اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت ایک بیان میں آپ نے فرمایا تھا کہ تقدیر میں مومن کے لئے اطمینان ہے، یہ اطمینان غیر مومن کو حاصل نہیں۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
تقدیر اور تدبیر، سبب اور مسبب الاسباب! یہ چیزیں جاننے کی وجہ سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ مومن اسباب اختیار کرتا ہے اور نتیجہ خدا پر چھوڑتا ہے۔ اس کو پتا ہوتا ہے کہ سبب اختیار کرنا میرا کام ہے اور اس پر نتیجہ مرتب کرنا اللہ تعالی کا کام ہے، پس وہ سبب اختیار کرتے وقت اس میں ذرہ برابر کمی نہیں چھوڑتا۔ جب مومن سبب اختیار کر رہا ہوتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ سبب کے علاوہ کسی چیز کو جانتا ہی نہیں اور مکمل طور پر سبب اختیار کرنے کے بعد جب نتیجہ خدا پر چھوڑ دیتا ہے تب ایسا لگتا ہے جیسے وہ سبب کو جانتا ہی نہیں۔ ایک مکمل مومن کی یہی علامت ہوتی ہے۔ تقدیر اللہ جل شانہ کا لکھا ہوا نظام ہے۔ اللہ جل شانہ سب جانتے ہیں کہ ہم نے کیا کرنا ہے یہ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ جس وقت انسان تقدیر پر یقین رکھتا ہے تو بڑی سے بڑی تکلیف میں بھی اس کو یہ تسلی ہوتی ہے کہ لکھا ہی ایسا تھا، لہذا وہ مطمئن ہو جاتا ہے۔ انسان پریشان تب ہوتا ہے جب وہ یہ سوچتا ہے کہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ ہو جاتا ویسا کرتا تو یہ ہو جاتا۔ وہ یہ سوچ سوچ کر اپنے آپ کو ذہنی طور پر لتاڑتا رہتا ہے۔ ایسا آدمی ذہنی طور پر مطمئن نہیں رہ پاتا۔ وقت کے ساتھ سب کے زخم مندمل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی مصیبت آ جائے۔ وقتی تکلیف جتنی بھی ہو، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کا اثر کم ہوتا جاتا ہے، کیونکہ دوسری چیزیں سامنے آ رہی ہوتی ہیں ان کی وجہ سے پچھلے غم پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔ لیکن مومن کو ابتدا ہی سے تقدیر کو ماننے کا ایک بڑا فائدہ مل جاتا ہے۔ اس کا آغاز میں بھی break down نہیں ہوتا، جبکہ وہ آدمی جو مومن نہیں ہوتا اس کا nervous break down ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ اگر میں ایسا کرتا تو یہ ہو جاتا ویسا کرتا تو یہ ہو جاتا۔ اس وجہ سے وہ پریشان ہوتا رہا ہے۔ انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ جو کام کر سکتا ہے اسے کرنے اور اس کے بارے میں سوچنے سے ذہنی تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ مثلاً انسان پڑھ سکتا ہے،اگر وہ لگاتار پڑھتا رہے تو جسمانی تھکاوٹ تو ہو سکتی ہے، لیکن ذہنی تھکاوٹ جو back ground میں ہوتی ہے وہ نہیں ہوگی۔ جب ذہنی تھکاوٹ نہ ہو تو انسان کام زیادہ کر سکتا ہے۔ دوسری طرف ایسا کام جو انسان نہیں کرسکتا اس کے بارے میں سوچ کر ذہنی طور پر بے حد تھک جاتا ہے۔ جیسے بعض دفعہ آدمی خیالی دنیا میں گم ہوکر ایسے کاموں کے بارے میں سوچ بچار کرے جن کے بارے میں اسے اپنے شعور میں پتا ہوتا ہے کہ نہیں کر سکتا تو اس سے بہت زیادہ تھکاوٹ ہوتی ہے، ایک گھنٹہ میں اتنی تھکاوٹ ہو سکتی ہے جو باقی کاموں میں 24 گھنٹے میں نہیں ہوتی۔
لہٰذا اگر کسی کی یہ coaching ہو جائے کہ جو کر سکتے ہو اسی کے بارے میں سوچو، جو نہیں کر سکتے اس کے بارے میں سوچ کر اپنے آپ کو مت تھکاؤ، تو اس سے اس کی بہت ساری انرجی اور وقت دونوں ضائع ہونے سے بچ سکتے ہیں۔ بعض لوگ غیر اختیاری چیزوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، اس سے بڑی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ اگر ان کی اتنی coaching ہو جائے کہ غیر اختیاری کے پیچھے نہ جاؤ،اختیاری کو سنبھالو تو اسے وہ تھکاوٹ نہیں ہو گی۔
تقدیر پر یقین کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ تمام غیر اختیاری کاموں سے انسان کا پیچھا چھوٹ جاتا ہے۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ کام غیر اختیاری ہے اس کے بارے میں سوچتا ہی نہیں، جب سوچتا نہیں تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔
یہ مطلب ہے میری اس بات کا کہ تقدیر پر یقین رکھنے سے مومن کو اطمینان ہوتا ہے اور جو تقدیر پر یقین نہیں رکھتا اس کو اطمینان نہیں ہوتا وہ پریشان رہتا ہے۔
سوال نمبر2:
نظر لگنے کی کیا حقیقت ہے اور اس سے انسان کو جسمانی یا مالی نقصان پہنچنے کی کیا وجہ ہوتی ہے۔ انسان کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ اس کے نفس کی وجہ سے ہوتا ہے، جب کہ نظر لگنے میں انسان کے نفس کا عمل دخل نہیں ہوتا۔ برائے مہربانی اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
دیکھیں! ہم تو وہی جانتے ہیں جو کہا گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے: بے شک ”عین“ یعنی نظر لگنا حق ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ نظر بد اونٹ کو ہانڈی میں اور انسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے۔ اس کی مثال گولی کی طرح ہے۔ جیسے گولی لگنے سے انسان زخمی ہو جاتا ہے یا مر جاتا ہے، اسی طرح نظر سے بھی انسان کو نقصان ہوتا ہے۔ یہ اللہ پاک کا ایک نظام ہے۔ انسان کے جسم کے اندر ایک مقناطیسی نظام ہے، اس مقناطیسی نظام کا اثر ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نظر لگ جاتی ہے۔ اس میں اللہ پاک کی بڑی حکمت ہے۔ اگر نظر نہ لگتی ناں تو مال دار لوگ غریبوں کی زندگی اجیرن کر دیتے۔ یہ ان کے سامنے اپنی نعمتوں کو استعمال کرتے اور وہ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے۔ اب کم از کم نظر لگنے کے ڈر سے چھپا کے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ باقی چیزوں پہ یقین نہیں کرتے وہ بھی جب بلڈنگ بنا لیتے ہیں تو اس کے اوپر جلی حروف میں ما شاء اللہ لکھ لیتے ہیں، کبھی کالا کپڑا لگا لیتے ہیں کیونکہ وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں ہمیں نظر نہ لگ جائے تو یہ اللہ پاک کے تکوینی نظام کا ایک حصہ ہے۔ جب کسی کو پتا ہوتا ہے کہ نظر لگ سکتی ہے تو کم از کم اس وجہ سے وہ اپنے کپڑوں سے باہر نہیں آتے، ذرا control میں رہتے ہیں۔ یہ اللہ پاک کی حکمت ہے۔ کرنے والی ذات اللہ ہی کی ہے لیکن اس نے اسباب اور پروسیس مختلف بنا دئیے ہوئے ہیں۔ روحانی چیزوں کا پورا پروسیس تو ہم نہیں جان سکتے لیکن چونکہ ہمیں مخبر صادق ﷺ کی طرف سے خبر دی گئی ہے لہٰذا ہمیں خبر پر یقین ہے۔ خبر دینے والا صادق اور امین ہے لہذا ہمیں اس کے اوپر پورا ایمان ہے۔
اگر کسی کو نظر لگ جائے تو اس کا علاج بھی ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم اس بات کے پیچھے پڑ جائیں کہ نظر کیوں لگتی ہے، کیسے لگتا ہے ہمیں چاہیے کہ اس کے علاج کی طرف دھیان کریں۔ علاج سے پہلے ایک چیز احتیاط بھی ہے، نظر لگنے سے بچاؤ کی احتیاط یہ کہ اپنی نعمتوں کو بلا وجہ ظاہر نہ کریں۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو نعمت دی گئی ہے وہ محسود ہوتا ہے، اس کے ساتھ حسد کیا جاتا ہے۔ اور اگر نظر لگ جائے تو نظر اتارنے کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ تقریباً بہت سارے لوگوں کو معلوم ہے، اللہ پاک نے اس کو پھیلایا ہوا ہے۔ لہذا قریب ترین جو آدمی نظر اتار سکتا ہو ان سے اتروا لیا کریں۔
سوال نمبر3:
حضرت جی مراقبہ میں اللہ کا تصور کس طرح کرنا چاہیے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
حدیث شریف میں آتا ہے کہ تم ایسے عبادت کرو جیسے تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر یہ نہیں کر سکتے یعنی تمہیں اگر یہ کیفیت حاصل نہیں ہے تو اس بات کا یقین ہو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ کم از کم اس کے سب مکلف ہیں۔ اللہ جل شانہ علیم و خبیر اور بصیر ہے۔ جب ہم عبادت کرتے ہوئے یہ تصور رکھتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں دیکھ رہے ہیں تو یہ ہم اللہ پاک کی ایک صفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور وہ صفت اللہ پاک کا بصیر ہونا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب کو دیکھ رہے ہیں،ہمیں بھی دیکھ رہے ہیں۔ جب ہمارا یہ تصور پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ پاک ہمیں ہر وقت دیکھ رہے ہیں تو پھر ہمارے دل میں اللہ پاک کا ہر وقت خیال رہتا ہے اور گناہوں سے حفاظت رہتی ہے۔
مثال کے طور پرآپ سب مجھے دیکھ رہے ہیں، اگر میں آپ کی نظروں میں اچھا ہونا چاہتا ہوں تو میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گا جو آپ کے نزدیک اچھا نہیں ہے۔ اگر میں آپ کی نظروں میں اچھا نہیں ہونا چاہتا پھر تو پروا ہی نہیں ہو گی، وہ الگ بات ہے۔ اگر اللہ پاک کی ذات کی حیثیت اور عظمت ہمارے ذہن میں ہو گی تو ہم اس بات کا خیال رکھیں گے کہ چونکہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے لہذا ہم کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ہم اللہ کی نظروں سے گر جائیں۔ بس اسی یقین کو پختہ کرنے کے لئے یہ مراقبہ کرایا جاتا ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہے ہیں۔
سوال نمبر4:
ویسے تو اللہ پاک کے تمام نام بڑے اچھے اور خوبصورت ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کن ناموں سے زیادہ خوش ہوتے ہیں کون سے نام اللہ کو زیادہ پیارے ہیں؟
جواب:
حدیث شریف میں آتا ہے کہ انسان کو ہر وقت اپنی زبان ذکر سے تر رکھنی چاہیے۔ ذکر کئی طرح ہوسکتا ہے۔ مثلاً: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ اس میں اللہ پاک کی معبودیت کا اظہار ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا:
’’ اَفْضَلُ الذِّکْر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ (جامع ترمذی: 3383)
ترجمہ: ’’سب سے افضل ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔‘‘
یہ بھی فرمایا کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک دنیا میں ایک آدمی بھی اللہ اللہ کہنے والا ہوگا۔ لفظ ”اللہ“ اسم ذات ہے۔ اسم ذات کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ اسم ذات میں سارے صفاتی نام آ جاتے ہیں کیونکہ یہ سب کو جامع ہے۔مثلاً کسی آدمی کا نام طارق ہے۔ جب ہم اس کا نام طارق بولیں گے تو لفظ طارق کے ساتھ طارق کی تمام صفات میرے ذہن میں آ جائیں گے کہ طارق کون ہے، کیسا ہے، کیا کرتا ہے۔ اسی طرح جب میں اللہ کہوں گا تو اس میں اللہ پاک کی ساری صفات آجاتی ہیں۔ اللہ ُبصیر۔ اللہُ علیم۔ اللہُ کریم۔ اللہُ رحیم۔ اللہُ ودود۔ اللہُ محی۔ اللہُ ممیت۔ اللہُ قادر۔ اللہُ قدیر۔ اللہُ حافظ۔ اللہُ حفیظ۔ یہ ساری صفات ایک اسم ذات سے مستحضر ہو سکتی ہیں۔ بعض اوقات خاص صفات کا ذکر کچھ خاص وجوہات سے بھی دیا جاتا ہے، مثلاً علاج کے لئے یا کسی اور ضرورت کے تحت اسمائے صفات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر کسی خاص صفت کو استعمال نہ کرنا ہو تو پھر اللہ کے اسم ذات کا ذکر کرنا چاہیے، اس کو یاد رکھنا چاہیے اور اس کی طرف تصور کرنا چاہیے۔
تصوف میں اس چیز کو راسخ کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔ ان سب طریقوں کا مقصد یہ ہے کہ ہر لمحہ اللہ پاک کی یاد حاصل ہو جائے۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں یاد نہیں رہتا، ہمارا خیال نہیں ہوتا۔ اس خیال کو راسخ کرنے اور یاد رکھنے کے لئے مختلف طریقے ہیں۔ یہ سارے طریقے تجرباتی ہیں ان کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا ضروری نہیں ہے۔ حدیث شریف سے یہ بات ثابت ہے کہ عبادت کرتے وقت کم از کم اس بات کا تصور کرو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اب اس تصور کو دائمی طور پر حاصل کرنے کے لئے آپ کوئی بھی طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلًا ایک طریقہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اپنے تصور میں سامنے کی دیوار کے اوپر دل کی ایک خوبصورت سی تصویر بنا لو، اس کے اوپر خوبصورت سنہرے رنگ سے جلی حروف میں خوشخط کرکے ”اللہ“ لکھو۔ پھر اس کو غور سے دیکھا کرو، اتنا غور سے دیکھو کہ وہ تمہارے ذہن کے اندر رچ بس جائے۔ پہلے اِس پہ محنت کر و کہ ذہن میں رچ بس جائے پھر اس کو آہستہ آہستہ آہستہ ذہن سے قلب میں اتارو کہ وہ دل پر نظر آ رہا ہے۔ اس طرح مختلف طریقے ہوتے ہیں، ان طریقوں کو استعمال کرکے اگر اللہ پاک کا دائمی تصور حاصل ہو جائے، تو پھر جب بھی آپ اکیلے ہوں گے آپ کے ذہن میں اللہ پاک کی یاد تازہ ہوگی۔ اصل مقصد تو اللہ کی یاد ہے لیکن اس کے لئے بطور ذریعہ اسم ذات استعمال ہو گیا۔
در اصل یہ سارا linking system ہے۔ synchronization ہے۔ اس کے ذریعہ ہم لوگ غیر مرئی چیزیں جو دیکھ نہیں سکتے، ان کو دل میں اتار سکتے ہیں۔ یہ سارے procedures اور طریقے ہیں۔ اس لئے اس کو طریقت کہتے ہیں۔ طریقت procedures کو کہتے ہیں، تو یہ سارے ان چیزوں کو حاصل کرنے کے لئے طریقے ہیں جو ہمارا مقصد ہے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے تجرباتی ذریعے ہیں۔ ان کی افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ اگر آپ کو ان کے ذریعے وہ چیز حاصل ہو جائے جو آپ کو حاصل کرنا ہے تو آپ کو اور کیا چاہیے۔ اس کے لئے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے ثابت ہو، کیونکہ ہم ان طریقوں کو دین کا حصہ نہیں سمجھتے اور ثواب کے لئے نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصد صرف علاج ہوتا ہے اور مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک ذریعہ کے طور پہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی جیسے لاہور جانے کے ایک سے زیادہ راستے ہیں، موٹروے سے بھی جا سکتے ہیں، جی ٹی روڈ سے بھی اور فضائی راستے سے ہوائی جہاز کے ذریعے بھی جا سکتے ہیں۔ آپ بتائیں کس راستے سے جانے میں زیادہ ثواب ہو گا۔ سب راستے برابر ہیں، ثواب کا ہونا نہ ہونا راستوں پہ منحصر نہیں بلکہ اس پہ منحصر ہے کہ آپ لاہور کس مقصد کے لئے جا رہے ہیں۔ اگر کوئی دینی مقصد ہے تو جس راستے سے بھی جائیں گے ثواب ہو گا، لیکن اگر آپ کہیں کہ موٹروے پہ جانے میں زیادہ ثواب ہے، تو یہ بدعت ہوگی۔ البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ موٹر وے پہ جانے میں زیادہ آسانی ہے، اتنی بات قابل قبول ہے، اس میں کوئی بدعت نہیں ہے۔ آسانی یا مشکل تو کسی بھی طریقہ میں ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر آپ نے کہا کہ موٹر وے پر جانے میں زیادہ ثواب ہے تو یہ بات سو فی صد غلط ہے، بدعت ہے،گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ کی طرف لے جانے والی ہے۔ اب کچھ لوگ ساری زندگی اس قسم کی چیزوں میں لگے رہتے ہیں کہ فلاں راستے سے جانا بدعت ہے فلاں راستے سے جانا ثواب ہے۔ یہ بے وقوف لوگ ہیں جو اس قسم کی چیزوں پہ چیختے ہیں۔ ان کی عقل کام نہیں کرتی۔ دماغ موٹا ہو جاتا ہے ان کو خود سمجھ آتی نہیں ہے اور سمجھداروں کی بات پہ یقین نہیں کرتے۔ نتیجتاً محروم رہتے ہیں۔ حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
؏ با مدعی مگوید اسرار عشق و مستی
ترجمہ: ”منکرین اور معترضین کے سامنے عشق و مستی کے اسرار مت کھولو“۔
ان کے لئے یہ سزا کافی ہے کہ یہ محروم ہیں۔
میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں جو انجینئرنگ سے متعلق ہے، لیکن اس سے یہ بات بہترین طریقے سے سمجھ آسکتی ہے۔میرے جرمنی کے قیام کے دوران ایک بار Stuttgart میں conference تھی۔ اس میں سائنس دان بھی شامل تھے، انجینئر حضرات بھی شامل تھے۔ سائنس دانوں کے مقالہ جات بھی پڑھے جانے تھے اور انجینئروں کے بھی۔ سائنسدانوں کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے بالخصوص ریاضی دان سائنسدانوں کا اپنا ایک الگ مزاج ہوتا ہے اور انجینئرز کا الگ مزاج ہوتا ہے۔ انجینئرکو کام سے مطلب ہوتا ہے اسے کسی مخصوص طریقہ سے کوئی غرض نہیں ہوتی، جس طریقہ سے کام نکلے وہ اسی کو اختیار کر لیتا ہے۔ انجینئر اگر آلات کے بغیر کسی پروجیکٹ پہ چلے جائیں تو کوئی اور طریقہ اختیار کر لیتے ہیں اورکام کروا لیتے ہیں۔
مجھ سے ایک دفعہ viva میں سوال کیا گیا کہ کوئی نہر یا ندی ہو، آپ اس میں پانی کے بہاؤ کی رفتار کیسے معلوم کریں گے، جبکہ آپ کے پاس پیمائش کے کوئی آلات وغیرہ بھی نہ ہوں؟میں نے کہا: میں پانی میں پتھر ڈال لوں گا اور دیکھوں گا کہ کتنے وقت میں کتنا فاصلہ طے کرتا ہے۔ بعد میں distance کو time پہ تقسیم کروں تو اس کی speed معلوم ہو جائے گی۔ انہوں نے پوچھا: آلات تو ہوں گے نہیں، فاصلہ کیسے معلوم کرو گے؟ میں نے کہا: پٹواریوں کی طرح قدموں سے ناپ کے معلوم کروں گا، اپنے قدموں کو calculate کرلوں گا کہ ایک قدم کتنے انچ یا کتنے فٹ کا ہے پھر ضرب دے دوں گا۔ کہنے لگے کہ ٹھیک ہے فاصلہ معلوم ہو گیا، وقت کیسے معلوم کریں گے آپ کے پاس گھڑی تو ہو گی نہیں؟ میں نے کہا: مجھے نبض کا پتا ہے کہ نبض ایک منٹ میں 72 مرتبہ حرکت کرتی ہے۔ اس کے حساب سے منٹ نکال لوں گا۔ یہ جواب سن کر انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ ٹھیک ہے۔ یہ بتانے سے مقصد یہ ہے کہ انجینئر نے کام کرنا ہوتا ہے اس نے طریقوں سے نہیں لڑنا ہوتا۔
بہرحال جرمنی والا واقعہ عرض کر رہا تھا، جہاں سائنسدان اور انجینئر دونوں گروہوں کے لوگ اپنے مقالہ جات پڑھ رہے تھے۔ جب کوئی ریاضی دان سائنسدان مقالہ پڑھتا تو اس میں ہر ہر اصول کا خیال رکھتا اور بتاتا کہ یہ اصول بھی follow کیا گیا ہے، فلاں clause بھی satisfied ہے اور فلاں اصول بھی نہیں ٹوٹا۔ انجینئر حضرات ان سے سوال کرتے کہ کیا آپ نے اس کے اوپر کوئی quote develop کیا ہے، یعنی اس کو پریکٹیکلی ایپلائے کیا ہے؟ سائنسدانوں کا جواب ہوتا کہ ابھی تک نہیں کیا۔ engineer حضرات اپنا مقالہ پڑھتے تو ریاضی دان سائنسدان ان کی ٹانگیں کھینچتے کہ اس میں تو فلاں اصول ٹوٹ رہا ہے، فلاں قانون لاگو نہیں ہو رہا۔ فلاں point ٹھیک نہیں بیٹھ رہا۔ ان سب اعتراضات کے جواب میں انجینئرز ایک ہی جواب دیتے تھے:
but it works۔
اصول لاگو ہوں یا نہ ہوں یہ طریقہ کام کرتا ہے۔
صوفی کی مثال بھی انجینئر کی سی ہوتی ہے۔ وہ کام سے غرض رکھتا ہے وہ اس سے غرض نہیں رکھتا کہ قانون اور اصول لاگو ہو رہا ہے یا نہیں۔ Medical والے بھی کام آنے والے طریقوں کی بات کرتے ہیں، ان کو بھی کام کرنا ہوتا ہے۔ جب ڈاکٹر آپریشن کر رہا ہوتا ہے تو کتاب اور اصول نہیں دیکھتا، بلکہ جو طریقہ اس وقت کے حساب سے کام دے وہ اختیار کرتا ہے۔ البتہ ہر فیلڈ کے کچھ بنیادی اصول ضرور ہوتے ہیں، انہیں سامنے رکھا جاتا ہے۔
اب کوئی ڈاکٹر سے کہے کہ علاج کے یہ طریقے آپ نے کون سی کتاب میں پڑھے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ میری تحقیق ہے، تو آپ اسے کیا جواب دیں گے۔ آپ اسے غلط نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ فیلڈ ہی ایسی ہے جس میں ایک ماہر آدمی اپنی تحقیق سے کام لے سکتا ہے۔ لوگ بھی اس آدمی کی مہارت اور reputation دیکھتے ہیں اور اس کی تحقیق کو مان لیتے ہیں، اسی وجہ سے لوگ ان کے پاس جاتے ہیں کہ ان لوگوں کی مہارت مسلم ہوتی ہے، لوگ ان کی کتابوں کو دیکھنے نہیں جاتےیہ پریکٹیکل چیزیں ہیں۔ پریکٹیکل چیزوں کو practical context میں دیکھنا چاہیے ورنہ پریشانی ہو گی۔ خواہ مخواہ ایک درد سر اپنے سر پہ لے لیں گےجس کا فائدہ نہیں ہوگا۔
سوال نمبر5:
اخلاص کی حقیقت کیا ہے۔ بعض اوقات ایک آدمی کو خود نہیں پتا ہوتا کہ اخلاص کا لیول کیا ہے، بس وہ یہ چاہتا ہے کہ میرا اخلاص بڑھتا جائے، اس کے لئے ایسا کیا کام کرنا چاہیے کہ اخلاص پھلتا پھولتا رہے۔
جواب:
اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ جو کام آپ کو کرنا ہے آپ کے پیش نظر اس کام کے سوا اور کچھ نہ ہو۔ مثلاً آپ بازار میں کچھ خریدنے گئے، وہاں کسی مداری نے تماشا لگایا ہوا ہے، آپ تماشا دیکھنے لگے اور اپنا کام موخر کر دیا۔ جب تماشا ختم ہوا تو پتا چلا جو چیز لینے آئے تھے اس کی دکان بند ہوچکی ہے۔ واپس آ ئےوالد صاحب نے پوچھا: بازار سے ہو آئے؟۔
جی ہو آیا۔
کام ہو گیا؟
نہیں وہ تو نہیں ہوا۔
کیوں نہیں ہوا؟
میں مداری کا تماشا دیکھنے کھڑا ہو گیا تھا، اس اثنا میں دکان بند ہو گئی۔ اس لئے کام نہیں ہوا۔
اسی طریقہ سے دنیا کے اندر جو کام اللہ پاک نے ہمارے ذمے نہیں لگائے ان میں وقت لگانا ایسا ہے جیسے مداری کا تماشا دیکھنے میں وقت ضائع کرنا اور دکان بند ہونے سے مراد ہے موت کا آجانا۔ ہم لوگوں کو چاہیے کہ ہم جس مقصد کے لئے آئے ہیں وہی کام کریں۔ ہم کس مقصد کے لئے آئے ہیں؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ ہمارا اصل مقصد یہ ہے کہ ہم اللہ پاک کو راضی کریں۔
جیسے کسی بچی کی شادی ہو جائے۔ اب سب لوگ اس کی تعریفیں کر رہے ہیں کہ یہ بڑی نیک ہے، بڑی اچھی ہے، بڑی سگھڑ ہے اور وہ اپنے شوہر کی نظروں میں نہ جچے، وہ کہے کہ یہ تو بڑی پھوہڑ ہے اس کو کچھ نہیں آتا۔ کیا خیال ہے اس بچی کی زندگی کیسے گزرے گی؟ اس کی زندگی تو تباہ ہو گئی۔ اسی طرح ہمارا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔ اگر اللہ نے کہہ دیا کہ تم اچھے ہو تو ساری دنیا تمہیں زندیق کہے کوئی پروا نہیں۔ اگر اللہ تمہیں کہہ دے کہ تم زندیق ہو تو ساری دنیا بھی غوث زمان کہہ دے تو کوئی فائدہ نہیں۔
عبادت کے اندر یہ خیال ذہن میں جمانا چاہیے کہ میں جس طریقے سے عبادت کر رہا ہوں، یہ وہ طریقہ ہے جو اللہ کو پسند ہے یا وہ ہے جو لوگوں کو اور میرے نفس کو پسند ہے؟ اگر نفس اور لوگوں کی پسند سے ہو رہا ہے تو پھر اخلاص نہیں ہے۔ اخلاص اس کو کہتے ہیں جو اللہ کو پسند ہے۔ اگر میں کام اس طرح کر رہا ہوں جس طرح اللہ کو پسند ہے تواسی کو اخلاص کہتے ہیں۔
ہر شخص کے اخلاص کا اپنا الگ معیار ہوتا ہے، یہ تربیت کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ جیسے صفائی کا ہر شخص کا اپنا ایک الگ معیار ہوتا ہے۔ عام لوگ جو صاف ستھرے کپڑے پہنتے ہیں، نفیس مزاج کے لوگوں کے نزدیک یہ پہننے کے قابل بھی نہیں ہوتے۔ اگر ان کو ہم یہ کپڑے پہنا دیں تو شاید ان کو کھجلی ہونے لگے کہ یہ کیا پہنا ہوا ہے۔ جبکہ ہم لوگ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں پروا ہی نہیں کیونکہ ہمارا معیار یہی ہے۔ اسی طرح اخلاص کا معیار بھی ہر شخص کا اپنا اپنا ہے اور وہ اس کے قلبی level کے مطابق ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے بعض اوقات عین ممکن ہے کہ انتہائی مخلص شخص اپنے آپ کو مخلص نہ سمجھے۔ اور دوسرا شخص جو بالکل ریا کار ہو وہ اپنے آپ کو مخلص سمجھے۔ پھر اس کا طریقہ کیا ہو گا؟ فیصلہ کیسے ہو گا؟ کام کیسے کریں گے ؟ اس کے لئے اپنے آپ کو اور اپنے نفس کو کسی شیخ کامل کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ جب اپنا نفس کسی کے حوالے کر دیا تو میرا معیار درمیان سے نکل گیا۔ اب میں خود اپنی رائے پہ نہیں چلوں گا میں تو ان کی بات پہ چلوں گا کہ وہ اس کو کیا اور کیسا سمجھتے ہیں۔کیونکہ وہ ان چیزوں کو جانتا بھی ہے، میرا مخلص بھی ہے اور مجھے فائدہ بھی پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی میٹر خراب ہو جائے تو آپ اسے پیمائش کے لئے استعمال نہیں کریں گے، بلکہ پہلے اسے کسی صحیح میٹر کے ساتھ لگا کر چیک کریں گے اور اس کے مطابق اسے درست کریں گے پھر اس سے کام لیں گے۔ اسی طرح آپ کو اپنے نفس کے میٹر سے باہر نکل شیخ کے میٹر کے مطابق پہلے نفس کو درست کرنا ہوگا، کیونکہ آپ کا نفس خراب میٹر کی طرح ہو چکا ہے، وہ درست پیمائش نہیں کرسکتا، آپ کو آپ کے بارے میں درست رزلٹ نہیں دےسکتا۔
پشتو میں ایک بڑی اچھی ضرب المثل ہے:
”خپل بد د اولو مینځ وی“
” اپنی آنکھوں کے درمیان والی جگہ سوائے آئینہ کے نہیں دیکھی جا سکتی۔“
یہ ایسی جگہ ہے جہاں پر آپ کی نگاہ جا ہی نہیں سکتی۔ ہاں آئینہ ہو تو پھر جا سکتی ہے۔ لہٰذا آئینے فٹ کرو۔ ایک آئینہ رسول کریم ﷺ کا ہے اور ایک آئینہ شیخ کا۔ ان کے سامنے ہو جاؤ پتا چل جائے گا۔ شیخ رسول کریم ﷺ کے آئینہ سے لے گا اور آپ کو بتا دے گا۔ آپ اس کے مطابق عمل کریں گے۔ بس یہی طریقہ ہے کہ آپ کسی شیخ کے ہو جائیں، اس سے متعلق ہو جائیں، اس کو اپنے احوال بتاتے جائیں وہ آپ کو بتاتا جائے گا کہ آپ کدھر جا رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی وقت آپ غلط جا رہے ہوں لیکن وہ آپ کو روک نہ رہے ہوں، کیونکہ وہ ماہرِ فن ہوتا ہے۔ جیسے ضروری نہیں کہ اچھا حکیم اور اچھا ڈاکٹر آپ کو آپ کی بیماری بتا بھی دے کہ آپ کو فلاں بیماری ہے، لیکن خود معلوم کرلے گا کہ اس کو فلاں بیماری ہے اور اس کے مطابق علاج کرے گا۔ جب مریض ٹھیک ہو جائے گا تب بتا دے گا کہ آپ کو فلاں بیماری تھی اب وہ ختم ہو گئی۔ بعض دفعہ بیماری بتانے سے مزید بڑھ جاتی ہے، اس لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ آپ کو سارا کچھ بتا دے گا۔
ہمارے پاس بعض لوگ خواب وغیرہ لاتے ہیں یا کوئی اپنا حال سناتے ہیں تو ہم چپ ہو جاتے ہیں جواب نہیں دیتے۔ اس وقت یہی ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس وقت ہم نے اس کو صحیح صحیح بتا دیا تو بے چارہ پریشان ہو جائے گا، رہی سہی چیز بھی ختم ہو جائے گی۔ ساری چیزیں بتانی بھی نہیں ہوتیں، ساری چیزیں چھپانی بھی نہیں ہوتیں۔ بتانے چھپانے میں بھی تجربہ کا دخل ہے۔ جتنا بتانا مناسب ہو اتنا بتا دو، اور جتنا چھپانا مناسب ہو اتنا چھپا دو۔ یہ طریقہ medical line میں بھی چلتا ہے ہمارے ہاں بھی چلتا ہے۔
سوال نمبر6:
بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ بندہ بالکل خلوص سے اچھا کام کرنے کی نیت کرتا ہے اور اچھا کام کر لیتا ہے لیکن جیسے ہی وہ اچھا کام کرتا ہے تو اس کے سامنے پانچ چھ friends سمجھانے کے لئے کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو تم نے اخلاص سے نہیں کیا اس میں تم یہ دکھاوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس طرح اس کے اچھے سے اچھے کام کو بالکل زیرو کر دیتے ہیں، بندے کا اپنا ذہن بھی ان کی بات تسلیم کرنے لگ جاتا ہے کہ واقعی میری نیت تو خالص نہیں تھی۔ کیا اخلاص نیت کے لئے ظاہری نیت کے پس منظر میں بھی کوئی نیت ہوتی ہے، لاشعور میں بھی کوئی نیت ہوتی ہے یا ظاہری نیت کافی ہوتی ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
بہت ساری چیزیں ممکن ہو سکتی ہیں، اس سے تو انکار نہیں لیکن ہر دفعہ یہ ساری چیزیں نہیں ہوتیں۔ بعض دفعہ انسان کو بہت زیادہ alert ہونے کی وجہ سے موہوم چیزیں real نظر آنے لگتی ہیں۔ جیسے کوئی آدمی اپنی صحت کے بارے میں بہت زیادہ alert ہو اور وہ کوئی medical book پڑھ لے۔ وہ جس بیماری کے بارے میں کتاب میں پڑھے گا اسے لگے کہ اس میں یہ ساری بیماریاں بھی ہیں۔ ڈاکٹر کے پاس جائے گا وہ چیک اپ اور ٹیسٹ کر کے کہے گا کہ کوئی بیماری نہیں۔ سکون و اطمینان سے اپنا کام کرو۔ سوال میں ذکر کردہ صورت میں بھی ایسا ہو سکتا ہے، کہ آدمی اتنا زیادہ محتاط ہو کہ اسے اپنا اخلاص بھی اخلاص نظر نہ آئے، جبکہ بعض دفعہ حقیقت میں بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ ظاہری نیت تو ٹھیک ہو لیکن اس کے پس پردہ اخلاص نہ ہو۔ ان سارے مسائل کا حل یہ ہوتا ہے کہ اپنے شیخ کےساتھ رابطہ رکھا جائے اور اسے احوال سے آگاہ کیا جائے۔ جس کا اپنے شیخ کے ساتھ مسلسل رابطہ ہوتا ہے اس کو صحیح رہنمائی ملتی جاتی ہے۔ اگر اس کو alert کرنے کی ضرورت ہو تو شیخ الرٹ کر دیتا ہے۔ اگر over alert ہے تو اسے normal alert پہ لے آتے ہیں۔
مجھے نوجوانی میں شک کی بیماری تھی، میرا وضو بہت مشکل ہوتا تھا، میرے کپڑے صاف نہیں ہوتے تھے بس کپڑے دھوتا ہی رہتا تھا۔ ایک بار دوران حج مزدلفہ میں احرام کا کپڑا تھوڑا سا ناپاک ہو گیا تھا۔ کپڑے کے اس تھوڑے سے حصے کو دھوتے دھوتے میں نے دونوں احرام دھو لئے اور پھر گیلے پہننے پڑے جس کے نتیجہ میں مجھے بخار ہو گیا۔ یہ سب چیزیں over alert ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔over alert ہونا ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کی وجہ سے انسان انہی چیزوں میں لگا رہتا ہے۔ ایسے مسائل کی ایک وجہ یہ over alertness بھی ہو سکتی ہے، اس کو normal level پہ لانا ہوتا ہے کیونکہ شریعت نے ایسی سختی نہیں کی ہے۔
میرے اسی مزاج کی وجہ سے میرے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ announce کیا تھا کہ کوئی اور شخص شبیر کو مسئلہ نہیں بتائے گا۔ اس کو مسئلہ صرف میں بتاؤں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر نارمل لوگوں کو نارمل مسئلہ بتا دیں تو وہ نارمل طریقے سے کام کر لیتے ہیں لیکن ابنارمل کو نارمل مسئلہ بتائیں تو وہ اس پہ ابنارمل طریقے سے عمل کرے گا۔ ایسے آدمی کو مسئلہ خاص طریقے سے بتانا پڑتا ہے۔
حضرت نے مجھے ایک مسئلہ میرے لحاظ سے بتایا تھا جو میرے لئے ضروری تھا، باقی لوگوں کے لئے ضروری نہیں تھا۔ مسئلہ یہ بتایا تھا کہ جب تک تو اس پر قسم نہ کھا سکے کہ تیرے کپڑے ناپاک ہیں یا تیرا وضو نہیں ہے اس وقت تک تمہارا وضو نہیں ٹوٹے گا اور تمہارے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے۔ چونکہ یہ بات مجھے کہی گئی تھی لہٰذا مجھ سے مطالبہ بھی تھا کہ میں اس کو سمجھوں اور اس کو مانوں۔
ایک دفعہ سخت سردی کا موسم تھا اور میں نے جرابیں اتار کے رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت کی نظر پڑی تو پوچھا جرابیں سامنے کیوں رکھی ہیں؟ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ حضرت نے فرمایا پہن لو، میں نے پہن لیں اور عرض کی کہ حضرت ان جرابوں کے ساتھ میں خود تو نماز پڑھ لوں لیکن کسی اور کو نہیں پڑھا سکوں گا۔ حضرت نے فرمایا کیوں نہیں پڑھا سکتے، جب تمہاری نماز ہوئی تو باقیوں کی بھی ہو سکتی ہے۔ کیا تم قسم کھا سکتے ہو کہ یہ ناپاک ہیں ؟ میں نے کہا نہیں قسم تو نہیں کھا سکتا۔ فرمایا: بس پھر پاک ہیں۔
اب جیسے حضرت نے مجھے اس مسئلہ میں سنبھالا، کوئی مفتی صاحب نہیں سنبھال سکتے تھے۔ جس مفتی صاحب کو میری اس ساری کنڈیشن کا علم نہ ہو اور میں اس سے مسئلہ پوچھوں تو وہ اس طرح جواب نہیں دے گا، وہ لگا بندھا کلیہ بتا دے گا۔
بہرحال بعض دفعہ over alertness کی وجہ سے انسان کو ایسے مسائل پیش آتے ہیں لیکن شیخ control کر لیتا ہے، اس کو تسلی دیتا ہے، اس کو normal level پہ لے آتا ہے۔
میں نے ایک دفعہ حضرت سے کہا: کہ حضرت! مجھ میں اخلاص نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ ریا غیر اختیاری نہیں ہوتی، اختیاری ہوتی ہے۔ اگر تو نے ریا کی نیت کی ہے پھر تو ریا ہے اگر ریا کی نیت نہیں کی تو ریا کا وہم ہے، ریا نہیں ہے۔ ریا کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ آپ کے ارادہ کے بغیر آپ کو چمٹ جائے۔ یہ اختیاری چیز ہے، اختیاری چیز کا دور کرنا بھی اختیاری ہوتا ہے۔ مثلاً میں بیان کر رہا ہوں، اگر بیان کرتے ہوئے میری باقاعدہ نیت اور باقاعدہ ارادہ ہو کہ اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ مجھے بڑا عالم سمجھیں، بڑا ولی سمجھیں، بڑا اچھا سمجھیں تو یہ ریا ہے۔ اور اگر میری نیت اور ارادہ ایسا نہیں، خود بخود خیال آ جائے تو یہ ریا نہیں ہے۔
مجھے اس کام پہ بزرگوں نے بٹھایا ہے اور ہدایت کی ہے کہ بیٹھنا ہو گا اور یہ کام کرنا ہو گا۔ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے اجازت دی تو ہم نے یہ مجالس ذکر وغیرہ شروع کر دیں تھیں۔ ایک دفعہ حضرت مولانا مسعود الرحمن صاحب دامت برکاتہم جو حضرت کے خلیفہ ہیں ان سے فون پہ بات کرتے ہوئے حضرت نے پوچھا کہ میں نے شبیر کی ایک ذمہ داری لگائی تھی کیا وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہا ہے یا نہیں کر رہا؟ مسعود الرحمن صاحب نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں نے جواب دیا : حضرت میں تو جب بھی ٹیلی فون کرتا ہوں تو یا مجلس جا رہے ہوتے ہیں یا مجلس سے آ رہے ہوتے ہیں۔ حضرت یہ سن کر بڑے خوش ہو گئے۔
اب اگر میں یہ ذہن میں رکھوں کہ مجھے بزرگوں نے بٹھایا ہے کہ یہ کام کرنا ہے، چاہے ایک آدمی آئے چاہے دس آدمی آئیں۔ چاہے جو بھی ہو لیکن تو نے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگوں کا حکم چونکہ اللہ کے لئے تھا، میں اس پر عمل کروں گا تو میرا کام بھی اللہ کے لئے ہو گا۔ اور اگر میں یہ سوچوں کہ میں تو بڑا بزرگ بن گیا ہوں، لوگ میرے پاس آئیں گے اور معتقد ہو جائیں گے، مالی مفادات وغیرہ لوگوں کے ساتھ وابستہ کر لوں، تو یہ غلط ہو گا۔
اشرافِ نفس اور ہدیہ میں بہت خفیف سا فرق ہے۔ ایک آدمی میرے پاس آ رہا ہے اور میری نظر اس کی جیب پہ ہو کہ اب یہ مجھے کچھ دے گا، یہ اشراف نفس ہے، میرے دل میں اس سوچ کے ہوتے ہوئے وہ مجھے ایک روپیہ بھی دے تو میرے لئے حرام ہے۔ اور اگر میری ایسی نیت نہیں ہے، میرے دل میں ایسا کوئی خیال نہیں ہے تو وہ مجھے پچاس کروڑ روپے بھی دے تو بھی لینا جائز ہے۔ لیکن ایک صورت میں یہ لینا بھی مناسب نہیں ہو گا اگر اس سے کچھ لینے میں دین کی توہین ہوتی ہو، تو اس صورت میں بھی لینا مناسب نہیں ہے۔
مثلاً میرے دل میں کسی کے بارے میں ایسا کوئی خیال نہ ہو کہ یہ مجھے کچھ دے گا، اور وہ از خود مجھے کچھ دینا چاہے، مگر اس کے دل میں یہ خیال ہو کہ بے چارے فقیر بزرگ ہیں، کیسے گزارا کرتے ہوں گے، آخر ہم اس کی تھوڑی بہت مدد کریں گے تو اس کا گزار چلے گا۔ وہ آدمی اپنے دل میں یہ خیال رکھے اور مجھ پہ اس کی نیت کھل تو اب لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ اس میں دین اور دین دار کی توہین ہو رہی ہے۔
مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک سیٹھ صاحب آ ئےاور بہت بڑی رقم پیش کی۔ حضرت کو شرح صدر نہیں ہوا، اس کی رقم واپس کردی۔ سیٹھ صاحب نے کہا مولوی صاحب لے لو اتنے پیسے آپ کو کبھی کسی نے نہیں دئیے ہوں گے۔ اس کے یہ کہنے سے پتا چل گیا کہ وہ فقیر او رکم درجہ کا سمجھ کر دے رہا تھا۔ حضرت نے فرمایا: سیٹھ صاحب یہ رقم لے جاؤ، اتنی بڑی رقم لینے سے کبھی کسی نے انکار بھی نہیں کیا ہوگا۔ اس لئے کہتے ہیں متکبر کے ساتھ تکبر کرنا تواضع ہے۔ کیونکہ اس نے تکبر کیا تھا اس کا جواب اسے اسی انداز میں دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حضرت اسے ویسا سمجھ رہے تھے، بلکہ اس نے اس انداز سے بات کی تھی جس سے دین کی توہین ہو رہی تھی تو دین کی حفاظت کے لئے انہوں نے یہ بات فرما دی کہ لے جاؤ اتنے پیسوں سے کبھی انکار بھی کسی نے نہیں کیا ہوگا۔
مولانا زر ولی خان صاحب ہمارے ساتھی ہیں، اعلیٰ پائے کے مفتی ہیں، بہت بڑی شخصیت ہیں۔ ایک سیٹھ صاحب نے ان کو مدرسے وغیرہ کے لئے کافی بڑی رقم دی تھی۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مسجد میں جمعہ کی نماز کھڑی ہونے لگی۔ پہلی صف میں مدرسے کا ایک طالب علم کھڑا تھا۔ اس سیٹھ نے اس کو کان سے پکڑ کر پیچھے کیا اور خود اس جگہ پہ کھڑا ہو گیا۔ اگر آرام سے کہہ دیتا کہ آپ پیچھے آ جائیں مجھے آگے کھڑا ہونے دیں تو شاید اتنی بڑی بات نہ ہوتی کیونکہ وہ سیٹھ عمر میں بڑا تھا۔ لیکن اس نے یہ جو کان سے پکڑ کر پیچھے کیا، اس کی اس حرکت پتا چل گیا کہ اس کے دل میں طالب علم کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ حضرت نے یہ دیکھا تو اقامت کہنے والے کو روک دیا، کہ ابھی اقامت مت کہو۔ مدرسہ کے خزانچی کو بلایا اور کہا جا کر حساب کرو اور بتاؤ کہ سیٹھ صاحب نے آج تک ہمیں کتنے پیسے دیئے ہیں۔ وہ حساب کرنے دفتر چلا گیا۔ اب سب لوگ کھڑے ہیں، حضرت بھی مصلے پہ کھڑے ہیں، وہ خزانچی حساب کر کے آیا اور بتایا کہ اب تک انہوں نے اتنی رقم دی ہے۔ فرمایا میری cheque book لے آؤ۔ اتنی رقم کا چیک کاٹا اور اس کے منہ پرمارا کہ لے جاؤ تمہارے پیسے ہمیں قبول نہیں ہیں۔ تمہارے دل میں دین کا احترام نہیں ہے۔ تم ہمیں دبانے کے لئے پیسے دے رہے ہو۔ ہمیں تمہارے پیسے نہیں چاہئیں۔ وہ پیسے ان کو واپس کر دیئے اور پھر نماز پڑھا ئی۔
اگر کوئی واقعتاً دین کی تحقیر کر رہا ہے تو اس کا جواب دینا ضروری ہے اور اگر اپنے دل میں گڑبڑ ہے اشرافِ نفس ہے تو اس کا علاج بھی ضروری ہے۔
ایک بزرگ فاقہ سے تھے۔ ان کے ایک مرید کو اندازہ ہوگیا کہ حضرت کا فاقہ ہے۔ وہ گھر گئے پکوان تیار کر کے لے آئے اور حضرت کے سامنے رکھ دیا کہ حضرت یہ نوش فرمائیں آپ کے لئے لایا ہوں۔ حضرت نے فرمایا بیٹا میرے لئے یہ حرام ہے۔ انہوں نے کہا: حضرت میرا مال تو حلال ہے۔ فرمایا: آپ کا مال حلال ہے، لیکن اس وقت میرے لیے یہ کھانا کھانا حرام ہے کیونکہ جب آپ جا رہے تھے تو مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ میرے لئے کچھ لینے جا رہے ہیں، یہ اِشراف نفس تھا لہذا اب میں اس کو استعمال نہیں کر سکتا۔ وہ مرید بڑے ہوشیار تھے۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی بہت عقل دیتے ہیں جو صحیح دین دار ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا حضرت میں آپ کو حرام کھلاؤں گا؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ یہ کہا اور کھانا وغیرہ اٹھا کر چلے گئے۔ کچھ دیر گزری تھی کہ پھر واپس آئے اور کہنے لگے حضرت میرے جانے سے آپ کو یہ خیال تو نہیں آیا کہ میں واپس آ جاؤں گا۔ انہوں نے کہا: نہیں ایسا نہیں ہوا۔ عرض کی تو پھر اب کھانا کھا لیں میں کھانا لے کر آیا ہوں۔
بہت ہی باریک فرق ہوتا ہے اشرافِ نفس اور طمع میں، بعض لوگ شاید اس کو معمولی چیز سمجھیں لیکن اس پہ بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ دل کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ایمان اور بے ایمانی کتنی مخفی چیز ہے۔ آپ کے ساتھ دو آدمی ہوں ایک ایمان دار ہو، دوسرا ایمان سے بے بہرہ ہو، بظاہر دیکھنے میں ایک جیسے لگیں گے لیکن اللہ کے نزدیک دونوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ یہ بڑی بڑی چیزیں ہیں ان سے اعمال کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ جو اس کو محسوس نہیں کرتا اور اس کے بارے میں نہیں سوچتا وہ بڑے خطرے میں ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ کی جیب میں دو لاکھ ڈالر ہوں، آپ کو پتا بھی نہ ہو اور وہ تبدیل ہو جائیں، کسی ایسی کرنسی میں بدل جائیں جو invalid ہو، بیٹھے بیٹھے سارے کے سارے ضائع ہو گئے۔ اسی طرح انسان کے ظاہری اعمال ان قلبی اعمال کی وجہ سے بیٹھے بیٹھے ضائع ہو جاتے ہیں۔ ان چیزوں کا خیال رکھنا بڑا ضروری ہوتا ہےاور اسی خیال رکھنے کے لئے ہی تصوف ہے کہ ان چیزوں کی alertness آ جائے۔ یہی وہ چیزیں ہوتی ہیں جن کی بنا پر بڑے بڑے ولی اللہ تھر تھر کانپتے ہیں۔ ہم لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ تھر تھر کیوں کانپ رہے ہیں اور اگر یہ بھی کانپ رہے ہیں پھر ہمارا تو کوئی شمار ہی نہیں۔۔ ایک طرف ان کا اثر ہوتا ہے دوسری طرف اللہ کے ہاں قبولیت یا رد کا معاملہ ان پہ منحصر ہوتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ، ہلاک ہو گئے سارے لوگ،مگر وہ جو علماء ہیں۔ پھر فرمایا: ہلاک ہو گئے سارے علماء مگر وہ جو عمل کرنے والے ہیں۔ پھر فرمایا: ہلاک ہو گئے سارے عمل کرنے والے مگر وہ جو اخلاص کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں۔ پھر فرمایا: اخلاص والے بھی خطرہ عظیم میں ہیں۔ چار چھلنیاں ہو گئیں، پہلے علم کی چھلنی ہے، پھر عمل کی چھلنی ہے، پھر اخلاص کی چھلنی ہے اور پھر عُجب سے نکلنا ہے۔ ان میں سے پہلی چھلنی تو ظاہر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے باقی تین چھلنیاں دل سے تعلق رکھتی ہیں۔ اب بتاؤ قلبی معاملات کو درست کرنا کتنا ضروری ہے۔ جو ان چیزوں کو نہیں جانتا وہ کتنے خطرہ میں ہے۔ اللہ جل شانہ بس سمجھ عطا فرمائے۔
سوال نمبر7:
حضرت آپ نے فرمایا کہ آدمی روحانی بیماریاں اپنے شیخ کو بتائے اور اس سے علاج کروائے۔ یہی بیماریاں انسان ڈائریکٹ اللہ تعالیٰ کو کیوں نہیں بتا سکتا، اور اس سے ان بیماریوں سے صحت یاب ہونے کی دعا کیوں نہیں کر سکتا؟
جواب:
دیکھیں یہ بات مسلم ہے کہ شفا دینے والا اللہ ہے۔ اس کے باوجود ہم ڈاکٹر کے پاس کیوں جاتے ہیں۔ اس لئے کہ شفا کا نظام اللہ نے اس کے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے۔ آپ کھانا کھا کے سیر ہوتے ہیں یا اللہ تعالیٰ کے حکم سے سیر ہوتے ہیں؟ اللہ کے حکم سےسیر ہوتے ہیں تو پھر کھانا کیوں کھاتے ہیں؟اس لئے کہ اللہ نے پیٹ کی بھوک ختم کرنے کا نظام کھانے کے ساتھ وابستہ کیا ہوا ہے۔ یہ وہی مسبب اور اسباب والی بات ہے۔ اللہ پاک نے جو ذرائع بنائے ہیں ان کی قدر دانی اللہ خود کراتے ہیں۔ جو جس چیز کے سبب کی قدر نہیں کرتا، اس کی اس چیز میں برکت نہیں ہوتی۔ والدین ہمارے وجود میں آنے کا ذریعہ ہیں، جو لوگ والدین کی قدر نہیں کرتے ان کا وجود خطرہ میں پڑ جاتا ہے زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، دنیاوی تکالیف میں مبتلا ہوتے ہیں، اطمینان قلب حاصل نہیں ہوتا، پریشان رہتے ہیں۔ استاذ کو اللہ تعالی نے علم کا ذریعہ بنایا ہے۔ جو استاذوں کی قدر نہیں کرتا ان کے علم میں برکت نہیں رہتی۔ مشائخ کو اللہ تعالی نے قلب سازی کا ذریعہ بنایا ہے۔ جو ان کی قدر نہیں کرتا اس کی روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔ اللہ ہی کے لئے سب کچھ ہے لیکن اللہ کے لئے وہ سب کچھ بنے گاکیسے؟ اس کے procedure کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ پاک نے ہر چیز کے اسباب بنائے ہیں ان اسباب کو اختیار کرنا پڑے گا۔
کلام
یہ کلام ہماری کتاب پیغام محبت کے پشتو ترجمہ میں سے ہے۔
دَمينې پېغام
دا پیغام دَ محبت دے عاشقان پهٔ دې ګويا ديدا خبرې دي دَ زړونو دا خبرې دَ وفا ديدې اشعارو کښې دَ خپل شېخ کيفيات ما څهٔ بيان کړودَ الله والو احوال دي دا احوال کله زما ديڅهٔ احوال پهٔ کښې دَ نورو څهٔ احوال پکښې زما همدي زما چې کوم خراب دي چې کوم ښهٔ دي دَ بل چا ديداشعارو پهٔ صورت کښې کړو مې پيش طريقِ جذببنده څنګه دَ الله شي جوړېدے پهٔ دې کښې داديدَ دنيا دَ محبت نه بنده څنګه خلاصيدے شيبې دَ يار دَ محبت نه پنجې کلکې دَ دنيا ديزړۂ بادشاه دے اے شبيؔره دا دَ خدائے کړه چې دَ خدائے شېپهٔ هغو کښې تهٔ شامل شه چې میٔن څوک پهٔ الله دي
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ