سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 93

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت! حسنِ اخلاق کے بارے میں علماء بتاتے ہیں کہ ’’صِلْ مَنْ قَطَعَكَ وَأَعْطِ مَنْ حَرَمَك وَاعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 17452)

ترجمہ: ’’جو تجھ سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تجھ پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو، جو تم سے بُرائی سے پیش آئے تم اس سے اچھائی کے ساتھ پیش آؤ‘‘۔

اس کی پھر علماء آگے تفصیل بتاتے ہیں۔ تو حسنِ اخلاق سے کیا مراد ہے؟

جواب:

اصل میں ایک ہوتا ہے برابر کا بدلہ لینا، یہ بداخلاقی سے بچنا ہوا۔ کیونکہ اگر آپ نے برابر کے بجائے زیادہ بدلہ لے لیا، مثلاً کسی نے آپ کا ایک ہاتھ توڑا اور آپ اس کے دونوں ہاتھ توڑ دیں۔ یہ بد اخلاقی ہے، ظلم ہے، اس سے بچنا تو لازم ہے۔ لیکن برابر کا معاملہ کرنا آپ کا حق ہے۔ جس کو قصاص کہتے ہیں، یہ برابر کا حق ہے۔ لیکن اگر آپ معاف کر دیں، تو معاف کرنا اللّٰہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ جیسے لیلۃ القدر کی دعا ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3513) ترجمہ: ’’اے میرے اللّٰہ! تو معاف معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے، پس مجھے بھی معاف کر دے‘‘۔

چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں اور جو اللّٰہ پاک کے بندوں کو معاف کرتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ بھی ان کو معاف کرتے ہیں۔

سوال نمبر 2:

ایک دفعہ مفتی زین العابدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا روم کو کوٹ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ کچے کو پکا ہونے کے لئے برس ہا برس چاہئیں، بہت لمبا عرصہ چاہئے۔

جواب:

جی! مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے:

صوفی نشود صافی تا در نکشد جامے

بسیار سفر باید تا پختہ شود خامے

کہ صوفی اس وقت تک صافی نہیں بنتا جب تک کہ عشق کا جام نہ پی لے، اور خام کو پختہ بننے میں بہت عرصہ لگتا ہے۔ خامی خام سے ہے، میری خامی ہے یعنی میں خام ہوں اس لئے مجھ سے یہ خطا ہوئی ہے۔ خام پختہ بننے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے۔ ہاں! عشق کے ذریعے سے یہ کام آسان ہے، یعنی عشق زیادہ آسانی کے ساتھ یہ کام کروا دیتا ہے۔ مثلاً کسی کو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ وہ اللّٰہ تعالیٰ کے کسی بندے پر ظلم نہ کرنا چاہے۔ تو یہ معاف کرنا آسان نہیں ہوتا، لیکن اس کے لئے بہت آسان ہو گیا۔ لہٰذا یہ صرف اللّٰہ تعالیٰ کی محبت کے ذریعے سے ہوا۔

سوال نمبر 3:

فضائل اعمال میں ہے کہ ذکر اللّٰہ کی محبت کا ذریعہ ہے اور محبت دین کی روح اور مرکز ہے۔

جواب:

بالکل ایسے ہی ہے۔ حضرت شیخ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جو بات کی ہے میں اس کے بارے میں مزید کیا عرض کر سکوں گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر صحیح محبت ہو تو وہ تمام اعمال کا انجن ہے۔ اور دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔ جیسے حدیث پاک میں آتا ہے: ’’حُبُّ الدُّنْیَا رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 5213)

ترجمہ: ’’دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے۔

اور اللّٰہ کی محبت تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔ پس اگر کوئی محبت حاصل کر لے تو اس کے لئے اللّٰہ پاک کی بات ماننا بہت آسان ہو جاتا ہے اور اللّٰہ کا ذکر اس کے لئے بہت بڑا معین ہے۔

سوال نمبر 4:

حضرت کسی شیخ سے بیعت ہوئی ہو۔ تو مرید کے کن اعمال کی وجہ سے وہ بیعت خود بخود ٹوٹ جاتی ہے؟

جواب:

مرید کے اعمال سے بیعت نہیں ٹوٹتی ہے البتہ کمزور ہو جاتی ہے۔ اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے بعض دفعہ تجدیدِ بیعت ہوتی ہے، لیکن ویسے بیعت کبھی ٹوٹتی نہیں ہے۔ بیعت اس صورت میں ٹوٹ سکتی ہے کہ نعوذ باللّٰہ من ذالک آدمی بے ایمان ہو جائے۔ پھر تو ساری چیزیں ختم ہو جاتی ہیں۔ اللّٰہ نہ کرے کہ کوئی ایسا ہو۔ بہرحال بیعت گناہوں سے بیعت ٹوٹتی نہیں ہے بلکہ گناہوں کو دور کرنے کے لئے تو بیعت ہے۔

سوال نمبر 5:

حضرت گناہ کے حوالے سے کن چیزوں سے بچنا مکروہ اور حرام ہے؟

جواب:

یہ معاملہ صوفیاء کا نہیں ہے، یہ فقہاء کا ہے۔ فقہائے کرام یہ بتاتے ہیں کہ کون سی چیز کتنی اہم ہے۔ صوفیائے کرام اس پہ عمل پہ لانے کے لئے کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا صوفیاء کا طریقہ عمل پہ لانے کا ہے، لیکن اس چیز کی شدت اور کمی کو بتانا فقہاء کا کام ہے۔ فقہاء کرام یہ بتاتے ہیں کہ حرام سب سے زیادہ برا ہے، پھر مکروہ تحریمی کا درجہ ہے، پھر مکروہ تنزیہی کا درجہ ہے اور پھر مباحات کے اندر انہماک ہے۔

سوال نمبر 6:

حضرت! ایک دفعہ ایک عالم فرما رہے تھے کہ فضائل صدقات میں ہے کہ ایک صاحب ایک شخص کے گھر گئے اور پوچھا کہ والد صاحب کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا سو رہے ہیں۔ کہا یہ کوئی وقت سونے کا ہے؟ یہ کہتے ہوئے واپس جا رہے ہیں اور ساتھ اپنے آپ کو کوستے جا رہے ہیں۔ اور فضائل صدقات میں ہی ہے کہ ایک شخص کی نظر نامحرم پہ پڑ گئی اور پھر عہد کر لیا کہ عمر بھر آنکھ نہیں اٹھاؤں گا اور شاید اپنے اوپر کوئی اور جرمانہ لگا لیا۔ پھر فرماتے ہیں پہلی دفعہ نظر تو معاف ہے۔ اسی طرح انہوں نے جو بات کہی وہ مباح ہے۔ لیکن اپنے اوپر اتنی زیادہ سختی کی۔ مقصد یہ ہے کہ ایمان والے اس طرح اپنے آپ کو دیکھتے ہیں۔

جواب:

ایک ہوتا ہے انسان کا غلبۂ حال اور ایک ہوتی ہے انسان کی تمکین کی حالت۔ حالتِ تمکین میں ایسا نہیں ہوا کرتا، لیکن غلبۂ حال میں ایسا ہو جاتا ہے۔ پس اگر کسی پر کسی حال کا غلبہ ہو تو وہ حال اس کو بہت زیادہ ردِ عمل دکھانے پر مجبور کرتا ہے۔ اور مشائخ اس کو nebuliser کرتے ہیں۔

ایک حدیث شریف ہے کہ تین حضرات تھے جنہوں نے یہ ارادہ کیا کہ چونکہ آپ ﷺ تو بخشے بخشائے ہیں، اس لئے آپ ﷺ جو اعمال کرتے ہیں ان کے لئے وہ کافی ہیں۔ ہمیں اس تک پہنچنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ ایک صاحب نے کہا کہ میں سوؤں گا نہیں۔ دوسرے نے کہا کہ اب میں مسلسل روزے رکھوں گا۔ تیسرے نے کہا کہ میں شادی نہیں کروں گا۔ یہ بات آپ ﷺ تک پہنچی تو آپ ﷺ نے تینوں کو بلایا اور فرمایا کہ میں تم سے زیادہ اللّٰہ سے ڈرتا ہوں، لیکن میں سوتا بھی ہوں اور عبادت بھی کرتا ہوں اور میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں اور میں شادی بھی کرتا ہوں، جو میری سنت سے اعراض کرے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔ چنانچہ یہ آپ ﷺ نے ان کی تربیت فرمائی کہ تشدد فی الاحوال مناسب نہیں ہے

سوال نمبر7:

حضرت اس طرح سنا ہے کہ کسی بزرگ سے بیعت کے بعد ذکر اذکار لئے، مگر بہت عرصہ تک وہ اذکار نہیں کئے، تو وہ بیعت ٹوٹ گئی۔

جواب:

بیعت تو نہیں ٹوٹ سکتی، البتہ اس کا اثر کم ہو جائے گا۔ کیونکہ دو چیزیں ہیں جو انسان کی اصلاح کے لئے بہت معین ہیں۔ شیخ کے ساتھ رابطہ اور معمولات پر استقامت۔ معمولات پر استقامت انسان کے دل کو نرم کرتی ہے اور شیخ سے رابطہ اس کے اندر اچھی باتیں لاتا ہے، یعنی شیخ سے اخذ کرنا معمولات کے اہتمام پر منحصر ہے۔ اگر معمولات کا اہتمام نہیں ہو گا تو شیخ سے اخذ نہیں کر سکے گا۔ اس لئے ان دونوں چیزوں کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں چیزیں کسی وقت نہ ہوں تو اس کا وقت کا ضیاع تو ہو گیا، نقصان تو ہو گیا اور اس نقصان کی کوئی تلافی بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ وقت تو چلا گیا۔ لیکن اب وہ اس کو تجربہ بنا لے۔ کیونکہ ایک حادثہ ہوتا ہے اور ایک حادثے سے حاصل شدہ تجربہ ہوتا ہے۔ وہ تجربہ حادثے کے اثر کم کو کر دیتا ہے۔ لہذا اس تجربے سے فائدہ اٹھا کر آئندہ کے لئے سستی نہ کرے۔

سوال نمبر8:

حضرت ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ خوش نصیب ہے وہ شخص جو خیر کی چابی ہو، شر کے لئے تالا ہو۔ بد نصیب ہے وہ جو شر کی چابی ہو اور خیر کے لئے تالا ہو۔

جواب:

میرے خیال میں اس حدیث کے الفاظ self-explanatory ہیں، خود اس کے اندر ساری چیز موجود ہے، اس کی مزید تشریح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ یقیناً وہ شخص بہت اچھا ہے جس کے ذریعے سے خیر پھیلتی ہو اور شر رک جاتا ہو اور وہ شخص بہت برا ہے جس کے ذریعے سے شر پھیلتا ہو اور خیر رکتی ہو۔ تو یہ بات بالکل واضح ہے، میرے خیال میں اس کے اندر کوئی اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال نمبر 9:

قرآن پاک میں ہے: ﴿لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى (الاسراء: 32)

ترجمہ: ’’اور زنا کے پاس بھی نہ پھٹکو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

کیا اس سے ہر مراد ہر وہ channel ہے جس سے بچنا ضروری ہے؟

جواب:

﴿لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰٓى﴾ سے مراد یہ ہے کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ، یعنی زنا کی خواہش کو ابھارنے کے لئے جو ذرائع ہیں ان ذرائع سے بھی بچو۔ مثلاً اللّٰہ نہ کرے کوئی شخص اپنی نظر کی حفاظت نہیں کرتا، تو جب نظر کی حفاظت نہیں کرتا تو دل میں کوئی خیال آ جائے گا، پھر اس کے حل کے لئے مجبور ہو کر عین ممکن ہے کہ اس کوچے کا چکر بھی لگانا شروع کر دے، پھر عین ممکن ہے اُدھر سے بھی کمزوری ہو اور پھر یہ ذریعہ بن جائے۔ لہٰذا یہ بد نظری زنا تک رستہ بن جائے گی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنا دل بچانا ہو تو وہ دروازے کو بند کر دے۔ اور دل کا دروازہ آنکھ ہے۔ اس لئے اپنی آنکھ کو بند کر لے یا آنکھ کو نیچے کر لے تاکہ دل بچ جائے۔ اسی طرح آواز کا بھی یہی حال ہے۔ جیسے فرماتے ہیں کہ عورتوں کے اخلاق کی اچھی بات یہ ہے کہ وہ اجنبی کے ساتھ کرخت زبان سے بات کریں، نرم زبان میں بات نہ کریں۔ کیونکہ اگر کسی کے دل میں چور ہے تو ممکن ہے اس نرم زبان سے اس کو امید ہو جائے اور وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرے اور ادھر سے بھی کمزوری آ جائے، تو مسئلہ بن جائے گا۔ لہٰذا دروازے کو بند کرنے کے لئے آواز کی کرختگی مناسب ہے۔

سوال نمبر 10:

قرآن پاک میں ہے: ﴿يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْـتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران: 102)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اس کیا مطلب ہے؟

جواب:

جیسے ڈرنے کا حق ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اس لئے ڈرے کہ اعمال اچھے کرے اور برے اعمال سے بچ جائے۔ برے اعمال سے بچنے اور اچھے اعمال کو کرنے کے لئے جس ڈر کی ضرورت ہے وہ ڈر حاصل کر لیں اور اس کو موت تک جاری رکھیں یعنی اسلام کی حالت میں اس کی موت آنی چاہئے یعنی حسنِ خاتمہ اس کو نصیب ہونا چاہئے۔

سوال نمبر 11:

علماء سے سنا ہے کہ ’’اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْمِ‘‘ کہ اعمال کا دار و مدار خاتمے پر ہے۔

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ خاتمے کا اعتبار ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان صرف خاتمہ کو بچائے، کیونکہ خاتمے کا پتا نہیں ہے کہ کس وقت آتا ہے۔ لہٰذا اگر انسان اچھے اعمال کرتا ہو گا تو ان شاء اللّٰہ خاتمہ بھی اچھا ہو گا۔ ضروری تو نہیں ہے کہ عین آخری وقت میں اس سے غلطی ہو جائے۔ چنانچہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان موت تک اچھے اعمال کرتا رہے۔ میرے خیال میں یہ اس آیت کریمہ اس پر دال ہے: ﴿يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْـتُمْ مُّسْلِمُوْنَ﴾ (آل عمران: 102)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! دل میں اللہ کا ویسا ہی خوف رکھو جیسا خوف رکھنا اس کا حق ہے، اور خبردار! تمہیں کسی اور حالت میں موت نہ آئے، بلکہ اسی حالت میں آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ اس کی continuity کے لئے ہے کہ اس کا تسلسل ہو، یہ جاری ہو، اس کے اندر درمیان میں وقفہ نہ ہو۔

سوال نمبر 12:

حضرت یہ کیوں کو کہتے ہیں: ’’در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری‘‘۔

جواب:

در جوانی توبہ کردن شیوهٔ پیغمبری

وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیزگار

یعنی جوانی میں انسان کے اوپر دونوں قسم کی چیزیں غالب ہوتی ہیں، اگر تقویٰ حاصل کرنا چاہے تو وہ بھی غالب ہو سکتا ہے اور شر کے تقاضے بھی جاندار ہوتے ہیں۔ لہٰذا اگر کوئی خرابی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔ اور جب بوڑھا ہو جائے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکے گا۔ مثلاً جس کا دانت نہیں ہو گا وہ کاٹے گا کیسے؟ جس کی آنکھ نہیں ہو گی وہ دیکھے گا کیسے؟ جو بہرہ ہو جائے وہ سنے گا کیسے؟ یعنی اس وقت تو اضطراری طور پر پرہیزگار ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ اختیاری طور پرہیزگار ہو جائے۔ اختیاری طور پر پرہیزگاری اور اضطراری طور پر پرہیزگاری میں فرق ہے۔ اضطراری پرہیزگاری میں انسان مجبور ہے اور اختیاری پرہیزگاری میں انسان مامور ہے۔ اور اس میں انسان کو فائدہ ہوتا ہے اور اجر بھی اسی وقت ملتا ہے۔

سوال نمبر 13:

حضرت آپ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ مشائخ ریت میں موتی ڈھونڈتے ہیں۔ کیا وہ ساری ریت کو موتی بنانے کی کوشش کرتے ہیں یا ریت کے اندر جو چھپے ہوئے موتی ہوتے ہیں ان کو نکالتے ہیں؟

جواب:

ان کا تو دل چاہتا ہے کہ سارے موتی ہو جائے، وہ تو ان کی خواہش ہے۔ لیکن اس طرح ہوتا تو نہیں، سارے تو موتی نہیں ہوتے۔ لہٰذا اگر اس کے اندر موتی ہیں تو وہ تلاش کر لیتے ہیں اور کم از کم ان کو فائدہ ہو جاتا ہے۔

سوال نمبر 14:

کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا سنت ہے۔ کسی کے گھر میں مہمانی پہ گئے ہیں تو کیا ادھر بھی ہم ان سے کہیں گے کہ ہم ہاتھ دھونا چاہتے ہیں۔

جواب:

یہ آپ نے بہت اچھا سوال کیا ہے۔ یہ معاشرتی آداب میں سے ہے۔ ہمیں بزرگوں نے بتایا ہے کہ جب باہر کسی جگہ پہ دعوت کھانے کے لئے جاؤ تو گھر سے اس نیت سے ہاتھ دھو کے چلے جاؤ۔ یعنی گھر میں ہاتھ دھو لو اس نیت سے کہ میں کھانا کھاؤں گا۔ البتہ اگر کسی کے ساتھ بے تکلفی ہو اور اس کو وسعت حاصل ہو اور آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کو تکلیف نہیں ہو گی بلکہ اس کو خوشی ہو گی، تو وہاں انسان کہہ سکتا ہے، تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی ترغیب ہو اور وہ بھی ہاتھ دھو کے کھا لیں۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ جب اہل خانہ کو تکلیف نہ ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ Drawing room کے ساتھ کوئی Attach bath وغیرہ نہیں ہوتا یا Washing area نہیں ہوتا، لہذا ان کو گھر میں لے جانا پڑتا ہے اور کافی تردد کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ایسے موقعوں پہ اس پر زیادہ زور نہیں دینا چاہئے۔

سوال نمبر 15:

حضرت یہ بہت عرصے سے سنتے آ رہے ہیں کہ نماز خشوع و خضوع سے پڑھنی چاہئے۔ خضوع اور خشوع میں کیا فرق کیا ہے؟

جواب:

خشوع دل کا سکون ہے اور خضوع اعضاء وجوارح کا سکون ہے۔ یعنی خضوع یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضاء اپنی اپنی جگہ پر ہوں۔ اور خشوع یہ ہے کہ دل اپنی جگہ پر ہو، یعنی اس میں ادھر ادھر کے خیالات نہ لائے۔ قرآن کریم میں ہے: ﴿وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ (البقرہ: 238)

ترجمہ: ’’اور اللہ کے سامنے با ادب فرمانبردار بن کر کھڑے ہوا کرو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

سوال نمبر 16:

حضرت کیا سورۂ فیل کا خلاصہ اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہے؟

جواب:

سورۂ فیل کا خلاصہ یہ ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ کے وہ احسانات جو قریش پر ہوئے تھے وہ ان کو بتانا ہے تاکہ وہ اللّٰہ کا شکر ادا کریں کہ اللہ پاک نے ان کے اوپر کتنے احسانات کئے ہیں۔ جیسے یہود کو کہا گیا تھا کہ تم اللّٰہ پاک کے احسان مانو کہ تمہیں اللّٰہ پاک نے چن لیا اور یہ یہ نعمتیں دی تھیں۔ اسی طرح قریش کے لئے بھی تنبیہ ہے کہ تمہیں کیسے اللّٰہ پاک نے سردی اور گرمی کے سفر تمہارے لئے آسان کر دیئے، لوگ تمہارا خیال رکھتے ہیں اور تمہارا بہت اکرام اور عزت کرتے ہیں۔ تو تم بھی ’’رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ‘‘ کی عبادت کرو جس کی وجہ سے تمہیں یہ سب کچھ مل رہا ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت! کیا سورۂ کوثر کا خلاصہ یہ ہے کہ قربانی کیجیے؟

جواب:

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک تو آپ ﷺ کے مقام کا ذکر ہے، چنانچہ ﴿اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ (الکوثر: 1-2)

ترجمہ: ’’(اے پیغمبر) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کر دی ہے۔ لہذا تم اپنے پروردگار (کی خوشنودی) کے لئے نماز پڑھو، اور قربانی کرو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ شکر کا موقع ہو گیا۔ اور ﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (الکوثر: 3)

ترجمہ: ’’یقین جانو تمہارا دشمن ہی وہ ہے جس کی جڑ کٹی ہوئی ہے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

یہ بشارت ہے۔ یعنی ﴿اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَیہ خبر ہے کہ تمہیں نعمتِ کوثر عطا کی گئی ہے اور دوسرا یہ ہے کہ ﴿فَصَلِّ لِرَبكَ یہ اس احسان کا شکر ادا کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اور تیسری چیز ﴿اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یہ بشارت ہے کہ تم بے نام و نشان نہیں ہو گے، بلکہ کافر جو تمہارا دشمن ہے وہ بے نام و نشان ہو رہا ہے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا ان کی جڑیں کٹ گئیں اور آپ ﷺ کی اولاد ما شاء اللّٰہ ابھی تک چل رہی ہے، دینی اولاد بھی چل رہی ہے اور نسبی اولاد چلی رہی ہے۔

سوال نمبر 18:

حضرت ﴿قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا (التحریم: 6)

ترجمہ: ’’اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟

جواب:

﴿قُوْا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا کہ اپنے آپ کو پہلے بچاؤ۔ کیونکہ ﴿اَنْفُسَكُمْ﴾ پہلے ہے۔ ﴿وَاَهْلِيْكُمْ﴾ اس کے بعد آیا ہے کہ اپنے اہل کو جہنم کے عذاب سے بچاؤ۔ مقصد یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کرو پھر اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرو۔

سوال نمبر 19:

ایک بات سنی ہے جس کا مفہوم ہے کہ آدمی فرائض کے ذریعے اللّٰہ کا قرب حاصل کرتا ہے اور پھر نوافل کے ذریعے اس میں بڑھوتری ہوتی ہے۔ اور پھر گویا اللّٰہ تعالیٰ بندے کا ہاتھ بن جاتے ہیں، آنکھ بن جاتے ہیں، پاؤں بن جاتے ہیں جس سے دیکھتا ہے سنتا ہے۔ اور اسی طرح دوسری آیت ہے: ﴿وَمَا رَمَيۡتَ اِذۡ رَمَيۡتَ وَلٰـكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى‌ (الانفال: 17)

ترجمہ: ’’اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

کیا یہ دونوں آیتیں ایک ہی بات بتا رہی ہیں؟

جواب:

اصل میں آپ ﷺ کے ساتھ اللّٰہ پاک کا معاملہ ایسا تھا کہ آپ ﷺ براہ راست اللّٰہ پاک کی تربیت میں تھے۔ ویسے تو ہر کام اللّٰہ ہی کرتے ہیں، لیکن خاص نسبت کی وجہ سے آپ ﷺ کے ساتھ اس کا اظہار کیا گیا کہ آپ ﷺ کا ہاتھ بھی تو اللّٰہ تعالیٰ ہی چلا رہے ہیں۔ باقی جب انسان اللّٰہ کا بن جاتا ہے تو اللّٰہ اس کا بن جاتا ہے۔ ’’مَن کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰه لَهٗ‘‘ کہ جو اللّٰہ کا بن گیا اللّٰہ اس کا ہو گیا۔ اس بات میں یہ ساری باتیں آ گئیں۔ اور یہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے کہ جس شخص نے اپنی فکر کو فکرِ آخرت بنا لیا تو اللّٰہ تعالیٰ اس کی تمام دنیا کی فکروں کی کفایت کر دے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ہم اللّٰہ پاک کے کئے ہوئے وعدوں پر یقین کریں اور اللّٰہ جل شانہٗ کے بن جائیں، اللّٰہ جل شانہٗ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور اپنی تمام کوششیں اللّٰہ پاک کی خوشنودی کے لئے صرف کر دیں، تو اللّٰہ جل شانہٗ وہ کچھ ہمارے لئے کرا دے گا جو ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ علامہ اقبال نے اس کو اس عنوان سے کہا ہے:

کی محمد ﷺ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

یہاں محمد ﷺ سے وفا سے مراد شریعت پر چلنا ہے۔ آپ ﷺ کے ساتھ وفا یہی ہو سکتی ہے کہ جو دین آپ ﷺ لے کے آئے ہیں، اس کو ہم اپنی زندگی میں لے آئیں۔

سوال نمبر 20:

حدیث پاکم میں آتا ہے کہ: ’’مَنْ لَّمْ یَسْأَلِ اللّٰہَ یَغْضَبُ عَلَیْہِ‘‘ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3373) تو کیا ہر حال میں اللّٰہ تعالیٰ سے ہر چیز مانگتے رہیں؟

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ سراپا سوالی بن جائیں۔ ہر وقت اللّٰہ پاک سے مانگنے کی حالت میں رہیں۔ جیسے آپ ﷺ کی سنت ہے کہ آپ ﷺ کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جاتا تو آپ ﷺ پہلے اللّٰہ پاک سے مانگتے تھے، اس کے بعد پھر سبب اختیار کرتے تھے۔ گویا آپ ﷺ پہلے مسبب الاسباب کے ساتھ رشتہ جوڑتے تھے اور پھر اسباب اختیار کرتے تھے۔ یعنی مسبب الاسباب سے پہلے تعلق قائم کرنا اور سبب کو بعد میں اختیار کرنا۔

سوال نمبر 21:

حضرت اس طرح سنا ہے کہ مثلاً ایک آدمی کو بیماری ہے، تو ایک یہ ہے کہ اس کی نگاہ ایک دم اللّٰہ تعالیٰ کی طرف گئی۔ اور ایک یہ ہے کہ بیماری آئی تو پہلے دم نگاہ ڈاکٹر کی طرف گئی۔ تو وہ جو پہلی نگاہ ہوتی ہے گویا وہ اس کا اصل یقین ہے؟

جواب:

یہ اس کے دل پر منحصر ہے۔ آپ اس کے عمل سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔ کیونکہ عین ممکن ہے کہ اس کے دل میں اللّٰہ جل شانہٗ کی طرف خیال زیادہ ہو، لیکن شریعت کے احترام میں وہ ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوتا ہو۔ کیونکہ حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ، حضرت نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا عمل بیماری میں مختلف ہوتا تھا۔ حضرت حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت زیادہ فریاد کرتے تھے کہ ہائے مر گیا، ہائے مر گیا، ہائے مر گیا۔ اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ حضرت کیوں؟ فرمایا اللّٰہ پاک کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار ضروری ہے، اللّٰہ پاک نے مجھے اسی لئے بیمار کیا ہے کہ میں عاجزی کا اظہار کروں۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بالکل خاموش رہتے تھے، پتا ہی نہیں چلتا تھا کہ بیمار ہیں۔ اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ فوراً اپنے علاج کی طرف متوجہ ہو جاتے اور طبیب کے پاس جاتے۔ چنانچہ اگر دل کی حالت صحیح ہے تو یہ تینوں باتیں اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہیں ۔ طریقے مختلف ہیں لیکن تینوں ٹھیک ہیں۔

سوال نمبر 22:

کیا اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ پہلے نفل پڑھ رہے ہوں پھر ڈاکٹر کی طرف جا رہے ہوں؟

جواب:

مثلاً اگر اس وقت bleeding ہو رہی ہو، تو کیا کریں گے؟ کیا آپ نفل پڑھیں گے؟ اس وقت آپ راستے میں دعا کریں گے۔ کیا نفل کے بغیر اللّٰہ پاک دعا قبول نہیں فرماتے؟ ایک آدمی چھت سے گر گیا ہے اور اس کا سر پھٹ کیا ہے اور آپ کہتے ہیں پہلے نفل پڑھو۔ کمال کی بات ہے۔ اس لئے فوراً علاج کی طرف جانا چاہئے، اس وقت ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے۔ اس کو damage ہو سکتا ہے۔ لہٰذا علاج واجب ہے اور نفل مستحب ہوں گے۔ اور واجب مستحب سے پہلے ہے۔ جہاں تک یقین کی بات ہے، تو یقین دل میں ہوتا ہے، زبان کی بات نہیں ہے، عمل کی بات نہیں ہے۔ اور دل میں یقین ہو گا۔ یوں دونوں چیزیں جمع ہو سکتی ہیں۔ اس صدی کے مجدد حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا عمل یہی ہوتا تھا، وہ فوراً عمل کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ نماز تک انہوں نے مؤخر کر دی۔ ایک دفعہ حضرت کے گھر والے گر گئے تو نماز مختصر کر کے فوراً ان کو لے گئے۔ اور یہ فرض نماز مختصر کی تھی۔

سوال نمبر 23:

حضرت! جماعت میں اکثر بتایا جاتا ہے کہ جب کوئی بیمار ہو جائے اور اس کی نگاہ direct ڈاکٹر کی طرف جائے تو اس کا مطلب ہے اس کے اندر ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ والا یقین نہیں ہے۔

جواب:

یہ کسی مجذوب کی بات ہو گی اور مجذوبوں کی باتیں نہیں چلا کرتیں۔ اس میں شیخ کی بات چلتی ہیں، جو صاحب بصیرت ہو اور صاحب مقام ہو اس کی بات چلتی ہے۔ یعنی تمکین والے کی بات چلتی ہے تلوین والے کی بات نہیں چلتی۔ یہ statement جو آپ بتا رہے ہیں یہ تلوین والی ہے، یہ تمکین والی statement نہیں ہے۔ حضرت مولانا غلام مصطفی صاحب رحمۃ اللّہ علیہ جو رائیونڈ میں مقیم تھے اور ہدایات دیا کرتے تھے اور کارگزاری سنتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ اگر کسی کے ساتھ زادِ راہ نہ ہو اور ان کی تشکیل کسی دور کی جگہ کے لئے ہو جائے، تو وہ تشکیل والوں کو بتا دیں کہ ان کی تشکیل تبدیل کر دیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی جماعت کے لئے بھی مسئلہ بن جائے او اپنے لئے بھی مسئلہ بن جائے۔ تو جو صاحبِ تمکین ہوتا ہے وہ ایسی باتیں کرتا ہے، وہ اسباب کو لیتا ہے اور اسباب کو اللّٰہ کے لئے لیتا ہے، وہ اسباب کو اپنے نفس کے لئے نہیں لیتا۔

سوال نمبر 24:

حضرت دعا ایسے انداز میں کرنا کہ وہ ایک بیان بن جائے۔ مثلاً ابھی کوئٹہ میں خود کش ہوا، تو اس میں ایک شخص فوت ہو گیا۔ اس میں کوئی غیر مسلم بھی تھے۔ یہاں اسلام آباد میں غیر مسلموں نے خاموشی اختیار کی۔ مسلمان کہتے ہیں ہم بھی ذرا دعا کروائیں گے۔ تو وہ انگلش میں لگ پڑے۔ تو کیا یہ دعا دعا ہے یا دعا بیان ہے کہ ہم دوسروں کو بھی بتائیں کہ ہم یہ مانگ رہے ہیں کہ یا اللّٰہ! ہمیں معاف کر دے۔ اسی طرح بعض foreign میں ہوتا ہے کہ دعا کا style ایسا ہوتا ہے کہ اس میں message convey کیا جا رہا ہوتا ہے۔

جواب:

دعا دعا کے طور پہ کرنی چاہئے اور message اس کے علاوہ دیا جا سکتا ہے۔ دعا کر کے message دے دیں یا دعا سے پہلے message دے دیں اور پھر دعا کر لیں۔ message دینے پر پابندی نہیں ہے، لیکن اس کو دعا کا حصہ نہ بنائیں۔ دعا دعا کے طور پہ علیحدہ کر لیں اور messages اس کے علاوہ کر لیں۔ دعا کے ذریعے message نہیں دینا چاہئے کیونکہ اس طرح تو سنانے والی بات ہو گی، وہ اللّٰہ پاک سے بات نہیں ہو گی۔ دعا میں تو صرف خالصتاً اللّٰہ سے بات ہوتی ہے، مخلوق سے بات نہیں ہوتی۔

سوال نمبر 25:

حضرت جس طرح کہا جاتا ہے کہ جھکتے ہوئے تولنا چاہئے، کیا اسی طرح زکوۃ میں بھی جھکتے ہوئے معاملہ کرنا چاہئے؟

جواب:

ایک فرض درج ہے اور ایک مستحب درجہ ہے۔ فرض تو یہی ہے کہ جتنی زکوۃ ہے اتنی دے دو اور مستحب یہ ہے کہ فرض ادا کرنے کے بعد جتنی مرضی دے دے۔

سوال نمبر 26:

حضرت یہ ’’لَا إلٰهَ إلَّا اللّٰہ‘‘ کہ نہیں کوئی معبود مگر اللّٰہ۔ معبود سے مقصد پالنے والا، حاجت روا، مشکل کشا ہے؟

جواب:

’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا بنیادی مطلب تو یہی ہے کہ اس کے سوا معبود کوئی نہیں ہے۔ لیکن جس کی عبادت کی جاتی ہے، اس میں ساری صفات ہوتی ہیں۔ ہر ایک کی تو عبادت نہیں کی جاتی ہے۔ اور جس میں ساری صفات پائی جائیں وہ ذات صرف اللّٰہ ہی ہے۔ اس لئے اللّٰہ پاک کی دوسری صفات کو بھی یہاں لایا جا سکتا ہے، لیکن indirect طور پر، direct نہیں، direct صرف عبادت کی بات ہے۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں: ’’لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَا مَقْصُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَا مَشْہُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘۔ لیکن اصل کلمہ ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ ہی ہے۔ باقی الٰہ کی تفسیریں ہیں۔

سوال نمبر 27:

حضرت ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا کیا معنیٰ ہے؟

جواب:

’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘، ’’لَا مَشْہُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ یہ دونوں ایک ہیں۔ البتہ ابتدا میں ’’لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ تھا۔ بعد میں چونکہ لوگوں کے لئے صحیح طور پہ explain نہیں ہو سکا اور ان سے غلطی ہونے لگی۔ تو پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ’’لَا مَشْہُوْدُ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کر دیا۔

سوال نمبر 28:

حضرت! ایک اجتماع میں مفتی زین العابدین صاحب نے فرمایا کہ خلافت پہ بہت کچھ کہا گیا ہے، پھر انہوں نے فرمایا کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ والی صفات اپنے اندر پیدا کرنا، جیسے اللّٰہ تعالیٰ رحم کرنے والے ہیں، عطا کرنے والے ہیں وغیرہ۔

جواب:

جی بالکل ’’تَخَلُّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰه‘‘ کہ اپنے آپ کو اللّٰہ کی صفات سے متصف کرو، یعنی ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرو۔ جیسے اللّٰہ رحیم ہے تم بھی رحیم بن جاؤ۔ جیسے اللّٰہ کریم ہے تم بھی کریم بن جاؤ۔ جیسے اللّٰہ معاف کرنے والا ہے تم بھی معاف کرنے والے بن جاؤ۔ جمالی صفات مراد ہیں، جلالی صفات مراد نہیں نہیں۔

سوال نمبر 29:

حضرت اس دن آپ نے فرمایا تھا کہ انسان صفات کا مجموعہ ہوتا ہے، یعنی انسانوں کے اندر مختلف صفات ہوتی ہیں۔

جواب:

انسان صفات کا مجموعہ نہیں ہے، بلکہ کچھ صفات مختلف انسانوں میں متفرق ہوتی ہیں۔ یعنی کسی میں کوئی صفت زیادہ غالب ہوتی ہے، کسی میں کوئی صفت زیادہ غالب ہوتی ہے۔ جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی صداقت زیادہ واضح تھی۔ حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی عدالت زیادہ واضح تھی، حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی حیا زیادہ واضح تھی اور حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ کی شجاعت زیادہ واضح تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں صداقت نہیں تھی یا حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں صداقت نہیں تھی۔ یہ ساری صفات سب میں تھیں، لیکن جو صفات ان کی پہچان بنیں وہ الگ الگ ہی تھیں۔

سوال نمبر 30:

یہ آتا ہے کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ جا کر جنگل میں قیام فرما گئے تھے۔

جواب:

در اصل ان پہ تفرد زیادہ غالب تھا، وہ فرداً رہتے تھے، مکس نہیں ہوتے تھے۔ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں ایک دفعہ فرما تھا کہ ابو ذر اکیلے رہے گا اور اکیلے اٹھے گا۔ ایک دفعہ آپ ﷺ نے ان کو نصیحت فرمائی تھی۔ حضرت ابو ذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا اللہ کے رسول! کیا آپ مجھے عامل نہیں بنائیں گے؟ آپ ﷺ نے میرے کندھے پر ہاتھ مار کر فرمایا: ”ابو ذر! تم کمزور ہو اور یہ (امارت) امانت ہے، قیامت کے دن یہ شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہو گی، سوائے اس شخص کے، جس نے اسے حق کے مطابق قبول کیا اور اس نے متعلقہ ذمہ داری جو اس پر عائد ہوئی تھی اسے (اچھی طرح) ادا کیا“۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر: 4823) کیونکہ امیر وہ بن سکتا ہے جو دوسروں کے جذبات کا خیال زیادہ رکھتا ہو۔ اور چونکہ حضرت ابو ذر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ میں استغراق زیادہ تھا، وہ دوسروں کے جذبات کا اتنا زیادہ احترام اس وجہ سے نہیں کر پاتے تھے، لہذا ان کو اس امارت سے روک دیا۔ اسی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان سے فرمایا تھا کہ آپ شہر میں نہ رہیں، بلکہ علیحدہ ایک جگہ میں رہیں تاکہ مسائل پیدا نہ ہوں۔ کیونکہ وہ ہر چیز پہ اعتراض کرتے تھے کہ یہ ٹھیک نہیں ہے، یہ ٹھیک نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح پھر خلافت کا کام نہیں چل سکتا تھا۔ اس لئے ان کو فرمایا کہ آپ علیحدہ رہیں۔

سوال نمبر 31:

حضرت! 1993 میں میں نے یہی مسئلہ ایک صاحب سے پوچھا تھا۔ میں نے اس طرح پوچھا کہ وہ پھر جنگل میں رہتے ہوں گے، تبلیغ کیسے کرتے ہوں گے؟ انہوں نے آگے سے مجھے جواب دیا کہ جنگل میں بھی تو لوگ ہوتے ہیں ان کو تبلیغ کرتے ہوں گے۔

جواب:

در اصل اللّٰہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ہر شخص کو نہیں پیدا کیا، بعض کو بعض چیزوں کے لئے پیدا کیا ہے۔ لہٰذا جس چیز کے لئے اللّٰہ پاک نے پیدا کیا ہے، ان سے وہی کام لینا چاہئے۔

سوال نمبر 32:

یعنی ضروری نہیں ہے کہ وہ جنگل میں تبلیغ کرتے ہوں؟

جواب:

ان کی تبلیغ یہی تھی کہ وہ تجرد اور ان چیزوں کی تبلیغ کرتے تھے کہ انسان مخلوقات کے ساتھ گھلے ملے نہیں اور اپنا دل صرف اللّٰہ تک خاص رکھے۔ یعنی استغناء اور اس قسم کی چیزیں ان میں زیادہ تھیں۔ جو بھی ان سے ملتا ہے، وہ ان سے یہی باتیں کرتے۔ یہی تبلیغ تھی، کوئی ضروری نہیں ہے کہ گشت کرتے تھے۔ در اصل علم کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام نے جو چیزیں آپ ﷺ سے حاصل کیں، فقہاء نے صحابہ کرام سے وہ حاصل کیں اور پھر اس کے لئے کچھ قواعد اور اصول بنا دیئے۔ گویا صحابہ کرام کی زندگیوں کے اعمال سے اصول بنے ہیں، ان اصولوں سے صحابہ کرام کی زندگیاں نہیں بنی ہیں۔ لہذا ان اصولوں کو ہم صحابہ پہ لاگو نہیں کریں گے، بلکہ ان اصولوں کو صحابہ کرام کی زندگیوں سے حاصل کریں گے۔ یعنی Primary action was there اور یہ secondary ہے۔ اسی طرح جو باقی چیزیں ہیں مثلاً تبلیغ ہے، یہ بھی صحابہ کرام سے آئی ہے۔ لہٰذا یہ طریقہ ہم نے صحابہ کرام کی زندگیوں سے حاصل تو کر لیا لیکن اس کو صحابہ پہ لاگو نہیں کر سکتے، صحابہ اس سے آزاد تھے۔

سوال نمبر 33:

مشائخ سے سنا ہے کہ تین قسم کا علم تھا اور سب سے اونچا بڑھیا علم لوح محفوظ کا علم ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

جواب:

اس سے مراد وحی ہے، وحی لوح محفوظ آئی ہے۔ لوحِ محفوظ میں جو تھا وہ وحی کے ذریعے سے نبی کے پاس آیا۔ لہٰذا جو علم لوح محفوظ کا کھلا ہے وہ یہ وحی ہے اور جو کھلا نہیں ہے اس کو ہم نہیں جانتے۔ وہ جتنا اللّٰہ پاک کسی پر کھول دیتا ہے وہ اس کی مرضی ہے۔

سوال نمبر 34:

جو کھلتا ہے وہ کیا چیز ہوتی ہے؟

جواب:

وہ علومِ وہبی ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 35:

حضرت! میں کسی سے میں time لوں، مثلاً میں کہوں کہ مغرب سے عشاء تک آپ نے مجھے time دینا ہے۔ لیکن میں مغرب میں ان کے پاس نہ پہنچوں۔ اب کیا ان پر ضروری ہے کہ وہ عشاء تک میرا انتظار کرتے رہیں۔ کیونکہ انہوں نے مجھے مغرب سے عشاء time دیا ہو۔

جواب:

چونکہ اس میں کئی شکوک ہیں، لہذا اس پر میں فی الحال بات نہیں کرتا۔ میرے خیال میں یہ ساری تفصیلات کسی مفتی کو بتا دی جائیں، وہی اس کا جواب دے گا۔ کیونکہ اگر وقت کا تعین ہو چکا ہو کہ عشاء تک لازم ہے۔ پھر تو اس کے اوپر لازم ہو گا۔ لیکن اگر ایسی بات نہیں ہے، بلکہ آپ نے کہا میں مغرب میں پہنچوں گا۔ اور اگر مغرب میں نہیں پہنچے تو بس بات ختم ہو گئی، وہ آزاد ہے، وہ آپ کے لئے وقت کو ضائع نہیں کر سکتے کہ آپ کو time دے دیا تو اس وقت میں کوئی اور کام نہ کریں۔

سوال نمبر 36:

ہند میں پہلے جو مذاہب تھے، کچھ علماء کہتے ہیں کہ وہ بھی ادیانِ سماویہ تھے۔ کیا ایسے ہی ہے؟

جواب:

یہ بات بالکل صحیح ہے۔ قرآن پاک میں آتا ہے: ﴿وَّلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد: 7)

ترجمہ: ’’اور ہر قوم کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا شخص ہوا ہے جو ہدایت کا راستہ دکھائے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

لہذا دنیا کے مختلف حصوں میں پیغمبر آئے ہیں۔ لیکن یہ بات الگ ہے کہ کون سا مذہب قائم رہا اور کون سا مذہب ختم ہو گیا، مثلاً عیسی علیہ السلام کے مذہب کا نام قائم رہا لیکن مذہب ختم ہو گیا۔ اس طرح موسی علیہ السلام کے مذہب کا نام تو قائم رہا لیکن مذہب ختم ہو گیا۔ اس طرح دین ابراہیمی بھی سماوی دین تھا۔ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تحقیق یہ تھی کہ مہابت اصل میں پیغمبر تھے لیکن ان کی تعلیمات باقی نہیں رہیں۔ انبیاء کرام میں ایک نام آتا ہے ذوالکفل، یہ کپل وستو کے تھے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ یہ اس طرف اشارہ ہے۔ لیکن اس کے بارے میں ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ’’لَا نُصَدِّقُ وَلَا نُکَذِّبُ‘‘ یعنی ہم نہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ چیز مخفی ہے، اللّٰہ پاک نے اس کو جس طرح رکھا ہے اس طرح ہم بھی رکھیں گے۔ حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کا مقولہ ہے: ’’اِبْھَمُوْا مَا اَبْھَمَہُ اللّٰہ‘‘ یعنی اس چیز کو مبھم رکھو جس کو اللہ نے مبھم رکھا ہے۔ لہذا ہم بھی اس کو مبھم رکھیں گے اور اس کے اوپر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے۔

سوال نمبر 37:

حضرت! انگلینڈ میں اور امریکہ میں کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں جو یہودیوں کا اور ہندوؤں کا ذبیحہ بھی کھا لیتے ہیں کہ یہ ادیانِ سماویہ میں سے ہیں۔

جواب:

اس وقت یہودیوں کا جو مذہب ہے اس میں بھی یہودیت باقی نہیں ہے۔ اسی طرح ہندو وغیرہ بھی اگر تھے بھے لیکن اب تو باقی نہیں ہیں۔ اس وقت ان کا جو مذہب ہے یہ وہ مذہب نہیں ہے جو ادیانِ سماویہ میں تھا۔ لہذا اس میں احتیاط لازم ہے۔ مشرک آدمی کا ذبیحہ حلال نہیں ہے اور ان میں شرک پایا جاتا ہے۔

سوال نمبر 38:

حضرت! بھائی مشتاق صاحب ایک دفعہ گفتگو فرما رہے تھے اور یہ آیت پڑھی: ﴿قُلْ يٰۤـاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيْنَـنَا وَبَيْنَكُمْ﴾ (آل عمران: 64) اس کی روشنی میں یہ اصول بتا رہے تھے مختلف لوگوں کو جوڑنے کے لئے کہ commonality کو فروغ دیا جائے۔

جواب:

یہ بالکل صحیح ہے۔ مثلاً ایک شخص ہے جو آپ کو اپنے سے دور سمجھتا ہے اور آپ کی بات نہیں سنتا۔ اس کو قریب لانے کے لئے آپ کچھ اس کے ساتھ ایسی باتیں کریں جس سے وہ آپ کو اپنا قریب سمجھے۔ اس سے وہ آپ کی بات سن لے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ ان کی دین کی بات کو ماننے لگیں۔ ان کے دین کی بات ماننا نہیں ہوتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ ان کے ساتھ جو مشترک چیزیں ہیں ان کے ذریعے سے اس کو قریب لائیں۔ جیسے قرآن پاک میں ہے: ﴿قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ (الکفرون: 1-2)

ترجمہ: ’’تم کہہ دو کہ: اے حق کا انکار کرنے والو۔ میں ان چیزوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم عبادت کرتے ہو‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

چنانچہ اس میں یہی حد بندی ہے۔ ایک طرف ﴿تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ (آل عمران: 64) ہے۔ اور دوسری طرف ﴿قُلْ يٰٓاَيُّهَا الْكٰفِرُوْنَ لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ﴾ (الکفرون: 1-2) ہے۔ اس کے درمیان درمیان ہمیں رہنا ہو گا اور اس کی گنجائش ہے۔ اور یہ صرف قریب لانے کے لئے ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا ایک طریقہ تھا کہ جب کسی کو دعوت دیتے تھے تو پہلے ان سے پوچھتے تھے کہ آپ کون ہیں؟ آپ کا قبیلہ کون سا ہے؟ چونکہ ان قبیلوں کے شجرے ان کو معلوم ہوتے تھے، تو ان کے شجروں کے ذریعے سے ان کے ساتھ رشتہ داری بتاتے تھے کہ فلاں پشت میں آپ کا دادا ہمارے دادا کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ چنانچہ اس رشتے داری کو وہ دعوت کے لئے استعمال کرتے تھے۔

سوال نمبر 39:

حضرت! ہند میں بیرونی کے نام سے کوئی عالم گزرے ہیں؟

جواب:

ابو ریحان البیرونی یہ ہند میں نہیں تھے۔ اصل میں یہ محمود غزنوی کے دور میں افغانستان میں تھے، لیکن یہ ہند میں کافی عرصہ رہے ہیں۔ انہوں نے ہند کی بڑی study کی تھی اور اس پہ کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کافی تحقیقات ہیں۔

سوال نمبر 40:

انہوں نے یہ بات لکھی تھی کہ ہندو ادیانِ سماویہ میں سے ہیں، اس لئے ان کی چیزیں کھائی جا سکتی ہیں۔

جواب:

نہیں! انہوں نے یہ نہیں کہا تھا۔ انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ ادیان سماویہ ہیں۔ چونکہ وہ مفتی تو نہیں تھے، جب کہ مفتی فتویٰ دے سکتا ہے۔

سوال نمبر 41:

کیا اجتماعی دعا قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہے؟ اور کونسی دعائیں قبولیت کے زیادہ قریب ہوتی ہیں؟ اور کون سی دعائیں ہیں جو خود کرنے کی ہوتی ہیں؟

جواب:

اصل میں دعا اللّٰہ کے ساتھ تعلق کا اظہار ہے۔ جب بہت سارے قلوب اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اللّٰہ تعالی کی رحمت زیادہ متوجہ ہو جاتی ہے۔ اس لئے نمازِ استسقاء کے لئے لوگ باہر نکلتے تھے، حتی کہ اس میں اپنے اپنے جانوروں کو لانے کا معمول تھا، تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کو رحم آ جائے۔ بہرحال جس چیز میں اللّٰہ کی طرف زیادہ تعلق کا اظہار ہو گا وہ اللّٰہ تعالی کے قریب کرنے والی ہو گی۔ پس اگر اجتماع میں یہ چیز فوت ہو جائے تو پھر انفرادی زیادہ بہتر ہو گا۔ کیونکہ مقصود یعنی اللّٰہ کی طرف تعلق ضروری ہے۔ دعا کے اندر سب سے زیادہ اہم چیز اللّٰہ کے ساتھ تعلق ہے۔

سوال نمبر 42:

حضرت! دو آدمی ایک جیسے کام کرتے ہیں ایک کے لئے وہی کام مجاہدہ ہو گا اور دوسرے کے لئے وہ routine کا بھی کام ہو گا۔

جواب:

وہ مجاہد ہے۔ کیونکہ مجاہد کے لئے مجاہدہ مجاہدہ نہیں رہتا، اس کے لئے routine بن جاتی ہے۔ یعنی اس مجاہد کے لئے مجاہدہ routine بن جاتا ہے۔

سوال نمبر 43:

دو View points ہیں۔ ایک یہ کہ شریعت یعنی قرآن و حدیث ہیں۔ اور ایک مادیت ہے، یعنی سائنس اور ٹیکنالوجی، جو کہ اہل مغرب سے سیکھی جاتی ہے۔ ایک یہ View point ہے۔ ایک View point یہ ہے کہ یہ ساری مخلوق اللّٰہ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔ تو دین کے ذریعے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو سمجھیں۔

جواب:

آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف ہے: ’’أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ‘‘۔ (صحیح مسلم، 6277)

ترجمہ: ’’تم اپنے دنیاوی امور کو اچھی طرح جانتے ہو‘‘۔

یہ دنیاوی امور سائنس ہے۔ لہذا اگر سائنسی طور پر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو دین اس کو غلط نہیں کہتا، جب تک کہ وہ مذہب کی مخالفت نہ کرے۔ مثلاً کسی کی سائنس اگر یہ بتائے کہ پانچ نمازیں پڑھنے سے فلاں نقصان ہوتا ہے۔ تو اس بات کو نہیں مانا جائے گا۔ لیکن اگر سائنس یہ کہتی ہے کہ فلاں چیز کھانے سے فلاں بیماری ہو سکتی ہے۔ تو اس کی یہ بات مانی جا سکتی ہے۔

سوال نمبر 44:

جس طرح Science and technology میں اہل مغرب آگے ہیں۔ اب مسلمانوں میں ایک سوچ یہ ہے کہ ہم جس طرح دین سیکھتے ہیں، اسی طرح Science and technology بھی سیکھیں۔

جواب:

نہیں نہیں! Science and technology اگر کوئی مغرب سے سیکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ سیکھنے کے انداز میں فرق ہونا چاہئے۔ میں ایک واقعہ سناتا ہوں۔ عبد الرحمن افغانستان کے ایک بادشاہ گزرے ہیں۔ انہوں نے اس طرح کیا کہ ایک دفعہ ایک عالم ہندوستان سے گئے تھے اور ان سے یہ کہا کہ جرمنی میں جو Science and technology کے میدان میں سے کام ہو رہے ہیں، ہمارے لوگوں کو وہاں جانا چاہئے اور اس کو سیکھنا چاہئے۔ انہوں نے فرمایا تھا کہ تجویز معقول ہے لیکن اس میں ایک خطا ہے۔ وہ خطا یہ ہے کہ اگر ہمارے لوگ وہاں جائیں گے تو ان کے ماحول سے متاثر ہو کر ان کے نمائندے بن جائیں گے۔ پھر جب ہمارے پاس آئیں گے تو اس سے نقصان ہو گا۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اچھی تنخواہوں پر ان کے لئے پروفیسروں کو بلایا جائے اور یہیں ان سے کام لیا جائے۔ پھر وہ ہمارے ماحول سے متاثر ہوں گے۔ ہمارے لوگ متاثر نہیں ہوں گے۔ گویا یہ طریقہ کار کا فرق ہے۔ لیکن بہرحال اس کی اجازت ہے۔

سوال نمبر 45:

حضرت! ﴿يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصف: 2) کا مقصد کیا یہ ہے کہ جو کہتے ہو وہ کرنا بھی چاہئے۔

جواب:

نہیں! اس کا مطلب یہ ہے کہ دعویٰ نہ کریں۔ یعنی اس چیز کا دعویٰ نہ کرو جو تم کرتے نہیں ہو۔ دعوت اور دعویٰ میں فرق ہے۔ دعوت کی اجازت ہے۔ مثلاً ایک کافر ہے، وہ کسی کو کہہ سکتا ہے کہ آپ نماز پڑھیں۔ حالانکہ کافر نماز نہیں پڑھتا۔ لیکن مسلمان کو کہہ سکتا ہے کہ نماز پڑھو، اس کو تو روکا نہیں گیا۔ لیکن اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ میں بڑا نیک ہوں، میں بزرگ ہوں۔ میں تہجد گزار ہوں۔ اگر وہ یہ دعویٰ کرتا ہے اور حقیقت میں ایسے نہ ہو۔ تو یہ نقصان کی بات ہے۔ دراصل اس سے روکا گیا ہے۔

سوال نمبر 46:

دعویٰ کس طرح کرے گا؟

جواب:

دعویٰ اس طرح ہے کہ مثلاً ایک آدمی ہے جس کے اندر وہ صفت موجود نہیں ہے جس کا وہ دعوی کر رہا ہے۔ تو یہ جھوٹ ہو گیا۔ اس کے بارے میں فرمایا گیا کہ ﴿لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 2)

ترجمہ: ’’تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)

سوال نمبر 47:

یعنی دوسرے الفاظ میں جو چیز حاصل نہیں ہے، اس کا کیوں کہتے ہو کہ میرے پاس ہے۔

جواب:

بالکل یہی بات ہے۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ جو چیز نہیں کرتے اس کو دعوت نہیں دے سکتے۔ بالکل اس کی دعوت دے سکتے۔ بلکہ اس نیت سے دعوت دینی چاہئے کہ مجھے بھی اس پہ عمل کہ توفیق ہو جائے۔

سوال نمبر 48:

یعنی اگر آدمی خود سگریٹ پیتا ہے، وہ بچے کو کہہ سکتا ہے کہ سگریٹ نہ پیا کرو۔

جواب:

جواری خود اپنے بچوں کو جوئے سے بچاتے ہیں، ان کو روکتے ہیں۔ رنڈیاں اپنی بچیوں کو رنڈی ہونے سے بچاتی ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے۔ اس لئے ضروری نہیں کہ انسان جو کام خود کر رہا ہو اس سے دوسروں کو نہ روکے۔ کیونکہ اسے experience بھی تو ہوتا ہے۔ اس experience سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ