اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال 1:
تبلیغ والوں کی طرف سے تصوف کے اوپر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ تصوف انفرادیت کا فعل ہے جبکہ اسلام میں اجتماعیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔
جواب:
آج ہی میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خطبہ پڑھا ہے جس میں حضرت نے فرمایا ہے کہ لوگ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو سمجھاؤں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خاموش صحابہ میں سے تھے۔ جب ضرورت ہوتی تھی تو بولتے تھے۔ اس کی ضرورت محسوس کی تبھی بولا ہے۔ چنانچہ انسان کو اپنا آپ نہیں بھولنا چاہیے۔ علامہ اقبال نے بھی کہا ہے:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
مثلاً اجتماعیت کی مثال یوں سمجھ لیں کہ ایک بڑی بلڈنگ ہے اور وہ ستونوں پہ قائم ہے۔ اس کے سارے ستونوں کو کیڑے لگ جاتے ہیں، آپ اگر اس کے اوپر چھت بنائیں گے تو وہ چھت گر جائے گی۔ اگر آپ نے ان ستونوں کو بچانے کی کوشش نہیں کی تو چھت کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ تو یہ انفرادیت اجتماعیت کے لئے ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ تصوف ہر ہر دینی کام کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہر دینی کام کی بنیاد اس پر ہے کیونکہ یہ ہر چیز کی جان ہے۔ چاہے وہ نماز ہے، چاہے روزہ ہے، چاہے زکوۃ ہے، چاہے حج ہے، چاہے تبلیغی جماعت ہے، چاہے مجاہدین کی جماعت ہے، چاہے درس و تدریس ہے، چاہے تصنیف و تالیف ہے۔ یعنی جو بھی چیز ہو اس کے متعلق ہم کہیں گے کہ وہ بہت اچھی چیز ہے۔ اچھی سے مراد یہ ہےکہ اچھی بنیادوں پر ہو۔ چنانچہ تصوف اچھی بنیاد مہیا کرتا ہے۔ لہذا اس کو انفرادیت کہنا بذات خود نا سمجھی کی بات ہے۔ یہ انفرادیت برائے اجتماعیت ہے۔ پورا معاشرہ افراد سے بنتا ہے ہر فرد کی تربیت ضروری ہے۔ اگر افراد کی تربیت ہو چکی ہو گی اور اس سے جو معاشرہ بنے گا وہ صحیح بنیادوں پہ قائم ہو گا تو پھر آپ اس کو جس طرف بھی لے جانا چاہیں گے لے جا سکیں گے۔ نفس کی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ ورنہ سرسری طور پر جیسے بیماری میں ورم آ جاتا ہے جس سے انسان موٹا ہو جاتا ہے تو خوش ہو جاتا ہےکہ شاید میں صحت مند ہو گیا ہوں۔ لیکن پھر پتہ چلتا ہے کہ اندر سارا بھوسا ہے۔ تو صرف کام کو پھیلانا مقصود نہیں ہے، کام کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا مقصود ہے۔ جس کے لئے تصوف ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ تصوف کسی کام کا مخالف ہے تو یہ بہت پرلے درجے کی حماقت ہے۔ یہ تو ہر ہر دینی کام کی حفاظت کرتا ہے۔ ہر ہر دینی کام کی بنیاد ہے۔ اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ جیسے علم کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اگر آپ کو کسی کام کا علم نہیں ہے تو عمل کیسے کرو گے؟ اسی طریقے سے تصوف بھی اس کی جان ہے۔ پس اگر اس میں جان نہیں ہو گی تو لاشوں کے ساتھ کیا کرو گے؟ ایک ہزار لاشیں اچھی ہیں یا دو زندہ انسان اچھے ہیں؟
سوال 2:
حضرت انسانی نفسیات کے حوالے سے ہم بچپن میں سنتے تھے، یہ جو آیت فضائل اعمال میں ہے: ﴿وَ مَنۡ اَحۡسَنُ قَوۡلًا مِّمَّنۡ دَعَاۤ اِلَى اللهِ﴾ (حم السجدۃ :33) آگے اس کی تفسیر ہے۔ میرے نانا مجھے انسانی نفسیات کے بارے میں بتاتے تھے لیکن ان کی بات اوپر سے گزرتی تھی۔ اسی طرح دو آیات ہیں ایک میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿كُنۡتُمۡ خَيۡرَ اُمَّةٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 110) دوسری آیت: ﴿وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ﴾ (آل عمران: 104) یہ ایک صاحب کو میں نے بتائیں، میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں بتایا بلکہ جیسے خطبات حکیم الامت میں بتایا گیا ہے، اسی طرح بتایا کہ خصوصی دعوت خاص لوگ کرتے ہیں، امیر صاحب کر سکتے ہیں۔ تو کہتے ہیں: یہ layman والا ترجمہ ہے۔ میں نے ان سے کہا: میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہہ رہا بلکہ یہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات ہے۔ اس میں نفسیاتی حوالے سے انسان کی ایک نفسیات بن جاتی ہیں تو چاہے وہ قرآن کی آیات بھی ہوں تو انسان کو کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
یہود کا قول اللہ پاک نے قرآن میں ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے تھے: ﴿قَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ﴾ (البقرة: 88)
ترجمہ: ”اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلاف میں ہیں۔
اللہ پاک نے ان کے جواب میں فرمایا: ﴿بَل لَّعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ﴾ (البقرة: 88)
ترجمہ: ”نہیں! بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان پہ پھٹکار ڈال رکھی ہے۔ اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔“
تو انبیاء کرام کے اقوال اور اللہ جل شانہ کی باتوں کی اپنے نفس کے ذریعے سے تشریح کرنا بہت خطرناک بات ہے۔ اس لئے تفسیر بالرائے کی ممانعت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: جس نے قرآن کی تفسیر رائے کے ساتھ کی اس نے غلط کیا، چاہے اس نے صحیح تفسیر کی ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے علاج کے لئے ڈاکٹر کے بجائے chemist دوائی دینے لگے۔ اگر اتفاق سے وہ صحیح دوائی بھی دے تب بھی ہم کہیں گے کہ دوائی تو صحیح دی لیکن کام غلط کیا۔ کیونکہ یہ طریقہ غلط ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک خطبہ ہے جس میں ارشاد فرمایا کہ بعض لوگ اپنے آپ کو چھوڑ کر دوسروں کی فکر کرتے ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ ان کو سمجھاؤں۔ تو ان سے زیادہ اجتماعیت کو جاننے والے کون تھے؟ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سارے صحابہ کرام کو جمع کیا۔
سوال 3:
مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ جو کانگریس کے لیڈر بھی تھے۔ ان کی میں نے تصویر دیکھا اور ان کے آگے مولانا اسعد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہیں۔ ایک جگہ کانگریس کی لیڈر شپ کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، مولانا محمود مدنی صاحب بھی اس وقت انہی کے ممبر ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے اگر آدمی تعصب کی نگاہ سے دیکھے تو کچھ اور نظر آتا ہے اور اگر آدمی کھلے دماغ سے دیکھے تو وہی چیز کچھ اور نظر آئے گی۔
جواب:
میں رویت ہلال کمیٹی میں تھا۔ رویت ہلال کمیٹی کی رپورٹنگ ہوتی تھی، صحافی آتے تھے، کیمرے ہوتے تھے۔ تصویر کھیچنے سے ہم ان کو نہیں روک سکتے تھے۔ کیونکہ وہ ان کا ایک نظم تھا۔ ہم مجبوراًَ اس میں شامل تھے کیونکہ ہمیں ایک ڈیوٹی کرنی تھی۔ جس وقت کرسیاں ڈالی جاتیں تو بعض لوگوں کی فکر ہوتی کہ میری کرسی ایسی جگہ پہ پڑی ہو جہاں سے میری تصویر صحیح آ جائے اور بعض لوگ اس سے چھپنے کی کوشش کرتے۔ چھپنے کے با وجود بھی نظر آ جائیں تو معذور ہیں کیونکہ ان کا ارادہ نہیں ہے۔ جو لوگ اس کے لئے با قاعدہ لپکتے اور کوشش کرتے ہیں وہ غلط بات ہے۔ اسی طرح یہ حضرات عموماََ کیمروں کے سامنے نہیں آتے تھے لیکن اگر کبھی بیٹھے ہوئے اچانک کسی نے چھپک مار دی اور تصویر نکالی تو ان کا بس نہیں چلتا تھا، آخر سیاسی لوگ تھے جس میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی تھے۔ یہ حضرات جن مقاصد کی وجہ سے ادھر شامل تھے وہ بڑے نیک مقاصد تھے۔ لہذا ہم ان نیک مقاصد کو دیکھ کر ان کی ان باتوں کی تاویل کریں گے۔
سوال 4:
حضرت نئے کپڑوں کا سنا ہے کہ جمعہ کے دن پہننے چاہئیں۔ اس کے علاوہ پیر کے دن بھی پہن سکتے ہیں؟
جواب:
یہ میں نے نہیں سنا، تحقیق کر کے بتا سکتا ہوں۔
سوال 5:
شلوار کو بعض لوگ ٹخنے سے اوپر درمیان کی پنڈلی تک لے جاتے ہیں، تو اس کی کیا حد ہے؟
جواب:
نصف پنڈلی تک سنت ہے۔ اور ٹخنوں سے اوپر رکھنا واجب ہے کیونکہ اس پر وعید ہے۔ وعید واجب کے نہ کرنے پر ہوتی ہے۔ چنانچہ ٹخنوں سے نیچے رکھنے پہ وہ حصہ جو نیچے ہو گا جہنم کی آگ میں جلے گا۔ لہذا اگر ٹخنوں سے اونچا رکھنا چاہیے۔ اگر نصف ساق پر ہے تو آپ اس کی تحسین کریں کہ یہ سنت ہے۔
سوال 6:
ایک مولانا صاحب بیان میں بتا رہے تھے کہ ضرورت کے وقت بائیں ہاتھ سے بھی کھانا کھایا جا سکتا ہے اور اسی طرح پانی بھی ضرورت کے وقت کھڑے ہو کے بھی پیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے بارے میں بتایا کہ ایک دفعہ کسی ایسی گندی جگہ جہاں بیٹھنے کی جگہ نہ تھی وہ کھڑے ہو کے میں پانی پی رہے تھے۔ تو مجھے ایک صاحب کہتے ہیں: مولانا صاحب! بیٹھ کر پانی پیئں۔ اسی طرح ایک دفعہ ایک ہاتھ سے چائے پی رہا تھا اور دوسرے ہاتھ میں بسکٹ تھا تو ایک صاحب کہتے ہیں: مولانا صاحب! دائیں ہاتھ سے کھائیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے اگر وہ بیان میں یہ بات نہ بتاتے تو میں بھی یہی سمجھ رہا ہوتا۔ یعنی اس طرح کا ذہن بن جاتا ہے کہ انسان ایک ہی پٹڑی پہ سوچتا رہتا ہے۔
جواب:
سب سے بڑی چیز ادب ہے، وہ سیکھانا چاہیے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں صف بنی ہوئی تھی اور ابھی نماز شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک عالم صف سے تھوڑا سا آگے ہو کر کھل کے بیٹھ گئے۔ جیسے مجھے بھی ٹانگوں کا ذرا مسءلہ ہے تو میں بھی ذرا relax بیٹھنا چاہتا ہوں۔ وہ اس طرح relax بیٹھ گئے۔ جو امام حضرت کی طرف سے مقرر تھے نوجوان تھے اور عالم نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ صفیں نہیں توڑنی چاہئیں، صفوں کے اندر رہنا چاہیے۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو اس پر بہت ڈانٹا۔ فرمایا: اول تو تم عالم نہیں ہو اور عالم جب نہ ہو تو غیر عالم، عالم کو مسئلہ نہیں بتا سکتا۔ استفسار کے انداز میں پوچھ لے کہ حضرت کیا ایسا کیا جا سکتا ہے؟ وہ خود بتا دے گا کہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔ اس کے اوپر یہ نافذ کرنے کی جو صورت ہے کہ تم ایسا کرو۔ یہ اس بات کا دعویٰ ہے کہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ یہ بات ہی غلط ہے۔ لہذا اگر کسی کو ادب کا پتا ہو تو وہ ایسی غلطی نہیں کرے گا۔
سوال 7:
آپ ﷺ کی ازواج مطہرات بھی تھیں، اس کے با وجود آپ ﷺ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے۔ مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بیوی کی کوئی خدمت کر دے تو اس کو زن مرید سمجھا جاتا ہے۔ یعنی یہ cultural چیز ہے جبکہ دین میں کچھ احکامات دیئے گئے ہیں۔ اس کو کس طرح handle کریں گے؟
جواب:
ایک ہوتا ہے احسان، یعنی حسن سلوک کرنا اور ایک ہوتا ہے گناہ نہ کرنا۔ درمیان میں بہت سارے stages ہیں۔ بیوی پر ظلم کرنا گناہ ہے اور تقسیم کار یہ ہے کہ مثلاََ باہر کا کام مرد کر لے، گھر کا کام عورت کر لے۔ لیکن اگر کوئی احسان کرنا چاہے اور اپنی بیوی کے ساتھ گھر کے کاموں میں مدد کرنا چاہے، بعض دفعہ مشکل پڑ جاتی ہے پھر اس وقت مدد کرنا ضروری بھی ہو جاتا ہے۔ یہ ایک اچھی عادت ہے اور سنت ہے۔ جیسے ابھی تھوڑی سی مثال دی کہ نصف ساق سنت ہے اور ٹخنوں سے اوپر رکھنا لازم ہے۔ اسی طریقے سے بیوی کے اوپر ظلم نہ کرنا، یہ تو لازم ہے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا سنت ہے۔
سوال 8:
ٹخنے سے نیچے کرنے کے حوالے سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا جو واقعہ ہے کہ تکبر کی وجہ سے نہیں تھا؟
جواب:
اس واقعے میں سیاق و سباق پہ غور کرنا چاہیے تو جواب صاف ہے۔ آپ ﷺ نے ایک صحابی کو نصیحت کی کہ اس طرح نہ کریں کیونکہ یہ تکبر کی وجہ سے ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر ڈر گئے کیونکہ بہت زیادہ تقویٰ تھا۔ عرض کی کہ میرا پاجامہ بھی کبھی کبھی ٹخنوں سے نیچے گر جاتا ہے، یعنی اس میں کبھی کبھی کا لفظ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہیں نہیں کہہ رہا۔ ایک ہوتا ہے قصداََ نیچے رکھنا اور ایک ہوتا ہے یوں ہی کسی وقت گر جانا۔ جیسے بعض دفعہ لوگ میرے لئے کسی درزی سے کپڑے بنوا لیتے ہیں اور انہیں میری priorities کا پتا نہیں ہوتا۔ آج کل فیشن یہ ہے کہ بہت لمبے لمبے پائنچے بناتے ہیں۔ لمبے پائنچے کو ہم اڑستے ہیں، اوپر کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ چلتے وقت دوبارہ نیچے آ جاتا ہے۔ بالخصوص جب کپڑے heavy ہوں۔ جیسے سردیوں میں کپڑے heavy ہوتے ہیں تو ہمارا مسلسل ایک کام لگا رہتا تھا کہ اوپر کرنا اور اس کا کام ہوتا تھا نیچے آنا۔ چنانچہ جو ڈر رہا ہو لیکن پھر بھی وہ نیچے آ رہی ہو تو اس کو اجر ملے گا کہ مسلسل وہ اس کو اوپر کر رہا ہے۔ دوسرا اس بارے میں سوچے گا کہ یہ نیچے ہو گیا ہے۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ڈر کی وجہ سے یہ بات کی تھی۔
ایک قولی حدیث شریف ہے اور ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل ہے۔ فقہ کا اصول یہ ہے کہ قولی، فعلی سے اہم ہے۔ اگر قولی حدیث موجود ہو اور اس کے مقابلے میں فعلی ہو تو قولی کو ترجیح دی جائے گی۔ کیونکہ قولی حدیث امر ہوتا ہے اور فعلی حدیث حالت بتاتی ہے۔ امر واضح ہوتا ہے، حالت کی تشریح ہو سکتی ہے۔
سوال 9:
مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب کہیں جانا چاہ رہے تھے تو انہوں نے اسے فرمایا کہ آپ کو بلڈ پریشر ہے آپ وہاں پہ نہ جائیں۔
جواب:
ایک جماعت کے ساتھی تھے جو بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ مری جیسے علاقے میں ان کی جماعت چل رہی تھی، ممکن ہے ایبٹ آباد ہو یا دوسرا علاقہ ہو۔ مولانا اشرف صاحب جو اس جماعت کے امیر تھے انہوں نے ان سے کہا: تم اپنی تشکیل تبدیل کروا لو۔ ایسی جگہ کروا دو جو پہاڑی علاقہ نہ بلکہ میدانی علاقہ ہو۔ لیکن وہ ذرا مضبوط قسم کے تبلیغی تھے، وہ چپ رہے۔ حضرت نے فرمایا کہ دیکھو! روزہ فرض عین ہے اور تبلیغ کرنا فرض کفایہ ہے۔ (حضرت کے نزدیک فرض کفایہ ہی تھا یہ اس کو چونکہ فرض عین سمجھتے تھے) وہ ذرا ڈاڈھے قسم کے تبلیغیوں میں تھے۔ مولانا صاحب مسکرائے اور فرمایا: اگر یہ فرض عین ہے تو روزہ بھی فرض عین ہے۔ اگر اس کو اللہ تعالی نے مؤخر کرنے کا بتا دیا ہے تو اس کو کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
سوال 10:
حضرت! ہند کی جو کتابیں ہیں، ان کے مطابق یاجوج ماجوج Great wall میں کہیں بند ہیں۔ Great wall سے مراد دیوار چین ہے۔
جواب:
وَاللہُ اَعلَمُ بِالصَّوَاب۔
سوال 11:
حضرت!
آ تجھ کو بتاؤں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول، طاؤس و رباب آخر،
ایک مولانا صاحب نے بیان میں بتایا تھا کہ قوموں کی بڑھوتری اس philosophy کی base پہ ہوتی ہے۔
جواب:
اس شعر کی اگر زیادہ بہتر تشریح ہو سکتی ہے تو میرے خیال میں وہ یہ ہے کہ مجاہدہ کے بعد مشاہدہ ہوتا ہے۔ جو مجاہدے سے پہلے مشاہدہ چاہتا ہے تو وہ غلط ترتیب ہے۔ student پہلے مجاہدہ کرتا ہے اس کے بعد سروس ملتی ہے، اس کا benefit ملتا ہے۔ جو کہے کہ مجھے benefit پہلے دو، میں میں بعد میں پڑھوں گا۔ لوگ اس کو بیوقوف کہیں گے۔
سوال 12:
حضرت آج کل یہ رواج ہے کہ برتھ ڈے منائی جاتی ہے۔ اس میں اگر یہ نیت نہ ہو کہ یہود و نصاریٰ کی مشابہت کر رہے ہیں بلکہ ویسے ہی خوشی کی یا کچھ اچھا پکایا اور جمگھٹا ہو گیا اور خوشی منالی جائے اور کیک وغیرہ کھا لیا جائے تو اس میں گنجائش ہے یا یہ بھی وعید میں ڈاخل ہے؟
جواب:
یہ آپ کو کس نے کہا ہے کہ صرف یہود و نصاریٰ کی مشابہت کی وجہ سے غلط ہے؟ ایک شعر ہے:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
کیا یہ خوشی کی بات ہے آپ کی ایک سال عمر کم ہو گئی یا ڈرنے کی بات ہے؟ جتنی موت قریب آ رہی ہے تو موت کے بعد کی زندگی کی تیاری کرنی چاہیے یا خوشی منانی چاہیے؟ یہ حماقت کی بات ہے اور احمقوں کی مشابہت نہیں کرنی چاہیے۔ میں یہود و نصاریٰ کی بات نہیں کرتا بلکہ میں کہتا ہوں کہ احمقوں کی مشابہت نہیں کرنی چاہیے۔
میں جرمنی میں تھا، وہاں کی Office secretary کے پاس ہمارے کاغذ پڑے ہوئے تھے۔ میرا Date of birth بھی اس پہ تھا۔ 24 اپریل میرا Date of birth ہے۔ 24 اپریل کو اس نے مجھے کہا: Ahmad It is 24th of April۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا: Yes, it is 24th of April اس نے کہا: ?It is your birthday۔ میں نے کہا: No۔ کہا: ?How it is written here۔ میں نے کہا: Our year is different۔ میں نے سوچا کہ اب اس کو کون سمجھائے گا؟ یہ آسان طریقہ ہے جان چھڑانے کا۔
سوال 13:
حضرت ادریس علیہ السلام کو انگلش میں Hermes یا Edward کہتے ہیں؟
جواب:
مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
سوال 14:
حضرت سنا ہے کہ فرض کو فرض رکھیں، مستحب کو مستحب رکھیں۔ یعنی علم سے ہی یہ تمیز آئے گی کہ آدمی فرض کو فرض ہی سمجھے۔
جواب:
اس کو سلطان علم کہتے ہیں۔ جو حکم جس انداز میں اترا ہے اس انداز میں عمل کے لئے اس کو لیا جائے۔ مثلاََ کوئی شخص فرض تو چھوڑتا ہے لیکن نفلیں پڑھتا ہے۔ اس کو بہت بڑا احمق کہا جائے گا۔ کیونکہ جو اس کے اوپر فرض ہے اس کو چھوڑ رہا ہے اور نفلیں ادا کر رہا ہے۔
سوال 15:
حضرت جب ذکر چھوٹ جائے تو زیادہ دکھ ہوتا ہے لیکن جب نماز چھوٹ جائے تو کم دکھ ہوتا ہے، ایسا کیوں ہے؟
جواب:
ما شاء اللہ بڑا اچھا سوال ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ذکر میں یکسوئی ہوتی ہے، وہ ایک ایسا عمل ہے جو آپ شروع کر لیں تو پھر آپ کو اپنے اندر مصروف رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ اُنس ہو جاتا ہے۔ جبکہ نماز میں اعمال مسلسل تبدیل کرنے پڑتے ہیں، کبھی رکوع ہے، کبھی قیام ہے۔ بہر حال ذکر بھی اہم ہے کیونکہ جہاں نماز کا حکم ہے وہاں پر یہ فرمایا: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت:45)
ترجمہ: ”بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے۔“
لہذا دونوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ نماز کے ضائع ہونے کا بھی افسوس شدید ہونا چاہیے اور ذکر کے چھوٹنے کا بھی شدید اثر ہونا چاہیے۔
سوال 16:
حضرت، ٹی وی یا ریڈیو پہ اذان ہوتی ہے یا کوئی دینی پروگرام ہوتا ہے۔ اگر بالفرض یہ نہ ہو اور اس کی جگہ بھی گانا بجانا cover کر لے تو پھر جو لوگ ٹی وی اور ریڈیو پر بیٹھے ہوئے ہیں، چاہے وہ ایم اے اسلامیات ہیں تو اس قسم کے لوگوں سے کیا تھوڑی بہت خیر پھیلتی ہے یا شر ہی زیادہ پھیل سکتا ہے؟
جواب:
اس کے دیکھنے کے دو angle ہیں۔ اس کی کسی نیکی کی وجہ سے کیا وہ گناہ قابل معافی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب ہے کہ نہیں۔ چاہے اس پہ کتنا ہی اچھا پروگرام پیش کیا جائے، اس کا مجموعی نقصان اس پہ غالب ہو گا۔ لہذا انسان نقصان میں رہے گا۔ البتہ اگر ہے ہی شر تو اس شر کو کم کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ جو شر کو کم کرتا ہے تو اس کا یہ کرنا ٹھیک ہے۔ اس کو ہم غلط نہیں کہیں گے۔ مثال کے طور پر ایک شخص اتنا زہر کھاتا ہے جس سے انسان مر جاتا ہے اور دوسرا اتنا زہر کھاتا ہے کہ اس سے انسان بیمار ہو جاتا ہے۔ کون اچھا ہے؟ بیمار کرنے والا اچھا ہے۔ کیا خیال ہے بیمار کرنے والا زہر کھانا چاہیے؟ بس یہ دو باتیں ہیں۔ ان میں آپس میں تقابل تو ہے لیکن خالص کے ساتھ نہیں۔ مشکل سوال تھا لیکن یہ الہامی جواب تھا، اللہ پاک نے جواب عطا فرمایا دیا۔
سوال 17:
حضرت یہ ایک بزرگ ہیں ایک صاحب ان کا علاج معالجہ کرتے تھے۔ اس میں یہ بات مشہور ہوئی کہ فلاں صاحب نے فلاں بزرگ کو دوائیاں غلط دیں تو وہ بیمار ہو گئے۔ ان صاحب نے messaging کی کہ یہ کہنا کہ فلاں صاحب کی دوائی سے فلاں صاحب بیمار ہو گئے، یہ شرک عظیم ہے۔
جواب:
شرک عظیم ہم اس کو نہیں کہہ سکتے، آخر اسباب کو اختیار کرنے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ اسباب کے مؤثر ہونے کو اگر اللہ پاک کے مقابلے میں نہیں لایا جائے گا تو اس کی گنجائش ہے۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ پانی پینے سے میری پیاس بجھ جائے گی تو یہ شرک عظیم ہے تو اس کو آپ کیا کہیں گے؟ معلوم ہوا وہ ایک اسباب کے رخ سے بات کر رہا ہے۔ البتہ جن لوگوں نے یہ سوچا کہ ان کی دوائی سے وہ بیمار ہو گئے وہ لوگ غلط ہیں کیونکہ یہ بد گمانی ہے۔ دوائی دینا انسان کا کام ہے لیکن اس سے فائدہ پہنچانا اللہ کا کام ہے۔ جیسے میں آپ کو یہ باتیں بتا رہا ہوں یہ کام میرے ذمے ہے لیکن ہدایت دینا اللہ کا کام ہے۔ میں کہوں کہ اگر ہدایت اللہ دے گا تو میں بات چیت ہی نہ کروں، تو یہ درست نہیں۔ بات کرنے کا بزرگوں نے حکم دیا ہے لیکن ہدایت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک کا حکم تھا ﴿وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ﴾ (الشعراء: 214) اور ﴿يَآ اَيُّـهَا الْمُدَّثِّرُ 0 قُمْ فَاَنْذِرْ﴾ (المدثر: 1-2) لیکن ساتھ یہ بھی ہے فرمایا کہ: ﴿اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ﴾ (القصص: 56)
ترجمہ: ”(اے پیغمبر) حقیقت یہ کہ جس کو خود تم چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے۔“
ان دو چیزوں کو جمع کرنا ہے کہ بات تو کرنی ہے، اسی طرح دوائی کرنی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس کی دوائی سے بیمار ہو گیا یہ غلط بات ہے اور بد گمانی ہے۔ حالانکہ مومن کے اوپر اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ "ظُنُّوْا الْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا" یعنی مومنین کے اوپر اچھا گمان رکھنا چاہیے۔ دونوں کی باتیں غلط ہو گئیں۔ ڈاکٹر صاحب کی بات بھی غلط ہو گئی اور وہ جو ان کے اوپر بد گمانی کرتے تھے ان کی بات بھی غلط ہو گئی۔
سوال 19:
حضرت، مثلاً نماز پڑھنی ہے اس کے لئے وضو کرنا پڑے گا۔ ہدایت ملنی ہے تو اس کے لئے دھیان کرنا پڑے گا۔ بعض لوگ اس طرح کہیں کہ وضو کر لیتے ہیں لیکن اصل تو نماز ہے۔ آپ بیان کر لیجئے لیکن اصل تو ہدایت ہے۔ اس قسم کی یہ ایک mentality ہے کہ جو بیچ میں ہے، اس کو اہمیت نہیں دیں گے۔
جواب:
اصل میں سنت طریقہ اختیار کرنا چاہیے اور سنت سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ کہتے ہیں کہ اللہ پاک سے زیادہ رحیم نہ بنو اور آپ ﷺ سے زیادہ شفیق نہ بنو۔ اللہ جل شانہ ارحم الراحمین ہیں اور آپ ﷺ امت پر جتنے شفیق ہیں اتنا کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہذاٰ سنت طریقہ اختیار کرو۔
اعتکاف کے دن آ رہے تھے تو مجھ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ میں اعتکاف کروں یا خدا کے راستے میں جاؤں؟ میں نے کہا: جو آپ ﷺ نے ان دنوں میں کیا وہی کر لو۔ تو وہ بات سمجھ گیا۔
سوال 20:
کیا لمبے بال رکھنا سنت ہے اور اگر ہے تو کس قدر لمبے بال رکھنے کی گنجائش ہے؟
جواب:
لمبے بال رکھنا سنت تو ہے لیکن ان کی حفاظت کرنا۔ دیوانوں کی طرح نہ پھیلنا بلکہ تیل دینا اور صفائی کرنا یہ بھی سنت ہے۔ سر منڈوانے کی بھی گنجائش ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب سے مجھے پتہ چلا کہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے تو پھر میں نے سر کے بال منڈوانے شروع کر دئیے۔ لہٰذا اگر کوئی سر منڈواتا ہے تو اس میں حفاظت زیادہ ہے لیکن کوئی بال لمبے رکھتا ہے اور حفاظت کر سکتا ہے تو زیادہ بہتر ہے۔ لیکن عورتوں کی طرح ان میں پونیاں نہ لگائے یہ خلاف سنت ہے بلکہ بغاوت ہے۔ آج کل لمبے بال رکھتے ہیں پھر ان میں Rubber band لگاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہیجڑے کہا جا سکتا ہے۔
سوال 21:
اپنی اصلاح فرض عین ہے۔ اس حوالے سے جو مختلف دینی تنظیمیں کام کرتی ہیں تو ان کے پاس کوئی کورس یا کوئی نصاب یا کوئی معمول ہوتا ہے جس میں سے وہ لوگوں کو سمجھاتے ہیں۔ لوگوں سے کہتے ہیں کہ آپ اس میں شامل ہوں تو آپ کی اصلاح بھی ہو گی اور امر بالمعروف یا نہی عن المنکر کے کام بھی ہوں گے۔ چونکہ خانقاہی نظام سے ان کو اتنی مطابقت نہیں ہوتی جو اصل میں اصلاح کے ذرائع ہیں۔ ان کو جانتے ہی نہیں یا پھر ان کو پس پشت ڈالا ہوتا ہے۔ لوگوں پر کس طرح ان دونوں کا فرق واضح کیا جائے؟
جواب:
بہت اچھا عملی سوال ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگوں کی اصلاح کرتا ہے اس کی پہلے خود اصلاح ہونا ضروری ہے۔ یعنی ان میں وہ شرائط پائی جاتی ہوں جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ ایک آدمی خود اپنے بارے میں گمان کر لے کہ اب میں اصلاح کر سکتا ہوں تو اس کی اپنے اوپر خوش گمانی ہوتی ہے اور اس میں ایک قسم کا عجب اور تکبّر کا رخ آتا ہے۔ لیکن اگر لوگ ان کو مجبور کریں اور وہ بڑے لوگ ہوں تو پھر مجبوراََ کرنا پڑتا ہے، اس کو ”امتثال امر“ کہتے ہیں۔ مثلاً حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کو جب حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت دے دی تو حضرت نے اس کو چھپایا ہوا تھا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلقین نے ان سے کہا کہ آپ یہ کام کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ یہ بات حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادوں کو پہنچی وہ بھی اللہ والے تھے۔ انہوں نے کسی مجلس میں حضرت سے پوچھا کہ آپ کو کس نے اختیار دیا ہے ہمارے والد صاحب کو جھوٹا کہیں؟ انہوں نے کہا: اَلعَیَاذُ بِاللہ میں نے کب حضرت کو جھوٹا کہا ہے؟ یہ تو بہت سخت الزام ہے مجھ پر۔ فرمایا: کیا تم نے نہیں کہا کہ میں اہل نہیں ہوں؟ اگر ہمارے والد نے تمہیں اہل سمجھا ہے تو تم کون ہو اپنے آپ کو اہل نہ سمجھنے والے؟ یہ کیا ان پر جھوٹ کی تہمت نہیں ہے؟ اب حضرت بڑی مشکل میں آ گئے اور چپ ہو گئے۔ پھر حضرت کو اور حضرات نے مجبور کیا کہ جب انہوں نے آپ کو ذمہ دار بنایا ہے تو اب اس ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیے۔ اس کے بعد انہوں نے ذمہ داری پوری کی۔ یہ میں نے آپ کو اصلاحی لائن کی ایک بات سنائی ہے۔ اب میں آپ کو قرآن پاک کی تفسیر کی لائن کی بات سناتا ہوں۔ حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے معارف القرآن تفسیر لکھی ہے اور اس کی ابتداء میں دیباچہ ہے جو حضرت نے خود لکھا ہے۔ اس میں فرمایا کہ تفسیر لکھنے کا میرا ہرگز ارادہ نہیں تھا۔ اس کی جرات میں نہیں کر سکتا لیکن ہوا یہ کہ مجھے سرکاری ریڈیو پر کچھ قرآنی آیات کی تشریح کرنے کے لئے کہا گیا۔ میں نے تشریح کرنی شروع کر دی۔ وہ on air جاتی رہی اور لوگ بڑے شوق سے سنتے رہے۔ اس کے بعد حکومت نے اپنی سیاسی مجبوریوں کی بنیاد پر پروگرام بند کر دیا۔ لیکن لوگ اس کے عادی تھے، انہوں نے شور اٹھایا اور دوسری طرف علماء نے مجھ سے کہا کہ لوگ جب اس کو اتنا چاہتے ہیں تو کم از کم آپ اس کو شائع کر دیں۔ یعنی جو آپ ریڈیو پر بیان کر چکے ہیں اس کو شائع کر دیں۔ انہوں نے اس کو شائع کر دیا۔ اس کے بعد ان پہ پریشر اور بڑھ گیا کہ اب اس کو مکمل کر لیں۔ لیکن مفتی صاحب نے یہی کہا کہ میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ پھر ان کو ایسی بیماری لگ گئی ڈاکٹر نے Bed confined کر دیا کہ اب آپ چارپائی سے نہیں ہلیں گے۔ انہوں نے سوچاکہ اچھا ٹھیک ہے میں قرآن کو تو ختم نہیں کر سکتا چلو میں قرآن میں اپنی زندگی ختم کر لیتا ہوں۔ چنانچہ اس وقت کام شروع کیا اور اللہ پاک نے اس کو پورا فرما دیا۔ اس وقت الحمد للہ ان کی تفسیر سے علماء کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے اور عوام کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ قبولیت والی بات درمیان میں آ جاتی ہے لیکن یہ قبولیت شاید ان کی عاجزی کی وجہ سے آئی ہے۔ یہ قرآن کی عظمت کی وجہ سے ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ جو آدمی ریٹائر ہو جاتا ہے تو کہتا ہے کہ میں قرآن پاک کی تفسیر کر لوں گا یا C.S.P افسر ریٹائر ہو چکا ہوتا ہے یا وائس چانسلر ریٹائر ہو چکا ہوتا ہے تو وہ تفسیر لکھنا شروع کر دیتا ہے۔ تفسیر لکھنا اتنا آسان کام نہیں ہے کہ ہر ایک آدمی اس کو کر سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا تو جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا اس نے اپنے لئے ٹھکانا بنا لیا۔ تو اللہ پر جھوٹ بولنا کیسا ہو گا؟ قرآن کی اپنی رائے سے تفسیر کرنا بڑی خطرناک بات ہے۔ یہ بہت ڈرنے کی بات ہے۔ لہذا ہمارے مشائخ ہمارے علماء کرام اور اسلاف ان چیزوں میں بہت ڈرتے تھے۔ اسی طریقے سے کسی اور کی تربیت میں بنیادی چیزوں کو بھول جانا اور تفسیر میں بھی ان بنیادی چیزوں کو بھول جانا دونوں غلط کام ہیں۔ اگر کسی وجہ سے اس پہ جرأت ہو رہی ہے اور اس کو روکا نہیں جا سکتا تو کم از کم انسان اس میں شامل تو نہ ہو کہ ذمہ دار بن جائے۔ چنانچہ ایسی مجلسوں سے اپنے آپ کو ہٹانا چاہیے۔ البتہ جہاں پر واقعی اسلام کا کام ہو رہا ہو یا صحیح تفسیر ہو جو اسلاف کے طریقے پر ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جس کو شیخ بنانا ہے اس میں آٹھ نشانیاں ڈھونڈو، اگر وہ آٹھ نشانیاں اس میں نہیں ہیں تو پھر وہ qualified نہیں ہے۔ یہ نشانیاں آٹھ نہیں تھیں بلکہ زیادہ تھیں۔ ہم نے بڑی سوچ سے آٹھ میں ان کو جمع کر دیا۔ اگر یہ نشانیاں کسی میں minimum ہیں تو آپ اس کو اپنا شیخ بنا سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو اس کو اصلاح کی اجازت نہیں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے علاج کرنا تو سنت ہے اور اچھا کام ہے لیکن جو آدمی معالج نہ ہو اور Medical degree اس کے پاس نہ ہو، اس کے پاس permission بھی نہیں ہے تو اگر وہ علاج کرے گا تو حکومت کا مجرم ہو گا۔ اسی طرح جس کو اجازت نہ ہو وہ اللہ کا مجرم ہو گا۔ چنانچہ اس چیز سے انسان کو اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
سوال 22:
حضرت اگر آسان لفظوں میں دیکھا جائے تو مثلاً جو میرا background ہے وہ یہ ہے کہ ایک اَن پڑھ آدمی نے ایک صاحب کو دعوت دی اور وہ صاحب اس کے بعد ایک بہت بڑے عالم بن گئے جن سے لاکھوں لوگوں کو فائدہ ہوا اور جس آدمی نے ان کو دعوت دی وہ ایک عام آدمی ہے۔ تو اصلاح اور دعوت دینے میں جو لائن کھنچتی ہے وہ کہاں پر ہے؟
جواب:
جواب بہت واضح ہے اس کے اندر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہی شخص جس نے اس کو عالم بننے کی دعوت دی اگر یہ خود اس کو علم پڑھاتا اور یہ عالم نہ ہوتا تو پھر جائز نہ ہوتا۔ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو بچا کے رکھا اور کسی اہل تک پہنچا دیا۔ اگر کوئی شخص کسی کو دعوت دیتا ہے مثلاً کسی سے بیعت کرواتا ہے اور اس کو اہل تک پہنچا دیتا ہے تو اگر وہ عالم بن گیا تو اس کے لئے صدقہ جاریہ بن گیا۔ اسی طریقے جس سے بیعت کروا دیا اور اس کی اصلاح ہو گئی تو یہ بھی اس کے لئے صدقہ جاریہ بن گیا۔ ایک واقعہ ہے کہ ایک صاحب اپنے علاقے کے بہت بڑے عالم تھے اور دیوبند کے فارغ تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں غریب گھرانے کا تھا تو ایک مدرسے میں چلا گیا اور وہاں میں نے داخلہ لے لیا اور پڑھنے لگا۔ وہاں میرے استاد ختم قرآن وغیرہ میں لوگوں کے گھروں میں بچوں کو بھیجتے تھے۔ کسی جگہ پر ختم کا قرآن تھا تو ہمیں بھیج دیا۔ جن کے گھر ختمِ قرآن تھا وہ اس علاقے کے رئیس اور چوہدری تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تو اپنے ساتھ برتن لایا؟ میں نے کہا: برتن کس لئے لاتا؟ وہ سمجھ گئے کہ نیا لڑکا ہے۔ انہوں نے کہا: تم ٹھہر جاؤ اور باقیوں کو رخصت کر دیا۔ بعد میں مجھے بلایا اور پوچھا: کیا تو ابھی ابھی مدرسے میں آیا ہے؟ کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: بیٹا میں آپ کو سچی بات بتا دوں کہ اس مدرسے میں صرف کھانے پینے کا معاملہ ہے باقی میدان صاف ہے۔ میں آپ کو ایک مدرسے پہنچاؤں گا اور مجھے دیوبند پہنچا دیا۔ میں وہاں سے الحمد للہ فارغ ہوا۔ چنانچہ پھر وہ بہت بڑے عالم بن گئے اور اپنے علاقے کے بہت بڑے اکابر میں تھے۔ فرماتے تھے کہ میں آج تک اس چوہدری کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ پاک نے میرے لئے اس کو ذریعہ بنا دیا۔ وہ شاید پڑھا ہوا بھی نہ ہو اَن پڑھ ہو لیکن اس نے اپنے لئے کتنا بڑا صدقہ جاریہ بنا دیا۔ اس طریقے سے کوئی بھی کر سکتا ہے۔ اس پر پابندی نہیں ہے لیکن اگر وہ خود عالم بن جائے اور کہے کہ آؤ میرے پاس، میں تمہیں سکھاتا ہوں تو یہ ٹھیک نہیں ہو گا بلکہ وہ خراب کرنے والی بات ہو گی۔ چنانچہ اہل تک پہنچانا ٹھیک ہے لیکن خود غیر اہل اگر اپنے آپ کو اہل سمجھ کر کام کرنا شروع کر دے تو ٹھیک نہیں ہے۔
سوال 23:
غیر مسلم بھی صوفیاء کرام کے معتقد رہے ہیں۔ آج تک معتقد ہیں۔
جواب:
اس کی وجہ یہ ہے کہ صوفیاء کرام سے دو فائدے ہوتے ہیں۔ ایک دین کا دوسرا دنیا کا۔ دنیا کا فائدہ غیر مسلم کو بھی چاہیے۔ انڈیا میں جو رہے ہوں گے یا یہاں ہمارے پرانے بڑے بوڑھوں کو یہ پتا ہے کہ جس وقت نماز ہوتی تھی تو مسجد کے سامنے ہندو عورتیں اپنے بچوں کو لے کر کھڑی ہوتی تھیں اور نمازیوں سے کہتیں کہ ہمارے بچوں کو دم کر دیں۔ وہ بیمار ہوتے تھے۔ ان کو اس پر بہت یقین تھا کہ ان کے دم کرنے سے فائدہ ہوتا ہے حالانکہ مسلمانوں کے مذہب کو صحیح نہیں مانتے تھے۔ خود میرے ساتھ جرمنی میں ایسا ہوا کہ دو ہندو میرے پاس آئے کہ ہم نے پرائس بونڈ خریدا ہے۔ یہ جوئے کی ایک قسم ہے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ نماز پڑھیں تو ہمارے لئے دعا کریں کہ ہم انعام جیت جائیں۔ میں نے کہا: میں جوئے کو جائز ہی نہیں سمجھتا تو دعا کیوں کروں گا؟ وہ اصرار کرنے لگے کہ بس ہمارے لئے دعا ضرور کرنی ہے۔ میں نے یہ دعا کر دی کہ یا اللہ! جو ان کے لئے بہتر ہو وہ کر دے۔ خدا کی شان جب نتیجہ نکلا تو جتنے پیسے انہوں نے ٹکٹ پہ خرچ کئے ان کے اتنے ہی پیسے نکلے۔ تو یہ اعتقادی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں۔ ان کو اپنی غرض سے کام ہوتا ہے۔ جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں وہ جس وقت بیمار ہوتے ہیں یا ان کو کوئی مشکل پیش آتی ہے تو دعا کے لئے ہمارے پاس آتے ہیں۔ ان کے وجدان میں یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی سنتا ہے۔ ان کے خیال کے مطابق ہم چاہے کیسے ہی خراب ہیں لیکن بہر حال ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ ہماری کی سنتا ہے۔ یہ صرف ان کی اس قسم کی بات ہے، ہماری مانتے نہیں ہیں لیکن اپنی دنیا کے لئے ہمیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
سوال 24:
نا جائز سفارش ہوتی ہے کہ ایک آدمی اہل ہی نہیں ہے۔ ایم بی اے کی requirement ہے اور یہ بی اے والے کو آگے کر رہا ہے۔ لیکن کسی جگہ انیس بیس کا فرق ہوتا ہے، تو سفارش کہاں پر چلتی ہے؟
جواب:
سفارش صرف ایک جگہ پہ چل سکتی ہے کہ اگر کسی کا حق پھنسا ہوا ہے اس کو حق دلانے کے لئے سفارش کی جا سکتی ہے۔ نا حق کے لئے نہیں۔
ہمارے پرانے ایک دوست تھے، میں recruitment کر رہا تھا۔ وہ دوست میرے پاس آئے اور کہا: جی شاہ جی مجھے پتا چلا ہے کہ آپ recruitment کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ آپ ہمارے دوست ہیں ہماری بات سن لیتے ہیں، ہمارا کام ہو جائے گا۔ میں نے ایک لڑکی جو بہت غریب ہے اس کو تسلی دی ہے کہ آپ اس کا کام کر دیں گے۔ اس نے application دی ہے۔ کوئی لڑکی تھی جس نے Law school میں کوئی apply کر دیا تھا۔ خیر میں نے اس سے کہا: کیا آپ کو یہ خیال ہے کہ میں بے انصافی کروں گا؟ کہتے ہیں: بالکل نہیں۔ میں نے کہا: پھر بے فکر رہو جو انصاف ہو گا میں کر لوں گا۔ جس کا حق ہو گا اس کو دے دوں گا۔ اگر آپ کی بچی کا حق ہے تو ضرور اس کو ملے گا۔ اور اگر اس کا حق نہیں ہے تو بالکل نہیں ملے گا۔ یہ بات تو اس کو suite نہیں کرتی تھی۔ وہ پھر آئیں بائیں شائیں اور گھما گھما کے بات لائے کہ جی غریب ہے اور ایسا ہے وغیرہ۔ میں نے پھر وہی بات دھرائی کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ میں انصاف کروں گا تو فکر کی کیا بات ہے؟ اس کے لئے پھر میں نے چائے منگوا لی کیونکہ دوست تو تھے۔ گپ شپ میں تقریباََ گھنٹہ سوا گھنٹہ ہو گیا تو دفتر کے کاموں کا حرج ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب اس کو ٹکا سا جواب دینا چاہیے کیونکہ یہ تو بیٹھا رہے گا۔ میں نے کہا: اچھا آپ میرا ایک کام کر دو پھر میں آپ کا کام کر دوں گا۔ وہ بڑا خوش ہو گیا اور کہنے لگا: بالکل کیوں نہیں، آپ بتائیں۔ میں نے کہا: کوئی ایسا طریقہ بتاؤ کہ اللہ بھی نا راض نہ ہو اور تم بھی نا راض نہ ہو۔ لیکن اگر اللہ نا راض ہوتا ہے تو پھر میں تمہیں راضی کرنے کے لئے اللہ کو نا راض نہیں کروں گا۔ اس کو اچھی طرح سن لینا۔ اس کے بعد میں مزید کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کے بعد اس کو یقین ہو گیا اور وہ چلا گیا۔ یہ لوگ گاؤں سے آتے ہیں، ان کا تو نظریہ ہی یہی ہوتا ہے کہ اگر یہ جائز ہوتا تو ہم آپ کے پاس کیوں آتے؟ آپ کے پاس تو ہم تب آئے ہیں کہ وہ نا جائز ہے۔ جو کچہری اور تھانے میں ہماری نا جائز چیز کو جائز نہیں کرا سکتا تو وہ کیسا دوست ہوا۔ چنانچہ ایسی سفارش جائز نہیں ہے۔
سوال 25:
حضرت یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بندہ ہے، آپ چیک کر لیں، اگر میرٹ پہ اترتا ہے تو سفارش کر لیں ورنہ چھوڑ دیں۔
جواب:
ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ کہہ دیں کہ جی بالکل میں سفارش کر دوں گا باقی اس کی مرضی ہے۔ آپ اس کو ٹیلی فون کر دیں اور ساتھ کہہ دیں کہ میں نے اس کو یہ کہا ہے کہ میں اس کو کہہ دوں گا، میں نے کہہ دیا، بس میرا کام پورا ہو گیا۔ باقی آپ جو مرضی کریں۔
سوال 26:
فرضوں سے پہلے جو سنتیں پڑھی جاتی ہیں تو کیا ان میں ایک قسم کی فرضوں کی تیاری ہو جاتی ہے؟
جواب:
یعنی آپ اس کی حکمت جاننا چاہتے ہیں؟ جس وقت آپ نماز کھڑی ہونے سے پہلے پہنچ جائیں تو اگر آپ جاتے ہی فرض شروع کر لیں تو transit فرضوں میں گزرے گا، یعنی آدمی چل کے آتا ہے تو سانس چڑھا ہوتا ہے، stable نہیں ہوتا تو نماز متاثر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ جب نفل پڑھ لے گا تو یہ چیز اس میں گزر جائے گی تو فرض نماز کے لئے وہ fit ہو گا۔
کلام:
اللہ کے بندوں کے اوپر رحم کے بارے میں رباعی ہے۔
رحم کر اس کے بندوں پر تو ہو گا رحم تجھ پر بھی
کہ بندے اس کا کنبہ ہیں خبر لے اس کے کنبہ کی
جیسے حدیث شریف میں ہے: "اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللہ" (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 7444)
مگر وہ لوگ جو دشمن کنبہ کے ہیں پر رحم کرنا
ہے ظلم مظلوم پر تو نہ ان کا ساتھ ہو تیری
رحم کر اس کے بندوں پر تو ہو گا رحم تجھ پر بھی
یعنی مظلوموں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے لہٰذا ظالموں کا ساتھ نہ دو۔ اگرچہ وہ اللہ کے کنبہ میں آتے ہیں لیکن یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ تعاون نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ﴾ (المائدة: 2)
ترجمہ: ”اور نیکی اور تقویٰ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو۔“
تواضع کے بارے میں:
جس نے جو اس کے واسطے خود کو گرا لیا
اس قدر داں نے اس کو تو اوپر چڑھا لیا
نادان نے سر اٹھا کے خود کو کر دیا معتوب
اور جو ہے سمجھ دار اس نے سر جھکا لیا
مطلب یہ ہے کہ جو سمجھدار ہیں وہ اوپر نہیں دیکھتے ان کو پتا ہوتا ہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے؟
وسوسہ اور حدیث نفس میں کیا فرق ہے؟:
نفس چاہے کہ ہو خواہش پوری
چاہے گناہ ہو یا ہو یہ ثواب
اور شیطان کی خواہش ہے یہ
کہ عاقبت ہماری ہو وے خراب
جو مسلسل رہے اور ختم نہ ہو
حدیث نفس ہے دبا دے اسے
بدل بدل کے برے خیال آئیں
وسوسہ ہے بس اسے چھوڑیں جناب
یعنی جو مسلسل، ایک خیالِ مسلسل آ رہا ہے وہ نفس کی بات ہے۔ نفس شرارت کر رہا ہے۔ بس اس کو دبا لیں، اس کے ساتھ مقابلہ کر لیں۔ اس کی نہ مانیں، اس کا علاج ہی یہی ہے۔ اگر بدل بدل کے خیال آتا ہے کبھی ایک آتا ہے، کبھی دوسرا، کبھی تیسرا، تو سمجھ لو کہ شیطان گڑ بڑ کر رہا ہے، یہ وسوسہ ہے لہذا اس پر غور نہ کرو اور آ گے بڑھو۔
اخلاص کیا ہے؟:
مل گئی اخلاص کی دولت اگر
ہو رہے اعمال اپنے پُر اثر
سب شریکوں سے ہے وہ بیزار جب
ہر عمل میں ہو فقط اس پر نظر
تواضع اور شکر:
ان کے قدموں میں آ کے پڑ جائیں
رفعتوں پر مزید چڑھ جائیں
شکر جب نعمتوں پہ حاصل ہو
نعمتیں اور مزید بڑھ جائیں
مصیبت میں رحمت:
جب مصائب کا دور آ جائے انا للہ تو بھی کہہ پائے
اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن بھی پڑھ، سایہ رحمت کا تجھ پہ چھا جائے
یہ نصِ قرآن سے ثابت ہے۔ جیسے: ﴿اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ 0 اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ﴾ (البقرۃ: 156:157)
کس کا ساتھ دیا جائے؟:
ساتھ کبھی نہ دو ظالمین کے ساتھ
جو کہ شر ہے اور مفسدین کے ساتھ
شان دنیا تجھے مرغوب نہ ہو
ارے خدا ہے صابرین کے ساتھ
مقامِ شکر:
ہم ایک پر فتن زمانے میں
کتنی مشکل ہے دین پہ آنے میں
کر دیا ہم کو اہل حق کے ساتھ
جو کہ مطلوب ہے اس کے پانے میں
یہ کتنی بڑی نعمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمائی ہے۔ ہم کس قابل ہیں، پتا نہیں کہاں پڑے ہوتے؟
آج کل کے حالات:
مایوسیوں کی فضا چھائی ہے
شمع امید کی ڈگمگائی ہے
بچا بجھنے سے اس ہوا سے
بجھانے واسطے جو آئی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ ہمیں مایوس کرنے کے لئے پروپیگنڈے کی جو ہوائیں چل رہی ہیں خود کو اس کا شکار نہ ہونے دیں۔ بالکل اس کی پرواہ نہ کریں۔
حسد نہیں کرنا:
نہ حسد کسی سے کرنا کہ یہ کیوں ہے مجھ سے آگے
یہ مجاہدہ ہے تیرا کر لے کیوں تو اس سے بھاگے
اسے دیکھ کے کَس لے تو بھی کمر اپنے کام میں ڈٹ جا
کر لے تکیہ رب پہ اٹھ جا کہ تیرے نصیب جاگے
بجائے اس کے کہ تو اس کے ساتھ حسد کرتا پھرے، کام کر۔ خواہ مخواہ حسد کرنے سے آپ کو کیا فائدہ؟ جلو گے تو مصیبت ہو گی۔
حیا
روشنی گر آنکھ میں حیا کی ہے
تو سمجھ یہ کہ دل میں پاکی ہے
بے حیا بن کے جو بھی چاہے کر
اس سے ہی نکلی ہوس ناکی ہے
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن