اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت! پہلا سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دینا چاہئے؟ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارا ایک عامل کے ساتھ رابطہ ہوا، جن سے ہم نے ایک بندے کا روحانی علاج کروایا جو کہ کامیاب رہا۔ اب دکان اور مکان سے متعلق کچھ معاملات ہیں، کیا میں روحانی اعمال کے ذریعے سے نہ بکنے والے مکان کے لئے ان کو بولوں یا نہیں؟ اور کاروباری طریقے کے لئے ان سے استفادہ کرسکتا ہوں یا نہیں؟ وہ کیا اعمال کرتے ہیں، مجھے ان کا علم نہیں۔ البتہ ابھی تک جو بھی مسئلہ ان کو بتایا ہے، اللہ پاک نے اس میں روحانیت پیدا فرمائی ہے۔ پتا نہیں کہ کیوں دل میں اس سے کچھ کراہت سی محسوس ہوئی۔ آپ کی رہنمائی چاہئے۔
عابد صاحب مفتی بھی ہیں اور ایک مدرسہ کے مہتمم بھی۔ JUI میں ہیں۔ جواب دے کر مشکور فرمائیں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
پہلا سوال یہ ہے کہ ووٹ کس کو دینا چاہئے؟ چونکہ ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں، اس لیے ہم explicitly نہیں بتا سکتے کہ کس کو ووٹ دینا چاہئے؟ کیونکہ پھر ہم سیاست کا حصہ ہوجائیں گے۔ البتہ اصول بتا سکتا ہوں، کیوں کہ وہ general ہوتے ہیں۔ لہذا ہر ایک ان اصول سے استفادہ کرسکتا ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ ووٹ ایک قومی امانت ہے، کیونکہ آج کل حکومتی تبدیلی اس کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ یہ طریقہ ٹھیک ہے یا غلط، اس پر بحث نہیں ہے، کیونکہ یہ اس صورت میں ہوگا، جب ہمیں اختیار ہو کہ ہم اپنی مرضی کا کوئی نظام نافذ کرسکیں۔ جب ایسی بات نہیں ہے، تو اب ظاہر ہے کہ اگر برائی ہو تو برائی کے شر کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر خیر ہو تو خیر کو بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پس اگر یہ طریقہ برا ہے، تو اس کے شر کو اس طرح کم کیا جا سکتا ہے کہ اس کے ذریعے اچھے لوگوں کو لایا جائے۔ اگر اچھے لوگ نہ ملیں، تو کم بروں کو لے لیا جائے۔ ’’اَھْوَنُ الْبَلِیَّتَیْنِ‘‘ ایک اسلامی اصول ہے کہ دو بلاؤں میں سے بڑی بلا کے مقابلہ کے لئے چھوٹی بلا کو اپنے ساتھ کر لیا جائے۔ مثلاً: کچھ لوگ ستر فیصد برے ہیں، کچھ ساٹھ فیصد برے ہیں، کچھ پچاس فیصد برے ہیں، کچھ چالیس فیصد برے ہیں، کچھ دس فیصد برے ہیں۔ تو لازماً دس فیصد والے لوگوں کو آپ منتخب کریں گے۔ چنانچہ ایک تو یہ اصول ہے کہ کم بروں کو لے لیا جائے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ ان لوگوں کو لیا جائے، جن کو اول تو اس بات کا علم ہو کہ اچھا اور برا کیا ہے؟ دوسرے نمبر پر وہ اس پر عمل بھی کرتے ہوں کہ اچھی چیز کو لینے والے ہوں اور تیسری بات یہ ہے کہ وہ اچھی چیز کو نافذ کرنے والے ہوں۔ تو تین چیزیں ہیں: جاننا، ماننا اور منوانا۔ یہ تینوں باتیں جن میں ہوں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کے اہل ہیں کہ انہیں منتخب کیا جائے، اس میں پھر کوشش کی جائے اور دیکھ لیا جائے کہ کون لوگ ایسے ہیں جو جانتے ہیں، اور دینی باتوں کو مانتے ہیں اور پھر ان کو منوانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ اس طریقے سے ہم زیادہ بہتر نتیجہ حاصل کرسکتے ہیں۔
دوسرا سوال عملیات سے متعلق ہے۔ ایک اصولی بات میں عرض کرتا ہوں، جسے یاد رکھنا چاہئے۔ آج کل لوگوں نے پیروں کو عامل اور عاملوں کو پیر سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ نہ ہر عامل پیر ہوتا ہے اور نہ ہر پیر عامل ہوتا ہے، ہاں! ایسا ہوسکتا ہے کہ پیر عامل بھی ہو یا عامل پیر بھی ہو۔ یہ دونوں باتیں ممکن ہیں، لیکن یہ ضروری نہیں ہے۔ باقی جہاں تک عملیات کی اپنی بات ہے، تو عملیات کا اپنا وجود ہے۔ عملیات دو قسم کی ہوتی ہیں: سفلی عملیات، جو برائی پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہیں۔ اس میں سب سے مشہور شیطانی عمل میاں بیوی کے درمیان تفریق کروانا ہے۔ یہ بہت پرانی چیز ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے: ﴿فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُوْنَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِہٖ﴾ (البقرۃ: 102)
ترجمہ:1 "پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزیں سیکھتے تھے جن کے ذریعے مرد اور اس کی بیوی میں جدائی پیدا کردیں"۔
سب سے پرانا جادو یہی ہے اور آج تک چل رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ آج کل لوگوں میں برداشت کم ہوگئی ہے اور کینہ زیادہ ہوگیا ہے۔ کینہ اور حسد؛ یہ دو بلائیں اگر کسی میں ہوں، تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ شیطان میں یہی تھیں، اسی حسد اور کینہ کی وجہ سے اتنے اونچے منصب سے گر کے ختم ہوگیا۔ یہود میں بھی آپ ﷺ کے ساتھ کینہ اور حسد تھا، نتیجتاََ یہ بھی اونچے مقام سے گرگئے، حالانکہ اللہ پاک نے ان کو چن لیا تھا۔ لیکن یہ گمراہ ہوگئے، مردود ہوگئے۔ کینہ اور حسد کی وجہ سے انسان اپنے مذہب کو بھی چھوڑ دیتا ہے۔ اس جادو میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے۔ کینہ اور حسد ایسی خبیث چیز ہے، کہ جس دل میں آجائے، اس سے پھر یہ چیز بھی کروا دیتی ہے، جس کی وجہ سے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ لوگوں کے گھر اجڑ جاتے ہیں، لڑائیاں شروع ہوجاتی ہیں، کاروبار بیٹھ جاتے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ سفلی عملیات اس لئے ہوتی ہیں۔ اور ایک عملیات سفلی عملیات سے دفاع کے لئے ہوتی ہیں یعنی اگر کسی پر جادو کا عمل ہوچکا ہے، تو اس کو کیسے اتارا جائے؟ کسی کو نظرِ بد لگی ہو تو اس کو کیسے اتارا جائے؟ اسی طریقے سے جنات کو اتارنے کا عمل ہے۔ اس کے لئے اپنی لائن کی محنت ہوتی ہے اور بڑا risk ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ بدمعاشوں کے خلاف کام کررہے ہیں، تو اپنے آپ کو بدمعاشوں کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ وہ آپ کو چھوڑیں گے تو نہیں۔ لہٰذا جو بھی عملیات کرنے والا ہے، گویا وہ بڑوں میں ہاتھ ڈالنے والا ہوتا ہے۔ یہ اتنا آسان کام نہیں ہوتا کہ آسانی کے ساتھ اس کو کرسکے، اس کو اپنے آپ کو بچانے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ لہذا جب تک کسی کو مکمل اطمینان نہ ہو کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں، اس وقت وہ اس میں نہ آئے۔ البتہ جو اچھے لوگ اس میں آئے ہوئے ہیں، ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ پہلے یہ دیکھا جائے کہ عمل اتارنے والے کا عقیدہ کیسا ہے؟ اگر اس کا عقیدہ صحیح ہو، تو بے شک بلا تأمل کام کروائے، کیونکہ یہ کام تو صحیح ہے، کیوں کہ بری چیز کو اتارنا تو غلط نہیں ہے۔ عقیدہ صحیح ہونا اس لیے ضروری ہے کہ ڈاکٹر اور حکیم اگر کسی کا علاج کریں اور وہ ٹھیک ہوجائے، تو اس پہ کسی کو بزرگی کا شک نہیں ہوگا کہ یہ بزرگ ہے۔ ممکن ہے کہ یہودی ڈاکٹر علاج کردے، عیسائی ڈاکٹر علاج کردے یا ہندو ڈاکٹر علاج کردے۔ ڈاکٹر سے علاج کرواتے ہیں، تو ڈاکٹر کو کوئی بھی بزرگ نہیں سمجھتا، ٹھیک ہے بس علاج ہوگیا، ٹھیک ہوگیا، لیکن عملیات ایک ایسی لائن ہے جس کو لوگ پیروں کے ساتھ متصل سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے بزرگی اور تقدس کا اس میں رنگ آجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر بدعقیدہ آدمی سے علاج کروائے گا تو اس کا عقیدہ خراب ہونے کا بہت قوی اندیشہ ہے۔ لہذا ایسے شخص سے بالکل علاج نہ کروایا جائے، جس کا عقیدہ خراب ہو۔ کیونکہ اس کا اثر براہ راست اس پر یا اس کے متعلقین پہ آسکتا ہے۔ مجھے ایک ساتھی کی بات بہت پسند آئی ہے، اس کو درد شقیقہ کی بیماری تھی۔ درد شقیقہ یعنی آدھے سر کا درد۔ یہ سر کا درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے، جس کو بھی ہوتا ہے، اس کو زلزلہ ہوتا ہے۔ بہت پریشان کن بیماری ہوتی ہے۔ اس شخص کے گاؤں میں ایک ہندو تھا، جو اس کا دم کرتا تھا اور آدمی ٹھیک ہوجاتا تھا۔ اس کو رشتہ داروں نے کہا کہ آپ اس سے دم کیوں نہیں کرواتے؟ اس نے بڑا ایمان افروز جواب دیا، اس نے کہا کہ میں اس بیماری سے مر سکتا ہوں، لیکن ہندو سے دم نہیں کرواؤں گا۔ کیونکہ اگر میں اس سے دم کروایا اور میں ٹھیک ہوگیا، تو لوگ اس کے معتقد ہوجائیں گے اور میں اس کا ذریعہ بن جاؤں گا۔ پس میں اس کا ذریعہ نہیں بننا چاہتا۔ اس نے بڑی دور اندیشی کی بات کی۔ واقعتاً لوگ ان چیزوں میں شامل ہوجاتے ہیں اور بہت سارے لوگ اسی وجہ سے خراب ہوئے ہیں۔ خاندان میں کسی پر کوئی مسئلہ ہوگیا، وہ ایسے لوگوں کے پاس چلا گیا اور بس پھر ان کا معتقد ہوگیا اور آنا جانا شروع کر دیا۔ ان کو پھر لوگوں کو اپنی طرف لانے کے طریقے بھی آتے ہیں، پس یہ بہت خطرناک صورتِ حال ہوتی ہے، لہذا ایسے لوگوں کے پاس ہرگز نہیں جانا چاہئے، جن کا عقیدہ خراب ہو، اگرچہ وہ صحیح کام کررہے ہوں۔ کام صحیح ہونا الگ چیز ہے، کام والا صحیح ہونا الگ چیز ہے۔ یہ دونوں چیزیں ٹھیک ہونا ضروری ہیں، ورنہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ میں اس صاحب کو نہیں جانتا، جس کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ اس کی تحقیق خود کی جائے۔ اگر اس کا عقیدہ صحیح ہے اور کام بھی صحیح ہے، تو پھر بلا تأمل اختیار کیا جائے، کیونکہ کاروبار پر بھی اس قسم کے جادو کئے جاتے ہیں، جس کو بندش کہتے ہیں۔ اگر اس قسم کا کوئی مسئلہ ہے، تو قابلِ حل ہے۔ اگر کوئی اس حل کو جانتا ہے، تو ضرور اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن اس کے عقیدے کے بارے میں معلوم کر کے کہ آیا اس کا عقیدہ صحیح ہے یا غلط ہے۔
سوال نمبر 2:
روحانی طور پر تو بدعقیدہ شخص کے پاس نہیں جانا چاہئے، لیکن کیا میڈیکل میں کسی غیر مسلم سے علاج کروانا جائز ہے؟
جواب:
اس کی گنجائش ہے۔ جیسے ہم لوگ انگلینڈ سے آئی ہوئی چیزیں یا امریکہ سے آئی ہوئی دوائیاں استعمال کرتے ہیں اور اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، عقیدہ پر فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح لوگ انگلینڈ چلے جاتے ہیں، امریکہ چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں سے علاج کرواتے ہیں۔ پس یہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ میڈیکل ایک فن ہے، اس کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک دنیاوی چیز ہے۔
سوال نمبر 3:
پچھلے سال امریکہ میں جو خاکوں کا مسئلہ ہوا تھا، اس میں مجھے ایک میسج آیا کہ یہ میسج آگے بھیجتے جائیں اور تین دن میں ہالینڈ کی اکانومی تباہ ہوجائے گی۔ میں نے مخاطب سے پوچھا کہ یہ کیا بھیجا ہے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک مستند ادارے نے بھیجا تھا۔ میں نے کہا کہ منطقی طور پر سوچیں، تو اس کا ہالینڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا ہمیں آنکھ بند کر کے دوسروں پہ بھروسہ کرنا چاہئے یا اپنا ذہن بھی استعمال کرنا چاہئے؟
جواب:
اپنی منطق ضرور استعمال کرنی چاہئے، کیونکہ پیغام رسانی کے لیے موبائل کمپنیوں نے باقاعدہ کچھ لوگ ہائر کئے ہوتے ہیں۔ ان کا کام صرف پیغامات تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ وہ پیغامات میں بحث کے لیے ایسی باتیں لاتے ہیں، تاکہ ان کا کاروبار چلے۔ اگر جذباتی میسج کرکے کوئی کہے کہ آپ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ کہو اور آگے بھیجو، تو آپ کو خوشی کی خبر ملے گی۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہے، لیکن آپ اس میسج کو آگے چلا کر کس کو فائدہ پہنچا رہے ہیں؟ ایک جھوٹے آدمی کو یا ایک مکار آدمی کو۔ لہٰذا اس قسم کا مکر نہیں بھیجنا چاہئے۔ میرے پاس اگر ایسا کوئی میسج آتا ہے، مثلاً: درود شریف پڑھ لیں، تو میں درود شریف فوراً پڑھ لیتا ہوں، لیکن وہ آگے لوگوں کو نہیں بھیجتا۔ لہٰذا آگے لوگوں کو تو بالکل بھیجنا چاہئے۔ ہاں! اگر آپ کو مکمل طور پر یقین ہے کہ یہ وہی ہے، جو ہم کرنا چاہتے ہیں، تو پھر ٹھیک ہے۔
سوال نمبر 4:
حضرت! معاملات کی صفائی سے کیا مراد ہے؟
جواب:
معاملات ایک لفظ ہے اور صفائی دوسرا لفظ ہے۔ پہلے معاملات کے بارے میں بتانا چاہئے کہ معاملات کیا ہیں؟ معاملہ مفاعلہ سے ایک لفظ ہے، یعنی دو آدمیوں کے درمیان کوئی عمل۔ ظاہر ہے کہ عمل کوئی کام ہوتا ہے۔ پس دو آدمیوں کے درمیان کوئی کام ہو، تو اس کو معاملہ کہتے ہیں۔ مثلاً: ایک آدمی کہتا ہے کہ یہ کتاب پانچ روپے مہینہ کے کرایہ پر مجھے دے دو۔ یہ معاملہ ہوگیا، آپس میں آپ نے معاہدہ کرلیا۔ اسی طریقے سے آپ نے مکان کرایہ پہ دے دیا، مکان خرید لیا، مکان بیچ دیا، کسی کو آپ نے وکیل بنا دیا، اس کو برطرف کر دیا، کسی کو کاروبار پہ لگا دیا، مضاربت، مشارکت کے مطابق اصول و ضوابط طے کردیئے۔ یہ ساری چیزیں معاملات ہیں۔ اس میں لوگ باہمی معاہدہ کے مطابق ایک چیز پر متفق ہوجاتے ہیں۔
معاملات میں صفائی کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں بالکل clear ہوں، ان کے اندر کوئی ابہام نہ ہو۔ ان میں ایسی کوئی بات نہ ہو، جس کی وجہ سے انسان شک کی طرف چلا جائے یا جس میں تردد ہو۔ پس اس چیز کو جتنا واضح کیا جائے گا، تو لوگ کہیں گے کہ زیادہ صاف معاملہ ہے، گویا transparency ہو۔ دونوں چیزیں معاملات میں بدرجۂ اتم موجود ہوں، تو پھر معاملات کی صفائی ہے۔ معاملہ میں ’’قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا‘‘ پہ عمل کر لیں کہ بالکل صحیح صحیح بات کہہ دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب آپس میں کوئی طے کرنا چاہیں تو اس کو لکھ کے حوالہ کردیں یا اس کے گواہ ہوں۔ اس طرح کا کوئی طریقۂ کار ہو جو طے شدہ ہو۔ یہ ساری چیزیں جب ہوتی ہیں، تو پھر اگر آپس میں کوئی لڑائی ہوجائے، تو اس کو ختم کرنے کے آپ کے پاس اسباب موجود ہوں گے۔ مثلاً: آپ ٹیکسی میں بیٹھنا چاہتے ہیں اور آپ نے اس کو کہا کہ بھائی! کتنا کرایہ لو گے؟ وہ کہہ دے کہ جتنا مرضی آپ دے دیں گے، تو یہ غلط ہے، یہ صاف معاملہ نہیں ہے، یہ گڑبڑ ہے۔ لہٰذا اس طرح پر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ بلکہ اس کے ساتھ طے کر لو کہ اتنے پیسے دوں گا، ورنہ پھر یہ ہوگا کہ اگر آپ نے طے نہ کیا اور اس نے کہا کہ جتنے مرضی آپ دے دیں گے، اور اس کے بعد آپ بیٹھ گئے، مثلاً آپ یہاں سے فیض آباد جا رہے ہیں اور اس نے آپ کو فیض آباد پہنچا دیا، آپ نے اپنی طرف سے سمجھ لیا کہ سو روپے مناسب کرایہ ہے اور آپ نے سو روپے دئے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ نہیں، دو سو روپے کرایہ ہے۔ آپ کہیں گے کہ آپ نے تو کہا تھا کہ جو مرضی دے دینا۔ وہ کہے گا کہ میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھتا تھا۔ بس پھر لڑائی شروع ہوگئی۔ اس لئے یہ غلط طریقہ ہے، لہٰذا اسی وقت طے ہونا چاہئے تھا کہ کتنے پیسے کرایہ ہوگا۔ جب تک یہ طے نہ کریں، آپ نہ بیٹھیں۔ ایک دفعہ میں فیض آباد سے راول ڈیم کے پاس ایک مدرسے میں جا رہا تھا۔ وہاں حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب تشریف لائے ہوئے تھے، ان کا بیان سننے کے لئے جا رہا تھا۔ میں نے ٹیکسی والے سے بات کی، میں نے کہا کہ کتنے پیسے لو گے؟ اس نے کہا: تیس روپے۔ میں نے کہا کہ بھائی! بیس روپے پہ چلتے ہیں۔ اس نے کہا: نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر میٹر پہ چلو۔ کہنے لگا کہ میں چھ روپے میٹر لوں گا۔ ان دنوں پانچ روپے میٹر ہوا کرتے تھے۔ اس نے کہا کہ میں چھ روپے میٹر لوں گا۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، بات ہوگئی۔ چھ روپے میٹر کرایہ پر میں بیٹھ گیا، معاملہ طے ہوگیا۔ جب میں وہاں پہنچ گیا، تو چھ روپے کے حساب سے ساڑھے سترہ روپے اس کے میٹر نے بنا دیئے۔ میں نے اس کو ساڑھے سترہ روپے دے دیئے۔ وہ کہنا لگا کہ نہیں، مجھے بیس دو۔ اب میں نے کہا کہ کیوں بھائی! میں بیس کیوں دوں؟ آپ نے تو بیس کو قبول نہیں کیا تھا، آپ نے تو میٹر کے حساب سے کرایہ قبول کیا تھا، میٹر آپ کو سترہ روپے بتا رہا ہے تو میں میٹر کے مطابق آپ کو کرایہ دے رہا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ پھر آپ مجھے کرایہ نہ دیں۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کی مرضی ہے، اس سے میں آپ کو منع نہیں کروں گا۔ اگر آپ نہیں لینا چاہتے، تو میں زبردستی بھی نہیں دوں گا۔ لیکن مجھے پتا تھا کہ اس کو لئے بغیر یہ نہیں جائے گا، یہ کرایہ کے لئے لڑرہا ہے، تو یہ اس کو لئے بغیر کیسے جائے گا۔ میں نے اس سے کہا کہ میں فلاں جگہ مسجد میں بیٹھا ہوں گا، اگر آپ کو پیسے لینے ہوں، تو آپ آجائیے گا۔ میرے ساتھ ایک ساتھی تھے، جو ذرا نرم دل تھے۔ وہ کہنے لگے کہ شاہ صاحب! بس بیس روپے دے دیں۔ میں نے کہا کہ نہیں، اس نے خود کرایہ سیٹ کیا ہے، اب میں اس کو بیس روپے نہیں دوں گا۔ بہرحال ہم گئے اور اس نے گاڑی turn کر کے کھڑی کردی، پتا چل گیا کہ اس نے جانا نہیں ہے۔ دس پندرہ منٹ کے بعد وہ آگیا اور کہا کہ چلیں! وہی کرایہ دے دو۔ میں نے کہا کہ خواہ مخواہ اپنا وقت خراب کردیا۔ پھر میں نے اس کو وہ سترہ روپے دے دیئے۔ اب اس کے پاس لڑنے کے لئے کوئی بات ہی نہیں تھی، اس نے خود میٹر کے حساب سے کرایہ کی بات کی تھی، بس ختم ہوگئی۔ پس اس طرح اگر آپ طے شدہ بات کے مطابق چلیں گے، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر طے شدہ بات نہ ہو، تو پھر اندازوں پہ چلنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس کو کہتے ہیں؛ معاملات کی صفائی۔ لہٰذا معاملات کو صاف رکھو، اس سے مراد یہ ہے کہ ان کو بالکل واضح، تردد کو ترک کرتے ہوئے ابہام کو دور کرتے ہوئے ایک مستند طریقے کے ساتھ کرو اور باقاعدہ معاملے کے اوپر بھی گواہ ہوں۔ اگر یہ ساری چیزیں ہوں گی، تو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔
سوال نمبر 5:
حضرت! ایک غیر مسلم خاتون آٹھ سو ڈالر کے لئے ایک صاحب کے پاس گئی، تو اس نے اپنا شناختی کارڈ نکالا اور اس کو لکھ کے رسید دی اور کہا کہ یہ میری رسید ہے، کبھی بھی مسئلہ ہو، تو یہ لکھا ہوا proof ہے۔ اسی طرح چند لوگ جو کوئی دینی کام کرنے والے لوگ تھے، ان کو کسی سے بارہ سو ڈالر لینے کی ضرورت پڑگئی، میں سامنے تھا، انہوں نے لے لئے، کوئی رسید نہیں، کچھ بھی نہیں۔ پھر انہوں نے کراچی میں جانا تھا، یہاں راولپنڈی میں دے کے چلے گئے۔ جب میں لینے گیا، تو وہ ساڑھے گیارہ سو ڈالر تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ بارہ سو ڈالر تھے۔ وہ کہنے لگے کہ مجھے تو اتنے ہی دے گئے ہیں۔ یقیناً انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، لیکن یہ کس قسم کی negligence ہے کہ نہ لکھا گیا اور نہ انہوں نے بعد میں کنفرم کیا؟
جواب:
غلط ہے، یہ معاملات کی صفائی میں نہیں آتا۔
سوال نمبر 6:
اس کو Collective damage نہیں کہیں گے کہ ہم بڑا کام کررہے ہیں، تو اس کے اندر یہ چھوٹے کام دب دبا جاتے ہیں؟
جواب:
نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ دیکھیں! شریعت شریعت ہے، کوئی کام بھی اس سے superior نہیں ہے۔ شریعت اللہ کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور حضور ﷺ کے ذریعے سے بھیجا گیا ہے۔ بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے بانی آپ ﷺ ہیں، یہ بات غلط ہے۔ آپ ﷺ اسلام کے بانی نہیں ہیں، آپ ﷺ اسلام کو پہنچانے والے ہیں۔ اللہ پاک اسلام کا بانی ہے اور آپ ﷺ کو بھیجا ہے، آپ ﷺ پیغمبر ہیں۔ پیغمبر نے اللہ تعالیٰ کی بات ہم تک پہنچائی ہے اور وہ شریعت ہے۔ لہذا کوئی بھی شریعت سے مستثنیٰ نہیں ہے، سب کو اس کے اوپر چلنا پڑے گا۔ اور ظاہر ہے کہ غلطی کسی کی بھی ہوگی، تو اس کو غلط کہا جائے گا۔
سوال نمبر 7:
حضرت! کسی کو discipline کرنا اور اصلاح کرنا؛ کیا یہ دو الگ چیزیں ہیں؟ مثلاً: ایک صاحب مجھے کہتے ہیں کہ ہم عصر سے مغرب میں ملیں گے۔ عصر سے مغرب تک میں ان کا انتظار کرتا ہوں، لیکن وہ نہیں آتے۔ پھر وہ مغرب میں آتے ہیں، تو میں جان بوجھ کر ان سے نہیں ملتا۔ مجھے پتہ ہے کہ اگر میں ان کے ساتھ ایسا کروں گا، تو آئندہ ان کو قدر آئے گی۔ تو کیا اس کو discipline کرنا کہیں گے یا اصلاح کرنا؟
جواب:
اصلاح ایک بڑی چیز ہے، discipline اس کا ایک جز ہے، یعنی discipline بھی اس میں آتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مجھ سے بات کرتا ہے کہ فلاں وقت میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور میں نے اس کے ساتھ وقت طے کردیا، پھر اگر وہ اس وقت کے بعد آگیا، تو مجھے اختیار ہے کہ میں اس کے ساتھ ملوں یا نہ ملوں۔ یہ اصلاح کے لئے نہیں ہے، یہ میرا حق ہے، کیونکہ اس کے بعد میرے اور کام بھی ہوں گے، تو میں اس کے لئے اپنے دوسرے کاموں کو چھوڑ تو نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں کسی دوسرے کا حرج ہوجائے گا۔ ہاں! اگر میرا کوئی اور کام نہیں ہے اور میں نے اس کی بات سن لی اور اس کے ساتھ مل لیا، تو یہ میرا تبرع اور احسان ہے، لیکن انکار کرنے کا مجھے حق ہے، میں کہہ سکتا ہوں کہ آپ چوں کہ وقت پہ نہیں آئے، لہٰذا میں آپ کے ساتھ نہیں ملتا، نیا ٹائم لے لو۔ میرا یہ قانون ہے کہ جب میرے ساتھ کسی کا ٹائم طے ہوجاتا ہے، تو میں اس کا خیال رکھتا ہوں، میں اس ٹائم پہ available ہوتا ہوں، کیونکہ میں نے اس کے ساتھ وعدہ کیا ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے وقت پہ نہیں آیا، تو پھر میں اس کو ٹائم نہیں دیتا اور اپنے آپ کو پابند نہیں کرتا۔ میں اس کو کہتا ہوں کہ بھائی! آپ آجائیں، اگر میں فارغ ہوا، تو میں مل لوں گا۔ کیونکہ مجھے پتا چل جاتا ہے کہ میں تو اپنے وقت کو پابند کر لوں گا اور کوئی دوسرا کام نہیں کروں گا، لیکن اس کو پروا ہی نہیں ہوگی، تو میں اس کی وجہ سے اپنا وقت کیوں خراب کر دوں۔ اس نے اپنا اعتماد خود کھو دیا ہے، لہٰذا اس کے بعد میں اس کو ایسا ٹائم نہیں دیتا، جس میں میں اپنے آپ کو پابند کر لوں۔ بے شک میں اس کو وقت دے دوں، لیکن ساتھ یہ کہتا ہوں کہ بھائی! اگر آپ آگئے اور میں ہوا، تو بات کرلوں گا، لیکن ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا پھر مجھے بات کرنے کا اختیار ہوتا ہے، کیونکہ میں بار بار اپنا وقت خراب نہیں کرتا۔
سوال نمبر 8:
معاملات والے question کے جواب میں آپ نے مضاربت اور مشارکت کی بات کی تھی، ان کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب:
مضاربت اور مشارکت؛ یہ کاروبار کے دو طریقے ہیں۔ مضاربت میں یہ ہوتا ہے کہ ایک کی سروسز ہوتی ہیں اور دوسرے کا مال ہوتا ہے۔ جن کی سروسز ہیں اور جن کا مال ہے، وہ آپس میں کسی باہمی معاہدہ پر نفع کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ مثلاً: یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی نفع کو 50 50 تقسیم کرنے کا فیصلہ کر لیں یا 60 40 یا 70 30 کے حساب سے تقسیم کرنے کا فیصلہ کریں۔ جو بھی وہ آپس میں فیصلہ کر لیں۔ جب فیصلہ ہوگیا، تو اب یہ ہوگا کہ جس وقت نفع ہوگا، تو نفع اسی ratio پہ تقسیم ہوگا اور اگر نقصان ہوگیا، تو پیسے والے کے پیسے گئے اور سروس والے کی سروس گئی، سروس والے سے پیسے وصول نہیں کئے جائیں گے، کیونکہ دونوں کا نقصان ہوا ہے، سروس والے کی سروس گئی اور پیسوں والے کے پیسے گئے۔ مضاربت کا یہ اصول ہوتا ہے۔ مشارکت اس کو کہتے ہیں کہ مختلف لوگوں نے ایک خاص ratio میں کچھ پیسے جمع کردیئے، تو اب کاروبار ان کا مشترکہ ہوگا۔ اس میں سے کاروبار کے تمام اخراجات نکال کر جو نفع ہوا ہے، اس نفع کو اسی ratio کے حساب سے divide کریں گے جس ratio سے انہوں نے پیسے جمع کئے تھے۔ اس کو مشارکت کہتے ہیں۔ مضاربت اور مشارکت؛ دونوں شریعت میں جائز ہیں اور ان کے مطابق لوگ کاروبار کرتے ہیں۔ جیسے: اگر شیئر سسٹم صحیح طریقے سے چل رہا ہو، اس کے اندر کوئی گڑبڑ نہ ہو، تو interface میں جو سروسز چارجز ہوتے ہیں، وہ اس سے deduct کیے جاتے ہیں اور جو پیسہ باقی بچتا ہے، وہ شیئر کے حساب سے شیئر ہولڈر کا ہوتا ہے، یہ معاملہ صحیح ہے، اگر کوئی دوسری غلطی نہ ہو۔ کیونکہ غلطی تو کوئی بھی ہوسکتی ہے، مثلاً: اگر کوئی سودی کاروبار میں پیسے شامل کردے، تو پھر وہ غلط ہوجائے گا۔ یا شراب کے کاروبار میں جمع کرادے، تو وہ بھی غلط ہوجائے گا۔ مطلب یہ ہے کہ مشارکت کا معاملہ Subjet to condition ہے، This is the main theme۔
سوال نمبر 9:
حضرت! مضاربت میں بھی یہی condition یعنی یہی شرائط ہوں گی کہ مثلاً: سودی کاروبار نہ ہو؟
جواب:
جی، ہر چیز میں یہ شرائط ہیں، کیوں کہ جو چیز حرام ہے، وہ کسی بھی طریقے سے حلال نہیں ہوتی۔ جیسے شراب حرام ہے، تو اس کا کاروبار بھی حرام ہے، لہٰذا اگر آپ مضاربت شراب میں کریں، تو جائز نہ ہوگی۔
سوال نمبر 10:
حضرت! ایک آدمی کو اللہ کے دیدار اور ملاقات کی تڑپ ہو، جو اس دنیا میں ممکن نہیں ہے، تو ایسا آدمی اگر دعا مانگے کہ یا اللہ! مجھے اس دنیا میں صبر عطا فرما، تو کیا یہ درست ہے؟
جواب:
موسیٰ علیہ السلام نے باقاعدہ یہ خواہش کی تھی کہ یا اللہ! میں تیرا دیدار چاہتا ہوں۔ اللہ پاک نے فرمایا کہ آپ میرا دیدار نہیں کرسکتے، اس دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہاں! پہاڑ کو دیکھ لو، میں اس پہ تجلی ڈالتا ہوں، اگر یہ بچ گیا، تو آپ بھی دیدار کرلیں گے۔ پھر اللہ پاک نے اس پہاڑ پہ تجلی ڈالی، تو وہ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہو کے گر پڑے۔ پس اس دنیا میں تو اللہ کا دیدار نہیں ہوسکتا۔ البتہ اللہ پاک کا اپنا ایک نظام ہے، وہ اپنے عاشقوں کو اس محبت میں ایک خاص چیز عطا فرما دیتے ہیں، جو ایک قسم کی کیفیت ہوتی ہے، جس میں انسان کو محسوس تو مشکل ہوتا ہے، لیکن اس میں مزہ بھی ہوتا ہے، تو اس مزے کی وجہ سے پھر برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ پس اس میں تڑپنا تو ہے اور اس تڑپ میں اگر کسی کی جان چلی جائے، تو وہ اعلیٰ درجے کا شہید ہوگا، کیونکہ وہ اللہ کی محبت میں جان دے گا۔ لیکن ایسے شخص کو شیخ کامل کی بہت ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ محبت بہت پاورفل چیز ہے، تو جتنی کوئی پاورفل گاڑی ہوتی ہے، اس گاڑی کو چلانے والے کی بھی اتنی زیادہ مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا شخص نقصان میں بھی جا سکتا ہے، اس وجہ سے ایسے آدمی کا ہاتھ کسی ایسے آدمی کے ہاتھ میں ضرور ہونا چاہئے، تاکہ وہ خدا نخواستہ اللہ کی محبت کے جوش میں کہیں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھے، جس کی اللہ نے ممانعت کی ہے۔ پس ہر چیز کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ جس کے ہاتھ میں وہ شخص ہو، اس کی بات کو مان کے چلے، جیسے جیسے وہ کہتا جائے، اسی طریقے سے وہ چلتا جائے۔ اب جیسے جیسے وہ کرتا جائے گا، تو وہ اس کے نفس کے خلاف ہوگا، ایسی صورت میں اس کا مسلسل مجاہدہ ہوتا جائے گا، جس کو آپ نے صبر کہا ہے۔ اور جب مجاہدہ ہوتا جائے گا، تو صبر آ ہی جائے گا۔
سوال نمبر 11:
حضرت! کن صورتوں میں سے نماز میں دو سورتیں اکٹھی ملائی جاسکتی ہیں؟
جواب:
دو سورتیں اکٹھی تو ہر وقت ملائی جاسکتی ہیں۔ یعنی ایک ہی رکعت میں آپ پورا قرآن بھی سنا سکتے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک رکعت میں پورا قران پڑھ لیا تھا۔
سوال نمبر 12:
تو کیا ایسا درست ہے کہ پہلے ایک جگہ سے پڑھا، پھر کسی اور جگہ سے؟
جواب:
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسا ہی کرتے تھے۔ خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر جہاد میں امیر ہوتے تھے اور امیر کو جماعت کروانا ہوتی تھی، تو ان کو اتنی زیادہ مقدار میں قرآن پاک یاد نہیں تھا۔ جب لمبی نماز پڑھتے تھے، جیسے فجر کی نماز، تو کچھ ادھر سے پڑھ لیتے اور کچھ ادھر سے پڑھ لیتے۔ اس طریقے سے پورا کر لیتے تھے۔ ترتیب میں صرف یہ ہے کہ آپ نے جو آیتیں پڑھی ہیں، ان سے پہلے والی آیتیں نہ پڑھیں، ان سے بعد والی پڑھیں۔ مثلاً: اگر آپ نے اکیسویں پارے کی آیتیں پڑھی ہیں، تو اب بیسویں پارے کی نہ پڑھیں، اس کے بعد والے پارے مثلاً تیسویں پارے کی آیات پڑھ سکتے ہیں، لیکن اگر کسی نے پہلے والی آیات بھی پڑھ لیں، تو نماز ہوجائے گی، لیکن ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، دیوبند کے مہتمم تھے، لیکن سادہ لباس میں رہتے تھے، ان کا لباس دیہاتی تھا اور زبان بھی دیہاتی تھی، علمی زبان استعمال نہیں کرتے تھے۔ دیہاتیوں کے طریقے سے بات کرتے تھے، ان کے بارے میں کسی کو یہ جاننا بہت مشکل ہوتا تھا کہ یہ عالم ہیں۔ اگر کوئی ان کو پہلے سے نہیں جانتا تھا، تو وہ ان کو دیہاتی سمجھتا تھا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گئے، تو مغرب کی نماز کا وقت آگیا۔ قریب کوئی چھوٹی سی مسجد تھی، تو حضرت وہاں نماز کے لئے چلے گئے۔ وہاں اتفاق سے امام مسجد نہیں تھے۔ چونکہ حضرت کی داڑھی تو تھی ہی، جب لوگوں کی داڑھی نہ ہو، تو پھر لوگ اس طرح کرتے ہیں کہ کسی داڑھی والے کو آگے کردیتے ہیں۔ انہوں نے حضرت سے کہا کہ مولوی جی! تم آگے ہوجاؤ۔ انہوں نے بہت کہا کہ میں نہیں پڑھاؤں گا، لیکن جب انہوں نے مجبور کردیا، تو نماز پڑھا دی۔ جب نماز پڑھانے کے لئے آگے ہوئے، تو خدا کی شان! پہلی رکعت میں سورۃ الناس پڑھی اور دوسری رکعت میں سورۃ الفلق پڑھی۔ اب سادہ لوگ تھے، وہ پریشان ہوگئے کہ نماز نہیں ہوئی۔ ان کو مسئلہ کا پتا نہیں تھا۔ جب اس طرح ہوگیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ نے ہماری نماز خراب کردی۔ مولانا صاحب نے بڑے سادگی سے کہا کہ مولوی لوگ کہتے ہیں کہ نماز تو ہوگئی۔ ان کو اور تپ چڑھ گئی کہ اچھا، ایک تو غلط بھی کیا اور پھر اس کے بعد نخرے بھی کرتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ میں نے تو انکار کیا تھا، آپ لوگوں نے زبردستی مجھے آگے کیا تھا۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ میں نہیں پڑھا سکتا۔ خیر! ایسا ہوا کہ ابھی یہ بات چل رہی تھی کہ ان کے پیچھے ساتھی آگئے۔ ساتھیوں نے کہا کہ حضرت! آپ نے تو ہمیں تھکا دیا، آپ کدھر گئے تھے۔ اب جو لوگوں نے حضرت حضرت سنا، تو لوگوں کو حیرت ہوئی کہ بھائی! یہ کون ہیں، ان کو سارے بڑے بڑے لوگ داڑھی اور عمامہ والے حضرت حضرت کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ تم نہیں جانتے! یہ مولانا قاسم ہیں۔ مولانا قاسم کو تو پورے علاقہ کے لوگ جانتے تھے۔ اب لوگوں نے کہا کہ اف! یہ کیا ہوا، اب لوگ ان کے پاؤں پڑگئے کہ حضرت! ہمیں معاف کردیں، آپ نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا۔ بہرحال! مسئلہ تو یہ ہے کہ نماز ہوجاتی ہے، اگر غلطی سے ایسا ہوجائے۔ قصداً ایسا نہیں کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 13:
حضرت! "اَلتَّاجِرُ الصَّدُوْقُ الْأَمِيْنُ" میں امین کا معنیٰ ہے امانت دار، اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
دیکھیں! "الصَّدُوْقُ الْأَمِيْنُ" یعنی صداقت اور امانت تو تجارت کے لئے بنیادی چیزیں ہیں۔ تاجر کو سچا بھی ہونا چاہئے اور امانت دار بھی ہونا چاہئے۔ مجھے بتائیں کہ مشارکت اور مضاربت میں اگر امانت درمیان سے اٹھا لو، تو یہ چل سکتی ہیں؟ اسی وجہ سے تو آج کل یہ چیزیں نہیں چل سکتیں، کیونکہ آج کل صداقت اور امانت نہیں ہے۔ پس صداقت اور امانت؛ یہ تجارت کی بنیادی requirements میں ہیں، ورنہ تجارت نہیں ہوسکتی۔
سوال نمبر 14:
حضرت! امانت کیا ہے؟ اس کی definition کیا ہے؟
جواب:
امانت اسے کہتے ہیں کہ کوئی چیز کسی کے حوالہ کی جائے، تو وہ اس میں اپنے نفس کو استعمال نہ کرے، بلکہ جو قاعدہ قانون ہو، اس کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ کرے، تو یہ امانت ہے۔
سوال نمبر 15:
حضرت! جیسے کوئی آپ کے پاس امانت رکھ لیتا ہے، تو جو لوگ بینک میں رقم رکھواتے ہیں، تو وہ بھی کیا امانت ہے؟
جواب:
وہ امانت نہیں ہے، کیوں کہ امانت کا اپنا طریقہ کار ہے۔ امانت سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے اس کے جو جائز طریقے بتائے ہیں، وہ اس کے مطابق ہی کرے گا۔ لہٰذا جو بھی قاعدہ ہو، تو وہ اس کے مطابق ہی کرے، یہ نہ کہے کہ میں اس کو خرچ کر لوں گا، پھر بعد میں دے دوں گا۔ امانت میں یہ نہیں چلتا۔ لہٰذا اگر آپ اس طرح امانت نہیں رکھتے، تو بس کہہ دیں کہ میں آپ سے قرض لیتا ہوں، جب آپ چاہیں، مجھ سے لے لیں، میں اس کا خیال نہیں رکھ سکتا۔ کیونکہ امانت میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں اسی کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے، وہ آپ کی range سے باہر ہے۔
سوال نمبر 16:
حضرت! مسلمان اور کافر کے کشف میں کیا فرق ہے؟
جواب:
اصل میں کشف کوئی دینی چیز نہیں ہے، یہ Man to man vary کرتا ہے۔ بعض لوگوں کو کشفی صلاحیت ملتی ہے، لہٰذا چاہے وہ مسلمان ہوں چاہے کافر ہوں، ان کو کشف ہوگا۔ میں اس پر آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔ ایک صاحب بڑے ذہین تھے، وہ ایک دن بیٹھے ہوئے جزیہ کے بارے میں کوئی کتاب دیکھ رہے تھے، اس میں ان کو کوئی اشکال ہوگیا اور اشکال اتنا بڑھا کہ وسوسہ کی شکل اختیار کرگیا اور وسوسہ کی وجہ سے وہ مرتد ہوگئے اور دین چھوڑ دیا۔ اس وقت روزے سے بھی تھے، تو روزہ بھی توڑ دیا، کیوں کہ دین ہی چھوڑ چکے تھے۔ شام کو افطار کے وقت جن ساتھیوں کے ساتھ افطار کررہے تھے، ان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ افطار کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھائی! میری تو ایسی حالت ہے کہ اگر آپ کو پتا چل گئی، تو آپ تو مجھے ساتھ بھی نہیں بیٹھیں گے۔ خدا کی شان! انہوں نے management کی یا ویسے ہی ان کی زبان سے نکلا، انہوں نے کہا کہ زیادہ سے زیادہ آپ کافر ہوں گے، اگر آپ کافر بھی ہیں، تو ہمارے لئے تو آپ دوست ہیں، وہ آپ کا اللہ کے ساتھ معاملہ ہے۔ ہمارے ساتھ آپ جیسے ہر وقت ہوتے ہیں، تو اس میں بھی آپ ہمارے ساتھ ہوجائیں۔ دین میں آپ کی اپنی مرضی ہے۔ تو انہوں نے ان کے ساتھ بیٹھ کھانا کھا لیا۔ خیر! پھر ان کا ان کے ساتھ رابطہ رہا، لیکن ان کو پتا چل گیا تھا کہ یہ تو مرتد ہوچکا ہے۔ انہوں نے ان کے ساتھ اپنا تعلق برقرار رکھا۔ ایک دن وہ مولانا فضل الرحمٰن گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ملاقات کے لئے جا رہے تھے، تو ان سے بھی کہا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان سے کیا لینا دینا؟ وہ آپ لوگوں کا بزرگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ سیر کے لئے جاسکتے ہیں، تو اسے بھی ایک سیر سمجھ کے چلے جاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ہاں! اس طرح ہوسکتا ہے۔ بہرحال وہ سیر سمجھ کے چلے گئے۔ پورے راستے میں وہ سوچتے رہے کہ مولانا صاحب یہ کہیں گے، تو میں ان کو یہ کہوں گا، مولانا یہ کہیں گے تو میں ان کو یہ کہوں گا۔ اس طرح انہوں نے پورا ایک مناظرہ ذہن میں تیار کرلیا۔ جب وہاں پر پہنچ گئے، تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی زبان میں تیزی کی وجہ سے لکنت تھی، تیز بہت بولتے تھے، تو الفاظ کٹ جاتے تھے۔ جیسے ہی یہ سامنے گئے، تو انہوں نے کہا کہ کہاں سے ہو، کدھر سے ہو، کون ہو؟ مسلسل بات شروع ہوگئی اور یہ گم سم کھڑے ہیں، کچھ بھی نہیں کہہ رہے۔ تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ حضرت! مجھے بیعت کرلیں۔ حضرت نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اب بیعت میں کلمہ تو پڑھا ہی دیتے ہیں۔ کلمہ پڑھا دیا اور وہ بیعت ہوگئے۔ اب جب واپسی پہ آرہے تھے، تو ساتھیوں نے کہا کہ بھائی! کمال ہے، آپ تو جا بھی نہیں رہے تھے اور بیعت ہوگئے، یہ کیا مسئلہ؟ انہوں نے کہا کہ آپ کو کیا پتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہوا؟ کہنے لگے کہ میں نے ذہن میں پورا مناظرہ تیار کیا ہوا تھا، لیکن جب میں حضرت کے سامنے چلا گیا، تو میرا ذہن بالکل blank ہوگیا، ذہن میں کچھ بھی موجود نہیں تھا، مجھے کچھ بھی پتا نہیں تھا، ذہن بالکل blank ہوگیا تھا۔ اس کے بعد پھر ایک سکرین میرے سامنے آ گئی، ایک طرف سے میرا سوال آتا تھا، دوسری طرف سے اس کا جواب آتا تھا، ایک طرف سے میرا اپنا سوال آتا تھا اور دوسری طرف سے اس کا جواب آتا تھا۔ کہنے لگے کہ میں اس میں گم سم کھڑا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ کیا ہورہا ہے! اس وقت میرے سارے سوالوں کے جواب مل رہے تھے۔ بس میں سمجھ گیا کہ یہ ٹھیک ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بیعت کر لیں اور میں بیعت ہوگیا۔ پھر وہ پکے مسلمان ہوگئے۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اصل بات میں بتاتا ہوں کہ جس وقت یہ مرتد تھے اور انگلینڈ گئے تھے۔ ذہن آدمی تو تھے اور انگلینڈ بھی گئے تھے۔ وہاں ان کی ایک بات مشہور تھی کہ اگر کسی کی جیب میں کوئی لیٹر ہوتا تھا، تو یہ اس کو بغیر دیکھے پڑھ لیتے تھے اور ان کو بتا بھی دیتے تھے کہ اس میں یہ لکھا ہوا ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ کاغذ قلم اپنے ساتھ رکھتے تھے اور سوچتے تھے، یعنی ان کی طرف تصور کر لیتے اور جو جو لکھتے تھے، دوسروں کو پتا نہیں چل رہا ہوتا تھا کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں، لیکن جس وقت وہ لکھ لیتے تھے، تو پورا پڑھ دیتے تھے، پھر پتا چل جاتا تھا کہ انہوں نے یہ کیا لکھا ہے۔ یہ ان کا طریقہ تھا۔ وہاں ایک میم تھی، یہ چوں کہ وہاں مشہور ہوگئے تھے۔ تو میم ان کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ میری جیب میں ایک لیٹر ہے، اس کو پڑھ کے دکھاؤ۔ انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے لکھنا شروع کردیا۔ جب لکھ کے پڑھا، تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں، تو سنا دوں اور آپ چاہیں، تو خود پڑھ لیں۔ پس اس کا رنگ زرد ہوگیا اور اس نے کہا کہ مجھے دے دو، میں خود پڑھتی ہوں۔ پھر جب اس نے پڑھا، تو کہا کہ ٹھیک ہے، یہ میرا ایسا راز تھا، جو میرے علاوہ کسی اور کو پتا نہیں تھا۔ آپ نے اس کو بالکل ٹھیک پڑھا ہے، میں متاثر ہوں۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! مرتد ہے، لیکن یہ اس کا کشف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کشف کے لئے مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں، یہ انسان کی اپنی capability ہے۔ جیسے اگر کسی انسان کی نظر 6 x 6 ہو، تو کیا وہ بہتر مسلمان ہے؟ اگر کسی کی آواز بہت اچھی ہو، تو کیا ہم اس کو بہتر مسلمان کہیں گے؟ بالکل نہیں۔ پس یہ دنیاوی چیزیں ہیں، دینی چیزیں نہیں ہیں، البتہ دین کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک انسان کے اندر capability ہے، تو یکسوئی کے کچھ exercise ہوتے ہیں، تو وہ concentration کے exercise کر کے اس کو develop کر لے گا۔ وہ کافر بھی ہے، تو اس نے develop کر لئے، لیکن اگر وہ مسلمان ہے اور دوسری چیزوں کی طرف اس کا رخ ہی نہیں ہے، تو وہ اگر تصوف کے ذکر اذکار کر لیتا ہے، تو اس میں concentration آجائے گی۔ اب اگر اس کی کشفی مناسبت ہے، تو concentration develop ہوجائے گی۔ اس نے اس مقصد کے لئے ذکر کیا نہیں ہے، لیکن اس کو کشف ہوگا۔ لوگوں کو جو دھوکہ ہوتا ہے کہ کشف بزرگی کی کوئی چیز ہے، اس کی اصل میں یہی وجہ ہوتی ہے کہ جن بزرگوں کو اس کے ساتھ concentration کی وجہ سے فطری مناسبت ہوتی ہے، ان کی وہ چیز develop ہوگئی ہے، اب وہ بزرگ بھی ہیں اور ان کو کشف بھی ہوتا ہے، لیکن ایسے بزرگ بھی ہیں، جن کو کشف بالکل نہیں ہوتا اور وہ بہت بڑے بزرگ ہوتے ہیں۔ چنانچہ بزرگی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے ڈاکٹر شیر حسن صاحب حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ کسی نے ان سے اس طرح کی باتیں کیں، انہوں نے فرمایا کہ میں نے تو ابھی تک کسی گدھے کو بھی خواب میں نہیں دیکھا، مجھے تو ان چیزوں کے ساتھ مناسبت ہی نہیں ہے۔ پس ضروری نہیں ہے کہ ہر ایک کو اس کے ساتھ مناسبت ہو۔ بعض کو مناسب ہوتی ہے اور بعض کو مناسبت نہیں ہوتی۔ لیکن جن کو مناسبت نہیں ہوتی، وہ زیادہ محفوظ ہیں اور جن کو مناسبت ہوتی ہے، ان کے ساتھ بڑا problem ہے، عین ممکن ہے کہ ان کو اپنے بارے میں کچھ غلط فہمی ہوجائے اور وہ اپنا کام خراب کرلیں۔ لیکن جن کو کشف نہیں ہوتا، تو وہ محفوظ ہیں۔ وہ تو اپنے آپ کو کسی وجہ سے بھی بزرگ نہیں سمجھیں گے۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو میں نے کچھ ایسی باتیں بتائیں، تو حضرت نے فوراً فرمایا کہ دور کرو، دور کرو، یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں۔ بس پھر مجھے ان چیزوں سے بالکل نفرت ہوگئی، میں نے سوچا کہ جب یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، تو پھر خواہ مخواہ ان میں کیوں پڑنا ہے۔ لہٰذا یہ راستے کے کھیل تماشے ہیں، ان چیزوں میں نہیں الجھنا چاہئے، ورنہ رہ جاؤ گے۔ اس کی مثال میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جیسے آپ ٹرین کے ذریعے لاہور جا رہے ہیں اور ٹرین مختلف جگہوں پہ سٹیشنوں رکتی ہے، اب اگر کوئی خوبصورت وادی ہے اور آپ سوچتے ہیں کہ یہ بہت لطف وادی ہے، لہذا آپ اتر کر اس کا مزہ لینے لگیں اور ادھر سے ٹرین چل پڑے، تو آپ پھر اسی وادی میں بھٹکتے رہیں گے، لاہور نہیں پہنچیں گے۔ لیکن اگر آپ کو نظر نہ آتا، کھڑکیوں پر پردے ہوتے، تو آپ بچے رہتے۔ پس اسی طریقے سے جن کو کشف نہیں ہوتا، وہ محفوظ رہتے ہیں اور جن کو کشف ہوتا ہے، تو risk میں ہیں۔
سوال نمبر 17:
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے پاس لوگ دعا اور علاج وغیرہ کے لئے جاتے ہیں، تو کیا ان مقاصد کے لئے جانا چاہئے یا نہیں؟
جواب:
کشف والوں کے پاس اگر کوئی دنیا کے لئے جاتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اگر کسی کو بیماری کا کشف ہوگیا، تو وہ علاج کا ایک ذریعہ ہوجائے گا، diagnose ہوجائے گی، کیوں کہ کشف سے diagnose تو ہوسکتی ہے، لیکن اگر دین کے لئے ان کے پاس جانا ہے، تو دین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ دین کے لئے مرشدین ہوتے ہیں، چاہے ان کو بالکل کشف نہ ہوتا ہو۔
سوال نمبر 18:
حضرت! سنا ہے کہ مؤمن کی صفت ہے؛ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا اور منافق کی صفت ہے؛ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا۔ اس کی application کیا ہے؟ مثلاً: میں کسی کو کہوں کہ تلاوت کرو اور وہ تلاوت نہیں کررہا، تو میں کہتا ہوں کہ یہ منافق ہے۔ تو کیا درست ہے؟
جواب:
اس کا تعلق آپ کے ساتھ نہیں ہے، اللہ کے ساتھ ہے۔ یعنی اللہ کوئی حکم دے، تو اس وقت انسان کو سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہنا چاہئے، میرے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے، کیونکہ نہ تو میں شارع ہوں اور نہ اسلام میرا ہے۔ پس یہ اللہ کی بات ہے اور اللہ کے ساتھ یہ معاملہ ہے۔
سوال نمبر 19:
حضرت! ایک زمانہ تھا، جب دین کی دعوت خفیہ ہوتی تھی۔ تو اس کی کیا requirements ہیں، مثلاً: آج کل کے دور میں بھی بعض ممالک میں اس طرح خفیہ دعوت کی ضرورت ہوسکتی ہے؟
جواب:
قرآن پاک میں ہے کہ ہر سرگوشی میں خیر نہیں ہوتی، مگر اس سرگوشی میں جو اللہ کے لئے کی جاتی ہے۔ تو تبلیغ بھی تو اللہ کے لئے ہے۔ جیسے ہندوستان میں اگر کوئی کام کرے گا، تو وہ علانیہ نہیں کرسکے گا، وہ تو آپس میں سرگوشیوں اور اشاروں میں طریقے سے کام کرے گا۔ اسی طرح امریکہ میں اور اسی طرح دوسری جگہوں پہ جو بھی دین کا کام ہوگا، وہ اگر وہاں کے لحاظ سے حکمت کے مطابق ہوتا ہے، تو وہ صحیح کام ہوتا ہے۔ لہٰذا وہاں کی جو requirements ہیں، ان کے مطابق حکمت کے ساتھ کام کیا جائے۔ جیسے قرآن کریم میں ہے:
﴿قُلْ هٰذِهٖ سَبِیْلِیْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِیْرَةٍ﴾ (یوسف: 108)
ترجمہ: "(اے پیغمبر!) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں"۔
سوال نمبر 20:
حضرت! بصیرت کیا ہوتی ہے؟
جواب:
بصیرت قلبی نظر ہے۔ جیسے بصارت آنکھ کی نظر ہے، اسی طرح بصیرت دل کی نظر ہے۔
سوال نمبر 21:
حضرت! مثلاً: SMS آپ کو بھیجے جاتے ہیں، تو ایک آدمی اگر daily آپ کو میسج بھیجے، تو یہ disturbance کے لیول پہ پہنچ جائے گا، اگر بالفرض ایسا ہو؟
جواب:
اصل میں ہر چیز کی اپنی کچھ Optimize routine ہوتی ہیں، اس optimization سے آپ کم کریں گے، تو پھر بھی مسئلہ ہوسکتا ہے اور اگر زیادہ کریں گے، تو پھر بھی مسئلہ ہوسکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی بالکل ہی رابطہ نہیں کرتا، تو وہ بھی غلط ہے اور تکلیف دہ ہے، اور اگر کوئی ہر پانچ منٹ کے بعد رابطہ کرے، تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ اس میں پوچھا جائے کہ میں آپ کو فون کتنا frequently کرسکتا ہوں، جس طرح وہ بتا دے، اس طرح کریں۔ مجھے کچھ لوگ محبت میں شام کے وقت فون کرتے ہیں اور ساتھ کہہ دیتے ہیں کہ حضرت! بس سلام کرنے کے لئے فون کیا ہے۔ مروت ایک چیز ہوتی ہے، جس میں انسان پھنس جاتا ہے، ورنہ جب وہ بات لمبی کر لیتے ہیں، تو یہ ان کی اپنی بات کے خلاف ہے، کیونکہ جب سلام کے لئے فون کیا تھا، تو سلام کرو اور پھر چھوڑ دو، کیونکہ دوسرے لوگ بھی لائن میں ہیں۔ اس طرح اگر سلام کرنے کے لئے مجھ سے سو آدمی بات کریں، تو جو لوگ اپنا حال سنانا چاہتے ہیں، ان کا حق مارا جائے گا۔ وہ لوگ جو احوال سنانا چاہتے ہیں، جن کو ضرورت ہے اور مہینہ کے بعد ان کا نمبر آیا ہے، وہ مجھ سے ضروری بات کرنا چاہتے ہیں اور ادھر سلام پہ سلام آرہا ہے اور سلام بھی دو دو منٹ کا ہے، تو پھر تو پریشانی ہوگی۔ اس لحاظ سے Optimum solution صرف required ہے، یعنی جب آپ کسی کے گھر میں داخل ہوتے ہیں، تو سلام کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا میں اندر آجاؤں۔
سوال نمبر 22:
حضرت! ایک سوال ہے کہ نماز کے وقت پر اگر امام صاحب نہیں آئے، تو کتنی دیر امام صاحب کا انتظار کرنا چاہئے؟
جواب:
ایک مشکل سوال ہے، اس وجہ سے کہ اگر کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، تو پھر تو مقتدیوں کو برداشت کرنا چاہئے اور اگر اکثر ایسا ہوتا ہے، تو پھر امام کو برداشت کرنا چاہئے۔ پھر امام اجازت دے دے کہ آپ لوگ نماز پڑھ لیا کریں۔ جنوبی افریقہ میں ایسا ہوا تھا کہ ایک عالم تھے، جو مدرسے کے مہتمم تھے، وہ اکثر لیٹ آتے تھے، ہمارے کچھ بزرگ وہاں تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کے کچھ ذمہ دار لوگوں نے شکایت کی کہ یہ اکثر لیٹ آتے ہیں، ہم کیا کریں؟ پھر باقاعدہ ان کا بورڈ بیٹھ گیا اور انہوں نے فیصلہ سنا دیا کہ مہتمم صاحب سے کہہ دیا کہ آپ وقت پر آیا کریں، لیکن اگر آپ وقت پہ نہیں آئیں گے، تو پھر آپ مدرسے کے بچوں کے ساتھ جو بعد میں علیحدہ نماز پڑھتے ہیں، ان کے ساتھ نماز پڑھ لیا کریں۔ ان کو اپنے وقت کا پابند کرلیں، باقی لوگوں کو اپنے وقت کا پابند نہ کریں، وہ اپنی نماز پڑھا لیا کریں۔
سوال نمبر 23:
آفس میں جب جماعت ہوتی ہے، تو بعض دفعہ آفس میں ایک وقت fix ہوتا ہے، اس وقت میں اگر امام نہ ہو، تو کیا اس میں بھی انتظار کریں گے؟
جواب:
اس کے لئے ہم لوگوں نے جو solution کیا تھا، وہ یہ تھا کہ ہم نے چار پانچ امام طے کئے ہوئے تھے کہ یہ امام ہوگا، اگر یہ نہیں ہوگا، تو پھر یہ امام ہوگا اور اگر یہ نہیں ہوگا، تو پھر یہ امام ہوگا اور اگر یہ نہیں ہوگا، تو پھر یہ امام ہوگا۔ بیک وقت ساروں کا غائب ہونا یہ تو بہت rare چانس ہوسکتا ہے، لہٰذا ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور موجود ہوتا تھا، جس کی وجہ سے کسی کا انتظار نہیں کیا جاتا تھا۔ اگر اصل امام موجود نہیں، تو پھر second امام، اگر second امام نہیں ہے، تو third امام اور third امام بھی نہیں ہے تو پھر fourth امام نماز پڑھاتا تھا۔ چنانچہ اگر آپ نے مثلاً ایک بجے نماز کا وقت مقرر کیا ہے، تو اگر ایک بجے ایک امام نہ ہوا، تو دوسرا امام نماز پڑھا دے گا۔
سوال نمبر 24:
دراصل اس میں وقت fix نہیں ہوتا، کیونکہ routine ایسی ہے کہ مختلف اوقات میں لوگ آکر جماعت کرا لیتے ہیں۔
جواب:
ہاں! اس میں پھر علیحدہ جماعت تو ہوسکتی ہے، لیکن جو عمومی جماعت ہے، اس کو آپ اپنا پابند نہ کریں، وہ اپنے وقت پہ fix ٹائم میں ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کس کس کو بتائیں گے کہ آج کس وقت جماعت ہوگی۔ اس طرح تو لوگوں کی نماز کی عادت خراب ہوجائے گی، لہٰذا کم از کم ایک جماعت صحیح وقت پہ ہونی چاہئے، جو fix ٹائم پر ہو۔ چونکہ دفتر ہے، اس لئے باقی چھوٹی جماعتیں بعد میں بھی ہوسکتی ہیں، ان کو بے شک آگے پیچھے کرلیا کریں۔ لیکن کم از کم ایک جماعت اپنے مقرر وقت پہ ہو، تاکہ باقی لوگ اس وقت نماز پڑھ لیں۔
سوال نمبر 25:
مسجد میں بھی ایسا ہوسکتا ہے؟
جواب:
نہیں، مسجد میں ہو، تو پھر تو عجیب سی بات ہوجائے گی۔ اگر مسجد میں نہ ہو، بلکہ کسی اور جگہ پہ عمومی جماعت ہورہی ہے، جس میں سب لوگ آرہے ہیں، تو وہاں پر ایک جماعت fix ٹائم پر ہونی چاہئے اور اس کے علاوہ باقی جماعتوں کو بے شک آپ اپنا پابند کرلیں۔
سوال نمبر 26:
حضرت! ایک جگہ پر ایک mature عالم صاحب نے بیان کیا۔ اسی طرح ایک سینئر دینی کام کرنے والے صاحب تھے۔ میں بھی کھڑا ہوکر سن رہا تھا، وہ بیان کے content کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ باتیں تو سب کو ہی پتا ہیں، To the point یعنی خاص موضوع پر بات کرنی چاہئے۔ کیا یہ Administrative angle سے کہہ رہے تھے یا اس کو کیا کہیں گے؟
جواب:
دراصل اس قسم کی بات اول تو ان کو لوگوں کے سامنے کرنی ہی نہیں چاہئے، یا تو اس شخص کو بات کرنی چاہئے، جس نے ایسی بات کی ہے، اس کو بتا دو، تاکہ اگر وہ غلط ہو، تو وہ اپنی اصلاح کرلے۔ یا پھر جو ذمہ دار لوگ ہیں، جو اس قسم کی چیزوں کو طے کرتے ہیں، ان کے سامنے بطورِ مشورہ اس چیز کو رکھ دو، تاکہ آئندہ اس کے لئے کوئی قانون بنایا جائے کہ کونسی بات کرنی چاہئے اور کونسی بات نہیں کرنی چاہئے۔ ورنہ عوام سے تو خواہ مخواہ disturbance ہوجائے گی۔ آپ دیکھیں کہ آج میں ان کے بارے میں بات کررہا ہوں کہ وہ غلط بات کررہے ہیں، کل کو میں بات کررہا ہوں گا اور کہے گا کہ یہ ٹھیک بات نہیں کررہا، تو ایک game سی بن جائے گی۔
سوال نمبر 27:
حضرت! بزرگوں کے حال کے جو واقعات ہیں، جس طرح فضائلِ اعمال میں ہیں، وہ سن سن کے انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہ ریفرنس ہے؟
جواب:
اصل میں بزرگوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ کسی ایک حال پہ ہوتے ہیں، باقی چیزوں میں وہ normal ہوتے ہیں۔ کوئی بزرگ کسی حال پہ ہے تو کوئی کسی حال پر ہے۔ اگر یہ سارے references بن گئے، تو ایسا شخص جو سب کے حال پر ہو، تو وہ تو زمین پر ٹکتا بھی نہیں ہے۔ مثلاً ایک آدمی ہے، وہ معاملات کے لحاظ سے حال میں ہے، دوسرا آدمی عبادات کے لحاظ سے حال میں ہے، تیسرا آدمی معاشرت کے لحاظ سے حال میں ہے، چوتھا آدمی کسی اور چیز کے لحاظ سے حال میں ہے۔ اب ہر شخص ایک ایک حال کو برداشت کررہا ہے، لیکن اگر کوئی سب چیزوں میں حال پر ہو، تو وہ تو پھر ہوا میں اڑے گا، اس کو تو کوئی برداشت نہیں کرسکتا، لہٰذا reference صرف شریعت ہے۔
سوال نمبر 28:
مراقبہ اور شغل میں کیا فرق ہے؟
جواب:
مراقبہ اسے کہتے ہیں کہ مثلاً آپ اللہ پاک کی صفات کے بارے میں غور کرنا چاہیں یا اپنی قلبی کیفیت کے بارے میں آپ کرنا چاہیں، مثلاً: عرشِ الہیٰ سے ایک نور آرہا ہے، میرے دل میں جذب ہو رہا ہے۔ یعنی وہ ساری کیفیات جو آپ کو کیفیتِ احسان تک لے جائیں، یہ مراقبہ ہوتا ہے۔ شغل یہ ہوتا ہے کہ جب انسان کا مراقبہ سے کام نہ ہوسکتا ہو، یعنی مراقبہ سے کام نہ چل رہا ہو، تو پھر اس کو شغل سے سہارا دیتے ہیں، جس کو ہم Choke دینا کہتے ہیں یا دھکا سٹارٹ کہتے ہیں۔ شغل کو پھر اس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ شغل عارضی ہوتا ہے، ہر وقت نہیں ہوتا۔ وہ اس کو کھڈے سے نکالنے کے لئے ہوتا ہے۔
سوال نمبر 29:
حضرت! دو بندے ہیں، دونوں عالم نہیں ہیں، لیکن ایک یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا نماز صحیح نہیں پڑھ رہا، تو کیا وہ دوسرے کو بتا سکتا ہے، جو اس نے سمجھا ہے؟
جواب:
جی بالکل، بتا سکتے ہیں۔ اس کو نہی عن المنکر کہتے ہیں، یعنی کسی کو غلطی سے بچانا۔ اور نہی عن المنکر کے لئے بہت زیادہ حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ کسی کو وضو کا طریقہ سکھایا تھا، تو اس طرح سکھایا کہ انہوں نے دیکھا کہ وہ شخص وضو غلط کررہا ہے، وہ بڑے میاں تھے۔ انہوں نے ان سے فرمایا کہ حضرت! وضو میں میں بعض دفعہ غلطیاں کر جاتا ہوں، آپ تھوڑا سا میرا وضو دیکھ لیں، اگر اس میں کوئی غلطی ہو، تو مجھے بتا دیجئے گا۔ پھر پورا وضو ان کے سامنے اطمینان کے ساتھ کر لیا۔ وہ بڑے میاں سمجھ گئے اور کہا کہ بیٹا! آپ کا وضو صحیح ہے، میرا وضو غلط ہے، میں آئندہ ٹھیک کروں گا، ان شاء اللہ۔ اصل میں بتانے میں ہمارا لہجہ تلخ ہوجاتا ہے، یہ نفس کی شرارت ہے۔ جب تک نفس پہ کنٹرول نہ ہو، تو نہی عن المنکر کافی مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے اس عمل کے فوراً بعد نہیں بتانا چاہئے، کیونکہ ادھر انسان Excited state میں ہوتا ہے۔ بعد میں مناسب موقع پر اچھی طرح اپنے آپ کو سمجھا بجھا کے اس کو طریقہ سے بتا دیں۔
سوال نمبر 30:
حضرت! یہ سنا ہے کہ مولانا سعید احمد خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو مدینہ منورہ میں رہتے تھے، انہوں نے دوسرے مسلک کے کسی عالم صاحب سے ملنا تھا، تو تین دن تک اپنے ساتھیوں کو ترغیب دیتے رہے کہ ان کے بارے میں کوئی بات ذہن میں نہ آئے۔
جواب:
یہی اپنے آپ کو سمجھانا بجھانا ہے کہ میرا نفس درمیان میں حائل نہ ہوجائے۔
سوال نمبر 31:
حضرت! مثلاً: آج کل کے دور میں اگر کسی کو کہیں کہ مجھے job دلا دو، تو وہ آگے سے کبھی یہ نہیں کہے گا کہ مشکل ہے، میرا کوئی ایسا جاننے والا نہیں ہے، بلکہ کہے گا کہ ضرور ضرور، آپ مجھے اپنی CV دے دیں۔ بے شک اس CV کو ٹوکری میں پھینک دے۔ لیکن ظاہر ایسا کردیا کہ بس job دلائے گا۔ اور ایک بندہ وہ ہوگا جو ڈائریکٹ منہ پر کہہ دے گا کہ بھائی! میرا کوئی ایسا جاننے والا نہیں ہے۔ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ اگلے کو ناگوار گزرے۔ ان دو صورتوں میں سے کون سی صورت بہتر ہے؟
جواب:
اس کا مناسب طریقہ وہ ہے جو میں کرتا ہوں، ضروری نہیں کہ میرا طریقہ بہت اچھا ہو، لیکن جو طریقہ میں اپنے لئے اچھا سمجھتا ہوں، وہی آپ کو بھی بتا سکتا ہوں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ میں اس سے کہتا ہوں کہ میرا کوئی جاننے والا تو ہے نہیں، لیکن میں اس پر غور کرتا ہوں۔ اگر کوئی مل گیا، تو میں اس سے کہہ دوں گا۔ اگر آپ کا حق ہوگا، تو ان شاء اللہ دلوانے کی کوشش کروں گا۔ آپ اس پہ مطمئن نہ بیٹھئے، کوئی اور تلاش کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ مجھے بھی CV دے دیں۔ یعنی اس کو بھی مطمئن نہیں رکھا کہ میرے اوپر dependent ہوجائے، کیونکہ ایسا نہ ہو کہ اس کا نقصان ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں نے پوری ذمہ داری نہیں لی۔ اس طرح ہو تو پھر ٹھیک ہے، ورنہ پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی کو اگر آپ بتا دیں کہ میری کوئی جان پہچان نہیں، تو وہ کہہ دے گا کہ یہ ٹال رہا ہے، تو پھر خواہ مخواہ وہ آپ کا پیچھا نہیں چھوڑے گا، بار بار آپ کو تنگ کرے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ نہیں کہتے تو اس کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ اُس میں آپ کا نقصان ہے اور اِس میں اس کا نقصان ہے۔ تو نہ اپنا نقصان کرو اور نہ اس کا نقصان کرو۔ میں آج کل سفارش بہت کم کرتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کل سفارش صرف ناجائز کے لئے سمجھی جاتی ہے، جائز کے لئے سفارش نہیں سمجھی جاتی۔ حالانکہ سفارش جائز کام کے لئے ہوسکتی ہے، ناجائز کے لئے نہیں ہوسکتی۔ اب لوگوں کا مزاج اس قدر فاسد ہوچکا ہے کہ وہ جائز سفارش کو سفارش نہیں مانتے، کہتے ہیں وہ تو اپنا حق ہے۔ اب ناجائز سفارش سفارش ہے۔ بلکہ بعض تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ہم آپ کے پاس کیوں آتے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کو سفارش اس حالت میں کرنی چاہئے جب جائز نہ ہو۔ بس ایسی صورتِ حال ہوجاتی ہے۔
سوال نمبر 32:
کسی سے کسی کو ایذا پہنچتی ہے، اب اس کے پاس دو options نظر آتے ہیں، یا تو اس کے لئے بد دعا کرے یا ہدایت کی دعا کرے۔ بہتری کس میں ہے؟ کیونکہ جب ہدایت کی دعا کرتا ہے تو صبر کر لیتا ہے۔ اور اگر بد دعا نہ کرے تو اس کے لئے ادھر سے اجر نہیں ملتا۔
جواب:
اصل میں آپ ﷺ کا طریقہ تو دعا کا تھا، بد دعا بہت کم کی ہے۔ بد دعا کی ہے، لیکن بہت کم کی ہے۔ لہٰذا بد دعا کرنے کی گنجائش ہے، لیکن عزیمت یہ ہے کہ دعا کرے۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر آپ دعا کرتے ہیں اور وہ ظالم ہو، تو اس کو اس سے زیادہ نقصان ہوتا ہے کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی غیرت گوارا نہیں فرماتی اور اللہ اس کو معاف نہیں کرتے، بے شک آپ دعا بھی کریں۔ لہٰذا وہ اپنے اس ظلم کی وجہ سے پھنس ہی جاتا ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ ایسی ہی شخصیت تھے۔ وہ ہرحال میں دعا کیا کرتے تھے۔ ان کے ساتھ جو شخص برا کرتا تھا، اس کا حشر ہوجاتا تھا۔ کئی جگہوں پہ ایسا ہوا کہ جن لوگوں نے حضرت کو ایذا دی، ان کے ساتھ ایسا کچھ ہوا کہ وہ لوگوں کے عبرت کا سبب بن گیا۔ حالانکہ حضرت دعا ہی فرماتے تھے۔ اکثر دعا کرتے رہتے تھے اور اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے، لہٰذا اپنے آپ کو اس کا اہل ہی نہیں سمجھتے تھے کہ میں بھی بد دعا کرسکتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ ناخدا جن کا نہ ہو ان کا خدا ہوتا ہے۔ یعنی پھر اللہ ہی ان کا بدلہ لے لیتا ہے۔ ایسے لوگوں کے ساتھ رہنا بڑا مشکل کام ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، ایک بزرگ جا رہے تھے، ایک عورت آرہی تھی، اس عورت کی ان کے ساتھ کوئی دشمنی ہوگی، اس نے ان کو سب کے سامنے گالی دینا شروع کر دی، حضرت نے اپنے خلیفہ سے کہا کہ جاؤ اور اس کو پیچھے سے ایک مکا مار دو۔ حضرت بہت نرم مزاج تھے، وہ خلیفہ سوچ میں پڑ گئے کہ حضرت نے پہلے تو کبھی اس طرح نہیں کیا، ہوسکتا ہے کہ میں نے سمجھا نہ ہو، معلوم نہیں کہ میں نے ٹھیک سنا یا نہیں۔ اسی سوچ میں تھوڑی دیر لگ گئی اور وہ عورت گر کر مر گئی۔ حضرت نے ان خلیفہ سے فرمایا کہ تیری وجہ سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت! میری وجہ سے کیسے ہوا؟ فرمایا کہ میں نے دیکھ لیا تھا کہ اللہ پاک کا غضب اس کی طرف متوجہ ہے، میں جلدی بدلہ لینا چاہتا تھا کہ وہ بچ جائے، لیکن اس کی قسمت میں نہیں تھا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔