سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 101

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال نمبر1:

حضرت اگر طبیعت میں لا پرواہی ہو، دنیاوی امور میں بھی اور اخروی امور میں بھی تو دینی امور کی تلافی توبہ سے ہو سکتی ہے لیکن دنیاوی امور میں لا پرواہی کو ٹھیک کرنے کے لئے کیا کیا جائے؟

جواب:

ہمیں ہر چیز کے بارے میں ایک بات یاد رکھنا چاہیے۔ جو آدمی جس چیز کو اہم سمجھتا ہے اس میں لا پرواہی نہیں کرتا اور جس چیز کو اہم نہیں سمجھتا اس میں لاپرواہی کرتا ہے۔ چاہے دنیا کا کام ہو یا آخرت کا کام ہو۔ مثلاً باپ کما رہا ہے۔ گھر میں کوئی کمی نہیں، ہر چیز کی فروانی ہے۔ اس وقت اولاد سمجھتی ہے کہ شاید ہمیشہ کے لئے ایسا ہو گا، لہٰذا وہ اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ان کو یہ سوچ تب آتی ہے جب سارا کام ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اصل بات اہمیت کی ہے۔ اب یہ اہمیت چاہے نفسیاتی ماہر دلا دے، چاہے کسی کا شیخ دلا دے،کسی کا دوست دلا دے یا کسی کا والد دلا دے۔ جو بھی اہمیت دلا سکے وہ دلا دے، کیونکہ لاپروائی ختم تب ہی ہوگی جب دل میں اہمیت ہوگی۔ لا پروائی کا حل یہی ہے کہ دل میں اس کام کی اہمیت پیدا کی جائے۔

ہمارے ایک دوست کا ایک بیٹا لا پرواہ تھا۔ کسی چیز کی کوئی نہیں پرواہ نہیں کرتا تھا بس کھیلتا رہتا تھا۔ ہمارے وہ دوست P.h.Dڈاکٹر ہیں، کافی ذمہ دار آدمی ہیں۔ وہ اس کو ماہر نفسیات کے پاس لے گئے۔ اس نے اس سے بات چیت کرنے کے بعد اسے کہا : ” تم پانچ دفعہ روزانہ ایک جملہ کہو گے چاہے تمہیں اس کی سمجھ آئے یا نہ آئے، کہنا ضروری ہے کہ ” ہنر مند بے ہنر سے بہتر ہوتا ہے“۔یہ تم نے پانچ دفعہ روزانہ کہنا ہے۔

اس ماہر نفسیات کے اس علاج کے پیچھے وہی بات کارفرما تھی جو ایڈورٹائزمنٹ میں ہوتی ہے کہ انسان کے سامنے بار بار ایک چیز آتی ہے اور مسلسل آتی ہی رہتی ہے۔ آخرکار لوگ اس کے پیچھے لگ ہی جاتے ہیں، بسا اوقات وہ چیز بے حد فضول ہوتی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن لوگ ایسے سمجھتے ہیں جیسے کہ یہ بہت زبردست چیز ہے۔ پیپسی کولا اور ایسے دوسرے مشروبات کی مثال سامنے ہے۔ ان میں کوئی خاص غذائیت بھی نہیں ہے، ذائقہ بھی اچھا نہیں ہے، اس کے مقابلے میں ملک شیک اور پھلوں کے جوس موجود ہیں، جن کی قیمت بھی کم ہوتی ہے، غذائیت اور ذائقہ سے بھرپور بھی ہوتے ہیں، لیکن advertisement کا جادو کچھ ایسا چلا ہوا ہے کہ لوگ اسی پیپسی کولا پہ مر رہے ہیں۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد اور عورتیں سبھی انہی کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ یہ advertisement کا کمال ہے۔ راستوں میں مختلف بورڈز لگے ہوں گے، ان پہ ایکٹرز اور کھلاڑیوں وغیرہ کے ہاتھ میں کوکا کولا یا پیپسی کولا تھمائی ہوگی۔ کیا کوئی ہاتھ میں کوکا کولا لینے سے اس طرح کا کھلاڑی بن جائے گا، اس طرح کا پروفیسر بن جائے گا؟ لیکن یہ تشہیر اور تکرار اتنی ہوتی ہے کہ عقل بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ advertisement ایسا عجیب جادو ہےکہ آدمی سوچتا ہی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

اس لئے ہم لوگ جو ذکر بتاتے ہیں۔ ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“، ”لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہ“۔لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ویسے ہی کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس ذکر کے ساتھ انسان اپنے دل کو اللہ کے نام سے متعارف کرا رہا ہوتا ہے، اپنے ذہن کو متعارف کرا رہا ہوتا ہے،اپنے آپ کو متعارف کرا رہا ہوتا ہے۔ مسلسل ایک ہی فقرہ کہتا جاتا ہے کہ نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ، نہیں ہے کوئی مقصود مگر اللہ، نہیں ہے کوئی موجود مگر اللہ۔مسلسل کہنے سے اس کا اثر ضرور ہوتا ہے۔ جو چیزیں بالکل سمجھ میں نہیں آتیں وہ بعد میں سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ تمام اصلاحی کاموں میں ان تمام چیزوں کا اثر ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دنیاوی ایڈورٹائزمنٹ اس تکنیک کا غلط استعمال ہے اور اصلاحی لائن اس کا صحیح استعمال ہے۔

سوال نمبر2:

ایک خاتون کا پیغام آیا تھا جس نے ایک بلی کے بچے کو اپنی ماں سے جدا کیا تھا اور اس خاتون کو اس کا بڑا افسوس تھا۔ میں نے اسے جواب میں تسلی دی تھی۔ اس کا جواب آیا ہے کہ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا ہے۔ میری غلطی اس میں یہ تھی کہ میں نے کسی اور کو اپنے دل کے اندر آنے دیا۔ حالانکہ اس میں صرف اللہ ہونا چاہیے۔ ان شاء اللہ آئندہ اس قسم کی غلطی نہیں کروں گی۔

جواب:

بالکل صحیح بات ہے۔ دنیا کی کسی چیز کے ساتھ اتنا زیادہ تعلق نہیں بنانا چاہیے جس کے لئے انسان اپنے حواس کھو دے، صحیح اور غلط کا فرق ہی نہ دیکھ پائے۔ باقی چیزوں کا ہم لوگ اتنا ہی خیال رکھیں گے جتنا اللہ جل شانہ نے ہمیں رکھنے کا حکم دیا ہے۔ اصل محبت ہماری اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور ہمارے دل میں صرف اللہ ہی ہونا چاہیے۔

سوال نمبر3:

حضرت دل پر ایک ضرب لگی ہے۔ کبھی دل کرتا ہے کہ اللہ کی محبت پر اپنی جان اور ہر چیز قربان کر دوں، کبھی میرے اندر سب کچھ گنگنانے لگتا ہے، کبھی حالات ایسے ہو جاتے ہیں جیسے دھمال ڈالنے لگوں گا۔ اکثر شیخ کی یاد سے آنسو آنے شروع ہو جاتے ہیں اور دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر خانقاہ میں شیخ کے قدموں میں پناہ لے لوں اور ساری زندگی وہاں گزار دوں۔ ایسے لگتا ہے جیسے پہلے میں مردہ تھا،اب زندہ ہوا ہوں۔ کبھی لگتا ہے موت میری ناک کے پاس کھڑی ہے اور ہر نیا سانس اللہ کے حکم سے ملتا ہے اور میرا دل ہر سانس کو اللہ کی طرف سے نعمت ملنے کا شکر ادا کرتا ہے۔ جسم میں خون کی گردش بہت صاف محسوس ہوتی ہے۔ میں اپنی کیفیت کسی اور پر ظاہر نہیں ہونے دیتا۔ ہر شخص اپنے سے بہتر محسوس ہوتا ہے۔ حضرت! دل کی دولت ہی بس سچی دولت ہے جو شیخ کے علاوہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔

جواب:

یہ صاحب چونکہ دوسرے ملک میں ہیں، لہذا ان کو اس کا کافی احساس ہے۔یہ وہی کیفیت جذب ہے جس کے بارے میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ اللہ جل شانہ جب کسی پر کھول دیتے ہیں تو یہ ساری باتیں اس کی سمجھ میں آنے لگتی ہیں۔ واقعی اللہ کی محبت بڑی دولت ہے اس کے اوپر سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لئے طریقہ آپ ﷺ کا ہونا چاہیے۔ آپ ﷺ نے جس طرح اللہ کے ساتھ محبت کی ہے ہم بھی اس طرح کی محبت کے مامور ہیں۔ ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ پس شریعت پر دل سے چلنا اللہ پاک کی محبت کا بہترین اظہار ہوتا ہے۔ ہم اس بات کو سمجھیں کہ اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے۔ ایک ہے کسی حکم کو اپنے دل پر بوجھ سمجھ کر پورا کرنا اور ایک ہے اس کو محبت کے ساتھ پورا کرنا کہ یہ میرے آقا کا حکم ہے میں کیوں نہ پورا کروں۔ اگر اس حکم کو محبت کے ساتھ پورا کرتا ہے تو سمجھو کہ یہ بھی کیفیت جذب ہے اور اگر اس کو دل پر بوجھ سمجھ کر پورا کرتا ہے تو یقیناً اجر ملے گا لیکن وہ کیفیت جذب نہیں ہو گی۔ اللہ کے ساتھ محبت کو بڑھانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہو تو شریعت پر چلنا مشکل نہیں رہتا۔ اس کے علاوہ شیخ کے ساتھ تعلق اور رابطہ لازمی ہے۔ جتنا شیخ سے تعلق زیادہ ہو گا گڑبڑ کا امکان اتنا ہی کم ہوگا۔ سالک جوش میں آکر ہوش نہیں کھوئے گا۔ ہر چیز ترتیب کے ساتھ ہو گی۔ کوئی افراط تفریط نہیں ہو گی۔ ورنہ انسان اپنی سمجھ کے مطابق جو اچھا سمجھ کر کرتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اچھا بھی ہو۔ اس کے لئے کسی شیخ کامل کے ساتھ تعلق بہت ضروری ہے۔

سوال نمبر4:

حضرت! ہمیں بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان پہ بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔ بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ کوئی زندگی میں پہلی بار مل رہا ہوتا ہے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی ہوتی۔ پہلی بار ملتے ہوئے گمان یہی ہوتا ہے کہ یہ میرا خیر خواہ ہے، اس نے تو میرے ساتھ کوئی دشمنی نہیں کی میں اس کے بارے میں کیوں برا سوچوں لیکن کچھ وقت کے بعد بندے کو پتا چل جاتا ہے کہ میں نے اس کے اوپر جو اچھا گمان کیا تھا وہ درست نہیں تھا، یہ بندہ ویسا نہیں ہے۔ ایسی صورت حال سے کیسے بچا جائے؟

جواب:

مسلمان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ایک مسلمان کا شیوہ ہے۔ حدیث میں آیا ہے:

”ظُنُّوْا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا“ (المعجم الکبیرللطبرانی:497/16)

ترجمہ: ”مومنین کے ساتھ اچھا گمان رکھو۔“

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اچھا گمان اس طرح رکھیں کہ معاملات میں شریعت کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ مثلاً شریعت میں یہ بھی ہے:

﴿ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا﴾ (الاحزاب: 70)

ترجمہ: ”سیدھی سچی بات کہا کرو“۔

یعنی کھری کھری بات کرو درمیان میں کوئی چیز چھپاؤ نہیں۔ جو معاملہ کرو اس کو لکھ لو اور اس پہ گواہ بھی مقرر کر دو۔ پشتو میں اس سے متعلق ایک ضرب المثل ہے۔

”وروری خوری به کوؤ خو حساب کتاب تر مینځه“

”بھائی چارہ تو ہو گا آپس میں، لیکن حساب کتاب ہو گا“۔

مقصد یہ ہے کہ نیک گمان رکھتے ہوئے بھی معاملات سے متعلق اصول کو نہ چھوڑیں۔ اس طرح آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ پریشانی صرف تب ہو گی جب آپ نے کوئی اصول چھوڑا ہو گا۔ ہمارے معاملات کی جان یہ ہے کہ کسی معاملے میں کوئی ابہام نہ ہو، معاملہ بالکل واضح ہو، کلیئر کٹ ہو، تاکہ بعد میں لڑائی کی صورت نہ بن جائے۔ مثلاً آپ ٹیکسی کر رہے ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور سے کرایہ پوچھتے ہیں۔ وہ کہتا ہے جو مرضی دے دو۔ اگر اتنی بات پہ آپ اس کے ساتھ بیٹھ گئے تو یہ غلط کام کیا۔ یہ بیع فاسد ہے، شریعت کے مطابق نہیں ہے۔ اس کا نقصان یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی منزل پہ پہنچ کر آپ اسے پچاس روپے کا حقدار سمجھ کے پچاس روپے دیں گے۔ وہ کہے گا کہ یہاں تک کے سو روپے بنتے ہیں۔ آپ کہیں گے کہ تم ہی نے کہا تھا جو مرضی دے دینا۔ وہ کہے گا کہ میں تو آپ کو شریف آدمی سمجھتا تھا۔ بس یہیں سے لڑائی شروع ہو جائے گی۔ جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ نے پہلے سے طے کیوں نہیں کیا۔ پہلے سے طے کرنا چاہیے تھا، چاہے وہ کتنا ہی شریف آدمی لگ رہا ہو۔ داڑھی اور تسبیح دیکھ کر آپ اصول نہیں چھوڑ سکتے۔ اصول چھوڑنے کی وجہ سے اگر آپ کا نقصان ہو گیا تو اس کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔

ایک دفعہ ہم فیض آباد میں واقع ایک مدرسہ میں ایک بزرگ کے بیان میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔ وہ ذرا سستے دن تھے، پانچ روپے فی کلو میٹر ٹیکسی کا کرایہ ہوتا تھا۔ میں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا: کتنے کرایہ میں لے چلو گے۔ اس نے کہا: ”تیس روپے میں“ میں نے بیس پر اصرار کیا اور وہ تیس سے نہ ہٹا۔ میں نے کہا : ”ایسا کرتے ہیں میٹر کے حساب سے چلتے ہیں، فی کلو میٹر کتنے پیسے لوگے؟ اس نے کہاکہ چھ روپے فی کلو میٹر لوں گا۔ معاملہ طے ہو گیا۔ ہم چل پڑے۔ جس وقت ہم منزل پر پہنچے تو میٹر کے مطابق چھ روپے کلومیٹر کے حساب سےساڑھے سترہ روپے بنے تھے۔ میں نے اسے کہا: ساڑھے سترہ روپے لے لو۔

کہنے لگا: نہیں جی آپ نے تو بیس کہے تھے۔

میں نے کہا: بیس روپے کہے تھے لیکن آپ نے وہ منظور نہیں کیے تھے، آپ نے کہا تھا میٹر کے حساب سے چلتے ہیں، چھ روپے فی کلو میٹرلوں گا، اس حساب سے آپ کے ساڑھے سترہ روپے بنتے ہیں۔ لہذا ساڑھے سترہ روپے لے لو۔

کہنے لگاکہ سترہ ہی دینے ہیں تو نہ دیں۔

میں نے کہا آپ کی مرضی ہے، ہم بیٹھے ہوئے ہیں، لینے ہیں تو لے لو۔

میرے ساتھی تنگ ہو کر کہنے لگے شاہ صاحب جتنے مانگتا ہے دے دو۔

میں نے کہا: نہیں بھئی! اصول کے مطابق ہی کریں گے، ہمارے درمیان طے ہوا تھا کہ میٹر کے حساب سے پیسوں کی ادائیگی ہوگی، اسی کے حساب سے جتنے بنتے ہیں دوں گا۔

میں نے کہا: ہم بیان کے دوران فلاں جگہ بیٹھے ہوں گے، اگر آپ کا پیسے لینے کا ارادہ بنا تو آ کے لے لینا، میں ساڑھے سترہ سے زیادہ نہیں دوں گا۔

اس نے ٹیکسی موڑ کے تھوڑا آگے کھڑی کردی تو میں نے کہا کہ یہ پیسے لینے آئے گا اگر اس نے چھوڑنے ہوتے تو ابھی چلا جاتا۔ وہ دس منٹ کے بعد آ گیا اور پیسے مانگے، ہم نے اسے ساڑھے سترہ روپے دے دئیے۔

انسان کو شریعت کے قواعد کو follow کرنا چاہیے پھر پریشانی نہیں ہو گی۔ پریشانی تب ہوتی ہے جب آپ اندھا اعتماد کریں۔ اندھا اعتماد کرنے کا شریعت کا حکم نہیں ہے۔ اس کو آپ شریعت کی بات نہ سمجھیں یہ آپ کے اپنے جذبات ہیں۔ آپ کے اپنے جذبات چاہے کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں، وہ شریعت کا طریقہ نہیں ہے۔ قرآن میں آتا ہے کہ جس وقت آپس میں لین دین کرو تو اس کو کتاب کے حوالے کر لو، اس کو لکھ لواور اس کے اوپر گواہ بھی مقرر کر لو۔ الفاظ کے لحاظ سے سب سے زیادہ الفاظ والی آیت قرآن شریف میں یہی ہے۔ لہٰذا اگر معاملات پر اصولوں کے مطابق عمل کرو گے تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

سوال نمبر5:

حضرت جی! ایک اندھے آدمی کو دیکھا جو شیو کرتا ہے۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ کس قسم کی گمراہی ہے۔ اندھا ہونے کے باوجود اسے کیسے پتا چلا کہ داڑھی والا آدمی اچھا نہیں ہوتا اور بغیر داڑھی کے اچھا ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ شیو کرنے کے لئے اہتمام سے خیرات مانگ کر نائی کے پاس جاتا ہے، ادھر خرچ کرتا ہے۔ ایک آدمی خود اپنے چہرہ کو دیکھ بھی نہیں سکتا کہ میرا چہرہ کیسا لگتا ہے۔ اس کو کیا چیز آمادہ کرتی ہے کہ وہ خدا کی نا فرمانی کرے۔ یہ کس قسم کی دل کی تاریکی ہے؟

جواب:

اگر اللہ نے ہمیں داڑھی عنایت فرمائی ہے تو یہ اس کی عنایت ہے۔ خدا کی قسم یہ اس کی توفیق ہے۔اگر اس کی توفیق نہ ہوتی تو ہم بھی یہی کام کرتے اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔ ہم لوگوں کو اللہ پاک نے توفیق عطا فرمائی ہے،ہماری سمجھ میں یہ بات ڈال دی ہے۔ اس لئے ہمیں کسی اور کی اس بات پر حیرت ہوتی ہے۔ بعض دفعہ ہمارے بعض ساتھی تشدد کرتے ہیں کہ بھئی فلاں آدمی اس طرح کیوں نہیں کر رہا۔ میری بات کیوں نہیں سن رہا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ تم کتنا عرصہ اس طرح رہے تھے پھر تمہیں خیال آیا۔ اُس وقت اگر تمہیں کوئی کہتا تو تم کیا کہتے، جب تم ایسے نہیں تھے۔ اِس کو اُسی طرح سمجھو جس طرح تم خود تھے۔ ہم لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیقات سے نوازا ہے تو یہ اس کا کرم اور احسان ہے۔ اللہ جل شانہ نے ہمیں نیک لوگوں تک پہنچایا، یہ بھی اس کا کرم و احسان ہے۔ اس وجہ سے اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ایسے لوگوں کے لئے دعا کرنا چاہیے اور عبرت پکڑنا چاہیے۔

سوال نمبر6:

حضرت اگر کوئی آدمی بغیر تصور کے ذکر کرتا ہے۔ یعنی جس تصور کے ساتھ اس کو ذکر کرنا تھا اس کے ساتھ نہیں کرتا تو کیا اس کو بھی فائدہ ہو گا یا کم درجے کا فائدہ ہو گا؟

جواب:

دیکھیں میں تو بہت چھوٹا آدمی ہوں میری بات کی کوئی حیثیت نہیں ہے میں آپ کو بہت بڑے شیخ کی بات بتاتا ہوں جن کا نام ہے مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ۔ حضرت کے پاس ایک دفعہ مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے والد اور چچا مولانا یحییٰ اور مولوی الیاس رحمۃ اللہ علیہما دونوں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ حضرت دروازے تک آئے پوچھا کون ہے۔ عرض کیا: یحییٰ اور الیاس۔

حضرت نے بھرائی آواز میں فرمایا:

”اللہ کا ذکر چاہے کتنی ہی غفلت کے ساتھ کیا جائے، اس کا بھی اثر ہوتا ہے“

فرق کم یا زیادہ کا فرق ضرور ہوتا ہے، لیکن اثر ہر صورت ہوتا ہے۔ اگر آپ تصور کے ساتھ کریں تو اس کا اثر زیادہ ہو گا۔ اگر غفلت کے ساتھ کریں تو اثر کم ہو گا لیکن ہوگا ضرور۔

ایک شخص پہلے پہلے ذکر کرنا شروع کرتا ہے۔ اس کو ذکر کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ تصور کا طریقہ بھی نہیں آتا۔ وہ صرف دیکھا دیکھی ذکر کرتا ہے، پوری غفلت کے ساتھ کرتا ہے۔ اب آگے جا کر اس کا ذکر جو پختہ ہوگا اس کا آغاز اسی غفلت والے ذکر سے ہی ہو رہا ہے۔ اگر یہ غفلت والا ذکر بھی نہ کرے تو کیا اُس ذکر تک پہنچ سکتا ہے؟ نہیں پہنچ سکتا، وہاں پہنچنے کے لئے ابتداءً یہی غفلت والا ذکر ہی کرنا پڑے گا۔ پھر اس سے غفلت کم ہو گی، پھر مزید ذکر بہتر ہوگا تو غفلت اور زیادہ کم ہو جائے گی۔ جوں جوں یہ ذکر کرتا چلا جائے گا، اسی طرح غفلت کم ہوتی جائے گی، روحانیت میں ترقی ہوتی جائے گی اور ایک دن یہ بہت اچھا ذکر کرنے والا بن جائے گا۔ اخیر میں اس کے اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔

معلوم ہوا کہ ذکر کا اثر ہر طرح ہوتا ہے خواہ غفلت سے کیا جائے یا مکمل توجہ سے۔

سوال نمبر7:

حضرت! امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ آپ کے لئے دعا گو ہوں۔ مجھے آج کل غصہ بہت آ رہا ہے اس کا کوئی حل بتائیں۔ جزاک اللہ خیراً۔

جواب:

غصّہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے، اس کا غلط موقع پر اظہار برا ہے۔ اگر غصہ اچھی چیز کے لئے ہو اور وہیں ہو جہاں مطلوب ہے تو پھر یہ بری چیز نہیں ہے۔ غلط جگہ پر غصّہ کرنا غلط ہے۔ اس کی مثال بندوق کی سی ہے۔ بندوق خطرناک چیز ہے لیکن جہاد کے لئے ہتھیار ہے۔ اگر کسی نے جہاد کرنا ہو گا تو اس قسم کی کوئی چیز لے گااور اسے استعمال کرے گا۔ اس لئے غصہ بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے لیکن اس کا غلط استعمال برا ہے۔ غلط استعمال ایسے ہو سکتا ہے کہ جس پہ غصہ جائز نہیں اس پہ غصّہ کیا جائے۔ ایک دوسرا جس پر جتنا غصّہ کرنا چاہیے تھا اس سے زیادہ کیا جائے۔

اس کے حل کے لئے انسان کو دو کاموں کی ضرورت ہے۔ ایک تو یہ معلوم ہو کہ کس پہ غصّہ کرنا چاہیے اور کتنا کرنا چاہیے۔ دوسری بات یہ سیکھنا ہے کہ اگر کسی ایسی جگہ غصّہ آ رہا ہو جہاں نہیں آنا چاہیے، وہاں اپنے آپ کو روکا کیسے جائے۔

غصّہ کے وقت میں انسان کے حواس کافی کمزور ہو جاتے ہیں۔ انسان کنٹرول نہیں کر پا رہا ہوتا۔ مثلاً میں دفتر میں ہوں۔ میرا boss میرا E.C.R لکھتا ہے۔ وہ میرے پاس کھڑا ہو اور مجھے کسی پہ ناجائز غصہ آ رہا ہو باس کو بھی علم ہو کہ اگر اس بات پہ غصہ کیا جائے تو یہ ناحق بات ہوگی۔ کیا میں باس کے سامنے اس غصہ کا اظہار کروں گا اور اس آدمی پہ غصہ کروں گا؟ جواب ظاہر ہے کہ نہیں کر سکوں گا۔ کیونکہ مجھے علم ہے کہ یہ میرا E.C.R لکھتا ہے۔ اگر میں نے ایسا کیا تو میری رپورٹ منفی ہو جائے گی، جس کا مجھے نقصان ہوگا۔ اس وجہ سے میں اس وقت غصّہ نہیں کر سکوں گا۔

ہمیں اللہ پاک اور اپنے درمیان ایسا ہی معاملہ رکھنا پڑے گا۔ اپنے اندر کیفیت احسان بڑھانی پڑے گی۔ کیفیت احسان کا مطلب یہ ہے کہ تم یوں سمجھو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو۔ اگر ایسا نہیں سمجھ سکتے تو اس بات کا ادراک رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ اسی کیفیت احسان کو جب آپ بڑھائیں گے، ہر حال میں یہ بات ذہن مستحضر رہے گی کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے تو غلط اور ناحق غصہ نہیں کر سکیں گے۔ اللہ پاک قادر ہے۔اللہ جل شانہ جانتا ہے کہ ہمارا غصّہ صحیح ہے یا غلط ہے۔ اس کیفیت احسان کے ہوتے ہوئے ہم غلط غصّہ نہیں کر سکیں گے۔ لہٰذا ہمیں ایک تو کیفیت احسان حاصل کرنا چاہیے دوسرے اتنا علم حاصل کرنا چاہیے جس سے پتا چل جائے کہ غصہ کس پہ کرنا چاہیے کس پہ نہیں کرنا چاہیے اور کتنا کرنا چاہیے۔ پہلی چیز یعنی کیفیت احسان کو حاصل کرنا تصوف ہے۔ دوسری چیز یعنی علم حاصل کرنا، یہ قرآن و سنت کے علم سے ہوگا۔ لہٰذا سلوک کو طے کرنا اور علم حاصل کرنا، ان دو چیزوں کے بعد نہ صرف غصّے پہ کنٹرول ہو جائے گا بلکہ اور بھی بہت سے اعمال جیسے توبہ، انابت، تسلیم و رضا اور تقوی وغیرہ بھی حاصل ہو جائیں گی۔

اب ایک اور بات سمجھ لیں کہ غصہ کے دو علاج ہیں۔ ایک دائمی اور پکا علاج۔ دوسرا وقتی اور فوری علاج۔ اصل علاج تو سلوک طے کرنا ہے۔ جب تک کسی کا سلوک طے نہیں ہوا تب تک فوری اور وقتی علاج سے کام چلایا جائے گا۔ اور وہ علاج یہ ہے کہ اگر ناجائز غصہ کرنے کی نوبت آ جائے تو جس پہ غصہ کر رہا ہے اگر وہ چھوٹا ہے تو اپنے سے علیحدہ کردے۔ اگر بڑا ہے تو خود علیحدہ ہو جائے۔ جگہ تبدیل کرلے۔ پانی پی لے۔ اپنے آپ کو کسی اور چیز میں مصروف کر لے۔ ایسا کرنے سے کچھ دیر بعد غصہ فرو ہو جائے گا۔ کیونکہ غصہ کی انتہائی حالت کے صرف چند سیکنڈز ہوتے ہیں۔ ان میں اگر کنٹرول کر لیا جا ئے تو بعد میں وہ کیفیت نہیں رہتی۔

بہرحال، یہ دونوں علاج ہیں، ان کے ذریعے غصہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر8:

گذشتہ گناہ یاد آئیں تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

استغفار کرنا چاہیے۔

سوال نمبر9:

حضرت جی! بعض سرکاری عہدوں میں عہدہ دار کو ماتحت دئیے جاتے ہیں،کچھ سہولتیں اور پروٹوکول دئیے جاتے ہیں۔ وہ عہد دار اپنے نیچے ماتحت نہیں چاہتا، لیکن سسٹم کی طرف سے ریکوائرمنٹ ہے کہ اس عہدہ دار کو یہ چیزیں ملتی ہیں۔ اب اگر وہ ان چیزوں کو لیتا ہے تو اس کی اپنی طبیعت کے خلاف ہے اور اگر نہیں لیتا تو گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف ہے۔ پھر کچھ لوگوں کی طبیعت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ماتحتوں کے ساتھ سختی نہیں کرسکتے، ذرا نرم مزاج رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بعض اوقات ماتحت اعلیٰ معیار کا کام نہیں کرتے۔ جو کام کرتے ہیں وہ گزارے لائق تو ہوتا ہے مگر اسے بہترین اور پرفیکٹ نہیں کہہ سکتے۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب:

آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی کسی سرکاری عہدہ پر ہے۔ اس کے کچھ ما تحت ہیں جن سے وہ کام لینا چاہتا ہے۔ کام کے لئے سسٹم کی طرف سے کچھ پروٹوکول مقرر کیا گیا ہے۔ وہ آدمی متواضع ہے۔ اگر وہ protocol چاہتا ہے تو وہ اس کی طبیعت کے خلاف ہے کیونکہ اس کا مزاج یہ نہیں ہے یا وہ اپنے آپ کو اس کے قابل نہیں سمجھتا یا لینا نہیں چاہتا۔ اگر نہیں لیتا تو پھر گورنمنٹ کے قوانین کے خلاف ہے جنہوں نے اس کو appoint کیا ہوا ہے۔ میں اس کے جواب میں یہ عرض کر سکتا ہوں کہ protocol دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو محض لوگوں نے ایک امتیاز ظاہر کرنے کے لئے بنائے ہوتے ہیں۔ مثلاً ہماری کالونی میں زیادہ تر مختلف گریڈ کے سرکاری افسران کے گھر تھے۔ وہ سب ایک جیسے بنے ہوئے تھے۔ اس کالونی میں 17، 18 اور 19 گریڈ کے عہدہ داران بھی تھے۔ انہوں نے صرف گریڈ کا فرق ظاہر کرنے کے لئے یہ طریقہ نکالا کہ 17 گریڈ کے افسروں کے لئے گھر کے باہر گھنٹی کی اجازت نہیں ہے، گھنٹی صرف 18 اور 19 گریڈ کے افسروں کے گھر کے باہر ہوگی۔ مجھے ہنسی آ گئی، میں نے سوچا ایک گھنٹی کی کیا قیمت ہے لیکن انہوں نے صرف ایک امتیاز کی صورت بنانی تھی۔

تو اس طرح کے پروٹوکولز کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے اگر کوئی اور مسئلہ نہ بنتا ہو۔ لیکن کچھ protocol ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو نظر انداز کیا جائے تو کام نہیں ہو سکتا مثلاً ماتحتوں سے بے تکلفی ہو جائےتو پھر وہ بات نہیں مانتے۔ اس سے گورنمنٹ کے کام کا حرج ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں عہدہ دار کو چاہیے کہ اس پروٹوکول کو قبول کرے اور اسی کے مطابق کام کرے، اس کا تعلق اپنی ذات سے نہ رکھے بلکہ اس کو کام کی requirement سمجھے۔

مثلاً اگر جج حضرات عام لوگوں کے ساتھ گھل مل جائیں تو صحیح فیصلے نہیں کر سکیں گے۔ ان کے لئے لوگوں سے دوری زیادہ مناسب ہے۔ اسی وجہ سے مسلمانوں کی حکومتوں میں ججوں کے لئے علیحدہ گھر، علیحدہ اصطبل، علیحدہ کھانے پینے کی جگہیں ہوتی تھیں۔ باقاعدہ قانون تھا کہ جج اور قاضی حضرات کا لوگوں سے ایسا میل جول نہ ہو کہ وہ ان کے فیصلوں پہ اثر انداز ہو سکیں۔

لہٰذا اگر کام کا حرج ہوتا ہے تو پھر پروٹوکول کو فالو کریں۔ اور اگر پروٹوکول کا مقصد صرف تعیش اور اپنے سٹیٹس کو ظاہر کرنا ہو تو اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔

سوال نمبر10:

ایک صاحب نے سوال پوچھا ہے۔ اگرچہ اس کے الفاظ کم ہیں مگر پھر بھی بہت لمبا چوڑا سوال ہے۔ لکھتے ہیں: الحمد للہ اذکار کی پابندی ہو رہی ہے۔ سیر انفسی اور سیر آفاقی میں کیا فرق ہے؟ نیز عالم امر اور عالم خلق میں کیا فرق ہے؟ صحو اور سکر میں کیا فرق ہے؟ عقیدہ وحدت الوجود کیا ہے اور حلول کیا ہوتا ہے۔؟تصوف کی کون سی کتاب ایسی ہے جس کے مطالعہ سے تصوف کی اصطلاحات سمجھ میں آ سکتی ہیں؟

جواب:

اس صاحب کو میں یہی کہوں گا کہ پہلے میری کتاب ”تصّوف کا خلاصہ“ پڑھ لے اس میں بعض چیزوں کی تشریحات ہیں۔ اس میں سے جو سمجھ نہ آئے مجھ سے پوچھ لے، میں سمجھا دوں گا۔ آدمی خود پڑھ کر جو معلومات حاصل کرتا ہے وہ بہت کار آمد ہوتی ہیں۔ اس لئے پہلے وہ کتاب پڑھ لے، ہم نے وہ کتاب beginners کے لئے لکھی ہے۔

اس کے علاوہ ایک بات یاد رہے کہ صرف معلومات حاصل کرلینا اور اصطلاحات کو جان لینا کافی نہیں ہوتا۔ بعض ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کو ان میں سے کسی چیز کا علم نہیں ہوتا لیکن وہ تصّوف کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ کیونکہ تصوف ایک عملی چیز ہے۔ بعض لوگ تمام چیزوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، بلکہ اس پہ لیکچرز دے رہے ہوتے ہیں، لیکن عملی طور پر انہیں ان میں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہمیں ان چیزوں کو عملی طور پہ حاصل کرنا چاہیے۔ عملی طور پر حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کے ساتھ رابطہ مضبوط ہو اور جو معمولات بتائے ان میں پختگی ہو۔ اگر معمولات میں پختگی اور شیخ کے ساتھ رابطہ مضبوط ہے تو ان کو سیر انفسی، سیر آفاقی، عالم خلق عالم امر وغیرہ ان میں سے کسی چیز کے جاننے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ سب جانے بغیر ہی ان کو وہ تمام فوائد حاصل ہو جائیں گے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے میرے شیخ نے اجازت دی تھی، اس وقت مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ نسبت کیا ہوتی ہے۔ لہٰذا اس راستے میں علم سے زیادہ عمل سے کام بنتا ہے۔

سوال نمبر11:

الحمد للہ with your prayers sort of hearted is developed in my mind as per your advice i have deleted all the movies and started دعا of going to toilet. I have started نفل، اوابین and four رکعت نفل with عشا and also سورہ یٰس and سورہ ملک with مناجات مقبول. I have also started filling the معمولات time table in excel sheet which i will send you for the month of that ان شاء اللہ. Should I continue doing these aamals and started going to مسجد but sometimes due to my job and some classes جماعت misses so I then pray individually. Pray for me حضرت and i am praying for you day and night, جزاک اللہ

جواب:

Don’t see any pornographic movie delete all. Do not make screens of computer private it should be in such a position that anybody can see it If he wants. You are young you have wife if desire of seen such things burden you, you should go to your wife who is حلال for you۔ when you start internet recite دعا of going to toilet first i am thank for you and you should also for me.

اس صاحب نے مذکورہ بالا سوال کیا تھا اور میں نے جو جواب دیا اس نے اس پر پورا عمل کر لیا اور ساری بری چیزیں delete کردیں۔ الحمد للہ کچھ اعمال بھی شروع کر لئے۔ باصلاحیت لوگ اس طرح ہی کرتے ہیں۔ بات سمجھ میں آ جائے تو مان لیتے ہیں۔ میں اس کو مبارک باد دیتا ہوں کہ اس کو اللہ تعالی نے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ واقعتاً آج کل انٹرنیٹ پر بہت ساری فضول چیزیں موجود ہیں۔ اس کا علاج یہی ہے کہ اس کو دیکھا نہ جائے، انٹرنیٹ کو ضرورت کے علاوہ استعمال نہ کیا جائے۔ اگر کام کے لئے یا ریسرچ کے لئے ضرورت ہو تب استعمال کر لیا جائے وہ بھی اس طرح کہ کسی کے سامنے بیٹھ کر کرے، تنہائی میں نہ کرے۔ اور انٹرنیٹ آن کرتے وقت یہ دعا پڑھ لینی چاہیے:

”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبَائِث“

جس طرح انسان بیت الخلاء میں ضرورت پوری کرنے کی حد تک بیٹھتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ٹھہرتا اسی طرح انٹرنیٹ پر بس ضرورت پوری کر لے، پھر انٹرنیٹ بند کردے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شیاطین انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ تو یہ ضروری ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

سوال نمبر19:

حضرت جی! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! چار پانچ دن پہلے یہ خیال آیا تھا کہ کوئی بھی عمل اس قابل نہیں کہ اللہ پاک کے سامنے پیش کیا جا سکے لیکن سنت رسول ﷺ اور آپ ﷺ کا طریقہ تو قبول ہی ہے، لہٰذا اگر ہر عمل سنت کے مطابق کیا جائے تو کم از کم سنت کی پیروی والے حصے کی قبولیت یقینی ہے۔ پس میں نے نماز اور باقی کاموں میں اس نیت سے سنت کا خیال شروع کر دیا۔ نماز بہت ٹھہر کر پڑھنا شروع کر دی، رکوع و سجود اور جلسہ وقومہ بھی مسنون طریقے سے شروع کر لیا۔ اگلے دن میرے دل میں بار بار ﴿یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (الفتح: 14) کے الفاظ آنا شروع ہو گئے، لیکن میں سمجھ نہ سکا۔ اس ہفتے کے درسِ مثنوی میں الحمد للہ یہ مضمون آ گیا کہ اگر آپ ﷺ کا طریقہ ضرور قبول ہوگا لیکن اللہ کے فضل سے ہی ہو گا۔

جواب:

واقعی اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں۔ اللہ جل شانہ رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کو یہ خیال آیا کہ ہمارا کوئی عمل اس قابل نہیں ہے جس کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے تو انہوں نے سوچا کہ سنت چونکہ قبول ہے اس لئے اگر ہم سنت کے مطابق عمل کر لیں وہ تو قبول ہی ہو گا۔ کہتے ہیں کہ میں نے سنت کے مطابق عمل کرنا شروع کر لیا، ٹھہر ٹھہر کے نماز پڑھنا شروع کی اور باقی چیزوں کو بھی سنت کے مطابق کرنے کی کوشش کی اس خیال سے کہ جو جو حصہ سنت کے مطابق ہو وہ قبول ہو ہی جائے گا۔ پھر دل میں بار بار یہ آیت آنا شروع ہو گئی ﴿یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآءُ﴾ (الفتح: 14) ترجمہ: ”وہ جس کو چاہے بخش دے، اور جس کو چاہے عذاب دے“۔ میں سمجھ نہیں سکا۔ پھر مثنوی کے درس میں اللہ پاک نے یہ مضمون کھلوا دیا کہ بے شک انسان کتنا ہی اچھا عمل کر لے لیکن قبول اللہ کے فضل سے ہی ہو گا۔ اللہ پاک کا فضل ہو گا تو ہی قبول ہو گا۔ ؎

عدل کریں تے تھر تھر کنبنڑ اُچیاں شاناں والے ہوُ رحم کریں تے بخشے جاون میں جیے منہ کالے ہوُ

یہ بات اس انسان کو سمجھ میں آسکتی ہے جس کی نظر اللہ جل شانہ کے اوپر رہتی ہو۔

سوال نمبر20:

حضرت جی جتنے بھی بزرگ گزرے ہیں وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اپنے لیے ایسے الفاظ استعمال کرتے تھے جن سے گناہ گاری ظاہر ہوتی ہے۔ جیسے سیاہ کار یا خطا کار وغیرہ۔ وہ حضرات اپنے آپ کو ایسا کیوں کہتے تھےحالانکہ ان کی ظاہری زندگی لوگوں کے سامنے تھی اور وہ متقی پرہیزگار لوگ تھے۔ اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو ایسا کیوں کہتے تھے۔ وہ جھوٹ بھی تو نہیں بول سکتے، اب ہم کیا سمجھیں گے کہ وہ اپنے بارے میں سچ کہتے تھے اور گناہ گار ہی تھے یا پھر یہ ان کی عاجزی تھی۔اس بارے میں رہنمائی فرما دیجیے۔

جواب:

یہ تصّوف کی جیتی جاگتی کرامت ہے جو انسان کھلی آنکھوں دیکھ سکتاہے۔ یہ بات بغیر تصّوف کے سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ اس میں ہوتا یوں ہے کہ مبتدی اپنے آپ کو بزرگ سمجھ لیتا ہے اور منتہی اپنے آپ کو گناہ گار سمجھ رہا ہوتا ہے۔ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں کہ اگر یہ گنہگار ہے تو پھر نیک کون ہوگا۔ در اصل ان حضرات کی نظر اللہ تعالیٰ کے فضل عظیم پر ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو کسی قابل نہیں سمجھتے۔ اگر انسان اپنے آپ کو کسی قابل سمجھنے لگ جائے، اس کی نظر اپنے اعمال پہ ہو، اللہ پر نہ رہے تو وہ اللہ کے فضل سے مستغنی ہو جائے گا،جو بڑے نقصان کی بات ہے۔ اللہ پاک اپنے ولیوں پر یہ حقیقت کھولتے رہتے ہیں کہ سب کچھ اللہ کے فضل سے ہے تاکہ ان کو نقصان نہ ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کمزور نظر والے کو عینک اور عدسہ کے بغیر بڑی بڑی چیزیں بھی نظر نہیں آتیں۔ لیکن عینک اور عدسہ کے ساتھ انہیں چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی بڑی نظر آتی ہیں۔ جیسے ٹیلی سکوپ سے چھوٹے چھوٹے جراثیم بھی بڑے بڑے نظر آتے ہیں۔ اگر ٹیلی سکوپ کے ذریعے آپ اپنے تھوک میں موجود جراثیم دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ میں زندہ کیسے ہوں۔ عام آدمی کو یہ چیزیں نظر نہیں آتیں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہے، لیکن جن کو یہ چیزیں نظر آ جائیں وہ اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ معرفت حاصل ہوتی ہے vision کی improvement کے بعد۔ جیسے جیسے اللہ والے روحانیت کے لحاظ سے ترقی کرتے ہیں، ویسے ویسے ان کا vision improve ہو رہا ہوتا ہے۔ نتیجتاً وہ کچھ ایسی چیزیں بھی جاننے لگتے ہیں جو باقی لوگ نہیں جانتے۔ جو نہیں جانتے وہ تو اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں لیکن جو جانتے ہیں وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ لہٰذا وہ جو اپنے آپ کو خطا کار سیاہ کار وغیرہ کہتے ہیں وہ اپنے اوپر یہی گمان کر رہے ہوتے ہیں اور اس پر قسم کھانے کو بھی تیار ہوتے ہیں۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا۔ انہوں نے کہا: ”کس نیت سے آئے ہو؟“

اس نے جواب دیا: ”بزرگوں کی خدمت میں کچھ وقت گزارنے کے لئے آیا ہوں“۔

فرمایا: ”بڑی لغو نیت کی ہے۔ اگر میں قسم کھا لوں کہ تو مجھ سے بڑا بزرگ ہے پھر کیا کرو گے؟“

وہ حیران ہو گیا کہ میں اب کیا کروں۔

حضرت نے فرمایا: ”تو یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اپنی اصلاح کے لئے آیا ہوں۔ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ایک فاسق و فاجر سے بھی اصلاح کروا دیتا ہے“۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میں جو لوگوں کو ڈانٹتا ہوں تو میں اپنے آپ کو ان سے بڑا نہیں سمجھتا بلکہ میں اُن کو شہزادوں کی طرح سمجھتا ہوں اور اپنے آپ کو جلاد کی طرح سمجھتا ہوں۔ اب جلاد اگر کسی شہزادے کو بادشاہ کے حکم سے کوڑے لگا رہا ہو تو کیا وہ اپنے آپ کو شہزادے سے افضل سمجھ سکتا ہے؟ وہ کہے گا کہ بادشاہ نے حکم دیا ہے اس لئے میں اس کو کوڑے لگا رہا ہوں ورنہ یہ ہے تو شہزادہ ہی۔ بادشاہ کے بعد حکومت اسی کو ملے گی۔

یہ چیزیں ایسی ہیں جو انسان کے ساتھ practically واقع ہو سکتی ہیں۔ انسان جتنا جتنا روحانی ترقی کرتا جاتا ہے اس کا vision improve ہو رہا ہوتا ہے نتیجتاً اس کو اپنی کمزوریاں اور غفلتیں نظر آنی شروع ہو جاتی ہیں، وہ اپنے آپ کو کسی قابل نہیں سمجھتا۔ دوسری طرف اللہ کی عظمت کھل رہی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے میری تو بڑی سے بڑی چیز بھی میری طرف سے نہیں ہے، سب اللہ پاک کا کرم ہے، میرا کچھ بھی نہیں ہے۔

سوال نمبر21:

حضرت صاحب! گذشتہ درسِ مثنوی میں آپ نے فرمایا کہ اب ہنگامی بنیاد پہ کام کی ضرورت ہے کیونکہ ایمرجنسی حالات ہیں اس لئے اب اپنے وقت، جان اور مال میں سے کچھ نہ کچھ قربانی دینی پڑے گی اور کام کرنا پڑے گا۔ نارمل روٹین میں اب کام نہیں ہو سکے گا۔ روٹین سے باہر نکل کر اضافی کام کرنا پڑے گا۔ حضرت صاحب یہ بات کچھ دیندار لوگ نہیں سمجھتے۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ان کو یہ بات کس طرح سمجھائی جائے اور خود اپنے آپ کو کیسے سمجھائی جائے؟

جواب:

اللہ کا حکم ہے کہ اگر خود نہیں جانتے تو اہل علم سے پوچھو۔

﴿فَسْئَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَۙ﴾ (النحل: 43)

ترجمہ: ”اب اگر تمہیں اس بات کا علم نہیں ہے تو جو علم والے ہیں ان سے پوچھ لو۔ “

دو طریقے ہیں۔ خود سمجھ جاؤ یا سمجھنے والوں کے پیچھے چلو۔ اگر سمجھنے والوں میں ہو تو خود سمجھ جاؤ سمجھنے والے نہیں ہو تو جس پر تمہارا دل مانے کہ یہ سمجھتا ہے اس کی بات سمجھو۔ تو میں نے یہ بات ان سے کہی تھی جو ہمارے اوپر اعتماد کرتے ہیں۔ جو اعتماد نہیں کرتے ان سے تو خطاب ہی نہیں تھا، نہ ہی ہم ان سے اس قسم کی کوئی توقع کرتے ہیں۔ ہم خواہ مخواہ ان کے کاموں میں مداخلت کیوں کریں۔ اگر کوئی شخص اپنے کام اپنے طریقے پہ کرنا چاہتا تو ہم ان کے ذمہ دار نہیں ہیں نہ ان کو کوئی مشورہ دیں گے نہ ان سے کوئی بات کریں گے، لیکن جو ہم سے توقع کرتے ہیں کہ ہم ان کو صحیح بات بتائیں، سمجھائیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری بات ان کے لئے زیادہ وقعت رکھتی ہے، ان کو ہم بتائیں گے اور سمجھائیں گے۔ آپ ﷺ نے بھی یہی کیا تھا۔ جب آپ ﷺ دعوت دے رہے تھے تو پہاڑی کے اوپر کھڑے ہو کر پوچھا کہ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑی کے پیچھے سے دشمن ہمارے اوپر حملہ کرنے والا ہے تو کیا آپ لوگ اس پر یقین کر لیں گے؟ سب نے کہا کیوں نہیں، ضرور یقین کریں گے کیونکہ ہم نے آپ کو صادق اور امین پایا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ کلمہ پڑھ لو کامیاب ہو جاؤ گے۔

یہ بات بھی اسی قسم کی ہے۔ ہم انہی لوگوں کو اپنی بات کہیں گے، ہمارے مخاطب وہی لوگ ہوں گے جو ہم پہ اعتماد کرتے ہیں، اور فائدہ بھی انہی کو ہوگا۔

ہمیں اپنے شیخ نے ایک بات بتائی تھی۔ آج اس بات کی قدر آ رہی ہے۔ میں ایک دن عشاء کی نماز کے بعد حضرت کے پیر دبا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سعادت نصیب فرمائی تھی۔ حضرت نے مجھے کہا: ”شبیر آرام کا وقت چلا گیا ہے، اب آرام نہیں کرنا، کام کرنا ہے،کام کرنا ہے، کام کرنا ہے،لوگ تمہیں کام نہیں کرنے دیں گے پھر بھی کام کرنا ہے“۔

اب بتائیں اس کا کیا مطلب تھا! مجھے تو یہ بات اتنا عرصہ پہلے کہہ دی گئی تھی۔ الحمد للہ ہم اپنے حضرت کو سمجھتے تھے کہ وہ جاننے والے ہیں اور ان چیزوں کو جانتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہمیں اس سے فائدہ ہوا۔ آج اگر ان کا مرید آپ کو وہی بات دوسرے الفاظ میں کہہ رہا ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کی سمجھ میں آ جائے کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ وقت بتا دے گا کہ میں کیا کہہ رہا تھا لیکن تب یہ وقت گزر چکا ہو گا۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن