سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 100

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

سوال 1:

میں بہت کنفیوز ہوں کہ میں آپ کو یہ بات بتاؤں یا نہیں، لیکن اب میں چونکہ اس کو مزید برداشت نہیں کر سکتی اس لئے میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتی ہوں۔ پتا نہیں مجھ میں احساس کمتری آ رہا ہے اپنی ہی دوست سے، میں اس کے سامنے کچھ بھی کہنے سے گھبراتی ہوں، مجھے اس سے ڈر لگتا ہے، میں اب اس سے الگ بیٹھی ہوں، لیکن جب بھی وہ کلاس میں ہوتی ہے میرا سارا اعتماد گر جاتا ہے، میں بہت تنگ ہوں، میں بار بار خود کو سمجھا چکی ہوں، لیکن کچھ گھنٹوں بعد پھر سے اداسی ہو جاتی ہے، غصہ آ جاتا ہے، میں اس کو کچھ نہیں بتانا چاہتی کہ وہ hurt اور ناراض ہو جائے گی، میں اپنی پڑھائی پر توجہ نہیں دے پا رہی۔ مجھے لگتا ہے میں اس سے دبتی ہوں، میرا سارا ذہن اللہ کی بجائے اس کی طرف ہو گیا ہے۔

جواب:

بڑی پیاری اور سچی باتیں کی ہیں۔ اصل میں دو چیزیں ہیں، ایک کو تواضع کہتے ہیں اور ایک کو احساس کمتری کہتے ہیں۔ تواضع بہت اونچی صفت ہے، اللہ تعالی ہم سب کو نصیب فرمائے۔ اور احساس کمتری بہت بری بلا ہے، جس سے بڑا نقصان ہوتا ہے۔ یہ جو کچھ کہہ رہی ہے در اصل یہ احساس کمتری کی کچھ صورتیں بتا رہی ہے۔ کیونکہ تواضع اللہ جل شانہ کے جلال اور عظمت کے سامنے اپنے آپ کو ہیچ سمجھنے کو کہتے ہیں۔ یہ اس لئے اچھی صفت ہے کہ اس کی وجہ اللہ جل شانہ کی عظمت ہے۔ جب کہ احساسِ کمتری دنیاوی چیزوں کی اہمیت اور محبت کی وجہ ہوتا ہے۔ مثلاً کوئی زیادہ مالدار ہے تو اس کو دیکھ کر کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ کوئی زیادہ خوبصورت ہے تو اس کو دیکھ کر کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ کوئی زیادہ قابل ہے تو اس کو دیکھ کر کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ کوئی اونچے خاندان کا ہے تو اس کو دیکھ کر کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہو جائے۔ گویا جمال اور کمال کی مختلف صورتیں احساسِ کمتری کی وجہ ہو سکتی ہیں کہ اگر وہ کسی اور میں ہوں اور دوسرے میں نہ ہوں تو اس کی وجہ سے احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے۔ احساس کمتری کا علاج اس چیز کی ضد ہے جس کی وجہ سے احساس کمتری پیدا ہوتا ہے یعنی چیزوں کے ساتھ محبت۔ چونکہ دل میں چیزوں کی اہمیت کی وجہ سے احساس کمتری ہوتا ہے لہذا اگر چیزوں کی محبت اور اہمیت دل سے نکال لی جائے تو پھر خود بخود انسان نارمل ہو جائے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَۃ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213) ترجمہ: ’’دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے‘‘ لہذا جب تک دنیا کے ساتھ محبت ہو گی یہ چیزیں تو آئیں گی۔ اس وجہ سے ایسی صورت میں انسان کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے اور دل سے دنیا کی محبت کو نکالنا چاہیے، یہ سمجھانا چاہیے کہ کسی کے پاس ساری دنیا کی دولت بھی آ جائے لیکن اگر اس کے پاس ہدایت نہ ہو تو وہ ناکام ہے۔ اور دوسرا کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کے پاس دنیا کی کوئی چیز بھی نہیں ہے لیکن اگر وہ ہدایت پر ہے تو وہ کامیاب ہے۔ لہذا کیوں نہ ہم اس چیز کو حاصل کریں جو کامیابی کی ضمانت ہے، ہم اس چیز کے پیچھے کیوں بھاگیں جو ہمیں کامیابی نہیں دے سکتی۔ یہی وہ اصول ہے جس کے ذریعے سے انسان اپنے آپ کو سمجھا سکتا ہے۔ پھر ان شاء اللہ یہ صورت حال بدل جائے گی۔ چونکہ یہ معاملہ بچی کا ہے اس وجہ سے ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ خانقاہ میں آ جائے، کیونکہ اس کا اصل علاج یہی ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے گھر میں بیٹھ کے کچھ اعمال کر لے تو ان شاء اللہ اس سے فائدہ ہو گا۔ جو اذکار اس کے لئے بتائے جاتے ہیں وہ تو بتائے گئے ہیں جو ان شاء اللہ وہ کرے گی۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ کا ذکر آہستہ سے کرے۔ کیونکہ خواتین کو ہم جہری ذکر نہیں دیتے۔ لہذا دبی زبان سے ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ کہے اور ’’لَآ اِلٰهَ‘‘ کے ساتھ دنیا کی محبت کو دل سے نکالنے کی نیت کرے اور ’’إِلَّا اللهُ‘‘ کے ساتھ اللہ تعالی کی محبت کو دل میں لانے کی نیت کر لے۔ اور ابتدائی ایک ہفتے میں ایک ہزار مرتبہ روزانہ کر لیا کرے، پھر ایک ہفتے کے بعد مجھے بتا دے۔ ان شاء اللہ امید ہے کہ فائدہ ہو چکا ہو گا۔ ورنہ پھر جو مناسب صورت ہو گی وہ بتا دی جائے گی۔

سوال 2:

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!

I am sorry for troubling you again and I really feel ashamed to write to you about a problem quite small for others and you might probably laugh or get angry at me for troubling you with this. But for me, it has become a cause of great unhappiness and it has probably disturbed me very much. All my thinking, my prayers, dua, meditation and daily activities have been affected by it. More than a year back a cat was about to lay kittens and I agreed to give a kitten to one of our mates. Later, when the mate took away the kitten and the mother cat kept looking for it, I deeply regretted separating a kitten from its mother. I made توبہ and asked اللہ تعالیٰ to restore the child to its mother and الحمد للہ my dua was accepted and I was very happy when two days later the mate brought back the kitten saying it has been troubling them a lot. I thanked اللہ تعالیٰ and said that I would never separate child from its mother ever again. Now I don’t remember whether I made a promise or only a نیت but last year in December, I made a terrible mistake or committed the sin of separating a kitten from its mother myself and I feel like I am bearing its punishment even now. I was not able to resist the temptation and took away a six-weeks kitten and I felt undue love and affection for her. For three weeks I didn’t allow it to meet the mother because it was very cold outside. I really don’t understand how I could make this mistake. I always had so much love for animals and myself was against doing cruelty to animals. I don’t know what made me do this blunder and I am bearing the consequences till now. I realized my mistake after three weeks and I did restore her to her mother but because of lack of mother milk for three weeks, the kitten's immune system was probably affected badly due to which she became quite sick and suffered from oral infection which was followed by viral and then by fungal infection for last two months. I have spent all my time and tears tending her from all directions. I feel like I am being taunted for almost killing the cat. Each and every pain that she suffers makes me realize my mistake and cause of deep pain and sorrow which others can’t understand. If she dies in this condition, I won’t be able to forgive myself all of my life. I don’t know why I developed so much affection for her, so much that my daughter is jealous and feels that I love the kitten more and I am afraid others will become annoyed with me soon. I too feel that I am unduly concerned about the cat but I can’t throw her away in this condition. She is only three months old now and can’t even climb trees and I won’t be able to protect her. Now I am getting worried because all my prayers seem to have been affected. I am not able to concentrate even on the recitation of the Holy Quran. I don’t know if it is set on who has directed away my tension by causing undue affection or worry or if it is punishment from اللہ سبحانہ و تعالیٰ. I don’t want to go away from اللہ تعالیٰ in any condition.

جواب:

میرے خیال میں یہ سوال ذرا personal ہے۔ اس میں ایک بات ہے جو میں باقی لوگوں کے سامنے ان کا نام لیے بغیر بتا سکتا ہوں وہ یہ کہ واقعتًا کچھ جذباتی اور نفسیاتی کیفیات ہوتی ہیں جو باقی لوگوں کے لئے بہت نارمل سی ہوتی ہیں، لیکن ان لوگوں کے لئے کافی severe ہو سکتی ہیں جو ان کا شکار ہوتے ہیں۔ یقیناً اس severity کی بھی اصلاح ہونی چاہیے اور آئندہ کے لئے ایسی چیزوں سے سبق بھی لینا چاہیے، کیونکہ یہ چیزیں انسان کو کافی disturb کرتی ہیں، جیسا کہ انہوں نے ذکر کیا ہے کہ وہ کتنے پریشان ہیں۔ در اصل محبت ایک جذبہ ہے جو انسان کے دل میں کسی بھی چیز کے لئے ہو سکتا ہے۔ البتہ بعض جائز محبتیں ہوتی ہیں اور بعض نا جائز محبتیں ہوتی ہیں۔ یہ جو ان کو جانوروں کے ساتھ محبت ہے یہ جائز محبت ہے، بلیاں صحابہ نے بھی پالی ہیں، اسی وجہ سے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بہت بڑے صحابی ہیں، بہت بڑے محدث ہیں، ان کو ابو ہریرہ کہا جاتا تھا، ہریرہ بلی کو کہتے ہیں، ابوہریرہ کا معنیٰ ہے بلی کا باپ۔ اور یہ خطاب آپ ﷺ نے ان کو دیا تھا، چونکہ وہ بلی کو اپنے پاس رکھا کرتے تھے تو اس وجہ سے ان کا نام ابوہریرہ پڑ گیا۔ لہذا بلیوں کے ساتھ محبت کرنا یا ان کو کھانا کھلانا اور ان کو پالنا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگ چونکہ بنیادی طور پر اس کام کے لئے نہیں آئے ہیں، لہذا ہمارے بنیادی کاموں میں اس کی وجہ سے حرج نہیں ہونا چاہیے۔ اور علاج اس چیز کا ہے کہ اس کو کیا نقصان ہو رہا ہے۔ تو اس نے یہ کام چونکہ نیک نیتی کے ساتھ کیا ہے، لہذا اگر اس بچے کو نقصان ہوا تو اللہ پاک سے امید ہے کہ اس پر اس کی کوئی پکڑ نہیں ہو گی۔ کیونکہ اس نے اس کو نقصان دینے کا ارادہ نہیں کیا تھا، زیادہ سے زیادہ ہم اس کو بد انتظامی یا نا تجربہ کاری کہیں گے۔ اس وجہ سے آئندہ کے لئے میں یہ کہوں گا کہ وہ اس قسم کی چیزوں میں نہ پڑیں، کیونکہ وہ زیادہ sensitive ہے تو اس وقت کی جو تکلیف ہے اسے برداشت کر لے کہ ان کو ویسے دیکھے، لیکن ان کو اپنے پالنے کے لئے نہ علیحدہ کرے، تو یہ اس کے لئے زیادہ مناسب ہے کیونکہ بعد میں اس قسم کے مسائل اس کے ساتھ ہو سکتے ہیں۔ اور جو اس کے ساتھ ہو چکا ہے اس پر دل سے توبہ کر لے، دو رکعت صلوٰۃ الحاجت پڑھ لے اور آئندہ کے لئے ایسا نہ کرنے کا عہد کر لے۔ اور جو Mother cat ہے اس کو وہ کھانا کھلاتی رہے تاکہ اس کو جو تکلیف ہوئی ہے اس کی تلافی ہوتی رہے۔ کیونکہ امید تو ہے کہ شاید وہ بچہ بچ جائے۔ لیکن اگر اس کی موت ہوتی ہے تو اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی عمر ہی اتنی ہو گی، اور کسی دوسری وجہ سے بھی وہ جا سکتا تھا۔ تو چونکہ اس میں اس کا ارادہ نہیں تھا لہذا اس کو اتنا زیادہ سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ البتہ اس سے تجربہ حاصل کرنا چاہیے اور تجربہ یہ ہے کہ آئندہ کے لئے ان چیزوں میں نہ پڑیں اور اللہ تعالی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس سے خراب نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ وہ ذکر و اذکار کی طرف توجہ کرے، تو آہستہ آہستہ یہ چیزیں اس کے ذہن سے دُھل جائیں گی۔ تو علاج نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ اس سے بیماری بڑھ جائے گی۔ اور اپنے ذکر و اذکار کا سلسلہ جاری رکھے اور بلی کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے تو گذشتہ کے لئے توبہ کر لے اور آئندہ کے لے عہد کر لے اور اس بلی کو کچھ کھلاتی رہے تاکہ اس کی تلافی ہوتی رہے، کیونکہ جانوروں کے ساتھ یہی کچھ ہو سکتا ہے اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اور اس کو اپنے ذہن پہ اتنا زیادہ سیریس نہ لے۔

سوال 3:

کل ایک عجیب بات دل میں آ گئی، میں مارکیٹ سے گھر آ رہا تھا اور جہانگیرہ والی خانقاہ کا خیال آیا تو میں نے کچھ خدمت کی نیت کر لی، چند ہی لمحوں میں مجھے یاد آ گیا کہ جب کام شروع ہوا تو وہ تو مکہ معظمہ میں تھے اور فلاں نے فلاں کا پیغام پہنچایا تھا کہ خانقاہ کے لئے دعا فرمائیں۔ تو آپ نے حضرت حاجی صاحب کے بارے میں ہی بات کی تھی کہ ان کو بات سنائی تھی کہ آپ سے کسی نے کہا کہ آپ ہمارے دیوبند کے لئے بھی دعا فرمائیں۔ تو حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سجدے کر کر کے تو ہمارے ماتھے گھس گئے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارا دیوبند۔ اس بات کی یاد آتے ہی بات کھل گئی کہ اس خانقاہ اور دار العلوم میں بہت بڑی نسبت ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور بات یاد آنے سے واضح ہو گیا کہ ایک وقت تھا جب دارالعلوم دیوبند میں اساتذہ، شاگرد حتیٰ کہ خدمت پر مامور حضرات بھی صاحبِ نسبت تھے اور جہانگیرہ والی خانقاہ میں بھی الحمد للہ یہی ترتیب چل رہی ہے۔ آج اس دور کو واپس لانے کے لئے مدرسہ مسجد اور خانقاہ کے فیشن کے علاوہ کوئی اور تدبیر سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک اور بات کل چلتے ہوئے ذہن میں آ رہی تھی کہ اٹھتے بیٹھتے اللہ پاک کو یاد کرنے والوں کو عقلمند کہا گیا ہے۔ لیکن تعلیم و تصوف میں یاد کرنے کے ساتھ یاد رکھنے کی بھی تو بہت زیادہ تاکید کی جاتی ہے، بلکہ کئی دفعہ حضرت! آپ نے فرمایا ہے کہ علاجی ذکر میں جو مراقبات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ اگر زبان پر اللہ کا ذکر ہو تو دل میں بھی وہی چیز ہو، دل کہیں اور نہ ہو۔ میں نے سوچا کہ تشریح کے لئے آپ سے ہی درخواست کروں۔ آج صبح ایک مصرعہ ذہن میں آ گیا اور بات سمجھ میں آ گئی اور وہ مصرعہ یہ ہے: ’’دل کی دنیا ذکر سے آباد کر‘‘ یعنی جب آدمی اٹھتے بیٹھتے یاد کرنا سیکھ لے گا تو دل کی دنیا آباد کرنے کی بات بھی اس میں آ جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

جواب:

آپ اس کو کمنٹ کہہ سکتے ہیں، یہ ایک اچھا کمنٹ ہے۔ اصل میں جب انسان اللہ کے لئے سوچتا ہے تو اللہ کی طرف سے بہت ساری چیزیں کھلتی بھی ہیں، جو اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے تو میرے خیال میں اس بات کے ساتھ ہم سو فیصد اتفاق کر سکتے ہیں کہ آج کل مساجد، مدارس اور خانقاہوں کو آپس میں جوڑنے کی بڑی ضرورت ہے۔ چنانچہ اللہ کی طرف سے ہماری طرف قرآن و سنت کی جو روشنی بھیجی گئی ہے، مدارس میں اس کی تعلیم حاصل کی جاتی ہے، یعنی مدرسے سے ہم جان لیتے ہیں کہ کرنا کیا ہے۔ خانقاہ میں اس بات کی مشق کی جاتی ہے کہ وہ جو ہم جانتے ہیں اس کو ہم ماننا شروع کر لیں۔ کیونکہ اگر خانقاہ کے ساتھ تعلق نہیں ہو گا اور تربیت نہ ہو چکی ہو گی تو تعلیم تو ہو گی لیکن تربیت نہیں ہو گی۔ لہذا تعلیم پر عمل کا کما حقہ فائدہ اور موقع نہیں آئے گا۔ اس وجہ سے جتنے بھی اللہ والے گزرے ہیں انہوں نے علم بھی حاصل کیا ہے اور ساتھ ساتھ اپنی تربیت بھی کروائی ہے۔ لہذا دونوں چیزیں ہونے کی وجہ سے اللہ تعالی نے پھر ان کو چمکا دیا کہ ان کو اللہ جل شانہ نے ہی دین کے لئے استعمال کر دیا۔ آج اگر دیکھیں تو اکثر مدرسے کسی نہ کسی ولی اللہ کے نام سے موسوم ہیں۔ کوئی اشرفیہ ہے، کوئی مدنیہ ہے، کوئی رشیدیہ ہے، کوئی قاسمیہ ہے، کوئی زکریا ہے۔ تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ جل شانہ نے ان لوگوں کو اتنی بڑی نسبت عطا فرمائی کہ باقی لوگ اپنی اپنی فیلڈ میں ان سے فائدہ اٹھانے لگے۔ اور مسجد ہمارے مذہب کے اندر بہت اہم جگہ ہے، جہاں بھی مسلمان آباد ہوتے ہیں تو ان کا سب سے پہلا کام یہی ہوتا ہے کہ وہ وہاں پہ مسجد بنا دیں۔ آپ ﷺ نے بھی مدینہ منورہ میں پہلے مسجد بنائی تھی۔ لہذا مسجد کو بہت بڑا مقام اور بہت بڑی حیثیت حاصل ہے، یہ اللہ کا گھر ہوتا ہے۔ تو اللہ کے گھر میں انسان مامون ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ بہت اونچی جگہ ہے۔ تو مدرسے میں ہم لوگ عبادت سیکھیں گے اور خانقاہ میں اس پر عمل کرنا سیکھیں گے اور پھر مسجد میں وہ عمل کریں گے۔ لہذا یہ تینوں چیزیں اگر اکٹھی ہوں تو پھر بہت بڑا کام ہو گا۔ اس وجہ سے آج کل اکثر اکابر یہی کرتے ہیں کہ مسجد، خانقاہ اور مدرسہ تینوں اکٹھے بناتے ہیں۔ تو جہانگیرہ والی خانقاہ میں تینوں چیزیں اکٹھی ہوں گی انشاء اللہ۔ چونکہ وہاں جگہ ہمارے پاس کافی تھی۔ تو الحمد للہ وہاں مدرسہ بھی ہو گا، مسجد بھی بن رہی ہے اور خانقاہ بھی وہاں پر ہو گی۔ تو اس لحاظ سے ما شا اللہ یہ کافی بہتر جگہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس کو آباد فرمائے اور جس طرح ہمارا خیال ہے، اس کی توفیقات سے نوازے کہ اس پر عمل ہو جائے۔ اور یہ ہمارے لئے اللہ پاک کے تعلق کو حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہو گا ان شاء اللہ۔ اور انہوں نے یہ جو مصرع کہا ہےکہ: ’’دل کی دنیا ذکر سے آباد کر‘‘ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات مجھے یاد آ گئی کہ دل کی دنیا اگر ذکر سے آباد نہیں ہے تو پھر اس میں کچھ اور چیزیں آباد ہوں گی، یعنی اس میں دنیا کی چیزیں ہوں گی۔ حضرت اشاروں میں باتیں کیا کرتے تھے، کچھ چیزوں کو بلیاں کہتے تھے، کچھ کو چوہے کہتے تھے۔ تو فرماتے اگر اللہ نہیں ہو گا تو پھر بلیاں، چوہے ہوں گے۔ تو اس طرح دل کی دنیا آباد تو نہیں ہو گی، گندی ہو جائے گی۔ لہذا دل کی دنیا ذکر سے آباد کرنے سے مراد یہ ہے کہ دل میں جو دنیا کی محبت ہے، جو دل کی ویرانی ہے۔ اس ویرانی کو آپ تب دور کر سکتے ہیں کہ دنیا کو دل سے نکال دیں اور اس میں اللہ تعالی کی محبت کو لے آئیں۔ اور چونکہ اس کے لئے اصلاحی ذکر ذریعہ بنتا ہے، جیسے ابھی میں نے اس بچی کو ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہ‘‘ کا ذکر کا بتایا کہ وہ ہزار مرتبہ یہ ذکر کرے کہ ’’لَآ اِلٰهَ‘‘ کے ساتھ دنیا کی محبت کے دل سے نکلنے کی اور ’’إِلَّا الله‘‘ کے ساتھ اللہ پاک کی محبت کو لانے کی نیت کرے۔ تو اس سے ان شاء اللہ آہستہ آہستہ دل کی دنیا آباد ہو جائے گی۔ جب دل کی دنیا آباد ہو جائے گی تو پھر اللہ کے ساتھ تعلق ہو جائے گا، پھر اس میں اللہ پاک کی طرف سے ان شاء اللہ احکامات بھی آئیں گے، باتیں بھی آئیں گی اور اللہ پاک کی طرف سے ہدایت آئے گی۔ اور یہی دل کی آبادی ہے۔ اور کسی بھی شیخ سے سیکھ کر جو ذکر لیا جاتا ہے وہ دل کی آبادی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دل کی ایسی آبادی نصیب فرما دے۔

سوال 4:

بعد سلام مسنون و تحیات۔ حضرت جی آج کل پتا نہیں کیوں اعمال میں بہت سستی ہو رہی ہے، کسی عمل کو دل نہیں کرنا چاہتا۔ ذکر کا وقت بھی ہوتا ہے جب کرنے بیٹھتا ہوں تو طبیعت پہ بہت بوجھ پڑتا ہے اور میں ذکر چھوڑ دیتا ہوں۔ چلتے پھرتے استغفار، درود شریف پڑھتا رہا ہوں۔ مگر وقت مقرر کر کے ذکر نہیں ہو رہا۔ اس ماہ تو بالکل ہی اعمال نہیں ہوئے۔ شیطان معمولات کی شیٹ بھی نہیں بھرنے دے رہا دو تین وقت سے۔ مگر آج اللہ کی توفیق سے یہ ہو گیا کہ آپ کو معمولات کی شیٹ ای میل کر دی۔ خصوصی دعاؤں کی درخواست ہے۔

جواب:

در اصل میں بار ہا یہ بات کہہ چکا ہوں، لیکن شاید ان کو معلوم نہیں ہو گا کہ اصلاحی ذکر سے دل بنتا ہے، جیسے ابھی میں نے کہا کہ ’’دل کی دنیا ذکر سے آباد کر‘‘۔ گویا ذکر سے دل بنتا ہے اور نفس مجاہدے سے بنتا ہے۔ مجاہدہ اسے کہتے ہیں کہ کوئی نا گوار کام اللہ پاک کے لئے کرنا پڑ جائے۔ تو اس سے نفس کی اصلاح ہوتی ہے، کیونکہ اگر وہ ناگوار کام کرنے کے قابل ہو گیا تو گوارا کام کرنا اس کے لئے بہت آسان ہو جائے گا۔ جیسے کہتے ہیں کہ جو خراب گاڑی چلا لے تو ٹھیک گاڑی تو بہت اچھی چلائے گا۔ کیونکہ ٹھیک گاڑی چلانا جس کی عادت ہو گی تو خراب گاڑی پر تو وہ دل ہار بیٹھے گا۔ یہی وجہ ہے کہ خراب گاڑی پر اگر کوئی ڈرائیونگ سیکھے تو اچھی گاڑی چلانا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح وہ حالت کہ جب ذکر کرنے کو دل بالکل نہیں چاہتا تو اس کو اپنے لئے ایک نعمت سمجھیں، اس طرح کہ جیسے لوگ کہتے ہیں ایک ٹکٹ میں دو مزے۔ تو یہاں ایک ٹکٹ میں دو مزے ہیں کہ انسان ذکر کرتا ہے تو دل بھی بنے گا کیونکہ ذکر کر رہا ہے اور چونکہ نفس کے لئے ناگوار ہے، نفس اس کو گوارا نہیں کر رہا تو نفس کے اوپر ایک جبر کیا جا رہا ہے اور یہ چونکہ اللہ کے لئے ہے، لہذا نفس کی بھی اصلاح ہو گی۔ تو اگر ایک چیز میں دونوں کی اصلاح ہو گی تو اور کیا چاہتے ہو۔ لہذا جس صاحب کا یہ خط ہے وہ روزانہ بیٹھ کر اپنی اصلاح کی نیت سے یہ تصور کر لے کہ پوری عمر بھی اگر مجھے اس طرح نا گواری ہو گی اور میرے لئے آسان نہیں ہو گا تو بھی میں کرتا جاؤں گا۔ یہی میرے لئے اللہ پاک کو راضی کرنے کا بہت بڑا وسیلہ ہے۔ لہذا وہ اس کو کرتا رہے۔ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں اس کے لئے ذکر کرنا آسان بھی ہو جائے گا اور اور یہ ذکر دل کے صاف کرنے کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔

سوال 5:

I hope you are in the best of your health. I wanted to tell you that I am seeing a negative difference in my spiritual life. My نماز has become very irregular and so is my daily تسبیحات. When you came to our place, I was very happy and excited. You asked me to start مراقبہ but somehow, I have not been able to do it. I feel very disconnected from my good self. I feel that these days I don’t have good communication with my inner self which is why I feel disconnected from اللہ as well. Please guide me. I am stressed because of my forgetfulness. My days are spent in the thoughts of what to cook for breakfast, then lunch, then dinner. It seems to me that this is the only activity left in my life. I am stressed. Kindly write a piece of advice for me.

جواب:

ایک خاتون نے اپنے احوال یہ لکھے ہیں۔ اور خواتین کے ساتھ یہ چیز ہوتی ہے۔ بالخصوص working ladies کے ساتھ یہ چیز زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا میں کسی بھی آرام کو حاصل کرنے کے لئے کچھ بے آرامی برداشت کرنی ہوتی ہے It is fact. یہاں ہمارے معاشرے میں بھی یہی صورت حال ہے کہ Working ladies بے چاری دو طرف سے پس رہی ہوتی ہیں۔ کیونکہ عورت ہونا ان کو ان تمام activities کو کرنے پہ مجبور کرتا ہے جو گھریلو خواتین کرتی ہیں اور مردوں کی طرح وہ کام پہ بھی جاتی ہیں، نتیجتًا مرد تو گھر میں آ کر تھوڑا relax کر لے گا، کیونکہ سمجھے گا کہ میری ڈیوٹی ختم ہو گئی ہے میری بیوی کی ڈیوٹی شروع ہو گئی ہے۔ لیکن بیوی اگر Working lady ہو تو اس کے لئے بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ گویا یہ مسائل تو ہیں۔ اب ان مسائل کے اندر کیا کیا جائے؟ تو اس کے دو طریقے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں جیسے اگر ہائیڈروجن کے غبارے کے ساتھ ایک چھوٹا سا پتھر باندھا جائے تو جتنا غبارے کا سائز آپ بڑا کرتے جائیں گے وہ اتنے بڑے پتھر کو بھی اٹھا کے لے جا سکے گا اور ایک پوائنٹ پر یہ بیلنس بھی ہو سکتا ہے کہ جتنا اس کا lift ہے اتنی ہی اس کی gravity ہو لہذا غبارہ ایک جگہ پر کھڑا ہو جائے۔ اگر lift زیادہ ہے تو یہ اوپر کو جائے گا۔ اگر gravity زیادہ ہے تو نیچے کو آئے گا۔ تو غبارے کو بہت زیادہ اونچا اڑانے کے لئے دو طریقے ممکن ہیں، یا lift بڑھا دو یا gravity کم کر دو۔ اگر lift بڑھا دیا اور gravity بھی کم کر دی پھر تو زبردست نُورٌ عَلٰی نُورٍٍ والی بات ہو جائے گی پھر وہ اور زیادہ پروان چڑھے گا۔ اسی طرح اس خاتون کی جو گھریلو activities ہیں، ان کو کم کر کے بھی ان کو relax کیا جا سکتا ہے اور Spiritual dose بڑھا کر اس کی اس چیز کو بھی کم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ اوپر جائے گی تو اس کی یہ gravity کم ہو گی جو اس کو کھینچ رہی ہے، اور جتنی تکلیف ہو گی وہ مجاہدہ ہو گا اور مجاہدہ سے ما شاء اللہ اس کے نفس کی اصلاح بھی ہو گی۔ اس وجہ سے میں کہوں گا کہ وہ اس صورت میں ذکر و اذکار کو sacrifice نہ کرے، کیونکہ یہ اس کا علاج بھی ہے، لہذا ذکر و اذکار وہ کسی نہ کسی طریقے سے کر لے۔ البتہ میں اس کو اتنی اجازت دے سکتا ہوں کہ وہ تسبیحات کو چلتے پھرتے کر لیا کرے، مثلاً اگر یونیورسٹی جا رہی ہے تو چلتے پھرتے، آتے جاتے تسبیحات کر لے۔ جو لوگ سن رہے ہیں ان کے لئے میں یہ نہیں کہہ رہا بلکہ اس خاتون کے لئے کہ رہا ہوں۔ کیونکہ ان کی تو Particular condition ہے، ایسا نہ ہو کہ سارے سننے والے کہیں کہ سبحان اللہ چھٹی مل گئی، اب سب اس طرح کریں گے۔ لہذا اس کو جو مجاہدے کے ذریعے سے ملے گا وہ کسی اور کو نہیں ملے گا، اس کا compensation تو ہے۔ آپ کی کہاں سے compensation ہو گی؟ چنانچہ ہر چیز کے لئے الگ dose ہوتی ہے، بہر حال وہ تسبیحات تو آتے جاتے بس وغیرہ میں میں کرے، اور مراقبہ اس طرح کر لے کہ اگر اس کو دن میں پانچ منٹ ملتے ہیں تو پانچ منٹ کر لے، پھر اگر دو گھنٹے کے بعد اس کو پانچ منٹ ملتے ہیں تو پھر کر لے، لہذا وقفے وقفے سے کرتی رہے۔ اس کو اپنا کام سمجھے۔ تھوڑا سا وقت بھی ملے تو مراقبے کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اس سے ان شاء اللہ العزیز اس کا چینل کھل جائے گا اور پھر مجھ سے رابطہ کر لے کہ کیسے ہوا ہے تو پھر جو کچھ ہو گا وہ ان شاء اللہ عرض کر دیا جائے گا۔

سوال 6:

میں نے آپ سے اجازت لینی ہے کہ کیا میں ریکی سیکھ لوں؟ پھر میں یہ سوچتی ہوں کہ میرے اندر تو پرابلم ہے، میں کیسے ٹھیک طرح سے کر سکتی ہوں۔ میں کیا کروں؟

جواب:

ریکی اپنی ذہنی قوت کو استعمال کرنے کے ذریعے سے کوئی طریقہ علاج ہے۔ اصل میں اس علاج کے ساتھ اس کے کچھ effects بھی ہوتے ہیں کیونکہ جب آپ کسی کی Inner being کے ساتھ کنکشن جوڑتے ہیں تو آپ اس کے لئے expose ہو جاتے ہیں جیسے وہ آپ کے لئے expose ہوتا ہے، نتیجتاً اس کی condition آپ کو متاثر کر سکتی ہے۔ تو اگر کوئی بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہو اور اس کا کوئی اور کام نہ ہو تو اس کو تو ہم اجازت دے سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ صورت حال بچی کی ہے اور student بھی ہے تو ایسی condition میں ان کے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ ریکی سیکھے گی تو سیکھ تو لے گی لیکن جب اس کو کرے گی تو اس کو جو دوسروں کے effects ملیں گے ان کو وہ کنڑول نہیں کر سکے گی۔ نتیجتًا اس کو نقصان ہو گا، اعصابی کمزوری بھی آ سکتی ہے اور ساتھ ساتھ کچھ Spiritual problems بھی ہوں گے۔ اس وجہ سے میں نے ان کو جواب دیا ہے کہ آپ نہ کریں۔

سوال 7:

حضرت اگر Science subjects میں سٹوڈنٹس کو مسلسل نا کامی کا سامنا ہے تو وہ آرٹس کی طرف جا سکتے ہیں؟

جواپ:

بڑا اچھا سوال ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر سائنس کے subjects میں کسی کی مسلسل failure آ رہی ہو یعنی اس کو نہ کر پا رہا ہو تو کیا وہ arts کے subjects لینا شروع کر لے؟ یعنی جو ٹائم درمیان میں گزر گیا ہے اس کا تھوڑا سا نقصان برداشت کر لے اور پرائیویٹ طریقے سے یا کسی اور طریقے سے اپنے Arts subjects لے سکتے ہیں؟ یہ ایک عملی سوال ہے، تھوڑی سی پریشانی ہے کسی کو، اس وجہ سے یہ پوچھنا بھی ٹھیک ہے اور بہت درد مندی کے ساتھ اس کا جواب دینا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ practical مسئلہ ہے۔ در اصل دنیا میں نہ سائنس مقصود ہے نہ آرٹس مقصود ہے، اصل تو اللہ پاک کو راضی کرنا مقصود ہے، دنیا میں ہم نے زندگی گزارنی ہے۔ گزارنی اس لئے ہے کہ دنیا اعمال کا گھر ہے یعنی اعمال ہم دنیا میں ہی کر سکتے ہیں آخرت میں اعمال نہیں ہوں گے۔ لہٰذا اس کے لئے زندگی بھی چاہیے، اس کے لئے قوت بھی چاہیے اور اس کے لئے وقت بھی چاہیے۔ اس لئے بلا وجہ اپنے آپ کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اگر کوئی کر سکتا ہے تو بہت اچھی بات ہے سائنس کر لے، آرٹس کر لے، میڈیکل کر لے، انجینئرنگ کر لے، جو کچھ بھی کرنا چاہتا ہے کر لے، سارے آپشن دستیاب ہیں۔ لیکن کسی وجہ سے ایک practical مسئلہ ہے کیونکہ سارے لوگوں کو اللہ پاک نے سائنس کے لئے نہیں بنایا۔ جس طرح سارے لوگوں کو آرٹس کے لئے نہیں بنایا۔ آرٹس میں بھی تو God gifted چیزیں ہوتی ہیں۔ کوئی بڑا اچھا شاعر ہوتا ہے، کوئی بڑا اچھا ادیب ہوتا ہے، کوئی بڑا اچھا narrator ہوتا ہے، اسی طرح آرٹس کے دوسرے مضامین ہیں، کوئی ان میں اچھا ہو سکتا ہے۔ اب اگر اللہ پاک نے کسی کو آرٹس میں کچھ صلاحیتیں دی ہیں تو وہ ان کو استعمال کر لے اور آرٹس میں محنت بھی نسبتاً سائنس کے مقابلے میں کم کرنی پڑتی ہے۔ ہاں البتہ اگر وہ آرٹس کا ایسا مضمون لے رہا ہے جو اس کے لئے بنا نہ ہو تو پھر اس کے لئے وہ بھی مشکل ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت میں ہم لوگوں کو realistic فیصلہ کرنا ہو گا، اپنے وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ جیسے فارسی کی ایک ضرب المثل ہے کہ ’’ہر کہ دانا کند، کند ناداں، لیک بعد از خرابی بسیار‘‘ یعنی جو دانا کرتا تو نادان بھی وہی کرتا ہے لیکن بہت ساری خرابی اٹھانے کے بعد۔ لہذا جو فیصلہ دو تین سال بعد کرنا ہے ابھی سے کیوں نہ کیا جائے؟ اس وجہ سے اگر وہ justified ہے اور آرٹس کے بعض مضامین جو اس کے لئے useful ہیں اور وہ کر سکتا ہے، اپنے آپ کو جج کر لے۔ تو اس وقت پر یہ تبدیلی زیادہ موثر ہے کیونکہ مزید وقت اس پہ ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ سائنس میں competition زیادہ ہوتا ہے، اب اگر کسی نے پاس تو کر لیا لیکن وہ اس زون میں نہیں آیا جو Reputation point of view کے لئے ضرورت ہے تو چل نہیں سکے گا۔ بہت سارے سائنس کے سٹوڈنٹ ہیں جو ایسے ہی پھر رہے ہیں، ان کو job نہیں مل رہی۔ تو اب ان کی سائنس کا کیا کیا جائے؟ چنانچہ Science is not 100% guarantee for success and arts is also not 100% guarantee of failure۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ سائنس والے محنت زیادہ کرتے ہیں جب کہ آرٹس والے حکومت کرتے ہیں۔ کتنے secretaries ہیں جو سائنس دان ہیں؟ کتنے وزیر ہیں جو سائنس دان ہیں؟ کتنے ایم ڈیز ہیں جو سائنس دان ہیں؟ یہ تو بس اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے اللہ پاک چلانے کے لئے لوگوں کے دلوں میں سائنس کی خواہش ڈال دیتے ہیں۔ ورنہ یقینی بات ہے کہ مزے تو آرٹس والے کر رہے ہیں۔ پشتو میں ایم اے، اردو میں ایم اے اور فارسی میں ایم اے کرنے والے جو کالج میں پڑھاتے تھے تو میں ان پہ رشک کرتا تھا کہ کمال ہے، پاس ہونے میں محنت بھی کم کی اور تنخواہ بھی ہمارے برابر لے رہے ہیں، اور اب بھی محنت کی اتنی ضرورت نہیں ہے، ان کے لئے تو class enjoyment ہے۔ کیونکہ آرٹس کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہی اس کی طرف آ جائے گا جو اس کو پسند ہے اور جو اس کے لئے hobby ہے۔ مثال کے طور پر مجھے اگر شاعری پہ ٹیچر لگا دیا جائے تو میرے لئے وہ enjoyment ہو گی۔ اپنے subject کی تیاری کے لئے تو مجھے کافی محنت کرنی پڑتی ہے، لیکن اس کے لئے مجھے کوئی محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ بلکہ سننے والے بھی مل گئے۔ اس لئے وہ تو ایک تفریح والی بات ہو گی۔ لہذا ان realistic چیزوں پہ اگر غور کیا جائے اور انسان احساسِ کمتری میں مبتلا نہ ہو تو میرے خیال میں Realistic situation یہی ہے کہ جو نقصان بڑھ رہا ہے اس نقصان کو کم سے کم کرنے کے لئے وقت پر صحیح فیصلہ کر لینا مناسب ہے۔

سوال 8:

دل میں بعض ایسے برے اعمال کی خواہش ہوتی ہے جو انسان ابھی تک نہیں کر پاتا تو کیا ان پر بھی گرفت ہے؟ کیونکہ اس نے وہ کیا ہی نہیں ہے، صرف وساوس کی حد تک ہیں۔ لیکن دنیا اور مال کی محبت تو بندے کے ذہن میں مستقل رہتی ہے تو کیا ان کی وجہ سے بھی انسان گرفت میں آ سکتا ہے؟ کیونکہ وہ انسان کو دوسری مصیبتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں جیسے وہ حسد یا بغض کی کیفیت شروع کر لیتا ہے۔

جواب:

زہر آپ کے پاس پڑی ہوئی ہے جب تک آپ اس کو کھائیں گے نہیں تو آپ کو نقصان نہیں ہے۔ لیکن پاس پڑے ہونے سے یہ ہو سکتا ہے کہ اگر وہ بہت زیادہ مؤثر زہر ہو تو کبھی ہوا بھی آ سکتی ہے اور ہوا کے ساتھ اڑ کر بھی ناک میں بھی جا سکتی ہے، منہ میں بھی جا سکتی ہے اور نقصان ہو سکتا ہے۔ اس وجہ سے پاس رکھنا خطرناک ہے۔ اسی طرح اگر دنیا کی محبت ہے لیکن وہ اس سے متاثر نہیں ہو رہا اور اس سے اپنے آپ کو بچا رہا ہے تو اس کے نقصان سے وہ بچا ہوا ہے، لیکن Risk element ہے، اس سے اس کو نقصان ہو سکتا ہے۔ یہ تو ہو گیا منفی کو ختم کرنے کے لئے۔ اور اللہ جل شانہ کی محبت plus ہے۔ جب تک دنیا کی محبت دل میں ہو گی اللہ کی محبت نہیں ہو گی۔ لہذا اس plus سے تو محروم ہو گا۔ اس plus کو لانے کے لئے اس minus کو دور کرنا ضروری ہے۔ اس لحاظ سے اس پر محنت ہونی چاہیے کہ دنیا کی محبت نکل جائے۔ لیکن جب تک نہیں نکلی تو اس کے تقاضے پر عمل نہ کرے تو نقصان نہیں ہو گا۔ لیکن وہ plus والی چیز حاصل نہیں ہو گی۔ لہٰذا اس plus کو حاصل کرنے کے لئے اس zero پہ آنا ضروری ہے۔ لیکن جب تک zero نہیں ہے تو اس minus کے تقاضے پہ عمل نہ کرے تو کم از کم گناہ اس کو نہیں ہو گا البتہ مجاہدہ ہو گا۔

سوال 9:

استقامت کے حصول کے لئے کیا کیا جائے؟

جواب:

استقامت کی تعریف یہ ہے کہ مسلسل کسی چیز کو ہمت کے ساتھ کرنا۔ مثلاً آپ بیسویں منزل سے اتر رہے تھے کہ shed کے ساتھ آپ نے اپنے آپ کو بچایا ورنہ آپ گر رہے تھے، تو کیا خیال ہے کتنے سیکنڈ آرام کر سکتے ہیں؟ چنانچہ جب آپ کو یہ پتا چل جائے کہ میں بیسویں منزل سے گر جاؤں گا اور پھر میرا کیا حشر ہو گا تو آپ کو استقامت پہ خود لائے گا، آپ کی 100% انرجی اس میں utilize ہو جائے گی۔ گویا اُس چیز کی اہمیت کو ذہن میں لانا بنیادی چیز ہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ جب مومن کفر میں جانے سے ایسا ڈرنے لگے کہ جیسے کوئی آگ میں پڑنے سے ڈرتا ہو تو استقامت نصیب ہوتی ہے۔ تو اللہ جل شانہ کی طرف سے جو وعیدیں ہیں ان کو ذہن میں لانا چاہیے، آپ ﷺ کے دو نام بشیر اور نذیر بھی تھے۔ بشیر کا معنیٰ ہے بشارت دینے والے، اور نذیر کا معنیٰ ہے ڈرانے والے۔ لہذا وعید کی ان باتوں کو اپنے سامنے لایا جائے کہ اگر میں نماز نہیں پڑھوں گا تو کیا ہو گا؟ روزہ نہیں رکھوں گا تو کیا ہو گا؟ زکوۃ نہیں دوں گا تو کیا ہو گا؟ حج نہیں کروں گا تو کیا ہو گا؟ والدین کے حکم پہ عمل نہیں کروں گا تو کیا ہو گا؟ استاذوں کی بات پر عمل نہیں کروں گا تو کیا ہو گا؟ شیخ کی بات نہیں مانوں گا تو کیا ہو گا؟ ان سب چیزوں کو جان لے اور پھر مان لے۔ اس کے بعد اس کے لئے استقامت خود بخود آسان ہو جائے گی۔ کیونکہ اس کا دار و مدار اس پے ہے کہ آپ کو پتا چل جائے گا کہ میرے ساتھ کیا ہو سکتا ہے۔ لہذا جتنا آپ کا یہ یقین مضبوط ہو گا اتنی ہی استقامت آسان ہو گی۔ اور ماحول یعنی صحبتِ صالحین کی ضرورت و اہمیت ہم جانتے ہیں کہ وہ کتنی ضروری ہے۔

سوال 10:

شیخ سے محبت کا بہترین اظہار کا طریقہ کیا ہے؟

جواب:

کہتے ہیں: ’’محبت تجھ کو آدابِ محبت خود سکھادے گی‘‘ لہذا اگر محبت ہو جائے تو وہ آداب خود سکھا دیتی ہے کہ مجھے اس وقت کیا کرنا چاہیے۔ محبت میں یہ ہوتا ہے کہ انسان جس سے محبت رکھتا ہے اس سے دور نہیں رہنا چاہتا، اس کو خفا نہیں دیکھنا چاہتا، اس کو تکلیف نہیں دینا چاہتا، اس کو lose نہیں کرنا چاہتا۔ جب یہ ذہن میں ہو گا تو اس کی ہر ادا سے یہ چیز ظاہر ہو گی۔ بناوٹی محبت کی میں نے بات نہیں کی، وہ تو دنیا میں بہت ہے۔ جیسے آپ Departmental store میں چلے جائیں اور جاتے ہوئے السلام علیکم کہیں تو دیکھیں کہ وہ آپ کو سلام کا جواب کیسے دیتے ہیں اور پھر جب بغیر کسی خریداری کے واپس آ جائیں اور تب السلام علیکم کہیں تو پھر دیکھیں کہ کیسے جواب دیتے ہیں۔ ان دونوں صورتوں میں پتا چل جائے گا کہ محبت کی اصل کتنی تھی، اصل value کیا تھی۔ لہذا کاروباری محبت یا بناوٹی محبت کی میں بات نہیں کر رہا۔ جن کو صحیح محبت ہے تو اس کے پھر کچھ Side effects ہیں اور کچھ Main effects ہیں۔ Side effect یہ ہے کہ جیسے صحابہ کرام کرتے تھے، کبھی کبھی آ جاتے تھے صرف دیکھ کر چلے جاتے تھے، اگر دیکھا نہیں ہوتا تو آرام نہیں آتا تھا یہ Side effects ہیں۔ لیکن Main effects یہ ہیں کہ آپ ﷺ کی ہر ادا پہ قربان ہوتے تھے۔ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ کوئی بات آپ ﷺ نے فرمائی ہو اور وہ اس کو چھوڑ دیں، وہ ان کے لئے دنیا و مافیہا سے بڑی چیز ہوتی تھی۔ Main effects تو یہی ہیں۔ لیکن Side effects بھی اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ Side effects میں variation بہت زیادہ ہے۔ Main effects تو ان سب میں ہوتے ہیں جن کو صحیح محبت ہوتی ہے۔ لیکن Side effects ہر ایک کے اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے اوپر کنٹرول کر لیتے ہیں اور Side effects کو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ لیکن ان کے دل کے اندر اندر ہوتے ہیں، کچھ لوگ کمزور ہوتے ہیں ان کے Side effects ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں مزید تفصیلات میں جانا مناسب نہیں ہے۔

سوال 11:

حاجی محمد امین صاحب کے بچے آپ ﷺ کے بال مبارک کی زیارت کب کراتے ہیں؟

جواب:

مجھے اس وقت تو علم نہیں ہے کہ کب ہو سکتی ہے، لیکن پہلے مئی میں ہوتی تھی، ان کا ٹیلیفون نمبر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی مہینوں کے لحاظ سے پہلے رجب کے مہینے میں ہوتا تھا، پھر کچھ عرصہ شعبان میں ایک آدھ دفعہ ہوا۔ اس وقت مجھے معلوم نہیں کہ آج کل کون سے مہینے میں کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ کچھ مسئلہ بھی ہوا تھا۔

البتہ موئے مبارک اور جگہوں پر بھی موجود ہے اور شاید نسبتاً آسانی کے ساتھ اس کی زیارت ہو جائے۔ لیکن اس کی زیارت کو جانے کے لئے بھی اہتمام تو کرنا پڑے گا۔ جامعہ اشرفیہ میں بھی موئے مبارک ہے اور جامعہ مدنیہ لاہور میں بھی ہے۔ اور اللہ کا شکر ہے کہ دونوں جگہ اللہ پاک نے مجھے دیدار نصیب فرمایا تھا بغیر کسی کوشش کے۔ ’’فہم الفلکیات‘‘ کتاب جب چھپی تو میں جامعہ اشرفیہ میں مولانا عبدالرحمن اشرفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ کتاب پیش کرنے کے لئے گیا تھا، وہ بہت مہربان شخص تھے، بڑے خوش ہوئے، بٹھا لیا، چائے پلائی اور پھر اچانک یہ خوشخبری سنائی کہ الحمد للہ ہمارے پاس موئے مبارک آیا ہوا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ کو اس کی زیارت کراؤں۔ ہم نے کہا اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی۔ مفتی ظہیر صاحب بھی میرے ساتھ تھے، تو پھر حضرت موئے مبارک ہمارے پاس لائے اور طریقہ بھی بتایا کہ کیسے اس کی زیارت کرنی چاہیے۔ پھر دوسری دفعہ جامعہ مدنیہ لاہور میں، میں میراث کا کورس کرا رہا تھا تو حامد میاں صاحب کے چھوٹے بیٹے جو اب فوت ہو گئے ہیں، آخری دن جب واپس میں آنے والا تھا تو ان سے میری ملاقات ہوئی، ان کو بڑی مناسبت سی محسوس ہو گئی، کافی دیر میرے ساتھ بیٹھے رہے اور بات چیت ہوتی رہی، اپنی باتیں بتاتے رہے، مجھ سے بھی سنتے رہے۔ پھر اخیر میں اچانک انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب کے پاس موئے مبارک تھے، حضرت اس کا دیدار کراتے تھے، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس کا دیدار کرا سکتا ہوں۔ میں نے کہا: اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔ پھر انہوں نے طریقہ بھی بتایا اور ما شاء اللہ پھر لے آئے۔ بہر حال یہ بہت بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ تو ان دونوں مدرسوں سے میں معلوم کر کے پھر بتا سکتا ہوں، پھر ان کے لئے کوئی پروگرام بنا لیں گے کہ سارے ساتھی اکٹھے چلے جائیں اور اس کی زیارت ہو جائے۔ وہ تو شاید با قاعدہ اس کے لئے کوئی پروگرام نہیں کرتے۔ لہذا جو ممکن ہوتا ہے پھر کر لیتے ہیں۔ لیکن معلومات کر کے ہی آدمی جا سکتا ہے۔ موئے مبارک پر مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے جو حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک خاندان میں جب میراث تقسیم ہو رہی تھی تو اس میں ایک موئے مبارک بھی تھا تو وہ دو بھائی تھے، ان میں جائیداد تقسیم ہو رہی تھی، تو بڑا بھائی چاہتا تھا کہ موئے مبارک بھی تقسیم ہو جائے، آدھا وہ لے لے اور آدھا میں لے لوں۔ چھوٹے بھائی کو اللہ پاک نے دل بڑا دیا تھا، محبت بھی دی، انہوں نے کہا یہ تقسیم کرنا مناسب نہیں ہے، بال ٹوٹے گا۔ اگر آپ ایک تجویز قبول فرما لیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔ اس نے کہا کیا؟ اس نے کہا: آپ میری ساری جائیداد لے لیں جو میرے حصے میں آ رہی ہے اور یہ بال مبارک پورا مجھے دے دیں۔ بڑے بھائی کو اس چیز کا اتنا زیادہ احساس نہیں تھا، تو وہ مان گئے۔ لہذا چھوٹے بھائی نے پوری جائیداد اس کو دے دی اور موئے مبارک لے لیا۔ وہ اس کو کبھی عطر میں رکھتے، کبھی پیار کے ساتھ چومتے اور درود شریف پڑھتے۔ وہ ان کے لئے بہت بڑی بات تھی۔ خدا کی شان کہ کچھ ہی عرصے میں اللہ جل شانہ کی حکمت ظاہر ہو گئی اور بڑے بھائی کی جائیداد تلف ہونے لگی اور اس چھوٹے بھائی کے مال میں اللہ پاک نے برکت ڈالنی شروع کر دی، تو یہ مالدار ہوتے گئے اور وہ غریب ہوتے گئے حتی کہ کچھ ہی دنوں میں معاملہ reverse ہو گیا اور یہ اس کی طرح مالدار ہو گئے اور وہ بالکل اس کی طرح غریب ہو گئے۔ اور پھر اللہ پاک نے دین بھی بڑا دیا کہ ان کو اپنا تعلق بھی نصیب فرما دیا، نتیجتاً لوگ ان کی خدمت میں آتے تھے اور ان سے فیض لیتے تھے۔ پھر غالباً ان کے بڑے بھائی کو خواب آیا اور اس میں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا تھا کہ تم نے جو نا قدری کی ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔ اب اگر تم بچنا چاہتے ہو تو صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اپنے لائق اور چھوٹے بھائی کی خدمت میں لگ جاؤ، پھر ہی تم بچ سکتے ہو۔ یوں وہ ان کی خدمت میں لگ گئے اور ان کے خادموں میں شامل ہو گئے۔ لہذا آپ ﷺ کی محبت بہت بڑی چیز ہے۔

سوال 12:

حضرت یہ جو حدیث میں آیا ہے کہ حرام کھانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ لیکن بعض دفعہ آدمی کو ایسے میں حرام کھلا دیا جاتا ہے کہ اسے پتا بھی نہیں چلتا۔ اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب:

گناہ تو اس کا نہیں ہو گا، اس کا اثر ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ نہیں کہ اس کی دعا قبول نہیں ہو گی، بلکہ اس کے اور اثرات بھی ہیں۔ جیسے غلطی سے کوئی زہر کھا لے تو اس کا اثر تو ہو گا۔ یہ بات اس سے ثابت ہوتی ہے کہ جیسے حجاج بن یوسف نے یہ کیا تھا کہ جو نیک اور مستجاب الدعوات حضرات تھے، حرام کمائی سے ان کی دعوت کی اور پھر کہا کہ اب میں تمہاری بد دعا سے محفوظ ہو گیا ہوں۔ کیونکہ اب تمہاری بد دعا قبول نہیں ہو گی۔ اس وجہ سے اس چیز سے محتاط رہنا چاہیے۔

چونکہ ہم نے آج آپ ﷺ کے موئے مبارک کے بارے میں بات کی ہے، تو اسی کے ساتھ ایک نعت شریف بھی پڑھتے ہیں۔

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندي

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندي

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

دے بشر خو خدائے نه پس د دوي نه څوک اوچت نشته

هر څهٔ نوراني لري بيان ته يې حاجت نشته-

نهٔ راځي ثاني بل مخلوق کښې پهٔ نظر باندي

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندي

شه هر څه قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

کله ځهٔ تعريف دَ داسي لوئې هستۍ کولې شم

څنګه چې ئې حق دے هغه سنګه بيانولې شم

سترګې چې اودريګي نو اودريګي دغه در باندي

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندي

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندي

دے پهٔ حقيقت کښې اولين خو آخرين راغلو

دا دَ امت فخر ورته داسې چې نيازبين راغلو

دے ئې نبوت تا قيامته ټول بحر وبر باندې

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندې

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

زياته مينه دوي سره کول دي دَ ايمان حصه

مونږ باندې لازمه اتباع ده دَ قرآن حصه

نهٔ شو مونږ اخته بيا دَ شيطان پهٔ څهٔ چکر باندې

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندې

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

استوؤ تحفې دَ دُرودونو هميشه ورته

هم دَ زړه دَ خلاصه سلامونو هميشه ورته

کړه عمل شبيره دَ الله پهٔ دې امر باندې

شه هر څه قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

وي دے سلامونه پهٔ بيا بيا نبي سرور باندې

شه هر څهٔ قربان زمونږ بيا بيا خير البشر باندې

ترجمہ:

ہم بار بار آپ ﷺ پر سلام بھیجا کریں اور ہماری ہر چیز خیر البشر پر قربان ہو جائے، یقینا آپ ﷺ بشر ہیں، لیکن خدا کے بعد ان سے زیادہ اونچا کوئی نہیں ہے۔ ہر چیز ان کی نورانی ہے، اس کے بیان کے لئے حاجت نہیں ہے اور ساری مخلوق میں ان کا کوئی ثانی نظر نہیں آ رہا، میں کیسے اتنی بڑی ہستی کی تعریف کر سکتا ہوں، جس طرح اس کا حق ہے میں کیسے وہ بیان کر سکتا ہوں، آنکھیں اگر کسی در پر ٹھہر سکتی ہیں تو وہ یہی ایک در ہے اور کوئی در نہیں ہے، حقیقت میں آپ ﷺ اولین ہیں لیکن آخر میں تشریف لائے اور اس امت کا یہ فخر ہے کہ اللہ پاک کا لاڈلا اس امت کو مل گیا اور جن کی نبوت تا قیامت تمام بحر و بر کے اوپر نافذ ہے اور ان کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور ہمارے اوپر ان کا اتباع لازم ہے، یہ قرآن پاک کا حکم ہے، کہیں شیطان ہمیں کسی چکر میں نہ ڈالے، جس میں ہمیں ان میں سے کسی سے محروم کر دے، ہم آپ ﷺ پر ہمیشہ درود بھیجتے رہتے ہیں، اور دل سے الحمد للہ سلام بھیجتے رہتے ہیں اور یہ اللہ کا حکم ہے۔ اے شبیر اللہ تعالی کے حکم پر عمل کرتے رہو۔

واقعی آپ ﷺ کی محبت کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ بس اللہ کا فضل ہے جس کو نصیب فرما دے، اتنی بڑی سعادت اگر کسی کو مل جائے تو بہت بڑی نعمت ہے۔

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الحَمْدُ لِلہِ رَبِّ العَالَمِینَ