اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر1:
اکثر لوگوں کو جب نماز پڑھنے کا کہا جاتا ہے یا اصلاح کے لئے کسی شیخ کامل سے رابطہ کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کا حکم ہو گا، نماز پڑھ لیں گے یا رابطہ کر لیں گے۔ ایسے لوگوں کو کیا کہنا چاہیے؟
جواب:
ایسے لوگ کھانے پینے کے بارے میں بھی یہی سوچا کریں کہ جب اللہ کا حکم ہو گا تو کھائیں گے، اللہ کا حکم ہو گا تو پیئیں گے، اللہ کا حکم ہو گا تو سوئیں گے۔ ان کاموں کے بارے میں ایسا جواب کبھی نہیں دیں گے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض ان کے نفس کی شرارت ہے۔
حق اور باطل بالکل واضح ہیں۔ اللہ کا حکم آ چکا ہے کہ شریعت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لو، اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ شریعت پر عمل کرنے میں نفس اور شیطان کی طرف سے رکاوٹیں آتی ہیں۔ اس لئے نفس و عقل اور دل کی اصلاح ضروری ہے۔ جب اصلاح ہو جائے تو پھر شریعت پر عمل کرنا، اللہ کے احکام ماننا اور نواہی سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا۪ۙ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے“۔
معلوم ہوا کہ شریعت پر عمل کرنے کے لئے اپنی اصلاح ضروری ہے، جب اصلاح ضروری ہے تو اصلاح کے ذرائع بھی ضروری ہوں گے۔ اگر کوئی آدمی بیمار ہو تو اس کے لئے صحت ضروری ہے، جب صحت ضروری ہے تو صحت کے ذرائع بھی ضروری ہوں گے، ڈاکٹر سے رابطہ کرنا، دوا کھانا اور پرہیز کرنا بھی ضرور ہو گا۔ اگر کوئی بیمار ہو جائے اور کہے کہ اللہ کا حکم ہو گا تو ڈاکٹر سے رابطہ کر لوں گا، اللہ کا حکم ہو گا تو دوائی کھا لوں گا۔ ایسے آدمی کو کہیں گے کہ جب خود کوئی کام نہ کرنا چاہ رہے ہوں تو اس کے لئے ”اللہ کا حکم ہو گا تو کر لیں گے“ نہیں کہتے۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے لوگ ”ان شاء اللہ“ کہہ دیتے ہیں لیکن ان کی نیت کام کرنے کی نہیں ہوتی۔ حالانکہ ”ان شاء اللہ“ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کام کو نہیں کرنا بلکہ ”ان شاء اللہ“ کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنی پوری کوشش کروں گا ہاں اگر اللہ نے نہ چاہا تو میرے چاہنے کے با وجود یہ کام نہیں ہو گا۔
لہٰذا جو لوگ ایسا کہتے ہیں در اصل وہ اپنی اصلاح کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اس قوم کی حالت تو اللہ بھی نہیں بدلتا جو خود اپنی حالت نہ سدھارنا چاہے۔ اللہ نے ہر کام کے اسباب بنائے ہیں، کوئی بھی کام کرنے کے لئے اس کے اسباب کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اسباب اختیار کرنے کے بعد نتیجہ اللہ پاک کے ہاتھ میں ہے، وہ جیسے چاہے گا کر دے گا۔
سوال نمبر2:
جب سب کچھ پہلے سے ہی تقدیر میں لکھا ہوا ہوتا ہے تو ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ آدمی کو ایسا کرنا چاہیے تھا یا اگر یہ اس بات کی قدرت رکھتا تو کر لیتا۔ نیز تقدیر مبرم اور تقدیر معلق میں فرق بتا دیجئے۔
جواب:
میں ایک واقعہ سناتا ہوں امید ہے اس میں سوال کا جواب مل جائے گا۔
ایک دفعہ انٹرویو کے دوران مجھ سے سوال کیا گیا کہ سورہ فاتحہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ سورہ فاتحہ قرآن پاک کی ایک سورت ہے، اس میں ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں۔
انٹرویو لینے والے نے کہا: ہونا تو وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہے تو پھر دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
میں نے کہا: آپ نے جتنا کہا، آپ کو بس اتنا ہی پتا ہے، مجھے اس سے زیادہ پتا ہے۔
اس نے کہا: آپ کو کیا پتا ہے ہمیں بھی بتائیے۔
میں نے کہا: مجھے یہ پتا ہے اور میرا اس بات پر ایمان ہے کہ اللہ پاک کا کوئی کام بے فائدہ نہیں ہوتا، اللہ پاک کے ہر حکم میں انسان کا کوئی نہ کوئی فائدہ ضرور ہے۔ اللہ پاک نے دعا مانگنے کا با قاعدہ حکم دیا ہے، فرمایا:
﴿اُدۡعُوۡنِىۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَـكُمْ﴾ (غافر: 60)
ترجمہ: ”مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا“۔
لہذا ہم تو دعا کریں گے آپ لوگ چاہے کریں یا نہ کریں آپ کی اپنی مرضی ہے، ہم تو ضرور کریں گے کیونکہ ہمیں اللہ کا حکم ہے اور اللہ پاک کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہوتا۔
اس واقعہ کو سامنے رکھ کر یہ سمجھیں کہ اسباب اختیار کرنا بھی اللہ کا حکم ہے۔ ہونا تو وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہے، اس کے با وجود اللہ نے اسباب اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور اللہ پاک کا کوئی حکم بے فائدہ نہیں ہوتا لہٰذا اسباب اختیار کرنے میں بھی ہمارا فائدہ ہے۔ اگر کوئی شخص بھوک ہڑتال کرے گا، کچھ نہیں کھائے گا اور مر جائے گا تو یہ خود کشی ہے، اس پہ اس کی پکڑ ہو گی۔ اس کی پکڑ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اس نے مرنے کے اسباب اختیار کیے اور اللہ نے ایسے اسباب اختیار کرنے سے منع کیا ہے، ورنہ مارنا اور زندہ کرنا تو اللہ پاک ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کے با وجود اس طریقے سے مرنے پر آدمی کو سزا ملے گی۔
ایک دفعہ کسی آدمی کو پیچھے سے کسی نے پتھر مارا۔ اس نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ پتھر مارنے والے نے کہا: پیچھے کیوں دیکھتے ہو، یہ پتھر تمہاری تقدیر میں لکھا تھا اس وجہ سے تمہیں مارا گیا ہے“۔ پتھر کھانے والے نے جواب دیا کہ یہ بات تو مجھے معلوم ہے میں بس یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کارِ بد کے لئے تقدیر نے کسے استعمال کیا ہے۔
مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسی سلسلے میں ایک دلچسپ حکایت لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک گنے کے کھیت میں کوئی چور آ گیا اور گنے توڑ توڑ کر چوسنے لگا۔ مالک کو پتا چل گیا، اس نے چور کو پکڑ لیا، چور نے کہا: تم مجھے کیوں پکڑ رہے ہو، کھیت بھی اللہ کا، تو بھی اللہ کا، میں بھی اللہ کا، اگر میں نے اللہ کا رزق لے لیا تو تمہارا کیا نقصان کیا۔ کھیت کے مالک نے اپنے خادم سے کہا کہ ذرا رسی اور ڈنڈا لے کر آؤ اور اسے باندھ کے ٹھکائی کرو۔ جب چور کو مار پڑی تو وہ چیخنے لگا۔ مالک نے کہا: چیختا کیوں ہے، تو بھی اللہ کا، میں بھی اللہ کا، رسی بھی اللہ کی، ڈنڈا بھی اللہ کا، اب اگر اللہ کی ایک مخلوق دوسری مخلوق پہ برس رہی ہے تو اس میں چیخنا کیسا۔
اس پر اس کی آنکھیں کھلیں اور اس نے کہا: اختیار اختیار اختیار۔
یعنی جب مار پڑی تو اسے پتا چلا کہ سب کچھ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے مگر انسان جن اسباب کو اختیار کرتا ہے ان کا ذمہ اس کے سر ہوتا ہے۔
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ جب اللہ پاک نے سب کچھ لکھا ہے تو پھر بس گھر بیٹھ جاؤ، کیوں محنت کرتے ہو، دنیا کے لئے کیوں دھکے کھاتے پھرتے ہو، سب کچھ چھوڑ کر گھر بیٹھ جاؤ اگر قسمت میں ہو گا تو تم تک پہنچ جائے گا۔ لوگوں نے تقدیر کو مذاق بنایا ہوا ہے اور جن کاموں کو اپنی مرضی سے نہیں کرنا چاہتے ان کے لئے ایک بہانہ بنایا ہوا ہے۔ حالانکہ تقدیر اللہ پاک کی صفات میں سے ایک صفت ہے، اِس کے ساتھ مذاق نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا وہی مفہوم اور وہی تفصیل ماننی چاہیے جو اللہ پاک اور اس کے رسول نے بتائی ہے۔
تقدیر کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اس پر اجمالی ایمان لانا ضروری ہے اور اس کی تفصیل میں جانا منع ہے۔ اس کو کھیل نہیں بنانا چاہیے۔
تقدیر مبرم اور تقدیر معلق میں فرق یہ ہے کہ تقدیر مبرم حتمی بات ہوتی ہے۔ جبکہ تقدیر معلق میں فیصلہ کن بات کسی شرط کے ساتھ متعلق کر دی جاتی ہے۔ مثلاً ایک آدمی بیمار ہے تو اس کے بارے میں تقدیرِ معلق یوں لکھی ہو گی کہ اگر اس نے علاج کر لیا تو بچ جائے گا ورنہ مر جائے گا جبکہ تقدیر مبرم حتمی بات ہوتی ہے مثلاً کسی بیمار کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا ہو کہ یہ علاج کرے یا نہ کرے اس بیماری میں اس کی موت آ جائے گی تو اسے تقدیر مبرم کہیں گے۔
سوال نمبر3:
موبائل پر قرآن اور حدیث کے میسجز آتے ہیں، جنہیں بسا اوقات ڈیلیٹ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ ایسا کرنا بے ادبی میں تو نہیں آتا؟
جواب:
موبائل پر نظر آنے والی ساری چیزیں اصل میں بائنری نمبرز ہوتے ہیں۔ ان کا حکم کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر جیسا نہیں ہوتا۔ اسی لئے اگر موبائل کی سکرین پر قرآن لکھا ہوا ہو تو اس موبائل کو بغیر وضو کے ہاتھ میں اٹھا سکتے ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے آئینہ میں قرآن پاک کے حروف نظر آ رہے ہوں تو اس آئینہ کو ہاتھ لگانے کا حکم قرآن کو ہاتھ لگانے کی طرح نہیں ہو گا۔ ہاں ادب کا خیال رکھنا ایک علیحدہ بات ہے۔ اگر آپ موبائل کی سکرین پر نظر آنے والے قرآن کے حروف یا احادیث کے حروف کو ڈیلیٹ کرتے ہیں تو در اصل آپ نے ان حروف کو ڈیلیٹ نہیں کیا، بلکہ حقیقت میں آپ نے کسی چیز کو ڈیلیٹ نہیں کیا صرف اپنی نظروں کے سامنے سے ہٹایا ہے، کیونکہ ان کے پیچھے جو پروگرامنگ اور نمبرز ہوتے ہیں وہ ڈیلیٹ کرنے کے بعد بھی وہیں موجود رہتے ہیں۔ اس لئے ایسا کرنا بے ادبی کے زمرے میں نہیں آتا۔
سوال نمبر3:
بعض اوقات لوگ ایک دوسرے کو ایسے میسجز فارورڈ کرتے ہیں جن میں کوئی واقعہ یا دینی بات لکھی ہوئی ہوتی ہے اور اس کے آخر میں لکھا ہوتا ہے کہ اس میسج کو مزید شیئر کریں اگر آپ اتنے بندوں کو بھیجیں گے تو آپ کو خوشخبری ملے گی، فلاں شخص نے اس میسج کو فارورڈ نہیں کیا تو اسے نقصان ہو گیا۔ ایسے میسجز کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔
جواب:
جو میسج ہمارے موبائل میں آ جائے ہم اسے حذف کریں یا باقی رکھیں اصولی طور پر یہ ہماری اپنی مرضی کی بات ہے، ہمیں کوئی اس پر ترغیب نہیں دے سکتا کہ اسے باقی رکھو یا حذف کر دو۔
ایسے میسجز کے عام ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ نیٹ ورک کمپنیوں نے با قاعدہ کچھ لوگ پیسے دے کر اس کام کے لئے بٹھائے ہوئے ہوتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ ایسے میسجز پھیلائیں تاکہ لوگ ان مسیجز کو فارورڈ کریں اور کمپنی کے پیسے بنیں۔ لوگ تو ان میسجز کو اس لالچ میں پھیلاتے ہیں کہ کوئی خوشخبری مل جائے یا کچھ لوگ اس لئے بھی فارورڈ کرتے ہوں گے کہ کسی نقصان سے بچ جائیں، لیکن در حقیقت وہ میسجز فارورڈ کر کے نیٹ ورک کمپنیوں کے پیسے بنا رہے ہوتے ہیں۔
در اصل آپ لا علمی میں اُن لوگوں کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ لہٰذا اس بات کو سمجھیں کہ اگر کوئی آپ کو میسج بھیج کر اسے آگے پھیلانے کی ترغیب دے تو اس کی بات ماننا آپ کے اوپر لازم نہیں ہے۔آپ کی اپنی مرضی ہے چاہے آگے بھیجیں یا نہ بھیجیں لیکن اس کو ایک نفسیاتی مسئلہ نہ بنائیں، یہ مت سوچیں کہ بھیجنے سے واقعتاً کوئی خوشخبری ملے گی یا نہ بھیجنے سے کوئی نقصان ہو گا۔ اُن لوگوں کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ آپ جذباتی ہو کر میسج آگے بھیج دیں۔
ایک صاحب بتا رہے تھے کہ یہ جو ٹی وی اور ریڈیو پر استخارے وغیرہ کے پروگرام ہوتے ہیں، لوگ کالیں کر کے اپنے مسائل بتاتے ہیں اور استخارے وغیرہ کرواتے ہیں، اس کی حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے باقاعدہ نیٹ ورک کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ کیا ہوا ہوتا ہے۔ کالز اور میسجز کے لئے نمبر تو انہی کمپنیوں کے استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ کمپنی کی طرف سے نرخ طے ہو تے ہیں کہ لوگ جتنی زیادہ کالیں اور میسجز کریں گے پروگرام کرنے والوں کو اتنا زیادہ حصہ ملے گا۔
کیسا عجیب دور ہے کہ لوگ بک جاتے ہیں اور انہیں پتا بھی نہیں ہوتا۔ جیب کترے اکثر ایسے کام کرتے ہیں۔ جیب کتروں کو بسا اوقات پتا چل جاتا ہے کہ فلاں کی جیب میں کتنے پیسے ہیں، ایک جیب کترا بعض اوقات اپنا شکار دوسرے جیب کترے کو بیچ دیتا ہے اسے بتا دیتا ہے کہ اس کے پاس اتنے پیسے ہیں اس کی جیب تم کاٹ لو اور ان پیسوں میں سے اتنا حصہ مجھے دے دینا۔
آج کل ایسا دور آ گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسی طرح پیسے بنا رہے ہیں۔ دجالیت تو ابھی نہیں آئی لیکن دجالی دور ضرور آ چکا ہے۔ دجالی نظام آ گیا ہے لیکن دجال ابھی نہیں آیا، اس کے لئے باقاعدہ اسٹیج تیار ہو رہا ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر4:
جادو بھی اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے، جب یہ سب چیزیں اللہ کی طرف سے طے ہیں تو منزل وغیرہ پڑھنے کے کیا اثرات ہیں؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں نیز یہ بتا دیں کہ جادو سے انسان کا ایمان بہت متاثر ہوتا ہے، اس سے حفاظت کے لئے کیا کرنا چاہیے۔
جواب:
اللہ پاک حکیم بھی ہیں اور حاکم بھی ہیں۔ اگر آپ ان دو اسمائے صفات کو جان لیں گے اور صحیح طور پہ سمجھ جائیں گے تو آپ کو بہت سارے سوالات کے جوابات مل جائیں گے۔ اللہ جل شانہ حاکم ہیں جو چاہے کر سکتے ہیں لیکن وہ ہر ایک چیز نہیں کرتے کیونکہ حکیم ہیں۔ وہی کرتے ہیں جو ان کی حکمت کے مطابق ہوتا ہے اور جو حکمت کے مطابق نہیں ہوتا وہ نہیں کرتے۔
رہا یہ سوال کہ جادو کے اثرات سے بچنے کے لئے کیا کرنا چاہیے۔ اس کا ایک بڑا سیدھا اور سادہ جواب ہے۔ جادو ایک مصیبت ہے، جب ایمان والوں پر مصیبت آئے تو وہ کیا کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ﴾ (البقرہ: 156)
ترجمہ: ”جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ”ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے“۔
ایمان والوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جادو بھی ایک مصیبت ہے۔ اگر انسان اللہ پاک کی طرف رجوع رکھے اور کچھ احتیاطی تدابیر کرتا رہے تو جادو کے نقصانات سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا ایک کام تو یہ کریں کہ وہ تمام تدابیر اختیار کریں جن کے ذریعے جادو سے حفاظت ہوتی ہے۔ جیسے کوئی گولی سے بچنے کے لئے مورچہ بناتا ہے، دیواریں اونچی کرتا ہے اسی طرح جادو سے بچنے کے لئے بھی انتظامات ہیں ان انتظامات کو عمل میں لائیں۔ آپ کا نفس اس کام میں رکاوٹ ڈالے گا اور آپ کو وہ تدابیر اختیار کرنے نہیں دے گا لیکن اگر آپ جادو سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کو کرنا ہی پڑے گا۔ مثلاً گھر سے ٹیلی ویژن نکالنا پڑے گا، جاندار کی تصویریں نکالنی پڑیں گی، گندی چیزیں نکالنی پڑیں گی۔ لیکن لوگ اس کے لئے تیار نہیں ہوتے وہ کہتے ہیں سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق ہو جائے اور ہم اپنے آپ کو تبدیل بھی نہ کریں۔ اگر ایسا ہی چاہتے ہو تو پھر بھگتو جو بھگتنا ہے۔
میرے پاس ایک صاحب آئے جو شاعر، انجینئر اور بڑے اعلیٰ پائے کے architect تھے۔ جب میرے پاس آئے تو بیچارے بہت زیادہ پریشان تھے۔ مجھے اپنے حالات، پریشانیاں اور مسائل تفصیل سے بتائے۔ میں نے ان سے پوچھا: کیا آپ کریڈٹ کارڈ استعمال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں کرتا ہوں۔ میں نے کہا: اس کا استعمال چھوڑ دیں، آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ کہنے لگے کہ کریڈٹ کارڈ تو ہمارے ہر معاملے میں گھسا ہوا ہے اس کو کیسے ختم کریں؟ ہمارا تو ہر کام کریڈٹ کارڈ پہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا: اگر آپ نے یہ مسائل حل کرنے ہیں تو کریڈٹ کارڈ کا استعمال چھوڑ دیں ورنہ آپ کی مرضی ہے۔ کہنے لگے: کیسے ختم کروں؟ میں نے کہا: اللہ پاک نے آپ کو جو عقل دی ہے اسے اس مقصد کے لئے استعمال کریں اور کسی بھی طرح کریڈٹ کارڈ کا استعمال ختم کریں۔
خیر وہ میری بات کسی حد تک سمجھ گئے۔ تقریباً تین مہینے بعد دوبارہ آئے اور بتایا کہ الحمد للہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال ختم کر دیا ہے، بہت مشکل پیش آئی ہے لیکن کسی نہ کسی طرح مکمل طور پہ چھوڑ ہی دیا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ اب ان شاء اللہ، اللہ تعالی آپ کے ساتھ آسانی کا معاملہ فرمائیں گے۔ چند دنوں کے بعد اس نے خوشخبری سنائی کہ دس لاکھ کا چیک پھنسا ہوا تھا وہ کلیئر ہو گیا ہے، اس کے ذریعہ اس کے سارے قرض اتر گئے اور حج بھی کر لیا۔
لوگ یہ بات سمجھتے نہیں ہیں کہ سود کتنا بڑا جرم ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ﴾ (البقرہ: 276)
ترجمہ: ”اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے“۔
کوئی اس کو مانے یا نہ مانے لیکن یہ اللہ کا قانون ہے کہ اللہ سودی لین دین میں برکت نہیں ڈالتا۔ تاج کمپنی میں قرآن پاک کی طباعت ہوتی تھی اور ایک دور میں اس کا بڑا نام تھا، لیکن بعد میں ایسی ختم ہوئی کہ اب اس کمپنی کا وجود نہیں ہے، اس کی وجہ یہی سودی معاملات تھے۔ ایک زمانہ میں امریکہ میں بہت سارے بینک دیوالیہ ہوئے تھے لیکن جو بینک اسلامک بینکنگ کر رہے تھے وہ چلتے رہے، اس پر امریکی بہت حیران ہوئے اور آج تک حیران ہیں۔
یہ سب باتیں عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر جادو کے اثرات سے بچنا ہے تو اس کے لئے ہمیں کچھ تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی۔ جادو بھی باقی مصیبتوں اور آزمائشوں کی طرح اللہ پاک کی ایک آزمائش ہے۔ اللہ پاک نے ایک نظام بنایا ہے کہ دنیا میں انسانوں کو اختیار دیا ہے، کچھ لوگ اس اختیار کو برے کاموں میں استعمال کرتے ہیں، انہی برے کاموں میں سے ایک جادو بھی ہے، جو لوگ جادو کرتے ہیں وہ گناہ کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں جبکہ جن لوگوں کے اوپر جادو ہوتا ہے وہ آزمائش میں پڑ رہے ہوتے ہیں۔ اگر وہ اس آزمائش میں آ کر اللہ کی طرف رجوع کریں، گناہوں سے توبہ کریں اور ثابت قدمی دکھائیں تو وہ اس آزمائش میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔ یہ اختیار اور آزمائشوں کا نظام ہے، جب تک دنیا قائم رہے گی، لوگ جادو کرتے رہیں گے، لوگوں پر جادو ہوتا رہے گا اور اس کے ذریعے کھوٹے اور کھرے لوگ الگ الگ ہوتے رہیں گے۔
لوگ تو جادو کے ذریعے پیسے کماتے ہیں اور اپنے مسائل حل کرتے ہیں لیکن در اصل اللہ نے اسے انسانوں کے لئے امتحان اور آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ جادو اور سفلی اعمال میں شیطان سے اعانت حاصل کی جاتی ہے جس سے کچھ دنیاوی مقاصد پورے ہو جاتے ہیں لیکن آخرت میں خسارہ ہی خسارہ ہے۔
آپ جب بھی کسی جادو گر کو دیکھیں گے تو اس کے منہ پہ پھٹکار ہی پڑ رہی ہو گی، جاہل سے جاہل آدمی بھی محسوس کر لے گا کہ یہ منحوس ترین آدمی ہے۔ جادو گر کبھی سکھ کی زندگی نہیں پاتا، ہمیشہ پریشان اور مصیبت میں رہتا ہے۔ اس کے با وجود وہ اپنی حرکات نہیں چھوڑتا جیسے شیطان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا حالانکہ بد بختی اس کے ساتھ ہمیشہ ہمیش کے لئے چمٹی ہوئی ہے۔
بہر حال یہ سب اللہ تعالیٰ کے نظام اور امتحان کا ایک حصہ ہے، اللہ اس کے شرور سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
سوال نمبر5:
اولاد کی تربیت پر انسان کا کتنا اختیار ہے؟ میں نے سنا ہے کہ اولاد کے آگے انسان بے بس ہو جاتا ہے کیا یہ بات درست ہے؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں کہ سرکش اولاد کی تربیت کیسے ہو؟
جواب:
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ اولاد کے سامنے انسان بے بس ہوتا ہے ہاں اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اولاد اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
﴿اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ (الکہف: 46)
ترجمہ: ”مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں“۔
اور یہ بھی فرمایا:
﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ﴾ (الأنفال: 28)
ترجمہ: ”اور یہ بات سمجھ لو کہ تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں“۔
مال اور اولاد اللہ کی طرف سے زینت کا ذریعہ بھی ہیں اور آزمائش بھی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ ہم لوگ اولاد کی تربیت کرتے وقت اللہ پاک کے قوانین کو خیال میں نہیں رکھتے بلکہ اپنے ذہن اور اپنی عقل سے امید رکھے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر سوچتے ہیں کہ ہم کامیاب کیوں نہیں ہوئے۔ لوگ اولاد کی تربیت میں خود غلطی کرتے ہیں اور بعد میں پچھتاتے ہیں۔ آج کل عموماً لوگ ایسا کرتے ہیں کہ بچوں کو انگریزی لباس پہنائیں گے، انگریزی طریقے سکھائیں گے، ان کا سب کچھ انگریزی طریقے پہ ہو گا، اس کے ساتھ ان کو چند کلمے سکھا دیتے ہیں اور جب کسی سے ملنا جلنا ہو تو اس کے سامنے کہتے ہیں کہ بیٹا کلمہ سناؤ، بیٹا کلمہ سنا دیتا ہے اور واہ واہ ہو جاتی ہے۔ بس اسی کو دینی تربیت سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کلمہ کے بعد اور بھی بہت کچھ ہے۔ ؎
چوں می گویم مسلمانم بلرزم
کہ داند مشکلاتِ لا اِلٰہ را
یعنی جب میں کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو لرز جاتا ہوں کیونکہ میں اس راہ کی مشکلات کو جانتا ہوں۔
مجھے ایک صاحب نے کہا کہ معوذتین پڑھنے کے با وجود بعض اوقات جادو کا اثر کیوں ہو جاتا ہے؟
میں نے کہا: قرآن میں صرف یہی دو سورتیں ہیں یا اس کے علاوہ بھی کچھ ہے؟ ان دو سورتوں کے علاوہ جو کچھ ہے اس کو آپ قرآن کیوں نہیں کہتے، کیا اس کو سمجھتے ہو، پڑھتے ہو اور اس پر عمل کرتے ہو؟ اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ آپ کی وفاداری قرآن کے ساتھ ہے یا نہیں۔ اگر آپ کی وفاداری قرآن کے ساتھ ہے تو پھر معوذتین بھی کام کریں گی اور پورا قرآن آپ کے لئے جسمانی و روحانی شفا کا ذریعہ بن جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صرف سورۃ فاتحہ پڑھ کے دم کیا کرتے اور ان کے مسئلے حل ہو جاتے تھے۔ آپ ﷺ پر جادو ہونے کی روایات تو ملتی ہیں۔ یہ بتائیں کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کسی صحابی پہ جادو ہوا ہو؟ شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ملے جس میں کسی صحابی کے ساتھ جادو کا معاملہ نقل کیا گیا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان حضرات کا پورے قرآن پہ ایمان تھا اور معوذتین ان کے پاس تھیں لہذا ان کے لئے جادو کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھا۔ آپ ﷺ پر جو جادو ہوا اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ پر معوذتین کا علم اور جادو کے توڑ کو نازل کرنا تھا، اس لئے پہلے جادو ہوا پھر معوذتین کے ذریعے اس کا توڑ ہوا۔
حضرت کعب احبار رضی اللہ تعالی عنہ جو اسلام لانے سے پہلے یہودی تھے اور تورات کے بہت بڑے عالم تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ:
اگر میں یہ چند کلمات نہ پڑھا کرتا تو یہود جادو سے مجھے گدھا بنا دیتے وہ الفاظ یہ ہیں: ”أَعُوْذُ بِوَجْهِ اللهِ الْعَظِيْمِ الَّذِيْ لَيْسَ شَيْءٌ أَعْظَمَ مِنْهُ، وَبِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ الَّتِيْ لَايُجَاوِزُهُنَّ بَـرٌّ وَّ لَا فَاجِرٌ، وَبِأَسْمَآءِ اللهِ الْحُسْنىٰ كُلِّهَا مَا عَلِمْتُ مِنْهَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ، مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَذَرَأَ وَبَرَأَ۔“ (الأسماء والصفات للبيهقي (2/ 112، 113)
یہودی لوگ جادو میں مشہور ہیں، آج کے زمانہ میں بھی یہ لوگ بہت جادو کرتے ہیں۔ آپ ﷺ پہ جو جادو ہوا تھا اس میں بھی جادو کرنے والا ایک یہودی اور اس کی بیٹیاں تھیں۔
بہر حال جادو کرنے والا کوئی بھی ہو اگر آپ اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ تمام تدابیر عمل میں لاتے ہیں تو جادو کے نقصان سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
سوال نمبر6:
حضرت جی آپ کو جو بھی مسئلہ بتاؤں اس کا حل خود ہی نکل آتا ہے، اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ (العنکبوت: 69)
ترجمہ: ”اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انھیں ضرور بالضرور اپنے راستوں پر پہنچائیں گے“۔
شیخ کے ساتھ رابطہ بھی جدو جہد میں شامل ہے۔ جو شیخ کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے اللہ پاک اسے معاملات اور حالات میں سمجھداری عطا فرماتے ہیں۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ کوئی مسئلہ مجھ سے حل نہیں ہو رہا ہوتا تو میں سوچتا کہ ابھی جا کر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھ لیتا ہوں، جیسے ہی میں ان کی طرف جانے کا ارادہ کرتا میرا مسئلہ حل ہو جاتا تھا، کئی مرتبہ میں حاجی صاحب کی طرف جانے کے لئے اپنے گھر سے چل پڑتا، ابھی پہنچا نہیں ہوتا تھا کہ راستے میں وہ مسئلہ حل ہو جاتا تھا اور کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میں گھر سے نکلا اور حاجی صاحب کی خدمت میں پہنچا، انہیں مسئلہ بتایا تو انہوں نے فرمایا: رشید یہ کوئی اتنی مشکل بات تھی؟ بس اس کے بعد مسئلہ حل ہو جاتا۔ یہ اللہ پاک کی طرف سے مدد ہوتی تھی۔ اس نظام کے ساتھ اللہ پاک کا خصوصی فضل اور تائید شامل ہے۔ ہم کچھ نہیں ہیں، اللہ کا نظام مضبوط ہے، اللہ جل شانہٗ کی مدد ہے۔ اس لئے جو لوگ اس نظام میں آتے ہیں انہیں بہت ساری باتیں سمجھ آنے لگ جاتی ہیں۔ یہ اللہ پاک کا فضل ہے، اس پہ شکر ادا کرنا چاہیے۔
سوال نمبر7:
کیا گھر میں استعمال کی چیزوں کو دھیان سے سنبھال کر رکھنا بھی دنیا داری میں شمار ہوتا ہے؟ جو چیزیں خرید چکے ہیں اور استعمال میں بھی ہیں ان کو استعمال کرتے ہوئے کیا نیت رکھنی چاہیے؟
جواب:
آپ نے تصویر کا صرف ایک رخ دیکھا ہے، دوسرا رخ ابھی نہیں دیکھا۔ ایک دفعہ مفتی ظہیر صاحب کے ساتھ ہمارے ساتھی آفاق صاحب کہیں جا رہے تھے، موٹر وے پہ گاڑی چل رہی تھی۔ اسی دوران مفتی صاحب نے ایک مسئلہ سمجھاتے ہوئے کہا کہ آفاق صاحب! موٹروے پر 130 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر گاڑی چلائی جائے تو ٹریفک پولیس والے چالان کاٹتے ہیں، اگر آپ نے اتنی رفتار پہ گاڑی چلائی اور آپ کا چالان ہو گیا تو یہ اسراف میں شامل ہو گا اور آپ کو اس کا گناہ ہو گا۔
مفتی صاحب نے یہ مسئلہ اس لئے بتایا کہ آفاق صاحب اس معاملے میں ذرا بے پروائی کرتے تھے، رفتار تیز کر لیتے تھے اور ان کا خیال یہ ہوتا تھا کہ چلو کوئی بات نہیں چالان کٹوا لیں گے، پیسے دے دیں گے۔ لیکن مفتی صاحب نے بتایا کہ ایسا کرنا نہ صرف غلط ہے بلکہ گناہ کا باعث بھی ہے۔
ہر چیز کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ آپ نے جو پوچھا کہ گھر میں استعمال کی چیزوں کا خیال رکھنا کس زمرے میں آتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی نیت انہیں اللہ کی رضا کے لئے استعمال کرنے کی ہو تو ان چیزوں کا خیال رکھنا اور حفاظت کرنا محض دنیا داری میں شمار نہیں ہوتا بلکہ شکر کے زمرے میں آتا ہے اور شکر کے بارے میں اللہ جل شانہ کا ارشاد مبارک ہے:
﴿لَئِنْ شَكَـرْتُـمْ لَاَزِيْدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُـمْ اِنَّ عَذَابِىْ لَشَدِيْدٌ﴾ (ابراہیم: 7)
ترجمہ: ”اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا، اور اگر تم نے نا شکری کی تو یقین جانو، میرا عذاب بڑا سخت ہے“۔
اگر کسی شخص کے پاس موجود کھانا ضائع ہو رہا ہو اور وہ کسی اور کو دے دے یا اس نیت سے خود ہی استعمال کر لے کہ یہ ضائع نہ ہو تو اللہ کے ہاں اس کا اجر ملتا ہے۔ نیت میں اخلاص ہو تو انسان کے پاس موجود دنیا کی تمام چیزیں شکر کے مواقع بن جاتے ہیں، ان کے استعمال پہ اللہ پاک اجر دیتے ہیں کیونکہ یہ اللہ کی نعمتیں ہیں۔
حضرت زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے شیخ نے ایک انار دیا تھا۔ انار کھاتے ہوئے ایک دانہ گر گیا تو انہوں نے اس کو بڑے اہتمام کے ساتھ ڈھونڈھ کر صاف کر کے کھا لیا۔ شیخ نے فرمایا کہ بس اب ٹھیک ہے، اب آپ کی دنیا آپ کو ضرور ملے گی۔
انسان کو چاہیے کہ اللہ کی نعمتوں کی قدر دانی کرے، شکر کرے، ان کی حفاظت کرے اور ان کو ضائع نہ کرے۔ یہ سب اعمال شکر میں شمار ہوں گے اور شکر نعمتوں میں اضافہ کا باعث بنے گا۔
سوال نمبر8:
گناہ لذت کے لئے اختیار کیا جاتا ہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ گناہ اپنی طرف راغب بھی کرتا ہے اور اس کی برائی بھی محسوس ہوتی ہے۔ آدمی جب گناہ کر رہا ہوتا ہے تو اس کو لذت بھی محسوس ہو رہی ہوتی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کا دل تنگ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اس کے با وجود آدمی وہ گناہ کر لیتا ہے کیونکہ اس میں بہت زیادہ کشش ہوتی ہے۔ گناہ کی اس کشش سے کیسے بچا جائے؟
جواب:
آپ گناہ کی attraction سے بچنے کی نیت نہ کریں کیونکہ اللہ پاک نے ان چیزوں میں attraction رکھی ہے۔ آپ اپنی قوت ارادی کو بڑھائیں اور اپنی روحانی قوت کو بڑھائیں۔ آپ کو اسی کا اختیار دیا گیا ہے۔ تصوف میں قوت ارادی بڑھانے کے کئی طریقے ہوتے ہیں، مجاہدات اور ریاضات کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ قوت ارادی میں اضافہ ہو اور انسان اس قوت کو استعمال کر کے گناہوں سے بچے۔
گناہ میں جو کشش ہے وہ مقناطیس کی کشش کی طرح ہے۔ مقناطیس کی کشش ہمیشہ اپنی جگہ پر رہتی ہے، اگر اس کی کشش سے بچنا ہو تو اس سے بڑے مقناطیس کو سامنے رکھ دو، پھر چیزیں چھوٹے مقناطیس کی بجائے بڑے مقناطیس کی طرف کھنچیں گی۔ ایسے ہی گناہ میں ہمیشہ کشش رہے گی، اس کشش کا آپ کچھ نہیں کر سکتے ہاں اپنی قوت ارادی بڑھا کر اپنی روحانیت کا مقناطیس مضبوط کر کے اس گناہ سے بچ سکتے ہیں اور اپنے آپ کو بڑے مقناطیس یعنی روحانیت کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اپنا روحانیت کا مقناطیس مضبوط اور بڑا کرو اور اللہ پاک کے ساتھ تعلق قائم کرو۔
ایک صاحب نے بہت اچھی مثال دی کہ جب جھکڑ چلتے ہیں تو ہم ان جھکڑوں کو ختم نہیں کر سکتے ہاں اپنے گھر اور کمرے کا دروازہ بند کر کے گرد و غبار سے محفوظ ضرور رہ سکتے ہیں۔
گناہ اور گناہوں کی کشش کی مثال بھی ایسی ہی ہے، ان پر ہمارا اختیار نہیں ہو سکتا لیکن خود اپنے اوپر ہمارا پورا اختیار ہے لہٰذا ہمیں اپنی روحانی قوت بڑھانی چاہیے۔
سوال نمبر9:
جب دوسرے لوگوں کو دنیا کی چیزوں میں سرگرداں و پریشان دیکھتی ہوں تو خود کو سمجھاتی ہوں کہ اللہ پاک نے ہمیں بہت اچھی جگہ جوڑ دیا ہے، یہاں یقین بھی ہے سکون بھی ہے جبکہ بہت سے لوگوں کو ایسی مجلسیں نصیب نہیں ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ مجھے یہ چیز نصیب ہے۔ خود کو طرح طرح کی باتوں سے سمجھاتی ہوں۔ کیا یہ طریقہ ٹھیک ہے؟ اگر اس سے بہتر کوئی اور طریقہ ہو تو وہ تجویز فرما دیں۔
جواب:
اپنے آپ کو سمجھانے کا یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے۔ اس کو self-suggestion کہتے ہیں۔ نفسیات میں باقاعدہ ایک طریقہ کار ہے جسے self-suggestion کہتے ہیں۔ جس نے نفسیات پڑھی ہے اسے معلوم ہو گا کہ بعض نفسیاتی مسائل کو حل کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے۔ اس میں انسان اپنے آپ کو سمجھاتا ہے کہ مجھے فلاں چیز میں فائدہ ہے اور فلاں چیز میں فائدہ نہیں ہے۔
ہمارے ایک ساتھی کا بیٹا بہت زیادہ لاپروا تھا، پڑھتا نہیں تھا۔ وہ اسے ماہر نفسیات کے پاس لے گیا۔ ماہر نفسیات نے اس لڑکے کا پورا انٹرویو لیا اور آخر میں اسے کہا کہ بیٹا آپ نے روزانہ پانچ دفعہ یہ بات دہرانی ہے کہ ”ہنر مند بے ہنر سے اچھا ہوتا ہے“۔ چاہے آپ کو سمجھ آئے یا نہ سمجھ آئے لیکن آپ نے پانچ دفعہ اس بات کو دہرانا ہے۔
کوئی آدمی ”اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبر“ یا ”سُبْحَانَ اللّٰہ سُبْحَانَ اللّٰہ“ پڑھتا ہے تو اس پر اس کا اثر ضرور ہوتا ہے چاہے اسے سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اسی طرح اپنے آپ کو سمجھانے کے لئے صحیح باتیں دہرانے اور اپنے آپ کو سنانے سے بھی اثر ہوتا ہے۔
اگر انسان میں روحانی قوت مضبوط ہو تو جب وہ ایسے لوگوں کو دیکھتا ہے جو گناہ گار ہیں یا دنیا دار ہیں تو ان کی طرف مائل نہیں ہوتا بلکہ ان کے لئے دعا کرتا ہے اور ان پہ ترس کھاتا ہے۔ جیسے حضرت خواجہ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ کا واقعہ مشہور ہے کہ وہ اپنی دکان پر عطر کی شیشیاں صاف کر کے رکھ رہے تھے کہ ایک فقیر دکان پہ آ کے کھڑا ہو گیا اور مسلسل انہیں گھور گھور کے دیکھنے لگا۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ کیوں گھور رہے ہو؟ اس نے کہا: دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی روح اتنی ساری شیشیوں میں پھنسی ہوئی ہے، نکلے گی کیسے؟ خواجہ صاحب نے کہا: تم اپنی فکر کرو کہ تمہاری روح کیسے نکلے گی۔
اس نے کہا: دیکھو میری روح تو ایسے نکلے گی۔
یہ کہہ کر ان کے سامنے دائیں کروٹ پہ لیٹ گیا، اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھ کر کلمہ پڑھا اور فوت ہو گیا۔
خواجہ فرید الدین رحمۃ اللہ علیہ حیران رہ گئے، دکان کو تالا لگایا اور سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر نکل گئے، شیخ کامل کی تلاش کی، ان سے اپنی اصلاح کروائی، پھر اللہ پاک نے انہیں بڑے مقامات عطا فرمائے۔
یہ واقعہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس فقیر درویش نے خواجہ صاحب کی بھری پری دکان کو دیکھا تو ان سے متاثر ہو کر ان کی دنیا داری کی طرف مائل نہیں ہوا بلکہ اس کی سوچ اس طرف گئی کہ یہ آدمی اپنی دنیا میں اتنا پھنسا ہوا ہے اس کی جان کیسے نکلے گی۔ ہمیں بھی اپنی روحانیت اتنی مضبوط کر لینی چاہیے کہ دنیا دیکھ کر اس کی طرف مائل نہ ہوں بلکہ افسوس ہو کہ لوگوں کو اس دنیا نے کیسا غافل کر رکھا ہے اور ہمارا دل اللہ کے شکر سے لبریز ہو جائے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے اتنی روحانیت عطا فرمائی ہے کہ ہم غفلت سے محفوظ رہتے ہیں۔ جو لوگ سر سے پاؤں تک دنیا میں اس طرح مستغرق ہیں کہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، ہمیں ان پہ ترس کھانا چاہیے، ان کے لئے دعا کرنا چاہیے، ان کو صحیح طریقے سے دعوت دینا چاہیے اور ان کے ساتھ تعلق اس نیت سے بڑھانا چاہیے کہ وہ ہماری بات سن لیں تاکہ ان کو بھی فائدہ ہو اور ہمیں بھی فائدہ ہو۔ ہمارا کام ہی یہی ہے کہ ہم لوگوں کو خیر کی دعوت پہنچائیں، خیر کی باتیں ان کو سمجھائیں اور شر کی باتوں سے انہیں منع کریں۔
سوال نمبر10:
کیا مؤذن کے لئے شرط ہے کہ اس کی داڑھی پوری ایک مشت ہو؟ جس کی داڑھی ایک مشت سے کم ہو، کیا وہ اذان نہیں دے سکتا؟ اس بارے میں رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
مفتیان کرام کا فتویٰ ہے کہ مؤذن کے لئے وہی شرائط ہیں جو امام کے لئے ہیں۔ ہاں مؤذن میں ایک اضافی شرط یہ ہے کہ اس کی آواز بلند ہو۔ اس کے علاوہ امام کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ با وقار شخص ہو اور لوگوں کو کسی غلط بات سے منع بھی کر سکتا ہو۔
اس فتوی کی روشنی میں آپ ہی بتائیں کہ مؤذن کیسا ہونا چاہیے؟ یہ الگ بات ہے کہ ہماری مسجدوں کے اندر حالات ایسے ہو چکے ہیں کہ کوئی امام کسی غیر متشرِّع مؤذن کو اذان دینے سے روک نہیں سکتا۔ آج کل مساجد میں غیر متشرع لوگ اذان بھی دیتے ہیں، اقامت بھی کہتے ہیں اور مسجد کے کاموں میں دخیل بھی ہوتے ہیں۔ یہ سب ہماری کمزوری کی علامت ہے۔
ہمارے قریب ایک مسجد میں جو آدمی اذان دیتا ہے وہ اتنا ضعیف العمر ہے کہ اس بے چارے کی آواز ہی نہیں نکلتی، اتنی مشکل سے اذان دیتا ہے کہ بیان سے باہر ہے لیکن وہ بضد ہے کہ اذان وہی دے گا اور اسے کوئی منع بھی نہیں کر سکتا۔ شاید مسجد کی انتظامیہ وغیرہ یا با اثر لوگوں میں سے کوئی ہو گا۔ لوگوں کو اذان کا خراب ہونا گوارا ہے لیکن اسے منع کرنے کے لئے کوئی آگے نہیں بڑھتا۔
سوال نمبر11:
حضرت جی ایمان اور کفر میں کیا فرق ہے؟ کہا جاتا ہے کہ نماز جان بوجھ کے چھوڑنا کفر ہے۔ کیا واقعی جان بوجھ کر نماز چھوڑنے سے آدمی کافر ہو جاتا ہے؟
جواب:
ایمان تو وہی ہے جو ہم نے ایمان مجمل میں پڑھا ہے۔ یعنی اللہ پاک کو اس کی تمام صفات کے ساتھ اپنا اِلٰہ ماننا اور اس کے تمام احکام کو قبول کرنا۔ نماز بھی اللہ کا ایک حکم ہے اس لئے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نماز بھی پڑھی جائے۔ اگر کوئی آدمی نماز کا انکار ہی کر دے تو بلاشبہ وہ کافر ہو جائے گا اور اگر کوئی آدمی نماز سے انکار نہیں کرتا لیکن پڑھتا نہیں ہے تو وہ کافر نہیں ہے، ہاں گناہ گار ضرور ہو گا۔ بغیر عذر کے نماز چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا جس کی ایک نماز رہ گئی تو ایسا ہے جیسے اس کا سارا مال اور اہل و عیال تباہ ہو گیا ہو۔ نماز چھوڑنے کا گناہ تو بہت زیادہ ہے لیکن ہم تارکِ صلوۃ کو کافر نہیں کہیں گے۔
ایک حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ جس شخص نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی وہ کافر ہو گیا۔
علماء کرام نے اس حدیث کی یہ تشریح کی ہے کہ اس سے مراد ہے کہ کفر کے قریب پہنچ گیا اس نے کافروں جیسی حرکت کر لی، گویا کفر کے دہانے پر پہنچ گیا، اب بس کافر ہونے کے لئے ایک دھکے کی ضرورت ہے۔
سوال نمبر12:
کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب:
کریڈٹ کارڈ سودی نظام کا ایک حصہ ہے اور اسے پھیلانے کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کے اندر attraction ایسی رکھی گئی ہے کہ لوگ اسے لینے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کا طریقہ کار تو آپ کو معلوم ہی ہو گا۔ کریدٹ کارڈ پر بینک یہ سہولت دیتا ہے کہ اگر آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے ختم ہو گئے ہیں تو آپ اس کارڈ کے ذریعے ایک خاص حد تک خریدار کر سکتے ہیں، وہ پیسے بینک ادا کرے گا جو آپ پر ادھار ہوں گے اور آپ کے ذمہ انہیں واپس کرنا ہو گا۔ جب آپ کے اکاؤنٹ میں پیسے آئیں گے تو بینک اپنا ادھار واپس لے لے گا۔ اس میں ایک متعین حد کے بعد سود شامل ہو جاتا ہے۔ بینک آپ کی طرف سے جو پیسے ادا کرتا ہے، جب وہ آپ سے واپس لے گا تو کچھ فیصد سود بھی لے گا۔ جب آدمی کے پاس ایسی سہولت ہو اور وہ ڈیپارٹمنٹل سٹورز پر اور بڑے بڑے شاپنگ مالز پر خریداری کرنے جائے تو بعض اوقات ایسی صورت پیش آ جاتی ہے کہ وہ کریڈٹ کارڈ استعمال کر ہی لیتا ہے اور سودی نظام کا حصہ بن جاتا ہے۔
ڈیپارٹمنٹل سٹورز والوں نے چیزیں ایسے سجا کے رکھی ہوتی ہیں کہ آدمی وہاں جا کر اپنی حیثیت سے بڑھ کر چیزیں خرید لیتا ہے۔ ایسی چیزیں بھی خرید لے گا جن کی اس کو ضرورت نہیں ہو گی لیکن اس کی عاجلہ (فوری خواہش) اتنی طاقتور ہو جائے گی کہ وہ رہ نہیں سکے گا۔ ایسی صورت میں اگر جیب میں پیسے ہوئے تو کیش سے خریداری کر لے گا اور پیسے نہ ہوئے تو کریڈٹ کارڈ استعمال کر لے گا اور پھر آہستہ آہستہ اس دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔ لہٰذا حتی الوسع اس نظام سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن