اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال 1:
السلام علیکم حضرت
There is a بیان and ذکر مجلس every Tuesday here. There is a doctor here in our university doing PhD. He attends the مجلس regularly. He has asked questions regarding last week’s مجلس. After writing what I said I will also copy his question. He has worked on doctors and professors from UK universities and also went to Pakistan for interviewing Pakistani doctors. If you please answer the questions in question answer session then I will tell him to listen to that from the website.
I usually hear one of your بیان and then do it in مسجد. Last week’s بیان was based on two bayans from مثنوی
”قال سے حال پر جانا“
9th March 2013 and “اللہ کی طرف توجہ”, Saturday 16th March 2013. They were regarding finishing خودی and thinking of اللہ
(اللہ پر نظر) in every matter in all times. In my بیان at first I said about finishing خودی، نفس, and then we can see اللہ and our life will transform from قال to حال. After getting love of اللہ سبحانہ و تعالیٰ and getting نظر on Him then we can find حقیقت and then our good deeds اعمال will be counted in آخرت. Otherwise, our نفس will consume these deeds. For Allah’s remembrance, I gave an example of a person who is sent by his محبوب to market, and he thinks of محبوب in market and wants to go back early. For حقیقت I gave an example of what حاجی صاحب told them: one can differentiate between different tastes of fruit like mango, guava and orange etc. For nazar on اللہ, I compared the life of two persons who offer prayers, go to office, spend time with family and take care of parents. The one who has اللہ in his mind will think of اللہ in all matters like when going to office, he will think that I am fulfilling the duty of حلال رزق by اللہ for the time with his kids, he will think that I am taking care of them as اللہ سبحانہ و تعالیٰ has made it my duty. The same with parents that اللہ has made them my parents and I have to take care of them. Due to his good نیت intention in every matter he will get reward for his twenty-four hours life and the other persons will not be rewarded for their work as their intention نیت is not good. The same is the case with a مسلم doctor and an ordinary doctor. His question is below. He wants to write about the difference between a مسلم doctor and an ordinary doctor and the philosophy behind it. He has written letter to this Dr. عمر, and he is saying,
“سلام عمر بھائی
I need to talk to you on the درس which you gave last Tuesday about the idea of عبادت. If you just intend that we can get ثواب just by thinking about things differently, I need a reference for it, preferably in English. I am writing a comparison about any doctor and مسلم doctor. I think both do the same things, have the same job but only the difference in thinking towards this approach. The only thing which makes a doctor a مسلم doctor is the way he thinks which some people call perspective or philosophy. Will I be able to defend it in my thesis how this thinking improves a مسلم doctor from a professional doctor? I don’t know. I think I might say that it is the driving force and internal compass which is always regulating one’s actions. I can explain further once we meet and can defend it in my thesis by giving almost similar perspectives of the paradigms in research. Mostly the paradigms seem the same but by digging them deep, one realizes how one changes one’s philosophy of looking at things? I will need guidance from you and if it is possible for you to prepare a درس on this topic, “How is a muslim doctor different from any other doctor?”. If you can prepare it then do let me know. I will bring a dictaphone on that specific day to record that درس. Regards. Please remember me and ours
جواب:
در اصل یہ England میں ایک ڈاکٹر ہیں جو PHD کر رہے ہیں۔ یہ ہمارے حلقے سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں Tuesday کو درس دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جب درس دیتا ہوں تو پہلے آپ کا بیان سن لیتا ہوں، اس کے بعد reproduce کر لیتا ہوں۔ اس دفعہ جو درس دیا تھا وہ مجموعی طور پر دو بیانوں کا ایک قسم کا effect تھا۔ چنانچہ دو بیان جن میں خودی کو ختم کرنے اور اللہ جل شانہ پر ہر چیز میں نظر ہونی چاہیے کے بارے میں تھا۔ پہلے میں نے یہ بیان کیا ہے کہ خودی یعنی نفس کی جو desires ہیں کہ انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا ہے اس کو دور کرنا ضروری ہے۔ جس کی وجہ سے اللہ جل شانہ اعمال میں جان ڈالیں گے اور وہ قال سے حال کا سفر کرے گا۔ جب اس کے اعمال میں جان آئے گی تو اللہ جل شانہٗ کی محبّت اور اللہ پاک کی نظر اس کو حاصل ہو جائے گی، پھر وہ اپنے تمام اعمال کی حقیقت دیکھ سکے گا۔ چنانچہ اس کے اعمال کے اندر وزن ہو گا کیوں کہ اس کے اندر اللہ جل شانہ کے لئے سب کچھ کرنے کی نیت ہو گی۔ اور اللہ پاک ان اعمال کو قبول فرماتے ہیں جو اللہ کے لئے ہوتے ہیں اور جو نفس کے لئے ہوتے ہیں ان اعمال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنے کے لئے مثال دی ہے کہ ایک شخص جس کو محبوب کی طرف سے بازار بھیجا جاتا ہے وہ وہاں پر حکم پر عمل بھی کرتا ہے کہ بازار سے جو چیز لانی ہے وہ لاتا ہے لیکن ہر وقت وہ محبوب کے تصور میں ہے اور وہ زیادہ وقت بازار میں نہیں لگانا چاہتا۔ ضروری وقت لگانا چاہتا ہے، اس میں کمی بھی نہیں کرنا چاہتا اور زیادتی بھی نہیں کرنا چاہتا۔ گویا کہ اس کی ہر وقت کی intention یہ ہے کہ میں محبوب کے پاس جلد سے جلد پہنچ جاؤں۔ ہم اس تمثیل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جیسے ہمیں دنیا میں بھیجا گیا ہے، اللہ پاک نے ہمیں کچھ کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ ہر وقت ہمیں یہ یاد ہو کہ اللہ پاک کے پاس جانا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا دل لگا ہو۔ ہم جو کام بھی کریں خاص اللہ کے لئے کریں۔ (انہوں یہ نے example بڑی اچھی دی ہے۔) جیسے کوئی شخص آم، امرود اور مالٹے کے درمیان taste کا فرق جاننے لگتا ہے کیونکہ وہ چکھ لیتا ہے حالانکہ جس نے نہیں چکھا ہوتا وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ آ گے کہہ رہے ہیں کہ نظر اللہ پے ہو۔ دو شخصوں کی مثال دی کہ ایک نماز پڑھتا ہے، دفتر جاتا ہے، family کو وقت دیتا ہے، اپنے parents کی care کرتا ہے اور ان تمام کاموں کا تعلق اللہ کے ساتھ جوڑ کے کرتا ہے۔ اس کے ذہن میں ہو گا کہ میں آفس جا رہا ہوں تو میں رزق حلال حاصل کرنے کے لئے جا رہا ہوں اور رزق حلال حاصل کرنا ضروری ہے کہ مجھے لوگوں کی مدد بھی کرنی ہے اور اپنا پیٹ بھی پالنا ہے۔ حلال رزق کے ساتھ سوال نہیں کرنا، اشرافِ نفس نہیں کرنا۔ یہ ایک لازم چیز ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب بچوں میں ہو گا تو اس کو یہ خیال ہو گا کہ ان کی تربیت اور ان کا تکافل کرنا میری ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بچوں کی requirements ہوں گی یا اپنی بیوی کی جو requirements ہوں گی ان کو اللہ کے لئے پورا کرے گا۔ اسی طرح parents کے بارے میں بھی سوچے گا کہ اب ان کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی گئی ہے، انہوں نے میرے ساتھ بہت کرم کیا ہے اور احسان کا بدلہ احسان ہونا چاہیے۔ اس طریقے سے وہ تمام کاموں کے بارے میں جانے گا۔ اسی طریقے سے ایک مسلمان ڈاکٹر اور ایک غیر مسلم ڈاکٹر میں فرق ہو گا۔ مسلمان ڈاکٹر کی نیت الگ ہو گی، غیر مسلم ڈاکٹر کی نیت الگ ہو گی۔ action دونوں کے same ہو سکتے ہیں لیکن نیت مختلف ہونے کی وجہ سے اثر میں زمین آسمان کا فرق ہو گا۔ کہتے ہیں: ایک ڈاکٹر صاحب نے ان کو Email لکھا ہے کہ میں آپ کے بیان میں بیٹھا تھا اور چونکہ میں اس پہ کام کر رہا ہوں کہ مسلمان ڈاکٹر اور ایک غیر مسلم ڈاکٹر میں کیا فرق ہوتا ہے؟ آپ ذرا اس بارے میں بات کر لیں کہ ان کے درمیان ان کی approaches اور ان کے perspectives میں کیا difference ہے؟ تاکہ میں ان کے بارے میں جان سکوں اور میں اپنے Point of view کو زیادہ بہتر طریقے سے present کر سکوں۔ یہاں تک انہوں نے بات کی ہے۔
انہوں نے کافی حد تک ٹھیک بات کی ہے البتہ اس کے آخری حصے میں یاد دہانی کے لئے میں کچھ عرض کروں گا کہ بیان میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بات ہوئی تھی کہ وہ ”خودی“ کس چیز کو کہتے ہیں اور اس کی perspective کیا ہے؟ کہ خودی کو چھوڑ کے اپنے آپ کو پا لو۔ اس میں ایک شعر کا میں نے حوالہ دیا تھا کہ:
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
ختم شد و ﷲ اعلم بالصّواب
یعنی اپنی خودی کو ختم کرو اور بے خودی حاصل کر لو تاکہ خود کو پا لو پھر ساری چیزیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ علامہ اقبال بھی اسی خودی کی بات کرتے ہیں لیکن ذرا Different perspective میں۔ نتیجہ ایک ہی ہے۔ لیکن اس نتیجے کو پانے کے لئے لوگوں کا ان چیزوں کے ساتھ familiar ہونا ضروری ہے ورنہ نتیجہ کچھ سے کچھ ہو جائے گا۔ علامہ اقبال کے بارے میں، میں نے گزشتہ بیان میں کافی بات تھی، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ٘۔ ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ (التين: 5-4)
ترجمہ: ”کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے مین ڈھال کر پیدا کیا ہے۔ پھر ہم اسے پستی والوں میں سب سے زیادہ نچلی حالت میں کر دیتے ہیں۔“
أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ یعنی اللہ پاک نے اس کو بہترین سانچے میں ڈھالا ہوا ہے۔ اس کو اگر ہم ذہن میں رکھیں تو اس بہترین سانچے میں ہوتے ہوئے یہ نتائج کیوں صحیح نہیں آتے؟ کیونکہ نفس اس کو اپنی طرف کھینچتا ہے، اس کے اپنے desires ہوتے ہیں جن کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اگر شیطان وسوسے ڈالتا ہے تو شیطان کے راستے پہ چل پڑتا ہے۔ اگرچہ اللہ پاک نے اس کو أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ میں پیدا کیا لیکن شیطان اس کو گمراہ کر دیتا ہے اور اس کو اپنی پہچان نہیں رہتی، وہ اپنے desires کو fulfil کرنے میں لگ جاتا ہے۔ اب اس نفس کی desires کو روکنا ہے، رذائل کو دبانا ہے۔ اس کے لئے نفس کی خواہشات کو بھولنا ہو گا، ان کو گم کرنا ہو گا۔ اس کے بعد آپ کی اصلیت اور حقیقت سامنے آ جائے گی۔ آپ کی حقیقت اپنے آپ کو پانا ہے۔ اسی کو اقبال ”خودی“ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ تک تمہاری رسائی ہو جائے اور درمیان میں شیطان اور نفس کا حجاب ختم ہو جائے۔
علامہ اقبال نے جس وقت جس perspective میں یہ بات کی تو اس وقت ہندوستان میں حالات ایسے تھے کے لوگ depression اور احساس کمتری میں چلے گئے تھے، اپنی ہر چیز میں انگریزوں سے اپنے آپ کو پیچھے سمجھتے تھے۔ ان کے اوپر اتنا رعب تھا کہ اپنا سب کچھ بھول گئے تھے۔ علامہ اقبال ان کو دوبارہ rise کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے آپ کو جان لیں کہ اللہ نے ان کو ”أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ“ میں پیدا کیا ہے اور پھر اللہ نے ان کو مؤمن بنایا ہے۔ یہ مؤمن اپنے آپ کو کیوں نہیں پہچانتا؟ جیسا کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور نہ کرنے والا مردہ ہے۔ اگر کوئی یہ چیز جان لے تو پھر کیسے احساس کمتری میں مبتلا ہو گا؟ اپنے آپ کو جاننے کے عمل کو اقبال نے ”خودی“ کا نام دیا لیکن انسان اپنے آپ کو اس وقت تک نہیں جان سکتا جب تک نفس کے حصار سے نہیں نکلتا۔ جیسے بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ تم بھی وہی اعمال کرتے ہو جو ہم کرتے ہیں لیکن تم تم ہو اور ہم ہم ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ تمہارے سارے اعمال تمہارا نفس کھا جاتا ہے۔ نفس اس طرح کھا جاتا ہے کہ ہمارے desires کے لئے ہم سب کچھ کرتے ہیں۔ مثلاً نماز بھی ہم اس کے لئے پڑھتے ہیں، روزے بھی ہم اس کے لئے رکھتے ہیں، زکوۃ بھی ہم اس کے لئے دیتے ہیں ان سب میں نفس کی کوئی نہ کوئی خواہش پوری ہو رہی ہوتی ہے۔ معلوم ہوا ساری چیزیں نفس کے کھاتے میں چلی گئیں، اللہ پاک کے لئے تو نہیں ہوئیں۔ نفس اور شیطان کا حجاب تک درمیان میں رہے گا ہمارے اعمال ضائع ہوتے رہیں گے۔ اس چیز سے نکلنا ضروری ہے اور اس کا جو procedure ہے وہ یہی ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو دبا کر اپنی حقیقت کو پہچان لو۔ اس لئے علامہ اقبال نے کہا تھا:
خودی کا سر نہاں لا إلٰهَ إلَّا اللہ
انہوں نے مختلف طریقوں سے اس چیز کو سمجھایا ہے لیکن لوگ پھر بھی اپنے نفس کے حصار میں ہیں۔ جو علامہ اقبال کے کلام کو سن رہے ہیں لیکن نفس کے حصار سے نکلے نہیں ہیں لہٰذا ان کی سمجھ بھی نفس کی وجہ سے different ہو گئی ہے۔ ان کا نفس آنکھ پر بھی اثر کر رہا ہے، زبان پر بھی اثر کر رہا ہے، دل پر بھی اثر کر رہا ہے، دماغ پر بھی اثر کر رہا ہے، کانوں پر بھی اثر کر رہا ہے جیسے ایک بڑھیا گر گئی تھی، تو ہر ایک اپنی اپنی رائے دے رہا تھا کہ اس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاؤ یا اس کو لحاف اڑھا دو، یہ کرو وہ کرو۔ ان میں سے کسی نے کہہ دیا: سردی ہے گرم گرم حلوہ کھلاؤ۔ بڑھیا نے آنکھیں کھولیں اور کہا: اس بچے کی بات سن مان لو۔ اسی طرح جاوید غامدی جیسے لوگ کوئی بات کہہ دیں اور وہ ہمارے نفس کے مطابق ہو تو ہم کہتے ہیں: یہ زبردست بات ہے، یہی صحیح ہے۔ علامہ اقبال یہی کہہ رہے ہیں کہ اپنے نفس سے نکل کے اپنے آپ کو پہچانو۔ اور یہی بات مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ بھی کہتے ہیں:
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
بیخودی سے مراد اس کا نفس سے نکلنا ہی ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مطلب ہے کہ اپنے آپ کو نفس سے نکالو پھر اپنے آپ کو پا لو گے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے جو بات کی ہے اس میں زیادہ وزن ہے کیونکہ اس میں معروف معنوں کے ساتھ conflict نہیں ہے۔ علامہ اقبال کے کی بات میں معروف معنوں کے ساتھ کچھ conflict ہے جس کی وجہ سے ان کی بات فوراً سمجھ میں نہیں آتی کیوں کہ لوگ ”خودی“ کا عرف عام میں وہ مطلب نہیں لیتے جو علامہ اقبال لیتے ہیں۔ اور بے خودی کا عرف عام میں جو مفہوم ہے وہ بھی وہی ہے جو مولانا روم لیتے ہیں لہٰذا اس کے اندر کوئی conflict نہیں آتا اور ان کی بات جلدی سمجھ آ جاتی ہے۔
جہد کن در بیخودی سا ایک ہی شعر ہے
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
اپنی بیخودی کے اندر محنت کر لو اور اپنے آپ کو پہچان لو۔ معلوم ہوا مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا thesis زیادہ direct ہے۔ اور علامہ اقبال کا آسانی کے ساتھ understandable نہیں ہے۔ علامہ اقبال کی مجبوری یہ تھی کہ وہ اس وقت لوگوں کو depression سے نکالنا چاہتے تھے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے یہ چیز نہیں تھی۔ لیکن بہر حال اس کو اس طریقے سے لانے میں کچھ جوڑنے کی ضرورت تھی وہ جوڑ صحیح نہیں لگا، نتیجتاً لوگوں کو وہ بات پوری سمجھ نہیں آئی۔ اللہ کرے میری بات سے وہ بات سمجھ آ جائے جو اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے میری زبان پہ جاری کی ہے۔ پھر کوئی مشکل نہیں۔
اب میں اصل سوال کی طرف آتا ہوں کیوں کہ باقی باتیں ڈاکٹر عمر صاحب نے صحیح کی ہیں۔ اب دوسرے ڈاکٹر صاحب کا question ہے کہ:
سوال 2:
What is the difference between a muslim doctor and an ordinary doctor?
جواب:
I will go first to a حدیث because he needs difference so I shall go first to حدیث
حدیث شریف میں یہ آتا ہے کہ مسلمان جو چیز اپنے لئے چاہتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھی چاہتا ہے۔ مثلاً اگر وہ چاہتا ہے کہ لوگ میری عزت کریں تو وہ دوسروں کو عزت دیتا ہے۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ میرے اوپر ظلم نہ ہو تو دوسروں پر ظلم نہیں کرتا۔ اگر وہ کہتا ہے کہ لوگ میری حیا کا خیال رکھیں تو دوسرے لوگوں کی حیا کا خیال رکھے گا۔ اگر چاہتا ہے کہ میرا حق کوئی نہ مارے تو وہ دوسرے کا حق نہیں مارے گا۔ اس طرح balance آ جائے گا، پھر ان کی تمام صلاحیتیں صحیح صحیح جگہ پر صرف ہوں گی۔ یہ بالکل general بات ہے جس کو ہم General perspective میں لیں گے۔ لیکن یہاں ڈاکٹر صاحب کو جواب دینا چاہیں تو اس پہ علیحدہ بات ہو سکتی ہے کیونکہ general سے specific کی طرف آنا ہے۔
assume کریں کہ ڈاکٹر صاحب بیمار ہو گئے اور وہ کسی اور ڈاکٹر کے پاس علاج کے لئے چلے گئے۔ وہ سوچیں گے کہ میرا ڈاکٹر میرے کیس کو صحیح طور پہ سمجھے کہ میرا problem کیا ہے؟ جتنے tests کی ضرورت ہے اتنے tests کرائے۔ اسے صحیح conclude کرنے کے لئے جتنے وقت کی ضرورت ہے اتنا وقت لگائے۔ fees reasonable لے۔ جیسے ہم کہتے ہیں: جو لوگ تجارت کر رہے ہیں تو نفع کے لئے کر رہے ہیں لیکن اتنا بھی نفع نہ اٹھائے کہ monopoly کی وجہ سے اس کی کمر ٹوٹ جائے۔ اسی طرح ڈاکٹر بھی اپنی fees جائز حد تک رکھے۔ مریض کو توجہ پوری دے اور مریض کو سمجھانے کے لئے جتنی ضرورت ہو وہ کرے۔
Doctor will know more than me what a doctor should do for a patient? He understands more than me because he has too much data to conclude from.
تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ڈاکٹر اس کو ذہن میں رکھے گا تو اس کی approach different ہو گی۔ اس کی approach یہ ہو گی کہ میں بھی ایک ڈاکٹر سے یہی چاہتا ہوں تو اب میرے patient کو اللہ نے میرے پاس بھیجا ہے، وہ میرے پاس امانت ہے جو ایک انسان ہے۔ انسانیت کے احترام کے پیش نظر مجھے اس کو commodity نہیں بنانا، مجھے اس کو پیسہ کمانے کے ایک item کے طور پہ نہیں رکھنا۔ fees ایک علیحدہ بات ہے لیکن میں نے علاج میں اس چیز کو مد نظر نہیں رکھنا کہ اس سے پیسے کمانا میرا مقصد ہے۔ کسی کو پیسہ مقصود ہے تو عین ممکن ہے کہ مریض کو ایکسرے کی ضرورت نہ ہو لیکن اس نے Capital cost کمانی ہے تو بلاوجہ ایکسرے کروا دے یا E.C.G کروا دے یا ultrasound کروا دے یا M.R.I کر وادے، یعنی وہ ایک biased آدمی کے طور پہ کام نہ کرے۔ مریض کی جو واقعی requirement ہے اتنا test کر لے، اس کے اوپر سوچے، جتنا وقت اس کو analyse کرنے کے لئے چاہیے اتنا وقت دے۔ تکے مت مارے۔ عموماً دیکھا جاتا ہے کہ مریض کی ابھی بات بھی ختم نہیں ہوئی ہوتی کہ ڈاکٹر نسخہ لکھ دیتا ہے، اس کے بعد اگر کوئی مفید data مریض بتا دے تو ڈاکٹر اپنا opinion change نہیں کرتا حالانکہ اس کا opinion اس وقت بننا چاہیے جب information complete ہو جائے۔ information collect ہونے سے پہلے اگر اس نے conclude کر لیا تو یہ غلط ہے کیونکہ کسی کی بیماری کی 20 علامتیں ہیں جس میں سے 11 علامتیں کسی اور بیماری کے ساتھ ملتی ہیں۔ علامتیں پوری نہیں ہوئیں تھیں کہ اس کا ذہن کسی اور بیماری کی طرف چلا گیا، اب By process of elimination جتنی بیماریاں اور بتائے گا اتنا ٹھیک ہوتا جائے گا۔ چنانچہ اگر سب علامات سے دو علامات رہ گئیں تو اس کا conclusion realistic نہیں ہو گا۔ وہ جلد بازی کا شکار ہو جائے گا کیونکہ اس کو زیادہ patients دیکھنے ہیں۔ اللہ پاک اس سے اس کا پوچھیں گے۔ ایک مسلمان کی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اپنے لئے جو چیز چاہتا ہے وہ دوسروں کے لئے بھی چاہے۔ اگرچہ یہ بات آج کل کی جدید management کا اصول ہے لیکن اسلام سے لی گئی ہے کیونکہ حدیث شریف 1400 سال پہلے کی ہے۔ اس وجہ سے جو ڈاکٹر اس کو ذہن میں رکھے گا اس کی سوچ بالکل بدل جائے گی۔ اس کے نفس کی خواہش مال کمانے کی ہے اور وہ اس case کو لمبا بھی کرے، اس کا unnecessary بھی زیادہ خرچ کروائے اور زیادہ مریض دیکھنے کی وجہ سے اس کا مرض پورے طریقے سے نہ سنے تو اس کا سب کچھ negative میں چلا گیا۔ بحیثیت مسلمان وہ اپنے آپ کو نقصان میں ڈال رہا ہے۔ اگر اس کو یہ خیال ہے کہ ہر چیز کے بارے میں میرا مواخذہ ہو گا، مجھے جواب دینا ہو گا تو اس کو خیال رکھنا پڑے گا کہ میں جو patient کے ساتھ کر رہا ہوں آیا وہ اس سوچ کے مطابق ہے یا نہیں جو ایک مسلمان کی ہونی چاہیے۔ اس طرح اس کی ساری باتیں ان شاء اللہ ٹھیک ہوتی جائیں گی۔ پھر اگر اجتہادی طور پر کوئی غلطی ہو گئی تو اس پر اللہ نہیں پکڑتے، چاہے اس کی وجہ سے مر بھی کیوں نہ جائے۔ کیونکہ وہ انسان ہے، سب چیزیں نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک نے جو مقرر کیا ہے، وہی ہو گا لیکن جتنا اس سے مطالبہ ہو اگر وہ نہیں کرے گا تو اس پہ پکڑ ہو گی۔ اس کی وجہ سے اگر کوئی مریض مر گیا تو یہ قاتل بھی ہو سکتا ہے۔ یہ چیز ایک مسلمان ڈاکٹر کا perspective ہونا چاہیے۔
1) He should not consider the patient for earning the money though he can earn money by fees but if his perspective is to earn money only then his thinking will be entirely different from that person who has this intention that I should treat him. I should treat him. It’s my duty.
یہ چیز اس کو تھوڑا سا different بنا دے گی۔ باقی یہ ہے کہ Details; doctors may know more than me کہ اس میں کیا کیا چیزیں اور ہو سکتی ہیں؟ میرے خیال میں اچھی base دے دی گئی۔ اس base کو مد نظر رکھ کر سارے کام کئے جا سکتے ہیں۔ England کا culture یہ ہے کہ doctors نے اپنے کچھ SOPs بنائے ہوئے ہیں جو By experience اچھے ہیں۔ مثلاً ایک SOP یہ ہے کہ اگر patient کا بلڈ پریشر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمارے پاکستان کی طرح اس طرح نہیں کرتے کہ فوراً آستین چڑھانا شروع کر دیں اور بلڈ پریشر کی مشین لگا دی بلکہ وہ اجازت لیتے ہیں کہ کیا میں آپ کا بلڈ پریشر دیکھ سکتا ہوں؟ کیا آپ آستین اٹھا لیں گے؟ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو اس کی limitations ہوتی ہیں۔ عین اس موقع پہ پتا چل جاتا ہے۔ جب اس کے ساتھ انسان سمجھ کے بات ہو گی تو ایک different بات ہو گی۔ یہاں تو ڈاکٹر کے ہاتھ میں مریض ایسے ہوتا ہے جیسا کہ غسال کے ہاتھ میں مردہ ہوتا ہے۔ وہ یہ بات سوچتا بھی نہیں کہ یہ بھی زندہ انسان ہے۔ اس کے بھی کوئی جذبات ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ time دے دیتے ہیں اس appointment پہ بات ہوتی ہے۔ یہ ان کی کچھ باتیں اچھی ہیں۔ لیکن It is because of their management it is not because of their intention میں نے جو ابھی intention کی بات کی ہے تو اس management کا فائدہ ان کو ہو گا لیکن اس intention کے ساتھ نہیں ہو گا۔ اس کو وہ فائدہ نہیں ہو گا جس پہ اللہ پاک reward دیتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ جو تمہارا نفس کھا جاتا ہے۔
دوسری بات کہ اللہ نہ کرے جذبات مختلف ہو سکتے ہیں۔ تین قسم کے جذبات ہر انسان میں ہوتے ہیں۔ مال کی محبت، لذات کی محبت اور بڑا بننے کا شوق۔ مال کی محبت کی وجہ سے بھی patient کو mistreat کیا جا سکتا ہے۔ لذتوں کی وجہ سے بھی۔ مثلاً مریض کوئی عورت ہے اور male ڈاکٹر اس کو treat کر رہا ہے۔ اگر اس کی توجہ کسی اور طرف چلی گئی تو علاج میں گڑبڑ ہو جائے گی۔ intention change ہو گئی۔ مثال کے طور پر کوئی عورت ایک اچھے مسلمان ڈاکٹر کے پاس آئے، اس ڈاکٹر کو پتا ہے کہ عورت ڈاکٹر موجود ہے جو اس کو اچھی treat کر سکتی ہے تو وہ اس کو مشورہ دے دے کہ آپ اس کے پاس چلی جائیں۔ یہ کام چونکہ اللہ کے لئے کیا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پہ reward دے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ عورت ڈاکٹر اتنی competent نہ ہو جتنا male competent ہے، ایسی صورت میں co-ordination ہو سکتا ہے کہ عورت ڈاکٹر اس کو دیکھ کر اپنی readings بتا دیتی ہیں اور وہ opinion male doctor سے share کر سکتے ہیں۔ یعنی There are many many things possible. I outline some of them کچھ باتوں کو میں نے discuss کیا ہے۔ اگر اس پر ڈاکٹر صاحب کچھ کام کرنا چاہتے ہیں تو
Very good, he should do his job and if he writes something, send it to us, we can share with more people if you want. But being a doctor he must know more than us because it is his field not our field. We can only guide in those areas where we can know something from our elders and from the Quran and Sunnah. Then we can guide them accordingly. But first of all he should prepare his work well, collect the data properly, analyze it and conclude it accordingly and then he can send to us all of his conclusions and then we can share with each other. I think this much is sufficient as per requirement.
سوال 3:
حضرت دو ہفتے پہلے جمعرات کو فضائل درود شریف کے بیان میں دو نعتیں سنائیں گئی تھیں ایک اردو میں تھی اور ایک پشتو میں۔ اُردو کی نعت حضرت سید عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نعت تھی جو واقعی بڑی اچھی تھی، conceptual تھی اور اس میں بہت ساری چیزیں clear ہو گئیں تھیں۔ حضرت! اکثر اوقات انسان تنہائی میں ہوتا ہے اور پڑھنے سننے سے دماغی تھکاوٹ ہو جاتی ہے۔ اس حالت کے لئے نعت سننا بڑا مفید ہوتا ہے۔ وہ بھی جب با عمل لوگوں کی نعتیں ہوں، جن کے دلوں سے آواز نکلتی ہے۔ صرف گنگناہٹ نہیں ہوتی جیسا کہ آج کل لوگ اوپر اوپر سے ترنم کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ اگر website پر ایسی نعتوں کا علیحدہ کالم ممکن ہو تو بہت مفید ہو گا۔ دوسرا میں آپ سے ایسی کتاب کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جس کے پڑھنے سے دماغ کی تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہو اور اس کے پڑھنے سے کسی گناہ کا خیال بھی نہ آتا ہو۔
جواب:
تیرا نظارہ کیسے ہو اے جان تمنا
ادھر اشکوں کا جھالر ہے ادھر روضے کی جالی
یہ نعت غالباً سید شاہ عطا اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ہے۔ واقعی بہت پیاری نعت ہے۔ البتہ جتنی اونچی نیت ہو گی اتنا زیادہ ثواب ہو گا۔ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔“
اگر میری نیت صرف یہ ہو کہ نعتیں سن کر میرے دماغ کو راحت اور سکون ملے گا تو یہ 5000 روپے کے نوٹ پر چائے پکانے والی بات ہے۔ چائے تو پک جائے گی لیکن 5000 کا نوٹ بھی ضائع ہو جائے گا۔ دماغ کو سکون پہنچانا اچھی بات ہے، اس perspective میں یہ بات صحیح ہے کہ جو لوگ خدا نخواستہ دماغ کو سکون پہنچانے کے لئے نا جائز ذریعہ استعمال کریں مثلاً گانے وغیرہ سنتے ہوں تو اس سے یہی بہتر ہے کہ نعت سن لیں کیونکہ گناہ سے بچنے کا یہ ذریعہ بن رہا ہے۔ لیکن یہ یوں سمجھ لیجیے کہ منفی سے بچ کے زیرو پہ آنے والی بات ہو گئی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے کمرے میں روشن دان بنایا ہوا ہے۔ پوچھا: کیوں بنایا ہے؟ عرض کی: اس سے ہوا اور روشنی آتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ہوا اور روشنی تو آ ہی رہی تھی لیکن اگر تو یہ نیت کر لیتا کہ اس سے اذان کی آواز آتی ہے تو اس کا ثواب مل جاتا۔ معلوم ہوا نعت سے ذہنی سکون تو حاصل کریں لیکن نیت ہماری یہ ہو کہ آپ ﷺ کے مقام کو جاننے کے لئے، آپ ﷺ کی محبت کو پیدا کرنے کے لئے، آپ ﷺ کے ساتھ اپنے دلی تعلق کو پیدا کرنے کے لئے میں نعت سن رہا ہوں۔ آپ ﷺ کی محبت ہمارے لئے ایمان کا حصہ ہے۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا: "لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰی أَكُون أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاس أَجْمَعِينَ" چنانچہ ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک آپ ﷺ کی محبت نہ آتی ہو۔ اس کو پورا کرنے کے لئے اگر کوئی نعت سنے تو بہت اُونچا مقام ہے۔ اس کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ محبت کی وجہ سے نعت سننا، محبت کو پیدا کرنے کے لئے نعت سننا دونوں چیزیں ممکن ہیں۔ کسی کو پہلے سے محبت ہے اور اس کا دل چاہے کہ میں آپ ﷺ کی تعریف سنوں تو یہ بھی بہت اچھا ہے۔
حاجی محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نعت کا ایک شعر ہے کہ:
ہفت اقلیم کے خراج پر میرا قلم نہ چلے
اگر یہ تیری تعریف لکھنے سے ہٹا کر اس کو کرنا ہو
واقعتاً دنیا کی تمام چیزوں کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔ آپ ﷺ ہی کے لئے سب کچھ پیدا کیا گیا ہے۔ معلوم ہوا نعت سننے میں نیت یہ ہونی چاہیے۔ دماغی سکون والی نیت کافی کمزور ہے۔ میرے خیال میں نا سمجھی کی بات ہے۔ اگر اس کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور آپ ﷺ کی محبت کی وجہ سے سنا جائے تو یہی اس کا اصل ہے، باقی فوائد اس کے ساتھ خود بخود آ جائیں گے۔
اور آپ جو ایسی کتاب کے بارے میں پوچھنا چاہتے ہیں جس کے پڑھنے سے دماغی تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے اور اس کے پڑھنے سے کوئی گناہ کی بات بھی نہ ہو تو میرا اپنا خیال یہ ہے کہ بہت ساری باتیں ایسی ہو سکتی ہیں لیکن یہ Man to man vary کرتی ہیں۔ بعض لوگوں کو بعض چیزوں سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے بعض کو نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہم سب کو کسی خاص بات پہ نہیں لا سکتے۔ عموماً یہی دیکھا جائے کہ Available books میں جو دل چسپ کتابیں ہیں، جن کی طرف دل خود بخود متوجہ ہوتا ہو اور وہ پڑھنا جائز بھی ہو تو بس ٹھیک ہے۔ ہر انسان اپنے اپنے مزاج کے مطابق دیکھ لے کہ میں کس چیز کو زیادہ چاہتا ہوں جو مجھے اس سے حاصل ہو سکتی ہے۔
سوال 4:
website پر شجرہ مبارکہ کے بارے میں لکھا ہے کہ مرید اس کو اپنی دعاؤں میں بطورِ فضلیت پڑھ سکتے ہیں، لیکن وہ فارسی زبان میں ہے۔ اس کو اگر ایک بار اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھیں اور اس کے ذریعہ سے دعا کرنے کا طریقہ بتلا دیں تو بہت نوازش ہو گی۔ شکریہ۔
جواب:
یہ ایک اچھی سوچ ہے، اس کا ترجمہ ان شاء اللہ ہم کسی وقت لکھ دیں گے۔ یہ اچھی بات ہے کہ انسان اس کو سمجھ کر پڑھے۔ کوشش میری یہ ہو گی کہ ایک ایسا شجرہ بھی لکھ دیا جائے جو اردو زبان میں ہو اور مختصر ہو تو وہ زیادہ بہتر ہو گا۔ لیکن چونکہ بزرگوں کے الفاظ ہیں اس لئے ان کو ہٹانے کا دل نہیں چاہتا۔ اس وجہ سے اس کو ترجمے کے طور پہ پڑھا جائے۔
سوال 5:
حضرت! میں نے رات کو خواب میں دیکھا کوئی مجھے کہہ رہا ہے کہ تیرا قلب جاری ہو گیا ہے حالانکہ پچھلے پورے ماہ سے مجھ سے ذکر نہیں ہو رہا، بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہوں، لاکھوں مرتبہ توبہ کر چکا ہوں مگر پھر بھی گناہ ہو جاتا ہے۔ ذکر کی توفیق چھن جاتی ہے۔ گناہوں سے مستقل چھٹکارا کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟ خصوصی توجہ کا محتاج۔
جواب:
خواب ایک ثانوی چیز ہے۔ بہت دفعہ انسان کو خواب اپنے تخیل کی وجہ سے بھی آ سکتا ہے، اس لئے اس کی اتنی اہمیت نہیں ہے۔ البتہ بعد والی بات کی اہمیت زیادہ ہے کہ کئی ماہ سے ذکر نہیں ہو رہا اور بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہوں۔ ذکر نہیں ہو رہا، اس کو میں نہیں سمجھ پا رہا؟ اگر ذکر کو دوائی کے طور پر سمجھا جائے تو دوائی کبھی بھی طبیعت کو نہیں بھاتی۔ آدمی کبھی بھی دوائی کو پینا نہیں چاہتا، کھانا نہیں چاہتا۔ ڈاکٹر و chemist حضرات اور pharmaceuticals کمپنیاں یہ سب کوشش کرتے ہیں کہ دوائی کو زیادہ سے زیادہ tasty بنایا جائے، زیادہ سے زیادہ آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔ جیسے بچوں کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی limitations ہیں، کچھ دوائیاں پھر بھی ایسی ہوتی ہیں جو ناک بند کر کے کھائی جاتی ہیں یا پی جاتی ہیں۔ بعض کو زبردستی بھی دی جاتی ہیں۔ بچہ روتا بھی ہے پھر بھی دی جاتی ہیں۔ چنانچہ یہ سمجھنا کہ مجھے جب ذکر کرنے کا شوق ہو گا تب میں ذکر کروں گا This perspective is entirely wrong۔ یہ بات ہی غلط ہے۔ اگر کسی کی یہ سوچ ہے تو شاید اس کا علاج کبھی بھی نہ ہو سکے۔ کیونکہ وہ علاج کی philosophy کو نہیں جانتا، اس کو اپنے علاج کی اہمیت کا احساس ہی نہیں ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ساری چیزیں مجھے تیار بنا کے پلیٹ میں سجا کر دے دی جائیں حالانکہ یہ ممکن نہیں۔ ہم اللہ کے محتاج ہیں، اللہ ہمارا محتاج نہیں ہے۔ ذکر کرو اگر اثر نہ ہو رہا ہو تو بتاؤ۔ ذکر نہیں ہو رہا کا سوال ہمارے ساتھ کرنا جائز ہی نہیں ہے۔ اس کا علاج ہم نہیں بتا سکتے۔ کوئی کہتا ہے: مجھ سے دوائی نہیں کھائی جا رہی تو ڈاکٹر اس کا کیا کرے گا؟ کہے گا: جاؤ پھر مرضی ہے مرنا ہے تو مر جاؤ۔ ذکر کو اہمیت دو پھر آپ کو فائدہ ہو گا۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہارا علاج ہو جائے تو ذکر روزانہ کرنا پڑے گا اور اپنے وقت پہ کرنا پڑے گا۔ یہ کوئی گپ نہیں ہے جو آپ نے گپ سمجھی ہوئی ہے۔ علاج تمہاری مرضی کے مطابق نہیں ہو گا۔ یہ صرف میں نہیں کہہ رہا بلکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی فرماتے تھے کہ میں لا علاج بیماروں کا علاج نہیں کر سکتا۔ جو کوئی اس قسم کی باتیں کرتا ہے وہ لا علاج ہے۔ اس کو خود اس بات پہ اپنے آپ کو convince کرنا پڑے گا کہ مجھے ذکر کرنا ہے، جو نہیں کرتا وہ ہمارا ذمہ نہیں ہے۔ ذکر کرنا پڑے گا ورنہ بھگتنا پڑے گا۔ دوسری بات کہ بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہوں، بارہا توبہ کر چکا ہوں۔ اس کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی جواب دیا تھا۔ کسی نے ان سے کہا کہ حضرت میری آنکھ اُٹھ ہی جاتی ہے، میں کیا کروں؟ فرمایا: اگر تمہاری آنکھ اُٹھ ہی جاتی ہے تو پھر تم لا علاج ہو۔ فرمایا: اگر اس کا والد جس کو تم دیکھ رہے ہو یا تمہارا والد تمہیں دیکھ رہا ہو پھر بھی اُٹھے گی؟ انہوں نے کہا: پھر نہیں اُٹھے گی۔ فرمایا: اللہ پاک تمہارے والد اور اس کے والد سے زیادہ بڑا نہیں ہے؟ اس کا خیال کیوں نہیں کرتے؟ تو ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھ کر کام کرو، اپنی قوت ارادی کو مضبوط کرو۔ office جاتے ہو تو اپنی قوت ارادی سے جاتے ہو۔ کس کا دل چاہتا ہے office جانے کو؟ جب انسان بیمار ہو جاتا ہے اور ہسپتال جاتا ہے تو جتنے test لائنوں میں لگ کر کرانے پڑتے ہیں مجبوراً سب کرواتا ہے۔ ان ساری چیزوں کو جانو اور آئندہ میں ایسی بات نہ سنوں۔ اگر اپنا علاج نہیں کروانا چاہتے تو مجھے بتاؤ کہ میں نہیں کروانا چاہتا۔ کروانا چاہتے ہو تو ایسا کرو جیسے میں بتا رہا ہوں۔ ذکر کرنا پڑے گا اور اپنی نظر کو روکنا پڑے گا۔ نظر کو روکنا پرہیز ہے اور ذکر کرنا دوا ہے۔ کوئی آدمی کہتا ہے: مجھے فلاں چیز کھانے کا بڑا جی چاہتا ہے جو ڈاکٹر نے اس کو منع کی ہو لیکن وہ پھر بھی کھا لے تو ڈاکٹر کہے گا: اپنی مرضی کرو، جو تمہارے ساتھ ہونا ہو گا ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ میں آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی بنیاد پر surety دے سکتا ہوں۔ کچھ عرصہ ہماری بات مانو تو یہ ساری باتیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی لیکن ابتدا ہی سے اگر تم نے ہتھیار ڈال دیئے تو پھر سارا کچھ خراب ہو جائے گا۔ بہر حال میرے خیال میں خصوصی توجہ آپ کو دے دی ہے جیسے آپ نے کہا۔ یہی خصوصی توجہ ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنا فائدہ چاہتے ہو تو امید ہے ان شاء اللہ فائدہ ہو جائے گا۔
سوال 6:
ایک بچی کا Email ہے۔ معمولات کا چارٹ بھیجا ہے، اس میں فرض نمازوں میں 50 percent سے زیادہ missing ہیں اور مراقبہ بھی نہیں کر رہی، تسبیحات بھی نہیں کر رہی۔
جواب:
میرے خیال میں گزشتہ والا جواب اس پر بھی fit ہو گا۔ مراقبہ دوائی ہے جیسے ان کے لئے ذکر تھا۔ اگر کوئی اپنا علاج نہیں کرنا چاہتا تو ہم صرف معذرت ہی کریں گے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بہتر معاملہ کرے کیونکہ دعا تو سب مسلمانوں کے لئے کرنی چاہیے۔ لیکن ان کے علاج سے معذوری ہے، ہم علاج نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے پاس چف چف نہیں ہے کہ ادھر سے چف کریں اور ادھر وہ ٹھیک ہو جائے۔ چنانچہ میں اس بچی سے بھی کہوں گا کہ ابھی جو بتایا گیا ہے اس کو اپنے لئے بھی سمجھے۔ وہاں بد نظری کا معاملہ تھا اور یہاں کم ہمتی اور فرائض سے رو گردانی کا مسئلہ ہے۔ فرض کو چھوڑنا بھی حرام ہے اور بد نظری بھی حرام ہے۔ اس لحاظ سے دونوں ایک ہی بات ہوئی۔ نتیجہ دونوں کا ایک ہے اور مرض بھی ایک ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور پہلے والے کو بھی اور ہمیں بھی۔ میں یہ توقع کروں گا ان شاء اللہ ان کا اگلا Email ایسا نہ ہو جیسا موجودہ ہے۔
سوال 7:
السلام علیکم۔ بعد تسلیم بصد تعظیم عرض ہے کہ میں معمولات کا چارٹ ہر مہینے بنانا شروع کرتی ہوں لیکن سستی کی وجہ سے ہمیشہ آخری دنوں میں چارٹ fill نہیں کرتی۔ فروری میں تو میں نے چارٹ بنانا شروع ہی نہیں کیا۔ حضرت جی آپ کے تقریباً ہر بیان میں معمولات کے چارٹ کو پُر کرنے پر زور ہوتا ہے لیکن مجھ سے اس معاملہ میں کافی کوتاہی ہو جاتی ہے۔ آج مارچ کا آغاز ہوتے ہی چارٹ نکال کر fill تو کر دیا ہے اب اللہ پاک استقامت عطا فرمائے۔ حضرت جی ایک اور مسئلہ میری زبان کا ہے۔ بے موقع بات کر جاتی ہوں۔ آج صبح سے میری وجہ سے چار بار فساد ہوا ہے۔ یعنی میں نے بات شروع کی اور کرنے کے ساتھ غلطی کا احساس ہوا تو چھوڑ دی لیکن باقی گھر والے اس بات پر لڑتے رہے۔ حضرت جی اپنے آپ سے بہت تنگ آئی ہوئی ہوں اور دعا بھی کرتی ہوں کہ اللہ پاک اپنی مخلوق کو میرے شر سے اپنی پناہ میں لے لے۔ ایک عرصے سے مجھ پہ یہ حالت طاری ہے لیکن مارے شرمندگی کے میں نے اطلاع نہیں کی۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کوئی حالت ہے۔ میں نے جب قبض پر 27 فروری 2013 کا بیان سنا تو اس کے آخر میں حضرت نے سلب توفیق کے بارے میں بات کی ہے۔ سلب توفیق کا Indication تہجد کی نماز بتایا ہے جو میرے معمولات میں شامل نہیں ہے۔ اگر رات کو دیر سے سوؤں تو پڑھ لیتی ہوں لیکن خصوصی طور پر اس کے لئے نہیں جاگتی۔ لیکن دو یا تین مہینوں سے زیادہ ہو رہا ہے کہ رات کو کالج کے کام کے بعد کبھی پوری رات یا آدھی رات تک جاگنا پڑتا ہے، اس دوران تہجد کی نماز نہیں پڑھتی تھی۔ معمولات کا چارٹ fill کر کے بھیجنا چھوڑ دیا ہے کہ اس میں نماز اور تلاوت قرآن پاک کے علاوہ نفل کے اندر کچھ بچا ہی نہیں تھا۔ 1000 درود پاک کا معمول بھی مکمل نہیں ہوتا تھا۔ مراقبہ دو دو، تین تین دن بعد تک نہیں کرتی تھی۔ مناجاتِ مقبول، چہل درود شریف بھی رہ جاتا تھا۔ ہر مہینے چارٹ نکال کر fill کرنے کے لئے دو، تین دن یا ہفتہ بھر کے چھوڑ دیتی کیونکہ معمولات مکمل ہی نہیں ہوتے تھے۔ شرمندگی کی وجہ سے بتا بھی نہیں پاتی تھی کہ جب حضرت جی focus ہی ایک چیز پر کرتے ہیں اس پہ میں عمل نہیں کرتی ہوں۔ اس میں شاید اعتکاف کے آداب کا خیال نہ رکھنا شامل ہے کہ اعتکاف کے دنوں میں مکمل طور پر خلوت نہیں رہتی تھی۔ گھر والے آئے تو غیر ضروری باتوں سے بھی اجتناب نہیں کرتی۔ ایک بار اپنے پردے کو cash کرنے کی بھی کوشش کی، مثلاً ایک بار ایک لڑکی اپنے class-fellows کو بتا رہی تھی کہ فلاں اس طرح پردہ کرتی ہے اور فلاں اُس طرح پردہ کرتی ہے۔ میں حیران ہو جاتی کہ اتنی باریک سی line سے وہ کیسے دیکھ لیتی ہیں؟ میں نے کہا: میں بھی اس طرح کرتی ہوں کہ آنکھیں نظر نہیں آتیں لیکن دیکھ لیتی ہوں۔ مقصد تعریف کی چاہت تھی۔ اب تو صرف 20 یا 21 دن ہی معمولات کی ادائیگی کے ساتھ گزرے ہیں مگر نماز خالی ہے روح سے، مراقبہ خالی ہے فکر و دھیان سے۔ اب میں کیا کروں کچھ سمجھ نہیں آتا۔ یہ دعا کرتے ہوئے بھی انتہائی شرمندگی ہوتی ہے کہ اللہ مجھ سے راضی ہو جا۔ میں تو بس کہتی ہوں کہ اے اللہ مجھے معاف فرما دے، میری خطائیں معاف کر دیجئے۔ قبض تو اس صورت میں ہوتا کہ دل نہ چاہتے ہوئے معمولات کروں۔ میرا معاملہ الٹ ہے، دل نہیں چاہتا تو بتکلف نہیں کر پاتی۔ ظہر کی نماز کا روز ایک حال ہے کہ کالج سے آتے ہی سو جاتی ہوں اور عصر سے بیس پچیس منٹ پہلے جاگ کر پڑھ لیتی ہوں۔ سجدہ تلاوت پہلے ساتھ ساتھ کرتی تھی اب بہت سارے سجدے واجب ہو گئے ہیں اور گنتی میں بھی نہیں ہیں۔ اشراق اور چاشت کا اہتمام بھی چھوٹ گیا۔ صرف اوابین کی پابندی ہے۔ دنیا میں دل پھنس چکا ہے۔ جب کبھی دنیا کے کاموں میں یعنی گھر والوں کے لئے کوئی اچھی سی چیز بناتی ہوں تو time گزرتا چلا جاتا ہے اور معمولات رہ جاتے ہیں۔ دنیا کے کاموں کو ضروری جانتی ہوں۔ حضرت جی خلاصہ یہ ہے کہ انتہائی برے حالات ہیں، مجھ کو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔
جواب:
اس میں دو باتیں ہیں ایک یہ ہے کہ اس بچی کو الحمد للہ اپنی بہتری کی کافی فکر ہے۔ یہ ایک positive بات ہے کہ اس نے خود جن چیزوں کی گرفت کی ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کو فکر ہے۔ فکر سے اللہ تعالیٰ بھی راستے دے دیتے ہیں۔ اس پر میں ما شاء اللہ اس کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اللہ پاک نے اس کو یہ اچھی چیز نصیب فرمائی ہے۔ لیکن صرف احساس اور فکر کافی نہیں ہوتا بلکہ فکر کا نتیجہ بھی مناسب ہونا چاہیے۔ مثلاً مراقبہ میں سستی ہے تو اب الحمد للہ شروع کر لیا ہے۔ اس نے یہ بات سمجھ لی ہے کہ یہ علاج ہے۔ اگر یہ فکر ہو جائے کہ میں بیمار ہوں اور بیماری کا ہی خیال ہونے لگے کہ میں بیمار ہوں، میں بیمار ہوں اور علاج کی طرف توجہ نہ دے تو اس کو ہم depression کہیں گے۔ لیکن اگر علاج کی طرف توجہ کی اور علاج کرنا شروع کر دیا تو یہ ایک مثبت سوچ ہے۔ یعنی توقع کی جا سکتی ہے کہ ان شاء اللہ بیماری دور ہو جائے گی۔ اس وجہ سے اس کا صرف یہ کہنا کافی نہیں ہے کہ میں فلاں فلاں کام کر نہیں رہی بلکہ اس کے ساتھ مزید یہ ہونا چاہیے کہ اس کے لئے دوائی کے طور پہ جو چیزیں ہیں آیا وہ ان چیزوں کو استعمال کرتی ہے کہ نہیں کرتی؟ اس کی اطلاع دینا اس صورت میں ہو سکتا تھا کہ میں نے فلاں دوائی استعمال کی لیکن فلاں مسئلہ اب بھی ہے۔ اس صورت میں ڈاکٹر اپنی دوائی کو change کرتا ہے یا اس کو مناسب انداز میں بتا دیتا ہے کہ اس کو کوئی فائدہ اس لئے نہیں ہو رہا ہے کہ اس کے ساتھ وہ compatible نہیں ہے۔ لیکن جب دوائی استعمال نہ ہو تو پھر ڈاکٹر صرف ایک ہی بات کرے گا کہ آپ دوائی وقت پہ استعمال کر لیں اور اس میں سستی نہ کریں کیونکہ دوائی میں سستی کرنے کی وجہ سے بعض دفعہ مرض لا علاج ہو جاتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ انسان کے اندر کچھ چیزیں built in ایسی آ جاتی ہیں جن سے نقصان ہوتا ہے، جیسے ڈھیٹ پن، پھر آدمی دور ہوتا جاتا ہے۔ ابھی چونکہ اس کو فکر ہے تو ابھی مرض لا علاج نہیں ہوا لیکن بیماری کے علاج کے لئے جو بتایا گیا ہے اس کو با قاعدگی کے ساتھ کر لے۔ پھر دوسری 2 چیزیں ہیں، ایک غذائی ذکر مثلاً نوافل، تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار اور مناجات مقبول۔ کیونکہ یہ سب مثبت تبدیلی لاتے ہیں۔ لیکن بیماری کا علاج، علاجی ذکر میں ہے۔ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ جب علاجی ذکر اور غذائی ذکر میں تقابل آ جائے تو علاجی کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ معلوم ہوا علاجی اور غذائی دونوں ذکر کرنے پڑتے ہیں، اس سے انسان نہیں بچ سکتا۔ جیسے کوئی کھانا نہ کھائے تو آخر میں نتیجہ کیا ہو گا؟ بعض دفعہ دوائی نہ کھائے تو آدمی resistant ہو جاتا ہے۔ جیسے antibiotic دوائی کھانے کی بہر حال ایک اہمیت ہے۔ اس وجہ سے دوائی کھانی چاہیے اور غذائی ذکر میں ہمت کا کام کرنا چاہیے۔
اب میں لب لباب عرض کروں گا کہ اول تو یہ بات ہے کہ جو دوائی بتائی گئی مثلاً مراقبہ اور چارٹ کا fill کرنا یہ تو Top priority پہ ہے۔ اس کو تو کسی حالت میں نہیں چھوڑ سکتے۔ اس کو اگر چھوڑ دیا تو اپنے ساتھ خود ہی زیادتی کر رہی ہوں گی۔ دوسری بات فرائض اور واجبات کو کسی حالت میں بھی نہیں چھوڑ سکتیں۔ جہاں تک نوافل کی بات ہے تو ہمارے ہاں نوافل پہ زور ہے لیکن فرائض و واجبات سے زیادہ نہیں۔ پس اگر نوافل کی وجہ سے فرائض خطرے میں پڑ جایئں تو پھر نوافل مؤخر کئے جا سکتے ہیں۔ جیسے کوئی شخص رات زیادہ دیر جاگے اور صبح فرض کی نماز ہی رہ جائے تو اس کو ہم کہیں گے جلدی سو جاؤ۔ جیسے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا۔ پھر اس کے لئے جلدی سونا ضروری ہے۔ البتہ اگر کسی اور کام کے لئے وہ جاگ ہی رہا ہے تو پھر اتنا مشکل نہیں ہے۔ وہ سونے سے پہلے چند رکعت پڑھ لے تو اس کا بہت فائدہ ہے۔ باقی نوافل پے جتنا عمل ہو سکے تو بہت بڑی بات ہے کیونکہ مثبت تبدیلی لانے کے لئے ساری چیزیں ضروری ہیں۔ لیکن منفی سے بچنے کے لئے کم از کم فرائض اور واجبات پورے ہوں اور مراقبہ وغیرہ کا چارٹ بھی پورا با قاعدگی کے ساتھ fill کرے۔ کافی ساری چیزیں خود سمجھ گئی ہیں لیکن پھر بھی کہوں گا کہ ”تصوف کا خلاصہ“ کتاب ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں تاکہ concepts میں مناسب corrections ہو جائیں، ان شاء اللہ پھر ایسی غلطی نہیں ہو گی۔
وَ مَا عَلَيْنَآ إلَّا البَلَاَغُ