سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 126

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فِ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

Respected Sir, السلام علیکم I have a confusion as you have mention that there are two ways for اصلاح قلب. One is جذب and other is (سلوک)

2nd is slow

why 1st is comparatively fast

if a سالک feels no improvement or very slow improvement after the ذکر for many years. can he/she request to مرشد for جذب way of اصلاح قلب because he/she wants inner change. if you don’t like please don’t answer.

جواب:

اس سوال میں یہ پوچھا گیا ہے کہ نفس کی اصلاح کے دو طریقے ہیں۔ ایک سلوک کا اور دوسرا جذب کا طریقہ ہے۔ سلوک والا طریقہ سست رفتار ہے لیکن محفوظ ہے اور جذب والا طریقہ تیز ہے لیکن اس میں خطرہ ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کسی سالک کو اپنی رفتار بہت کم لگ رہی ہو، تو کیا وہ مرشد سے جذب کے طریقے پر چلانے کے بارے میں کہہ سکتا ہے؟

سلوک کا طریقہ طویل ہے لیکن محفوظ ہے۔ سالک کو سلوک یا جذب میں سے کس طریقے پہ چلایا جائے، یہ شیخ کی صوابدید اور سالک کی استعداد پہ منحصر ہوتا ہے۔ کئی بار مرشد کے قلب پہ وارد ہوتا ہے کہ اس کو طریقۂ جذب سے آگے لے جایا جائے۔ اس کے لئے شیخ سے کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کام خود بخود ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر سالک اپنے معمولات صحیح طریقے سے پورے کرے،اپنا رابطہ شیخ کے ساتھ جاری رکھے اور اس رابطے کے اندر شیخ کی محبت کے پہلو کو غالب رکھے تو خود بخود طریق جذب کی طرف چلا جاتا ہے۔ کیونکہ طریقِ جذب میں تین مراحل ہیں۔ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ۔ فنا فی الشیخ پہلا مرحلہ ہے۔ اگر شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ شیخ سے ملے بغیر اور شیخ کی بات پر عمل کئے بغیر چین نہ آئے۔ ہر وقت اس بات کا تقاضا دل میں محسوس کرے کہ شیخ کا قرب حاصل ہو اور شیخ کے حکم پر جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو تو سالک خود بخود طریقۂ جذب کی طرف چلا جاتا ہے۔ اس کے اندر وہ تمام چیزیں خود بخود آ جاتی ہیں جو طریقۂ جذب کی ہوتی ہیں۔ لہٰذا کسی کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ مجھے اب طریقۂ جذب کے ذریعہ آگے لے جائیں۔ البتہ concepts clear کرنے کے لئے بزرگوں نے اس کے بارے میں فرمایا ہے۔ جیسے عراقی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر ہے:

صنما رہ قلندر سزد ار بمن نمائی کہ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی

اے میرے شیخ مجھے طریق قلندری کے ذریعہ سے آگے لے چلیں

کیونکہ طریقِ سلوک جو پارسائی کا راستہ ہے یہ مجھ سے پورا نہیں ہوتا یہ بہت لمبا ہے۔

یہ صرف اس طریق کی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ ورنہ جس وقت انسان طریقِ جذب میں آتا ہے تو وہ شیخ کو مشورہ نہیں دیتا کہ آپ میرے ساتھ یہ کریں بلکہ شیخ جو بھی اسے کہے اس کی بات مانتا ہے۔ اپنی طرف سے کچھ کہنے اور شیخ کو مشورہ دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ میں بہتر یہی ہے کہ انسان سب کچھ شیخ پر چھوڑ دے۔

ایک بات اور عرض کرنا چاہتاہوں۔ یہ میرے تجربہ کی بات ہے۔ اگرچہ سوال کا حصہ نہیں ہے لیکن اس سے متعلق ہے۔ بعض اوقات ہمارے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بیعت تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری شرط ہے کہ فلاں فلاں کام کے بارے میں آپ ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔ مثلاً کوئی کہتا ہے کہ ہمیں تبلیغ سے نہیں روکیں گے، کوئی کسی اور چیز کے بارے میں کہتا ہے۔ اسے بیعت کر لیا جاتا ہے، بعد ازاں اس میں اتباع و انقیاد کی کیفیت آ ہی جاتی ہے۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے حاجی امداد اللہ مکی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہا تھا کہ میں ایک تو ذکر نہیں کروں گا اور ایک تہجد نہیں پڑھ سکوں گا، اس لئے آپ مجھے ان دو چیزوں کے بارے میں کچھ مت کہیے گا۔ حاجی صاحب نےفرمایا: کوئی حرج نہیں اور ان کو بیعت کر لیا، بعد میں یہی دو چیزیں حضرت گنگوہی میں سب سے زیادہ رہیں۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ نا واقفیت کی وجہ سے کوئی کہہ دیتا ہے لیکن جب واقفیت ہو جاتی ہے تو پھر وہ شیخ کی اتباع میں سب سے زیادہ آگے ہوتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ آپ جتنا زیادہ راستہ شیخ کو دیں گے اتنی زیادہ آپ کی ترقی ہو گی۔ اگر آپ نے پورا راستہ دے دیا تو پوری ترقی ہو گی، آدھا راستہ دے دیا تو آدھی ترقی ہو گی۔ یہاں پر در اصل شیخ نہیں دے رہا ہوتا، شیخ تو ایک انسان ہے وہ کیا دے سکتا ہے، اگر اللہ کا فضل نہ ہو تو وہ اپنے آپ کو بھی نہیں سنبھال سکتا کسی اور کو کیا سنبھال سکے گا۔ یہ در اصل اللہ پاک شیخ کے ذریعہ سے دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ نظام ایسا ہے جس کے ساتھ اللہ پاک کی تائید ہے۔ لہٰذا جو شیخ کی بات مانتا ہے، شیخ کے دل میں اللہ پاک اس کے لئے اتنی رہنمائی ڈال دیتا ہے،۔ اس کے دل میں شیخ کی جتنی محبت اور ادب ہوتا ہے، شیخ کے ذریعہ وہ اتنا ہی زیادہ فیض حاصل کرتا ہے۔ اسلام کا معنی ہے اللہ جل شانہ کے سامنے غیر مشروط طور پر سلامی ہو جانا، کوئی شرط درمیان میں نہ رکھنا۔ شیخ کے سامنے بھی ہم اسی طرح چلیں اور کوئی شرط نہ لگائیں، غیر مشروط طور پر شیخ کی بات مان لیں تو اللہ جل شانہ خود ہی تمام آسانیاں پیدا فرما دیتے ہیں، تمام مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اصلاح کے لئے سب سے ضروری چیز صحبت شیخ/ صحبت صالحین ہے۔ اگر کسی کو اس کا موقع نہ ملے تو وہ بزرگان کی تصانیف کا مطالعہ کیا کرے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بزرگان کی تصانیف کے مطالعہ سے اصلاح ہو سکتی ہے؟

جواب:

بہت اچھا سوال ہے۔ اس کے جواب سے کافی چیزیں کلیئر ہو جائیں گی۔ حضرت نے یہ فرمایا ہے کہ اگر صحبت شیخ میسر نہ ہو۔ یعنی یہ مجبوری کی بات ہے۔ مجبوری کی حالت میں تھوڑا بھی کفایت کر جاتا ہے، اس لئے کہ وہ منجانب اللہ ہوتا ہے۔ جیسے تیمم سے وضو کا پورا پورافائدہ ہو جاتا ہے اگر پانی نہ ہو، لیکن اگر پانی ہو تو تیمم سے نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ اسی طرح یہاں بھی اگر صحبتِ شیخ میسر نہ ہو تب ان کی تصانیف یا اس سلسلہ کے بزرگوں کی تصانیف سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے، ایسا ہی ہوتا ہے۔

ایک صاحب نے مجھے ٹیلی فون کیا کہ میں F-8میں ہوں اور انٹرنیٹ پر آپ کا بیان سن رہا ہوں لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ جو بیان سننے کا فائدہ خانقاہ میں آ کر ہوتا ہے وہ یہاں پر نہیں ہو رہا۔ اس کےبرعکس ایک شخص امریکہ سے فون کرتا ہے کہ میں آپ کا بیان آن لائن سن رہا ہوں اور مجھے اس کا پورا پورا فائدہ ہو رہا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں باتیں سچی ہیں۔ امریکہ والا مجبور ہے وہ یہاں آ نہیں سکتا،وہ وہاں بیٹھے بیٹھے چونکہ یہی کر سکتا تھا اس کے پاس اتنا ہی ٹائم تھا لہٰذا امریکہ میں بیٹھے بیٹھے اس کو ایسا ہی فائدہ ہو رہا ہے جیسا فائدہ یہاں پر بیٹھنے سے ہوتا۔ تصوف کے اندر تو یہ چیز یہاں تک ہے کہ اگر کسی کو واقعی اپنے شیخ کے ساتھ کامل تعلق حاصل ہو جائے تو فاصلے مٹ جاتے ہیں پھر فاصلوں کا مسئلہ نہیں ہوتا۔ لیکن یہ سب تب کام کرتا ہے جب واقعی مجبوری ہو۔ اگر مجبوری نہ ہو محض غفلت، کمزوری اور سستی کی وجہ سے دور ہو، تو پھر اس کا نقصان ہوتا ہے، کیونکہ وہ اعراض کی ایک صورت ہے۔ مشائخ کے قریب موجود لوگوں سے اور تقاضے ہوتے ہیں اور دور رہنے والوں اور تقاضے ہوتے ہیں، لہٰذا اگر مجبوری ہو تو مجبوری میں گزارا ہو جاتا ہے،اس میں کوئی مسئلہ نہیں پیش آتا لیکن اگر اپنی سستی اور غفلت کی وجہ سے ایسا مسئلہ ہے تو اس سے نقصان ہو تا ہے اوربعض دفعہ کافی زیادہ نقصان ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ مرید کو شیخ کے ساتھ پورا تعلق حاصل ہوتا ہے لیکن پھر بھی کسی وجہ سے وہ سوال نہیں کرپاتا، مثلاً کئی بار شیخ کا رعب اور ڈر اس کے دل میں بہت زیادہ ہوتا ہے، اس ہیبت اور رعب کی وجہ سے وہ سوال نہیں کر پاتا۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے اور عملی سوال ہے۔ واقعتاً ایسا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ کے رعب کی وجہ سے لوگ سوالات نہیں کر پاتے۔ لیکن شیخ کو اللہ پاک نے چونکہ اسی مقصد کے لئے بٹھایا ہوتا ہے لہٰذا اس کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ شیخ کی اپنے مریدوں کے ساتھ اس درجہ بے تکلفی آ جائے کہ کم از کم اس سے سوالات کئے جا سکیں۔

ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہمارے اوپر بڑا رعب تھا اور واقعتاً وہ رعب اتنا زیادہ تھا کہ سوالات سے مانع ہو ا تھا۔ حضرت اس رعب کو کم کرنے کے لئے بعض دفعہ بیان میں مریدوں کا نام لیا کرتے تھے کہ فلاں اس طرح ہے فلاں اس طرح ہے۔ کبھی کسی مرید کے ساتھ خوش طبعی فرما لیتے تھے، کبھی اسے پاس بلا لیتے تھے، تاکہ جو حجاب اور رکاوٹ ہے وہ دور ہو جائے اور مرید جو کچھ پوچھنا چاہے پوچھ سکے۔

مرید اگر شیخ سے نہیں پوچھے گا تو کس سے پوچھے گا۔ اس کے لئے شیخ ہی ذریعہ ہے۔ لہٰذا شیخ سے پوچھنے کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے البتہ بے ادبی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ شیخ کی بے ادبی کا سوال بھی نہیں پیدا ہو سکتا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ سوال ادب کے پیرائے میں کیا جائے، شیخ کے مزاج کو سمجھ کر موقع محل کو دیکھ کرسوال کر لیا جائے۔ آداب کو ملحوظ رکھ کر جو سوال کیا جاتا ہے، اس کا شیخ کی طرف سے جو جواب آتا ہے وہ یقینا سالک کے لئے مفید ہوتا ہے۔

موقع محل کو دیکھ کر شیخ سے سوال کرنا چاہیے، اس کی وضاحت کرتا ہوں، مثلاً ابھی یہاں سوال و جواب کا سیشن ہو رہاہے، اس مجلس کا مقصد ہی یہی کہ سوال و جواب پوچھے جائیں، یہ سوال پوچھنے کا موقع بھی ہے اور محل بھی ہے۔ اب کوئی آدمی اس مجلس میں تو سوال نہ کرے، جب مجلس برخاست ہو جائے اور میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد جا نے لگوں، تب وہ سوالات کرنا شروع کر لے، تو یہ بات درست نہیں ہو گی، موقع محل کے خلاف ہوگی۔ موقع محل کے خلاف جو کام کیا جائے اس میں بہت سارے مسائل ہوتے ہیں۔ موقع محل کو دیکھنا ہر ہوشیار آدمی کا کام ہے کہ جو موقع ہو اس کے مطابق کام کرے۔ جب شیخ کہے کہ کوئی سوال ہے؟ اس وقت سوال ضرور کرنا چاہیے اگر کوئی سوالات ذہن میں ہوں تو ان کو سامنے لانا چاہیے۔ یہی مناسب طریقہ ہے۔

بعض لوگ ایسے بھی آ تے ہیں جو مجھ سے اپنے احوال بیان کرنا چاہتے ہیں وہ کہہ دیتے ہیں کہ حضرت تخلیہ کی ضرورت ہے، ہم اکیلے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ تخلیہ کی صورت یہی ہو سکتی ہے کہ یہاں جو لوگ میرے ساتھ بیٹھے ہیں ان کو اٹھوا دوں یا میں خود اٹھ کر لوگوں کو چھوڑ کر کسی تخلیہ والی جگہ پہ چلا جاؤں۔ یہ دونوں صورتیں ہر وقت ممکن نہیں ہوتیں اور ہر ایک کے لئے ممکن نہیں ہوتیں۔ اس کے لئے ہم نے بزرگوں کے مشورہ سے ایک طریقہ مقرر کیا ہوا ہے کہ اگر کوئی ایسی بات ہے جو سب کے سامنے نہیں کی جا سکتی تو اسے لکھ کے لے آئے اور ہمیں دے دے، جب اس کو پڑھا جائے گا، اس وقت اگر اس کا جواب اشاروں میں دیا جا سکتا ہے اور اس سے کسی کا پردہ نہیں اٹھتا تو ایسا ہی کیا جائے گا،اگر لکھ کے جواب دینے کی ضرورت ہو گی تو لکھ کے جواب دے دیا جائے گا اور اگر بہت اہم ہے، urgent ہے، ہمیں پتا چل گیا کہ بھئی اس وقت تو اس کی جان پر بنی ہوئی ہے اگر اس وقت جواب نہیں دیا جائے گا تو اس کا بہت بڑا حرج ہو سکتا ہے تو اس وقت باقی ساتھیوں سے معذرت کرکے انسان اس کو تخلیہ میں لے جا سکتا ہے اور بات بھی کر سکتا ہے۔ لیکن آتے ہی ایک دم ایسے کہہ دینا کہ تخلیہ کی بات ہے، یہ مناسب نہیں ہے۔ بعض دفعہ کوئی ایسی بات ایمرجنسی والی نہیں ہوتی لیکن اگر کوئی آدمی اپنی بات کو ایسے ہی سمجھتا ہے کہ جیسے یہاں صرف وہی آتا ہے تو اسے اِس سے روکا جائے گا۔

یہ حجابات کی بات نہیں ہے،بلکہ یہ تہذیب اور طریقہ و سلیقہ کی بات ہے۔ ہر کام کو جب طریقہ سے کیا جاتا ہے تو فائدہ زیادہ ہوتا ہے اور اگر بے طریقہ کیا جائے تو نقصان بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا سوال کا موقع دیکھ کر سوال ضرور کرنا چاہیے۔ بے وقت، بے محل اور بے ضرورت سوال نہیں کرنا چاہیے۔

ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے فہیم اور ذہین بزرگوں میں سے تھے۔ ایک طالب علم اکثر ان کی مجلس میں بیٹھتا تھا۔ باقی لوگ سوال کرتے تھے لیکن وہ کبھی سوال نہیں کرتا تھا۔ ایک بار حضرت نے ان سے فرمایا کہ باقی لوگ سوال کرتے ہیں آپ سوال نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا حضرت اب میں بھی کیا کروں گا۔ اس کے کچھ دنوں بعد امام صاحب مسئلہ بیان فرما رہے تھے کہ اگر سورج غروب ہو جائے تو پھر یہ کام اس طرح کرنا چاہیے۔ اس طالب علم نے سوال پوچھا حضرت اگر سورج غروب نہ ہو تو پھرکیا کریں گے؟ حضرت نے اس سے فرمایا: آپ کا خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی چیزیں سوالات میں نہیں ہونی چاہییں جن کی ضرورت ہی نہ ہو۔ بہرحال ضرورت اور موقع، محل کے مطابق آدب سے سوال کیا جائے تو اس سے سائل کا بھی فائدہ ہوتا ہے اور باقی لوگوں کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت تصوف میں دو اصطلاحیں ہیں۔ ”تصورِ شیخ “ اور ”فنافی الشیخ“۔ ان کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

یہ دونوں مختلف چیزیں ہیں۔ فنا فی الشیخ کا مطلب یہ ہے کہ انسان قلبی طور پر اپنی ہستی کو شیخ کے سامنے کچھ نہ سمجھے۔ اپنے جذبات ومشکلات اور حالات اس کے سامنے نہ ہوں بلکہ شیخ کی ترجیحات اس کے سامنے رہیں۔ یہ فنا فی الشیخ ہے۔ یہ ہر طبقہ کے مطابق الگ الگ طریقہ سے ہو سکتا ہے۔ علماء کا الگ طریقہ سے ہو گا، غیر علماء کا الگ طریقہ سے ہو گا۔ علماء علمی طور پر ان تمام چیزوں کو جانتے ہیں اس وجہ سے ان کا الگ طریقہ سے ہو گا، غیر علماء کا الگ طریقہ سے ہو گا۔ لیکن بنیادی بات اس میں یہی ہے کہ شیخ کی ترجیحات کے سامنے اپنی ترجیحات چھوڑ دے۔

تصور شیخ کا مطلب یہ ہے کہ انسان شیخ کا خیال اپنے ذہن تکلفاً لے آئے۔خود بخود شیخ کا خیال آنا اور بات ہے اسے تصور شیخ نہیں کہیں گے۔ مثلاً آپ اپنے شیخ کو ذہن میں لے آئیں اور سوچیں کہ میں شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوں یا شیخ کے ساتھ ہوں یا شیخ مجھ سے بات کر رہے ہیں اس خیال کو ذہن لانا تصور شیخ کہلاتا ہے۔ ہمارے گذشتہ بزرگوں کے ہاں یہ چیز پائی جاتی تھی اور اب بھی بعض سلاسل کے اندر صحیح صورت میں یہ پایا جاتا ہے۔ لیکن چونکہ لوگوں میں وہ سمجھ بھی نہیں رہی لوگوں کے حالات وہ نہیں رہے لہٰذا تصور شیخ کے ساتھ جو چیزیں نفسیاتی اور وجدانی طور پر موجود ہوتی ہیں بعض دفعہ ان کی صورت ایسی بن جاتی ہے جس کی تشریح لوگوں کے بس میں نہیں ہوتی۔ نتیجتاً وہ شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور با قاعدہ نداء غیب والی صورت بن جاتی ہے اور تصور شیخ جائز نہیں رہتا۔ اس وجہ سے متاخرین بزرگوں نے اس چیز کو ختم کردیا۔ بالخصوص وہ سلاسل جن میں علماء کا عمل دخل زیادہ ہے جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور وہ حضرات جن پر علم غالب ہے۔ ان سلاسل میں تصور شیخ ختم ہو گیا۔ وہ حضرات فرماتے ہیں کہ تصور شیخ نہیں کرنا چاہیے ہاں اگر خود بخود شیخ کا تصور ذہن میں آ جائے تو وہ اللہ کی نعمت ہے اس کو ختم نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اگر خود قصداً لایا جائے تو وہ جائز نہیں ہوگا۔

ایک دفعہ ہمارے کسی ساتھی نے نماز کے اندر تصور شیخ کیا،یعنی تکلفاً شیخ کا خیال لایا۔ بعد میں جب حضرت کو حال بتا یا تو حضرت نے اس کو ایک زور دار تھپڑ لگایا۔ حالانکہ حضرت اس طرح رد عمل ظاہر نہیں کیا کرتے تھے، لیکن اس کو سب کے سامنے زوردار تھپڑ لگا دیا۔ یہ واقعہ میرے سامنے نہیں ہوا تھا، میں نے کسی اور سے اس کے بارے میں سنا تھا، لہٰذا میرے اوپر اس کا بہت اثر تھا۔ کیونکہ میری حالت یہ تھی کہ مجھے ہر وقت اپنے شیخ یاد آتے تھے۔ نماز میں بھی یاد آتے تھے غیر نماز میں بھی یاد آتے تھے۔ میں نے سوچا کہ اگر حضرت کو نہیں بتاتا تو یہ دیانت داری کے خلاف ہے خیانت ہے اور اگر بتاتا ہوں تو تھپڑ لگتا ہے۔ اس وقت مجھے،قصداً خیال لانا اور خود بخود خیال آنا، اس میں فرق کا علم نہیں تھا۔ ایک دن میں نے ڈرتے ڈرتے حضرت سے عرض کر دیا کہ حضرت چیز تو ٹھیک نہیں ہے لیکن آپ کو بتانا ضروری ہے۔ میں جب بھی نماز پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میں آپ کے ساتھ ہوتا ہوں۔ حضرت نے یہ سن کر بہت مبارک باد دی۔فرمایا ماشاء اللہ بہت اچھی بات ہے، محبت کی علامت ہے اللہ تعالی اس کو اوربڑھائے۔ میں حیران ہو گیا کہ یہ کیا بات ہوئی، اس کو تھپڑ لگ گیا اور مجھے مبارک باد دے رہے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ جو خیال مجھے آتا تھا وہ خود بخود آتا تھا اور جس کو تھپڑ لگا تھا وہ قصداً اس خیال کو ذہن میں لایا تھا۔ پہلی صورت درست ہے، دوسری غلط ہے۔ جیسے وسوسہ از خود لانا برا ہے لیکن وسوسہ کا آنا برا نہیں ہے۔ اگر خود بخود وسوسہ آ جائے اور اس کے اوپر عمل نہ کیا جائے تو اس کا اجر ملتا ہے۔ اسی طرح اگر شیخ کا تصور خود بخود آتا ہے تو کوئی حرج نہیں بلکہ یہ اللہ پاک کی طرف سے مدد ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر میں اپنے شیخ کی مجلس میں موجود ہوں اور نماز پڑھ رہا ہوں گا تو وہ نماز کیسی ہو گی؟ یقیناً توجہ سے پڑھی ہوئی نماز ہوگی۔ اس کے برعکس اگر میں کسی ایسی جگہ نماز پڑھ رہا ہوں تو جہاں شیخ موجود نہیں ہیں تو اس میں وہ پہلے جیسی توجہ نہیں ہوگی، ایسے میں اگر خود بخود شیخ کا تصور ذہن میں آ جائے تو اس سے میری نماز بڑھیا ہو جائے گی۔ میری باقی چیزیں اچھی ہو جائیں گی۔ لہٰذا یہ اللہ کی مدد ہے، اللہ تعالی کا احسان ہے۔ لیکن اگر قصداً کیا جائے تو پھر ٹھیک نہیں ہے، اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی! کیا یہ سوچ رکھنا درست ہے کہ میرے شیخ میرے بارے میں جانتے ہیں، جب میں ان کے سامنے جاؤں گا تو انہیں معلوم ہوگا کہ میں کیا کیا اچھائیاں برائیاں کرتا رہا ہوں، اس لئے مجھے برائیوں سے بچنا چاہیے اور اچھائیاں کرنی چاہئیں۔ کیا ایسی سوچ رکھنا اور اس کی بنیاد پر برے عمل چھوڑنا اچھے عمل اختیار کرنا درست ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب بڑے محتاط انداز میں دینے کی ضرورت ہے۔

”شیخ میرے بارے میں جانتا ہے“۔ اس کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ یہ آپ کے اوپر منحصر ہے کہ آپ شیخ کے اپنے بارے میں جاننے کو کس طرح لیتے ہیں، اگر آپ کا خیال یہ ہو کہ شیخ حاضر ناظر ہے، جیسا کہ بعض لوگ واقعتاً ایسا سمجھتے ہیں کہ میرا شیخ میری ہر بات کو سنتا دیکھتا اور جانتا ہے، اس کے اوپر میری ساری باتیں کھلی ہیں، اس سے آگے بڑھ کر یہاں تک سمجھتے ہیں کہ وہ میری مدد کو بھی پہنچتا ہے۔ اگر شیخ کے آپ کے بارے میں جاننے سے مراد اس طریقہ سے جاننا ہے تو یہ بات قطعاً غلط ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا سبب ہے۔ایسی بات سوچنا بھی شرک کے شائبہ سے خالی نہیں ہے۔

شیخ میرے بارے میں جانتا ہے کا دوسرا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال ہو کہ اللہ جل شانہ نے چونکہ اس کو میرا شیخ بنایا ہے، لہٰذا میری ضرورت کی چیز اللہ تعالی اس کے دل پر القاء فرما دیتے ہیں۔یہ سوچ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ تجربہ سے ثابت ہےکہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ شیخ اور مرید کے تعلق کے ساتھ اللہ کی تائید ہوتی ہے لہٰذا شیخ کے دل پر مرید کے حالات کو کھول دیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ مرید کے حالات کو شیخ پر کھولا نہیں بھی جاتا، لیکن شیخ کی زبان سے وہ باتیں کہلوا دی جاتی ہیں جو مرید کے دل میں آنے والے سوالات کا جواب ہوتا ہے۔

ہمارے ساتھ بارہا یہ ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ مرید نے ہم سے کچھ پوچھا نہیں ہوتا اور ہمارے بیان کے بعد وہ کہتا ہے کہ میرے دل میں یہ سوالات تھے آپ کے بیان میں خود بخود ان کا جواب آ گیاہے۔ لہٰذا ہمیں تو اس کے اندر کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔

یاد رہے کہ اس سے یہ تاثر لینا کہ شیخ کو میرے احوال کا خود بخود پتا ہے، یہ بات خطرناک ہے۔ لہٰذا ذہن میں یہ رکھنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ اپنی قدرت اور سلسلے کی مقبولیت کے سبب شیخ کے قلب پر میرے مناسب حالات کھول دیتے ہیں یا میری ضرورت کی چیزیں ان کی زبان پر ڈال دی جاتی ہیں۔ یہ بالکل ٹھیک ہے اس کے اندر کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر یہ ساری بات ذہن میں ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اگر یہ بات مستحضر نہیں ہے اور دل میں یہ خیال ہو کہ شیخ میرے بارے میں جانتا ہے، تو پھر یہ خطرہ کی گھنٹی ہے، اس سے نقصانات ہو سکتے ہیں۔

سوال نمبر 8:

حضرت جی! اگر ہمارے ذہن میں یہ بات ہو کہ شیخ ہماری کوئی بات اس لئے جانتا ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ پاک کی طرف سے اس کے دل پہ الہام ہوا ہو اور ہم کئی بار کچھ کام کرنے سے اس لئے رک جائیں کہ شاید اللہ تعالیٰ شیخ کے دل پر الہام فرما کر اسے آگاہ کردے گا۔ اور ہمارے دل میں یہ خیال ہو کہ شیخ اس بات سےآگاہ ہوں گے تو ان کو برا لگے گا، اس وجہ سے ہم کسی گناہ یا غلط کام سےرک جائیں۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب:

جی ہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ صحابہ کرام کو بھی ہوتا تھا۔ با قاعدہ روایات میں موجود ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا تھا کہ آپ ﷺ پر اللہ پاک ہمارے حال کو کھول نہ دیں، کہیں کوئی وحی نہ آ جائے۔ آپ ﷺ پہ وحی آتی تھی جبکہ شیخ کو الہام ہوتا ہے۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے مگر الہام کا سلسلہ جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ اگر اللہ جل شانہ کسی شیخ کے دل پر کسی کی مرید کی حالت کو الہام فرما دے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے۔ میرے ساتھ خود ایسے واقعات ہوئے ہیں۔

جہانگیرہ میں میرا ایک دوست تھا جو بے حد ذہین تھا۔ اتنا ذہین کہ مجھے اس کی ذہانت سے خطرہ تھا کہ کہیں وہ بگڑ نہ جائے، میں نے اس کے ساتھ دوستی اسی وجہ سے کی تھی تاکہ کسی طرح اسے راہ راست پر رکھنے کی کوشش کرسکوں۔ عصر کی نماز کے بعد ہم دریا کے کنارے واک کیا کرتے تھے، ساتھ ساتھ گفتگو بھی ہوتی رہتی۔ ایک دن اس نے ہمارے بزرگوں کے بارے میں کچھ ایسی بے ادبی کی باتیں کیں کہ میں حیران ہو گیا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے۔ میں نے اس کو ڈانٹا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟ کہنے لگا کیا آپ ناراض ہو گئے ہیں؟ میں نے کہا کیا آپ کی ان باتوں سے میں خوش ہو جاؤں ؟یہ تو بے ادبی کی باتیں ہیں۔ کہنے لگا کہ اگر آپ کی رسائی میرے ذہن تک ہو جائے تو آپ کو اور زیادہ تکلیف ہو گی۔ میں نے کہا کیا ہے آپ کے ذہن میں؟ اس نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ عجیب وغریب چیزیں ہیں۔ پھر اس نے چند باتیں بتائیں تو میرے اوسان خطا ہو گئے۔ در اصل وہ کراچی کے ایک گروپ حزب اللہ کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ان کی وجہ سے اس کے دماغ میں یہ سب اعتراضات پیدا ہو رہے تھے۔ وہ میرا عزیز دوست تھا۔ میں گھبرا گیا۔ اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے سوچا اب یہی ہو سکتا ہے کہ اسے بزرگوں کے پاس لے جایا جائے۔ میں نے اس سے کہا بھئی تم تو محقق آدمی ہو اور محققین حضرات تحقیق کے لئے بڑی دور دور تک سفر کیا کرتے تھے، کیا تم ایک چھوٹا سا سفر کر سکتے ہو؟ جہانگیرہ سے پشاور تک جانا پڑے گا۔میری بات سن کر وہ مان گیا مگر اس نے یہ شرط رکھی کہ ہم آنے جانے کی ترتیب اس طرح رکھیں گے کہ مغرب کے بعد وہاں نہیں ٹھہریں گے جیسے ہی مغرب کی نماز ہو جائے وہاں سے واپس چل پڑیں گے۔ میں نے یہ شرط مان لی اور ہم نے طے کر لیا کہ مولانا اشرف صاحب کے پاس جائیں گے اور ان سے اس سلسلہ میں عرض کریں گے۔

حضرت کی مجلس عصر سے مغرب تک ہوا کرتی تھی۔ ہمارا یہی ارادہ تھا کہ عصر و مغرب کے درمیان بیان شروع ہونے سے پہلے حضرت سے بات چیت کر لیں گے۔ ہم توکلا ً علی اللہ روانہ ہو گئے۔ لیکن ہمیں کچھ تاخیر ہو گئی، جب ہم پہنچے، حضرت کا بیان شروع ہو چکا تھا۔ میں پریشان ہو گیاکہ بات کرنے کا وقت تو چلا گیا، پھر سوچا کہ اگر بیان مختصر ہوا تو مغرب سے پہلے کچھ وقت مل جائے گا اس دوران بات کر لیں گے۔ خدا کی شان اس دن بیان اتنا طویل ہو گیا کہ مغرب کی اذان پر ہی ختم ہوا۔ میرا دل پریشان تھا کہ مغرب کے بعد یہاں مزید ٹھہر نہیں سکتے کیونکہ دوست کے ساتھ وعدہ تھا کہ مغرب کے بعد واپس چل پڑیں گے اور مغرب سے پہلے بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ مغرب کی نماز بھی بھاری دل کے ساتھ پڑھی،اور نماز کے بعد حضرت کو سلام کرکے واپس روانہ ہوئے۔ ابھی ہم مسجد سے باہر آئے ہی تھے اور جوتے پہن رہے تھے کہ میرے دوست کہا: مولانا صاحب تو بہت بڑے بزرگ ہیں، آپ نے تعارف ہی نہیں کروایا تھا کہ یہ اتنی بڑی شخصیت ہیں۔ میں سمجھا شاید وہ مذاق کر رہا ہے، جو آدمی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو کچھ نہ سمجھتا ہو، وہ مولانا صاحب کو کیا بزرگ سمجھے گا، تو مجھے لگا وہ مذاق ہی کر رہا ہے۔ میں نے اس سے کہا: بھئی وہ ہمارے بزرگ ہیں، اس لئے مذاق مت کرو، ایسے معاملات میں چھیڑ چھاڑ مناسب نہیں ہوتی۔ کہنے لگا نہیں! میں مذاق نہیں کر رہا واقعتاً کہہ رہا ہوں کہ مولانا بہت بڑے بزرگ ہیں۔ میں نے پوچھا کہ ایسی کون سی بات ہو گئی کہ اس مجلس کے بعد تم یہ کہہ رہے ہو، ہمارے لئے تو معمول کی مجلس تھی، تمہارے لئے اس میں کیا غیر معمولی بات تھی کہ تم مثاثر ہوگئے؟

اس کا کہنا تھا: ”جب مولانا صاحب بیان فرما رہے تھے، مجھے ان کی کسی بات پر اشکال ہوا۔ میں اس کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ مولانا صاحب باقاعدہ مجھے مخاطب کرکے اس کا جواب دے دیا۔ میں نے اسے اتفاق سمجھا۔ کچھ دیر بعد دوبارہ میرے دل میں ایک اور اشکال پیدا ہوا، مولانا صاحب نے دوران بیان اس کا جواب بھی دے دیا۔ مجھے اس جواب پر بھی اشکال ہوا۔ مولانا صاحب اس کا جواب بھی دے دیا۔ یہ میرے بے حد حیران کن بات تھی، کیونکہ اتفاق ایک آدھ دفعہ ہوتا ہے، مسلسل تین مرتبہ جو کام ہو وہ اتفاق نہیں ہوتا۔ اس سے مجھے احساس ہوا کہ یہ بڑے بزرگ ہیں، اللہ کا ان پر خاص کرم ہے۔ “

میں سمجھ گیا کہ اس پر اللہ کا فضل ہوگیاہے، بزرگوں کی کچھ عظمت اس کے دل میں آ گئی ہے۔ اب لوہا گرم ہے چوٹ لگائی جا سکتی ہےتو میں نے اسے کہا:

میں آپ کو بڑا ذہین سمجھتا تھا لیکن آپ تو بڑے بدھو نکلے۔ کیا آپ کا اس بات پر ایمان نہیں کہ جو کچھ آپ کے ذہن میں آتا ہے وہ اللہ کو معلوم ہے، اللہ کو سب چیزوں کا پتا ہے۔ آپ کی زبان، میری زبان، مولانا صاحب کی زبان اور سب کی زبان اللہ کے قبضہ میں ہے، جو کچھ وہ کسی کی زبان پر لانا چاہے لا سکتا ہے؟

کہنے لگا: بالکل اس بات پر میرا ایمان ہے کہ اللہ کو ہر کسی کے ذہن کی چیزیں معلوم ہیں اور وہ اس پہ بھی قادر ہے کہ جس کی زبان سے جو چاہے اس سے کہلوا دے۔

اس پہ میں نے اسے جواب دیا کہ خدا کے بندے تمہارے ذہن کے سوالات اللہ پاک نے پڑھ لئے اور مولانا صاحب کی زبان پہ اس کے جوابات ڈال دئیے۔ عین ممکن ہے کہ مولانا صاحب کو یہ پتا بھی نہ ہو کہ وہ آپ کی بات کا جواب دے رہے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کو پتا ہو، جو بھی صورت ہو، اصل کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے۔ اور اسی کو کرامت کہتے ہیں۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ سمجھتے ہیں کہ کرامت آدمی کا فعل ہوتا ہے، جبکہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ کرامت دراصل اللہ تعالیٰ کا ہی فعل ہوتا ہے، لیکن بزرگ کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتا ہے، معجزہ بھی اللہ کا فعل ہوتا ہے لیکن نبی کے ہاتھ پہ ظاہر ہوتا ہے۔

غزوۂ بدر میں نبی ﷺ نے مٹی کی مٹھی بھر کر کافروں کی طرف اچھالی، اللہ کی قدرت سے وہ مٹی تمام کفار کی آنکھوں میں جا پڑی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں اس کا ذکر یوں فرماتے ہیں:

﴿وَ مَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الانفال: 17)

ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی“

اس سے معلوم ہوا کہ معجزہ اللہ کا ہی فعل ہوتا ہے، لیکن نبی کے ہاتھ پر ظاہر کروایا جاتا ہے، لہٰذا وہ نبوت کی دلیل بن جاتا ہے، اسی طرح کرامت ولی کا فعل نہیں ہوتا بلکہ ولی کے ہاتھ پہ ظاہر کیا جاتا ہے، فعل اللہ کا ہی ہوتا ہے۔ کرامت اور معجزہ میں فاعل کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کیونکہ دونوں میں فاعل اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ ہاں جس کے ہاتھ پہ ظاہر کروایا جاتا ہے اس کے لحاظ سے اتنا فرق آ جاتا ہے کہ نبی کے ہاتھ پہ ایسی چیز کے اظہار کو معجزہ اور ولی کے ہاتھ پہ اظہار کو کرامت کہتے ہیں۔ اللہ پاک حی و قیوم ہے، اس کی قدرت بڑی وسیع ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ خیر ہمارے اس دوست کی اصلاح ہوگئی۔ اللہ پاک نے اس کی اصلاح کا طریقہ یہ چنا کہ حضرت صاحب کی زبان پہ اس کے اعتراضات کے جواب جاری کردئیے، حالانکہ وہ تو مرید بھی نہ تھا بلکہ معترض تھا۔ جب معترض کے لئے اللہ پاک یہ سلسلہ چلا سکتے ہیں تو مرید کے لئے یہ طریقہ اس سے بھی زیادہ موثر طور پر کام کرتا ہے۔ لہٰذا اس میں شک نہیں کرنا چاہیے کہ اللہ پاک شیخ کے ہاتھ سے ایسا کرو اسکتے ہیں۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ عرض کرتا ہوں جو خود میرے ساتھ ہوا ہے۔ میں بیان کر رہا تھا۔ ہمارے سلسلہ کے ساتھیوں میں سے ہی ایک صاحب ہیں جو ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ دورانِ بیان اچانک مجھے پتا نہیں کیا ہوا میں نے اس کو جھنجھوڑنے والے انداز میں اچانک کہا: ”کیا کر رہے ہو؟“ مجھے یہ کہتے ہوئے بالکل اندازہ نہیں ہوا کہ میں نے کیا کیا اور کیا کہا، ایسا لگا جیسے یہ مجھ سے کروایا گیا ہے۔ بعد میں اس ساتھی نے مجھے کہا کہ میں خیالوں ہی خیالوں میں بہت دور چلا گیا تھا، آپ نے جیسے ہی مجھے کہا کیا کر رہے تو میں واپس آپے میں آیا۔ اب دیکھیں مجھے کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، لیکن میری زبان سے ایسی بات نکلی کہ اس کی بچت ہو گئی۔ اور یہ کام اللہ تعالیٰ نے کروایا، اس میں میرا کوئی دخل نہ تھا۔

لہٰذا اگر آپ یہ سمجھتے ہوں کہ ایسی باتیں شیخ سے ممکن تو ہیں، لیکن کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، شیخ کرنے والا نہیں ہے، تو اس سوچ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اخلاص سے اپنے سلسلہ کے ساتھ رہیں، اپنے شیخ کی محبت دل میں پیدا کریں۔ یہی محبت ان شاء اللہ آپ ﷺ کی محبت تک پہنچائے گی اور آپ ﷺ کی محبت اللہ پاک تک پہنچائے گی۔ اسی کو فنافی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللہ کہتے ہیں، اور اسی کو طریقۂ جذب کہتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

یہ بات تو مسلم ہے کہ ہدایت تو اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ بسا اوقات ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ شیخ کی توجہات سے میرے دل پر اثر ہو جائے گا۔ ان توجہات کا کیا مطلب ہے۔ کیا یہ کوئی تصرف ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

جن سلاسل کے اندر زیادہ تر علماء حضرات ہیں وہ پھونک پھونک کے قدم رکھتے ہیں۔ کیونکہ لوگ بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں ایک صحیح چیز کو غلط چیز تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس لئے علماء کرام سد باب کی وجہ سے اس صحیح چیز کو منع فرما دیتے ہیں جس کی وجہ سے لوگ غلط چیز کی طرف پہنچ جاتے ہیں۔

مولناا شرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تشریح کے مطابق توجہ دعائے قلبی کو کہتے ہیں۔ مثلاً میں نے کسی کے لئے دل میں ہی دعا کردی کہ اللہ پاک اس کی حالت کو بہتر فرمائے۔ نہ کسی سے کہا نہ اظہار کیا بس دل میں ایک خیال آیا، میں نے دعا کردی اور دعا قبول ہو گئی۔ یہی توجہ ہے، جس کی اصل دلی دعا کی قبولیت ہے۔ اللہ پاک بعض لوگوں کو یہ صلاحیت عطا فرماتے ہیں کہ ان کے دل میں کسی کے لئے دعا کے احساسات آ جائیں تو اللہ پاک قبول فرما لیتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول کچھ لوگوں کو اللہ پاک سورج کی طرح استعمال کرتے ہیں، جیسے سورج سے سب لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے اسی طرح ایسے لوگوں کو خلق خدا کے فائدہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہ ہے توجہات کی سب سے محتاط وضاحت۔ اس وضاحت کے مطابق کوئی اشکال نہیں رہتا۔ اشکال وہاں آتا ہے جہاں ہم یہ کہیں کہ توجہ سے مراد تصرف ہے۔ جہاں تک تصرف کی بات ہے تو اس میں بھی کوئی اعتراض والی بات نہیں ہے، اس میں مسئلہ صرف یہ ہے کہ لوگ اس کو ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتے، مسئلہ لوگوں کے سمجھنے میں ہے۔

تصرف کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً آپ اپنی نسبت کو مستحضر کرکے تصور ہی تصور میں اپنے قلب کو میرے قلب کے اوپر رکھ دیں۔ اس طرح آپ کی قلبی کیفیات میرے قلب میں ٹرانسفر ہو جائیں گی۔ اسی کو تصرف کہتے ہیں۔ یہ بزرگوں کے ہاں مستعمل ہے اور قلبی کیفیات کے انتقال کا ایک طریقہ ہے۔ یہی طریقہ قبور سے استفادہ کا بھی ہے کہ جو صاحب قبر صاحب نسبت ہو، ان کے پاس بیٹھ کر اپنے قلب کو ان کے قلب ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اس طرح فوت شدہ بزرگ کی نسبت استفادہ کرنے والے کی طرف منتقل ہو جائے گی اور اس کی نسبت مضبوط ہو جائے گی۔ یہ چیزیں ممکن ہیں اور بزرگوں میں اسی کو قلبی توجہ کہتے ہیں، لیکن یہ چیزیں اسی کے لئے ہیں جسے ان باتوں کی مکمل سمجھ ہو اور طریقہ آتا ہو۔

حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ بہت زیادہ مشہور تھی، سید احمد شہیداور مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہما کی توجہ بھی بہت مشہور تھی۔ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے کچھ روحانی مسئلہ درپیش تھا، میں نے حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کیا، انہوں نے فرمایا اس کے لئے آپ کو آنا پڑے گا۔ کہتے ہیں میں ان کے ہاں چلا گیا۔ میں اپنے کمرے میں اور حضرت اپنے کمرے میں تھے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میرا دل کھل گیا، اس کے اوپر زخم ہی زخم ہیں۔ پھر میرے دل کی صفائی ہونے لگی، سب زخم صاف کر کے دوبارہ دل جوڑ دیا گیا۔

یہ سب تصرف تھا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کسی نے خط بھیجا کہ حضرت میری یہ حالت ہے کہ کسی کو مار پڑتی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے پڑ رہی ہے، کسی کو ڈانٹا جاتا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ڈانٹا جاتا ہے، کہیں سے کوئی آواز آئے تو سمجھتا ہوں کہ مجھے ہی بھلایا گیا ہے۔ نہ آرام کر پاتا ہوں نہ کوئی کام سکون سے کر سکتا ہوں۔ حضرت نے انہیں اپنے ہاں بلوا یا اور کچھ دیر اپنے ہاں ٹھہرایا اور صرف یہ تبدیلی کی کہ اوراد و اذکار کے اوقات بدل دیئے، وہ صاحب ٹھیک ہو گئے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اوراد بدلنے والا کام صرف ظاہری طور پر کیا تھا، ورنہ حقیقتاً تصرف تھا۔ لیکن حضرت نے اپنے تصرف کو ظاہر نہیں فرمایا، بلکہ اوراد کے اوقات بدل دیئے۔ تاکہ بظاہر یوں لگے کہ وہ اس لئے ٹھیک ہوئے ہیں کہ اوقات بدل دئیے۔

بہرحال ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، لیکن ہم ایک کے لئے اس کی اجازت نہیں دیتے، کیونکہ یہ چیزیں سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، ہر کوئی اس کے تمام لوازمات اور تمہید کو نہیں جانتا اور لوگ یہی سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ سب کچھ شیخ کا کام ہوتا ہے ہم نے کچھ بھی نہیں کرنا ہوتا۔

توجہات کی مزید تشریح حضرت تھانوی رحمۃ اللہ یوں بیان کرتے ہیں کہ توجہات کی مثال ایسی ہے جیسے گاڑی کسی کھڈے میں پھنس جائے تو اسے کھڈے سے نکالنے کے لئے زور لگانا پڑتا ہے، دھکا دینا پڑتا ہے، جب گاڑی کھڈے سے نکل آئے تو آگے اس گاڑی کو خود چلانا ہوتا ہے، پھر دھکے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اب اگر گاڑی والا چاہنے لگے کہ کھڈے سے نکالنے کے بعد میری گاڑی کو مسلسل دھکا سٹارٹ کیا جائے اور اسی طرح چلایا جائے، پھر تو کام خراب ہوگیا۔ لیکن اگر صرف کھڈے سے نکلنے کے لئے اس دھکا سٹارٹ کو استعمال کیا جائے پھر چھوڑ دیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

توجہ اس وقت مفید ہوتی ہے جب کوئی مشکل آ جائے، اسے دور کرنے کے لئے توجہ کا استعمال کیا جائے، اس کے بعد اپنے معمولات خود چلائے جائیں اور اس کے اندر کچھ خیانت یا کمزوری کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ لیکن آج کل حالت یہ ہے کہ بزرگوں سے صاف کہا جاتا ہے کہ ہم پر توجہ کریں نظر فرمائیں، جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے خود کچھ نہیں کرنا۔ یہ رویہ بے حد خطرناک ہے، اتنا خطرناک کہ یہ سلوک کی جڑ ہی کاٹ دیتا ہے۔ جب بزرگوں سے اس طرح کا رویہ دیکھا تو توجہ اور تصرف کی باتیں ختم کر دیں۔ اگر توجہ وغیرہ کرنی بھی ہو تو بغیر بتائے کر لیتے ہیں۔ لہٰذا آج کے حالات میں یہی بہتر ہے کہ اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں، کیونکہ لوگوں کے اندر بے حد کمزوری آ گئی ہے۔ لوگ اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کی باقاعدہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمیں کچھ بھی نہ کرنا پڑے۔ بہت سارے سالکین ہمیں خطوط لکھتے ہیں، اپنے حالات بتاتےہیں کہ حضرت ہم سے کچھ نہیں ہو پا رہا، نماز نہیں پڑھی جا رہی معمولات وغیرہ بھی نہیں ہو پا رہے، کچھ توجہ فرمائیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں کرنا آپ ہی سب کچھ کریں۔ حالانکہ شیخ کا کام طریقہ بتانا ہے، اس پر عمل کرنا سالک کا اپنا کام ہے۔ جیسے ڈاکٹر کا کام دوائی تجویز کرنا ہے، اور مریض کا کام اس دوائی کو ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق استعمال کرنا ہے۔ ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق دوا استعمال نہ کرنا اور ڈاکٹر سے توجہ کا طالب رہنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ اسی طرح شیخ کی ہدایات پر عمل کیے بغیر محض توجہ سے کام نہیں ہوتا۔ خود سے کچھ کرنا پڑتا ہے۔

سوال نمبر 10:

تصوف میں ”قبض“ اور ”بسط“کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ان کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

قبض سے مراد وہ حالت ہے جس میں انسان کی طبیعت ایسی ہو جائے کہ اعمال کرنے کو جی نہ چاہے، دل پر ایک اندھیرا سا محسوس ہو۔ دل پتھر سا محسوس ہونے لگے۔ اس حالت میں انسان بڑی مشکل سے اعمال ادا کرتا ہے۔ یہ ایک حالت ہے جو سالک پہ اس کے علاج کے لئے طاری کرائی جاتی ہے۔

بسط سے مراد وہ حالت ہے جس میں انسان میں کام کرنے کا ایک جوش و ولولہ اور شوق ہوتا ہے۔ وہ نماز کے لئے بڑے شوق سے جاتا ہے، تلاوت بڑی محبت کے ساتھ کرتا ہے، ذکر بہت شوق سے کرتا ہے اور ایک خوشی کی حالت اس کے دل پہ طاری ہوتی ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے اعمال بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے قبض اور بسط کی مثال دن اور رات سے دی ہے۔ جیسے دن اور رات مسلسل تبدیل ہوتے رہتے ہیں،دونوں کے اپنے اپنے فائدے ہیں، اسی طرح قبض اور بسط دونوں اپنے اپنے فائدے رکھتے ہیں۔ نہ مکمل بسط انسان کے لئے مناسب ہے نہ ہی مکمل قبض مناسب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بسط کی حالت میں انسان کو عمل کی تحریک ہوتی ہے۔ جب انسان کام کرتا ہے اور نیک اعمال ایک تسلسل سے کرنا شروع کرتا ہے تو اس کا نفس عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ اس پہ قبض کی حالت ڈال دیتے ہیں اور نیک اعمال کرنا اس کے لئے سوہان روح بن جاتا ہے، جس سے اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیک اعمال میری بزرگی کی وجہ سے نہیں ہو رہے تھے بلکہ وہ اللہ کا فضل تھا، یہ سوچ کر وہ توبہ تائب ہوتا ہے اور اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔

یہ بزرگی کی سوچ آسانی سے نہیں نکلتی۔ کوئی کتنی ہی کتابیں پڑھے اور کتنی ہی علمی باتیں جان لے لیکن یہ بزرگی کی باتیں اور عجب انسان کے دل سے نہیں نکلتے، کسی گوشے میں پڑی ہوتی ہیں اور اسے ڈستی رہتی ہیں۔ ان کا علاج قبض کی حالت سے ہوتا ہے۔ جب قبض کی حالت آتی ہے تو انسان کے اوپر اپنا آپ کھل جاتی ہے کہ میں کیا ہوں، کتنے پانی میں ہوں، میری تو کوئی حالت ہی نہیں، میں تو اپنے ایمان کو باقی رکھنے سے بھی معذور ہوں۔ اگر اللہ میری مدد نہ کرے تو ایمان ہی چلا جائے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ پر بھی ایک بار قبض کی حالت طاری ہوئی تھی۔ وہ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میری حالت ایسی ہو گئی تھی میں تمام چیزوں سے مایوس ہو گیا تھا، مجھے اپنی زندگی بوجھ محسوس ہو رہی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ اپنے آپ کو ختم کرلوں۔بارہا دل میں یہ خیال آتا تھا کہ بندوق لے کر اپنے آپ پہ فائر کرکے اپنے گندے وجود سے دنیا کو پاک کر لوں۔ کہتے ہیں اللہ کا شکر کہ اللہ تعالی نے مجھے بچا لیا،شیخ کی توجہ کام آ گئی۔ حضرت حاجی صاحب نے پہلے سے ان کو بتا دیا تھا کہ ایک حالت آپ کے اوپر آئے گی۔ اس میں جلدی نہیں کرنا۔ لیکن جب یہ حالت آتی ہے تو اس وقت آدمی کو ساری باتیں بھول جاتی ہیں۔ فرمایا اب بھی مجھے وہ حالت یاد آتی ہے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن اس کا فائدہ یہ ہواعجب کی جڑ ہی کٹ گئی۔ اب کبھی تصور بھی نہیں آ سکتا کہ میں کچھ ہوں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک آدمی آیا تو حضرت نے اس سے پوچھا کس نیت سے آئے ہو۔ اس نے کہا بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی نیت سےآیا ہوں۔ فرمایا: بڑی لغو نیت کی ہے، اب اگر میں قسم کھاؤں کہ تو مجھ سے بڑا بزرگ ہے۔ پھر کیا کرو گے؟

اپنے بزرگ نہ ہونے کا یقین جو انہیں حاصل ہوا تھا وہ اسی چیز سے حاصل ہوا تھا۔

اگر یہ قبض نہ ہو تو انسان حالت بسط میں اپنے آپ کو عجب سے نہیں بچا سکتا۔ اس لئے اللہ جل شانہ ان دونوں حالتوں کو اپنے بندوں پر اپنی صوابدید کے مطابق لاتے رہتے ہیں۔

سوال نمبر 11:

اگر کوئی صاحب بیعت ہونے کے بعد بھی پوری طرح سے گناہ نہ چھوڑ سکے تو اس کاکیا علاج ہے؟

جواب:

اگر کوئی ڈاکٹر کے پاس جا کر اس سے نسخہ لینے اور دوائی پینے کے بعد بھی اسی وقت ٹھیک نہ ہو سکے تو اس کو کیا کرنا چاہیے؟ مثلاً ٹی بی کے علاج میں نو مہینے دوائی کھانا ہوتی ہے۔ بعض دفعہ 18 مہینے تک علاج چلتا ہے۔ ایک آدمی نے دوائی شروع کر لی اور دو دن کے بعد کہتا ہے کہ میں تو ٹھیک نہیں ہوا۔ کیا خیال ہے اس کی بات ٹھیک ہے؟ اس کی بات بالکل غلط ہے۔ فوراً ٹھیک ہونا تو کسی طرح کے علاج میں ممکن نہیں ہے۔ سکول داخل ہونے کے ساتھ ہی آپ کا ایم ایس سی نہیں ہو جاتا۔ ہر چیز کا اپنا وقت ہوتا ہے اور ایک خاص کوشش مطلوب ہوتی ہے۔ آج کل لوگوں میں تعجیل کی بیماری بہت زیادہ ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے جو موانع سلوک بتائے ہیں ان میں سے ایک مانع تعجیل بھی ہے۔ تعجیل کا مطلب فوری طور پر نتیجہ کا منتظر رہنا ہے۔ ابھی میں نے کام شروع ہی نہیں کیا اور مجھے ٹھیک ہونا چاہیے، یہ تعجیل ہے۔

تصوف میں کہا جاتا ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ مناسبت ہو اور اس کے اوپر اعتماد ہو۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ شیخ کی بات پر اعتماد کرے، عمل کرے اور نتیجہ اللہ پہ چھوڑ دے۔ سالک کا کام صرف معمولات کرنا اور اپنے احوال بتانا ہے۔ سالک کا کام یہ نہیں کہ میں اتنی مدت کے اندر ٹھیک کیوں نہیں ہو گیا۔

بیعت کرنے بعد فوراً کوئی بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ بیعت تو ایک معاہدہ ہے کہ میں اپنا علاج شیخ سے اس کی ہدایات کے مطابق پابندی سے کرواؤں گا۔ اگر کوئی بیعت کے بعد شیخ کی ہدایات پہ عمل شروع کر دیتا ہے تو وہ ٹھیک ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

کمال کی بات یہ ہے کہ جسمانی بیماری میں تو آپ اپنے ٹھیک ہونے کو محسوس کرتے ہیں لیکن سلوک میں ٹھیک ہونے کو محسوس نہیں کریں گے بلکہ ٹھیک نہ ہونے کو محسوس کریں گے۔ پہلے جن چیزوں کو آپ بیماری نہیں سمجھتے تھے، پہلے جن چیزوں سے غفلت تھی، وہ غفلت کی پٹی اب آنکھوں سے ہٹنے لگے گی، جتنی پٹی ہٹے گی اتنی اپنی برائیاں نظر آئیں گی، نتیجتاً آپ سمجھیں گے کہ میں تو اور برا ہو گیا، حالانکہ آپ اچھے ہو رہے ہیں، آپ کی نظر improve ہو رہی ہے، آپ کو اب نظر آنے لگا ہے۔

حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اپنے آپ کو نابکار،سیاہ کار،خطاکار اور پتا نہیں کیا کیا کہتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا دل اتنا شفاف ہو چکا تھا اور ان کی نظر اتنی تیز ہو چکی تھی کہ انہیں اپنے میں برائیاں ہی نظر آتی تھیں۔ لہٰذا اس میں تعجیل نہیں کرنا چاہیے۔ جو شیخ کی طرف سے بتایا جائے اس کے اوپر عمل کرے اور عمل کرنے کے بعد شیخ پر اعتماد کر لے کہ ان شاء اللہ اس سے آہستہ آہستہ میرے سارے کام ٹھیک ہوتے جائیں گے۔ ساتھ ساتھ اللہ پاک سے دعا کرتے رہیں کہ اے اللہ! جس مقصد کے لئے میں نے اس راستہ کو پکڑا ہے اس مقصد کو پورا فرما۔ میں تو یہی کر سکتا ہوں باقی تیری مدد ہو گی تو کام ہوگا۔ اللہ جل شانہ سے دعا، شیخ پر اعتماد، معمولات کا اہتمام اور شیخ سے رابطہ یہ تمام چیزیں سلوک طے کرنے کا ذریعہ ہیں۔ تعجیل سلوک طے کرنے سے مانع ہے۔ اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔

سوال نمبر 12:

حضرت دوران سلوک شیخ سے اپنے عیوب کی اصلاح کروانے کا کیا طریقہ کار ہوتا ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں یہ معمول تھا کہ جن لوگوں کو بیعت کر لیتے تھے ان سے فرماتے تھے کہ تم اپنے اندر غور کر لو، جو عیوب نظر آ رہے ہوں، وہ مجھے لکھ بھیجو۔ یہاں یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ حضرت فوراً بیعت نہیں کرتے تھے، پہلے اپنے کافی مواعظ اور ملفوظات پڑھوا دیتے تھے اور سالکین کو طریق سلوک کے ساتھ اچھی خاصی مناسبت کرا دیتے تھے۔ اس کے بعد بیعت فرماتے۔ بیعت سے پہلے مواعظ و ملفوظات پڑھانے کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ وہ کم از کم تھیوری کی حد تک تصوف سے واقف ہو جاتے تھےکہ تصوف کیا ہے۔ اب حضرت ان کو فرماتے کہ پوری کوشش کرکے، غور کرکے اپنے عیوب لکھو۔ وہ پرچہ حضرت کو دے دیا جاتا پھر حضرت ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لیتے اور اس کا علاج کرتے تھے، جب اس کا علاج مکمل ہو جاتا تھا پھر اگلے عیب کا علاج چلتا تھا۔ اس طرح سالک شیخ کے ساتھ مسلسل رابطہ میں رہتا تھا۔

ایک بات تو مسلم ہے کہ گناہ نہیں کرنا چاہیے، شیخ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ گناہ مت کرو۔ یہ تو ایک understood بات ہے۔

خیر عیوب بتانے اور ان کی اصلاح کی ترتیب یوں چلتی تھی کہ مرید اپنے عیوب بتاتا اور شیخ ان میں سے ایک منتخب کرکے اس کا علاج شروع کرتے، اس تمام پروسیس کے دوران مرید مسلسل اپنے شیخ سے رابطہ میں ہوتا تھا اور اپنے معمولات و احوال کی اطلاع دیتا رہتا تھا۔ جب اس پہلے عیب کے سلسلہ میں اس کو معتد بہ فائدہ ہو جاتا اور اس کا علاج ہو جاتا پھر اس کے بعد دوسرے عیب کی اصلاح شروع کی جاتی۔ اسی اثنا میں چونکہ مرید کا دل مزید صاف ہو چکا ہوتا اور روحانیت مزید بڑھ چکی ہوتی تھی، اس لئے ان کو اپنے کچھ اور عیوب بھی نظر آ نا شروع ہو جاتے اور وہ اگلی لسٹ میں وہ نئے عیوب بھی بتا دیتے اور حضرت علاج والے عیوب کی لسٹ میں انہیں بھی شامل فرما لیتے اور اس طرح یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہتا تھا۔

سلوک کی لائن میں بتدریج اصلاح ہوتی ہے۔ تمام عیوب کی ایک ایک کرکے اصلاح کرائی جاتی ہے۔ مرید کا کام اطلاع کرنا ہوتا ہے، شیخ کا کام تجویز کرنا ہوتا ہے، اس تجویز کے اوپر عمل کرنا پھر مرید کا کام ہوتا ہے۔ اس کے بارے میں اطلاع کرنا بھی مرید کا کام ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ عمر بھر جاری رہتا ہے جیسے حضرت خواجہ مجذوب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد اطلاع و اتباع و اعتماد و انقیاد

یعنی اس بات کی اطلاع کہ کیا ہو رہا ہے، پھر جو شیخ فرمائیں اس کا اتباع کرنا۔ اپنے شیخ کو اپنے لئے پورے عالم کے اندر اس مقصد کے لئے مفید سمجھنا۔ پھر اسی کے ساتھ ہی لگے رہنا۔

سوال نمبر 13:

آپ نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ آخرت کے لئے عمل کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ جتنا دنیا کے لئے ہو۔ اگر زیادہ نہ ہو سکے تو اتنا آخرت کے لئے بھی ہو۔ آج کل ہماری جو زندگی گزرتی ہے اس میں عام طور پہ زیادہ ٹائم دفتر وغیرہ میں گزرتا ہے اور باقی سونے میں اور حاجات ضروریہ میں۔ اس تمام وقت میں آدمی اپنے کام کرتے ہوئے آخرت کی نیت کر کے کہہ سکتاہے کہ یہ تمام کام بھی میں آخرت کے لئے کر رہا ہوں۔ کیا یہ درست ہے؟

جواب:

اللہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن﴾(الذاریات: 56)

ترجمہ: ”اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔“

اس سے پتا چلا کہ بندے کو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ عبادت کے لئے زندگی، صحت اور اس کے لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا اس کو حاصل کرنے کے لئے اجازت دی گئی کہ آپ ان چیزوں کے لئے بھی کوشش کریں تاکہ عبادت کے لئے تیار ہو سکیں۔ اس مقصد کو سامنے رکھ کر ان لوازمات میں جو وقت لگایا جائے گا یہ بھی عبادت میں شمار ہو گا لہٰذا مومن کے چوبیس گھنٹے عبادت میں شامل سمجھے جا سکتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایک اللہ جل شانہ کے ساتھ براہ راست تعلق والی چیزیں ہیں اور ایک بالواسطہ تعلق والی چیزیں ہیں۔ بالواسطہ تعلق والی چیزیں براہ راست تعلق والی چیزوں پہ منحصر ہوتی ہیں۔

انسان عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔عبادت میں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ ویسے تو اور عبادتیں بھی ہیں لیکن سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ ایک آدمی اپنے دفتر کے کام یا دوسری ضرورتوں کے لئے نماز کو قربان کر دے تو اس نے بنیاد کو چھوڑ دیا اور لوازمات کو پکڑ لیا۔ لوازمات والی چیزیں عبادت تب بنیں گی جب یہ اصل چیزیں حاصل ہوں گی جو تعلق مع اللہ کی بنیادی چیزیں ہیں۔ جب یہ حاصل ہوں گی تو باقی چیزیں جو ان پر منحصر ہیں انہیں بھی عبادت میں شمار کیا جا سکے گا۔ آپ کا جتنا تعلق، تعلق مع اللہ کی براہ راست چیزوں کے ساتھ مضبوط ہو گا تعلق بالواسطہ والی چیز ہے اس میں اتنی زیادہ جان ہو گی۔

حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ چوبیس گھنٹوں کی ترتیب یوں ہو کہ آٹھ گھنٹے آرام، آٹھ گھنٹے کام اور آٹھ گھنٹے آخرت کے لئے انتظام کرنا چاہیے۔

اس سب میں اصل بات یہ ہے کہ دنیا کو آخرت پر ترجیح نہیں دینی چاہیے بلکہ آخرت کو دنیا پر ترجیح ہونی چاہیے۔ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:

بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰىؕ (الاعلی: 16-17)

ترجمہ: ” لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ “

اللہ جل شانہ نے آخرت کو خیر بھی کہا اور ابقٰی بھی کہا ہے۔ اللہ جل شانہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تمہاری ہر چیز اس کے لئے ہونی چاہیے۔ اس لئے ہم نے یہ کہا کہ اگر آخرت کے لئے دنیا سے زیادہ کوشش نہیں کر سکتے تو کم سے کم اس کے برابر تو کر ہی لیں۔ جتنا اہم دنیا کے کاموں کو سمجھتے ہیں، روحانی لوازمات کو بھی اتنا ہی اہم سمجھیں۔

میں کئی بار ایک لطیفہ سنایا کرتا ہوں کہ ایک بار ہاسٹل کے لڑکوں نے کہا کہ آج فلم دیکھنی ہے۔ کچھ لڑکوں نے کہا نہیں فلم نہیں دیکھتے، آج حلوہ پکاتے ہیں، سردی کے دن ہیں۔ کچھ لڑکوں نے کہا: نہیں، آج ہم پڑھیں گے۔یہ طے ہوا کہ ٹاس کرتے ہیں اگر شیر آ گیا تو فلم، اگر خط آ گیا تو حلوہ اور اگر سکہ کھڑا ہو گیا تو پھر پڑھ لیں گے۔ اب نہ سکہ کھڑا ہوگا نہ طالب علم پڑھیں گے۔ بعض لوگوں کا دین کے معاملے میں یہی فیصلہ ہوتا ہے کہ جب سکہ کھڑا ہو جائے گا تو پھر ہم دین کا کام بھی کر لیں گے۔ ایسا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ اپنے ساتھ دھوکہ ہے۔ میں نے تو یوں ہی لطیفہ سنا دیا لیکن آج کل حقیقت یہی ہے۔ بہت ساری جگہوں پر یہ حقیقت ہے کہ دین کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے۔جب کچھ اور کام نہیں ہو سکتا تو پھر سوچتے ہیں چلو کوئی دین کا کام کر لیں۔ جوانی کی زندگی سب سے زیادہ فعال زندگی ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ فعال حالت ہماری جوانی کی ہوتی ہے۔ جوانی میں لوگ کہتے ہیں جوانی تو مستانی ہوتی ہے ابھی انجوائے کرتے ہیں، یہ دین کے کام بعد میں کر لیں گے۔ بچپن میں کمزوری تھی، جوانی مستانی ہے، بڑھاپے میں پھر کمزوری آ جاتی ہے تو بھی کام کس وقت کرو گے؟ جس نے کرنا ہوتا ہے وہ بچپن سے کرتا ہے۔ جس نے نہیں کرنا ہوتا وہ بڑھاپے میں بھی نہیں کر سکتا۔ ہاں استثنائی صورتیں ضرور ہیں جس کو اللہ توبہ کی توفیق دے دے وہ اخیر میں ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن عمومی طریقہ یہی ہے کہ جو مادیت کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں وہ اخیر تک انیس سے بیس بنانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں حالانکہ قبر میں پیر لٹکائے ہوتے ہیں، لیکن طولِ امل سے پیچھا نہیں چھوٹا۔ جتنی عمر بڑھتی جاتی ہے اتنی حرص بڑھتی جاتی ہے۔ کتنے ہی لوگ ہیں جن کی ملازمتوں کا وقت ختم ہو جاتا ہے لیکن ایکسٹینشنوں کے چکر میں رہتے ہیں۔ انسان کے بالوں کا سفید ہوجانا اس بات کی indication ہے کہ اب بلاوا آیا ہی چاہتا ہے۔ اس وقت انسان کو خوف آنا چاہیےاور آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔

سوال نمبر 14:

تصوف میں ایک اصطلاح ”حب جاہ“ استعمال کی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صدیقین کے قلوب میں سے سب سے آخر میں جو چیز نکلتی ہے وہ حب جاہ ہے۔اس کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

حب جاہ یعنی اپنے لئے کسی دنیاوی مقام کا سوچنا یا اپنے آپ کو دینی مقام کا حق دار سمجھنا۔ یہ حب جاہ کہلاتا ہے یعنی بڑا بننے کا شوق۔ اگر فلسفیانہ انداز میں دیکھا جائے تو حب جاہ ایک انتہائی درجہ کی گھٹیا اور فضول سوچ ہے۔ جس چیز کو کنٹرول کرنے کا اختیار آپ کے ہاتھ میں نہ ہو کسی اور کے ہاتھ میں ہو تو وہ چیز کتنی کمزور ہوگی۔ حب جاہ میں آپ دوسروں سے عزت چاہتے ہیں۔ یہ کام ہی وہ ہے جو دوسروں نے کرنا ہے، آپ کا اپنا تو اس میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر دوسرے آپ کی عزت نہ کریں تو آپ کیا کر سکتے ہیں؟ گویا کہ سارا انحصار دوسروں پر ہے۔ اس میں آدمی بہت سارے حقائق کو بھول جاتا ہے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے کسی نے کہا: تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟

حضرت نے فرمایا: کیوں نہیں،بالکل جانتا ہوں۔ پہلے تم ایک گندہ قطرہ تھے، اب گندگی کے ڈول ہو، اور آئندہ گندگی کے ڈھیر ہو گے۔ یہ حقائق ہیں۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہےکہ ہم گندے قطرے تھے،اب گندگی کے ڈول ہیں۔ ہمارے جسم سے جو بھی چیز باہر نکلتی ہے وہ گندگی ہے۔ حتی کہ سب سے زیادہ پاک چیز تھوک ہے۔ ہمارے جسم سے نکلنے والی کوئی چیز تھوک سے زیادہ پاک نہیں ہوتی۔ لیکن یہ پاک چیز بھی ایسی ہے کہ انسان خود اپنا تھوک نہیں چاٹ سکتا، اتنی کراہت ہوتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک نے پردہ رکھا ہوا ہے ورنہ ہمارے جسم کے اندر کی چیزیں ظاہر ہوں تو کوئی کسی کے ساتھ بیٹھنے کے قابل بھی نہ رہے۔

حب جاہ ایک سوچ ہوتی ہے۔ انسان کے اندر ایک طلب ہوتی ہے کہ لوگ مجھے بڑا سمجھیں۔ صدیقین کے قلوب سے سب سے اخیر میں یہ بیامری نکلتی ہے۔ ایک ہوتا ہے دنیاوی جاہ۔ دنیاوی جاہ یہ ہے کہ میں ایم این اے بن جاؤں، ایم پی اے بن جاؤں، چوہدری بن جاؤں، خان بن جاؤں، سردار بن جاؤں۔ یہ دنیاوی جاہ ہے۔ یہ ظلماتی حجابات ہیں۔ ان سے نکلنا آسان ہے، اگرچہ عام لوگ اس سے بھی تب تک نہیں نکل سکتے جب تک سلوک کے راستے پر نہیں چلتے، لیکن سلوک طے کر کے ان ظلماتی حجابات سے نکلنا آسان ہے کیونکہ انسان اس حالت کو جلدی جان لیتا ہے کہ یہ میرے لئے مفید چیزیں نہیں ہیں۔ اس کے برعکس کچھ نورانی حجابات ہوتے ہیں، مثلاً یہ خواہش کہ میں بزرگ بن جاؤں، صوفی بن جاؤں، شیخ بن جاؤں، مفتی بن جاؤں،شیخ الحدیث بن جاؤں۔ لوگ اسے دین سمجھتے ہیں لیکن یہ بھی دنیا کی چیز بن جاتی ہے، جب تک نیت بالکل خالص نہ ہو اور جب تک مکمل اصلاح نہ ہو چکی ہو۔ ایسی چیزوں کے حب کا نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ جب تک انسان کی مکمل اصلاح نہیں ہوتی تب تک ان چیزوں کی کوئی نہ کوئی شق انسان کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ ایک بزرگ کے پاس کوئی مرید آیا۔ حضرت نے اس کو معمولات وغیرہ دے کر اور توجہات و تصرفات کر کے بڑا زور لگایا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہو سکا، جس حالت پہ آیا تھا اسی حالت پہ رہا۔ حضرت کو بہت پریشانی ہو گئی۔ اس کو بلا کے کہا: بات یہ ہے کہ میں پوری کوشش کر رہا ہوں لیکن آپ کو کچھ فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مجھے بتائیں کہ آپ کی یہاں پر آنے کی نیت کیا تھی؟ اس نے کہا : حضرت میری نیت یہ تھی کہ جو دولت آپ کو اللہ پاک نے دی ہے اگر یہ مجھے مل جائے تو میں بھی اس کو عام کروں اور پھیلاؤں۔ ان بزرگ نے یہ سن کر فرمایا: اوہو، کتا یہاں پڑا ہوا ہے، نکالو اس خبیث چیز کو اپنے دل سے۔ تو نے ابھی سے پیر بننے کی ٹھانی ہے؟ یہ شرک فی الطریقت ہے۔ خبردار جو یہ چیز اپنے ذہن کے اندر لے آئے۔ پھر کچھ توجہ،کچھ ترغیب اس کی نیت خالص کروائی۔تب کہیں جا کر اس کو فائدہ ہونا شروع ہوا اور ماشاء اللہ اس کا سلسلہ چل پڑا۔

حضرت شاہ ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان سے تھے۔ یہ خاندان بڑا اونچا خاندان تھا۔ ان میں طلب بھی تھی، نیت بھی تھی اور عمل بھی کر لیا۔ شیخ تک پہنچ گئے۔ حضرت نے ان کی بڑی دعوتیں کیں کیونکہ ان کے شیخ کے صاحبزادے تھے۔ لیکن انہوں نے اخیر میں کہا کہ حضرت میں ان دعوتوں کے لئے تو نہیں آیا تھا،میں تو وہ نعمت حاصل کرنے کے لئے آیا تھا جو آپ ہمارے ہاں سے لے آئے تھے۔ فرمایا: اچھا! یہ بات ہے۔ سب سے پہلے تو یہ شاہی کپڑے اتار دو۔ اپنے گھر سے خادموں کے کپڑے منگوا کر ان کو پہنچا ئیے اور کہا کہ یہاں ایک حمام ہے اس کے اندر آگ ڈالتے رہنا ہے۔ اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرنا، صرف فرض نماز پڑھنا ہے۔ کھانا آپ کو وقت پہ مل جایا کرے گا۔ اس کو اِس کام پہ لگا دیا اور پھر کئی دنوں تک خبر بھی نہیں لی کہ آج کل اس کی کیا حالت ہے۔ مہینوں کے بعد ایک بھنگن کو کہا کہ آج جب کچرا اٹھا کر لا رہی ہوگی تو تھوڑا سا اس کے اوپر گرا دینا۔بھنگن نے ایسا ہی کیا، انہوں نے اسے گھور کے کہا: نہ ہوا گنگوہ، ورنہ بتاتا۔ بھنگن نے یہ بات جا کر حضرت کو بتائی۔ انہوں نے کہا: اچھا ابھی صاحبزادگی کی بو باقی ہے۔ اس کے بعد پھر وہ اسی معمول پہ چلتے رہے۔ کافی عرصے بعد بھنگن کو کہا کہ آج پھر ویسا ہی کرنا۔ جب اس نے ان کے اوپر دوبارہ کسی بہانے سے کچرا گرایا تو انہوں نے کچھ نہیں کہا بس خاموش رہے، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔ حضرت نے یہ سن کر فرمایا: نہیں،ابھی تھوڑی سی کسر باقی ہے۔ کچھ عرصہ بعد دوبارہ بھنگن سے ویسا کرنے کو کہا، اب کے جب اس نے وہی حرکت کی۔ تو اِنہوں نے اس کا سارا کچرا اکٹھا کر کے اس کی تغاری میں ڈالا اور کہا: میری وجہ سے تمہیں تکلیف ہو گئی معاف کرنا میں نے دیکھا نہیں تھا۔

بھنگن نے اس کی اطلاع کی تو انہوں نے کہا: ماشاء اللہ کام ہو گیا۔

پھر ایک دن حضرت خادموں کے ساتھ شکار پہ نکلے اور ان کو شکاری کتوں کی نگہبانی پہ لگا دیا۔ یہ کمزور تھے کتوں کو سنبھال نہیں پا رہے تھے، انہوں نے ایسا کیا کہ کتوں کی رسیاں اپنی کمر سے باندھ لیں۔ کتے اپنے زور میں بھاگتے رہے، یہ پیچھے گھسٹتے رہے، کبھی جھاڑیوں اور کبھی پتھروں سے ٹکراتے رہے، یہاں تک کہ لہولہان ہوگئے۔

حضرت عبدالقدوس رحمۃ اللہ علیہ خواب میں آئے، کہا کہ میں نے تو تجھ سے اتنی محنت نہیں لی تھی جتنا تو نے اس سے لی ہے۔ اس پر ان کو تنبیہ ہو گئی انہوں نے کہا: دیکھو اس باؤلے کو، کہاں پر ہے۔ دیکھا تو جھاڑی میں گرے پڑے تھے۔

اس وقت اللہ پاک نےان کو ایک خاص تجلی سے نوازا۔ اس تجلی میں اتنے مست ہو گئے کہ تکلیف کا احساس ہی نہ رہا۔ بعد ازاں انہوں بہت کوشش کی کہ وہی تجلی دوبارہ ہو، مگر وہ نہیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے حبس دم کرلیا کہ جب تک وہ تجلی نہیں ہوگی سانس نہیں لوں گا۔ اللہ پاک نے دوبارہ تجلی فرما دی تو ایک دم سانس کھل گئی، جس سے ان کی ایک پسلی ٹوٹ گئی۔ کہتے ہیں کہ غیب سے ایک چمچہ آیا اور انہوں نے منہ میں ڈال لیا۔ اس کے ساتھ غیب سے آواز آئی کہ اپنے پیر سے کہہ دینا کہ چوزوں کی یخنی پلوا دے۔ پھر چوزوں کی یخنی پلوا دی گئی، تو صحت مند ہو گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کو انعام نصیب فرما دیا۔ ان کے شیخ نے فرمایا کہ جو ہم آپ کے گھر سے لے کے آئے تھے اب تم لے کے جا رہے ہو۔

چشتیہ سلسلہ میں یہ معمول تھا کہ مجاہدات کرواتے تھے۔ زیادہ تر مجاہدات کرواتے تھے اور اخیر میں کچھ تھوڑے بہت ذکر ذکر اذکار دے دیتے تھے۔ شیوخ کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سب سے پہلے اس حب جاہ کے مرض کو نکالیں۔ یہ ہر مصیبت کی جڑ ہے۔ یہ ام الامراض ہے۔ لہٰذا اس کو پہلے نکالتے تھے بعد میں باقی چیزیں ہوتی تھیں۔ یہی سب سے بڑی گندگی ہوتی ہے، اگر یہ ختم ہو جائے تو باقی چیزوں کا اتنا مسئلہ نہیں ہوتا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن