سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 109

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

حضرت، ایک آدمی کسی سرکاری یا پرائیویٹ محکمے میں کام کرتا ہے۔ مثلاً اس کی ایک دن کی آٹھ گھنٹے کی تنخواہ ہزار روپیے بنتی ہے اور چار گھنٹے وہ کسی ذاتی کام میں گزار دیتا ہے لیکن وہ کسی طرح اس ادارے کو compensate کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے کیا کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟

جواب:

ایک مؤثر طریقہ یہ ہے کہ چار گھنٹے کے جتنے پیسے بنتے ہیں وہ کسی طریقے سے اپنے آفس کو پہنچا دیں۔ مثلاً آپ کا ان کے ذمہ کوئی claim ہے تو اس کو پانچ سو روپے کم کر کے یا پھر کوئی چیز آفس کے لئے ضروری ہو اور وہ خریدنا چاہتے ہوں تو ان کے لئے خرید دیں یا چھٹیوں میں سے کوئی چھٹی claim کی جائے اور دفتر آ جائیں۔ اسی طرح آفس کی stationery وغیرہ کا خرچہ بھی ان پیسوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔

سوال 2:

تصوف میں انسان پر Side effects کس طرح آ سکتے ہیں؟ مثلاً سنا ہے کہ بعض لوگ ایمان سے بھی دور ہو گئے۔ یعنی کون سے راستے ایسے ہیں جن پہ خطرہ ہوتا ہے اور جن سے بچنا چاہیے؟

جواب:

”بر صراط مستقیم ہرگز کَسے گمراه نیست“ صراط مستقیم پہ اگر کوئی ہو تو پھر وہ گمراہ نہیں ہوتا۔ تصوف میں شیخ کامل کی تلاش سب سے بڑا کام ہوتا ہے، اس میں محنت کرنی چاہیے تاکہ شیخ کامل مل جائے۔ شیخ کامل کہتے ہی اس کو ہیں جو ان خطرات سے مرید کو بچائے۔ چاہے وہ حال میں ہو چاہے وہ قال میں ہو۔ زیادہ نقصان اس وقت ہوتا ہے کہ بعض لوگ شیخ کامل نہیں ہوتے بلکہ غلط لوگ ہوتے ہیں اور لوگ ان کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں پھر نقصان ہوتا ہے۔ اور اس میں صاحبزادگی کا بہت بڑا رول ہوتا ہے۔ یعنی بعض دفعہ کسی بزرگ کی اولاد ہوتی ہے اور ان کی تربیت ابھی نہیں ہوئی ہوتی اور بزرگ دنیا سے چلا گیا اور لوگوں نے ان کی اولاد کو ان کا جانشین بنا دیا تو چونکہ ان کو کوئی تجربہ بھی نہیں ہوتا، نہ ان کو اس چیز کی اہمیت ہوتی ہے لہذا وہ کچھ ایسی حرکتیں کر سکتے ہیں جس سے بعض لوگوں کو بہت بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے۔

سوال 3:

ایک ہوتا ہے دعوت دینا مثلاً کسی کو نماز کے فضائل کا بتا دیا، ذکر اذکار اور سارے اعمال کے فضائل بتا دیئے اور ایک ہوتا ہے اصلاح کرنا جو عوام کو نہیں بلکہ مشائخ کو کرنی چاہیے۔ اگر میں کسی کو کہنا شروع کر دوں کہ اپنے اندر سے تکبر نکالو، عجب نکالو، کیا یہ بھی اصلاح ہو گی؟

جواب:

عموماً ڈاکٹر دو قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر کہتے ہیں: صاف رہو، روزانہ برش کیا کرو، صاف کپڑے پہنو، جن چیزوں پہ مکھیاں بیٹھی ہوں ان کو استعمال نہ کرو۔ یعنی حفظانِ صحت کی باتیں کرتے ہیں، یہ ان کا ایک رول ہے۔ یہ باتیں عام لوگ بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ مستند ڈاکٹروں کی طرف سے منظور شدہ ہوں۔ کیونکہ ان میں صرف ترغیب ہے۔ اس کو علاج نہیں کہتے۔ علاج اس وقت ہوتا ہے جب کسی کو کوئی بیماری ہو جائے یا پہلے سے بیماری موجود ہو اس کے علاج کے لئے جو دوائی دی جاتی ہے وہ عام آدمی نہیں دے سکتا بلکہ صرف اور صرف ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر بھی وہ جس کو practice کی اجازت ہو۔ مثلاً اس نے House job وغیرہ کی ہو اور اس کا تجربہ ہو۔ اسی طریقے سے شیخ روحانی امراض کا با قاعدہ علاج کرتے ہیں، ذکر اذکار دیتے ہیں اور مجاہدات کراتے ہیں۔ ان کے پیچھے چل کر اپنا علاج کرنا تربیت کہلاتا ہے۔ شیخ ایک ہی ہو، کئی نہ ہوں۔ اس کے علاوہ روحانیت کی باتیں کرنا جوعمومی ہوں خصوصی نہ ہوں، خاص نہ ہوں بلکہ عام ہوں، اگر کسی کو مستند طریقے سے معلوم ہوں تو وہ کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوال 4:

حضرت! ’’صاحبِ خدمت‘‘ کی جو اصطلاح ہے کہ بعض لوگوں کو تکوینی احکامات دیئے جاتے ہیں، ان کے حوالے سے ہمارا کیا عقیدہ ہونا چاہیے؟

جواب:

جیسا کہ قرآن پاک میں خضر عليه السلام کا واقعہ ہے کہ ان کے پاس ایک علم ایسا تھا جو دوسرے پیغمبر کے پاس نہیں تھا۔ کیونکہ یہ پیغمبر کی ڈیوٹی نہیں تھی، ان کی ڈیوٹی ایسی تھی جیسے فرشتوں کی ہوتی ہے۔ مثلاً لوگوں کی روح کو قبض کرنا عزرائیل عليه السلام کی ڈیوٹی ہے۔ اگر وہ اللہ کے حکم سے کسی کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ قاتل نہیں ہوتے، ان کو کوئی گناہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی طریقے سے انسانوں میں بھی کچھ لوگوں کو اللہ پاک چن لیتے ہیں جن سے اس قسم کی خدمات لیتے ہیں جن کو نظام کے اندر استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرتے بلکہ ان کو الله جل شانہ یہ ساری چیزیں منکشف فرما دیتے ہیں پھر اس کے مطابق ان کو وقت پر احکامات دیئے جاتے ہیں اور وہ ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ شریعت کی پابندی ان کے لئے نہیں ہوتی کیونکہ شریعت تو پیغمبروں سے آئی ہے لیکن تکوینی خدمات کرنے والوں کو جو خدمات ملتی ہیں وہ ایک نظام کے تحت اس پہ عمل کرتے ہیں۔ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ منیٰ میں ایک دفعہ آگ لگ گئی تھی تو صاحبِ خدمت اپنی ڈیوٹی پہ تھا اور آگ کو اشارہ کر رہا تھا کہ اِس طرف چلی جا اور اُس طرف چلی جا۔ وہاں ایک بزرگ مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے وہ رو رو کر دعائیں کر رہے تھے کہ اے اللہ اس عذاب کو ہٹا دے، یا اللہ ہمیں معاف کر دے۔ صاحبِ خدمت ان کو جانتا تھا، اس نے بڑے غصّے سے کہا: فقیر محمد! چپ ہو جاؤ، مجھے حکم ہے، میں ان سب کو تباہ کروں گا۔ بہر حال مولانا فقیر محمد رحمۃ اللہ علیہ رو رہے تھے حتیٰ کہ بزرگوں والے نظام میں بڑے اونچے واسطوں تک بات پہنچ گئی۔ چنانچہ ادھر سے بھی دعا ہو گئی۔ اس کے بعد صاحب خدمت کا ہاتھ نیچے ہو گیا اور آگ پہاڑ کی طرف چلی گئی اور بات ختم ہو گئی۔ معلوم ہوا یہ مختلف نظام ہیں، یہ ایک نظام نہیں ہے اور نہ ایک دوسرے کے پابند ہیں۔

سوال 5:

جیسے کہتے ہیں اپنے حقوق کو دباتے ہوئے دوسرے کا حق ادا کرنا۔ اسی حوالے سے سوال یہ ہے کہ جیسے اگر میں بس پہ سفر کر رہا ہوں اور کسی کو سیٹ دے دیتا ہوں لیکن مجھے آگے پورا ایک گھنٹہ کھڑا رہنا ہے۔ سیٹ دینے کے بعد زیادہ الجھن ہونی ہے تو مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

اپنے آپ کو کیوں متزلزل کر رہے ہیں؟ بات بالکل سادہ ہے، احکامات بالکل واضح ہیں۔ فرائض ہیں، واجبات ہیں، سنن مؤکدہ ہے، مستحبات ہیں اور پھر مباحات ہیں۔ اسی طریقے سے حرام ہیں، مکروہ تحریمی ہیں، مکروہ تنزیہی ہیں اور پھر مباح ہیں۔ ان سب کا درجہ کسی کو معلوم ہو تو فیصلہ اس کے ہاتھ میں ہے۔ فرض ہر حال میں ادا کرنا ہے اور نہ ماننے سے کافر ہو جاتا ہے اور نہ کرنے سے بڑا گناہ گار۔ اسی طرح واجب کا چھوڑنا بھی بڑا گناہ ہے۔ سنت مؤکدہ کوئی نہ ادا کرے تو اس کو ملامت کی جا سکتی ہے کہ تو نے کیوں چھوڑ دی؟ مستحب ادا نہ کرنے پہ کوئی ملامت نہیں ہے۔ اللہ تعالی بھی اس سے اس کا مطالبہ نہیں کرتا لیکن اس پر اجر دیتا ہے۔ اگر ایک شخص مستحب کو پورا نہیں کر سکتا تو اس کے اوپر لازم نہیں ہے۔ اپنی سیٹ پہ بیٹھ جائے اور ایثار نہ کرے تو اس سے مطالبہ نہیں ہے لیکن اگر ایثار کرے گا تو اس کا اجر پائے گا تو It is like investment۔

سوال 6:

حضرت مستحب کی ہم دوسروں کو دعوت دے سکتے ہیں؟ مثلاً ایک آدمی ٹوپی نہیں پہنتا ہم اس کو کہہ سکتے ہیں کہ ٹوپی تو پہنو؟

جواب:

ترغیب بالکل دی جا سکتی ہے لیکن اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مستحب ہے۔ جیسے میں اشراق کی نماز کے فضائل بیان کر دوں اور کوئی اس کی وجہ سے اشراق کی نماز پڑھنے لگے تو اس کو بھی ثواب ملے گا اور مجھے بھی ثواب ملے گا لیکن اگر وہ نہ پڑھے تو میں اس سے ناراض نہیں ہو سکتا۔

سوال 7:

مستحب اور سنت میں کیا فرق ہے؟

جواب:

سنتیں دو قسم کی ہیں، ایک سننِ مؤکدہ ہیں اور ایک سننِ غیر مؤکدہ ہیں۔ سنن غیر مؤکدہ کو سننِ مستحبہ بھی کہتے ہیں اور یہی مستحبات ہوتے ہیں۔

سوال 8:

ایک دفعہ حضرت لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ لوگ آئے اور حضرت کو روٹیاں دیں ان میں کچھ مشتبہ پیسوں کی خریدی ہوئیں تھیں اور کچھ ٹھیک تھیں۔ انہوں نے مشتبہ پیسوں والی بالکل علیحدہ کر لیں۔ ہر بندہ ایسا نہیں کر سکتا۔ اگر کسی اور کے ساتھ اس طرح کا معاملہ پیش آ جائے تو وہ کیسے بچے گا؟

جواب:

حضرت کو کشف ہوا تھا اور کشف ہر ایک کو نہیں ہوتا لیکن جو بچنا چاہے اس کے لئے اللہ پاک راستہ بنا دیتے ہیں۔ وہ راستہ کوئی بھی ہوسکتا ہے اور ہر ایک کے لئے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص بچنا چاہے اور اللہ پاک سے مانگنے کے ساتھ کوشش کر بھی لے تو جو اس کے بس میں نہیں ہے وہ اللہ تعالی پورا کر دے گا۔ اگر بظاھر نہیں ہوا تو اس کو گناہ بھی نہیں ہو گا کیونکہ اس کو معلوم نہیں تھا لیکن اس کے اثرات پڑ جاتے ہیں۔ مثلاً کوئی مشتبہ چیز کوئی کھائے تو اس سے دل پہ ضرور اثر پڑ جاتا ہے۔ اس وجہ سے تقویٰ یہ ہے کہ مشتبہ چیز سے جس کے بارے میں انسان کو کھٹک ہو اس سے بچ جائے۔ جیسے مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے لئے اتنی محنت کی تھی کہ ایک دفعہ حج کے سفر پر ship پہ جا رہے تھے۔ ship کا کھانا مشتبہ تھا۔ حضرت نے آٹھ دن کھانا نہیں کھایا۔ جو توشہ ساتھ تھا وہ ختم ہو گیا، جس کی وجہ سے بیمار ہو گئے۔ جدّہ پہنچ کر ان کا علاج ہوا۔ فرمایا: تکلیف تو بہت ہوئی لیکن الحمد للہ دل بچ گیا۔ چنانچہ جو اتنی محنت کرتا ہے ان کو پھر اللہ پاک نوازتا بھی ہے۔ ان کو اس طرح نوازا کہ یہ نظام دے دیا جس سے ان کو پتا چل جاتا تھا کہ فلاں چیز مشتبہ ہے۔

عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ایک بہت بڑے محدث ان سے بیعت ہوئے، ان کی بیعت کا واقعہ یہ تھا کہ انہوں نے ایک عربی کی عبارت بنائی جس میں ایک لفظ قرآن سے لیا، ایک لفظ حدیث سے لیا، ایک حدیث قدسی سے لیا، اور عام عربی سے ایک ٹکڑا لیا۔ جس سے ایک فقرہ بنا دیا۔ فقرہ میں مثال کے طور پر فرعون کا نام قرآن سے لیا ہو تو کس کو پتا ہو گا یہ قرآن سے ہے؟ فرعون تو بظاھر کافر کا نام ہے لیکن قرآن میں آیا ہے۔ بہر حال انہوں نے ایک فقرہ بنا کر حضرت کے سامنے رکھ دیا اور پوچھا کہ حضرت! یہ کیا ہے؟ حضرت نے قرآن کے لفظ پر انگلی رکھی اور فرمایا: یہ قرآن ہے۔ حدیث شریف کے لفظ پر انگلی رکھی اور فرمایا: یہ حدیث ہے۔ حدیث قدسی کے لفظ پر انگلی رکھی اور بولے: نہ تو قرآن ہے نہ حدیث ہے درمیان میں کوئی چیز ہے۔ اتنے ان پڑھ تھے کہ حدیث قدسی کا نام بھی نہیں آتا تھا۔ اور عربی کے بارے میں فرمایا کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ محدث بڑے حیران ہوئے اور کہا: حضرت بات تو آپ نے بالکل ٹھیک کی ہے لیکن آپ کو پتا کیسے چلا؟ حضرت نے فرمایا کہ مجھے اور کچھ علم تو نہیں ہے لیکن میں قران میں نور کو دیکھتا تھا، قرآن کا نور الگ ہے حدیث کا نور الگ ہے اور درمیان میں نہ قرآن کا تھا، نہ حدیث تھی۔ لیکن ان کے درمیان کوئی چیز لگ رہی تھی۔ اور عربی کی عبارت میں کوئی نور نہیں تھا۔ تو وہ آنکھیں اللہ نے ان کو دے دیں باقی لوگوں کو نہیں دیں۔ لیکن اللہ پاک اس پر قادر ہے کہ باقی لوگوں کو بھی دے دے۔ اگر نہ دے تو اللہ پاک کا اس سے مطالبہ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عطائی چیز ہے، محمود ہے، مقصود نہیں ہے۔ اگر اچھی چیزوں کا کشف دے دیا جائے تو محمود ہے لیکن مقصود نہیں ہے۔ ویسے زیادہ محفوظ وہ لوگ ہیں جن کو کشف نہیں ہوتا۔ کیونکہ کشف کے مضر اثرات بہت زیادہ ہیں، اس کو سنبھالنا آسان نہیں ہے۔

سوال 9:

دیکھتے رہے اوروں کے عیب و ہنر

کچھ نہ تھی اپنی خبر

جو پڑی اپنے گناہوں پہ ایک نظر

تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا۔

حضرت یہ جو orientation بدلتی ہے تو یہ ذکر سے ہوتا ہے؟ یعنی تصوف کا یہی مقصد ہے کہ orientation اپنی طرف کر دے؟

جواب:

ذکر فکر دونوں سے ہوتا ہے کیونکہ آدمی فکر کرے گا کہ میں ٹھیک ہو جاؤں اور ذکر سے اس کی فکر مصفیٰ ہو چکی ہو گی، نتیجتاً اس کو اللہ پاک وہ باتیں سُجھا دیتے ہیں جو اس کی اصلاح کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔ چاہے وہ کسی کتاب میں نظر آ جائیں، چاہے کسی بزرگ سے کہلوا دے، چاہے خواب میں دیکھ لے، چاہے یوں ہی خیال میں آ جائے۔ جس کو معرفت کہتے ہیں وہ باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ یہ شعر معرفت کا شعر ہے۔ اس کو کلام عارفانہ کہتے ہیں۔ مثلاً مجھ میں بہت سارے عیوب ہیں جن کا مجھے جواب دینا ہو گا، میں ان سے بے خبر ہو جاؤں اور لوگوں کے عیوب کا مجھے جواب نہیں دینا لیکن میں ان کی فکر میں پڑ جاؤں۔ یہ کون سی اچھی بات ہے؟ اگر کسی کو یہ فکر ہو جائے کہ میں غلط کام نہ کروں، مجھے فائدہ ہو، میرا نقصان نہ ہو، وہ ایسے کاموں میں نہیں پڑے گا۔

سوال 10:

اللہ تعالیٰ نے سوا لاکھ انبیاء علیھم السلام کو مبعوث فرمایا۔ صحیفے اور چار کتابیں بھی دیں۔ صحیفوں vs انبیاء کی distribution کس طرح تھی؟

جواب:

جو معلوم ہو وہ بتایا جا سکتا ہے اور جو معلوم نہ ہو اس کے بارے میں ہم کہتے ہیں: وَ اللہُ اَعلَمُ بِالصَّوَاب۔ مثلاً کتابوں کے بارے میں پتا ہے، صحف کے بارے میں روایات موجود ہیں۔ تورات کے نزول سے پہلے موسیٰ علیہ اسلام کے صحیفے بھی تھے۔ اسی طرح دیگر پیغمبروں کے بھی صحیفے ہیں، تعداد میں اختلاف ہے۔ کس پیغمبر کو کون سا صحیفہ دیا گیا اس میں بھی اختلاف ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگ اس بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

ایک صاحب کو رحمٰن بابا کے شعر بہت زیادہ یاد تھے، بات بات پر رحمٰن بابا کا شعر کہتے۔ وہ ایک بار تانگے میں جا رہے تھے تو حادثہ ہو گیا، وہ نیچے تانگہ اوپر۔ لوگوں نے ان کو بڑی مشکل سے نکالا۔ کسی من چلے نے اس سے پوچھا: رحمٰن بابا نے اس موقع پہ کیا کہا تھا؟ انہوں نے کہا: رحمٰن بابا اس موقع پہ خاموش تھے۔ تو ہم بھی خاموش ہیں۔

سوال 11:

کیا جنت کی زبان عربی ہے؟ یہ مستند بات ہے؟

جواب:

یہ حدیث شریف ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ عربوں سے محبّت کرو کیونکہ میں عرب ہوں اور قرآن کی زبان عربی ہے اور اہل جنّت کی زبان عربی ہو گی۔

سوال 12:

ایک بزرگ جب اپنے بزرگ کا نام لیتے تو کہتے: میرے بزرگ رحمۃ اللہ علیہ۔ پھر دوسرے مسلک کے بزرگ کا نام لیتے تو بولتے فلاں بزرگ علیھم الرحمہ۔ اس میں کوئی فرق ہے یا ایک ہی چیز ہے؟

جواب:

ترجمہ میں کوئی فرق نہیں ہے، اگر اس کی نیت میں کوئی فرق ہو تو وہ علیحدہ بات ہے۔ علیہم الرحمہ کا مطلب ان کے اوپر رحمت ہو اور دوسرے میں خاص ہے کہ اللہ کی رحمت ہو۔ رحمت اللہ کی طرف سے ہی آئی گی۔

سوال 13:

حضرت کیا یہ "کار نبوت " اور "کار ولایت" اصطلاحات ہیں؟ بہت پہلے اس طرح سنا تھا کہ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سے تبلیغی جماعت والے ملے تو حضرت نے ان سے فرمایا کہ آپ لوگ جو کام کر رہے ہیں یہ کارِ نبوت ہے اور میرا کام کارِ ولایت ہے۔ اکثر میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا رہا کہ اگر یہ کار ولایت ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کرتے؟

جواب:

در اصل لوگ اصطلاحات نہیں جانتے۔ بزرگ اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں، ان کو چھپانے کا ڈھنگ آتا ہے۔ دوسرے اپنے آپ کو چڑھا دیتے ہیں ان کو سمجھنے کا ڈھنگ نہیں ہوتا۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ ولایت کا مطلب اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور نبوت کا تعلق لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی لوگوں تک بات پہچانی ہوتی ہے۔ مخلوق کے ساتھ جو اللہ کے لئے تعلق ہے وہ نبوت ہے اور اللہ کے ساتھ اللہ کے لئے جو تعلق ہے وہ ولایت ہے۔ یہ بھی اصطلاح ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہوتی ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ کار ولایت ہے۔ یعنی انہوں نے اپنے specific بتائی اور بیشک کام نبوت کا ہو لیکن کوئی اس کی وجہ سے نبی نہیں بن سکتا۔ بنے گا تو ولی بنے گا۔

مولانا عبد الحنان صاحب جہانگیرہ کے بہت بڑے عالم تھے، فاضل دیوبند تھے۔ جہانگیرہ کے ہماری تبلیغی جماعت کے امیر ایک دن میرے ساتھ جا رہے تھے، فرمانے لگے کہ ایک دفعہ میں مولانا کے ساتھ جا رہا تھا تو مولانا صاحب نے فرمایا کہ اصل کام تو آپ لوگ کر رہے ہیں، ہم نے تو وقت ضائع کر دیا۔ یہ بات انہوں نے ذرا فخریہ انداز میں کہی۔ میں دو قدم پیچھے ہو گیا اور میں نے کہا: امیر صاحب گولی چل گئی ہے، اپنے آپ کو بچائیں۔ انہوں نے کہا: کیا مطلب؟ میں نے کہا: حضرت نے تواضع میں جو بات فرمائی ہے اگر آپ نے اس کو اپنی بڑائی سمجھ لیا تو تباہ ہو جائیں گے۔ آپ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ حضرت! آپ کی برکت سے سارا کام ہو رہا ہے۔ اگر علماء نہ ہوں تو ہم جہالت پھیلائیں گے۔ اب آپ توبہ کریں اور آئندہ کے لئے اس بات میں احتیاط کریں۔ جو واقعی بزرگ ہوتے ہیں ان کو بزرگی ہضم ہوتی ہے اور جو واقعی بزرگ نہیں ہوتے ان کو بزرگی چڑھی ہوتی ہے، دونوں میں یہ فرق ہے۔

سوال 14:

ایک آدمی جہاد کے میدان میں ہے اور وہ کہتا ہے: قرآن جہاد کے میدانوں میں اترا ہے جو نرم نرم بستروں پہ بیٹھے ہوں ان کو کیا سمجھ آئے گا؟ اسی طرح تبلیغ کے بارے میں فرمایا گیا کہ جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ دیں گے تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائیں گے۔ ذہن میں آیا کہ انہوں نے تو دعوت کا کام چھوڑ دیا، ان کو قرآن کا مفہوم اور نور حاصل ہی نہیں تو وہ کیسے سنبھل سکتے ہیں؟

جواب:

در اصل مسئلہ فضائل کے سنانے میں ہوتا ہے، اگر سارے فضائل برابر برابر سنائے جانے لگیں تو پھر بے اعتدالی نہ آئے۔ اگر آپ ایک طرف کے فضائل زیادہ سناتے ہیں اور باقی فضائل بالکل نہیں سناتے تو پھر ایسا ہی ہو گا جو ابھی ہو رہا ہے۔ جہاد کی اپنی فضیلت ہے، تبلیغ کی اپنی فضیلت ہے۔ اسی طرح قرآن پاک کو پڑھنے اور پڑھانے کے اپنے فضائل ہیں، ذکر کرنے اور کرانے کے اپنے فضائل ہیں۔ اسی طریقے سے سیاست کے میدان میں جو لوگ دینی تحریکوں میں کام کر رہے ہیں ان کے اپنے فضائل ہیں۔ ہر ایک کے لئے روایتیں موجود ہیں۔ جیسے "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِی عَلٰی اَدْنَاکُمْ" (ترمذی، حدیث نمبر 2685)

ترجمہ: ”عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔“

جہاں سے آپ نے یہ سیکھا ہے وہاں سے یہ تعلیم بھی لو۔ اور ذاکرین کے ساتھ بیٹھنے والے بھی محروم نہیں رہتے۔ اسی طرح جس نے اللہ کے راستے میں ایک دن اور ایک رات جہاد میں پہرا دیا یعنی ”رِبَاط فِی سبیل للہ“ کیا تو وہ دنیا ما فیہا سے بہتر ہے۔ ان سب فضیلتوں کے بارے میں پھر تمہارا کیا خیال ہے؟ معلوم ہوا ساری باتیں اپنے اپنے لحاظ سے ضروری ہیں۔ چنانچہ ہم بے تکے انداز میں جو فضائل پڑھتے یا سناتے ہیں اس کا یہ بڑا نقصان ہے۔ اگر ہم سارے فضائل اپنے اپنے طور پہ سنیں پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ الحمد للہ جن بزرگوں کے سامنے ہم پلے بڑھے ہیں انہوں نے ہم پر یہ محنت کی ہے کہ کسی بھی چیز کی طرف ہم اس انداز نہ جائیں کہ دوسرے کی تنقیص ہو جائے۔ حضرت نے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمارے اور بعض ساتھیوں کے درمیان صرف یہ اختلاف ہے کہ وہ کہتے ہیں: تبلیغ ہی ایک کام ہے اور ہم کہتے ہیں: تبلیغ بھی ایک کام ہے۔ فرق صرف ہی اور بھی کا ہے۔ پھر فرمایا کہ اگر میں یہ کہوں کہ صرف تبلیغ ہی ایک کام ہے تو مولانا عبد الحق صاحب کچھ اور کر رہے ہیں۔ ہر ایک چیز کا اپنا اپنا مقام ہے۔

سوال 15:

حضرت! مسجد کی تعریف کیا ہے؟

جواب:

شرعی مسجد اس کو کہتے ہیں کہ واقف اس جگہ یا عمارت کو مسجد کی نیت سے وقف کر دے اور پھر اس پر مسجد کی نیت سے نماز پڑھی جائے۔ ایک نماز بھی پڑھی گئی تو وہ مسجد بن گئی۔ وہ ہمیشہ کے لئے مسجد رہے گی۔ اب اس کو مسجد کے حکم سے باہر نہیں نکالا جا سکتا۔ اس کے علاوہ اللہ پاک نے ساری زمین کو مسجد بنایا ہے۔ معلوم ہوا سب جگہوں پہ نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن وہ اصطلاحی مسجد نہیں ہے بلکہ صرف سجدے کی جگہ ہے۔ یعنی زمین کے ہر حصے پر اگر وہ پاک ہے تو سجدہ کیا جا سکتا ہے۔

سوال 16:

"اُطْلُبُوْا الْعِلْم وَ لَوْ کَانَ بِالصِّیْن" یہ کہاوت ہے یا حدیث ہے؟

جواب:

یہ حدیث شریف ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ چاہے کتنا ہی دور علم حاصل کرنے کیوں نہ جانا پڑے وہاں جا سکتے ہو۔ یعنی علم کی اہمیت کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ چین کے ساتھ خصوصیت والی بات نہیں۔ اس وقت چین بہت دور تھا اس وجہ سے دوری کی مثال دی گئی۔ کیونکہ آپ ﷺ نے جس علم کے بارے میں بات کی ہے وہ علوم نبوت ہیں جو اس وقت چین میں نہیں تھے۔ یہ علوم آپ ﷺ کی طرف سے باقی جگہوں پر جا رہے تھے، آپ ﷺ کے پاس کسی جگہ سے نہیں آ سکتے تھے۔ آپ ﷺ کو اللہ تعالی نے اس لئے اُمی بنایا تھا تاکہ کسی کو یہ کہنے کی جرأت ہی نہ ہو کہ آپ ﷺ نے کسی سے سیکھا ہے۔

سوال 17:

کچھ دنیاوی علوم جو اس وقت چین میں تھے، بعض لوگ کہتے ہیں ان کے لئے فرمایا گیا۔

جواب:

در اصل علم کی تعریف الگ ہے۔ دنیاوی علوم فنون کہلاتے ہیں۔ جیسے صنعت گری، کاری گری یہ فنون ہیں۔ علوم وہ ہیں جن کے بارے میں اللہ پاک کا مطالبہ ہو، جن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اگر وہ نہ ہوں تو آپ کو اللہ پاک کی طرف سے اس کی سزا ہو۔ جیسے اگر میں نے فزکس نہیں پڑھی تو اللہ پاک اس پر سزا نہیں دیں گے کہ فزکس کیوں نہیں پڑھی یا کمسٹری کیوں نہیں پڑھی یا ریاضی کیوں نہیں پڑھی یا اردو کیوں نہیں پڑھی یا انگلش کیوں نہیں پڑھی؟ لیکن اگر میں نمازوں کے مسئلے نہیں سیکھتا تو سزا ہے۔ اگر میں روزے کے مسئلے نہیں سیکھتا تو سزا ہے۔ ہر چیز جو فرض ہے اس کا علم حاصل کرنا بھی فرض ہے۔ اس وجہ سے فرمایا: "طَلَبُ الْعِلْم فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ" (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 224)

ترجمہ: ”علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔“

معلوم ہوا یہ وہ علم نہیں ہے جس کو ہم سائنس وغیرہ کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے کاروبار کو چلانے کے لئے ہیں۔ البتہ ان علوم کے سیکھنے میں یہ نیت کی جائے کہ میں اس سے دین کی خدمت کروں گا، میں اس سے کفّار کے ساتھ مقابلہ کروں گا تو یہ نیت دین کی ہے۔ چنانچہ اس وقت نیت کے اعتبار سے یہ دین بن جائے گا۔ "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات" (البخاری، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ”تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔“

یہ نیت آپ ہر کام میں کر سکتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے میں یہ بات ببانگ دہل اس لئے کہتا ہوں کہ علماء اگر یہ بات کہیں گے تو لوگ کہیں گے نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذَالک یہ حسد میں کہہ رہے ہیں یا احساس کمتری کی وجہ سے کہہ رہے ہیں حالانکہ وہ تو شریعت کی بات بتائیں گے۔ میں اس لئے ببانگ دہل کہہ رہا ہوں کہ مجھ پر کوئی الزام نہیں لگا سکتا کہ احساس کمتری کی وجہ سے کہہ رہا ہوں کیونکہ اللہ پاک نے یہ علوم مجھے نصیب فرمائے ہیں۔ بظاھر میں اس کا حامی ہوتا جس طرح لوگ کہتے ہیں۔ لیکن چونکہ میں نے علماء سے سیکھا ہے اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ ان (دنیاوی) علوم کا دینی علوم کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سوال 18:

ایک واقعہ بہت سنا ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک بستی پر عذاب ہونے لگا تو جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے اللہ اس میں عبادت گزار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اسے اپنی تو فکر ہے دوسروں کی فکر نہیں ہے، اسی پر الٹا دو۔

جواب:

جتنے بھی اس قسم کے کام ہیں اس کے دو درجے ہوتے ہیں۔ ایک اس کا فرض عین درجہ ہوتا ہے۔ دوسرا اس کا فرض کفایہ درجہ ہوتا ہے۔ فرض عین درجے پہ پکڑ ہوتی ہے اور فرض کفایہ پہ اس وقت ہوتی ہے جب سارے لوگ چھوڑ دیں۔ اس بارے میں اس کو دل کی تڑپ ہونی چاہیے تھی کہ اللہ کا دین ٹوٹ رہا ہے۔ یہ احساس ہر مسلمان کو ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذَالک جیسے ہم کہتے ہیں کہ اگر کوئی یہ کام نہیں کرتا تو اس پہ الٹا دو۔ یہ غلط ہے۔ ہر ایک کام کا اپنا اپنا طریقہ ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پہ جو میں بات کر رہا ہوں تو یہ بھی تبلیغ ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ تبلیغ نہیں ہے جو ہم کر رہے ہیں وہ تبلیغ ہے، تو اس کو جاہل کہیں گے۔

سوال 19:

کچھ لوگ کہتے ہیں: بے طلبوں کے پاس جانا انبیاء کا کام ہے۔ اور جس چیز کو stress کرتے ہیں کہ یہ طریقہ نبیوں والا ہے۔ کیا یہ نبیوں والا طریقہ ہے؟

جواب:

﴿عَبَسَ وَتَوَلّٰى 0 أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمٰى 0 وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهٗ يَزَّكّٰى﴾ (عبس: 1 تا 3) اس میں یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ بے طلبوں کے پاس جانے کی کتنی اہمیت ہے اور طلب والوں کی بات کو پورا کرنے کی کیا اہمیت ہے۔ مشہور مسئلہ ہے کہ کسی کو مسلمان بنانے سے بہتر ہے مسلمان کو کافر بننے سے روکنا۔ اگر مسلمان مرتد ہو رہے ہوں تو ان کو بچانا زیادہ ضروری ہے۔ یہ سارے فقہ کے احکامات ہیں ان کو ہمیں جاننا پڑے گا۔ معلوم ہوا انسان کو ہر کام اپنے اپنے درجے کے مطابق کرنا چاہیے اور اس کا درجہ سیکھنا چاہیے۔

جہاں تک نبیوں کے طریقے کی بات ہے تو آپ ﷺ نے مختلف طریقوں سے دعوت دی ہے۔ مثلاً جمع کر کے دعوت دی ہے، انفرادی دعوت دی ہے، مختلف میلوں میں جا جا کر دعوت دی ہے۔ یہ سارے طریقے انبیاء کے طریقے ہوں گے۔ اجتہادی طور پر وقت کے لحاظ سے جو بہتر طریقہ ہو ہم سوچ سے اس کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ طریقہ پر جمود نہیں ہے۔ جیسے امریکہ میں دعوت کا طریقہ کار پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ سعودی عرب میں مختلف ہے، انڈیا میں مختلف ہے۔ تو کون سا طریقہ نبی والا طریقہ ہے؟ ہم جس وقت 1971 میں دعوت میں چلتے تھے اس وقت نظام الگ تھا۔ اب الگ ہے۔ درمیان میں الگ تھا۔ بعد میں بھی شاید مختلف ہو گا۔ معلوم ہوا طریقے پر جمود نہیں ہے۔

سوال 20:

نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے خطوطی فرامین پر کون عمل کرتا ہے؟

جواب:

سارا نبیوں والا طریقہ ہے۔ اگر اس میں ترتیب کے لحاظ سے اجتہاد کے طور پر کسی نئی صورتِ حال میں ایک نیا طریقہ پیدا کیا جا سکتا ہے جس کا طریقہ بیشک مختلف ہو لیکن اس میں نبوت والی ہی فکر ہو۔ اور طریقے سے زیادہ اہم فکر ہوتی ہے۔ فکر بنیاد ہے۔ چنانچہ جو لوگ بھی دین کی دعوت دے رہے ہیں انہوں نے اپنے اپنے حالات کے مطابق سوچا اور اپنے اپنے حالات کے مطابق جو بہتر طریقہ تھا وہ دریافت کر لیا اور اس طریقے پر انہوں نے عمل کیا۔ جس کا جتنا اخلاص زیادہ ہو گا تو فائدہ بھی زیادہ ہو گا۔ معلوم ہوا کسی خاص طریقے کو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نبیوں والا طریقہ ہے اور باقی نہیں ہیں۔ یہ تحریف فی الدین میں آ جائے گا۔ اور دین میں تحریف بہت بڑی جسارت ہے۔ اس ذریعہ کو مقصود بنا لینا تحریف فی الدین ہو جائے گی۔ تو ہر چیز کو اپنی اپنی جگہ پہ ہونا چاہیے۔

سوال 21:

حضرت! مثلاً ایک صاحب کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ آئیں خانقاہ چلتے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ پیدل جاؤں تو اس میں قربانی ہو گی اور فون پہ بھی بتا سکتا ہوں۔ کس میں ثواب زیادہ ہے؟

جواب:

مسجد میں جانے کے لئے جتنے قدم زیادہ ہوں گے ثواب بھی اتنا زیادہ ہو گا۔ صبح نماز کے لئے ہم یہاں خانقاہ سے چلتے ہیں تو پانچ دفعہ ہو آئیں، یعنی پہلے ایک دفعہ جائیں پھر واپس آئیں، پھر چلے جائیں پھر واپس آئیں، یوں زیادہ ثواب نہیں ملے گا کیونکہ جس چیز کی ضرورت ہو اس کے کرنے پہ زیادہ ثواب ملتا ہے۔

سوال 22:

ایک کام ایک آدمی کر سکتا ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ دو تین اور آدمی میرے ساتھ لگ جائیں تاکہ سب کو ثواب ملے۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے؟

جواب:

ایک جذباتی سوچ ہوتی ہے اور ایک با قاعدہ انتظامی سوچ ہوتی ہے۔ انتظامی سوچ میں تقسیم کار ہے کہ کام تقسیم کر دو۔ کوئی ایک کام کرے دوسرا کام دوسرا کرے۔ ایک وقت میں بہت سارے اور زیادہ کام ہو جائیں گے۔ اگر میں سکھانے کی نیت سے اپنے ساتھ رکھوں تو کوئی بات نہیں۔ لیکن محض تھکانے کی نیت سے ایسا کروں تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ مثال کے طور پر ہم جہاد کر رہے ہیں، ایک شخص مارٹر گن خوب اچھی چلا سکتا ہے۔ دوسرا آدمی کھدائی زیادہ بہتر کر سکتا ہے۔ تیسرا آدمی خبر زیادہ صحیح طریقے سے لا سکتا ہے۔ جو مارٹر بہتر چلا سکتا ہے اس کو میں کھدائی پہ لگا دوں تو یہ تقسیم کار غلط ہو گی۔ معلوم ہوا ہر چیز کا اپنا اپنا نظام ہوتا ہے، اس کو سمجھنا ہوتا ہے اور اس کے مطابق کام کرنا ہوتا ہے۔ اگر تعلیم کی خاطر ساتھ رکھیں گے تو ٹھیک ہو گا لیکن اگر وقت ضائع کرنے کے لئے اور تھکانے کے لئے ہو تو درست نہیں۔

سوال 23:

حضرت! مسلمان بنانے کی کیا بنیادی باتیں ہیں؟

جواب:

سبحان اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرما دے۔ سب سے پہلے ایمان ہے۔ لہٰذا "اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْب" پہلا مرحلہ ہے کہ انسان اس چیز کا اقرار کر لے جس کا ایک مومن کو اقرار کرنا چاہیے، زبان اور دل دونوں سے۔ اس کے بعد دین کے فرائض سیکھنے کا مرحلہ آتا ہے لہٰذا ان فرائض کو سکھانے کا کام سب سے پہلے ہو گا۔ میں نے امریکا میں ایسے حضرات کو دیکھا تھا جن کے ہاتھ پہ بہت سارے لوگ مسلمان ہوتے تھے۔ ان کا دوسرا کام فوراً ان کو دین سکھانے کا ہوتا تھا، با قاعدہ نماز پڑھنا سکھا دیتے تھے اور وضو کرنا سکھاتے تھے، غسل کرنا سکھاتے تھے۔ فرض عین علم اسی وقت فورًا شروع ہو جاتا تھا۔ تیسرا مرحلہ اس کے بعد یہ ہے کہ ضروری علوم اور ضروری اصلاح کے لئے کسی سے تعلق ہو جائے اور با قاعدہ کسی کی تربیت میں آ جائے تاکہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں۔ یہ ایک اچھی ترتیب ہے جس پر چلایا جا سکتا ہے۔

سوال 24:

نئے ہونے والے مسلمانوں کو غسل کرانا اور کانوں میں اذان دینا بھی شامل ہے؟ جیسے کہتے ہیں نیا مسلمان بچے کی طرح ہے۔

جواب:

جو بچہ پیدا ہوتا ہے اس کے کانوں میں اذان دی جاتی ہے۔ لیکن نئے مسلمان کے کان میں اذان نہیں دی جاتی البتہ ختنہ اگر نہ ہوا ہو تو کر سکتے ہیں۔ اور غسل بھی اس کو کرنا چاہیے کیونکہ اس سے پہلے وہ جنابت کو نہیں جانتا تھا اور غسل کے فرئض سے واقف نہیں تھا۔ اس لئے غسل کر لے۔ غسل کرنے سے وضو بھی ہو جائے گا پھر بعد میں وضو سیکھ بھی لے۔

سوال 25:

نئے ہونے والے مسلمان کو کلمہ عربی میں ہی پڑھنا پڑے گا؟

جواب:

یہ تو مسلمانوں کا طریقہ ہے کہ ہم کلمه عربی میں ہی پڑھاتے ہیں اور ساتھ اس کا ترجمہ بھی بتاتے ہیں۔ "أشهدُ أنْ لَآ إلهَ إلا الله وأشهدُ أنَّ محمّدًا رّسولُ الله"‎ اگر کسی کو مشکل ہو جیسے "أنَّ محمّدًا رّسولُ الله" بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے۔ عربی میں اگر کوئی قاعدہ ٹوٹ گیا تو اتنا اہم نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مفہوم مراد لینا چاہیے۔

سوال 26:

ہم ایک مفتی صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا حجرہ مسجد کے ساتھ ہی ہے۔ وہ ہمیں اپنے کمرے میں لے جانا چاہتے تھے، لیکن کہتے ہیں کہ ہم اگر اٹھ کے جائیں گے تو تبلیغی جماعت والے جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کے ذہن میں بد گمانی آئے گی۔ اور دوسرے کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے ذہن میں بد گمانی نہ آئے۔ اسی طرح ایک موقع پہ ایک بزرگ نے دوسرے بزرگ کو کسی بات سے ڈانٹا، وہ بزرگ اپنی صفائی دے سکتے تھے لیکن وہ خاموش رہے۔ یعنی کس جگہ پہ اپنی صفائی دینی چاہیے اور کس جگہ دوسروں کو بد گمانی سے بھی بچانا چاہیے؟

جواب:

بد گمانی سے بچانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس چیز میں اللہ نے آپ کو آزادی دی ہے اس میں کسی کو بد گمانی کرنے کا اختیار ہو۔ البتہ بد گمانی یہ ہے کہ مثال کے طور پر کسی خراب محلّے میں میرا کوئی ضروری کام ہو تو اس پہ لوگوں کو بد گمانی ہو سکتی ہے کہ یہ کیوں ادھر گیا ہے؟ اس کے لئے حکم ہے: "اِتَّقُوْا عَنْ مَوَاضِعَ التُّہَم"

ترجمہ: ”تہمت والی جگہوں سے بچو۔“

چنانچہ لوگوں کو بتانا چاہیے۔ آپ ﷺ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ آپ ﷺ کے پاس ہماری ازواج مطہرات میں سے ہماری ایک ماں تھیں۔ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہاری فلاں ماں ہے۔ ان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً کہا: یا رسول اللہ! کیا مجھے بھی آپ کے اوپر بد گمانی ہو سکتی تھی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: شیطان رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اس وجہ سے خیال کرنا چاہیے۔ بہر حال تہمت سے بچنے کے لئے بتا دینا صحیح ہوتا ہے۔ البتہ میں اپنے کسی کام سے مجلس سے اٹھ رہا ہوں تو اس پر ان کو نیک گمانی کرنی چاہیے۔ "ظُنُّوْا المُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا" کا حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ عین ممکن ہے ان کا کوئی ضروری کام ہو۔ لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے۔

سوال 27:

اگر دل نہ توڑنے والی بات ہو۔ وہ یہ امید رکھے کہ میرے اٹھ جانے سے ان کا دل نہ ٹوٹ جائے۔

جواب:

"ظُنُّوْا المُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا" یہ حدیث شریف کس کے لئے ہے؟ میں اس چیز پہ اس لئے زور دے رہا ہوں کہ وہاں حکم ان کی طرف متوجہ ہے۔ وہ لوگ خود سوچیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں بظاھر کوئی بد گمانی کی بات ہو۔ اس واقعہ میں تو بد گمانی کا امکان تھا جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا۔ جبکہ اس میں ہزار توجیہات کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ اچھا گمان رکھے۔ عين ممکن ہے کسی کام سے اٹھ رہے ہوں اور اگر بہت زیادہ بد گمانی کا زور ہے تو پوچھ لے۔

سوال 28:

حضرت یہ کون سے موقع پر بولا جاتا ہے کہ جانے دو بھاڑ میں مجھے ان سے کیا؟ وہ میرے بارے میں جو بھی سمجھتے رہیں؟

جواب:

جب جہلاء کے ساتھ معامله ہو۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا﴾ (الفرقان: 63) تو جاہلوں کے ساتھ جب معاملہ ہو تو پھر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔

سوال 29:

حضرت جاہل کی کیا تعریف ہو سکتی ہے؟

جواب:

عالم کی کیا تعریف ہے؟ جو علم رکھتا ہو۔ چنانچہ جاہل وہ ہے جو علم نہ رکھتا ہو۔ اگر علم رکھتا ہو لیکن عمل نہ ہو تو جاہل نہیں ہے۔ البتہ جاہلوں کی طرح کام کر رہا ہے۔ جیسے اس کو علم ہی نہ ہو۔ بہر حال اس کو جاہل نہیں کہیں گے بلکہ وہ اپنے علم پہ عمل نہیں کر رہا۔

سوال 30:

کہتے ہیں علماء کو ہلکا نہیں سمجھنا چاہیے، اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

اس بارے میں لفظ استخفاف استعمال ہوا ہے۔ یعنی ان کو اپنی نظروں میں کم نہیں سمجھنا چاہیے۔

سوال 31:

مثال کے طور پہ کسی شخص کا اکرام کرنا یا اس کی جوتیاں سیدھی کرنا یا اس کی جوتی اٹھا لینا لیکن اس کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ اس کی اصلاح نہیں ہوئی۔ لہٰذا اگر میں نے اس کے ساتھ ایسا کیا تو اس کے دل میں تکبر آ سکتا ہے تو ایسا کرنا کیسا ہے؟

جواب:

گویا آپ شیخ بننا چاہتے ہیں۔ یہ تو شیخ کو سوچنا چاہیے، ہمیں تو اکرام کا حکم ہے۔

سوال 32:

حضرت تبلیغ میں مشائخ اصلاح کرتے ہیں۔ عام لوگ اکرام کرتے ہیں۔ اس اکرام کی تعریف سے کیا مراد ہے؟ جس کے وہ فضائل سناتے ہیں؟

جواب:

یہاں اکرام سے مراد ایثار ہے۔ ہم دوسرے لوگوں کا حق ادا کرتے ہیں، ان کی خدمت کرتے ہیں، ان کو راحت پہنچاتے ہیں، اس طرح ہر ایک دوسرے کو راحت پہنچائے گا تو سب کو راحت ملے گی۔ ہر ایک خادم ہو گا اور ہر ایک مخدوم ہو گا۔ یعنی ایک جماعت ہے جس میں سب لوگوں کی یہ رائے ہو کہ ہر ایک اپنے آپ کو خادم سمجھتا ہو۔ ایک تو لڑائی نہیں ہو گی اور دوسری بات ہے کہ سب خادم بھی ہوں گے اور سب مخدوم بھی ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے کی خدمت کر رہے ہوں گے۔ جیسے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کرتے تھے۔ جیسے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے عالم تھے، عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آپ ﷺ سے رشتہ داری تھی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن عبّاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ چوما تو ان کو پتا بھی نہیں لگا۔ انہوں نے کہا: حضرت یہ آپ نے کیا کیا؟ آپ تو ہمارے بڑے ہیں۔ فرمایا: اسی طرح ہمیں آپ ﷺ نے اپنے رشتے داروں کا ادب سکھایا ہے تو وہ خاموش ہو گئے۔ پھر ساتھ چلتے رہے اچانک انہوں نے ان کا ہاتھ چوما۔ انہوں نے کہا: یہ کیا کیا؟ کہا: ہمیں آپ ﷺ نے اس طرح بڑوں کا ادب سکھایا ہے۔ دونوں خادم ہو گئے اور دونوں مخدوم ہو گئے۔ یہ بہت اچھی بات ہے اس میں سب کو اجر ملے گا۔ البتہ اصلاح کے لئے کسی مجاہدے میں ڈالنا صرف مشائخ کا کام ہے کسی اور کا نہیں ورنہ مارے جائیں گے۔ مشائخ ترچھی نگاہ سے دیکھ سکتے ہیں کوئی اور دیکھے گا تو مسئلہ بگڑ جائے گا۔ چونکہ مشائخ کے پاس لوگ آتے ہی اصلاح کے لئے ہیں۔ اگر وہ نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا؟ ایک اچھی سی سیدھی سی بات ہو گی لیکن مشائخ بعض دفعہ اس پہ بڑی ڈانٹ پلائیں گے۔ دیکھنے والے کہیں گے: یہ کیا بات ہوئی؟ یہ کیسی اصلاح کر رہے ہیں؟ جیسے مجھے ایک دفعہ بطور اسپیکر رویت ہلال کے مسئلے پہ مدعو کیا گیا تھا۔ صدر جلسہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ اب ظاہر ہے اسپیکر کی تعریفیں بھی ہوتی ہیں سوال و جواب بھی ہوتے ہیں تو ایک شان سی بن جاتی ہے۔ وہ شان حضرت نے نکلوانی تھی۔ جب میں عصر کے وقت گیا تو بات بات پر ڈانٹ رہے تھے۔ مجھے پتا چل رہا تھا کہ کپڑوں کی صفائی ہو رہی ہے لیکن لوگ ممکن ہے خیال کر رہے ہوں کہ حضرت کس بات پر ڈانٹ رہے ہیں؟ لیکن حضرت ان چیزوں کو نکال رہے تھے جو واقعی آ رہی تھیں۔ ان کا نکالنا حضرت کی ذمہ داری تھی، یہ کام شیخ کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔

سوال 33:

کوئی مشتبہ چیز ہدیہ دے یا کھانے کی کوئی چیز ہدیہ دے تو اس میں انکار کر دینا چاہیے؟

جواب:

اگر یہ احتمال ہو کہ یہ دوبارہ بھی دے گا تو پھر کھلا کھلا انکار کرنا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہو بلکہ ایک بار ہی ہو تو لطائف الحیل سے ٹالنا چاہیے۔ مثلاً اس سے میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے، اس سے مراد روحانی طبیعت ہو۔ اس قسم کے ذو معنی الفاظ کہہ کر ٹال دے۔

سوال 34:

حضرت رشوت کی تعریف کیا ہے؟ مثلاً میرے کسی سے تعلقات ہیں لیکن مجھے فی الوقت کوئی ضرورت نہیں لیکن میں اس کو تحفہ دے رہا ہوں تاکہ پانچ سال بعد کوئی کام پڑے تو یہ میرے کام آئے۔ یہ بھی رشوت کے حکم میں ہو گا؟

جواب:

بالکل آئے گا کیونکہ پانچ منٹ بعد آپ کا کام پڑ جائے یا پانچ سال بعد کام پڑ جائے لیکن اگر نظام وہی ہو تو رشوت ہی کہلائے گا۔ کیونکہ اس میں وقت کی قید نہیں ہے۔ کہیں پر بھی نہیں لکھا کہ اتنی دیر بعد اگر کام پڑے تو پھر رشوت نہیں ہو گی۔ آپ ﷺ کے زمانے میں ایک زکوۃ جمع کرنے والے کو تحائف ملے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ رقم زکوۃ کے طور پر دی ہے اور یہ تحفے ہیں جو مجھے دیئے گئے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم گھر میں بیٹھ جاؤ پھر بھی اگر آپ کو تحفے ملیں تو وہ اپنے لئے سمجھنا، تم زکوۃ کے لئے گئے تھے اس لئے یہ تحفے نہیں ہیں۔

سوال 35:

حضرت! تحفہ دینے والے کو پتا ہو کہ مجھے اس سے کام پڑ سکتا ہے لیکن اگر تحفہ لینے والے کو پتا نہ ہو تو پھر اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

آپ کے خیال میں جس کو تحفہ دیا جا رہا ہے کیا اس نے گھاس کھائی ہوئی ہے؟ سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں دیا جا رہا ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعالَمِين