سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 124

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال نمبر1:

کیا اللہ کی محبت میں مزہ ہوتا ہے؟

جواب:

اللہ جل شانہ کی محبت میں دونوں چیزیں ہو سکتی ہیں، مزہ بھی ہو سکتا ہے اور ڈر بھی ہو سکتا ہے۔ محبت والا تعلق ڈر سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کو چونکہ اللہ کے ساتھ بہت محبت تھی اس لئے اللہ نے اگر آپ ﷺ کو کوئی ایسی بات بتانی ہوتی جس میں تنبیہ و تربیت کا پہلو ہوتا تھا تو اس میں سب سے پہلے یہ فرمایا جاتا کہ اللہ نے آپ کو معاف کر دیا ہے۔ کیونکہ محبت والے تعلق میں ناراضگی برداشت نہیں ہو سکتی۔ محبت والا خوف بھی بہت زیادہ ہوتا ہے، محبت میں مزہ بھی ہوتا ہے۔ تقویٰ میں یہ دونوں چیزیں (خوف اور محبت) شامل ہو جاتی ہیں۔ اللہ کے ساتھ کوئی مزے کے لئے محبت، اللہ کی محبت ویسے ہی مطلوب ہے۔

سوال نمبر 2:

ابتدائی وظیفہ کے درمیان نماز کا وقت آ جائے، اور وظیفہ چھوڑ کر نماز پڑھ لی جائے تو کیا یہ ٹھیک ہے؟

جواب:

جی ایسا کرنا درست ہے، اس سے وظیفہ میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ لیکن اس میں بے ترتیبی اور بے سلیقگی کا پہلو ضرور ہے۔ وظیفہ ایسے وقت شروع ہی کیوں کیاجس کے درمیان نماز آئے۔ اس وقت شروع ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسے وقت میں شروع کرنا چاہیے جو اطمینان کا وقت ہو، سکون کا وقت ہو، توجہ کا وقت ہو، درمیان میں نماز کا وقت نہ آئے، درمیان میں بولنے کی ضرورت پیش نہ آئے، تاکہ وظیفہ کے اثر میں کمی نہ ہو۔ نماز فرض ہے نماز ہر صورت پڑھنی پڑے گی، جماعت کی نماز واجب ہے۔ اس وجہ سے نماز پڑھنی پڑے گی اور وظیفہ چھوڑنا پڑے گا۔ لیکن اس بے ترتیبی کا نقصان ضرور ہو سکتا ہے۔ اب اگر وظیفہ کے لئے نماز چھوڑ دی تو یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ اور وظیفہ چھوڑ دیا تو بے ترتیبی کا نقصان ہے۔ لہٰذا ایسے وقت میں وظیفہ شروع کرنا چاہیے جس کے درمیان میں نماز نہ آئے۔

سوال نمبر3:

میں اکثر جب چائے، کافی یا cold drink پیتا ہوں تو اس کے بعد کلی کیے بغیر نماز پڑھتا ہوں۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب:

مذکورہ بالا چیزیں پینے کے بعد کلی کیے بغیر نماز پڑھ سکتے ہیں، نماز تو ہو جاتی ہے لیکن یہ خلاف سنت ہے۔ اگر کوئی ایسی چیز جس کا ذائقہ منہ میں رہتا ہو، کھا لی جائے یا پی لی جائے تو اس ذائقہ اور اثر کو کلی کر کے دور کرنا چاہیے، پھر نماز پڑھنا چاہیے۔

سوال نمبر4:

با جماعت نماز میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ کیا اہمیت ہے؟

جواب:

اس کی اہمیت اس کے اجر وثواب سے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس کا اجر بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ حدیث شریف کے مطابق اگر چالیس دن تکبیر اولیٰ کے ساتھ با جماعت نماز پڑھی جائے تو نفاق اور جہنم سے آزادی کا پروانہ مل جاتا ہے۔ لہٰذا اس کی بہت بڑی اہمیت ہے۔

سوال نمبر5:

جیسے قرآن پاک کی تلاوت کے لئے وضو کرنا ضروری ہے، کیا حدیث کی کتابیں پڑھنے کے لئے بھی وضو ضروری ہے؟

جواب:

قرآن پاک کی تلاوت کے لئے تو وضو کرنا واجب ہے اور شرط ہے۔ وضو کیے بغیر قرآن پاک کو چھونا ہی گناہ کا باعث ہوگا۔ لیکن حدیث شریف اور تفسیر کی کتب کو بغیر وضو کے ہاتھ لگانا جائز تو ہے مگر خلافِ ادب ہے۔ با ادب با ہنر، بے ادب بے نصیب۔ اس وجہ سے ادب کا تقاضا یہ ہے کہ حدیث شریف کی کتابیں بھی بغیر وضو کے نہ پڑھی جائیں۔ البتہ جس میں اردو کی تحریر زیادہ ہو، اس کو بغیر وضو کے پڑھا جا سکتا ہے لیکن اس میں بھی بہتر یہی ہے کہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وضو کر کے پڑھا جائے۔ البتہ اگر کبھی کبھی بغیر وضو کے پڑھنا پڑ جائے تو ٹھیک ہے لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے۔

سوال نمبر6:

السلام علیکم !

What should I do with this کینہ that I have in my heart just can’t bear this? There is one person whom I hate so much I don’t like to hear his voice, see his face and even if I see him in my dream, I don’t like it at all.

Yesterday when I was feeling low I cried and told everything to اللہ تعالی that was in my heart how I hate that person very much why did he put me along such people whom I can’t bear at all even my daughter who is same like me feels very uncomfortable with him I want صحبت صالحین I can’t tell you about him but اللہ تعالیٰ knows everything who he is I know the hatred that I have is something very bad but what should I do in this I know sooner or later you would also tell me to fulfill his rights as well as because that it would be against the desire my نفس and it would be hard for me even the thoughts of it so scary.

جواب:

یہ ایک خاتون کا سوال ہے۔ اندرونی حالات کا تو اللہ کو پتا ہے۔ واللہ اعلم کیا صورت حال ہے۔ جب تک پوری بات صاف نہیں ہو گی اس وقت تک یقینی بات نہیں کی جا سکتی۔ البتہ جہاں تک کینہ کا تعلق ہے، اس کی وضاحت عرض کر دیتا ہوں۔ ایک ہوتا ہے کینہ اور ایک ہوتی ہے عدم مناسبت۔ بعض لوگوں کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی۔ مناسبت نہ ہونا ایک غیر اختیاری چیز ہے لہٰذا اس کے اوپر کوئی گرفت نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی کسی کے ساتھ بات نہ کرنا چاہتا ہو، کسی کی آواز نہ سننا چاہتا ہو اور اس کی وجہ عدم مناسبت ہو۔ تو اس پہ کوئی گرفت نہیں ہے۔ البتہ اس سے اگر اس کا کوئی حق ٹوٹتا ہے تو پھر اپنے اوپر جبر کرکے اس کو پورا کرنا پڑے گا۔ مثلاً جس کے ساتھ عدم مناسبت ہے، وہ پڑوسی ہے تو پڑوسی کے حقوق ادا کرنے پڑیں گے۔ یا رشتہ دار ہے تو رشتہ داروں کے حقوق پورے کرنے پڑیں گے، چاہے دل مانے یا نہ مانے۔ اگر کوئی عدم مناسبت کے باوجود حقوق پورے کرے گا تو اس کو بہت زیادہ اجر ملے گا۔ حقوق پورے کرنے پڑیں گے، اگر پورے نہیں کرتا تو گرفت ہوگی، لیکن پسند نہ کرنے پہ کوئی گرفت نہیں کیونکہ یہ غیر اختیاری چیز ہے۔ غیر اختیاری چیزوں پہ گرفت نہیں ہوا کرتی۔ ایک بات اچھی طرح جان لیں کہ غیر اختیاری پہ کوئی گرفت نہیں ہے اور اختیاری میں سستی نہیں کرنی چاہیے۔

کینہ اس کو کہتے ہیں کہ کسی کے بارے میں دل میں غصہ رکھا جائے،اس کے لئے برا سوچا جائے اور اس کو نقصان دینے کی کوشش کی جائے۔ نقصان پہنچانے کا ارادہ دل میں ہو۔ چونکہ آپ نے اپنے سوال میں یہ نہیں کہا کہ آپ کے دل میں ایسا کوئی ارادہ ہے، اس لئے ہم اس کو کینہ نہیں کہتے، ہم اس کو عدم مناسبت کہیں گے۔

سوال نمبر7:

حضرت صاحب! اکرام مسلم کے بارے وضاحت فرما دیں کہ اکرام مسلم کا کیا مطلب ہے اور اس کےتحت کیا چیزیں شامل ہیں؟

جواب:

اکرام مسلم یعنی مسلمان کا بحیثیت مسلمان اکرام اور عزت کرنا۔ اس کے تحت وہ حقوق آتے ہیں جو اللہ پاک نے ایک مسلمان کےدوسرے مسلمان پر مقرر کیے ہیں۔ وہ حقوق پورے کرنے چاہییں۔ مثلاً : چھوٹوں پر بڑوں کا حق ہے کہ وہ ان کا اکرام کریں۔بڑوں پر چھوٹوں کا حق ہے کہ ان پر رحم کریں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرے، فوت ہو جائے تو جنازہ پڑھے، کسی تکلیف میں ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرے۔ کسی کے ساتھ خیر خواہی کر سکتا ہوتو حتی الامکان کرے۔ سلام میں پہل کرے۔ اگر کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دے۔ کوئی مشورہ مانگے تو اسے صحیح اور بہتر مشورہ دے۔ یہ سب مسلمانوں کے حقوق ہیں۔ آج کل ان چیزوں کا خیال صرف ان لوگوں کے لئے رکھا جاتا ہے جن سے تعلق ہو۔ ان حقوق کی بنیاد آپس کا تعلق نہیں بلکہ مسلمان ہونا ہے۔ لہٰذا تعلق ہو یا نہ ہو ہر مسلمان کے ایک دوسرے پر یہ حقوق ہیں اور مسلمان ہونے کی بنا پہ ہی پورے کرنے چاہئیں۔ مثلاً آج کل لوگ جنازوں میں تعلقات کی بنیاد پہ شرکت کرتے ہیں۔ جس کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا اس کے جنازے میں نہیں جاتے۔ سلام بھی تعلقات کی بنیاد پر کرتے ہیں، جن کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا ہے انہی کو سلام کرتے ہیں۔ بڑے بڑے دین دار لوگ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ اور عام مسلمان جس کے ساتھ کوئی تعلق نہ ہو اسے سلام کرنے میں پہل نہیں کرتے۔ یہ تمام حقوق تعلق داروں اور رشتہ داروں کے نہیں بلکہ مسلمانوں کے حقوق ہیں۔

تبلیغی جماعت میں اس چیز کو باقاعدہ سکھایا جاتا ہے۔ ان کے 6 نمبروں میں ایک نمبر اکرام مسلم کا بھی ہے۔ اصل میں تو یہ نمبر اس لئے شامل کیا گیا تھا کہ تبلیغی جماعت کا کام سارے مسلمانوں کو جوڑنا تھا اور اکرامِ مسلم ہو تو مسلمانوں میں جوڑ زیادہ مضبوط ہوگا۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ تبلیغ جماعت میں آج کل اکرامِ مسلم، اکرامِ مسلم کی بجائے اکرامِ تبلیغی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ جو لوگ تبلیغی جماعت میں جاتے ہیں ان کا تو اکرام ہوتا ہے اور جو تبلیغی جماعت میں نہیں جاتے ان کا اکرام نہیں کرتے، چاہے وہ مسلمان بھی ہوں تو یہ بالکل غلط بات ہے۔ یہ بالکل ایسے ہے جیسے تعلق کی بنیاد پر کوئی سلام کرے۔

ایک دفعہ ہم walk کر رہے تھے تو ایک اچھا خاصا متشرع آدمی ہمارے پاس سے بغیر سلام کے گزر گیا۔ سلام کے کچھ اصول ہیں کہ سست رفتار والا تیز رفتار والے کو سلام کرے گا۔ کھڑا ہوا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے گا۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے گا۔ بہرحال وہ ہمارے پاس سے گزر گیا اور سلام نہیں کیا۔ مجبوراً میں نے کہا: الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو سلام کرنا چاہیے۔ اس نے پھر رک کر پیچھے دیکھا اور سلام کیا۔ تو بغیر سلام کے مسلمان کے پاس سے گزرجانا غلط بات ہے۔ مسلمانوں کا یہ حق بہت واضح ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

”اَفْشُوْا السَّلَامَ وَ اَطْعِمُوْا الطَّعَامَ وَ صِلُوْا الْاَرْحَامَ صَلُّوْا وَالنَّاسُ نِیَامٌ تَدْخُلُوْا الْجَنَّۃَ بِالسَّلَام“ (سنن ترمذی، رقم الحدیث: 1854)

ترجمہ: ”سلام پھیلاؤ اور کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو رشتہ داروں کا حق ادا کرو اور اس وقت نماز پڑھو جب باقی لوگ سو رہے ہوں۔ پھر جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ“۔

اس وجہ سے ہم لوگوں کو مسلمانوں کا اکرام بحیثیت مسلمان کرنا چاہیے۔

جرمنی میں ہمارے ایک ساتھی تھے، ان کے ساتھ اکثر ملنا جلنا ہوتا تھا۔ وہاں ترک حضرات بہت ہیں۔ ہمیں خود قومی سطح پہ ترکوں کے ساتھ محبت ہے۔ پاکستانیوں کو ترکوں کے ساتھ اور ترکوں کو ہمارے ساتھ بہت محبت ہے۔ میں نے ترکوں کی کچھ تعریف کی تو اس ساتھی نے کہا : دیکھ لیجئے گا آپ کا شوق پورا ہو جائے گا بہت جلدی پتا چل جائے گا کہ یہ کیسے ہیں، شاید ان کی ترکوں کے ساتھ کوئی مخالفت رہی ہوگی۔

میں نے کہا: ”زیادہ سے زیادہ آپ یہ ثابت کر لیں گے کہ یہ بہت ہی گناہ گار لوگ ہیں، اس سے زیادہ تو کچھ ثابت نہیں کر سکتے، ہیں تو یہ مسلمان ہی، ایک طرف ایک گناہ گار مسلمان کو ترازو کے پلڑے میں بٹھا دو اور دوسری طرف سارے کافر جرمنی کو بٹھا دو، اللہ کے نزدیک یہ گناہ گار ترک مسلمان اس پورے غیر مسلم جرمنی سے بھاری ہے، آپ ایمان کی طاقت کو کیا سمجھتے ہیں! ایمان بہت بڑی چیز ہے اور ایمان کی قدر کرنی چاہیے، ایمان کے ساتھ محبت کرنی چاہیے، جس دل میں ایمان ہے چاہے جیسا بھی ہے لیکن ہے تو مومن، لہٰذا اس کا اکرام لازم ہے“۔

آج کل اس چیز کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ بہت سارے لوگ مسلمانوں کے اندر کیڑے نکالتے ہیں۔ خدا کے بندو تیز آندھی میں ہوا کے مخالف چلنا اور ہوتا ہے،اور ہوا کی سمت میں چلنا اور ہوتا ہے۔ مسلمان کے لئے نفس و شیطان کی مخالفت سے بھری ہوئی فضا ہے۔ وہ ہوا کے مخالف سمت چل رہا ہے تو رفتار ضرور متاثر ہو گی۔ جبکہ کافر تو جدھر کی ہوا ہے ادھر جا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمانوں کا تقابل مت کرو۔ مسلمان چاہے کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو وہ مسلمان ہے اور اللہ پاک کے ہاں اس کا ایک مقام ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ ان کا اکرام بحثیت تعلق دار نہیں، بحیثیت تبلیغی نہیں، بحیثیت پیر بھائی نہیں اور بحیثیت مدرسہ کا طالب نہیں بلکہ بحیثیت مسلمان کرنا چاہیے۔ مسلمان مسلمان ہے، چاہے جیسا بھی ہے۔

سوال نمبر8:

صلہ رحمی سے کیا مراد ہے اور اس کی حد کہاں تک ہے نیز یہ بھی رہنمائی فرما دیجیے کہ کس رشتہ دار کا کتنا حق ہوتا ہے؟

جواب:

ہر عمل کے دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک کم سے کم درجہ ہوتا ہے، اگر اسے بھی پورا نہ کریں تو اللہ پاک کی طرف سے پکڑ ہوتی ہے اور ایک وہ درجہ ہوتا ہے جس پہ نہ صرف یہ کہ وہ عمل ذمہ سے اترتا ہے بلکہ اس پہ انعام بھی ملتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں مختلف ہیں۔ اس سلسلے میں پکڑ اس بات پہ ہوتی ہے جب کسی کا حق مارا جائے، اس کا حق اسے نہ دیا جائے۔ جب آپ رشتہ دار کے ساتھ احسان کرتے ہیں تو اس پر اللہ پاک بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں، اور آپ انعام کے مستحق ہوتے ہیں۔ ایسا شخص جو رشتہ توڑے اس کے باوجود اس کے ساتھ رشتہ جوڑا جائے تو اس پر بہت زیادہ اجر بتایا گیا ہے۔ اگر کوئی اس حد تک صلہ رحمی نہیں کر سکتا کہ توڑنے والوں سے بھی جوڑنے کا حوصلہ رکھتا ہو تو کم از کم وہ کسی کا حق دبائے نہیں، بلکہ ان کے حقوق ان کو دے دے، اس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالے۔ رشتہ داروں میں جو لوگ زیادہ قریبی ہیں، ان کا حق سب سے زیادہ اور سب سے پہلے ہوتا ہےجیسے والدین، بہن بھائی اور اولاد۔ اس کے بعد اسی حساب سے باقی رشتہ داروں سے معاملہ ہوگا۔

کلام

پیغامِ محبت سے ایک غزل پیش ہے جس کا عنوان ہے ”وہ مرے دل میں رہے“


اس کے وعدوں پہ یقیں کرتے ہوئے یاد سے اس کی سکوں پاتا رہوں دل مرا اس کی یاد سے ہو پُر شکر اس کا میں بجا لاتا رہوں عشقِ الٰہی کے سمندر کا میں شناور بنوں اور مست رہوں دنیا سو بھیس بدل کے آئے اس سے دامن اپنا بچاتا رہوں یاد اس کے لئے وقف میرا ذرہ ذرہ جو میرے جسم کا ہے ہر وقت اتنا خوش نصیب بنوں کہ اس کی یاد میں میں آتا رہوں دل مرا تخت ہے تجلی کا وہ کہ جو سب سے بے نیاز کرے اس تجلی کے میں آثار پھر خود ایسے عشاق کو سناتا رہوں دنیا ظلمت ہے اور بوجھ ہے اک اس سے ہجرت کروں اور دور رہوں ذکر کے نور سے پر نور رہوں اور اسی نور میں نہاتا رہوں دکھ یہاں کے جو ہیں وہاں کے ہیں سکھ اس کا انعام گر سمجھتا رہوں سکھ وہاں جو بھی ملیں ان پر وہ خود کو میں بار بار سمجھاتا رہوں بس مرا دل قبول ہو جائے باقی اعضا تو اس کے خادم ہیں وہ مرے دل میں رہے اور میں دل سے اس کے احکام بجا لاتا رہوں آنکھ اٹھے تو وہ اس طرف ہی اٹھے کان سنیں وہ ہو جو پسند اس کو اور زبان پر ہو حمد جاری شبیرؔ زیرِ لب اس کو گنگناتا رہوں

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ ایسا تعلق ہو جائے کہ اس کے وعدوں پہ یقین ہو،اس کے ساتھ محبت ہو اور میرا ہر کام اس کے لئے بن جائے۔

اللہ کے بندوں پر رحم

رحم کر اس کے بندوں پر تو ہو گا رحم تجھ پر بھی کہ بندے اس کا کنبہ ہیں خبر لے اس کے کنبہ کی مگر وہ لوگ جو دشمن ہیں کنبہ کے رحم کرنا ہے ظلم مظلوم پر تو نہ ان کے ساتھ ہو تیری

تواضع

جس نے جو اس کے واسطے خود کو گرا لیا اس قدر داں نے اس کو تو اوپر چڑھا لیا ناداں نے سر اٹھا کے خود کو کر دیا معتوب اور جو ہے سمجھ دار اس نے سر جھکا لیا

تشریح:

یعنی جس نے بھی اُس کے واسطے اپنے آپ کو گرا دیا تو اللہ بہت قدر دان ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس نے اللہ کے لئے اپنے آپ کو گرا دیا اللہ نے اس کو اوپر اٹھا دیا۔ نادان سر اٹھا لیتا ہے اور عتاب میں آ جاتا ہے اور سمجھدار آدمی سر جھکا لیتا ہے۔ آپ ﷺ سب سے زیادہ سمجھدار تھے۔ فتح مکہ کے موقعہ پہ آپ ﷺ کی یہ حالت تھی کہ آپ ﷺ کا سر مبارک اتنا جھکا جاتا تھا کہ سواری کے ساتھ لگ رہا تھا۔ غایتِ تواضع کے سبب آپ ﷺ یہ سوچتے تھے کہ اللہ پاک نے اتنا بڑا انعام عطا فرمایا ہے کہ مجھے اس جگہ سے نکالا گیا تھا، اب اللہ پاک فاتحانہ انداز میں یہاں پر داخل کروا رہا ہے تو بجائے اس کے کہ سر اونچا ہو جیسا کہ عام فاتحین کا ہوتا ہے کہ ان کا سر اکڑ جاتا ہےلیکن وہاں پر اکڑنے والی بات نہیں تھی بلکہ جھکنے والی بات تھی اور یہی اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ کسی نے کہہ دیا کہ آج تو بدلے کا دن ہے۔ آپ ﷺ فرمایا ”أَلْیَوْمُ یوْمُ الْمَرْحَمَةِ “ آج تو رحمت کا دن ہے“۔ لہٰذا ہمیں بھی اپنے اندر تواضع پیدا کرانی چاہیے۔

یہ میرا دل ہے میخانہ

تشریح:

”یہ میرا دل ہے میخانہ“ یہ ایک کیفیت ہے۔ در اصل شاعری میں جو الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں ان کا سمجھنا ضروری ہے، تب ہی اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ میخانہ سے مراد شراب خانہ ہے۔ ایک دنیا کی گندی شراب ہوتی ہے جس سے ہوش اڑ جاتا ہے اور ایک اللہ کی محبت کی شراب ہوتی ہے جس سے بندہ کو ہوش آ جاتا ہے انسان اللہ پاک کو پہچان لیتا ہے۔ جو اللہ کو پہچان لیتا ہے اس کے سارے کام درست ہو جاتے ہیں۔ ہماری شاعری میں شراب سے مراد اللہ کی محبت ہوتی ہے اورمیخانہ سے معرفت کا میخانہ مراد ہوتاہے۔

میخانہ جاؤں کیونکر میرا دل ہے میخانہ عاشق تو دل میں چاہے بس محبوب کا آنا دنیا کی میکدوں کی کثافت کو کیا کروں ہم چاہیں اس کی یاد سے ہر دم لطف پانا یہ آنکھ ہو عاشق تو ہر اک چیز میں دیکھے وحدت کے سمندر کے نور کا تانا بانا

تشریح:

عاشق ہر چیز میں اسی کو دیکھ رہا ہوتا ہے، ہر چیز میں اس کو وہی نظر آتا ہے۔ اسی کو وحدت الوجود کہتے ہیں۔ یہ محبت کی ایک کیفیت ہے۔ عاشق کی آنکھ میں تو وہی سمایا ہوتا ہے لہذا وہ جس طرف بھی دیکھتا ہے اس کو وہی نظر آتا ہے۔

؏ جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے

یہ کان ہوں عاشق تو ہر طرف سے سنیں یہ نغمے وہ پوشیدہ کیا اس کا سننا سنانا عاشق زبان گر ہو تو ہر بول میں ہو عشق گرما گرمی عشق سے ہو دلوں کا گرمانا شبیر کوئی پوچھے ہے طریق ترا کیا میرا طریق کیا ہے ہے طریقِ جاناناں

تشریح:

یہ سب عشق و محبت کی کیفیات ہیں۔ ان کیفیات کو اصلاح میں بڑا دخل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے :

حُبُّ الدُّنْیا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ (مسند احمد، باب الذھد، ص: 1187)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے “۔

اب دنیا کی محبت کو ختم کرنے کے لئے اس سے بہتر محبت کو دل میں لانا پڑے گا۔ لوہا لوہے کو کاٹتا ہے اور محبت محبت کو کاٹتی ہے۔ دل ایسی چیز ہے کہ اس میں کسی نہ کسی چیز کی محبت ہر صورت ہوگی ہی، یہ خالی نہیں ہو سکتا۔ اس میں یا دنیا کی محبت ہو گی یا اللہ کی محبت ہو گی۔ اگر دنیا کی محبت ہوگی تو اللہ کی نہیں ہوگی اگر اللہ کی محبت ہوگی تو دنیا کی نہیں ہوگی۔ جیسے جیسے انسان اپنے دل پر محنت کر رہا ہے،دل سے دنیا کی محبت کو نکال رہا ہے اور اس میں اللہ پاک کی محبت کو لا رہا ہے تو دنیا کی محبت کی خباثتیں خود بخود ہی نکلتی چلی جاتی ہیں۔ دنیا کی محبت کی وجہ سے انسان کے اندر بہت سارے امراض قلبی آ جاتے ہیں مثلاً حسد،کینہ،بغض،ریا وغیرہ یہ سارے امراض دنیا کی محبت کی وجہ سے آتے ہیں۔ اگر دنیا کی محبت دل سے نکل رہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت آ رہی ہے تو یہ سب امراض نکل رہے ہیں اور صحت آ رہی ہے۔ یہ ایک طریقہ ہے جس کو طریقِ جذب کہتے ہیں۔ یہ سب سے مختصر، فعال اور ایکٹو طریقہ ہے۔

اب ایک نعت شریف پڑھتے ہیں۔ نعت شریف بھی ایک بہت بڑی دولت ہے، اس کے ذریعے سے انسان کو روحانی صحت حاصل ہوتی ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ محبت اصل میں اللہ کے ساتھ محبت ہے کیونکہ آپ ﷺ کو اللہ نے ایسا بنایا ہے کہ ان کے ساتھ محبت کی جائے۔ جو بھی آپ ﷺ کے ساتھ محبت کر رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی منشا کے مطابق کر رہا ہے لہٰذا آپ ﷺ سے محبت اللہ سے محبت ہے۔

اپنے محبوب کی، محبوب کو میں یاد کروں یاد آنے سے اس کے دل کو اپنا شاد کروں کتنا ہے پیار اس کو ہم سے ہمیں یاد رکھا اب اس کی یاد سے خانۂ دل آباد کروں کتنے آسان طریقے ہیں سکھائے ہم کو دین میں ان کے علاوہ کیوں ایجاد کروں

تشریح:

انسان کی گمراہی کا بہت بڑا حصہ بدعات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جس کو آپ ﷺ کی حقیقی محبت حاصل ہو جائے کیا وہ بدعت میں مبتلا ہو سکتا ہے؟ پھر وہ بدعت میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس کو آپ ﷺ سے محبت ہے وہ آپ ﷺ کے طریقے کو چاہے گا۔ جب آپ ﷺ کے طریقے کو چاہے گا تو سنت چاہے گا، جہاں سنت آئے گی وہاں سے بدعت نکل جائے گی۔ اور جہاں بدعت آتی ہے وہاں سے سنت رخصت ہو جاتی ہے۔ لہذا آپ ﷺ کی محبت بدعات سے بچنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

جو صحابہ تھے فنا اس میں ہو گئے تھے فقط تو عمل میں ان صحابہ کو میں استاد کروں اور پھر ان سے فقہا نے جو حاصل ہے کیا ان کو اخلاص سے میں آج زندہ باد کروں دل مرا دل ہو اس کے دل کی طرح کیسے شبیرؔ تو اس کے واسطے میں صوفی کے دل پہ صاد کروں

تشریح:

ایک تو یہ بات ہے کہ مجھے علم حاصل ہو جائے کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اس کے لیے فقہا ہیں۔ اور ایک یہ بات ہے کہ جیسا دل آپ ﷺ کا تھا ویسا میرا دل بن جائے۔ یہ field فقہا کی نہیں ہے،یہ field صوفیا کی ہے۔ اگر فقہا بھی اس کو کریں گے تو صوفیا کے طریقے پہ کریں گے، وہ بھی صوفیا ہی بن جائیں گے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ صوفی بھی تھے فقیہ بھی تھے۔ تصوف میں تو انہوں نے اس چیز کو صوفیاء سے حاصل کیا اور فقہ میں اپنے استادوں سے حاصل کیا۔ اسی طریقے سے ہر شخص کی مختلف طریقوں سے اپنی حیثیت ہوتی ہے۔

دل سے دنیا اگر نکل جائے پھر خدا خود ہی ہم کو مل جائے توبہ کرنے سے کیا ہوتا ہے معصیت کا پہاڑ ہل جائے جہد ہے نفس کا علاج مگر ذکر سے دل کا باغ کِھل جائے وہ تو دینے پہ تلا ہے لیکن اس کے در پہ کوئی سائل جائے دل اگر بن گیا شبیرؔ تیرا وہاں جانا جہاں پہ دل جائے

تشریح:

دل کا بنانا بہت بڑی بات ہے۔ دل ایک دفعہ بن جائے پھر اس کے بعد ہر کام سے پہلے دل سے پوچھو۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

” اسْتَفْتِ قَلْبَکَ، اسْتَفْتِ قَلْبَکَ، اسْتَفْتِ قَلْبَکَ“

ترجمہ: ” دل سے پوچھو، دل سے پوچھو، دل سے پوچھو“

اس سے مراد یہ ہے بنے ہوئے دل سے پوچھے۔ اگر کوئی دل سے پوچھے گا تو دل صحیح صحیح بات بتائے گا۔ وہ آپ کو آپ کے سوال کے مطابق درست فتویٰ دے گا۔ لیکن یہ آپ اور آپ کے نفس پر منحصر ہے کہ آپ صحیح سوال کرتے ہیں یا غلط۔ نفس کی شرارت غلط سوال بھی کروا سکتی ہے۔ لہٰذا دل بننے کے ساتھ ساتھ نفس کی اصلاح بھی ضروری ہے۔

نہ چاہوں میں اب عاجلہ کی محبت میں مانگوں خدا سے خدا کی محبت اور ان کی بھی اس سے محبت جو رکھیں وہ سب انبیاء اولیاء کی محبت

تشریح:

دراصل یہ دعا آپ ﷺ نے مانگی ہے۔

اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ

ترجمہ: ”اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں“

ذرائع محبت کے ہوں مجھ کو محبوب ملے مسجد و درسگاہ کی محبت مشائخ کی صحبت میسر رہے ملے مجھ کو ہر خانقاہ کی محبت خطاؤں کی جڑ حب دنیا ہے شبیر یہ مال حبِ جاہ حبِ باہ کی محبت

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ ان دنیا کی چیزوں کی محبت کو دور کرنا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ کئی مرتبہ بعض لوگوں کی اصلاح مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔ مثلاً دل پہ کوئی چوٹ لگ جاتی ہے، کوئی نقصان ہو جاتا ہے،کوئی مسئلہ پڑ جاتا ہے جس سے اس کے ساتھ سارا تعلق ختم ہوجاتا ہے، وہ shatter ہو جاتا ہے اور ایسے میں اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف کرنا چاہتے ہیں اس لئے ایک خاص چوٹ ان کے دل پہ لگا کر اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں۔

ایک چوٹ دل پہ لگ گئی جو ضربِ دل بنی تیری خوشی ہے جس میں وہی میری بھی خوشی میں حالِ دل بیان کن الفاظ میں کروں تیری نظر پڑی تو زندگی بدل گئی ایک چوٹ دل پہ لگ گئی جو ضربِ دل بنی تیری خوشی ہے جس میں وہی میری بھی خوشی ایک پیار کی نظر نے مجھے کاٹ ہی دیا جس کے لئے گزر گیا ہر رہ گزر سے ہی ایک چوٹ دل پہ لگ گئی جو ضربِ دل بنی تیری خوشی ہے جس میں وہی میری بھی خوشی کہہ دوں وفورِ عشق سے عاشق ترا میں ہوں پر ہوش سے دیکھوں نظر آؤں کہیں نہیں اس نور کی بارش نے مجھے کر دیا بے کل ایک چوٹ جب لگی تو دل پہ چل گئی چھری اب فکر ہے کوئی نہ کوئی غم مجھے شبیرؔ دنیا کی خواہشات کی پوٹلی ہی جل گئی

تشریح:

اصل بات یہی ہے۔ انسان کے دل میں خواہشات کا پورا ایک steam ہوتا ہے۔ اگر کوئی چوٹ ایسے لگ جائے کہ بس سارے کے سارے جل جائیں تو کام بن جاتا ہے۔ یہی طریقہ طریقۂ جذب ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو چن لیتا ہے اور اِس کے ذریعے سے اُن کی اصلاح فرما دیتا ہے۔


حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب ختم شد وَ اللہ اَعْلَم بِالصَّوَاب

اس شعر پر ایک غزل تضمین کی ہے:

مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب

جہد کن در بیخودی خود را بیاب اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا کر فنا اپنی جو ہے یہ آب و تاب نفس کی آلائشوں کو دور کر چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں اور نہ سنوائے غلط نفسِ خراب خود سے تو گم ہو صرف وہ یاد ہو پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں اور سب کچھ اس کی ہی ہے لاجواب خود کو اپنے عشق میں معدوم کر تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ ترا ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب تو کرے وہی جو چاہے وہ ہی وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب خود کو پہچانو شبیرؔ کہ کیا ہے تو ختم شد وَ اللہ اَعْلَم بِالصَوَاب

تشریح:

اپنے نفس کو درمیان سے ہٹا کر اپنے آپ کو اللہ کی محبت پانے کے لئے فنا کردو۔ تو خود کو پا جاؤ گے۔ ؎

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

اپنی خودی کو ختم کر لو، یعنی نفس کو مٹا دو تو تمہیں بقا مل جائے گی۔ جب تک نفس کی شرارت زندہ ہے اس وقت تک بقا نہیں مل سکتی۔ جب تک یہ نفس کی خودی ختم نہیں ہو گی وہ چیز نہیں آئے گی۔

ایک خاتون نے مجھے خط لکھا کہ میں نے مراقبہ کے دوران دیکھا کہ میں مٹ رہی ہوں ختم ہو رہی ہوں، لیکن میں بڑی حیرت کی شکار ہو گئی کہ جیسے جیسے مٹ رہی تھی ویسے ویسے کسی اور format میں بن رہی تھی، ادھر مٹ رہی تھی اُدھر بن رہی تھی اور یہ process چل رہا تھا۔ یہ کیا چیز ہے ؟

میں نے اسے بتایا کہ یہ فنا اور بقا کا مراقبہ ہے۔ جیسے جیسے انسان فانی ہوتا جاتا ہے اتنا اتنا وہ باقی بنتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت میں جتنا جتنا فانی ہو رہا ہوتا ہے اللہ کے ہاں باقی بن رہا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو تقسیم کرنے کے لئے کچھ گوشت دیا تھا۔ پوچھا: ”کیا وہ گوشت تقسیم ہو گیا ؟“۔ عرض کیا: ”اتنا تقسیم ہوا اور اتنا باقی ہے“۔آپ ﷺ نے فرمایا :”در اصل جتنا تقسیم ہوا وہ باقی ہے اور جو ابھی رہتا ہے وہ باقی نہیں ہے“۔اصل بات یہی ہے کہ جو اللہ کے پاس پہنچ گیا وہ باقی ہے۔ اگر ہمارا کچھ اللہ کے پاس پہنچ گیا،ہم اسی حساب سے باقی بن جائیں گے۔ فنا اور بقا دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ان کا process ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ تو یہاں یہی فرمایاکہ ”جہد کن در بیخودی“ یعنی اپنے آپ کو فنا کرنے میں کوشش کرو،اپنے آپ کو فنا کرو۔ ” خود را بیاب“ پھر اپنے آپ کو پہچانو، خود اپنے آپ کو شناخت کر لو، خود اپنے آپ کو پا لو۔ ”ختم شد وَ اللہ اَعْلَم بِالصَّوَاب“۔ یہ واقعی بہت عجیب مضمون ہے اور یہ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کی کی برکت سے حاصل ہوا ہے۔


خدا کے لئے ہو

یہ ہنسنا یہ رونا خدا کے لئے ہو یہ جاگنا یہ سونا خدا کے لئے ہو خدا کی مدد اور تائید ہووے اگر کام ہونا خدا کے لئے ہو یہ پانا ہے بالکل یہ پانا ہے بالکل اگر خود کو کھونا خدا کے لئے ہو دھلے حبِ دنیا سے دل میرا ہو صاف مگر اس کا دھونا خدا کے لئے ہو جو بوئے یہاں پر وہاں کاٹے شبیرؔ مگر اس کا بونا خدا کے لئے ہو

تشریح:

ہمارا ہر کام خدا کے لئے ہو پھر معاملہ مختلف ہو گا۔ پھر ہمیں وہ چیزیں ملیں گی جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے اللہ پاک کے پاس اتنا کچھ ہے۔


کیا وہ انساں ہے جو مشغول عبادت پہ نہ ہو شکر نعمت پہ نہ ہو صبر مصیبت پہ نہ ہو عافیت مانگتے یا رب ہیں کہ کمزور ہیں ہم پر کہیں داغ خدایا یہ محبت پہ نہ ہو ہم کو بس تیری محبت کا سہارا کافی دل مرا تجھ پہ رہے مال پہ لذت پہ نہ ہو ہم تو دیوانے ہیں تیرے اور یہی چاہتے ہیں دل کا گوشہ کوئی مرکوز وجاہت پہ نہ ہو یہ جہاں تیرا ہے ہم تیرے ہیں سب تیرے ہیں دل کہیں میرا یہ سرشار ملکیت پہ نہ ہو تن آسانی پہ میرا نفس نہ مائل ہو کبھی نفس شرمندہ کبھی میرا مشقت پہ نہ ہو قبول میرے خدایا مرے ہوں قلب و نظر ذہن تاریک نہ ہو قلب بھی ظلمت پہ نہ ہو سامنے تیرے رہوں دل سے ترا بندہ بنوں دل ہو احساں پہ کسی اور کیفیت پہ نہ ہو دل شبیرؔ کرو یاد سے اپنی اپنی روشن تو اسے یاد رہے اِس سے یہ غفلت پہ نہ ہو


دل میں میں یاد اس کو کرتا رہوں اور ہر دم اس کا دم بھرتا رہوں ذرہ ذرہ مرا اس کا جو ہے دے کے اس کو اور اس پہ ڈرتا رہوں مٹتے مٹتے مرا مٹنا بھی مٹے اس طرح روز میں سنورتا رہوں

تشریح:

مٹتے مٹتے میرا مٹنا بھی مٹ جائے۔ اپنے آپ کو اللہ کی محبت میں مٹا دینا فنا کہلاتا ہے۔ اور فناء الفنا کی کیفیت ہوتی ہے، جو اس سے بھی آگے کی کیفیت ہے۔ فناء الفنا یہ ہے کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں مٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا احساس اتنا شدید ہو کہ اس کے سامنے اپنا مٹ جانا بھی کچھ نہ لگتا ہو۔

دل پہ اس کی ہو نظر پیار کی اک ذکر سے اس طرح نکھرتا رہوں دور اغیار مرے دل سے اب سامنے باغ ہے میں چرتا رہوں دل سے دیکھا اسے ہے جب سے شبیر ؔ اس پہ ہر روز اب تو مرتا رہوں

آج کل کے حالات

دنیا کی محبت کا سرا کیا یہاں ملے پھر حبِ الہٰی کی انتہا کہاں ملے

تشریح:

یعنی دنیا کی محبت کا کوئی end نہیں ہے تو اللہ کی محبت کا کیا end ہو سکتا ہے۔

جب اس کی نظر سے کوئی کیسے ہی گر گیا اس کو کیا ملے اگر سارا جہاں ملے

تشریح:

اس کی نظر سے اگر کوئی گر گیا پھر چاہے اس کو پوری دنیا بھی مل گئی تو کیا فائدہ؟ کچھ بھی نہیں ملا۔

جو اس کے پاس بھیج دیا وہ ہی ہے محفوظ کتنا یہاں سے بڑھ کے وہ سارا وہاں ملے کیا حد ہے تباہی کی اسے چھوڑ دیا گر کتنی ہی اس کو یاں پہ دعوت بتاں ملے دنیا کی لذتوں سے وہ لذات ہوں محسوس اور ان کی پھر طلب ہو تو سرِ نہاں ملے

تشریح:

یہ بڑی معرفت کا شعر ہے۔ یعنی دنیا کی لذتیں دراصل وہاں کی لذات کا ایک نمونہ ہیں۔ دنیا کی لذات کے ذریعے آپ کو کچھ تھوڑا سا احساس ہو سکتا ہے کہ وہاں کی لذتیں کیسی ہوں گی۔ مثلاً آنکھ کی لذت، کان کی لذت،زبان کی لذت،سوچ کی لذت۔ یہ سب لذتیں یہاں دنیا میں نامکمل ہیں،ان کی بس ایک جھلک ہمیں دی گئی ہے، لیکن آخرت میں یہ مکمل طور پر موجود ہوں گی۔ اب یہاں پر ان لذتوں کو محسوس کر کے وہاں کی لذتوں کو اِن کے اوپر قیاس کر کے آخرت کا شوق پیدا کیا جا سکتا ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

دنیا کی لذتوں سے وہ لذات ہوں محسوس اور ان کی پھر طلب ہو تو سرِ نہاں ملے اس زیست کے اک کام کا طالب بنوں شبیر بس اس کے ہی ہونے کا جو جذبہ جواں ملے

سوال نمبر9:

اصل تو یہ ہے کہ اللہ ہر وقت یاد رہے۔ یہ ہوتا تو ہے لیکن ہر وقت ایسا نہیں ہوتا۔ بندہ اگر غفلت میں پڑ جائے تو اس سے کچھ غلط کام بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے ایسی کیا ترکیب ہو سکتی ہے کہ انسان کوہر وقت اللہ یاد رہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ اس سوال پہ تو پورا بیان ہو سکتا ہے۔ اللہ کا یاد کرنا اور اللہ کا یاد ہونا، ان دونوں کیفیات کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے۔ اللہ کو یاد کرنا پہلی سٹیج ہے۔ انسان ارادے کے ساتھ اللہ کو یاد کرتا ہے، پھر یہ چیز بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ اللہ یاد ہو جاتا ہے۔ جب اللہ یاد ہو جاتا ہے تو پھر یاد کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔پھر وہ ہر وقت یاد ہوتا ہے۔ لیکن ایسا آسانی سے نہیں ہوتا، کیا خوب کہا گیا ہے:

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے

صوفی اس وقت تک صافی نہیں بن سکتا جب تک عشق کا جام نہ کھینچے اور خام سے پختہ بننے میں بہت لمبا سفر ہے وہ لمبا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔

اللہ ہر وقت یاد رہے۔ اس کا طریقۂ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے لسانی ذکر کی طرف توجہ کی جائے۔ لسانی ذکر میں آپ کی زبان ہر وقت ذکر کر رہی ہوتی ہے، باقی حواس کا اس کے ساتھ ہونا ضروری نہیں ہے کیونکہ ابھی ابتدائی مرحلہ ہے۔ جب آپ کچھ عرصہ لسانی ذکر کرتے ہیں تو اس سے آہستہ آہستہ آپ کا دل بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس کے کچھ عرصہ بعد ساتھ ساتھ آپ کا دل بھی ذکر کرتا ہے۔ اب دل اتنا ذکر کرتا ہے جتنا آپ نے اس کو عادی کیا ہو۔ جیسے آپ مراقبات میں مشق کرتے ہیں تو اس بات کو محسوس کر لیتے ہیں کہ آپ کا دل بھی ذکر کررہا ہے۔

اس کی تفصیل میں نقشبندی اور چشتی حضرات میں ذرا اختلاف ہے۔ نقشبندی حضرات جسم کے مختلف حصوں میں لطائف کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہر جگہ پر ایک sensor موجود ہے جو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو sense کر سکتا ہے،لہٰذا وہ ان لطائف پر بھاری بھاری ذکر کراتے ہیں، ان لطائف کے اوپر ذکر کرتے کرتے سالک سلطان الاذکار تک پہنچ جاتا ہے، اس منزل پہ پہنچ کر جسم کا ذرہ ذرہ ذکر کرتا ہے۔ چشتی حضرات اس طرح نہیں کرتے، وہ حضرات دل پر ہی توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور دل ہی کا ذکر پورے جسم پر پھیل جاتا ہے۔ دونوں طریقوں کے مطابق جب ذکر پورے جسم میں ہونا شروع ہو جائے۔ اس کے بعد مراقبات شروع کرائے جاتے ہیں، جن میں ذکر نہیں ہوتا، بلکہ ان کا تعلق فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی پہلے ذکر ہے اس کے بعد فکر ہے۔ ذکر کے بعد فکر کے مراقبات شروع ہو جاتے ہیں۔ فکر کے مراقبات میں صفات الٰہیہ کے مراقبات ہوتے ہیں۔ مثلاًیہ مراقبہ کرایا جاتا ہے کہ اللہ بڑے ہیں، اللہ علیم ہیں، اللہ مہربان ہیں، اللہ پاک رحیم ہیں۔ آپ مختلف اسمائے الٰہی کی کیفیات اپنے دل پہ طاری کرتے ہیں، جس سے آپ کے دل میں فکر پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ مختلف جگہوں کے ساتھ مخصوص رحمتیں حاصل کرنے کے لئے دوسرے مراقبات کرتے ہیں، جن کی ترتیب مشائخ کی صوابدید اور اجتہادی بصیرت پر منحصر ہے کہ وہ آپ کو کیا کیا کراتے ہیں، مثلاً خانہ کعبہ کا مراقبہ، روضۂ اقدس اور عرش الٰہی کا مراقبہ۔ مختلف جگہوں کے مراقبات کرائے جاتے ہیں۔ مراقبات سے گزرنے کے بعد آخری مرحلہ آتا ہے جسے ”تصورِ ذاتِ بحت“ کہتے ہیں۔ یہ ایسا مراقبہ ہے جس میں آپ کو conceptually کلیئر ہو جاتا ہے کہ اللہ میرے دل میں ہے۔ اس کے لئے الفاظ نہیں ہوتے بلکہ تصور ہوتا ہے۔ اس میں conceptually آپ کو clear ہو جاتا ہے کہ اللہ آپ کے دل میں ہے۔ جب یہ چیز حاصل ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اللہ آپ کو یاد ہو گیا۔ جب دل اس طرح بن جائے گا تو پھر آپ کو اللہ پاک ہر وقت یاد رہیں گے اور آپ کوئی گڑبڑ نہیں کر سکیں گے۔ ”تصور ذات بحت“ والے مرحلے پر سارے سلسلے چشتی، نقشبندی، قادری سہروردی سبھی ایک ہو جاتے ہیں۔ ان سب کا آغاز مختلف راستوں سے ہوتا ہے لیکن اختتام تصور ذات بحت پہ ہوتا ہے۔ اس مرحلہ پہ پہنچ کر انسان کو اللہ یاد ہو جاتا ہے، پھر وہ اللہ کے لئے زندہ ہوتا ہے، اللہ کے لئے مرتا ہے، اللہ کے لئے بولتا ہے، اللہ کے لئے سوچتا ہے، اللہ کے لئے کھاتا ہے، اللہ کے لئے پیتا ہے، اللہ کے لئے نفرت کرتا ہے، اللہ کے لئے محبت کرتا ہے الغرض اس کا ہر کام ہر چیز اللہ کے لئے ہی ہوتی ہے، پھر وہ اپنا رہتا ہی نہیں ہے۔

اب بتائیں کہ کیا اس چیز کو حاصل کرنا آسان ہے؟ بڑا لمبا راستہ ہے۔ ساری چیزوں کو طے کرنا پڑتا ہے۔ اللہ پاک کا شکر ہے کہ جو طریقہ ہمیں اپنے بزرگوں سے ملا ہے آج کل کے لحاظ سے یہ مختصر ترین راستہ ہے۔ ہمارے بعض ساتھیوں نے اس کی پیمائش کی ہے وہ کہتے ہیں کہ دوسری جگہوں پر جو چیزیں 45 مراحل میں ملتی ہیں وہ یہاں 13 سے 14 مراحل میں حاصل ہو جاتی ہیں۔

بہرحال یہ چیز جتنے مراحل میں بھی ملے اس کے لئے کوشش کرنا چاہیے۔ کوشش سے مراد یہ ہے کہ جو بتایا جائے ویسے ہی کیا جائے اور اپنی طرف سے کمی بیشی نہ کی جائے تو اللہ جل شانہ آسانی کے ساتھ وہ نعمتیں نصیب فرما دیتے ہیں جو بڑی مشکل سے ملا کرتی ہیں۔

ہمارے ایک ساتھی نے مجھے اپنا تجربہ بتایا۔ اس نے کہا: ”آپ نے مجھے ایک مراقبہ بتایا تھا وہ مراقبہ مجھے بہت پسند آیا، جب اس مراقبہ کا وقت پورا ہو گیا تو آپ نے وہ مراقبہ چھڑوا کر دوسرے مراقبہ پہ لگایا، لیکن پہلے والا مجھے پسند تھا اس وجہ سے میں نے اس کو دوبارہ کرنا چاہا، کافی کوشش کی مگر وہ مجھ سے ہو نہیں پایا“۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ ان معاملات کا تعلق اوپر سے ہے، یہ ہمارے بس میں نہیں ہیں۔ ہمارا کام صرف مراقبہ بتانا ہوتا ہے، اس کے ذریعہ جو کچھ ہوتا ہے وہ کرتے تو اللہ ہی ہیں۔ لیکن چونکہ اللہ پاک نے اس نظام کو ذریعہ بنایا ہوا ہے لہٰذا نظر یوں آتا ہے جیسے ہم کررہے ہیں۔ اگر کسی کا یہ concept کلیئر ہو جائے تو وہ کبھی اپنے شیخ کی مرضی کے خلاف نہیں کرے گا۔ اور جس کا یہ concept کلیئر نہیں ہوتا وہ پگڈنڈیوں پہ چڑھتا رہے گا اور واپس وہیں آجایا کرے گا۔ وہ سمجھتا ہوگا میں آ گے جا رہا ہوں لیکن پتا چلے گا کہ پیچھے چل پڑا ہے، وہیں پہنچ گیا ہے جہاں سے چلا تھا۔ شیخ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح ہے وہ از خود کچھ بھی نہیں کر سکتا، کرنے والی ذات اللہ کی ہے۔ لیکن آپ شیخ کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کو دیکھتے ہیں، یعنی آپ کو نظر وہ آ رہا ہوتا ہے حالانکہ وہ خود نہیں ہوتا، وہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل پہ ڈال رہا ہوتا ہے،اللہ اس کی زبان پہ لا رہا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ آپ سے کروا رہا ہوتا ہے۔ اب کوئی سمجھے کہ اس نے مجھے یہ بتایا تھا چلو اب میں اپنی طرف سے ایسے طریقے استعمال کرتا ہوں، خدا کے بندے اگر اس نے اپنی طرف سے بتایا ہوتا پھر آپ بھی کچھ ویسا کر لیتے، یہ جو کچھ اس نے بتایا تھا یہ اس کا تھا ہی نہیں یہ تو اللہ پاک کا تھا اور اللہ پاک کی چیز کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن