اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت! بعض لوگ تو شیخ کے پورے follower ہوتے ہیں، وہ تو آئیں گے ہی، لیکن بعض برکت کے لئے آتے ہیں، کبھی عمل کر لیا اور کبھی نہ کیا تو ان کو بھی اس سے کچھ فائدہ ہوگا؟
جواب:
دیکھیں! ایک آدمی مستقل کھانا کھاتا رہے اور ایک آدمی کبھی کبھی کھائے، تو جو کبھی کبھی کھائے گا اس کو بھی فائدہ ہوگا، لیکن اتنا نہیں ہوگا جتنا مستقل طور پر کھانے سے ہوتا ہے۔ روحانی رزق کی بھی ایسے ہی مثال ہے، یعنی اگر کسی کو واقعی مستقل فائدہ چاہئے تو اس کے لئے اس کا (بیشک وہ آ نہ سکے لیکن) مستقل رابطہ برقرار ہونا چاہئے۔ کیونکہ جو باہر کے لوگ ہیں وہ آ تو نہیں رہے، لیکن رابطہ ان کا ہوتا ہے۔ اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ قریب والوں کا اتنا رابطہ نہیں ہوتا جتنا دور والوں کا رابطہ ہوتا ہے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ قریب والوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے یا دور والوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے؟ حضرت نے فرمایا: مربی حقیقی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جب وہ دور والوں کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہے تو ان کے ساتھ ایسا معاملہ ہوجاتا ہے کہ ان کو فائدہ ہونے لگتا ہے۔ لیکن بات اسباب اختیار کرنے کی ہے۔ باقی کبھی کبھی آنا یقیناً نہ آنے سے بہتر ہے اس میں کوئی شک نہیں، Somthing is better than nothing یہ سب لوگ کہتے ہیں۔ اس لئے فائدہ تو ہوتا ہے، لیکن مستقل فائدہ، پورا فائدہ اس کے لئے رابطہ زیادہ بہتر رکھنے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر 2:
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے جس میں چار چیزیں بتائی گئی ہیں کہ اگر یہ ہوں تو بنتا ہے مسلمان۔
قہّاری و غفّاری و قدّوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اصل میں قہّاری میں یہ بات ہوتی ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہو، مسلمانوں کو نقصان پہنچتا ہو تو اس وقت وہ (مسلمان) سراپا غضب بن جاتے ہیں۔ اور غفّاری میں مطلب یہ کہ اگر کوئی ان کے ساتھ رابطہ کرنا چاہے تو گزشتہ چیزوں کو معاف کرنے کا حوصلہ ان کو بہت ہوتا ہے۔ قدّوسی کا مطلب یہ ہے کہ بہت پاک فطرت رہتے ہیں یعنی گندگی سے دور ہوں۔ اور جبروت کا معنی ہے چیزوں کو maintain کرنا جانتے ہوں۔ ہمارے خیال میں علامہ اقبال کا ذہن کیمسٹری کی اس چیز کی طرف گیا ہوگا کیونکہ وہ بھی چار عناصر ہوتے تھے۔ آگ، ہوا، پانی اور مٹی، اس طرف ذہن گیا ہوگا کہ اس میں بھی وہی چیزیں ہیں۔ آگ بھی ہے اور پانی بھی ہے، مٹی بھی ہے۔
ہو حلقۂ یاراں تو برریشم کی طرح نرم
رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
سوال نمبر 3:
شیخ! حضور پاک ﷺ اور صحابہ کو جب اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے تو وہ شفاعت کریں گے، لیکن کیا شیخ کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ بھی شفاعت کرے؟
جواب:
مجھے حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ملفوظ یاد آیا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں جب بیعت کرتا ہوں تو اس نیت سے کرتا ہوں کہ اگر اللہ پاک نے مجھے بخش دیا تو اس کو کھینچ لوں گا اور اگر اس کو بخش دیا تو یہ مجھے کھینچ لے گا۔ یہ حضرت کی تواضع تھی، اور یہ نہایت تواضع کی وجہ سے حضرت نے فرما دیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ بات تو ہے کہ شفاعت ہے اور اس کے کئی درجات ہیں، جن میں بڑی شفاعت آپ ﷺ کی ہے، پھر انبیاءِ کرام کی، پھر صحابہ کرام کی، پھر اولیاء کرام کی اور ان میں اللہ تعالیٰ جن کو بھی قبول فرما لے۔ لہٰذا مشائخ بھی اگر اس مقام پر پہنچ گئے تو ان کو بھی اللہ تعالیٰ اجازت اور اذن دیں گے۔ اور پھر وہ شفاعت کرسکیں گے۔ جیسے حافظ دس آدمیوں کی شفاعت کریں گے، ظاہر ہے ان کو بھی یہ حق ہوگا ان شاء اللہ۔ باقی انسان جس وقت عمل پر آئے تو اس وقت انسان خالصتاً اسباب کی طرف متوجہ ہوجائے اور جس وقت نتیجہ پر آئے تو پھر خالصتاً اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف متوجہ ہوجائے، یعنی الٹی بات ہوتی ہے۔ لیکن اکثر انسان عمل میں اس طرف چلے جاتے ہیں کہ چلو کام ہوجائے گا، اور جب دوسری بات آتی ہے تو پھر اس وقت ناامیدی کی طرف چلے جاتے ہیں، یہ دونوں باتیں غلط ہیں، نہ تو ناامیدی کی طرف جانا چاہئے اور نہ بہت زیادہ optimisim کی طرف جانا چاہئے۔ اللہ جل شانہٗ نے ہر چیز کا balance رکھا ہے اور ساری چیزوں کو balance پر رکھا ہے، اسی وجہ سے آپ ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہہ دیا تھا کہ بیٹی! میری وجہ سے تو نہیں بچے گی، بلکہ اپنے عمل کی وجہ سے بچے گی۔ (سننِ نسائی: 3674)
لہٰذا جب آپ ﷺ نے اپنی بیٹی سے کہہ دیا جبکہ آپ ﷺ کی شفاعت تو بالکل determined ہے، معلوم ہے، لیکن جب وہاں پر ایسی بات ہے تو باقی لوگوں کی بات تو اس کے بعد ہوگی۔ اس وجہ سے انسان کو ڈرتے رہنا چاہئے اور مایوس بھی نہیں ہونا چاہئے، دونوں کام بیک وقت ہوں، اسی سے balance آئے گا، اس لئے کہتے ہیں ڈرتے ڈرتے کام کرو اور کام کرتے کرتے ڈرا کرو یعنی انسان کو کام کرنے کے لئے ڈرتے رہنا چاہئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کی امید بھی رکھنی چاہئے، دونوں چیزیں بنیاد ہیں۔
سوال نمبر 4:
حضرت! یہ نفاق کیا ہوتا ہے؟ کیا اس کی کچھ قسمیں بھی ہیں؟
جواب:
ایک ہوتا ہے اعتقادی نفاق اور ایک ہوتا ہے عملی نفاق۔ اعتقادی نفاق یعنی جس میں اللہ پر ایمان ہی نہ ہو، بس وہ اس کا اظہار کرتا ہو، لیکن دل میں ہو نہیں۔ اور منافق جن کو کہا جاتا ہے وہ اصل میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا دین ہی نہیں ہوتا۔ لیکن جو عملی منافق ہے یعنی اس کا منافقوں کی طرح کام کرنا۔ مثلاً جھوٹ بولنا، امانت میں خیانت کرنا، اس قسم کی جو چیزیں ہوتی ہیں وہ ان کے کمزور ایمان کی علامت ہوتی ہیں یعنی ایمان اس level کا ان کا نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ان سے اس قسم کی غلطیاں ہوتی ہیں، تبھی اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ منافق کی طرح کام کرتا ہے، لیکن اس کو منافق نہیں کہا جاسکتا کیونکہ عقیدے کا پتا صرف اللہ کو ہی ہے۔ لہٰذا کسی پر صراحتاً منافق کا الزام اب نہیں لگایا جاسکتا، آپ ﷺ کے وقت میں تو آپ ﷺ کو وحی کے ذریعے سے پتا تھا، لیکن آج کل کے دور میں کسی کو اعتقاد کے اعتبار سے منافق کہنا ٹھیک نہیں ہے، اب صرف مسلمان ہیں یا کافر ہیں یا پھر درمیانی stage میں ملحد ہیں۔ ملحد اسلام کی جڑیں کاٹ رہا ہوتا ہے، لیکن اس قسم کی بات جب ظاہر ہوجاتی ہے تب پتا چلتا ہے کہ وہ ملحد ہے یعنی صحیح لوگوں پر یہ ظاہر ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ دو باتیں منافقوں میں ہیں۔
سوال نمبر 5:
کیا قطبِ ارشاد کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجدِّد یا قطبِ ارشاد ہے؟ جس طرح تکوینی بزرگوں کو معلوم ہوتا ہے۔
جواب:
نشانیوں سے تو اس کو اندازہ ہوجاتا ہے، لیکن اس کے بارے میں جب تک کوئی خاص بات نہ آئی ہو اس وقت تک وہ صرف گمان کی حد تک ہوتا ہے، لیکن ان کو شرح صدر اس طرح ہوجاتا ہے کہ وہ کام کرتے رہتے ہیں اور شرح صدر ان کو ہوتا رہتا ہے اور یہ کام ان سے اللہ پاک لیتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی صراحتاً ان کو بتا بھی دیا جاتا ہے۔ مثلاً حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے اپنا خواب بھیجا، خواب میں انہوں نے لکھا کہ آپ ﷺ بیمار ہیں اور آپ ان کی تیمار داری کررہے ہیں اور دور ایک صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور معلوم یہ ہوتا ہے (خواب میں) کہ وہ بھی طبیب ہے، لیکن ان کے خدوخال واضح نہیں ہیں۔ پھر خواب لکھنے والے شخص نے (کیونکہ یہ بھی کوئی عالم ہی ہوگا) لکھا کہ حضرت! اتنی بات تو اس سے معلوم ہوگئی کہ آپ ﷺ کیا بیمار ہوں گے، بلکہ آپ ﷺ کی امت بیمار ہے اور آپ ﷺ کی امت کا آپ علاج کر رہے ہیں۔ لہٰذا آپ حکیم الامت ہیں۔ اور یہ جو دوسرے صاحب ہیں جن کا طبیب کے بارے میں فرمایا گیا یہ کون ہیں؟ اس کے بارے میں مجھے پتا نہیں ہے۔ حضرت نے اس خواب کی تعبیر کا انکار نہیں کیا جو اس نے خود لکھی تھی۔ لیکن یہ فرمایا کہ دوسرے صاحب امام مہدی علیہ السلام ہیں اور چونکہ ابھی زماناً بعید ہیں، لہٰذا خواب میں مکاناً بعید دکھائے گئے ہیں۔ اور ایک بات اور کہ اس سے footnote جو لکھا تھا اس سے لگتا ہے کہ آپ (حضرت) شاید آخری مجدد ہیں یعنی امام مہدی علیہ السلام سے پہلے Second last ہیں۔ پھر صراحتاً کسی نے پوچھا، غالباً روشن خان رحمۃ اللہ علیہ نے پوچھا (جو حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے) وہ تشریف لائے اور انہوں نے فرمایا پہلے ہمارا گمان یہ تھا کہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ مجدد ہیں، لیکن ان کا فیض صرف خواص تک پہنچا، عوام تک نہیں پہنچا، جبکہ آپ کا فیض عوام و خواص دونوں کو پہنچا ہے۔ لہٰذا اب ہمارا شرح صدر یہ ہے کہ آپ مجدد ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ گمان تو مجھے بھی یہی ہے، لیکن یقین کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی، صرف گمان کی بات۔ لیکن ایسے لوگوں کے بارے میں آخری عمر میں بعض دفعہ بتا دیا جاتا ہے۔ جیسے ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ایک صاحب کو بالکل آخری سال میں خواب میں بتایا گیا کہ وہ قطب ہیں۔ لہٰذا ایسا ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ لیکن تکوینی نظام کے جو حضرات ہوتے ہیں ان کو بالکل clear پتا ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ عہدے والوں سے عہدے کا کام لیا جاتا ہے، جیسے کوئی لیفٹیننٹ جنرل ہے، کوئی میجر جنرل ہے، کوئی کچھ ہے، بالکل اسی طریقے سے ان کی تقسیم ہوتی ہے۔
سوال نمبر 6:
وہ جو اپنی جماعت ہے وہ تصوّف اور صوفیاء کے خلاف باتیں کرتی ہیں اگر کوئی ان جماعتوں میں جانے کے لئے مشورہ کرے تو کیا ان کو صراحتاً روک دینا چاہئے؟
جواب:
اگر یہ لوگ اپنے ہوں تو ان کو روکنا چاہئے، کیونکہ ان کو بہت نقصان ہوگا کہ یہ ان کے لئے ناجنس ہیں اور ناجنس کی صحبت سے نقصان ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کو روکنا چاہئے، لیکن جو لوگ ہمارے ساتھ شامل نہ ہوں، ان کے سامنے بات کو کھول کے رکھنا چاہئے کہ بات تو ایسی ہے۔ اگر وہ بات ان کو سمجھ آجائے تو ٹھیک ہے۔ البتہ ان کے لئے دل سے دعا کرنی چاہئے کہ غلط لوگوں کے پاس وہ نہ جائیں۔
سوال نمبر 7:
کیا نفسیاتی نشہ کے عادی مریضوں کو صوفیاء کی طرف علاج کی غرض سے رغبت دلوانی چاہئے؟ جبکہ دنیاوی چیزیں دینی نہیں ہیں۔
جواب:
یہ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ نفسیاتی بیماریوں کا جو علاج ہے (بقول بہت بڑے ماہرِ نفسیات کے جنہوں نے فرمایا کہ میں بھی سمجھتا ہوں کہ نفسیاتی بیماروں کا علاج) وہ تصوّف کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈپریشن ایک مشہور بیماری ہے جو عموماً دنیا کے ساتھ محبت کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی دنیا کے ساتھ محبت ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو کسی سے کم سمجھتا ہے اور احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے پھر ڈپریشن ہونے لگتا ہے۔ پس اگر اس کی وہ محبت نکل جائے تو پھر اس کی base ختم ہوگئی، اب اس کے صرف After effects ہوں گے اور After effects کا علاج کروایا جائے گا۔ اور anxiety میں بھی یہی ہوتا ہے یعنی وہ بھی اسی قسم کی چیز ہے۔ اس لئے تصوّف واقعی اس کے علاج کے لئے بہتر ہے۔ لیکن نفسیاتی بیماریوں کے دو stages ہیں۔ ایک Psychological stage ہے اور ایک اس کا Psychiatric stage ہے۔ psychological stage میں تو یہ بہت جلدی فائدہ پہنچاتا ہے، یعنی یہ self suggestion کی طرح کی چیز ہے۔ پھر اس میں جو کیا جاتا ہے تو وہ اس کے لئے بالکل Psychological range میں تیر بہدف ہے۔ لیکن جو Psychiatric stage میں آجاتا ہے یعنی جس کی brain کی کیمسٹری میں فرق آجائے تو پھر دونوں قسم کے علاج ہونے چاہئیں۔ کوئی ماہرِ نفسیات ڈاکٹر ہو، اس سے میڈیسن دلوانی چاہئے اور جیسے ہی وہ Psychological range up rise کرلے تو پھر اس کا علاج اس طریقے سے کرلے۔ آج کل میرے ذہن میں اس سے متعلق جو اللہ پاک نے combination ڈالی ہے، وہ اس طرح ہے کہ Psychiatric stage میں جو مریض ہے، ان کو ہم ان نفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس بھیجتے ہیں جن کو تھوڑی بہت دین کے ساتھ مناسبت ہو کیونکہ وہ لوگ بیچارے ایسی کتابیں پڑھتے ہیں، ایسی Text book پڑھتے ہیں جو یورپ والوں نے لکھی ہوتی ہیں اور ان میں جو علاج ہے وہ بذات خود بیماری ہوتی ہے جس سے وہ ایک مستقل طور پر بیمار بن جاتے ہیں۔ مثلاً میوزک میں ڈال دیتے ہیں، ٹیلی ویژن دیکھنے پر ڈال دیتے ہیں اور غلط غلط باتوں پر وہ ڈال دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ چیزیں ٹھیک ہیں کہ اس سے ان بیماریوں کا علاج ہوجاتا ہے۔ لیکن جب پاک چیزوں سے علاج ہوسکتا ہے تو گندی چیزوں سے علاج کیوں کیا جائے؟ چنانچہ بجائے اس سے کہ ان کو ان چیزوں پر ڈالا جائے بلکہ وظائف اور دوسری چیزوں پر ڈالا جاسکتا ہے۔ لیکن بہرحال میڈیسن ان سے لی جائے۔ اس وجہ سے میں اکثر جب نفسیاتی ماہرین کے پاس جس کو بھیجتا ہوں تو ان سے کہتا ہوں کہ دوائی آپ نے ان سے لینی ہے اور suggestion آپ نے ہم سے لینی ہے یعنی دوائی ان سے لیں لیکن suggestion کے لئے پھر ہمارے پاس آئیں۔ الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے کہ کئی لوگوں کو اس طریقے سے فائدہ ہوا۔ اور یہ مجبوری ہے، کیا کریں۔ آج کل اگر وہ ایسے ہوں تو ہم ضرور ان کے پاس چھوڑ دیں لیکن لائن کچھ ایسی ہے، اب کیا کریں اس کے ساتھ۔
سوال نمبر 8:
شجرہ کس لئے ہوتا ہے؟ یہ کس وقت پڑھنا چاہئے؟ کیا اس سے سلسلہ کا تعلق strong ہوتا ہے؟
جواب:
شجرہ اصل میں وسیلہ پکڑنا ہے۔ یعنی جب ہم شجرہ پڑھتے ہیں تو ہم اپنے سلسلے کے واسطے سے اللہ پاک سے مدد مانگتے ہیں، مانگنا چونکہ اللہ سے ہے اس وجہ سے اس کو شرک نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں۔ اس لئے کہ مانگتے تو اللہ سے ہیں، لیکن اللہ جل شانہٗ سے ہم درخواست کرتے ہیں اور اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی برکت سے ہمارا کام بنا دو اور چونکہ ان کے ساتھ ہمارے سلسلے کا تعلق ہوتا ہے، لہٰذا اللہ پاک ایسی دعاؤں کو قبول فرماتے ہیں اور اس کی برکت حاصل ہوجاتی ہے اور برکت تو یقیناً ہے۔ لہٰذا جب بہت مشکلات آجائیں تو اس وقت اس کا پڑھنا بہت مفید ہوتا ہے اور اس سے سلسلے سے تعلق بھی strong ہوتا ہے۔
سوال نمبر 9:
بدگمانی آجانے پر فوری طور پر انسان کو کیا سوچنا چاہئے کہ بدگمانی ختم ہوجائے؟
جواب:
بدگمانی آنے پر فوراً انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ یہ گمان ہی تو ہے difference تو اس میں نہیں ہے اور جب difference نہیں ہے تو صرف گمان پر کسی کے بارے میں برا سوچنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اور یہ سوچے کہ اگر یہ اس میں نہ ہو تو میرے اوپر یہ سارا لوٹ کے آجائے گا، پھر تو مجھے بڑا روحانی نقصان ہوجائے گا، لہٰذا میں کیوں اپنا نقصان کروں؟ اور اگر کوئی اس قسم کی بات ہو تو آدمی دعا کرے کہ یا اللہ! اگر یہ مسئلہ ایسا ہے تو مجھے اس کے شر سے بچا دے اور اگر ایسا نہ ہو تو میرا دل اس کے لئے صاف کر دے۔ اور پھر ظاہراً اس کے بارے میں اچھی بات کرے تاکہ جو غلط سوچا ہے اس کی تلافی ہوجائے۔
سوال نمبر 10:
روحانیت کو ضائع کرنے والے کون سے اعمال ہیں اور روحانیت کو بڑھانے کے لئے کون سے اعمال ہوتے ہیں؟
جواب:
میرے خیال میں ہماری کتاب ’’زبدۃ التصوف‘‘ بعض لوگ پڑھتے نہیں ہیں۔ اس وجہ سے اس قسم کے سوالات کرتے ہیں کیونکہ ہماری کتاب ’’زبدۃ التصوف‘‘ میں موانع بتائے گئے ہیں۔ اور وہ موانع روحانیت کو ضائع کرنے والے ہوتے ہیں۔ ان موانع میں سے بعض یہ ہیں: مخالفتِ سنت، مخالفتِ شیخ، تعجیل کرنا یعنی جلدی مچانا، نظر کی حفاظت نہ کرنا اور دل میں غلط باتیں سوچنا، ان سب سے روحانیت کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ آپ میرے خیال میں ’’زبدۃ التصوف‘‘ دیکھیں ان شاء اللہ العزیز اس سے بہت فائدہ ہوجائے گا کیونکہ وہاں ذرا تفصیل بھی موجود ہے۔ اور روحانیت بڑھانے کے لئے ذکر اللہ کی کثرت ہے، صحبتِ صالحین ہے، موت کی یاد ہے اور درود شریف ہے۔
سوال نمبر 11:
کیا کمپیوٹر گیمز کھیلنے سے بھی روحانیت کو نقصان ہوتا ہے؟ جبکہ وہ بغیر تصاویر کے ہوں۔
جواب:
ایک حدیث شریف ہے:
’’مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْأِ تَرْکُہٗ مَالَا یَعْنِیْہِ‘‘ (سننِ ترمذی: 2317)
ترجمہ: ’’کسی شخص کے اسلام کی خوبی اس میں ہے کہ وہ اس چیز کو ترک کردے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو‘‘۔
یعنی نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو اور نہ آخرت میں۔ یہ کمپیوٹر گیمز میں کیا ہوتا ہے؟ اس میں کوئی فائدہ نہیں۔ کمپیوٹر کے ماہرین نے فتویٰ دے دیا ہے کہ اس سے صرف ٹائم ضائع ہوتا ہے، اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس لئے یہ لایعنی ہیں اور لایعنی سے روحانیت کا نقصان ہوتا ہے۔ حضرت نے فرمایا ہے کہ امرود بیچنے والا اگر سارا دن آواز لگاتا پھرے کہ امرود لے لو، امرود لے لو اس سے اس کو کوئی روحانی نقصان نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ ایک غلط بات یعنی لایعنی بات منہ سے نکال دے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو تو اس کا ضرور نقصان ہوگا۔ جب یہ بات ہے تو نقصان تو ہوگا۔
سوال نمبر 12:
مراقبہ کرتے ہوئے ہلنا شعوری ہوتا ہے یا لا شعوری؟ اور یہ کیوں ہوتا ہے؟
جواب:
یہ سب کو تو نہیں ہوتا بلکہ کسی کسی کو ہوسکتا ہے۔ اور یہ جو دل کا ذکر ہے اس کی کیفیت پر ہوتا ہے۔ اگر ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ میں کسی کا ہلنا ہے تو اس میں ہلنا نسبتاً سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ ہم جو ذکر کرتے ہیں اس میں ویسے بھی انسان ہلتا ہے اگر زبان سے بھی وہ کرتا ہو یعنی جہری ذکر کرتا ہو تو اگر وہ اندر چلا جائے تو اس سے بھی انسان ہل سکتا ہے اور اس سے اکثر لوگوں کو ہوتا ہے۔ باقی ’’اَللہ اَللہ‘‘ سے بھی بعض لوگوں کو ہوتا ہے، جس کو ہم جھومنا کہتے ہیں، یعنی اس کے سُر میں body آجاتی ہے جس سے اس کا اثر ہوتا ہے۔ اور یہ لاشعوری ہوتا ہے انسان اپنے ارادے سے نہیں کرتا، لیکن یہ ہر ایک کو نہیں ہوتا اور جس کو ہوتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر 13:
ایک خط آیا ہے جس میں کوئی خاتون فرماتی ہیں کہ تصوّف کا خلاصہ پڑھا ہے جس میں رذائل کو دور کرنے پر بھی کافی زور تھا۔ حضرت! میری کچھ بری عادات ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون سی عادت رذیلہ ہے اور اس کا علاج کیا ہے؟ پہلی بات یہ ہے خلافِ طبیعت یا خلافِ حکم اگر کوئی بات ہوجائے تو منہ بنا لینا اور جو یہ حرکت کرے اس سے سخت ناراض ہوجانا۔
2- اگر کوئی مجھے دوبدو جواب دے تو اسے نہایت بدتمیز اور گستاخ خیال کرنا اور اگر غصے پر قابو آئے بھی سہی تب بھی برے القاب مثلاً بدتمیز کہہ دینا، گھنٹوں اس سے ناراض ہونا، اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کرنا، نہ ہی اس کی کسی بات کا جواب دینا، یہ سلوک عموماً بہنوں سے ہوتا ہے اور کلاس فیلوز کے لئے تو عام معافی ہے۔
حضرت نے ایک بار فرمایا کہ جس میں تکبر ہو اس کو تکبر کا پتا ہی نہیں چلتا۔ حضرت جی! کیا غرور و تکبر میں کوئی فرق ہے؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ بندہ میں تکبر نہ ہو لیکن غرور ہو؟ کیونکہ مجھے اکثر سننا پڑتا ہے کہ پتا نہیں کیا سمجھتی ہے اپنے آپ کو؟
کینہ اور بدگمانی میں کیا فرق ہے؟ اگر عادت نمبر 2 صرف کسی ایک کے ساتھ روا رکھی جائے تو کیا یہ کینہ ہے؟ حضرت جی! اس بار کے لاہور اجتماع پر جو کتابیں ساتھیوں کو ہدیہ کی گئی تھیں اس میں کتاب ’’وطنِ اصلی کی محبت‘‘ بھی تھی، اس کو پڑھ کر یہ خواہش ہوئی کہ اس وقت جتنا زیادہ ممکن ہوکر لیا جائے تاکہ آگے آدھا کر لیا جائے، حضرت جی! ایسا بھی تو ہے کہ تھوڑا ہو لیکن استقامت کے ساتھ ہو۔ میں نے سوچا کہ نفلوں کی تعداد بڑھا دینی چاہئے یعنی اوابین کی چھ کی بجائے بیس کردیں اور ساتھ قضائے عمری جس کو ادا کرنے میں بہت کوتاہی اور سستی کا سامنا ہے، لہٰذا صرف چار فرض کی بجائے چار سنت غیر مؤکدہ اور چار رکعت قضا نماز پڑھوں۔اب حضرت جی! آپ لائحہ عمل تجویز فرمائیں کہ کیا ہونا چاہئے؟ نیز نوجوانوں کے لئے بھی کوئی ایسی کتاب تجویز فرما دیجئے جس سے وطنِ اصلی کی محبت دل میں جڑ پکڑے کیونکہ مندرجہ بالا تو بوڑھے لوگوں کے لئے تھی۔
جواب:
ماشاء اللہ! بہت فکر والا خط ہے۔ اللہ کرے کہ فکر اور بڑھ جائے اور عمل کی بھی توفیق ہوجائے۔ پہلی بات، یہ جو فرمایا کہ ’’خلافِ طبیعت یا خلافِ حکم کوئی بات ہوجائے تو منہ بنا لینا اور جو یہ حرکت کرے اس سے سخت ناراض ہوجانا‘‘ اس میں خلاف طبیعت تو آپ نے خود کہہ دیا ہے۔ اور خلاف طبیعت جو بھی کام ہو تو طبیعت اس کے خلاف ہوگی اور پھر طبیعت بھی اس کے خلاف کچھ کرے گی۔ لہٰذا یہ جو آپ کر رہی ہیں یہ طبیعت کر رہی ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنی طبیعت کو کنٹرول کیا جائے اور یہ کنٹرول اختیاری ہو، یعنی یہ نہ سوچا جائے کہ خود بخود ایسا ہوجائے گا، جیسا کہ اکثر لوگ ایسا کرتے ہیں کہ مجھے کوئی ایسا وظیفہ بتا دیں جس سے خود بخود سب کچھ ہوجائے۔ اس کے لئے وظائف نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے مجاہدہ ہوتا ہے۔ اور مجاہدہ یہ ہے کہ اس بات کو گوارا کیا جائے اور خود یہ سوچا جائے کہ میں تو اس سے بھی زیادہ برا ہوں یا بری ہوں، یہ تو بڑا سستا سودا ہوگیا یعنی جو بات میرے بارے میں کی گئی ہے یہ ایک بات ہے، باقی ان کو بہت ساری باتوں کا پتا بھی نہیں ہے، جب پتا نہیں ہے تو یہ تو معذور ہیں۔ جیسے ایک بزرگ راستے پر جا رہے تھے، جمعہ کی نماز پڑھانے کے لئے جارہے تھے اور صاف کپڑے پہنے ہوئے تھے، جیسے عام طور پر جمعہ کے لئے لوگ اہتمام کرتے ہیں۔ مریدوں کی بھی ایک جماعت ساتھ تھی، کوئی عورت اپنا کوڑا گھر کی چھت سے پھینک رہی تھی کیونکہ لوگ بھی غیر محتاط ہوتے ہیں، پروا نہیں کرتے کہ نیچے گرا رہا ہوں کوئی ہو نہ یا شاید وہ راستہ کچھ اتنا زیادہ مشہور یعنی مسلسل busy راستہ نہیں ہوگا۔ خیر انہوں نے اوپر سے کوڑا پھینکا وہ سارا حضرت پر آگیا، اب اگر کوڑا آجائے ایسے کپڑوں پر جو نہا کر صاف ستھرے پہنے ہوں تو آپ اس کا تصور کرلیں اور آپ ساری باتیں اس میں جمع کرلیں جو آپ کو پیش آسکتی ہیں اور سوچیں کہ حالت کیا ہو چکی ہوگی؟ حضرت نے تو برداشت کر لیا، لیکن حضرت کے مریدوں سے برداشت نہیں ہوا، جب حضرت کو احساس ہوگیا کہ یہ تو مسئلہ ہوسکتا ہے تو وہ ادھر ہی رک گئے اور مریدوں کو خطاب کیا کہ دیکھو! جس کو پھانسی کی سزا دی جانی ہو اگر اس کو دس سال قید بامشقت دے دی جائے تو وہ کیا ہے یعنی اس کے لئے اچھا ہے یا برا ہے؟ انہوں نے کہا یہ تو اچھا ہے۔ حضرت نے کہا دیکھو! میں تو اپنے آپ کو یوں سمجھتا ہوں کہ میں تو زمین پر پھرنے کے بھی قابل نہیں ہوں، یہ تو زمین میرا بوجھ برداشت کر رہی ہے اور یہ بھی بڑی نعمت ہے چہ جائے کہ میں اپنے لیے کچھ یہ سمجھوں کہ میرا اکرام ہو۔ لہٰذا اگر اس کے ذریعے مجھے معاف کرنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو یہ تو بہت سستا سودا ہے، اس پر خوش ہونا چاہئے یا نہیں؟ تو اس طریقے سے اپنے مریدوں کو سمجھا دیا تاکہ وہ اور کوئی حرکت نہ کریں۔ ایسے ہی ایک دفعہ کسی بزرگ کو کسی نے خط بھیجا اور خط میں بڑے غلط الفاظ کے ساتھ ان کو مخاطب کیا (کیونکہ مخالفین تو ہوتے ہیں) مرید بڑے مشتعل ہوگئے کہ اس کے ساتھ کیا کریں؟ حضرت اٹھے اور ایک بوری خطوط کی لے آئے اور ان کے سامنے ڈال دی کہ دیکھو! ان میں انہوں نے کیا لکھا ہے؟ ان میں میرے بارے میں القاب و آداب کے الفاظ جو لکھے ہیں، نہ یہ باتیں صحیح ہیں اور نہ یہ صحیح ہے جو انہوں نے مجھے ابھی کہا ہے۔ اگر آپ لوگ اس پر ناراض ہیں کہ یہ خلاف واقعہ بات ہے تو وہ بھی خلاف واقعہ ہی ہیں، پھر ان کے خلاف بھی کچھ کرو۔ یعنی اگر خلاف واقعہ بات پر غصہ ہے تو پھر اس طرف بھی غصہ کرو، اور اگر ادھر نہیں کرتے تو پھر اس کے خلاف کیوں کرتے ہو؟ لہٰذا اس پر بھی آپ لوگ سیخ پا نہ ہوں، بس ان کے لئے دعا کر لیں۔ لہٰذا طبیعت تو ہوتی ہے، طبیعت سے انکار نہیں ہے لیکن طبیعت کو کنٹرول کرنے کا حکم ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصہ کو قابو کرے۔ کیونکہ غصے میں انسان اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور اس کو سوچ نہیں ہوتی کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اس وجہ سے اس کو قابو کرنا مجاہدہ ہے اور جب یہ مجاہدہ بار بار ہوتا ہے تو ریاضت بن جاتا ہے، جس سے پھر اصلاح ہوجاتی ہے۔ ’’تکبر اور غرور‘‘ غرور اصل میں تکبر نہیں ہے، بلکہ ہم لوگوں نے اس کو غرور بنایا ہوا ہے، تکبر اصل لفظ ہے۔ غرور کہتے ہیں دھوکے کو، یعنی غرور جو عربی کا لفظ ہے، یہ دھوکہ کے لئے ہے اور انسان کو اپنے بارے میں دھوکہ ہی ہوتا ہے تبھی تو وہ تکبر کرتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میں پتا نہیں کیا ہوں؟
ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی نے کہا کہ تمہیں پتا ہے کہ میں کیا ہوں، میں کون ہوں؟ حضرت نے فرمایا جی بالکل پتا ہے۔ پہلے آپ گندے قطرے تھے، اب گند کے ڈھول ہو، پھر گند کے ڈھیر ہوگے یعنی تینوں حالتیں ماضی، حال، مستقبل سب بتا دیں کہ مجھے معلوم ہے کہ کون ہو تم۔ بات یہی ہے کہ بعض دفعہ انسان کو اپنے بارے میں دھوکہ ہوتا ہے کہ میں تو ایسا ہوں اور میں ویسا ہوں، حالانکہ جب آدمی کے ساتھ کچھ ہوجاتا ہے، تو پھر پتا چل جاتا ہے کہ میں کیا ہوں۔ اس وجہ سے غرور کا مطلب اپنے بارے میں دھوکہ ہونا ہے اور بعض دفعہ دنیا بھی دھوکہ دیتی ہے اس لئے ’’مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘ اس کو کہا گیا ہے۔ اور تکبر اس کا ایک اثر ہے۔
اور یہ سوال کہ ’’کینہ اور بدگمانی میں کیا فرق ہے‘‘۔ بدگمانی تو حال کی چیز ہے اور کینہ ایسی چیز ہے جو ماضی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، مثلاً اگر آپ کو کسی نے تکلیف دی ہے اور اس تکلیف سے آپ اس سے ناراض ہیں اور ناراضگی کی وجہ سے آپ نے ذہن میں ٹھان لی ہے کہ مجھے موقع ملے گا تو اس کے ساتھ کچھ کروں گا۔ یہ جو کچھ کرنے کا ارادہ ہے یہ کینہ ہے یعنی فی الحال تو کیا نہیں جاسکتا لیکن ارادہ ہے۔ تو یہ ارادہ یہ کینہ ہے۔ یہ دل کی بہت بڑی گندگی ہے، کیونکہ کینہ ور شخص کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور اللہ کی رحمت سے دوری ہوجاتی ہے۔
’’وطنِ اصلی کی محبت‘‘ یہ بہت اچھی کتاب ہے ماشاء اللہ اور یہ بات ٹھیک ہے کہ یہ بوڑھوں کے لئے لکھی گئی ہے لیکن نوجوان بھی اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے اخبارِ خواتین پہ لکھا ہوتا تھا کہ یہ عورتوں کے لئے ہیں لیکن ہوشیار اور عقلمند مرد بھی اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ لہٰذا اس کو بھی نوجوان پڑھ سکتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن بس فرق نوجوانوں اور بوڑھوں میں اصلاح کے طریقۂ کار کا ہے، نوجوانوں کو ڈرانا زیادہ چاہئے اور بوڑھوں کو امید زیادہ دلانی چاہئے۔ نوجوانوں کو زیادہ اس لئے ڈرانا چاہئے کیونکہ وہ ڈر برداشت بھی کرسکتے ہیں اور ان کے پاس وقت بھی ہے، وہ کام بھی کرسکتے ہیں۔ جبکہ بوڑھوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ بس جو کچھ ہوگیا وہ تو ہوگیا لیکن اب ان کو امید دلاؤ کہ کچھ نہ کچھ کرلیں اور مایوس ہوکر سب کچھ ہی ضائع نہ کردیں۔ اس لئے بوڑھوں کے لئے یہ طریقہ ہے کہ ان کے ساتھ ایسی باتیں کی جاتی ہیں جس سے ان کی امید بندھے، ڈھارس بندھے۔ اور نوجوانوں کو ذرا ڈرانے کی باتیں زیادہ ہونی چاہئیں۔ ویسے balance ہر ایک کا اپنا اپنا ہے، اس لئے balance پر رکھنا چاہئے۔ ہمارے جو بیانات وغیرہ ہیں اس میں تقریباً مختلف قسم کی باتیں آجاتی ہیں، کچھ نوجوانوں کے لئے، کچھ مردوں کے لئے، کچھ عورتوں کے لئے اور کچھ بوڑھوں کے لئے اس قسم کی آجاتی ہیں۔ اگر مستقل طور پر ان شاء اللہ آپ سنتی رہیں گی تو امید ہے کہ اس سے فائدہ ہوتا جائے گا ان شاء اللہ۔
سوال نمبر 14:
حضرت! الحمد للہ دعاؤں کی بہت درخواست ہے۔
جواب:
اس کی combination سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک دفعہ ہم جرمنی میں تھے، تو ایک عرب ساتھی امتحان میں فیل ہوگئے، میں نے غلطی کہ میں نے اس سے پوچھ لیا کہ بھائی! کیا ہوا آپ کے exam کا؟ وہ کہتا ہے الحمد للہ! ناکام ہوگیا۔ میں نے اس سے کہا کہ بھائی! اس موقع پر تو الحمد للہ نہیں بولا جاتا بلکہ اس موقع پر تو یہ پڑھنے کا حکم ہے:
﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ﴾ (البقرہ: 156)
ترجمہ: ’’ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے‘‘۔
لہٰذا آپ کا طریقہ تو قرآن کے مطابق نہیں ہے لیکن وہ سر ہوگیا اور کہتا ہے کہ نہیں! بالکل اسی طرح کہنا چاہئے کیونکہ ہر حال میں شکر کرنا چاہئے۔ میں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ لیکن باقی ساتھیوں نے ان کو کہا کہ بھائی! اس وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ ہی زیادہ افضل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کو وقت کے حالات کے مطابق بات کرنی چاہئے۔ جیسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص گدھا خریدنے کے لئے جا رہا تھا، اور پیسے بھی اس کے پاس تھے تو کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ کہنے لگا کہ گدھا خریدنے کا ارادہ ہے۔ انہوں نے کہا ان شاء اللہ بھی کہو۔ اس نے کہا کیا ضرورت ہے؟ اس کے پیسے میرے جیب میں ہیں، گدھا مارکیٹ میں ہے، بس ابھی لے آؤں گا۔ انہوں نے کہا چلو ٹھیک ہے۔ وہ گیا تو جیب کٹ گئی، جب واپسی پر خالی آرہا تھا تو اس نے کہا کیوں گدھا نہیں ملا؟ کہتا ہے ان شاء اللہ میری جیب کٹ گئی۔ خیر یہ تو میں نے ویسے برسبیل تذکرہ بات کی، لیکن الفاظ ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ اور ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ اور ’’اَللہُ اَکْبَرُ‘‘ اور ’’اَسْتَغْفِرُ اللہَ‘‘ وغیرہ اس کے اپنے اپنے مواقع ہیں۔
سوال نمبر 15:
یہ جو اس قسم کے الفاظ ہیں: ’’ان شاء اللہ‘‘ اور ’’ماشاء اللہ‘‘ ان کا بعض اوقات بے خیالی میں غلط استعمال لوگ کر لیتے ہیں، کوئی ایسی دنیاوی چیز یا عجیب سی چیز میں ماشاء اللہ وغیرہ بولنا کیسا ہے؟
جواب:
یہ غفلت کی علامت ہے۔ اصل میں اگر کسی کے دل میں ان چیزوں کے بارے میں صحیح concept موجود ہو تو پھر وہ ان کا حق ادا کرتے ہیں، ورنہ یہی ہوگا کہ محض عادتاً لوگ کہیں گے اور اس سے پھر یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ حق ادا نہیں ہوتا بلکہ معاملہ مختلف ہوجاتا ہے۔ جیسے حرام پر بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نہیں پڑھنا، مثلاً شراب پینے پر بھی نہیں پڑھنا۔ اگرچہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنے کا تو ثواب ہے لیکن شراب پر نہیں ہے۔ اور جیسے کوئی کہہ دے (نعوذ باللہ من ذالک) کہ الحمد للہ چوری بہت اچھی رہی۔ اور جیسے ’’ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ‘‘، ’’ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ‘‘ کے ساتھ لوگوں نے کیا ہوا ہے کہ حرام مال سے کوٹھی بنا لیتے ہیں اور پھر اس پر لکھتے ہیں ’’ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ‘‘۔ لہٰذا ایسی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں، لیکن یہ غفلت کی وجہ سے ہیں؟
سوال نمبر 16:
میں psychatry کی دوائی کھا رہا ہوں۔ آپ مجھے کچھ پڑھنے کے لئے بھی بتا دیں۔
جواب:
بتا دوں گا ان شاء اللہ۔
کچھ concepts clear کرنے کے لئے چیزیں ہیں۔ اہل حدیث حضرات جو ہیں ان کا مسلک تین رباعیات میں بیان کیا گیا ہے یعنی جو وہ کہنا چاہتے ہیں وہ ہم نے کہہ دیا ہے۔ اس کے بعد پھر ان کا جواب ہوگا۔
قرآن میں ہدایت ہے تو تشریح ہے سنت
یہ دونوں جو مل جائیں تو ملتی ہے ہدایت
ان دونوں کو مضبوط پکڑنے کا حکم ہے
ان میں کوئی چھوٹے نہ ورنہ چاہے ذلالتسنت حدیث سے وہ ہے حدیث پہ عمل
ہو دونوں کے سنگم میں اپنا دین مکمل
تو اس طرح تیسرے کی ضرورت نہیں کچھ بھی
یہ راستہ جنت کا اسی راہ تو اس پہ چل
تیسری بات
قرآن ہے امام، اماموں کی ضرورت کیا
حدیث بھی موجود تو پھر فقہ کی حاجت کیا
ہے عقل اپنے پاس تو ان سے ہی تو پوچھیں
ان دو سے آگے کون کہ بولے اس کی جرات کیا
پہلی میں کوئی شک نہیں ہے اور تیسرے میں آخری شعر کے اوپر comment ہے اور تیسرا بالکل غلط ہے۔ لیکن پہلے بالکل صحیح ہیں۔ جیسے کہتے ہیں ’’کَلِمَۃُ الْحَقِّ اُرُیْدَ بِھَا الْبَاطِلُ‘‘ یعنی صحیح بات ہو لیکن اس کے ذریعے سے غلط concept create کیا جائے، اور ایسا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ ضرورت ہے concept clear کرنے کی۔ اس لئے اب اہل سنت و الجماعت کا مسلک چند رباعیات میں ہے۔
قرآن و سنت کا معیار ہدایت:
قرآن اور سنت تو ہے معیار یقیناً
سنت اور صحابہ پہ ہے مدار یقیناً
قرآن اور سنت پر ہو عمل کیسے شبیرؔ
ہے اس میں بڑا فقہ کا کردار یقیناً
یعنی آپ اس پر عمل کیسے کریں گے؟ جب بھی عمل کریں گے تو فقہ بن جائے گا، کوئی بھی اس میں غور کرے گا تو غور کرنا ہی فقہ ہے۔ اب یا تو انسان خود فقیہ ہوگا تو خود وہ غور کر لے گا اور اگر خود نہیں تو کسی اور فقیہ کے پیچھے جائے گا۔ بس اتنی سی بات ہے یعنی قرآن اور سنت سے جب آپ اپنے مسائل کو عمل کرنے کے لئے نکالیں گے تو وہ فقہ بن جاتا ہے۔ اب وہ فقہ آپ اپنی مسجد کے امام سے پوچھیں اگر آپ نہیں جانتے، ایک طریقہ تو یہ ہے اور ایک یہ ہے کہ پوری دنیا کے اماموں سے پوچھیں۔ اب ہم پوری دنیا کے اماموں سے پوچھ رہے ہوں وہ اپنی مسجد کے امام سے پوچھ رہے ہیں، بس فرق صرف اتنا ہے۔ اور چونکہ اہل سنت و الجماعت کا مسلک ہے تو اس میں اہل سنت و الجماعت صحابہ کس کو کہتے ہیں۔ اس بارے میں عرض ہے:
ابو بکر صحابی ہیں تو علی بھی صحابی
اور عائشہ صحابیہ تو فاطمہ ہے بھی
اور مائیں بھی اپنی صحابیات ہی تو ہیں
حسنین صحابہ ہیں ان سے جدا نہیں
صحابہ بطور شارح قرآن وسنت:
سب مل کے صحابہ ہیں بڑی شان ہے ان کی
سنت کے شعائر ہیں یہ احسان ہے ان کی
سنت پہ عمل ان کی تشریح سے ممکن
اور حق کا نمونہ فہمِ قرآن ہے ان کی
پھر ہمارے اہل سنت و الجماعت کون ہیں؟
قرآن کی تشریح ہے سنت پہ منحصر
تشریح میں سنت کی صحابہ ہیں معتبر
ہے اہل سنت و الجماعت ہو کے جو چلیں
تینوں گروہ صحابہ کی تشریح کو لے کر
فقہاء اور صحابہ کا roll ہے:
قرآن کے، سنت کے مفاہیم کے حامل
جو نور فقہا کو صحابہ سے تھا حاصل
حسبِ حدیث ان کو بھلائی ہوئی نصیب
اس نور سے مرتب ہوئے فقہ کے مسائل
اہل سنت و الجماعت کا roll ہے:
ہے اہل سنت و الجماعت کے پیروں کار
قرآن اور سنت ہو اور صحابہ کے تابعدار
ان کے آئمہ سارے اہل بیت کے ممنون
یہ اہل حق کہ کرتے نہیں حق سے یہ انکار
اہل سنت اور تینوں گروہِ صحابہ:
اہل سنت سنت ہی پہ چلنے کے ہیں عادی
اہل جماعت یعنی صحابہ کے سپاہی
ماؤں پہ اپنی جانیں کرتے ہیں نچھاور
اور اہل بیت کے بھی ہیں طریقوں کے یہ راہی
اہل سنت کے امام اہل بیت کے ساتھ:
نعمانؒ ہمارے جو ہیں جعفر کے خلیفہ
مالکؒ بھی انہی ایک معتبر کے خلیفہ
احمدؒ بھی اہل بیت سے کچھ بھی نہیں جدا
شافعیؒ امام ان کے ہی پسر کے خلیفہ
یعنی امام جعفر صادق کے جو بیٹا ہیں حضرت امام موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعیؒ ان کے خلیفہ ہیں۔
فقہاء کا مقام:
پڑھ احادیث سمجھ آئے فقہاء کا مقام
پھر ذرا سوچو کیا ہے ان اولیاء کا مقام
بھلائی کا ہو ارادہ جب رب کا جس کے ساتھ
سمجھ وہ جاتا آسانی سے پھر دین کی بات
دین کی تشریح میں استعمال ہو پھر اس کی ذات
لگے اس کے دین سمجھنے سمجھانے میں اوقات
وہی منشاء الہیٰ کا پھر بنے ناشر
وہ پھر محفوظ رکھے دین کا جو ہے ظاہر
فقیہ کا لفظ ذرا سوچ فقاہت سے ہے
ابتدا اس کی بھی حدیث کی روایت سے ہے
فہمِ قرآن سے اور ساتھ ہی سنت سے ہے
اور بالخصوص اجتہادی بصیرت سے ہے
یاد رکھنا اس میں تقویٰ کا مرکزی کردار
علمِ ظاہر میں بھی باطن کے ہیں مطلوب آثار
نیز واقعات صحابہ پہ یہ رکھتے ہیں نظر
جب صحابہ ہوں متفق یہ متفق ہوں ادھر
جن مسائل میں صحابہ کا اختلاف ہو اگر
ان کا کام کچھ نہیں ان میں صرف تطبیق ہو مگر
راجح مرجوح کی تشخیص ہی پھر کرتے ہیں
فیصلہ کرتے ہیں پر اس میں سب ڈرتے ہیں
جو فقہاء ہیں حق تو اولیاء وہ سارے ہیں
کیونکہ آسمان فقاہت کے وہ ستارے ہیں
یہ ہدایت کے ذریعے ہیں سب ہمارے ہیں
ہمیں یقین ہے اللہ کو سب پیارے ہیں
مگر ہم پیروی تو ایک کی کرسکتے ہیں
ساتھ محبت مگر ہم سب کے لئے رکھتے ہیں
جو فقہاء کی قدردانی نہیں کرتے ہیں
اس معاملے میں وہ خدا سے نہیں ڈرتے ہیں
اپنے خیالات کے جنگل میں صرف چرتے ہیں
بے ادبی بھی کبھی جس میں کر گزرتے ہیں
کاش شبیر‘ ان کو بھی نصیب فقاہت ہوتی
دین سیکھنے واسطے بھی فقہاء کی بھی حاجت ہوتی
محدثین کا مقام:
خدا نے چاہا کہ محفوظ ہو آپ کا اسوہ
محدثین کو دی توفیق تو سب کچھ لکھا
جو کہ کسی طرح کسی سے آپ نے کچھ کہا
یا کسی وقت بھی کسی طرح کچھ کام کیا
یا کوئی کام جو آپ کے سامنے ہوا ہونے دیا
یا کسی کام کو جو سامنے ہو وہ روکا
انہی اخبار کو حدیثِ نبوی ہم کہیں
ہمیں حکم کہ اسوہ نبوی اپنائیں
ان احادیث کو پرکھنے کا بھی نظام ہے ایک
جو ہیں راوی ان کو جاننے کا انتظام ہے ایک
رجال کو جاننے والوں کا بھی مقام ہے ایک
حدیث کے بارے میں جاننا ضروری کام ہے ایک
پرکھنے والے کسی کی بھی رعایت نہ کریں
کسی کے بارے میں بیان میں خیانت نہ کریں
ان احادیث میں ہر طرح روایتیں موجود
اس لئے مختلف حدیث کی قسمیں موجود
کچھ صحیح کی کچھ اس سے کم کی کتابیں موجود
کیونکہ ان سب کی جمع کی ہیں حکمتیں موجود
صحاح کی فقہ کی تدوین میں ضرورت ہے بہت
اور فضائل میں ان کو لیں اس میں وسعت ہے بہت
ان دونوں میں، یعنی پہلے میں جو زیادہ صحیح ہیں ان کی فقہ میں ضرورت ہے اور جس میں ضعف وغیرہ بھی ہے ان کو پھر فضائل میں لے لو۔
کسی نے سوچا کہ آقا کی بات کمزور نہ رہے
کہیں آپ سے کوئی غیر واقعی منسوب نہ کرے
کسی قسم کی بھی اس واسطے تبدیلی سے ڈرے
سب سے ثقہ راوی ہوں جس کے، وہ روایت لے لے
محدثین ایسے صحیح روایات ہی لے سکیں
جن کی صحت کی شرائط پر گواہی دے سکیں
یہ ایک approach ہے جو صحیح روایتیں لیتے ہیں۔ اب دوسروں کی approach کیا ہے۔
کہیں آقا کی بات ضائع نہ ہو سوچے کوئی
مختلف اس لئے روایتیں ڈھونڈے کوئی
پھر دیانت سے کتابوں میں وہ لکھیں کوئی
اسی نیت سے حفاظت سے رکھے کوئی
دوسرے طرق سے ان کی کچھ تائید ہوسکے
اس کو لیں جس طرح کہ پتھروں میں موتی ملیں
محدثین تو حدیث جمع کرتے ہیں
جو بھی پورے شرائط پہ ان کی اترتے ہیں
اپنے اصولوں پہ ہر وقت صحیح چلتے ہیں
اپنے میدان میں کسی سے نہیں ڈرتے ہیں
البتہ فقہ جو ہے وہ ان کا میدان نہیں
جمع کرنا ان دونوں کو کوئی آسان نہیں
فقہ میں جو محدثین سے پوچھے ہے ایسا
بیمار کوئی کیمسٹ کے پاس لے جائے جیسا
کیمسٹ تجویز کرے وہ اس کی یہ ہے کیسا
دنیا کو جانیں مگر دین میں رہے ویسا
یہ تو ہے دور تخصص عموم کیوں اس میں
کہیں خرابی تو نہیں کچھ عقلی اس میں
محدثین مقلد سے روایت کریں جب
تو اس نے مان لیا بے شک ثقہ تب
اس فیصلے پہ بخاری کے عمل ہوگا کب
کیا نہیں کوئی استادی اور شاگردی کا ادب
یعنی جب انہوں نے ان سے حدیث لے لی تو ان کو ثقہ مان لیا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جو بائیس سپیشل احادیث شریفہ ہیں جو تین راویوں سے مروی ہیں، جن کو ثلاثیات کہتے ہیں، ان میں سے غالباً انیس یا اٹھارہ مقلد ہیں۔ گویا وہ ان کے نزدیک ثقہ ہیں تبھی تو ان سے روایت لی ہے۔
جو ثلاثی ہیں بخاری کی، بتا کس سے ہیں
مقلدین ہیں سب شبیرؔ اکثر مروی جس سے ہیں
اختلاف کے بارے میں discussion:
میرے استاد بتائیے کہ اختلاف کیا ہے
اس اختلاف میں طریقۂ انصاف کیا ہے
میں نے اردگرد مختلف یہاں پہ فرقے دیکھے
باہمی دست و گربیان لڑتے دیکھے
اس طرح توڑ کے امت میں سلسلے دیکھے
اس طرح کرتے جو ہیں ان کو صحیح کیسے کہوں
اور اگر ہیں یہ غلط اس پہ میں چپ کیسے رہوں
کوئی شافعی ہے مالکی ہے پھر حنفی ہے
کوئی حنبلی ہے جعفری ہے پھر سلفی ہے
توڑنا امت کو ٹکڑیوں میں کام منفی ہے
ان میں کوئی بھی محمدی کا پیروکار نہیں
محمدی کہلوانے کو جو تیار نہیں
یہ ان کا بڑا اعتراض ہے۔
جس طرح ایک خدا ہے قرآن بھی ایک
ایک کعبہ اور رسول آخر زمان بھی ایک
دیکھ لیں ہم ذرا آیا کہ مسلمان بھی ایک
تفرقہ کو تو کرتے خدا پسند نہیں
تو کیوں یہ سارے اختلاف بھی ہوں بند نہیں
یہ انہوں نے مقلدین کے خلاف چارج شیٹ پیش کی ہے۔ اب استاد جواب دیتا ہے۔
میرے بیٹے تیرا جذبہ ہے یقیناً بہتر
لیکن اس میں کھلا نہیں ہے ابھی حق تجھ پر
جوں کے مارنے کو جلاتا نہیں کوئی بستر
مخالفت اور اختلاف کا فرق جان لینا
اس میں جو حق ہو سمجھتے ہوئے وہ مان لینا
وہ بھلائی ہی ہے جو دین کی فقاہت ہے
یہی ہے خیر اسی میں عوام کی راحت ہے
سمجھ کے ان کو بغیر اس کی کہاں طاقت ہے
کوئی ان کے لئے سادہ طریقے ڈھونڈے
عمل کے واسطے کچھ سادہ سے نسخے ڈھونڈے
یہی تو فقہ ہے دین پر عمل کے نسخہ جات
سمجھ سکے عوام کیسے صرف نصوص کی بات
جو مانے ان کو نہیں دین کو کہیں شاید رات
یہ نسخہ جات جو ہیں کیسے ترتیب پائیں
تو اس کے واسطے مجتہد کی ضرورت جانیں
ہم کو یہ حکم صحابہ کی پیروی کرنا
جن پہ اجماع صحابہ ہو تو وہی کرنا
جب اختلاف ہو تو پھر اپنی تسلی کرنا
کہ کس کے پیچھے چلیں کس سے ہوں معزور عمل
بچیں ہم کیسے اس سے جو ہے اپنے نفس کا دجل
کیا ہم یہ بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پہ رکھیں
یا جو ہے دور فتن اس کے استادوں پہ رکھیں
آج کل کے لوگوں سے:
یا پھر قرون اولیٰ کے ہم اماموں پہ رکھیں
جو تھے فقیہ متقی شب بیدار بھی تھے
دور قربت کی حقیقت سے خبردار بھی تھے
حنفی شافعی اور مالکی محمدی ہی ہیں
ابن حنبل کے حنبلی محمدی ہی ہیں
سارے تقلید کے داعی محمدی ہیں
راہ سنت کے سمجھنے کا صحابہ واسطہ
تو صحابہ کے طریقہ کا فقہاء واسطہ
جو ہو قرآن سے ثابت تو بات ختم ہوئی
جس میں دلیل ہو تو سنت تو بات ختم ہوئی
جس میں اجماع ہو حجت تو بات ختم ہوئی
جو صحابہ میں کوئی بات اختلافِ رائے ہے
تو اجتہاد ہی پھر اس کا علاج شافی رہے
جو اجتہاد میں خطا ہو ملے پھر بھی ثواب
اور دوگنا ہو جب اجتہاد ہو باصواب
جو صرف خود کو کہے ٹھیک ہے دعویٰ ہے خراب
اس طرح مسلک حنفی و مالکی سب ٹھیک
ساتھ پھر مسلک شافعی و حنبلی سب ٹھیک
جان لو کس طرح غلط ہے تشدد کی راہ
جو خوارج تھے صحابہ کے بنے تھے بدخواہ
بس صرف خود کو ہی کہتے تھے ٹھیک وہ ہرگاہ
اپنے اعمال میں شدت بھی تھی دین پر نہ رہے
پھر چھوٹے کمان سے اس طرح نکل وہ گئے
اب اگر کام ہو کوئی ایک صحابی کا عمل
ہو جو دوسرے صحابی سے کوئی دوسرا نقل
اس میں پھر جانے کوئی کیسے کہ کونسا ہے اصل
اب اگر کہہ دوں صحابہ کا اختلاف ہے یہ
ٹھیک دونوں میرے نزدیک انصاف ہے یہ
ہاں مگر ممکن تو ہے ایک کے پیچھے چلنا
ہاں ادب یہ ہے کہ دوسروں کو بھی ہے ٹھیک کہنا
کہ صحابہ کو غلط کہنے سے جو ہے ڈرنا
یہ خطرناک فیصلہ کیوں نہ امام کرے
وہ اس قابل ہے احتیاط سے ہے کام کرے
بس ایک امام اگر قول صحابی لے لے
اور کسی دوسرے صحابی کا بھی کوئی لے لے
یا غلط ہے کوئی تحقیق جو ان کی لے لے
تو یقیناً پھر آئمہ میں اختلاف ہوگا
لیکن ایک کا ٹھیک ہونا ہی انصاف ہوگا
پس امامت کی پیروی سارے حنفی بھی کریں
یہ مالکی بھی کریں اور حنبلی بھی کریں
اس طرح سچ ہے کہ اس طرح شافعی بھی کریں
کہ ہیں قرآن و سنت پر یہ سب امام ہیں عامل
اور جو ان کے پیروکار ہیں وہ بھی شامل
اپنی تحقیق پہ اس میں فیصلہ اگر کریں
ہم جیسے لوگ نفس کی خواہشوں کے پیچھے چلیں
یا دو رکعت کے امام کو امام مانیں
اس طرح نفس ہی میرا اصل امام ہوگا
اس خامی سے میرا کام خام ہوگا
بات بنتی ہے تب ہی ایک کو امام مانوں
جو مجھے اس سے ملے میں وہی احکام مانوں
اور اپنے نفس کی تحقیقات کو میں خام مانوں
اور دوسرے جو ہیں امام ان کو ٹھیک کہوں
یہ اولیاء ہیں ان کے بارے میں خدا سے ڈروں
شاگرد کا اعتراف کرتا:
جزاک اللہ تو نے مجھ کو سمجھدار کیا
میری غفلت سے آپ نے مجھے بیدار کیا
ان آئمہ کی محبت سے جو سرشار کیا
کرتا توبہ ہوں خدایا میں غلط خیالوں سے
شکر ہے بچ گیا شیطان کے ان چالوں سے
اب میں حنفی ہوں اور اس پر نہیں شرماتا ہوں
یہی طریقہ عافیت ہے یہ بتاتا ہوں
اب میں ایمان کی حلاوت بھی دل میں پاتا ہوں
ان اولیاء کے لئے میرے دل میں زیغ نہ رہا
اور اپنے آپ پر وہ ظلم بے دریغ نہ رہا
وہ میرے بھائی جو تقلید نہیں کرتے ہیں
بیمار کرتے گفتگو نہیں ڈرتے ہیں
نفس گرفتار ہے اور ان سے نہیں نکلتے ہیں
کاش کچھ سوچ لیں اور اپنی کچھ اصلاح کریں
اور اللہ کے حضور زاری و الحاح کریں
اور ہاں پھر وہ تقلید پہ اگر آ نہ سکیں
سوچتے سوچتے حقیقت کی گرہ پا نہ سکیں
خود کو آئینۂ فطرت اگر دکھا نہ سکیں
تو آئمہ کی بہرحال مخالفت نہ کریں
بدگمانی نہ کریں اگر موافقت نہ کریں
استاد کہتا ہے:
اپنے شاگرد پہ مجھے فخر ہے سبحان اللہ
ایسا تحقیق عظیم شاندار کیا ہے اللہ
بس میرے دل سے یہ نکلے کہ ماشاء اللہ
یہ چند اشعار ہیں شبیر کے ایک درسِ عظیم
سب سمجھ جائیں اگر تھوڑا سا ہو قلبِ سلیم
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ