَلْ لَّـهٗ مَخْرَجًا (الطلاق: 2)

ترجمہ:1 ’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لئے مشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا‘‘۔

اس وجہ سے آپ پریشان نہ ہوں اور اس کام پر جمی رہیں اور اپنا مراقبہ جاری رکھیں اور اپنے شیخ سے کوئی بات چھپائیں نہیں کیونکہ وہی ذریعہ ہے ایسی چیزوں میں تسلی دینے کا اور مناسب بات کرنے کا، کیونکہ اگر خدانخواستہ خرابی کے بعد اس کو پتا چلے یا بتائیں گی تو اور زیادہ نقصان ہوچکا ہوگا۔ لہٰذا جب نقصان نہیں ہوا اور اس وقت جبکہ ڈر بھی ہو تو اس وقت بتانا زیادہ مناسب ہے۔ نیز مراقبہ نہ چھوڑیں۔

سوال نمبر 12:

انسان بعض دفعہ کسی عمل کا ارادہ کرتا ہے لیکن اس کے اوپر استقامت نہیں ہوتی اور استقامت ہی اللہ پاک مانگتے ہیں تو اس کے لئے کوئی نہ کوئی طریقہ کرنا چاہئے، کیونکہ ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہت اچھا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوجائے۔ کوئی بھی مسلمان یہ نہیں چاہتا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دور ہوجاؤں۔

جواب:

بیشک شیطان تو پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے دور کردے۔ اسی وجہ سے انسان بعض دفعہ کوشش بھی شروع کر لیتا ہے لیکن شیطان اس کا رخ تبدیل کردیتا ہے اور کسی اور چیز کی طرف مائل کردیتا ہے، کسی اور چیز میں مشغول کردیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اس حال پر نہیں رہتا۔ پھر اس میں دو طریقے ہوتے ہیں لوگوں کے مزاجوں کے اعتبار سے کہ کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ چلو ابھی اتنی دیر نہیں ہوئی دوبارہ شروع کر لیتے ہیں، اتنا ہوجائے تو یہ نہ ہونے سے بہتر ہے، لیکن شیطان اس پر بھی نہیں چھوڑتا بلکہ یوں کہتا ہے کہ بس اب تو کر ہی نہیں سکتا، یعنی اس کو مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اب تو کر ہی نہیں سکتا۔ دیکھ! تو نے کتنی دفعہ try کیا لیکن تو نہیں کرسکا، لہٰذا تو کر ہی نہیں سکتا۔ مثلاً میں اگر کہہ دوں کہ (چونکہ اچھائیاں اور برائیاں دو چیزیں ہیں، اچھائیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں) ایک آدمی اچھائیاں کر رہا ہے اور شیطان نے اسے روک دیا، مثلاً آج اس نے دس نیکیاں کیں اور شیطان نے اس کو مزید نہیں کرنے دیں، اگلے دن اس نے کوشش کی اور پانچ نیکیاں کیں پھر شیطان نے نہیں کرنی دیں، لیکن پھر اس نے ہمت کر لی اور پندرہ نیکیاں کر لی لیکن پھر شیطان نے روک دیا اور پھر نہیں کرنے دیں، تو یہ سوچنے لگا کہ میں تو سو نیکیاں کرنا چاہتا تھا لیکن شیطان نے مجھے پندرہ سے آگے نہیں بڑھنے دیا لہٰذا یہ میں کر ہی نہیں سکتا اور پھر ہمت ہار بیٹھے اور صفر پر آجائے۔ ایک طریقہ تو یہ ہے نیکیوں کے بارے میں۔ دوسرا طریقہ برائیوں والا ہے، وہ یہ ہے کہ انسان سے شیطان اور نفس کی وجہ سے سو برائیاں ہوگئیں، پھر وہ اس سے رکنا چاہتا ہے تو اس میں سے بیس سے رک گیا، لیکن پھر دوبارہ وہ غالب آگیا جس کی وجہ پھر کچھ غلطیاں ہوگئیں اور پھر یہ بیس تیس سے رک گیا، اب اس طریقے سے کوشش کرتا ہے، کچھ بچتا ہے اور کچھ میں involve ہوتا ہے۔ اب اس صورت میں بھی شیطان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ مایوس کردے اور اس کو کہہ دے کہ تو اس سے بچ ہی نہیں سکتا۔ جیسے اس بچی کا مسئلہ تھا جس کا ابھی میں نے ایک خط پڑھ کے سنایا ہے کہ میری اصلاح ہو ہی نہیں سکتی، یہ شیطان کی پوری theory ہوتی ہے۔ لہٰذا اللہ کا کام یہ ہے کہ وہ کہتا ہے گناہ نہ کرو، گناہ سے ڈراتا ہے لیکن اگر گناہ ہوجائے تو پھر اللہ پاک فرماتا ہے کہ فوراً توبہ کرو، میں توبہ قبول کرنے والا ہوں۔ یعنی اس وقت اللہ پاک کی رحمت فوراً سامنے آجاتی ہے۔ اور دوسری طرف شیطان کا کام یہ ہے کہ وہ پہلے تو گناہ کرواتا ہے کہ بعد میں توبہ کر لینا، کوئی بات نہیں اور جب گناہ ہوجائے تو پھر مایوس کرتا ہے کہ اوہو! تو نے تو اتنا بڑا گناہ کیا کہ اب تو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہوگیا ہے، اب تُو کچھ نہیں کرسکتا۔ بلکہ اس وقت وہ جعلی فقیری کے الفاظ بھی کہتا ہے۔ جعلی فقیری سے مراد یہ ہے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں اور ہم تو ایسے نہیں اور بس ہم تو بچ ہی نہیں سکتے اور دیکھیں! ہم تو کمزور ہیں، یہ سب جعلی فقیری کی باتیں ہیں۔ اصلی فقیری کی باتیں نہیں ہیں۔ یعنی یہ اس قسم کی باتیں بھی کرتا ہے اور پچھتاتا بھی نہیں اور پھر یہ بھی کہتا ہے کہ ہم بچ ہی نہیں سکتے۔ لہٰذا یہ جو صورتحال ہے اس میں ہم اللہ جل شانہٗ کا جو طریقۂ کار ہے اس کو سمجھیں کہ اگر اللہ پاک نے ہمیں موقع دیا تو اس پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اگر شیطان نے ہم سے غلط کام کروا دیا تو توبہ کریں۔ اسی طریقے سے یعنی توبہ کرنے سے اور شکر کرنے سے معاملہ آگے بڑھتا رہے گا اور کسی رہنما سے اپنا تعلق قائم کر لیں، یہ ضروری اس لئے ہے کہ جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے میری اس پر بات ہوئی تھی کہ اگر کسی رہنما (جو کہ آٹھ شرائط پر پورا اترتا ہو جیسے میں نے پہلے بھی اس پر کافی بار بیان کیا ہے ان) کے ساتھ مناسبت ہو تو ان کے ساتھ روحانی تعلق قائم کر لیں اور پھر جیسے وہ کہیں ویسے اپنے حالات ان کو بھیجتے رہیں وہ آپ کے حالات دیکھے گا کہ آپ کے حالات کیسے ہیں پھر ان حالات میں آپ کو کچھ بتایا جاسکتا ہے۔ اس طریقے سے آپ کے لئے آسانی ہوجائے گی۔ ورنہ پھر وہی طریقہ جیسے پہلے بتایا یعنی اخیار والا طریقہ کہ انسان Will power کے ساتھ اور علمِ نافع کے ساتھ یعنی اچھے علم کے ساتھ عمل کرے، Will power کے ساتھ جن چیزوں سے بچنا ہے ان سے بچے اور جن چیزوں کو کرنے کا حکم ہے ان کو کرے، چاہے دل چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو، تو یہ اخیار میں آجائے گا یعنی اچھے لوگوں میں آجائے گا۔ یہ طریقہ سب کے لئے open ہے، اس میں نہ بیعت ہونے کی ضرورت ہے نہ کسی اور چیز کے کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہے یہ طریقہ مشکل, کیونکہ ہر وقت کسی نہ کسی رہنمائی کی ضرورت پڑتی رہتی ہے، اور اگر انسان رہنمائی کے اندر نہ ہو تو شیطان کی کوشش تو مسلسل جاری رہتی ہے، نفس کے تقاضے بھی چلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا detract ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی اور انسان کوشش کر کے بعض دفعہ شیطان کے اغوا سے بالکل ہی ہاتھ پیر چھوڑ سکتا ہے، تو اخیار والا طریقہ اس لئے بڑا مشکل ہے۔ لیکن اگر ابرار والے طریقہ پر second نمبر پر آجائے کہ جس میں کسی اللہ والے کے ساتھ روحانی تعلق ہو اور اسی کے ساتھ پھر تعلق جاری رکھے تاکہ اس کے ساتھ اس کے احوال کا ڈیٹا بیس بڑھ جائے، جیسے اگر کسی کا ایک ہی ڈاکٹر ہو جب وہ اس کے پاس ایک بیماری لے کر جائے گا تو اس کے بارے میں ڈاکٹر کو پتا چل جائے گا کہ اس کو یہ بیماری تھی، اور پھر وہ ٹھیک ہوگیا، پھر دوسری بیماری کے بارے، پھر تیسری بیماری کے بارے میں حتیٰ کہ اس کے بارے میں ڈاکٹر کے پاس اتنا ڈیٹا بیس آجائے گا کہ پھر جب وہ اس کے پاس جائے گا تو شاید اس کو بتانے کی ضرورت بھی نہ پڑے، بلکہ خود ہی اس پر احوال کھل جائیں گے کہ اس کو اس وقت یہ بیماری ہے۔ کیونکہ اس کے بارے میں اچھی خاصی معلومات ہوں گی۔ اسی طریقے سے اگر کسی ایک کے ساتھ رابطہ ہوگا تو اس کے احوال کے مطابق اس کو پھر بتا دیا جائے گا جو مناسب ہوگا۔ اس وجہ سے میرا مشورہ تو یہی ہے اور مناسب بھی یہی ہے۔ باقی فوری طور پر کچھ بتانے کے لئے یہی ہے جو ہم چالیس دن کے لئے وظیفہ دیتے ہیں۔ تین سو دفعہ ’’سُبْحَانَ اللهِ، وَالْحَمْدُ للهِ، وَلَا إِلٰهَ إلَّا اللهُ، وَاللهُ أَكْبَرُ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ اور دو سو دفعہ ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ‘‘ یہ چالیس دن کریں بغیر ناغے کے۔ اور کسی کام کو کرنے کا اور کسی کام کو چھوڑنے کا جو فرمایا ہے تو میرے خیال میں اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جو کام وہ کر رہے ہیں اور جن کاموں کے اندر خطرہ ہے کہ وہ ہو رہے ہیں جبکہ وہ نہیں ہونے چاہئیں تو دو کاغذوں پر لکھ کر بھیج دیں، ان میں سے جس چیز سے فوری طور پر روکنا ضروری ہوگا وہ کہہ دیا جائے گا اور جس کام کو جاری رکھنے کے لئے کہا جائے گا وہ بھی کہہ دیا جائے گا۔ اس سے میرے خیال میں (چونکہ ان کے اپنے احوال ہوں گے) ان کے اوپر عمل کرنا بھی اس کو مشکل نہیں ہوگا۔ لہٰذا یہ تین چیزیں ہوگئیں، ایک وظیفہ چالیس دن کا، دوسرا ان میں سے کوئی کام کرنے کے لئے کہنا، تیسرا کسی چیز کو چھوڑنے کا۔ میرے خیال میں دو کاغذوں پر اگر یہ چیزیں آجائیں تو اس کے بارے میں ان شاء اللہ کچھ عرض کرسکوں گا۔

سوال نمبر 13:

حضرت! اکثر مجھ سے لوگ پیری مریدی کے بارے میں پوچھتے ہیں یا کبھی گھر والے پوچھتے ہیں۔ میں پہلے تو اس بحث میں پڑنا ہی نہیں چاہتا، لیکن اگر کبھی پڑ ہی جاؤں تو پھر وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ جو آپ کے سلسلے میں بزرگ ہیں یا آپ کے شیخ ہیں یا جو بھی ہیں، کیا آپ کو پتا ہے کہ وہ کنفرم جنتی ہیں؟ تو میں ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ اس کا تو مجھے نہیں پتہ لیکن مجھے یہ پتا ہے کہ وہ authentic ولی اللہ ہیں۔ اس کا بہتر جواب کیا ہے؟

جواب:

اس کا بہتر جواب یہ ہے کہ وہ جو آٹھ نشانیاں ہیں، وہ ان کو بتا دی جائیں کہ وہ ان آٹھ نشانیوں پر پورے اترتے ہیں۔ باقی اللہ کو پتا ہے۔ کیونکہ وہ آٹھ نشانیاں ظاہری ہیں، باطنی نہیں ہیں۔ اور یہ Transparent system ہوتا ہے۔ یعنی یہ تصوّف کا جو طریقہ ہے اور پیری مریدی یہ transparent ہوتا ہے اور opec نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ جو آٹھ نشانیاں ہیں یہ transparent ہیں، ان کو کوئی بھی جان سکتا ہے۔ تو ان کو بتا دیں کہ بھائی! ہم تو ان آٹھ نشانیوں کے مکلف تھے اور یہ میں نے دیکھ لی ہیں، آپ بھی دیکھ لیں۔ باقی اللہ کو پتا ہے کہ کون کیسا ہے؟ وہ تو کسی کے بارے میں بھی سوائے پیغمبر کے یا صحابہ کرام کے انسان کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیسا ہے کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ اصل میں جو کام نہ کرنا ہو تو اس کے لئے بہانے ڈھونڈنے ہوتے ہیں، اور یہ محض بہانے ہیں اور کچھ نہیں ہیں، ورنہ چیزیں بڑی کھلی ہیں، transparent ہیں، صاف ہیں اس کے لئے یہ جاننا ضروری نہیں ہے کہ فلاں جنتی ہے کیونکہ وہ اللہ کا کام ہے، ہمارا کام نہیں ہے۔ جو ہمارا کام نہیں ہے، ہمیں اس کا مکلف ہی نہیں بنایا گیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ (البقرہ: 286)

ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔‘‘

لہٰذا کسی کے لئے وہاں کی حالت کے بارے میں جاننا ممکن نہیں ہے، جبکہ یہاں کی حالت کے بارے میں جانا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہمیں مکلف یہاں کے حالات کے بارے میں کیا گیا ہے، ہم صرف یہاں کے حالات جان کر کہہ سکتے ہیں اور اتنا ہی ہم مکلف ہیں، اس سے زیادہ کے نہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ ایک دفعہ کسی بیان میں گئے۔ وہاں ان کے مخالفین بہت زیادہ تھے۔ حضرت جس وقت وہاں گئے تو کسی نے رقعہ پکڑا دیا جس میں پہلی بات یہ لکھی تھی کہ تم کافر ہو، دوسرا انہوں نے کہا کہ اپنی پگڑی ذرا سنبھال کے رکھنا، مطلب یہ تھا کہ ہم حملہ کرنے والے ہیں۔ ایسے ہی ایک تیسری بات بھی کہی۔ تینوں باتوں کے حضرت نے بہت مناسب جواب دیئے۔ فرمایا: تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں، یہ ماضی کی بات ہے جبکہ ہمیں حال کا مکلف کیا گیا ہے لہٰذا ابھی میں کلمہ پڑھ لیتا ہوں: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمْداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ‘‘، کلمہ پڑھ کر فرمایاکہ اب تو میں کافر نہیں ہوں؟ اور ’’پگڑی سنبھال کے رکھنا‘‘ اس کے بارے میں فرمایا کہ دیکھو! میں بلایا گیا ہوں، میں خود سے نہیں آیا۔ اگر آپ لوگ نہیں سننا چاہتے تو مجھے کہہ دیں میں بیان نہیں کرتا، مجھے ضروری تو بیان نہیں کرنا۔ میں تو بیان کرنے کے لئے بلایا گیا ہوں۔ اگر آپ نہیں چاہتے تو میں نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ مخالفین میں سے کوئی بہت بڑا بدمعاش اٹھا اور اس نے کہا مولوی صاحب! آپ بیان ضرور کریں، ہم سنیں گے میں دیکھتا ہوں کہ کون آپ کو روکتا ہے۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مدد آگئی اور پورا بیان ماشاء اللہ حضرت نے اطمینان کے ساتھ کیا۔ یعنی اس کو بھی غصہ آگیا کہ یہ کوئی طریقہ تو نہیں ہے کیونکہ بعض بدمعاش بھی اصولی ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے خواہ مخواہ جو پنگا ڈالنے والی بات ہے اس کی وجہ سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ جو نہیں سننا چاہتے تو نہ سنیں۔


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. ۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

    تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔