سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 115

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

اگر بازار میں گرے ہوئے پیسے مل جائیں، تو ان کا کیا کرنا چاہئے؟ ایک ہوتا ہے کہ کسی علاقہ سے ملیں، پھر تو بندہ اس علاقہ میں پتا کر لیتا ہے، لیکن بازار میں تو کوئی اسلام آباد کا ہو گا، تو کوئی پنڈی کا ہو گا۔ الغرض مختلف قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان پیسوں کا کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

یہ لقطہ ہے اور لقطہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو تقریباً چھ مہینے تک اپنے پاس رکھیں اور جتنی انسان کوشش کر سکتا ہے، اتنی کوشش کرے اور وہاں لوگوں سے پوچھے۔ قریب کی کسی دکان وغیرہ پہ کوئی اعلان لگا دے کہ اس طرح کچھ پیسے ملے ہیں، جس کے ہوں، وہ فلاں فون نمبر پر رابطہ کر لیں۔ اور نشانی بھی بتا دیں۔ اس طرح چھ مہینے تک انتظار کریں۔ اگر چھے مہینے میں کوئی مالک نہ مل سکے، تو مالک کی طرف سے خیرات کر دیں۔

سوال نمبر 2:

جذب کس طرح حاصل ہوتا ہے؟ مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثنوی کو سننے سے ہوتا ہے یا شیخ کی توجہ سے ہوتا ہے؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ ’’طریقۂ جذب‘‘ یہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں کشش ہوتی ہے۔ اور وہ کشش اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ اللّٰہ جل شانہ کسی وجہ سے بھی کسی کو کھینچ سکتے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ چونکہ دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی محبت تمام سعادتوں کی کنجی ہے، پس اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے جو طریقے ہوں گے، وہی جذب کے طریقے ہوں گے۔ اس میں شیخ کے ساتھ محبت بھی ہے، کیونکہ شیخ کے ساتھ جو محبت ہوتی ہے، وہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور آپ ﷺ کے ساتھ محبت اللّٰہ تعالیٰ کی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ ذکر اللّٰہ کی کثرت اور ساتھ ساتھ ایسے مضامین، جن سے اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کو انگیخت ہو اور محبت پیدا ہو جائے، جیسے: مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مثنوی ہے، اس طرح اور بھی اشعار ہیں، ان کے پڑھنے سے یا سننے سے بھی جذب پیدا ہو سکتا ہے۔ جیسے: پہلے دور میں سماع ہوا کرتا تھا، بشرطیکہ کے جائز سماع ہو، نا جائز سماع نہ ہو۔ نا جائز سماع وہ ہے کہ جس میں آلاتِ موسیقی ہوں۔ جائز سماع کے لئے حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللّٰہ علیہ نے چار شرائط بتائی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے کہ کلام عارفانہ ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ پڑھنے والا عارف ہو، کوئی ڈوم نہ ہو۔ تیسری شرط یہ ہے کہ سننے والے بھی عارفین ہوں اور سننے والوں میں کوئی عورت یا بچہ نہ ہو۔ چوتھی شرط یہ ہے کہ اس میں آلاتِ موسیقی نہ ہوں۔ جس کے بارے میں حضرت نے فرمایا ہے کہ: ’’چنگ و رباب درمیان نباشد‘‘ یعنی Musical instruments نہ ہوں۔ آج کل چونکہ سماع کے نام پر یہ چیزیں کی جاتی ہیں کہ بعض دفعہ کلام بیہودہ ہوتا ہے، شرکیہ اور غیر اخلاقی کلام ہوتا ہے اور پڑھنے والے بھی اکثر ڈوم ہوتے ہیں، سننے والے بھی عورتیں مرد اکٹھے ہوتے ہیں اور فساق و فجار ہوتے ہیں۔ ان کو ان چیزوں سے کوئی وابستگی نہیں ہوتی، ساتھ Musical instruments بھی ہوتے ہیں، تو ساری کی ساری شرائط غائب ہوتی ہیں، یہ فسق و فجور ہے۔ اس طرح سماع جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر ان شرائط کے دائرے میں سماع کیا جائے اور واقعی ایک اچھا کلام ہو، اچھی آواز کے ساتھ ہو، اچھے ماحول میں سنا جائے، تو وہ بھی جذب پیدا کرنے کا ایک راستہ ہے۔

سوال نمبر 3:

کیا ان شرائط کے ساتھ سماع ہمارے پاس دستیاب ہے؟

جواب:

کبھی کبھی ہم یہاں اس طرح کرتے ہیں، یہاں ہماری محفل ہوتی ہے، باقاعدگی کے ساتھ تو نہیں، بس کبھی کبھی ہوتا ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت! سنت پر والہانہ طور پر عمل کرنے سے کیا مراد ہے؟

جواب:

اس سے مراد ہے؛ محبت کے ساتھ عمل کرنا۔ یعنی انسان کو آپ ﷺ کے ساتھ ایسی محبت ہو کہ اس سنت پر عمل کرنے میں کسی رکاوٹ کی پروا نہ کرے اور بڑی محبت کے ساتھ اس کے اوپر عمل کرے۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے ایک صحابی نے کیا تھا کہ ان سے لقمہ گر گیا، اس لقمہ کو صاف کر کے سنت کے مطابق اس کو کھانا چاہتے تھے، کسی نے کہا کہ یہاں پر اس چیز کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ پہلے تو شاید وہ اس کو عام طریقے سے کھا لیتے، لیکن اب انہوں نے اس لقمہ کو لہرا کر منہ میں لا کر سب کے سامنے کھایا اور یہ فرمایا کہ ان بیوقوفوں کے لئے میں حضور ﷺ کی سنت کو نہیں چھوڑوں گا۔ یہ والہانہ انداز ہے۔ جرمنی میں ایک ترک تھا۔ اس کو عطر پیش کیا گیا، جیسے اس کو عطر پیش کیا گیا، تو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اور کہا کہ یہ تو حضور ﷺ کی سنت ہے، میں کیسے اس کو چھوڑ سکتا ہوں! پھر انہوں نے عطر لے لیا۔ یہی والہانہ پن ہے۔

سوال نمبر 5:

پچھلے بدھ کو خشوع و خضوع کے بارے میں بیان ہوا تھا، جس سے بہت تسلی ہوئی۔ اس بیان میں آپ نے ایک بات فرمائی تھی کہ نماز میں سادگی سے متوجہ ہونا چاہئے۔ اس بات کو میں اچھی طرح سے نہیں سمجھ سکا۔ اس کی دوبارہ وضاحت فرما دیں۔

کچھ عرصہ سے عبادات میں حلاوت نہیں ہے، لیکن میں اپنی پوری کوشش کرتا ہوں کہ نماز میں اول سے آخر تک توجہ رہے، اسی لئے اگر سفر میں نہ ہوں، تو کوشش کرتا ہوں کہ نماز سے پندرہ بیس منٹ پہلے وضو وغیرہ سے فارغ ہو جاؤں، تاکہ نماز میں خرید و فروخت کے خیالات سے بچ سکوں اور پوری توجہ سے نماز ادا ہو سکے۔ جیسا کہ کتابِ نماز کے رموز و اسرار میں اس عمل کو بہتر بتلایا گیا ہے کہ نماز کے لئے انتظار کرنے سے بھی نماز میں خشوع بڑھتا ہے۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک ملفوظ تھا کہ ’’بغیر انتظار کے پڑھی گئی نماز پُھس پُھسی اور بے جان ہوتی ہے‘‘۔

وساوس کی وجہ سے بہت پریشانی ہوتی ہے، اس وجہ سے میرے لئے ظہر کی چار رکعت سنتِ مؤکدہ کو پڑھنا سب سے زیادہ دشوار ہے اور سفر میں اس وجہ سے اکثر اوقات خوشی محسوس ہوتی ہے کہ سنتیں نہیں پڑھنی پڑھیں گی، اور بعض اوقات اشراق کا وقت ہوتا ہے اور فارغ بھی ہوتا ہوں، لیکن اس وجہ سے ترک کر دیتا ہوں کہ نماز تو نفل ہے، لیکن بری طرح پڑھنے سے اللّٰہ سے اور دوری ہو گی۔ لہذا فائدہ کے بجائے نقصان ہو گا، تو چھوڑ دیتا ہوں۔

جواب:

اچھا ہوا یہ سوال پوچھ لیا ہے۔ اس کے اندر ایک غلط فہمی ہے اور وہ یہ ہے کہ اختیاری اور غیر اختیاری کو گڑبڑ کیا گیا ہے۔ نماز کے اندر کچھ حصہ اختیاری ہے اور کچھ ایسا ہو سکتا ہے کہ جو غیر اختیاری ہو۔ مثلاً: نماز کے اندر کھڑے ہوتے وقت اختیاری طور پر ان طریقوں کو اختیار کرنا، جن سے خشوع حاصل ہوتا ہو۔ مثلاً: جیسے ابھی انہوں نے بتایا کہ نماز کے انتظار میں بیٹھنا۔ یا پھر یہ تصور کر لیں کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ سب سے اچھا تصور یہ ہے کہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ یا الفاظ کچے حافظ کی طرح سوچ سوچ کر پڑھیں۔ یہ خشوع کے اختیاری اسباب ہیں۔ یہ تو کرنے چاہئیں۔ باقی جو چیزیں غیر اختیاری ہیں، جیسے: انسان بالکل تمام چیزوں سے فارغ ہو جائے اور کوئی بھی خیال اس کے دل میں نہ آئے۔ یہ غیر اختیاری چیز ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے سڑک پہ رش کے اندر انسان جا رہا ہو، تو اس کے اختیار میں یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو رفع کرے۔ اگر وہ اپنی بات میں مخلص ہو گا، تو اپنی سوچ میں جا رہا ہو گا۔ ان لوگوں کے ساتھ اس کو کوئی لینا دینا نہیں ہو گا۔ بس وہ اپنے کام کے لئے جا رہا ہو گا۔ اگرچہ اس کے دائیں بائیں لوگ ہوں گے، لیکن وہ لوگوں سے اختیاری طور پر بے تعلق ہو گا۔ چنانچہ وہ کبھی بھی اختیاری طور پر ان چیزوں کے اندر مشغول نہیں ہو گا۔ لیکن یہ سوچنا کہ ساری سڑک میرے لئے فارغ ہو جائے، کوئی بھی نہ ہو، یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے۔ لہذا اللّٰہ پاک کی جانب سے اس کا مطالبہ بھی نہیں ہے۔ پس اختیاری طور پر اللّٰہ کے سامنے اس حالت میں کھڑا ہونا ہے کہ کوئی ایسا سبب اختیار نہ کرے، جس سے انسان کا خشوع ختم ہوتا ہو، اتنا کافی ہے۔ اس کو کہتے ہیں؛ سادگی کے ساتھ نماز پڑھنا۔ یعنی سادہ سوچ کے ساتھ نماز پڑھنا کہ اس میں غیر اختیاری چیزوں کی طرف خیال نہ ہو۔ صرف اختیاری چیزوں کی طرف خیال ہو یعنی جو انسان کر سکتا ہو۔ اور انسان جو کام نہیں کر سکتا، اس کا اللّٰہ تعالیٰ کی جانب سے مطالبہ بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر ہزار وسوسے بھی آ جائیں، لیکن اگر خود سے نہ لائیں، تو اس سے اس کو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اس کی کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ اور جب وہ پریشان ہونا چھوڑ دے گا، تو یہ وسوسے آنا بھی بند ہو جائیں گے۔ یہ اس کو پریشانی کی وجہ سے آ رہے ہیں، کیونکہ شیطان اس وقت وسوسے ڈالتا ہے، جب اس کو خیال ہوتا ہے کہ اس کو میں disturb کر سکتا ہوں۔ جن لوگوں نے کالج میں پڑھا ہے، ان کو اس کا اندازہ ہو گا کہ وہاں جو fooling کرتے ہیں، تنگ کرتے ہیں، تو وہ بھی انہیں کو تنگ کرتے ہیں، جو چھڑتے ہیں۔ لیکن جو لوگ چھڑتے نہیں، تو وہ ان کو تنگ بھی نہیں کرتے۔ اور جو لوگ چھڑتے رہتے ہیں، ان کی چھڑ کو لوگ پکڑ لیتے ہیں اور ان کو تنگ کرتے رہتے ہیں۔ ان کو اس میں مزہ آتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شیطان سے نہ چھڑے، تو شیطان اس کو نہیں چھیڑے گا، لہذا وہ آرام سے نماز پڑھے گا۔ لیکن اگر چھڑنا شروع کرے گا، تو پھر اس کو چھیڑا بھی جائے گا۔ لہذا انسان ان چیزوں کی طرف بالکل توجہ نہ دے اور جو چیزیں اس کے اختیار میں ہیں، بس ان کو قابو میں رکھے۔ اس کے بعد انسان کچھ نہ کرے۔ ابھی مسجد میں عصر کے بعد جو تعلیم ہوئی تھی، اس میں بھی حدیثِ نفس کے بارے میں فرمایا تھا کہ دو رکعت نماز ایسی پڑھ لے کہ جس میں کوئی حدیثِ نفس نہ ہو۔ حدیثِ نفس اختیاری چیز ہے یعنی دل میں باتیں نہ کرے۔ خود سے باتیں نہ کرے۔ اگر دل میں کوئی خیال آئے، تو اس کی پروا بھی نہ کرے۔ انسان جتنا کر سکتا ہے، وہ کر لے اور باقی چیزوں کو چھوڑ دے۔ اس طریقے سے جو نماز پڑھے گا، وہ خشوع و خضوع والی نماز ہو گی۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ اصل میں خشوع و خضوع سے خالی نماز، ہم اس نماز کو کہتے ہیں کہ جیسے اگر کسی کو نماز کے اندر خارش ہونے لگے اور وہ اس خارش کے پیچھے پڑ جائے، ہر وقت خارش کرنے لگے اور نماز کے اندر کبھی ادھر دیکھے اور کبھی ادھر دیکھے، کبھی اوپر دیکھے اور کبھی نیچے دیکھے، کبھی ایک ہاتھ کو حرکت دے اور کبھی دوسرے ہاتھ کو حرکت دے۔ یہ ساری چیزیں جس نماز میں ہوں گی، وہ غیر خشوع والی نماز ہو گی۔ وہ صحیح نماز نہیں ہو گی۔ اگر کوئی یہ کام نہیں کرتا، تو وہ خشوع والی نماز ہے۔ اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ بہر حال! جس صاحب نے یہ کہا ہے، مجھے اس کے ساتھ ہمدردی ہے۔ اللّٰہ کرے کہ اس کو یہ چیز بہت جلدی سمجھ آ جائے کہ وہ غیر اختیاری کے لئے اختیاری چیز کو چھوڑ رہا ہے۔ اشراق کی نماز کو چھوڑ رہا ہے، جو کہ اختیاری ہے۔ اور وساوس کے لئے چھوڑ رہا ہے، جو کہ غیر اختیاری ہیں۔ سنتِ مؤکدہ اس کے اوپر بوجھ ہے، جو کہ اختیاری چیز ہے اور غیر اختیاری چیز کے لئے چھوڑ رہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرما دے اور ان چیزوں سے اللّٰہ تعالیٰ ہمیں محفوظ فرمائے۔

سوال نمبر 6:

حضرت! ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں حدیث پاک ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ دو چیزوں میں نجات ہے اور دو چیزوں میں ہلاکت ہے۔ پہلی دو چیزیں تقویٰ اور حسنِ نیت ہے اور دوسری دو چیزیں خود پسندی اور مایوسی ہے۔ بعض اوقات انسان سے کوئی مشکل حالت برداشت نہیں ہوتی، جس کی وجہ سے اعمال میں سستی آ جاتی ہے اور اس سے وہ گناہ بھی ہو جاتا ہے، جس سے اس نے توبہ کر لی ہو۔ اس سے مایوسی کی حالت پیدا ہو جاتی ہے اور سوچتا ہے کہ اگر یہ حالت نہ آتی، تو یہ گناہ مجھ سے نہ ہوتا اور اعمال ضائع نہ ہوتے۔ اور آئندہ کے اعمال میں بھی جان نہیں رہتی۔ اس مایوسی سے کیسے بچا جا سکتا ہے کہ دوبارہ سے اعمال شروع ہو سکیں؟

جواب:

جیسے حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ دو چیزوں میں نجات ہے: تقویٰ اور حسنِ نیت۔ تقویٰ کہتے ہیں: اللّٰہ تعالیٰ سے ڈرنے کی حالت کو، کہ انسان کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کا ڈر ہو۔ اور حسنِ نیت سے مراد یہ ہے کہ انسان اچھی نیت سے کام کرے یعنی اللّٰہ کے لئے کرے۔ اور خود پسندی انسان کی اپنے اوپر نظر کا نام ہے کہ ہر چیز میں انسان کو خود اپنی ذات سامنے آتی ہے کہ میں ایسا ہوں اور میں ایسا ہوں۔ یہ نقصان دہ چیز ہے۔ اور مایوسی کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)

ترجمہ: ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے‘‘۔

یعنی اگر کوئی اللّٰہ تعالیٰ سے توبہ کر لے، تو اللّٰہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ پس اگر کسی سے کوئی گناہ ہو جائے، تو فوراً توبہ کرے۔ پھر مایوسی کیوں؟ خدانخواستہ پھر گناہ ہو جائے، تو پھر توبہ کر لے۔ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی سے دن میں ستر مرتبہ بھی گناہ ہو جائے اور پھر وہ توبہ کر لے، تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو معاف کر دیتا ہے۔ لہٰذا ایک بات تو یہ ہے کہ بار بار توبہ کرے، اللّٰہ تعالیٰ سے مایوس نہ ہو۔ اور اگر کبھی مایوسی کا اندیشہ ہو، تو انسان کو اور زیادہ اعمال کرنے چاہئیں تاکہ شیطان کو مایوس کرنے کا موقع نہ ملے۔ کیونکہ شیطان ہی مایوسی ڈالتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ سے مایوس کرنے والا شیطان ہی ہوتا ہے۔ لہذا انسان کو مایوسی کے خلاف کام کرنا چاہئے کہ مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ توبہ کرنی چاہئے اور نیک اعمال شروع کرنے چاہئیں۔ فرماتے ہیں: اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے، تو چاہئے کہ اس کی تلافی کے لئے کوئی نیک عمل کر لے۔ لیکن جب نیک عمل کرنے کا وقت آ جائے، تو اس وقت کے موجودہ عمل کو بھی چھوڑ دیا جائے، تو یہ بالکل الٹی سوچ ہے۔ بہر حال! ہمت کر کے کام کرنا چاہئے۔ بلا وجہ disturb نہیں ہونا چاہئے۔ جو لوگ اس قسم کی باتوں میں آ جاتے ہیں ان کے ساتھ تو شیطان فٹ بال کھیلتا ہے۔ لہذا اس کی بالکل پروا نہیں کرنی چاہئے۔ شیطان کو کچھ بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيْفًا﴾ (النساء: 76)

ترجمہ: ’’(یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں در حقیقت کمزور ہیں‘‘۔

یعنی شیطان کا مکر بہت ہی نکما قسم کا ہے۔ اگر انسان اس کی نہ مانے، تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ لہذا جب شیطان مایوس کرتا ہے، تو ہم کہیں کہ: ہم مایوس کیوں ہوں؟ اللّٰہ تعالیٰ بہت غفور و رحیم ہے، میں ابھی توبہ کر لیتا ہوں۔ جیسے کسی ظالم نے ایک عالم سے کہہ دیا کہ تو کافر ہے۔ اس عالم نے کہا: اچھا! چلو، میں ابھی کلمہ پڑھ لیتا ہوں: ’’اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پھر فرمایا: اب تو کافر نہیں ہوں۔ اب وہ اس کا منہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ کیا ہے! ظاہر ہے کہ وہ کیا کر سکتا تھا۔ لہٰذا انسان کو ایسی چیزوں سے disturb نہیں ہونا چاہئے۔ اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔

سوال نمبر 7:

ایمان کی حفاظت سے کیا مراد ہے یعنی ایمان کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے؟

جواب:

دھوپ سے بچنے سے کیا مراد ہے اور دھوپ سے کیسے بچا جاتا ہے؟ ظاہر ہے کہ دھوپ سے بچنے کا مطلب سائے میں آنا ہے۔ لہٰذا سائے میں آ جائیں۔ اسی طرح کفر سے بچا جائے، تو اس میں ایمان کی حفاظت ہے۔ کیوں کہ ایمان کی ضد کفر ہے۔ لہٰذا انسان کفریہ چیزوں سے بچے، اس کے لئے دعا بھی کرے، ایسے ماحولوں میں نہ جائیں، جہاں پر کفریہ باتیں ہو رہی ہوں۔ جیسے بعض لوگ آج کل کفریہ لطیفے سناتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی ان لطیفوں پر خوشگوار انداز میں ہنسا کہ جیسے اس کو اس سے مزہ آ رہا ہو، تو اس سے کافر ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ لہٰذا ایسی محفلوں سے بچیں، جن میں اس طرح کفریہ باتیں ہو رہی ہوں۔ ایسی کتابیں پڑھنے سے بھی بچیں، جن میں کفریہ قسم کی چیزیں ہوں۔ اور اس قسم کے بے احتیاط لوگوں سے میل جول نہ رکھیں۔ اپنے آپ کو صحبتِ صالحین تک پابند کر لیں اور ہر وقت موت کو سامنے رکھیں اور ہر وقت تجدیدِ ایمان کرتے رہا کریں اور اس پر شکر ادا کریں کہ اللّٰہ پاک نے مجھے ایمان دیا ہے۔ اس سے ایمان محفوظ رہے گا۔ کیونکہ کسی بھی نعمت پر شکر کرنے سے وہ نعمت بڑھتی ہے، کم از کم وہ چیز برقرار تو رہے گی۔ لہذا اگر اس پر عمل کریں گے، تو ان شاء اللّٰہ ایمان کی حفاظت ہو گی۔

سوال نمبر 8:

What is the treatment of بد زبانی? A person in the habit of abusing others, how can he treat it?

یعنی بد زبانی سے کیا مراد ہے اور کوئی شخص اس سے کیسے بچ سکتا ہے؟

جواب:

بد زبانی Means using language for bad things. Therefore, one should not use it because it is اختیاری. One can control it. If one does it with ones own intention then it is bad. Therefore, intention should be good and one should not use this good thing for bad things. This tongue is not for bad things, it is for telawat e Quran, it is for Zikr, it is for good talks. So, one should use this for good things not for bad things. It is اختیاری. It is not out of control. Therefore, if one wants to control he can control it. At least if he cannot control he cannot say good words with this tongue then he should stop his mouth (keep silent). He should not say anything. He should be under his control. And the other thing is that he should not live with such persons who are not following this precautionary measure to control their tongues from speaking bad things.

یعنی بد زبانی اختیاری عمل ہے، لہٰذا اختیاری طور پر اس سے بچا جائے۔ اگر اور کچھ نہیں کر سکتا، تو خاموش ہو جائے۔ اور ایسے لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چھوڑ دے، جو بد زبانی کرتے ہوں۔ اور جیسے کہتے ہیں: Think before you speak یعنی پہلے تولو پھر بولو۔ لہذا انسان کو احتیاط کرنی چاہئے۔ ایسی بات نہیں کرنی چاہئے، جس کے بعد پشیمانی ہو۔

سوال نمبر 9:

کیا شوہر بیوی کا جھوٹا کھا پی سکتا ہے؟ جیسے اس کا بچا ہوا کھانا وغیرہ۔

جواب:

میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ سوال کیسے آیا؟ یہ Bad culture چیز ہے۔ میں نہیں کہتا کہ خواہ مخواہ کھانا چاہئے۔ کیونکہ بعض لوگ عام جھوٹے سے بھی پرہیز کرتے ہیں، کیونکہ ان کی طبیعت نہیں مانتی۔ لہٰذا اگر طبعی طور پر ایسا ہے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ کسی کے اوپر زبردستی تو نہیں کر سکتے کہ وہ خواہ مخواہ اس کا جھوٹا کھائے۔ لیکن کسی رسم کی وجہ سے، کسی کلچر کی وجہ سے اس کو نہ کرنا برا ہے، کیونکہ اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ قرآن پاک کہتا ہے:

﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ﴾ (البقرہ: 187)

ترجمہ: ’’وہ تمہارے لئے لباس ہیں، اور تم ان کے لئے لباس ہو‘‘۔

لہٰذا یہ دوری نہیں ہونی چاہئے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ خواہ مخواہ ضروری نہیں ہے، لیکن اس وجہ سے نہیں چھوڑنا نہیں کہ ہمارے کلچر میں یہ چیز ہو رہی ہے۔

سوال نمبر 10:

جھوٹا کھانے پینے کے حوالے سے آتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے کا جھوٹا کھانا باعثِ شفا ہے، لیکن میڈیکلی طور پر کہتے ہیں کہ فلاں چیز سے احتیاط کریں، اس سے فلاں بیماری لگتی ہے۔ ان دونوں باتوں میں آپس تضاد ہے۔ لوگ زیادہ تر میڈیکلی باتوں کو زیادہ مانتے ہیں اور احادیث اور سنت کی چیزیں چھوڑ دیتے ہیں۔

جواب:

میری تو اس پر کوئی ریسرچ نہیں ہے، میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ریسرچ پیش کر دیتا ہوں۔ در اصل اس کو چُھوت کی بیماری کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث شریف سے یہ سمجھ آتا ہے کہ یہ بیماری از خود نہیں لگتی ہے، بلکہ اللّٰہ پاک کے حکم سے لگتی ہے۔ جس کو اللّٰہ پاک لگوانا چاہے، اسے لگوا دیتے ہیں اور جس کو نہ لگوانا چاہیں، اس کو نہیں لگواتے۔ ایک دفعہ آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ اونٹ کی بیماری دوسرے اونٹ کو کیسے لگ جاتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلے اونٹ کو وہ بیماری کیسے لگی؟ لہٰذا اصل میں تو بیماری متعدی نہیں ہوتی۔ لیکن اگر کسی کو بیماری لگنے کا یقین ہو، تو اس میں پھر دو باتیں ہیں: خود بیماری کے اندر یہ تاثیر ہے کہ وہ لگتی ہے یا اللّٰہ اس سے لگواتا ہے۔ اگر یہ عقیدہ ہو کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے لگواتا ہے، تو اسباب کے دائرے میں اگر کوئی بچنا چاہے تو بچ سکتا ہے، اس پہ کوئی بات نہیں آئے گی۔ لیکن اگر اس کا یہ عقیدہ ہو کہ بیماری خود بخود لگتی ہے، تو یہ غلط ہے۔ اس سے انسان کو پرہیز کرنا چاہئے۔ اگر یہ کسی کی طبیعت بن جائے کہ اس کو ایک کراہت سی ہوتی ہو، جس کی وجہ سے کسی کا جھوٹا نہیں پینا چاہتا تو پینا ضروری بھی نہیں ہے۔ لہٰذ خواہ مخواہ اس کو مجبور بھی نہیں کرنا چاہئے۔ لیکن بذاتِ خود بیماری کو متعدی نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اللّٰہ جل شانہ اگر لگوانا چاہے، تو لگوا دیتا ہے اور اگر نہ لگوانا چاہے، تو نہیں لگواتا۔ لہذا میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشانی میں نہیں ڈالتا۔ میں استعمال نہیں کرتا، لیکن عقیدہ میرا یہ نہیں ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس کی گنجائش ہے۔

سوال نمبر 11:

بعض اوقات کسی کے بارے میں ایسے ہی ذہن میں آ جاتا ہے کہ اس کی نظر لگتی ہے اور اس کے بارے میں اس طرح کی سوچ بن جاتی ہے۔ اس سے ذہن میں کچھ ایسی باتیں آ جاتی ہیں۔ آیا وہ بد گمانی بن جاتی ہے یا کچھ اور بن جاتا ہے؟

جواب:

نظر تو لگتی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْعَیْنُ حَقٌّ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 5408)

ترجمہ: ’’نظر لگنا حق ہے‘‘۔

لہٰذا نظر تو لگتی ہے، البتہ جن کی لگتی ہے، اگر ان کو پتا ہے تو وہ کیا کریں اور جن کو لگے، وہ کیا کریں؟ یہ ایک الگ بات ہے۔ آپ ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ نظر سے اونٹ ہانڈی میں چلا جاتا ہے اور انسان قبر میں جا سکتا ہے۔ لہذا اپنے بھائی کے ساتھ ظلم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر دوسرے کی کوئی چیز پسند آئے تو ما شاء اللّٰہ کہہ دے۔ باقی اس میں ٹونے بھی valid ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے بھی اس طرح ایک طریقہ اختیار کروایا تھا کہ جس آدمی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی نظر لگی ہے، اُسے وضو کرایا جائے اور اُس کے استعمال شدہ پانی کو کسی برتن میں جمع کر لیا جائے اور پھر جسے نظر لگی ہے، اُس پانی سے اُس کو غسل کرا یا جائے۔ اگر کوئی نظر اتارنا چاہے، تو اتروا بھی سکتا ہے، اس میں کوئی شرک وغیرہ نہیں ہے۔ نظر اتارنے کا نظام چونکہ حدیث شریف سے ثابت ہو گیا، لہٰذا اس کو اتارا بھی جا سکتا ہے۔ جہاں تک بد گمانی کی بات ہے، تو تجربہ سے اگر پتا چل جائے کہ اس آدمی کی نظر لگتی ہے تو اس سے انسان تھوڑا سا اپنے آپ کو بچائے۔ کسی چیز سے بچنا چاہیں، تو بچ سکتے ہیں اور ساتھ اس شخص کو بھی بہت خیال رکھنا چاہئے۔ بہت سارے لوگ اس میں بے احتیاطی کرتے ہیں، ما شاء اللّٰہ نہیں کہتے۔ ہم تو ’’سبحان اللّٰہ‘‘، ’’اللّٰہ کا شکر ہے‘‘ کہہ لیتے ہیں۔ شاید ہی میری کہیں نظر لگی ہو۔ جب بھی کوئی چیز سامنے آ جائے اور مجھے پسند ہو، تو میں ما شاء اللّٰہ کہتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نظر کسی کو لگ جائے تو خواہ مخواہ میں کیوں تکلیف کا باعث بنوں۔ ما شاء اللّٰہ کا ثواب بھی مل جائے گا اور خیر خواہی کا ثواب بھی مل جائے گا۔ اتنے ثواب سے انسان اپنے آپ کو کیوں محروم کرے۔

سوال نمبر 12:

حضرت! یہ سنت پر عمل کرنے کے حوالہ سے اب ایک صاحب بتا رہے تھے کہ کیوبا میں جماعت گئی تو لوگ دیکھ دیکھ کے مسلمان ہو رہے تھے۔ ایک صاحب نے اپنا عمامہ باندھا، تو ایک صاحب دیکھ کر مسلمان ہو گئے۔ عمامہ باندھنا مستحب عمل ہے۔ اس کو کس طریقے سے ہم سمجھیں گے۔

جواب:

اصل میں سنت پر عمل کرنا تو ہر وقت پسندیدہ ہے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (اٰل عمران: 31)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا‘‘۔

لہٰذا جس کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ محبت کرے، تو اس کو ہدایت کا ذریعہ بھی بنا سکتے ہیں۔ اس کے ذریعے سے اللّٰہ جل شانہ دوسرے لوگوں کا بھلا بھی کر سکتا ہے۔ لہٰذا سنت میں برکات تو بہت زیادہ ہیں۔ اس کے ذریعے سے خود اپنے آپ کو بھی فائدہ ہے اور دوسرے لوگوں کا بھی فائدہ ہے۔

سوال نمبر 13:

نفس کی بیماریوں میں ایک بیماری تکبر ہے، لیکن جس بندے میں تکبر ہو، اس کو اس کا پتا نہیں ہوتا۔ وہ کہتا ہے کہ میرے اندر تکبر نہیں ہے۔ اس بندے کو کس طرح پتا چلے گا کہ میرے اندر تکبر ہے۔

جواب:

تکبر چیز ہی ایسی ہے کہ جس میں تکبر ہوتا ہے، اس کو اس کا پتا نہیں چلتا اور جس میں تکبر نہیں ہوتا، وہ اپنے بارے میں گمان کرتا ہے کہ مجھ میں تکبر ہے۔ گویا اس میں انسان کو بالعکس احساس ہوتا ہے۔ مثلاً: دریا کے کنارے کسی درخت کے اوپر اگر کوئی چڑھ رہا ہو تو آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ پانی میں نیچے جا رہا ہے اور اگر کوئی اس درخت سے نیچے اتر رہا ہو، تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ پانی میں اوپر آ رہا ہے۔ اسی طرح جس میں تکبر ہوتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ مجھ میں یہ نہیں ہے اور جس میں نہیں ہوتا، وہ اپنے اندر بہت ساری برائیاں محسوس کرتا رہتا ہے۔ لیکن اس میں کئی طریقے ہیں، اس کا اصل طریقہ تو یہی ہے کہ انسان اپنی اصلاح کرنا شروع کر لے۔ کسی بزرگ سے بیعت ہو کر اس کے بتائے ہوئے طریقہ کار پہ عمل کرے۔ اچھے ماحولوں میں رہے، بالخصوص اچھے اور متواضع لوگوں کے ساتھ رہے۔ اس سے انسان کو اپنا پتا چل جاتا ہے کہ میں کدھر ہوں۔ نمونہ سامنے آ جاتا ہے۔ اور انسان کو پتا چل جاتا ہے کہ میں تو بہت زیادہ کمزور ہوں۔ اسی طرح شیخ کو اپنے احوال بتایا کرے۔ شیخ کے اوپر اللّٰہ پاک کھول دیتے ہیں کہ آیا اس میں تکبر ہے یا نہیں ہے۔ اس کے مطابق پھر اس کو اطلاع کر دیتے ہیں۔

سوال نمبر 14:

اللّٰہ اور رسول پاک ﷺ سے محبت کی جو بات کی جاتی ہے، اس دنیا میں ہم لوگ جو محبت کے بارے میں سوچتے ہیں کہ جیسے میری اولاد ہے، تو میں اس سے naturally پیار کرتا ہوں۔ It is not something which is odd for me. گویا ایک چیز وہ ہوتی ہے کہ جسے بندہ By force کر رہا ہوتا ہے اور ایک چیز وہ ہوتی ہے جو بندہ دل سے کر رہا ہوتا ہے۔ اس کے لئے ٹائم کی کوئی limitation نہیں ہوتی۔ اس میں یہ feel نہیں ہو رہا ہوتا کہ اس پر میری energy لگ رہی ہے۔ اس کے لئے آپ automatically تیار ہی ہوتے ہیں۔ ان دونوں چیزوں میں آپ کس طرح سے differentiate کرنا چاہیں گے؟

جواب:

ما شاء اللّٰہ! بہت اچھا سوال ہے۔ لگائے ہوئے پودوں کی نسبت خودرو پودے جلدی ترقی کرتے ہیں۔ لگائے ہوئے پودوں پہ محنت کرنی پڑتی ہے، جب کہ خودرو پودوں کو تلف کرنا پڑتا ہے تاکہ لگائے ہوئے پودے ترقی کریں۔ انسان کے اندر کچھ چیزیں built-in ہیں، جس میں ممتا بھی آتی ہے۔ بچوں کے ساتھ محبت، پیسے کے ساتھ محبت، عزت کے ساتھ محبت، یہ سب natural ہیں۔ اگر کسی میں یہ چیزیں نہیں ہیں، تو یہ unnatrual ہے۔ کسی میں ہیں تو وہ natural ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جو ایمانی ذریعے سے آتی ہیں۔ وہ خود موجود نہیں ہوتیں، بلکہ ایمان کے ذریعے اپنے اندر لانی پڑتی ہیں۔ ان میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بھی ہے اور رسول ﷺ کی محبت بھی ہے۔ یہ ایمان کی وجہ سے ہیں۔ اگر بچوں کے ساتھ محبت ہے، تو اگر وہ شریعت کے خلاف نہ ہو تو وہ غلط نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ محبت؛ ایمانی محبت کے مقابلہ میں آ جائے، تو پھر اس کو ختم کرنا پڑے گا۔ لہٰذا یہ چیزیں جیسے بچہ کے ساتھ محبت وغیرہ، اگر خود بخود ہو رہی ہوں، تو یہ نقصان دہ ہیں۔ لیکن اگر میں اس کو اللّٰہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر کروں، یعنی ایمانی محبت مجھے پہلے حاصل ہو جائے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ محبت مجھے حاصل ہو اور پھر اللّٰہ کا حکم یہ ہے کہ اپنی اولاد کا خیال رکھو، اس وجہ سے میں ان سے محبت رکھوں، تو یہ میرے لئے ثواب کا کام بن جائے گا اور مجھے اس پر اجر ملے گا۔ جو لوگ بغیر نیت کے کام کرتے ہیں، ان کو اس پر اجر نہیں ملتا۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

لہذا اگر کوئی اپنی اولاد کے ساتھ محبت کرتا ہے اللّٰہ کے لئے، کوئی بیوی کے ساتھ محبت کرتا ہے اللّٰہ کے لئے، کوئی پڑوسی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اللّٰہ کے لئے، کوئی اپنے بھائیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اللّٰہ کے لئے، تو ان سب چیزوں پر اس کو اجر ملتا ہے۔ لیکن اگر وہ natural انداز سے کرتا ہے، تو اس پہ گناہ تو کوئی نہیں ہے، لیکن اس کا ثواب بھی نہیں ملتا، کیوں اس کی وہ نیت نہیں ہے۔ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کوئی ذکر بھی کرے اور اس میں اللّٰہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی اور اللّٰہ کی محبت کو حاصل کرنے کی نیت نہ ہو، تو اس کو بھی وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو حاصل ہونے چاہئیں۔ ثواب تو ملے گا، لیکن اس کے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے، جن کے لئے کیا جاتا ہے۔ بہر حال! ایمانی محبت کو لگائے ہوئے پودے کی طرح فوقیت حاصل ہے۔ باقی چیزیں اس کے اوپر depended ہونی چاہئیں۔

سوال نمبر 15:

آپ نے فرمایا کہ ایمانی محبت میں کوشش کرنی ہوتی ہے۔ کوشش تو ایک understood چیز ہے۔ اگرچہ اس پر اجر بھی ملتا ہے، لیکن محبت تو کوئی forced چیز نہیں ہے۔ جیسے: اگر میں دنیا کے لحاظ سے مثال دوں، تو میں کہوں گا کہ اگر فلاں بندہ میرا بہت اچھا دوست ہے، تو اس کے ساتھ میں دل سے بالکل perfect ہوں۔ لیکن جب اللّٰہ تعالیٰ یا رسول ﷺ کی بات آتی ہے، تو اس میں مجھے کوشش کیوں کرنی پڑ رہی ہے؟

جواب:

محبت دو قسم کی ہے۔ ایک natural محبت ہے، جیسے کسی کے ساتھ خود بخود محبت ہو جاتی ہے ۔ دوسری وہ محبت ہے جو باقاعدہ ایمان کی وجہ سے کی جاتی ہے، جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے۔ اسے عقلی اور ایمانی محبت کہتے ہیں۔ لیکن وہ عقلی اور ایمانی محبت جب زیادہ دیر تک رہے، تو وہ طبعی محبت میں تبدیل ہو جاتی ہے، پھر وہ بھی اس طرح ہو جاتی ہے جیسے natural محبت ہوتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ تمام natural محبتوں سے بھی بڑھ کر ہو جاتی ہے، اس کو پھر عشق کہتے ہیں اور وہ عشق کے فارم میں آ جاتی ہے۔ اس محبت کو حاصل کرنے کے ذرائع ہیں۔ میرے پاس اس پر کچھ کلام ہے، وہ میں سنا دیتا ہوں۔ میرا بھی فائدہ ہو جائے گا اور آپ کا بھی ہو جائے گا، ان شاء اللّٰہ العزیز۔ یہ ضروری ہے۔ اس میں آپ کے طریقۂ جذب والے سوال کا جواب بھی ہو جائے گا۔

عقلِ نفسانی بمقابلہ عقلِ ایمانی


جو عقل نفس سے اثر لے، عقلِ نفسانی ہے

جو ایمان سے منور عقلِ ایمانی ہے

عقلِ نفسانی کی محدود نظر کیا سمجھے

عقلِ ایمانی پہ ہوتی اس کو حیرانی ہے

عقلِ ایمانی کا دل سے ہے تعلق اس لئے

چاہئے اس کو ہمیشہ قلب نورانی ہے

نفس کے جو بھی تقاضے ہوں، بے مہار ان کو

دبائیں ان کو ٹھیک ہو پھر اس میں آسانی ہے

اس طرح نفس کا پھر عقل پہ غلبہ نہ رہے

نہ رہے اس پہ نفس کی جو حکمرانی ہے

نفسِ مطمئن، عقل، قلب سلیم ہو اور فہم رساں

نصیب میں پھر ان کی زمین کی سلطانی ہے

عقبیٰ محفوظ ہو، رب راضی ہو اور جنت میں

شیبر! تقدیر میں پھر ان کی رب کی مہمانی ہے

یعنی عقلِ نفسانی، نفسانی چیزوں سے اثر لیتی ہے اور ایمانی عقل ایمانی چیزوں سے اثر لیتی ہے۔ جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ جو لوگ دنیا کے ساتھ محبت کرتے ہیں، ان کی ساری عقل دنیا کمانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ وہ بیچارے اسی میں دن رات لگے ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ کماتے کماتے مر جاتے ہیں اور اس سے ان کو فرصت نہیں ہوتی۔ دوسری طرف وہ لوگ جو ایمان سے عقل لیتے ہیں، جیسے: فقہاء کرام، ان کا سارا کام ایمانی چیزوں کے لئے ہوتا ہے۔ مثلاً: وہ جنت، دوزخ تمام چیزوں کا خیال رکھتے ہیں۔ جو چیز جنت کی طرف لے جانے والی ہو، اس پہ عمل کرتے ہیں اور جو چیزیں دوزخ کی طرف لے جانے والی ہیں، ان سے بچتے ہیں۔ چونکہ ایمان کا تعلق دل کے ساتھ ہے، لہذا عقلِ ایمانی کا تعلق بھی دل کے ساتھ ہوا۔ پس جو کوئی دل کی حفاظت اور اس کی اصلاح کرے گا، اس کو عقل ایمانی زیادہ حاصل ہو گی۔ لہٰذا بزرگوں کے ساتھ تعلق، اس کے ساتھ ساتھ ذکر اور نفس کو مجاہدہ سے دبانا؛ جب یہ ساری چیزیں حاصل ہوں گی، تو عقلِ ایمانی کا نور بڑھتا جائے گا اور وہ چیزیں غالب ہوتی جائیں گی جو پہلے غالب نہیں تھیں۔ آپ نے جو فرمایا کہ مجھے کوشش کرنی پڑتی ہے۔ یہ ابتدا کی بات ہے۔ جب وہ طبعی range میں آ جائے گی، تو پھر کوشش نہیں کرنی پڑتی، بلکہ سب کچھ اسی کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ پھر وہ طبعی کی طرح ہو جاتی ہے۔ بہر حال! ابتدا میں کوشش کرنی پڑتی ہے، انتہا میں ایسا نہیں ہوتا۔

سوال نمبر 16:

میں Arabic language کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے شروع میں خشوع و خضوع کی بات کی۔ میں پہلے نماز پڑھتا تھا، تو مجھے اس کی translation پتا نہیں ہوتی تھی کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں اور مجھے اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ جب میں نے اس کا translation کر کے comparison کیا اور translate کر کے پڑھتا تھا، تو مجھے وہ چیز feel بھی ہوتی تھی۔ اور اب ایسا لگتا ہے کہ میں واقعی اللّٰہ تعالیٰ سے یہ بات بول رہا ہوں۔

اسی حوالے سے قرآن کے بارے میں مجھے تھوڑی سی confusion ہے کہ قرآن کی Arabic language ہے، تو اگر میں صرف عربی پڑھوں تو مجھے کوئی فرق نہیں نظر آ رہا، چونکہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تو میں کبھی بھی اس چیز سے impact نہیں لے سکوں گا۔ اس کے بر عکس اگر میں اس کا صرف ترجمہ پڑھتا ہوں، جو کہ میں بار بار پڑھ بھی رہا ہوں، تو مجھے سمجھ بھی آ رہا ہے اور اس چیز کا مجھ پہ اثر بھی زیادہ ہے۔ اب ایک طرف عربی ہے جو کہ اللّٰہ کی language ہے اور دوسری طرف اس کا ترجمہ ہے، جو مجھے سمجھ بھی آ رہا ہے۔ ایسے کیوں ہے؟

جواب:

نہیں، کوئی confusion نہیں ہے۔ اصل میں قرآن کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک یہ کہ یہ محبوب کا کلام ہے اور ایک یہ کہ یہ احکم الحاکمین کا کلام ہے۔ محبوب کا کلام ہونے کے لحاظ سے جس کو کلام اللّٰہ کے ساتھ محبت (یعنی طبعی محبت) ہو جاتی ہے، تو اس کو کلام میں مزہ آتا ہے۔ اس کو ایک ایک لفظ attract کرے گا۔ وہ اس کو اللّٰہ کے ساتھ ملائے گا اور یہ Without logic ہو گا۔ اس میں logic نہیں ہو گی۔ logic تو understanding میں ہے اور understanding اس کو ہے نہیں۔ لہٰذا جس کو محبت حاصل ہو گی، تو صرف محبت کی وجہ سے ایک ایک لفظ اس کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ ملا رہا ہو گا۔

دوسری حیثیت یہ ہے کہ یہ احکم الحاکمین کا کلام ہے، لہذا کم از کم ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللّٰہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ جب معلوم ہونا ضروری ہے، تو اس کا ترجمہ جاننا چاہئے۔ ترجمہ اس لئے نہیں جاننا کہ اللّٰہ کا کلام عربی ہے، تو اس سے میں دوسری طرف جانا چاہتا ہوں، بلکہ اس لئے ہے کہ چونکہ مجھے عربی سمجھ نہیں آ رہی، لہٰذا اس کا ترجمہ صرف اس لئے کرتا ہوں تاکہ مجھے سمجھے آ جائے اور مجھے یہ معلوم ہو جائے جو کہ میری ضرورت ہے اور جو مجھ سے demand ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے، اس کو میں کرو۔ جب مجھے پتا ہو گا کہ اللّٰہ کیا چاہتا ہے، تو پھر ہی میں وہ کروں گا۔ جتنے بھی مدرسہ قائم ہیں، ان سب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللّٰہ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ لہٰذا اگر یہ جاننے کے لئے کوئی ترجمہ کرتا ہے یا کسی سے سیکھتا ہے اور علماء سے رابطہ کرتا ہے، تو یہ بالکل ٹھیک ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت! کبھی کبھی ہم بزرگوں کی باتوں کو Face value پہ لے لیتے ہیں۔ مثلاً: ایک مولانا صاحب سے کسی نے direct کہہ دیا کہ مولانا صاحب! آپ کے اندر تکبر ہے، انہوں نے آگے سے فرمایا: بے شک۔ اب کوئی اور بندہ اسی کو reference کے طور پر کہے کہ مولانا صاحب نے خود اس بات کی گواہی دی ہے کہ میرے اندر تکبر ہے۔ اسی طرح اور بزرگان دین کہتے ہیں کہ اصل کام تو آپ کر رہے ہیں۔ ہم اس کو Face value پہ لے لیتے ہیں کہ وہ خود کہہ رہے ہیں کہ اصل کام تو آپ کر رہے ہیں، ہم تو کچھ بھی نہیں کر رہے۔ بزرگوں کی ان باتوں کو کس طریقے سے handle کرنا چاہئے؟

جواب:

اصل میں ایک ہوتی ہے؛ فقاہت اور ایک ہوتی ہے؛ سادگی۔ فقاہت یہ ہے کہ آپ کے اندر ایسا فہم آ جائے کہ آپ اللّٰہ کی منشا کو پہچاننے لگیں کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھ سے کیا چاہتے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ آپ سے یہ چاہتے ہیں کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ نیک گمان کرو اور اپنے ساتھ بد گمانی کرو۔ اپنے اوپر کبھی نیک گمان نہ کرو اور دوسروں کے ساتھ نیک گمان کرو، بد گمانی نہ کرو۔ لہٰذا اگر ایک عالم سو دفعہ بھی کہہ دے کہ میں تو ایسا ہوں، تو اس کو نیک گمان پہ محمول کریں کہ ان میں تواضع ہے۔ یہ تواضعاً ایسے کہہ رہے ہیں، ورنہ یہ ایسے نہیں ہیں۔ اور اگر اپنے بارے میں محسوس کرے کہ یہ چیز میرے پاس ہے، مثلاً: علم میرے پاس ہے، تو اس کو اس پر محمول کر لے کہ یہ میرے نفس کی خواہش ہے۔ میں اپنے نفس کی وجہ سے اس طرح چاہتا ہوں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یعنی اپنے اوپر بد گمانی کرے اور دوسروں کے ساتھ نیک گمان کرے۔ جب تک انسان کی اصلاح نہیں ہوتی، دل نہیں بنا ہوتا، اس وقت تک اس کا الٹ ہوتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ بد گمانی کرتا ہے اور اپنے ساتھ نیک گمان رکھتا ہے۔ لہذا اگر کوئی بزرگ کہہ دے کہ میں ایسا ہوں، تو چونکہ یہ بد گمانی تو پہلے سے کر رہا ہوتا ہے، لہٰذ اس کو بہانہ مل جاتا ہے کہ انہوں نے خود کہا اور بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو ایسا نہیں کہنا چاہئے تھا۔ ایک دفعہ ہمارے گاؤں کے امیر صاحب مجھے کار گزاری سنانے لگے کہ میں مولانا عبد الحنان جہانگیروی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ (جو بہت بڑے عالم تھے) کے ساتھ جا رہا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اصل کام تو آپ کر رہے ہیں، ہم نے تو ویسے ہی وقت ضائع کیا۔ یہ بات وہ مجھے بڑے مزے سے سنا رہے تھے کہ جیسے وہ اس کو حقیقت سمجھ رہے تھے۔ میں دو قدم پیچھے ہو گیا اور میں نے کہا: امیر صاحب! اپنے آپ کو بچاؤ، گولی چل گئی ہے۔ انہوں نے کہا: کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: یہ کہہ رہا ہوں کہ حضرت نے تو اپنے آپ کو بچا لیا، اب گولی آپ پر چل گئی ہے۔ اگر آپ نے اس کو واقعی مان لیا، تو مارے جاؤ گے۔ آپ کو یہ کہنا چاہئے تھا کہ حضرت! آپ کے دم سے چل رہا ہے۔ یہ آپ کیا فرما رہے ہیں! اگر علماء نہ ہوں، تو ہم جہالت پھیلائیں گے۔ لہٰذا آپ کو تو یہ کہنا چاہئے تھا۔ آپ نے اس کو صحیح کیوں سمجھ لیا؟ یہ آپ کی غلطی ہے۔ لہٰذا جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، ان کو ہمارے جیسے لوگ چاہئیں، جو ان کا دماغ درست کریں۔ حضرات تو اپنی تواضع کی وجہ سے اس طرح کہہ دیتے ہیں اور یہ اس کی وجہ سے اور بھی خراب ہو جاتے ہیں۔

سوال نمبر 18:

ایک ہے؛ دل کی اصلاح اور ایک ہے؛ نفس کی اصلاح۔ کیا یہ چیزیں جدا جدا ہیں یا نفس اور دل ایک چیز ہیں؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ کیا خیال ہے گاڑی کا Electronic system یعنی Self start سسٹم فیل ہو جائے یا Carburetor کے اندر تیل جانا بند ہو جائے، تو یہ چیزیں جدا جدا ہیں؟ یا ان کا کیا اثر پڑے گا؟ ظاہر ہے کہ گاڑی دونوں سے رک جائے گی۔ لیکن یہ دونوں چیزیں الگ الگ ہیں۔ اُس سے بھی گاڑی رکتی ہے، اِس سے بھی گاڑی رکتی ہے۔ اسی طرح دل خراب ہو، تب بھی اعمال خراب ہوتے ہیں، نفس خراب ہو، تب بھی اعمال خراب ہوتے ہیں۔ یہ چیزیں جدا جدا ہیں۔ اس طرح کہ دل میں دو channels ہیں، ایک شیطانی اور ایک رحمانی ہے۔ دل کا کام ہے؛ رحمانی چینل کو catch کرنا، شیطانی چینل سے اپنے آپ کو بچانا۔ اگر اس کی اصلاح ہو چکی ہو گی، تو یہ کرے گا۔ اگر اصلاح نہ ہو چکی ہو، تو رحمانی چینل سے نہیں لے گا، بلکہ شیطانی چینل سے لے گا۔ یہ خرابی ہے۔ لہذا اس کو راستے کا ہی پتا نہیں ہو گا، اس لئے کام خراب ہو گا۔ اس کو صحیح اور غلط کا ہی پتا نہیں ہو گا، لہذا غلط کرے گا۔

نفس کا معاملہ یہ ہے کہ اس کو صحیح چیز کا پتا ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس کا دل بنا ہوا ہے، تو اس کو صحیح چیز کا پتا ہے، لیکن اس کے اپنے مفادات ایسے حاوی ہوتے ہیں جیسے ہمارے سیاست دان کی حالت ہے۔ چونکہ ان کے اپنے ذاتی مفادات اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ وہ ملکی مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ ملکی خزانے کے اربوں روپے صرف اپنے چند لاکھ کے لئے ضائع کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس کا نفس خراب ہو، اس کی آنکھوں پہ مفادات کی پٹی آ جاتی ہے۔ لہذا وہ صحیح کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ صبح اس کو فجر کی نماز کے لئے اٹھنا ہے، لیکن وہ کہتا ہے کہ میرے آرام میں خلل آتا ہے، میں کیوں اٹھوں؟ لہٰذا نفس نہیں اٹھتا۔ اگر اس کے سامنے شراب پڑی ہے، تو شریعت کا حکم ہے کہ نہ پیو، لیکن یہ کہتا ہے کہ مجھے مزہ آتا ہے، میں کیوں نہ پیوں؟ اسی طرح دوسرے کام کرتا ہے۔ جیسے یورپ کا مادر پدر آزاد معاشرہ ہے، وہ ان چیزوں کے لئے قوانین بھی بنا لیتے ہیں کہ یہ چیز ٹھیک ہے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ لہٰذا نفس کا معاملہ یہ ہے کہ چاہے ساری چیزیں انسان کے سامنے ہوں اور وہ جانتا بھی ہو، پھر بھی ان پہ عمل نہیں کر سکے گا۔ لہٰذا دل کی بھی اصلاح ہونی چاہئے تاکہ صحیح بات سمجھ میں آ جائے اور نفس کی بھی اصلاح ہونی چاہئے تاکہ صحیح عمل واقع ہو جائے۔

سوال نمبر 19:

حضرت! تواضع میں بھی انسان اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے اور احساسِ کمتری میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ دونوں میں ذرا فرق بتا دیں۔

جواب:

بہت بڑا فرق ہے۔ تواضع میں انسان اللّٰہ کی عظمت کی وجہ سے اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے کہ اس کے سامنے اللّٰہ کی عظمت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھول جاتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں اور احساسِ کمتری میں انسان اپنی دنیا کی وجہ سے اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے کہ فلاں مجھ سے عہدے میں بڑا ہے، فلاں مجھ سے پیسے میں زیادہ ہے، فلاں مجھ سے حسن میں زیادہ ہے، فلاں مجھ سے طاقت میں زیادہ ہے۔ ان چیزوں کو وہ چاہتا ہے، لیکن ان کو حاصل نہیں کر پاتا، لہٰذا اس میں احساسِ کمتری سے حسد پیدا ہوتا ہے، کینہ پیدا ہوتا ہے، اس طرح کی دوسری غلط چیزیں پیدا ہوتی ہیں، جبکہ تواضع سے یہ چیزیں پیدا نہیں ہوتیں۔ تواضع ایک اچھی صفت ہے اور اللّٰہ کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اس سے یہ چیزیں ختم ہوتی ہیں۔ پس یہی فرق ہے کہ ایک نفس کی وجہ سے ہے اور دوسرا اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ دونوں میں یہ بہت بڑا فرق ہے اگرچہ بظاہر ایک چیز نظر آ رہی ہیں۔

سوال نمبر 20:

حضرت! ایک صاحب سے پوچھا کہ ان کے بزرگ جو شیخ ہیں، وہ یوں ہیں۔ انہوں نے جواب دیا: ہاں جی! وہ انسان ہیں۔ اسی طرح سنا کہ ہاں! وہ بزرگ ہیں، پیغمبر تو نہیں ہیں۔ اس طرح کی باتوں کے پیچھے جو message ہے، اس کا کیا مقصد ہے؟

جواب:

چونکہ مجھے اس کا سیاق و سباق معلوم نہیں ہے، لہٰذا میں اس پر discuss نہیں کر سکتا۔ سیاق و سباق سے مراد یہ ہے کہ ایک آدمی کسی بزرگ پہ اعتراض کر رہا ہے کہ اس نے ایسا کام کیا ہے۔ دوسرا اس پر کہہ دے کہ ہاں وہ انسان ہے۔ اس کا مطلب اور ہو گا۔ یہ ایک اچھے sense میں کہہ رہا ہے کہ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے، لیکن اس پر اصرار نہیں کر رہا۔ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق ٹوٹتا نہیں، بلکہ دوبارہ بحال ہو جاتا ہے۔ اس کا ہم نے ایک experiment کیا تھا کہ ہم نے امریکہ سے ایک بانڈ منگوایا تھا، اس کے اندر لکھا تھا کہ 65 ڈگری سنٹی گریڈ پر اس کا بانڈ ٹوٹ جائے گا۔ ہم نے جب experiment کیا، تو بالکل exactly 65 پر اس کا بانڈ ٹوٹ گیا اور پھر نہیں جڑا۔ پھر ہم نے ایک پاکستانی چیز کو لے لیا، جو یہاں تیار ہوتی ہے۔ جب اس کا experiment کیا، تو وہ 95 ڈگری سنٹی گریڈ تک نہیں ٹوٹا، بلکہ 105 ڈگری سنٹی گریڈ پہ ٹوٹا۔ پھر جب وہ واپس temperature 95 پہ آیا، تو دوبارہ جڑ گیا۔ لہذا اس کے بعد ہم نے امریکہ کی وہ چیز کبھی نہیں منگوائی۔ اس بانڈ کا میں نے قصداً نام نہیں لیا، کیونکہ اگر میں اس experiment کو ظاہر کر دوں، تو وہ چیز مہنگی ہو جائے گی۔ پس میں نے سوچا کہ میں اس کو مہنگا کیوں کراؤں! ہم نے اس کا پیپر بھی پبلش نہیں کیا۔ میں نے سوچا کہ اگر پیپر پبلش کر دوں تو شاید مجھے تو انعام دے دیں، لیکن پوری قوم کے لئے وہ مہنگی ہو جائے گی۔ بالکل اسی طرح اللّٰہ والے پھر دوبارہ واپس اپنی حالت پہ آ جاتے ہیں۔ ان کا تعلق reinstate ہو جاتا ہے۔ جبکہ دوسرے لوگوں کا تعلق reinstate نہیں ہوتا، بلکہ وہ دور چلے جاتے ہیں۔ بہر حال! یہ فرمانا کہ ہاں! وہ انسان ہے۔ اس context میں تو بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن اگر وہ یہ کہہ رہا ہے کہ کوئی اتنا بڑا مقام اس کا نہیں ہے، تو پھر میرے خیال میں اس کو اس کے ساتھ محبت نہیں ہے۔

سوال نمبر 21:

قبروں اور مزاروں کے بارے میں کافی misconception پائی جاتی ہے۔ recently ایک بہت اچھے دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی تھی کہ اگر آپ کسی ولی اللّٰہ کے مزار پہ جاتے ہیں اور وہاں پہ نفل پڑھتے ہیں اور دعا کرتے ہیں یا وہاں ذکر کرتے ہیں، تو یہ کس اعتبار سے شرک کی طرف جا سکتا ہے؟ مجھے مزاروں پہ جانے کا بالکل مقصد نہیں پتا۔ میں آپ سے اس چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں۔

جواب:

در اصل مزار میں جو ہے، وہ ہے تو انسان، خدا نہیں ہے۔ لہٰذا خدا خدا ہوتا ہے اور انسان انسان ہوتا ہے۔ لیکن انسان میں دو قسم کے انسان ہوتے ہیں۔ ایک ہوتا ہے؛ مقبول انسان، اللّٰہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب انسان۔ اور ایک ہوتا ہے؛ عام انسان۔ چنانچہ اللّٰہ کے پیارے ہونے کی وجہ سے ان کی قبر پہ اللّٰہ کی رحمت برستی ہے، کیونکہ جب وہ اللّٰہ کا محبوب ہے، تو رحمت تو برستی ہے۔ اسی رحمت کی وجہ سے جو لوگ ادھر جا کے دعا کرتے ہیں، تو اس کی قبولیت کی امید بہت زیادہ ہو جاتی ہے اور اس رحمت کی برکت سے اس کے دل میں بھی تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اللّٰہ ہی کرتا ہے، وہ انسان نہیں کرتا، لیکن وہ جو رحمت آ رہی ہوتی ہے، اس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو قبر کے پاس جا کر فائدہ ہو جائے، تو چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہی اس کا فائدہ کرایا، لہٰذا اس کو اس کی طرف نہیں منسوب کرنا چاہئے، بلکہ اس کو اللّٰہ کا فضل سمجھنا چاہئے کہ اللّٰہ جل شانہ کا اس پہ فضل ہے اور اس کی رحمت اس کے اوپر برس رہی ہے اور ہمیں بھی فائدہ ہو گیا۔ لیکن اگر ’’اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں) کے خلاف ہو جائے تو پھر یہ شرک ہو جائے گا۔ لہذا مانگنا اللّٰہ ہی سے چاہئے، لیکن اس مقام کی عظمت اور قبولیت کو دیکھ کر اس کے لئے ایصالِ ثواب کر لیا جائے، تو ان شاء اللّٰہ العزیز ان کے فیوض و برکات، جو اللّٰہ پاک نے ان کو دیئے ہیں، وہ ان کی برکت سے آپ کو بھی مل جائیں گے اور آپ کی زندگی بھی اچھی ہونے لگے گی۔

سوال نمبر 22:

حضرت! گھر میں کوئی چیز چوری ہو جائے اور گھر میں آئے ہوئے مہمان پر اندیشہ ہو، تو کیا اس سے پوچھنا مناسب نہیں ہو گا؟

جواب:

قانوناً پوچھ سکتے ہیں۔ قانونی طور پر سب سے پوچھ سکتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے۔ اندھا کچھ بھی کر سکتا ہے۔

سوال نمبر 23:

حضرت! یہ جو کہتے ہیں کہ دوسروں کے عیب نہیں دیکھنے چاہئیں۔ لیکن جب نام لئے بغیر ہم اس عیب کو discuss کریں گے، تو ہی clarification ہو گی کہ واقعی یہ غلط چیز ہے۔

جواب:

بالکل ٹھیک ہے۔ کیونکہ بغیر نام کے اگر کہتے ہیں، تو وہ غیبت کے زمرے میں نہیں آئے گا۔ صرف اس برائی کو برا سمجھنے کے زمرے میں آئے گا۔ اور یہ ٹھیک ہے۔ جیسے جھوٹ کے بارے میں اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ﴾ (اٰل عمران: 61)

ترجمہ: ’’اور جو جھوٹے ہوں، ان پر اللہ کی لعنت بھیجیں‘‘۔

اب یہ specific بات تو نہیں ہے، لیکن general بات ضرور ہے کہ جھوٹوں پر اللّٰہ کی لعنت ہو۔

سوال نمبر 24:

حضرت! کیا اسلامی سیاست میں سیاست دان اپنی achievement بتاتا ہے یا دوسروں کے عیبوں کو اچھالتا ہے؟ عیوب اچھالنا تو مناسب نہیں ہو گا۔ اپنی achievements ہی بتانی چاہئیں۔

جواب:

میں پاکستانی سیاست دانوں کے بارے میں نہیں کہہ رہا، کیونکہ یہاں معاملہ تو سمجھ میں ہی نہیں آئے گا۔ general بات کرتا ہوں کہ ملک و قوم کو نقصان سے بچانے کے لئے اگر کسی کا عیب اپنے نفس کی بجائے ملک و قوم کے اجتماعی مفاد کے لئے ظاہر کیا جائے تو جائز ہے، کیونکہ آپ اگر یہ نہیں کریں گے، تو اس سے لوگ کیسے بچیں گے! لہذا اس وجہ سے اگر کسی کا عیب جو ملک کو نقصان پہنچا رہا ہو تو وہ بتانا برا نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی کو قتل کرنے کے لئے جا رہا ہو اور وہ آپ سے پوچھے کہ وہ کہاں ہے؟ اگر آپ اس کو اس لئے نہیں بتاتے کہ یہ اس کو قتل کرے گا، تو آپ کی یہ بات جھوٹ کے زمرے میں نہیں آئے گی۔ کیونکہ آپ اس شخص کو بچا رہے ہیں، ورنہ وہ اس کو مار دے گا۔ لیکن اگر مجرم چھپا ہوا ہے اور آپ سے قانون کے صحیح محافظ اس کے بارے میں پوچھیں، تو ان کو بتانا ضروری ہو گا۔ کیونکہ اس کے بغیر وہ کیسے مجرم کو پکڑیں گے۔ لہٰذا اجتماعیت کی بات اور ہوتی ہے اور انفرادیت کی بات اور ہوتی ہے۔

سوال نمبر 25:

کسی اللّٰہ والے کی قبر پہ جائیں اور اس سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہوں تو اس سے کس طرح فیض حاصل کرتے ہیں؟

جواب:

دو باتیں ہیں۔ قرآن پاک میں ہے کہ مردے نہیں سنتے:

﴿لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى﴾ (الروم: 52)

ترجمہ: ’’ تم مُردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے‘‘۔

اور آپ ﷺ نے جب کافروں کو خطاب کیا کہ اب تمہیں کیا پتا چلا؟ ہمارے ساتھ تو جو وعدہ تھا، وہ سچا نکلا، تمہاری کیا خبر ہے؟ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: یا رسول اللّٰہ! جب یہ سنتے نہیں، تو آپ ان سے کیوں باتیں کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تم سے زیادہ سنتے ہیں۔ (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ، ج: 2، ص: 306,307)

اس سے پتا چلا کہ جب اللّٰہ سنانا چاہیں تو سنا سکتا ہے، تم نہیں سنا سکتے۔ درمیان میں جو اسباب والا دائرہ ہے، وہ ختم ہو گیا، یعنی ہماری زبان سے کان تک جو راستہ ہے اور ہوا جو میڈیم ہے، اس کے ذریعے سے جو آواز جاتی ہے، وہ معاملہ منقطع ہو گیا۔ اب اسباب کے ذریعے سے نہیں پہنچا سکتے۔ لیکن اللّٰہ جب پہنچانا چاہے، تو پہنچا سکتا ہے، سنا سکتا ہے۔ اس کے لئے اسباب ضروری نہیں ہیں۔ لہٰذا آپ قبر سے خود فیض حاصل نہیں کر سکتے، لیکن جب اللّٰہ پاک دینا چاہے، تو دے سکتا ہے۔ آپ وہ طریقے اختیار کریں جن سے اللّٰہ آپ کو اس کا فیض دے۔ یہ بڑی باریک بات ہے۔

سوال نمبر 26:

حضرت! ایمان کے بارے میں تھوڑی سی clarification چاہئے تھی۔ میرا یہ ایمان اور یقین ہے کہ اگر میں آگ میں ہاتھ ڈالوں گا، تو وہ مجھے جلا دے گی، اس لئے میں اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ لیکن ہم جو منہ سے کہتے ہیں کہ میں اللّٰہ پہ یقین رکھتا ہوں، میں اس کی کتابوں پہ یقین رکھتا ہوں، میں اس کے رسولوں پہ یقین رکھتا ہوں، اسی طرح میں ہر ایک چیز کو مانتا ہوں۔ لیکن میرے actions اس کے مطابق نہیں ہیں۔ جس طرح آگ میں ہاتھ ڈالنے سے مجھے پتا ہے کہ ہاتھ جل جائے گا تو میں کبھی بھی اس میں ہاتھ نہیں ڈالوں گا۔ لیکن یہاں میں منہ سے کہتا ہوں، مگر عمل نہیں کرتا۔ گویا میں اسے صحیح طریقے سے مانتا نہیں ہوں یا میرے دل میں وہ بات صحیح طریقے سے نہیں ہے۔ کیا یہ منافقت میں آئے گا یا جھوٹ بولنے میں آئے گا یا یہ کسی اور context میں ہے؟

جواب:

یہ سوال کئی سوالوں کا مجموعہ ہے، اس کے لئے کافی وقت چاہئے۔ لیکن میں مختصراً جتنا عرض کر سکتا ہوں، عرض کر دیتا ہوں۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا تھا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے ایمان کے شعبے بتا دیئے کہ اللّٰہ پر ایمان، رسولوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، یومِ آخرت پر ایمان۔ یہ تمام چیزیں جو ایمان کے شعبے کی ہیں وہ اس کے ذیل میں آتی ہیں۔ جہاں تک یقین کی بات ہے، تو اس میں تین درجہ ہیں: ایک ہے؛ علم الیقین، ایک ہے؛ عین الیقین، اور ایک ہے؛ حق الیقین۔ علم الیقین سے مراد یہ ہے کہ آپ کو کسی چیز کا علم ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد عین الیقین ہے کہ آپ نے خود ایسا ہوتا ہوا دیکھ لیا۔ اور حق الیقین وہ ہے، جو خود آپ کے اوپر گذر گیا۔ یہ تین قسم کے یقین ہیں۔ ان میں حق الیقین سب سے زیادہ اونچا ہے، لیکن دنیاوی چیزوں پر جو یقین ہے، اس کے مقابلہ میں نفس و شیطان نہیں ہیں۔ جبکہ ایمان کے مقابلہ میں نفس و شیطان ہیں۔ لہٰذا انسان کو ایمان بھی حاصل ہوتا ہے، جانتا بھی ہے کہ ایسا ہے، لیکن نفس و شیطان اس کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اس سے وہ کام کرا دیتے ہیں، جو وہ خود بھی نہیں چاہتا۔ مثلاً: انسان اللّٰہ پاک کو ناراض نہیں کرنا چاہتا، لیکن شیطان یا نفس اس سے ایسا کام کرا دیتے ہیں، تبھی تو وہ بعد میں پچھتاتا ہے۔

جیسے حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کسی برائی کو ہوتے ہوئے دیکھو، تو اس کو ہاتھ سے روکو۔ اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتے، تو زبان سے روکو اور اگر زبان سے بھی نہیں روک سکتے، تو دل سے اس کو برا سمجھو۔ یہ سب سے زیادہ کمزور ایمان ہے۔ گویا ایمان کمزور بھی ہو سکتا ہے اور طاقت ور بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ایمان کا جو بنیادی مفہوم ہے، وہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ وہ ماننے اور نہ ماننے سے تعلق رکھتا ہے۔ جو آدمی یقین کرتا ہے اور دل اور زبان دونوں سے مانتا ہے، تو وہ ایمان دار ہے۔ لیکن اگر وہ شخص اعمال ایسے کرتا ہو جن سے اس کی قوت ظاہر ہوتی ہو، تو وہ قوی الایمان ہے اور اگر ایسے اعمال کرتا ہو جن سے اس کا ضعف ظاہر ہوتا ہے، تو وہ ضعیف الایمان ہے۔ لہٰذا اس ایمان کو اعمال سے طاقت ور کیا جا سکتا ہے۔ اسی ایمان کے کمزور ہونے کی بھی وجوہات ہوتی ہیں۔ لہٰذا ان وجوہات سے بچنا جن سے ایمان کمزور ہوتا ہے اور ان وجوہات کو حاصل کرنا جن سے ایمان طاقت ور ہوتا ہے؛ یہ تو کرنا چاہئے، لیکن اس شخص کو منافق نہیں کہیں گے۔ اس کو فاسق کہہ سکتے ہیں۔ اس کو فاجر کہہ سکتے ہیں۔ منافق اس کو کہتے ہیں، جو واقعی دل سے نہیں مانتا۔ یعنی صرف زبان سے کہتا ہے، لیکن دل سے نہیں مانتا۔ مثلاً: دل سے کہتا ہے کہ اللّٰہ نہیں ہے، لیکن منہ سے یہ کہتا ہے کہ اللّٰہ ہے۔ یہ منافق ہے۔ ایک آدمی دل سے بھی مانتا ہے کہ اللّٰہ ہے، لیکن اس کے دل میں اللّٰہ کی جتنی عظمت ہونی چاہئے، وہ نہیں ہے۔ یہ ایسے ہی ہے، جیسے کسی گلاس کی capacity زیادہ ہو اور اس میں چیز پوری نظر نہ آتی ہو۔ اسی طرح اللّٰہ تعالیٰ اور اس کے دل میں حجاب زیادہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اللّٰہ تعالیٰ کی عظمت کو محسوس نہیں کرتا اور اس کے اعمال اس کے مطابق نہیں ہوتے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ