سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 108

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال 1:

جو لوگ فوت ہو چکے ہوں ان کے لئے یہ وظیفہ پڑھ کر ایصال ثواب کا جاتا ہے کہ 70 ہزار مرتبہ کوئی اپنے لئے یا کسی کے لئے "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" پڑھ لیتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ عذابِ جہنم سے نجات عطا فرماتے ہیں۔ سوال یہ تھا کہ صرف "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" ہے یا "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ" ہے؟

جواب:

کتابوں میں صرف "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" لکھا گیا ہے لہذا 100 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" پڑھ کر اس کے بعد "مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ" پڑھ لیا جائے اور پھر 100 دفعہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" پڑھ کے "مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ" پڑھا جائے۔ اس طریقے سے اس کو 70 ہزار مرتبہ پڑھ لیا جائے۔ چاہے چند دنوں میں ہو جائے لیکن ایک ہی فرد پڑھے، بہت سے لوگ نہیں۔ اس کو ایک نصاب کہتے ہیں۔ جو بھی اس کو کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے۔

سوال 2:

روحانی ترقی کیا ہوتی ہے اور یہ کیسے حاصل ہوتی ہے؟ اور اس بات کا ہمیں کیسے اندازہ ہو گا کہ ہمیں شیخ کا فیض حاصل ہو رہا ہے؟

جواب:

مثلاً ایک غبارہ ہو جس میں hydrogen گیس بھری جائے تو وہ اوپر اٹھتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی چھوٹا سا پتھر وغیرہ باندھ دیا جائے تو وہ نیچے آ جاتا ہے۔ یعنی غبارے کی اڑانے کی قوت سے پتھر کا وزن زیادہ ہو گا۔ پس اوپر لے جانے کے لئے دو کام ہو سکتے ہیں یا تو غبارے کے اڑانے کی طاقت کو زیادہ کیا جائے یا پھر اس پتھر کے وزن کو کم کر دیا جائے۔ اسی طرح روحانی ترقی سے مراد یہ ہو گا کہ انسان اپنی روحانیت کے اوپر آ جائے یعنی ذکر کی کثرت کی وجہ سے اپنے دل کے آئینے کو صاف کر دے، جس کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف توجہ بڑھ جائے گی، دنیا کی محبّت کم ہو جائے گی اور اللہ تعالی کی محبّت حاصل ہو جائے گی جس کی وجہ سے انسان اللہ پاک کے قریب ہو گا، یہی روحانی ترقی ہوتی ہے۔ انسان کو پھر اعمال کی توفیق ہوتی ہے اور اشکالات دور ہو جاتے ہیں، صحیح راستے پہ گامزن ہو جاتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ نفس کی خواہشات کو دبا دیا جائے جیسا کہ پتھر کے وزن کو کم کرنے والی بات ہے کیوں کہ نفس کی خواہشات انسان کو نیچے لاتی ہیں اور انسان کی روحانی قوت اس کو اوپر لے جاتی ہے۔ نقشبندی حضرات یہ طریقہ استعمال کرتے ہیں کہ ذکر اذکا کے ذریعے روحانی قوت بڑھا دی جائے اور چشتی حضرات نفس کی خواہشات کے اوپر روک لگا دیتے ہیں اور مجاہدہ کرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے نفس کے اوپر زد پڑتی ہے اور نفس کی demands کم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح روحانی ترقی حاصل ہو جاتی ہے۔

آج کل دونوں طریقے کرائے جاتے ہیں۔ ایک طرف ذکر اذکار کے ذریعہ قلبی روحانی قوت کو بڑھایا جاتا ہے اور دوسری طرف مجاہدات کے ذریعہ نفس کی خواہشات کو دبایا جاتا ہے۔ جیسے ہم اعتکاف میں ایسے معمولات کرتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کی قلبی صفائی ہو۔ جیسے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ روزے بھی رکھ رہے ہوتے ہیں۔ دونوں چیزیں بیک وقت ہو رہی ہوتی ہیں جس کی وجہ سے روحانی قوت بڑھ جاتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ ہمارے اجتماعی اعتکاف میں دس دن میں اتنا فائدہ ہو جاتا ہے کہ جتنا شاید پورے سال میں نہیں ہوتا۔ معلوم ہوا روحانی قوت اس طریقے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

سوال 3:

اس بات کا ہمیں کیسے اندازہ ہو گا کہ ہمیں شیخ کا فیض حاصل ہو رہا ہے؟

جواب:

شیخ کے ساتھ تعلق کس بنیاد پر ہے؟ آج کل دنیا کی نیت کر کے مشائخ کے پاس جاتے ہیں۔ مثلاً جس کو دنیا حاصل ہوتی تو کہتا ہے: یہ شیخ بڑا زبردست ہے حالانکہ روحانیت کا دنیا کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے لئے شیخ بنایا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالی کی طرف توجہ بڑھ جائے اور دنیا کی محبّت کم ہو جائے۔ چنانچہ اگر کسی شیخ کے ساتھ تعلق ہونے کے بعد دنیا کی محبّت کم ہو رہی ہو اور الله تعالی کی طرف توجہ ہو رہی ہو اور نیک اعمال کی طرف توفیق ہو رہی ہو، بیشک نفس کتنا ہی چیخے لیکن اس کو اعمال کی توفیق ہو جاتی ہے۔ بلکہ نفس چیخ رہا ہو اور یہ اعمال کر رہا ہو تو یہ زیادہ فیض ہے۔ معلوم ہوا اِس کو قابو کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر کمزور کتے کو تو کوئی بھی سدھا سکتا ہے لیکن مضبوط کتے کو کوئی control کر لے تو کہتے ہیں کہ یہ بڑا ماہر ہے۔ اسی طرح جب کوئی بہت اڑیل گھوڑے کو سدھا لے تو بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی نفس کے اوپر قابو پانا سیکھ لے اور اس سے اعمال کروانا شروع کر دے تو یہ شیخ کا فیض ہے کہ جس مقصد کے لئے شیخ کے پاس جایا جاتا ہے اگر وہ مقصد حاصل ہو رہا ہو تو بالکل ٹھیک ہے۔ لیکن ایک احتیاط ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انسان جتنا جتنا روحانی ترقی کی طرف بڑھتا ہے اتنا اتنا اِس کی vision بڑھتی ہے۔ مثلاً پہلے جو روحانی بیماریاں نظر نہیں آتی تھیں اب وہ نظر آنے لگیں گی، انسان سمجھتا ہے کہ شاید میں نیچے جا رہا ہوں حالانکہ وہ اوپر جا رہا ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کو احساس ہونے لگتا ہے۔ پہلے نمازوں کی بالکل پرواہ ہی نہیں تھی، تین نمازیں پڑھ لیتا اور کہتا کہ سبحان اللہ میں تین تو پڑھ رہا ہوں باقی تو تین بھی نہیں پڑھ رہے یعنی کم لوگوں کے ساتھ مقابلہ ہوتا تھا۔ اب زیادہ لوگوں کے ساتھ مقابلہ ہوتا ہے تو فرق آ گیا۔ اگرچہ احساس ہو رہا ہے کہ میں کم ہو رہا ہوں، مثال کے طور پر ایک آدمی تہجد گزار ہے اور دوسرا آدمی سمجھتا ہے میں تو صرف فرض نماز پڑھ رہا ہوں تو احساس ہو گیا۔ اسی طریقے سے کچھ ایسی چیزوں کا بھی احساس ہونے لگتا ہے جن کا پہلے احساس نہیں ہوتا تھا۔ یہ vision کی improvement ہے۔ چنانچہ vision کی improvement ہو، اعمال کی ترقی ہو اور اللہ کی طرف توجہ ہو رہی ہو اور اپنی اصل یعنی آخرت کی طرف توجہ ہو، دنیا کی چیزوں کی طرف توجہ نہ ہو۔ یہ فیض اگر کسی کو حاصل ہو رہا ہے تو بہت اچھی بات۔ اللہ تعالی اور بھی عطاء فرما دے۔

سوال 4:

اپنی اصلاح فرض ہے۔ ہم بزرگوں کے بیان بھی سنتے ہیں جس سے ہمیں اپنی روحانی بیماریوں کا پتا چل جاتا ہے اور ہم اس کا علاج بھی کرتے ہیں۔ بہت سی بیماریاں ہمارے دل میں ہوتی ہیں مثلاً حسد، کینہ وغیرہ پھر مراقبہ کیوں ضروری ہے؟

جواب:

سبحان اللہ کیسا پیارا question ہے۔ مثال کے طور پر آپ radio پر بیان سن لیں کہ آج کل فلاں فلاں بیماریاں ہیں اور یہ فلاں فلاں طرح سے لگتی ہیں تو کیا اس کے سننے سے علاج ہو گیا؟ اس کے سننے سے فکر تو پیدا ہو جائے گی لیکن علاج ڈاکٹر کے پاس جانے سے ہو گا۔ اسی طرح ڈاکٹر کو consult کر لیا، prescription بھی لے لی تو کیا علاج ہو گیا؟ اس وقت بھی علاج نہیں ہوا کیونکہ ابھی دوائی کھانا باقی ہے۔ پہلے دوائی لینی ہے پھر دوائی کھانی ہے۔ پھر دوائی کھانا کافی نہیں ہوتا بلکہ مزید ڈاکٹر کے پاس consult کرنا ہوتا ہے کہ اس کے symptoms وغیرہ کیسے ہیں؟ معلوم ہوا Step by step یہ سارے کام کرنے ہوتے ہیں۔ اسی طرح روحانی علاج بھی کرانا ہوتا ہے، اپنے اندر صرف کسی گناہ کا پتا چل جانا کافی نہیں ہے۔ اور مراقبہ اصل میں انسان کی اپنی روحانی پرواز کو بڑھانے کی ایک exercise ہے جس سے انسان کی توجہ دنیا سے نکل کر اللہ کی طرف ہونے لگتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم مراقبہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں محبت کے ساتھ دیکھتے ہیں، یا ہم تصور کرتے ہیں کہ دنیا ہمارے دل سے نکل رہی ہے اور اللہ تعالی کی محبّت ہمارے دل میں آ رہی ہے۔ آہستہ آہستہ یہ چیز ہمارے دل کے اوپر طاری ہو رہی ہو گی اور واقعتاً اللہ تعالی کی محبّت ہمارے دل میں آ رہی ہو گی اور دنیا کی محبت ہمارے دل سے نکل رہی ہو گی۔ یہ چیز جتنی بڑھے گی اور جتنی improve ہو گی تو اس وقت تک جو بیماریاں دنیا کی محبّت کی وجہ سے آ رہی ہوں گی وہ کم ہو رہی ہوں گی۔ جیسے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "حُبُّ الدُّنْیا رَأْسُ کُلِّ خَطِیئَة" (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 10501)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔“

جہاں دنیا کی محبت ہو گی وہاں روحانی بیماری جیسے حسد،کینہ، عجب، تکبر، ریا وغیرہ ہوں گی۔ جب دنیا کی محبّت کم ہو جائے گی یا ختم ہو جائے گی تو پھر یہ بیماریاں کم ہو جائیں گی یا ختم ہو جائیں گی۔ مراقبات اس لئے کئے جاتے ہیں کہ ہم دل سے دنیا کی محبّت کو نکال دیں اور اللہ تعالی کی محبّت کو دل میں پیدا کر لیں۔ مراقبہ اس کے علاج کا اصل source ہے۔ مجھے بعض خواتین فون کرتی ہیں کہ ہم تسبیحات تو کر رہی ہیں لیکن مراقبہ ہم سے نہیں ہو رہا۔ میں جواب دیتا ہوں: کیسے ہو گا؟ شیطان تم سے زیادہ ہوشیار ہے۔ اس کو پتا ہے کہ اس راہ پر ذہن ہے اور یہ اصلاح کا ذریعہ ہے۔ تسبیحات یا قرآن پاک کی تلاوت مستحب ہے۔ مستحب کے اثر کو ختم کرنا اس کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ آپ مستحب عمل کر کے اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگیں۔ اور شیطاں آپ کو اس طریقے سے مار دے۔ اپنے آپ کو بزرگ نہ سمجھنا تب ہو گا جب انسان کو اپنی حقیقت اور اپنی کمزوریوں کا پتا چلے گا۔ یہ اس کا target change ہونے کے بعد ہو گا۔ مثال کے طور پر اس کا target پہلے دنیا کی چیزوں کو حاصل کرنا تھا بعد میں اللہ تعالی کے تعلق کو حاصل کرنا ہو گیا۔ معلوم ہوا اگر ہم چھوڑ دیں گے تو شیطان جیت جائے گا۔ وہ ہمارے حج کو بھی خراب کر سکتا ہے، نماز کو بھی خراب کر سکتا ہے، ذکر و تلاوت کو بھی خراب کر سکتا ہے۔ یہ اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ لیکن دل کی اصلاح کی ڈور اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اس کے لئے وہ کبھی کسی کو تیار نہیں ہونے دے گا۔ ہزاروں وسوسے اس کے دل میں ڈالے گا کہ یہ تو فلاں چیز ہو رہی ہے، یہ فلاں چیز ہے، یہ کہاں سے ثابت ہے؟ یہ کیا ہے؟ مثال کے طور پر ہم چاہتے ہیں کہ چلتا ہوا کاروبار ہمارے ہاتھ لگے جس کے اندر لوگوں کو تجربہ ہو اور جس کے بارے میں ہمیں معلومات ہوں، کوئی نیا کاروبار نہ شروع کیا جائے۔ تو اصلاح کے معاملے میں سارے پرانے تجربات کو ایک دم صفر کر کے کوئی نئی چیز نکالنی چاہیے یا وہی کریں جو پہلے سے لوگوں میں کامیابی سے چلی آ رہی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کِس طریقے سے کامیاب ہوئے؟ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة الله عليه کِس طریقے سے کامیاب ہوئے؟ شاہ ولی اللہ رحمة الله عليه کِس طریقے سے کامیاب ہوئے؟ مجدد الف ثانی رحمة الله عليه کِس طریقے سے کامیاب ہوئے؟ مسلسل تابعین کے دور سے لے کر ابھی تک جس طریقے سے لوگ کامیاب ہو رہے ہیں ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہم اس سے کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ہم کوئی نیا طریقہ devise کر لیتے ہیں اس سے ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ کیا Medical treatment میں ایسا ہوتا ہے؟ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں نئی چیزوں کو اتنی جلدی welcome نہیں کیا جاتا، وہ پہلے مختلف ذرائع سے اچھی خاصی testing کروا لیتے ہیں پھر جب approve ہو جاتا ہے اس کے بعد اس کو کام میں لاتے ہیں۔ چنانچہ ہم لوگ کیوں اپنے آپ کو تختہ مشق بنائیں؟ یا تجربہ گاہ کیوں بنائیں؟ جو چیزیں پہلے سے چلی آرہی ہیں ہم لوگ کیوں ان سے فائدہ نہ اٹھائیں؟ بہر حال مراقبات ہمارے ہاں اصلاحِ نفس کا ذریعہ رہے ہیں۔ اصلاحی ذکر جو مرد حضرات کرتے ہیں یہ بھی اصلاح کے طریقے رہا ہے۔ اگر ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو کسی شیخ کی صحب اختیار کرنی پڑے گی۔ جیسے ڈاکٹر دوائی دیتا ہے جس سے علاج ہو جاتا ہے، پھر کچھ پرہیز بتاتا ہے۔ وہ پرہیز کرنا پڑے گا اور اس کو پھر consult کرنا پڑے گا۔ اس interaction سے آہستہ آہستہ improvement ہوتی رہے گی اور ایک دن ان شاء اللہ اصلاح ہو جائے گی۔ جن کی اصلاح ہو چکی ہو یہ ان کی خوش قسمتی ہے۔

سوال 5:

کہاں لکھا ہے کہ بیعت کرنی چاہیے؟ اگر بیعت ضروری ہے تو سب مسلمان بیعت کیوں نہیں ہوتے؟

جواب:

سبحان اللہ بڑا پیارا سوال ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمیں جو حکم دیا گیا ہے تو کسی طریقے سے اس پر عمل ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے ایک چھوٹی سی دلیل بھی کافی ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس : 10-9)

ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“

کتنی سنگین بات ہے؟ معمولی بات نہیں ہے۔ اگر دنیا کا معاملہ ایسا ہو تو انسان ڈر کے مارے کانپنے لگے اور سوچے کہ مجھے کچھ کرنا چاہیے ورنہ میں تو بالکل ختم ہو جاؤں گا۔ چونکہ آخرت کی بات ہے اس لئے ہم پرواہ نہیں کرتے۔ ورنہ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اس کے لئے پھر ہم طریقہ ڈھونڈیں گے کہ کس طریقے سے ہم بچ جائیں؟ تو میں نے ابھی عرض کیا کہ پرانی history کو ہم دیکھیں کہ کس طریقے سے اس معاملے کو ٹھیک کیا گیا ہے؟ اس کے لئے اتنی بات کافی ہے کہ آپ ﷺ کے دور میں بیعت ہوئی ہے یا نہیں ہوئی؟ خواتین کی بیعت قرآن سے ثابت ہے با قاعدہ قرآن پاک میں آیت موجود ہے۔ خواتین بیعت ہو رہی تھیں اور اعمال پہ بیعت ہو رہی تھی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ بیعتِ جہاد تھی حالانکہ یہ اعمال میں سے ہے کہ ہم زنا نہیں کریں گی۔ معلوم ہوا خواتین کی بیعت قرآن پاک میں ثابت ہے اور مردوں کی بیعت حدیث شریف سے ثابت ہے۔ آپ کے پاس result بھی آ گیا اور approval بھی ہے کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جب آخرت میں پتا چلے گا پھر کرو گے بیعت؟ پھر فائدہ اٹھاؤ گے؟ وہاں کچھ بھی نہیں ہو سکے گا۔ وہاں تو صرف نتیجہ سامنے آئے گا، وہاں عمل کرنے کا وقت نہیں ہو گا۔ وہاں عمل قبول ہی نہیں ہو گا۔

حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں، بادشاہت چھوڑ کر ولی اللہ بن گئے تھے۔ ایک دفعہ متفکر بیٹھے تھے، ایک شخص آیا اور کہا: حضرت! کیا سوچ رہے ہیں؟ فرمایا: میں اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان صلح کرا رہا ہوں۔ پوچھا: پھر کیا بنا؟ کہتے ہیں: اللہ مان رہے ہیں لوگ نہیں مان رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد اس شخص نے دیکھا کہ وہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ حضرت یہاں کیا کر رہے ہیں؟ فرمایا: اللہ اور مخلوق کے درمیان صلح کرا رہا ہوں۔ پوچھا: پھر کیا ہوا؟ کہا: لوگ مان رہے ہیں اللہ تعالی نہیں مان رہے۔ بس یہی بات ہے کہ آخرت میں سب لوگ مانیں گے، کافر سے کافر شخص بھی کہے گا کہ میں اب کفر نہیں کروں گا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا، وہاں خون کے آنسو روئے گا تو بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ ادھر موقع ہے، کچھ کر سکتا ہو تو کر لے۔ یہاں آپ کے پاس دلیل ہونی چاہیے اور example ہونی چاہیے، Case study ہونی چاہیے۔ یہاں بہت سی Case studies دی گئی ہیں، پھر کیوں خواہ مخواہ رسک لینا چاہتے ہو؟ باقی لوگوں کو بھی تو فائدہ ہوا ہے، کیا نَعُوذُ بِاللہ آپ کے لئے کوئی اور وحی اترے گی؟ وحی اترنے کا راستہ بند ہو گیا اب وحی نہیں اترے گی۔ اگر کوئی پرانے طریقہ پہ عمل کرنا چاہتا ہے تو کر لے، نہیں کرنا چاہتا تو پھر خود اپنا علاج کر لے۔ جیسے کوئی بیمار ہو جائے اور خود اپنا علاج کر لے، اگر کامیاب ہو جائے تو ہم مبارک باد دے دیں گے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوا تو It is on your own risk۔ لہٰذا اس کا خمیازہ بھی بھگتنا ہو گا۔

سوال 6:

اذان کا جواب دینا ضروری ہے، کہاں پر لکھا ہے؟

جواب:

استغفر اللہ آج کل ایسی certain باتوں کو بھی چھیڑا جاتا ہے۔ یہ سب ٹی وی کی وجہ سے ہے، ٹی وی پر لوگ بالکل Open discussion کرتے ہیں حالانکہ واضح حدیث شریف موجود ہے، ظالمو! کچھ پڑھ بھی لیا کرو پھر سوال کیا کرو۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب اذان کے الفاظ کہے جانے لگیں تو جو الفاظ کہے جائیں ان الفاظ کے ساتھ جواب دے دیا کرو۔ جب اذان پوری ہو جائے تو ایک بار درود شریف پڑھو اس کے بعد یہ دعا پڑھو: "اَللّٰھُمَّ رَبَّ ھٰذِہِ الدَّعْوَۃِ التَّامَّۃِ، وَالصَّلَاۃِ الْقَائِمَۃِ اٰتِ مُحَمَّدَنِ الْوَسِیْلَۃَ وَ الْفَضِیْلَۃَ وَابْعَثْہُ مَقَامًا مَّحْمُوْدَنِ الَّذِیْ وَعَدّتَّہٗ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِیْعَادَ"

ایسے سوال تکبر کی وجہ سے بھی ہوتے ہیں کہ ہم سب جانتے ہیں باقی لوگ کچھ نہیں جانتے۔ یہ کسی کتاب میں نہیں لکھا وغیرہ۔ سوال کرنے کا انداز ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے؟ کہہ دو کہ کیا ایسے لکھا ہوا ہے؟ یہ ایک علمی استفادے کی صورت ہے۔ کہاں لکھا ہوا ہے؟ یہ اعتراض کی صورت ہے۔ اتنے سارے لوگ جو اس حدیث پہ عمل کر رہے ہیں کیا غلط کر رہے ہیں؟ آپ نہ مانو لیکن اعتراض بھی نہ کرو۔ تاریخ میں اتنے بڑے بڑے نام ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ جیسے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ، امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ، امام رازی رحمۃ اللہ علیہ۔ یعنی بڑے بڑے لوگ اس کے اندر شامل ہیں، ان لوگوں کو اس بات پر کوئی اشکال نہیں ہوا۔ ابھی گزشتہ پچاس سال پیچھے کوئی اشکال نہیں تھا۔ آپ خواہ مخواہ بزرگوں پہ اعتراض کرتے ہیں۔ سوانح عمریاں پڑھ لیں، لکھا ہو گا کہ فلاں بزرگ تھے، انہوں نے اتنے عرصے میں علوم حاصل کئے، اس کے بعد شیخ کامل کی تلاش میں چل پڑے۔ تقریباً ہر بزرگ کی سوانح عمری میں یہ بالکل exact جملہ ہوتا ہے۔ پھر بھی بیعت کے اوپر اعتراضات، تصوف کے اوپر اعتراضات، طریقت کے اوپر اعتراضات اور اب اذان کے الفاظ کے جواب پر بھی اعتراض۔ إنّا لله وإنّا إليهِ رَاجعُون۔

سوال 7:

کچھ کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ ہم شیخ سے کہہ دیتے ہیں لیکن کچھ نہیں کہہ پاتے، ان کی اصلاح کیسے ہو؟

جواب:

ہر بات کہنی چاہیے، شیخ ہر بات کی اصلاح کے لئے ہوتا ہے، اگر نہیں کہہ پاتے تو اس کا اثر بھگتنا پڑے گا۔ ڈاکٹر جب علاج کرتا ہے تو علماء نے لکھا اور ڈاکٹر بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر سے کوئی بات نہیں چھپانی چاہیے کیونکہ اگر آپ نے ڈاکٹر سے کوئی بات چھپائی تو It's your own risk۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر نے آپ کو antibiotic کی ایک خاص dose دے دی اور آپ نے استعمال ہی نہیں کی۔ جب دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو وہ پوچھے گا کہ antibiotic کھائی؟ آپ نے کہہ دیا کہ کھا لی۔ وہ کہے گا کہ اس antibiotic کا اثر نہیں ہوا تو اس سے آگے کی کھا لو۔ چنانچہ پچھلی والی سے higher dose اگر آپ نے لے لی تو اس کے نقصان کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔ اس سے آپ کی Immunity disturb ہو گئی۔ معلوم ہوا ڈاکٹر کو صحیح صحیح information دینا لازم ہے۔ اسی طرح شیخ کو بھی صحیح صحیح information دینا لازم ہے اس کے اندر شرم کی بات نہیں ہے۔ آپ ﷺ سے خواتین نے ایسے سوالات کئے ہیں اور کتابوں میں موجود ہیں جو حیا کا تقاضا رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو ضرورت تھی اس لئے انہوں نے کئے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مردوں نے سوالات کئے ہیں بلکہ ایک دفعہ ایک مرد صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوال کرتے ہوئے بہت شرما رہے تھے کیوں کہ سوال ایسا تھا جس کا علم صرف عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو ہو سکتا تھا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا: تم میرے بیٹے ہو، میں تمہاری ماں ہوں، شرماؤ نہیں جو سوال کرنا ہے کر لو، میں جواب دوں گی۔ چنانچہ دین کے معاملات میں ایسے سوالات کرنے سے نہیں شرمانا چاہیے۔ غلط کام کرتے ہوئے شرمانا چاہیے۔ معلوم ہوا شیخ سے پوری پوری باتیں کرنی چاہئیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ایسا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے دوسرے لوگوں کو پتا نہ چلے بلکہ صرف شیخ کو ہی معلوم ہو اور شیخ بھی اس طریقے سے جواب دے کہ اس سے کسی اور کو اطلاع نہ ہو۔ اگر شیخ کوئی اور نظام بنا دے مثلاً کسی عورت کی ذمہ داری لگا دے کہ اس سے آپ سوال و جواب کر لیں اور وہ مجھے مناسب الفاظ میں کہہ دے تو اس پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہر حال بات کو چھپانا نہیں چاہیے۔

سوال 8:

خانقاہ کا مقصد کیا ہے؟ یہاں آنا کیوں ضروری ہوتا ہے؟

جواب:

ہسپتال کا مقصد کیا ہے اس میں جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا جو جواب ہے وہی جواب اس کا ہے۔ مسلمان کے لئے تین چیزیں بہت اہم ہیں۔ مسجد عبادت کی جگہ ہے، لہذا جب بھی مسلمان کہیں جاتا ہے تو اپنے لئے مسجد بناتا ہے یا مسجد ڈھونڈتا ہے۔ دوسرے نمبر پر مدرسہ، کیوں کہ ہم نے علم حاصل کرنا ہے علم کے بغیر عمل نہیں ہو سکتا لہذا مدرسوں کا قیام ضروری ہے۔ تیسرے نمبر پر خانقاہ ہے، کیوں کہ ہمیں تربیت حاصل کرنی ہے اور تربیت جہاں پر حاصل ہو گی وہاں جانا ضروری ہے۔ خانقاہ تربیت گاہ ہے اور مدرسہ درس گاہ ہے اور مسجد عبادت گاہ ہے۔ یہ تینوں چیزیں آپس میں interrelated ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی شعبہ کمزور ہو گیا تو باقی دونوں بھی کمزور ہو گئے۔ مثَلاً اگر عبادت کے لحاظ سے مسجد کمزور ہو گئی تو خانقاہ بھی کمزور ہو گئی، مدرسہ بھی کمزور ہو گیا۔ اگر علم کے لحاظ سے مدرسہ کمزور ہو گیا تو مسجد بھی کمزور ہو گئی اور خانقاہ بھی کمزور ہو گئی۔ اور اگر عمل کے لحاظ سے خانقاہ کمزور ہو گئی تو مسجد بھی کمزور ہو گئی اور مدرسہ بھی کمزور ہو گیا۔ معلوم ہوا تینوں کی اپنی اپنی اہمیت ہے۔ چنانچہ صحیح خانقاہ کے ساتھ تعلق ہونا چاہیے۔ کیوں کہ آج کل لوگوں نے خانقاہوں کے ساتھ عجیب عجیب چیزیں وابستہ کی ہوئی ہیں۔ ایک دفعہ میرے ایک grade 21 کے افسر colleague نے مجھ سے پوچھا: آپ کہاں ہوتے ہیں؟ میں نے کہا: میں خانقاہ میں ہوتا ہوں۔ کہا: وہاں کس کا مزار ہے؟ میں نے کہا: شاید وہاں میرا ہی مزار ہے۔ تو لوگوں نے کچھ چیزوں کو بالکل essential رکھا ہوا ہے اور سمجھتے ہیں کہ خانقاہ میں ضرور کوئی مزار ہو گا۔ مزار کا خانقاہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ البتہ کوئی بزرگ خانقاہ میں رہتا رہا ہو اور بعد میں فوت ہو جائے اور لوگ اس خانقاہ میں ہی ان کو دفن کر دیں تو یہ اتفاقی بات ہے لیکن خانقاہ کے ساتھ مزار کا کوئی connection نہیں ہے۔ خانقاہ تربیت گاہ۔ جس کو تربیت چاہیے اس کو خانقاہ کے ساتھ رابطہ کرنا پڑتا ہے۔

سوال 9:

بیعت کرتے ہوئے کچھ بزرگوں کا نام لیتے ہیں جو دنیا سے پردہ کر چکے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت کرتا ہوں۔ اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

جواب:

اصل میں یہ chain میں داخل ہونے کے Symbolic words ہیں۔ کیوں کہ ہمارے سلسلے میں صرف شیخ زندہ ہوتا ہے، باقی سب حضرات دنیا سے جا چکے ہوتے ہیں۔ لیکن chain سب کی ہے، اس chain کے درمیان میں ایک کڑی بھی miss ہو جائے تو chain ٹوٹ جائے گی۔ ان کا نام اپنے آپ کو ان کے ساتھ connect کرنے کے لئے لیا جاتا ہے اور اس chain کے last شیخ کو بھی describe کیا جاتا ہے تاکہ اس کے ساتھ ہم اپنے آپ کو بھی own کروا لیں۔

سوال 10:

حضرت! ذکر جہری کہاں سے ثابت ہے؟

جواب:

اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا﴾ (الشمس:9-10) اس سے ثابت ہے۔ آپ ﷺ کا لوگوں کو بیعت کرنا ثابت ہے۔ آپ ﷺ کا تربیت کرنا ثابت ہے۔ آپ ﷺ نے ہر صحابی کی تربیت ایک جیسی نہیں کی۔ بلکہ کسی کو کہا جھوٹ نہ بولو، کسی کو کہا غصّہ نہ کرو۔ معلوم ہوا ہر شخص کا اپنا اپنا علاج ہوتا ہے۔ جتنے لوگ ہوتے ہیں، اتنے علاج ہوتے ہیں۔ medicle کی ساری بیماریاں کسی book میں نہیں آ سکتیں۔ ایک book صرف ایک Case study اور references ہیں۔ باقی ڈاکٹر نے جو تجربہ اور knowledge حاصل کیا ہوتا ہے اور جو اس کی combination بنتی ہے اور جو اس کا concept ہوتا ہے اس کو use کرتے ہوئے اور Common sense کو use کرتے ہوئے اس وقت کی علامت کے مطابق اس کے ذہن کو جو سوجھتا ہے وہی علاج ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے تین چار ڈاکٹروں کا opinion ضروری نہیں کہ ایک ہو بلکہ الگ بھی ہو سکتا ہے۔ diagnose میں بھی فرق ہو سکتا ہے، treatment میں بھی فرق ہو سکتا ہے، ساری چیزیں experimental ہوتی ہیں۔ ایک مقصد ہوتا ہے اور ایک اس مقصد کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے،۔ مقصد certain ہوتا ہے اس کو change نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3) یہ مقاصد ہیں، ذرائع نہیں ہیں ورنہ اسلام میں خلافت کا کتنا اہم رول ہے کہ آپ ﷺ کی تدفین کو خلافت کے لئے روکا گیا تھا۔ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت الگ طریقے سے establish ہوئی، عمر رضی اللہ عنہ کی الگ طریقے سے ہوئی ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کی الگ طریقے سے ہوئی ہے، علی کرم اللہ وجہہ کی الگ طریقے سے ہوئی ہے، حسن رضی اللہ عنہ کی الگ طریقے سے ہوئی، عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی الگ طریقے سے ہوئی۔ تو خلافت کے بالکل قائم ہونے کے مختلف ذارئع بتا رہے ہیں کہ ذارئع fix نہیں ہوتے بلکہ تبدیل ہو سکتے ہیں اور مقاصد fixed ہوتے ہیں۔ اب مقصد تربیت ہے۔ یعنی وہ چیزیں حاصل کرنا جس کا اللہ نے ظاہر اور باطن میں ہمیں حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے جو طریقہ چھوڑا ہے۔ مثال کے طور پر ایک دیہاتی آدمی میں تکبر ہے اور ایک شہری آدمی میں تکبر ہے، کیا ان دونوں کے تکبر کو ایک طریقے سے چھڑا سکتے ہیں؟ ایک آدمی بہت ذہین ہے، دوسرا simple ہے۔ کیا ان کو آپ ایک ہی طریقے سے چھڑا سکتے ہیں؟ کسی کو غیرت کی وجہ سے غصّہ آتا ہے اور کسی کو صرف اپنے مالیات کے حقوق کی وجہ سے غصّہ آتا ہے، کیا ان دونوں کا علاج ایک جیسا ہے؟ معلوم ہوا تمام لوگوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں جس کی وجہ سے علاج کے ذرائع بھی علیحدہ ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ ذرائع کے اوپر جمود بدعت ہے کیونکہ ذریعہ ہر وقت تبدیل ہو گا۔ مقاصد طے شدہ ہیں آپ نے ذریعے کو مقصد سمجھ لیا تھا تب ہی آپ اس پہ جمود کر رہے ہیں۔ جب آپ نے ذریعے کو مقصد بنا لیا تو مقاصد میں اضافہ ہو گیا جس کی وجہ سے وہ بدعت بن گیا کیوں کہ دین میں آپ اضافہ نہیں کر سکتے۔ معلوم ہوا ذرائع کو تبدیل ہوتے رہنا چاہیے تاکہ وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت پوری کرتے رہیں۔

ذکر بالجہر علاج کے لئے ہے، ثواب کے لئے نہیں ہے۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ ہم اس میں ثواب نہیں سمجھتے بلکہ ہم اس کو علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ البتہ اسی ذکر کے ذریعہ جب دل بن جاتا ہے پھر اس سے نماز، روزہ، زکوۃ، حج سب عبادات بہت بڑھیا ہو جاتی ہیں۔ اس کے ثواب کا پھر کوئی حساب نہیں ہے جبکہ ہم ثواب کے لئے نہیں کر رہے لیکن ثوابوں کا خزانہ مل رہا ہے۔ مثال کے طور پر چھری کو تیز کرنا کاٹنے کا عمل نہیں کہلاتا لیکن اگر چھری تیز نہ کی جائے تو وہ نہیں کاٹے گی۔ ذریعہ مختلف طریقوں سے تبدیل ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ذکر بالجہر ہو یا مراقبہ ہو یا ذکر بالسر ہو سب کے سب تجرباتی ہیں، حالات کے مطابق ہوتے ہیں، مختلف لوگوں کے لئے مختلف ہو سکتے ہیں۔ مختلف حالات میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مختلف جگہوں پہ مختلف ہو سکتے ہیں۔ ذکر بالجہر ہمارا اسی قسم کا ذکر ہے اس کے اندر ہم ثواب نہیں سمجھتے۔ ہم صرف اور صرف اس کو علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

سوال 11:

9 سال کی بچی کا سوال ہے کہ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اللہ ہم سے ناراض ہیں تو اللہ تعالیٰ معاف کر دیں گے۔ اس طرح تو گناہ کرنے والے گناہ کرتے رہیں گے۔

جواب:

9 سال کی بچی نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ انسان کے لئے اللہ پاک کی طرف لوٹنے کا راستہ کھلا ہوا ہے۔ توبہ کا معنی واپس لوٹنا ہے۔ مثَلاً کوئی گناہ مسلسل کرتا جا رہا ہے تو جب واپس لوٹنے کا راستہ ہو گا تو واپس لوٹ جائے گا۔ یعنی اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا اللہ تعالی توبہ قبول فرمانے والے ہیں ایسے ناراض نہیں ہیں کہ توبہ قبول ہی نہیں فرمائیں گے۔ موت تک توبہ قبول ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ گناہ کرنے کی چھوٹ دی جا رہی ہے بلکہ یہ واپس لوٹنے کے لئے راستہ نکالا جا رہا ہے۔ باری تعالٰٰی کا فرمان ہے: ﴿لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِؕ اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا﴾ (الزمر: 53)

ترجمہ: ”اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کر دیتا ہے“

یہ سارے معاملات اس لئے ہیں کہ انسان کے لئے واپس مڑنے کا راستہ موجود ہو کیونکہ انسان کو شیطان مایوس کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کی دلدل میں اتنا گھس جاتا ہے کہ واپس نہیں آ سکتا۔ اس گناہ کی دلدل سے بچانے کے لئے یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ تعالی ہم سے ناراض نہیں ہے بلکہ اگر تم توبہ کرو گے تو اللہ تعالی معاف کرے گا۔

چونکہ اذان ہو گئی ہے اور اذان کے ساتھ متعلقہ ایک مسئلہ ہے۔ مسند شریف کی روایت ہے کہ جو الفاظ مؤذن کہے ان الفاظ کے ساتھ اس کا جواب دے دیا جائے اور پھر جب اذان ختم ہو جائے تو ایک دفعہ درود شریف پڑھ لے اور اس کے بعد اذان کے بعد کی دعا پڑھی جائے۔ یہ بہت مفید عمل ہے۔ البتہ اگر کوئی دینی مجلس ہو تو اس میں گنجائش ہے کہ اس مجلس کو جاری رکھا جائے۔ یہ بات میں نے صرف سمجھانے کے لئے کہی ہے کیونکہ مولانا ابرار الحق صاحب ایک دفعہ حرم شریف سے باہر ایک مجلس میں کچھ وعظ فرما رہے تھے تو حرم شریف کی اذان شروع ہو گئی۔ حضرت نے اپنی بات جاری رکھی جب اذان مکمل ہو گئی تو اذان کا جواب دیا اور دعا بھی پڑھی پھر فرمایا: یہ میں نے قصداً کیا تاکہ لوگوں کو مسئلہ معلوم ہو جائے کہ اس کی گنجائش ہے ورنہ بہتر یہی ہے کہ انسان چپ ہو جائے اور اذان کا جواب دے۔ انفرادی اعمال میں چپ ہو جانا چاہیے۔ جیسے کوئی قرآن کی تلاوت کر رہا ہے یا ذکر کر رہا ہے تو ان اعمال کو موخر کر دے اور اذان کا جواب کو مقدم رکھے۔ لیکن اجتماعی عمل جس میں درس و تدریس وغیرہ ہو رہی ہو تو اس میں گنجائش ہے۔ البتہ ہماری ویسے ہی ادھر ادھر کی باتوں کو روکنا لازم ہے تاکہ ہم لوگ اذان کا ادب کریں کیونکہ یہ شعائر اللہ میں سے ہے۔ شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کے تقویٰ کی وجہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ تقویٰ نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ