اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
معمولات میں کبھی کبھی ناغہ ہو جاتا ہے، یہ کس وجہ سے ہوتا ہے؟ بظاہر تو یہ وجہ ہوتی ہے کہ یاد نہیں رہا، آنکھ نہیں کھلی، الارم نہیں بجا۔ مگر اس کا background کیا ہے۔
جواب:
اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک وجہ انسان کی ذات سے متعلق ہوتی ہے اور ایک خارجی ہوتی ہے۔ ذات سے متعلق بات یہ ہوتی ہے کہ انسان جب ایک چیز کو ترجیح دیتا ہے تو اس کے لئے وہ تمام طریقے اختیار کر لئے جاتے ہیں جو ناغے سے بچنے کے لئے ہوتے ہیں۔ مثلاً کسی کی ملازمت ہے جس کے لئے اسے چار بجے اٹھنا ہوتا ہے، تو چاہے کوئی بھی موسم ہو، چاہے کیسا وقت ہو، وہ چار بجے اٹھنے کا انتظام کر ہی لیتا ہے۔ کیونکہ اس کے ہاں اس کی اہمیت ہے۔ لہذا محفوظ ہونے کے لئے جتنی بھی صورتیں ہو سکتی ہیں انہیں وہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تو انسان کی اپنی بات ہے۔ خارجی سبب یہ ہے کہ چونکہ معمولات انسان کی اصلاح کے لئے ہیں اور شیطان اصلاح کا دشمن ہے لہذا وہ کبھی بھی ان معمولات کو آسانی سے نہیں ہونے دیتا، اس کے لئے وہ مختلف قسم کی چیزوں کو بڑھا چڑھا کے لائے گا تاکہ اس سے یہ معمولات پورے نہ ہو سکیں۔ پہلے معمولات میں ناغہ کرائے گا پھر بعد میں کہے گا کہ اب اطلاع کیسے دیں؟ شرم کی وجہ سے وہ بتاتا نہیں ہے، آہستہ آہستہ وہ کترانا شروع کر دے گا حتیٰ کہ بعض دفعہ بالکل ہی منقطع کرا دیتا ہے۔ یہ شیطان کی پلاننگ ہوتی ہے۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو چاہے شیطان کی وجہ سے ہو، چاہے اپنی وجہ سے ہو، اس کا علاج یہ ہے کہ انسان اس کو اولین ترجیح پہ رکھے کہ میری روحانی زندگی کا مستقبل اس پر منحصر ہے، ظاہر ہے روحانیت سے جسم کے تقاضے بھی متاثر ہوتے ہیں، لہذا باقی چیزیں بھی اسی پر منحصر ہوں گی۔ اس لئے ہر حال میں اس کو پورا کرنا ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ اور اس کے لئے جو ذرائع ہو سکتے ہیں ان کو اختیار کر سکتے ہیں۔ مثلاً کسی کو کہہ دیں کہ مجھے بتائیں۔ اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ ہو کہ ایک دوسرے کو اٹھایا جائے، ایک دوسرے کو بتایا جائے، ایک دوسرے سے پوچھا جائے۔ چنانچہ اس طریقے سے ایک دوسرے کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اگر ایک سست ہے تو دوسرا اس کے ساتھ چست ہو جائے۔ اور جب بھی ناغہ ہو تو فوراً اطلاع کرنی چاہئے تاکہ درمیان میں فاصلہ بڑھنے والی بات کم از کم نہ ہو سکے۔ ورنہ پھر آہستہ آہستہ بالکل ہی سب سسٹم ختم ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر 2:
اصول یہ ہے کہ اپنے شیخ سے معمولات پوچھنے چاہئیں۔ کسی پیر بھائی سے یا سلسلہ کے کسی اور ساتھی سے معمولات پوچھنا کیسا ہے؟ یا ہم سے کوئی معمولات پوچھے تو کیا بتایا جا سکتا ہے؟
جواب:
معمولات پوچھنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ کیونکہ معمولات ایک خاص اور انفرادی چیز ہے جس کا تعلق صرف اس کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے جس کے وہ مرید ہیں اور معمولات شیخ کی طرف سے بتائے جاتے ہیں اور شیخ کے ساتھ وہ متعلق ہیں۔ لہذا اپنے احوال اور معمولات بھی صرف شیخ کو بتائے جائیں، کسی اور کو اپنے معمولات نہ بتائے جائیں، نہ کسی سے ان کے معمولات پوچھے جائیں۔ کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ جیسے عام لوگوں کا خیال ہے کہ ایک علاج اگر کسی کے لئے ٹھیک ہو گیا تو دوسروں کو بھی بتاتے ہیں کہ مجھے یہ مسئلہ ہو گیا تھا میں اس چیز سے ٹھیک ہو گیا تھا۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، اس میں بہت ساری تفصیلات ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک دفعہ میں Dwatson کیمسٹ کے پاس کھڑا ہوا تھا، کوئی شخص آیا کہ مجھے کھانسی کا شربت دو، اس نے ایک شربت اس کو پکڑا دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ کو پتا ہے کہ اس کو کون سی کھانسی ہے؟ کم از کم تین قسم کی کھانسیاں میں جانتا ہوں، میں ڈاکٹر نہیں ہوں لیکن ہر کھانسی دوسری سے مختلف ہے اور اس کا علاج بھی مختلف ہے اور ایک کا علاج دوسری کے لئے نقصان دہ ہے، آپ کو کیا پتا کہ اس کو کون سی کھانسی ہے؟ اس طرح تو آپ نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر آپ کو پتا ہوتا کہ اسے فلاں کھانسی ہے تو پھر دے دیتے۔ حالانکہ اس میں بھی تفصیلات ہوتی ہیں کیونکہ ایک ہی کھانسی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ بہت ساری اور چیزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ مثلاً کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کوئی اور دوائی کھا رہا ہو اور اس کے ساتھ تضاد ہو یا کوئی اور مسئلہ ہو۔ لہذا اس میں بہت تفصیلات ہوتی ہیں، یہ عوام کی بات نہیں ہوتی۔ چنانچہ جس طرح میڈیکل لائن عوام کی بات نہیں ہے اسی طرح روحانی لائن بھی عوام کی بات نہیں ہے۔ ایک تو اگر آپ دوسرے کو معمولات بتائیں گے تو ممکن ہے اس کو غلطی ہو جائے، ممکن ہے وہ اپنے معمولات کو کم سمجھے اور اپنے معمولات کو اس سے متاثر کر دے۔ اس لئے کسی کو اپنے معمولات بتائے نہ جائیں اور کسی سے اس کے معمولات پوچھے نہ جائیں۔ یہ ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے اور اس کا اپنے شیخ کے ساتھ تعلق ہے کسی اور کے ساتھ تعلق نہیں ہے اور یقیناً شیخ سے اس کے معمولات پوچھنا بے ادبی ہے، کیونکہ شیخ کا کام الگ ہے اور اس کے معمولات اس کے احوال کے حساب سے ہوتے ہیں۔ اس لئے اس سے آپ کو فائدہ کیا ہو گا؟ فائدہ کچھ بھی نہیں ہو گا البتہ نقصان ہو سکتا ہے۔
سوال نمبر 3:
بعض اوقات بندہ معمولات کرتا رہتا ہے اور وہ یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ میں معمولات کر رہا ہوں لیکن وہ صحیح اصول کے مطابق نہیں کر رہا ہوتا اور یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ میں معمولات کر رہا ہوں بعد میں ان میں تبدیلی آئے گی، اس طرح وہ تبدیلی کی انتظار میں بیٹھا رہتا ہے۔ کیا وہ جیسے مرضی ذکر کرتا رہے یا اس میں اصلاح کی ضرورت ہے؟
جواب:
اپنے شیخ کو جو معمولات بتائے جاتے ہیں اس سے بھی یہی مقصد ہوتا ہے، کیونکہ معمولات کے ساتھ ساتھ اپنی کیفیت اور حالات بھی بتائے جاتے ہیں، صرف معمولات نہیں بتانے ہوتے، پھر کیفیت اور احوال سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ معمولات صحیح کر رہے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ اگر وہ معمولات صحیح نہیں کر رہا ہو گا تو شیخ کے ساتھ رابطے کی صورت میں دو تین دفعہ میں اس کی تصحیح ہو جائے گی۔ مثلاً ہم جو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کی ضرب بتاتے ہیں، اس میں ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ پر ضرب نہیں ہے، ’’اِلَّا اللہُ‘‘ پر ہے۔ اب اگر کوئی غلط سے ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ پر بھی ضرب لگا رہا ہے تو اس کے کچھ اثرات پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جب وہ احوال بتائے گا تو اس سے پتا چل جائے گا تو اس کو بتا دیا جائے گا کہ یہ ایسے نہیں ہے۔ جیسے کل مجھے کسی نے کہا کہ میں مراقبہ کرتا ہوں تو میرا دماغ تھک جاتا ہے۔ میں نے کہا: آپ چونکہ مراقبہ دماغ سے کرتے ہیں اس لئے دماغ تھکتا ہے۔ مراقبہ دماغ کی چیز ہے ہی نہیں یہ تو دل کی چیز ہے۔ پھر میں نے کہا: اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ میرے دل میں ایک زبان بن گئی ہے اور وہ اللہ اللہ کر رہی ہے اور میں سن رہا ہوں۔ تمہارا کام صرف سننے کا ہے، تمہارا کام کرنے کا نہیں ہے۔ اگر تم تصور سے کرو گے تو دماغ تھکے گا، کیونکہ تصور سے کرنا کافی مشکل کام ہوتا ہے۔ جیسے میں نے عرض کیا کہ مثلاً سورۂ فاتحہ تین طرح سے پڑھی جا سکتی ہے۔ ایک جہراً یعنی آواز سے پڑھنا۔ دوسرا لسانی طور پہ خفی پڑھنا یعنی زبان ہلتی ہے لیکن آواز نہیں آتی، عموماً انسان جو جہر پڑھتا ہے یہ اس سے تیز ہوتی ہے۔ لیکن جب زبان بھی نہ ہلے اور زبان ہلائے بغیر آپ سورۂ فاتحہ پڑھنا شروع کریں تو یہ جہر سے بھی آہستہ ہوتی ہے۔ اسی طرح تصور سے مراقبہ کرنا اچھا خاصا مشکل کام ہے۔ لہذا جب کوئی تصور یعنی سوچ سوچ کے مراقبہ کر رہا ہوتا ہے تو اس میں مشکلات ہوتی ہیں، ذہن تھکتا ہے۔ بہرحال اس طرح اگر اپنے شیخ کو بتا دیا جائے تو اس سے پتا چل جاتا ہے کہ کون سی چیز وہ غلط کر رہا ہے، یوں اس سے معلومات ہو جاتی ہیں۔
سوال نمبر 4:
اگر بغیر اجازت کے اپنی طرف سے ذکر اذکار کرتے رہیں تو اس سے بھی نقصان ہوتا ہے؟
جواب:
ذکر دو قسم کا ہے۔ ایک وہ ذکر جو انسان اجر کے لئے کرتا ہے، اس کا نقصان نہیں ہوتا۔ مثلاً آپ قرآن شریف جتنا مرضی تلاوت کر لیں، پوچھ کے کر لیں پوچھے بغیر کر لیں، اس سے اگر آپ کا کوئی واجب عمل نہیں چھوٹ رہا تو کوئی نقصان نہیں ہے۔ مثلاً جماعت ہو رہی ہو اور آپ کہتے ہیں کہ میں نے تو قرآن پاک کی تلاوت مکمل کرنی ہے اور جماعت چھوڑ دیں تو اس کا نقصان ہو گا۔ یا آپ کی ڈیوٹی کا حرج ہو رہا ہے، کیونکہ آپ نے اس کے پیسے لئے ہوئے ہیں تو وہ پھر جرم بن جائے گا۔ اس طرح اگر آپ کا کسی واجب کا نقصان نہیں ہوتا تو قرآن پاک کی تلاوت میں کوئی نقصان نہیں۔ یا ’’سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ‘‘ ہے یا درود شریف ہے یا استغفار ہے، یہ سارے اذکار اجر کے لئے کئے جاتے ہیں لہذا یہ بغیر پوچھے بھی کئے جا سکتے ہیں، البتہ پوچھ کے کئے جائیں تو برکت زیادہ ہوتی ہے اور ان میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر آپ بغیر پوچھے کریں گے تو اس سے نقصان نہیں ہو گا جب تک کہ اس سے آپ کا کوئی واجب متاثر نہ ہو رہا ہو۔ لیکن علاجی ذکر بغیر پوچھے بالکل نہیں کرنا چاہئے، چاہے وہ کتاب سے لیا گیا ہو، چاہے وہ کسی غیر مُجاز سے پوچھ کے کیا جائے۔ یہ ایسے ہی جیسے آپ غیر ڈاکٹر سے دوائی پوچھ لیں یا ایک ڈاکٹر سے آپ کا علاج چل رہا ہو اور دوسرے ڈاکٹر سے پوچھیں گے تو اس سے بھی نقصان ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے doubling ہو جاتی ہے ڈیٹا پورا communicate نہیں ہوتا، لہذا گڑبڑ ہو جاتی ہے۔ بہرحال علاجی ذکر کا تعلق صرف اپنے شیخ کے ساتھ ہونا چاہئے اور دوسرے اذکار بھی شیخ سے پوچھے جائیں، شیخ کے بتائے ہوئے طریقے پر عمل کریں تو بہت فائدہ ہوتا ہے، اور پوچھے بغیر کرنے سے بھی فائدہ ہوتا ہے۔ البتہ ایک نقصان ضرور ہو سکتا ہے کہ اگر شیخ نے اس کو کچھ علاجی ذکر بتایا ہوا ہے اور یہ دوسرا ذکر اپنی مرضی سے کر رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ اس کا ٹائم اتنا کم ہو جائے کہ اس کا علاجی ذکر رہ جائے، اس سے اس کو نقصان ہو گا۔ کیونکہ علاجی ذکر فرض عین کے درجے میں ہے کیونکہ اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ اور یہ ثوابی ذکر مستحب ہے۔ گویا کہ اس نے مستحب کو ذریعہ بنا دیا اپنے فرضِ عین کو کم کرنے کا، جس سے مسئلہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ مسئلہ نہیں ہے تو پھر نقصان نہیں ہو گا۔
سوال نمبر 5:
خاندان میں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن سے حسد کی بنا پر یا کسی اور وجہ سے دشمنی ہو جاتی ہے پھر وہ موکلات یا جنات کے ذریعے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب:
آج کل یہ بہت بڑا مسئلہ ہے، کیونکہ آج کل حسد بہت زیادہ ہے اور خدا خوفی کم ہو گئی ہے۔ لہذا لوگ انتہائی اقدام کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، مثلاً عملیات کرنے میں اگر negative قسم کا عمل کیا جائے تو بعض دفعہ ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ لہذا ایمان تک کو لوگ داؤ پہ لگا دیتے ہیں۔ اس لئے یہ بہت خطرناک بات ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا اپنے سلسلے کے ساتھ تعلق مضبوط ہے اور اس کا خانقاہ آنا جانا ٹھیک ٹھاک ہے تو اس کی اتنی حفاظت ہوتی ہے کہ اس کو بہت زیادہ نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کیونکہ اس کے لئے اللہ پاک ذرائع پیدا فرما لیتے ہیں جس سے ان کے بچنے کا سامان ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر کوئی بالکل اکیلے ہے، ان چیزوں کے ساتھ اس کا تعلق نہیں ہے اور اس کا آنا جانا نہیں ہے تو یہ ایسے ہے جیسے کسی آدمی کی کوئی پناہ نہ ہو، کوئی مورچہ نہ ہو، تو جہاں سے بھی کوئی گولی آئے گی، وہ اس کو لگ سکتی ہے۔ وہ بالکل نمایاں ہوتا ہے۔ اس لئے اپنی حفاظت لازمی ہے۔ میں اکثر میں کہا کرتا ہوں کہ ایک تو عامل سے علاج کروانا چاہئے جو صحیح عامل جو یعنی اس کا عقیدہ کا خراب نہ ہو اور نقصان نہ پہنچائے۔ لیکن اس علاج کو محفوظ رکھنے کے لئے بھی ان چیزوں کی پھر بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ دوبارہ وہ مسئلہ نہ ہو۔ یہ چیزیں حفاظت کا سامان ہیں، جیسے بد معاشوں کے ٹولے مضبوط پارٹی پہ ہاتھ نہیں ڈالتے ہیں، ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ ہمارے اوپر بھی وار ہو سکتا ہے۔ اسی طرح جنات وغیرہ میں جو بد معاش ہوتے ہیں وہ بھی ان لوگوں پہ آسانی سے ہاتھ نہیں ڈالتے جن کی حفاظت ہوتی ہے، ان کو بہت مجبور کر کے بھیجا جائے تو علیحدہ بات ہے، لیکن عام طور پر وہ ایسے لوگوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے، کیونکہ ان کو خطرہ ہوتا ہے کہ ہم بھی درمیان میں رگڑے جا سکتے ہیں۔
سوال نمبر 6:
بعض اوقات کوئی ایسا شرعی عذر ہوتا ہے جس کے متعلق انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ مسجد نماز پڑھنے جانے کے حوالے سے یہ شرعی عذر ہے یا نہیں ہے، جیسے کوئی چھوٹی موٹی بیماری ہوتی ہے، آیا پہلے اس کو یہ بات کنفرم کرنی چاہئے کہ مجھے گھر رہنا چاہئے یا نہیں؟ دوسرا یہ کہ اس میں تقویٰ کا معیار کیا ہے کہ اگر واقعی اس کو شرعی عذر ہے تو پھر اس میں تقویٰ کا کیا ہے، اس کو جانا چاہئے یا نہیں؟
جواب:
ایک ہے تقویٰ اور دوسرا ہے فتویٰ۔ فتویٰ کے رخ سے تو یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر آپ کو بتائیں کہ آپ کو جانے میں نقصان ہے، آپ کو بیڈ ریسٹ کرنی چاہئے، یہ یہ احتیاط کرنی چاہئے، تو یہ آپ کو فتویٰ مل گیا، کیونکہ مفتی حضرات فتویٰ دیتے ہیں کہ اگر کسی کو صحیح ڈاکٹر کوئی پرہیز بتائیں تو اس پر آپ عمل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ باقی چیزوں کے لئے تو آتا جاتا ہے ڈاکٹر کی ہدایات کو صرف دینی معاملات کے لئے استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہانہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
جہاں تک تقویٰ کی بات ہے، میرے خیال میں تقویٰ بالکل دوسری چیز ہے، تقوٰی والے لوگوں کو سمجھانا پڑتا کہ آرام کر لیں، لیکن وہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میری فلاں چیز رہ جائے گی، فلاں چیز رہ جائے گی۔ لہذا ان کو سمجھا کر کسی کام سے روکنا پڑتا ہے۔
سوال نمبر 7:
آپ کے سلاسل میں ایک سلسلہ سہروردیہ ہے اس کے بارے میں تھوڑی سی معلومات دے دیں۔
جواب:
اصل میں سارے سلسلہ آپ ﷺ سے ہی آ رہے ہیں اور پھر آپ ﷺ کے صحابہ کرامؓ کے ذریعے سے۔ جن میں مرکزی شخصیت حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں یعنی اکثر سلسلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے چلے ہیں۔ اسی طرح شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک سلسلے میں آتے ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہمارے بڑے حضرات میں سے کچھ حضرات ایسے بھی ہیں کہ ان تک جو سلاسل پہنچے تھے اس وقت انہوں نے اجتہادی ذریعہ سے اصلاح کے کچھ نئے طریقے ایجاد کئے اور وہ اس سلسلہ کا ایک امتیاز بن گئے، وہ لوگ اس پہ چلتے رہے، ان سلسلوں کے جو بڑے تھے ان کے نام سے وہ سلسلے مشہور ہو گئے۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی ایک طریقہ کے بانی تھے، اسی طرح شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے مُجاز بھی تھے اور ان کا اپنا بھی ایک سلسلہ تھا اور یہ سلسلہ بر صغیر میں غالباً حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ حضرت جلال الدین سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، ان دو بزرگوں کے ذریعے سے آیا ہے۔ شیخ جلال سرخ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اوچ شریف میں تھے اور حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ ملتان میں تھے، یہ تقریباً ہم عصر بھی ہیں۔ بغداد سے ان کی تربیت ہوئی تھی۔ شیخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کا علاقہ ماوراء النہر ہے۔ آگے جا کر یہ باقی سلسلوں کے ساتھ ضم ہو گیا، اب یہ بہت نایاب ہے۔ اس لئے اب ضرورت ہے کہ اس کو ایک علیحدہ سلسلہ کے طور پر پہچانا جائے۔ ہمارا بھی سہرودری سلسلہ ہے، لیکن یہ ملاوٹ زدہ ہے، بالکل خالص سہرودری سلسلہ شاید آج کل بہت ہی کم موجود ہے۔ البتہ اس کا رنگ ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو ہمارے جد امجد ہیں ان پہ ان کے والد صاحب کی وجہ سے سہروردی رنگ تھا، ان کے والد صاحب بہادر بابا رحمۃ اللہ علیہ سہروردی سلسلہ کے تھے، لیکن ان کے والد صاحب مست بابا رحمۃ اللہ علیہ چشتی تھے۔ تو یہ رنگ ہوتے ہیں اور یہ رنگ بعض لوگوں پہ ابھی بھی ہیں۔ جیسے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ چاروں سلسلوں کے تھے، لیکن ان پہ چشیت کا رنگ غالب تھا۔ بعض میں نقشبندیت کا غالب ہوتا ہے جیسے مولانا خلیل احمد سہانپوری رحمۃ اللہ علیہ بھی چاروں سلسلوں کے تھے، لیکن ان پر نقشبندیت کا رنگ غالب تھا۔ چنانچہ مختلف رنگ غالب ہوتے ہیں لیکن یہ سلسلے خالص شکل میں شاید موجود نہیں ہیں۔
سوال نمبر 8:
جو اکابرین وفات پا گئے ہیں، ان کے مزار پر جا کے کس طرح استفادہ کیا جائے؟
جواب:
اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جو صاحب نسبت ہوتا ہے اس کے کان کھل جاتے ہیں اور آنکھیں بھی کھل جاتی ہیں۔ یعنی جب کوئی صاحبِ نسبت کسی مزار پہ جاتا ہے تو وہاں جو روحانیت ہوتی ہے وہ اس کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ چاہے اس کو کشف ہو یا نہ ہو، کیونکہ کشف ایک علیحدہ چیز ہے جو بعض کو ہوتا ہے بعض کو نہیں ہوتا، لیکن روحانیت محسوس ہو جاتی ہے۔ اور اگر صاحب کشف بھی ہو تو رابطہ بھی قائم ہو سکتا ہے۔ لیکن فیض دونوں صورتوں میں مل سکتا ہے چاہے صاحب کشف ہو یا نہ ہو۔ اگر کوئی صاحبِ نسبت ہو تو وہ وہاں پر قرآن پڑھے اور قرآن پاک کا وہ ثواب ان کو بخشے اور پھر ان کے سینہ کے لگ بھگ بیٹھ کے یہ تصور کرے کہ صاحبِ قبر کے دل سے ایک فیض میرے دل میں آ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ وہ فیض اس کو پہنچا دیتے ہیں۔ اور جس میں مشاہدہ کرنے کی جتنی قوت ہو وہ اس کے حساب سے مشاہدہ کر لیتا ہے۔
سوال نمبر 9:
اگر کسی کا شیخ فوت ہو جائے تو بعض مشائخ کہتے ہیں کہ جو مریدین کسی شیخ سے اجازت یافتہ ہوں وہ کسی اور سے بھی بیعت ہو جائیں اور بعض کہتے ہیں نہیں! جن کو اجازت دی گئی ہو ان کو کسی اور سے بیعت ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس حوالہ سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
اگر کسی کو اجازت دی گئی ہے اس کو تو یقیناً ضرورت نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنی تقویتِ نسبت کے لئے بیعت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ بیعت تو کسی بھی حالت میں کی جا سکتی ہے۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ حضرت غازی نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے لیکن بعد میں میاں نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے تجدیدِ بیعت کی۔ چونکہ ان کو ذرا زیادہ طلب تھی۔ لہذا ایسا ہو سکتا ہے لیکن ضروری نہیں ہوتا۔ ضروری درجہ کی اصلاح اس سے ہو جاتی ہے، پھر اس کو بڑھانا اس کا کام ہے۔ لہذا اگر کوئی صاحب نسبت نہیں ہے یعنی اس کو اجازت نہیں ملی ہے، تو اس میں بھی دو نقطۂ نظر ہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ وہ تجید بیعت کر لے، اس میں فائدہ ہے۔ کچھ حضرات کہتے ہیں تجدید بیعت کی ضرورت نہیں ہے وہ صرف اپنا اصلاحی تعلق کسی کے ساتھ بنا لے، دوبارہ بیعت کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
سوال نمبر 10:
حضرت ہو سکتا ہے کہ کسی کے شیخ نے اسے سلسلۂ نقشبندیہ میں اجازت دی، بعد میں وہ کسی ایسے بزرگ سے بیعت کرنا چاہتا ہے جو اس کو چشتی سلسلے میں چلائے۔ اس سے کوئی مسئلہ تو نہیں آئے گا؟
جواب:
اس میں وہ مناسبت کا خیال کر لے کیوں انتخاب تو اس نے خود کرنا ہے لہذا ایسے شیخ کا انتخاب کرے جس کے ساتھ اس کی مناسبت ہو اور جو اسے اس کے مزاج کے مطابق چلائے۔
سوال نمبر 11:
جب سب کا مذہب ایک ہے تو پھر چشتیہ، نقشبندیہ وغیرہ میں کیا اختلافات ہیں؟
جواب:
کیا خیال ہے ہومیو پیتھی، ایلو پیتھی اور ایکیو پنکچر وغیرہ، ان کے مذہب مختلف ہوتے ہیں؟ مذہب تو سب کے ایک ہوتے ہیں، مسلمان بھی ہوں گے، ہندو بھی ہوں گے۔ ہندو میں بھی آپ کو ہومیو پیتھ بھی ملیں گے، ایکیو پنکچر والے بھی ملیں گے یہ سب ہر مذہب میں ملیں گے۔ اس طرح مسلمانوں میں بھی آپ کو ہر قسم کے ڈاکٹر ملیں گے۔ در اصل یہ محض طریقے ہیں، مذہب نہیں ہیں۔ اور طریقے بھی صرف اصلاح کے ہیں۔ جیسے ایک آدمی کی اصلاح ہونی ہے، اصلاح اس چیز کی ہونی ہے کہ تکبر دور ہو جائے، حسد دور ہو جائے، کینہ دور ہو جائے، اس طرح کی اور چیزیں دور ہو جائیں۔ اس کے دو طریقے ہیں، جن میں اصولوں میں فرق ہے۔ جیسے ایکیو پنکچر کا اصول الگ ہے اور ہومیو پیتھی کا الگ ہے، حکمت کا الگ ہے اور ایلو پیتھی کا الگ ہے، اور سب میں فائدہ ہوتا ہے۔ اور ہمیں نظر آتا ہے کہ انسان کسی بھی طریقے کو اختیار کرے اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن ان کے اصول بالکل مختلف ہیں۔ اسی طرح نقشبندیہ اور چشتیہ سلسلوں کے اصول بالکل مختلف ہیں، لیکن دونوں سے فائدہ ہوتا ہے۔ مثلاً چشتی حضرات کا اصول یہ ہے کہ برتن اگر ناپاک ہے تو اس میں دودھ بھی ڈالو گے تو ناپاک ہو جائے گا، اس لئے پہلے برتن پاک کرو۔ اور نقشبندی حضرات کا اصول یہ ہے کہ اندھیرے میں روشنی آ جائے تو اندھیرا ختم ہو جائے گا۔ اصول دونوں کے ٹھیک ہیں۔ اس طرح دونوں سے فائدہ ہو جاتا ہے۔
یہ سارے کے سارے طریقہ ہائے کار ہیں، اس کے لئے اس کا ایک نام طریقت بھی ہے۔ طریقت سے مراد ہے اصلاح کے طریقے۔ لہذا اس میں مذہب کی کوئی بات نہیں ہوتی۔ اس سے بڑی مثال دی جا سکتی ہے جیسے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی سب ایک مذہب ہیں، تو ان میں کیوں فرق ہے؟ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ آپ کے سوال کا تو بہت آسان جواب ہے جو میں نے آپ کو بتایا ہے مگر اس کا جواب ذرا مشکل ہے۔ تاہم اس کا بھی جواب ہے لیکن اس کے لئے اجتہاد وغیرہ کے لحاظ سے تھوڑی سی بنیاد بنانی پڑتی ہے۔ جب کہ یہاں اجتہاد والی بات ہی نہیں ہے۔ یہاں تو طریقہ کار ہیں۔ جیسے آپ نے ایک چیز کو حاصل کرنا ہے جس کے لئے لاہور جانا ہے، چاہے آپ موٹروے کے ذریعے سے چلے جائیں، چاہے جی ٹی روڈ کے ذریعے سے چلے جائیں، آپ نے لاہور ہی پہنچنا ہے وہ جس ذریعے سے بھی چلے جائیں۔
سوال نمبر 12:
حضرت اگر کوئی بندہ بحث کر رہا ہو خاص طور پہ دینی مسائل کے اندر، اور اگر اس سے بحث کرنے کو میرا دل نہ کر رہا ہو تو اس کا سب سے آسان طریقہ کیا ہے؟ کس طریقے سے بندہ اس سے جان چھڑا سکتا ہے کہ اس کو کوئی غلط بات بھی نہ کہنی پڑے۔
جواب:
ان سے کہیں میں نہیں جانتا، آپ کسی جاننے والے سے پوچھیں۔ کسی جاننے والے سے اس کے متعلق بحث کر لیں میں ان چیزوں کو نہیں جانتا جو آپ بتا رہے ہیں۔ ظاہر ہے اس میں جھوٹ بھی نہیں ہے، کیونکہ جاننے کے مختلف درجات ہیں کہ کون کس حد تک جانتا ہے۔ یہ قرآن پاک کا انداز ہے: ﴿وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63)
ترجمہ: ’’اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔‘‘
لہذا جب جاہلوں کے ساتھ سابقہ پڑ جائے تو ان کو کہہ دو ’’سلام‘‘ یعنی سلامتی کے ساتھ الگ ہو جاؤ، انسان خواہ مخواہ اپنا دماغ کیوں خراب کرے۔ ہاں جہاں تک افہام و تفہیم کی بات ہے کہ واقعی کوئی سمجھنا چاہتا ہو، اس کا پتا چل جاتا ہے کہ کون سمجھنا چاہتا ہے، اس کے لئے انسان سارا دن بھی لگا رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، وہ صحیح ہے، وہ ان کا حق ہے۔ اگر کوئی آدمی واقعی جاننا چاہتا ہے اور اس کو واقعی ایک حقیقی مسئلہ ہے، تو اگر میں اس کا جواب جانتا ہوں تو میں اس کو دے دوں گا۔ لیکن جیسے پہی پتا چلے گا کہ وہ صرف بحث کرنا چاہتا ہے اور صرف وقت گزارنا چاہتا ہے ماننا کسی بات کو بھی نہیں چاہتا، تو اس کے ساتھ بحث کرنا ایسے ہے جیسے دیوار کے ساتھ ٹکریں مارنا۔ اس لئے دیوار کے ساتھ ٹکریں نہیں مارنی چاہیں۔ اس لئے اس وقت علیحدہ ہونا چاہئے۔
سوال نمبر 13:
آج کل جو نعتیں چل رہی ہیں ان کے پیچھے ساز ہوتے ہیں اور ان میں ذکر بھی ہوتے ہیں اور نعرۂ تکبیر اور نعرۂ رسالت جیسے نعرے بھی لگائے جاتے ہیں۔ مکی حجازی صاحب جو کعبہ خانہ میں بھی بیان کرتے ہیں انہوں نے ایک بیان میں فرمایا کہ صرف نعرۂ تکبیر لگانا چاہئے۔ یارسول اللہ یا اس طرح کے دوسرے نعرے نہیں لگانے چاہئیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
اگر تو کوئی سمجھنا چاہتا ہو اس کو تو جواب دیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی بحث کرنا چاہتا ہو تو یہ بہت لمبی چوڑی بحث ہے، اس میں پڑنا بھی نہیں چاہئے۔ جو ہمارا ذوق ہے وہ میں بتا دیتا ہوں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ گانے کے طرز پہ نعت کہنا یہ ایسے ہے جیسے لیٹرین میں قرآن پڑھنا۔ گانا بجانے سے آپ ﷺ نے روکا ہے۔ آپ حضور ﷺ کی تعریف بھی کر رہے ہوں اور آپ ﷺ کی مخالفت بھی کر رہے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ایک واضح حدیث شریف ہے کہ: ’’جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہے۔‘‘ جو ڈوموں کے ساتھ مشابہت کرتا ہے تو پھر اس کا کیا ہو گا؟ یہ بہت غلط بات ہے۔ پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی مجلس میں قوال ہوتے تھے۔ اصل میں قوالی کو لوگوں نے غلط مشہور کیا ہے، قوالی کا بنیادی تصور عارفانہ کلام ہوتا تھا اور یہ بغیر آلاتِ موسیقی کے ہوتی تھی، اب لوگوں نے اس کے ساتھ آلاتِ موسیقی کو لازم کر دیا ہے۔ حضرت پیر مہر علی شاہ کے ہاں اس طرح کلام پڑھا جا رہا تھا، کوئی قوال پڑھ رہا تھا، اس نے شاید جوش میں ہاتھ اٹھایا تو حضرت نے اس کو روک دیا اور فرمایا: تم میری مجلس میں آنے کے قابل نہیں ہو، تو نے ڈوموں جیسی حرکت کیوں کی۔ بہت لوگوں نے سفارش کی اور اس نے بھی معافیاں مانگیں۔ انہوں نے فرمایا: جو بھی ہے، بے شک تجھے معافی مل جائے، لیکن تو میری مجلس میں آنے کے قابل نہیں ہے، تیرا اپنے اوپر کنٹرول نہیں ہے، تو نے ڈوموں جیسی حرکت کی ہے لہذا تو میری مجلس میں نہیں آ سکتا۔ پھر اس کو کبھی اپنی مجلس میں نہیں آنے دیا۔ ہمارے ہاں الماری میں یہ موٹی سی کتاب رکھی ہوئی ہے، اس میں پوری تفصیل لکھی ہوئی ہے اور یہ روایت گولڑہ شریف ہی کے علاقہ کے کسی بزرگ کے ذریعے سے دو روایوں کی سند سے مجھے براہ راست بھی پہنچی ہے۔ اس سے پتا چلا کہ وہ اس حد تک برداشت نہیں کر سکتے تھے تو آلاتِ موسیقی تو بہت بڑی بات ہے۔ یہ چیزیں لوگوں نے اپنے اپنے مزاج کے مطابق بعد میں شامل کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائے، لوگ خواہ مخواہ ان چیزوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ جو چیز آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرے وہی چیز معیار ہو گی۔ اللہ سے بغاوت کرتے ہوئے تو آپ اللہ کی طرف متوجہ نہیں ہو سکتے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔ لہذا اگر کوئی گانے کے طرز پر یا آلاتِ موسیقی کے ساتھ نعتیں پڑھتا ہے تو وہ بالکل غلط ہے۔ جہاں تک نعرے کا تعلق ہے تو جو نعرے صحابہ کرام نے لگائے بس وہ کافی ہیں۔ جہاد کے موقع پر یا دوسرے مختلف موقعوں پہ نعرۂ تکبیر ہی ہوتا تھا اور نعرے نہیں لگتے تھے۔ صحابہ ہمارے لئے معیار ہیں، ہم صحابہ کے پیچھے چلیں گے، جو صحابہ نے کیا ہم بھی وہی کریں گے، اس میں کوئی دوسری بات ہمارے سامنے نہیں ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام کی باقاعدہ گارنٹی دی گئی ہے کہ جو ان کے پیچھے چلے گا وہ کامیاب ہو گا۔ قرآن میں بھی ہے: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُمْ فِیْ شِقَاقٍۚ فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ﴾ (البقرہ: 137)
ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آ جائیں گے۔ اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عن قریب ان سے نمٹ لے گا، اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔‘‘
حدیث شریف میں بھی ہے: ’’أَصْحَابِيْ كَالنُّجَوْمِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح: 6009)
ترجمہ: ’’میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہے، کسی ایک کی بھی اتباع کر لو فلاح کو پہنچ جاؤ گے۔‘‘
لہذا صحابہ کے بارے میں تو گارنٹی ہے، باقی لوگوں کے بارے میں گارنٹی نہیں ہے۔ باقی لوگوں کی ہم کیوں اتباع کریں۔ بس ہمارے لئے صحابہ کافی ہیں۔
سوال نمبر 14:
گیارویں شریف کا سلسلہ جو حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے چلتا آ رہا ہے، کیا وہ صحابہ کی لائن پر نہیں ہے؟
جواب:
میں نے ایک اصول بتا دیا ہے اس پہ آپ خود فیصلہ کر لیں۔
ہماری ایک کتاب ہے جو ابھی چھپی نہیں ہے، چھپنے والی ہے۔ شاید اس سے ہی جواب مل جائے کہ ہم لوگ تو ماننے والے ہیں، جو حکم ہے سر آنکھوں پہ، اگر صراحتاً حکم موجود ہو تو اپنی سوچ کو اس میں داخل نہیں کرتے۔ حج کا عمل اسی کے لئے ہے کہ حج میں انسان غیر مشروط تسلیم کرتا ہے اور اسلام بھی غیر مشروط تسلیم کرنے کو کہتے ہیں۔ اس میں انسان کو بعض ایسی چیزوں کا بھی حکم ہوتا ہے جو عام چیزوں سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں، لہذا انسان کرتا ہے۔ جیسے حکم ہے کہ چونکہ آپ کا احرام جاری ہے اس لئے نماز ننگے سر پڑھنی پڑے گی، بڑوں کے سامنے ننگے سر ہونا بے ادبی ہے اور یہاں سب سے بڑے کے سامنے ننگے سر نماز پڑھنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہی اندازِ عاشقانہ ہے، جب اس وقت یہی انداز محبوبِ حقیقی کو پیارا ہے تو ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہے۔ کیوں؟ اس سلسلہ میں کچھ اشعار ہیں؎
کیا ٹھیک کیا غلط ہے کیا اس میں میں سمجھوں
محبوب اس میں جو بھی کہے میں وہی کروں
عاشق کی اپنی سوچ کہاں وہ تو ہے فانی
محبوب ہی دل میں ہے اس کی بات میں مانوں
میری تو یہ سمجھ ہے کہ جو سامنے دیکھوں
محبوب سے پوچھوں کہ میں اس کو کیا کہوں
(تشریح: یعنی اپنے مشاہدے کو بھی نہیں۔)
شیطان اپنی سوچ سے کیسا ہوا مردود
مردود کے اغوا سے میں مردود کیوں بنوں
مے خانۂ دل میں میرے تصویر یار ہے
جب چاہوں ذرہ سر جھکا کے میں اسے دیکھوں
یعنی انسان کو اللہ کے ساتھ ایسا تعلق بنانا چاہئے کہ جس وقت بھی اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہے تو اللہ کی طرف متوجہ ہو سکے۔ باقی لوگوں سے انسان اپنے آپ کو علیحدہ رکھے، کیونکہ ہمارا اصل تعلق اللہ کے ساتھ ہی ہے، جس کے ساتھ بھی تعلق ہو وہ اللہ کے لئے ہو۔
سوال نمبر 15:
صدقہ میں کیا خون بہانا ضروری ہے یا محض پیسے بھی دیئے جا سکتے ہیں؟
جواب:
نذر کی ایک قسم نذرِ واجب ہے، لہذا نذرِ واجب میں آپ نے جس قسم کی چیز مانی ہے تو وہی چیز آپ ادا کریں گے۔ لیکن اگر آپ نے ویسے صدقہ کرنے کی نیت ہے تو آپ کچھ بھی دے سکتے ہیں، چاہے پیسے دے دیں یا کوئی اور چیز دے دیں جو آپ نے صدقے کے لئے سوچی ہے۔ اللہ کے راستے میں جو بھی چیز دیں گے وہ صدقہ ہو جائے گا۔ بہتر یہی ہے کہ انسان پیسے دے دے کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جو چیز ہم کسی کو دے رہے ہوتے ہیں ان کی اس کو ضرورت نہیں ہوتی۔ عین ممکن ہے کوئی بیمار ہو، اس کو پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ اس سے دوائی لے سکے، ہم اس کے گھر میں گوشت دے دیں تو ممکن ہے شاید اس کو اس وقت گوشت کی اتنی ضرورت نہ ہو جتنی کہ ان کو دوائی کی ہو۔ لہذا اگر آپ نے کوئی خاص چیز متعین نہ کی ہو تو پیسے دے دینا زیادہ بہتر ہے۔ اور اگر کوئی خاص چیز متعین کی تو وہی چیز دیں۔ اس کے مزید احکام آپ بہشتی زیور میں نذر کے بیان میں پڑھ لیں، اس میں ساری تفصیلات موجود ہیں۔
سوال نمبر 16:
جذب اور سلوک کے بارے میں آپ سے سنتے رہتے ہیں درس مثنوی وغیرہ میں۔ اس میں ایک چیز صحبتِ شیخ ہے۔ صحبت شیخ کو حاصل کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟ ایک یہ ہے کہ یہ سوچا جائے کہ جو بھی صحبت میسر ہو جائے اس میں ممکن ہے اللہ کی طرف سے کوئی اچھی چیز مل جائے، بس اسی پر اکتفاء کیا جائے۔ جب کہ کچھ لوگ پلاننگ پہ چلتے ہیں کہ اپنا ٹائم مختص کر لیتے ہیں، ہفتہ میں ایک دن یا اپنی باقی چیزوں کو دیکھتے ہوئے وقت دیتے ہیں۔ صحیح طریقہ کیا ہے؟
جواب:
آپ نے سلوک اور جذب دو چیزوں کا سوال کیا ہے۔ سلوک تو یہ ہے کہ اس میں انسان باقاعدہ ایک طریقۂ کار کے مطابق چلتا ہے جس میں معمولات ہوتے ہیں، احوال ہوتے ہیں اور شیخ سے رابطہ ہوتا اور بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں جس میں صحبت بھی اپنا کام کرتی ہے، سوال جواب بھی اس میں آ جاتے ہیں، لیکن ایک طریقے سے سلوک میں آپ چلتے ہیں۔
جہاں تک جذب کی بات ہے تو اس میں ابتدا تو شاید آپ کے کنٹرول میں ہو لیکن بعد میں شاید آپ کے کنٹرول میں نہ ہو۔ بعد میں پھر جذب آپ کو کنٹرول کرے گا، آپ جذب کو نہیں کنٹرول کر سکتے۔ اگر کسی کو جذب حاصل ہو جائے جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہوا تھا تو انہوں نے پھر calculation نہیں کی بلکہ سب کچھ چھوڑ کے اپنے شیخ کے پیچھے چلے گئے، کچھ بھی اور سوچ نہیں تھی، پھر ان کو ملا بھی اس طرح تھا۔ لہذا جذب کی dimensions الگ ہیں اور سلوک کی dimensions الگ ہیں، ان دونوں کا آپس میں تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ سلوک procedural ہے اور جذب nonprocedural ہے، اس میں محبت ہی بنیادی ذریعہ ہے وہی ساری چیزوں کو گائیڈ کرتی ہے۔ جذب میں کوئی کتنا چلتا ہے؟ یہ اس پر منحصر ہے کہ کوئی کتنا آگے جا سکتا ہے۔ بلا شبہ جذب میں انسان کو ملتا بہت زیادہ ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں کہ انہوں نے کوئی calculation کی؟ کوئی calculation نہیں کی تھی، پھر انہیں ملا بھی ایسے ہی تھا۔ لہذا ہر ایک کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے کہ کون کتنا لیتا ہے۔ یہ چیزیں compare نہیں ہوتیں۔
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
میں نے اس کو تھوڑا سا تبدیل کیا ہے؎
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے تو لگے اور بجھائے نہ بنے
یعنی اس کی ابتدا آپ کے کنٹرول میں ہے، اختتام آپ کے کنٹرول میں نہیں ہے۔ کسی نے اس کی یہ مثال دی ہے کہ کسی بچی کو پہلی دفعہ اولاد ہونے والی تھی، اس نے اپنی نانی سے کہا کہ جب وہ وقت آ جائے تو مجھے جگا دینا۔ اس نے کہا جب وہ وقت آ جائے گا تو تم سب کو جگاتی پھرو گی، تمہیں کوئی نہیں جگائے گا۔ اسی طرح جب لگ جاتی ہے تو لگ جاتی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں؎
لگی ہو نہ جب تک کسی دل میں آگ
پرائی لگی دل لگی سوجھتی ہے
جب تک کسی پر وہ حال طاری نہیں ہوتا باقی لوگ اس کو دیوانہ اور پاگل ہی کہیں گے۔ چنانچہ ہر دور میں اللہ والوں کو پاگل کہا گیا ہے۔ لیکن آیا وہ اللہ کے نزدیک بھی پاگل تھے؟ یہ الگ سوال ہے۔ آپ ﷺ نے بھی فرمایا: اتنا ذکر کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں۔
سوال نمبر 17:
اس کا مطلب ہے کہ جب تک درمیان میں calculation وغیرہ چل رہی ہو اس وقت جذب کی کیفیت نہیں حاصل ہے۔
جواب:
جذب میں یہ تو ہو سکتا ہے کہ کسی کو جذب شروع ہو جائے اور شیخ اس کو کنٹرول کر لے، کیونکہ اسے کنڑول کرنا شیخ کے ذمہ ہوتا ہے۔ لیکن خود اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتا۔
سوال نمبر 18:
ہمارے معمولات کا جو چارٹ ہے، کیا یہ ہمارے لئے اصلاح کا مکمل نسخہ ہے؟ کیونکہ بعض لوگ اس پہ بعض چیزیں نہیں کرتے۔
جواب:
نہیں! ایسا نہیں ہے۔ یہ اصل میں جو معمولات عام طور پر ہو سکتے ہیں معمولات کے چارٹ میں وہ درج ہوتے ہیں۔ کیونکہ بعض مخصوص معمولات ہوتے ہیں اور بعض عمومی ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے اپنے مزاج سے معمولات رکھتے ہیں جیسے بعض لوگ اوابین کے نوافل رکھتے ہیں، بعض لوگ تہجد اور اشراق کے رکھتے، بعض لوگ عصر اور عشاء کی غیر مؤکدہ سنتوں کے رکھتے ہیں۔ تو ہم یہ سارے معمولات دے دیتے ہیں کہ ان میں جس کا جو معمول ہے وہ اس میں بھر دیں گے۔ کیونکہ نفل سب کے ذمہ نہیں ہوتے، خانے سب بنانے ہوتے ہیں تاکہ کوئی بھی معمول اس میں ڈالا جا سکے۔ اس کے باوجود یہ مکمل نہیں ہے اسی لئے نیچے ہم نے کچھ لائنیں علیحدہ بھی دی ہوتی ہیں تاکہ اگر کسی کے کوئی مخصوص معمولات ہوں جو باقیوں کے نہ ہوں تو وہ بھی دئیے جا سکیں۔ یہ صرف اندازاً ایک تخمینہ ہے جس کے ذریعے سے ہم بہت سارے لوگوں کے معمولات کو جان سکتے ہیں۔ لیکن یہ مکمل نہیں ہے، مکمل اس وقت ہوتا ہے جب ہر ایک کے مخصوص معمولات اس کو بتائے جائیں اور اس میں شامل کر کے دیا جائے۔ کیونکہ ہر ایک کے لئے سارے نوافل ضروری نہیں ہیں کیونکہ ہر ایک کر بھی نہیں سکتا۔ لیکن جو کر سکتے ہیں ان کے لئے جگہ بھی ہونی چاہئے۔
سوال نمبر 19:
حضرت جس کا کسی شیخ سے رابطہ نہیں ہے اس کے لئے کتنا ضروری ہے کہ وہ بیعت کرے؟ کیا خوبیاں دیکھ کے بیعت کرے؟
جواب:
بیعت کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے کسی ہم عصر نے پوچھا کہ ہم بھی وہی نماز روزہ کرتے ہیں جو آپ کرتے ہیں۔ لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ بڑا عجیب سوال ہے، ٹھیک سوال ہے۔ کیونکہ اس وقت سب اچھے لوگ اس قسم کے معمولات کرتے رہتے تھے۔ لیکن ایک طرف با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ جن کا اتنا اونچا مقام ہے اور دوسری طرف بالکل عام آدمی۔ حضرت نے فرمایا: جو اعمال آپ کرتے ہیں وہ آپ کا نفس کھا جاتا ہے۔ نفس کیسے کھا جاتا ہے؟ اس کے لئے کچھ تشریح کی ضرورت ہے۔ نفس ایسے کھا جاتا ہے مثلاً ایک آدمی عبادت کر رہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ میں بہت زبردست عبادت کر رہا ہوں۔ یہ ایک سوچ ہے۔ ایک دوسرا شخص عبادت کر رہا ہے اور شرمندہ ہو رہا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں، میں تو کچھ بھی نہیں کر رہا، میں تو اس کو خراب کر رہا ہوں۔ لیکن مجبور ہے، اپنی کوشش کر رہا ہے، لیکن وہ اس پہ شرمندہ ہو رہا ہے۔ کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ایک کا عمل عجب کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے اور دوسرے کا عمل تواضع کی وجہ سے بڑھ رہا ہے۔ یہ تواضع اور للہیت بیعت اور اصلاح کے بغیر تقریباً تقریباً عملا محال ہے الا ما شاء اللہ۔ کیونکہ جب تک آپ نے نفس کو کسی کے تابع نہیں کیا اس وقت تک آپ نفس کے جال سے نہیں نکل سکتے، نفس کے جال سے نکلنے کے لئے اس کو کسی کے تابع کرنا پڑتا ہے۔ لہذا جو لوگ بغیر اصلاح کرائے نماز روزہ کر رہے ہیں ان میں آپس میں درجے میں فرق تو ہو گا، کوئی کس درجے کا ہو گا، کوئی کس درجے کا ہو گا۔ لیکن ان کا ان لوگوں کے برابر ہونا عملاً محال ہے جو اس لائن پہ چل رہے ہوں۔ کیونکہ الحمد للہ ہم نے دیکھا ہے، کھلی آنکھوں سے دیکھی بات ہے کہ ابتدا میں جو لوگ آتے ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھ کے آتے ہیں کہ ہم تو یہ کر رہے ہیں، یہ کر رہے ہیں۔ یہاں رہ کر کچھ ہی عرصہ میں ان کو پتا چل جاتا ہے اوہو! ہم تو سب غلط کر رہے ہیں۔ اب یہ سوچ کیسے پیدا ہوتی ہے؟ وہ یہی چیز ہے یعنی بیعت اور اصلاح، اسی سے پتا چلتا ہے۔
دوسرا سوال کہ وہ کس کو پکڑیں؟ اس کے لئے ہم آٹھ نشانیاں بتاتے ہیں۔ پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو، عقیدہ کس کا صحیح ہو سکتا ہے؟ اس حوالے سے قرآن پاک میں موجود ہے کہ عقیدہ صحابہ کا صحیح ہے لہذا جو ان کے پیچھے جائیں گے ان کا عقیدہ بھی صحیح ہو گا۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ اس کے پاس اتنا علم ہو کہ چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق چل سکتا ہو۔ تیسری نشانی یہ ہے کہ شریعت کے مطابق چوبیس گھنٹے چلتا بھی ہو۔ چوتھی نشانی یہ ہے کہ ان کی صحبت کا سلسلہ آپ ﷺ سے ملتا ہو۔ پانچویں نشانی یہ ہے کہ اوپر سے اجازت بھی ہو، جیسے ڈاکٹر کو ڈگری دیتے ہیں۔ چھٹی نشانی یہ ہے کہ ان کا فیض جاری ہو۔ فیض جاری ہونے سے مراد یہ ہے کہ جیسے ڈاکٹر کے بارے میں ہم کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے۔ اس طرح اس پیر صاحب کے پاس کوئی لوگ جاتے ہوں ان میں سے اکثر کو شفا ہوتی ہو، یعنی بہتر ہو رہے ہوں تو سمجھو کہ اس کا فیض جاری ہے۔ ساتویں نشانی یہ کہ مروت نہ کرتا ہو اصلاح کرتا ہو۔ آٹھویں نشانی یہ ہے کہ ان کی مجلس میں اللہ کی طرف توجہ ہو جاتی ہو، دنیا سے توجہ کم ہو جاتی ہو۔ اگر یہ آٹھ نشانیاں کسی میں پائی جائیں اور ان کے ساتھ مناسبت بھی ہو تو بیعت کر لینی چاہئے۔ مناسبت سے مراد یہ ہے کہ ان سے آپ کو فائدہ محسوس ہو رہا ہو۔ بہر حال یہ آٹھ نشانیاں تو بہت ساروں میں ہوں گی، لیکن جس کے ساتھ آپ کو مناسبت ہو آپ کے لئے وہی ٹھیک ہے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ