سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 164

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت جی! آج میری فجر کی نماز قضا ہوگئی، جس کی بظاہر وجہ یہ ہوئی کہ میں کافی دیر سے سویا تھا اور تھکاوٹ بھی زیادہ تھی، میں نے تقریباً دس الارم لگائے تھے اور دوست سے بھی کہا تھا کہ فون کر کے اٹھا دینا، کیوں کہ آج کل میں فلاں جگہ پر ہوں اور اکیلا ہوں، اس لئے مجھے ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو کہ میری آنکھ ہی نہ کھلے۔ لیکن الارم اور دوست کی کال کے باوجود میری آنکھ نہیں کھلی، جب آنکھ کھلی، تو اشراق کا وقت تھا، میں نے اٹھ کر قضا بھی پڑھ لی اور دو رکعت صلوۃ التوبہ پڑھ کر اللہ تعالی سے معافی بھی مانگ لی۔

حضرت جی! اس نقصان کے ازالے اور آئندہ پوری زندگی اپنے نفس کو سبق سکھانے کے لئے مجھے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

ما شاء اللہ! یہ بہت فکر مندی والا خط ہے۔ اصل میں آج کل راتیں لمبی ہیں اور دن چھوٹے ہیں، لہٰذا بظاہر اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے کہ کم سونے کی وجہ سے کسی کی فجر کی نماز رہ جائے۔ لیکن دیر سے سونے کی عادت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جو ہماری واقعی مصروفیات ہیں، ان میں تو مجبوری ہے، لیکن بعض مصروفیات ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں چھوڑا جا سکتا ہے۔ لہٰذا کم از کم ایسی مصروفیات جن کی وجہ سے ڈر ہو کہ فجر کی قضا نہ ہوجائے، انہیں چھوڑا جائے، کیوں کہ فقہ کے قاعدہ کی رو سے جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہے، مثلاً: کوئی شخص دینی مطالعہ ہی کیوں نہ کر رہا ہو، تو وہ جلبِ منفعت ہے اور فجر کی نماز کے قضا ہونے سے پچنا یہ دفعِ مضرت ہے اور یہ فرض نماز ہے، اس وجہ سے اگر کسی کو ڈر ہو کہ اس کی وجہ سے میری فجر کی نماز رہ جائے، تو اسے پھر مطالعہ نہیں کرنا چاہئے اور رات کو جلدی سونا چاہئے۔ اس کے بجائے بہتر یہ ہے کہ رات کو جلدی سو جائے اور پھر جلدی اٹھ جائے، تہجد کی نماز پڑھے، مطالعہ کرے اور فجر کی نماز پڑھے، کیوں کہ تہجد کا وقت اتنہائی با برکت وقت ہوتا ہے اور انسان کی صلاحیتیں کافی جوبن پر ہوتی ہیں۔ لہٰذا کبھی بھی اپنے آپ کو رسک میں نہیں ڈالنا چاہئے۔

بہرحال! اگر اس قسم کی کوئی غلطی ہوئی ہے، تو پھر تین روزے رکھنے چاہئیں۔ یہ ہمارے ہاں کے قانون میں جرمانہ ہے اور جرمانہ وہ ہونا چاہئے جو نفس کو گراں ہو۔ پس مردوں کے لئے روزے رکھنا جرمانہ ہوسکتا ہے، عورتوں کے لئے یہ جرمانہ نہیں ہوسکتا، کیوں کہ عورتیں روزے آسانی کے ساتھ رکھ لیتی ہیں، ان کے لئے نماز پڑھنا مشکل ہوتا ہے، اس لئے ان کو ہم سو رکعات نوافل کا کہتے ہیں کہ سو رکعات نوافل پڑھو، لیکن مردوں کو روزے رکھنے کا کہتے ہیں۔

پس آپ سے فجر کی نماز اگر کسی غیر ضروری مصروفیت کی وجہ سے قضا ہوئی ہے، تو پھر تو اس کا علاج یہی تین روزے رکھنا ہے اور اگر کوئی ضروری مصروفیت تھی، تو ضروری مصروفیت میں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ نماز ضائع نہ ہو، یعنی کوئی انتظام ایسا کرنا چاہئے کہ اپنی مصروفیت کو آگے پیچھے کر کے نماز قضا ہونے کا رسک نہ لیا جائے۔

بہرحال! ابھی تو آپ نے اچھا کیا کہ قضا بھی پڑھ لی اور دو رکعات صلوۃ التوبہ بھی پڑھی، باقی جو روزوں کی بات ہے، تو ان شاء اللہ جب آپ اس کے بارے میں مزید تفصیل لکھیں گے، تو ان کا فیصلہ کیا جائے گا۔

سوال نمبر 2:

میں نے اپنے رشتے کے بارے میں استخارہ کیا، تو میں نے دیکھا کہ میں ایک مسجد میں بیٹھا ہوں اور آپ سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ وہاں ایک آدمی ہے، جس کا تعلق کسی دینی ادارے سے ہے، اس نے سفید پگڑی سر پر رکھی ہوئی ہے، وہ مجھے مسجد کے برتن وغیرہ دھونے کے لئے کہتا ہے، تو میں ثواب کا کام سمجھ کر برتن دھونا شروع کر دیتا ہوں۔ ہمارے ایک اور ساتھی کے بارے میں مجھے دیکھ کر کہتا ہے کہ اس شخص نے فلاں صاحب کو تربیت سے ہٹا کر خدمت کے کام پر لگا دیا۔ پھر میں مسجد میں بیٹھ جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں آپ بھی میرے ساتھ آ کر بیٹھ جاتے ہیں، میں آپ سے ہاتھ ملانے کے لیے ہاتھ آگے کرتا ہوں، لیکن آپ مجھ سے ہاتھ نہیں ملاتے اور فرماتے ہیں کہ تمہارے ہاتھ ٹھنڈے ہیں۔ اتنی دیر میں دوسرے لوگ آ کر آپ کے آس پاس بیٹھ جاتے ہیں اور کچھ لوگ آپ کے بازو اور ٹانگیں دبانے کا کہتے ہیں اور ساتھ ہی آپ بیان شروع کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد اگلے دن یعنی اتوار والے دن میں آپ کے بیان میں شامل ہونے کے لئے اپنی قریبی مسجد میں جاتا ہوں، عصر کا وقت ہوتا ہے، عصر کے بعد آپ کا بیان شروع ہونا ہوتا ہے، لیکن وہاں پر مجھے آپ نہیں ملتے، بلکہ کوئی اور شخص بیان کر رہا ہوتا ہے۔ پھر میں ایک مسجد میں جاتا ہوں، تو وہاں دینی تحریک کے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، کچھ سو رہے ہوتے ہیں، کچھ کسی اور کام میں مصروف ہوتے ہیں۔ میں وہاں آپ کو ڈھونڈتا ہوں، لیکن آپ مجھے وہاں نہیں ملتے۔ وہاں بھی بیان ہو رہا ہوتا ہے، لیکن وہ بیان آپ نہیں کر رہے ہوتے، بلکہ کوئی اور شخص بیان کر رہا ہوتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ آپ خانقاہ میں بیان فرما رہے ہوں گے۔ پھر میں آپ کو ڈھونڈنے کے لئے مسجد میں سے باہر جانے لگتا ہوں، تو مجھے اپنے ایک ساتھی مسجد کے دروازے پر ملتے ہیں۔ میں ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہوں۔ وہ مجھ سے کہتے ہیں کہ کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔ میں ان کے ساتھ بیٹھ جاتا ہوں۔ پھر اس دینی تحریک کے لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ نے پہلے اس علاقے میں کبھی ملنا جلنا کیا ہے؟ وہ مجھے لوگوں سے ملاقات کے لئے لے جانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں، میں نے پہلے اس علاقہ میں لوگوں سے ملاقات نہیں کی۔ اس کے بعد پھر میں وہاں سے اٹھ جاتا ہوں۔

جواب:

بہرحال لگتا یہ ہے کہ اس رشتے میں خیر نہیں ہے، لہٰذا اس سے بچنے کی کوشش کی جائے۔

سوال نمبر 3:

کبھی کبھی انسان کسی مصیبت کی وجہ سے اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ہر وقت یہی دعا کر رہا ہوتا ہے کہ مصیبت کسی طرح سے دفع ہوجائے۔ ایسی صورت میں اگر بندہ نماز بھی پڑھتا ہے، تو اس میں بھی اس مصیبت کے بارے میں سوچ رہا ہوتا ہے، جیسے کہ وہ ہر وقت اسی مصیبت کی وجہ سے اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے، نماز میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور نماز میں ایسا خشوع تو مطلوب نہیں ہے۔ یہ مصیبت بھی ایک قسم کی نعمت ہے کہ اس نے بندے کو اللّٰہ کی طرف متوجہ کر دیا، اس مصیبت کی وجہ سے اس کو اللّٰہ کی طرف توجہ حاصل ہوئی۔ پس انسان ایسا کیا کرے کہ باقی کاموں میں بھی انسان کو خشوع حاصل ہوجائے، مثلاً: نماز، تلاوت، ذکر وغیرہ۔ اور انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ یہ مصیبت بھی ٹل جائے، تو اس کے لیے کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

انسان دو حالتوں سے کسی وقت بھی خارج نہیں ہوتا۔ اور وہ یہ ہیں کہ انسان کے اوپر یا تو کوئی خوشگوار حالت آ چکی ہوگی یا کچھ نا خوشگوار حالت آ جائے گی۔ خوشگوار حالت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کا شکر کرے، اور ناخوشگوار حالت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان صبر کرے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لیے جو جائز ذرائع ہیں، ان کو استعمال کرے۔ اور ساتھ ساتھ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا بھی مانگے، البتہ نماز میں اس کی طرف توجہ مناسب نہیں ہے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہم کوئی اپنا مسئلہ حل کرنا چاہتے ہوں اور اس کے لیے ہم کمائی کرنا چاہتے ہوں اور کمائی کا کام ذہنی کام ہو، مسلسل اس میں انسان مصروف رہتا ہو، تو بے شک میں کمائی کسی بھی اچھی نیت کے لیے کر رہا ہوں گا، مثلاً: اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی نیت یا رفاعی کاموں کی نیت یا پھر اچھے نیک کاموں کی نیت۔ لیکن جس وقت میں کمائی کرنے کا وہ کام کروں گا، اس میں اگر میں ان چیزوں کو سوچوں گا، تو وہ کام نہیں ہوسکے گا، جس کی وجہ سے کمائی بھی نہیں ہوسکے گی لہٰذا مقصد بھی حل نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان تب ہی اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتا ہے کہ اس کو اس طریقے سے کرے جس طریقے سے کرنے کا حکم ہے، لہٰذا جس وقت انسان نماز کی نیت باندھے اور تکبیر تحریمہ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کہے، تو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کرے کہ میں نے ساری فکروں، غموں خواہشات اور اپنی سب مرضیات کو پیچھے ڈال دیا، اب میرا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پس دل کو ان تمام چیزوں سے خالی کرنے کا ارادہ کرے اور صرف اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوجائے۔ یہ اصل میں مطلوب ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿وَتَبَتَّلۡ اِلَيۡهِ تَبۡتِيۡلًا﴾ (المزمل: 8)

ترجمہ1: ’’اور سب سے الگ ہو کر پورے کے پورے اسی کے ہو رہو‘‘۔

پس نماز میں انسان کو باقی چیزوں سے کٹنا چاہئے۔ جیسے نماز میں دوسری جائز چیزیں جائز نہیں ہوتیں، مثلاً: اگر کوئی آ جائے اور سلام کر ے، تو اس کا جواب دینے پر ثواب ہے اور حکم بھی ہے، لیکن نماز میں نہیں۔ اسی طرح کوئی شخص راستہ گم کرچکا ہے اور اس کو آپ راستہ بتانا چاہتے ہیں، تو نماز میں نہیں بتا سکتے، اگر بتائیں گے تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ پس نماز میں انسان صرف اللّٰہ پاک کی طرف متوجہ ہو۔ جب ایسی مکمل نماز پڑھی جائے گی، تو اس کا اثر ہوگا اور اس اثر سے آپ اس کے بعد جو دعا کریں گے، اس دعا میں اس مقصد کو لے آئیں یعنی مصیبت کو دور کرنے والی چیز اس دعا میں پھر دل سے اللّٰہ پاک سے مانگیں، تو اللّٰہ پاک سبب بنانے والے ہیں۔ لہٰذا اس وقت اللہ سے اچھی طرح دعا کی جائے، مثلاً: ساتھ میں رویا بھی جائے، گڑگڑایا بھی جائے اور منت و زاری بھی کی جائے، اس وقت یہ سارا ہمارے فائدے کی کھاتے میں جاتا ہے، لیکن نماز میں نہیں، نماز میں صرف اللّٰہ پاک کی طرف متوجہ ہونا ہے، کسی دینی مسئلے کی طرف بھی متوجہ نہیں ہونا۔ جیسے مفتیان کرام سے لوگ سوال پوچھتے ہیں، تو اگر کوئی مفتی کہے کہ میں نماز میں جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کر لوں، تو وہ جائز نہیں ہوگا۔ اسی طریقے سے باقی جتنے بھی کام ہیں، وہ نماز میں جائز نہیں ہیں، نماز میں صرف نماز ہے۔ جیسے نماز کے ارکان میں بھی جو چیز جہاں پر مقرر ہے، اس کو دوسری جگہ ہم نہیں پڑھ سکتے، التحیات کو قیام میں نہیں پڑھ سکتے، حالانکہ نماز کا حصہ ہے، اسی طرح تسبیحات کو اپنی جگہ پہ پڑھنا ہوتا ہے، تلاوت اپنی جگہ پہ کرنی ہوتی ہے، التحیات میں تلاوت نہیں ہوسکتی۔ بلکہ فرض کی 4 رکعات والی نماز میں 2 رکعات کے بعد اگر آپ نے ’’اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمّدٍ‘‘ کہہ دیا، تو سجدہ سہو واجب ہوگیا، حالانکہ یہ نماز کا حصہ ہے، لیکن یہ جس جگہ آنا چاہئے تھا، وہاں پر نہیں ہے۔ جب ایسا ہے، تو باقی چیزیں جو غیرِ نماز ہیں، ان کو ہم کیسے نماز میں لا سکتے ہیں۔ لہٰذا غیرِ نماز کی چیزوں کو ہم نماز میں نہ لائیں، بلکہ جب نماز اچھی طرح پڑھ لیں، اللّٰہ جل شانہ ہمیں توفیق عطا فرمائیں۔ تو پھر اس کے بعد ہم اللّٰہ تعالیٰ سے پوری زاری کے ساتھ، منت کے ساتھ اچھی طرح مانگ لیں۔ بس یہ کام ہے، اس وجہ سے پھر مصائب واقعی اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کے لیے اللّٰہ جل شانہٗ مصائب ہی کو Turning point بنا دیتے ہیں۔ ایک Lady doctor تھیں، وہ بہت بیمار ہوگئی تھیں۔ جب ڈاکٹر بیمار ہوتا ہے، تو اس کے سامنے جب اپنی بے بسی آ جائے، تو وہ عجیب بے بسی ہوتی ہے، کیونکہ اس کے سامنے تو اپنا Medical knowledge بھی ہوتا ہے Medical career بھی ہوتا ہے، میڈیکل تعلقات بھی ہوتے ہیں، اگر وہ ساری چیزیں کام چھوڑ دیں، تو پھر انسان بالکل بے بس ہوجاتا ہے۔ اس وقت کسی نے ان کو کوئی دعا سکھائی اور وہ اس دعا کی برکت سے ٹھیک ہوگئیں۔ انہوں نے گویا کہ موت کو قریب سے دیکھ لیا، تو وہی ان کا Turning point ہوگیا، اس کے بعد وہ ہماری طرف متوجہ ہوگئیں اور بیعت ہوگئیں۔ پھر ما شاء اللّٰہ! اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بہت نوازا۔ پس بہت سارے لوگوں کے لیے مصائب خیر کا ذریعہ بن جاتے ہیں، اس وجہ سے یہ واقعی رحمت بن جاتے ہیں۔ مثلاً: وہی بات دیکھ لیں، جو قرآن پاک میں اللہ فرماتے ہیں:

﴿الَّذِیْنَ اِذَا اَصَابَتْھُمْ مُصِیْبَۃٌ قَالُوۡٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ ۝ اُولٰٓئِكَ عَلَيۡهِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّهِمۡ وَرَحۡمَةٌ‌ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُهۡتَدُوۡنَ﴾ (البقرہ: 156، 157)

ترجمہ: ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو یہ کہتے ہیں کہ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے پروردگار کی طرف سے خصوصی عنایتیں ہیں، اور رحمت ہے اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت پر ہیں‘‘۔

یعنی جب وہ لوگ اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ‘‘، تو اللّٰہ پاک فرماتے ہیں کہ یہی وہ لوگ ہیں، جو ہدایت پر ہیں اور جن کی طرف اللّٰہ کی خاص رحمت متوجہ ہے۔ پس تکالیف میں اللّٰہ جل شانہ کی طرف متوجہ ہو جانا یقیناً اللّٰہ تعالی کی بہت بڑی نعمت اور اللّٰہ تعالیٰ سے لینے کا ذریعہ ہے۔ ﴿وَاسۡتَعِيۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ ‌(البقرہ: 45)

ترجمہ: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘‘۔

اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ اس وجہ سے مصائب اور تکالیف میں اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے اور صلوٰۃ الحاجت پڑھے اور دعا کرے۔ اور قرآن میں جو آیاتِ شفا ہیں، ان کو پڑھے۔

بہرحال! بنیادی بات یہ ہے کہ نماز نماز ہے، نماز کے دوران کوئی دوسرا کام نہیں ہے، وہ صرف نماز ہی ہے۔

سوال نمبر 4:

مجاہدہ اور مشاہدہ میں کیا فرق ہے؟

جواب:

میں سوال پر حیران ہوں، کیونکہ ان کا آپس میں کوئی جوڑ ہی نہیں ہے، مجاہدہ بالکل الگ چیز ہے اور مشاہدہ بالکل الگ چیز ہے۔ بہرحال! میں بتا دیتا ہوں۔

مجاہدہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دین پر چلنے میں مشقت محسوس کرے، تو وہ مشقت مجاہدہ ہے، مثلاً: سردی میں وضو کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہے، تو وہ جو وضو کر رہا ہے، وہ مجاہدہ کر رہا ہے۔ اگر مسجد میں جانا کسی کے لیے مشکل ہے، تو اگر وہ مسجد میں جا رہا ہے، تو یہ مجاہدہ ہے۔ اگر غسل کرنا پڑگیا اور حالات normal نہیں ہیں، مثلاً: گرم پانی میسر نہیں ہے یا کوئی مشقت ہے، تو وہ مجاہدہ ہے۔ ایسے مجاہدات جن میں انسان کے اوپر ایسے حالات آتے ہیں، جن میں شریعت پر عمل کرنے میں مشقت بڑھ جاتی ہے، تو وہ شرعی مجاہدات ہیں۔ اور شرعی مجاہدات تو کرنے ہی پڑتے ہیں، البتہ جب ہم لوگ شرعی مجاہدہ کسی بھی عمل کے لیے مسلسل کرتے رہتے ہیں، تو وہ مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا۔ کسی نے شعر بھی کہا ہے کہ اتنے مصائب ہمارے اوپر ٹوٹ پڑے کہ وہ آسان ہوجائے۔ پس مجاہدہ ہمیشہ مجاہدہ نہیں رہتا، بلکہ جب اس مجاہدہ کو انسان کر رہا ہوتا ہے، تو اس کی مجاہدیت اس کے اندر کم ہو رہی ہوتی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ انسان اس کے ساتھ عادی ہو رہا ہوتا ہے، جیسے ہم لوگ جب گاؤں چلے جاتے ہیں، تو گاؤں میں نہانا اور وضو کرنا ہمارے لئے اچھا خاصا مشکل ہوتا ہے، لیکن وہاں کے لوگ اس کے ساتھ عادی ہوتے ہیں، ان کے لیے مجاہدہ نہیں ہے، وہ بالکل عام طریقے سے اس کو کرتے ہیں۔ بلکہ پہلے دور میں رفعِ حاجت کے لیے گاؤں کے لوگ باہر کھیتوں میں جاتے تھے، اب بھی شاید بعض جگہوں پہ جاتے ہوں گے۔ اگر وہاں شہر کا کوئی آدمی چلا جائے، تو اس کے لیے بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ پس یہ چیزیں ہر ایک کے لیے مجاہدہ نہیں ہوتیں اور ہر وقت مجاہدہ نہیں ہوتیں، لیکن جس وقت بھی مشقت ہے، تو اس وقت مجاہدہ ہے۔ جو مجاہدہ شریعت کے لیے ہے، وہ شرعی مجاہدہ ہے۔ پس ایک تو مسلسل مجاہدہ کرنے سے مجاہدیت کم ہوجاتی ہے اور دوسرا ریاضت کرنے سے مجاہدیت کم ہوجاتی ہے۔ ریاضت وہ چیز ہے، جو شرعاً مطلوب نہیں ہے، لیکن اگر آپ شرعی کاموں کے لیے کچھ اضافی کوشش کر رہے ہیں، جس سے آپ کے لیے شرعی مجاہدہ آسان ہوجائے، تو اس کو ریاضت کہتے ہیں، مثلاً: فجر کی نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہے، تو اگر آپ روزانہ اس سے بھی 2 گھنٹے پہلے اٹھا کریں، تو یہ مجاہدہ مطلوب نہیں ہے، لیکن اس نے آپ کی فجر کی نماز کو آسان کردیا، پس اس کو ریاضت کہتے ہیں۔ اسی طرح روزہ رکھنا مجاہدہ ہے، لیکن اگر کوئی شخص کم کھائے اور اس طرح ریاضت کرے، تو اس کے لیے یہ مجاہدہ کم ہوجائے گا۔ اس طریقے سے جو ریاضتیں ہیں، جن میں 4 چیزیں ہیں: کم کھانا، کم سونا، لوگوں کے ساتھ کم ملنا جلنا اور کم بولنا۔ تو یہ ریاضتیں حسبِ ضرورت مشائخ ان کو کراتے ہیں جن کو ان سے فائدہ ہو۔ اور یقیناً اس کا فیصلہ شیخ ہی کرے گا کہ کس کے لیے یہ مفید ہیں اور کس کے لیے مفید نہیں ہیں۔ ہمارے مردان میں ایک بزرگ گزرے ہیں، ڈگر گنج میں تھے۔ میں ایک دفعہ ان کے درس میں بیٹھا تھا، درس مولانا صاحب ان کو کہتے تھے۔ وہ فرما رہے تھے کہ جب میں اپنے شیخ کے ہاں تھا، تو شیخ باقی لوگوں کو خشک روٹی دیتے تھے اور مجھے پراٹھا کھلاتے تھے۔ میں نے کہا کہ حضرت! اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ باقی لوگوں کو خشک روٹی دیتے ہیں اور مجھے پراٹھا کھلاتے ہیں؟ تو فرمایا کہ تم عالم ہو، تمہیں بیان کرنا ہوتا ہے، تمہارے لیے یہی بات کافی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جو مجاہدہ جس کے لیے جتنا ضرورت ہو، اس کے مطابق مشائخ مجاہدہ کراتے ہیں، ہر ایک کے لیے ایک چیز نہیں سوچی جاتی۔ جیسے Medical line میں ہر ایک کو ایک جیسی دوائی نہیں دی جاتی، عین ممکن ہے کہ ایک ہی مرض ہو، لیکن دوائی ہر ایک کے لیے مختلف ہو، کیونکہ ہر ایک کی Physics مختلف ہے، حالات مختلف ہیں۔ ممکن ہے کسی کو penicillin سے الرجی ہو، تو کیا اس کو penicillin کا انجکشن دیا جائے گا؟ ممکن ہے کہ کسی کے اوپر نشہ زیادہ اثر کرتا ہو، تو oxidation والی چیزیں اس کو نہیں دی جائیں گی۔ مطلب یہ ہے کہ یہ ہر شخص کے اوپر منحصر ہے اور حالات پر منحصر ہے، لہٰذا یہ فیصلہ ڈاکٹر کرتا ہے کہ کس کو کیا دینا چاہئے اور کس کو کیا نہیں دینا چاہئے۔ اسی طرح اس مسئلے میں شیخ فیصلہ کرتا ہے کہ کس کو کیا بتانا چاہئے اور کس کو کیا بتانا چاہئے۔ بہت سارے لوگ اس میں پریشان ہوجاتے ہیں کہ فلاں سے یہ بات کر رہے ہیں، فلاں سے یہ بات کر رہے ہیں اور میرے ساتھ یہ باتیں اس طرح نہیں کی۔ پس ہر ایک کے لیے ایک طریقہ نہیں ہوتا۔ بہرحال! یہ تو مجاہدہ کی بات ہوگئی۔ اگر مجاہدہ اور ریاضت میں فرق پوچھا جاتا کہ مجاہدہ اور ریاضت میں کیا فرق ہے، تو پھر بات صحیح تھی۔

جہاں تک مشاہدہ کی بات ہے، تو مشاہدہ قیامت میں تو سب کو ہوگا، سب کو پتا چل جائے گا کہ کس کی حیققت کیا ہے، تو یہ مشاہدہ ہوگا، لیکن اس دنیا میں بھی بعض لوگوں کو بعض چیزوں کی برکات نظر آ جاتی ہیں، ان پہ ان کی حقیقت کھل جاتی ہے، تو وہ مشاہدہ ہوتا ہے۔ جیسے نماز کی حقیقت کسی کے اوپر کھل گئی، روزے کی حقیقت کسی کے اوپر کھل گئی، حج کی حقیقت کسی کے اوپر کھل گئی، ذکر کی حقیقت کسی کے اوپر کھل گئی۔ ایک دفعہ ہمارے ایک بڑے میاں تھے، 80 سال کے لگ بھگ ان کی عمر تھی، ان کو میں نے ذکر قلبی دیا تھا، تاکہ وہ اس کے لیے compatible ہو، کیونکہ اس عمر میں شاید ذکر بالجہر ان کے لیے مشکل تھا۔ میں نے ان کو دیا، 3 مہینے کے بعد ان سے میری تخلیے میں ملاقات ہوئی، تو پہلی بات اس نے کہی کہ شاہ صاحب! میں کسی اور کو تو convince نہیں کرسکتا، لیکن خود مان گیا ہوں کہ ذکر میں کتنی قوت ہے۔ پس یہ مشاہدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے میرا مطالعہ نہیں چھوٹتا تھا، وہ جس group سے تعلق رکھتے تھے، اس میں مطالعہ بہت ہوتا ہے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ اب میں کہتا ہوں کہ تنہائی ہو اور یاد الٰہی ہو۔ اب مطالعے کی فکر نہیں ہے، اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی فکر ہے۔ اور پھر سر پہ ہاتھ رکھا اور کہنے لگے کہ پہلے میں ادھر تھا، اور پھر دل پہ ہاتھ رکھ کے کہا کہ اب میں ادھر آ گیا ہوں۔ یہ سب مشاہدات ہیں۔ یعنی اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے وہ چیز دکھا دی۔ اسی طریقے سے اللّٰہ تعالیٰ ذکر کی برکات دکھا دیتے ہیں اور صحبت کی برکات دکھا دیتے ہیں۔ جیسے اکثر ہمارے بہت سارے ساتھی کہتے ہیں کہ ہم جب خانقاہ آتے ہیں، تو جو فائدہ ہمیں ہوتا ہے، اگر ہم ایک دفعہ بھی نہ آئیں اور قضا کر لیں، تو اس کا اثر ہمیں محسوس ہوجاتا ہے کہ کچھ کمی ہوگئی، پس یہ مشاہدہ ہے۔ یعنی پتا چل گیا کہ اس میں کیا ملتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کو کوئی ناپ تو نہیں سکتا، لیکن محسوس کرسکتا ہے۔ مثال کے طور پر میں باہر جا رہا ہوں، باہر پتے تو نہ ہل رہے ہوں، لیکن مجھے ہوا محسوس ہو رہی ہو، تو کہتے ہیں کہ ہوا چل رہی ہے، اسی طریقے سے انسان کو بعض چیزیں محسوس ہوجاتی ہیں۔ مشاہدات کسی کو زیادہ ہوتے ہیں اور کسی کو کم ہوتے ہیں، یہ اللّٰہ جل شانہٗ کا کام ہے کہ کس کو کتنے مشاہدات کرائیں، ایسی چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی مرضی سے ہوتی ہیں۔

سوال نمبر 5:

کیا روح لا مکانی ہے؟ اگر روح لا مکانی ہے، تو کیا ہمارے جسم میں رہتے ہوئے حضرت محمد ﷺ کی مجلس میں حاضری دے سکتی ہے؟

جواب:

میرے خیال میں کسی نے اپنی حالت سے زیادہ بڑھ کے سوال کیا ہے، کیونکہ اگر اس کو اس کا پتا ہوتا، تو پھر وہ یہ سوال نہ کرتا۔ میں اس سوال کے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ روح کا معاملہ بہت نازک ہے، اللّٰہ پاک نے بھی اس کے بارے میں زیادہ تفصیل نہیں بتائی ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿وَيَسۡــئَلُوۡنَكَ عَنِ الرُّوۡحِ‌﴾ (الاسراء: 85)

ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر!) یہ لوگ تم سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں‘‘۔

﴿قُلِ الرُّوۡحُ مِنۡ اَمۡرِ رَبِّىۡ﴾ (الاسراء: 85)

ترجمہ: ’’کہہ دو کہ: روح میرے پروردگار کے حکم سے (بنی) ہے‘‘۔

بس یہ ایک مختصر سی بات اللّٰہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اللّٰہ پاک نے خود فرمایا ہے کہ تمہیں روح کے بارے میں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:

﴿وَمَاۤ اُوۡتِيۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِيۡلًا﴾ (الاسراء: 85)

ترجمہ: ’’اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے، وہ بس تھوڑا ہی سا علم ہے‘‘۔

اب قلیل علم کے ذریعے ہم اپنی طرف سے کیا باتیں بنائیں گے۔ ہاں! اتنی بات ہے کہ جب اللّٰہ پاک کو قادر مانتے ہو، تو اللّٰہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کوئی کام بھی کرسکتے ہیں، لہٰذا یہ چیزیں ممکن ہیں اور صوفیاء کے ساتھ ہوتی بھی ہیں۔ حضرت امام رفاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مشہور واقعہ ہے کہ وہ آپ ﷺ کے درِ اقدس پہ حاضر ہوئے اور سلام کے وقت ایک شعر پڑھا، شعر کے الفاظ تو مجھے یاد نہیں آ رہے، البتہ مفہوم بتا دیتا ہوں۔ مفہوم یہ ہے کہ یا رسول اللّٰہ! جب ہم دور تھے، تو اپنی روح کو بھیچ کر سلام کیا کرتے تھے اور آج ہم جسم کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں، لہٰذا مہربانی فرما کر اپنا ہاتھ مبارک نکال لیجئے، تاکہ ہم اس کو بوسہ دے کے آج اپنے دل کو ٹھنڈا کر سکیں۔ اس مفہوم کے اشعار پڑھے، کہتے ہیں کہ اس وقت تقریباً 60 ہزار کا مجمع تھا، آپ ﷺ کی قبر مبارک سے آپ ﷺ کا ہاتھ نکلا، جو بہت چمک رہا تھا اور وہ آپ ﷺ کا ہاتھ امام رفاعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس آ گیا اور انہوں نے اس کو بوسہ دیا، پھر وہ واپس اپنی جگہ پہ چلا گیا۔ یہ چونکہ ان کی بہت اونچی حالت تھی، جو اللّٰہ تعالیٰ نے کھولی۔ اور ایسے لوگ اپنی بہت حفاظت کرتے ہیں، کوئی اور ہوتا، تو بڑے فخر کے ساتھ پتا نہیں کیا کیا بات کرتا، لیکن یہ تو چوںکہ اللّٰہ والے تھے، ان کو اپنی فکر ہوئی، تو مسجد نبوی کے gate کے سامنے لیٹ گئے اور سب کو کہا کہ جو بھی مسجد نبوی سے باہر آتا ہے یا اندر جاتا ہے، تو وہ میرے اوپر سے گزرے۔ اس وقت جو لوگ موجود تھے، ان میں سے کسی سے کسی نے پوچھا کہ حضرت! آپ بھی پھلانگ کے گئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو پھلانگ کے گئے تھے، وہ اندھے تھے۔ ان کی تو یہ حالت تھی کہ اس وقت فرشتے بھی ان پر رشک کر رہے تھے، ہم کیسے یہ جرات کرسکتے تھے کہ ان کو پھلانگ کے جاتے۔

بہرحال! یہ ناممکن نہیں ہے۔ اگر آپ ایسی کوئی روایت کتابوں میں پڑھ لیں، تو اس کا انکار نہ کریں اور تفصیلات میں بھی جاننے کی جانے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ اس کے بارے میں جو علم دیا گیا ہے، وہ بہت قلیل علم ہے، اس قلیل علم کے ساتھ آپ کیا باتیں بنائیں گے۔ ویسے نیند کے بارے میں تو بتایا گیا ہے کہ نیند کی حالت میں اللّٰہ تعالیٰ اس روح کو اٹھا لیتے ہیں اور پھر واپس کردیتے ہیں، اس وجہ سے کچھ تفصیلات تو ہیں، لیکن بہت ساری تفصیلات نہیں ہیں۔

جیسے: الٓم وغیرہ حروفِ مقطعات قرآن کے الفاظ ہیں، لیکن ان کا علم ہمیں نہیں دیا گیا، یہ اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کے درمیان راز ہے، لہٰذا ہم اگر اندازہ لگا بھی لیں، تو اس کو یقین کا درجہ ہم نہیں دے سکتے، وہ صرف اندازہ ہوگا۔ بعض حضرات نے اندازے لگائے بھی ہیں، ہم ان کو غلط نہیں کہیں گے، ہم کہیں گے کہ ٹھیک ہے یہ ان کا اندازہ ہے اور اندازہ کوئی بھی لگا سکتا ہے۔ میں آنکھوں سے دیکھ کر یہ کہہ سکتا ہوں کہ فلاں جگہ اتنی دور ہے، لیکن وہ ایک اندازہ ہوگا، جو غلط بھی ہوسکتا ہے اور صحیح بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی نے اندازہ لگایا ہے، تو ٹھیک ہے، لیکن ہم اس کو یقینی علم نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اس کا علم اللّٰہ پاک نے کسی کو نہیں دیا۔ اسی طرح روح کے بارے میں چونکہ فرمایا گیا ہے کہ تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے، لہٰذا تھوڑا علم تھوڑا ہی ہوتا ہے، اس وجہ سے اس کے بارے میں ہم تفصیلات میں نہیں جاسکتے، البتہ اللّٰہ تعالیٰ کے قادر ہونے کا علم ہمیں یقینی ہے، لہٰذا اللّٰہ پاک اپنی قدرت سے جو چاہے کر لے۔ اس لئے اگر ہم اپنی روایات کی کتابوں میں پڑھیں کہ فلاں بزرگ اس طرح کرتے تھے، تو ہم انکار نہیں کریں گے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ تو قادر ہے۔ میں اکثر عرض کرتا رہتا ہوں کہ لوگ انسان کی طرف دیکھتے ہیں، اس وجہ سے پریشان اور گمراہ ہوجاتے ہیں، جن کی نظر اللّٰہ پہ ہوتی ہے، وہ گمراہ نہیں ہوتے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ تو سب کچھ کرسکتا ہے، اللّٰہ کے لیے تو کوئی چیز مشکل نہیں ہے۔ لہٰذا اگر اللّٰہ تعالیٰ نے کسی کو ایسی طاقت عطا فرمائی یا اللّٰہ کا ارادہ کسی کے متعلق ایسا ہوا، تو یہ کوئی مشکل نہیں ہے، ایسی چیزیں ہوسکتی ہیں۔ آخر! حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو اللّٰہ پاک نے ہی تو قوت عطا فرمائی کہ ممبر پہ کھڑے کھڑے فرما رہے تھے: ’’یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ، یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ، یَا سَارِیَۃُ الْجَبَلَ‘‘۔ کیا کوئی آدمی اتنی دور سے ایسی بات کہہ سکتا ہے؟ اور اس وقت دور بینیں بھی نہیں تھیں، بس اللّٰہ پاک نے درمیان سے پردے ہٹا دئیے اور ان کو سارا نظام دکھا دیا، تو instruction بھی ہوگیا اور پھر اللّٰہ پاک نے وہ بات ادھر پہنچا بھی دی کہ ساریہ نے واقعی وہ آواز سنی۔ انہوں نے بعد میں کہا کہ مجھے آواز آ گئی تھی اور میں نے پیچھے دیکھا، تو پیچھے سے دشمن حملہ کر رہا تھا۔ اب ظاہر ہے کہ اللّٰہ پاک نے ان کے لیے ایسا نظم بنا دیا۔ لہٰذا جب اللّٰہ چاہے، تو کچھ بھی کرسکتا ہے۔ لیکن اگر ہم انسان پر نظر کر لیں، تو وہ غلط ہے۔ دیکھیں! آپ ﷺ ایک وقت میں کتنے دور دور کی خبریں دے رہے ہیں اور کتنے بعد کی خبریں دے رہے ہیں کہ جنگِ احزاب میں پلک مار رہے ہیں، تو وہاں سے چنگاریاں اٹھتی ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ ان میں فلاں جگہ مجھے دکھا دی گئی ہے، یہاں پر میری امت پہنچ جائے گی۔ منافق لوگ ہنس رہے تھے کہ پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے ہیں اور باتیں ایسی کر رہے ہیں۔ کیوں کہ منافقوں کو ایمان حاصل نہیں تھا اور جو ایمان والے تھے، وہ مطمئن تھے کہ ایسا ہی ہوگا۔ اور بعد میں اللّٰہ پاک نے ویسا کر بھی دیا۔ لیکن اللہ پاک نے جس وقت چھپانا تھا اور کسی چیز کا علم نہیں دینا تھا، تو بدر کے واقعے میں ابوسفیان کو جنگوں کے بارے میں اپنے علم کی وجہ سے پتا چل گیا کہ مسلمان یہاں پر آئے ہیں اور مسلمانوں کو پتا نہیں چلا۔ قرآن میں اس کے بارے میں ہے کہ اللّٰہ پاک کو منظور تھا کہ مڈ بھیڑ ہونی ہے، لہٰذا اللّٰہ پاک نے اس کا انتظام کردیا۔ یعقوب علیہ السلام کو اتنا تو پتا چلتا ہے کہ اتنے دور سے قمیص کی خوشبو سونگھ رہے ہیں اور محسوس کر رہے ہیں، لیکن پاس ہی کنعان میں یوسف علیہ السلام ہیں، اس وقت ان کے بارے میں علم نہیں ہوا۔ پس اس قسم کی کوئی بات اگر اللّٰہ پاک کسی کو پہنچانا چاہیں یا اللّٰہ تعالیٰ درمیان سے حجابات کو دور کرنا چاہیں، تو یہ ساری چیزیں ممکن ہے، اس لئے دوسروں پہ اعتراض نہیں کریں گے، لیکن اس کی گہرائی میں بھی نہیں جائیں گے اور نہ اس کے بارے میں سوالات کریں گے۔ ایک دفعہ حضرت امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کے سے ﴿اَلرَّحۡمٰنُ عَلَى الۡعَرۡشِ اسۡتَوٰى﴾ (طہ: 5) میں استواء کے بارے میں پوچھا گیا کہ یہ کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے 3 حصوں میں جواب دیا، فرمایا: ’’اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ‘‘ یعنی استواء کا تو پتا ہے، ’’وَالْکَیْفُ مَجْھُوْلٌ‘‘ اور کیفیت کا پتا نہیں ہے کہ وہ کیسے ہے، ’’وَالسُّؤَالُ عَنْھَا بِدْعَةٌ‘‘ اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔ پس ہم لوگ اگر اپنی حیثیت کے مطابق رہیں، تو اس میں ہی اچھائی ہے۔ اللّٰہ جل شانہ ہمیں اپنی صفات کے اوپر یقین نصیب فرمائیں۔ اور ساتھ ساتھ جس طرح اللّٰہ پاک سے لینا ہوتا ہے، وہ طریقہ بھی ہمیں نصیب فرمائیں اور اللّٰہ پاک کے ساتھ اتنا تعلق ہو کہ ہر وقت ہم اللّٰہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی طرف رجوع کرسکیں اور اللّٰہ پاک کی رحمت کی نظر کو اپنی طرف کرسکیں۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرمائے۔

سوال نمبر 6:

کیفیت مقام ہی ہوتی ہے یا اس میں یہ ہوتا ہے کہ ضائع بھی ہوجاتی ہے؟

جواب:

کیفیت تو ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ ایک ہوتا ہے؛ حال اور ایک ہوتا ہے؛ مقام۔ حال تبدیل ہوتا ہے اور مقام ایک مستقل چیز ہوتی ہے، کیونکہ مقام میں وہ چیز طبیعت میں رچ بس جاتی ہے اور انسان کی طبیعت بن جاتی ہے۔ مثلاً: ایک شخص ہے، جس کو نماز کے خشوع کے ساتھ مقام حاصل ہوگیا، تو اب وہ جب بھی نماز پڑھے گا، خشوع کے ساتھ پڑھ رہا ہوگا، کیوں کہ اس کو مقام حاصل ہوگیا۔ لیکن جو حال ہوتا ہے، وہ کبھی ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آج تو آپ کو دعا میں بہت رونا آ رہا ہے، آنسو گر رہے ہیں اور طبیعت پہ بہت اثر غالب ہے اور کل کچھ بھی نہیں ہے، آپ کہیں گے کہ وہ چیز کدھر گئی، بلکہ عین ممکن ہے کہ 5 منٹ کے بعد کچھ بھی نہ رہے۔ لہٰذا احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ ہاں! البتہ ایک چیز ہے کہ حال 2 معنی میں استعمال ہوتا ہے، اس میں بعض دفعہ غلطی ہوجاتی ہے۔ حال ایک تو کیفیت کے معنی میں آتا ہے، جو تبدیل ہونے والی چیز ہے، اس کو ہم غلبۂ حال کہتے ہیں کہ کسی کے اوپر کوئی حال غالب ہوگیا اور اس کے مطابق وہ کام ہوگیا۔ کبھی رو رہا ہے، کبھی ہنس رہا ہے، کبھی بڑے مزے میں ہے اور کبھی بڑا depressed ہے، لہٰذا یہ احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ اور حال کا ایک معنی ہوتا ہے؛ اعمال کے اندر جان، مثلاً: ایک ہوتا ہے کہ میں عمل سرسری طور پر بجھا بجھا کر رہا ہوں اور ایک یہ ہے کہ میں عمل دل سے کر رہا ہوں، دل سے اس پر مطمئن ہوں۔ میں دل سے ایک عمل کر رہا ہوں، اس معنی میں بھی حال کا لفظ استعمال ہوتا ہے، یعنی رسوخ کے معنی میں۔ پس جس شخص کو یہ حال حاصل ہو، تو وہ بہت مبارک ہے۔ اور پہلے والا حال تو سیڑھیاں ہے، ان سیڑھیوں کے ذریعے سے انسان مقامات تک پہنچتا ہے۔

سوال نمبر 7:

کیا کیفیتِ احسان نماز کے اندر خشوع کو کہتے ہیں؟

جواب:

اصل میں کیفیتِ احسان تو ہم نے نام دیا ہے، حدیث شریف میں تو اتنا ہے: ’’مَا الْاِحْسَانُ‘‘ احسان کیا چیز ہے؟ اس کے بارے میں فرمایا: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’(احسان یہ ہے) کہ تو اللہ کی عبادت کر گویا کہ تو اس کو دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا، تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

پس اگر یہ چیز کیفیت کے درجے میں ہے کہ کبھی ہے اور کبھی نہیں ہے، تو اس کو آپ حال کہہ دیں گے اور اگر آپ کو اس میں رسوخ حاصل ہوگیا، تو پھر یہ مقام ہے۔ اور وہاں مطلوب مقام کی ہی صورت ہے، لیکن اگر گاہے گاہے حاصل ہوتا ہے، تو یہ بھی بہت مبارک ہے، کیوں کہ یہ سیڑھی ہے، ان شاء اللّٰہ آہستہ آہستہ مقام حاصل ہوجائے گا۔ میں نے ایک دفعہ اپنے شیخ سے عرض کیا کہ حضرت! میرا اس اس طرح معاملہ ہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ یہ احوال ہیں اور احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں، ان شاء اللّٰہ کسی مناسب حال پر ٹھہراؤ آجائے گا۔ اس ٹھہراؤ کو پھر تمکین کہتے ہیں۔ اصل میں تو تمکین مطلوب ہے کہ وہ چیز آپ کو مستقلاً حاصل ہو، یعنی جو محمود حال ہے اس کے اوپر آپ کو مستقلاً ٹھہراؤ آجائے۔ جیسے مثال کے طور پر ایک تو ہم تقریر کرتے ہیں اور ایک یہ کہ بچہ تقریر کرتا ہے۔ بچہ کسی وقت بہت اچھا بولتا ہے اور کسی وقت کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔ یہ اس کا حال کا درجہ ہے، ابھی وہ پختہ نہیں ہے۔ یا جو غیر پختہ قاری ہوتا ہے، وہ کبھی بہت اچھی تلاوت کر لے گا اور کبھی بالکل نہیں کرسکے گا، لیکن جو صحیح قاری ہوتا ہے، جس کو پورا کنٹرول ہوتا ہے، وہ ایک ایک چیز کی رعایت رکھنے پہ قادر ہوتا ہے، حتی کہ اگر اس کو زکام ہے، تو وہ زکام کے ساتھ بھی اچھی تلاوت کرنے پر قادر ہوتا ہے، اگر اس کو کھانسی ہے، تو کھانسی کے ساتھ بھی تلاوت کرنے پر قادر ہوتا ہے۔ اس کو پھر طریقے آتے ہیں، اس کو پتا ہوتا ہے کہ اس وقت کیا کرنا ہے اور اس وقت کیا کرنا ہے، وہ ساری چیزوں سے گزرچکا ہوتا ہے، لہٰذا وہ قادر ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے ما شاء اللہ! وہ حسبِ حال اچھی تلاوت کر لیتا ہے۔ اسی طریقے سے جس بھی کسی کیفیت میں انسان کو تمکین حاصل ہوجائے، تو یہ بہت مبارک ہے اور یہ مطلوب بھی ہے۔

سوال نمبر 8:

حضرت! اگر کوئی شخص اپنی routine set کرے کہ میں یہ یہ کام کروں گا، اور اس میں اس سے ناغے ہوتے رہیں، تو کیا اس کی وجہ سے اپنے اوپر کوئی جرمانہ عائد کرنا چاہئے یا کیا کرنا چاہئے؟

جواب:

سبحان اللّٰہ! میں نے شاید آپ سے پہلے اس پر ایک دفعہ بات کی ہے، لیکن چلیں! پھر دہرا دیتا ہوں۔ timetable set کرنے میں ایک احتیاط ضروری ہے اور وہ احتیاط یہ ہے کہ انسان عملی timetable بنائے، Ideal timetable نہ بنائے۔ Ideal timetable اس کو کہتے ہیں کہ آپ نے فضائل سنے کہ یہ بھی ہونا چاہئے، یہ بھی ہونا چاہئے اور یہ بھی ہونا چاہئے، پھر آپ ان ساری چیزوں کو اس میں شامل کر دیں اور پھر بعد میں وہ سب ٹھس ہوجائیں۔ اس سے نقصان ہوتا ہے، نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہمت ٹوٹ جاتی ہے، شیطان ہی Ideal timetable بنواتا ہے، وہ اتنا زبردست timetable بنوا دے گا کہ آپ کہیں گے کہ یہ تو بہت اچھا ہے، لیکن چند دن سے زیادہ وہ نہیں چلے گا، اس کے بعد نقصان یہ ہوگا کہ پھر آپ سلام کردیں گے کہ بس یہ میرے بس کی بات ہی نہیں ہے، میں یہ نہیں کرسکتا۔ آپ اس طرح کریں کہ اپنے احوال کے مطابق ایک عملی timetable بنائیں۔ مثلاً: ایک آدمی تہجد کا معمول بنانا چاہتا ہے، تو اس کے بارے میں مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ اگر تہجد کا کسی کا معمول نہیں ہے، تو پہلے وہ ویسے تجرباتی طور پر شروع کرے، اس کو اپنا معمول نہ بنائے۔ مطلب یہ ہے کہ try کرنا شروع کر لے کہ میں تہجد پڑھنا شروع کر لوں۔ اب کبھی اٹھے گا اور کبھی نہیں اٹھے گا، کیوں کہ اس کا معمول نہیں ہے، لہٰذا ناغہ والی بات نہیں آئے گی، کیوں کہ یہ صرف ایک تجرباتی چیز ہوگی۔ لیکن آپ ایک کام کرسکتے ہیں کہ عشاء کی نماز کے بعد 4 رکعات پڑھنا شروع کر لیں تاکہ محرومی نہ ہو، کیونکہ اگر نہ اٹھ سکے، تو وہ 4 رکعات مستقل طور پر تہجد ہوجائیں گی۔ اور تجرباتی طور پر آخری رات والی تجہد شروع کر لے۔ پھر اس کے بعد جب اس کو تھوڑی سی اس کے اوپر قدرت ہوجائے کہ پھر وہ کہہ سکے کہ اب میں اٹھتا ہوں اور مجھے کوئی مسئلہ نہیں ہے، تو پھر وہ باقاعدہ اس کو معمول بنا لے۔ اسی طرح تلاوت کا معاملہ ہے۔ ایک آدمی کہتا ہے کہ میں نے روز 2 پارے تلاوت کرنی ہے، تو بات تو بہت اچھی ہے، اس لئے اگر مجھ سے پوچھے گا، تو میں ان کو منع تو نہیں کروں گا، البتہ میں ڈرتے ڈرتے میں اس سے کہوں گا کہ بھائی! ذرا اپنی حالت دیکھ لو کہ 2 پارے تلاوت نبھا سکو یا نہیں؟ اگر نبھا سکتے ہو، تو پھر کر لو اور اگر نہیں نبھا سکتے، تو اس سے کم کر لو۔ اکثر ساتھی جو حافظ نہ ہوں، ان کو میں بتاتا ہوں کہ کم از کم ایک پاؤ تلاوت کر لیا کرو، اس سے زیادہ آپ کی ہمت ہے۔ اگر آپ زیادہ کرنا چاہیں، تو ٹھیک ہے، لیکن ہماری طرف سے آپ ایک پاؤ تلاوت روزانہ کر لیا کریں۔ اسی طریقے سے دوسرے اعمالِ مستحبہ ہیں، ان میں انسان اپنی حالت کو دیکھ کر کہ جتنا وہ کرسکتا ہے، اتنا کر لے اور مزید کے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے مانگتا رہے اور اس کے لیے اسباب بھی ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ اسباب سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص تہجد کا معمول بنا رہا ہے، تو کم از کم اپنے کاموں کو اس طرح سیٹ کرے کہ وہ جلدی سو سکے، یعنی جلدی سونے کا کوئی نظم بنا لے۔ جب جلدی سوسکے گا، تو ان شاء اللّٰہ جلدی اٹھ بھی سکے گا اور اس طرح تہجد اس کا معمول بن جائے گا، ورنہ اگر جلدی نہیں سو سکتا اور کہتا ہے کہ میں جلدی اٹھ جایا کروں، تو دو دن کے لیے تو کر لے گا، لیکن تیسرے دن پھر ناغہ ہوجائے گا اور اس طرح باقاعدگی مشکل ہوجائے گی۔ لہٰذا timetable بنانے میں practically چیز کو دیکھنا چاہئے اور پھر اس کے بعد ان شاء اللّٰہ دل نہیں ٹوٹے گا۔ باقی آپ نے جو جرمانہ کے بارے میں سوال کیا ہے، تو جرمانہ اس وقت تو نہ لگائیں، جب آپ نے اس کو تجرباتی طور پہ شروع کیا ہو اور اگر آپ نے اس کو final کر لیا، تو پھر جرمانہ لگا سکتے ہیں۔

سوال نمبر 9:

جو سننِ مستحبہ ہیں، ان پر تو عمل کرنے میں ثواب ہے، لیکن رسول اللّٰہ ﷺ کی جو سنن عادیہ ہیں، اگر ان پر کوئی شخص عمل کرنا چاہے اور کرے، تو کیا اس کا بھی ثواب ہوتا ہے؟ مثلاً: میں نے ایک جگہ پہ پڑھا تھا کہ آپ ﷺ رات کو سوتے ہوئے پانی میں کھجور بھگوتے تھے اور پھر اس کو استعمال فرما لیتے تھے۔ یا اس طرح کی دوسری چیزیں۔

جواب:

دیکھیں! کدو کھانا آپ ﷺ کو پسند تھا، تو ہمارے بہت سارے بزرگوں کو یہ کدو پسند ہے۔ لہٰذا یہ تو اچھی بات ہے، لیکن اس کو ہم سب پہ لازم نہیں کریں گے، کیونکہ اس میں طبیعت کو بھی دخل ہے اور یہ طبعی چیز ہے، اسی طریقے سے کھجور والی بات بھی ایک طبعی چیز ہے، لہٰذا ہم اس کو کسی کے اوپر لازم نہیں کریں گے، لیکن اگر کسی کو یہ پسند ہے، تو ہم کہیں گے کہ بہت مبارک ہے، بہت اچھی بات ہے۔ جو چیز آپ ﷺ کو پسند ہے، وہ ہمیں پسند آ جائے، تو اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن سنت مستحبہ اس کو کہتے ہیں کہ جس کی آپ ﷺ نے تعریف فرمائی ہو اور اس میں یہ بھی فرمایا ہو کہ اگر چاہو، تو ایسا کر لو۔ ’’اگر چاہو‘‘ جب آ جاتا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مؤکدہ نہیں ہے، یعنی اس میں اختیار دے دیا گیا کہ اگر آپ کرنا چاہیں، تو اچھا ہے، اس کی یہ فضیلت ہے۔ پس فضیلت والی چیزیں مستحبات ہیں۔ اور جن پہ تاکید ہو، تو وہ پھر مؤکدہ ہوجاتی ہیں اور مؤکدہ کے ترک پر ملامت ہے، سنتِ مستحبہ کے ترک پر ملامت نہیں ہے، البتہ جس شخص نے سنتِ مستحبہ کو معمول بنا لیا ہو، تو اس کو اس کے چھوڑنے پہ ملامت ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اس کی طرح نہ ہوجانا کہ جو صبح اٹھ کے چند رکعتیں پڑھتا تھا اور اب نہیں پڑھتا۔ تو وہ تہجد کی نماز پڑھتا تھا، جو بعد میں اس نے چھوڑ دی، اور تہجد کی نماز مستحب ہے، سنت مؤکدہ نہیں ہے، لیکن آپ ﷺ نے یہ بات فرمائی، کیوں کہ اس نے معمول بنا لیا تھا اور معمول کی خلاف ورزی پر ملامت ہوسکتی ہے، لیکن عام بات یہی ہے کہ سنت مؤکدہ کے ترک پر ملامت نہیں ہے۔ جیسے مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سنتِ مستحبہ نہیں پڑھتا، جیسے میں تہجد کے لئے اٹھ گیا، اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بار بار نصیب فرمائے۔ اور میں نے تہجد پڑھ لی اور باقی لوگ سو رہے ہیں اور میرے دل میں آ جائے کہ کیسے عجیب لوگ ہیں کہ اس وقت سو رہے ہیں، ان کو تہجد پڑھنی چاہئے تھی، تو یہ شیطان کا مسئلہ ہے، اس سے امان مانگنا چاہئے، کیونکہ میرے دل میں عجب آ رہا ہے، میں اپنے آپ کو بہتر سمجھ رہا ہوں، لہٰذا اس سے امان طلب کرنی چاہئے، کیونکہ اس پر ملامت نہیں۔ جب اللّٰہ نے ملامت نہیں کی، تو تم کون ہو ملامت کرنے والے؟ اس وجہ سے کہتے ہیں کہ اگر کسی نے آپ کو تہجد کے لئے اٹھانے کا نہ کہا ہو، تو اس کو نہ اٹھائیں، اور اس کی یہ بھی رعایت کریں کہ اپنی تہجد کو ایسے طریقے سے پڑھیں کہ وہ نہ اٹھے، یعنی اس کو جاگ نہ آئے، ایسے آرام سے اٹھیں اور طریقے سے اپنا سارا کام کریں، تاکہ اس کی نیند خراب نہ ہو۔ ہاں! البتہ اگر اس نے کہا ہو کہ آپ مجھے بھی اٹھائیں، تو پھر اٹھانے کی بھی اجازت ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ آپ جو پڑھ رہے ہیں، اگر کوئی دوسرا نہیں ہے، صرف وہی ہے، تو اونچا پڑھنے میں بھی پھر کوئی حرج نہیں ہے، کیونکہ اس کو تو اٹھانا مقصود ہے، کیوں کہ اس نے خود کہا ہے۔ پس یہ بات ہے کہ سنت مستحبہ پر عام طور پہ ملامت نہیں ہے۔

سوال نمبر 10:

حدیث شریف میں آیا ہے کہ منہ پہ اگر کوئی کسی کی تعریف کرے، تو وہ اس کے منہ میں مٹی ڈال دے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 7698)

جواب:

دیکھیں! اس شخص کے لیے تو یہ حکم ہے کہ اس کو منہ پر تعریف نہیں کرنی چاہئے، اس کے لئے تو یہ مناسب نہیں۔ لیکن اگر کوئی آپ کی تعریف کرلے، تو ظاہر ہے کہ حدیث میں جو فرمایا گیا ہے، اس پہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب نے تو عمل کیا تھا کہ اس کے منہ میں خاک دے دو، لیکن یہ زجر کے لیے ہے، اگر اس سے فتنہ ہوتا ہو، تو پھر ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ صرف زجر کے لیے ہے کہ کسی کو منہ پر تعریف نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن اگر کوئی کسی کے سامنے اس کی تعریف کرلے، تو جس کی تعریف کی جا رہی ہے، اول تو وہ اپنے دل کو سمجھائے کہ یہ اس شخص کا حسنِ ظن ہے اور اس پر اس کو اجر مل رہا ہوگا، لیکن اگر میں نے اس کو مان لیا اور تسلیم کر لیا، تو میں مارا جاؤں گا، لہٰذا مجھے اس کو برا نہیں کہنا چاہئے، لیکن خود اس کو ماننا بھی نہیں چاہئے کہ میں ایسا ہی ہوں۔ اس کے لیے حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کا طریقہ یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ان کی تعریف کرتا، تو فرماتے کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کے گمان کے مطابق میرے ساتھ معاملہ کرے، یعنی جیسے آپ سمجھ رہے ہیں، اسی طرح مجھے اللّٰہ تعالیٰ بنا دے۔

سوال نمبر 11:

حضرت! نفسِ مطمئنہ کے بارے میں قرآن میں بشارت آئی ہے اور نفسِ امّارہ ہمیشہ برائی پہ آمادہ کرتا ہے اور صالحین کے نفسِ لوّامہ کی اللّٰہ پاک نے قرآن میں قسم کھائی ہے، اس کے بارے میں وضاحت فرما دیں۔

جواب:

نفسِ امّارہ غیر تربیت شدہ نفس ہے، جس کی ابھی تربیت نہیں ہوئی۔ لہٰذا اس کے بارے میں تو یہ ہے کہ اللّٰہ پاک نے اس کے اندر دو چیزیں رکھی ہیں، فجور اور تقویٰ۔ اور تقویٰ فجور کے نیچے دبا ہوا ہوتا ہے، لہٰذا جب تک فجور کو دبایا نہیں جاتا، اس وقت تک تقویٰ release نہیں ہوتا یعنی تقویٰ انسان میں نہیں ہوتا۔ لہٰذا نفسِ امّارہ جو نفس کی پہلی حالت ہے، اس میں فجور اوپر ہوتے ہیں، ان میں سے کوئی دبا نہیں ہوتا، لہٰذا ایسی صورت میں انسان سے فجور ہی سرزد ہو رہے ہوتے ہیں، یہ نفسِ امّارہ ہے، اس سے امان مانگ گئی ہے۔ دوسرا نفسِ لوّامہ ہے، اس کی تربیت شروع ہوچکی ہوتی ہے، مجاہدہ اس نے کیا ہوتا ہے، اس مجاہدے کے مطابق کچھ مشاہدہ بھی ہوچکا ہوتا ہے، اچھی چیزیں اس کو نظر آئی ہوتی ہیں، ان کے بارے میں اس کو کچھ understanding ہوچکی ہوتی ہے، نتیجتاً اس سے شہوات کے زور میں کوئی گناہ سرزد تو ہوسکتا ہے، لیکن اس پر فوراً ہی پشیمانی نصیب ہوجاتی ہے، کیونکہ اس نے نور دیکھا ہوا ہے، اس لئے ظلمت محسوس کر لیتا ہے، نتیجتاً وہ پھر توبہ کرتا ہے، گڑگڑاتا ہے اور روتا ہے، یہ نفسِ لوامّہ ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ہو رہا ہوتا ہے کہ کبھی وہ گر رہا ہوتا ہے اور کبھی اٹھ رہا ہوتا ہے۔ اس کی بھی اللّٰہ پاک نے قدر دانی فرمائی ہے اور اس کی قسم کھائی ہے، کیوں کہ یہ بھی ایک نعمت ہے کہ کم از کم توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے اور تائبین کے لیے بھی اللّٰہ پاک نے ایک special دروازہ بنایا ہوا ہے اور اللّٰہ پاک کی ایک صفت کا ظہور بھی اس کے ذریعے سے ہو رہا ہوتا ہے، لہٰذا یہ بھی اس حد تک ایک نعمت ہے۔ لیکن جانا ہمیں نفسِ مطمئنہ تک ہے۔ نفسِ مطمئنہ وہ ہے جس میں انسان شریعت کے اوپر دل سے مطمئن ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کی خواہش یہ بن جاتی ہے کہ میں اس پر عمل کروں، مثلاً: آپ ﷺ حضرت بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے فرماتے تھے: ’’ قُمْ يَا بِلَالُ، فَأَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ‘‘۔ (سن ابوداؤد، حدیث نمبر: 5986)

ترجمہ: اے بلال اٹھو اور ہمیں نماز سے آرام پہنچاؤ۔

پھر دل چاہتا ہے کہ میں مسجد میں جاؤں، چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ مومن آدمی کا دل مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔ لہٰذا دل چاہتا ہے کہ انسان نماز پڑھ لے۔ اسی طرح بعض لوگوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ وہ سخاوت کریں، دل چاہتا ہے کہ وہ کسی کی مدد کریں، دل چاہتا ہے کہ وہ کمزوروں کی امداد کریں۔ یہ نفسِ مطمئنہ ہے۔

بہرحال! ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ نفسِ مطمئنہ آج کل بعض لوگوں کو بعض چیزوں میں حاصل ہوجاتا ہے، لیکن مطلوب سب کے اندر ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگوں کو عبادات میں نفسِ مطمئنہ حاصل ہوچکا ہوتا ہے، لیکن معاملات میں نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ عبادات تو بڑے ٹھیک طریقے سے کر رہے ہوتے ہیں، لیکن معاملات ان کے خراب ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کو معاملات میں حاصل ہوجاتا ہے، لیکن عبادات میں نہیں ہوتا۔ چنانچہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ بہت صحیح بات کرتے ہیں، جھوٹ نہیں بولتے ہیں، بہت ایماندار ہوتے ہیں، اگر ان کی آپ کے ساتھ dealing ہوتی ہیں، تو ایک ایک پیسے کا حساب دیں گے، یعنی معاملات میں بڑے اچھے ہوتے ہیں، لیکن نماز پڑھنا ان کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے، روزہ رکھنا ان کے لیے بڑا مشکل ہوتا ہے، ایسے کافی لوگوں کی مثالیں آپ دیکھیں گے، ہمارے دفتروں میں Clean shave لوگ ہوتے ہیں، لیکن ان کے معاملات بہت اچھے ہوتے ہیں، اس مسئلے میں وہ بہت خیال رکھتے ہیں۔ لیکن ان کو بھی پھر شیطان چکر دیتا ہے، جن کو عبادات میں نفسِ مطمئنہ حاصل ہوچکا ہوتا ہے، ان کے دل میں یہ بات بٹھا دیتا ہے کہ معاملات تو کچھ بھی نہیں، ان میں گنجائش ہے، اللّٰہ معاف کر دیتے ہیں۔ اس طرح کوئی نہ کوئی انہوں نے اپنے لیے تسلی سوچ رکھی ہوتی ہے۔ اور جو معاملات والے ہوتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بس اصل تو حقوق العباد ہیں، بس ان میں کوتاہی سے بچنا چاہئے۔ اس قسم کی باتیں وہ کرتے ہیں، حالانکہ یہ نامکمل بات ہے اور اس میں اپنے آپ کو حق پہ سمجھنا شیطانی کام ہے، یہ شیطان کا وسوسہ ہے۔ لہٰذا نفسِ مطمئنہ سب کے بارے میں ہونا چاہئے، اور اگر کسی کے بارے میں نہیں ہے، تو اس میں کم از کم اپنے آپ کو کمی پہ سمجھنا چاہئے کہ مجھ میں یہ کمی ہے، اس کمی کا احساس اس کی آگے ترقی کے لیے ذریعہ بنے گا، اگر وہ اس کا احساس نہیں کرے گا، تو اس کی ترقی نہیں ہوگی اور ترقی کا راستہ بند ہوجائے گا۔ اس کے لیے بعض لوگوں کو معاملات میں نفس مطمئنہ حاصل ہوتا ہے، عبادات میں نہیں، اور بعض کو ان دونوں میں ہوتا ہے، لیکن معاشرت میں نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر ایک آدمی حاجی ہے، ما شاء اللّٰہ! وہ خوب عبادت بھی کر رہا ہے، معاملات بھی اس کے بالکل ٹھیک ہیں، لیکن وہ اپنے ساتھ اپنی بچی کو کالج لے جا رہا ہے، اس نے Half sleeve کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور اس کو بالکل بھی اس کا احساس نہیں ہے، اس میں وہ اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں، تو ایسے شخص کو معاشرت کے اندر نفسِ مطمئنہ حاصل نہیں ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر وہ شریعت کی باتوں کی پروا نہیں کرتا، وہ اپنے آپ کو معذور سمجھتا ہے۔ کہتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، اس مسئلے میں وہ گڑبڑ کر لیتے ہیں۔ غمی کی صورت میں گڑبڑ کرتے ہیں۔ بعض لوگ جو pent shirt پہنتے ہیں یا اس طرح کا کوئی دوسرا کام کرتے ہیں، تو وہ اس میں اپنے آپ کو معذور سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس میں کیا حرج ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرت کے اندر نفس مطمئنہ حاصل نہیں ہوتا۔ بعض کو ان تینوں کے اندر حاصل ہوتا ہے، لیکن اخلاق میں نہیں ہوتا۔ جب کہ دین کے جتنے بھی شعبے ہیں، ان سب کے اندر نفس مطمئنہ ضروری ہے۔ نفس مطمئنہ کے بارے میں فرمایا ہے:

﴿يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ارۡجِعِىۡٓ اِلٰی رَبِّکِ﴾ (الفجر: 27 28)

ترجمہ: ’’اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے، اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر آ جا‘‘۔

کیونکہ اس میں بندگی ہے۔ پھر فرمایا:

﴿فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىْ﴾ (الفجر: 29)

ترجمہ: ’’اور داخل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں‘‘۔

پس اصل میں بندگی بنیادی چیز ہے، بندگی تب ہوگی جب انسان سارے حکموں پہ چلنا چاہے گا۔ اگر کسی کو ایک میں حاصل ہو، تو اس پر بھی وہ اللّٰہ کا شکر کرے، تاکہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو مزید بڑھائے، لیکن باقیوں کے بارے میں اپنی کمی کا احساس رکھے اور اس میں بہتر ہونے کی کوشش بھی کرتا رہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ


  1. نوٹ! تمام آیات کا ترجمہ آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم سے لیا گیا ہے۔