سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 097

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


سوال نمبر 1:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ یہ جو اصلاحی ذکر ہم کرتے ہیں، کیا اس میں آنکھیں بند رکھنی چاہئیں؟ کیا اس سے زیادہ فائدے ہوگا یا نہیں؟

جواب:

اصل میں ہر ذکر میں (بالخصوص جو اصلاحی اذکار ہوتے ہیں ان میں) یکسوئی لازم ہے۔ یکسوئی بہت عام چیز ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ یکسوئی ہو، چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ یکسوئی ہر شخص کے لئے مختلف حالات میں مختلف طریقوں سے حاصل ہوسکتی ہے۔ لہٰذا یہ کوئی عام قانون نہیں ہے، البتہ زیادہ تر لوگوں کو جب آنکھیں بند ہوں تو اس وقت یکسوئی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر وہ آنکھیں بند کرلیں تو ان کو فائدہ زیادہ ہوگا۔ لیکن اگر کسی کو اس سے فرق نہیں پڑتا یعنی وہ کھلی آنکھوں سے بھی صحیح تصور کرسکتے ہیں اور ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا تو پھر ان کے اوپر یہ پابندی نہیں ہوگی۔

سوال نمبر 2:

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔ حضرت جی! خانقاہی نظام ہی کیوں آج کل ضروری ہے؟ اور کیوں اس کے اوپر اتنا زور دیا جاتا ہے؟

جواب:

خانقاہی نظام کیوں ضروری ہے؟ میں اگر سوال کے اندر سوال کرلوں کہ بیماری کا علاج کیوں ضروری ہے؟ تو جواب کیا ہوگا؟ بس کوئی آدمی بیمار ہی نہ ہو تو یہ بڑی اچھی بات ہے، یہ خوامخواہ اتنے ہسپتالوں کا قیام اور اتنے ڈاکٹروں کی موجودگی اور اتنی ساری محنت اور کوشش۔ اس کے بجائے یہ اچھا نہیں کہ سارے لوگ بس اچھی صحت کے ساتھ رہیں اور کسی ڈاکٹر کی ضرورت نہ ہو؟ اگر اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہمارے بس میں نہیں ہے، کیونکہ بیمار تو ہوتے ہیں، اور جب بیمار ہوں گے تو ڈاکٹر بھی ہوں گے، ڈاکٹر ہوں گے تو ہسپتال بھی ہوں گے، کلینکس ہوں گے۔ تو پھر اسی طریقے سے روحانی بیماریوں کا علاج بھی ضروری ہے۔ جسمانی بیماریوں میں تو نقصان، تکلیف یا مشکل یہ ہے کہ اگر جسمانی بیماریوں کا علاج نہیں کیا گیا تو زیادہ سے زیادہ اس کا نقصان موت کی صورت میں ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن روحانی بیماریوں کا اگر علاج نہ کیا جائے تو اس کا نقصان جہنم پہنچنا ہوتا ہے، جو کہ بہت سخت نقصان ہے۔ کیونکہ باقی تکلیفیں تو موت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہیں، لیکن وہاں کی جو تکلیف ہے وہ موت کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔ اس وجہ سے وہ زیادہ اہم ہے اور اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ چنانچہ اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے:

﴿قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۝ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔1

یعنی یقیناً کامیاب ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور اس کو پاک کرلیا۔ اور وہ تباہ و برباد ہوگیا جس نے اپنی اصلاح نہیں کی اور اس کو ویسے ہی چھوڑ دیا۔ چنانچہ اللّٰہ پاک جس چیز پر مکمل بربادی کی اطلاع دے رہے ہیں، اس سے بچنا کتنا ضروری ہوگا؟ لہٰذا نفس کی اصلاح ضروری ہے۔ اور نفس کی اصلاح یہ خانقاہی نظام کے ذریعے سے ہوتی ہے، اس لئے خانقاہی نظام ضروری ہے۔ کیونکہ ضروری کا مقدمہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

سوال نمبر 3:

قرآن کریم کی ایک آیت ہے: أَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ

﴿فَاُولٰٓئِكَ مَعَ الَّذِيۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيۡقِيۡنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيۡنَ‌ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِكَ رَفِيۡقًا﴾ (النساء: 69)

ترجمہ: ’’ (یہ لوگ) ان کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔ اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں‘‘۔

اس آیت میں صدیقین لفظ آیا ہے۔

اور دوسری آیت ہے:

﴿يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ﴾ (التوبہ: 119)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔

تو صادقین اور صدیقین ایک ہیں یا علیحدہ علیحدہ؟

جواب:

بڑا اچھا سوال ہے۔ اصل میں یہ آیت جو آپ نے پڑھی ہے، یہ اس آیت کا تکملہ ہے جو سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

﴿اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ﴾ (الفاتحہ: 7)

ترجمہ: ’’(ان لوگوں کے راستے کی) جن پر تو نے انعام کیا ‘‘۔

یعنی اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ اے اللّٰہ! ہمیں وہ راستہ دکھا دے جس پر تو نے انعام فرمایا ہے۔ اب انعام کن پر ہوا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو انبیاء ہیں، صدیقین ہیں، شہداء ہیں اور صالحین ہیں، ان پر انعام ہوا ہے۔ یہ درجہ بندی ہے۔ اس میں انبیاء سب سے پہلے ہیں، اس کے بعد صدیقین ہیں، پھر شہداء ہیں، پھر صالحین ہیں۔ لیکن صادقین سب ہیں۔ یعنی جو بھی سچ بولنے والا ہے جس category میں بھی ہے، وہ صادقین میں سے ہے۔ لہٰذا اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انبیاء کرام بھی صادقین ہیں، ان کے ساتھ تو ہونا فرض ہے، یعنی جو بھی وقت کا نبی ہوگا، اگر اس کے ساتھ نہیں ہے تو ایمان ہی ختم ہوجائے گا۔ اس لئے ان کو تو ماننا لازم ہوگا۔ اور اپنے اپنے دور کے جو صدیقین ہوں گے، اصلاح کا سارا نظام ان کے اوپر منحصر ہوگا، اس لئے ان کا ساتھ دیا جائے گا۔ لیکن جہاں تک اصلاح کی بات ہے یعنی اپنی اصلاح کے لئے صحبتِ صالحین ہے، اس کو ہم یوں کہہ لیں کہ ﴿كُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ﴾ سے مراد صحبتِ صالحین ہے۔ لہٰذا صحبت صالحین یعنی جتنے صالحین ہیں، ان میں سے کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ سب سے زیادہ مناسبت ہو اور اس کے اوپر آٹھ شرائط بھی پوری ہوتی ہوں، تو ان کو اپنی اصلاح کے لئے ہم چنیں گے۔ اور پھر وہ ہمارے شیخ کا کام ہوگا اور شیخ کی مجلس وہ صحبتِ صالحین کی Concentrated form ہے، یعنی تمام صحبتِ صالحین اس کے اندر converge ہوجاتی ہیں۔ اس وجہ سے جن کا شیخ ہے، ان کو کسی اور سے صحبتِ صالحین میں (جب تک وہ موجود ہے اور ان کے ساتھ رابطہ ہوسکتا ہے تو) کسی اور کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

سوال نمبر 4:

حضرت عائشہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے ایک حدیث روایت ہے کہ جب میں ناراض ہوتی تھی تو حضور ﷺ مجھے مناتے تھے۔ دوسری طرف یہ روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ازواج مطہرات سے ایک مہینے تک ناراض رہے تھے۔ ان دونوں میں کس طرح تطبیق ہوگی؟

جواب:

تطبیق تو بہت آسان ہے۔ اصل میں نبی جو ہوتے ہیں وہ اگر کسی دینی بنیاد پر ناراض ہوں تو ظاہر ہے کہ وہ ناراضگی اس کی اصلاح کے لئے (جتنی ضروری ہے) کرنی تھی۔ باقی جہاں تک طبعی چیزیں ہیں، یعنی اس کی دل جوئی کرنا وغیرہ یہ طبعی طور پر ہے اور یہ ضروری ہے۔ اور نبی کی شان بھی یہی ہے کہ وہ دل جوئی کیا کرتے تھے یعنی طبعی ناراضگی جو ہوتی تھی، اس کے لئے طبعی دل جوئی کیا کرتے تھے۔ لیکن دینی باتوں میں آپ ﷺ ناراض ہوتے تھے اور روایت میں آتا ہے کہ غصے کے وقت آپ ﷺ کی ایک رگ ابھر آتی تھی۔ جیسے اسامہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا:

’’اَتَشْفَعُ فِیْ حَدٍّ مِنْ حُدُوْدِ اللّٰهِ‘‘ (بخاری شریف: 3475)

ترجمہ: ’’کیا حدود اللّٰہ میں تم سفارش کر رہے ہو؟‘‘

اور جیسے آپ ﷺ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر تورات کے پڑھنے پر ناراض ہوئے تھے۔ (مشکوٰۃ: 194)

لہٰذا نبی کی جو نبوت کا منصب ہے وہ اگر کسی ناراضگی کی طرف جاتی ہے تو پھر اس میں ناراضگی لازم ہوتی ہے۔ جہاں تک طبعی چیزیں ہیں تو طبعی چیزوں کا طبعی علاج ہوتا ہے۔ اور آپ ﷺ چونکہ سب سے زیادہ کریم تھے اس لئے دل جوئی بھی فرماتے تھے۔

سوال نمبر 5:

آج کل کے دور میں ہمارے لئے کیا حکم ہے؟

جواب:

بالکل صاف بات ہے کہ اگر بیوی ناراض ہے طبعی وجہ پر، یا اس کی کوئی غلط فہمی ہے تو اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہئے اور طبعی طور پر اس کی دل جوئی بھی کرنی چاہئے، بلکہ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وہ ایسی بات پر ناراض ہے کہ آپ نے یا کسی اور نے ان کو کسی شرعی حکم مکمل نہ کرنے پر ڈانٹا ہے تو ایسی صورت میں حکمت کے ساتھ ناراضگی اس کی تادیب کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ جس کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔

سوال نمبر 6:

ایک مقولہ ہے کہ شیخ نبی کے قائم مقام ہوتا ہے۔ اور یہ حضرت مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مقولات میں ہے کہ گھر کا جو بڑا ہوتا ہے وہ بھی اسی درجے میں ہوتا ہے؟ تو کیا ہمارے دیہات وغیرہ میں جو بڑے ہوتے ہیں وہ بھی اسی category میں آسکتے ہیں؟

جواب:

اصل میں پورا سیاق و سباق دیکھ کر کوئی بات انسان کرسکتا ہے۔ لیکن جہاں تک میری سمجھ میں ہے، اس پر میں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ مشائخ کا اپنے مریدین کے لئے نبی کے قائم مقام ہونا یہ تو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آتا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو ان سے استفادہ نہیں کیا جاسکے گا، جس طرح صحابہ آپ ﷺ سے علمی اور اصلاحی استفادہ کرتے تھے، اسی طرح علماء سے اور مشائخ سے علمی اور اصلاحی استفادہ کرنا ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ آپ ﷺ کی حیثیت علمی بھی تھی اور اصلاحی بھی تھی، اس لئے سب کچھ ان سے لیا جاتا تھا۔ لیکن اس صورت میں یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک ہی ہوں بلکہ ممکن ہے کہ شیخ عالم ہو، ممکن ہے کہ عالم نہ ہو۔ اور ممکن ہے کہ عالم شیخ ہو اور ممکن ہے کہ نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اگر وہ عالم ہے تو علمی لحاظ سے ان کی خدمت اور ان سے استفادہ ضروری ہے اور اگر شیخ ہے تو شیخ کے لحاظ سے ان کی خدمت اور ان سے استفادہ ضروری ہے۔ اگر دونوں میں سے ایک ہے تو پھر اس کے بقدر ہوگا۔ لیکن جہاں تک گھر میں جو بڑا ہوتا ہے، وہ نبی کے لحاظ سے ہو، یہ مجھے نہیں سمجھ آرہا فی الحال۔ یہ تو سیاق و سباق دیکھ کر ہی معلوم کیا جاسکے گا۔ ’’رَبُّ الْبَیْتِ‘‘ ایک لفظ ہے، یہ گھر کے بڑے کے لئے ہوتا ہے یعنی جو پورے گھر کی پرورش کرنے والا ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں ان کے ساتھ تعاون اور ان کی خدمت اور ان کی بات ماننا یہ انتظامی لحاظ سے ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ انتظامی امور کے لئے ہے۔ جیسے کہ عالم کے لئے ضروری نہیں کہ وہ شیخ ہو اور شیخ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ عالم ہو، اور دونوں میں ایسا ہونا ممکن بھی ہے۔ اسی طرح ’’رَبُّ الْبَیْتِ‘‘ کا بھی ان دونوں میں سے ہونا ممکن بھی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہو۔ لہٰذا ہر ایک کی حیثیت جدا جدا ہے، ’’رَبُّ الْبَیْتِ‘‘ کی حیثیت سے ان کی بات ماننا گھر کے انتظامی امور میں اور ان کے ساتھ تعاون کرنا اور ان کی خدمت کرنا ضروری ہے۔ اور علمی لحاظ سے علماء کی خدمت کرنا اور ان سے علمی استفادہ کرنا ضروری ہے اور مشائخ کی خدمت اور ان سے اصلاحی استفادہ ضروری ہے۔ یہ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہوگا۔

ایک غزل ہے، فنا، بقا، عبدیت اور محبوبیت کے بارے میں۔

اعلی کہہ دے محبوبیت کو کوئی

فنا، بقا کو عبدیت کو کوئی

عبد محبوب ہے اور فانی باقی

پائے اگر اس حقیقت کو کوئی

آپ محبوب ہیں اور عبدہ بھی

دیکھ لیں اس کی نزاکت کو کوئی


فنا فی اللّٰہ آپ سے ہیں زیادہ کون

آپ کی دیکھے للہیت کو کوئی


ساتھ رب کے باقی آپ کیسے ہیں

دیکھے آپ کی مقبولیت کو کوئی


دعا میں بندگی شبیرؔ مانگے

یاد رکھے میری اس حاجت کو کوئی


اصل میں اس میں سوال یہ ہے کہ بعض لوگوں نے تصوّف کا آخری مقام محبوبیت بتایا ہے، بعض نے عبدیت بتایا ہے، بعض نے فنا بتایا ہے اور بعض نے بقا بتایا ہے۔ یہ چار اصطلاحات ہیں، اور اپنے اپنے مفاہیم رکھتی ہیں۔ محبوبیت سے مراد اللّٰہ پاک کا محبوب بننا ہے۔ یہ یقیناً بڑا مقام ہے۔ عبدیت سے مراد اللّٰہ پاک کا بندہ بننا ہے اور اللّٰہ کا بندہ بننا، اس کا بھی بہت بڑا مقام ہے۔ فنا فی اللّٰہ کا مطلب ہے کہ صرف اللّٰہ کے لئے ہر کام کرنا ہے، اس کا بھی بہت بڑا مقام ہے۔ اور بقا باللہ کا مطلب ہے کہ اللّٰہ پاک اس کا ہوجائے۔ یہ بھی بہت بڑا مقام ہے۔ چونکہ اس میں لوگ discussion کرتے ہیں، اس discussion کا جواب یہ ہے کہ چاروں مقامات ایک ہیں۔ یعنی جو اللّٰہ کا محبوب ہے، وہ وہی ہے جو اللّٰہ کا بندہ بھی ہے اور اس کا طریقہ وہی فنا فی اللّٰہ ہونا ہے اور فنا فی اللّٰہ کا نتیجہ باقی باللّٰہ ہونا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ چاروں چیزیں ایک ہیں۔ اور اس میں آپ ﷺ کی مثال دی گئی ہے کہ آپ ﷺ اللّٰہ کے محبوب بھی ہیں اور آپ ﷺ اللّٰہ کے بندے بھی ہیں اور آپ ﷺ سب سے زیادہ فنا فی اللّٰہ ہیں اور آپ ﷺ کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے یعنی بقا باللّٰہ ہے۔ تو جس طرح چاروں مقامات آپ ﷺ کے لئے ثابت ہیں، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ چاروں مقامات ایک ہیں۔ اسی طرح بندگی اور عشق، یہ بھی ایک بات ہے۔ مجھ سے کسی نے Email کے ذریعے سے سوال کیا تھا کہ عشق زیادہ اچھا جذبہ ہے یا بندگی بڑا جذبہ ہے؟ اور اس سوال میں انہوں نے ایک شعر پڑھا تھا:

؎ دل مبتلائے یار کو سمجھائے اب کوئی۔

پھر اس کا جواب یہ غزل تھی۔

’’بندگی اور عشق‘‘

یار کی بات علی رأس العین

چاہئے بات اس کی اونچی رہے

دل میرا وصلِ یار کا طالب

پر انتظار کی گھڑی چلتی رہے

یار سے مراد یہاں پر اللّٰہ جل شانہٗ کی ذات ہے کہ اس کی بات سر آنکھوں پر اور یقیناً اللّٰہ کی بات کو اونچا رہنا چاہئے اور یقیناً دل میرا اس کے وصل کے لئے تڑپ رہا ہے۔ لیکن جیسے اس کا امر ہے تو انتظار کی گھڑی چلنی چاہئے کیونکہ جب وہ چاہے گا تو ہوگا۔

وہ جب چاہے کہ میں تڑپتا رہوں

یہ تڑپنا بھی وصلِ یار ہی ہے

یعنی جب اس کا ارادہ ہے کہ میں تڑپتا رہوں تو پھر تڑپتے رہنا چاہئے۔

عشق میرا بندگی میں ہو خام کیوں

مطالبہ اس کا جب بندگی ہے

یعنی اگر عاشق ہے تو عاشق کو تو محبوب کی ہر بات ماننی چاہئے۔ اگر اس کا بندگی کا مطالبہ ہے تو اس میں کیوں پیچھے ہوگا؟ لہٰذا یہاں پر بھی دونوں چیزیں ایک ہوجائیں گی۔ کیونکہ سب سے بڑا عاشق سب سے بڑا بندہ ہوجائے گا۔

اپنے محبوب کا بندہ ہوں جب

عشق اور بندگی تو ایک ہوئی

جاں کا مالک بھی ہے دل بھی ہے دیا

عشق اور بندگی تب ایک ہی ہے

یعنی جان کا مالک بھی وہی ہے اور اس نے دل بھی دیا ہے، تو جان کے مالک ہونے کے لحاظ سے بندے ہیں ہم اور دل دیا ہے اس کو، تو اس کے لحاظ سے یہ عاشق ہیں۔

بندگی اس کی ایک حقیقت ہے

عشق کا زور بھی مسلَّم ہے

اس حقیقت پے مر مٹا ہے دل

جب عشق کی روشنی اس کو ملی ہے

دل مجبور و مبتلا کے لئے

یہ تسلی ہے کہ میں اُس کا ہوں

خود وہ کہہ دے شبیر وہ بھی ہے میرا

کون جانے اس پے کتنی خوشی ہے

یار کی بات علی رأس العین

چاہئے بات اس کی اونچی رہے

عشق اور بندگی کے بارے میں رباعی:

عشق کیسے بندگی سے ہووے جدا

بندگی جب ہو کہ اس پے ہو فدا

دل و جاں دے کے بھی ملے وہ اگر

زہے نصیب ہے سستا سودا

کسی نے مجھے ٹیلی فون پر اپنے کچھ اشعار سنائے۔ اس میں اس نے کہا تھا کہ دل و جان میں نے دیا ہے اس کو، لیکن دنیا داروں کو اس کا کیا پتا ہوگا؟ میں نے اسے فوراً کہہ دیا کہ دل و جان کی اس کے سامنے کیا حیثیت ہے؟ دل و جان کی تو ہمارے لئے ہی حیثیت ہے، اس کے لئے اس کی کوئی حیثیت نہیں۔

دل و جاں کی بھی حیثیت کیا ہے

اور جو مانگتے ہیں وہ حالت کیا ہے

دل و جاں وہ ہی جب قبول کرلے

واہ رے یہ قبولیت کیا ہے

مطلب یہ ہے کہ دل و جاں تو تب بنتا ہے جب وہ قبول کر لے، ورنہ یہ تو ضائع ہوجائے گا، کوئی حیثیت نہیں ہے، سب ختم ہوجائے گا۔ دل و جاں کی قیمت ہی تب بنے گی جب وہ قبول فرما لے۔

سوال نمبر 7:

حضرت جی! رابطۂ شیخ کو قوی کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

یہ سوال چونکہ خواتین کی طرف سے آیا ہے، اس لئے جواب بھی اسی کے مطابق دیا جائے گا۔ شیخ کے ساتھ رابطہ مضبوط کرنے میں ایک تو یہ بات ہے کہ شیخ جوassignmentدے یعنی جو کام بتائے، اس کام کو مکمل کرے اور اس کی اطلاع دے۔ اس میں معمولات بھی ہوسکتے ہیں، اس کے بارے کوئی اور کام بھی ہوسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ شیخ کی جو مجالس خواتین کے لئے ہوتی ہیں یا جس میں خواتین کو اجازت ہوتی ہے، اس میں جتنی زیادہ وہ مجالس attend کرسکتی ہیں، وہ کرلیں۔ یا internet پر جو جا رہی ہیں ان کو attendant کی جاسکتی ہیں۔ اور پھر اس کے بارے میں جو ضرورت ہو یعنی سوالات وغیرہ پوچھنے کی، ان کے ساتھ ہو۔ لیکن چونکہ ladies کا معاملہ ہے اور ladies ہر وقت حاضر نہیں ہوسکتیں، لہٰذا ان کے لئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ اپنے معمولات پورے کرکے باقاعدہ regularly اس کی اطلاع دے دیا کریں اور اس میں اگر کوئی اور مزید تفصیلات جاننے کی ضرورت ہو تو اس کے لئے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ ان کے لئے یہ کافی ہوجاتا ہے۔ البتہ مردوں کے لئے ذرا زیادہ ہے۔

سوال نمبر 8:

یہ جو ابھی شعر پڑھا ہے، اس میں کیا یہی ہے کہ جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں اور بظاہر ہم بندگی کی کوشش کرتے ہیں اس میں۔ لیکن اس میں اگر خشوع و خضوع نہیں ہوتا تو کیا یہ اس عشق کی کمی کی وجہ سے ہے؟ اور اگر یہ عشق نہیں ہے خشوع و خضوع کے اندر تو پھر وہ بندگی کے کس زمرے میں آتا ہے؟ یا پھر بالکل وہ نہیں ہوتا؟

جواب:

اچھا سوال ہے۔ نماز تو ہے ہی بندگی کے لئے، یعنی بندگی کے اظہار کے لئے جو عمل لازم کیا گیا ہے وہ نماز ہے۔ اس وجہ سے اس میں بندگی کا اظہار ہوتا ہے، مثلاً اس میں جسم کا سب سے زیادہ اشرف مقام یعنی پیشانی سب سے اسفل مقام پر اللّٰہ کے سامنے انسان رکھ لیتا ہے کہ میں تیرے لئے یہاں تک جاسکتا ہوں، اس میں میں اپنی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالوں گا کیونکہ تو میرا آقا ہے، تو میرا رب ہے، میری تیرے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ اصل میں بنیادی چیز ہوتی ہے۔ اور لوگوں کا لوگوں کے سامنے جھکنا جو منع ہے اس میں بھی وجہ یہی ہے کہ یہ شان صرف اللّٰہ کی ذات کی ہے کہ اس کے سامنے Complete surrender کیا جائے۔ تو یہ Complete surrender جو ہے یہ بندگی ہے، ہم کہہ سکتے ہیں کہ پورا اسلام بندگی ہے کیونکہ اسلام میں بھی Unconditional surrender for اللّٰہ والی بات پائی جاتی ہے۔ اور نماز اس کی ایک مثالی صورت ہے۔ تو اس مثالی صورت میں ہم یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں، جس سے اسلام کے اوپر چلنے کی توفیق ہوجاتی ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنۡهٰى عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَلَذِكۡرُ اللّٰهِ اَكۡبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔

اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ جب انسان اللّٰہ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر پاتا ہے اور وہ ساری حرکات اس طرح کرتا ہے جس طرح اللّٰہ چاہتا ہے تو گویا کہ اس کی ایک symbolic انداز میں اس کو تعلیم دی جا رہی ہے کہ باقی زندگی میں بھی تم اس طرح اللّٰہ کے سامنے رہو کہ جو وہ چاہتا ہے وہ کرو، جو وہ نہیں چاہتا اس کو نہ کرو۔ باقی عشق کا مفہوم یہ ہے کہ انسان محبت اس ذات کے ساتھ کرے جس کے ساتھ اس کو عشق ہے، یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے محبوب کی بات کے سامنے کسی اور کی بات نہیں چلتی اور انسان کی اپنی بات بھی نہیں چلتی، یعنی نہ ہی کسی اور کی بات چلتی ہے، نہ ہی اپنی بات چلتی ہے۔ انسان کی جتنی بھی خواہشات ہیں وہ محبوب کو خوش کرنے کی خواہش کے سامنے ختم ہوجاتی ہیں، practically ایسا ہوتا ہے کہ اگر واقعی کسی کو کسی سے محبت ہے تو اس کے سامنے اپنی خواہش ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً جس کے ساتھ محبت ہے اس نے اگر اس کو بلا لیا، لیکن اس وقت اس کو سخت بھوک لگی ہو اور کھانے کی خواہش ہو، لیکن وہ اپنے کھانے کی خواہش کو نہ دیکھتے ہوئے بس اس طرح ہی چل پڑے گا۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ یہ محبت ہے۔ اس میں پھر یہ ہوتا ہے کہ انسان کی طبیعت بن جاتی ہے، یا Structure of mind بن جاتا ہے۔ وہ یہ ہوتا ہے کہ جس وقت بھی محبوب نے کسی چیز کا تقاضا کرلیا تو بس پھر اپنے تقاضے ختم ہوجاتے ہیں۔ جب یہ بات کسی کو سمجھ میں آجائے تو پھر یقیناً اگر کسی کو محبت ہے اور وہ بندگی کرنا چاہتا ہے تو بندگی میں جو چیز required ہے وہ عشق کا بھی مطالبہ ہے۔ لہٰذا وہ جب نماز پڑھے گا تو وہ نماز اس کی عاشقانہ نماز ہوگی یعنی وہ سوچ کے نہیں جائے گا بلکہ کھنچ کے جائے گا، اگرچہ اتنی سوچ اس کو ہوگی کہ یہ اس کے حکم کے خلاف نہ ہوجائے۔ بعض دفعہ عشق کا مادہ ذرا زیادہ تیز ہوجاتا ہے، اس وقت بعض دفعہ انتظامی امور میں خلل بھی پڑ جاتا ہے، لیکن جس وقت کسی وقتی جذبہ کی وجہ سے خلل پڑتا ہے تو اس میں وہ عاشق معذور ہوتا ہے، جس کو وجدی کیفیت کہتے ہیں، اس میں وہ معذور ہوتا ہے۔ وہ اس کا Side effect ہوتا ہے۔ لیکن جس کو اپنے اعصاب کے اوپر کنٹرول ہو، وہ اپنے وجد کو بھی کنٹرول کرسکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میرا محبوب یہ چاہتا ہے کہ میں اس کو کنٹرول کرلوں۔ لیکن اگر وہ اس کے کنٹرول سے باہر ہو، تب تو ٹھیک ہے، کیونکہ وہ محبوب اس کو mind نہیں کرتا کیونکہ یہ اس کی مجبوری ہے۔ لیکن اگر اس کی مجبوری نہ ہو اور اس کو کنٹرول کرسکتا ہو تو وہ کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ depend کرتا ہے کہ اس کی اعصابی قوت کتنی ہے؟ اس کی Will power کتنی ہے؟ مثلاً جنید بغدادی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی مجلس میں ایک شعر پڑھا گیا تو سب کو بڑا وجد آگیا، لیکن حضرت خاموش بیٹھے رہے جیسے کچھ بھی نہیں ہوا۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ حضرت! آپ کو کچھ نہیں ہوا؟ فرمایا: میرے جسم کے کسی حصے کو ہاتھ لگاؤ، جیسے کسی جگہ کو ہاتھ لگایا، تو وہاں سے خون ابل پڑا۔ تو حضرت نے فرمایا کہ سب کچھ ہو لیکن اندر ہی اندر ہو۔ وہ صاحب چونکہ پہلوان تھے practically پہلوان تھے یعنی پہلوانی سے اس کام کی طرف آئے تھے، تو یہ پہلوانی انہوں نے یہاں پر استعمال کرلی۔ ارادے کے بڑے پکے تھے، اعصابی قوت مضبوط تھی۔ لہٰذا اپنے آپ کو کنٹرول کرلیا۔ حضرت مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا بڑا عجیب واقعہ ہے۔ (آپ کے سوالات کی برکت سے یہ سامنے آگیا) یہ چونکہ ایک مجذوب نما بزرگ تھے۔ مجذوب نما میں نے اس لئے کہا کہ بعض حضرات کے اوپر جذب کبھی کبھی آتا ہے، ہمیشہ نہیں ہوتا، جیسے خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے۔ یہ اکثر تو ہوش میں رہتے تھے لیکن کبھی کبھی ان کو جوش بھی آتا تھا۔ ایک ایسے ہی صاحب تھے، مولانا جامی نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، ایک اور صاحب بھی اس نماز میں شامل تھے، نماز میں امام سے کچھ ایسی حرکت ہوگئی کہ (چونکہ مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، ان کو پتا تھا کہ اس کی گنجائش ہے، اس لئے انہوں نے نماز نہیں توڑی لیکن) دوسرے آدمی نے نماز توڑ دی۔ بعد میں اس ساتھی نے مولانا کو کہہ دیا کہ انہوں نے تو نماز میں ایسی حرکت کی تھی، اس لئے میں نے نماز توڑ دی تھی۔ مولانا نے کہا مجھے آپ پر بہت افسوس ہوا کہ اتنی مقبول نماز آپ سے رہ گئی، چونکہ اس میں تو یہ گنجائش تھی۔ اسی طرح حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ ہے کہ نماز میں کوئی ایسا مسئلہ پیش آگیا (چونکہ کچھ ایسے مسائل ہیں جو عام عوام میں بیان نہیں کرنے چاہئیں لیکن فقہ کی کتابوں میں وہ لکھے ہوئے ہیں) تو حاجی صاحب سے کوئی شکایت کر رہے تھے اور حاجی صاحب مسکرا رہے تھے۔ انہوں نے کہا حضرت! کیا بات ہے؟ فرمایا دیکھو! اس سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ لیکن اگر کوئی قصداً کرلے تو ایسا کرنا حرام ہے، لیکن چونکہ وہ قصداً نہیں کرتے، اس لئے معذور تھے، لہٰذا اس کو گناہ بھی نہیں ہو رہا تھا۔ پس اتنی باریکی کے ساتھ انہوں نے اس کی analysis کی، لیکن یہ ہر ایک کا کام نہیں ہوتا، ہر ایک یہ نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ حضرات اس کو دیکھتے ہیں کہ اس کی کیفیت کیا تھی۔ لہٰذا بعض دفعہ وہ کیفیت بہت زیادہ important ہوجاتی ہے اور وہی مقامِ عشق والی بات ہوتی ہے کہ اس کا عشق اور بندگی آپس میں گڈمڈ ہوجاتے ہیں۔ اور جو ان چیزوں کا ادراک کرنے والے ہوتے ہیں وہ تو سمجھ جاتے ہیں اور جو اس کا ادراک نہیں کر پاتے وہ بیچارے سوچتے رہ جاتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

حضرت! اسی سے متعلق یہ سوال ہے کہ اگر عشق کا دعویٰ ہو اور بندگی میں کمزوری ہو یا نہ ہو، یا پھر دوسری طرف اگر بندگی کی کوشش ہو رہی ہو لیکن میرا عشق خالی ہو، تو مقتدی کیسے سمجھیں گے؟

جواب:

عاشق کبھی دعوٰی نہیں کرتا، عاشق تو ہمیشہ ناکام ہوتا ہے، وہ کہتا ہے کہ میں کیسا عاشق ہوں؟ کیونکہ محبوب کی شان اس کے اوپر اتنی غالب ہوتی ہے کہ وہ اپنی بڑی سے بڑی چیز کو بھی کچھ نہیں سمجھتا بلکہ کہتا ہے کہ میں کیسا عاشق ہوں؟ میں تو اس کو بدنام کرنے والا ہوں۔ لہٰذا عاشق عشق کا کوئی دعوٰی نہیں کرتا اگر واقعی عاشق ہو۔ اور اگر واقعتاً عشق ہے تو بندگی کے خلاف وہ کم از کم قصداً نہیں جاسکتا۔ جیسے میں نے بات بتا دی کہ اگر جائے گا تو عذر کی وجہ سے ہوگا یعنی عشق کی آگ اتنی تیز ہوگی کہ اس کا اس پر کنٹرول نہیں ہوسکے گا۔ لہٰذا عذر کی حالت میں کبھی اس قسم کی بات ہوجائے گی جس کو عام لوگ سمجھیں گے کہ یہ تو اس نے بندگی کے خلاف کردیا، حالانکہ وہ خلاف نہیں ہوگا۔ جیسے موسٰی علیہ السلام اور گدڑیا والے کی بات کہ جب وہ کہہ رہا تھا کہ اے اللّٰہ! تو کدھر ہے؟ میں تیرے سر میں جوئیں دیکھوں، میں تیرے پیر دباؤں، یہ کردوں اور وہ کردوں۔ اب یہ باتیں اللّٰہ کے ساتھ کرنے کی تھوڑی ہوتی ہیں، اسی لئے موسی علیہ السلام نے (چونکہ پیغمبر تھے اس لئے) ان کو ایک تھپڑ مارا کہ اللّٰہ کے ساتھ اس طرح باتیں کرتے ہو؟ تو وہ روتا ہوا جنگل کی طرف نکل گیا، ادھر اللّٰہ پاک کی طرف سے وحی آئی کہ موسٰی! میں نے تو تجھے جوڑنے کے لئے بھیجا تھا، توڑنے کے لئے تو نہیں بھیجا تھا۔ وہ تو میرا عاشق تھا، اپنی زبان میں مجھ سے بات کر رہا تھا، جتنی اس کی سمجھ تھی اس کے مطابق وہ بات کر رہا تھا۔ جب موسٰی علیہ السلام کو پتا چلا کہ یہ تو اللّٰہ پاک کا محبوب ہے تو فوراً ان کے پیچھے دوڑ پڑے اور قریب جا کے ان سے معافی مانگی کہ آپ مجھے معاف کردیں، میں نے آپ کو تھپڑ مارا ہے۔ انہوں نے کہا موسٰی! تو نے تو مجھے اپنی جانِ جاناں کے ساتھ ہمراز کردیا، میں تو آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے مجھے یہ بتا دیا کہ میرا محبوب کیا چاہتا ہے؟ پس یہ بات ہوتی ہے کہ جن کو اللّٰہ تعالیٰ نے حوصلہ دیا ہوتا ہے اور اللّٰہ پاک نے انہیں ان چیزوں کی سمجھ کا یہ مقام دیا ہوتا ہے، وہ لوگ کرسکتے ہیں اور عام طور پر اس طرح کا اعتراض نہیں کرتے۔ لیکن قصداً وہ کبھی بھی بندگی کے خلاف نہیں کرسکتے، کیونکہ جو عاشق ہو اس سے یہ ناممکن ہے۔

سوال نمبر 10:

نماز میں یا ذکر میں توجہ نہ ہونے کی کیا وجوہات ہوتی ہیں؟ اور ان پر کس طرح قابو پایا جائے؟

جواب:

نماز میں اور ذکر میں توجہ۔ میرے خیال میں یہ دو علیحدہ چیزیں ہیں کہ ذکر توجہ لانے کا ایک ذریعہ ہے اور نماز اس کے استعمال کی جگہ ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جس کا ذکر بہتر ہوگا یعنی وہ ذکر میں یکسوئی حاصل کرسکا ہوگا، وہ وہی یکسوئی نماز میں بھی استعمال کرلے گا۔ لہٰذا عملی طور پر یکسوئی کی کوشش ذکر میں زیادہ کرنی چاہئے، پھر اس کا جو output ہوگا وہ نماز میں انسان حاصل کرلے گا۔ ایک دفعہ مجھ سے جماعت کے ایک ساتھی نے سوال کیا کہ آپ لوگ جو ذکر کرتے ہیں اس میں آپ کا کیا مقصد ہوتا ہے، کیوں ذکر کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ اس لئے تاکہ اللّٰہ پاک کا تعلق حاصل ہوجائے اور ہمارے اعمال اس کی وجہ سے صحیح ہوجائیں۔ کیونکہ جب اللّٰہ پاک ہمیں یاد رہیں گے تو ہم وہ کام کرسکیں گے جو اللّٰہ پاک چاہتے ہوں گے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ یہ چیز تو گشت میں بھی حاصل ہوسکتی ہے، تو پھر آپ کیوں اس کو ذکر کے ذریعے سے حاصل کرتے ہو؟ میں نے اس سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مولانا الیاس رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بڑے بزرگ ہیں۔ کیونکہ مولانا الیاس رحمۃ اللّٰہ علیہ تو فرماتے تھے کہ میں جب گشت کے لئے میوات جاتا ہوں تو میں صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں، پھر بھی لوگوں کے ساتھ ملنے کی وجہ سے میرا تعلق disturb ہوجاتا ہے، اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے میں یہاں رائے پور شریف جاتا ہوں یا سہارنپور شریف جاتا ہوں یا پھر میں مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ میں نے کہا کہ یہ دیکھیں! مولانا الیاس رحمۃ اللّٰہ علیہ آپ سے زیادہ جماعت کے جاننے والے ہیں، لیکن گشت میں ان کی بھی وہ چیز کم ہوگئی، اس کو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے ان کو وہ کام کرنا پڑا جس پر آپ اعتراض کر رہے ہیں۔ کیونکہ رائے پور شریف میں بھی ذکر ہوتا تھا اور سہارنپور شریف میں بھی ذکر ہوتا تھا اور اعتکاف میں بھی انسان ذکر ہی کرتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اس چیز کو کرلیا تاکہ دوبارہ حاصل ہوجائے۔ خیر نماز میں انسان اس لئے disturb ہوتا ہے کہ انسان جب دنیاوی چیزوں میں مشغول ہوتا ہے تو وہ ساری چیزیں اس کے دماغ میں ہوتی ہیں جو وہ دیکھتا ہے، مثلاً بازار میں پھرتا ہے، اپنے دفتر جاتا ہے، لوگوں کے ساتھ ملتا ہے، گھروں میں ہوتا ہے، یہ ساری چیزیں اس کے شعور میں ہوتی ہیں اور اگر کچھ عرصہ اس پر گزر جائے تو تحت الشعور میں چلی جاتی ہیں اور اگر اصلاح کے بغیر کچھ اور زیادہ عرصہ گزر جائے تو پھر وہ لاشعور میں چلی جاتی ہیں۔ اور پھر لاشعور میں جب چلی جاتی ہیں تو پھر اس کی اصلاح کافی مشکل ہوجاتی ہے یعنی اس کو تحلیلِ نفسی کی ضرورت پڑی تھی۔ پس جب یہ بات ہے تو ہم میں سے ہر شخص ہر وقت مشغول ہوتا ہو۔ اب اس کو مثال سے سمجھیں، جیسے ادھر کوئی شور ہو رہا ہوتا ہے مثلاً گرمی میں پنکھا چل رہا ہوتا ہے، تو ہمیں باہر کے شور کا پتا نہیں چلتا، لیکن جیسے ہی بجلی چلی جائے اور پنکھا ایک دم بند ہوجائے تو فوراً پتا چلتا ہے کہ باہر بڑا شور ہے، مختلف آوازیں آپ کو محسوس ہونے لگیں گی۔ تو پہلے وہ کیوں نہیں تھی؟ کیونکہ آپ پنکھے کے ساتھ عادی تھے، لیکن جیسے ہی پنکھا بند ہوگیا تو آپ کو وہ چیزیں محسوس ہونے لگ گئیں۔ اسی طرح آپ جس وقت نماز میں کھڑے ہوتے ہیں تو partly آپ یکسو ہوجاتے ہیں، جیسے ہی آپ یکسو ہوگئے تو آپ کے اندر کی جو چیزیں تھی، جو آپ کے اندر جمع ہو چکی تھیں (چونکہ باہر کا تو سب کچھ ختم ہوگیا تھا) تو اب انہوں نے سر مارنا شروع کرلیا اور آپ کو پتا چلنے لگا کہ اوہ! یہ کیا چیز ہے؟ لہٰذا اس میں ہمارا طریقہ یہ ہوگا کہ ہم پہلے ذکر پر محنت کریں گے۔ اور ذکر پر محنت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم لوگ ذکر میں کیا حاصل کریں گے؟ اس کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہم جس environment میں بھی ہیں اس environment سے ذکر کی طرف توجہ کرکے ہم کٹنا سیکھیں گے۔ اس لئے کہ ذکر میں تین stages ہیں۔ اول ذکر کی طرف دھیان، پھر ذاکر کی طرف دھیان، پھر مذکور کی طرف دھیان، یہ تین stages ہیں۔ ذکر کی طرف دھیان ہے تو آپ کو ذکر محسوس ہوگا کہ میں ذکر کر رہا ہوں، ذاکر کی طرف دھیان ہوگا تو آپ کو دل کے بارے میں محسوس ہوگا کہ میرا دل ذکر کر رہا ہے اور جب مذکور کی طرف دھیان ہوگا تو آپ کو دل کا بھی پتا نہیں چلے گا بلکہ آپ کا اللّٰہ پاک کی طرف دھیان ہوگا اور اگر آپ کو ذکر میں اللّٰہ کی طرف دھیان حاصل ہوگیا تو وہ نماز میں آپ استعمال کرلیں گے۔ پس جب آپ نماز میں کھڑے ہوں گے تو آپ کا دھیان اللہ کی طرف ہوگا۔ البتہ عین ممکن ہے کہ کسی شخص کو ذکر میں دھیان پہلے نصیب ہوجائے لیکن ابھی اس کو نماز میں حاصل نہ ہوا ہو، اس لئے اس کے اوپر مزید محنت اس کو کرنی پڑے گی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ نماز میں حرکت ہے اور ذکر میں سکون ہے یعنی اس میں ایک ہی کام آپ بار بار کر رہے ہیں، آپ کو کسی اور چیز کی طرف نہیں سوچنا بلکہ آپ کو صرف اسی کا سوچنا ہے۔ لہٰذا اس میں یکسوئی جلدی حاصل ہوجاتی ہے بمقابلہ نماز کے اندر، کیونکہ آپ کبھی قیام میں ہیں، کبھی رکوع میں ہیں اور کبھی سجدہ میں ہیں۔ اب اگر آپ اس یکسوئی کو جو ذکر میں حاصل ہے implement کریں گے تو آپ کا قیام لمبا ہوجائے گا اور آپ کو رکوع یاد نہیں رہے گا، اور رکوع شروع کرلیا تو سجدہ یاد نہیں رہے گا، جبکہ اس طرح تو آپ نہیں چاہتے، بلکہ اتنا تو آپ خود چاہتے ہیں کہ کم از کم یہ اعمال تو آپ کے بالکل صحیح صحیح ہوں۔ ورنہ غلطیاں کریں گے، مثال کے طور پر سورۂ فاتحہ ہے، اس کو اگر آپ repeat کرلیں%50 سے زیادہ تو آپ پر سجدہ سہو آجائے گا۔ مقصد یہ ہے کہ نماز کے اندر احکامات بھی ہیں، اس لئے اس کے اوپر محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے۔ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ ذکر کے اوپر محنت کرکے آپ نماز کے اندر وہ غیر محسوس کنٹرول حاصل کرسکتے ہیں۔ غیر محسوس میں نے کیوں کہا؟ کیونکہ اگر محسوس ہوگیا تو آپ کو سہو آجائے گا اور دوسری چیزیں ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس لئے محسوس نہیں غیر محسوس کنٹرول یعنی آپ کا جسم اس کے ساتھ tune کرلے، It takes more time then۔ کافی مشکل سوال آپ نے کیا تھا لیکن اللّٰہ کا شکر ہے کہ اللّٰہ پاک نے جواب دلوا دیا۔

سوال نمبر 11:

چلتے پھرتے (جیسے آپ نے فرمایا ہے) ذکر بھی توجہ حاصل کرنے میں مددگار ہوسکتا ہے؟

جواب:

چلتے پھرتے جو ذکر ہے اس میں آپ توجہ استعمال کرلیتے ہیں، توجہ حاصل نہیں کرتے۔ کیونکہ وہ وقت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے ہے۔ لہٰذا اس میں اصلاحی ذکر نہیں ہے بلکہ یہ وقت کو بچانے کے لئے ہے، تاکہ آپ کا وقت بلاوجہ دوسری چیزوں میں نہ لگے۔ اور اتنا تو اس کا فائدہ یقیناً ضرور ہوگا کہ جہاں پر اور جس وقت ذکر ہو رہا ہے تو اس میں کم از کم آپ کے شعور کے اوپر جو دوسری چیزیں آرہی تھیں اُس میں کچھ کمی ہوجائے گی۔

سوال نمبر 12:

جو خواتین سلسلے سے وابستہ ہوں اور معمولات اور خانقاہ سے تعلق بھی ہو، ان میں اگر یکسانیت کی شکایت ہو، تو وہ کس وجہ سے ہے، کیا وہ محبت کی کمی کی وجہ سے ہے؟

جواب:

اس کو میں یکسانیت نہیں کہوں گا۔ بلکہ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے کوئی شخص مسلسل ایک کام کر رہا ہو۔ یہ آپ کی بات صحیح ہے۔ کیونکہ اگر رنگ نہ چڑھا ہو تو رنگ چڑھنے کے لئے کچھ وقت چاہئے ہوتا ہے، اور اس وقت تک وہ اعمال مجاہدہ بنتے ہیں۔ لیکن جس وقت رنگ چڑھ جائے تو پھر وہ مشاہدہ بنتے ہیں۔ یعنی اس کے اندر جو کچھ ہوتا ہے پھر وہ نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، پھر وہ مشاہدہ بنتا ہے۔ لہٰذا جب تک وہ مجاہدہ ہے تو یہ چیز ہوگی۔ خواتین کے لئے یہ بات ہے کہ جس طرح ہم مراقبہ بتاتے ہیں، اگر یہ مراقبہ ان کا واقعی صحیح ہوگیا اور انہوں نے مراقبہ میں switching صحیح کرلیا تو پھر مشاہدہ شروع ہوجائے گا۔ مشاہدے سے مراد یہ ہے کہ پھر observation ان کی start ہوجائے گی اور وہ ان کو لے لیں گی۔ پھر وہ جو مراقبہ ہوگا وہ ان کے لئے مجاہدہ نہیں ہوگا بلکہ وہ انتظار کر رہی ہوں گی کہ کب میں دوبارہ اس کا مراقبہ کروں، بلکہ کئی عورتوں نے مجھ سے یہ درخواست کی ہے کہ کیا ہم یہ مراقبہ اور اوقات میں بھی کرسکتی ہیں؟ میں نے ان کو کہہ دیا کہ ہاں کرسکتی ہو، یعنی جس کو جتنا وقت ملتا ہے اس کے مطابق کرسکتی ہیں۔ چنانچہ اس وقت پھر یہ اس stage سے اگلی stage میں چلی جاتی ہیں۔ اور بھی اللّٰہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے کچھ نوازتے ہیں۔ لیکن جب تک انسان کو یہ کیفیت حاصل نہیں ہوتی اور وہ مجاہدے والی ہے، تو اس وقت تک میرے خیال میں مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ راستہ تو یہی ہے، اسی پر چلتے چلتے ہی مشاہدہ والی صورت شروع ہوجائے گی۔ لیکن مشاہدے کا انتظار بھی نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ پھر تو وہ بات ہوجائے گی کہ گویا محبوب کی طلب پر اپنی طلب کو بڑھالیں گی۔ لہٰذا جب تک وہ اس کی condition میں رکھنا چاہے اس کو بیشک مجاہدے کے ذریعے سے، لیکن بخوشی سے برداشت کرے، وقت کے ساتھ ساتھ ان شاء اللّٰہ وہ دور جب ختم ہوجائے گا تو یہ ساری چیزیں شروع ہوجائیں گی، جب تک وہ نہیں ہے، اس کیفیت کے ساتھ وہ کرتی رہیں اور باقاعدگی کے ساتھ اطلاع بھی آگے دیتی رہیں، اور اعمال میں کمی نہ کریں اور اس کو صحیح time دے دیا کریں، تعجیل نہ کریں، جلدی نہ مچائیں اور کسی قسم کی بدگمانی میں مبتلا نہ ہوں، تو ان شاء اللّٰہ العزیز ایک وقت آجائے گا کہ اس کیفیت سے آگے چلی جائیں گی۔

اب میں ان شاء اللّٰہ آپ کو ایسی چیز سناؤں گا کہ اس میں سوال کا نہ ہونا بھی فائدے کی چیز ہے اور سوال کا ہونا بھی فائدے کی چیز ہے۔ سوال کا نہ ہونا اس لئے فائدے کی چیز ہے کہ اگر وہ آپ کو سمجھ میں آگیا تو اس کا مطلب ہے کہ راستہ آسان ہوگیا۔

ایک غزل ہے: ’’پکی باتیں‘‘۔ پکی باتوں سے مراد یہ ہے کہ یہ وہ باتیں ہیں کہ اگر یہ سمجھ میں آگئیں اور اپنی زندگی اس کے مطابق گزارنے کی صورت ہوگئی تو ان شاء اللّٰہ دین پر چلنا بہت آسان ہوگا۔

سمجھنا دین کا موقوف بصیرت پر ہے

اور آگے اس کا حصول نفس کی تربیت پر ہے

دونوں چیزیں ہوگئی، دل کی بھی ہوگئی کہ بصیرت دل کا کام ہے اور نفس کی تربیت نفس کی چیز ہے۔

سمجھنا دین کہ ہو حاصل تو اسی حال میں پھر

بچت موقوف صالحین کے صحبت پر ہے

جب تک یہ نہیں ہو تو پھر کیا صحبتِ صالحین حاصل کرتے پھر؟

صحبتِ سُو سے بہتر خلوت ازروئے حدیث

یعنی حدیث شریف کے مطابق بری صحبت سے خلوت اچھی ہے کہ انسان پھر گھر میں رہے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔

صحبتِ نیک کو فوقیت نری خلوت پر ہے

یعنی اگر نیک صحبت میسر ہو تو وہ خلوت سے اچھی ہے۔

صحبتِ شیخ صالحین کے صحبت کا حاصل

یعنی صحبتِ شیخ صحبتِ صالحین کا Concentrated form ہے جیسے میں نے پہلے کہہ دیا۔

اور اس سے اخذ پھر اپنی صلاحیت پر ہے

یعنی پھر اس سے حاصل کرنا اور اخذ کرنا، اپنی صلاحیت پر ہے، اپنی capability پر ہے، کسی میں زیادہ تو کسی میں کم۔ یعنی صلاحیت کے حساب سے وہ آئے گی۔

یہ تو ٹوٹی ہے اسے کھول جتنا چاہے تو

لازماً نفع اس میں شیخ سے محبت پر ہے

یعنی یہ ٹوٹی کی طرح ہے، جس کو جتنا کھولنا چاہے تو کھول لے اور یہ کھولنا محبت کے ذریعے سے ہے۔ اس لئے جتنی محبت شیخ کے ساتھ ہوگی اتنی ٹوٹی زیادہ کھلے گی اور نفع زیادہ ہوگا۔

اور ہو شیخ سے محبت اور صلاحیت بھی

تو باقی کام منحصر سارے ہمت پر ہیں

یعنی جو باقی کام ہیں وہ اپنی ہمت پر ہیں، ہمت اس میں صرف کرو تو شیخ کی محبت اور صلاحیت کام آجائے گی

تین نقطوں کی مستوی سب سے مضبوط تو ہو

یعنی جیومیٹری کے قانون کے مطابق تین points سے جو plan گزرتا ہے وہ سب سے زیادہ stable ہوتا ہے۔

فیصلہ اس کا پھر اللّٰہ کی مشیت پر ہے

تمہارا کام تو اسباب جمع کرنا ہے

نتیجہ ان کی پھر ان کی قبولیت پر ہے

در پہ مسبب الاسباب کے پھر پڑ جانا

خود کو چھوڑ دل کو تو دیکھیے کہ کس حالت پر ہے

یہ پھر دعا کی بات آگئی کہ مسبب الاسباب اللّٰہ جل شانہٗ کے در پر پڑ جائیں، اس سے پھر مانگو، کیونکہ سب کچھ وہی کرتا ہے۔ جو اسباب تو نے جمع کر لئے ان میں اثر ڈالنا اللّٰہ کا کام ہے۔ لہٰذا اللّٰہ سے مانگو، اگرچہ آپ کو conditions تو بڑی اچھی میسر آگئی ہیں لیکن یہ condition اچھی بھی ہوں لیکن اس سے اچھا نتیجہ برآمد کرنا اللّٰہ کے ہاتھ میں ہے، تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ لہٰذا صرف اسباب پر نہ رہو بلکہ مسبب الاسباب کے ساتھ بھی اپنا تعلق جوڑو، ورنہ بعض دفعہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہاتھ سے ساری چیزیں چلی جاتی ہیں۔ اس لئے درمیان میں انسان عجب میں مبتلا نہ ہو، کیونکہ عجب کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے، عجب کا توڑ یہی ہے۔

جمع اسباب دعا کر کہ یہ قبول بھی ہو

یہ ہو قبول یہ مانگنے کی کیفیت پر ہے

مقصد یہ ہے کہ اگر تم مسبب الاسباب کے در پر پڑتے ہو تو یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن پھر دعا کے اپنے اسباب ہوں گے اس کے مطابق، اس میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مانگنے کی کیفیت کیا ہے؟ آپ کیسے مانگ رہے ہیں؟

نہ سمجھ خود کو کچھ ہو اس کی کریمی پہ نظر

نظر کرم کہ جو اس کی مسکینیت پر ہے

یعنی اپنے آپ پر نظر نہ کرو بلکہ اس کی کریمی پر نظر کرو۔ جو جتنا عاجز ہوگا اس کی طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اللّٰہ سے مانگتے وقت اپنے آپ کو عاجز بنا لو۔

اور اس سے پھر اچھی امید اس میں لازم ہے

کامیابی پھر بہرحال استقامت پر ہے

یعنی اللّٰہ پاک سے اچھی امید رکھنا۔ کیونکہ اللّٰہ پاک فرماتا ہے، حدیث قدسی ہے:

’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘ (بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں‘‘۔

لہٰذا جو کامیابی ہوگی وہ استقامت کے ساتھ جب آپ یہ کریں گے یعنی دعا میں استقامت رہے گی، مانگتے رہیں گے تو کام ہوجائے گا، یہ نہیں کہ بس ایک دن دعا کرلی پھر چھوڑ دیا کہ میرا کام نہیں ہوا۔

ہوں میں شبیر پر امید بھی اُن سب کے لئے

طریق میں جس کی نظر ایسی نصیحت پر ہے

یعنی ان شاء اللّٰہ! امید ہے کہ جو بھی اس نصیحت پر عمل کریں گے ان کو فائدہ ہوگا۔

سوال نمبر 13:

حضرت! جس طرح تعجیل اس راستے میں خطرناک ہے، اس میں بندہ بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔ لیکن یہاں پر جو بھی آتا ہے، اس کی تو یہ طلب ہوتی ہے کہ اللّٰہ سے میرا تعلق مضبوط ہو۔ تو وہ جب اس میں جلدی مچانے کی کوشش کرتا ہے تو یہ کس طرح خطرناک ہے؟ کیونکہ مطلوب بھی یہی ہے کہ اللّٰہ سے تعلق بن جائے۔

جواب:

اصل میں تعجیل کس چیز میں ٹھیک ہے اور کس چیز میں ٹھیک نہیں ہے، اگر اس کو انسان نہیں سمجھے گا تو پھر واقعی یہ question آسکتا ہے۔ دراصل تعجیل ثمرہ میں ٹھیک نہیں ہے لیکن عمل میں ٹھیک ہے۔ ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے کچھ کام انسان کے اختیار میں ہیں اور کچھ نہیں ہیں۔ مثلاً عمل آپ کے اختیار میں ہے لیکن نتیجہ آپ کے اختیار میں نہیں ہے، اب اگر عمل آپ نہیں کرتے، اس میں آپ efficiency نہیں دکھاتے، تو یہ سستی ہے، اس کا علاج چستی ہے، وہ تو کرنا چاہئے اور وہ مطلوب ہے۔ لیکن جو کام اللّٰہ پاک کا ہے اگر اس میں تعجیل کرو گے تو اللّٰہ پر اعتراض ہو جائے گا کہ میں تو اتنا عمل کر رہا ہوں لیکن مجھے فائدہ نہیں ہو رہا۔ اس لئے یہ خراب چیز ہے، اس چیز سے روکا گیا ہے، یہی چیز نقصان دہ ہے۔ لہٰذا جو کام اللّٰہ کا ہے وہ اللّٰہ کے لئے چھوڑو اور جو کچھ تمہارا ہے اس میں کمی نہ کرو، اس میں سستی نہ کرو بلکہ اس میں چستی کرو یعنی اپنے معمولات پورے کرنا، یہ کرنا اور وہ کرنا۔ اور پھر شیخ پر بھی بدگمانی ہوجاتی ہے کہ دیکھو میں تو اچھے اچھے معمولات کر رہا ہوں، میں یہ کر رہا ہوں اور وہ کر رہا ہوں لیکن میں اس کو نظر ہی نہیں آرہا۔ یہ بھی تعجیل ہے۔ یہ اس پر بدگمانی ہے۔ پس شیخ کے اوپر بدگمانی اللّٰہ تعالیٰ کے اوپر بدگمانی بن کر چلی جاتی ہے۔ اس وجہ سے ان چیزوں سے روکا جاتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ نیکی کر دریا میں ڈال۔ یہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ تم جو اللّٰہ تعالیٰ سے لینے والے ہو، تو کیا خیال ہے تم زیادہ صحیح کام کرنے والے ہو یا اللّٰہ پاک سب سے زیادہ کریم ہے؟ اس کا جواب حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے دیا ہے فرمایا:

؎اس کے الطاف تو ہیں شہیدی سب پہ

تجھ سے کیا ضد تھی اگر تو کسی قابل ہوتا

یعنی اس کا کام تو دینا ہے، لیکن درمیان میں کوئی اور گڑبڑ ہوگی، اس لئے اپنے اوپر بدگمانی ہونی چاہئے اور گڑبڑ کو تلاش کرنا چاہئے، شیخ کے ساتھ رابطہ کرنا چاہئے کہ مسئلہ کیا ہے کہ مجھے اس قسم کے خیالات کیوں آرہے ہیں؟ میں تو کسی قابل نہیں ہوں، میرا تو کوئی کام ٹھیک نہیں ہے، پھر میں اپنے آپ کو کیوں قابل سمجھ رہا ہوں؟ اس پر حیرت ہونی چاہیے۔ اس پر حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ مجھے یہ چیز مل کیوں نہیں رہی۔ یعنی انسان کو اپنے اوپر دیکھنا چاہئے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ جو output دے رہا ہے تو automatically یہ بات ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تو بہت زیادہ کریم ہے، وہ تو بہت مہربان ہے، لیکن اگر ادھر سے نہیں ہے تو میرے اندر گڑبڑ ہے۔ لہٰذا وہ گڑبڑ کیا ہے! اس گڑبڑ کو تلاش کرنے میں اگر آپ کوشش serve کرتے ہیں تو یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر آپ اس پر نظر ڈالتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہو رہا اور اس میں شکایت کی بات آجاتی ہے تو یہ تعجیل بہت خطرناک ہے۔ اس سے بعض دفعہ بہت نقصان ہوسکتا ہے۔

سوال نمبر 14:

یہ جو اس میں اعمال پر استقامت کی بات ہوئی ہے، کیا استقامت کے لئے کوئی جامع قسم کی دعا ہے؟

جواب:

یہاں جو استقامت کا لفظ آیا ہے یہ دعا میں استقامت ہے۔ جیسے اس کے آخر میں آیا ہے۔

اور اس سے پھر اچھی امید اس میں لازم ہے

کامیابی پھر بہرحال استقامت پر ہے


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔