سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 096 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

مراقبہ کرتے ہوئے اگر اذان ہوجائے تو کیا مراقبہ روک دیں؟

جواب:

بالکل، اگر اذان شروع ہوجائے تو ذکر لسانی بھی روک دینا چاہئے اور مراقبہ بھی (جو انسان اپنے ارادے سے کر رہا ہو وہ) روک دینا چاہئے۔ کیونکہ اذان کا احترام بہت اہم ہے اور اذان شعائر اللّٰہ میں سے ہے اور شعائر اللّٰہ کی تعظیم کو دلوں کا تقوی بتایا گیا ہے۔

﴿ذٰلِكَ وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ﴾ (الحج: 32)

ترجمہ1: ’’یہ ساری باتیں یاد رکھو، اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے، تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے‘‘۔

یعنی شعائر اللّٰہ کا احترام دلوں کے تقوی کی علامت ہے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جو اذان کے وقت خاموش ہوجائے اور اذان سنے اور اس کا جواب دے تو اس کو حسنِ خاتمہ کی دولت نصیب ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ بہت بڑی دولت ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔ مراقبہ اس کے بعد شروع کرسکتے ہیں۔ البتہ پہلے سے اگر ایسا انتظام ہو کہ ایسے وقت میں مراقبہ یا ذکر شروع کیا جائے کہ جس کے درمیان میں اذان نہ آئے تو یہ زیادہ مستحسن ہے۔

سوال نمبر 2:

لوگ نعتیں سنتے ہیں اور قرأت کی محافل میں بھی جاتے ہیں۔ قاری حضرات بھی بہت اچھی آوازوں میں ایک ہی آیت کو بار بار مختلف طرزوں کے ساتھ پڑھ کر سامعین سے داد وصول کرتے ہیں اور بڑی بڑی آیتوں کو تعوّذ و تسمیہ سمیت ایک ہی سانس میں پڑھ کر خود بھی خوش ہوتے ہیں اور سامعین بھی محظوظ ہوتے ہیں۔ آپس میں بھی گفتگو کرتے ہیں کہ فلاں قاری کا سانس بہت لمبا ہے اور فلاں کا سانس بہت چھوٹا ہے۔ اسی طرح نعت کی محفلوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ یہی طرزِ عمل مختلف بیانات کے بارے میں بھی ہوتا ہے کہ فلاں کا بیان بہت اچھا تھا اور فلاں بہت شعلۂ بیان مقرر ہے، فلاں کا بیان سن کر بہت مزہ آیا اور فلاں کا بیان اتنا اچھا نہیں تھا۔ پوچھنا یہ ہے کہ بیانات، نعتیں اور تلاوتِ قرآن کے سننے میں کیا طرزِ عمل اختیار کرنا چاہئے اور کیا نیت ہونی چاہئے؟

جواب:

اچھا سوال ہے۔ اصل میں اس میں کئی باتیں آرہی ہیں۔ اگر اصول ہم سمجھیں تو شاید آسانی سے یہ بات سمجھ آجائے گی۔ ایک بات تو یہ ہے کہ تغنی بالقرآن یا نعتوں میں تغنی کرنا یہ تو مستحسن ہے یعنی اچھی آواز میں قرآن پڑھنا اس کی بڑی تعریف آئی ہے۔ اچھی آواز میں پڑھنا کہ جس کو سنتے ہوئے لوگوں کا دل چاہے کہ میں اس کو سنوں یہ تو اچھی بات ہے۔ البتہ لوگوں کے لئے نہیں پڑھنا چاہئے، لیکن خود ایسا پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ اصل سننا سنانا تو اللّٰہ کو ہے، لیکن حدیث میں آتا ہے۔

’’اِنَّ اللّٰهَ جَمِیْلٌ وَّیُحِبُّ الْجَمَالَ‘‘ (مسلم: 265)

ترجمہ: ’’اللّٰہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتے ہیں‘‘۔

لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اچھی آواز کو بھی اللہ پسند فرماتے ہیں۔ اس لئے اللّٰہ پاک کو سنانے کی نیت سے اچھی آواز میں پڑھنا چاہئے۔ اور دوسرے لوگوں کو اس کا مزہ آجائے تو یہ اس کا side effect ہوگا، لیکن اس کے لئے main affect نہیں ہونا چاہئے کہ لوگوں کو خوش کرے کیونکہ لوگوں کو خوش کرنا مطلوب نہیں ہے، بلکہ خوش تو اللّٰہ کو کرنا مطلوب ہے، البتہ اللّٰہ کی خوشی میں اگر لوگوں کی خوشی ہے تو اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ یعنی اگر لوگ بھی اس چیز سے خوش ہوجائیں جس سے اللّٰہ پاک خوش ہوتے ہیں تو یہ بڑی اچھی بات ہے، اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ البتہ خود نیت اس بات کی نہیں کرنی چاہئے یعنی قاری صاحب کو یا نعت خواں کو یا بیان کرنے والے کو یہ نیت نہیں کرنی چاہئے کہ اس سے لوگ مجھے بڑا اچھا نعت خواں کہیں، بڑا اچھا مقرر کہیں یا بڑا اچھا قاری کہیں، یہ چیز مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ لوگوں سے اس کا معاوضہ نہیں لینا چاہئے چاہے داد کی صورت میں ہو، یعنی اس کے لئے نہیں کرنا چاہئے۔ میں کل فیصل آباد کے ایک بیان میں یہ بات کہہ چکا ہوں کہ ایک دفعہ مدینہ منورہ کے ایک قاری صاحب تھے، جو بڑا اچھا قرآن پڑھتے تھے، وہ ہندوستان تشریف لائے تو ایک جگہ پر ان کی دعوت کی گئی، چونکہ یہ حضرات دعوت سنت سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا جب ان کی دعوت کی اور یہ کھانے کے لئے تشریف لائے تو انہوں نے درخواست کی کہ حضرت! کچھ قرآن پاک سنائیں۔ حضرت نے فرمایا کہ ہاں! میں قرآن سناؤں گا کیونکہ میں قرآن سنانے کے لئے ہی آیا ہوں، لیکن اس میں ایک شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا؟ انہوں نے کہا پھر میں آپ کے یہاں کھانا نہیں کھاؤں گا، اگر آپ مجھے اس کی اجازت دیں کہ میں آپ کے یہاں کھانا نہ کھاؤں تو پھر میں قرآن سناتا ہوں اور اگر کھانا کھاؤں گا تو پھر قرآن نہیں سناؤں گا، کیونکہ میں قرآن پاک کو سنانے کا معاوضہ وصول نہیں کرنا چاہتا۔ لہٰذا اگر آپ معاوضہ دینا چاہتے ہیں تو پھر میں قرآن نہیں سناؤں گا۔ اب یہ بڑی عجیب بات تھی اور لوگ پھنس گئے، بات بھی بالکل صحیح تھی، علماء بھی بیٹھے ہوئے تھے، لیکن کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا تھا کیونکہ بات بالکل اصول کی تھی۔ آخر میں وہ تھک ہار کر اس بات پر آگئے کہ اچھا حضرت! آپ کھانا کھا لیں اور قرآن پاک فی الحال نہ سنائیں کیونکہ ہم نے آپ کو کھانے کی دعوت دی ہے اس لئے آپ کھانا کھائیں۔ حضرت نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے۔ کھانا کھا لیا اور اس کے بعد خود قرآن سنا دیا چونکہ اب ان کا مطالبہ ختم ہوگیا تو پھر وہ چیز نہیں رہی، اس لئے پھر انہوں نے قرآن بھی سنا لیا۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک بزرگ تھے، ان کو بڑا فاقہ تھا، ان کے ایک شاگرد یا مرید وہ تشریف لائے اور اپنے ساتھ ایک خوان کھانے کا لے آئے، جیسے ہی ان کو وہ دینا چاہا تو حضرت نے فرمایا: بھائی! آپ تو بڑی محبت سے لائے ہیں، لیکن میرے لئے یہ حرام ہے۔ انہوں نے کہا حضرت! آپ کے لئے یہ میری چیز کیسے حرام ہوگئی؟ میرا تو رزق حلال ہے الحمد للّٰہ۔ حضرت نے فرمایا: نہیں، آپ کا رزق تو حلال ہے، لیکن میرے لئے حرام ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیوں؟ فرمایا: جب آپ جا رہے تھے تو مجھے خیال ہوگیا کہ اب میرے لئے کچھ لائے گا اور یہ اشراف نفس ہوگیا اور اشراف نفس حرام ہے، لہٰذا اب میرے لئے یہ کھانا جائز نہیں ہے، میں نہیں کھا سکتا، میں معذور ہوں۔ لیکن وہ شاگرد بہت ہوشیار تھا، اس لئے اس نے فوراً کہہ دیا حضرت! اگر آپ کے لئے حرام ہے تو پھر آپ کو حرام میں نہیں کھلاؤں گا، میں واپس لے جاتا ہوں، وہ دروازے سے باہر ہوگئے اور دو منٹ کے بعد اندر آگئے، کہنے لگے حضرت! اب تو آپ کا خیال نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، اب میرا خیال نہیں تھا۔ انہوں نے کہا پھر ٹھیک ہے اب یہ لے لیجیے۔ تو پھر انہوں نے کھا لیا۔ جیسے کہتے ہیں شکر خورے کو خدا شکر دیتا ہے۔ جو حلال کھاتا ہے اس کو اللّٰہ پاک حلال دیتا ہے، جتنا اللّٰہ پاک نے مقدر کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی تعریف اللّٰہ تعالیٰ نے مقدر کی ہے تو تم مانگو کیوں؟ تم اس کے لئے کیوں کرو؟ وہ اللّٰہ پاک ویسے ہی دے دے گا۔ لہٰذا کبھی بھی اس میں یہ نیت نہیں کرنی چاہئے۔ ایک حدیث میں آتا ہے:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيْهِمْ‘‘۔ (بخاری: 7562)

ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کچھ لوگ مشرق کی طرف سے نکلیں گے اور قرآن پڑھیں گے جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘‘۔

تقریباً تقریباً آج کل یہی صورت آگئی ہے۔ اس وقت قرآن سنانے کے بڑے مختلف ڈھنگ ہیں لیکن نہ قاری پر اس کا اثر ہوتا ہے عمل کے لحاظ سے، نہ ہی سننے والوں پر اثر ہوتا ہے، حالانکہ قرآن میں اثر نہیں ہے تو کس چیز میں اثر ہے؟ قرآن میں تو بہت زیادہ اثر ہے، لیکن اصل ہماری طلب ہے، جب کہ طلب نہیں ہے۔ ہمارا مقصد قرآن سننے سے قرآن سننا نہیں ہوتا بلکہ مزہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا مقصود ہمارا بھی غلط ہوگیا اور جو سنانے والا ہے اس کی بھی نیت یہی ہوتی ہے کہ مجھے لوگ اچھا قاری کہہ دیں۔ اور یہ حدیث بہت زیادہ ڈرانے والی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’إِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ يُقْضٰى يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ: رَجُلٌ اُسْتُشْهِدَ، فَاُتِيَ بِهٖ، فَعَرَّفَهٗ نِعَمَهٗ فَعَرَفَهَا۔ قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا؟ قَالَ: قَاتَلْتُ فِيْكَ حَتّٰى اُسْتُشْهِدْتُّ۔ قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ قَاتَلْتُ لِيُقَالَ: جَرِيْءٌ؛ فَقَدْ قِيْلَ۔ ثُمَّ اُمِرَبِهٖ: فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهٖ حَتّٰى اُلْقِيَ فِيْ النَّارِ۔ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهٗ، وَقَرَأَ الْقُرْآنَ، فَاُتِيَ بِهٖ، فَعَرَّفَهٗ نِعَمَهٗ فَعَرَفَهَا۔ قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا؟ قَالَ: تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهٗ، وَقَرَأْتُ فِيْكَ الْقُرْآنَ۔ قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ: عَالِمٌ، وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ: هُوَ قَارِئٌ، فَقَدْ قِيْلَ۔ ثُمَّ اُمِرَ بِهٖ: فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهٖ حَتّٰى اُلْقِيَ فِيْ النَّارِ۔ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ، وَأَعْطَاهُ مِنْ اَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهٖ، فَاُتِيَ بِهٖ، فَعَرَّفَهٗ نِعَمَهٗ فَعَرَفَهَا۔ قَالَ: فَمَا عَمِلْتَ فِيْهَا؟ قَالَ: مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيْلٍ تُحِبُّ اَنْ يُنْفَقَ فِيْهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيْهَا لَكَ. قَالَ: كَذَبْتَ، وَلٰكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ: هُوَ جَوَّادٌ، فَقَدْ قِيْلَ۔ ثُمَّ اُمِرَبِهٖ: فَسُحِبَ عَلٰى وَجْهِهٖ حَتّٰى اُلْقِيَ فِيْ النَّارِ‘‘۔ (سلسلہ احادیث صحیحہ 2139)

ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روز قیامت جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا (وہ یہ ہیں:) وہ آدمی جو شہید ہوا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کرائے گا اور وہ اقرار کرے گا، پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: تو نے کون سا عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر لڑائی کی، حتی کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو اس لیے لڑا تھا تاکہ تجھے بہادر کہا جائے، اور وہ کہا جا چکا ہے، پھر اس کے بارے میں حکم ہو گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ آدمی، جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا، اسے لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا: کون سا عمل کر کے آیا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے تیری خاطر علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن مجید پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو علم اس لیے حاصل کیا تھا تاکہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن مجید پڑھا، تاکہ تجھے قاری کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا۔ پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ وہ آدمی، جسے اللہ تعالیٰ نے رزق میں فراوانی دی اور ہر قسم کا مال عطا کیا، اس کو لایا جائے گا، اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا تعارف کروائیں گے، وہ اقرار کر لے گا۔ پھر للہ تعالیٰ پوچھے گا: تو کون سا عمل کر کے لایا ہے؟ وہ کہے گا: میں نے ہر اس مصرف میں مال خرچ کیا جہاں خرچ کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو جھوٹا ہے، تو نے تو اس لیے کیا تھا کے تجھے سخی کہا جائے اور وہ کہہ دیا گیا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا اور چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا“۔

لہٰذا مقصد یہ ہے کہ ہماری نیت خالصتاً لِوَجْهِ اللّٰه ہونی چاہئے۔ اور کسی بھی کام میں کوئی نیت ہمارے دل میں نہیں ہونی چاہئے۔ کیونکہ ہمارے کاموں کا اجر اللہ دے سکتا ہے۔

﴿اِنۡ اَجۡرِىَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ‌﴾ (ھود: 29)

ترجمہ: ’’میرا اجر اللہ کے سوا کسی اور نے ذمے نہیں لیا‘‘۔

یعنی پیغمبروں کا بھی یہی قول تھا کہ اجر صرف اللّٰہ پر ہے۔ لہٰذا اجر اللّٰہ پاک سے طلب کرنا چاہئے۔ اور عبادات کے رخ سے جو بات ہو اس پر کبھی بھی کسی اور سے اجر کا مطالبہ نہیں کرنا چاہئے۔

سوال نمبر 3:

حضرت جبرائیل علیہ السلام انبیاء علیہم السلام کے پاس وحی لاتے تھے۔ اب انبیاءِ کرام کے بعد وہ کیا کرتے ہیں؟

جواب:

سبحان اللّٰہ! جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے سردار ہیں اور سردار کو سرداری کے کام دئیے جاتے ہیں۔ لہٰذا جو بھی مہتم بالشان کام اللّٰہ پاک ان کے لئے سمجھتے ہیں، وہ ان کو دے دیتے ہیں۔ بعض دفعہ عذابات کی صورت میں بھی آجاتا ہے۔

﴿اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰهُ فِىۡ لَيۡلَةِ الۡقَدۡرِ ۝ وَمَاۤ اَدۡرٰٰٮكَ مَا لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِؕ ۝ لَيۡلَةُ الۡقَدۡرِ ۙ خَيۡرٌ مِّنۡ اَلۡفِ شَهۡرٍؕ ۝ تَنَزَّلُ الۡمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوۡحُ فِيۡهَا بِاِذۡنِ رَبِّهِمۡ‌ۚ مِّنۡ كُلِّ اَمۡرٍ ۝ سَلٰمٌ هِىَ حَتّٰى مَطۡلَعِ الۡفَجۡرِ﴾(سورۃ القدر)

ترجمہ: ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لئے اترتے ہیں۔ وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک‘‘۔

اس سورت میں روح القدس سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کے جھرمٹ میں آتے ہیں اور جو لوگ اس وقت عبادات کر رہے ہوتے ہیں ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے لئے دعا فرماتے ہیں اور بعض خوش نصیبوں کے ساتھ مصافحہ بھی فرماتے ہیں۔ بہرحال جس طرح قرآن پاک میں یہ احکام ہیں، تو یہ جبرائیل علیہ السلام کا کام ہے۔ باقی جو مہتم بالشان کام جبرائیل علیہ السلام کی شان کے مطابق ہوتے ہیں وہ اللّٰہ پاک وقتاً فوقتاً دیتے رہتے ہیں۔

سوال نمبر 4:

اگر بیعت ہوئے ہوں تو توبہ کیسے کریں؟

جواب:

بیعت ہو یا نہ ہو لیکن ہر حالت میں توبہ کی جاسکتی ہے۔ کیے ہوئے گناہ کو اللّٰہ تعالیٰ سے معاف کروانے کے لئے توبہ کا دروازہ موت تک کھلا رہتا ہے، جب تک موت کے حالات نہ آئیں اس وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے یا جب تک قیامت کے آثار شروع نہ ہوجائیں اس وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ کوئی بھی توبہ کرنا چاہے تو توبہ کرسکتا ہے۔ بیعت سے صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی ایک خاص شخص سے اصلاح لینے کا ارادہ کرتے ہیں اور وہ شخص یہ ارادہ کرتا ہے کہ اب میں اس سلسلے میں آپ کی خدمت کروں گا، یعنی وہ شخص خدمت کا وعدہ کرتا ہے اور یہ شخص اپنی اصلاح لینے کا وعدہ کرتا ہے، یہی بیعت ہے۔ جو ہماری بیعتِ توبہ ہے وہ اس کا حصہ ہے، جزو ہے یعنی پہلے توبہ بھی کرواتے ہیں۔ اگر صرف اتنا کہہ دیا جائے کہ میں نے بیعت کر لی اور دوسرا کہتا ہے کہ میں نے قبول کر لی، تو بس یہ بھی بیعت ہے اور یہ کافی اور اس میں کچھ اور کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ایک معاہدہ ہو رہا ہے، اس لئے اس معاہدے میں اس چیز کو کیوں نہ شامل کیا جائے؟ لہٰذا اس میں توبہ بھی کروا لی جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا ایک مفید استعمال ہے۔ بہرحال جب بھی خدانخواستہ اللّٰہ تعالیٰ نہ کرے کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرنی چاہئے۔ جیسا کہ بیعت کے الفاظ میں ہم یہ کہلواتے ہیں کہ اب ہم ان شاء اللّٰہ گناہ نہیں کریں گے اور اگر پھر گناہ ہوا تو فوراً توبہ کریں گے۔ گویا بیعت میں ایک قسم کا یہ وعدہ شامل ہے کہ جو بھی بیعت ہوا ہے اس نے اول یہ وعدہ کیا ہے کہ جب بھی مجھ سے گناہ ہوگا تو میں فوراً توبہ کروں گا۔ اور بہترین توبہ یہ ہے کہ دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھ کے اللّٰہ پاک کے سامنے عہد کر لے کہ اے اللّٰہ! میں یہ گناہ اب دوبارہ نہیں کروں گا، مجھے اس گناہ سے چھٹکارا دے اور نیت کر لے، عزم کر لے اور اس گناہ سے رک جائے اور اس پر ندامت کا احساس ہو۔ بس یہ بیعتِ توبہ ہوجاتی ہے۔

سوال نمبر 5:

اگر کوئی انسان توبہ کرے تو کیسے پتا چلے گا کہ اس کی توبہ قبول ہوگئی ہے؟

جواب:

بزرگوں نے اس کی نشانیاں دی ہیں۔ لیکن قطعی بات کا تو صرف اللّٰہ کو پتا ہوتا ہے۔ البتہ ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس گناہ سے توبہ کر لیتا ہے، وہ گناہ بھلا دیا جاتا ہے، حتی کہ اعمال نامے سے بھی ختم کردیا جاتا ہے، فرشتوں کو بھی بھلا دیا جاتا ہے اور خود اس شخص کو بھی بھلا دیا جاتا ہے یعنی اس کے اوپر پھر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ لہٰذا توبہ کرتے رہنا چاہئے، اللّٰہ پاک سے معافی کی امید رکھنی چاہئے، کیونکہ اللّٰہ پاک فرماتے ہیں۔ حدیث قدسی ہے:

’’أنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘۔ (بخاری: 7405)

ترجمہ: ’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جیسا وہ گمان مجھ سے رکھے‘‘۔

لہٰذا جب گمان ہمارا اچھا ہوگا تو اللّٰہ پاک ہمارے ساتھ اچھا معاملہ فرمائیں گے۔ اس لئے توبہ کرتے وقت اللّٰہ پاک سے مکمل کرم کی امید رکھنی چاہئے۔

سوال نمبر 6:

اگر کبھی ایسا ہو کہ پورا دن معمولات نہ کرسکا ہو اور شیخ کی محفل میں آجائے اور یہ بھی ڈر ہو کہ اگر ابھی معمولات نہ کیے تو اس کے بعد نہیں ہوسکیں گے، تو کیا وہاں بیٹھ کر معمولات پورے کیے جانا ٹھیک ہوگا؟ جیسے ہم عورتوں کو پورا دن موقع نہ مل سکنے کی وجہ سے اور ناغہ ہونے کے ڈر سے، تو کیا یہاں نیچے بیان کے دوران معمولات پورے کرنے چاہئیں؟

جواب:

کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ آپ کھانا کھائیں گے یا پانی پئیں گے؟ تو وہ کیا جواب دے گا؟ ظاہر ہے کھانا بھی کھانا چاہئے اور پانی بھی پینا چاہئے۔ لہٰذا شیخ کی مجلس اس کا اپنا اثر ہے اور معمولات کا اپنا اثر ہے۔ اس لئے کرنے تو دونوں چاہئیں۔ لیکن اگر نہ کیے جاسکے ہوں تو میرے خیال میں جو نیچے خواتین آتی ہیں ان کا تو بہت سارا وقت بالکل ایسے خالی گزرتا ہے کیونکہ یہاں ہر وقت تو بات نہیں ہو رہی ہوتی۔ لہٰذا جتنے وقت وہاں نیچے بیٹھی ہیں اپنے معمولات کرتی رہیں، آپس میں اپنی باتوں میں نہ لگیں، بلکہ معمولات میں لگ جائیں۔ اور اس سے دوسروں کو بھی ترغیب ہوگی۔ تو اس طریقے سے دونوں کو جمع کیا جاسکے گا۔

سوال نمبر 7:

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مواعظ میں تلبیس ابلیس کے لفظ کا کیا مطلب ہے؟

جواب:

تلبیس ابلیس تو شیطان کے دھوکے کو کہتے ہیں۔ تلبیس کا مطلب ہے کسی چیز کو مختلف رنگ دینا، بات ایک ہو اس کو دوسری شکل دے دے۔ مثلاً چھوٹی بات کو وہ بڑھا دے، بڑا ہو تو چھوٹا کر دے، اچھا ہو تو برا کر دے، برا ہو تو اچھا کر دے، یہ تلبیس ہے۔ لہٰذا تلبیس ابلیس سے مراد یہی ہے کہ شیطان دھوکہ دے اور حقیقت حال کو چھپا دے۔

سوال نمبر 8:

بزدلی کا کیا علاج ہے؟

جواب:

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

صرف اللّٰہ کا ڈر اگر کوئی پیدا کر لے تو اس کے دل سے بزدلی نکل جائے گی۔ البتہ طبعی طور پر اگر موجود ہو تو اس کی پروا نہ کرے چونکہ بعض لوگ طبعی طور پر چیزوں سے خوف کھاتے ہیں، تو یہ طبعی چیز ہوتی ہے، اس کی پروا نہ کریں۔ یعنی جب کسی کام کے کرنے کی ضرورت پڑے تو اللّٰہ پر بھروسہ کر کے وہ کام کرے۔ مثلاً دشمن کا مقابلہ یا برائی کا مقابلہ ہو تو اس کو پوری قوت کے ساتھ کرنا چاہئے اور اپنی طبعی کمزوری کو نہیں دیکھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ بھی نفس کی ایک کمزوری ہے تو اس کمزوری پر قابو پانے کے لئے انسان کو اللّٰہ تعالیٰ کا تعلق چاہئے۔ اللّٰہ پاک کے ساتھ جتنا تعلق بڑھے گا اتنا لوگوں کا خوف اس کے ذہن سے اترے گا۔ نتیجتاً بزدلی ختم ہوجائے گی۔

سوال نمبر 9:

مصلحت اور بزدلی میں کیا فرق ہے؟

جواب:

مصلحت اور بزدلی میں فرق ہے۔ مصلحت اس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص کو پورا قابو ہے کسی شخص پر اور وہ اس کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے، اس کو سزا بھی دے سکتا ہے، لیکن وہ مصلحتاً اس طرح نہ کرے۔ کیونکہ بعض دفعہ ایک کام جو کیا سکتا ہے لیکن وہ کرنے سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اور پھر سب کو سمیٹنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’اَلَمْ تَرَيٰ اَنَّ قَوْمَكِ حِيْنَ بَنَوُا الْكَعْبَةَ اِقْتَصَرُوْا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ اَلَّا تَرُدَّهَا عَلٰى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، قَالَ: لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ‘‘۔ (سننِ نسائی: 2903)

ترجمہ: ’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہاری قوم نے جس وقت کعبہ کو بنایا تو ان لوگوں نے ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد میں کمی کر دی، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر اسے کیوں نہیں بنا دیتے؟ آپ نے فرمایا: اگر تمہاری قوم زمانہ کفر سے قریب نہ ہوتی (تو میں ایسا کر ڈالتا)‘‘۔

تو یہ چیز مصلحتاً تھی کہ آپ ﷺ چاہتے تھے، مگر نہیں کیا۔ اسی طریقے سے مصلحتاً ایک چیز سے رک جانا اور چیز ہے، اس میں بزدلی نہیں ہوگی بلکہ بہادری ہوگی۔ جیسے اگر آپ اپنے دشمن کو چھوڑتے ہیں تو اس میں بہادری ہے کہ آپ کو پتا ہے کہ میں اس کو بعد میں بھی پکڑ سکتا ہوں، کیونکہ یہ مجھ سے آگے پیچھے نہیں جاسکتا۔ اس لئے کہتے ہیں کہ جو بہادر ہوتا ہے وہ زیادہ تحمل بھی کرتا ہے اور جو زیادہ بہادر نہ ہو بلکہ بزدل ہو تو وہ بعض مرتبہ کمینہ بھی ہوتا ہے یعنی اگر اس کے پاس طاقت آجائے تو پھر وہ برداشت بھی نہیں کرسکتا۔ جیسے حدیث پاک میں آتا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’لَيْسَ الشَّدِيْدُ بِالصُّرَعَةِ، إِنَّمَا الشَّدِيْدُ الَّذِيْ يَمْلِكُ نَفْسَهٗ عِنْدَ الْغَضَبِ‘‘۔ (بخاری: 6114)

ترجمہ: ”پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی لڑنے میں غالب ہو جائے بلکہ اصلی پہلوان تو وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پائے بے قابو نہ ہو جائے‘‘۔

چنانچہ جو ایسا ہوگا تو وہ اپنے نفس کو بھی گرائے گا۔ تو نفس کو گرانے کا مطلب یہ ہے کہ نفس کی خواہش تو ہوگی کہ اس کا گلا گھونٹوں، لیکن وہ کہتا ہے کہ نہیں، یہ خدا کا حکم نہیں ہے، میں نہیں گھونٹتا۔ لہٰذا اللّٰہ جل شانہٗ نے اس کو فلاں وجہ سے روکا ہوا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ study کر رہے ہیں یا آپ کچھ لکھ رہے ہیں اور ایک چھوٹا بچہ ہے جو روتا ہے۔ اب اگر آپ اس کو اتنا ماریں کہ وہ بے چارہ زخمی ہوجائے تو یہ کیا چیز ہے؟ یہ اپنے نفس سے آپ مغلوب ہوگئے۔ کیونکہ وہ بیچارہ تو معصوم ہے، اس کو تو پتا ہی نہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اس کو اگر آپ مار بھی دیں گے تو بھی کیا ہوگا، اس کو تو اس کا پتا نہیں ہوگا۔ لہٰذا اس وقت جو برداشت ہے وہ بہادری ہے، تحمل ہے۔ سب سے زیادہ تحمل اللّٰہ پاک کرتا ہے کہ وہ سب کچھ کرسکتا ہے لیکن نہیں کرتا، اس لئے سب سے زیادہ تحمل اس کا ہے۔ پھر اس کے بعد آپ ﷺ کا ہے، جیسے آپ ﷺ نے فرمایا:

﴿لَا تَثۡرِيۡبَ عَلَيۡكُمُ الۡيَوۡمَ‌ؕ﴾ (یوسف: 92)

ترجمہ: ’’آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہوگی‘‘۔

یہ کتنا بڑا تحمل ہے۔

سوال نمبر 10:

کیا کسی کے دل میں کسی اور بزرگ کی محبت اپنے شیخ سے بڑھ سکتی ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہوتی ہیں؟ اور ان کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟

جواب:

ہو تو بہت کچھ سکتا ہے۔ لیکن ہونی چاہئے یا نہیں ہونی چاہئے؟ یہ الگ سوال ہے۔ بلکہ اپنے شیخ کا دشمن بھی کسی وقت ہوسکتا ہے (اللّٰہ نہ کرے کہ وہ ہو) یعنی بعض دفعہ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ حالات ایسے آجائیں کہ کوئی بے سمجھی کی وجہ سے یا کسی کی سازش کی وجہ سے اپنے شیخ کا دشمن ہوجائے، یہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ہونا یہ چاہئے کہ بیعت اس سے کرے جس سے اس کو زیادہ محبت ہو اور اس کے اندر وہ شرائط بھی پائی جائیں جو شرائط شیخ کی ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جس سے محبت ہو اس سے بیعت بھی ہو، بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی سے بہت محبت ہوتی ہے لیکن وہ بیعت کے قابل نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے اس سے بیعت تو نہیں ہوسکتے، کیونکہ بیعت تو اس سے ہونا چاہئے جس سے بیعت ہوسکتے ہوں اور جس سے بیعت ہوسکتے ہیں وہ ان میں سے ہونا چاہئے جس سے محبت سب سے زیادہ ہو اور اس سے زیادہ مناسبت ہو۔ باقی جہاں تک تدارک کی بات ہے، اس کا حل یہ ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ اپنا تعلق بڑھائیں اور اس کا رنگ اپنے اوپر چڑھائیں یعنی ان کی مجلسوں میں بیٹھ کر، ان کی بات کو اہمیت دیتے ہوئے، ان کے mission کو سمجھتے ہوئے، ان کو اچھی طرح understand کر کے تدارک کرنا چاہئے، کیونکہ محبت اس طریق میں بہت نافع ہے۔

سوال نمبر 11:

اگر کوئی دن کے شروع میں کوئی صدقہ خیرات اس نیت سے کیا کرے کہ پورا دن ان شاء اللّٰہ اطاعت میں گزرے اور خیریت سے گزرے۔ تو یہ کیسا ہے اگر وہ روزانہ کرے؟

جواب:

کوئی حرج نہیں ہے۔ اللّٰہ پاک سے صدقات کے ذریعے سے مدد لینا ایک اچھا طریقہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی اس نیت سے صدقہ خیرات کرتا ہے کہ پورا دن اس کا اچھا گزرے۔ یہ عافیت ہے۔ کیونکہ صدقہ بلائیں دور کرتا ہے، اس نیت سے یہ صدقہ ہوگا اور اطاعت کے لئے اگر کوئی کر لے تو یہ اللّٰہ پاک سے استغاثہ ہے کہ مدد مانگنے کے لئے یہ کر رہا ہے۔ دونوں طرح ٹھیک ہے۔

سوال نمبر 12:

شیخ کے آداب کے بارے میں کوئی کتاب تجویز فرمائیں۔

جواب:

’’فیض الشیخ‘‘ ایک کتاب ہے جو حضرت صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ہے وہ پڑھ لیں۔

سوال نمبر 13:

شیخ کی مجلس میں شیخ کے دل کی طرف توجہ سے کیا مطلب ہے؟

جواب:

سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ شیخ اللّٰہ پاک سے لینے کی بہترین کھڑکی ہے، دیتا اللّٰہ تعالیٰ ہے، لیکن شیخ کے ذریعے سے دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ لیں کیسے؟ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ جب اس کی مجلس میں بیٹھے تو تصور کر لے کہ اللّٰہ جل شانہٗ کی طرف سے جو سلسلے کے فیوض و برکات شیخ کے قلب پر آرہے ہیں، وہ میرے دل میں بھی آرہے ہیں۔ اس کیفیت میں بیٹھے۔ یہ نہیں کہ بار بار کہے کہ فیوض آرہے ہیں، فیوض آرہے ہیں، کیونکہ یہ تو تکرار ہوگیا، جبکہ یہ تصور میں کرنا ہے کہ بس آرہا ہے۔ اور اس سے پھر ماشاء اللّٰہ واقعتاً ایسا ہونے لگتا ہے یعنی شیخ کے فیوض و برکات آرہے ہوتے ہیں۔ کبھی محسوس بھی ہوجاتے ہیں اور کبھی محسوس نہیں ہوتے لیکن آرہے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 14:

عجب کا کیا علاج ہے؟

جواب:

عجب کس چیز کو کہتے ہیں! اپنی کسی چیز پر تعریف کی نظر یعنی اپنی چیز پر پسندیدگی کی نظر، جیسے ہم کہتے ہیں واہ جی واہ! کیا میں نے عمل کیا ہے! کیا میں نے اچھا کام کیا ہے! یہ اعجاب بالنفس میں آتا ہے کہ اپنی چیز کے بارے میں خوش گمانی ہو۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ دو چیزیں آپ کو کرنی چاہئیں: ’’بر غیر بدبین مباش، بر خویش خودبین مباش‘‘ کہ ایک اپنے آپ پر کبھی نیک گمان نہ ہو اور دوسرے پر بدگمان نہ ہوں۔ لہٰذا اپنے اوپر نیک گمان نہیں کرنا چاہئے بلکہ اصلاح کی نیت سے اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھنا چاہئے کہ اس میں کون سی چیز خراب ہے؟ اور اگر آپ کو کوئی اچھی چیز نظر آرہی ہے تو کہہ دو کہ یا اللّٰہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ سے ایسا عمل کروا دیا، ورنہ میں تو خراب کرنے والا ہوں، یہ تیری توفیق سے ہوا ہے تو اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں۔ اس سے عجب ختم ہوجائے گا اور اس کی جگہ شکر آجائے گا اگر آپ اللّٰہ پر نظر رکھیں گے۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک ایک مشورے میں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں پوچھا گیا کہ اچھے اعمال کس کے ہوں گے؟ اس مشورے کے دوران حضرت نے آخر میں یہ فرمایا کہ میرے دل میں بھی ایک رائے ہے، اگر اچھی ہے تو اللّٰہ کی طرف سے ہے اور اگر بری ہے تو میری طرف سے اور شیطان کی طرف سے ہے یعنی اپنی طرف بری رائے کی نسبت کی اور اللّٰہ کی طرف اچھی رائے کی نسبت کی اور یہی اللّٰہ والوں کا کام ہے، اللہ والے ایسے ہی کرتے ہیں۔

سوال نمبر 15:

اس طریق کو اختیار کرنے کا مقصد کیا ہے؟ کیونکہ اللّٰہ کی رضا تو دوسرے کاموں میں بھی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس طریق کا ایک مقصد ولایتِ خاص حاصل کرنا ہے اور دوسری طرف اس کی طمع کرنے سے بھی منع کیا جاتا ہے۔

جواب:

جس صاحب نے یہ سوال کیا ہے ان کو میں یہ مشورہ دوں گا کہ وہ میری کتاب ’’زبدۃ التصوف‘‘ کو بہت اچھی طرح پڑھ لیں۔ کیونکہ اس میں اس کام کی اہمیت کا پورا ذکر ہے کہ آخر یہ ہم کیوں کرتے ہیں؟ اللّٰہ کی رضا کے جتنے بھی کام ہیں وہ اللّٰہ کی رضا کے بن جائیں، تصوّف کا یہی مقصد ہے۔ اور یہ خود بخود نہیں بنیں گے یعنی اس میں ہم اللّٰہ کی رضا ہی طلب کریں کچھ اور نہ طلب کریں۔ مثلاً عجب کی طرف بھی جاسکتے ہیں، ریا کی طرف بھی جاسکتے ہیں، تو پھر کیا کریں گے؟ اس ریا کو کس طرح نکالو گے؟ اس عجب کو کیسے نکالو گے؟ لہٰذا جو بھی نیک کام ہے وہ نیک کام تب ہوگا جب دل بنے گا اور جب نفس کی اصلاح ہوگی ورنہ نیک کام وہ نہیں رہے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۝ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا﴾ (الشمس: 9 10)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔

اب بتاؤ! کوئی چیز رہ گئی؟ کوئی چیز نہیں رہی، کوئی کام بھی آپ کریں گے تو وہ صحیح تب بنے گا جب یہ چیز ہوگی، ورنہ صحیح نہیں ہوگا۔ اس کو آپ بیشک کوئی اور نام دے دیں، اس لئے کہ دل کی اصلاح اور نفس کا تزکیہ یہ دونوں بنیادی چیزیں ہیں اور اسی کو ہم تصوّف کہتے ہیں۔

سوال نمبر 16:

توحیدِ مطلب کا طریقۂ حصول کیا ہے؟ اور کسی دوسرے بزرگ کے بیانات سننا کیا اس کے خلاف ہے؟

جواب:

’’توحیدِ مطلب‘‘ میں افضل کی بات نہیں ہے کہ میرا شیخ سب سے افضل ہے کیونکہ اس کا حق ہمیں نہیں ہے، یہ تو اللّٰہ کو پتا ہے۔ البتہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرا شیخ میرے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ اور واقعتاً ایسے ہی ہوتا ہے کہ ہر شیخ اپنے مرید کے لئے مفید ہوتا ہے۔ حضرت امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے لکھا ہے کہ شیخ اپنی قوم میں ایسا ہوتا ہے جیسے امت میں نبی۔ تو نبی مفید ہوتا ہے یا نہیں ہوتا؟ لہٰذا جو بھی مریدین ہیں ان کے لئے شیخ کا مقام ایسا ہے۔ باقی افضل والی بات ہم نہیں کرسکتے کہ یہ اللّٰہ کو پتا ہے، عین ممکن ہے کہ کوئی عام سا آدمی ہو اور وہ اللّٰہ پاک کو کسی عمل سے بہت پسند آگیا ہو اور اس کا مرتبہ بہت زیادہ ہوگیا ہو، لیکن اس سے ہم لے تو نہیں سکتے بلکہ وہ کسی Proper channel سے لیں گے۔ مثلاً 66 ہزار کی بجلی جا رہی ہے اور آپ کے پاس گھر میں ایک Power plug ہے، جس میں دو سو بیس volt آپ کے لئے آرہے ہیں، اب کون سا مفید ہے؟ 220، اور 66 ہزار کی طرف آپ جا بھی نہیں سکتے، لیکن 220 volt آپ کے لئے بہت مفید ہیں، آپ اس سے بہت سارے کام کرسکتے ہیں۔ لہٰذا افضل نہ کہو البتہ یہ کہہ دو کہ میرے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔

سوال نمبر 17:

کسی دوسرے بزرگ کے بیانات سننا کیا اس کے خلاف ہے؟

جواب:

خلاف نہیں ہے۔ لیکن دوسرے بزرگ کے بیانات کا اپنے شیخ کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئے، جس کو ہم کہتے ہیں اختلاف جنس یعنی ٹکراؤ۔ کیونکہ اس سے نقصان یہ ہوگا کہ پھر confusion ہوگی، یکسوئی disturb ہوگی، جبکہ یکسوئی بہت اہم ہے۔ فرمایا: یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو۔ پس یکسوئی بہت زیادہ disturb ہوگی، ورنہ ہم کسی کو منع نہیں کرتے، بلکہ ہم کہتے ہیں بیشک جتنے بھی اہل حق ہیں سب کے بیانات سنو، سب کی کتابیں پڑھو، اچھی بات ہے، صحبتِ صالحین کی نیت سے ان کے پاس بیٹھ بھی سکتے ہو، لیکن ایک تو ان کو اپنی تربیت میں شریک نہ کرو یعنی آپ ان سے تربیت کی باتیں نہ پوچھیں، البتہ general باتیں ان سے ضرور سنیں لیکن specific نہ ہوں۔ مثلاً میں کہتا ہوں کہ آپ جس ڈاکٹر کے بھی اچھی صحت پر lecture سننا چاہیں تو سن سکتے ہیں لیکن علاج اپنے ڈاکٹر سے کروانا ہے جس سے آپ نے شروع کیا ہے۔ ورنہ اگر کئی ڈاکٹروں سے علاج کرائیں گے تو ہمارا حشر ہوجائے گا۔ اسی طرح ’’توحیدِ مطلب‘‘ کا بھی مطلب یہی ہے کہ آپ کسی ایک کے ساتھ جڑ جائیں۔ فرماتے ہیں: لگے رہو، لگے رہو لگ جائے گی۔

سوال نمبر 18:

سستی اور کم ہمتی کا کیا علاج ہے؟

ارادے جن کے پختہ ہوں نظر جن کی خدا پر ہو

تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے

مطلب یہ ہے کہ انسان کی نظر اللّہ پر ہو، اپنا مقصود اور target اس کو clear ہو۔ اور اس بات کو وہ اچھی طرح جانتا ہو کہ جو بھی کام میں کروں گا اس کے لئے میری ہمت ضروری ہے، Will power ضروری ہے یعنی مجھے اس کے لئے ہمت کرنی پڑے گی۔ بعض دفعہ priority define نہ ہونے کی وجہ سے ہم اس کو بے ہمتی کہتے ہیں لیکن یہ بے ہمتی نہیں ہوتی بلکہ اس کی priority مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً دنیا کے کاموں پر ایسے جھپٹتے ہیں کہ کوئی اس سے لے نہیں سکتا، اس میں بے ہمتی نہیں ہوتی، صرف اس چیز میں بے ہمتی آگئی؟ لہٰذا یہاں priority نہیں ہے۔ میں مثال دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اعلان کر دے کہ آج مسجد میں نماز مغرب کے بعد ایک صاحب مسجد سے باہر آئیں گے اور ہزار ہزار روپے ایک ایک شخص کو دیں گے، تو کیا خیال ہے؟ کتنے لوگ آجائیں گے؟ کافی آجائیں گے اور بلکہ جو لوگ گھروں کے اندر بیٹھے ہوئے ہیں ان کو بھی اطلاع ہوجائے گی تو وہ بھی سب آجائیں گے، اگر اس وقت بارش بھی برس رہی ہو تب بھی آجائیں گے بلکہ اولے بھی پڑ رہے ہوں پھر بھی آجائیں گے۔ اور اگر کوئی دین کے لئے کہہ دے کہ بھائی! آجاؤ، مثلاً مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دور کی طرح کہ آجاؤ لاہوریو! آجاؤ لاہوریو! 4 مہینے کے لئے آجاؤ، بن جاؤ گے۔ لیکن نہیں آئے، چلو بھائی! 40 دن کے لئے آجاؤ، لیکن نہیں، حضرت جب چلے گئے تو لاہوری پیچھے لکیر پیٹتے رہ گئے۔ اصل بات یہی ہے کہ ہمت ہوتی ہے لیکن دنیا کے کاموں کے لئے، دین کے کاموں کے لئے نہیں ہوتی، بلکہ دین کے کاموں کے لئے سو نخرے ہیں کہ وہ ہوگیا، یہ ہوگیا، یوں ہوگیا وغیرہ وغیرہ لیکن دنیا کے کاموں میں کیوں نہیں ہوتیں یہ چیزیں؟ اس میں تو ساری چیزیں آگے پیچھے ہوجاتی ہیں، پس اس وقت صرف ایک ہی چیز ہوتی ہے کہ یہ چیز مجھے حاصل کرنی ہے۔ مجھے پتا ہے میرے پاس جو لوگ اپنے بچوں کی پڑھائی کے سلسلے میں آتے ہیں، جس طرح منت سماجت کرتے ہیں، جس طرح اپنے دنیا کے کاموں کے لئے جتنی لجاجت سے درخواستیں کرتے ہیں وہ مجھے سارا علم ہے، مجھ سے یہ باتیں چھپی ہوئی نہیں ہیں، لیکن کبھی بھی ان کے منہ سے بھول کر بھی نہیں نکلتا کہ میری آخرت درست ہوجائے۔ مجھے کسی خاتون نے سعودی عرب سے فون کیا، 2 سال بعد مجھے بتایا کہ میں آپ سے بیعت ہوئی ہوں، میرا میاں بھی آپ سے بیعت ہے، 2 سال ہوئے ہیں، ہم فلاں جگہ پر بیعت ہوئے تھے۔ اس نے نے کہا شاہ صاحب! ہمارے ساتھ اس طرح ہو رہا ہے کہ صندوق میں ہمارے کپڑے پڑے پڑے کٹ جاتے ہیں، یہ ہوجاتا ہے اور وہ ہوجاتا ہے۔ میں نے کہا بی بی! آپ کو کس نے کہا ہے کہ میں عامل ہوں؟ یہ آواز کس نے آپ تک پہنچائی ہے؟ کیا میں نے آپ سے کہا ہے؟ آپ نے مجھ سے بیعت اس پر کی تھی کہ میں عملیات میں آپ کی مدد کروں گا؟ اگر کی ہے تو میں اپنی غلطی مان لیتا ہوں، اور بیعت واپس کرتا ہوں، لیکن میں نے ایسا کچھ نہیں کہا آپ کو، نہ میں عامل ہوں، نہ عملیات جانتا ہوں، نہ عملیات کی خدمت کرتا ہوں، 2 سال میں صرف آپ نے اسی چیز کے لئے اور اسی مقصد کے لئے فون کیا؟ میں نے کہا 3 دن اس پر سوچیں کہ آپ میرے ساتھ کیا تعلق رکھنا چاہتی ہیں، عملیات کے لئے یا اللّٰہ کے لئے؟ 3 دن کے بعد فون کریں پھر جواب دوں گا اور اب میں فون بند کر رہا ہوں، پھر میں نے فون بند کردیا۔ خدا کے بندو! کوئی چیز تو اللّٰہ کے لئے چھوڑو۔ یہ جو راستہ ہے یہ بھی شیطان کے لئے اور دنیا کے لئے کرنا چاہتے ہو؟ آخر کدھر جائیں پھر؟ لہٰذا یہ مسئلہ ہے کوئی بے ہمتی نہیں ہے، کوئی سستی نہیں ہے، صرف دنیا داری ہے، دنیا کی محبت ہے اور کچھ نہیں ہے، اگر یہی دنیا داری، دنیا کی محبت ہمارے دلوں سے نکل گئی تو سب کچھ سیدھا ہوجائے گا اور ٹھیک ہوجائے گا۔ وَاللّٰهُ اَعْلَم بِالصَّواب۔

سوال نمبر 19:

ایک صاحب کا سوال ہے کہ حضرت! ذکر میں پورا نہیں کر پاتا، ویسے تو 200، 400، 600 اور 1000 ہے، مگر کم ہوتا ہے، 1000 والا تو بالکل نہیں ہوتا۔ وقت کی کمی کے باعث صرف 100 یا 200 اسم ذات ہوتا ہے۔

جواب:

میرا خیال ہے کہ پہلے والا جواب کافی ہے جو میں دے چکا ہوں۔ کیونکہ وہی چیز یہاں پر بھی ہے۔ ایک دفعہ مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اپنے بیان میں ایک عجیب بات فرمائی۔ فرمایا: ایک بڑھیا میرے پاس آئی کہ میرے بیٹے کو جماعت والے لے جا رہے ہیں 4 مہینے کے لئے اور میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، آپ ان کو ذرا سمجھا دیں کہ وہ نہ لے کر جائیں۔ انہوں نے کہا اماں جی! ہمیں آپ کی جان عزیز ہے، اس لئے میں ان شاء اللّٰہ! ان کو بتاتا ہوں کہ وہ نہ لے کر جائیں۔ حضرت نے ان ساتھیوں سے کہہ دیا کہ ان کو چھوڑ دو، ان کی والدہ بہت پریشان ہیں۔ انہوں نے چھوڑ دیا۔ کچھ عرصے کے بعد وہ مائی آئی اور پھر اس نے کہا مفتی صاحب! دعا کریں میرا بیٹا جاپان ایک سال کے لئے جا رہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ اس کو کامیاب کرے۔ کچھ پڑھنے کے لئے جا رہا تھا۔ میں نے کہا اماں جی! میں آپ کے مرنے کی بد دعا نہیں کرسکتا کیونکہ آپ تو اس کے بغیر مر جائیں گی۔ لہٰذا میں یہ بد دعا نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا مفتی صاحب! یہ تو پڑھنے کے لئے جا رہا ہے۔ میں نے کہا جس چیز کے لئے بھی جا رہا ہے لیکن تو اس کے بغیر مر جاتی ہے، لہٰذا اب یہ بد دعا میں تجھے نہیں دے سکتا۔ لہٰذا معاملہ سارا وہی ہے کہ دنیا کے لئے سب کچھ ٹھیک ہے لیکن دین کے لئے کمزوری ہے، دین کے لئے سستی ہے۔ مجھے بتاؤ! جب ڈاکٹر دوائی دیتے ہیں کہ یہ گولی آپ نے صبح کھانی ہے، یہ دوپہر کو کھانی ہے اور یہ شام کو کھانی ہے۔ اور اس میں سے اگر کوئی گولی چھوڑ دی اور پھر کچھ ہوگیا تو ذمہ دار تم ہوگے۔ بالخصوص ٹی بی کا جو علاج ہوتا ہے اس میں ڈاکٹر حضرات یہی بتاتے ہیں کہ روزانہ کھانا ہے، بلا ناغہ کھانا ہے۔ لیکن اگر مریض کہتا ہے کہ میرا دل نہیں چاہتا، تو پھر بھی کھانی پڑتی ہے۔ یہی بات ہے کہ کرنا پڑتا ہے۔ جس کو کچھ بننا ہے، اس کو کرنا ہے اور جس کو وقت ضائع کرنا ہے، اس کی خدمت سے ہم معذور ہیں۔ صاف بات ہے، درمیان میں ہم کیا کرسکتے ہیں؟ لہٰذا جس کو کچھ بننا ہے یعنی جس کو اللّٰہ پاک کا بننا ہے کیونکہ کچھ بننے میں ذرا دعویٰ ہے، اس میں ذرا گڑ بڑ ہوسکتی ہے، اس لئے جس کو اللّٰہ کا بننا ہے، اس کو کچھ کرنا ہے اور جو وقت ضائع کرنا چاہتا ہے تو پھر وقت ضائع کرنے کا ایک طریقہ تھوڑا ہے بلکہ ہزار طریقے ہیں، جس طریقے سے کوئی ضائع کرنا چاہے کرسکتا ہے، اس کو کون روک سکتا ہے۔ اور پھر آگے لکھتا ہے کہ مجھے پتا ہے کہ یہ صرف میری سستی ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ میں شرمندگی کے باعث معمولات کا chart fill نہیں کرتا۔ یہ تو ایسے ہی بات ہے کہ شرمندگی کے باعث ڈاکٹر سے بات نہیں کرتا، بس یہی بات ہے اور کچھ نہیں، یہ علاج ہے اس کا؟ یہ علاج نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو شتر مرغ والی بات ہے جو اپنا سر پروں میں ڈال لیتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھتا۔ لکھتے ہیں مجھے معلوم ہے کہ سب Lame excuses ہیں، مگر ہمت نہیں ہو پاتی اس کی۔ بھائی! جب Lame excuses ہیں تو Lame excuse سمجھ کر اس کو آگ لگا لو یعنی ان excuses پر عمل نہ کرو، جیسے کہتے ہیں سستی کا علاج چستی ہے۔ مجھے بتائیں اگر آپ دوائی نہیں کھا سکتے تو اس کے لئے پھر کون سی دوائی آپ کو دینی چاہئے کہ آپ دوائی کھائیں؟ پھر وہ دوائی کھانے کے لئے آپ کو کوئی اور گولی دینی پڑے گی، پھر اس کو کھلانے کے لئے کوئی اور دوائی یعنی کیا طریقہ ہوگا؟ بھائی! پہلے والی دوائی کھا لو جو آسان بات ہے۔ لہٰذا یہ سب Lame excuses ہیں۔ اگر اللّٰہ کا بننا ہے تو پھر عمل کرنا پڑے گا۔ جیسے کہتے ہیں سمندر کے سفر کا شوق ہے، کہا کہ کر لو، کہتا طوفان کھڑا ہے، کہا طوفان تو ہوگا۔ کہا اونٹ کی سواری کا شوق ہے، کہا کر لو، کہتا کوہان کا ڈر ہے، کہا کوہان تو ہوگی۔ طالب علم کہتا ہے کہ پڑھنا چاہتا ہوں، کہا پڑھو، کہتا امتحان کا ڈر ہے بس، کہا امتحان تو ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہوگا۔ لہٰذا یہ ساری چیزیں ہیں، یہ ہماری عملی زندگی ہے۔ اس سلسلے میں پشتو کی ایک نظم ہے:

همت کوه همت کوه همت کوه

کوم شې چې درته ګران شی داسې ګران ٸې مه پریږده

کوم شې چې درنه ورن شی داسې وران ٸې مه پریږده

ترجمہ: ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو، جو چیز تجھ سے بگڑ جائے اس طرح اسے بگڑا ہوا نہ چھوڑو، جو چیز تمہارے لئے مشکل ہوجائے اس کو مشکل نہ رہنے دو، ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو، ہمت کرو۔ جیسے کہتے ہیں: ہمت مرداں مدد خدا۔ لہٰذا ہمت سے ہی سارے کام بنتے ہیں۔ اس وجہ سے ہمت کرنی چاہئے تو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مدد آجائے گی ان شاء اللّٰہ! اپنے راستے پر تم چلنا تو شروع کرو۔ ورنہ اپنا وقت ضائع کرنا مناسب بات نہیں ہے۔

سوال نمبر 20:

حضرت! یہ حسیب صاحب میرے ساتھ ہیں یہ میرے دوست ہیں۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کہاں جا رہے ہیں؟ میں نے کہا میں شیخ کی خدمت میں جا رہا ہوں۔ تو مجھے فرمانے لگے کہ ماں باپ کے ہوتے ہوئے شیخ کی کیا ضرورت ہے؟ ویسے ان کو نہیں پتا کہ میرے ماں باپ وفات پا گئے ہیں۔ ان کے اس سوال کا جواب عنایت فرما دیں۔

جواب:

کوئی اگر اخلاص کے ساتھ سمجھنے کے لئے اختلاف بھی کرے تو اس اختلاف کا برا نہیں ماننا چاہئے کیونکہ وہ سمجھنے کے لئے کر رہا ہے۔ میں جب دارالعلوم کراچی میں پڑھانے کے لئے گیا تھا تو ایک مولوی صاحب بہت زیادہ سوال کرتے تھے، باقی لوگ جو چیز سمجھ جاتے تھے وہ اس میں بھی سوال کرتے تھے حتی کہ بعض دفعہ انسان زچ سا ہوجاتا ہے، چڑ چڑا ہوجاتا ہے کہ بھائی! یہ کیوں یہ چیز بھی نہیں سمجھتا؟ جبکہ یہ سب لوگ سمجھ رہے ہیں، یہ تو بہت آسان ہے۔ لیکن وہ بالکل پیچھے لگا رہتا تھا۔ آج وہی صاحب ہیں جو دارالعلوم کراچی میں ان ساری چیزوں کو سنبھالے ہوئے ہیں یعنی اس نے اس چیز کو اتنا حاصل کر لیا ہے کہ اب سب لوگ اسی سے پوچھتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ جو شخص آج کہہ رہا ہے کہ مجھے اس چیز کا پتا نہیں ہے، لیکن کل ممکن ہے کہ آپ کو اس سے پوچھنا پڑ جائے۔ اور یہ ممکن ہے ناممکن نہیں ہے۔ بہرحال ماں باپ کا اپنا role ہے، استاد، شاگرد کا اپنا role ہے، شیخ، مرید کا اپنا role ہے۔ ماں باپ جسمانی نظام کے لئے ہیں یعنی اللّٰہ پاک نے ہماری پیدائش کا ذریعہ ماں باپ کو بنایا ہے، ہماری پرورش کا ذریعہ ماں باپ کو بنایا ہے، وہ ہمارے لئے آسودگی حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس وجہ سے ان کے ہمارے اوپر بہت زیادہ حقوق قائم کیے گئے ہیں، قرآن پاک میں باقاعدہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حقوق کے ساتھ حقوقِ والدین بیان کیے ہیں۔ لہٰذا والدین کا حق بہت زیادہ ہے۔ لیکن جتنا کام ان کا ہے تو بس وہی ان کا ہے، مثال کے طور پر والد ان پڑھ ہے، کیا آپ اس سے metric کی ٹیوشن لے سکتے ہیں؟ کیونکہ یہ آپ کے والد ہیں اور والد کے ہوتے ہوئے استاذ کی کیا ضرورت ہے؟ اب اگر کوئی یہ کہہ دے تو کیا یہ بات ٹھیک ہوگی؟ لہٰذا والد، والد ہے، لیکن وہ ہے ان پڑھ، اس لئے وہ آپ کی یہ خدمت نہیں کرسکتا۔ البتہ آپ کے لئے ٹیوشن کا بندوبست کرسکتا ہے۔ یعنی کسی teacher کو کہہ دے کہ آپ کو میں اتنے پیسے دے دوں گا آپ میرے بیٹے کو پڑھا دیں، تو وہ آپ کو پڑھا دے گا۔ اب پڑھائے گا آپ کو teacher لیکن پیسے آپ کا والد pay کرے گا۔ بالکل اسی طریقے سے شیخ کا اپنا ایک کردار ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جو اللّٰہ کا بننا چاہتا ہے اور اس کو کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے اور عمل پر لانے کی، وہ شیخ کرتا ہے۔ دراصل ہمارا نفس ایک جانور کی طرح ہے، جب تک یہ سدھا ہوا نہ ہو تو یہ ہمارے خلاف جاتا ہے۔ اور جب یہ سدھ جاتا ہے تو ہمارے کام کا بن جاتا ہے۔ لہٰذا شیخ اس پر یہ خدمت کر لیتا ہے کہ جو جانور ہمارے اندر ہے وہ اس کو سدھا لیتا ہے اور جب وہ سدھا لیتا ہے تو پھر سب کچھ ہم ٹھیک کرتے ہیں، پھر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، بس یہی کام شیخ کا ہوتا ہے۔ مثلاً دل کی حالت درست ہوجائے کہ ہم اللّٰہ کو پہچان لیں، اس کے لئے وہ ہمیں ذکر دیتا ہے اور پھر ذکر کے ذریعے سے ہمارا دل صاف ہوجاتا ہے، پھر دل صاف ہونے کی وجہ سے ہم قرآن کو سمجھنے لگتے ہیں، حدیث کو سمجھنے لگتے ہیں، اللّٰہ والوں کی باتیں سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارا نفس محنت کا اور مجاہدات وغیرہ کا خوگر ہوجاتا ہے، جو سب شیخ کرا دیتا ہے، جس کی وجہ سے اس کے لئے پھر مشکل کام کرنا آسان ہوجاتا ہے، نتیجتاً دین کے جتنے کام جن کو پہلے وہ مشکل سمجھ رہا ہوتا ہے، وہ پھر اس کے لئے آسان ہوجاتے ہیں یعنی شیخ کا کام یہ ہوتا ہے۔ لہٰذا شیخ مربی ہوتا ہے وہ تربیت کرتا ہے اور استاذ معلم ہوتا ہے وہ تعلیم دیتا ہے اور جو والد صاحب ہیں وہ پرورش کرتا ہے۔ یعنی آپ کی جسمانی حالت کی وہ پرورش کرتا ہے، آپ کے اوپر خرچ کرتا ہے، آپ کے لئے دعائیں کرتا ہے اور آپ کو جو ضرورت ہوتی ہے وہ مہیا کرتا ہے۔ لہٰذا یہ اس کا کام ہوتا ہے اور پھر جب ایک وقت آجاتا ہے تو پھر آپ اس کی خدمت کرتے ہیں۔

سوال نمبر 21:

حضرت یکسوئی کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ کوئی طریقہ بتا دیں۔

جواب:

جو یکسوئی کے موانع ہیں ان کو دور کر لو یکسوئی حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ یکسوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کو produce نہیں کیا جاسکتا یعنی یہ ایک ایسا state ہے جس میں disturbance نہیں ہے۔ لہٰذا disturbance دور کر لو تو یکسوئی ہوگئی۔ مثلاً میں ذکر کر رہا ہوں اور میرا دھان نہیں جم رہا کیونکہ ادھر بھی شور، ادھر بھی شور، اور پھر کبھی میں سوچ رہا ہوں کہ فلاں کام کیا، اور فلاں کام نہیں کیا۔ لہٰذا میں ان کاموں سے فارغ ہو کر اور آرام سے کسی ایسی جگہ بیٹھ کر جہاں پر یہ چیزیں نہ ہوں ذکر کروں تو یکسوئی پیدا ہوجائے گی۔ اس لئے یکسوئی اصل میں disturbance کو دور کرنے کی محنت ہے، اس سے یکسوئی ہوجاتی ہے۔ اپنا خیال کسی ایک چیز پر focus کر لیں تو اس کو ہم یکسوئی کہتے ہیں۔

سوال نمبر 22:

بندگی تو surrender ہے اور عشق ایک طلب ہے، تو یہ دونوں کیسے اکٹھے ہوسکتے ہیں؟

جواب:

ہماری ایک غزل ہے ’’دل مبتلائے یار کو بہلاوں میں کیسے‘‘ اس پر یہ سوال تھا جس کا میں نے جواب دیا تھا کہ عشق ایک طلب ہے، لیکن عاشق اپنے محبوب کی خواہش کو مان کر (جس کو ہم بندگی کہتے ہیں) عشق کا زیادہ strong مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عشق جتنا زیادہ ہوگا، اس کی بندگی بھی اتنی زیادہ strong ہوگی۔ اس کو پھر میں نے غزل کی صورت میں بیان کیا ہے۔

یار کی بات علی رأس العین

چاہئے بات اس کی اونچی رہے

دل میرا وصلِ یار کا طالب

پر انتظار کی گھڑی چلتی رہے

وہ جب چاہے کہ میں تڑپتا رہوں

یہ تڑپنا بھی وصلِ یار ہی ہے

تشریح:

یعنی جب وہ چاہتا ہے کہ میں تڑپتا رہوں تو بس یہ وصل ہوگیا۔

عشق میرا بندگی میں ہو خام کیوں

مطالبہ اس کا جب بندگی ہے

تشریح:

یعنی میرا عشق اس میں پیچھے کیسے رہ جائے جبکہ اس کا مطالبہ بندگی کا ہے۔

اپنے محبوب کا بندہ ہوں جب

عشق اور بندگی تو ایک ہوئی

تشریح:

یعنی دونوں ایک ہی بن گئے۔

جان کا مالک بھی ہے دل بھی ہے دیا

عشق اور بندگی تب ایک ہی ہے

بندگی اس کی ایک حقیقت ہے

عشق کا زور بھی مسلم ہے

اس حقیقت پہ مر مٹا ہے دل جب

عشق کی روشنی اس کو اس میں ملی ہے

دلِ مجبور مبتلا کے لئے

یہ تسلی ہے کہ میں اس کا ہوں

خود وہ کہہ دے شبیر وہ بھی ہے میرا

تشریح:

’’مَنْ کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰهُ لَهٗ‘‘ یعنی جو اللہ کے لئے ہے تو اللہ بھی اس کے لئے ہے۔

خود وہ کہہ دے شبیر وہ بھی ہے میرا

کون جانے اس پہ کتنی خوشی ہے

جب میں نے کسی کو یہ سنایا تو اس نے الٹا دوسرا سوال ڈال دیا۔ اس نے کہا کہ عبدیت اور محبوبیت میں کون سی چیز زیادہ افضل ہے؟ میں نے کہا یہ تو ایک ہی چیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کیسے؟ میں نے کہا جو اللّٰہ کا بندہ ہوگا، اللّٰہ پاک کو پیارا ہوگا اور اللّٰہ پاک کے سامنے اپنے آپ کو فنا کر چکا ہوگا تو اللّٰہ پاک نے اس کو پھر بقا دی ہوگی۔ لہٰذا یہ ساری چیزیں ایک ہی ہیں یعنی یہ چاروں condition ایک ہے۔ لیکن لوگ اس کو مختلف angle سے دیکھتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے عبدیت سب سے اونچا مقام ہے، کوئی کہتا ہے محبوبیت سب سے اونچا مقام ہے، کوئی کہتا ہے فنا سب سے اونچا مقام ہے اور کوئی کہتا ہے بقا سب سے اونچا مقام ہے۔ حالانکہ یہ چاروں ایک ہی چیز کی مختلف صورتیں ہیں۔ انہوں نے کہا پھر آپ اس پر بھی کچھ کہہ دیں۔ لہٰذا آج اس پر بھی غزل پڑھتا ہوں۔

اعلٰی کہہ دے محبوبیت کو کوئی

فنا بقا کو عبدیت کو کوئی

عبد محبوب ہے اور فانی باقی

پائے اگر اس حقیقت کو کوئی

آپ محبوب ہیں اور عبدہ بھی

دیکھ لیں اس کی نزاکت کو کوئی

فنا فی اللّٰہ آپ سے ہیں زیادہ کون

آپ کی دیکھے للٰہیت کو کوئی

ساتھ رب کے باقی آپ کیسے ہیں

دیکھے آپ کی مقبولیت کو کوئی

دعا میں بندگی شبیر مانگے

یاد رکھیں میری اس حاجت کو کوئی

تشریح:

یعنی جو بھی میرے لئے دعا کرے تو وہ اس میں میرے لئے یہ مانگیں۔

آگے عشق اور بندگی پر ایک رباعی ہے:

عشق کیسے بندگی سے ہووے جدا

بندگی جب ہو کہ اس پہ ہو فدا

دل و جان دے کے بھی ملے وہ اگر

زہے نصیب ہے سستا سودا

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ یہ بہت سستا سودا ہے کہ انسان سب کچھ مٹا دے۔


دل و جان کیا چیز ہے:

دل و جان کی بھی حیثیت کیا ہے

اور جو مانگتے ہیں وہ حالت کیا ہے

دل و جان وہ ہی جب قبول کرے

واہ رے یہ قبولیت کیا ہے

تشریح:

یعنی اس کا کرم اور احسان ہوگا جب اس کو وہ قبول فرمائے گا۔ ہمارے دل و جان کی کیا حیثیت ہے! اس کی حیثیت ہی تب بنتی ہے جب وہ قبول فرما لے۔ وہ ایک چیز کو بھی اگر قبول فرمائے تو وہ چیز کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ جیسے آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا کہ جو گوشت میں نے تقسیم کے لئے دیا تھا کیا وہ تقسیم کر لیا؟ انہوں نے فرمایا اتنا تقسیم ہوگیا اور اتنا باقی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یوں کہو کہ جو تقسیم کیا وہ باقی ہے اور یہ ابھی رہتا ہے۔ (ترمذی بحوالہ معارف الحدیث: 860)

جب اللّٰہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا، اللّٰہ پاک ہمیں نصیب فرمائے۔ اس پر اب اشعار ہیں۔

دیدار الہی:

واہ کیا خوب نظارہ ہوگا

سامنے محبوب ہمارا ہوگا

ہم تو مر مر کے جینا چاہیں گے

اذن جینے کا جو پایا ہوگا

وہ کیا مدہوشی کا عالم ہوگا

ھُو کا عالم ہی جو چھایا ہوگا

وقت گزرنے کا تو احساس ختم

اپنا جلوہ جو دکھایا ہوگا

سمجھیں ہم کیا پھر اس عالم کو شبیر

سب کیسے ہوں گے اور کیا ہوگا

اب دعا کرنی ہے اور اس سے پہلے ذکر بھی۔ لہٰذا دعا کے لئے یہ اشعار ہیں۔

اٹھا دیجیئے ہاتھ دعا کے لئے

دعا مانگ لینا خدا کے لئے

پریشان ہم کتنے ہیں اس سے اب

نکلنا ہو تو ایسی راہ کے لئے

وہ رستہ طریقِ نبی ہی کا ہے

ہو سب کچھ صرف اس کی رضا کے لئے

یہ دنیا نہ مقصود اپنا رہے

تیاری ہو اپنی وہاں کے لئے

ہوئے پیدا ہم صرف اس کے لئے

زماں کے لئے نہ مکاں کے لئے

یہ علامہ اقبال نے بھی کہا تھا۔

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے

جہاں ہے تیرے لئے، تو نہیں جہاں کے لئے

(حضرت کا شعر)

یہ پیغام محبت کا ہووے قبول

پہنچے وہاں ہے جہاں کے لئے

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ



  1. ۔ نوٹ: تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔