اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت صاحب! نماز کے اندر آنکھیں بند کرنا مکروہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نماز کے اندر ایک خاص تصور رکھنے کا بھی حکم ہے اور خاص تصور بعض اوقات جیسا آنکھیں بند کرکے حاصل ہوتا ہے، ویسا کھلی آنکھوں سے حاصل نہیں ہوتا۔ ایسا کیا طریقہ ہو کہ تصور مکمل حاصل ہو جائے اور آنکھیں بند نہ کرنی پڑیں؟
جواب:
سنت طریقہ یہ ہے کہ نماز پڑھتے وقت آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں۔ اس لئے نماز کا مکمل اجر تو تب ہی ملے گا جب نماز پڑھتے وقت آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔ ہاں اگر آنکھیں کھلی رکھ کرنماز پڑھنے سے خشوع حاصل نہ ہورہا ہو اور آنکھیں بند کرنے سے زیادہ خشوع حاصل ہوتا ہو تو اس کی گنجائش ہے،اس پر عمل کیا جا سکتا ہے اور بعض اوقات نماز پڑھتے ہوئے آنکھیں بند بھی رکھی جا سکتی ہیں۔ لیکن بہرحال افضل اور سنت طریقہ یہی ہے کہ نماز پڑھتے ہوئے آنکھیں کھلی رکھی جائیں۔
اس موقع پر ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں، ایک دفعہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے ایک صاحب کشف مرید نے کہا کہ میں نے نماز پڑھی، اس کے بعد میں نے اپنی نماز کی طرف کشفی طور پر توجہ کی کہ دیکھوں میری نماز کیسی ہے۔میں نے کشف میں دیکھا کہ میری نماز ایک خوبصورت حور کی صورت میں متشکل ہو گئی لیکن وہ حور آنکھوں سے اندھی تھی۔ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان سے پوچھا: کیا تو نے آنکھیں بند کر کے نماز پڑھی تھی ؟ اس نے جواب دیا: جی ہاں۔ فرمایا: بس اسی کی کسر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوشش کرنی چاہیے کہ سنت کے مطابق نماز پڑھی جائے لیکن اگر کسی کو بہت زیادہ مسئلہ ہو، توجہ بالکل ہی نہ ہو پا رہی ہو تو اس کے لئے گنجائش ہے۔ کیونکہ دو مسائل بیک وقت درپیش ہوں تو اس مسئلہ کو اختیار کیا جاتا ہے جس میں پریشانی نسبتاً کم ہو۔ اس لئے اگر آنکھیں کھلی رکھ نماز بالکل ہی نہ پڑھی جارہی ہو، اس وقت خشوع کے لئے اگر آنکھیں بند کر لی جائیں تو اس کی گنجائش ہے۔
سوال نمبر2:
حضرت! سنت اور انتظامی امور میں کیسے فرق کیا جا سکتا ہے۔ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ خوشبو لگانا سنت ہے۔ ہم نے ہر آدمی کو ایک خاص طریقے سے خوشبو لگاتے ہوئے دیکھا تو یہی تصور بن گیا کہ خوشبو لگانے کا سنت طریقہ بھی یہی ہوگا۔ بعد میں ایک عالم صاحب سے معلوم ہوا کہ خوشبو لگانے کا سنت طریقہ ایک خاص طرز سے ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے اگر کسی سنت کو اختیار کیا گیا، لیکن اس کا طریقہ وہ نہیں رکھا گیا جو نبی ﷺ نے اختیار فرمایا تھا، کیا اس طرح سنت ادا ہو جائے گی۔ مثلاً خوشبو لگانے کی سنت پہ تو عمل کیا گیا، مگر اس کا سنت طریقہ معلوم نہ تھا، یا معلوم ہونے کے بعد اختیار نہ کیا گیا، صرف خوشبو لگا لی گئی تو کیا اس طرح سنت ادا ہو جاتی ہے، یا ہر علاقے اور جگہ کا اپنا طریقہ اپنائیں تو بھی سنت ادا ہو جاتی ہے؟
جواب:
ایک ضابطہ کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہر چیز کو سیکھ کر کرنا چاہیے۔ ایک عمل میں کئی سنتیں شامل ہوتی ہیں۔ مثلاً خوشبو لگانا ایک سنت ہے، خوشبو کو سنت طریقے سے لگانا دوسری سنت ہے۔ اگر کسی نے خوشبو لگا تو لی مگر سنت طریقے سے نہیں لگائی تو اسے خوشبو کی سنت کا ثواب مل گیا لیکن خوشبو کو سنت طریقے سے لگانے کا ثواب نہیں ملا۔ اس لئے سنتوں کے بارے میں اول تو جتنا معلوم ہو اس پہ عمل کرنا چاہیے اور مزید سیکھنا چاہیے، تاکہ کسی بھی سنت عمل کے ہر پہلو سے آگاہی ہو جائے۔
سوال نمبر3:
حضرت! بزرگ فرماتے ہیں کہ علماء کی قدر کرنی چاہیے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم جیسا بھی ہو اس کی قدر کرنی چاہیے لیکن قرآن مجید میں آیا ہے:
﴿اِنَّمَا يَخۡشَى اللّٰهَ مِنۡ عِبَادِهِ الۡعُلَمَآءُ ﴾ (فاطر: 28)
ترجمہ: ”اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔“
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صرف انہی علماء کی قدر کرنی چاہیے جو اللہ سے ڈرتے ہوں، یا دوسرے الفاظ میں صرف باعمل علماء کی قدر کرنی چاہیے۔ ان دونوں باتوں میں مطابقت کیسے ہوگی۔
جواب:
یہ بات تو مسلم ہے کہ علماء کی قدر کرنی چاہیے۔ یہ بات سمجھنی چاہیے کہ علماء کی قدر کرنے کا حکم کس لئے دیا گیا ہے۔ در اصل علماء کی قدر ان کے علم کی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ دین کے عالم ہیں۔ اس لئے اگر کوئی عالم بے عمل ہے تو اس کی بھی قدر کی جائے گی لیکن وہ قدر در اصل اس کے علم کی قدر ہوگی، اللہ پاک آپ کو اس کا اجر دیں گے کہ آپ نے اس کے اس علم کی قدر کی ہے جو اسے حاصل ہے اور وہ دین کا علم ہے۔ لہٰذا اگر آپ علم کی بنا پر قدر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ان کا عالم ہونا کافی ہے۔ اور اگر آپ ان کی ولایت کی قدر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے صرف علم کافی نہیں بلکہ اور چیزیں بھی required ہوں گی۔ لیکن ”ظُنُّوْا الْمُؤمِنِیْنَ خَیْرًا“ کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے اور جس کو بھی دین کا علم حاصل ہے، اس علم کی بنا پر اس کی قدر کرنا اور ادب کرنا چاہیے۔ عالم کو اس کے علم کی بنا پر اپنے آپ سے بہتر سمجھ کر اس کا ادب کرنا علم حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ جو لوگ علماء کی قدر کرتے ہیں ان کی اولاد میں علماء پیدا ہوتے ہیں اور جو مشائخ واولیاء کی قدر کرتے ہیں ان کی اولاد میں مشائخ واولیاء پیدا ہوتے ہیں۔
سوال نمبر4:
حضرت صاحب اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ کیا فقہ کے مسائل صرف انہی علماء سے پوچھنے چاہییں جو اپنے مکتبۂ فکر کے ہوں یادوسرے مکتبۂ فکر کے علماء سے بھی پوچھ سکتے ہیں؟
جواب:
اس سلسلے میں یہ طریقہ اختیار کرنا بہتر ہے کہ جن کی تحقیق پر اعتماد ہو ان سے مسئلہ پوچھنا چاہیے اور انہی کی تحقیق پر عمل کرنا چاہیے۔ اگر ہم کبھی ایک کی تحقیق پہ عمل کریں کبھی دوسرے اور کبھی تیسرے کی تحقیق پر۔ تو یہ علماء کی اتباع نہیں ہو گی بلکہ یہ نفس کی اتباع ہو جائے گی۔ کیونکہ نفس آسانی ڈھونڈے گا اور آخر کار آسانیاں اختیار کرتے کرتے غلط طرف چلا جائے گا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے آدمی اپنی بیماری کا علاج چار ڈاکٹروں سے پوچھے، چاروں دوائیں لکھ کر دے دیں اور وہ آدمی ایسا کرے کہ ہر ڈاکٹر کی میٹھی میٹھی دوائیں لے لے اور کڑوی دوائیں چھوڑ دے۔ آپ کا کیا خیال ہے ایسے آدمی کا علاج ہو پائے گا؟ ظاہر ہے وہ مزید بیما رہی ہوگا۔ لہٰذا نفس کو ایسا موقعہ نہ دینے کے لئے کسی ایک امام کو معین کرنا ضروری ہے، کسی ایک در کا ہو کر رہنا ضروری ہے۔ پس ان علماء سے پوچھنا چاہیے جو آپ کے امام کی فقہ کو جانتے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خیال بھی رکھا جائے کہ مسئلہ پوچھنے اور فتویٰ لینے کے معاملہ میں ایسے علماء کو ترجیح دی جائے جو متقی ہوں اور ہر صورت میں مسئلہ صحیح بتاتے ہوں کسی مصلحت کی بنا پر صحیح کو غلط نہ کر دیتے ہوں۔
سوال نمبر5:
حضرت قرآن پاک میں ایک آیت ہے:
﴿اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾ (الفرقان: 63)
ترجمہ: ” جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) خطاب کرتے ہیں تو وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں۔“
اس کے کیا معنی ہیں، اس کی کچھ تشریح فرما دیجیے۔
جواب:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے پاس وقت ایک بہت قیمتی چیز ہے۔ اگر جاہلوں کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع ہو جائیں تو جاہل لوگ تو سمجھیں گے نہیں، آپ ہی کے وقت کا حرج ہو گا۔ اس وجہ سے ان کو لطائف الحیل سے ٹا ل دیں۔ یعنی ایسے طریقے سے ٹال دیں جس سے لڑائی کی صورت پیدا نہ ہو تاکہ آپ کا وقت بچ جائے اور کوئی مشکل نہ پڑے۔
سوال نمبر6:
حضرت قرآن مجید میں تبلیغ کے بارے میں دو آیات ہیں:
﴿ كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ﴾ (اٰل عمران: 110)
ترجمہ: ”(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے۔“
﴿وَ لْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ﴾ (اٰل عمران: آیت 104)
ترجمہ: ”اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں۔“
ان دونوں آیات سے مجھے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ عمومی تبلیغ سب کے لئے ہے اور خصوصی تبلیغ ایک خاص گروہ کے لئے ہے۔ حضرت رہنمائی فرما دیجیے کہ کیا میں درست سمجھا ہوں؟
جواب:
عمومی تبلیغ سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آپ نارملی کسی کو بھی کسی نیک کام کی ترغیب دے دیں یا برائی سے بچنے کی نصیحت کر دیں۔ مثلاً آپ کسی کو یہ بتا دیں کہ مسجد کے اندر بدبو نہیں لانی چاہیے، اپنے آپ کو پاک صاف کرکے آنا چاہیے، نماز پڑھنی چاہیے روزے رکھنے چاہییں۔ یہ تبلیغ تو سب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک خصوصی تبلیغ ہوتی ہے، جس میں موقع محل کے مناسب کچھ خاص کاموں کا حکم یا کچھ خاص برائیوں کی نشاندہی کرکے ان سے رکنے کی ترغیب دینا مقصود ہوتا ہے، دوسرے الفاظ میں آپ یوں کہہ لیں کہ جس میں نہی عن المنکر کا پہلو زیادہ ہوتا ہے۔ یہ تبلیغ ہر کوئی نہیں کر سکتا، کیونکہ اس کے لئے حکمت کا جاننا ضروری ہے حکمت ہر ایک کے پاس نہیں ہوتی، اس لئے یہ کام ہر کسی کو نہیں کرنا ہوتا۔ سب کو اس کا مکلف نہیں کیا گیا، البتہ اپنے آپ کو ہر برائی سے بچانا سب پہ فرض ہے۔ لہذا برے لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا نہیں چاہیے لیکن ان کو دعوت دینے یا برائی سے منع کرنے کے لئے بڑی حکمت کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لئے ایسے لوگوں کو متوجہ کیا جائے جو اس فن کو جانتے ہوں۔
سوال نمبر7:
حضرت قرآن مجید میں ایک آیت ہے:
﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾(الأنفال: 60)
ترجمہ: ” اور (مسلمانو) جس قدر طاقت تم سے بن پڑے ان سے مقابلے کے لیے تیار کرو۔ “
اس آیت کے مصداق پر آج کل کے حالات میں ہم کس طرح عمل کر سکتے ہیں؟
جواب:
در اصل اس آیت میں مسلمانوں سے من حیث القوم خطاب کرکے حکم دیا گیا ہے کہ اپنے آپ کو دشمن کے مقابلے کے لئے تیار کر لو اور اس تیاری کے لئے جس نوع کی قوت و طاقت کی ضرورت ہے اسے حتی الوسع حاصل کر لو۔ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ حکم ہماری مسلمان حکومتوں کے لئے ہے کہ وہ دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہیں۔ اس کے علاوہ انفرادی طور پر بھی ہر مسلمان مرد کو اس حد تک بنیادی ٹریننگ حاصل ہونی چاہیے کہ اگر عمومی جہاد کا سلسلہ شروع ہو جائے تو وہ دوسروں پہ بوجھ نہ بنے بلکہ خود مجاہد بن سکے۔ حکومت کو اتنی ٹریننگ کا انتظام کرنا چاہیے تاکہ ہر آدمی اس قابل ہو کہ وقت پڑنے پر کفار کا مقابلہ کر سکے۔
سوال نمبر8:
حضرت کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کوئی عالم ایک کام کی ابتدا کرتے ہیں، ان کے شرح صدر کے مطابق وہ کام درست ہوتا ہے، لیکن ان کے کچھ ہمعصر علماء کو اس کام کے بارے میں شرح صدر نہیں ہوتا، وہ اختلاف کرتے ہیں اور اس کام کے نتائج کو درست نہیں پاتے۔ جیسا کہ حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے جب تبلیغی جماعت کا سلسلہ شروع کیا تو انہی کے کئی ہمعصر علماء نے اس ترتیب پر کچھ تحفظات پیش کیے۔ تو ایسی صورت میں ہمیں کس کو صحیح اور کس کو غلط سمجھنا چاہیے اور اس اختلاف کو کس طور پہ لینا چاہیے؟
جواب:
یہ علماء کے درمیان اجتہادی اختلاف ہوتا ہے۔ اجتہادی اختلاف میں بیک وقت کئی آراء ہو سکتی ہیں۔ جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے تو اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہ قرآن سے بھی ثابت ہے حدیث سے بھی ثابت ہے سلف صالحین سے بھی ثابت ہے۔ البتہ اس میں ضرور اختلاف ہو سکتا ہے کہ یہ کام کس طریقے سے کیا جائے۔ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس وقت کے حضرات کا اسی طریقے پر ہی اختلاف تھا۔ اور میرے خیال میں جن حضرات نے اختلاف کیا، انہوں نے جن وجوہات کی بنا پر اختلاف کیا، وہ وجوہات آج کل ہمیں نظر بھی آ رہی ہیں، انہوں نے اس طریقے کے کچھ منفی پہلووں کو سامنے رکھا تھا۔
بہرحال جب علماء کے درمیان ایسا اختلاف ہو تو ہمارا کام یہ ہوتا ہے کہ ہم دونوں طرف کے علماء کو اجتہادی طور پر درست سمجھیں، کسی طرف کے علماء کو غلط نہ کہیں، جن علماء کی تحقیق پر ہمارا اعتماد ہو ان کی پیروی کریں اور دوسروں کو غلط نہ کہیں۔
سوال نمبر9:
حضرت! ایک یہ بات ہے کہ جھوٹ کو اتنا بولنا کہ وہ سچ لگنے لگ جائے اور ایک بات یہ بھی ہے کہ کسی ایک سچ کو اتنا بولنا کہ باقی سارے سچ نظر انداز ہو جائیں اور پتا لگے کہ بس یہی ایک سچ ہے۔
جواب:
یہ سوال کئی بار مختلف انداز میں کیا گیا ہے اور کئی بار اس کا جواب بھی دیا گیا ہے۔فی الوقت اس بارے میں یہ عرض کرتاہوں کہ قرآن و حدیث سے دین کے جن مختلف شعبوں کے فضائل ثابت ہیں، ان کے درمیان اعتدال رکھنا بہت ضروری ہے۔ صرف ایک شعبہ پر پورا زور لگانا اور اس کے قائم کرنے پر باقی دین کی بقا قرار دینا درست نہیں ہے۔ مثلاً آپ جہاد کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیں اور باقی کسی شعبہ کی بات ہی نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مجاہدین باقی لوگوں کو مسلمان سمجھنا ہی چھوڑ دیں گے۔ اگر آپ صرف تبلیغ کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیں اور باقی کسی چیز کی فضیلت بیان نہ کریں تو تبلیغ والے حضرات باقی لوگوں کو کچھ نہیں سمجھیں گے۔ اس طرح اگر آپ صرف تعلیم و تدریس کو اصل قرار دیں اور باقی کسی چیز کے فضائل نہ بتائیں تو علماء باقی لوگوں کو کچھ نہیں سمجھیں گے۔ اللہ جل شانہ نے قرآن میں اور نبی ﷺ نے احادیث شریفہ میں سب چیزوں کے فضائل علیحدہ علیحدہ بیان کیے ہیں۔ ان سب میں ایک توازن اور اعتدال قائم رکھنا ضروری ہے۔ اس اعتدال کو پیدا کرنے کے لئے سارے فضائل کو ایک حکمت کے ساتھ مناسب طریقے سے بیان کرنا چاہیے تاکہ آپس میں تفریق بھی نہ آئے اور ان تمام چیزوں سے فائدہ بھی حاصل ہو سکے۔
سوال نمبر10:
بزرگوں کے حالات کے مطالعہ میں ہمیں یہ چیز نظر آتی ہے کہ کئی مشائخ نے اپنے شیخ سے سیاسی اختلاف رکھا۔ آج کل کے دور میں اگر کوئی مرید اپنے شیخ سے سیاسی اختلاف رکھے تو کیا اس سے اس کی اصلاح میں نقصان ہو سکتا ہے؟
جواب:
جی ہاں! اس کی گنجائش ہے لیکن اس اختلاف کا اظہار کرنے میں بڑی حکمت کی ضرورت ہو گی تاکہ شیخ کی ناقدری نہ ہو، شیخ کے ساتھ مقابلے کی صورت پیدا نہ ہو اور اس کی قدر میں ذرہ بھر کمی نہ آئے۔ ورنہ بعض دفعہ اس کا نقصان بھی ہو جاتا ہے۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں ایک صاحب (جو عالم بھی تھے اور حضرت کے مرید بھی تھے) انہوں نے حضرت کو مشورہ دیا کہ خلافت کی تحریک چل رہی ہے۔ آپ کے اختلاف کی وجہ سے امت منتشر ہو رہی ہے۔ اگر آپ ان پہ شفقت فرما کر ان کا ساتھ دیتے تو مسلمانوں میں ایک اتحاد کی صورت پیدا ہو جاتی۔ حضرت نے پہلے ان کی بڑی تعریف فرمائی اور اسے بڑی دعائیں دیں کہ آپ کو مسلمانوں کے بارے میں بڑی فکر ہے اللہ تعالیٰ آپ کو استعمال فرما لے، آپ کو قبول فرما لے۔ اس کے بعد فرمایا: چونکہ آپ نے میرے اس عمل پر اعتراض کیا ہے کہ میں تحریکِ خلافت والوں کا ساتھ نہیں دے رہا اور مجھے مشورہ دیا ہے کہ میں ان کا ساتھ دوں، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میرا طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس لئے اب آپ کو مجھ سے فائدہ نہیں ہو گا۔ آپ اپنے لئے دوسرا شیخ ڈھونڈیں، میں آپ کی اتنی مدد کر سکتا ہوں کہ آپ کو کسی اور شیخ تک پہنچا دوں۔
وہ صاحب بڑے روئے اور بڑی منت سماجت کی کہ معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا: بھئی آپ نے غلطی کی ہی نہیں تو اس پہ معافی کیسی۔ یہ مناسبت کی بات ہے، بس اتنا مسئلہ ہے کہ آپ کو مجھ سے مناسبت نہیں ہے۔ جن کے ساتھ آپ کی مناسبت ہے میں آپ کو ان کے ہاں پہنچا دیتا ہوں، آپ ان سے تعلق قائم کر لیں۔
اب آپ اس واقعہ پہ غور کریں کہ ان صاحب کو اس مجلس میں یہ بات کرنے کی اور اپنے شیخ کو مشورہ دینے کی کیا ضرورت تھی۔ بے شک وہ تحریک خلافت میں شامل رہتے لیکن انہیں اپنے شیخ کو مشورہ دینے کا حق نہیں تھا۔
کسی چیز کا اچھا ہونا یا برا ہونا ایک الگ بات ہے۔ اچھی چیز کو اچھے طریقے سے کرنا یا برے طریقے سے کرنا یہ ایک الگ بات ہے۔ اگر آپ ایک بہت عمدہ کھانا ناک سے کھانا شروع کر لیں تو اس سے کھانا برا نہیں ہو جائے گا، کھانا اچھا ہی رہے گا، مگر آپ چونکہ اس کھانے کو صحیح طریقے سے نہیں کھا رہےاس لئے آپ کو بجائے فائدہ کے نقصان ہو جائے گا۔ دونوں باتیں ضروری ہیں۔ کھانا صحیح ہونا چاہیے اور اس کو صحیح طریقے سے کھانا چاہیے۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں کئی ایسے لوگ موجود ہوتے تھے جو ضیاء الحق کے بڑے مداح تھے اور ایسے لوگ بھی موجود ہوتے تھے جو ضیاء الحق کے بہت سخت مخالف تھے۔ یہ سب اپنے اپنے domain میں کام کر رہے تھے لیکن کبھی حضرت کی مجلس میں اس پہ گفتگو نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا شیخ کی مجلس اور شیخ کے ساتھ معاملات میں بے حد احتیاط رکھنی چاہیے۔
سوال نمبر11:
حضرت جمعہ کے دن نمازِ جمعہ کے دوران مساجد میں جو لوگ بطور گارڈ ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، اور جمعہ نہیں پڑھتے، ان کا جمعہ رہ جاتا ہے۔ کیا جمعہ کی نماز ان کے ذمے باقی رہتی ہے، ایسے لوگوں کے لئے نماز جمعہ کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اس سلسلے میں یہ عرض کروں گا کہ جمعہ کی نماز ہی نہیں بلکہ سب فرض و واجب نمازیں ادا کرنا ہر آدمی پہ فرض ہے چاہے وہ گارڈ ہو، فوجی ہو، پولیس میں ہو یا کسی بھی شعبے اور محکمے سے تعلق رکھتا ہو۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب باقی لوگ نماز پڑھ رہے ہوں تو کچھ لوگوں کا سکیورٹی انتظامات پہ رہنا ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے نماز کی ادائیگی کاانتظام صحیح طریقے سے کرنا ہوگا اور یہ ذمہ داری کمپنی انتظامیہ کی ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوگا کہ کمپنی کے ذمے لازم ہے کہ مختلف چوکیدار اور guards کو باری باری مختلف مسجدوں میں بھیجیں۔ کیونکہ ایک ہی علاقے میں اگر دس مسجدیں ہوں تو تقریباً سب میں جمعہ کی نماز کا وقت مختلف ہوتا ہے، اس لئے مختلف اوقات میں مختلف گارڈز کو جمعہ پڑھوا دیا جائے تاکہ security میں بھی نقصان نہ ہو اور جمعہ کی نماز میں بھی حرج نہ ہو۔ جمعہ فرض عین ہے اس کے لئے پورا انتظام کرنا ان کے ذمے لازم ہے میں اس کی مثال صلاۃ الخوف والی ہی سمجھتا ہوں۔ جس کے بارے میں قرآن پاک میں احکامات ہیں۔ جہاد سے زیادہ مشکل وقت کونسا ہوگا۔ جہاد کے دوران بھی نماز معاف نہیں ہے، ہاں اس کا انتظام ذرا الگ طریقے سے کر دیا گیا ہے کہ دوران جہاد ایک مخصوص طریقے سے باری باری سب مجاہدین نماز پڑھ لیتے ہیں۔ فقہ کی کتابوں میں باقاعدہ اس کا ایک طریقہ دیا گیا ہے۔ الغرض نماز کو اپنے وقت پہ پڑھنا ہر آدمی کے لئے فرض عین ہے۔
سوال نمبر12:
حضرت! کیفیت احسان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سارے اعمال کی جان ہے، جس طرح جسم میں روح نہ ہو تو آنکھیں نہیں دیکھتیں، کان نہیں سنتے اور جسم کا کوئی عضو کام نہیں کرتا، کیا اسی طرح کیفیت احسان بھی اعمال کی روح ہے؟
جواب:
آپ ﷺ سے تین سوال کیے گئے تھے۔ ایمان کیا ہے؟ اسلام کیا ہے؟ احسان کیا ہے؟
جس ترتیب سے سوالات ہوئے ہیں۔ اسی ترتیب سے ان کی اہمیت ہے اور اسی ترتیب سے تکمیل ہے۔ ”ایمان“ اسلام میں داخلے کا نام ہے۔ اگر کسی کا کوئی بھی عمل نہ ہو لیکن ایمان ہو، اسے ہم مسلمان کہیں گے۔ ہاں یہ بات ضرور ہے کہ جو مسلمان اعمال نہیں کرتا ہو گا وہ کمزور مسلمان ہو گا، وہ مسلمان اس سے زیادہ اچھا ہو گا جو عمل کرتا ہو گا۔
دوسرا سوال کیا گیا تھا کہ اسلام کیا ہے۔ اس کے جواب میں اسلام کے ارکان و اعمال اور احکامات بتائے گئے ہیں۔ ان پر عمل کرنا لازم ہے۔
تیسرے نمبر پر احسان ہے۔ احسان ان اعمال کی روح ہے۔ لیکن اس روح اور جسمانی روح میں اتنا فرق ہے کہ جسمانی روح کے بغیر جسم بے کار ہے، مگر احسان کے بغیر اعمال بالکل بے کار نہیں ہیں۔ کوئی آدمی بالکل اعمال نہ کرے، اس سے بہتر یہ ہے کہ وہ بغیر روح والے اعمال کرلے۔ اعمال سے مکمل طور پر خالی ہونے سے اچھا ہے کہ وہ اعمال کرے تو سہی، چاہے بے روح ہی کرے۔ پھر اس کے بعد روح والے اعمال روح سے خالی اعمال سے زیادہ اچھے ہیں۔ پس اگر کسی کو مکمل اسلام لینا ہے تو ان تینوں کو مکمل حاصل کرنا ہو گا۔ اگر یہ تیسرا حصہ کسی آدمی کو حاصل نہیں ہے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ پہلے دونوں حصوں سے بھی خالی ہے، بلکہ یہ کہیں گے کہ اس کے پہلے دونوں حصے ٹھیک ہیں ہاں تیسری چیز میں کمی ہے۔ ایمان کی اہمیت سب سے زیادہ ہے کیونکہ اگر ایمان نہیں ہو گا تو پھر عمل قبول ہی نہیں ہے۔ دوسرے نمبر پہ ظاہری اعمال کی اہمیت ہے، یہ اسلام کا ظاہری ڈھانچہ ہیں، اگر ظاہری ڈھانچہ نہیں ہوگا تو ایمان ادھورا رہے گا، تیسرے نمبر پہ احسان ہے اگر وہ نہیں ہو گاتو اعمال بے جان ہوں گے۔
سوال نمبر13:
حضرت! اکیلی بکری کو بھیڑیا کھا جاتا ہے اور انسانوں کا بھیڑیا شیطان ہے۔ اس بات کا تعلق جماعت کے ساتھ ہے یا باجماعت نماز کے ساتھ؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اس کا تعلق بنیادی طور پر جماعت سے ہے، یعنی پوری امت کے ساتھ رہو، معاشرے میں اکیلے نہ رہو۔ جماعت کی نماز اس جمعیت کا ایک جز ہے اور در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز میں جماعت کی شکل میں رہو۔ مثلاً سفر کرو تو جماعت کی صورت میں کرو۔ معاشرے میں اکیلے تنہا نہ رہو۔ اپنے آپ کو صحبت صالحین کا پابند کرو۔ اگر انسان اکیلا رہے تو شیطان انسان کو خراب کر دیتا ہے۔
سوال نمبر14:
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اکٹھے بیٹھے ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی روزمرہ زندگی کے حوالے سے دینی سوال کر لیتا ہے، جس کا جواب انہی لوگوں میں سے کوئی اپنی طرف سے ہی دیتا ہے، اس کی اس جواب کے بارے میں کوئی تحقیق نہیں ہوتی۔ کئی بار وہ جواب بالکل درست بھی ہوتا ہے لیکن کیا بغیر تحقیق اور احتیاط کے اس طرح دینی مسائل کے بارے میں جواب دینادرست ہے؟
جواب:
دینی معاملات ہوں یا دنیاوی، بغیر تحقیق کے بالکل بات نہیں کرنی چاہیے۔ بالخصوص قرآن وحدیث کے بارے میں بغیر تحقیق کے بات کرنا بہت خطرناک ہے۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے جس نے مجھ پر جھوٹ بولا، اس نے اپنے لئے جہنم کے گڑھے کا انتخاب کر لیا۔ آپ ﷺ پر جھوٹ بولنے کی اتنی بڑی سزا ہے تو اللہ پر جھوٹ بولنے کی سزا تو اس سے کہیں زیادہ سخت ہوگی۔ لہذا ایسے معاملات میں دھڑلے کے ساتھ بات نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے بجائے سب سے زیادہ آسان بات یہ ہے کہ آدمی کہہ دے کہ مجھے ابھی علم نہیں ہے کسی سے پوچھ کے بتا دوں گا۔ اور اگر اس مسئلے کا علم ہو تو جس ذریعے سے علم ہوا ہو وہ ذریعہ ضرور بتا دے، کسی سے سنا ہو تو اس کا نام بتائے کہ اس سے سنا ہے کسی کتاب میں پڑھا ہو تو اس کا حوالہ دے دے تاکہ ذمہ داری اپنے اوپر نہ رہے، بلکہ اس شخص کی ہو جس سے نقل کر رہا ہو۔
ہمارے حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ ایک دن فرمانے لگے کہ مجھے سارے سوالوں کے جوابات آتے ہیں۔ ہم بڑے حیران ہو گئے کہ حضرت تو بڑے دعوے نہیں کیا کرتے یہ دعویٰ کیسے کر لیا۔ حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ مجھے یہ کہنا آتا ہے کہ مجھے جواب نہیں معلوم۔ اور یہ بھی ایک جواب ہی ہے۔
سوال نمبر15:
جب مسلمان فوت ہو جاتا ہے تو کیا غیر مسلم اس کے جسم کو دیکھ سکتا ہے ؟
جواب:
دیکھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی کہ غیر مسلم فوت شدہ مسلمان کو نہ دیکھ سکتا ہو۔
سوال نمبر16:
حضرت! کسی کام میں دوسروں سے مددلینا کس حد تک درست ہے، اس کے کیا حدود و قیود ہیں۔ مثلاً میں خانقاہ جا رہا ہوں یا مسجد جا رہا ہوں یا مدرسے میں کسی دینی کام سے جا رہا ہوں اور میں کسی کو کہتا ہوں کہ مجھے ذرا لاہور چھوڑ آؤ۔ اب میرے ذہن میں تو یہ ہے کہ میں دینی کام کے لئے جا رہا ہوں، اپنی ذات کے لئے تو نہیں جا رہا۔ جبکہ دوسرا بیچارہ اس پریشر میں آ جاتا ہے کہ بھائی دین کا کام ہے انکار کیسے کر سکتا ہوں۔ وہ بادل ناخواستہ مان تو لیتا ہے، لیکن بسا اوقات ناگواری کے ساتھ مانتا ہے۔ ایسی صورت میں کیا عمل اختیار کیا جائے اور طریقہ کار کیا ہو؟
جواب:
یہ بات پہلے بھی بتائی جا چکی ہے کہ کام کا اچھا یا برا ہونا ایک الگ بات ہے۔ اور اس کا کو اچھے یا برے طریقے سے کرنا ایک الگ معاملہ ہے۔ ایک یہ بات ہے کہ اس کام کو کرنا اچھا ہے اس لئے کرنا چاہیے۔ دوسری یہ بات ہے کہ اس اچھے کام کو اچھے طریقے سے کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص تبلیغ کے لئے جا رہا ہے یا مسجد میں جا رہا ہے یا خانقاہ جا رہا ہے تو یہ ایک اچھا کام ہے لیکن اگر اس اچھے کام کو کرنے کے لئے وہ کسی سے سوال کر رہا ہے تو سوال کرنا حرام ہے اور ایک غلط کام ہے۔ البتہ اگر کوئی بے تکلف دوست ہےاور وہ ایک دوسرے کو کہتے رہتے ہیں، اگر اس کا حرج نہ ہو رہا ہوتو اطلاعاً کہہ دے کہ اگر تمہارا بھی جانا ہوا تو ساتھ لے جانا۔ لیکن اگر وہ نہ لے جائے تو اس پر ناراض ہونا جرم ہے، کیونکہ یہ اس کا حق نہیں ہے۔
سوال نمبر17:
غیر مسلم کو چھینک آئے تو کیا اسے ”یَرْحَمُکَ اللّٰہ“ وغیرہ کہنا چاہیے؟
جواب:
غیر مسلم اس جواب کا مکلف ہی نہیں ہے کیونکہ ”یَرْحَمُکَ اللّٰہ“ تب کہتے ہیں جب کسی کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے۔ کافر الحمد للہ کہنے کا مکلف ہی نہیں، اس نے ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہ“ کہا ہی نہیں، لہٰذا اسے ”یَرْحَمُکَ اللّٰہ“ بھی نہیں کہا جائے گا۔
سوال نمبر18:
حضرت! کوئی آدمی جو ہمارا عزیز رشتہ دار بھی ہو، شراب پی کے ہمارے پاس آئے تو کیا اسے سلام کر سکتے ہیں؟
جواب:
جی ہاں! مسلمان ہونے کی حیثیت سے اسے سلام کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ چاہے گناہ گار ہے لیکن ہے تو مسلمان۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک آدمی کی داڑھی نہ ہو تو وہ گناہ گار ہے، لیکن اسے سلام کیا جاتا ہے کیونکہ مسلمان ہے، جو شراب پی کر آئے اس کی مثال بھی ایسی ہی ہے۔
سوال نمبر19:
حضرت! حدیث میں ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ حالانکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ مقتول بے گناہ ہو، اس کے باوجود فرمایا گیا کہ مقتول بھی جہنمی ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
حدیث میں جو فرمایا گیا یہ اس صورت کے لئے نہیں ہے جس میں مقتول بے گناہ ہو۔ یہ اس صورت کے لئے فرمایا گیا ہے کہ جب دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں اور ایک دوسرے کو مارنا چاہتے ہیں۔ دونوں غلطی پر ہیں۔ ایسی صورت میں دونوں میں سے جو بھی پہلے مر جائے وہ خود بخود مقتول کہلاتا ہے، ورنہ ارادہ تو اس کا بھی یہی تھا کہ خود قاتل بنے اور دوسرے کو مقتول بنا دے۔ دونوں ایک دوسرے کو مارنے کے لئے پر تول رہے تھے، جس کا داؤ چل گیا وہ قاتل بن گیا اور دوسرا مر گیا۔ ایسی صورت میں فرمایا گیا ہے کہ جو مقتول بنا وہ بھی جہنمی ہے، کیونکہ اس کا ارادہ بھی مارنے کا تھا اور جو قاتل بنا وہ بھی جہنمی ہے کیونکہ اس کا ارادہ بھی مارنے کا تھا، جس کا اس نے ارتکاب بھی کر لیا ہے۔
سوال نمبر20:
حضرت! جو لوگ شراب پیتے ہیں، کیا انہیں شراب پینے کے بعد غسل کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں ایک یہ بات بھی سننے میں آئی ہے کہ جو شراب پی لے چالیس دن تک اس کا غسل نہیں ہوتا۔
جواب:
شراب پی کر غسل کا فرض ہونا تو ہم نے نہیں سنا۔ ہاں قرآن شریف میں اس کے بارے میں اتنا ہے:
﴿ وَ لَا تَقْرَبُوْا الصَّلَاۃَ وَ اَنْتُمْ سُکَارٰی﴾ (النساء: 43)
ترجمہ: ”اور جب تم نشے کی حالت میں ہو تو اس وقت تک نماز کے قریب بھی نہ جانا“
لہذا نشے کی حالت میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے۔ باقی یہ بات کہ شرابی کا چالیس دن تک غسل نہیں ہوتا۔ یہ تشدد ہے۔ لوگوں نے اپنی طرف سے ایک شدت پیدا کی ہے۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ اگر کوئی ابھی شراب پیے اور نشہ ختم ہونے کے بعد فوراً وضو کرے، دو رکعت صلاۃ التوبہ پڑھ کر اللہ کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگے تو وہ ولی اللہ ہے۔
سوال نمبر21:
حضرت! ولی اللہ کون ہوتا ہے؟
جواب:
ولی اللہ کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی قسم یہ ہے کہ ہر مومن اللہ کا ولی ہے۔ کیوں اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿ وَ اللّٰهُ وَلِیُّ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (اٰل عمران: 68)
ترجمہ: ”اور اللہ مومنوں کا کارساز ہے۔“
اس معنی میں تو ہر مومن اللہ کا ولی ہے، اس میں کسی عمل کی شرط نہیں ہے۔
قرآن پاک کی ایک دوسری آیت میں اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚ۔ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ﴾ (يونس: 62-63)
ترجمہ: ”یا درکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ وہ غم گین ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کیے رہے۔“
پس تقویٰ کے ساتھ ایمان پر مستحکم رہنا یہ ولایت خاصہ ہے۔ پہلی قسم عام مومن کی ہے جو ولایت عامہ ہے جو ہر مومن کو حاصل ہے۔ اگر ایک شخص نے توبہ کر کے نیک اعمال شروع کر لیے تو یہ تقویٰ ہے اورتقویٰ کے ساتھ ایمان ولایت خاصہ ہے۔
سوال نمبر22:
حضرت! ایک طالب علم محنت نہیں کرتا اور فیل ہو جاتا ہے۔ کیا اس کو تقدیر کہیں گے ؟
جواب:
تقدیر میں یہ لکھا تھا کہ اگر وہ ایسا عمل کرے گا تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا۔ اس نے وہ عمل کیا اور نتیجتاً فیل ہو گیا۔
سوال نمبر23:
حضرت! خود کش حملوں اور حملہ کرنے والوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:
دیکھیں ایک ہوتا ہے فدائی حملہ اور ایک ہوتا ہے خود کش فدائی حملہ۔ خود کش فدائی حملہ اس کو کہتے ہیں کہ جس میں انسان کو اپنی جان کی پرواہ نہ ہو، لیکن وہ اپنی موت چاہتا بھی نہ ہو۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ تلوار چلا رہے ہوتے تھے اور کفار کی صفوں میں دور تک گھس جاتے تھے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ ڈرتے نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: جس تلوار کو میرے لئے بنایا گیا ہو گا وہ مجھے ہی لگے گی، جو تیر میرے لئے بنایا گیا ہو گا وہ ہی مجھے لگے گا، پس جو میرے لئے نہیں بنایا گیا ہوگا وہ مجھے نہیں لگ سکتا۔ بے خوفی اور چیز ہے،خود کشی اور چیز ہے۔
سوال نمبر24:
حضرت علی رضی اللہ عنہ یہودی کو پچھاڑ دیتے ہیں اور وہ آپ کے چہرہ پر تھوک دیتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور وہ مسلمان ہو جاتا ہے۔ کیا اس میں اخلاص کی طاقت کار فرما تھی؟
جواب:
اللہ اکبر! بہت بڑی بات تھی۔ اصل میں ان کا ہر کام اللہ کے لئے ہوتا تھا۔ پس جس وقت ان کو یہ محسوس ہو گیا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ کہیں یہ عمل میرے نفس کے لئے نہ ہو جائے۔ وہ اس عمل سے علیحدہ ہو گئے۔ کیونکہ جس پر غصّہ ہے اس کو اس غصّے کی حالت میں مارنا اپنے نفس کے لئے مارنا ہے۔ اگر میں نے اس حالت میں اس کو مارا تو یہ اللہ کے لئے شمار نہیں ہوگا۔ اس ڈر کی وجہ سے وہ اٹھ گئے۔ اور یہی وہ تقویٰ ہے جس کو اللہ بہت پسند کرتا ہے۔
سوال نمبر25:
کہا جاتا ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی اچھی عادات محبت کرنے والے میں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر کسی کو ایسے شخص سے محبت ہو جو فوت ہو چکے ہوں مثلاً کسی کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ محبت ہوتو کیا فوت شدہ حضرات کی عادات بھی محبت کرنے والے میں آ سکتی ہیں؟
جواب:
جی بالکل! فوت شدہ حضرات کی اچھی باتیں اس طرح شفٹ ہوں گی کہ آدمی کو جس سے محبت ہو گی اس کے بارے میں جانتا ہے، اس کے بارے میں پڑھتا ہے، جب پڑھتا ہے تو محبت کی وجہ سے اس کا دل چاہتا ہے کہ میرے محبوب کی صفات مجھ میں بھی ہوں۔ وہ کوشش کرے گا ان کی تقلید کرنے کی، اس طرح ان کی عادات اس میں بھی سرایت کر جائیں گی۔
سوال نمبر26:
جو غیر مسلم مسلمانوں پہ ظلم کرتے ہیں کیا ان پہ لعنت کی جا سکتی ہے؟
جواب:
جی بالکل، ایسے لوگوں پر لعنت کی جا سکتی ہے۔ اگر کاذبین کے اوپر لعنت ہو سکتی ہے تو کفار ان سے کہیں آگے ہیں۔ البتہ یہ بات ہے کہ امن کی حالت میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کے لئے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرما دے۔ ہاں اگر وہ ظلم کر رہے ہیں تو ان کے لئے بد دعا بھی کی جا سکتی ہے اور لعنت بھی کی جا سکتی ہے۔
سوال نمبر27:
حضرت! شریعت سے کیا مراد ہے۔ شریعت میں کیا کیا چیزیں آتی ہیں؟
جواب:
آپ ﷺ کا طریقہ جس پہ انسان عمل کرتا ہے، جو فقہ کے ذریعے ہم تک پہنچتا ہے، جو ہمارے سامنے ظاہر ہو اور دوسرے لوگ بھی اس کے بارے میں جان سکتے ہوں، اسے شریعت کہتے ہیں۔ لیکن وہ فقہ جس پر عمل کا کسی دوسرےکو پتا نہ لگے، صرف اس شخص کو پتا ہو یا اللہ کو پتا ہو۔ اسے تصوف یا طریقت کہتے ہیں۔ ایک تیسری چیز ”حقیقت“ بھی ہے۔
طریقت کے ذریعے سے انسان جب دل سے اللہ تعالیٰ کا بن جاتا ہے تو جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔ اس کے اوپر اللہ پاک کچھ چیزوں کے حقائق کھول دیتے ہیں۔ کچھ اعمال کی حقیقتیں کھول دیتے ہیں۔ اللہ اور بندے کے درمیان کی حالت کی حقیقت کھول دیتے ہیں۔ اس کو ”حقیقت“ کہتے ہیں۔ معرفت اصل میں اسی حقیقت کا نتیجہ ہے۔ اس کے بعد انسان کو یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔ کسی خاص مسئلے میں بھی انسان کو پتا چل جاتا ہے کہ اس بارے میں اللہ پاک کی منشاء کیا ہے، اللہ اس وقت ہم سے کیا چاہتا ہے۔ شریعت ظاہری اعمال ہیں طریقت باطنی اعمال ہیں۔ شریعت اور طریقت کا نتیجہ حقیقت ہےاور حقیقت سے معرفت الہی حاصل ہوتی ہے۔
سوال نمبر28:
کیا یہ ضروری ہے کہ معرفت کسی عالم کو ہی حاصل ہو، کیونکہ اس کو شریعت کے سارے قوانین کا سارا پتا ہوتا ہے؟
جواب:
سوال ہے کہ کیا معرفت صرف عالم کو حاصل ہوتی ہے۔ اگر یہ صرف عالم کو حاصل ہوتی تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ایک ان پڑھ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں نہ جاتے۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ آپ ان کی مجلس میں کیوں جاتے ہیں آپ تو امامِ وقت ہیں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میں قرآن کا علم جانتا ہوں اور یہ اللہ پاک کو جانتے ہیں۔ یہ عارف باللہ ہے اور میں عالم بالقرآن ہوں تو میں ان کی خدمت میں کیوں نہ جاؤں۔
سوال نمبر29:
ایک نوجوان جس کو تصوف سے لگاؤ ہو، کس طریقے سے طریقت پہ چل کے منزل تک پہنچ سکتا ہے؟
جواب:
تین کام کرنے پڑیں گے۔ شیخ کو ڈھونڈے۔ شیخ جو بتائے اس پر عمل کرے اور جن چیزوں سے روکے ان چیزوں سے رک جائے۔ بس!
سوال نمبر30:
حضرت ! ایک آدمی کوئی دینی کام کرتا ہے، لوگ اس پہ تنقید کرتے ہیں، ممکن ہے لوگ اس کی کسی اپنی کوتاہی کی وجہ سے تنقید کرتے ہوں دینی کام کی وجہ سے نہ کرتے ہوں۔ وہ شخص ان کے جواب میں ایسا سوچتا ہے یا ایسا کہتا ہے کہ نبیوں کےساتھ بھی ایسا ہوتا تھا کہ وہ دینی کام کرتے تھے اور لوگ ان پہ تنقید کرتے تھے۔ اس قسم کی سوچ اور ذہنیت رکھنا کیسا ہے؟
جواب:
میں آپ سے ایک بات عرض کرتا ہوں۔ راہِ خدا میں تکلیف اور مصیبت کا آنا واقعتاً ایک بہت بڑی نعمت ہے، اللہ پاک اس پہ بڑا اجر عطا فرماتے ہیں لیکن اگر ایک انسان اپنی کسی نالائقی کی وجہ سے اس مصیبت کو خود پیدا کرے، توبہ کر لے اور اللہ جل شانہ اس کو معاف کر دیں مگر وہ تکلیف جاری رہے تو اس پر اسے اجر مل سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس کی وجہ سے توبہ نہیں کر رہا اور بغیر توبہ کیے نبیوں کے ساتھ اپنے آپ کو ملا رہا ہے تو یہ غلط سوچ ہے۔
سوال نمبر31:
اگر کوئی یہ نیت کرے کہ میں اپنی اصلاح اس لئے کرنا چاہتا ہوں تاکہ اچھا مبلغ بن جاؤں یا اچھا مجاہد بن جاؤں اور پھر دین کی خدمت کروں۔ تو کیا یہ نیت اس کی اصلاح میں رکاوٹ بنے گی؟
جواب:
اللہ جل شانہُ نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿ قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا۔ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ” فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“
پس نیت اس بات کی کرنی چاہیے کہ میں اس لئے اپنی اصلاح کر رہا ہوں کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس کے نفس کی اصلاح نہیں ہوئی وہ برباد ہوگیا۔ میں اگر اپنی اصلاح نہیں کروں گا تو برباد ہو جاؤں گا۔ بربادی سے بچنے کے لئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ جب اصلاح ہو جائے تو پھر ان شاء اللہ مشورے سے جس شعبے میں تشکیل ہو جائے اس میں چل پڑے۔
سوال نمبر32:
حضرت! سنی اور شیعہ کے درمیان ظاہری اور اندرونی طور پہ کیا فرق ہے؟
جواب:
سنی اور شیعہ میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ سنی آپ ﷺ کے صحابہ کی تمام جماعت کو اپنا سرتاج مانتے ہیں، جبکہ شیعہ تمام صحابہ کے بارے میں ایسا خیال نہیں رکھتے۔ آپ ﷺ اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے۔ آپ ﷺ کے لئے اللہ پاک نے ایک جماعت کا انتخاب کیا جنہوں نے آپ ﷺ سے تعلیم حاصل کی اور آپ ﷺ سے تربیت حاصل کی اور وہ علم آگے امت تک پہنچا دیا۔ اس جماعت میں تین گروہ تھے۔ ایک آپ ﷺ کی ازواج مطہرات یعنی امہات المومنین۔ ایک اہل بیت اور ایک عام صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) ان تینوں کے اپنے اپنے بڑے بڑے فضائل ہیں۔ پس جنہوں نے تینوں گروہوں کو لیا،انہوں نے پورے دین کو لیا جنہوں نے ان میں سے کسی ایک کو لیا انہوں نے باقی حصے سے اپنے آپ کو محروم کر لیا اور جنہوں نے ان میں سے کسی ایک کی مخالفت کی تو انہوں نے اپنے آپ کو سب چیزوں سے محروم کر دیا۔
اہل سنت والجماعت ان تینوں کو مانتے ہیں، ان تینوں کے فضائل کو جانتے ہیں اور ان تینوں سے دین لیتے ہیں لہٰذا ان کے پاس دین بھی پورا آ گیا اور نقصان بھی کچھ نہیں ہوا۔ اس کے مقابلے میں اہل تشیع نے اہل بیت کو لیا امہات المومنین اور عام صحابہ سے انکار کر دیا ان کے مخالف بھی ہو گئے لہٰذا اپنے آپ کو سب چیزوں سے محروم کر دیا۔ ان کے مقابلے میں ناصبیوں نے اہل بیت کا انکار کیا۔ صحابہ کرام کو لے لیا اور اہل بیت کی مخالفت کی تو وہ بھی بالکل محروم ہو گئے۔ اہل سنت والجماعت ان دونوں گروہوں یعنی رافضیوں اور ناصبیوں سے بری ہیں۔ وہ آپ ﷺ کی جماعت کے تینوں گروہوں کو مانتے ہیں، تینوں سے لیتے ہیں اور تینوں کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
سوال نمبر33:
حضرت! عوام میں مشہور ہے کہ مؤذن کانوں میں انگلیاں ٹھونس کے اذان دیتا ہے۔ گویا یہ اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ میں نے کسی اور کی نہیں سننی، صرف اپنی آواز سنانی ہے۔ کیا یہ بات مبلغ پہ بھی لاگو ہو سکتی ہے کہ مبلغ کو feedback نہی لینا چاہیے، صرف اپنی ہی بات سنانی چاہیے ؟
جواب:
صرف پیغمبر کی ذات ایسی ہے جو سب کو سنا سکتی ہے کیونکہ ان کی بات ہی صحیح ہوتی ہے اور ان کے ساتھ اختلاف کفر ہے، جبکہ باقی حضرات معصوم نہیں ہیں اور عالمِ کل نہیں ہیں لہذا علم و حکمت کا جو حصہ ان کے پاس نہیں ہے اس حصے میں دوسرے کا سننا اور ان کی اچھی بات پر عمل کرنا لازم ہے۔ مثلاًہماری تبلیغی جماعت ایک اچھی جماعت ہے۔ ان کو یہ کام دیا گیا کہ امر بالمعروف کرو، لوگوں تک صحیح بات پہنچاؤ۔ لیکن چونکہ ایک جماعت کے ساتھ چلنا تھا، اختلاف سے بچنا تھا لہذا ان پہ یہ پابندی بھی لگائی گئی کہ ایک تو یہ کہ فقہی مسائل نہ بیان کریں، دوسرا یہ کہ کسی کی تربیت نہ کریں۔ کیونکہ تربیت میں بھی اختلاف ہوتا ہے، کوئی نقشبندی ہوتا ہے، کوئی چشتی ہوتا ہے، کوئی سہروردی ہوتا ہے۔ اور فقہ میں بھی اختلاف ہے، کوئی حنفی ہے، کوئی شافعی ہے، کوئی مالکی ہے، کوئی حنبلی ہے۔ اختلاف سے بچانے کے لئے انہوں نے جماعت میں تعلیم و تربیت کو منع کر دیا لیکن اس کی ترغیب بیان کر دی کہ علماء سے مسئلے پوچھو اور مشائخ سے اپنی تربیت کرواؤ اور خود امر بالمعروف کرتے رہو۔ پس جنہوں نے اس پر عمل کیا، وہ تو ٹھیک ہو گئے، ایسے لوگ علماء کی بات سنیں گے اور مشائخ کی بھی سنیں گے۔ اور جو لوگ علماء اور مشائخ سے بھی اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتے ہیں وہ بر خود غلط ہیں، ان کو نقصان ہو گا۔ بس یہ ہے کہ امر بالمعروف کرتے رہنا چاہیے۔حق بات جس کی بھی ہو سننی چاہیے اور جو صحیح ہو اس کو اپنانا بھی چاہیے۔
سوال نمبر34:
حضرت! سائنس ایک سیکولر ٹیکنالوجی ہے اس سے مسلمان اور غیر مسلم یکساں فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اسی طرح انجینئرنگ اور میڈیکل سائنس کی بات ہے۔ کیا لیڈر شپ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جو مسلمان قائدانہ صلاحیتیں اپنائے گا وہ اپنے آپ اور قوم کے لئے فائدے کا باعث بنے گا؟
جواب:
جہاں تک علوم کی بات ہے تو کوئی بھی علم کوئی بھی انسان حاصل کر سکتا ہے، چاہے مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ فرق وہاں پر ہوگا جب اس علم کو عملی طور پر استعمال کرنے کا وقت آئے گا۔
علم دین حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کے علاوہ باقی امور صنعت فرض نہیں ہیں لیکن مسلمانوں کے لئے ان کا حاصل کرنا فرض کفایہ ہے۔ انجینئرنگ کرنے سے تو کچھ نہیں ہو گا لیکن اگر آپ اس کو اسلام کے لئے استعمال کریں گے تو ماشاء اللہ یہ ا نجینئرنگ بھی دین بن جائے گی اور فرض کفایہ بھی ادا ہو جائے گا۔ علم دین بذات خود فرض ہے جبکہ باقی علوم کا فرض و واجب ہونا استعمال پر اور نیت پر منحصر ہے۔
سوال نمبر35:
حضرت! منافقت کس کو کہتے ہیں؟ فضائل اعمال میں حضرت حنظلہ اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کا ایک مشہور واقعہ درج ہےجس میں حضرت حنظلہ فرماتے ہیں کہ میں منافق ہوگیا۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔
جواب:
اپنے اوپر منافقت کا خوف ہونا اور بات ہے۔ کسی اور کے اوپر منافقت کا فتوی لگانا اور چیز ہے۔ اپنے اوپر منافقت کے خوف سے ممانعت نہیں ہے، کسی اور کے اوپر منافق کا فتویٰ لگانے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ منافقت کا تعلق دل سے ہے اور دل کا حال اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ منافقوں کے دلوں کا حال نبیوں پر وحی کے ذریعے ظاہر ہو جاتا تھا اور اب وحی کا سلسلہ منقطع ہے۔ لہٰذا ظاہری اعمال کی بنا پر کسی کو کافر تو کہا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کا تعلق ظاہر کے ساتھ ہے۔ اگر کسی کا کفر ظاہر ہو تو اس پر کفر کا فتویٰ لگایا جا سکتا ہے لیکن کسی پر منافق کا فتویٰ نہیں لگا سکتے۔
سوال نمبر36:
اکثر اوقات بیرون ممالک کے مسلمان اپنی بچیوں کو وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں، شروع شروع میں ان کے اندر کسی حد تک دینداری ہوتی ہے لیکن وہاں کے ماحول میں ڈھل کر آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے۔
جواب:
ایسا تب ہوتا ہے جب دین کی تعلیم نہ دی گئی ہو۔ دین کی تعلیم ساتھ ساتھ چلتی رہے تو ایسا نہیں ہوتا۔ ایسے لوگوں کو علم دین بھی دینا چاہیے، اگر حکومت اس کا انتظام نہیں کر رہی تو کمیونٹی اور سوسائٹی پر فرض ہے کہ علم دین کو اپنے معاشرے میں عام کریں۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ