سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 87

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی





اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر1:

دورانِ تربیت راہِ سلوک میں حاصل ہونے والے مقامات و خصائل اور دور ہونے والے شرور و رذائل کا مرشد کو یا خود سالک کو کیسے پتا چلتا ہے؟ اس بات کا تعین کیسے ہوتا ہے کہ اب سالک کو فلاں مقام حاصل ہو گیا ہے اور اس کے فلاں رذائل دور ہو گئے ہیں۔ نیز یہ بھی بتائیے کہ اس بات کی نشاندہی کیسے ہوتی ہے کہ اب اس سالک کی تربیت مکمل ہو گئی ہے، کیا یہ بات خود سالک کو معلوم ہو جاتی ہے یا شیخ پہ منکشف ہوتی ہے؟

جواب:

اس سوال کا جواب کافی تفصیل طلب ہے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ مختصر اور جامع انداز میں جواب دے سکوں۔ ایک لفظ جو بہت زیادہ معروف ہے، اس کے اندر اس سوال کے بہت سارے جوابات شامل ہیں۔ وہ لفظ ہے شرحِ صدر۔

سلوک کے سفر کے دوران سالک کو کوئی مقام حاصل ہوا یا نہیں، اس کا کوئی رذیلہ دور ہوا یا نہیں اور اس کا سلوک مکمل ہوا یا نہیں، اس کا تعین مکمل طور پر شیخ کی صوابدید اور شرح صدر پر منحصر ہے۔ جب کسی کے بارے میں شیخ کو شرحِ صدر ہو جاتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ سالک فلاں مقام طے کر چکا ہے۔ شیخ کو یہ بات بعض دفعہ کچھ قرائن و علامات سے معلوم ہوتی ہے اور بعض مرتبہ اللہ پاک کی طرف سے براہِ راست اس کے دل میں ڈال دی جاتی ہے جس سے شیخ پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس سالک کو فلاں مقام حاصل ہو گیا ہے یا اس کا سلوک طے ہو گیا ہے۔

مقامات اور لطائف کے بارے میں نقشبندی اور چشتی حضرات میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ نقشبندی حضرات کے ہاں مقامات اور لطائف تفصیلی طور پر طے کئے اور کرائے جاتے ہیں جبکہ چشتی حضرات ان تفاصیل میں نہیں جاتے۔ ان کے ہاں صرف ایک ہی لطیفہ ہے اور وہ ہے ”لطیفۂ قلب“۔ وہ سارا زور قلب پہ لگاتے ہیں اور ان کے ہاں ایک ہی مقام ہے اور وہ سلوک طے ہو جانا دل اور نفس کی مکمل اصلاح ہو جانا ہے۔

سلوک کی تکمیل کے بارے میں ایک بنیادی چیز تمام سلسلوں میں مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت اگر کسی کے دل سے نکل گئی تو اسے سارا سلوک حاصل ہو گیا۔ دنیا کی محبت کا دل سے نکل جانا سب اچھائیوں کا حاصل ہے، رذائل کی دوری کا باعث ہے اور فضائل کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے:

”حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَةٍ“ (مشکوۃ المصابیح: 5213)

ترجمہ: ”دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے“۔

لہٰذا اگر اس جڑ کو نکال دیا جائے تو ساری خطائیں ختم ہو جائیں گی اور اللہ کی محبت حاصل ہو جائے گی جو ساری سعادتوں کی کنجی ہے۔ جس کو اللہ پاک کی محبت حاصل ہو گئی اسے ساری سعادتیں حاصل ہو گئیں۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ملفوظ ہےکہ ”ہمارے ہاں تکمیل بذریعہ جذب ہوتی ہے“۔

جذب کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت کو دل میں لانا۔ اسے تصوف کی اصطلاح میں ہم یوں کہتے ہیں کہ اللہ پاک بندہ کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ جب یہ چیز حاصل ہو جائے تو اس کے بعد مزید مقامات کو الگ الگ طے کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

نقشبندی حضرات کے ہاں سلوک کے دوران چونکہ الگ الگ مقامات طے کرائے جاتے ہیں، اس لئے انہیں ظاہری علامات سے پتا چل جاتا ہے کہ سالک کا فلاں مقام طے ہو گیا ہے۔ کیونکہ مقام نام ہے رذائل سے دوری کا۔ حضراتِ مشائخ سالکین سے مجاہدات و ریاضتیں کرواتے ہیں اور سالک انہیں اپنے احوال بتاتے رہتے ہیں جن سے شیخ کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اب اس میں وہ رذیلہ نہیں رہا، اس طرح انہیں علم ہو جاتا ہے کہ فلاں مقام طے ہو گیا ہے۔ جبکہ چشتی حضرات کے ہاں سلوک طے ہو جانے کی ایک ہی علامت ہے کہ دنیا کی محبت دل سے نکل جائے اور اللہ کی محبت آ جائے۔ نقشبندی حضرات کے ہاں بھی آخری نتیجہ یہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ نقشبندی حضرات کے ہاں سلوک کے دروان پڑاؤ زیادہ ہیں اور تفصیلات زیادہ ہیں۔

بہر حال چشتی حضرات ہوں یا نقشبندی، سہرودی ہوں یا قادری، سب کے نزدیک سارے تصوف کا حاصل یہی ہے اور ساری چیزیں اسی کے ساتھ متصل ہیں کہ دنیا کی محبت نکل جائے اور اللہ کی محبت حاصل ہو جائے۔ جب یہ مقام حاصل ہو جائے گا تو پھر صبر بھی حاصل ہو جائے گا اور اخلاص بھی، توکل بھی حاصل ہو جائے گا اور قناعت بھی، تسلیم بھی حاصل ہو جائے گی اور رضا بھی۔

بے صبری میں یہ ہوتا ہے کہ انسان کو دنیا کی تکلیف گوارا نہیں ہوتی اس لئے وہ بے صبری کرتا ہے۔ اگر اس کی نظر آخرت پہ ہو اور اللہ جل شانہٗ کے ساتھ تعلق ہو تو اسے دنیا کی تکلیف برداشت ہو جائے گی۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ اس کی مثال یوں دیتے ہیں جیسے کسی آدمی کا جگری دوست پیچھے سے آ کر اس کی آنکھوں پہ ہاتھ رکھ کر اس کو پکڑ کر خوب دبا دے تو اولاً اسے بہت تکلیف ہو گی لیکن جب اسے پتا چلے گا کہ یہ میرا محبوب ہے، مجھ سے خوش طبعی کر رہا ہے تو پھر اسے تکلیف نہیں بلکہ خوشی ہو گی۔ فخر الدین عراقی کا ایک شعر ہے:

نہ شود نصیبِ دشمن، کہ شود ہلاکِ تیغت

سرِ دوستاں سلامت، کہ تو خنجر آزمائی

ترجمہ:

کسی دشمن کا نصیب کہاں کہ تیری تلوار سے ہلاک ہو

دوستوں کے سر سلامت رہیں تو خنجر آزمائی جاری رکھ

جو کسی سے سچی محبت کرتا ہے وہ اس کی طرف سے آنے والی تکلیف پر پریشان نہیں ہوتا، اسے وہ تکلیف نا گوار نہیں گزرتی۔

اسی طرح احمد جامؔ کا ایک شعر ہے:

کشتگان خنجر تسلیم را

ہر زماں از غیب جانے دیگرست

ترجمہ: تسلیم کے خنجر سے قتل ہونے والے، غیب سے دوسری زندگی پاتے ہیں (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا میں جینے والے مرتے نہیں ہیں، بلکہ موت کے بعد انہیں ہر لحظہ نئی زندگی حاصل ہوتی ہے)۔

جو خنجرِ تسلیم یعنی عشق کے خنجر سے قتل ہوتے ہیں ان میں ہر بار اتنی ہی مزید جان آ جاتی ہے۔ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ یہ شعر سنتے سنتے اس دنیا سے تشریف لے گئے تھے۔

یہ اشعار بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جب اللہ کی محبت آ جاتی ہے تو پھر اس کی بھیجی گئی تکالیف میں آدمی بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ صبر سے کام لیتاہے۔

حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ شرح صدر میں اس مقام پر تھے کہ ابھی تک ویسا مقام کسی نے نہیں پایا۔ بزرگ حضرات اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بعد کوئی بھی شخص شرح صدر میں ان کے مرتبے کا ابھی تک نہیں آیا۔ مزید یہ کہ حضرت کاکا صاحب کا سہروردی سلسلے میں مرتبے کے لحاظ سے دوسرا نمبر ہے۔ اس کے با وجود وہ اپنے بارے میں کیا فرماتے ہیں ذرا سنئے۔ ایک مرتبہ کاکا صاحب سے ان کے بیٹے نے پوچھا: ”بابا ہر بزرگ کا کوئی مقام ہوتا ہے آپ کا مقام کون سا ہے؟“ حضرت نے جواب دیا: ”بیٹا میں نے بزرگی بزرگوں کے لئے چھوڑ دی ہے، درویشی درویشوں کے لئے چھوڑ دی ہے، علم علماء کے لئے چھوڑ دیا ہے، اللہ پاک نے میرے گلے میں اپنی غلامی کی ایک زنجیر ڈالی ہے (مراد شریعت ہے) بس میں یہ چاہتا ہوں کہ موت تک یہ زنجیر میرے گلے میں رہے، یہی میرا مقام ہے“۔

حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کو بادشاہ وقت نے ملک نیمروز کی جاگیر دینا چاہی تو حضرت نے اسے یہ رباعی لکھ بھیجی:

چوں چترِ سنجری رخِ بختم سیاہ باد

در دل اگر بود ہوسِ ملکِ سنجرم

زانگہ کہ یافتم خبر از ملکِ نیم شب

من ملکِ نیمروز بہ یک جو نمی خرم

ترجمہ: شاہ سنجر کے کالے رنگ کے تاج کی طرح میرا بخت سیاہ ہو جائے اگر میرے دل میں ملک سنجر کی کچھ بھی ہوس ہو، اس لیے کہ جب مجھے دولتِ نیم شب (شب بیداری و یادِ حق) کی سلطنت حاصل ہے، سلطنت نیمروز کی قیمت میری نظر میں دانۂ جو کے برابر بھی نہیں۔ (اخبار الاخیار)

فرمایا کہ اگر میں نے تیرے ملک نیمروز کی طرف ایک نگاہ بھی ڈالی تو جس طرح تمہارا تاج سیاہ ہے اسی طرح میرا بخت بھی سیاہ ہو جائے گا، جب سے مجھے نیم شبی کی دولت ملی ہے تب سے میرے دل میں ملک نیمروز کی قیمت ایک جو کے برابر بھی نہیں رہی۔

جب اللہ کی محبت آ جائے اور دنیا کی محبت نکل جائے تو پھر ایسے ایسے عظیم مقامات حاصل ہو جاتے ہیں، پھر بندہ ”مَنْ کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰهُ لَهٗ“ کے مصداق کے طور پر اللہ کا ہو جاتا ہے اور اللہ بندے کا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھلا اسے کس مقام کی ضرورت ہے۔

ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اکثر اوقات ان کے جاننے والے حضرات کہا کرتے تھے کہ حضرت آپ کو فلاں مقام حاصل ہو گیا، فلاں مقام حاصل ہو گیا۔ حضرت اس کے جواب میں فرماتے تھے ؎

ایسے رہے یا کہ ویسے رہے

وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے

یعنی مقامات چاہے کتنے ہی حاصل ہو جائیں، اصل چیز تو اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کی محبت ہے، وہ حاصل ہونی چاہیے، اسی پر سب کچھ منحصر ہے۔

اس کی مثال ایسے ہے جیسے کسی دلہن کی شادی ہونے والی ہو اور تمام لوگ اسے بہت پسند کر رہے ہوں کہ بہت خوبصورت لڑکی ہے، خوش لباس، خوش سلیقہ اور خوش طبع ہے، لیکن لڑکی کے دل میں بس یہی بات ہو گی کہ خدا جانے میں اپنے خاوند کی نظر میں کیسی ہوں گی۔ روحانیت میں بھی اصل یہی احساس ہے کہ انسان اللہ کی نظر میں کیسا ہے، اگر اس کے ہاں ٹھیک ہے تو سب ٹھیک ہے۔

آپ ذرا غور کریں کیا کبھی صحابہ کرام کے واقعات میں یہ باتیں سنی ہیں کہ فلاں صحابی کو یہ مقام حاصل تھا اور فلاں صحابی کو یہ مقام حاصل تھا۔ صحابہ کے بارے میں کہیں یہ چیز نہیں ملتی بلکہ ہر صحابی کو اپنے اوپر بد گمانی ہوتی تھی کہ کہیں میں فلاں گناہ کا مرتکب تو نہیں ہو رہا۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اصل اور بنیاد اللہ کی محبت کا دل میں آ جانا اور دنیا کی محبت کا دل سے نکل جانا ہے۔ باقی مقامات، لطائف، مراقبات اور معمولات و اشغال وغیرہ تمام چیزیں اسی بنیاد اور اسی منزل کے ذرائع ہیں، ان سب کا مقصد اِس اصل کا حصول ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

لہٰذا اسی مقصد کی طرف نظر رکھیں باقی سب کچھ اللہ پاک اس کے ضمن میں ہی دے دےگا۔

سوال نمبر2:

حضرت جی کسی کو گھٹیا سمجھنا تو تکبر ہے۔ کیا اپنے آپ کو ہر ایک سے حقیر سمجھنا احساس کمتری ہے؟

جواب:

جی نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ آپ نے بڑا اچھا سوال کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے۔

قرآن پاک میں ایک آیت ہے:

﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ بَیْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا یَبْغِیٰنِۚ﴾ (الرحمن: 19-20)

ترجمہ: ”اسی نے دو سمندروں کو اس طرح چلایا کہ وہ دونوں آپس میں مل جاتے ہیں۔ (پھر بھی) ان کے درمیان ایک آڑ ہوتی ہے کہ وہ دونوں اپنی حد سے بڑھتے نہیں“۔

بعض دفعہ دو دریا بالکل ساتھ ساتھ ملے ہوئے چل رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے جس سے لوگ فرق محسوس کرتے ہیں۔ فرق ہونے کے با وجود دونوں ساتھ ساتھ ہی چل رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض اچھی اور بری چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ان کے درمیان بہت باریک فرق ہوتا ہے، اتنا باریک کہ بعض دفعہ ایک کو دوسری اور دوسری کو پہلی سمجھ لیا جاتا ہے۔ انہی چیزوں میں سے احساس کمتری اور تواضع بھی ہیں۔

ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ تواضع اللہ جل شانہ کی عظمت کی وجہ سے اپنے آپ کو کمتر سمجھنا ہے جبکہ احساس کمتری اپنے پاس دنیا نہ ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو کمتر سمجھنا ہے۔ جب دنیا کی محبت دل میں ہو گی تو غریب آدمی مال دار کے سامنے احساس کمتری میں مبتلا ہو گا، افسر کے سامنے اس سے نچلے درجہ کا آدمی احساس کمتری میں مبتلا ہو گا، اونچے خاندان والے کے سامنے دوسرے خاندان والے احساس کمتری میں مبتلا ہوں گے، طاقتور کے سامنے کمزور احساس کمتری میں مبتلا ہوں گے۔ یہ سب دنیا سے متعلق چیزیں ہیں اگر دنیا اور دنیاوی چیزوں کے حوالے سے کوئی اپنے آپ کو کمتر سمجھتا ہے تو وہ احساسِ کمتری کا شکار ہے۔ اور اگر اللہ جل شانہ کی عظمت کی وجہ سے اپنے آپ کو کم تر سمجھتا ہے تو یہ تواضع ہے۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی تواضع کر سکتا ہے کیونکہ اللہ پاک سے بڑا تو کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا بڑے آدمی میں بھی تواضع ہو سکتی ہے چاہے حسن کے لحاظ سے بڑا ہو، چاہے کمال کے لحاظ سے بڑا ہو، چاہے بزرگی کے لحاظ سے بڑا ہو، الغرض جس حوالے سے بھی بڑا ہو اللہ پاک سے تو بڑا نہیں ہو سکتا، لہٰذا اگر وہ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے کمتر سمجھے تو اس کا کم سمجھنا تواضع کہلائے گا۔ تواضع کی کوئی حد نہیں ہے کیونکہ وہ اللہ کے سامنے ہے اور اللہ کی بڑائی لا محدود ہے، اس کے سامنے تواضع بھی لا محدود ہو گی جبکہ احساس کمتری کی ایک حد ہوتی ہے کیونکہ اس کا تعلق دنیا اور دنیا کے لوگوں کے ساتھ ہے اور دنیا محدود ہے۔

احساس کمتری بہت سے مفاسد کا دروازہ ہے۔ حسد، کینہ، بغض اور ریا وغیرہ سب احساس کمتری سے آتے ہیں۔ احساس کمتری کی وجہ سے انسان اکثر ریا کا مرتکب ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ افسر لوگ بعض دفعہ اپنے کپڑوں کا اتنا خیال نہیں رکھتے جتنا ان کے سٹاف کے لوگ رکھتے ہیں، اونچے خاندان والے ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے جتنی پروا انہی چیزوں کی نچلے خاندان والے کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جو آدمی احساس کمتری کا شکار ہوتا ہے اسے یہ لگتا ہے کہ فلاں آدمی میں، میرے افسر میں، یا اونچے خاندان کے لوگوں میں یہ چیز ہے اور مجھ میں نہیں ہے، اس لئے وہ لوگوں کو بتکلف دکھانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے اندر یہ چیز ہے جبکہ وہ لوگ جن کے پاس کوئی چیز پہلے سے ہو وہ اس چیز کو دکھاتے نہیں پھرتے اور اتنا اہم نہیں سمجھتے۔

اللہ تعالیٰ کو تواضع پسند ہے لیکن احساسِ کمتری پسند نہیں ہے۔ جن لوگوں کے اندر احساس کمتری نہیں ہوتا اور تواضع ہوتی ہے وہ دنیا کی کوئی پروا نہیں کرتے، وہ اپنی ہر سوچ اور ہر عمل میں اس بات کی پروا کرتے ہیں کہ یہ کام اللہ کی نظر میں کیسا ہو گا۔ وہ اپنے بڑے سے بڑے نیک کام کو بھی اللہ کی شان کے لائق نہیں سمجھتے، اللہ کی شان کے مقابلے میں انتہائی کم تر درجہ کا سمجھتے ہیں اس لئے اپنی نیکیوں پر بھی تھر تھر کانپتے ہیں ان کے دل میں ہر دم وہی بات رہتی ہے جسے حضرت میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ نے یوں فرمایا ہے:

عدل کریں تے تھر تھر کمبن اُچیاں شاناں والے

فضل کریں تے بخشے جاون میں جے منہ کالے

ان کی نظر اللہ پر ہوتی ہے، وہ اللہ جل شانہ کی عظمتِ شان کو سامنے رکھ کر تھر تھر کانپ رہے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ بے نیاز ہے، اللہ کو کسی کی عبادت کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کے سامنے بھلا کسی چیز کی کیا حیثیت، وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے فضل سے کرتا ہے۔ لہٰذا جس کی نظر اللہ کے فضل پہ ہو وہ تو بچ جاتا ہے لیکن جس کی نظر اپنے کمال پہ ہو وہ خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ متواضع لوگ بہت فکر مند رہتے ہیں کہ کہیں میری نظر اللہ کے سوا کسی اور طرف تو نہیں چلی گئی۔ وہ اپنے آپ کو ہر وقت خطرے میں محسوس کر رہے ہوتے بیں۔

معلوم ہوا کہ تواضع اور چیز ہے، احساس کمتری اور چیز ہے۔ تواضع اللہ کے حوالے سے ہوتی ہے اور احساسِ کمتری دنیا کے حوالے سے ہوتا ہے۔

سوال نمبر3:

حضرت یہ جو بیمار کی تیمار داری کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ کیا اس کا بنیادی مقصد یہی حوصلہ افزائی ہوتا ہے؟

جواب:

تیمار داری اور عیادت میں فرق ہے۔ تیمار داری سے مراد ہے مریض کی دیکھ بھال کرنا، اس کی خوراک، دوا و غذا اور پرہیز وغیرہ کا خیال رکھنا جیسے ہسپتال کا عملہ اور نرسیں وغیرہ کرتے ہیں۔ جبکہ عیادت سے مراد ہے مریض کا دکھ بانٹنا، اس کے پاس بیٹھنا اس کی دلجوئی کرنا، اس کا حوصلہ بڑھانا اسے ہمت دلانا۔ عیادت کی ایک دعا بھی ہے:

”لَا بَأسَ طَھُوْرٌ اِنْ شَاءَ اللہُ“ (صحیح بخاری: 5662)

ترجمہ: ”کوئی فکر نہیں اگر اللہ نے چاہا تو (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا“۔

عیادت مسلمان کا حق ہے۔ آپ کے آس پاس کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کے پاس جائیں، اسے دعا دیں، تسلی دیں اور اس کی دلجوئی کریں۔

سوال نمبر4:

ایک واقعہ پڑھا ہے کہ ایک حکیم کو کسی مریض کے حالات بتائے گئے تو اس نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ یہ آدمی زندہ کیسے ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ جاؤ اس حکیم سے یہ پوچھ کر آؤ کہ مریض کی حالت تو یہی ہے مگر آپ یہ بتائیں ٹھیک ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اس حکیم نے کہا کہ ”ہاں ٹھیک تو ہو سکتا ہے“۔ کیا اس کے پیچھے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے یہی حکمت تھی کہ مریض کو مایوسی نہ ہو؟

جواب:

جی ہاں۔ اس میں یہی حکمت تھی کہ مریض کو وہ بات نہ کہی جائے جو حکیم نے پہلے کہی تھی کہ ”اس مریض کی تو ہر چیز ختم ہو چکی ہے میں حیران ہوں کہ یہ زندہ کیسے ہے“۔ جب مریض کو انہی الفاظ میں یہ بات بتائی جاتی تو اس کا مایوس ہونا لازمی تھا، اس لئے انہوں نے یہ کہا کہ دوبارہ پوچھو کہ اس کا یہ مرض ٹھیک ہو سکتا ہے یا نہیں۔

بہر حال مرض ٹھیک ہو سکتا ہو یا نہ ٹھیک ہو سکتا ہو، مریض کو حوصلہ ہی دلانا چاہیے کیونکہ بعض اوقات نفسیاتی پہلو زیادہ اثر کر جاتا ہے۔ کئی کیسز میں مرض ٹھیک ہونے کا امکان ہوتا ہے مگر مریض پہ طاری مایوسی کی وجہ سے ٹھیک نہیں ہو پا رہا ہوتا۔ بیماری کی حالت میں جب تک انسان ذہنی اور نفسیاتی طور پر مایوس نہیں ہوتا تب تک اس کی قوت مدافعت کام کرتی رہتی ہے اور اس کے مرض کا مقابلہ کرتی رہتی ہے۔ لیکن اگر مریض نفسیاتی طور پر کمزور ہو جائے، گھبرا جائے اور حوصلہ ہار جائے تو اس کی قوت مدافعت بہت کمزور ہو جاتی ہے نتیجتاً وہ مزید کئی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی بیماریاں مایوسی اور اعصابی تناؤ کا ہی نتیجہ ہیں۔ ڈاکٹر حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ غصہ، گھبراہٹ، مایوسی اور پریشانی میں انسان کا بلڈ پریشر اپنے لیول پر نہیں رہتا، شوگر بھی بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں مزید کئی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ ان بیماریوں کا تعلق جسم سے زیادہ دماغ سے ہوتا ہے۔

مجھے ایک مرتبہ acidity کا مسئلہ ہو گیا تھا تو ڈاکٹر سلمان رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے کہا کہ آپ کا یہ مسئلہ اونچے لیول تک چلا گیا ہے، آپ ایک loop میں پھنس گئے ہیں، اس loop سے آپ کو باہر نکلنا ہو گا تب آپ کی acidity کنٹرول ہو گی کیونکہ آپ کا دماغ اشارہ دیتا ہے تو یہ مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ان کی بات درست تھی۔ اس قسم کے loop سے نکالنا ہی ڈاکٹر کا کمال ہوتا ہے، ہر ڈاکٹر یہ کام نہیں کر سکتا۔ بعض ڈاکٹر بے وقوفی کر لیتے ہیں اور مریضوں کی حالت کو مزید خراب کر دیتے ہیں۔

نصف علاج دواؤں سے ہوتا ہے اور نصف علاج قوت مدافعت اور انسان کے نفسیاتی طور پہ مضبوط ہونے سے ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی طرف اشارہ کیا تھا کہ مریض کو امید اور ہمت دلائیں۔ امید سے ہی دنیا قائم ہے۔

انسان دو چیزوں کے درمیان معلق ہے۔ کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ سوچنا اور کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ بے پروا ہو جانا۔ کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے رہنے سے وہم ہو جاتا ہے اور بہت زیادہ بے پروا ہونے انسان بے احتیاط ہو جاتا ہے اور بد پرہیزی کرنے لگتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں نقصان دہ ہیں۔ دونوں کے درمیان اعتدال کا نام صحت ہے۔ اگر انسان اعتدال پہ نہ رہے تو پھر جس طرف بھی جھکے گا نقصان اٹھائے گا، چاہے وہم کی طرف جائے یا بے پروائی و بے احتیاطی کی طرف۔ پہلی صورت میں وہم کی وجہ سے مسائل ہوں گے، دوسری صورت میں بے احتیاطی و بد پرہیزی کی وجہ سے مسائل ہوں گے۔ بعض لوگ بے پروائی سے مارے جاتے ہیں، بعض لوگ وہم کی وجہ سے مارے جاتے ہیں، دونوں میں اعتدال رکھنا ضروری ہے۔

سوال نمبر5:

حضرت قرآن پاک کی سب سے بڑی آیت لین دین سے متعلق ہے جس سے لین دین کے معاملات میں شفافیت کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قسم کا معاہدہ ہو اسے ضرور لکھ لینا چاہیے۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔

جواب:

دیکھیں یہ تو اللہ جل شانہٗ نے ہمارے لئے اسباب کا ایک نظام بنایا ہے۔ تجارت کے معاملات میں سے ایک معاملہ ”لین دین“ بھی ہے۔ جب بھی کوئی ایسا معاملہ ہو اسے محفوظ کر لینا چاہیے۔ کیونکہ یہ مال کا معاملہ ہے، کسی کا بھی دل بدل سکتا ہے۔ جیسے گھر سے باہر جاتے ہوئے تالے لگا کر دروازے بند کر کے جانا چاہیے کیونکہ چوری کا خدشہ ہوتا ہے، اسی طرح لین دین کا معاملہ اور معاہدہ کر کے اس کو بھی محفوظ کرنا چاہیے کیونکہ لین دین میں خیانت کرنا بھی ایک قسم کی چوری ہی ہے۔ اس چوری سے بچنے کے انتظامات کرنا بھی ضروری ہے۔ اس آیت، آیتِ تدایُن میں انہی انتظامات کے بارے میں بڑی تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ اگر لوگ معاہدے کرتے وقت انہیں لکھ لیا کریں تو بہت سے مفاسد سے حفاظت سے ہو سکتی ہے۔

سوال نمبر6:

حضرت جی ایک انگریزی میگزین کے سرورق پہ یوں لکھا تھا:

Muhammad (ﷺ) and Jesus, two great Prophets of Allah

کیا اس طرح لکھنے کا انداز ٹھیک ہے؟ کیونکہ نبی ﷺ افضل الانبیاء ہیں۔

جواب:

ہم لوگ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے:

﴿لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ﴾ (البقرہ: 285)

ترجمہ: ”ہم اس کے رسولوں کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے“۔

اس آیت کی روشنی میں ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ جو جملہ میگزین کے ٹائٹل پر لکھا ہے وہ درست نہیں ہے، وہ بالکل درست ہے۔ ہاں مجموعی اور عمومی لحاظ سے ہم یہ کہیں گے کہ آپ ﷺ افضل الانبیاء ہیں، آپ ﷺ کے بعد باقی رسول ہیں، آپ ﷺ کے بعد باقی انبیاء کا درجہ ہے۔ اس طرح اجمالی طور پر کہنا تو ٹھیک ہے مگر ہم تفصیل میں نہیں جاتے۔ ایسے معاملات میں بے احتیاطی سے ڈرنا اور بچنا چاہیے۔

سوال نمبر7:

قرآن پاک کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ جس نے ہماری یاد سے منہ موڑا ہم اس کی زندگانی تنگ کر دیتے ہیں۔ اس کی تشریح فرما دیں۔

جواب:

قرآن پاک میں ارشادِ باری ہے:

﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهٗ مَعِيْشَةً ضَنْكًا﴾ (طٰہ: 124)

ترجمہ: ”اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی“۔

معیشت تنگ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے پاس پیسے کم ہوں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی نصیحت سے اعراض کرنے والوں کے مسائل پیسوں سے بھی حل نہیں ہوں گے حالانکہ پیسے ہوتے ہی مسائل حل کرنے کے لئے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی معیشت اللہ پاک ایسی تنگ کر دیں گے کہ ان کے کام ان کا پیسہ بھی نہیں آئے گا۔ پشتو میں کہتے ہیں: "که اوښ په کاسیره شی اؤ کاسیره هم نه وی نو بیا"

یعنی: اونٹ ایک دھیلہ کا ہو گیا لیکن اگر آپ کے پاس ایک دھیلہ بھی نہ ہو تو کیا کریں گے۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کروڑوں روپے ہوتے ہیں لیکن آپ کے اوپر اربوں کے قرضے ہوتے ہیں۔ ایسے کروڑوں کا کوئی فائدہ تو نہ ہوا، ایسی دولت سے مسئلہ تو حل نہیں ہو گا۔ بسا اوقات غریب آدمی کا مسئلہ بڑے سادہ طریقے سے حل ہو جاتا ہے لیکن مالدار آدمی کو پریشانی بھی ہوتی ہے اور مال ہونے کے با وجود مسئلے حل نہیں ہوتے۔ جیسے جیسے دولت بڑھ رہی ہوتی ہے ویسے ویسے پیچیدگیاں اور پریشانیاں بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ آپ دوائی کی مثال لے لیں۔ کچھ لوگ صرف جوشاندہ اور گھریلو ٹوٹکوں سے ٹھیک ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگوں کو انجکشن لگانے پڑتے ہیں۔ بہر حال معیشت کی تنگی کا تعلق صرف روپے پیسے سے نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی ہر آسانی سے ہے۔

سوال نمبر8:

قرآن پاک کی آیت:

﴿وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ (الإنشراح: 4)

ترجمہ: ”اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارے تذکرے کو اونچا مقام عطا کر دیا ہے“۔

کی تفسیر میں علماء سے سنا ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ کا نام آئے گا حضور پاک ﷺ کا نام ساتھ آئے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال اذان ہے۔ اس کی تشریح فرما دیں۔

جواب:

جی آپ نے درست کہا، اس آیت کی تفسیر میں علماء کرام یہ بات ذکر کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ فرشتہ آیا اور مجھے کہا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:

”اِذَا ذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِی“ (مجمع الزوائد: 257 / 8)

ترجمہ: ”جہاں مجھے یاد کیا جائے گا وہاں تمہیں بھی یاد کیا جائے گا“۔

اللہ جل شانہ کی محبت آپ ﷺ کی محبت کے ساتھ بالکل ملی ہوئی ہے۔ آپ ﷺ سے محبت ہو گی تو اللہ کی محبت حاصل ہو گی اور اللہ کی محبت ہو گی تو آپ ﷺ کی محبت ملے گی۔ یہ دونوں چیزیں ایک ددوسرے پر منحصر ہیں۔ اگر آپ ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہوئی تو اللہ کی محبت بھی حاصل نہیں ہو گی۔

اگر آپ کو اللہ پاک کے ساتھ محبت ہو گی تو آپ کے دل میں اللہ جل شانہ کی بات کی اہمیت ہو گی جس کے نتیجہ میں آپ اللہ جل شانہ کے احکام پر بآسانی عمل کر سکیں گے، آپ کو اللہ پاک کی کسی بات میں کوئی اشکال نہیں ہو گا، جو اللہ کا محبوب ہے وہ آپ کا بھی محبوب بن جائے گا۔ آپ ﷺ اللہ پاک کے حبیب ہیں اور اللہ چاہتا ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت کی جائے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ میں اللہ کے ساتھ محبت کرتا ہوں لیکن اسے آپ ﷺ کے ساتھ محبت نہیں ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا دعویٰ جھوٹا ہے، اگر اسے اللہ کے ساتھ محبت ہوتی تو آپ ﷺ کے ساتھ بھی محبت ہوتی کیونکہ اللہ ہی کا حکم ہے کہ آپ ﷺ کے ساتھ محبت رکھو۔ جس کو اللہ کے ساتھ محبت ہو گی وہ اللہ پاک کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بھی تعلق رکھے گا، لہذا اسے آپ ﷺ کے ساتھ بھی تعلق رکھنا پڑے گا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جتنا جتنا تعلق آپ ﷺ کے ساتھ حقیقی معنوں میں بڑھے گا اتنی اتنی اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھے گی۔ درود شریف پڑھنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نبی ﷺ پر درود بھیجو، نبی ﷺ پر درود بھیجنا نبی ﷺ سے محبت کی علامت ہے، جس بندے کے دل میں نبی ﷺ کی محبت ہے اللہ اس سے محبت کرتا ہے۔

سوال نمبر9:

درود شریف کے آخر میں ہے: ”اِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ“ یعنی ”اے اللہ بیشک تو تعریف کے لائق ہے بزرگی والا ہے“۔ اس کی تشریح فرما دیں۔

جواب:

مَجِیْدٌ مَجْد سے ہے جس کا معنی ہے: بزرگی والا۔ جبکہ حَمِیْدٌ حمد سے ہے جس کا معنی ہے: تعریف والا۔

مجید سے مراد ایسی ذات جس کی بزرگی و عظمت کا مدار کسی اور پر نہ ہو، وہ بذاتِ خود بزرگی و عظمت والا ہو۔ حمید سے مراد وہ ذات جو تعریف کے قابل ہو چاہے اس کی کوئی تعریف کرے یا نہ کرے، اسے کسی اور کے تعریف کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہ پڑتا ہو، اسے کسی اور کی تعریف کی کوئی ضرورت نہ ہو، وہ اپنی ذات میں ہی تعریفوں والا ہو۔ جیسے کسی بہت بڑے پہلوان کی کوئی تعریف نہ کرے تو اس کی پہلوانی ختم نہیں ہو گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی کوئی تعریف نہ کرے پھر بھی وہ لائق تعریف ہے، وہ خود ہی قابل تعریف ہے۔

سوال نمبر10:

علماء سے سنا ہے کہ جب آدمی نماز میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے تو ہر آیت کا اللہ کی طرف سے جواب آتا ہے۔ اس میں کیا حکمت ہے؟

جواب:

اللہ پاک نے خود قرآن پاک میں فرمایا ہے:

﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرہ: 152)

ترجمہ: ”لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا“۔

نماز بھی اللہ کی یاد اور اللہ کا ذکر ہے۔ جب انسان اللہ پاک کو نماز میں یاد کرتا ہے تو اللہ پاک اپنی شان کے مطابق مختلف انداز سے بندے کو یاد کرتے ہیں اور جواب دیتے ہیں۔

سوال نمبر11:

ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو ایک بالشت اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ایک ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جو ایک ہاتھ متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ دو ہاتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور جو چل کے آتا ہے اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف دوڑ کے آتی ہے۔ اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

در اصل انسان اللہ پاک کو اپنی استطاعت کے مطابق یاد کرتا ہے اور اللہ کی طرف اپنی بشری طاقت کے مطابق متوجہ ہوتا ہے تو اللہ پاک اسے اپنی لا محدود شان کے مطابق یاد کرتا ہے اور اپنے بندے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے کیونکہ اللہ پاک اپنا ہاتھ غالب رکھتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بندہ زیادہ کام کرے اور اللہ پاک اس کو کم دے بلکہ اللہ پاک اس سے کئی گنا زیادہ دیتا ہے۔ انسان نیکی کا ایک کام کرتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں دس نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے۔ لہٰذا اللہ کی بارگاہ میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم کوئی کام کرو اور وہ ضائع ہو جائے۔ بلکہ وہ مزید بڑھے گا اور اس میں برکت ہو گی۔

سوال نمبر12:

حضرت جی ایک شخص کی قلب سازی ہوئی ہے اور دوسرے انسان کی ذہن سازی ہوئی ہے۔ پہلے کو دل سے تمام فضائل اور رذائل کا احساس ہے جبکہ دوسرے کو علمی اور ذہنی طور پہ ان چیزوں کا پتا ہے۔ کیا دونوں کے معاشرتی معاملات میں فرق ہو گا؟

جواب:

یقیناً فرق ہو گا۔ قلب سازی کے اندر کسی حد تک ذہن سازی بھی شامل ہو جاتی ہے کیونکہ ذہن جسم کا ایک حصہ ہے جبکہ قلب جسم کا بادشاہ ہے۔ جس کا دل درست ہو گا اس کا ذہن بھی درست ہو جائے گا۔ لیکن جس کا ذہن ٹھیک ہو ضروری نہیں کہ اس کا قلب بھی ٹھیک ہو جائے۔ کیونکہ ذہن صرف ایک جز ہے۔ ایک جز کے ٹھیک ہونے سے ضروری نہیں کہ مرکزی حصہ بھی ٹھیک ہو گیا ہو۔ مثلاً ذہن کہہ رہا ہے سگریٹ نوشی نہیں کرنی، لیکن دل نہیں مان رہا اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہن سازی تو ہو گئی مگر قلب سازی نہیں ہوئی۔ اگر دل کی اصلاح نہیں ہوئی ہو گی تو وہ نفس کے زیرِ اثر ہو گا اور اسی بات کی طرف راغب ہو گا جس کی ترغیب نفس دلائے گا۔ صرف عقل کی اصلاح مکمل اصلاح نہیں ہوتی بلکہ مکمل اصلاح تب ہوتی ہے جب عقل، نفس اور قلب تینوں کی اصلاح ہو جائے۔

سوال نمبر13:

کہا جاتا ہے کہ صوفی آزاد ہوتا ہے۔ اس قول سے کیا مراد ہے؟ بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ شریعت کی حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔

جواب:

یہ قول در اصل قلندروں کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ قلندر شریعت سے آزاد ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ لوگ غلط کہتے ہیں، قلندر شریعت سے نہیں بلکہ اپنے نفس کے شکنجہ سے آزاد ہوتا ہے، لوگوں کے اثر سے آزاد ہوتا ہے، اللہ کے حکم کے علاوہ کسی اور چیز کی پروا نہیں کرتا۔

خواجہ امیر خسرو رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے شیخ کے ساتھ بڑی محبت کرتے تھے۔ لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو بت پرستی کرتا ہے۔ وہ لوگ شیخ کے ساتھ محبت کو بت پرستی کہنے لگے۔ امیر خسرو نے فرمایا:

خلق می گویَد کہ خُسرو بُت پرستی می کُنَد

آرے آرے می کُنَم، با خلق ما را کار نیست

”لوگ کہتے ہیں کہ خسرو بت پرستی کرتا ہے، ہاں ہاں، میں کرتا ہوں مجھے خلق سے کوئی کام نہیں ہے“۔

اس طرح کے آدمی کو قلندر کہتے ہیں جو لوگوں کی پروا نہ کرے۔ صوفی اور قلندر لوگ واقعتاً آزاد ہوتے ہیں لیکن شریعت سے نہیں بلکہ اپنے نفس سے اور لوگوں سے آزاد ہوتے ہیں۔ شریعت کا حکم ماننے میں نفس اور دنیا کی پروا نہیں کرتے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

اِنْ کَانَ رِفْضًا حُبُّ اٰلِ مُحَمَّدٍ

فَلْیَشْہَدِ الثَّقَلَانِ اَنِّی رَافِضِیٌّ

ترجمہ: ”اگر آلِ محمد سے محبت رکھنا رفض ہے تو اے لوگو! گواہ رہو کہ میں رافضی ہوں“۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ اس لئے نہیں کہا کہ وہ شیعہ تھے بلکہ اس لئے کہا کہ وہ اہل بیت کی محبت میں لوگوں کی پروا نہیں کرتے تھے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ صوفی و قلندر کا آزاد ہونا بھی اسی قبیل سے ہے کہ وہ لوگوں کی پروا نہیں کرتے۔

سوال نمبر14:

علماء سے سنا ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو روم و فارس پر فتوحات حاصل ہوئیں تو بعض صحابہ ایسے بھی تھے جو کئی ہزار درہم کا جوڑا پہن کر تہجد کی نماز پڑھتے تھے۔ اس بارے میں وضاحت فرما دیں۔

جواب:

در اصل ایسی باتیں موقع و محل سے تعلق رکھتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے جس وقت جو حالت ہوتی تھی اس کا حق ادا کرتے تھے۔ قرآن پاک میں حکم دیا گیا ہے:

﴿وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحیٰ: 11)

ترجمہ: ”اور جو تمہارے پروردگار کی نعمت ہے اس کا تذکرہ کرتے رہنا“۔

جب وہ کسی نعمت کا اظہار کرتے تھے تو در اصل اللہ پاک کے اسی حکم کی تعمیل کر رہے ہوتے تھے۔ ان کا جذبہ یہ ہوتا تھا کہ اللہ نے ہمیں یہ نعمت اس لئے دی ہے کہ ہم اس کو ظاہر کریں تاکہ اللہ خوش ہو جائے۔ وہ مہنگے کپڑے بھی اللہ پاک کو خوش کرنے کے لئے پہنتے تھے۔

حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ایک مرتبہ بتایا کہ ”میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں۔ تو اس کو منظور کروا دے اور اس پر جو پیسے ملیں ان سے مجھے حج کی توفیق عطا فرما“۔ کہتے ہیں کہ میری وہ دعا قبول ہو گئی، میری کتاب منظور ہو گئی اور اس کے جتنے پیسے آئے تھے میں ان سے سیکنڈ کلاس ٹکٹ لے کر حج کرنے جا سکتا تھا۔ لوگوں نے مجھے کہا کہ تم تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے لو اس طرح کچھ پیسے بچ جائیں گے۔ میں نے کہا کہ اللہ نے مجھے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ بھیجا ہے تو میں سیکنڈ کلاس میں ہی جاؤں گا، تھرڈ کلاس میں نہیں جاؤں گا۔

اب غور کریں کہ اللہ پاک نے انہیں نعمت دی تھی تو انہوں نے اس کا اظہار کیا، سیکنڈ کلاس کی ٹکٹ لی اور اس کا مقصد اللہ کی رضا ہی تھا۔

ایک مرتبہ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کسی حکیم صاحب کے ہاں مہمان ہوئے۔ اتفاق سے اس دن اس حکیم صاحب کے ہاں کھانے کو کچھ نہیں تھا وہ فاقہ کی حالت میں تھے۔ انہوں نے حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ ہمارے گھر میں تو آج فاقہ ہے کھانے کو کچھ نہیں ہے، یہاں آپ کے بہت سارے مرید ہیں، کیا میں کسی مرید سے بات کر لوں کہ آپ ان کے گھر ٹھہر جائیں؟ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ ہم آپ کے مہمان ہیں، جب آپ کے ہاں فاقہ ہے تو ہمارا بھی فاقہ ہے، ہم یہیں ٹھہریں گے۔ خیر حضرت وہیں ٹھہر گئے۔ عشاء کی نماز کے بعد کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، حکیم صاحب نے جا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ کسی آدمی نے حکیم صاحب کے کچھ پیسے دینا تھے وہی ادا کرنے آیا ہے۔ حکیم صاحب وہ پیسے لے کر مسکراتے ہوئے اندر آئے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ سے کہا کہ حضرت آپ نے ہمارا فاقہ منظور کیا تھا، اب اللہ پاک نے انتظام کر دیا ہے، اب ہم جو خاطر مدارت کریں گے اس سے منع مت کیجئے گا منظور فرمائیے گا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بھئی میں بھلا کیوں روکوں گا جو بھی میزبانی کرنا چاہو بلا تردد کرو۔

یہ ہوتا ہے ہر قسم کی حالت کا حق ادا کرنا۔ پہلے کچھ نہیں تھا تو اس حالت کو بھی قبول فرما لیا اور کہا کہ میزبان کا فاقہ ہے تو مہمان کا بھی فاقہ ہے، ہم تمہارے ہاں ہی ٹھہریں گے، بعد میں انتظام ہو گیا تو پر تکلف خاطر مدارت کو بھی قبول فرما لیا۔ نبی ﷺ کا بھی یہی طریقہ تھا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی طریقہ تھا اور اللہ کے ولیوں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔ یہ لوگ حالات کے غلام نہیں ہوتے، چیزوں کے غلام نہیں ہوتے بلکہ ان کو اپنا غلام بناتے ہیں۔

حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے صوفی اور مجددِ وقت تھے، ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہر روز ایک نیا جوڑا پہنتے تھے، جو جوڑا ایک مرتبہ پہنتے تھے اسے دوبارہ نہیں پہنتے تھے۔ کسی نے سوچا کہ یہ تو بڑا دنیا دار آدمی ہے کہ روزانہ نیا جوڑا پہنتا ہے۔ ایک دن ایسا ہوا کہ بارش ہو رہی تھی جس کی وجہ سے مسجد کی کچی چھت سے پانی ٹپکنا شروع ہو گیا اور اس جگہ پر ذرا کیچڑ ہو گیا۔ نماز کا وقت ہوا، سب لوگ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو وہ جگہ خالی رہ گئی۔ دائیں بائیں صف پُر ہو گئی لیکن اس جگہ کوئی کھڑا نہیں ہوا۔ اتنے میں حضرت سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، آج بھی انہوں نے حسب معمول نیا جوڑا پہنا ہوا تھا۔ مسجد میں آئے اور عین اسی جگہ کھڑے ہو گئے جس جگہ صف خالی تھی۔ انہوں نے اپنے کپڑوں کی پروا نہیں کی کہ کپڑے خراب ہو جائیں گے۔ تب اس آدمی کے اوپر یہ بات کھل گئی کہ جیسا میں نے سوچا تھا معاملہ ویسا نہیں ہے، یہ آدمی دنیا دار نہیں ہے۔

ایک مرتبہ کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ روزانہ نیا جوڑا کیوں پہنتے ہیں؟ فرمایا: میں کیا کروں ایک آدمی مجھ پر مسلط ہے، وہ سال کے آغاز میں آتا ہے اور تین ساڑھے تین سو جوڑے مجھے دے دیتا ہے، کہتا ہے کہ آپ نے روزانہ ایک جوڑا پہننا ہے، دوبارہ وہ جوڑا نہیں پہننا۔ مجھے مجبوراً روزانہ نیا جوڑا پہننا پڑتا ہے۔

بہر حال اللہ والوں سے جو اس طرح کے واقعات منقول ہیں ان میں وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ تحدیث بالنعمت کے حکم پہ عمل کر رہے ہوتے ہیں۔

سوال نمبر15:

ایک دعوت قول سے ہوتی ہے جس میں آدمی بول کر دعوت دیتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے۔ ایک خاموش دعوت بھی ہوتی ہے جو عمل کے ذریعے دی جاتی ہے۔ جیسے انگریز ٹائی پہن کر دنیا بھر میں گیا تو یہ چیز پوری دنیا میں عام ہو گئی۔ اسی طرح دین کی خاموش دعوت بھی ہوتی ہے۔ کیا صوفیاء کے اندر کا اخلاص اور صفاتِ حمیدہ بھی خاموش دعوت کے قبیل سے ہیں؟

جواب:

صوفیاء کرام میں خاموش دعوت کا عنصر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ شیخ بعض دفعہ کسی کو کچھ نہیں کہتا کہ فلاں کام کرو لیکن اس کے مرید خود بخود وہ کام شروع کر لیتے ہیں۔

ایک دفعہ میاں بشیر صاحب نے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے کہہ دیا کہ حضرت آپ کے مریدوں کے لئے تو سیون اپ بوتل آپ کی سنت ہو گئی ہے۔ کیونکہ حضرت صاحب سیون اپ بوتل بہت پیتے تھے اور ان کے تقریباً تمام مرید بھی یہی بوتل پیتے تھے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میں سیون اپ پیتا تھا اور دل میں یہی بات تھی کہ مولانا صاحب بھی پیتے ہیں اس لئے میں بھی پیئوں گا مگر کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ میں کوئی خاص کام کر رہا ہوں بس دل کی ایک حالت تھی جس پہ میں نے کبھی غور نہیں کیا تھا۔ جب میاں بشیر صاحب نے ایسا کہا تو مجھے بھی اپنی حالت یاد آ گئی کہ بات تو اس طرح ہی ہے۔ خیر جب میاں بشیر صاحب نے مولانا صاحب سے یہ بات کہی تو مولانا صاحب بہت خوش ہوئے اور خوشی میں یہ دعا کی کہ اللہ تعالیٰ میرے سارے مریدوں کو جنتی بنا دے۔

میں نے بارہا اس کا مشاہدہ کیا کہ حضرت نے کسی کے کہے بغیر اپنے دل سے جو دعا دی وہ کبھی رد نہیں ہوئی۔ ہمارے ہاں یہ بات اتنی مشہور ہو چکی تھی کہ حضرت کی دعا پیشین گوئی کا درجہ حاصل کر چکی تھی جب حضرت اس انداز میں کوئی دعا کرتے تھے تو سب سمجھتے تھے کہ اب یہ کام ضرور ہو گا۔ میں جو شاعری کرتا ہوں اس کے پیچھے بھی در اصل حضرت کی دعا ہی ہے۔ حضرت نے مجھے دعا دی تھی کہ اللہ پاک آپ سے اچھا کلام کہلوائے۔ میں پہلے پہل کوئی شاعری وغیرہ نہیں کرتا تھا، جب حضرت نے دعا دی تو اس کے کافی عرصہ بعد تک مجھ سے کسی کلام کا صدور نہیں ہوا، میں حیران ہو گیا کہ حضرت نے دعا دی ہے کہ اللہ آپ سے اچھا کلام کہلوائے لیکن میں کچھ ایسا نہیں کہہ پا رہا۔ اس کے کافی عرصہ بعد، آج سے تقریباً تین چار سال پہلے جب اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں شروع کروا دیں تو مجھے احساس ہوا کہ حضرت کی یہ دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔

واقعتاً خاموش دعوت صوفیا میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ صوفیا حضرات جس طرح اٹھتے بیٹھتے ہیں، چلتے پھرتے ہیں، رہتے سہتے ہیں اور کھاتے پیتے ہیں، آہستہ آہستہ مریدوں پر وہ اثر بننا شروع ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر16:

کیا عمامہ پہننا سنت ہے؟

جواب:

یقیناً عمامہ پہننا سنت ہے، لیکن سنتِ مستحبہ ہے، جو اس پر عمل کرتا ہے بلاشبہ وہ ثواب کا مستحق ہو گا لیکن جو عمامہ نہیں پہنتا اسے گناہ نہیں ہو گا اور اسے ملامت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سنت کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ کچھ لوگوں نے سوچا کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے مسجد میں رکھیں اور مسجد سے نکلتے وقت بایاں پاؤں مسجد سے باہر پہلے رکھیں جبکہ جوتا پہنتے ہوئے دایاں پاؤں پہلے جوتے میں داخل کرنا سنت ہے۔ دیکھتے ہیں حضرت آج مسجد سے نکلتے ہوئے دونوں سنتوں پر کیسے عمل کرتے ہیں۔ جب حضرت مسجد سے باہر نکلنے لگے تو بایاں پیر پہلے نکال کے بائیں جوتے کے اوپر رکھ دیا اور پھر دایاں پیر نکال کر جوتے کے اندر ڈالا اس کے بعد بایاں پیر جوتے کے اوپر سے اٹھا کر جوتے میں داخل کر لیا۔ اس طرح دونوں سنتوں پہ عمل ہو گیا۔

سنتوں پہ عمل کرنے کا طریقہ یہ بھی ہے کہ بزرگوں کو دیکھتے رہو تو سنت کا علم ہوتا ہے اور پھر سنت پہ عمل نصیب ہوتا ہے۔

سوال نمبر17:

حضرت اتباعِ سنت کی ترغیب کے لئے کہا جاتا ہے کہ جو جتنا متبع سنت ہو گا وہ اتنا اللہ کے قریب ہو گا۔ آج کل اسی سلسلے میں ایک بات یہ کہی جاتی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے لباس میں کالر نہیں ہوتا تھا، ان کی قمیصوں کا گلا گول ہوتا تھا، لہٰذا آج کل جس کی قمیص کا گلا گول ہو گا وہ سنت کے زیادہ قریب ہو گی جبکہ کالر والی قمیص سنت کے قریب نہیں ہے۔ اسی طرح وہ لباس جو ٹخنوں سے اوپر ہو وہ سنت کے زیادہ قریب ہے بہ نسبت اس کے جو ٹخنوں سے نیچے ہو۔ اس بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں۔

جواب:

ہر مسلمان کے لئے جس طرح یہ بات ضروری ہے کہ وہ سنت کی قدر کرے اسی طرح یہ بات بھی ضروری ہے کہ شیطان کو اپنے کسی عمل سے فائدہ نہ اٹھانے دے۔ کسی پر بدگمانی نہیں کرنی چاہیے، بعض لوگ بد گمانی کرنے کی وجہ سے بزرگوں کی صحبت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ایک سنت مستحبہ پہ ایک بزرگ کا عمل نہیں ہے تو اس سے بد گمان ہو جاتے ہیں اور اس کی صحبت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اس بزرگ کا عمل صرف کچھ سنن مستحبہ پر نہیں ہوتا، ان کے علاوہ وہ بزرگ تمام فرائض و واجبات اور سنن مؤکدہ بڑی پابندی سے پورے کر رہے ہوتے ہیں، بڑے بڑے اعمال پر ان کا مکمل عمل ہوتا ہے مثلاً معاملات کی صفائی، اخلاق، معاشرت وغیرہ۔ لیکن لوگ ان چیزوں کو نہیں دیکھتے محض کسی ایک سنت مستحبہ کے ترک کی وجہ سے بد گمان ہو جاتے ہیں۔

ہمارے حضرت حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ معاملات کے اتنے صاف تھے کہ میں حیران ہوتا تھا لیکن ان میں بعض ایسی چیزیں نہیں تھیں جو عوام میں بزرگی کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کے خاندان والوں نے بھی ان سے کما حقہ فائدہ نہیں اٹھایا اور عام لوگ بھی ان کا مقام نہیں پہچان سکے۔ میں ان کی کچھ باتیں آپ کو بتاتا ہوں آپ حیران ہو جائیں گے کہ وہ کس درجہ کے ولی اللہ تھے۔

اپنی زندگی میں انہوں نے اپنے جنات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔

جب ان کے بڑے بھائی فوت ہوئے تو ان کی ساری جائیداد کا زیادہ حصہ بھائیوں میں تقسیم ہوا کیونکہ ان کا کوئی بیٹا نہیں تھا، اس لئے زیادہ حصہ بھائیوں کے پاس آ گیا اور باقی حصہ دس بیٹیوں میں تقسیم ہو گیا۔ تب حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا حصہ نہیں لیا اور کہا کہ یہ حصہ میرے بڑے بھائی کی غیر شادی شدہ بیٹیوں کے لئے ہے۔

آخری عمر میں ان کی آنکھ میں کوئی بیماری آ گئی جس کی وجہ سے ایک آنکھ کی نظر مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ ان کے گھر میں زیادہ تر لوگ ڈاکٹر تھے، بھتیجے ڈاکٹر تھے، بیٹیاں بھی ڈاکٹر تھیں، گویا ان کا گھر ڈاکٹروں کا ایک کیمپ تھا۔ لیکن اس کے با وجود جو بیماری آنی تھی وہ تو ان پر آ گئی۔ ایک مرتبہ میں نے ان سے کہا کہ حضرت آپ نے مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے بارے میں دعا کروائی ہے؟ آپ ان سے بھی دعا کے لئے کہہ دیں۔ میرا اتنا کہنا تھا کہ حلیمی صاحب سخت غصے میں آ گئے، کہنے لگے: کیا میرا شیخ میرا تعویذ ہے کہ میں اس سے یہ باتیں کروں گا؟ کیا شیخ اس کام کے لئے ہوتا ہے؟

آپ ان سب باتوں پہ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ معمولی باتیں نہیں ہیں، ان کے لئے بڑے دل گردے اور ہمت کی ضرورت ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات تو نہیں ہے کہ ایک آدمی کی آنکھ ختم ہو جائے اور وہ اپنے شیخ کو اس بارے میں دعا کے لئے بھی نہ کہے اس خیال سے کہ یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔

لیکن لوگ ان بڑی چیزوں کو نہیں دیکھتے ان کی نظر چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہوتی ہے۔ بلاشبہ نبی کریم ﷺ کی ساری سنتیں اپنانی چاہئیں لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کوئی آدمی کسی سنتِ مستحبہ پر عمل نہیں کر رہا اور باقی معاملات میں ٹھیک ہے تو اس پر بد گمانی نہیں کرنی چاہیے۔

سوال نمبر18:

علماء سے ایک واقعہ سنا ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ کے اکلوتے بیٹے نے کسی یہودی کو قتل کر دیا۔ بادشاہ کی عدالت میں مقدمہ پیش ہوا تو معلوم ہوا کہ شہزادے نے مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دے دیا ہے اور وہ لوگ خوں بہا لے کر راضی ہو گئے ہیں۔ بادشاہ نے بیٹے سے کہا کہ میں یہ روایت نہیں قائم کرنا چاہتا کہ بادشاہوں کی اولاد پیسوں کے گھمنڈ میں قتل کر کے دیت دے کر چھوٹ جایا کرے۔ اس لئے میرا فیصلہ یہ ہے کہ قصاص لیا جائے گا لیکن تمہارے بغیر میں بھی نہیں جی سکوں گا۔ یہ کہہ کر خود ہی تلوار سے بیٹے کا سر اڑا دیا اور دو ہفتے بعد خود بھی فوت ہو گیا۔ کیا اس کا یہ عمل درست تھا؟ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:

بادشاہ کے اخلاص میں تو ہم کوئی شبہ نہیں کرتے۔ لیکن کیا دیت دینے کے بعد اسے اپنے بیٹے کو قتل کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ اس کا یہ کام غلط ہے یا درست؟ اس کا فیصلہ ہم خود نہیں کرتے، یہ مفتیان کرام کا شعبہ ہے ہم اس کا فیصلہ ان پر چھوڑتے ہیں۔

سوال نمبر19:

کیا مغلوب الحال کوئی ایک فرد ہوتا ہے یا پوری ایک جماعت بھی ہو سکتی ہے؟

جواب:

دونوں صورتیں ممکن ہیں۔ مغلوب الحال کوئی ایک فرد بھی ہو سکتا ہے اور کئی لوگ اجتماعی طور پر بھی مغلوب الحال ہو سکتے ہیں، غلبۂ حال کے بارے میں ضروری نہیں کہ تصوف میں کیفیات کا ہی غلبہ ہو بلکہ کسی بھی کام کی وجہ سے لوگ مغلوب الحال ہو سکتے ہیں۔ البتہ مغلوب الحال لوگ قابل اقتداء نہیں ہوتے۔ آپ ان کو معذور سمجھ سکتے ہیں لیکن ان کی اقتدا جائز نہیں ہے چاہے وہ کسی بھی کام کے حوالے سے مغلوب الحال ہوں۔ کسی پر تصوف کے حوالے سے جذب طاری ہو، کسی پر مدارس کے حوالے سے غلبۂ حال طاری ہو، کسی پر سیاست کے حوالے سے غلبۂ حال طاری ہو، کوئی تبلیغ میں مغلوب الحال ہو۔ الغرض جب کوئی آدمی کسی بھی شعبے میں مغلوبیت کے درجہ میں چلا جائے تو پھر وہ قابل اقتدا نہیں رہتا۔

سوال نمبر20:

حضرت ایک مولانا صاحب بہت اچھی نماز پڑھتے ہیں۔ ایک مرتبہ ظہر کی نماز کا بہت تھوڑا وقت رہ گیا تو انہوں نے بہت مختصر نماز پڑھی، چار رکعت کو دو رکعت کے وقت میں پڑھا۔ کیا ایسا ممکن ہے؟

جواب:

جب نماز کا وقت بہت تنگ ہو، بس دو چار منٹ ہی رہتے ہوں تو نماز کو اس طرح مختصر پڑھنے کی گنجائش ہے کہ نماز کے اندر جو اعمال فرض و واجب ہیں وہ ادا کر لئے جائیں اور فرائض و واجبات کے علاوہ کچھ چیزیں چھوڑ دی جائیں یا ان کی تعداد کم کر دی جائے مثلاً تکبیر تحریمہ کے بعد ثنا چھوڑ دی جائے اور رکوع و سجود میں تین بار تسبیح کی بجائے ایک بار پڑھ لی جائے۔ اس طریقے سے نماز کو مختصر کیا جا سکتا ہے، گو ایسا کرنے سے ثواب تو کم ملے گا لیکن نماز کے قضا ہونے سے بچت ہو جائے گی۔ نماز کا قضا ہو جانا بڑا نقصان ہے اور نماز کا ثواب نسبتاً کم ملنا چھوٹا نقصان ہے، ایسی صورتحال میں کم نقصان والی صورت اختیار کر کے بڑے نقصان سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔

سوال نمبر21:

میں نے حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کی آپ بیتی میں ایک واقعہ پڑھا تھا کہ ایک مرتبہ کسی نے مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ کے کام پر اعتراض کیا تو حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ در اصل مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ پر تبلیغ کا کام اللہ کی طرف سے حاوی کر دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ جب وہ کسی کام کو کروانا چاہتا ہے تو کچھ لوگوں پر اس کام کا جذبہ اس طرح حاوی کر دیتا ہے کہ وہ لوگ اس کام کو اپنی سب سے بڑی ترجیح بنا لیتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا ایسے لوگ بھی مغلوب الحال قسم کے لوگوں میں شامل ہیں، کیا ان کی اقتدا کی جائے گی یا نہیں؟

جواب:

جی ہاں ایسے لوگوں کو بھی مغلوب الحال کہا جا سکتا ہے۔ یہ سمجھیں کہ مغلوب الحال حضرات بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم وہ ہے جن پر اپنا شعبہ حاوی ہوتا ہے لیکن وہ کسی اور کے کام پر تنقید نہیں کرتے، بس اپنے شعبہ کو ترجیح اور زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری قسم کے لوگوں پر اپنا شعبہ حاوی بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے کاموں پر تنقید بھی کرتے ہیں، صرف اپنے شعبے کو صحیح کہتے ہیں باقی سب کو کم درجہ سمجھتے ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں کی اقتدا کی جا سکتی ہے، دوسری قسم کے لوگوں کی اقتدا نہیں کی جا سکتی۔

اس کی ایک مثال ہمارا خانقاہ کا کام ہے۔ ہم دین کے باقی شعبوں اور ان میں کام کرنے والے حضرات کو بالکل درست سمجھتے ہیں اور ہماری رائے یہی ہے کہ وہ حضرات بھی دین کا کام کر رہے ہیں، لیکن ہم نے اپنے لئے خانقاہ کے کام کو ترجیح دی ہوئی ہے، اللہ پاک نے ہمارا ذہن یہ بنایا ہے کہ ہمیں یہ کام کرنا چاہیے۔ ہم مستقل طور پر یہی کام کرتے ہیں لیکن الحمد للہ ہمارے دل میں کسی اور کام کی مخالفت نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ دین کا کوئی اور کام نہ کرو۔

لہٰذا جو دوسروں کے کام پہ تنقید نہ کرے، غلط نہ سمجھے اور اپنے کام کو ترجیح دے تو اس کی اقتدا کی جا سکتی ہے، حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی قسم کے حضرات میں سے تھے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن