اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
حضرت یہ بات مجلس میں ویسے سنی ہے کہ کوئی چیز اگر تقسیم کرنی ہو تو دائیں طرف سے شروع کرنی چاہئے۔ لیکن اگر دائیں طرف بچے بیٹھے ہوں، اور بڑی عمر کے یا کوئی عالمِ دین بائیں طرف بیٹھے ہوں تو پھر کس طرف سے شروع کریں گے؟
جواب :
اس سے متعلق ایک واقعہ حدیث پاک میں موجود ہے کہ ایک مجلس میں حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما جو اس وقت بچے تھے دائیں طرف بیٹھے تھے، اور بائیں طرف بزرگ صحابہ موجود تھے، اس لئے آپ ﷺ کی خواہش یہ تھی کہ بزرگ صحابہ کو دوں، لیکن آپ ﷺ نے عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے پوچھا کہ کیا آپ ایثار کر سکتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ یہ بڑا مشکل ہے، جس پر آپ ﷺ نے پھر دائیں طرف سے ہی شروع کیا۔ لہٰذا سنت کے مطابق دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے، بے شک عالمِ دین دوسری طرف ہی ہو۔
سوال نمبر 2:
اگر دئیں طرف والے سے اجازت مانگ لے تو کیا پھر جائز ہے؟
جواب :
اجازت اگر مانگ لے تو پھر ٹھیک ہے، کیونکہ وہ بھی سنت ہے۔
سوال نمبر 3:
حضرت! کبھی اپنا چھوٹا سا کوئی دینی کام ہوتا ہے، مثلاً: میں نے 1000 روپے لاہور کے ایک یتیم خانے میں دینے ہیں، میں اپنے ایک دوست سے رابطہ کرتا ہوں کہ بھائی! میں نے ہزار روپے دینے ہیں، اب چاہے 500 یا 1000 روپے جانے میں لگ جائیں مجھے اس کی کوئی پروا نہیں، بس میرا یہ جذبہ ہے کہ میں نے 1000 روپے زکوۃ وہاں دینی ہے، کیا اس قسم کی سوچ ٹھیک ہے؟
جواب :
یہ سوچ غلط ہے، کیونکہ اول تو زکوۃ سب سے پہلے قریبی لوگوں کا حق ہے، اور قریبی لوگوں میں رشتہ داروں کا سب سے زیاد حق ہے اور اگر رشتہ دار ایسا کوئی نہ ہو یا وہ مستحقِ زکوۃ نہ ہو تو پھر پڑوسیوں کا حق ہے، پڑوسیوں کے بعد پھر علاقے کے لوگوں کا حق ہے یعنی جو ایک شہر کے ہیں، اگر ادھر بھی کوئی نہیں تو پھر باہر بھیج سکتے ہیں۔ اور اگر ایسی بات ہو تو پھر کسی کو وکیل مقرر کر لیں اور اس کو پیسے دے دیں پھر اس کو جب موقع ملے گا تو وہ دے دے گا۔
سوال نمبر 4:
حضرت! مثلاً میں خانقاہ آ رہا ہوں اور راستے میں مولانا صاحب سے یا مفتی صاحب سے ملتا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ حضرت! میں خانقاہ جا رہا ہوں تو وہ سراہتے ہوئے کہتے ہیں ماشاء اللّٰہ! بہت اچھا کام ہے یہ، آپ اچھا کام کر رہے ہیں یعنی خانقاہ جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے تو تواضع میں کہہ دیا لیکن میں اس بات کو reference (دلیل) کے طور پر ہر جگہ بیان کروں کہ علماء بھی یہ کہتے ہیں کہ آپ اصل کام کر رہے ہیں۔ کیا یہ بیان کرنا ٹھیک ہے؟
جواب :
یہ آپ کی بات بالکل صحیح ہے، کیونکہ ایک دفعہ میرے ساتھ ایسا ہی ہوا تھا کہ میں اپنے گاؤں "جہانگیرہ" میں اپنے تبلیغی جماعت کے امیر صاحب کے ساتھ ایک دن جا رہا تھا، وہ بہت اچھے آدمی تھے راستے میں وہ مجھے کارگزاری سنا رہے تھے، اور ویسے بھی دعوت دینے کا بہترین طریقہ کارگزاری ہی ہوتا ہے، اس وقت ایسا ہی ہوا کہ وہ فرمانے لگے کہ مولانا عبدالحنان جہانگیروی صاحب (جو وہاں پر ایک بہت بڑے عالم تھے اور حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شاگردوں میں سے تھے، بہت بڑے آدمی تھے اور بڑے بڑے لوگ ان کے شاگرد تھے، اور تواضع ان میں بہت تھی ان) سے میں نے بات کی تو حضرت نے فرمایا کہ بھئی اصل کام تو آپ ہی کر رہے ہیں، ہم تو ویسے ہی اپنا وقت گزار رہے ہیں۔ جب یہ بات اس نے ذرا فخر کے انداز میں کہی تو میں دو قدم پیچھے ہوگیا اور میں نے کہا امیر صاحب اپنے آپ کو بچائیں گولی چل گئی ہے، انہوں نے مجھے کہا کہ کیا ہوا؟ میں نے کہا وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تو تواضعاً کہہ دیا، اور ان کو اس پر اجر مل گیا، لیکن اگر آپ نے اس کا اثر لے لیا اور اس کو واقعی سمجھ لیا تو الٹی چھری سے اپنے آپ کو ذبح کر دو گے۔
سوال نمبر 5:
حضرت! امام صاحب کبھی کبھار یہ پڑھتے ہیں: اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ تو یہ کس چیزکی نیت ہوتی ہے؟ کس حوالے سے پڑھتے ہیں؟
جواب:
اللّٰہ کے دشمنوں کی نیت ہوتی ہے، جو ہر وقت شر ڈالنے کے لیے، مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے کے لیے اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لئے موجود ہوتے ہیں، ان دشمنوں کے خلاف یہ بد دعا ہوتی ہے:
"اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِيْ نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوْذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ" (ابوداؤد: 1537)
ترجمہ: "اے اللہ ہم تجھے ان کے بالمقابل کرتے ہیں اور ان کی برائیوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں"۔
سوال نمبر 6:
مفتی صاحب نے یہ دعا بتائی تھی "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْهُدٰى وَالتُّقٰى والْعَفَافَ وَالْغِنىٰ"۔ والْعَفَافَ وَالغِنىٰ یعنی عافیت اور غنا عطا فرما اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:
عفاف عفت سے ہے یعنی پاک دامنی، اور غنا کہتے ہیں کہ کسی کی محتاجی نہ ہو یعنی دل کی محتاجی نہ ہو جیسے حدیث شریف میں آتا ہے:
"اَلْغِنٰى غِنَى النَّفْسِ" (بخاری: 6446)
ترجمہ: "امیری یہ ہے کہ دل غنی ہو"۔
سوال نمبر 7:
کیا عفت سے مراد پاک دامنی ہے؟
جواب:
جی ہاں عفت سے مراد پاک دامنی ہے۔
سوال نمبر 8:
حضرت! نماز کے ایک طرف فضائل ہیں، اور دوسری طرف وعیدیں بھی ہیں یعنی نماز پڑھیں گے تو یہ ملے گا اور اگر نہیں پڑھیں گے تو یہ گناہ ملے گا۔ اب اگر فضائل سنائیں گے تو کچے لوگ پکے ہو جائیں گے لیکن کیا ان کو وعیدیں بھی سنائیں گے؟ کیونکہ وعیدوں کو بالکل ختم نہیں کر سکتے، اس سوال کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک جگہ ایک صاحب کو میں لینے کے لیے گیا تو وہ کہنے لگے آپ نے بڑی قربانی کی ہے اور قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:
﴿فَمَنۡ يَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّةٍ خَيۡرًا يَّرَهٗ﴾ (الزلزال: 7)
ترجمہ: "چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
میں نے کہا حضرت آگے بھی ہے وہ بھی پڑھ لیں، لیکن وہ کہنے لگے جو چیز لانا چاہتی ہے اس کی بات کریں۔ خیر وہ عالم نہیں ہیں اس لیے ان کی یہ بات حجت نہیں ہے، لیکن میرا سوال یہ ہے کہ اس کو balance کیسے کریں گے؟
جواب:
آپ ﷺ کے دو نام ایک جیسے ہیں، بشیر اور نذیر، بشیر یعنی بشارت دینے والا اور نذیر ڈرانے والا۔ جیسے گاڑی کے اندر accelerator بھی ضروری ہے اور اسی طرح بریک بھی ضروری ہے، اگر صرف accelerator ہو اور بریک نہ ہو تو ایکسیڈنٹ ہوں گے، اور اگر صرف بریک ہو accelerator نہ ہو تو گاڑی چلے گی ہی نہیں، یعنی دونوں چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ ایک دفعہ میں "بشام" کے پاس آ رہا تھا اور جماعت کے کچھ ساتھی ہمارے ساتھ چل رہے تھے، کیونکہ جماعت والوں کا خیال یہ ہے کہ بددعا کبھی نہیں کرنی چاہئے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے، اور ہم سن رہے تھے، ان میں سے ایک ساتھی نے یہ بات کی کہ آپ ﷺ نے کبھی بددعا نہیں فرمائی۔ میں نے فوراً روک دیا اور میں نے کہا کہ آپ ﷺ پر جھوٹ نہ بولیں بلکہ تم اپنی بات کرو آپ ﷺ کی بات نہ کرو، کیونکہ آپ ﷺ نے بددعا کی ہے، اور یہ قنوت نازلہ بددعا ہی ہے، اس کے بعد وہ چپ ہوگیا۔
سوال نمبر 9:
حضرت! سارے بنی آدم خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہے جو توبہ کرے۔ کیا یہ حدیث ہے؟
جواب:
جی بالکل یہ حدیث شریف ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّاءٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ" (ترمذی: 2499)
ترجمہ: "آدم کا ہر بیٹا خطاکار ہے اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہوں گے"۔
کیونکہ ہم لوگ کبھی بھی کما حقہٗ کوئی عمل نہیں کر سکتے، نہ نماز کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ روزے کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ زکوۃ کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ حج کا حق ادا کر سکتے ہیں، اور نہ معاملات کا، اور نہ معاشرت کا حق ادا کر سکتے ہیں۔ البتہ ہمیں کوشش مکمل کی کرنی چاہئے، لیکن جتنے کی توفیق ہو جائے اس پر شکر ادا کرنا چاہئے، اور جو غلطی ہو جائے اس پر اللّٰہ پاک سے معافی مانگنی چاہئے۔ یہی حفاظت کا راستہ ہے، چنانچہ آپ ﷺ بھی فرماتے ہیں کہ: میں روزانہ 70 مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (ترمذی: 3569) جب آپ ﷺ بھی استغفار کرتے تھے تو ہم لوگ کیا ہیں، ہمیں بھی استغفار کرنا چاہئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نماز سے بہتر کس کی نماز ہوگی؟ لیکن نماز کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی یہ دعا تھی۔ "اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ" (بخاری: 834)
سوال نمبر 10:
حضرت! یہ بات میں نے دو sources (ذرائع) سے سنی ہے اس لیے authentic (مستند) بات ہے کہ ایک بزرگ میدان جہاد میں تھے اور ایک بزرگ حرم میں تھے، جو بزرگ میدان جہاد میں تھے انہوں نے حرم میں رہنے والے بزرگ کو خط لکھا اور خط میں یہ شعر لکھے۔
یَا عَابِدَ الْحَرَمَیْنِ لَوْ اَبْصَرْتَنَا
لَعَلِمْتَ اَنَّکَ فِی الْعِبَادَۃِ تَلْعَبُ
سوال یہ ہے کہ عوام کے سامنے جب یہ بات ہوگی تو عوام اس سے کیا تاثر لے گی؟
جواب:
اصل میں اس طرح کی باتوں کا اثر موقع محل کے لحاظ سے ہوتا ہے، اور موقع محل کے لحاظ سے مقام بدل جاتا ہے۔ اس لئے ہم لوگوں کو اس طرح کی باتوں میں نہیں بولنا چاہئے، البتہ بڑے لوگ اگر آپس میں اس قسم کی بات کریں تو ان کو حق ہے، اور وہ ایک دوسرے کو کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ایک عالم دوسرے عالم کو کوئی بات کہے کہ یہ اس طرح ہے اور یہ اس طرح نہیں ہے، لیکن عوام کو یہ حق نہیں ہے۔ مثلاً ایک دفعہ ہمارے والد صاحب اپنے کسی ساتھی سے بات کر رہے تھے، درمیان میں میں نے بھی بات کی تو والد صاحب نے مجھے ڈانٹا کہ تم درمیان میں بولنے والے کون ہوتے ہو، یہ تو ہماری باتیں ہیں۔ اس وجہ سے چچاؤں اور باپ کی باتوں کے درمیان بچوں کو نہیں بولنا چاہئے، اور اگر ایسی کوئی بات ہو تو وہ ان پر چھوڑ دینا چاہئے یا اس کا کوئی بہتر محل تجویز کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 11:
حضرت! یعنی اس قسم کی بات عوام میں نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ عوام کم ظرف ہوتی ہے۔
جواب:
جی عوام میں نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ وہ اس سے غلط مطلب ہی لیں گے۔ اور لفظ "کم ظرف" ویسے تو بڑا سخت لفظ ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ عوام کا ظرف کم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے وہ بات کا صحیح مفہوم حاصل نہیں کر پاتے، بلکہ اپنے نفس کے مطابق اس کا کوئی مفہوم تراش لیتے ہیں۔
سوال نمبر 12:
حضرت! ایک کتاب اللّٰہ ہے، اور ایک رجال اللّٰہ ہے۔ ہم بزرگوں کو دیکھتے ہیں، مثلاً مولانا جمشید صاحب، ان کے گھٹنوں میں تکلیف تھی اس لئے وہ مٹک مٹک کر چلتے تھے، اب مجھے معلوم ہے کہ یہ سنت نہیں ہوگی، لیکن چونکہ ایک عقیدت تھی، اور یہ کہ وہ بزرگ ہیں، اسی لئے میں نے بھی اسی طریقے کو copy کرنا شروع کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کون سی چیزیں ہمیں copy کرنی چاہئیں اور کون سی نہیں؟ مثلاً اسی طرح موٹروے پر 120 کی speed (رفتار) کا اصول ہے، لیکن ایک صاحب کہتے ہیں کہ 130 یا 140 پر جائیں کوئی مسئلہ نہیں، کیونکہ فلانے نیک آدمی بھی 130 یا 140 تک جاتے ہیں اب ہم نے اصولوں کی تشریح اس طرح کی جس طرح ایک اچھے یا نیک آدمی کا عمل ہے، اور انہوں نے practically (عملی طور پر) کر کے دکھایا۔
جواب:
میں آپ سے ایک اصولی بات عرض کرتا ہوں مثلاً اگر کوئی بڑا آدمی کوئی غلطی بھی کرتا ہے لیکن ان کی بہت ساری نیکیوں کے مقابلے میں وہ غلطی دب جاتی ہے، کیونکہ فیصلہ عمومی اعمال پر ہے۔ البتہ ہم لوگ جب ایسے نقل کیا کریں گے اور سارے بزرگوں کی غلطیاں جمع کر لیں گے تو ہمارا حال کیا ہوگا؟ اس لئے ہمیں تقلید کے لیے صرف حضور ﷺ کو دیکھنا چاہئے۔
سوال نمبر 13:
حضرت! اگر علماء میں کوئی اچھی چیز دیکھیں تو اس کی تشریح بھی کروا لینی چاہئے کہ کیا یہ واقعی سنت ہے؟ اگر سنت ہو تو پھر اتباع کریں ورنہ نہیں۔
جواب:
ایک دفعہ میں والدہ صاحبہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا، وہاں پر مغرب کی نماز کا وقت قریب تھا اس لئے والدہ صاحبہ کو ڈاکٹر کے کلینک پر بٹھا دیا اور بہت جلدی سے باہر نکلنا چاہا کہ کہیں نماز نہ رہ جائے، میں دروازہ بند کر رہا تھا کہ دروازے کے درمیان میری انگلی آ گئی، چونکہ اس کی تکلیف بہت سخت ہوتی ہے اس لئے میں نے اپنی انگلی کو اس طرح پکڑا ہوا تھا اور دیکھا تو خون نہیں نکلا تھا، اس لئے میں نے کہا چلو وضو تو ہے، میں مسجد میں پہنچ کر نماز میں شامل ہوگیا لیکن پوری نماز میں انگلی اس طرح پکڑی ہوئی تھی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد دل میں خیال آیا کہ اگر میں مقتدا ہوتا تو لوگ مجھ سے یہ نہ پوچھتے کہ آپ نے اس طرح انگلی کیوں پکڑی ہوئی ہے، لیکن وہ اس عمل کو لے لیتے، جبکہ میری تکلیف تو مجھے ہی معلوم تھی۔ اس لئے خواہ مخواہ لوگوں کو غلط چیز نہیں لینی چاہئے بلکہ اتباع صرف رسول اللہ ﷺ کی کرنی چاہئے، اور اگر کسی عالم کا عمل اچھا لگے تو پہلے پوچھنا چاہئے کہ کیا یہ سنت ہے۔ مثلاً ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ مفلوج تھے، اس لئے وہ کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے اور آخری عمر میں اشارے سے نماز پڑھتے تھے، اب کیا ہم لوگ بھی بیٹھ کر نماز پڑھ لیا کرتے؟ یا اشارے سے نماز پڑھ لیتے؟ اگر ہم پڑھتے تو مولانا صاحب روک دیتے اور فرماتے کہ تم کیوں یہ عمل اس طرح کر رہے ہو؟ اسی وجہ سے میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ مجھے چونکہ پیٹ کی تکلیف ہے اور اس وجہ سے کبھی کبھار مجھے 2 یا 3 بار وضو کرنا پڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے تکبیر اولی سے میں رہ جاتا ہوں، لیکن آپ نے میرے اس عمل کو نہیں دیکھنا، کیونکہ میں عذر کی وجہ سے اس طرح کر رہا ہوں اس لئے تم اپنے حال کو دیکھا کرو۔
سوال نمبر 14:
حضرت! اس کا مطلب ہے کہ اگر بڑے علماء کی کوئی چیز دیکھیں تو اس کو پہلے کنفرم کریں۔
جواب:
جی پہلے کنفرم کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 15:
حضرت صاحب! اگر ذکر کر رہے ہیں اور درمیان میں اذان شروع ہو جائے تو کیا اپنا ذکر جاری رکھیں یا روک دیں؟
جواب:
جب اذان شروع ہو جائے تو اپنے انفرادی معمولات کو روک لینا چاہئے اگر وہ رک سکتے ہوں مثلاً اگر نماز شروع کی ہوئی ہو تو اذان کی وجہ سے یہ نہیں روک سکتے بلکہ نماز جاری رکھیں گے، کیونکہ اس کا توڑنا حرام ہے اور اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اور مستحب کے لئے واجب کو ترک نہیں کر سکتے۔ لیکن اگر آپ ذاتی ذکر کر رہے ہیں اور اذان شروع ہو جائے تو اس ذکر کو روکا جا سکتا ہے، لہٰذا اذان کی وجہ سے اپنے ذاتی ذکر روک دو، اگر تلاوت کر رہے ہو تو اس کو بھی روک دو، بلکہ بہتر یہ ہے کہ اگر آپس میں کوئی دینی بات چیت ہو رہی ہو تو اسے بھی روک دینا چاہئے، اگرچہ دینی بات کو جاری رکھا جا سکتا ہے جیسے میں ابھی بات کر رہا ہوں اور اذان شروع ہو جائے تو اس کی اجازت ہے کہ اس بات کو جاری رکھوں، لیکن ترغیب اور تعلیم کے لیے مجھے بھی روکنا چاہئے۔ تاکہ لوگوں کو یہ اعتراض نہ ہو کہ یہ اذان کا جواب نہیں دے رہا، اور پھر بعد میں وہ بھی اذان کا جواب نہ دیا کریں۔ کیونکہ لوگوں کے لیے یہ مثال بن جائے گی۔ البتہ اگر تعلیم کے لیے کرنا ہے تو پھر لوگوں کو بتا دیا جائے کہ شریعت نے اس چیز کی اجازت دی ہے اس لیے میں یہ عمل کر رہا ہوں تاکہ تعلیماً آپ کو فائدہ ہو جائے۔ جیسا کہ ایک دفعہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کیا تھا، آپ حرم شریف میں بات کر رہے تھے کہ مغرب کی اذان شروع ہوگئی لیکن حضرت نے اپنی بات جاری رکھی اور فرمایا کہ اس جگہ دینی بیان کرنے کی گنجائش ہے، اس لئے میں اس کو مکمل کر لیتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو علم بھی ہو جائے۔ لہٰذا بعض دفعہ تعلیماً علماء اس طرح کر لیتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر رکنا بہتر ہے۔
سوال نمبر 16:
اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟
جواب:
اذان کا جواب دینا اعلٰی درجے کا مستحب ہے یعنی سنت کے قریب ہے۔ البتہ سلام کا جواب دینا واجب ہے۔
سوال نمبر 17:
اگر تلاوت کر رہے ہوں تو سلام کا جواب دینا چاہئے یا نہیں؟
جواب:
سلام کرنے والے کو خیال کرنا چاہئے کہ ایسے موقع پر سلام نہ کرے، کیونکہ سلام کے کچھ آداب ہیں مثلاً مسجد میں کوئی جائے تو وہاں بیٹھے ہوؤں کو سلام نہ کرے، اسی طریقے سے اگر کوئی وضو کر رہا ہو تو اس کو بھی سلام نہ کرے، کوئی کھانا کھا رہا ہو تو اس کو بھی سلام نہ کرے، کوئی وظیفہ کر رہا ہو تو اس کو بھی سلام نہ کرے، لہٰذا سلام کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ خیال کرے اور ان مواقع پر سلام نہ کرے۔ لیکن اذان چونکہ بہت بڑے علاقے کے لیے ہے اس لئے وہ آپ کے لیے نہیں روک سکتے، اس لئے اذان کے احکامات سلام سے الگ ہیں۔
سوال نمبر 18:
حضرت صاحب! اذان شروع ہوگئی لیکن ایک آدمی ایسی جگہ پر ہے جہاں اذان کا جواب نہیں دے سکتا۔ کیا جب وہ باہر نکلے تو اس وقت اذان کا جواب دے سکتا ہے چاہے اذان ابھی مکمل ہوئی ہو یا مکمل نہ ہوئی ہو؟
جواب:
اگر زیادہ دیر ایک کلمے کو نہیں گزری تو اس کلمے کا جواب دے سکتے ہیں، کیونکہ جب دوسرا کلمہ پڑھا گیا تو پھر اس کا جواب دینا ہے۔ مثلاً وہ ابھی ’’اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہِ‘‘ پڑھ رہا تھا اور آپ ابھی toilet (بیت الخلاء) میں تھے اور اس نے ابھی دوسرا کلمہ نہیں پڑھا تھا کہ آپ باہر آ گئے تو آپ اس کا جواب فوراً دے دیں، اور اگر دوسرا پڑھ لیا تو پھر اس کا جواب دیں گے اور پھر اس سے آگے والے کا جواب دیں گے۔
سوال نمبر 19:
حضرت! جیسے ابھی سوال گزرا ہے کہ علماء یا بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئے سنت کو بھی دیکھنا چاہئے یعنی سنت کو model بنانا چاہئے، اور ہم ان کی اقتداء اس لیے کر رہے ہیں کہ سنت حاصل ہو جائے۔ ہم اگر ان کی پیروی کرتے ہوئے بار بار سنت کی تحقیق کریں یا قرآن مجید کو check کریں تو کیا اس سے یکسوئی disturb نہیں ہوگی؟
جواب:
اصل میں اس طرح کا موقع زیادہ نہیں آتا کیونکہ جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں وہ اکثر سنت کے مطابق ہی چلتے ہیں، اگر کوئی چیز خلاف سنت ایسی ہو تو اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے جس وجہ سے وہ سنت کو مؤخر کر لیتے ہیں ورنہ مشائخ کا تو کام ہی سنت پر لانا ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ خود سنت کے خلاف نہیں کرتے۔ مثلاً آپ ﷺ بھی آخری وقت میں بیٹھ کر نفل نماز پڑھ لیتے تھے، اس لئے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کا بیٹھ کر نفل پڑھنا اس حالت کے ساتھ خاص تھا، لہٰذا اس عمل کو مستقل معمول نہیں بنانا چاہئے۔ کیونکہ بیٹھ کر نماز پڑھنے سے نصف اجر ملتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے صراحتاً یہ لکھا ہے کہ عشاء کی نماز میں وتر کے بعد کے دو نفل کھڑے ہو کر پڑھنا چاہئے، کیونکہ آپ ﷺ نے معذوری کی وجہ سے یہ عمل کیا تھا یعنی اس وقت آپ ﷺ کی عمر بڑھ گئی تھی، جسم بھاری ہوگیا تھا، لہٰذا آپ ﷺ نے ضرورتاً اور تعلیماً ایسا کیا، تاکہ معلوم ہو جائے کہ ایسی حالت میں یہ عمل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آپ ﷺ کی سنت پر صحیح عمل کرنا یہ ہے کہ آپ ﷺ کی حالت کو دیکھا جائے کہ جو حالت آپ (امتی) کی ہے ایسی حالت میں آپ ﷺ نے کیا کیا تھا۔ اس بات کو دیکھیں تو ظاہر ہے کہ جوانی میں آپ ﷺ بیٹھ کر نفل نہیں پڑھتے تھے بلکہ کھڑے ہو کر پڑھا کرتے تھے۔ البتہ بعض مغلوب الحال بزرگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ بس ہم آپ ﷺ کو ہی دیکھ کر کریں گے۔ یہ چونکہ ان کا غلبۂ حال ہے لہٰذا ان کو ان کے حال پر چھوڑنا چاہئے، اور خود انسان کو وہ عمل کرنا چاہئے جو شریعت کے زیادہ قریب ہے۔
سوال نمبر 20:
حضرت جی! قرآن شریف کی سورۂ تغابن میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: کہ تم اپنی استطاعت کے مطابق اللّٰہ سے توبہ کرو اور اس سے ڈرو۔ اس کی تھوڑی وضاحت فرما دیں۔
جواب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسۡتَطَعۡتُمۡ وَاسۡمَعُوۡا وَاَطِيۡعُوۡا وَاَنۡفِقُوۡا خَيۡرًا لِّاَنۡفُسِكُمۡؕ﴾ (التغابن: 16)
ترجمہ: "لہٰذا جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو، اور سنو اور مانو اور (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرو، یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اس حکم سے پہلے ایک اور حکم آیا تھا، جس میں اللہ نے فرمایا تھا: حَقَّ تُقٰتِهٖ (آل عمران: 102) اس پر صحابہ کرام بڑے پریشان ہوگئے تھے کہ تقوٰی کا حق ہم سے ادا نہیں ہو سکے گا، کیونکہ کسی عمل کا حق انسان سے پورا نہیں ہو سکتا، جس پر پھر یہ حکم آ گیا کہ جتنی تمہاری استطاعت ہے اتنا تقوٰی اختیار کرو یعنی تم جس condition میں ہو اس condition میں جتنا تقوٰی اختیار کیا جا سکتا ہے اتنا تقوٰی اختیار کرو، اور پھر آگے ترتیب بھی بتا دی کہ اس طریقے سے اختیار کرو۔
سوال نمبر 21:
حضرت! ایک عورت کی شادی نہیں ہوئی اور وہ فوبیا میں چلی گئی، اور وہ روزانہ ڈاکٹر کو فون کر کے کہتی ڈاکٹر صاحب میرا رات کو بیٹا پیدا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اس کو مبارک باد دیتا اور کہتا کہ یہ فوبیا میں ہے، میں اس کو کیوں اس سے نکالوں، جس کو وہ enjoy کر رہی ہے۔ اسی طرح کبھی ایک فرد یا ایک گروہ دینی فوبیا کا شکار ہو جاتا ہے کیا اس فوبیا کا ان کو بتانا چاہئے یا ان کو اسی میں enjoy کرتے رہنے دینا چاہئے؟
جواب:
اصل میں فوبیا یہ نہیں ہے، بلکہ فوبیا ایک بیماری ہے۔ اس لئے فوبیا کے مریض کے ساتھ بیماروں جیسا معاملہ کیا جائے گا لیکن اگر کسی کو علمی غلط فہمی کی وجہ سے ایسا ہے تو اس کی علمی غلط فہمی کو دور کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شرعی بات ہے، اور اگر سب کو آپ نے اس فوبیا میں ڈال دیا تو کوئی کس فوبیا میں ہوگا اور کوئی کس فوبیا میں ہوگا، اور دین چلا جائے گا، دین پر عمل پھر کون کرے گا؟ اس لئے علماء کا یہ کام ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی اصلاح کریں اور ان کو وقت پر بتا دیں کہ یہ ایسا نہیں ہے۔ اور فضائل کی تعلیم میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے کہ سب کے فضائل معلوم ہوں یعنی جتنی چیزوں کے بھی فضائل ہیں ان سب کے بارے میں پتہ ہو، مثلاً جہاد کی فضیلت، دینی تعلیم کی فضیلت، تزکیہ کی ضرورت، دعوت و تبلیغ کی فضیلت، نماز کی فضیلت، روزے کی فضیلت، زکوۃ کی فضیلت، حج کی فضیلت، اور لوگوں کی خیر خواہی کی فضیلت، یہ ساری چیزوں کے فضائل احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ پہلے دور میں جب ’’فضائلِ اعمال‘‘ نہیں لکھی گئی تھی اس وقت ’’ریاض الصالحین‘‘ کی تعلیم ہوتی تھی۔ ’’ریاض الصالحین‘‘ میں چونکہ احادیث شریفہ ہوتی تھیں اس لئے ان تمام چیزوں کے فضائل کے بارے میں احادیث پڑھ لیتے تھے، اور یہ ایک بہترین چیز موجود تھی بلکہ اب بھی عربوں میں ’’ریاض الصالحین‘‘ پڑھی جاتی ہے۔ بلکہ اگر ہم لوگ فضائل اعمال کی جو کتاب ہے اس کو ہی پورا پڑھ لیں تو اس میں بھی ایک اعتدال موجود ہے۔ ساری چیزوں کے بارے میں حضرت نے بتایا ہوا ہے، لیکن ہم لوگ صرف اپنی مرضی کا تھوڑا سا پڑھ لیتے ہیں اور باقی چھوڑ دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے ذہن کے اندر جو نقشہ بنتا ہے وہ صرف ایک طرف کا بنتا ہے اور دوسری طرف کی چیز ہمارے سامنے آئی ہی نہیں ہوتی۔ حالانکہ وہ بھی اللّٰہ کا حکم ہے، رسول اللّٰہ ﷺ کا فرمان ہے، البتہ اس کو ہم چھوڑ تو نہیں سکتے لیکن چونکہ ایک طرف کو جانتے ہیں اور دوسری طرف کو نہیں جانتے اس لئے پریشانی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اس بات پر زیادہ زور دینا چاہئے کہ فضائل کی تعلیم کو عام کیا جائے اور اس کی ساری چیزوں کو پڑھا جائے، اور اس میں اپنی طرف سے کوئی بات شامل نہ کی جائے بلکہ جیسے حضرت شیخ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا ہے ویسے ہی سارے کا سارا پڑھ لیں، پھر اس سے ہمارے ذہن میں جو خاکہ بنے گا وہ انتہائی معتدل اور موثر ہوگا۔
سوال نمبر 22:
حضرت! جس طرح جمائی کو بائیں ہاتھ سے اس طرح روکتے ہیں تو کیا ڈکار کو بھی اسی طرح روکنا چاہئے؟
جواب:
ڈکار کے روکنے کے دو طریقے ہیں، ایک تو کھانا اتنا نہیں کھانا چاہئے کہ ڈکار آئے اور اگر بیماری ہے یا acidity (تیزابیت) ہے تو اس کا علاج کرنا چاہئے۔ اور دوسرا یہ کہ اگر آ ہی جائے تو اس کو ذرا خفی کر لیں اور منہ کھول کر نہ کریں، جس کو ڈکرانا کہتے ہیں۔ کیونکہ ایک ہوتا ہے ڈکار، اور ایک ہوتا ہے ڈکرانا، ڈکار کی گنجائش ہے لیکن ڈکرانے کی گنجائش نہیں ہے۔
سوال نمبر23:
حضرت! "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحنَکَ اِنَّیْ کُنْتُ مِنَ الظَالِمِیْنَ" اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے اللّٰہ تو ہی میرا مقصود ہے، تو ہر عیب سے پاک ہے، بے شک میں نے ہی اپنے گناہوں کے ذریعے اپنے اوپر ظلم کیا ہے؟
جواب:
اس میں ایک بہت خفیف قسم کا ردھم ہے، اس ردھم کو ذہن میں رکھنا چاہئے، اور وہ ردھم یہ ہے کہ انسان کے اوپر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو انسان کا اپنی غلطی کی طرف خیال نہیں جاتا بلکہ شیطان اس کو اللّٰہ کی طرف لے جاتا ہے کہ دیکھو تیرے ساتھ یہ ہوگیا، اور اس کو اللّٰہ سے دور کرنا چاہتا ہے۔ کیونکہ یونس علیہ السلام نبی تھے اس لئے انہوں نے فوراً اس چیز کا ادراک کر لیا کہ اس کو میں اپنی طرف منسوب کر لوں، لہٰذا انہوں نے یہ پڑھنا شروع کر دیا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ‘‘ یعنی تو ہی معبود ہے ’’سُبْحٰنَکَ‘‘ تو پاک ہے یعنی تیری وجہ سے یہ نہیں ہے ’’اِنَّیْ کُنْتُ مِنَ الظَالِمِیْنَ‘‘ بلکہ یہ تو میری وجہ سے ہے۔ اسی طرح ابراہیم علیہ السلام کا بھی قرآن پاک میں قول ہے:
﴿وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ﴾ (الشعراء: 80)
ترجمہ: "اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے"۔(آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی یہ نہیں کہا کہ اللّٰہ مجھے بیمار کر دیتا ہے بلکہ ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا: ﴿وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ﴾ (الشعراء: 80)
سوال نمبر 24:
حضرت! اس میں ادب یہ ہے کہ بیماری کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے؟
جواب:
جی بیماری کی نسبت اپنی طرف کرنی چاہئے کیونکہ یہ میری بے اعتدالی کی وجہ سے ہو سکتی ہے یا میری ہی کوئی اور غلطی ہو سکتی ہے۔ لیکن شفا اللّٰہ کی طرف سے ہے۔ اس لئے ادب لوگوں کو انبیاء سے سیکھنا چاہئے، مثلاً خضر علیہ السلام نے تین کام کئے ہیں، ایک بالکل اچھا نظر آتا ہے، ایک بالکل برا نظر آتا ہے اور ایک اچھے برے کے بین بین نظر آتا ہے۔ لہٰذا جو اچھا نظر آتا ہے اس کی نسبت اللّٰہ کی طرف کر دی، اور جو برا نظر آتا ہے اس کی نسبت اپنی طرف کر دی، اور جو بین بین نظر آتا ہے اس کی نسبت دونوں کی طرف کر دی، یہ صرف ادب کی وجہ سے کیا۔ ایسے ہی اگر آپ مُہرِ نبوت کو دیکھیں تو وہاں بھی ادب نظر آئے گا کیونکہ "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ" لکھنے میں اوپر سے نیچے آتا ہے یا دائیں سے بائیں جاتا ہے، لیکن ادب کی وجہ سے آپ ﷺ کی مہر پر "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ" اس طرح لکھا ہوا تھا کہ اوپر اللہ پھر رسول اور نیچے محمد۔
سوال نمبر 25:
حضرت! یہ addictions جو ہوتی ہیں مثلاً اخبار پڑھنے کی addiction اور گپ شپ لگانے کی addiction کیا یہ بھی روحانی بیماری ہے؟
جواب:
Addiction یہ ایک نفسیاتی بیماری ہے لیکن روحانیات میں اس کا اثر ضرور ہوتا ہے، یعنی بعض دفعہ کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس کی انسان کو عادت ہو جاتی ہے، پھر وہ اپنی عادت سے مجبور ہو کر وہ کام کرتا ہے، یہ ہے تو خراب چیز لیکن مشائخ نے اس کو اچھائی کے لیے بھی استعمال کیا ہے۔ چنانچہ حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس بات کو ایک شعر میں باندھا ہے۔
وہ ریا جس پر تھے زاہد طعنہ زن
پہلے عادت پھر عبادت ہوگئی
یعنی عمل میں پہلے ریا تھا لیکن ریا ہونے دیا کہ بس عمل کرو پھر وہ عادت ہوگئی اور جب عادت ہو تو ریا نہیں ہوتا لہٰذا ریا سے وہ بچ گیا، اس کے بعد پھر وہ عادت عبادت بن گئی اور پھر اس میں اخلاص بھی آ گیا۔ یعنی addiction کو اچھی چیز کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر 26:
حضرت! اسی حوالے سے ایک مفتی صاحب نے فرمایا تھا کہ وہ بات صحیح طرح سے سمجھ نہیں آئی کہ آپ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللّٰہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ یہ اتنے سمجھدار ہیں یعنی ان کی سمجھداری کو سراہا یا کچھ اسی طرح کی بات ہے۔ اس کی وضاحت کر دیں۔
جواب:
جب پوری بات یاد ہو اس وقت پوچھ لیجیے گا، جب تک پوری بات یاد نہ ہو اس وقت تک کچھ کہنا مشکل ہے کیونکہ آپ ﷺ کے ساتھ بات ہوئی ہے اس میں ہم اپنی طرف سے کیسے بات کر سکتے؟ پہلے پوری تحقیق ہونی چاہئے۔
سوال نمبر 27:
حضرت! جس طرح آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی یہ سیکولر ہیں۔ لیکن یہ غیر مسلم اور مسلم دونوں استعمال کر رہے ہیں، اسی طرح کچھ صفات ہیں مثلاً بہادری، اور اسی طرح عربوں کے اندر مہمان نوازی وغیرہ۔
جواب:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَاتِ" (مسلم :4927)
ترجمہ: "تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"۔
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اصل چیز تو سیکولر ہے لیکن اگر اس کے ساتھ صحیح نیت آ جائے تو پھر وہ اسلامی بن جائے گا۔ مثلاً مجھے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے زیادہ ذکر نہیں دیا تھا اور یہ حضرت کا اپنا ایک اجتہاد تھا، جب اللّٰہ پاک کی طرف سے کچھ انتظام ہوگیا اور مراقبات شروع ہوگئے تو میں حضرت کو بتاتا کہ حضرت اب مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے جس پر حضرت فرماتے کہ یہ فلاں مراقبہ ہے، اب اس کو نیت کے ساتھ کرو تاکہ ثواب ملے۔ یعنی پہلے ویسے ہی ہو رہا تھا لیکن اس کا ثواب نہیں تھا البتہ فائدہ تھا، اور جب نیت کے ساتھ میں کروں گا تو ثواب بھی مل جائے گا۔ کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ مثلاً کوئی شخص اس لئے داڑھی رکھ لے کہ اس سے گلے کی گیلڑ چھپ جائے تو اس کو داڑھی کا ثواب نہیں ملے گا البتہ داڑھی کا فائدہ ملے گا۔ اور جس وقت نیت کر کے داڑھی رکھے گا کہ یہ حضور ﷺ کی سنت ہے تو پھر اس کو داڑھی کا ثواب بھی ملے گا۔
سوال نمبر 27:
حضرت! جس طرح ایک داڑھی والا ہے اور پھر اس میں دین داری آ گئی، اسی طرح ایک غیر مسلم مہمان نواز ہو پھر وہ کلمہ پڑھ لے تو اس کی جو پہلے سے صفات تھیں اس کے اندر قیمت لگ گئی؟
جواب:
بالکل ایسا ہی ہے۔ جیسا کہ بنی اسرائیل کے بارے میں فرمایا تھا کہ جب بنی اسرائیل مسلمان ہو جاتے ہیں تو ان کو ڈبل اجر ملتا ہے کیونکہ ان کو پیغمبری چیزیں پہلے سے ملی ہوئی تھیں، لیکن اب وہ دین کے لیے ہوگئیں۔ بلکہ بزرگوں نے ایک عجیب مثال دی ہے، مولانا تسنیم الحق عظیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ جو سادات ہوتے ہیں اگر وہ اصلاحی لائن میں آتے ہیں تو ان کی transmigration ہوتی ہے اور جو دوسرے لوگ اصلاحی لائن پر آتے ہیں تو ان کی transformation ہوتی ہے یعنی پہلے سے ایک چیز ان میں موجود نہیں ہوتی بلکہ ان میں create کیا جاتا ہے، لیکن سادات میں پہلے سے اپنی genetic point of view سے موجود ہوتی ہے، صرف وہ استعمال نہیں ہو رہی ہوتی، اس لئے سادات کے لیے یہ کیا جاتا ہے کہ ان کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جوڑ لگا دیا جاتا ہے، بس جوڑ لگ گیا تو ان کی چیز خود بخود آنی شروع ہوگئی۔ یہ ہوتا ہے transmigration اور transformation بڑے زبردست الفاظ بنائے ہوئے تھے۔
سوال نمبر 28:
حضرت! دین کے ارکان یعنی کلمہ، نماز، روزہ، اور زکوۃ کسی کو دعوت دینے کے حوالے سے بظاہر مخفی اور hidden ہیں، یعنی main parameters وہ غالباً ہمارے اخلاق، معاملات، معشیت، اور معاشرت ہیں اور ان پر وسائل ہونے چاہئیں تاکہ دین پھیلے۔ اس پر میں تھوڑا سا یہ کہوں گا کہ پانچ چیزیں جو بتائی گئی ہیں اور زیادہ تر important مسلمان کے لیے وہ بھی ہیں اور یہ بھی ہیں، ان میں تھوڑا تقابل کی صورت میں main چیز آپ کے معاملات ہیں، آپ نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور میں نے بھی رکھی ہوئی ہے اور میرے بھائی نے بھی رکھی ہوئی ہے لیکن معاملات میں بڑی باریکی ہے اور وہی میں سمجھتا ہوں کہ ہماری dealing ہے یا ہمارے معاملات ہیں وہ زیادہ impact دوسروں پر ڈالیں گے۔
جواب:
آپ نے صحیح فرمایا، لیکن بات یہ ہے کہ عبادات یہ ہمارا اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہے اور معاملات یہ بندوں کے ساتھ تعلق ہے، کسی ایک بندے کے ساتھ تعلق معاملہ کہلاتا ہے اور بہت سارے لوگوں کے ساتھ معاملہ معاشرت کہلاتا ہے، مثلاً اس وقت میں یہاں بیٹھا ہوں اور آپ کے ساتھ جو میری dealing ہے یہ معاشرت ہے، لیکن آپ کے ساتھ اکیلے میں اگر بات کروں تو یہ معاملہ ہے، اور ظاہر ہے کہ لوگوں پر اثر وہی چیز کرے گی جن کا تعلق لوگوں کے ساتھ ہوگا، اب اگر کسی کی صحیح تربیت ہو رہی ہو تو اس کی عبادات میں وہ روح پیدا کرے گی جس کی وجہ سے ان کے معاملات درست ہو جائیں گے، یعنی جس وقت انسان صحیح تعلق اللّٰہ کے ساتھ قائم کرتا ہے تو اس وقت وہ بندوں کے ساتھ بھی وہ تعلق قائم کرتا ہے جو اللّٰہ چاہتا ہے، نتیجتاً اس کا بندوں کے ساتھ تعلق بہتر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اور آج کل اگر یہ نہیں ہو رہا تو اس کا مطلب ہے کہ ہماری عبادات بھی صحیح نہیں ہیں، کیونکہ اگر عبادات صحیح ہوتیں تو اس کا لازمی نتیجہ ہمارے معاملات پر پڑتا اور ہماری معاشرت پر پڑتا۔ گویا ہم نے اپنی عبادات کو اپنے لیے ڈھال بنایا ہوا ہے لیکن وہ دل میں ابھی نہیں اتریں، کیونکہ جب ہماری نماز ہمارے دل میں اتر جائے گی اور ہمارا روزہ حقیقی روزہ ہو جائے گا اور حقیقی روزے سے تقوٰی حاصل ہوتا ہے اور تقوٰی سے معاملات اچھے ہوتے ہیں۔ حج سے اللّٰہ پاک کی محبت حاصل ہوتی ہے اور اللّٰہ کی محبت سے معاملات اچھے ہو جاتے ہیں۔ نماز کے ساتھ عاجزی آتی ہے اور عاجزی کے ساتھ معاملات درست ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ عبادات معاون ہیں نہ کہ ان کے لیے ڈھال۔ یہ اصل میں شیطان کا کمال ہے جیسے آپ ﷺ کی ذات کی محبت اور آپ ﷺ کی سنتوں کی پیروی، ان دونوں میں ٹکراؤ ڈال دیا گیا ہے حالانکہ دونوں میں ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ دونوں ایک ہی قسم ہیں، لیکن شیطان نے ٹکراؤ ڈال دیا۔ اسی طریقے سے شیطان نے عبادات والوں کو عبادات پر مطمئن کر دیا کہ تم اچھے ہو اور تمہیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے اور معاملات والوں کو معاملات پر مطمئن کر دیا کہ تم اچھے ہو تمہیں عبادت کی ضرورت نہیں ہے، حالانکہ دونوں باتیں غلط ہیں کیونکہ نہ محض عبادات کافی ہیں اور نہ محض معاملات کافی ہیں، جس طرح شیطان کی سازش سنت اور محبت کی صورت میں ہے اور اس کو توڑنا ضروری ہے، اسی طرح اس سازش کو بھی توڑنا ضروری ہے۔ اور یہ صرف تربیت سے ہو سکتا ہے، اس وجہ آپ دیکھیں گے کہ جو کسی کی تربیت میں آ جاتے ہیں ان کی عبادات بھی اچھی ہونے لگتی ہیں اور معاملات بھی اچھے ہونے لگتے ہیں اور معاشرت بھی اچھی ہونے لگتی ہے۔ یہ چیز تربیت کے ساتھ وابستہ ہے کیونکہ تربیت میں اوپر کوئی ہوتا ہے جو اس کو سمجھاتا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت ہے اس میں اکرام ہی اکرام ہے اس میں سمجھانے والا کوئی نہیں ہے، وہ بس حکم دیں گے کہ اکرام کرو۔ ہمارے مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہی فرمایا تھا کہ اگر جماعت میں کوئی آ جائے تو تم اس کی تربیت نہ کرو تم صرف اکرام کرو اور تربیت مشائخ کریں گے۔ اسی وجہ سے تبلیغی جماعت والے نہ مسائل بتا سکتے ہیں کیونکہ اس پر پابندی ہے اور نہ وہ تربیت کر سکتے ہیں کیونکہ اس پر بھی پابندی ہے۔ لہٰذا ان کے لیے مشائخ اور علماء کی ضرورت زیادہ ہوگئی، لیکن شیطان نے یہ کام کر دیا کہ ان کو دونوں سے آزاد کر دیا، مشائخ سے بھی آزاد کر دیا، علماء سے بھی آزاد کر دیا۔ اب چونکہ انسان خود اپنے آپ کی تربیت نہیں کر سکتا جس پر نتیجہ فساد کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔
سوال نمبر 29:
حضرت! عشق اور محبت میں کیا فرق ہے؟
جواب:
محبت کی زیادتی عشق کہلاتی ہے۔
سوال نمبر 30:
حضرت! دیندار آدمی یعنی نمازی، روزہ دار، داڑھی والا اور اسی طرح کی چیزوں کی وجہ سے معاشرے میں اس پر پریشر ہوتا ہے کہ آپ معاملات کو improve کریں کیونکہ سوسائٹی میں معاملات نظر آتے ہیں یعنی وہ شخص جو نیا نیا دین میں لگا ہے اور ابھی اس کو کچھ نہیں پتا، لیکن لوگ اس پر باتیں کرتے ہیں کہ آپ نمازی ہیں دین دار ہیں، لیکن آپ کے معاملات درست نہیں ہیں۔
جواب:
اصل میں جب کوئی شخص دین کی طرف آتا ہے تو لوگوں کی اس سے توقع بھی کچھ زیادہ ہی ہو جاتی ہے یعنی جو regular process ہے اس پر صبر نہیں کرتے مثلاً پانچ سال کے بعد اس کو جیسا ہونا چاہئے تھا لوگ توقع کرتے ہیں کہ دوسرے دن ہی اس کو ایسا ہونا چاہئے، خود ایسے نہیں ہوں گے لیکن اس سے توقع کریں گے کہ وہ ایسا ہو جائے، یہ چونکہ unnatural desire ہے لہٰذا کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی اور یہ مسئلہ رہے گا۔ لیکن اس کی وجہ سے ہم لوگ بھی مستغنی نہیں ہیں لہٰذا ہمیں اپنی تربیت کروانی چاہئے اور ہمیں اپنا کام جاری رکھنا چاہئے اور لوگوں کی پرو نہیں کرنی چاہئے بس اللّٰہ کے لیے یہ کام کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 31:
حضرت! ایک بندہ مسجد میں نہیں آ رہا تو ایک صاحب ان سے ملتے ہیں اور بغیر کسی حجت کے تنقید شروع کر دیتے ہیں کہ اتنے عرصے سے مسجد کیوں نہیں آ رہے؟ اور غصہ کرتے ہیں حالانکہ وہ بتا بھی رہا ہے کہ مسجد میں میرے نہ آنے کی یہ وجوہات ہیں۔ لیکن وہ صاحب ان وجوہ کو نہیں لے رہے۔ سوال یہ ہے کہ دین میں کیا ہے کہ ایک بندہ مسجد میں نہیں آ رہا تو دوسرے لوگ اس کی خیر خواہی کریں گے اور اس سے مسجد نہ آنے کی وجہ پوچھیں گے یا تنقید کریں گے؟ دین اسلام کی اس بارے میں کیا تعلیمات ہیں؟
جواب:
مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں۔ ایک دفعہ مجھے کسی نے اس طرح کی بات کی جس کا میں نے بہت زیادہ اثر لے لیا، اس بات پر مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے ڈانٹا کہ تم صرف مولانا صاحب کی بات سننے کے پابند ہو دوسروں کی بات سننے کے تم پابند نہیں ہو، تم صرف اپنے شیخ کو دیکھو کہ وہ تمہیں جو بتاتے ہیں وہ لو باقی دوسروں کی پروا نہ کرو، شیخ کی ترتیب پر چلو کسی اور کی ترتیب پر نہ چلو۔ یہ انہوں نے مجھے اس لیے سمجھایا کہ میں حساس آدمی تھا اور اثر زیادہ لیتا تھا اگر کوئی مجھے کسی چیز پر ڈانٹتا تو میں بہت زیادہ اثر لے لیا کرتا تھا یعنی ڈپریشن کی طرف چلا جاتا تھا۔ حضرت نے مجھے اس سے اس طرح نکالا کہ مجھے فرمایا کہ تم صرف اپنے شیخ کے پابند ہو، شیخ تمہارے بارے میں تفصیلی طور پر جانتا ہے یعنی میری اگر کوئی کمزوری ہے تو شیخ کو وہ معلوم ہوگی اور اگر میرا کوئی عذر ہے تو وہ بھی شیخ کو معلوم ہوگا، اس لئے شیخ اگر مجھے ڈانٹتا ہے تو وہ صحیح ڈانٹتا ہے، کیونکہ ان کو میری تمام چیزوں کا پتہ ہے جبکہ باقی لوگوں کو میرا پتہ ہی نہیں ہے اور ان کو میرے حالات کا اندازہ نہیں ہے۔ ایک دفعہ رائیونڈ میں ایک صاحب نے بیان کیا اور پھر دوسرے صاحب نے بالکل اس سے مختلف بیان کر دیا، میں پریشان ہوگیا اور میں نے کہا کہ یہ کیا ہوگیا میں کس کی مانوں اور کس کی نہ مانوں، جب میں پشاور چلا گیا تو میں نے اپنے شیخ سے کہہ دیا کہ حضرت! میرے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ایک صاحب نے یہ کہا اور دوسرے صاحب نے یہ کہا، اب میں کس کی بات مانوں؟ اس پر حضرت مسکرائے اور فرمایا تم سنو سب کی لیکن عمل اس بات پر کرو جو تمہیں شیخ کہتا ہے، ورنہ کوئی تمہیں ایک طرف کھینچے گا دوسرا دوسری طرف کھینچے گا اور درمیان میں تمہارا حشر ہو جائے گا۔ اس لئے جو جس شیخ کی تربیت میں ہے وہ ان کی بات کا اثر لے اور باقی لوگوں کی بات صرف سن لے اثر نہ لے۔
سوال نمبر 32:
حضرت! ایک مولانا صاحب نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا تھا
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبینِ نیاز میں
اس کا مفہوم کیا ہے؟
جواب:
اس میں علامہ صاحب جو کہنا چاہتے ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں، کیا ایسے کہنا چاہئے تھا یا نہیں، اس وقت اس سے میری غرض نہیں ہے۔ اس میں علامہ صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اے اللّٰہ! تو مجھے نظر نہیں آ رہا میں تیرے سامنے تجھے سجدہ کر رہا ہوں لیکن وہ سجدہ تیرے سامنے جس طرح مجھے محسوس ہونا چاہئے وہ اس طرح نہیں ہے، اس لئے کبھی مجازی صورت میں بھی کوئی ہو کہ اس کے سامنے میں اس طرح سجدہ کر لوں جس طرح میں اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرنا چاہتا ہوں۔ اگر علامہ اقبال کے دور میں میں موجود ہوتا تو میں علامہ اقبال کی خدمت میں عرض کر لیتا کہ خانہ کعبہ ہے، آپ خانہ کعبہ جاؤ اور اس طرح سجدے کرو اللّٰہ پاک نے مجازی طور پر اس کو اس مقصد کے لیے بنایا ہے، اور یہ فرماتا ہے کہ حجرِ اسود کو بوسہ دینا ایسا ہے جیسے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ مصافحہ کرنا اور ملتزم شریف کے ساتھ گلے لگنا ایسا ہے جیسے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ معانقہ کرنا اور خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنا یہ ایسا ہے جیسے اللّٰہ کے گرد آپ طواف کر رہے ہیں۔ یہ مجازی صورت اللّٰہ پاک نے بنائی ہوئی ہے تاکہ ہم اپنے جذبات کو آرام پہنچا سکیں اور اپنے جذبات کو satisfy (مطمئن) کر سکیں، لہٰذا اس کا جواب موجود ہے۔ اسی وجہ سے میں نے اپنی کتاب "شاہراہ محبت" میں خانہ کعبہ کے ساتھ اِن جذبات کا اظہار کیا ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے ایک مجازی چیز ہے۔
سوال نمبر 32:
حضرت! سوال یہ ہے کہ اہل مغرب نے قرآن پاک میں ’’وَضَرَبَ اللّٰہُ‘‘ کو اس طرح پیش کیا ہے کہ اللہ نے مارا۔ امریکہ کے ایک عالم نے یوں ترجمہ کر دیا، اور وہ نفس کی تشریح کر رہے تھے کہ وہ جو مارنے والا ہے، کیونکہ یہ خواتین بھی سن رہی ہوتی ہیں تو اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن میں عورتوں کو مارنے کا حکم ہے۔
جواب:
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓئِكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا﴾ (الاحزاب: 56)
ترجمہ: "بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو، اور خوب سلام بھیجا کرو"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
اس میں درود پاک کی نسبت اللّٰہ کی طرف، فرشتوں کی طرف، اور مومنوں کی طرف ہے لیکن اللّٰہ کا درود الگ ہے، فرشتوں کا درود الگ ہے اور مومنوں کا درود الگ ہے یہ تینوں ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا اللّٰہ کے لیے جو بات ہے وہ الگ بات ہوگی اور جو بندوں کے لیے بات ہوگی وہ الگ بات ہوگی، ان کو ایک نہیں کہا جا سکتا۔ جیسے رؤیت ہلال کے بارے میں ایک کانفرنس تھی جس میں میں بھی موجود تھا اس میں ایک بڑے عالم تھے انہوں نے کہا کہ رؤیت صرف بصری ہی نہیں ہوتی بلکہ علمی طور پر بھی ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَلَمۡ تَرَ كَيۡفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصۡحٰبِ الۡفِيۡلِ﴾ (الفیل: 1)
ترجمہ: "کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا معاملہ کیا"؟
کیونکہ اس وقت وہ لوگ موجود نہیں تھے اس لئے یہ صرف علمی رؤیت تھی، اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اگر حسابی طور پر معلوم ہو جائے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو اس کو بھی ماننا چاہئے۔ اس پر میں فوراً اٹھ گیا اور میں نے کہا حضرت! یہ حدیث شریف مکمل کر دیں
"صُوْمُوْا لِرُؤْيَتِهٖ وَاَفْطِرُوْا لِرُؤيَتِهٖ" (ترمذی: 684)
ترجمہ: "(رمضان کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر ہی روزہ رکھنا بند کرو"۔
اس حدیث شریف کو مکمل پڑھ لیں آپ کی بات کا جواب اس میں موجود ہے، اس کے بعد دیگر علماء جو موجود تھے انہوں نے فوراً اس بات کا نوٹس لیا اور انہوں نے بھی کہا کہ آپ یہ حدیث مکمل پڑھ لیں۔ کیونکہ اس حدیث میں یہ بھی آتا ہے: ’’فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ‘‘ یعنی اگر تمہارے اوپر کوئی چیز آڑ بن جائے تو پھر 30 پورے کر لو۔ اب یہ آڑ علمی تو نہیں ہوتی بلکہ یہ تو ایک حسی چیز ہوگی، لہٰذا یہ رؤیت بصری ہے نہ کہ علمی۔ مطلب یہ ہے کہ ہر وقت ہر چیز ہر ایک کے لیے ایک جیسی نہیں ہوتی، بلکہ اس میں محل، شخص اور موقع کے حساب سے فرق پڑ سکتا ہے۔
سوال نمبر 33:
حضرت! تزکیہ سے روح کی بیماری مثلاً غصہ ہے وہ دور ہوگیا لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ بی پی کی وجہ سے غصہ آ رہا ہو اور یہ جسمانی بیماری ہے یہ غصہ پھر کیسے کنٹرول ہوگا؟
جواب:
یہ بات آپ کی بالکل صحیح ہے، جیسے حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ایک خلیفہ ہیں مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ان کو رقت بہت زیادہ تھی یعنی رونا بہت آتا تھا، انہوں نے حضرت سے بات کی تو حضرت نے ان سے فرمایا کہ پہلے ڈاکٹر سے یا حکیم سے تحقیق کر لو کہ یہ تمہارے دل کی کمزوری کی وجہ سے تو نہیں ہے، انہوں نے تحقیق کرنے کے بعد کہا کہ نہیں یہ اس وجہ سے نہیں ہے، حضرت نے فرمایا پھر ٹھیک ہے۔ یعنی بعض چیزیں confusing (الجھانے والی) ہوتی ہیں، یعنی غصہ تکبر کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے اور غصہ بلڈ پریشر کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، ایسے ہی خارش کسی کو لگی ہے تو اس کی وجہ سے چڑچڑا پن ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی مشکل کام میں ہے اور وہ آ رہا ہے تو اس کو یہ نہ کہو کہ نماز پڑھو کیونکہ اگر تم اس کو نماز پڑھنے کو کہو گے اور اس کے منہ سے نکل گیا کہ نہیں پڑھتا تو اس کا بہت نقصان ہو جائے گا بلکہ تم اس کی حالت کو دیکھو کہ کس حالت میں ہے۔ لہٰذا وہ غصہ جس وجہ سے ہے اس کا علاج اسی طریقے سے کرنا چاہئے، اگر تکبر کی وجہ سے ہے تو تزکیہ سے دور ہوگا اور اگر کسی physical reason سے ہو تو اس physical reason کا علاج کرنا چاہئے، جیسے بلڈ پریشر ہے، یا چڑچڑا پن ہے یا کوئی اندرونی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے اس کو ٹینشن ہے اور اس کی وجہ سے اسے غصہ آتا ہے تو پھر اس کا علاج کرنا چاہئے۔
سوال نمبر 34:
حضرت! مسجد جاتے ہوئے کہتے ہیں چلو بھائی نماز کے لیے چلو، تو وہ کہتا ہے کہ بس آتا ہوں۔ حالانکہ اس نے آنا نہیں ہوتا، اور یہ بھی ایک قسم کا ہوائی فائر ہوتا ہے کہ چلو نماز کے لئے، تو بجائے اس کے کہ یوں کہے چلو چلو نماز کے لیے۔ کسی اور طریقے سے حکمت سے بات کی جائے۔
جواب:
حضرت شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ اس موقع پر یہ کرتے تھے کہ جب اذان ہو جاتی اور آپ نماز کے لئے جاتے تو یوں فرماتے کہ میں نماز کے لیے جا رہا ہوں۔ یہ نہیں فرماتے تھے کہ نماز کے لیے آؤ۔ کیونکہ اذان ہوگئی اور اذان اعلان ہے اس لئے بعض حضرات نے اس کو بدعت کہا ہے کہ جب اذان ہو جائے اور پھر کوئی یہ کہے کہ نماز کے لیے آؤ۔ کیونکہ اذان ہے ہی اس مقصد کے لیے، اس لئے دعوت ہوگئی، اب اگر کسی نے remind کرنا ہو تو اس طرح بھی کیا جا سکتا ہے کہ بھائی! میں نماز کے لیے جا رہا ہوں۔ جس کو جانا ہوگا وہ آپ کے ساتھ چلا جائے گا اور جس نے نہیں جانا ہوگا اس کا پھر بعد میں سوچ لینا۔
وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ