اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
السلام علیکم حضرت جی! میں آج کل بہت غمگین ہوں، اللّٰہ سے دل لگانے کی کوشش کر رہی ہوں، بہت رونا آتا ہے، آپ میرے لیے بہت بہت دعا فرمائیں۔ میں اگلے مہینے آپ کو اپنے معمولات کا paper بھی بھیجوں گی۔
جواب:
یہ ایک اچھا حال ہے کہ انسان اللّٰہ تعالیٰ سے جی لگانے کی کوشش کرے، رونا آنا بھی ایک حال ہے، لیکن اس پر غمگین ہونا یہ سمجھ نہیں آتا کیونکہ اس پر غمگین نہیں ہونا چاہئے، بلکہ انسان اپنی کوشش کا مکلف ہے۔ البتہ غمگین تو انسان کو اپنی بے اعتدالیوں پر، اپنی غلطیوں پر، اپنے عیوب پر ہونا چاہئے، کیونکہ یہ غم کی چیزیں ہیں۔ اور اس بات کی فکر ہونی چاہئے کہ جو وقت گزرا وہ کسی مفید کام کے بغیر کیوں گزرا، اس پر غم یقیناً ہونا چاہئے اور ہمارے اکابر اس طرح کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک صحابی رسول ﷺ آپ ﷺ کے پاس آئے کہ یا رسول اللّٰہ! میں اپنے باغ میں نماز پڑھ رہا تھا، باغ اتنا گھنا تھا کہ ایک پرندہ آیا جسے باہر جانے کا راستہ نہیں مل رہا تھا، نماز میں میرا اس طرف خیال چلا گیا اور اس باغ نے نماز سے میری توجہ ہٹا کر اپنی طرف کردی، لہٰذا اب میں اس باغ کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، آپ اسے قبول فرمائیے اور آپ اس کو اللّٰہ کے راستے میں کسی کو بھی دے سکتے ہیں، کیونکہ یہ میرے اور اللّٰہ کے درمیان حائل ہوگیا تھا۔ یہ اصل غم ہے یعنی اس قسم کی بات ہونی چاہئے اور ہمیں اپنی غلطیوں پر غمگین ہونا چاہئے۔ باقی انسان کوشش کا مکلف ہے اور آگے غیر اختیاری چیز ہے۔ لہٰذا اگر اللّٰہ تعالیٰ کوئی مزیدار حالت طاری کر دے یا دہشت طاری کر دے، یہ اس کی مرضی ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے، ہم اس کے بندے ہیں اور وہ اللّٰہ ہمارا خالق ہے۔ اور رونا آنا یہ غیر اختیاری ہے، اگر آئے تو سبحان اللّٰہ! اور اگر نہ آئے تو دعا میں آدمی رونے کی شکل بنالے۔ البتہ دعا یقیناً ہم کریں گے اور کر بھی لی ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ آپ کو اچھے حالات نصیب فرمائے اور اصلاح نفس جو کہ اصل مقصد ہے وہ حاصل کروا دے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے ساتھ تعلق نصیب فرما دے۔ باقی معمولات کا پرچہ یقیناً بھیجنا چاہئے کیونکہ اسی سے رابطہ ہوتا ہے اور شیخ کے ساتھ رابطہ اور معمولات پر استقامت یہ کامیابی کی کنجی ہے۔
سوال نمبر 2:
السلام علیکم۔
Sir, pray for me that I shall perform according to the restrictions by following شریعہ in the distribution of property as my elder brother is coming from Canada and is forcing me to sign papers.
جواب:
میں دل سے دعا کرتا ہوں کہ اللّٰہ جل شانہٗ آپ کو شریعت پر استقامت نصیب فرمائے اور صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس مسئلے میں کسی کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘ (مسند الشہاب: 873)
ترجمہ:’’مخلوق کی ایسی اطاعت جس میں خالق کی نافرمانی ہو جائز نہیں ہے‘‘۔
لہٰذا چاہے بھائی ہو، چاہے ماں ہو، اور چاہے باپ ہو، جو کوئی بھی اگر غیر شرعی تقاضا کر رہا ہو تو اس کے سامنے ڈٹنا چاہئے، اس کے بارے بالکل بھی پروا نہیں کرنی چاہئے، اللّٰہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو۔
سوال نمبر 3:
شاہ صاحب! میں ایک گناہ گار آدمی ہوں، میں بے حیا لوگوں کی pictures دیکھتا ہوں، بہت چھوڑنے کی کوشش کی ہے مگر نہیں چھوڑ سکا۔ آپ اگر SMS پر میری رہنمائی کردیں تو بہتر ہوگا اور آپ میرے لیے دعا بھی کریں۔
جواب:
دعا سے کوئی انکار نہیں ہے، دعا میں فوراً کر لیتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کو روحانی صحت عطا فرمائے اور ان چیزوں سے اللّٰہ تعالیٰ آپ کو بہت جلد چھٹکارا نصیب فرمائے۔ البتہ اپنے آپ کو صرف گناہ گار آدمی کہنا کافی نہیں ہے، کیونکہ ایسے تو پھر کافر بھی اپنے آپ کو کافر کہتے اور بس وہ کافی ہوجاتا، بلکہ یہ ایک مستقل محنت ہے۔ اور یاد رکھیے کہ جو چیز جتنی مشکل ہو اس کو کرنے پر اجر بھی اتنا زیادہ ملتا ہے۔ مثلاً کسی شخص میں کسی گناہ کا تقاضا اللّٰہ تعالیٰ نے زیادہ شدید ڈالا ہوا ہے، اب چونکہ اللّٰہ کو پتا ہے کہ اس میں یہ تقاضا بہت شدید ہے، اس وجہ سے اگر وہ اس سے بچے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اس پر اجر بھی زیادہ دے گا۔ اس بات کو اگر انسان ذہن میں رکھے تو پھر کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے، اس لئے ہمت کرنی چاہئے اور یہ دنیا ہمت پر ہی ہے۔ کیونکہ انسان اگر بے ہمت ہوجائے تو کھانا بھی نہ کھا سکے۔ جیسے ہماری پشتو میں کہتے ہیں ’’روټۍ خوړل اسان دی نوړۍ جوړول غواړی‘‘ یعنی روٹی کھانا اگر چہ آسان ہے لیکن نوالہ بنانا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ بات بالکل غلط ہے کہ انسان صرف یہ کہہ دے کہ میں گنہگار آدمی ہوں اور میرے لیے دعا کریں۔ کیونکہ یہ صرف دعا کا کام نہیں ہے اور نہ ہی صرف اپنے آپ کو گناہ گار کہنے سے کام بنتا ہے، بلکہ اس میں ہمت کی ضرورت ہے اور ہمت کرنی ہی پڑتی ہے کہ عین اس وقت جب گناہ کا شدید تقاضا ہو اس وقت آدمی کہے کہ میں اللّٰہ سے ڈرتا ہوں۔ ایک دن حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمانے لگے کہ مولانا سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان پر شباب ہو، گناہ کا موقع ہو، گناہ کی دعوت ہو اور پھر آدمی یہ کہے کہ مجھے اللّٰہ کا خوف ہے۔ یعنی اس وقت انسان کو یہ نہیں کرنا چاہئے کہ اپنے آپ کو ڈھیلا ڈھالا چھوڑ دے کہ اگر اللّٰہ کی طرف سے توفیق ہوگئی تو یہ کام ہوجائے گا اور اگر توفیق نہیں ہوئی تو نہیں ہوگا۔ ایسے تو پھر اللّٰہ کی طرف سے اگر کھانا مل گیا تو کھا لو اور اگر نہیں ملا تو آرام سے بیٹھ جاؤ، پھر کیوں دنیا میں، دفتروں میں چکر لگاتے ہو، کیوں دکانوں میں دکانداری کرتے ہو، کیوں خوامخواہ ان ذرائع کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہو؟ یہاں پر تو انسان آخری درجے کی محنت بھی کرتا ہے بلکہ انسان بہت ہی گندے کاموں کے کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتا ہے یعنی جو بظاہر گندے لگتے ہیں، جیسے جھاڑو دینا اور کسی کے برتن دھونا، یہ کافی مشکل کام ہیں، ان میں انسان کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے لیکن جب انسان مجبور ہو تو پھر یہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طریقے سے جو آخرت کے کام ہیں اور اللّٰہ پاک نے جو احکامات دئیے ہیں، یہ ایسے ہی نہیں دئیے کہ ان پر عمل نہ ہو سکتا ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَهَا﴾ (البقرہ: 286)
ترجمہ:1 ’’اللّٰہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمہ داری نہیں سونپتا‘‘۔
یعنی جو کام کوئی نہیں کرسکتا، اللّٰہ تعالیٰ اس کا حکم بھی نہیں دیتا اور جس کا حکم دیا ہے تو اس کی ہمیں طاقت بھی دی ہے۔ ایک شخص حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس آیا اور کہا کہ حضرت! کیا کروں میری آنکھ بدنظری کے لئے اٹھ ہی جاتی ہے اور مجھ سے کنٹرول نہیں ہوتی۔ حضرت نے فرمایا: اگر اس کے والد دیکھ رہے ہوں یا تمہارے والد دیکھ رہے ہوں، تو کیا پھر بھی آنکھ اٹھے گی؟ بے حیا آدمی تجھے شرم نہیں آتی کہ اللّٰہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے، اس کا خیال نہیں کر سکتے، کیا اللّٰہ تعالیٰ کا دیکھنا والد سے کم ہے؟ یعنی انسان کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللّٰہ پاک اس کو دیکھ رہے ہیں۔
نہ جا اس کے تحمل پر کہ بے ڈھب ہے گرفت اس کی۔
یعنی یہ چیزیں نہ کرو پتا نہیں کہ کس وقت گرفت ہوجائے اور معاملہ الٹا ہوجائے۔ ایسی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، مثلاً بلعم بن باعوراء کو ایک بات پر اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی سزا دی کہ بالکل ہی اس کو مردود کردیا اور پتا نہیں کس کے ساتھ کیا کیا ہوا اور یہ کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔
ایک لڑکی تھی، جو tv کی بڑی شوقین تھی، ایک مرتبہ اذان ہو رہی تھی، کسی نے کہا کہ اذان ہو رہی ہے، ٹی وی بند کردو، اس نے کہا کہ اذان تو پھر بھی ہوسکتی ہے، لیکن یہ ڈرامہ کبھی کبھی آتا ہے۔ بس اس کے بعد وہ مر گئی، اب جہاں بھی اسے لے جاتے، tv اس کے ساتھ ہی اٹھ جاتا تھا، لوگوں کے لیے tv کو اس سے چھڑانا بہت مشکل ہوگیا حتیٰ کہ tv کو اس کے ساتھ ہی دفن کرنا پڑا۔ دراصل بعض دفعہ اللّٰہ تعالیٰ بہت سخت عِتاب نازل فرماتے ہیں۔ لہٰذا ہم لوگوں کو اتنا easy نہیں لینا چاہئے اور صرف یہ کہنا کہ میں گنہگار آدمی ہوں اور آپ میرے لیے دعا کریں کافی نہیں ہے۔ کیونکہ اس پر کوئی نہیں بچتا، البتہ دعائیں ضرور کرنی چاہئیں لیکن اس کے ساتھ عملی قدم بھی اٹھانا چاہئے۔ جیسے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے کہا کہ حضرت! آپ میرے لیے دعا کریں کہ میں حج کرلوں، حضرت نے فرمایا: جب حج کے ایام آئیں تو مجھے اپنے اوپر اختیار دینا میں تم کو ہاتھ سے پکڑ کر جہاز پر بٹھا دوں گا اور پھر آپ کے لیے دعا کروں گا۔ کیونکہ بہت سارے لوگ اس طرح کے ہیں کہ ان پر حج فرض ہوتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے دعا کرو کہ اللّٰہ ہمیں بلائے۔ جبکہ اللّٰہ نے تو بلایا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے بلانے کے لیے جو حکم دیا تھا، لہٰذا حکم تو قرآن میں آگیا، اب اگر یہ حکم کوئی پورا نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مجھے بلاوا ابھی تک نہیں آیا، تو یہ عجیب بات ہے۔ اس طرح تو دفتر بھی نہ جاؤ اور کہہ دو کہ جب مجھے بلاوا آئے گا پھر میں جاؤں گا۔ لہٰذا یہ سب باتیں اپنے لئے طفلِ تسلیاں ہیں اور انسان کو اپنے آپ کو ان طفلِ تسلیوں سے بچا کے رکھنا چاہئے۔
سوال نمبر 4:
حضرت خصوصی توجہ کی درخواست ہے۔
جواب:
اصل میں اس طرح کی ساری باتیں ہم لوگوں نے اِدھر اُدھر سے سنی ہوتی ہیں اور پھر ہم لوگ اپنے آپ کو ایک قسم کا سمجھا دیتے ہیں کہ بس میں نے یہ بات کرلی ہے اور میں اتنا ہی کرسکتا تھا۔ لیکن انسان جب کام شروع کرلیتا ہے تو خصوصی توجہ خود بخود آجاتی ہے، یعنی خصوصیت انسان کے اندر ہے کہ جب انسان کام کرنا شروع کرلیتا ہے تو اس کی طرف توجہ بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن بغیر کام کیے آدمی یہ کہہ دے کہ توجہ فرما دیں، اس طرح تو آپ مجھے مشین robot بنا دیں، پھر کام ہو یا نہ ہو بس توجہ خود بخود ہونے لگے گی۔ لہٰذا یہ سستی کی بات ہے اور یہ مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ انسان کو اللّٰہ پاک نے ہاتھ، پیر اور ذہن اس لیے دئیے ہیں کہ انسان ان کو کام میں لائے، لہٰذا ہمت کریں، مسائل سیکھیں اور ان کے اوپر عمل کریں۔ البتہ اس کی آسانی کے لیے ذکر و اذکار ہیں، صحبت صالحین ہے، لیکن اگر کسی کو یہ نصیب نہ بھی ہو تب بھی آدمی مکلف تو ہے اگرچہ مشکل سے ہو، لیکن کرنا ہے کیونکہ اس پر اجر بھی زیادہ ملے گا اور یہ نہیں کہ کوئی کہے کہ مجھ تک یہ بات نہیں پہنچی یا میں یہ نہیں کرسکتا، کیونکہ جس وقت انسان عمل نہیں کرسکتا تو اللّٰہ پاک نے اس کے لیے احکامات علیحدہ بھیجے ہیں۔ مثلاً کسی کا ایک ہاتھ ہی نہیں ہے تو اس ہاتھ کا وضو واجب نہیں ہوگا کیونکہ وہ کر ہی نہیں سکتا۔ اسی طرح جو بیمار ہوگیا اور وہ نماز کے لئے کھڑا نہیں ہوسکتا تو اس کے لیے بیٹھ کر نماز پڑھنا کافی ہے، اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو لیٹ کر نماز پڑھنا کافی ہوجائے گا اور اگر لیٹ بھی نہیں سکتا تو اشارے سے نماز پڑھنا کافی ہوجائے گا۔ لہٰذا اللّٰہ پاک نے یہ احکامات بتائے ہیں، مسائل موجود ہیں، اس لئے ان پر عمل کرلیں۔ لیکن یہ بات بھی ہے کہ جب انسان دنیا کا کام کرسکتا ہے تو دین پر عمل کیوں نہیں کرسکتا۔ مثلاً ایک آدمی یہ کہہ دے کہ میں فجر کے لیے نہیں اٹھ سکتا اور اس کی duty ڈیوٹی 4 بجے ہوجائے تو پھر وہ 2 بجے اٹھ سکتا ہے۔ لہٰذا اگر یہ 2 بجے اٹھ سکتا ہے تو اس کے لیے 6 بجے اٹھنا کیوں مشکل ہے؟ اگر یہ 6 بجے یا 5 بجے نہیں اٹھ سکتا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسے اس چیز کی قدر ہی نہیں ہے۔ لہٰذا صرف توجہ کی درخواست سے کام نہیں ہوگا اگرچہ میں دل سے دعائیں کرتا ہوں لیکن کام خود کرنا پڑے گا۔
سوال نمبر 5:
حضرت! مجھے تکلیف ہے، میرے لیے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔
جواب:
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے۔
سوال نمبر 6:
حضرت! مجھے اپنی ہر دعا میں ہمیشہ شامل رکھنا۔
جواب:
اس بات کی لوگوں کو واقعی بہت زیادہ طمع ہوتی ہے جبکہ یہ آسان بات نہیں ہے۔ مثلاً اگر ایک ہزار آدمی مجھے اس طرح SMS کریں کہ آپ مجھے ہر دعا کے اندر خصوصی طور پر شامل رکھنا۔ تو میں کیا کروں گا، نہ میں ہزار ناموں کو یاد رکھ سکتا ہوں، نہ ہی میں ہزار نام پڑھ سکتا ہوں، نہ ہی اس طرح ہوسکتا ہے۔ اس لئے خوامخواہ ہر کسی کو اس طرح مجبور کرنا مناسب نہیں ہے، البتہ یوں کہیں کہ اگر میں آپ کو یاد آجاؤں تو میرے لیے دعا کرنا۔ اس طرح ٹھیک ہے کہ جب یاد آجائے گا تو دعا کرلیں گے۔ لیکن اس طرح کہنا ٹھیک نہیں کہ آپ مجھے ہر دعا کے اندر خصوصی طور پر شامل رکھنا، یہ خوامخواہ اپنے آپ کو بہت زیادہ width دینا ہے۔ اگر اللّٰہ تعالیٰ کو منظور ہوا تو یقیناً ہوجائے گا، لیکن خود کسی کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے، کیونکہ میرے لئے صرف ایک آدمی نہیں ہے۔ جیسے ایک صاحب نے مجھے کہا کہ آپ مجھے عیدی دیں، میں نے کہا کہ میں آپ کو عیدی کیسے دے دوں؟ وہ کہنے لگا کہ میں آپ کا بچہ ہوں، میں نے کہا یہ سارے مرید اپنے آپ کو بچہ سمجھتے ہیں، لہٰذا جتنے مرید ہیں وہ سارے میرے بچے ہیں، پھر تو مجھے سب کو عیدی دینی چاہئے، آپ کی کیا خصوصیت ہے کہ صرف آپ کو دوں اور یہ ممکن نہیں کہ میں سب کو دوں اور جب سب کو نہیں دے سکتا تو پھر کسی کو دھوکے سے بھی نہیں دیتا۔ کیونکہ اس طرح تو میں خواہ مخواہ ایک تخصیص والا system شروع کرلوں گا اور ہمارے یہاں یہ تخصیصات نہیں ہیں۔ کیونکہ تخصیصات سے لوگ خراب ہوجاتے ہیں اور ہم نے حقیقاً لوگوں کو دیکھا ہے کہ تخصیصات سے لوگ خراب ہوجاتے ہیں، جس کو تھوڑا سا خصوصی بنا لیا، وہیں سے گڑبڑ شروع ہوجاتی ہے۔ اور پھر خصوصی بنانے میں خصوصی مسائل پیش آتے ہیں، لہٰذا یہ ہمارے پاس نہیں ہے، یہ بات ان کو میں نے اس طرح سمجھائی۔
ایک بات اور میں عرض کرنا چاہوں گا کہ مجھے جتنے SMS آتے ہیں اس میں 70 یا 80 فیصد SMS میں نام نہیں لکھا ہوتا، یہ بالکل اصول کے خلاف ہے۔ اس لئے جو بات لکھنی ہو وہ صاف اور واضح ہونی چاہئے، جیسے فرمانِ الہٰی ہے:
﴿وَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِيۡدًا﴾ (الاحزاب: 70)
ترجمہ: ’’ اور سیدھی سچی بات کہا کرو‘‘۔
لہٰذا واضح طور پر سب کچھ ہونا چاہئے۔ ورنہ مجھے کیا پتا کہ یہ کس کا SMS ہے، کیونکہ مجھے سب کے نمبر تو معلوم نہیں ہیں، بلکہ مجھے تو اپنے بیٹوں کے نمبر بھی معلوم نہیں ہیں۔ اور میں کیسے یہ تمام چیزیں یاد رکھ سکتا ہوں؟ اس لئے یہ اصولا غلط ہے کہ آپ کسی کو SMS بھیجیں اور ساتھ اپنا نام نہ لکھیں۔ بلکہ اپنا نام لکھنا چاہئے، اپنا تعارف لکھنا چاہئے اور بعض نام زیادہ بڑے ہوتے ہیں تو اس میں کچھ اور نشانی بھی ہونی چاہئے۔ جیسے ’’نواز خان‘‘ ہمارے پاس 4 ہیں، اب ظاہر ہے کہ بغیر نشانی کے کیسے معلوم ہوگا کہ کونسا ’’نواز‘‘ ہے، اس لئے کچھ اس طرح کی نشانی ہونی چاہئے تاکہ ہماری پہچان صحیح طور پر معلوم ہوجائے۔ لہٰذا یہ چیز ضروری ہے، اس کے برعکس message کرنا اصول کے خلاف ہے۔ اور بغیر نام کے ابہام نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس سے پھر مشکلات ہوتی ہیں۔
سوال نمبر 7:
حضرت! کبھی نماز میں بڑا خشوع و خضوع ہوتا ہے، عبادت کرنے کا بڑا دل کرتا ہے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ خشوع و خضوع اتنا نہیں ہوتا، عبادت کو دل بھی زیادہ نہیں کرتا، اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب:
یہ احوال ہیں۔ ایک کو حالتِ قبض کہتے ہیں، ایک کو حالتِ بسط کہتے ہیں۔ حالتِ بسط وہ ہوتی ہے جس میں انسان کا اعمال کرنے کو دل چاہتا ہے اور اس میں وہ بڑا خوش ہوتا ہے اور اس میں بڑا مزا آتا ہے۔ اور حالتِ قبض وہ ہوتی ہے جس میں انسان کو مزہ نہیں آتا بلکہ بعض دفعہ آدمی کے لیے بوجھ ہوتا ہے، آدمی کا دل پتھر جیسا ہوجاتا ہے، ہر چیز وہ زبردستی کر رہا ہوتا ہے، یعنی اپنے آپ کو جیسے کوئی کھینچ رہا ہوتا ہے۔ اور دونوں حالتوں میں الحمد للّٰہ! بڑے فوائد ہیں، جیسے دن اور رات، چنانچہ بسط دن کی طرح ہے اور قبض رات کی طرح ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ نے رات میں بھی فائدے رکھے ہیں، دن میں بھی فائدے رکھے ہیں۔ اور یہ کیفیات اللّٰہ تعالیٰ نے آزمانے کے لیے رکھی ہوئی ہیں کہ یہ نعمت میں کیا کرتا ہے اور مشکل میں کیا کرتا ہے، آیا یہ میرے لیے اعمال کرتا ہے یا اپنے مزے کے لیے اعمال کرتا ہے۔ اس لئے اگر ہر وقت مزہ ہوتا تو امتحان ہی ختم ہوجاتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ مزہ دے دیتے ہیں لیکن کبھی کبھی لے بھی لیا جاتا ہے تاکہ دیکھا جائے کہ یہ ایسی حالت میں بھی عمل کرتا ہے کہ جب اس کو اس میں مزہ نہ آتا ہو۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کسی نے خط لکھا کہ حضرت! دل بالکل پتھر سا ہوگیا ہے کوئی عمل کرنے کو جی نہیں چاہتا، اعمال ٹوٹنے لگے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ تو غیر اختیاری حالت ہے اور دل کا اس طرح ہونا اس پر کوئی گرفت بھی نہیں ہے، کیونکہ یہ انسان کے بس میں نہیں ہے۔ لیکن اعمال ٹوٹنے لگیں ہیں یہ بات غلط ہے، کیونکہ جس وقت آپ کو پورے نمبر ملنے کا وقت آیا اس وقت آپ نے عمل چھوڑ دیا، اس لئے کہ پہلے آپ جو عمل کر رہے تھے اس میں مزہ تھا، اب مزے کے نمبر اگر 30 فیصد کٹ گئے تو 70 فیصد نمبر مل گئے اور اب آپ کو پورے نمبر ملنے ہیں مزے کے بغیر عمل کرنے کی وجہ سے، لیکن اس وقت مزہ نہ ہونے کی وجہ سے آپ عمل کو چھوڑ رہے ہیں۔ اور اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی حکمتوں کو اللّٰہ ہی جانتا ہے، ہمیں ہر حال میں عمل کرنا چاہئے، کسی وقت میں بھی عمل سے پیچھے نہیں رہنا چاہئے، دل چاہے یا نہ چاہے۔
سوال نمبر 8:
حضرت! بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ ایک بندے کو pressurize کرنے کی وجہ سے یا اسے کوئی اس طرح کی tension ہوتی ہے جس کی وجہ سے بندے سے کوئی گناہ کا کام ہوجاتا ہے، لیکن بعد میں (کیونکہ وہ ایک tension والی stage ہوتی ہے اور اس کا دماغ کام نہیں کرسکتا، لیکن بعد میں جب وہ stage گزر جائے تو پھر) بندے کو پتا چل جاتا ہے کہ میں اگر اس وقت عقل استعمال کرتا تو اس طرح کرلیتا اور گناہ سے بچ جاتا۔ لیکن گناہ تو ہوچکا ہے، اس لئے اب اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
انسان کو گناہ نہیں کرنا چاہئے۔ اللّٰہ تعالیٰ کو اچھی طرح پتا ہوتا ہے کہ یہ کتنا مجبور ہے اور کتنا محتاج ہے۔ لہٰذا اگر آپ اپنے آپ کو مجبور سمجھو جبکہ اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک آپ مجبور نہیں ہیں تو پھر اس کا حساب ہوگا۔ کیونکہ اللّٰہ کو تو پتا ہے کہ آپ کتنے مجبور ہیں۔ جیسے میں نے ابھی مثال دی کہ فجر کی نماز کے لیے ایک شخص نہیں اٹھ سکتا اور اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے کہ میں کیا کروں میری آنکھ ہی نہیں کھلتی، اور یہ بات اکثر لوگ کرتے ہیں، لیکن اسی شخص کی اگر 4 بجے ڈیوٹی لگا دی جائے اور اس پر اس کو اچھی خاصی تنخواہ ملتی ہو تو یہ شخص 2 بجے اٹھ جاتا ہے اور اس کی تیاری کرنے کے لیے سارا کچھ کرتا ہے۔ لہٰذا یہ 2 بجے اٹھنا کیسے ممکن ہوگیا جبکہ اس کی آنکھ ہی نہیں کھلتی تھی اور یہ اپنے آپ کو مجبور سمجھتا تھا۔ اس لئے یہ اللّٰہ کے یہاں مجبور نہیں ہے، کیونکہ اللّٰہ کو پتا ہے کہ یہ دنیا کے لیے تو اٹھتا ہے لیکن نماز کے لیے نہیں اٹھتا۔ ایسے ہی دوسری حالتوں میں بھی ہے، جس میں انسان اپنے آپ کو مجبور سمجھتا ہے کہ مجھے pressurize کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر دنیا کے معاملے میں اس کو pressurize کیا جاتا تو یہ ٹھیک ٹھاک جواب دیتا اور اپنے حق کے لیے لڑتا اور بلکہ سب کے ساتھ معمولی سی بات پر بھی لڑتا ہے، والدہ کے ساتھ بھی لڑتا ہے، والد کے ساتھ بھی لڑتا ہے اور بھائیوں کے ساتھ بھی لڑتا ہے، وہاں پر کوئی چیز نہیں چھوڑتا اور دین کی بات ہو تو کہتا ہے کہ میں مجبور ہوں، کیا کریں مجھے pressurize کیا گیا ہے۔ یہ سارے بہانے ہیں، اس لئے اگر غلطی ہوجائے تو فوراً اللّٰہ پاک سے معافی مانگنی چاہئے اور آئندہ اس طرح نہ کرنے کا عہد کرنا چاہئے۔ کسی بھی گناہ میں اس طرح ہوتا ہے، لیکن اپنے لیے بہانے نہیں بنانے چاہئیں کہ میں مجبور تھا۔ بلکہ بہانے بنانا شیطان کا کام ہے، جیسے شیطان نے کہا کہ اس کو مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے۔ لہٰذا بہانے بنانا شیطان کا کام ہے جبکہ انسان کا کام یہ ہے جو ہمارے بابا آدم علیہ السلام کی سنت ہے اور وہ کیا ہے؟
فرمانِ الٰہی ہے:
﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ﴾ (الأعراف: 23)
ترجمہ: ’’ اے ہمارے پروردگار! ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے‘‘۔
اور جیسے یونس علیہ السلام نے کہا:
﴿لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِيْنَ﴾ (الانبیاء: 87)
ترجمہ: ’’(یا اللہ!) تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو ہر عیب سے پاک ہے، بیشک میں قصور وار ہوں‘‘۔
لہٰذا اگر غلطی ہوجائے تو فوراً معافی مانگو، لیکن کبھی بھی اپنے آپ کو مجبور نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ اس وجہ سے ہوگیا۔ اور pressurize کیا گیا تھا یا نہیں، بلکہ انسان کو اس وقت بھی اپنے حواس قائم رکھنے چاہئیں۔ جیسے دنیا میں ہم کرتے ہیں، دنیا کے معاملے میں ہمارے حواس بالکل کام کررہے ہوتے ہیں، ہمیں لوگ pressurize بھی کرتے ہیں، لیکن پھر بھی ہم اپنا حق وصول کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں اور اس کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا یہاں بھی ہمیں خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک شخص ہے، اس کو اگر کہہ دو کہ بازار سے سودا لا دو تو وہ کہتا ہے کہ مجھے شرم آتی ہے۔ حضرت نے کہا یہ غلط بات ہے، اگر اس کو کوئی اچھی سی سواری پر بٹھا دیا جائے پھر بھی اس کو شرم آئے تو یہ واقعی شرمیلا آدمی ہے، لیکن اگر وہاں آرام سے بیٹھ جائے، مزے سے، ٹھاٹ سے تو پھر اس کا نفس موٹا ہے، اس وجہ سے یہ کررہا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس کے لیے بالکل صاف فرمایا ہے:
﴿بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰى نَفۡسِهٖ بَصِيۡرَةٌ وَّلَوۡ اَلۡقٰى مَعَاذِيۡرَهٗؕ﴾ (القیامہ: 14-15)
ترجمہ: ’’بلکہ انسان خود اپنے آپ سے اچھی طرح واقف ہوگا۔ چاہے وہ کتنے بہانے بنائے‘‘۔
یعنی وہ انسان سے خوب باخبر ہے، چاہے وہ جتنے بہانے بنائے، بہت معذرتیں کرے کہ یہ اس وجہ سے ہوا یا اس وجہ سے۔ اس لئے معذرتیں نہیں بنانی چاہئیں بلکہ اپنی غلطی کو ماننا چاہئے۔
سوال نمبر 9:
حضرت! یہ مدارس سے علماء فارغ ہوجاتے ہیں تو بعض قرآن پڑھاتے ہیں، بعض حدیث پڑھاتے ہیں اور بعض امامت کرتے ہیں، لیکن کئی اپنی معاش کے لیے نوکری وغیرہ کرتے ہیں اور تنخواہ بھیی لیتے ہیں۔ لیکن جب یہ گھر واپس جاتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے یہ علم حاصل کیا اور آپ نے یہ سیکھا ہے اور اب دنیا میں لگ گئے۔ اس کا کیا جواب دیں؟
جواب:
اگر کوئی شخص دین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے اور اللّٰہ جل شانہٗ پر سب کچھ چھوڑ دیتا ہے اور اس کو توکلِ مستحبہ بھی حاصل ہو تو یہ بہت مبارک ہے۔ لیکن اگر یہ حاصل نہ ہو تو خواہ مخواہ انسان اپنے آپ کو مجبور کرتا ہے اور وہ چیز اگر حاصل نہ ہو تو پھر اس کو پریشانیاں آئیں گی، پھر یہ ناقدری اور شکایت اور اس قسم کی باتیں کرے گا، یا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ دین کو بیچے گا اور اس سے پھر نقصان ہوگا۔ اس لئے اس سے پھر بہتر یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی سنت پر عمل کرلیں اور اپنا کام کرلے یا اپنے پاس دنیا کو کمانے کا کوئی ڈھنگ رکھ لے۔ جیسے تجارت ہے، کوئی ملازمت ہے، جو بھی ہو اور ساتھ ساتھ دین کا کام بھی جتنا انسان کرسکتا ہے وہ کرے، کیونکہ دین کا کام بھی ساتھ ساتھ ہوسکتا ہے۔ مثلاً شام کو جب وہ واپس آجاتا ہے تو (چونکہ عالم تو وہ ہوگا) کسی بھی مسجد میں بیٹھ کر فرضِ علم کا درس دینا شروع کرلے، اس کے لئے یہ تو ضروری نہیں ہے کہ بڑا مدرسہ ہو پھر میں درس دے سکتا ہوں، فلاں کتاب ہو تو پھر میں پڑھا سکتا ہوں، بلکہ یہ تو ایک حجاب ہے، کیونکہ دین کا کام انسان کسی بھی طریقے سے کرسکتا ہے۔ ھڈے ملا بہت بڑے بزرگ تھے، ان کے بارے میں ایک صاحبِ کشف کو پتا چل گیا کہ ان کا روحانی مقام بہت اونچا ہوگیا ہے۔ یہ حاجی صاحب ترنگزی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شیخ تھے۔ تو وہ وہاں تحقیق کرنے کے لیے پہنچ گئے کہ کون سا عمل کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا مقام اتنا اونچا ہوگیا ہے۔ جب ان کے ساتھ رہنا شروع کرلیا تو کوئی خاص بڑا کام ان کو محسوس نہیں ہوا کہ جس کی وجہ سے وہ کہہ سکیں کہ اس وجہ سے ان کو یہ مقام ملا ہے۔ معمولات بالکل وہی جو عام بزرگ، عام لوگوں کے ہوتے ہیں یعنی جو اللّٰہ والے ہوتےہیں، اس لئے آخر پوچھ ہی لیا کہ حضرت! آپ کیا کام کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا میرا یہی کام ہے جو آپ کے سامنے ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ کوئی خاص اس کے علاوہ معمولات ہوں تو بتائیں، انہوں نے کہا نہیں، کوئی نہیں ہیں، بس یہی معمولات ہیں تہجد کی نماز، اشراق کی نماز، چاشت کی نماز، قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ یعنی جیسے اچھے لوگوں کے معمولات ہوتے ہیں۔ البتہ اس کے ساتھ بچوں کو یہ قاعدہ پڑھاتے تھے ’’الف با تا یعنی نورانی قاعدہ‘‘ پڑھاتے تھے۔ لیکن اس کے اندر اتنا اخلاص تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو وہ مقام عطا فرما دیا۔ کیوں وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ چھوٹی کتاب پڑھانے میں اخلاص زیادہ ہوتا ہے اور بڑی کتاب پڑھانے میں آج کل اخلاص کم ہوجاتا ہے۔ البتہ اگر مجبور ہوجائے کہ لوگ آپ کے پیچھے پڑ جائیں کہ آپ کے علاوہ اور کوئی نہیں، آپ ضرور پڑھائیں گے، یہ ایک مجبوری ہے۔ جیسے مصلے کے اوپر کسی کو مجبور کیا جائے اور امام بنایا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔ البتہ جو خود امام بننا چاہے کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مدد نہیں ہوتی اور جن کو امام بنایا جاتا ہے، لوگ ان کو خود لاتے ہیں اور ان کے ساتھ اللّٰہ کی مدد ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک آدمی خود چھوٹی کتابوں کے لیے تیار ہے اور اس نے اپنا ذہن بنایا کہ میں نے چھوٹی کتابیں پڑھانی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی مسجد میں بیٹھ کر فرضِ عین درجے کا جو علم ہے وہ پڑھائے کیونکہ آج کل اس کی بڑی ضرورت ہے اور کوئی بھی عالم اس کو پڑھا سکتا ہے اور یہ بہت ضروری ہے جو آج کل نہیں ہو رہا۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ نہ ہو رہی ہو یعنی کوئی شخص اس کے لیے آگے نہ آرہا ہو تو اس کے لیے جو بھی شخص میدان میں آئے گا اور وہ کام کرے گا تو اللّٰہ تعالیٰ اس کو خصوصی توجہات کا مرکز بنا دے گا۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ ان کاموں میں سے ہے جس کی وجہ سے آدمی خصوصی توجہات کا مرکز بن سکتا ہے یعنی فرضِ عین درجے کا علم کسی مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو پڑھائیں۔ آج کل کتنے نوجوان آوارہ پھر رہے ہیں، ان کو ذرا پیار اور شفقت کے ساتھ قریب کرکے دین کی کچھ باتیں سکھانا کتنا بڑا کام ہے۔ اگر ایک وقت آدمی مقرر کرلے چاہے ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو لیکن آدمی کام تو کرسکتا ہے۔ مجھ سے ایک مرتبہ کسی نے کہا کہ آپ retire ہوجائیں گے تو کیا کریں گے؟ میں نے کہا میں کیا کروں گا، میں ان شاء اللّٰہ العزیز! قرآن پاک تو پڑھا سکتا ہوں، کسی بھی مسجد میں بیٹھ کر قرآن پاک پڑھانا شروع کردوں گا، یہ الحمد للّٰہ! میں کرسکتا ہوں۔ لہٰذا یہ کام ہمارے لئے ہر وقت موجود ہے، جو بھی قرآن پڑھنا جانتا ہے، قرآن کی تلاوت کرتا ہے، وہ قرآن پڑھا بھی سکتا ہے، اس لئے وہ بیٹھ کر قرآن پاک پڑھا لے گا اور جتنوں نے پڑھ لیا تو اس کی یہ کمائی ہے۔ مولانا حقانی صاحب کو پتا چل گیا کہ میں نے ایسا کہا ہے، آپ نے فرمایا کہ میرا مدرسہ کس لئے ہے؟ آپ میرے مدرسے میں آئیں اور جو کتاب آپ پڑھانا چاہیں گے ان شاء اللّٰہ! ہم آپ کو دیں گے۔ مقصد یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پیش کرلے، باقی اجر و ثواب اس پر نہیں ہے کہ آپ حدیث شریف پڑھائیں گے تو آپ کو اجر زیادہ ملے گا اور آپ نورانی قائدہ پڑھائیں گے تو آپ کو اجر کم ملے گا، بلکہ یہ تو آپ کو اخلاص پر ملے گا جس درجے کا اخلاص آپ کے دل میں ہوگا اتنا ثواب آپ کو ملے گا۔ آپ صرف لوگوں کی نمازیں درست کروانا شروع کرلیں، اس پر بہت کچھ آپ کو مل سکتا ہے۔ لوگوں کو وضو کرنے کا طریقہ سکھا دیں، بازار کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں انہیں مسائل کا علم نہیں ہے، معاملات کا نہیں پتا آپ ان کو بٹھا کر یہی چیزیں سکھا دیں، یہ بہت بڑا کام ہے۔ لہٰذا یہ میں اس لیے عرض کرتا ہوں کہ ان حضرات کی بھی خواہش بری نہیں ہے، بلکہ ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ آپ دین کا کام زیادہ کرلیں، لیکن لوگوں پر بوجھ بن کر دین کی محنت کرنا، اس سے بہتر ہے کہ لوگ خود اپنے لیے وسائل مہیا کرکے دین کا کام آزادی کے ساتھ کریں۔ ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ جب توکلِ مستحب نہیں ہوتا تو پھر مشکلات ہوتی ہیں اور مشکلات میں پھر مسائل ہوتے ہیں۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ایک مکتبہ میں 10 روپے تنخواہ تھی، حضرت نے حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو خط لکھا کہ حضرت! کیا میں نوکری چھوڑ دوں؟ اور آپ کے پاس آجاؤں؟ حضرت نے فرمایا نہیں بھائی! نوکری نہیں چھوڑنا، یہ اللّٰہ تعالیٰ نے دی ہوئی ہے اس کو نہ چھوڑنا بلکہ ساتھ ساتھ دین کا کام کرتے رہو۔ کچھ عرصے کے بعد آپ نے نوکری خود ہی چھوڑ دی اور اطلاع کردی کہ حضرت! میں نے نوکری چھوڑ دی ہے اور اب میں دین کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے مبارک باد دی کہ ماشاء اللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو قبول فرمایا ہے، بہت تسلی دی اور بہت حوصلہ افزائی فرمائی۔ حضرت کے مریدوں میں سے جن کو دونوں حالتوں کا پتا تھا، انہوں نے حضرت سے پوچھا کہ حضرت! پہلے آپ نے ان کو منع فرمایا لیکن جب خود انہوں نے وہ کام کرلیا تو آپ نے مبارک باد دی، اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: جب انہوں نے پوچھا تھا اس وقت ان کا توکل کچا تھا اور کچے توکل والے کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، اور بعد میں ان کا توکل پکا ہوگیا تو خود انہوں نوکری چھوڑ کر مجھے اطلاع کردی، جس پر میں نے ان کو مبارکباد دی کہ الحمد للّٰہ! آپ کو اللّٰہ تعالیٰ نے حال نصیب فرما دیا ہے۔ لہٰذا جب تک توکل کچا ہے اس وقت تک ہرگز آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے، بلکہ اسی میں اپنی عافیت سمجھنی چاہئے کہ کوئی بھی حلال روزی کا بندوبست اللّٰہ تعالیٰ کردے۔ جیسے مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ لیکن کتنا کام کردیا، سیّد مولوی حسین شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ t i p کے ڈاکٹر جنرل تھے، کتنا کام کردیا، اس طرح بہت سارے لوگ ہیں جو کہیں پر دکاندار ہیں، کہیں پر کس ڈیوٹی ہر ہیں۔ حافظ صغیر صاحب جو دکاندار ہیں لیکن کتنا کام کر رہے ہیں۔ اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑے مبارک لوگ ہیں، جو دین کا کام بھی کر رہے ہیں اور کسی پر بوجھ بھی نہیں بلکہ خدمت کررہے ہیں، مالی لحاظ سے بھی خدمت کررہے ہیں، جانی لحاظ سے بھی خدمت کررہے ہیں۔ مالی لحاظ سے حافظ صغیر صاحب بھی بہت خدمت کررہے ہیں۔ ’’فضائل اعمال‘‘ میں ’’فضائل درود شریف‘‘ اس سے کتاب کے صفحے بڑھ جاتے ہیں لیکن وہ اسی ریٹ پر (جو اس کا ریٹ ہوتا ہے) دیتے ہیں، نقصان برداشت کر لیتے ہیں اور کتنی ماشاء اللّٰہ! خدمت کر رہے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے حضرات ہیں جو دین کی خدمت کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ دنیا کا ایک معقول نظام بنایا ہوا ہے۔ مثلًا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، ان کی تو بہت مثالیں موجود ہیں کہ کس طریقے سے انہوں نے دونوں کام کیے، کاروبار میں بھی بہت آگے اور ساتھ ساتھ دین میں بھی بہت اونچا مقام حاصل تھا۔ ایسے ہی حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ یہ حضرات ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی تجارت بہت وسیع پیمانے پر تھی۔ ایک دفعہ ایک بڑا قافلہ اونٹوں کا آیا جس پر غلہ تھا اور اس وقت مدینہ منورہ میں قحط تھا، مدینہ منورہ کے سوداگر آئے اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ اس غلے کا سودا کرلیں، انہوں نے کہا کتنا نفع دو گے؟ کچھ لوگوں نے کہا کہ 30 فیصد دیں گے، انہوں نے کہا مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے، کسی نے کہا 50 فیصد دے دیں گے، فرمایا مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے، حتی کہ سو فیصد تک آگئے، پھر بھی حضرت نے فرمایا کہ مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے، اس طرح ہوتے ہوتے 300 فیصد تک معاملہ پہنچ گیا یعنی 30 سے 300 فیصد تک، لیکن حضرت نے فرمایا کہ مجھے اس سے زیادہ ملتا ہے۔ اس پر انہوں نے ہاتھ کھڑے کیے کہ حضرت ہماری بس ہے کیونکہ ہم نے بھی اس میں کمانا ہے، اس لئے ہم مجبور ہیں آپ جس کو بھی دینا چاہیں دے دیں۔ یہ حضرات جیسے چل پڑے تو حضرت نے اپنے خدام سے کہا کہ وہ جو مدینہ منورہ کے غرباء ہیں ان کو بلاؤ، جب غرباء آگئے تو ان کو مفت بانٹنا شروع کردیا، یہ دیکھ کر وہ تاجر پھر واپس آئے کہ حضرت! یہ کیا ہو رہا ہے آپ کہہ رہے تھے کہ مجھے 300 فیصد سے بھی زیادہ مل رہا ہے لیکن یہ تو آپ مفت دے رہے ہیں۔ فرمایا کہ آپ لوگ 300 فیصد تک دے رہے تھے جبکہ اللّٰہ تعالیٰ ہزار فیصد کم سے کم دیتا ہے، کیونکہ 10 گنا اجر وہ دیتا ہے اور یہ کم سے کم ہے۔ الحمد للّٰہ! انہوں نے 3 دفعہ جنت خریدی ہے، آپ ﷺ فرماتے کہ کوئی ہے جنت لینے والا؟ حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اٹھتے اور وہ کام کر جاتے، اس طرح 3 دفعہ جنت خریدی ہے اور یہ بڑی سعادت ہے۔ اب کیونکہ یہ کام کر رہے تھے تب ہی اللّٰہ تعالیٰ نے یہ نعمت نصیب فرمائی ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو باہمت ہونا چاہئے، اپنے دین کا کام بھی کرنا چاہئے اور جائز دنیا مباح طریقے سے کمانی چاہئے، اللّٰہ پاک اس پر بہت راضی ہوں گے۔
سوال نمبر 10:
حضرت کسی کو دنیا کی کوئی پریشانی ہو اور وہ کسی اللّٰہ والے سے اس پریشانی کا تذکرہ کرتا رہتا ہے، کیا اس میں بھی اس کی اصلاح کی صورت بن سکتی ہے؟
جواب:
بالکل بن سکتی ہے۔ کیونکہ بعض لوگوں کو اسی طرح لایا جاتا ہے کہ ان کے اوپر دنیا کی کوئی مشکل لائی جاتی ہے اور پھر وہ دنیا کی مشکل دور کرنے کے لیے اللّٰہ والوں کے پاس آتے ہیں اور اللّٰہ والوں کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ وہ کام کروا دیتے ہیں، یا اللّٰہ تعالیٰ ان کو اللہ والوں کی صحبت نصیب فرما دیتے ہیں اور اس کے ذریعے سے ان کا دل بن جاتا ہے، لہٰذا پھر وہ ادھر ہی کے ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ساتھ اس طرح کے کئی cases پیش آئے ہیں، یعنی وہ لوگ جو آئے تو دنیا کے لیے تھے، لیکن اللّٰہ پاک نے ان کو قبول فرمایا اور پھر وہ اسی line کے ہوگئے۔ اس لئے یہ چیز ممکن ہے یعنی ایسا ہوسکتا ہے۔ آج ہی ایک صاحب نے مجھ سے بات کی جب صبح ہم نماز کے لیے گئے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ کاروبار میں ترقی کے لیے کون سا وظیفہ کرنا چاہئے؟ میں نے کہا کہ آپ صرف دنیا کے لیے میرا وظیفہ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا صرف دنیا کے لیے، میں نے کہا آپ بڑے عجیب آدمی ہیں، کیونکہ قرآن پاک میں ہے کہ جو اللّٰہ تعالیٰ سے صرف دنیا مانگتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو اتنا ہی دیتے ہیں جتنا ان کا لکھا ہوتا ہے، صرف وہ دیتے ہیں اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ خَلَاقٍ﴾ (البقرہ: 200)
ترجمہ: ’’اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا‘‘۔
اور جو دنیا اور آخرت دونوں مانگتے ہیں تو اللّٰہ تعالیٰ ان کو دونوں دے دیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو عجیب بات ہے کہ آپ صرف ایک چیز مانگ رہے ہیں، دوسری نہیں، یہ سن کر ان کا دل بن گیا اور کہنے لگے ٹھیک ہے۔ میں نے کہا پھر میں آپ کو ایسا وظیفہ دیتا ہوں جس سے آپ کا اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہوجائے گا، پھر آپ اللّٰہ سے مانگیں گے تو اللّٰہ تعالیٰ آپ کا مسئلہ حل کر دے چاہے جس چیز سے بھی حل کرے، لیکن مسئلہ حل ہوجائے گا، میں نے کہا کیا خیال ہے، ٹھیک ہے؟ وہ کہنے لگے ٹھیک ہے، تو میں نے وہ وظیفہ دے دیا یعنی 300 بار والا اور 200 بار والا، انہوں نے یہ خوشی سے لے لیا۔ اور وہ بڑے خوش تھے، کہتے آپ سے آئندہ بھی ان شاء اللّٰہ! رابطہ رہے گا، میں نے کہا سبحان اللّٰہ! بڑی اچھی بات ہے۔ مقصد یہ ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی مشکل میں پھنس کر انسان آتا ہے۔ اور یہ ٹھیک ہے، اس پر اللّٰہ کا شکر کرنا چاہئے کہ کم از کم گمراہ لوگوں کے پاس تو نہیں گیا، یعنی جادو گروں کے پاس اور دوسرے لوگوں کے پاس نہیں گیا، بلکہ اللّٰہ پاک نے اس کو اس طرف بھیج دیا ہے، اس لئے یہ کوئی بری بات نہیں ہے اور خدمت بھی کرنی چاہئے۔ البتہ صرف اس کے لیے نہیں بیٹھنا چاہئے، ورنہ لوگ صرف اسی کے لیے آئیں گے اور آپ کا وقت بھی خراب کریں گے اور اپنا بھی کام خراب کریں گے۔ البتہ آپ تھوڑا سا اس میں کمیشن وصول کر لیا کریں اور وہ دین پر لانے والا کمیشن ہے یعنی آپ اس کو اس طرف لائیں۔
سوال نمبر 11:
حضرت! ہر انسان کے اندر اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی نہ کوئی صلاحیت رکھی ہوتی ہے اور شیخ کا کام یہ ہے کہ وہ اس صلاحیت کو explore کرے، کیا ایسا ہی ہے؟
جواب:
اس کو میں سوال نہیں کہوں گا بلکہ اس کو میں comment کہوں گا۔ کیونکہ اس سے تو اختلاف ہے ہی نہیں، اس لئے یہ آپ کا comment ہے اور ماشاءاللہ! بہت اچھا comments ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر صلاحیتیں رکھی ہوتی ہیں۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’اَلْاَئِمَّةُ مِنْ قُرَیْشِِ‘‘ (مسند ابی داؤد الطیالسی: 2247)
ترجمہ: ’’خلفاء قریش سے ہوں گے‘‘۔
یعنی جو بادشاہ ہوں گے وہ قریش میں سے ہوں گے یہ اس لئے فرمایا کہ ان میں اس چیز کی صلاحیت تھی۔ اسی طرح صلاحیتیں مختلف لوگوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ اگر ایک شخص کے اندر قرآن پاک کی خدمت کرنے کی صلاحیت ہے یعنی وہ اس کو یاد کرسکتا ہے اور پھر یاد کروا سکتا ہے اور اس سے متعلقہ جتنی خدمات ہیں وہ ادا کرسکتا ہے، اگر کسی میں یہ دریافت ہوجائیں تو شیخ اس کو کہہ دے کہ آپ اس line پر چلے جائیں۔ کسی میں جہاد کی صلاحیت ہے تو شیخ نے اس کی وہاں تشکیل کردی، کسی میں جماعت میں نکلنے کی صلاحیت ہے اور وہ دعوت و تبلیغ سے لوگوں کو متأثر کرسکتا ہے تو شیخ نے اس کو اس کام پر لگا دیا، کسی کے اندر یہ صلاحیت ہے کہ وہ معاشرے میں خیر کو نافذ کرسکتا ہے، ملکی قوانین کے بہتری کے لیے وہ کام کرسکتا ہے تو شیخ نے اس کی اس طرف تشکیل کردی، کیونکہ شیخ صاحبِ بصیرت ہوتا ہے اور وہ بصیرت سے دیکھ لیتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلۡ هٰذِهٖ سَبِيۡلِىۡۤ اَدۡعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ عَلٰى بَصِيۡرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ﴾ (یوسف: 108)
ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی‘‘۔
یعنی یہی مفہوم ہے کہ جس شخص کے اندر جس طریقے کی صلاحیت ہو، اسی طریقے سے اس کو بلایا جائے اور پھر جس کام کے لیے وہ مناسب ہو اس کام کے لیے اس کی تشکیل کی جائے، پھر ساتھ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ میرا بھی طریقہ ہے اور جو میری اتباع کرنے والے ہیں ان کا بھی یہ طریقہ ہے۔ اس لئے ہم سب کو اس طرح کرنا پڑے گا کہ جو لوگ جس field میں زیادہ بہتر چل سکتے ہیں ان کو اسی راہ پر چلایا جائے۔کیونکہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ صرف misfit ہونے کی وجہ سے یعنی جو کام وہ کر رہا ہے وہ اس کے مناسب نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ کام خراب ہو رہا ہے اور اس کا وقت بھی خراب ہو رہا ہے اور ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے کہ صرف misfit ہونے کی وجہ سے لوگوں کو بھی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ نقصان ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب اس کا فائدہ بھی نہیں تو اگر اس کو اچھا کردیا جائے تو کتنا فائدہ ہوگا، یعنی اگر اس کو صحیح line پر لگا دیا جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ اس لئے مشائخ تربیت کے ساتھ ساتھ تشکیل بھی کرتے تھے بشرطیکہ مشائخ پر بات چھوڑ دی جائے۔ اور اگر نہ چھوڑی جائے تو پھر شیخ ذمہ دار ہی نہیں ہے۔ جیسے بعض حضرات آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس چیز سے نہیں روکنا، ہم کہتے ہیں بالکل ٹھیک ہے، ہم آپ کو اس چیز سے نہیں روکیں گے، لیکن انہوں نے جتنا منع کیا ہے اتنی کمی ہوگئی، کیونکہ آپ نے اپنی تشکیل کے لیے ان کو آزاد نہیں چھوڑا اس لئے وہ ذمہ دار بھی نہیں ہیں۔ اور جس نے اپنا سب کچھ اپنے مشائخ پر چھوڑ دیا تو اللّٰہ تعالیٰ ان کے لیے پھر بہتر بندوبست فرما دیتے ہیں اور پھر اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔ جیسے جب ہم تبلیغی جماعت پر نکلتے تھے اور جماعت کسی جگہ چلی جاتی تھی تو وہاں مشورہ ہوتا تھا اور مشورے میں امیر صاحب مشورے کے آداب بتاتے تھے اور ان آداب میں یہ بھی بتاتے تھے کہ ہمیں ہر ایک کام کے لیے تیار ہونا چاہئے اور اپنے آپ کو پیش کرنا چاہئے، پھر جس کی جس طرف بھی تشکیل ہوجائے تو وہ وہی کام کرے گا، لیکن اس کو ثواب سب کا ملے گا کیونکہ اس نے سارے کاموں کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا ہے اور پھر جس کام کی ذمہ داری دی جائے تو وہ اسی کام کو اچھی طرح کرلے، باقی کاموں کی طرف توجہ نہ دے۔ اور ہم اسی تشکیل پر چلیں یہ ہمیں باقاعدہ سکھایا جاتا تھا اور اسی طرح شیخ پر بھی چھوڑنا چاہئے یعنی اگر شیخ ایسا ہے تو اس پر اسی طرح سارے کاموں کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو پیش کردو، اس کے بعد وہ جس طرف بھی تشکیل کردے، آپ کو سارے کاموں کا ثواب ملے گا۔ جب حضرت شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ کا آخری وقت تھا اور حضرت کو پیغام آیا کہ ’’سلٹ‘‘ میں (ایک مدرسے میں) کسی صاحب کی یعنی عالم کی ضرورت ہے۔ حضرت نے اپنے متعلقین میں سے لوگوں کو کہا کہ اس طرح ایک مدرسے میں جائیں لیکن کسی نے عذر کیا کہ حضرت! اس وقت میں آپ کو نہیں چھوڑ سکتا اور کسی نے کچھ کہا تو کسی نے کچھ کہا اور حضرت عذر مانتے رہے، مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ سفر میں تھے، حضرت نے ان کو پیغام بھیجا کہ ہاتھ جب ٹوٹ جاتا ہے تو اپنے گلے پڑ جاتا ہے، لہٰذا میں تمہیں کہتا ہوں کہ تم ’’سلٹ‘‘ جاؤ اور وہاں پر اپنی خدمات پیش کرو۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللّٰہ علیہ اگرچہ سفر میں تھے اور ان کو پتا بھی تھا کہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ کی حالت آج کل ٹھیک نہیں ہے، آج اور کل، آج اور کل والی بات ہے (یعنی موت قریب ہے) لیکن حضرت امتثالِ امر کرتے ہوئے وہیں سے واپس ہوگئے اور وہاں پہنچ گئے۔ اور پھر حضرت کو ادھر ہی اطلاع مل گئی کہ شیخ الہند رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب فوت ہوگئے ہیں لیکن آپ جنازہ میں بھی شریک نہیں ہوسکے۔ اب امتثالِ امر نے ان کو کیا بنایا ہوگا، کتنا کچھ دلوایا ہوگا۔ بس اس کو امتثالِ امر کہتے ہیں کہ انسان اپنا سب کچھ پیش کردے پھر اللّٰہ تعالیٰ اس کے لیے جو بھی خیر کی بات شیخ کے دل میں لے آئے بس وہ ٹھیک ہے اور وہ اس کے بعد اس پر عمل کرکے سب چیزوں کا ثواب حاصل کرے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ
۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔