اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
پیر کے دن ہماری خانقاہ میں سوالوں کے جوابات دیئے جاتے ہیں۔ اگر کسی کا کوئی سوال تصوف سے یا اپنی اصلاح سے متعلق ہو تو وہ کر سکتا ہے۔
سوال 1:
موت کو یاد رکھنا اصلاح کے لئے بہت ضروری ہے تو موت کو ہم کیسے یاد رکھیں؟
جواب:
موت کو یاد رکھنے کے لئے کئی اسباب اختیار کئے جا سکتے ہیں، مثلاً جنازے کے ساتھ چلنا، اس کے علاوہ قبرستان جانا، اگر روز موقع ملے تو اچھی بات ہے ورنہ کم از کم ہفتے میں ایک بار قبرستان جائے اور قبر والوں کی زندگی پر غور کرے کہ وہاں پر ان کی کیسی زندگی ہے؟ اور ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔
ابراہیم بن ادھم رحمۃ الله عليہ ایک دفعہ متفکر بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا: میں اللہ میاں اور لوگوں کے درمیان صلح کرا رہا ہوں۔ پوچھا: پھر کیا ہوا؟ فرمایا: اللہ مان رہے ہیں، لوگ نہیں مان رہے۔ کچھ دنوں کے بعد وہ قبرستان میں بیٹھے ہوئے نظر آئے۔ اسی آدمی نے ان سے پوچھا کہ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: میں اللہ میاں اور لوگوں کے درمیان صلح کرا رہا ہوں۔ پوچھا: پھر کیا نتیجہ نکلا؟ کہتے ہیں: لوگ مان رہے ہیں لیکن اللہ میاں نہیں مان رہے۔ معلوم ہوا دنیا میں موقع ہے، اگر یہاں کوئی اپنی اصلاح کر لے اور ایمان کے ساتھ اچھے اعمال کر لے تو اللہ پاک اس کو قبول فرماتے ہیں اور اللہ جل شانہ اس پر خوش ہوتے ہیں اور اس کو نوازتے ہیں اور یہ سب آخرت میں اس کے کام آئے گا۔ دوسری طرف جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اوپر ساری حقیقت کھل جاتی ہے لیکن پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ ایک دن میں ہم پانچ مرتبہ نماز پڑھتے ہیں، نماز کے بعد پانچ مرتبہ یہ پڑھنا چاہیے: "اَللّهُمَّ باَرِكْ لِيْ فىِ الْمَوْتِ وَفِيْمَا بَعْدَ الْمَوْتْ" یہ اگر پڑھ لے گا تو ان شاء اللہ العزیز موت سے غافلین میں شمار نہیں ہو گا۔ کوئی بھی رخ جس میں انسان کو موت یاد آسکتی ہے اس کو اختیار کرے اور اللہ جل شانہ سے توبہ و استغفار کر لیا کرے۔ ایک طریقہ اس کا یہ ہے کہ جب صبح اٹھے تو اچھی اچھی نیتیں کر لے کہ میں نے یہ فلاں فلاں کرنا ہے۔ اس نیت کا مفت میں ثواب مل جائے گا اگر عمل کرنے کی توفیق ہو گئی تو ما شاء اللہ دس گنا اجر ملے گا۔ نیکی کا اجر دس گنا ملتا ہے۔ اور اگر توفیق نہیں ہوئی، عمل نہیں کر سکے تو پھر کم از ایک گنا اجر تو کہیں نہیں گیا۔ پھر عشاء کی نماز کے بعد سونے سے پہلے دو رکعت صلوۃ توبہ پڑھ لیا کرے۔ اس طریقے سے گناہ معاف ہو جایا کریں گے۔
سوال 2:
کسی بزرگ کا قول ہے کہ دنیا کی تیاری ایسے کرو جیسے یہیں پر ہی رہنا ہے اور آخرت کی تیاری ایسے کر لو کہ جیسے ابھی جانا ہے۔
جواب:
ایک اسباب اختیار کرنا ہوتا ہے اور دوسرا انسان اللہ جل شانہ کے حکم کا اپنے آپ کو تابع سمجھتا ہے۔ چنانچہ انسان جب دنیا کے اسباب اختیار کرے تو اس میں پھر یہ نہ سوچے کہ پتا نہیں میں اس کو پورا کر سکوں گا یا نہیں؟ کیوں کہ موت کا کچھ پتا نہیں۔ یعنی اسباب کو اس طرح اختیار کرے کہ اس میں تمام چیزوں کا خیال رکھے جو اسباب کے دائرے کی ہیں۔ مثلًا کوئی student پڑھ رہا ہے تو اس طریقے سے پڑھے جس طرح پڑھنا چاہیے۔ کوئی کاروبار کر رہا ہے وہ بھی اس طرح کرے جس میں دھوکہ وغیرہ نہ ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں کچھ نہ کرے کیونکہ عین اس وقت جس وقت ہم کام کر رہے ہیں، ہماری جان جا سکتی ہے۔ اگر ہم شریعت کے مطابق کام کر رہے ہوں تو جس وقت بھی ہماری جان چلی جائے ہم خسارے میں نہیں ہوں گے۔ ہمیں ہر وقت موت کے لئے بھی اور دنیا کے کاموں کے لئے بھی چوکنا رہنا ہو گا۔
میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جبری اور قدری یہ دو لفظ ہیں۔ جبری اس کو کہتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہر چیز مقرر کی ہوئی ہے اور اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اور قدری یہ ہے کہ ہم جو کام کرتے ہیں اس پر اللہ پاک نوازتے ہیں۔ انبیاء کرام دین کے معاملے میں قدری ہوتے ہیں اور دنیا کے معاملے میں جبری ہوتے ہیں کہ جو اللہ نے دے دیا اس پہ صابر و قانع ہوتے ہیں۔ دین کے معاملے میں قدری ہوتے ہیں کہ ہم جو کچھ کریں گے اس کے مطابق اللہ دیں گے۔ لیکن عام لوگ دنیا کے معاملے میں قدری ہوتے ہیں اور آخرت کے معاملے میں جبری ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں جیسے اللہ نے مقرر کیا ہو گا اس طرح ہو جائے گا اور دنیا کے معاملے میں کہتے ہیں کہ جب تک ہم محنت نہیں کریں گے اس وقت تک ہمارا کام نہیں بن سکتا۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اللہ غفور و رحیم ہے چنانچہ گناہوں سے توبہ نہیں کرتے۔ ہم ان سے کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ تو رزاق بھی ہے، پھر گھر بیٹھ جاؤ کام کیوں کرتے ہو؟ اسی طریقے سے اللہ غفور و رحیم بھی ہے لیکن توبہ بھی کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ رزاق بھی ہے لیکن محنت بھی کرنی ہے، دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرو، اس طریقے سے کامیابی ہو گی۔
سوال 3:
دین دار لوگوں کے پاس بیٹھ کر کوفت کیوں ہوتی ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جن دین دار لوگوں کے پاس بیٹھ کر کوفت ہو ان کی مجلس میں نہ بیٹھا جائے؟ جیسا کہ ابھی آپ نے کہا کہ جن کی مجلس میں بیٹھ کر اللہ کی یاد آئے۔ تو جن کی مجلس میں بیٹھ کر اللہ یاد نہ آئے ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
اگر کسی شخص کو ہر ایک دین دار آدمی سے کوفت ہوتی ہے تو اس کے اندر گڑبڑ ہے۔ اس کا دل کالا ہے۔ اس کو جبراً اپنے اوپر تکلّف کر کے دین دار لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا چاہیے۔
ایک جگہ ہم گشت کر رہے تھے تو ایک صاحب کو جب ہم نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ نماز کے لئے آ جائیں تو اس نے فوراً کہا: My heart does not want to go mosque۔ بہر حال ہم نے کچھ نہیں کہا۔ ہمارے امیر صاحب پیچھے آ رہے تھے انہوں ہمیں کہا: آپ لوگ آگے چلیں ان صاحب سے میں بات کرتا ہوں۔ بہر حال ہم آگے چلے گئے۔ امیر صاحب نے پتا نہیں کون سے جادو چلایا اور اس کو اپنے ساتھ مسجد لے گئے۔ جب بیان ہو رہا تھا تو وہ میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، میں بڑا خوش ہوا کہ یہ الحمد للہ آ گیا ہے۔ وہ بھی بڑا خوش تھا۔ اس نے کہا: آج میرا دل بڑا خوش ہوا۔ میں نے سوچا اُس وقت کہہ رہا تھا My heart does not want to go mosque اب کہتا ہے کہ میرا دل بڑا خوش ہو گیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اس پہ شیطان سوار تھا جو اس کو دین داروں کے پاس نہیں آنے دے رہا تھا۔ جس وقت انسان شیطان کے نرغے میں تو "اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم" پڑھنی چاہیے اور نیک لوگوں کی صحبت میں زبردستی بیٹھنا چاہیے۔ جس وقت دل کھل جائے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہو گا لیکن اگر کسی کے ساتھ دل نہیں چاہتا اور کسی کے ساتھ دل چاہتا ہے تو جس کے ساتھ دل چاہتا ہے اور اس کا عقیدہ صحیح ہے اور اس کے پاس علم بھی ہے اور عمل بھی ہے۔ پھر ایسے لوگوں میں سے جس کے ساتھ دل زیادہ مناسبت رکھتا ہو ان کے ساتھ ہو جاؤ اور جن کے ساتھ مناسبت نہیں ہے ان کے ساتھ نہ ہو۔ لیکن یہ تین باتیں ہر حال میں ضروری ہیں کہ ان کا عقیدہ صحیح ہو، علم صحیح ہو، عمل بھی صحیح ہو۔
سوال 4:
کیا قبرستان میں خواتین کے لئے جانا جائز ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ پردہ کر کے چلی جائیں تو کوئی حرج نہیں، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
خواتین کو قبرستان نہیں جانا چاہیے کیوں کہ اگر قبرستان انسان فائدے کے لئے جانا چاہتا ہے تو جس چیز سے روکا گیا ہے ادھر کیوں جائیں؟ اگر اللہ تعالیٰ اپنے گھر پر وہ ساری چیزیں دیتے ہیں تو کافی ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ خواتین کی گھر والی نماز مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔ پھر خواہ مخواہ کیوں وہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالتی ہے؟ مقصد حکم ماننا ہے، ان شاء اللہ اپنے گھر بیٹھے اس کو سب کچھ مل جائے گا۔
ایک صاحب نے مدینہ منورہ میں خواب دیکھا اور ان کو آپ ﷺ کی زیارت ہوئی۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے ان سے پوچھا: کیا اپنی بیوی کو بھی لائے ہیں؟ یہ بڑا خوش ہو گیا اور پوچھا: حضرت ﷺ میں اس کو بلا لوں کیونکہ وہ اپنے گھر میں ہے۔ فرمایا: نہیں میں ان کے گھر پہنچ جاؤں گا۔ یعنی وہ فیض ان کو ان کے گھر بھی پہنچ جائے گا لہذا حکم پر عمل کر لیں تو زیادہ بہتر ہے۔
سوال 5:
میں نے سنا ہے کہ جب انسان ذکر کرتا ہے تو اس کے ساتھ فرشتے آتے ہیں اور جس دن وہ ناغہ کرتا ہے تو اس دن فرشتے نہیں آتے۔ پھر کسی دن جب ذکر شروع کرتا ہے تو نئے فرشتے آتے ہیں اور پہلے والے فرشتے دوبارہ نہیں آتے۔
جواب:
یہ بات اس حد تک ٹھیک ہے کہ ہم نے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ جس وقت انسان اپنے لئے کوئی ذکر مقرر کر لیتا ہے تو ذکر کے شائقین چونکہ فرشتے بھی ہوتے ہیں اور music کے شائقین شیاطین ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب ذکر ہوتا ہے تو فرشتے اس کے لئے جمع ہوتے ہیں اور جب کوئی music وغیرہ ہوتا ہے تو اس میں شیاطین جمع ہوتے ہیں۔ جب فرشتے آتے ہیں تو وہ ذکر کے ساتھ مانوس ہو جاتے ہیں کیوں کہ یہ ان کی خوراک ہے۔ پھر وہ آتے رہتے ہیں۔ اگر کسی دن وہ بندہ ناغہ کر لیتا ہے اور جب فرشتے آتے ہیں اور ان کو وہ چیز نہیں ملتی تو ان کو تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف کا اس ناغے والے کے اعمال پر اثر پڑتا ہے جس سے اس کے اعمال میں بے برکتی آتی ہے۔ ہم ذکر میں ناغہ نہیں ہونے دیتے اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے جس کی وجہ سے ناغہ کرنے والے کو بے برکتی محسوس ہوتی ہے اور وہ بہت زیادہ پیچھے چلا جاتا ہے۔ اگرچہ بعد میں ذکر شروع کر لے اور فرشتے دوبارہ آنا شروع ہو جاتے ہیں لیکن وہ بے برکتی رہتی ہے یعنی اس کی وجہ سے پیچھے تو گیا۔ جیسے ایک آدمی 200 کلو میٹر فاصلہ طے کر لے اور اچانک 100 کلو میٹر واپس آ جائے تو 100 کلو میٹر دوبارہ آ گے جانا پڑے گا۔ ایسی صورت میں ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ذکر اپنے وقت پہ کریں کیوں کہ اپنے وقت پر ذکر کرنے سے بہت زیادہ برکت ہوتی ہے۔
سوال 6:
ہندو جوگی قبر بنا کے ہفتہ ہفتہ، دس دس دن اس میں لیٹے رہتے ہیں۔ اس میں دفن ہو جاتے ہیں اور حبسِ دم کر لیتے ہیں پھر زندہ سلامت نکل بھی آتے ہیں، ان کو کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، یہ اس طرح کیا کرتے ہیں؟
جواب:
اللہ جل شانہ نے انسان کو بہت سی hidden صلاحیتیں دی ہوتی ہیں۔ جیسے Physical science میں بھی یہ چیزیں ہوتی ہیں اور gymnastics والے جس قسم کے کام کرتے ہیں وہ عام لوگ نہیں کر سکتے۔ ان کے پیر اور ہاتھ کیسے مڑ جاتے ہیں اور کس طرح اچھل کر پھر نیچے آتے ہیں اور ان کو کچھ نہیں ہوتا۔ اصل میں اللہ جل شانہ نے ہر انسان کے اندر بڑی صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں ان صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لئے کوئی ترتیب ہو اور اس چیز کو اس طریقے سے حاصل کیا جائے تو باقی لوگوں کے لئے وہ بڑی حیران کن باتیں ہوتی ہیں۔ اسی طریقے سے جوگیوں کی اپنی جوگ کی مشقیں ہوتی ہیں جن کے ذریعے اس چیز کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان مشقوں میں لذّات کو قطع کرنے کی باتیں ہوتی ہیں جس کو ہم نفس مارنا کہتے ہیں۔ ایک حدیث شریف سامنے رکھیں تو میرے خیال میں سارا ایکسرے out ہو جائے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اور بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دیا کہ جو کرتا ہے کرے اور بغیر توبہ کے اللہ سے مغفرت کی امید کرتا ہے۔ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لئے کام کیا اس میں جوگیوں سے فرق آ گیا کیوں کہ جوگی بھی نفس کے خلاف کرتے ہیں لیکن وہ آخرت کے لئے نہیں کرتے بلکہ اپنی دنیا کے لئے کرتے ہیں۔ اگر مسلمان وہ مشقیں کرے گا تو آخرت کے لئے کرے گا۔ لہٰذا اس پر ان کو آخرت کی ترقی ملتی ہے۔ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ" (البخاری، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ”تمام اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔“
لہٰذا جو صحیح نیت سے اور صحیح ترتیب کوئی کام کرتا ہے تو اس کو روحانی ترقی ملتی ہے۔ معلوم ہوا روحانیات کی دنیا میں بھی اس طرح ہوتا ہے اور جوگیوں کی ترتیب میں بھی ایسا ہوتا ہے، لیکن ایک تو ان کی نیتوں کا فرق ہوتا ہے اور دوسرا وہ اس حد تک مشقیں کرتے ہیں جس حد تک ہمارے مشائخ میں بھی بعض لوگ کر چکے ہیں۔ لیکن مشائخ اس لئے نہیں کرتے کہ وہ لوگوں سے کچھ داد وصول کریں بلکہ ان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو اس کے مطابق کرتے ہیں۔
سوال 7:
میرا بیٹا ایک سال کا ہے۔ As a mother اس کے سیکھنے کی عمر ہے۔ مجھے اسے اللہ کی پہچان کیسے کروانی چاہیے اور دین کی محبت، نبی کریم ﷺ کی محبت کی پہچان کیسے کروانی چاہیے؟
جواب:
یہ بڑا عمدہ سوال ہے۔ میں نے اس فن کے ماہرین سے سنا ہے کہ بچہ جتنا تین مہینے میں سیکھتا ہے پورے سال میں نہیں سیکھتا اور جو ایک سال میں سیکھتا ہے تین سال میں اتنا نہیں سیکھتا اور جو تین سال میں سیکھتا ہے وہ دس سال میں نہیں سیکھتا اور جو دس سال میں سیکھتا ہے وہ پھر پوری عمر نہیں سیکھتا۔ یعنی کچی عمر میں اس کی learning کی efficiency زیادہ ہوتی ہے۔ جیسے خالی پلیٹ میں جتنی چیزیں ڈالتے جاؤ وہ چیزیں جاتی جائیں گی۔ بعض دفعہ music وغیرہ بجتا ہے تو اس پہ ناچنے لگتے ہیں یہ بھی ان کی education ہے۔ اور ایسے بھی بالکل چھوٹے بچے ہیں یعنی پانچ، چھ مہینے کے بچے وہ ذکر کے ساتھ جھومنا شروع کر دیتے ہیں اور بغیر ذکر کے ان کو نیند نہیں آتی۔ جب ان کے سامنے ماں ذکر کرتی ہے تو بچہ سو جاتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔ ایسے بچے ہماری خانقاہ میں اپنی ماؤں کے ساتھ آتے ہیں، وہ ذکر کے ساتھ ایسے عادی ہیں کہ اگر ذکر نہ ہو تو تنگ ہوتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ ان کی تربیت شروع ہو گئی، ان کو اللہ کے نام کے ساتھ انس ہو گیا۔ جس عمر میں وہ ہوں اس عمر کی سطح کی education انسان دے سکتا ہے۔ اگر لوری دی جائے تو اس میں بھی ذکر ہو۔ جب اس کو سکھایا جائے تو اللہ کا نام سکھایا جائے۔ جب تھوڑا بڑا ہو جائے تو ان کو کہانیاں ایسی سنائی جائیں جن میں اللہ تعالیٰ کی محبّت اور دنیا سے کٹنا اور صحابہ کرام کے واقعات ہوں۔ آہستہ آہستہ ان کو اس line پر رکھا جائے۔
میری خود کوشش ہے کہ کچھ اس قسم کی چیزیں develop کر دوں، اگرچہ مصروفیت اس بات کی اجازت ابھی تک نہیں دے رہی لیکن بہر حال میری کوشش ہے کہ ایسی team تیار کر دوں جو بالکل چھوٹے بچوں کے لئے کوئی ترتیب بنا دے۔ کیوں کہ ہمارا ابھی تک جتنا بھی کام ہے وہ مرد و خواتین کے لئے ہے۔ کیوں کہ ہمیں علم ہے کہ مرد و خواتین پر این جی اوز بہت محنت کرتے ہیں، وہ ان کو خراب کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم ان پر اچھائی کی محنت کریں۔ اللہ کا شکر ہے اس میں کافی کامیابی ہو رہی ہے۔ اس سلسلے کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور اسی سلسلے میں یہ خانقاہ بھی یہاں بن گئی ہے۔ آپ اگر ان کا ساتھ دیں گے اور ساتھ چلیں گے تو آپ کو بھی فائدہ ہو گا اور اس میں جو لوگ بھی آئیں گے ان کو بھی کافی فائدہ ہو گا۔
سوال 8:
میں آپ سے بیعت ہوں اور میں نے چار دن تسبیح بھی کر لی ہے، مجھے معدے کی تکلیف ہے مسلسل بیٹھ نہیں سکتی۔ اب کیا کروں؟
جواب:
اگر کوئی عذر کی وجہ سے مسلسل نہیں بیٹھ سکتا تو کوئی بات نہیں۔ جیسے عذر میں نماز کی کیفیت بھی بدل جاتی ہے تو ذکر کی کیفیت بھی بدل سکتی ہے۔ ذکر نماز سے اونچا نہیں ہے۔ بہر حال ہم اُس کے مکلف ہیں جو ہم کر سکتے ہیں۔ آپ ٹیک لگا کر ذکر کر سکتی ہوں تو ٹھیک ہے حتیٰ کہ لیٹے لیٹے بھی اگر ذکر کر سکتی ہیں تو اس کا طریقہ بھی بتایا جا سکتا ہے اور اگر بیٹھنے اور لیٹنے میں تکلیف ہے تو چلتے پھرتے کرنا چاہیے۔
ایک نوجوان فوجی تھے جن کو ریہرسل کے دوران صرف تین گھنٹے نیند کے لئے ملتے تھے باقی وقت exercise ہوتی تھی۔ ان کو میں نے پریڈ کے دوران ذکر کا طریقہ سکھایا تھا۔ یعنی ہر چیز کا طریقہ موجود ہے۔ بہر حال انسان سستی کی وجہ سے ایسا نہ کرے، بضرورت کر لے تو کوئی حرج نہیں۔
سوال 9:
کیا غیر محرم کو نماز کی اور پردے وغیرہ کی دعوت دے سکتے ہیں؟
جواب:
غیر محرم کو ان کے محرم کے ذریعے سے دعوت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح اپنی عورتوں کے ذریعے ان کو دعوت دلوائی جا سکتی ہے۔ خواہ مخواہ شریعت کے اصول کو توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ شریعت اپنی جگہ پر حق ہے، لیکن اس کے لئے انسان کو خاموش بھی نہیں رہنا چاہیے کہ چونکہ غیر محرم ہے تو میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا، یہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ان کے لئے راستے ڈھونڈنے چاہئیں کہ کس طریقے سے ان کے ساتھ بات ہو؟ کس طریقے سے ان کو ترتیب سے پڑھایا جائے۔ جیسے ابھی خواتین پردے میں بیٹھی ہوئی بیان سن رہی ہیں۔ اور ہم یہاں سن رہے ہیں۔ ہر ایک کا اپنا اپنا کام ہو رہا ہے اور شریعت نے اس کی اجازت دی ہے کہ استادی شاگردی کے لئے آواز سننے کی اجازت ہے اور اصلاح کے لئے بھی اجازت ہے۔ ان گنجائشوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
(ایک خاتون کو حضرت نے بیعت کیا) میں شہادت دیتا ہوں نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، میں توبہ کرتا ہوں ہر گناہ سے چھوٹا ہے یا بڑا، مجھے معلوم ہے یا نہیں، مجھ سے قصداً ہوا یا خطا سے، ظاہر کا ہے یا باطن کا، اے اللہ! میری توبہ قبول فرما، آئندہ کے لئے ان شاء اللہ میں گناہ نہیں کروں گا، اگر پھر بھی ہو گیا فوراً توبہ کروں گا۔ میں بیعت کرتا ہوں آپ ﷺ سے آپ ﷺ کے خلفاء کے واسطہ سے اور دامن پکڑتا ہوں حضرت صوفی محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا، حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا، حضرت ڈاکٹر فداء صاحب کا، شبیر احمد کے واسطہ سے اور اپنے آپ کو داخل کرتا ہوں سلسلہ چشتیہ میں، نقشبندیہ میں، قادریہ میں، اور سہروردیہ میں، اے اللہ میری بیعت کو قبول فرما۔ آمین۔
اب جیسا کہ میں نے اعلان کیا تھا کہ 300 دفعہ ’’سُبْحٰنَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَ اللہُ اَکْبَرْ‘‘۔ اور 200 دفعہ ’’لَآ حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم‘‘۔ یہ 40 دن تک کوئی وقت مقرر کر کے با قاعدہ اس کو روزانہ بلا ناغہ یہ کرتی رہیں، یہ ہر حالت میں کیا جا سکتا ہے۔ اس کو پورا کر کے پھر عشاء کی نماز کے بعد ہمیں بتا دیا جائے، ان شاء اللہ اگلا سبق دے دیا جائے گا۔ اور ہر نماز کے بعد 33 دفعہ سُبْحٰنَ اللہِ، 33 دفعہ الْحَمْدُ لِلہِ 34 دفعہ اَللہُ اَکْبَرْ تو سب لوگ کرتے ہیں، آپ ساتھ 3 دفعہ کلمہ طیبہ، 3 دفعہ درود ابراہیمی، 3 دفعہ استغفار اور 1 مرتبہ آیۃ الکرسی بھی ساتھ شروع فر ما لیں، یہ تو عمر بھر رہے گا۔ لیکن پہلے والا جو 300 اور 200 والا وظیفہ ہے وہ 40 دن کے بعد ختم ہو جائے گا، پھر مزید دیا جائے گا۔ معمولات کے پرچے کا طریقہ ان شاء اللہ آپ کو بتا دیا جائے گا، اس کو بھر کر بتائے گئے طریقے سے پہنچا دیا کریں، اور اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں۔
سوال 10:
کیا اللہ پاک اس وقت تک انسان کو نہیں مل سکتے جب تک انسان اپنی خودی کو ختم نہ کرے؟
جواب:
”فنائے نفسی“ یعنی جب تک انسان اپنے نفس کو مٹا نہ دے تب تک اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہوتی کیوں کہ ہر چیز میں ہمارا نفس مقابلہ کرتا ہے۔ اللہ پاک کہتا ہے کہ میرا حکم مانو اور نفس کہتا ہے کہ یہ کام کرو وہ کام کرو وہ نہ کرو۔ جب تک انسان کا نفس ماننے کے لئے تیار نہیں ہو جاتا یعنی اس کو ہم اللہ تعالیٰ کے حکم میں فنا نہیں کرتے اس وقت تک وہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ اس کو ہم ”وحدت الشہود“ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی چیز کو دیکھتا ہی نہیں، اس کو کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔ لہذا پھر وہ اللہ تعالیٰ ہی کی بات مانتا ہے۔
ایک بزرگ بیٹھے ہوئے بار بار یہ کہہ رہے تھے کہ نہ تو میرا خدا نہ میں تیرا بندہ پھر تیری بات میں کیوں مانوں؟ لوگ ان کو جوتے مار رہے تھے، گالیاں دے رہے تھے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟ بہر حال ایک شاہ صاحب آئے اور ان سے پوچھا کہ حضرت آپ یہ کس کو کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے آنکھیں کھولیں کہ ایک عقلمند سے ملاقات ہو گئی، پھر فرمایا: میں اپنے نفس سے کہہ رہا ہوں۔ انہوں نے کہا: حضرت! بات تو آپ صحیح کر رہے ہیں لیکن جگہ آپ نے غلط منتخب کی ہے۔ آپ اپنے گھر میں بیٹھ کر نفس سے خطاب کر لیا کریں۔ وہ اٹھے اور کہا کہ عقلمند کی بات ماننی چاہیے۔ چادر اپنے کندھے پر ڈالی اور وہاں سے گھر روانہ ہو گئے۔ معلوم ہوا جب تک انسان اپنے نفس کو اللہ کے سامنے فنا نہ کر دے اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا بندہ صحیح معنوں میں نہیں بن سکتا، اس کو معرفت الہی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسی کے لئے یہ ساری محنتیں ہوتی ہیں۔ ”خودی“ کا معنی عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس میں انسان اپنی رفعتوں کو دیکھتا ہے تو یہ لفظ اللہ پاک سے دوری کی طرف لے جا رہا ہے۔ علامہ اقبال کی ”خودی“ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کے سامنے مٹائے اس کے بعد اللہ اس کو بقا نصیب فرماتے ہیں۔ کیوں کہ فنا فی اللہ کے ساتھ بقا باللہ بھی ہوتی ہے۔ اللہ کے سامنے وہ باقی ہو جاتا ہے۔ جو بقا اس کے بعد حاصل ہوتی ہے اس کے ذریعے اس کو اپنے آپ کی پہچان حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ خودی ہے۔ لیکن یہ تشریحات لوگوں کو معلوم نہیں ہوتیں نتیجتاً وہ حیران ہوتے ہیں کہ علامہ اقبال تو کہتا ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
لوگ کہتے ہیں کمال ہے ہم خودی بھی بڑھائیں اور اللہ بھی راضی ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اس میں اپنے آپ کو پہلے فنا کرنا ہوتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو ایک نئی چیز عطا فرماتا ہے جس کو بقا باللہ کہتے ہیں۔ اس کی معرفت وہ ”خودی“ ہے۔ گویا کہ اللہ تعالیٰ کا بندہ بن کر جس وقت انسان کو معرفت ہوتی ہے، جیسے جب صحابہ کرام ایک جنگل میں پہنچ گئے تھے تو ان کے امیر صاحب کھڑے ہو گئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اے جنگل کے جانورو! حضور ﷺ کے غلام آئے ہیں، اگر تم لوگ چاہتے ہو کہ اچھی حالت میں رہو تو بمع اپنے بچوں کے نکل جاؤ اور ہمارے لئے جگہ خالی کر دو۔ لوگوں نے دیکھا کہ بلّیوں نے اپنے بچے، شیر نے اپنے بچے، سب نے اپنے بچے اٹھائے اور جنگل کو خالی کر دیا۔ یہ ہے وہ خودی لیکن انہوں نے اپنے آپ کو اللہ کے سامنے مٹا کے رکھ دیا تھا جس کے بعد اللہ پاک نے یہ چیز ان کو عطا فرمائی تھی۔ بہر حال اگر اس طریقے سے عطا ہو جائے تو پھر ٹھیک ہے۔ اس لئے علامہ اقبال نے فرمایا تھا:
خودی کا سرِ نہاں لا الہٰ الا اللہ
خودی ہے تیغِ فساں لا الہٰ الا اللہ
نَعُوذُ بِاللہِ مِن ذٰلِک ایسا نہ ہو کہ ہم اپنی مرضی بھی کریں پھر کہیں ہم سب سے وڈے تگڑے نہیں ہیں۔ یہ انانیت ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دوری ہوتی ہے، ہمیں ان چیزوں کو سیکھنا چاہیے۔
سوال 11:
صبر کی تعریف اور اس کی قسمیں بتا دیں اور ایمان کیا ہے؟
جواب:
صبر نفس کی مزاحمت کا نام ہے۔ یعنی نفس کہتا ہے کہ کھڑے ہو جاؤ اور اللہ کا حکم ہے کہ بیٹھے رہو تو یہ صبر ہے۔ مثلاً نماز کے اندر اللہ کا حکم یہ ہے کہ قنوت کی حالت میں ہو، اپنی حرکت کو control کرو، دائیں بائیں نہ دیکھو، خارش وغیرہ سے اپنے آپ کو بچاؤ، یہ سب صبر میں آئے گا۔ روزے میں انسان کی کھانے کی خواہش ہوتی ہے، اس وقت بڑی بھینی بھینی خوشبو آ رہی ہے، ٹھنڈا شربت سامنے پڑا ہوا ہے، اس وقت صبر یہ ہے کہ اس سے اپنے آپ کو روک دیا جائے۔ حج میں مصائب اور تکالیف آتی ہیں، پریشانیاں آتی ہیں۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے مقابلے میں اپنے نفس کو اللہ پاک کی بغاوت سے بچانا صبر کہلاتا ہے۔ یہ جامع تعریف ہے۔ باقی تکلیفوں کو برداشت کرنا یہ اس کا جز ہے۔ جیسے جب مصیبت آتی ہے تو عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ صبر کرو۔ لیکن وہ اس کا ایک جز ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہر وہ نفس کی حرکت جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہو رہی ہے اس کو روکنا، اس سے اپنے آپ کو بچانا صبر میں آتا ہے۔
ایمان کی تعریف آپ صلى الله عليه وسلم نے کی ہے جو حدیثِ احسان کے اندر موجود ہے۔ بہر حال آپ صلى الله عليه وسلم نے ایمان کے شعبے بتا دیئے کہ اللہ پر ایمان، فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، یوم آخرت پر ایمان، ان سب پر اسی طرح ایمان لانا جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ہے، جس طرح صحابہ کرام ایمان لائے ہیں۔ بہر حال ایمان کی تعریف یہ بھی کر سکتے ہیں کہ جس وقت انسان ایمان لے آتا ہے تو اسلام میں داخل ہو جاتا ہے، اس کے بعد اسلام کے احکامات اس کے اوپر نافذ ہو جاتے ہیں۔ اسلام کے احکامات ”ارکانِ اسلام“ ہیں وہ بھی مَا الْاِسْلَام میں آتا ہے۔ اس کا جواب بھی آپ صلى الله عليه وسلم نے دے دیا ہے کہ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا، زکوۃ اور حج۔ لیکن صرف نماز کے اندر اعمال کو سرسری طور پر ادا کرنا بھی اسلام ہے لیکن کمزور اسلام ہے۔ جس وقت ہم ان اعمال کے اندر جان ڈالیں مثلاً نماز کے اندر جان ڈالیں، روزے کے اندر جان ڈالیں، زکوۃ کے اندر جان ڈالیں، حج کے اندر جان ڈالیں سب معاملات کی صفائی کے اندر جان ڈالیں، معاشرت کے اندر جان ڈالیں تو یہ احسان ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: "اَنْ تَعْبُدَ اللہَ کَاَنَّكَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاكَ" (البخاری، حدیث نمبر: 50)
ترجمہ: ”تو ایسے بات کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے ورنہ یہ تو ہے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔“
حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے دو لفظوں میں فرمایا ہے:
قال را بگزار مرد حال شو
پیش مرد کامل پامال شو
قال کو موخر کر دو اور مرد حال بن جاؤ۔ اعمال کے اندر جان پیدا کرو اور اور شیخ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔ بہر حال انسان کو حدیث احسان کے مطابق اپنی تین چیزوں پہ عمل کرنا چاہیے۔ مَا الْاِیْمَان کا جواب عقائد کا section ہے۔ مَا الْاِسْلَام یہ فقہ کا section ہے۔ مَا الْاِحْسَان یہ تصوف کا section ہے۔ ہماری ویب سائٹ پر یہ تینوں section اردو میں بھی موجود ہیں اور انگریزی میں بھی موجود ہیں۔ ان شاء اللہ عربی میں بھی اب کوشش کی جا رہی ہے دعا فرمائیں کہ اللہ پاک قبول فرمائے (آمین)۔
سوال 12:
اللہ کی نشانیوں میں سے 40 سجدے ہیں۔ شیطان نے ایک سجدہ نہیں کیا تو گمراہ ہو گیا۔ لیکن یہ چالیس سجدے تو نہیں ہوئے۔ پورے دن کی فرض نمازیں اور وتر ملا کر 40 سجدے ہوتے ہیں۔ اور نبی اکرم ﷺ کو نبوت بھی 40 سال کی عمر میں ملی تھی۔ چالیس سجدے اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اس امت کے لوگوں کی بھی چالیس سال عمر ہے، اس کے بعد عمر کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
جواب:
چلّہ کا لفظ در اصل صوفیاء کرام نے اسی سے لیا ہے۔ قرآن پاک میں موسیٰ عليه السلام کے بارے میں فرمایا گیا تھا کہ ان کو ایک مہینے کے لئے بلایا گیا، پھر فرمایا کہ دس دن اور بھی ہیں۔ چالیس دن پورے کر لو۔ اس سے صوفیاء کرام نے چلّہ مراد لیا ہے۔ چالیس دن کے اندر جسمانیات میں بھی اور روحانیات میں بھی ایک بڑی تبدیلی آتی ہے۔ جسمانیات میں جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے اندر جو تبدیلی آتی ہے وہ بھی چالیس دن میں آتی ہے۔ اور روحانیات میں بھی چالیس دن انسان مسلسل ایک کام کرے تو وہ ایک اچھی عادت میں بدل جاتا ہے۔ مثلاً کوئی چالیس دن مسلسل نماز پڑھے درمیان میں کوئی نماز قضا نہ کرے تو وہ پکا نمازی بن جاتا ہے۔ اسی طریقے سے چالیس دن انسان مسلسل شریعت کے اوپر چلنے لگے تو اس کی زبان پہ اللہ پاک حکمت کو جاری فرما دیتے ہیں۔ معلوم ہوا انسان کی روحانی اور جسمانی تبدیلی میں چلے کا بہت بڑا رول ہے۔
سوال 13:
حضرت! اگر بندہ اپنے والدین کے ایصالِ ثواب کے لئے 70 ہزار مرتبہ کلمہ پڑھنا چاہے اکیلا پڑھے یا دو یا تین بندے ملا کے پورا کر لیں؟
جواب:
میں نے جو بزرگوں سے سنا ہے وہ بتا دیتا ہوں کہ اس قسم کی چیز میں ہم اپنی طرف سے نہیں کر سکتے۔ بزرگوں کا کشف یا ان کا طریقہ ان کے ساتھ مخصوص ہوتا ہے۔ اللہ پاک نے ان کی طرف الہام کیا ہوتا ہے۔ ہم اسی طرح رکھتے ہیں جس طرح انہوں نے بتایا ہوتا ہے۔ اور جس طرح حدیث شریف میں بھی بتایا گیا ہے۔ اس کے بارے میں فضائل اعمال میں ہے کہ 70 ہزار مرتبہ اگر کوئی "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ" پڑھ لے تو یہ ایک نصاب کہلاتا ہے اور جہنّم کی آگ اس کے اوپر حرام ہو جاتی ہے۔ اس کو ایصال ثواب کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ اس میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بزرگ تھے ان کو معلوم ہوا کہ ایک لڑکا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ صاحب کشف ہے۔ وہ بزرگ کسی دعوت میں اس کے ساتھ کھانے میں شامل ہو گئے۔ اس لڑکے نے آنکھیں بند کیں اور رونا شروع کر دیا کہ میری ماں آگ میں جل رہی ہے، میں کھانا کیسے کھاؤں؟ بزرگ نے اپنے دل میں اللہ پاک سے عرض کی کہ اے اللہ! میں نے جو نصاب جمع کئے ہیں ان میں سے ایک نصاب میں اس کی ماں کو بخشتا ہوں۔ اسی وقت اس لڑکے نے آنکھیں کھول دیں اور کہا: الحمد للہ میری ماں سے عذاب ہٹا دیا گیا ہے۔ بزرگ نے فرمایا: مجھے اس سے دو باتیں معلوم ہو گئیں۔ ایک تو وظیفے کے صحیح ہونے کا پتا چل گیا اور دوسرا اس لڑکے کے صحیح صاحب کشف ہونے کا پتا چل گیا۔ اس کے بعد میں نے گھر آ کر گھر والوں کو یہ وظیفہ بتایا تو انہوں نے بھی شروع کر دیا۔
ہمارے گھر کا بھی یہ معمول بن گیا کہ جو بھی کوئی فوت ہوتا اس کے لئے وظیفہ کرتے۔ میری والدہ اکثر یہ کرتی ہیں۔ ہمارے گھرانے کے ایک شخص فوت ہو گئے، دور کے رشتے دار تھے۔ ان کے اعمال کچھ اچھے نہیں تھے۔ کسی نے خواب میں دیکھا کہ ان کی حالت اچھی نہیں ہے۔ مجھے جب بتایا گیا تو میں نے کہا کہ اگر کوئی ان کے لئے یہ وظیفہ کر لے تو بہت اچھا ہے۔ میں تو university چلا گیا۔ جب اگلی دفعہ آیا تو ہمارے گھر کی ایک معمر خاتون نے ایک خواب دیکھا تھا کہ ما شاء اللہ ان کی قبر کے اندر پھول ڈالے جا رہے ہیں اور پھول جب زیادہ ہو جاتے ہیں اور قبر بھر جاتی ہے تو کہتے ہیں: اب قبر کے اوپر ڈالو۔ میری والدہ نے چپکے سے کہا کہ میں نے کل ہی ان کے لئے ایصال ثواب کیا تھا۔ معلوم ہوا ابھی تک یہ چیز چل رہی ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک گمان رکھنا چاہیے اور وہاں ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے، اللہ پاک سے امید پر ہی سب کچھ چلتا ہے۔ لہذا اگر اچھی امید کے ساتھ اس کو کیا جائے تو میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ ان کے ساتھ بھی ایسا معاملہ ہو گا۔ البتہ ہم نے اکیلے بندے کا سنا ہے دو دو بندوں کا نہیں سنا۔ چلتے پھرتے بھی کر سکتا ہے اور ایک دن میں ضروری نہیں، چاہے کئی دنوں میں ہو جائے۔ اپنے لئے بھی بیشک کر لیں اور دوسروں کے لئے بھی کر لیں۔ اپنے لئے تو پہلے کر لیں اس کے بعد جن جن کے لئے کرنا چاہیں تو کر لیں۔
سوال 14:
حضرت! اس ذکر کے لئے وضو بھی شرط ہے؟
جواب:
ذکر میں وضو شرط نہیں ہے لیکن مفید ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ذکر کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔
سوال 15:
فجر کے بعد جب ٹائم ملتا ہے تو میں لیٹ کے یہ ذکر کرتا ہوں۔ کیا لیٹ کر کرنا ٹھیک ہے؟
جواب:
آپ معذور ہیں آپ کے لئے بالکل ٹھیک ہے، معذوروں کے لئے تو بہت زیادہ رعایت ہے۔
سوال 16:
کتنے دن تک شروع کر لیا جائے؟ اور دل میں پڑتے رہیں؟
جواب:
70 ہزار ایصال ثواب کی نیت کر لیں پھر جب بھی وہ پورا ہو جائے۔ بہر حال زبانی پڑھنے کے بارے میں میں نے سنا ہے لیکن آپ دل میں پڑھ لیں۔ لیکن ہم نے لسانی ذکر کا سنا ہے۔
سوال 17:
حضرت! درود شریف کتنی دفعہ پڑھنا چاہیے اور "لَآ إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحٰـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظّلِمِينَ" یہ کتنی بار پڑھنا چاہیے اور تیسرا کلمہ کتنی بار پڑھنا چاہیے؟
جواب:
درود شریف جتنا زیادہ پڑھ لیا جائے اتنا ہی فائدہ ہے۔ البتہ 300 سو مرتبہ اگر روزانہ پڑھ لیا تو وہ زیادہ پڑھنے والوں میں شامل ہو جاتا ہے۔ "لَآ إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحٰـنَكَ إِنِّى كُنتُ مِنَ الظّلِمِينَ" استغفار کے حکم میں ہے، اس کو پڑھنا چاہیے اس سے کافی گناہ ختم ہوتے ہیں۔ تیسرا کلمہ بھی پڑھنا چاہیے۔ ہم اس طرح بتاتے ہیں کہ 100 دفعہ تیسرا کلمہ، 100 دفعہ درود شریف، 100 دفعہ استغفار صبح شام پڑھ لیا کریں اور اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔
سوال 18:
اگر کوئی ضعیف ہو اور بیماری کی وجہ سے چارپائی پہ ہو اور وضو نہ کر سکتا ہو تو پڑھنے کے لئے کوئی وظیفہ بتا دیں۔
جواب:
وضو کی جگہ تیمم کر لیا کریں۔ اور ذکر کے لئے وضو کرنا کم از کم معذور کے لئے ضروری نہیں ہے۔ ذکر بغیر وضو کے بھی کر سکتے ہیں۔
سوال 19:
السلام علیکم حضرت, What is the concept of saving in Islam? What percent of her salary should a woman save? How much is good for spending?
جواب:
سوال انتظامات کے متعلق ہے۔ اسلام نے جو اصول اس کے بارے میں بتائیں ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم اعتدال کے ساتھ چلیں، اعتدال بنیاد ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ اپنے ہاتھ کو اتنا تنگ بھی نہ کرو کہ تم اپنی ضروریات بھی پوری نہ کر سکو اور اتنا کھولو بھی نہیں کہ پھر تم لوگوں سے مانگتے پھرو۔ انسان کی جتنی کمائی ہو اس میں کچھ حصہ انسان اپنی ذات کے اوپر خرچ کر لے، کچھ حصہ خیرات کے لئے رکھ لے اور کچھ حصہ زکوۃ ادا کر دے، کیونکہ زکوۃ ایک compulsory خرچ کرنا ہے اس کو ہم نہیں روک سکتے۔ البتہ خیرات وغیرہ optional ہے۔ کچھ حصہ خیرات کے لئے رکھ لیں، کچھ رشتہ داروں کے اوپر خرچ کرنے کے لئے رکھ لیں اور کچھ saving ہو جو بعد میں کسی وقت کام آئے۔ saving کس صورت میں ہونی چاہیے؟ یہ بہت لمبی بات ہے اس پہ اتنے مختصر وقت میں بات نہیں ہو سکتی۔ لیکن saving ایسی ہو جس میں سود نہ آئے۔ سود سے بچا جائے کیوں کہ سود کے بارے میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿یَمْحَقُ اللهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ (سورۃ البقرۃ: 276)
ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔“
معلوم ہوا سود سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے اس کے علاوہ جس طریقے سے saving ہو وہ علماء سے پوچھ پوچھ کر کر لیا کریں۔ کیوں کہ فقہ کی باتیں specific اور وقتی ہوتی ہیں جس وقت جو مسئلہ آ جائے اسی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ یہ علماء کرام کے ساتھ رابطہ رکھنے سے ہی پتا چل سکتا ہے۔ یہ اصولی بات اعتدال کے مطابق میں نے بتا دی۔
سوال 20:
توکل کے اس concept پر ذرا روشنی ڈالیں کہ لوگ argument کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہو اس کو خرچ کر ڈالنا چاہیے، تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
توکل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک توکُل واجب ہے اور دوسرا توکُل مستحب ہے۔ توکل واجب کو واجب سمجھنا چاہیے کہ واجب اگر کوئی پورا نہ کرے تو گناہگار ہے اور مستحب اگر کوئی نہ کرے تو اس کو ملامت بھی نہیں کی جا سکتی کیوں کہ مستحب کے تارک کو ملامت کرنے والا خود اس ملامت کے قابل ہو جاتا ہے۔ توکل واجب یہ ہے کہ شریعت کے حکم میں مزاحمت نہ کرے۔ مثَلاً زکوۃ سے انکار نہ کرے اور اگر حج میں دم آ گیا ہے تو اس سے انکار نہ کرے، جو واجب خرچ ہے اس سے انکار نہ کرے۔ مستحب یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر دوسرے کو ترجیح دے اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرے تو یہ یقیناً بہت بڑی فضیلت ہے۔ مستحب کا معنی ہے اللہ کی پسندیدہ۔ تو اللہ کی پسندیدہ کو کم نہیں سمجھنا چاہیے لیکن ہم اس کو سب پر لازم بھی نہیں کر سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو لازم نہیں کیا۔
سوال 21:
کچھ لوگ سب کچھ آسائشوں پر خرچ کر دیتے ہیں کہ اللہ اور دے دے گا save کر کے کیا کرنا ہے۔
جواب:
آسائشوں پر اس صورت میں خرچ کرے کہ اس کے پاس سوال سے بچنے اور اشرافِ نفس سے بچنے کے لئے کافی چیزیں موجود ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں سوال کرتا پھرے۔
سوال 22:
حضرت جی! اگر نماز کے اندر سجدے میں دونوں پیر پیچھے سے اٹھ جائیں تو کیا اس سے نماز ہو جاتی ہے؟
جواب:
اگر ایک دفعہ بھی زمین پہ ایک پیر لگ جائے تو ٹھیک ہے، لیکن بہتر نہیں رہے گا۔ اس وجہ سے پیر زمین پر ہی رہنے چاہئیں۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ کس حد تک گنجائش ہے، فوراً نماز ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جائے گا۔ البتہ یہ کام غلط ہے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ نماز کی حالت میں پیر کو صحیح رکھنا چاہیے۔
ہماری ایک کتاب ہے ”فکر آگہی“ ابھی چھپی نہیں ہے۔ اس میں سوال و جواب کی صورت میں شکوہ جواب شکوہ کی صورت میں ایک بہت عمدہ کلام ہے جس میں شاگرد پیروں کے بارے میں شکوہ کر رہا ہے۔
کلام
میرے استاد بتا پیری مریدی کیا ہے؟
سنتے رہتے ہیں اسے، دل کی صفائی کیا ہے؟
لوگ پیروں کا یہاں خیال بہت رکھتے ہیں
جو ہر اک کام میں کمال بہت رکھتے ہیں
کرتے اعمال نہیں حال بہت رکھتے ہیں
یہ مریدوں سے خبر دار بہت ہوتے ہیں
ان سے ملنے کے بھی اسرار بہت ہوتے ہیں
ان کی خدمت سے ہر اک کام صحیح ہوتا ہے
پاس ان کے جو نہ آئے تو وہی روتا ہے
جاگتا رہتا ہے یہ پیر کہاں سوتا ہے
ان کے تعویذ سے ہر کام نکل آتا ہے
یہ نہ چاہیں تو پھر آرام کہاں آتا ہے؟
اصل میں پیروں کے بارے میں لوگوں کے اس قسم کے جذبات ہوتے ہیں۔
یہ شریعت پہ جو چلنا ہے وہ ہے ٹھیک مگر
ہوتا جب ذکر الٰہی سے ہے دل پر جب اثر
تو کچھ اسرار وہ پاتے ہیں پھر اپنے دل پر
مل گیا اصل تو پھر نقل سے کیا بات بنے
پھر شریعت کے تقاضوں پہ کوئی کیسے چلے؟
یہ جو ہیں پیر تو اسرار ان کا سمجھے کون؟
ہیں یہ واصل، قلب بیدار ان کا سمجھے کون؟
حب حق میں قلب سرشار ان کا سمجھے کون؟
دن کو جب رات کہیں رات سمجھنا ہے ٹھیک
الغرض ان کی ہر اک بات سمجھنا ہے ٹھیک
یہ جو چپ ہوں تو یہ چپ شاہ بنے رہتے ہیں
اور بولتے یہ معارف ہیں جو بھی کہتے ہیں
سب مریدوں کی یہ تکلیف ساری سہتے ہیں
تک نہ کوئی ہو بولنے میں تو رموز اسرار
اور کسی کے یہ مخاطب ہوں تو بنے سرکار
ان کے انداز ہر اک چیز میں نرالے ہیں
ہر غلط کام میں جب ہاتھ ان کے کالے ہیں
اس پہ سب ٹھیک سمجھتے ہیں جو متوالے ہیں
کیسے یہ ٹھیک میں سمجھوں سمجھ آتا ہی نہیں
کہ شریعت سے کوئی میل یہ کھاتا ہی نہیں
یہ نہ قرآن پہ چلتے ہیں اور نہ سنت پہ
اثر انداز یہ ہوتے ہیں سب کی قسمت پہ
مجھ کو پھر شک نہ کیونکر ہو ان کی صحت پہ
ان کی خانقاہیں مراکز ہیں کاروبار کی بس
گمرہی میں ہیں اپنے شتر بے مہار کی بس
بس شریعت پہ جو چلنا وہی ٹھیک ہے جب
چھوڑ میں دوں یہ خرافات اور یہ صوفی سب
مل سکے مجھ کو پھر نجات جعل سازی سے تب
اب سمجھ آئی مرے دل میں بس یہی اک بات
جو کہ قرآن ہے سنت ہے وہ طریق نجات
شاگرد نے پیروں کے خلاف استغاثہ پیش کر دیا۔ اب استاذ اس کو جواب دیتا ہے:
بیٹا ہاں ٹھیک ہے یہ سب مگر انصاف تو ہو
رہتی جو بھی غلط فہمی ہے پہلے صاف تو ہو
ایسے پیروں کی پیروی یہ ضلالت تو ہے
کہ شریعت کی مخالف ان کی حالت تو ہے
پیچھے پھر ان کے کوئی جائے حماقت تو ہے
لیکن جو ایسے نہ ہوں ان سے مفر کیسا ہے؟
جو ضروری ہے تو پھر ان سے صبر کیسا ہے؟
کیا علم رکھنا شریعت کا ہی بس کافی ہے؟
کیا تکبر کا علم اس کے لئے شافی ہے؟
کیا برائی کے جاننے پہ ہی معافی ہے؟
کتنے جانتے ہیں مگر ساتھ وہ بد کار بھی ہیں
اور اسباب علاجی سے وہ بیزار بھی ہیں
دنیا اسباب کا گھر ہے یہ جانتے ہیں ہم
ہوتے اسباب مؤثر ہیں مانتے ہیں ہم
خود کو کیوں اس سے مبرا گردانتے ہیں ہم
جو کہ دنیا کے ہیں اسباب ہم برتتے ہیں
کیسے اسباب اصلاحی کو پرے رکھتے ہیں
یہ ہے معلوم ہے دشمن بڑا شیطان اپنا
نفس امارہ کے ہاتھوں میں ہے گریبان اپنا
ان سے بچنے پہ زور دیتا ہے قرآن اپنا
خود بخود نفس امارہ ہمیں آزاد کرے
سادگی یہ تری کوئی بھی کیا یاد کرے
ہمیں قرآن میں زکھّٰا نظر آتا ہے
کیسے فاعل کی ضرورت ہمیں دکھاتا ہے
راستہ دسّٰھا تباہی کا ہی دکھاتا ہے
رزق اللہ پہ ہے ہم پھر بھی مشقت میں ہیں
فرض اصلاح کی چھوڑنے کی مصیبت میں ہیں
یعنی رزق کے بارے میں تو ہم کہتے ہیں مشقت کرنی چاہیے لیکن اپنی اصلاح کے لئے اسباب ختیار نہیں کرتے۔
اپنی اصلاح کے لئے کوئی ہمارا تو ہو
جس پہ ہم ٹک سکیں کوئی بھی سہارا تو ہو
کاٹنے شر کی جڑوں کو کوئی آرا تو ہو
اپنی اصلاح کے لئے کوئی راہبر تو رکھیں
دلِ بیمار کے لئے دارو مؤثر تو رکھیں
وہ طریقہ جو بزرگوں کا چلا آتا ہے
جس سے ہر ایک شفا، دل کے لئے پاتا ہے
جھنڈا اصلاح کا ہر گاہ جو لہراتا ہے
ایسے دریا سے کیوں ہم بھی فیضیاب نہ ہوں؟
اور دنیا کی کثافت سے ہم خراب نہ ہوں
جو ہیں گمراہ اگر ان کی نقل کر لیں بھی
اپنے دامن میں مفادات اپنے بھر لیں بھی
اپنے جالوں میں اگر خلق بہت دھر لیں بھی
ٹھیک ہم ان کے لئے چھوڑ دیں یہ ٹھیک ہے کیا؟
اور کاموں میں غلط کے لئے ٹھیک چھوڑدیا؟
کتنوں کو کہتے قصائی ہیں ڈاکٹروں میں دیکھ
کتنے کرتے ہیں ملاوٹ ان تاجروں میں دیکھ
غلط کاموں میں کچھ مصروف استادوں میں دیکھ
ان میں جو ٹھیک ہیں ہم ان کو الگ رکھتے ہیں
ہم جدا ان کو کسوٹی سے جو کر سکتے ہیں
اس طرح پیر جو سچ ہوں اگر ان کو ڈھونڈیں
اپنی اصلاح کے لئے ان کو ہی راہبر سمجھیں
دامن اپنا منبع فیض سے اِن کے بھر لیں
ہم بھی زکھّٰا کے الفاظ عمل میں لائیں
اور دسّٰھا تباہی سے امن میں آئیں
صاحب دل سے ذرا صاف اپنا دل کرلے
فیض صحبت سے ذرا نور کو حاصل کرلے
جہد سے نفس کو پھر خیر پہ مائل کرلے
دل نورانی میں پھر نور خود ہی پائے گا
جو علم خیر ہو گا تیرے لئے وہ آئے گا
جو ہو بیمار نہ ڈاکٹر کے پاس جائے وہ
جو دوائی ہے اس کو ہاتھ نہ لگائے وہ
کیسے صحت کو بے اسباب اس میں پائے وہ
اس طرح کرنے سے نقصان کس کا ہوتا ہے؟
اور نقصان اگر ہو تو کیوں روتا ہے؟
یہ غزالی جو ہیں رومی ہیں سارے کیسے بنے؟
شیخ جیلان، سہروردی ہیں سارے کیسے بنے؟
اور خواجہ معین چشتی ہیں سارے کیسے بنے؟
فخر کرتے ہیں ہم اسلاف کے مقاموں پر
اور کرتے ہیں لعن اِن کے سارے کاموں پر
چاہیں مقصد اور ذریعے سے رکھتے بیر ہوں ہم
کھائے کچھ بھی نہیں منہ سے تو کیسے سیر ہوں ہم؟
اس طرح خود سے ہی شیطاں کے آگے ڈھیر ہوں ہم
یہ جو ہیں سارے ذرائع یہ تجربات ہی ہیں
یہ مشکلات میں وسائلِ نجات ہی ہیں
جس طرح طب میں ذرائع کا بدلنا ہے ضرور
مختلف لوگوں کے حالات میں چلنا ہے ضرور
پس طریقت میں بھی کچھ ایسا ہی کرنا ضرور
طرق اصلاح کا منصوص نہ ہونا جائز
جس طرح طب میں اجتہاد پہ حکیم فائز
حبِ دنیا میں آخرت کی طلب ہی نہ رہے
کیسے وہ پیر کی کڑوی کسیلی باتیں سنے
جو کوئی دودھ کا مجنوں ہو وہ خوں کیسے دے
جس کو کچھ حبِ الٰہی سے سرو کار نہ ہو
اس پہ حیرت نہیں اصلاح پہ وہ تیار نہ ہو
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن