اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم! صدیق شاہ صاحب نے یہ سوال بھیجا ہے:
بلا ضرورت اور زیادہ کھانے کی عادت کیسے ختم ہو سکتی ہے؟ کافی عرصہ سے یہ عادت ہے کہ بھوک کے بغیر کھاتا ہوں اور کبھی کبھار بہت زیادہ کھاتا ہوں، جس سے دل میں ظلمت سی محسوس ہوتی ہے، کبھی کبھار ایک دو دن لگا تار روزے رکھ لیتا ہوں تا کہ بلا ضرورت کھانے سے پرہیز ہو، لیکن کافی عرصے سے اس عادت سے چھٹکارا نہیں پا رہا۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا وضو کا نماز کے خشوع پر اثر ہوتا ہے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے جیسے مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام۔ جب کہ دجال کو بھی مسیحا کہا گیا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
کھانا ایک ضرورت ہے اور ضرورت کے مطابق کھانا ضروری ہے، بہت زیادہ کھانا، مزے دار کھانا، یہ خواہشات میں شامل ہے۔ اگر اس میں کوئی حرام لقمہ نہ ہو اور نقصان بھی نہ دے، چاہے وہ جسمانی نقصان ہو یا روحانی نقصان، مزہ دار کھانے کی بھی ممانعت نہیں ہے۔ لیکن جہاں سے روحانی نقصان یا جسمانی نقصان کی سرحد شروع ہوتی ہے وہاں احتیاط کرنا ضروری ہے۔ جسمانی نقصان کا ڈاکٹر بتائیں گے کہ کتنا کھانا چاہئے اور کون سی چیز کھانی چاہئے اور کون سی چیز نہیں کھانی چاہئے۔ مثلاً میٹھا کھانا تقریباً ہر ایک کو پسند ہے، لیکن شوگر والوں کے لئے منع ہوتا ہے۔ پس اگر ان کو ڈاکٹروں نے روکا ہو تو نہیں کھانا چاہئے، اس طرح کھانے کے اندر نمک بہت مزے کی چیز ہے، کھانے کا مزہ زیادہ تر اسی پر منحصر ہے، لیکن اگر کسی کو بلڈ پریشر ہو اور ڈاکٹر نے روکا ہو تو اس کو نہیں کھانا چاہئے۔ اس طرح گھی سے بھی کھانے کا لطف دو بالا ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو ڈاکٹر نے روکا ہو تو اس کو نہیں کھانا چاہئے۔ اس طرح بعض چیزیں بعض لوگوں کے لئے منع ہوتی ہیں جو ڈاکٹر یا حکیم بتا دیتے ہیں، ان میں جو جسمانی ضرر والی چیزیں ہیں وہ ڈاکٹروں سے پوچھنے کی بات ہے۔ اور جو روحانی ضرر کی چیزیں ہیں وہ مشائخ بتاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے مزے دار کھانا سامنے آ جائے، اگر جسمانی ضرر نہ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور اس پر شکر کرنا چاہئے۔ لیکن یہ سوچ میں رکھنا کہ فلاں چیز کھانی چاہئے، فلاں چیز کھانی چاہئے، اس کے لئے باقاعدہ سفر کرنا اور خصوصی ہوٹلوں پہ جانا، یہ روحانی نقصان ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔ ایک عالم تھے جو فوت ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جنت نصیب فرمائے، اسلامی یونیورسٹی کے ڈین تھے بڑے عالم تھے اور بڑے نیک آدمی تھے، پہلے کراچی میں رہتے تھے۔ ایک بہت بڑے عالم نے ان کی دعوت کی اور ان کو کافی دور ایک ایسے ہوٹل پہ لے گئے جن کے ہاں صبح کے ناشتے میں نہاری بڑی مشہور تھی، ان کو وہاں ناشتہ کرایا۔ کسی ہوٹل پر یا اپنے گھر میں کھانا کھلانے کے بعد عموماً لوگ پوچھتے بھی ہیں کہ کیسے پایا؟ مقصد یہ ہوتا ہے یہ کھانے کی تعریف کریں گے۔ ان سے پوچھا کہ کیسے پایا؟ اس عالم نے جواب دیا کہ کھانا تو بہت اچھا تھا لیکن اس کے لئے اتنا ’’شد الرحال‘‘ (رختِ سفر باندھنا) اور خواہ مخواہ اتنا لمبا سفر جائز نہیں تھا۔ ایک بزرگ گزرے ہیں حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ، وہ ایک مفتی صاحب کے ہاں مہمان ہوئے، ان دنوں علماء کی بڑی شان ہوتی تھی، ان کے ہاں دولت کی ریل پیل ہوتی تھی، عموماً بڑے عالی شان مکان ہوتے تھے، اس وقت کے حساب سے سامان ہوتے تھے، حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو چونکہ مشائخ طبیب ہوتے ہیں، مرض کی تشخیص بھی کرتے ہیں اور پھر اس کا علاج کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں، انہوں نے اس مفتی صاحب کو کہا: میں ذرا آپ سے وضو کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں، میں آپ کے سامنے وضو کروں گا اگر اس میں کوئی غلطی ہو تو مجھے بتا دیجئے گا تاکہ آپ سے استفادہ کر سکوں۔ مفتی صاحب نے کہا: جی بالکل ٹھیک ہے۔ جب ان کے سامنے وضو کیا تو چہرے پہ چار دفعہ پانی ڈالا۔ مفتی صاحب نے کہا: حضرت ایسے ٹھیک نہیں ہے۔ کہا: کیا ہو گیا؟ کہا: آپ نے چار دفعہ پانی ڈالا ہے، یہ اسراف ہے، تین دفعہ سے زیادہ پانی چہرہ پہ ڈالنا اسراف ہے۔ انہوں نے فرمایا: یہ تو بڑی زبردست بات معلوم ہو گئی کہ یہ اسراف ہے۔ پھر وہ تمام چیزوں کو دیکھ کر کہنے لگے: اچھا یہ اسراف ہے، اچھا یہ اسراف ہے، اچھا یہ اسراف ہے۔ اسی سے مفتی صاحب کو پیغام پہنچ گیا۔ مفتی صاحب نے کہا: جزاکم اللہ! حضرت اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے، مجھے سمجھ آ گئی۔ مقصد یہ ہے کہ ہم نے آج کل اپنی ضروریات کچھ ایسی بڑھائی ہوئی ہیں کہ ضرورت نہ ہوتے ہوئے بھی خواہشات کو ضرورت تسلیم کیا ہوا ہے۔ ان چیزوں میں انہماک دل کو میلا کرتا ہے، نقصان دیتا ہے، دنیا کی محبت میں تین چیزیں نمایاں ہیں۔ بڑائی کی محبت، لذتوں کی محبت اور مال کی محبت۔ لذتوں کی محبت میں کھانے پینے کی محبت بھی آتی ہے، لباس کی محبت بھی آتی ہیں، مکان، کوٹھی اور اس طرح کی بہت سی چیزیں اس میں آتی ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ آج کل کپڑوں کی میچنگ کا ایسا عجیب و غریب شغل ہے کہ پرانے لوگوں نے کبھی سنا نہیں ہو گا کہ ہر چیز کے ساتھ اس کی ایک جیسی میچنگ ہونی چاہئے، پورا ایک سیٹ ہوتا ہے۔ اسی طرح نقش و نگار کی اپنی میچنگ ہوتی ہے۔ الغرض ہر چیز کے اندر دل گھسا ہوا ہے۔
خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ پہلے پنساری تھے، دوائیاں بیچتے تھے، جن کو آج کل کے دور میں ہم کیمسٹ کہتے ہیں۔ ایک مجذوب تھے، مجذوب گائیڈڈ میزائل کی طرح ہوتے ہیں، جن کے لئے بھیجے گئے ہوتے ہیں وہاں پہنچ جاتے ہیں، خود ان میں اتنی سمجھ نہیں ہوتی، لیکن اللہ جل شانہ ان سے کام لینا چاہتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں۔ وہ مجذوب ان کی دکان پہ آئے، کبھی حضرت کو گھور رہے ہیں، کبھی دوائیوں کی شیشیوں کو گھور رہے ہیں، اسی طرح بار بار مسلسل کر رہے ہیں۔ جس کی طرف اس طرح گھورا جاتا ہے اسے تکلیف ہوتی ہے۔ انہوں نے اس سے کہا: مجھے کیوں گھور رہے ہو؟ اس نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کا دل کتنی شیشیوں کے اندر پھنسا ہوا ہے، یہ نکلے گا کیسے؟ مجذوب بعض دفعہ بڑی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں۔ حضرت باعزت اور باوقار بزرگ تھے، انہوں نے اس سے کہا کہ بھائی تجھے میری کیا پڑی ہے؟ یہ بتاؤ تیری روح کیسے نکلے گی؟ اس نے کہا اچھا میری روح کیسے نکلے گی؟ ان کے سامنے سنت طریقہ کے مطابق زمین پہ لیٹ گئے اور اپنے رخسار کے نیچے ہاتھ رکھ لیا اور مر گئے۔ خواجہ صاحب نے جب یہ دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے، ایک آدمی اتنا آسانی سے مرتا ہے تو آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ یہ کیا بات ہو گئی، ہوا کیا ہے؟ بس حضرت نے اپنی دکان کو تالا لگا دیا اور ایک طرف نکل گئے، بعد میں اللہ پاک نے ان کو بہت بڑا عارف بنا دیا۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رومی عشق کے ایک کوچہ میں گزرا ہے، جب کہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ اس کے شہر میں گزرے ہیں۔ گویا یہ بہت بڑے بزرگ تھے لیکن ان کے لئے اللہ پاک نے یہ انتظام کیا تھا کہ ایک مجذوب کو بھیجا تھا۔ جیسے ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے لئے انتظام کیا تھا، ابراہیم بن ادہم اپنے محل میں پلنگ پر سوئے ہوئے ہیں، چھت کے اوپر سے کچ کچ کی آواز آئی، حیران ہو گئے کہ یہ کیا بات ہے۔ باہر گئے، دیکھا تو ایک آدمی چھت کے اوپر پھر رہا ہے۔ بادشاہ کے محل کی چھت پر بغیر اجازت کے جانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: تُو کیا کر رہا ہے چھت کے اوپر؟ اس نے کہا: بادشاہ سلامت میرا اونٹ گم ہو گیا ہے میں اس کو تلاش کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا تیری عقل ٹھکانے ہے؟ اونٹ کو کبھی چھت پر تلاش کیا جا سکتا ہے؟ یہ تو کیا کہہ رہا ہے؟ انہوں نے کہا: بادشاہ سلامت آپ نے ٹھیک بات کی ہے کہ اونٹ کو چھت پہ تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کیا پلنگ کے اوپر لیٹے لیٹے اللہ کو پایا جا سکتا ہے؟ یہ بالکل وہی بات تھی جو اس مجذوب نے خواجہ صاحب کے ساتھ کی تھی۔ یہ بات ان کے دل پہ لگ گئی کہ اوہو! یہ تو واقعی صحیح بات ہے۔ حضرت نے پھر بادشاہت چھوڑ دی تھی۔ گویا لذات کی محبت انسان کو اللہ تعالیٰ سے غافل کر دیتی ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے مقناطیس ہیں جو دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ اور اللہ جل شانہ بھی چاہتا ہے کہ میرا بندہ میری طرف دیکھے۔ لہذا اگر ان چیزوں کی طرف دیکھے گا اور ان کے اندر منہمک رہے گا تو اللہ پاک کی طرف کب متوجہ ہو گا۔ اگر ذرا غور سے دیکھیں تو آج کل ہمارا یہ معاملہ بڑا گھمبیر ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے اور ہمیں ان بلاؤں سے بچائے۔ یہ جو موبائل کی بلا ہے، آپ نے دیکھا ہو گا کہ جس کو ذرا بھر بھی کوئی ٹائم ملتا ہے وہ موبائل ہاتھ میں لے کے اس کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے، کبھی میسیجنگ کرتا ہے، کبھی گیم کھیلتا ہے، کبھی کسی کو فون کرتا ہے۔ الغرض کوئی وقت اس کا فارغ نہیں گزرتا۔ پہلے اگر کسی کو تھوڑا بہت ذکر کا وقت مل سکتا تھا اب تقریباً یہ ساری چیزیں ختم ہو گئیں۔ لیکن اگر کوئی کہے کہ موبائل جائز ہے یا نا جائز؟ اس کو آپ کیا کہیں گے؟ آپ کہیں گے جائز ہے۔ اس میں نا جائز کون سی بات ہے؟ لیکن اس کے جو اثرات ہیں وہ کتنے خطرناک ہیں؟ جو چیز انسان کو اللہ پاک سے کاٹ دے وہ کیسی ہو گی؟ غافل کرنے والی چیز ہو گی۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے دیکھا ایک شخص فاختہ کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ آپ ﷺ فرمایا: ’’یہ اپنے شیطان کے پیچھے جا رہا ہے۔‘‘ فاختہ شیطان نہیں تھا لیکن اس کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ اس کو اللہ سے غافل کر رہا تھا اور اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ لہذا اس میں وہ تمام چیزیں آ جاتی ہیں جو اللہ پاک سے غافل کرنے والی ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ بالکل نا جائز ہے۔ یہ چیزیں مباح ہیں اور جس مباح کے اندر انہماک ہوتا ہے اس کی ڈانڈے مکروہ کے ساتھ ملے ہوتے ہیں یعنی اگر احتیاط نہ کی جائے تو وہ مکروہ میں بدل جاتا ہے۔ اس وجہ سے لذیذ کھانوں کی طلب اگر اتنی بڑھ جائے کہ اس میں انسان منہمک رہے، کبھی کس جگہ بریانی کھانے کے لئے جا رہا ہے، کبھی کسی جگہ برگر کھانے کے لئے جا رہا ہے، کبھی کسی جگہ آئس کریم کھانے کے لئے جا رہا ہے، کبھی ایک جگہ دعوت ہو رہی ہے تو کبھی دوسری جگہ دعوت ہو رہی ہے۔ الغرض ان چیزوں میں انسان لگا ہوتا ہے۔
ایک کرنل صاحب نے میری دعوت کی، بڑی منت سماجت کی، میں اوقات کار کے لحاظ مجبور تھا۔ اس نے جب اصرار کیا تو میں نے کہا چلو عصر کے وقت چائے آپ کے ساتھ پی لیں گے۔ عصر کے بعد جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے بڑی پر تکلف دعوت کا بندوبست کیا تھا، جس کو چائے کہنا شاید مشکل ہو، پتا نہیں وہ کھانا تھا یا چائے تھی یا کچھ اور تھا۔ ساری کچھ عجیب چیزیں تھیں، میں نے کہا کرنل صاحب! آپ نے تو بہت زیادہ بندوبست کیا ہے لیکن اگر آپ ہمارے گھر آئیں گے تو ہمارے پاس اتنا کچھ نہیں ہوتا، ہمارے ہاں تو سادگی ہی سادگی ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں بھی آپ کی ایسی دعوت کروں تو یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ ہمارے ہاں اس طرح کی چیزیں نہیں ہیں۔ وہ بڑے فرینک آدمی تھے، انہوں نے پہلے تو اپنے آپ کو دو تین باتیں سنائیں۔ پھر کہتے ہیں کہ میں ایسے ایسے لوگوں کے لئے دعوتیں کرتا ہوں، آپ کے لئے کیوں نہیں کروں گا؟ میں تو کروں گا، آپ میرے لئے نہ کریں۔ وہ محبت کی وجہ سے کہہ رہے تھے کہ میں آپ کے لئے کیوں نہیں کروں گا کیونکہ میں ہر وقت ہی کرتا رہتا ہوں۔ کیونکہ آرمی لائف تقریباً تقریباً ان چیزوں سے پُر ہوتی ہے۔
یہ جو ہمارے رواج ہیں، ہمارے جو طریقہ کار ہیں، ہماری معاشرتی رسوم ہیں، کافی حد تک بگڑے ہوئے ہیں، جس کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً اب کوئی اگر دینی کام بھی ہوتے ہیں تو ان میں بھی کھانے پینے کا بڑا پُر تکلف بندوبست ہوتا ہے، جس کو بڑا خوبصورت نام دیا ہوا ہے ’’لنگر شریف‘‘۔ ختم قرآن ہوتا ہے تو لنگر ضرور ہوتا ہے۔ درود شریف کی مجلس ہوتی ہے تو لنگر ضرور ہوتا ہے۔ کوئی بھی تقریب ہو لنگر کے بغیر نہیں ہوتی۔ بلکہ باقاعدہ اشتہار میں بھی لکھا جاتا ہے کہ لنگر شریف تقسیم ہو گا۔ یہ چیز اخلاص کی دشمن ہے، اخلاص کا تو کباڑہ ہو گیا، جس کے دل میں یہ ہو کہ میں نے لنگر کھانا ہے اور جا رہا ہے قرآن پاک کے ختم میں، اس میں اخلاص کہاں ہو گا؟ اس کا سارا معاملہ تو اس کی نذر ہو گیا اور تقریباً ہوتا بھی یہی ہے کہ جو لوگ لنگر نہیں کرتے وہاں لوگ نہیں جاتے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ بالکل آخری وقت میں جائیں گے تاکہ غلطی سے بھی کچھ پڑھنا نہ پڑے اور لنگر میں شامل ضرور ہو جائیں۔ یہ سب ہماری غلط رسومات کی وجہ سے ہے کہ ہم نے پیٹ کو اپنا مقصد بنایا ہوا ہے کہ اسی کے ارد گرد ہم نے گھومنا ہے۔ لہذا ان چیزوں کے اندر انہماک مناسب نہیں ہے، ہاں اگر اللہ پاک بغیر کسی اہتمام کے کبھی اچھا کھلائے تو سبحان اللہ! ٹھیک ہے، کھا کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا کھانا نا جائز ہے۔ لیکن اگر اس کے اثرات غلط آ جائیں تو پھر اس سے بچنا لازمی ہے۔ لیکن اس سے بچا کیسے جائے؟ یہ الگ مسئلہ ہے۔ ایک تو یہ طریقہ ہے کہ دعوتوں پہ جانا کم کر دیا جائے، کیونکہ عموماً بد پرہیزی دعوتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کھانے کے وقت سنت طریقہ اختیار کیا جائے، اس کے اندر بھی بچت ہو جاتی ہے۔ مثلاً بہترین طریقہ غلاموں کی طرح اکڑوں بیٹھ کے کھانا ہے، جو غلاموں کی طرح اکڑوں بیٹھ کے کھائے گا وہ زیادہ نہیں کھا سکے گا۔ اکڑوں بیٹھنے میں جو پیٹ کے ساتھ رانیں مل جاتی ہے تو وہ پیٹ کو دباتی ہیں جس کی وجہ سے آدمی کو جلدی پیٹ بھرنے کا احساس ہو جاتا ہے اور ایک توازن قائم ہو جاتا ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی کام دیتا ہے کہ آدمی ایک پیر کھڑا کر لے اور ایک پیر لِٹا لے۔ لیکن یہ جو آلتی پالتی مار کے کھانا ہے یہ بہت خطرناک ہے۔ اس سے تو آپ پیٹ کے ساری سمتیں کھول دیتے ہیں، اب اس کے اندر جتنا مرضی کھانا ڈال لو۔ اس لئے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی مجبوری ہو جیسے بعض لوگ اکڑوں بیٹھ نہیں سکتے یا کوئی دوسرے حالات ہو سکتے ہیں، ایسی صورت میں اگر بچنا ہے تو میرے خیال میں کھانا کھاتے وقت درمیان میں کسی بہانے سے تھوڑا سا اٹھ جائیں، اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا کھایا ہے۔ عموماً جتنا ہم بے تکلف ہو کر کھاتے ہیں، تقریباً اس کے آدھے میں گزارا ہو جاتا ہے، میرا تجربہ یہی ہے۔ لہذا اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی خود ارادے کے ساتھ آدھا کھا لے یعنی اگر دو روٹی کھا رہا ہے تو ایک کھا لے، تین کھا رہا ہے تو ڈیڑھ کھا لے۔ تقریباً دو ہفتہ گزارا کر لے، اس کا معمول خود ہی سیٹ ہو جائے گا پھر اسے ڈیڑھ روٹی پہ احساس ہو گا کہ بس کام ہو گیا ہے، اس سے زیادہ کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ابتدائی طور پر جو بے مہار کھانے والی عادت ہے وہ اس کو سمجھ نہیں آنے دیتی۔ ابتدا میں اگر اس طرح کر لے تو دو ہفتے میں ان شاء اللہ تقریباً عادت سیٹ ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ ہو گا کہ جو آپ نے آدھا کیا ہے اس سے بھی کم میں گزارا ہو جاتا ہے۔ مجھے ایک ڈاکٹر نے کہا کہ کیلوریز کے نقطۂ نظر سے بہت کم کھانے سے بھی ہمارا گزارا ہو جاتا ہے، ہم کئی گنا ضرب دے کر کھاتے ہیں۔ لہذا اگر ایسا کیا جائے تو میرے خیال میں انسان کو بہت جلدی احساس ہو جاتا ہے۔ اس لئے سادہ کھانا کھایا جائے اور ارادہ کر کے کم کھایا جائے، اس کا اپنے آپ کو عادی بنایا جائے، کچھ دنوں میں ایڈجسٹمنٹ ہو جائے گی۔ پھر اسی میں لطف بھی اللہ تعالیٰ ڈال دے گا اور اس سے پیٹ بھی بھر جایا کرے گا۔ انسان کو اللہ پاک نے بڑا ہی قابلِ ترمیم بنایا ہے ریلیکس کرتا ہے تو اتنا ریلیکس ہو جاتا ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ یہ بھی ایک ایلیمنٹ ہے اور اگر اپنے آپ کو سخت کرتا ہے تو سخت بھی ہو جاتا ہے۔ لہذا انسان تھوڑا کھانے کے حوالے سے اپنے طور پہ ایڈجسٹمنٹ کر سکتا ہے۔ ویسے صحت کا طبی طور پر عمومی اصول یہ ہے کہ جب تک بھوک نہ لگے نہ کھایا جائے اور جب بھوک لگ جائے تو کھائے اور تھوڑا سا بھوک باقی رکھ کر چھوڑ دے۔ میرا خیال ہے تھوڑی سی بھوک باقی رکھ کر کھانے کی میں نے جو بات کی تھی اس کو معلوم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب انسان کھڑا ہو جاتا ہے تو اس کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نے پورا کھایا ہے۔ لیکن انسان بیٹھے بیٹھے محسوس نہیں کرتا لہذا تھوڑی سی بھوک باقی رکھ کر کھانا چھوڑ کر دیکھ لیا جائے، ان شاء اللہ العزیز ایڈجسٹمنٹ ہو جائے گی۔
سوال نمبر 2:
حضرت کیا وضو کا نماز کے خشوع پر اثر پڑتا ہے؟
جواب:
کیا خیال ہے بغیر وضو نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ وضوء نماز کے لئے شرط ہے۔ لہذا اثر پڑتا ہے یا نہیں پڑتا وضو تو کرنا پڑے گا۔ وضوء تو نماز کے لئے ضروری ہے۔ البتہ بغیر نماز کے وضو کرنے کا انسان کی زندگی پہ اثر پڑتا ہے یا نہیں؟ یہ سوال ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ سوال قابل فہم ہے کہ کیا وضو کا انسان کی قلبی حالت پر عام حالت میں اثر پڑتا ہے یا نہیں پڑتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ پڑتا ہے۔ اگر کسی نے وضو کے ساتھ ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اور ’’الحمد للہ‘‘ بھی پڑھ لیا تو حدیث شریف کے مطابق اس کے اعضاء باطنی طور پہ دھل جاتے ہیں۔ اور اگر نہیں پڑھا تو ظاہری طور پہ دھل گئے، باطنی طور پر نہیں دھلے۔ لہذا جب انسان وضو کرے تو ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ساتھ کہہ دے، اس کے بعد ان شاء اللہ اس کے اعضاء باطنی طور پر دھل جائیں گے۔ آنکھیں باطنی طور پہ دھل جائیں گی۔ کان باطنی طور پہ دھل جائیں گے۔ زبان باطنی طور پہ دھل جائے گی۔ ہاتھ پاؤں باطنی طور پہ دھل جائیں گے۔ کیا خیال ہے اب یہ گناہ کے لئے استعمال ہوں گے؟ تو اس سے خیالات کی پاکیزگی حاصل ہو جائے گی اور اعمال کی توفیق ہو گی۔ اسی لئے کہتے ہیں: ’’اَلْوَضُوْءُ سَلَاحُ الْمُوْمِنِ‘‘ یعنی وضو شیطانوں کے خلاف مومن کا اسلحہ ہے۔ ایک دفعہ ایک عامل نے کسی کے جن نکالنے کے لئے کچھ عمل کرنا چاہا تو جن بڑا سخت تھا، اس نے اس شخص کی زبان پر کہا کہ ٹھیک ہو جاؤ ورنہ میں تمہیں ٹھیک کر دوں گا، مجھے پتا ہے کہ اب تمہارا وضو نہیں ہے، میں بھی تمہیں ٹھیک کرتا ہوں۔ اس کو فوراً یاد آ گیا کہ میرا وضو نہیں ہے۔ اس نے اس کے ساتھ سمجھوتہ کیا اور وضو کے لئے چلا گیا۔ یہ وضو ایسی چیز ہے۔ اس میں تو اس کو پتا چل گیا لیکن عام طور پر پتا نہیں چلتا، لیکن اس کا اثر ہوتا ہے۔ بہت ساری بلاؤں سے انسان بچا رہتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حفاظت کے نظام میں ہوتا ہے۔ اس وجہ سے با وضو رہنے کی عادت ڈالنی چاہئے اس سے بڑا فائدہ ہوتا ہے، انسان سو بھی رہا ہو تو وضو کر کے سوئے، اس کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک جگہ نیند بھی آ گئی تو وہ اللہ کی حفاظت میں ہو گا۔ بہر حال وضو کا عام حالت پہ بہت اثر پڑتا ہے۔ اور نماز میں تو پہلے سے وضو ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 3:
مسیحا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ہے جیسے مسیح عیسیٰ بن مریم۔ جبکہ دجال کو بھی مسیحا کہا گیا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
دجال جھوٹا مسیح ہے، اس کو Antichrist یعنی مسیح دجال کہتے ہیں۔ دجال کا مطلب ہے زیادہ سے زیادہ دجل کرنے والا۔ مسیح دجال کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسیح ظاہر کر رہا ہے لیکن ہے جھوٹا، دھوکہ باز، فراڈی۔ انگریزی میں اس کو Antichrist کہتے ہیں۔ یہ یہودیوں کی عیسائیوں کے ساتھ وہ گیم ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ میری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ کوئی اپنے پیغمبر کے مخالف کو ماننے والوں کے ساتھ کیسے تعلقات رکھ سکتا ہے بالخصوص جب وہ اس پیغمبر کو خدا کے درجے تک لے جاتے ہوں۔ کیا یہ بات کسی کی سمجھ میں آ سکتی ہے؟ مجھے تو یہ بات بہت زیادہ عجیب لگتی ہے۔ حالانکہ وہ خود بھی اس کو Antichrist کہتے ہیں۔ اللہ پاک سمجھ عطا فرمائے۔ بہرحال مسیح دجال جھوٹا مسیح ہے، فراڈی ہے، جو خود کو مسیح ظاہر کرتا ہے لیکن مسیح ہے نہیں، بلکہ دھوکہ دینے والا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے پاس جنت بھی ہو گی، دوزخ بھی ہو گی اور اس کی جنت اصل میں دوزخ ہو گی اور اس کی دوزخ اصل میں جنت ہو گی۔ یعنی جن کو وہ اپنے خیال میں دوزخ میں ڈالے گا وہ جنت چلے جائیں گے اور جن کو وہ جنت میں ڈالے گا وہ دوزخ میں چلے جائیں گے۔ چنانچہ دجال کے بارے میں آتا ہے کہ اس کے ساتھ الجھو نہیں، اس سے بھاگو۔ کیونکہ اس کے ساتھ کلائمکس یعنی سفلی قوتیں ہوں گی جو عام آدمی کے ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ لہذا اس کا یہی طریقہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو بچائے۔
سوال نمبر 4:
تصوف کی مختصر تعریف کیسے کریں؟
جواب:
سبحان اللہ! مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ اپنے اندر ایسی تبدیلی لائی جائے (جس کو طریقت کہتے) کہ اللہ جل شانہ کے احکامات پر عمل کرنا آسان ہو جائے اور جن چیزوں سے روکا ہے ان سے رکنا آسان ہو جائے۔ یہ تصوف ہے۔ انسان کے لئے دنیا کی محبت جال ہے جس کی وجہ سے انسان اعمال نہیں کر سکتا۔ مثلاً آرام دنیا ہے، پیسے کی محبت دنیا ہے۔ مثلاً ایک دکان دار کے پاس گاہک آ گیا اور عین اس وقت آ گیا کہ عین اس وقت نماز کے لئے جانا تھا اور ہے وہ نمازی، اب اگر اس وقت اس کو پیسے کی محبت ہو گی تو کہے گا چلو بعد میں نماز کے لئے چلا جاؤں گا، پہلے اس کو سودا دے لوں۔ اس کے لئے کون سی چیز بیڑی بن گئی؟ مال کی محبت۔ اس طرح لذت والا کھانا تیار ہے، لیکن جماعت کی نماز بھی تیار ہے، اب اس وقت اس کے لئے نماز چھوڑ دیتا ہے۔ یا سیر پہ گیا ہے تو سیر کے لئے نماز چھوڑ دی۔ یعنی اپنی معمولی معمولی چیزوں کے لئے بہت بڑی چیزوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ تصوف میں ان چیزوں پہ کنٹرول پایا جاتا ہے۔ یعنی دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کیا جاتا ہے۔ جس سے عمل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ لہذا مختصر ترین تعریف یہ ہے کہ دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر اللہ کی محبت کو پیدا کر کے اعمال صالحہ کا آسان کرنا اور اعمال سئیہ سے اپنے آپ کو بچانا۔
سوال نمبر 5:
اگر وضو غفلت سے کیا جائے اور اس میں ذکر کا خیال نہ رکھا جائے تو کیا فائدہ ہو گا؟
جواب:
یہ میں نے بتا دیا ہے کہ جب وہ ’’بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ پڑھے گا تو وضو سے اعضاء جسمانی تو دھل ہی گئے، لیکن روحانی اعضاء بھی دھل جائیں گے۔ اس میں نماز بھی اچھی ہو جائے گی۔
سوال نمبر 6:
کوئی ایسی صورتِ حال پیش آ جائے جس میں غصہ آ سکتا ہے یا نا صبری ہو سکتی ہے، اس کی وجہ سے دل میں کچھ کدورت آ جائے۔ یہ کس حد تک قابل معافی اور کس حد تک قابل مؤاخذہ ہے؟
جواب:
غصہ آنا برا نہیں ہے یہ ایک فطری چیز ہے، لیکن اگر غصہ غلط ہو تو اس پہ قابو پانا ضروری ہے۔ مثلاً بچے پہ غصہ آ گیا، اب بچہ نا سمجھ ہے، اگر آپ اس کو تربیتاً مارنا چاہتے ہیں تو ضروری حد تک مارو۔ اور اگر آپ اپنے غصہ سے بے قابو ہو کر مار رہے ہیں تو عین ممکن ہے جتنا اس کو مارنا چاہئے اس سے زیادہ ہو جائے اور اس کو نقصان ہو جائے۔ اس سے تربیت تو کیا ہو گی وہ اور خراب ہو جائے۔ لہذا اس پہ قابو پانا ضروری ہے۔ تصوف میں یہی چیز سیکھائی جاتی ہے کہ غصے کو قابو کیسے کرنا ہوتا ہے۔ غصہ نہ آنا مقصود نہیں ہے، وہ ایک فطری چیز ہے۔ کیونکہ جو چیز غلط ہے وہ غلط ہے اس پہ تو غصہ آئے گا، لیکن کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے، کتنا کرنا چاہئے، کیسے کرنا چاہئے۔ یہ کنٹرول کرنے کی بات ہے۔ جیسے گاڑی کا انجن چلے گا تو گاڑی بھی چلے گی، لیکن اس پہ کنٹرول نہیں ہو گا تو نقصان ہو جائے گا۔ اس لئے کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جتنی بھی سرگرمیاں ہیں ان کو کنٹرول کرنا ضروری ہوتا ہے، چاہے وہ غصہ ہے، چاہے وہ محبت ہے، چاہے وہ نفرت ہے، چاہے وہ صبر ہے، چاہے شکر ہے۔ یہ ساری کنٹرول کرنے کی چیزیں ہیں۔ صبر کرنا بھی کنٹرول ہے اور شکر کرنا بھی کنٹرول ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اللہ جل شانہ شکر کے ذریعے سے بھی دیتے ہیں، صبر کے ذریعے سے بھی دیتے ہیں۔ ’’اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ‘‘، ’’وَ اللہُ یُحِبُّ الشَّاکِرِیْنَ‘‘ لہذا اللہ تعالیٰ دونوں ذریعوں سے دیتے ہیں۔ لیکن شیطان ہمارے اوپر سوار ہو جاتا ہے، جن کو شکر کرنا ہوتا ہے ان کو شکر نہیں کرنے دیتا۔ مثلاً مال دار لوگ، راحت والے لوگ، جن کو اللہ پاک نے نوازا ہے، ان کو شکر نہیں کرنے دیتا۔ ان کے ذہن میں شکر کا تصور آ ہی نہیں سکتا۔ آپ بتائیں گے تو آپ پر غصہ ہو جائیں گے۔ اسی طرح غریب اور مصیبت زدہ لوگوں کو صبر کے ذریعے سے اللہ پاک نجات دیتے ہیں، تو ان کو صبر نہیں کرنے دیتا۔ لیکن جن کی تربیت ہو چکی ہوتی ہے، جو اللہ والے ہوتے ہیں وہ صبر کے وقت صبر کرتے ہیں اور شکر کے وقت شکر کرتے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام نے صبر کے وقت صبر کیا اور پھر جب اللہ پاک نے نوازا تو اس وقت شکر کیا۔ سلیمان علیہ السلام شکر کرتے رہے اور ایوب علیہ السلام صبر کرتے رہے۔ دونوں پیغمبر تھے۔ اس طرح صحابہ کرام میں بھی بہت زیادہ شان دار زندگی گزارنے والے بھی تھے اور بہت زیادہ مشکل زندگی گزارنے والے بھی تھے۔ کسی نے صبر کے ذریعے سے لیا ہے کسی نے شکر کے ذریعے سے لے لیا۔ چنانچہ اگر انسان کی تربیت ہو جائے ’جس کو ہم تصوف کہتے ہیں‘ تو اس کے ذریعے سے انسان سے جس حال میں جو مطلوب ہے وہ کر لے گا۔ اس میں غصہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی وقت غصہ مطلوب ہو تو غصہ کر لے گا بشرطیکہ اس پہ قابو ہو۔ موٹی سی بات یہ ہے کہ چونکہ غصہ ایک فوری چیز ہوتی ہے اور اس میں بعض دفعہ عمل کرنے کے بعد سوچ آتی ہے لہذا اس حوالے سے بزرگ فرماتے ہیں کہ اس کے peak سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ اگر چھوٹے پہ غصہ ہے تو اس کو اپنے سے دور ہٹا دو، باہر نکال دو یا اس طرح کا کوئی طریقہ اختیار کرو۔ اور اگر بڑے پر غصہ ہے تو خود نکل جاؤ۔ اسی طرح اگر کھڑے ہوں تو بیٹھ جاؤ، بیٹھے ہو تو لیٹ جاؤ، پانی پی لو، اپنی حالت تبدیل کر لو، اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کر لو۔ اس طریقے سے غصہ کی انتہا کو کم کیا جا سکتا ہے، ایک دفعہ انتہائی حالت گزر جائے تو پھر انسان میں ٹھہراؤ آ جاتا ہے۔
سوال نمبر 7:
حضرت تقدیر بھی ہے اور ہدایت بھی ہے، ہدایت پائی جاتی ہے یا دی جاتی ہے؟
جواب:
تقدیر عربی کا لفظ ہے جو قدر سے نکلا ہے، قدر کہتے ہیں اندازہ کرنے کو، تقدیر کا مطلب ہے کسی چیز کا اندازہ کرنا۔ جیسے آرمی والے جب فائر کرتے ہیں تو ایک دفعہ اس کی زیادہ سے زیادہ رینج کو معلوم کر لیتے ہیں کہ یہ اتنے فاصلہ پہ جا سکتا ہے، مثلاً زیادہ سے زیادہ پانچ کلو میٹر تک جا سکتا ہے اور کم سے کم تین کلو میٹر تک جا سکتا ہے، تو وہ چار کلو میٹر پہ فائر کر دیتے، اور وہ اکثر قریب قریب ہوتا ہے۔ ہم لوگوں کے انسانی اندازے ہیں، اللہ جل شانہ کا اندازہ عین مطابق ہوتا ہے کہ انسان کیا کرے گا وہی کرتا ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے صلاحیت بھی دی ہوتی ہے اور حکم بھی دیا ہوتا ہے۔ لہذا کسی کو بھی جو صلاحیت دی جاتی ہے وہ اسی کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاؕ﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ: ’’اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا۔‘‘
ایک دفعہ میں ایک انٹرویو میں گیا، مجھ سے پوچھا گیا سورۂ فاتحہ کیا ہے؟ میں نے کہا سورۂ فاتحہ دعا ہے۔ اس نے کہا جب اللہ پاک نے آپ کے لئے کوئی چیز لکھی دی ہے تو پھر اس کو مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے کہا اتنا آپ جانتے ہیں، اس سے زیادہ میں جانتا ہوں۔ حالانکہ انٹرویو میں یہ کہنا بڑا مشکل ہوتا ہے یہ ایک قسم کی گستاخی سمجھی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا: آپ کتنا زیادہ جانتے ہیں؟ میں نے کہا میں یہ زیادہ جانتا ہوں کہ اللہ پاک کبھی بھی کسی ایسی چیز کا حکم نہیں دیتے جو انسان کر نہ سکتا ہو یا جو مقصود نہ ہو، جس کا فائدہ نہ ہو۔ چونکہ دعا کا حکم دیا گیا ہے: ﴿اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ﴾ (المؤمن: 60)
ترجمہ: ’’مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔‘‘
لہذا دعا مانگنا بے فائدہ نہیں ہو گا، میں دعا کروں گا، آپ نہ کریں آپ کی اپنی مرضی ہے۔ اس نے پھر اور سوال نہیں کیا۔ بعد میں جب میں سلیکٹ ہو گیا تو جس صاحب نے یہ سوال کیا تھا اس نے مجھے کہا کہ آپ کے جواب سے ہمیں بڑی خوشی ہوئی تھی، آپ نے بڑا اچھا جواب دیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ ہمیں اللہ پاک کے حکم کو دیکھنا چاہئے کہ اس کا حکم کیا ہے۔ آگے ہوتا کیا ہے وہ ہماری حدود سے باہر ہے، اسے سوچنے پہ جائیں گے تو اپنے آپ کو الجھاؤ میں ڈالیں گے، کیونکہ اللہ پاک کبھی بھی بے موقع حکم نہیں دیتے، لہذا جو حکم دے دیا ہے اس کو ہم دیکھیں کہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے، اس پر عمل کریں گے تو ہم بچ جائیں گے۔ اگر موت کے بعد پتا چلے کہ اس کا جواب یہ تھا تو پھر کیا فائدہ؟ پھر تو ٹائم گزر گیا۔
ہدایت رہنمائی کو کہتے ہیں مثلاً آپ لاہور جا رہے ہیں، آپ نے کسی سے راستہ پوچھا، ایک آدمی نے آپ کو کہا اس طرف جاؤ، یہ بھی راستہ بتانا ہے۔ دوسرا آدمی کہتا ہے: آپ اس طرف جائیں گے تو آگے دو راستے آئیں گے وہاں سے دائیں طرف جانا ہے، اس کے بعد چوک آئے گا، چوک سے اس طرف جانا ہے، یوں وہ آپ کو پوری تفصیل بتا دیتا ہے۔ پہلے کی نسبت یہ زیادہ بہتر طریقہ ہے۔ اللہ جل شانہ پیغمبروں کے ذریعے سے اور کتابوں کے ذریعے سے تفصیل بتا دیتے ہیں۔ پھر اللہ پاک حالات سے بھی رہنمائی فرماتے ہیں۔ الغرض جو بھی صحیح جگہ پہ پہنچنا چاہتا ہے اور اس کا ارادہ بھی صحیح ہو تو اس کی پوری پوری رہنمائی ہوتی ہے اور اس کا ساتھ دیا جاتا ہے اور وہاں پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ یہ ہدایت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص چاہتا ہی نہیں، وہ بہانہ گر ہے کہ مجھے یہ چیز نہیں پتا، مجھے یہ نہیں بتایا گیا۔ تو ان کو بتایا جائے کہ اللہ جل شانہ نے اتنے زیادہ نمونے پیدا فرمائے ہیں، مثلاً کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام ہیں، ان میں آپ کو ہر نمونے کا صحابی مل جائے گا مال دار بھی، غریب بھی، بڑا بھی، چھوٹا بھی، کالا بھی، گورا بھی، دیہاتی بھی، شہری بھی، بیمار بھی، صحت مند بھی، طاقت ور بھی، کمزور بھی۔ الغرض ہر قسم کی variety آپ کو مل جائے گی اور وہ دین پہ چلے ہوں گے۔ لہذا جو بھی یہ کہے گا کہ اے اللہ! آپ نے اس کا بندوبست نہیں کیا تھا، تو اللہ پاک صحابہ کو سامنے کریں گے کہ دیکھو انہوں نے کیسے کیا؟ وہاں کوئی عذر نہیں قبول ہو گا۔ یہ ہدایت کے سامان ہیں، نمونہ موجود ہیں، موقع موجود ہے، طاقت دی ہوئی ہے، سب کچھ دستیاب ہے، بس ہمیں وہ کرنا چاہئے جو کہا گیا ہے اور اگر اس کے اندر کوئی مشکل ہے تو اس مشکل کو دور کرنے کے طریقے بھی ہیں، جیسے طریقت و تصوف۔ اس کو استعمال کریں یہی ہدایت ہے۔
سوال نمبر 8:
شاہ صاحب! یہ جو وسوسے ہوتے ہیں ان کی کوئی بنیادی وجہ بھی ہوتی ہے یا بس ہم انہیں نظر انداز کریں۔
جواب:
وسوسے دو قسم کے ہیں۔ ایک کو حدیثِ شیطان کہتے ہیں اور دوسرے کو حدیثِ نفس کہتے ہیں۔ انسان کے دل کے اندر دو چینلز ہیں، ایک میں اللہ کی طرف سے بات آتی ہے، دوسرے میں شیطان کی طرف سے بات آتی ہے۔ پہلے کو الہامِ رحمانی اور دوسر کو الہامِ شیطان کہتے ہیں۔ الہام شیطانی شیطانی وسوسہ کہلاتا ہے، اس میں یہ ہوتا ہے کہ آپ کے نفس کے اندر جو تقاضا ہوتا ہے، مثلاً آپ بہت بڑا مال دار بننا چاہتے ہیں شیطان اس کا اندازہ کر لیتا ہے، اس کے پاس اپنے میٹرز ہیں۔ اب وہ اس کے مطابق آپ میں وسوسہ ڈالے گا تاکہ آپ کو اللہ تعالیٰ سے برگشتہ کر سکے، مثلاً کہے گا رشوت لے لو، یہ آپ کا حق ہے، دیکھو لوگ تمہیں کتنا لوٹ رہے ہیں، آخر آپ سے بھی تو لوگ رشوت لے رہے ہیں، تم بھی لے لو گے تو کیا ہو گا برابری ہو جائے گی۔ بس وہ یہ تھپکی دے دے گا، یہی وسوسہ ہے۔ اس طرح سود کے بارے میں بھی وسوسہ ڈالے گا کہ یہ تو اثاثوں کا کرایہ ہے، ڈی ویلیو ایشن ہو رہی ہے، فلاں فلاں چکر ہے۔ یہ بھی وسوسہ ہے۔ اسی طرح اگر لذتوں کی طلب ہو تو کہیں گے کہ فلاں مارکیٹ میں جاؤ، وہاں لڑکیاں آئیں گی، یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا۔ یہ بھی وسوسہ ہے۔ یہ سب وساوس شیطان کی طرف سے آتے ہیں، لیکن شیطان کو یہ طاقت نہیں دی گئی کہ اپنا وسوسہ آپ کے اوپر نافذ کر دے، آپ سے زبردستی کوئی کام کرانے کی اس کو طاقت نہیں دی گئی ہے۔ لہذا اگر آپ اس وسوسہ کو چھوڑ دیں، اس کو ایک شور سمجھیں، جیسے ہم اکثر صبح کے وقت آئی ٹین میں واک کیا کرتے تھے تو بعض لوگوں نے گھروں میں بڑے موٹے موٹے کتے رکھے ہوتے تھے اور ان کو زنجیروں سے باندھا ہوتا تھا، ان کی آواز میں بڑی گرج ہوتی تھی، لیکن آدمی کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بندھے ہوئے ہیں، حملہ نہیں کر سکتے، ویسے ہی اپنی عادت کے مطابق بھونک رہے ہیں۔ جب کوئی ایسا کتا بھونکتا تو میں ساتھی سے کہتا کہ یہ وسوسہ ہے، کر کچھ نہیں سکتا لیکن ڈرا سکتا ہے، آدمی ڈر جاتا ہے کہ یہ تو مجھے کھا جائے گا، حالانکہ کر کچھ نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر انسان شیطان کی بات نہ مانے تو وسوسہ انسان کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا۔ لہذا اس کا علاج بھی یہی ہے کہ اس کی بات نہ مانیں اور اسے نظر انداز کریں۔ کچھ لوگ اس کے لئے وظیفہ کرتے ہیں۔ حالانکہ وظیفہ نہیں کرنا ہوتا، اس سے تو آپ اس کو دوبارہ یاد کر رہے ہیں۔ اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ آپ اس کی بات پہ عمل نہ کرو، خطرناک سے خطرناک وسوسہ بھی آپ کا کچھ نہیں کر سکتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے، اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے دلوں میں ایسے وسوسے پاتے ہیں، جن کو بیان کرنا ہم پر بہت گراں ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے اندر ایسے وسوسے پیدا ہوں اور ہم ان کو بیان کریں، آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟“ انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”یہ تو عین ایمان ہے۔‘‘
کیونکہ تمھارے وسوسے اگر اس حد تک پہنچ گئے، پھر بھی تم ایمان دار ہو، بچے ہوئے ہو، ان کی پروا نہیں کرتے ہو تو ما شاء اللہ۔ اگر کوئی تکلیف ہو رہی ہے تو وہ ایمان کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ جب کہ آپ اس کو برا سمجھ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک اگر کوئی کافر ہو جائے تو اس کو کوئی وسوسہ نہیں آتا۔ کیونکہ وہ اس کو غلط نہیں سمجھتا۔ لہذا وسوسوں کی پروا نہیں کرنی چاہئے، اگر اس پہ تکلیف ہو رہی ہے تو اس کی بھی پروا نہیں کرنی چاہئے، بس اپنے آپ کو کام میں لگائے رکھیں اور ان چیزوں کو بھول جائیں۔ اس کو صرف ایک شور سمجھیں۔
دوسری حدیث نفس ہے۔ حدیث نفس، نفس کی خواہشات کے اشارے ہیں۔ جیسے ایک آدمی بڑا بننا چاہتا ہے، تو وہ اس کے لئے سٹوریاں بنائے گا کہ میں یہ کر دیتا ہوں، یہ کر دیتا ہوں۔ سٹیج پہ تقریر کر رہا ہے لوگ واہ واہ کر رہے ہیں، میں نے بڑی شان دار کتاب لکھی ہے لوگوں نے بہت تعریف کی ہے۔ یہ سب حدیثِ نفس ہیں۔ ان چیزوں کی بھی پروا نہیں کرنی چاہئے، بلکہ عملی حالت میں رہنا چاہئے کہ جو جائز ہو اور ہو سکتا ہو وہ کرو اور جو نہیں ہو سکتا اسے چھوڑ دو۔ یہی اس کا حل ہے۔
سوال نمبر 9:
حضرت صاحب! توبہ صغیرہ اور کبیرہ سب گناہوں کی معافی ہے یا کفارہ؟
جواب:
اللہ جل شانہ نے توبہ کو ایک بہت بڑا دروازہ بنایا ہے، آپ تصور کریں کہ کوئی چیز ساری گند سے بھری ہو اور آپ اس کو صاف کرنا چاہیں مگر جیسے ہی آپ ارادہ کریں اور ساری خالی ہو جائے، آپ اس کو کیا سمجھیں گے؟ یہ بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ توبہ میں سارے کے سارے گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیتے ہیں، چاہے صغیرہ ہوں چاہے کبیرہ ہوں، بشرطیکہ سب سے توبہ کی ہو۔ توبہ کے لئے صرف بنیادی تین شرطیں ہیں اور صورت حال کے حساب سے ایک شرط اضافی ہے۔ بنیادی تین یہ ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ جس گناہ سے توبہ کر رہا ہے اس پہ ندامت کا احساس ہو۔ یہ توبہ کے لئے ضروری شرط ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان توبہ کرتا ہی نہیں ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اس گناہ سے رک جائے جس سے توبہ کر رہا ہے۔ تیسری شرط یہ ہے کہ آئندہ نہ کرنے کا عزم کر لے، عزم کرنا ضروری ہے چاہے ایک سیکنڈ کے بعد اس سے وہ گناہ پھر ہو جائے، لیکن اس وقت یہ عزم کرنا ضروری ہے کہ میں نے اب یہ نہیں کرنا۔ یہ تین بنیادی شرائط ہیں۔ اضافی شرط یہ ہے کہ جن چیزوں کی قضا ہو سکے مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ۔ ان کی قضا بھی کرنی پڑے گی اور توبہ بھی کرنی پڑے گی۔ اور اگر کسی کا حق ہے مثلاً کسی سے قرض لیا ہے اور دیا نہیں، توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ قرض واپس کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر قرض واپس نہیں کر سکتا، اس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس سے معاف کروائے، اگر وہ معاف نہیں کرتا تو وعدہ کر لے کہ جب میرے پاس پیسے آئیں گے میں آپ کو دے دوں گا۔ ان چیزیں سے مکمل توبہ ہو جاتی ہے۔ پھر اللہ یہ نہیں دیکھتا کہ کتنا بڑا گناہ تھا اور کتنے زیادہ گناہ تھے، اللہ تعالیٰ بڑے سے بڑے گناہ کو بھی توبہ سے معاف کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ گناہوں کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں اس کے متعلق آتا ہے کہ اگر کوئی دن میں ستر مرتبہ بھی توبہ توڑے اور پھر توبہ کرے، اللہ پھر بھی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر سمندر کی جھاگ کے برابر بھی کسی کے گناہ ہوں تو ان کو بھی اللہ تعالیٰ توبہ سے معاف کر دیتے ہیں۔ لہذا توبہ بہت بڑی نعمت ہے اور یہ صرف اور صرف موت کے آثار تک کار آمد ہے۔ اگر موت کے آثار شروع ہو جائیں تو اس وقت توبہ قبول نہیں ہوتی۔ لہذا انسان کو توبہ کرنے میں جلدی کرنی چاہئے اور اگر خدا نخواستہ پھر گناہ ہو جائے تو پھر توبہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔ توبہ کرنے والوں کے لئے جنت کا ایک مخصوص دروازہ ہو گا جس کے ذریعے سے وہ جنت میں جائیں گے۔
فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ پہلے ڈاکو تھے، لیکن جب توبہ کر لی تو اولیاء اللہ کے سردار بن گئے۔ اسی طرح یہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ پہلے شرابی تھے جب توبہ کر لی تو اولیاء اللہ کے سردار بن گئے۔ چنانچہ توبہ سے سارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ﴾ (الزمر: 53)
ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘
اللہ کی ’’جَمِیْعًا‘‘ سے کوئی چیز نہیں بچ سکتی۔ اللہ پاک سب کچھ معاف فرماتے ہیں۔
سوال نمبر 10:
حدیث نفس سے کیسے بچیں؟
جواب:
اس کا علاج بھی یہی ہے کہ اس کی پروا نہ کریں، انسان حیقیقت میں جن چیزوں کا سامنا کرتا ہے ان میں شریعت کے مطابق عمل کرے۔ کیونکہ حدیث نفس میں بلا وجہ کا ایک تخیل ہوتا ہے، انسان اپنے تخیل میں سارے نقشے بنا لیتا ہے، تخیلات میں اڑنا ہواؤں میں اڑنے کے برابر ہوتا ہے، حقیقی زندگی میں آئیں، جو چیز حقیقت میں موجود ہو اس کو عملی طور پر دیکھیں۔ جو کام شریعت کے مطابق ہوں اور انسان کر سکتا ہو وہ کرے، ان میں مسئلہ کوئی نہیں ہو گا۔ میں نے دیکھا ہے کہ جو کام ہو سکتا ہے اس پہ اگر آپ سارا دن سوچتے رہیں، آپ اتنا نہیں تھکیں گے۔ لیکن جو نہیں ہو سکتا اس کو سوچیں گے تو ایک گھنٹہ میں اتنے تھک جائیں گے شاید چوبیس گھنٹے میں انسان نہ تھکے۔ جو لوگ پاگل ہو جاتے ہیں ان میں سے بہت سارے لوگوں کے پاگل ہونے کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کو سوچتے ہیں اور ان کا دماغ تباہ ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 11:
ایک طرف مال کو صحیح خرچ کرنے، اس کی حفاظت کرنے اور اپنے کچھ پیسے محفوظ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف بہت سے صحابہ کرام کی بالخصوص حضرت عبد الرحمٰن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے آتا ہے کہ وہ بہت مال خرچ کرتے تھے۔ انسان کے لئے ان دونوں طریقوں میں سے کون سا بہتر ہے؟
جواب:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے واقعات تو سچے ہیں لیکن صحابہ کا جو مقام ہے وہ ہمارا مقام نہیں ہے۔ اگر آپ ان میں ہوتے تو یہی حکم ہوتا۔ ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ بھائی! ہم بزرگ نہیں ہیں، اگر بزرگ ہوتے تو بزرگوں میں پیدا کر دیئے جاتے، بس ہم اتنا ہم کریں کہ گناہ نہ کریں، یہ کافی ہے۔ گناہوں سے بچنا ضروری ہے، ہم لوگ ابھی گناہوں کی رینج میں ہیں، پہلے گناہوں کو چھوڑ کر زیرو پہ پہنچنا ضروری ہے، اس کے بعد پلس کی کوئی حد نہیں ہے۔ پہلے ہم گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں، یہ عملی چیز ہے۔ ورنہ علمی بات شروع ہو جائے گی اور انسان کچھ بھی نہیں کریں گے۔
اس وقت صوفیاء میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو آپ کو عملی طور پر اللہ جل شانہ کا فرماں بردار بندہ بنا دیں گے آپ کے حالات کے مطابق، یہ عملی صوفی ہیں۔ ایک علمی صوفیاء ہیں جو بڑے بڑے بزرگوں کے واقعات آپ کو بیان کریں گے، ایسے واقعات کہ جن پہ آپ بڑی واہ واہ کریں گے، لیکن عمل بالکل صفر ہو گا، عمل کو دیکھیں گے تو بالکل نہیں ہو گا۔ مجھے بتائیے ان کی قصہ کہانیوں کا کیا فائدہ ہے؟ وہ بیان کرو جس پہ عمل ہو سکتا ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کچھ لوگ آپ کو چھوٹی چھوٹی باتیں بتا کر آپ کو عمل پہ کھڑا کر دیں گے۔ کچھ لوگ آپ کو بڑے بڑے واقعات سنا کر عمل میں آپ کو صفر کر دیں گے، اور آپ کے ذہن میں یہ بات بیٹھی ہو گی کہ یہ تو بڑے لوگ ہیں، ہم ان جیسے کیسے ہو سکتے ہیں۔ بھئ آپ چھوٹے لوگوں کی باتیں آپ کر لو۔ اگر آپ بڑے لوگوں کی باتیں کر کے صرف باتوں پہ سب کچھ ختم کر لیتے ہیں تو اس کے مقابلے میں کیا یہ اچھا نہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں کر کے آپ کم از کم ان کو عمل میں لے آئیں؟ ہم وہ لوگ نہیں ہیں۔ لہذا جیسے ہم ہیں اس طریقے سے ہم کریں۔ شریعت نے آپ کو جس چیز سے نہیں روکا، وہ آپ کر سکتے ہیں۔ البتہ جیسے میں نے عرض کیا کہ جہاں گناہ کے ساتھ ڈانڈے مل سکتے ہیں، وہاں سے بچنا ہے۔ جیسے میں نے انہماک کا بتایا یا اس طرح کی دوسری چیزوں کا بتایا۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ کسی شیخ کے ہاتھ میں رہیں، پھر جیسے جیسے وہ بتاتے جائیں کرتے جائیں۔ شیخ آسان راستے پہ ڈال دیتا ہے اور جب آدمی خود اپنے طور پہ کرتا ہے تو ذہنی طور پر انسان اپنے آپ کو بہت مشکل راستے پہ ڈال لیتا ہے۔ جس کے دو راستے ہوتے ہیں یا وہ اتنا مجاہدہ کر لیتا ہے کہ اس میں گر جاتا ہے، کیونکہ کوئی شیخ ہوتا نہیں ہے اور اپنی ذمہ داری پہ سب کچھ کرتا ہے۔ یا پھر وہ یہ سوچتا ہے کہ میں اس پہ عمل کر نہیں سکتا، یوں وہ ریلیکس ہو جاتا ہے اور سب کچھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں۔ افراط تفریط دونوں بری چیزیں ہیں۔ شیخ آپ کے حالات کے مطابق ڈوز دے گا جس کو آپ اٹھا سکتے ہوں گے، اس وجہ سے فائدہ اسی میں ہے۔ لہذا شیخ کی تلاش میں پوری کوشش کرو کہ آپ صحیح شیخ تک پہنچ جائیں۔ جب ایک دفعہ پہنچ گئے تو پھر یہ نہ سوچو کہ مجھے جو اس نے کہا ہے میں اس سے زیادہ بھی کر سکتا تھا۔ تم اپنے احوال پیش کر دو پھر وہ جو تمہیں بتائے، بس وہ تمہارے لئے بہتر ہے۔
گھر بنانے کے بارے میں بڑی وعیدیں ہیں، میں جب گھر بنا رہا تھا تو بہت ڈر رہا تھا کہ کیسے بناؤں۔ حضرت کے سامنے میں نے بات رکھ دی، حضرت نے فرمایا: گھر ضرور بناؤ، آج کل اس کے بغیر گزارا مشکل ہے، بڑے مفاسد ہو جاتے ہیں، مسائل پیدا ہو جاتے ہیں، لہذا گھر بنا لو۔ پھر جب بھی مجھے وہ چیزیں دوبارہ یاد آتیں تو مجھے مولانا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات یاد آ جاتی کہ حضرت نے فرمایا بناؤ، میں اس لئے بنا رہا ہوں، یوں وہ ساری چیزیں بیٹھ جاتیں۔ پھر کبھی وہ علمی باتیں یاد آتیں تو پھر میں کہتا کہ مولانا صاحب نے فرمایا ہے۔ اس طرح میرے لئے بڑی سہولت کی بات ہو گئی۔ ورنہ جیسے میرا ذہن ہے میں تباہ ہو جاتا۔ چنانچہ یہ آسان راستہ ہے۔
سوال نمبر 12:
انگوٹھی میں پتھر لگانا کیسا ہے؟
جواب:
پتھر کی بات نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ پتھر کس نیت سے پہنا جا رہا ہے، اگر اس کے ساتھ کوئی تاثیر بھی وابستہ کی ہے تو دو قسم کی باتیں ہیں کہ وہ تاثیر physical ہے یا metaphysical ہے۔ metaphysical غلط ہے، physical صحیح ہے۔ کیونکہ اگر ڈاکٹر لوگ بتا دیں یا اس کی ریسرچ ہو چکی ہو کہ اس میں یہ خاصیت ہے، تو آپ اس کو ایک physical چیز مان لیں اور اس کو استعمال کر لیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر عامل لوگوں کی باتوں پر یقین رکھ کر استعمال کریں کہ اس سے پیسے بہت آ جائیں گے یا آپ بڑے طاقت ور ہو جائیں گے یا فلاں فلاں ہو جائے گا، یہ شرکیہ خیالات ہیں۔ ایسی چیزوں کے پیچھے نہیں جانا چاہئے۔ لہذا اگر کوئی اس نیت سے پہن رہا ہے تو غلط ہے۔ اور اگر کوئی ویسے خوبصورتی کے لئے پہن رہا ہے اور جن چیزوں سے اللہ پاک نے مَردوں کو روکا ہے وہ نہیں پہننا چاہئے۔ اور اگر ایسی چیز میں پتھر ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ نیت ٹھیک کرنی چاہئے۔
تقدیر کے بارے میں ایک متردد شخص کے اشکالات:
میں بے آسرا حالت اپنی بیان کروں
سوچ ماؤف ذہن گندا میں یہ عیاں کروں
میرا کاموں پہ کسی طرح جب نہیں اختیار
اپنے جرموں پہ پھر میں کیسے بن جاؤں سزا وار
سب کچھ ہونے میں جو ہو اس کے فیصلہ پہ مدار
مجھے کیوں میرے کئے پر سمجھا جائے گناہ گار
میں جو کرتا ہوں اگر لکھا مجھے ایسا ہے
پھر میرے بارے میں کیوں یہ کہے کہ کیسا ہے
گناہ میں نے کئے وہ جو لکھے تھے ایسے
غلط صحیح کو نہ دیکھتے ہی فیصلے ایسے
مجھے برا نہ کہتے میرے نصیب ہیں ایسے
اٹھے دعا کے لئے ہاتھ پر گرے ایسے
لکھا ہے پہلے سے تو پھر دعا میں کیسے کروں
میرے تو ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہوں یا مروں
میں ہر طرف سے خود کو قید و بند میں پاتا ہوں
میں زندہ تو ہوں پر مر مر کے جیے جاتا ہوں
جو اب چاہوں چپ اب میں رہا نہ جاتا ہوں
میں روز روز تحیر سے بڑھا جاتا ہوں
میں ہوں مایوس ہر طرف سے کدھر دل جائے
کاش کچھ میرے سوالوں کا جواب مل جائے
جواب:
اب استاد جواب دے رہے ہیں۔
میرے بھائی نہ ہو مایوس تجھے قریب کروں
تو بد نصیب نہیں تجھ کو خوش نصیب کروں
دیکھ کتے کو جب کاٹتا ہے سمجھ دار ہے وہ
پتھر مجبور پہ کبھی کرتا نہیں وار ہے وہ
جو پتھر پھینکیں انسان سمجھے با اختیار ہے وہ
اس لئے اس کو دوڑ کاٹنے پہ ہی تیار ہے وہ
جب یہ کتا ہم میں دیکھے جبر بھی اختیار بھی
تو انسان ہو کے کریں اس سے کبھی انکار بھی
صرف ایک پیر با آسانی اٹھا سکتے ہیں ہم
نہیں دوسرا برابر اس کے لا سکتے ہیں ہم
اختیار اتنا عمل میں جو دیکھا سکتے ہیں ہم
جتنا اختیار ہے اس پر ہی آ سکتے ہیں ہم
’’لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا‘‘ کو پڑھ اب قرآن میں
اور ’’اِلَّا وُسْعَهَاؕ‘‘ کو بھی سمجھ اس فرقان میں
ہم سے پوچھیں گے اتنا جتنا اختیار تھا ہمیں
اس لئے جتنا وقت ہے پاس اس کو ضائع نہ کریں
اپنا مال کیسے کمایا اس پہ حساب کریں
اور پھر خرچ کرتے کیسے ہیں یہ دیکھتے رہیں
اعضاءِ جسم استعمال ہم کیسے کرتے ہیں
علم حاصل کے مطابق کیا ہم چلتے ہیں
دیکھے وضو اگر مشکل ہوتا ہے تیمم کرنا
عذر ہو تم کو اگر بعد میں روزہ رکھنا
بے استطاعت فرض نہیں ہے حج کو تیرا چلنا
جو کر سکو بھی اگر پھر کیا تم کو ڈرنا
جو لکھے پر تو بے پروا اگر اعمال سے ہے
گھر میں پھر بیٹھ کے کیا فائدہ کام کے جنجال سے ہے
یعنی پھر رزق کے معاملے میں بھی یہی کرو ناں کہ جتنا لکھا ہے اسی پر قناعت کر کے گھر میں بیٹھ جاؤ۔
کیلکولیٹر اور کمپیوٹر بھی ہینگ ہو جاتے ہیں
کبھی سوال بڑے جب حد سے ان کی آتے ہیں
تقدیر کی بات اگر کوئی صاحب سمجھاتے ہیں
دماغ اپنے کہاں ان کو سمجھ پاتے ہیں
اس لئے اس کا جو اجمال ہے اس پر ہی یقین کرنا
اور تفصیل میں جانے سے دوست ڈرنا
تردد کا دور ہو جانا:
ما شاء اللہ آپ کی بات میں سچائی ہے
کچھ کچھ شاید میری بھی سمجھ میں آئی ہے
روشنی دل میں میں نے تھوڑی پائی ہے
آگے ہے تیرنا ممکن نہیں گہرائی ہے
میں نے شیطان کے وساوس کو دل میں پالا تھا
حال تو حال مستقبل بھی میرا کالا تھا
اپنے اختیار کو بہتر اب استعمال کروں
مستقبل کے لئے میں درست اپنا حال کروں
جو دل پہ شیطان کا جال وہ تار کر دوں
ہے بے ہودہ گفتگو میری کیا مجال کروں
میرے اللہ میری غلطی جو تھی معاف کرے
شیطانی وسوسوں سے میرے دل کو صاف کرے
خوشی کی کیفیت اور ایک سبق:
دل سے آمین کہوں آپ کی دعا پہ اب
اس کے کرم کے ہی محتاج ہیں ہم ہر وقت سب
دل اپنا پردہ محبت جو ہے اس کی ہم جب
خود بخود ہم کو ملے اس کی بدولت ادب
کہے شبیر کہ پھر جان بھی دینا ہو آسان
پھر سمجھ آئے سب حدیثیں فقہ اور قرآن
سبب اور مسبب الاسباب:
دنیا دارالعمل ہے اور اسباب کا گھر ہے
منشاء الہیٰ سے ان اسباب میں اثر ہے
اسباب بہرحال مؤثر نہیں خود سے
مسبب الاسباب پہ ضروری بھی نظر ہے
لہذا عمل کرو سبب کے مطابق اور دعا کرو مسبب الاسباب کے مطابق۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ