سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 092 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

حضرت جی! جذب کے بارے میں ذرا بتا دیں کہ یہ کیا چیز ہوتی ہے؟

جواب:

جذب کو انگریزی gravitation (کشش ثقل) کہتے ہیں، جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک جسم دوسرے جسم کو کھینچتا اور جذب کرتا ہے، اور Physics میں جاذب کا قانون یہ ہے: G m1 m2 = r square، یہ Physics کا عمومی قانون ہے۔ لیکن صوفیاء کے یہاں جذب سے مراد کسی بھی مقبول عمل پر اللّٰہ جلَّ شانہٗ کا یوں فضل ہوجانا کہ کوئی شخص برسوں کا راستہ ایک آن میں طے کر لے، اس کو جذب کہتے ہیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ محبت کشش پیدا کرتی ہے، اور ہم اسی چیز کے مکلف ہیں کہ ہم اللّٰہ جل شانہٗ کے ساتھ محبت کریں، چنانچہ ایمان والوں کو اللہ جل شانہٗ کے ساتھ شدید محبت ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:

﴿وَالَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾ (البقرہ: 165)

ترجمہ: "اور جو لوگ ایمان لاچکے ہیں وہ اللہ ہی سے سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اور جذب اللہ تعالی کا فضل ہوتا ہے، جیسا کہ قانون الہی ہے کہ جب انسان اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے تو وہ اپنا ہاتھ کبھی نیچا نہیں رکھتا، اگر کوئی اس کی طرف 1 بالشت جاتا ہے تو وہ 2 بالشت اور اگر کوئی 1 ہاتھ تو وہ 2 ہاتھ اور اگر کوئی چل کے جاتا ہے تو وہ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ لہٰذا جب ہماری طرف سے محبت کا عمل ہوگا تو ادھر سے کیوں نہیں ہوگا؟ پس اللہ جل شانہٗ کا یہ قانون ہے کہ انسان جب دنیا کی محبت کو چھوڑ دیتا ہے اور اللّٰہ تعالی کے ساتھ محبت کرتا ہے تو اللّٰہ جل شانہٗ اس کے ہوجاتے ہیں، چنانچہ بزرگوں کا قو ل ہے:

’’مَنْ کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰهُ لَهٗ‘‘۔

ترجمہ: "جو اللّٰہ کا ہوگیا تو اللّٰہ اس کا ہوگیا"۔

اس وجہ سے جذب میں بنیادی چیز اللّٰہ پاک کی محبت کو حاصل کرنا اور دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا ہے، یہ چیز انسان کے اختیار میں ہے، اس محبت کے بعد انسان پر اللّٰہ پاک کا جتنا فضل ہوجائے وہ اللہ تعالی کی طرف سے اس کے اوپر احسان ہے، جذب کا بنیادی تصور یہی ہے۔

سوال نمبر 2:

حضرت! اللہ تعالی کی محبت پیدا کرنے کے لیے کس چیز کا علاج ضروری ہے؟

جواب:

پہلے اس نکتہ پر غور کر لیتے ہیں کہ وہ کونسی چیزیں ہیں جن کے باعث کسی سے محبت ہوتی ہے۔ ایک آدمی کو دوسرے آدمی سے محبت یا تو اس کے جمال کی وجہ سے ہوتی ہے، یا کمال کی وجہ سے ہوتی ہے، یا احسان کی وجہ سے ہوتی ہے، مثلاً: کوئی آپ کے اوپر احسان کرے تو آپ اس کے ممنون ہوجاتے ہیں اور اس کے ساتھ محبت کرنے لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید ایک بات یہ بھی ہے کہ انسان جس چیز پر جان، مال اور وقت خرچ کرتا ہے تو انسان کو اس چیز کے ساتھ بھی محبت ہوجاتی ہے اور کچھ محبتیں انسان میں فطرتاً پہلے سے موجود ہوتی ہیں، جیسے ممتا یعنی ماں کے دل میں اولاد کی محبت، یہ اس کی فطرت میں پہلے سے موجود ہوتی ہے، اس کے لیے کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جمال، کمال اور احسان کی بنا پر ایک انسان دوسرے انسان سے محبت کرتا ہے۔

عقل کی آنکھ سے اگر دیکھا جائے تو اللّٰہ پاک کا جمال سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک ہی نے جمال کو پیدا کیا ہے، اللّٰہ جل شانہٗ ہی حسینوں کو پیدا کرنے والا ہے، خود اللہ پاک کا حسن و جمال کتنا ہوگا؟ اس کا ہم تصور نہیں کر سکتے۔ اللہ پاک کا کمال بھی سب سے زیادہ ہے۔ کیونکہ اللّٰہ پاک کی ذات میں کمال نہیں ہوگا تو کس میں ہوگا؟ یہ اللہ پاک کا کمال ہے کہ ہر چیز اس کے اختیار میں ہے، اور ہر خیر اور خوبی بے انتہا اللّٰہ پاک کی ذات میں ہے۔ اللہ پاک کا احسان اتنا بے لوث کہ ہم سے کچھ بھی بدلہ نہیں مانگتے اور اگر ہم سے کبھی کچھ مانگتے ہیں تو وہ بھی ہمارے ہی فائدہ کے لیے مانگتے ہیں، بن مانگے وہ خود ہی ہمیں نعمتیں دیتے رہتے ہیں، اور اتنا دیتے ہیں کہ ہم نے جو چیزیں ان سے نہیں مانگی تھیں وہ بھی دے دیں اور تا حال بن مانگے بھی بہت کچھ دے رہے ہیں، اس کا احسان ہمارے تصور سے بھی بہت زیادہ ہے، ان سب چیزوں کا لحاظ کرتے ہوئے انسان اگر عقلی طور پر دیکھے تو اس کی سب سے زیادہ اللّٰہ کے ساتھ محبت ہونی چاہیے، یہ عقلی محبت ہوئی۔

اللہ تعالی کے ساتھ طبعی محبت کو پیدا کرنے کے لئے اپنا مال، جان اور وقت لگانا چاہیے۔ کیونکہ جس چیز پر انسان کا مال، جان اور وقت لگتا ہے اس کے ساتھ انسان کو طبعی محبت پیدا ہوجاتی ہے، پھر وہ اگلے مراحل بآسانی طے لیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مزید ایک چیز یہ بھی ہے کہ اہلِ محبت کی مجالس میں اٹھنا بیٹھنا ہونا چاہئے، اگر ان کی صحبت میسر نہیں ہے تو ان کی کتابوں اور ان کے کلام کو پڑھا جائے، اس سے بھی بہت فائدہ ہوتا ہے، یہ چیز بھی ایک دیا سلائی کا کام کرتی ہے، جو انسان کے اندر موجود ہوتا ہے اس کو ابھار دیتی ہے۔ چنانچہ میں ایک عارفانہ کلام پیش کرتا ہوں جو ان شاء اللہ تعالی بہت مفید ثابت ہوگا۔

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے

اس زیست کا ہر لمحہ امانت ہے اُس کی جب

یہ اس کے لیے صرف ہو اس پہ آؤں میں کیسے

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے

ہر دم وہ چاہے میری نظر اس کی طرف ہو

اغیار کے اشاروں سے دل بچاؤں میں کیسے

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے

دل مطمئن تو اس پہ ہے کہ اس کا ہی رہے

پر نفس کو اس پہ مطمئن کراؤں میں کیسے

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے

آنکھوں کے سامنے شر ہے جس میں خیر ہے مخفی

اس خیر میں شر سے آنکھیں اب ہٹاؤں میں کیسے

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں یہ کیسے

جو شیخ کی دہلیز ہے پکڑو اسے شبیر!

بہتر ہو اس سے بھی وہ گُر بتاؤں میں کیسے

دل مبتلائے یار کو بہلاؤں میں کیسے

میں وصل یار چاہوں مگر پاؤں میں کیسے

سوال نمبر 3:

حضرت! اس کلام میں ایک شعر یہ آیا ہے:

دل مطمئن تو اس پہ ہے کہ اس کا ہی رہے

پر نفس کو اس پہ مطمئن کراؤں میں کیسے

جس کا حاصل یہ ہے کہ دل ایک چیز پر مطمئن ہے لیکن نفس اس کی تردید کرتا ہے، یعنی ان دونوں کے درمیان جس اختلاف کا ذکر ہوا ہے، اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

اس کا مطلب یہ ہے کہ دل ذکر اللّٰہ سے بنتا ہے، حدیث شریف میں آتا ہے:

"لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃٌ، وَاِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ" (مشکوۃ المصابیح: 2286)

ترجمہ: "ہر چیز کی صفائی کے لیے ایک آلہ ہوتا ہے اور دل کی صفائی کا آلہ ذکر اللّٰہ ہے"۔

لہٰذا کثرتِ ذکر دل کو صاف کرنے کا ذریعہ ہے، بالخصوص وہ اذکار جو مشائخِ سلوک بتاتے ہیں، جیسے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘، ’’اِلَّا اَللہُ‘‘ اور ’’اَللہ اَللہ‘‘ یہ سب اذکار ہیں، یہ اسی محبت کو پیدا کرنے کے لیے ہیں، بلکہ ان کے ساتھ جو مراقبہ کیا جاتا ہے وہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کے ساتھ یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ کے ساتھ دل سے دنیا کی محبت نکل رہی ہے، اور ’’اِلَّا اَللہُ‘‘ کے ساتھ دل میں اللّٰہ پاک کی محبت آ رہی ہے، اور "اِلَّا اللّٰہ" کے ساتھ جو مراقبہ ہے وہ یہی ہے کہ صرف اللّٰه، صرف اللّٰہ، اور صرف اللّٰہ، ’’اَللہ اَللہ‘‘ میں عرش الہی اور عرش اصغر یعنی دل دونوں کے درمیان connection لگایا جاتا ہے، اسم ذات "اَللّٰہ" کے ذکر میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ اللّٰہ پاک مجھے محبت کے ساتھ دیکھ رہے ہیں، اس ذکر میں گویا کہ بندہ کی طرف سے بھی محبت کا تصور ہے اور اللہ کی طرف سے بھی محبت کا تصور ہے، اللہ تعالی کی طرف سے محبت کا تصور اس لئے کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللّٰہ جل شانہٗ نے خود فرمایا ہے:

"اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ" (صحیح البخاری: 6970)

ترجمہ: "میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے"۔

یعنی میں بندے کے اس گمان کے ساتھ ہوں جو وہ میرے ساتھ رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر بندہ یہ گمان رکھے گا کہ اللّٰہ پاک کو مجھ سے محبت ہے تو اس کا یہ گمان درست ہوسکتا ہے، چنانچہ سارے سلاسل میں سلوک اسی محبت کے ذریعے سے طے کیا جاتا ہے، یہ تو دل کا حال ہے۔

نفس کی متعلق یہ بات ہے کہ اس کی خواہشات ہوتی ہیں، ان خواہشات کو دبانے کے لیے مجاہدے کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ نفس باتوں سے نہیں مانتا، بلکہ یہ مجاہدے سے مانتا ہے، اور مجاہدہ یہ ہے کہ اس نفس کو اس وقت تک جائز چیزوں سے بھی روک دیا جائے جب تک کہ اس کو سیدھا نہ کر لیا جائے، یہ تربیتی مجاہدہ کہلاتا ہے، اور یہ بعض دفعہ ضروری ہوجاتا ہے، جبکہ بعض دفعہ صرف شرعی مجاہدہ بھی کافی ہوجاتا ہے۔ مگر مجاہدہ ہر شخص کے مزاج اور حالات پر منحصر ہے، اس لئے یہ معاملہ شیخ پر چھوڑا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ذکر اللّٰہ کے ذریعے سے دل مطمئن ہوجاتا ہے لیکن نفس کو مطمئن کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ حالانکہ اجر و ثواب کا دار و مدار نفس کو مطمئن کرانے پر ہی ہے جیسا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں:

﴿يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۝ ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً ۝ فَادۡخُلِىۡ فِىۡ عِبٰدِىْۙ ۝ وَادۡخُلِىۡ جَنَّتِىْ﴾ (الفجر: 27 30)

ترجمہ: "(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پاچکی ہے، اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی، اور شامل ہوجا میرے (نیک) بندوں میں، اور داخل ہوجا میری جنت میں"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

جب دل مطمئن ہوجاتا ہے لیکن نفس مطمئن نہیں ہوتا تو دل روتا رہتا ہے، اور کڑھتا رہتا ہے، وہ کچھ نہیں کر سکتا، حالانکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں؟ اور مجھے کیا کرنا چاہئے، جیسے ڈرائیور گاڑی کو ایک طرف موڑ رہا ہو اور آپ دوسری طرف موڑ رہے ہوں، ایسی صورت میں ڈرائیور چیخ و پکار کرے گا، وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے نفس کے علاج کی باقاعدہ کوشش کرتا رہے اور اپنے نفس کو سمجھاتا رہے کہ اے نفس! تجھے اب سیدھا چلنا ہوگا۔

سوال نمبر 4:

حضرت! وصل یار سے کیا مراد ہے؟

جواب:

یہ بہت اچھا سوال ہے۔ کیونکہ وصال کا جو مفہوم لوگ عموماً سمجھ لیتے ہیں، وہ یہاں مراد نہیں ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالی کو اس طرح پانا ممکن نہیں ہے جس طرح ایک انسان دوسرے انسان کو پالیتا ہے۔

وصلِ یار سے مراد یہ ہے کہ انسان اللّٰہ تعالی کا مطیع بن جائے، جیسا کہ بزرگوں کا قول ہے:

"مَنْ کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰهُ لَهٗ"

ترجمہ: "جو اللّٰہ کا بن جاتا ہے اللّٰہ اس کا ہوجاتا ہے"۔

جس شخص کو یہ مقام حاصل ہوجاتا ہے، اس کی زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالی کی یاد میں گزرتا ہے، اور وہ آدمی ہر لمحہ اس کا لطف محسوس کرتا ہے، لیکن اس کے پاس بیٹھنے والا اس سے ناآشنا ہوتا ہے، اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا، چنانچہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

دل میرا کس سے آشنا ہے تجھ کو کیا معلوم

جھکی ہوجاتی ہے گردن میری محفل میں اب

کون اس وقت بلاتا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

دل میرا کس سے آشنا ہے تجھ کو کیا معلوم

کیسے غافل نہ ہوں اس سے کہ ہر طرف ہے وہی

اپنے آغوش میں چھپاتا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

ہر وقت اس کی نظر اپنی نظر پر محسوس

عرش سے کیا برس رہا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

بھلا دیا ہے جس نے مجھ سے ہر ایک کام میرا

لگا ہوں جس میں کام اس کا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

دل میرا کس سے آشنا ہے تجھے کیا معلوم

نہیں پیا ہے تو نے عشق کا جام ابھی

جو اس نے مجھ کو پلایا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

اب تو بس اس کی محبت کا آسرا ہے شبیرؔ

رات دعاؤں کے رستے میری ملاقات ان سے

ملن کا وقت وہ کیسا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

کہا جب اس نے کہ تم میرے ہو تو پھر اس وقت

دل کا کیا حال پھر ہوتا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

بہا بہا کے میں آنسو میں دل کو دھو ڈالوں

پھر میرے دل میں کون آتا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

کیسے گم سم خاموش میں نہ رہوں شبیر کہ

دھیان حاصل کس کا ہوا ہے تجھ کو کیا معلوم

ہوا جو روح کا اشارہ ہے تجھ کو کیا معلوم

دل میرا کس سے آشنا ہے تجھ کو کیا معلوم


حاصلِ فنا:

بھلا کے خود کو بے خودی پائی

مٹا کے جاں کو زندگی پائی

دعا ہے یہ وصال ہوجائے

پا کے تجھ کو میں نے خودی پائی

یہ اللہ تعالی کی محبت بھرا کلام ہے، اللہ تعالی کی محبت کے ساتھ ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے اوپر چلنے کی فکر، یہ دونوں چیزیں بھی بہت اہم ہیں۔ افسوس! آج کل کے زمانہ میں امت سنتوں پر چلنے کے بجائے مختلف بدعات میں مبتلا ہے، اور تفرقہ کا شکار ہے، جیسا کہ شاعر نے اس چیز کو ان اشعار میں بیان کیا ہے:

ہے کیا شیطاں کی کاوش سے اُمت میں تفرقہ برپا

سنوں لوگوں کے میں جب درمیاں انہونی کا چرچا

فریق اک زور دے جب آپ کی ذات کی محبت پر

اور دوسرا زور عمل کرنے پہ دے، آقا کی سنت پر

میں ہوں حیراں، ہے کس کو اختلاف دونوں کی صحت پر؟

کمال یہ ہےکہ دونوں کو ہے حیرت، میری حیرت پر

بتاؤں کیسے ان دونوں کو، ان میں ہر اک ثابت ہے

ہے اک حکمِ نبی، دوسرے پہ دال قرآن کی آیت ہے

ذرا سوچیں یہ کہ جن کو بھی آقا سے محبت ہو

نگاہوں میں بتاؤ، ان کی ہلکی کیسے سنت ہو؟

عمل میں ان کے دوستو، سمجھو نا پھر کیسے بدعت ہو؟

حقیقت یہ ہے کہ سنت ہمہ وقت ان کی چاہت ہو

اگر یہ ہے نہیں تو پھر محبت انکی جھوٹی ہے

نہ سمجھے یہ اگر کوئی تو اس کی عقل موٹی ہے

کہے آقا، محبت ان کی جب تکمیلِ ایماں ہے

تو سنت پر چلے جو اس میں، پھر وہ کیسے حیراں ہے؟

پڑھی جب نعت جائے اس سے پھر وہ کیوں پریشان ہے

ہو جب بھی تذکرہ آقا کا اس سے کیوں گریزاں ہے؟

اگر ایماں نہیں کامل عمل کو کون دیکھے گا؟

خراب ہی ہوگا، رستے پر خوارج کے جو جائے گا

یہ دونوں ٹھیک ہیں ان کاملانا ہے ضروری بھی

ختم کرنی ہے شیطاں نے بنائی ہے جو دوری بھی

ہر اک سوچے کہ اس کی بات جو ہے وہ ہے پوری بھی

جدا ہر ایک ناری ہے، تو یکجا دونوں نوری بھی

کوئی تو ہو شبیرؔ جو میری حیرانی ختم کردے

کوئی آگے بڑھے، ان دو میں شیطانی ختم کردے


یہ اصل میں آج کے دور کا ٹاپک ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کی محبت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر چلنے کی فکر، ان دونوں میں تفریق ڈال دی گئی ہے، چاہئے تو یہ تھا کہ بجائے اس کے لوگ ان دونوں کی قدر کرتے، کیونکہ دونوں ضروری ہیں، لیکن شیطان نے آپس میں تفرقہ ڈال دیا، کسی کو ذات کی محبت پر لگا دیا تو سنتوں سے ہٹا دیا، اور کسی کو سنتوں پر لگا دیا تو اس طرح وہ ذات کی محبت سے نکل گیا۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں اگر علیحدہ علیحدہ ہیں تو یہ دونوں باتیں غلط ہیں اور اگر ایک جگہ ہوگئیں تو مکمل ٹھیک ہے۔


سوال نمبر 5:

حضرت! کچھ اذکار وہ ہیں جو مشائخ تلقین کرتے ہیں، اور وہ کسی Time specific (خاص وقت) میں کرنے ہوتے ہیں، ان اذکار سے انسان کا دل بنتا ہے، لیکن اس وقت مجھے یہ پوچھنا ہے کہ ان کے علاوہ دیگر مسنون اذکار سے دل میں کوئی فرق اور تبدیلی آتی ہے یا نہیں؟

جواب:

یہ بہت اچھا سوال ہے، میں اس کا جواب Medical line (میڈیکل شعبے) کے لحاظ سے دیتا ہوں کہ جب آپ مریض ہوں اور ڈاکٹر سے دوائی لے آئیں تو کیا خیال ہے ڈاکٹر صاحب کھانے پینے پر پابندی لگا دیتے ہیں کہ تم نے کھانا پینا نہیں ہے؟ دوائی کے ساتھ ساتھ ہم کھانا پینا جاری رکھتے ہیں، یعنی علاج کے زمانہ میں غذا بھی ضروری ہے اور دوا بھی ضروری ہے۔

مشائخ بیماری کو دور کرنے کے لیے دوا دیتے ہیں، لیکن صحت کو maintain (برقرار رکھنے) کرنے کے لئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے، اگر کوئی غذا نہ کھائے، صرف دوا کھائے تو کیا خیال ہے کہ وہ صحت مند ہوجائے گا؟ مسنون اذکار، مسنون دعائیں اور قرآن پاک کی تلاوت یہ سب مشائخ کے بتائے ہوئے اذکار کے ساتھ کرنا ہیں، مشائخ نے کبھی اس سے روکا نہیں ہے، ان کو کرنا ہوتا ہے، ان کے ذریعے روح powerful (طاقت ور) رہتی ہے، لیکن روح کو کچھ بیماریاں لاحق ہوتی ہیں، مثلاً: دنیا کی محبت وغیرہ، مشائخ ان بیماریوں کو ختم کرنے کے لئے اذکار دیتے ہیں، مسنون اذکار اور دعائیں وغیرہ روح کے لئے غذا ہیں اور مشائخ کے بتائے ہوئے اذکار روح کے لئے دوا ہیں۔

سوال نمبر 6:

حضرت! مشائخ کے بتائے ہوئے اذکار کے علاوہ مزید اذکار کے لئے اپنے شیخ و مرشد سے اجازت لینی چاہئے یا ان کی اجازت کے بغیر بھی کر سکتے ہیں؟

جواب:

جن چیزوں کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت و ترغیب دی ہے تو عام اصول کے مطابق اس کے لیے شیخ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، مثلاً: "سُبْحَانَ اللّٰهِ وَبِحَمْدِهٖ سُبْحَانَ اللّٰهِ الْعَظِيْمِ" یا "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ" یا درود شریف اور قرآن پاک کی تلاوت، چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کے کرنے کی ترغیب دی ہے، پس وہ کافی ہے، البتہ شیخ کے ساتھ اس سلسلے میں یہ مشورہ کیا جاتا ہے کہ ان اعمال میں سے فی الوقت میں کس عمل کو لوں؟ یعنی اس سلسلے میں شیخ سے یہ مشورہ کیا جاتا ہے کہ حسب عادت ان اعمال میں سے کس عمل کو کتنا کروں؟ چنانچہ اس سلسلے میں شیخ بہترین مشورہ دے سکتا ہے، یہ مشورہ بہتری کے لیے ہوتا ہے، ممانعت کے لیے نہیں ہوتا، چونکہ شیخ experienced (تجربہ کار) ہوتا ہے اور اس کے اوپر آپ کی کچھ حالت بھی کھل چکی ہوتی ہے، لہٰذا وہ اس سلسلے میں بہتر مشورہ دے سکتا ہے، شیخ سے یہ مشورہ بہتری کے لیے ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ بھی ہے کہ عین ممکن ہے کہ آپ اپنے آپ کو overdose (زیادہ مقدار) کر لیں یعنی جتنا آپ کر سکتے ہیں اس سے زیادہ آپ کرنا شروع کر لیں، نتیجتاً ممکن ہے کہ اس کے باعث آپ کے کچھ واجبات خطرے میں پڑ جائیں، جیسا کہ حضرت ابو درداء رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو کچھ عبادات میں لگایا ہوا تھا، جب ان کی شادی ہوگئی تو ان کے بیوی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آپ نے ابو درداء رضی اللہ علیہ کو کیسا پایا؟ ان کی بیوی نے کہا کہ وہ بہت ہی اچھا آدمی ہے، بہت ہی نیک آدمی ہے، اتنا عبادت گزار ہے کہ انہوں نے ابھی تک مجھ سے بات بھی نہیں کی۔ بہت ہی خوب صورت الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ان کی شکایت پیش کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو درداء رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو نصیحت فرمائی:

"اِنَّ لِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَلِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، وَلِأَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا، فَأَعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ" (صحیح البخاری: 1968)

ترجمہ: " بیشک تیرے پروردگار کا تجھ پر حق ہے، اور تیری جان کا تجھ پر حق ہے، اور تیری بیوی کا تجھ پر حق ہے، پس ہر حق دار کو اس کا حق ادا کرو"۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسی پیاری بات ارشاد فرمائی، یہ ایسی نصیحت ہے جو ان کی ضرورت تھی۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ان اعمال سے نہیں روکا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ لیکن ایک حد تک ترغیب دیتے تھے۔ کیونکہ ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بخوبی جانتے تھے، چونکہ شیخ بھی مرشد و مربی ہوتا ہے، لہٰذا اگر کوئی شیخ کے ساتھ اس سلسلے میں مشورہ کرتا ہے تو وہ مناسب مشورہ دے دیتا ہے، شیخ سے مشورہ صرف خیر اور بہتری کے لیے ہوتا ہے کہ مشورہ کرنے والے کے پاس وقت محدود ہوتا ہے، اور اس کا مقصد یہ معلوم کرنا ہوتا ہے کہ میں اس محدود وقت میں کیا کروں کہ میرا کوئی واجب بھی نہ چھوٹے اور وقت بھی ضائع نہ ہو اور اس محدود وقت میں مجھے maximum (زیادہ سے زیادہ) فائدہ حاصل ہوجائے، میرے خیال میں اس چیز کے solution (حل) کے لئے شیخ کی ضرورت ہوتی ہے۔

سوال نمبر 7:

حضرت! دو چیزیں ہیں: ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، دوسری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی، دونوں کے لیے کن چیزوں کا استحضار ضروری ہے؟ مزید میرے ذہن میں ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ آج کل اکثر لوگ دین میں نئی نئی باتیں شامل کر رہے ہیں، جیسا کہ ربیع الاول کے مہینے میں جو کچھ ہوتا ہے، ان کا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ ہم یہ سب کچھ محبت کی وجہ سے کرتے ہیں، جبکہ دوسرے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب بدعت ہے۔ اس لئے آپ یہ بتائیں کہ کسی نئی بات کے متعلق یہ فتوی کون دے سکتا ہے کہ یہ بدعت ہے یا نہیں ہے؟

جواب:

کسی چیز کے بدعت کا فتویٰ حضراتِ مفتییان کرام دیں گے لیکن اصول سب کو معلوم ہونا چاہئے تاکہ انسان خود ہی اس کے بارے میں کچھ سمجھ سکے اور اپنے آپ کو بچا سکے، وہ اصول یہ ہے کہ جو کام شریعت کا ہو یا جس میں ثواب سمجھا جاتا ہو اور اس کا اللّٰہ تعالیٰ اور اللّٰہ کے رسول کے ساتھ تعلق بتایا جاتا ہو تو اس کا ثابت ہونا ضروری ہوتا ہے، آپ مجھے بتائیں کہ جو لوگ عید میلاد النبی مناتے ہیں تو وہ یوں ہی شغل کے طور پر مناتے ہیں یا اس میں ثواب بھی سمجھتے ہیں؟ ثواب سمجھتے ہیں، لہٰذا اس کا ثبوت ضروری ہوگیا، اور کسی چیز کے ثبوت کے لئے معیار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: "خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ" (صحیح بخاری: 2508)

ترجمہ: "تم میں سے سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں پھر وہ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں پھر وہ جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں"۔

مزید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

"مَا اَنَا عَلَیْهِ وَاَصْحَابِیْ" (سنن الترمذی: 2641)

ترجمہ: "کامیابی وہ جماعت پائے گی جو اس طریقہ پر ہوگی جس پر میں اور میرے صحابہ چلے ہیں"۔

یہ احادیث شریفہ متفق علیہ ہیں، ان میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے، اس اصول کو مدِّ نظر رکھ کر ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا صحابہ، تابعین اور تبعِ تابعین کے ادوار میں سے کسی دور سے عید میلادُ النبی کا ثبوت ملتا ہے کہ ان میں سے کسی نے جشن عید میلاد النبی منایا ہو؟ نہیں، بالکل نہیں، ان حضرات سلف صالحین میں سے کسی نے بھی جشن عید میلاد النبی نہیں منایا، ہمارا دین ان حضرات سلف صالحین سے متواتر چلا آ رہا ہے، لہٰذا یہ مسئلہ بھی ہم ان سے ہی لیں گے، جب ان میں سے کسی سے بھی اس چیز کا ثبوت نہیں ملتا ہے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ ان کے نزدیک یہ دین کا حصہ نہیں تھا، موجودہ دور میں اس کو دین کا حصہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ جب ان کے نزدیک یہ ثواب کا ذریعہ نہیں تھا تو اب ثواب کا ذریعہ کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ اس مسئلہ کی General image یہی ہے جو سب کے سامنے واضح ہوگئی ہے، لیکن بعض لوگ اس مسئلہ میں ذرا سختی کرتے ہیں، اور ہر چیز کو بے قدر کرنے لگتے ہیں، ان کی بھی ذرا اصلاح ضروری ہے، اس کے لئے ایک ضابطہ عرض کرتا ہوں کہ جو چیزیں دین کے لیے ذریعہ ہوتی ہیں اور وہ دین میں شامل نہیں ہوتیں، وہ حالات پر منحصر ہوتی ہیں، اور حالات کے مطابق وہ بدلتی رہتی ہیں، صرف انہیں ہی کو اختیار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰٰى كُلِّ مُسْلِمٍ (سنن ابن ماجہ: 224)

ترجمہ: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے"۔

لہٰذا علم سیکھنا فرض ہے اور علم کو حاصل کرنے کے لیے ذرائع جن کے بغیر اس کو علم حاصل نہیں ہوسکتا، وہ متعین نہیں ہیں، اور اس کے حصول کے لئے پہلے سے جو ذرائع چلے آ رہے ہیں، ان کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ دین میں شامل نہیں ہیں، بلکہ وہ دین کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، جو حالات پر منحصر ہوتے ہیں، اور زمانے اور لوگوں کے حساب سے بدلتے رہتے ہیں، یہ دیہاتیوں کے لیے الگ ہوسکتے ہیں اور شہریوں کے لیے الگ ہوسکتے ہیں، ذہین لوگوں کے لیے الگ ہوسکتے ہیں اور سادہ لوگوں کے لیے الگ ہوسکتے ہیں، جیسے دوائی تبدیل ہوتی رہتی ہے اسی طرح ذرائع تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے جہاد فرض ہے لیکن اس کے ذرائع متعین نہیں ہیں، پہلے وقتوں میں تیروں اور تلواروں سے جہاد کیا جاتا تھا، اب میزائل اور جہازوں کے ذریعے سے جہاد کیا جاتا ہے، اگر کوئی اس زمانے میں کہے کہ میں میزائلوں اور جہازوں کے ذریعے جہاد نہیں کرتا بلکہ میں سنت طریقے کے مطابق تیروں اور تلواروں کے ذریعے جہاد کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسے یہی کہیں گے کہ جہاد کے جو ذرائع اس زمانہ میں زیادہ قوی اور مؤثر ہوں گے، جہاد میں وہی اپنائے جائیں گے، اگر تم نے جنگ کے جدید آلات و ذرائع سے جہاد نہیں کرنا تو گھر میں آرام سے بیٹھ جاؤ، ہم خود ان کے مقابل جہاد کر لیں گے۔ یعنی حسبِ زمانہ ذرائع کی تبدیلی ہوتی رہتی ہے، ذرائع کی تبدیلی خواہ وہ علم کے ذرائع ہوں، یا اصلاحِ نفس وغیرہ کے ذرائع ہوں، ان پر کوئی پابندی نہیں ہے، لیکن جس عمل کو باقاعدہ ثواب کام سمجھ کر کیا جاتا ہو، اس کے لیے باقاعدہ ثبوت کا لانا ضروری ہے۔ عید میلادُ النبی خیر القرون کے زمانہ کے بعد کی ایک ایجاد ہے، جس کو کسی بادشاہ نے شروع کیا تھا، اس کو کسی بزرگ یا فقہی نے شروع نہیں کیا، اور اس کو منانے میں عوام کا کردار ہوتا ہے، اس میں کوئی ثواب نہیں ہوتا، یہ صرف نفس کو خوش کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو لوگوں نے بنا رکھا ہے، جس طرح عرسوں کو لوگوں نے میلے ٹھیلے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، اور ان میں لوگ جوق در جوق آتے ہیں۔ حالانکہ اولیاء اللّٰہ کا ان چیزوں کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ لہٰذا عید میلاد النبی ایک بدعت ہے اور بدعت کی دین میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سوال نمبر 8:

حضرت! حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لیے کن چیزوں کا استحضار ضروری ہے؟ اور سنت کی پیروی کے لئے کن چیزوں کا استحضار ہے؟

جواب:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے بنیادی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال و کمال کا تذکرہ اور اس کا استحضار مفید ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دنیا میں تشریف آوری ہم سے پہلے ہو چکی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی کا پورا زمانہ لوگوں کے درمیان گزار چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہر ایک لمحے کی رپورٹنگ روز روشن کی طرح ہمارے سامنے موجود ہے، اور بآسانی ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال اور کمال کا تذکرہ حاصل ہوسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال اور کمال کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو بڑھاتا ہے، تذکرہ خواہ نثر میں ہو، یا نظم میں ہو، نثر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال و کمال کا تذکرہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب نشر الطیب فی ذکر الحبیب میں اور حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب النبی الخاتم میں اور حضرت مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب سیرت النبی اور ان کے علاوہ دیگر کئی کتب میں موجود ہے، ان کتابوں کا مطالعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ابھارنے کا ذریعہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پانے کے لئے ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے۔ اور نظم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال اور کمال کا تذکرہ بھی ہمارے بہت سے اکابر اور بزرگوں نے کیا ہے، جیسے مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور ہمارے دیگر بزرگ جنہوں نے اپنی اپنی زبانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن جمال پر بہترین نعتیں لکھی ہیں، ہمیں چاہئے کہ ان نعتوں کو سنیں، بشرطیکہ یہ نعتیں گانے کے طرز پر نہ پڑھی گئی ہوں، بلکہ صحیح طرز پر پڑھی گئی ہوں، یعنی ان چیزوں کی سماعت کے جو اصول ہیں، اگر یہ اس کے مطابق ہوں تو آپ ان کو سن سکتے ہیں، اس سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت بڑھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ان لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھتا ہے جو اہلِ محبت ہیں، جن کے دل میں اللّٰہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت رکھی ہوتی ہے، ان کے ساتھ بیٹھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت خود بخود آ جاتی ہے۔ فلسفی لوگ کہتے ہیں کہ ہر آدمی دوسرے آدمی سے چوری کرتا ہے، یہ علمِ فلسفہ کا قاعدہ ہے، حتیٰ کہ دشمن بھی دشمن سے چوری کرتا ہے، یعنی دشمن کی چیزیں چپکے چپکے لوگوں میں آتی رہتی ہیں، جیسے انگریز ہمارے دشمن ہیں، لیکن ان کی کتنی چیزیں ہم میں آگئی ہیں، ہر انسان اپنے پاس بیٹھنے والے انسان سے سیکھتا ہے، جب آپ اچھے لوگوں کے ساتھ بیٹھیں گے تو آپ کو چپکے چپکے ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل کر لیں گے، اور ان کے پاس بیٹھنے کا آپ کو بہت کچھ فائدہ ہوگا، اللّٰہ والوں کی مجلسوں میں بیٹھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو پانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے، اور آج کل اکثر لوگوں کو اس ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ملتی ہے، اللّٰہ والوں کی مجلسوں میں جانے سے آہستہ آہستہ یہ چیز مل جاتی ہے، یہ چیز کتابوں کے مطالعہ سے بھی ملتی ہے اور نعتیں سننے سے بھی ملتی ہے اور درود شریف کی کثرت سے ملتی ہے اور اس کے دیگر بھی ذریعے ہیں، لیکن اہلِ محبت یعنی اللہ والوں کی مجالس میں آنا جانا، یہ اس محبت کو پانے کا بڑا ذریعہ ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! بعض مشائخ کے نام کے ساتھ عارف باللّٰہ اور صاحب نسبت، لکھا ہوتا ہے، ان اصطلاحات سے کیا مراد ہے؟

جواب:

عارف باللّٰہ یعنی وہ شخص جس نے اللّٰہ پاک کی معرفت حاصل کی ہو، مثلاً ایک شخص اللہ پاک کی معرفت کے راستے پر چلتا ہے اور وہ اللّٰہ کے ساتھ محبت کرتا ہے اور اللّٰہ کے لیے کچھ اعمال کرتا ہے تو اللّٰہ پاک بھی اس کے ساتھ کچھ تعلق کا اظہار کرتا ہے، نتیجتاً آہستہ آہستہ اس کو اللہ پاک کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے، یعنی اس چیز کی معرفت کہ اللّٰہ پاک کن چیزوں سے راضی ہوتے ہیں، کن چیزوں سے ناراض ہوتے ہیں، اور کس وقت اللّٰہ پاک کا کیا منشا ہوتا ہے، یہ اللہ پاک کی معرفت ہے یعنی اللّٰہ جل شانہٗ کے نظام کی معرفت ہے، اور اس معرفت کو پانے والا شخص یہ سمجھ رکھنے والا ہوتا ہے کہ اللّٰہ جل شانہٗ کو خوش کس طرح کیا جاسکتا ہے؟ اور اللّٰہ پاک کے غصے سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟ اور یہ انسان کی اہم ضرورت ہے، ایک بزرگ نے خواب دیکھا (اگرچہ یہ خواب ہے لیکن اس میں بھی ایک سبق ہے) کہ قیامت کا منظر ہے اور انہیں اللّٰہ پاک نے اپنے سامنے کھڑا کیا ہوا ہے، اللہ پاک ان سے پوچھتے ہیں کہ کیا تم عالم ہو؟ (وہ بزرگ عالم تو تھے ہی، علم تو انہوں نے حاصل کیا تھا) انہوں نے کہا کہ جی، میں عالم ہوں۔ اللّٰہ پاک نے فرمایا: جلالین کا امتحان دو، اب یہ بہت گھبرا گئے کہ اللّٰہ پاک امتحان لیں گے تو میں تو فیل ہوجاؤں گا، اللّٰہ پاک کے امتحان کو کون ہے جو پاس کر سکتا ہے اور اس پر پورا اتر سکتا ہے؟ یہ بہت پریشان ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے اور وہاں قریب تشریف فرما ہوئے، وہ آہستہ آہستہ چپکے چپکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے، ڈرتے ڈرتے پوچھا: یا رسول اللّٰہ! میں اس حالت ہوں، آپ میری کچھ مدد کریں، اس وقت خوف کے اس عالم میں میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے فرمایا: کہہ دو کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اللہ پاک کے سامنے ہمارا دعویٰ کرنا بہت خطرناک ہے، ان کے سامنے دعویٰ سے بچنا چاہئے، ورنہ اس کا سامنا کرنے والے رگڑے کھاتے ہیں، جس کے ساتھ حساب کا معاملہ ہوگیا وہ مارا گیا، یہ معرفت کی باتیں ہوتی ہیں، کیونکہ ایسی ہوشیاری آدمی کے کس کام کی جس میں انسان پھنس جائے، اگر سادگی اختیار کرنے سے تم بچ جاتے ہو تو کیا سادہ ہونا اچھا نہیں ہے؟ حدیث شریف میں آیا ہے:

أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ الْبُلْهُ (شعب الایمان للبیہقی: 1366)

ترجمہ: "اہل جنت میں زیادہ تر سادہ لوگ ہوں گے"۔

کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو اتنے سادہ ہوں گے کہ ان سے حساب نہیں ہوگا، بلکہ اللہ پاک فرمائیں گے: جاؤ، جنت میں جاؤ، وہ نعرے لگاتے ہوئے اچھلتے کودتے ہوئے بچوں کی طرح بھاگتے کھیلتے جنت میں جائیں گے، بڑے بڑے عقلاء ان کو دیکھ کر بہت رشک کریں گے کہ کاش ہم بھی ان جیسے سادہ ہوتے، آج ہمیں بھی یہ کہا جاتا کہ جاؤ، تم جنت میں جاؤ۔ بہت سارے لوگ اپنی وجہ سے مارے جاتے ہیں اور اپنے عمل کی پکڑ میں آ جاتے ہیں، خواہ مخواہ وہ دعویٰ کرنے لگتے ہیں، جیسا کہ اپنے آپ کو بزرگ سمجھنا، یہ بہت بڑی مصیبت ہے۔

صاحب نسبت وہ شخص ہے جس میں یہ 2 باتیں پائی جائیں، ایک یہ ہے کہ اس کو اللّٰہ پاک کی ذات کا استحضار ہو، اور دوسری یہ ہے کہ وہ دائمُ الاطاعت ہو، یعنی ہمیشہ اللہ پاک کی اطاعت کرتا ہو، اور اللّٰہ پاک کی طرف سے یہ بات ہو کہ اللّٰہ جل شانہٗ اس کے ساتھ خیر کا معاملہ کر رہا ہو، ایسا شخص صاحبِ نسبت ہوتا ہے، کیونکہ اس کو اللہ پاک کی ذات کا کامل استحضار ہوتا ہے، ہر وقت اس کو اس بات کا استحضار ہوتا ہے کہ میں اللّٰہ پاک کا بندہ ہوں، اسے اپنی عبدیت کا ادراک ہوتا ہے اور اس ادراک کے ساتھ ساتھ وہ اللہ پاک کی اطاعت بھی کرتا رہتا ہے، نتیجتاً اللّٰہ پاک کی طرف سے پھر ایسا معاملہ اس کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے کہ اس کی تربیت کا سلسلہ خود اللّٰہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اس کے لیے ایسے حالات پیدا فرماتے رہتے ہیں کہ اس کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔

سوال نمبر 10:

حضرت! آپ نے فرمایا کہ صاحبِ نسبت کی تربیت اللّٰہ پاک اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور ایسے حالات پیدا فرماتے رہتے ہیں کہ اس کی تربیت ہوتی رہتی ہے۔ کیا اللہ پاک کی طرف سے یہ معاملہ ہر ایک مبتدی کے ساتھ شروع ہوجاتا ہے؟ اور کیسے پتا چلے گا کہ اللہ پاک اس شخص کی تربیت فرما رہے ہیں؟

جواب:

یہ شیخ کو پتا چلے گا، شیخ کس لئے ہوتا ہے؟ اس کو پتا چلے گا، اپنی بات پر تو انسان کو کچھ مقام نہیں ملتا، بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ کتاب لکھتے ہیں ساری چیزیں بہت اچھی طرح صحیح صحیح لکھ دیتے ہیں، اخیر میں کہتے ہیں کہ ہمیں کشف سے معلوم ہوگیا کہ ہم فلاں مقام پر فائز ہوگئے۔ یہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے، آدمی خود اپنے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا، آدمی کی یہ حالت ہو کہ اسے بے خودی حاصل ہو۔

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو جب اجازت دی تو وہ فرماتے ہیں کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ یہ کیا ہوگیا؟ کہاں میں اور کہاں یہ مقام؟ یہ مقام مجھے کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ یہ تو بہت سے لوگوں کو کوشش کے باوجود حاصل نہیں ہے، یعنی جو کسی مقام پر ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتا، چنانچہ عبد الباری صاحب فرماتے ہیں:

سمجھے جو خود کو منتہی

ابھی وہ مبتدی نہیں

یعنی جو اپنے آپ کو منتہی سمجھے، اس نے ابھی کام ہی شروع نہیں کیا، جتنے بھی اللّٰہ والے گزرے ہیں جنہوں نے کوئی مقام حاصل کیا ہے، اگر دیکھا جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یقیناً وہ اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے، ہمارے مولانا نعیم بخاری صاحب جو مفتی بھی ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو بہت علم بخشا ہے اور دین کی سمجھ عطا فرمائی ہے اور ان کی تربیت بھی بڑے مشائخ نے کی ہے، پھر ہمارے پاس آگئے، اللّٰہ پاک نے ان کو نوازا ہوا تھا، جب میں ان کو اجازت دے رہا تھا تو ان کو شرح صدر بالکل ہی نہیں ہو رہا تھا، وہ کہتے ہیں کہ میں پورا راستہ اپنے ساتھ لڑتا رہا کہ آخر شاہ صاحب بھی انسان ہیں، انہیں بھی دھوکہ ہوسکتا ہے، حقیقت میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ مجھے اجازت دیں، میرا یہ حال و مقام نہیں ہے، ان کو غلط فہمی ہوگئی ہے۔ جب ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے شرح صدر کرا دیا تو تب ان کو اطمینان ہوا۔

سوال نمبر 11:

حضرت! ذکر کے دوران اکثر بندے کو نیند آ جاتی ہے۔ یہ کیا چکر ہے؟

جواب:

پہلی بات یہ ہے کہ اکثر لوگوں کو ذکر کے دوران نیند نہیں آتی، کسی کسی کو آتی ہے، لیکن جس کو نیند آتی ہے، اسے دو وجوہات کی بنا پر نیند آتی ہے، یا تو وہ ایسے ماحول سے آتا ہے کہ جہاں فسق و فجور کا ماحول ہوتا ہے اور پھر وہ ذکر میں آ جاتا ہے تو چونکہ ذکر میں آنے سے پہلے اس کے جسم پر ثقل اور بوجھ ہوتا ہے، اس کو وہ دور کر لیتا ہے، جس کے باعث اس کو سکون ملتا ہے اور اسے نیند آجاتی ہے، جیسا کہ کوئی کانٹوں کی سیج پر ہو پھر پھولوں کی سیج پر آ جائے تو نیند تو اس کو آنی ہے، ایک وجہ تو یہ بن سکتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ ایک انسان ذکر کا وقت ایسا طے کر لیتا ہے جو نیند اور تھکاوٹ کا وقت ہوتا ہے، مثلاً: عشاء کی نماز کے بعد اگر کوئی ذکر کرتا ہے تو عموماً اس کو نیند آئے گی، عشاء کے بعد تو لوگوں کے سونے کا وقت ہوتا ہے، ایسے وقت میں اگر کوئی ذکر کرے گا تو نیند تو آئے گی، ذکر کے لیے ایسا fresh وقت ہونا چاہئے جیسا کہ جس میں انسان ایسا تازہ دم ہو کہ جیسے وہ اپنے کسی اہم کام مثلاً: پیپر کے لیے تیاری کر رہا ہو۔ کیا خیال ہے کہ ایسے وقت میں اس کو نیند آئی گی؟ نہیں بلکہ وہ تو پڑھے گا، اور وہ اس کے لئے fresh وقت کا انتخاب کرے گا، ذکر کے لیے بھی ایسا fresh وقت انسان کو طے کرنا چاہئے، ایسے تازہ دم وقت میں طبعی نیند نہیں آئے گی، البتہ روحانی نیند آ سکتی ہے لیکن وہ کسی کسی کو آتی ہے، ہر کسی کو نہیں آتی۔

سوال نمبر 12:

حضرت! ذکر کے تین طریقے آئے ہیں، ایک یہ ہے کہ دل اور زبان دونوں ذکر میں مصروف ہوں، اور ذکر دونوں کے اشتراک سے ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ ذکر صرف دل سے ہو، زبان بالکل خاموش ہو۔ اور تیسرا یہ ہے کہ جاگتے ہوئے ہر وقت صرف زبان سے ذکر کرتا رہے، ان میں سے صحیح طریقہ کون سا ہے؟

جواب:

ہر شخص کے لئے ہر چیز کی اپنی افادیت ہے، ذکرِ لسانی ذکر کی ابتدائی حالت ہے، حضرت فرماتے ہیں کہ حاجی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ پہلے انسان ذکر کو یاد رکھتا ہے، پھر ذاکر یعنی دل کو یاد رکھتا ہے، پھر اس کی طرف آ جاتا ہے، پھر اس کے بعد مذکور یعنی اللہ کی طرف آ جاتا ہے اور وہ اصل ذکر ہے۔

سوال نمبر 13:

ذاکر سے کیا مراد ہے؟

جواب:

ذاکر دل ہے، یعنی یہ حالت ہو کہ ذکر کرتے ہوئے آپ یہ محسوس کر رہے ہوں کہ دل ذکر کر رہا ہے، یہ دل کی یاد ہوگی، اور جب یہ حالت ہو کہ دل کی طرف آپ کا دھیان ہی نہ جائے بلکہ اللّٰہ کی طرف دھیان چلا جائے، آپ دل کو بھول جائیں کہ دل بھی کوئی چیز ہے؟ بس آپ کا ذہن اللّٰہ کی طرف ہوجائے، یہی اصل ذکر ہے، لیکن یہ بہت End stage ہے، یہ آخر میں حاصل ہوتا ہے، یعنی اس کے تین مراحل ہیں، ابتدا تو لسانی ذکر سے ہوتی ہے اور لسانی ذکر اس لیے اہم ہے کہ یہ پہلی سیڑھی ہے، اگر پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھا تو اگلی سیڑھی پر کیسے قدم رکھو گے؟ پہلی سیڑھی پر قدم رکھے بغیر اگلی سیڑھی پر قدم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا ابتدا اس سے کرنا ہوگی، سب سے اہم یہی ہے، پھر اس کے بعد جب دل بھی ساتھ ساتھ ذکر کرنا شروع کر لے تو پھر اس میں بات اس پر منحصر ہے کہ آپ کس طرف جا رہے ہیں؟ اگر آپ صرف ذکر کر رہے ہیں، اس سے آگے مراقبے کی طرف نہیں جا رہے ہیں، تو پھر یہی طریقہ بہتر ہے کہ دل بھی ذکر کر رہا ہو اور ساتھ زبان بھی کر رہی ہو، لیکن اگر کچھ مراقبات کی طرف جانا ہے مثلاً: مراقبۂ اَحَدِیَّت کی طرف، مراقبۂ روح وغیرہ کی طرف، اس صورت میں پھر یہی (لطائف والا ذکر) بہتر ہے جو کروا دیا جاتا ہے۔ اس سے پھر آہستہ آہستہ اللہ پاک کے دھیان کی طرف جاتے ہیں، کیونکہ اس سے یکسوئی پیدا ہوتی ہے، کیونکہ جب آپ زبان سے ذکر کرتے ہیں تو اس صورت میں تو یکسوئی ختم ہوجاتی ہے، اس میں یکسوئی نہیں ہوتی، لطائف کے ذکر میں پھر یہ ہوتا ہے کہ پہلے اس میں آپ قلبی ذکر، پھر قلوبی ذکر، پھر سری ذکر، پھر خفی ذکر، پھر اخفاء کا ذکر، پھر دیگر اذکار کے بعد آہستہ آہستہ آپ کا دھیان مراقبات کی طرف جانے لگتا ہے، اگر وہ مطلوب ہے تو اس طرح جانا پڑے گا، یہ اس پر depend (انحصار) کرتا ہے کہ آپ کا target (ہدف) کیا ہے؟ جب کسی کا شیخ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے تو شیخ اس کو رہنمائی کرتا رہتا ہے کہ اب یہ کرو، اب یہ کرو، اب یہ کرو، کیونکہ شیخ کے سامنے اس کا target (ہدف) ہوتا ہے کہ اس کو کس طرف لے کر آنا ہے۔ اور اس میں طریقہ کار مختلف بھی ہوسکتا ہے، چشتیہ سلسلہ کا اپنا طریقہ ہوگا، نقشبندیہ کا اپنا ہوگا، قادریہ کا اپنا اور سہروردیہ کا اپنا ۔ہوگا شیخ کو اگر چاروں سلسلوں میں اجازت ہے تو شیخ پر منحصر ہے کہ وہ اس کے لیے کون سا طریقہ زیادہ بہتر سمجھتا ہے، شیخ جو طریقہ بہتر سمجھتا ہے، اس کے مطابق اس کو guide (رہنمائی) کرتا رہتا ہے اور اگر کوئی شیخ کسی خاص سلسلہ میں مجاز ہے تو وہ اپنے سلسلے کے مطابق اس کو guide (رہنمائی) کرتا ہے۔

سوال نمبر 14:

حضرت! ہمارا جو سلسلہ صابریہ ہے چاروں سلسلوں میں، اس میں بقیہ لطائف کی طرف تو دھیان نہیں دیا جاتا۔

جواب:

بالکل یہ بات صحیح ہے، ہمارے حضرات ایسا ہی کرتے ہیں، کیونکہ یہ ایک اجتہادی چیز ہے، ایسی صورت میں حضراتِ سلاسل کے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے، جیسا کہ حضراتِ فقہاء کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے فقیہ ہیں لیکن ہم حنفی حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کو امام اور پیشوا مانتے ہیں اور انہیں کی تقلید کرتے ہیں، حالانکہ ہم امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی کم نہیں سمجھتے، امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی کم نہیں سمجھتے، امام بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کو بھی کم نہیں سمجھتے، ان کو بہت بڑے بزرگ مانتے ہیں لیکن ہم پیروی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کرتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اجتہادی بات ہے، لہٰذا جس کا جو اجتہاد ہو اس پر وہ چلے گا۔ چنانچہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے گا تو میں اپنا اجتہاد بتاؤں گا، میں دوسری طرف نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا اس موضوع کو یہیں تک رہنے دیں، کیونکہ یہاں بیٹھنے والے سارے افراد اس بحث کے متحمل نہیں ہوں گے، وہ پریشان ہوجائیں گے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اگر آپ نے اس موضوع پر مزید بات کرنی ہے تو مناسب وقت علیحدگی میں کریں۔

سوال نمبر 15:

در اصل جب ایک لطیفے کی طرف دھیان ہو تو آدمی دوسرے لطیفے کی طرف تو دھیان نہیں کر سکتا۔

جواب:

یہ آپ کا اجتہاد ہوگا، اس میں پھر میں حائل نہیں ہوں گا، کیونکہ یہ آپ کا اجتہاد ہوگا اور اجتہاد میں انسان کو اجازت ہوتی ہے کہ جس طریقے سے اس کو فائدہ ہو رہا ہو وہ اس کو اپناتا ہے، لیکن میرا اپنا ایک تجربہ ہے اور اس تجربے کی بنیاد پر میں تو وہ بات کہوں گا جو میں بہتر سمجھتا ہوں۔ چونکہ اس میں بحث کا امکان ہے، لہٰذا اس چیز کو یہیں رکھتے ہیں، اس بحث میں ہم نہ پڑیں، کیوں کہ اجتہادی چیزوں میں جب بحث چھڑ جاتی ہے تو ہر ایک آدمی کا اپنا موقف اور دلائل ہوتے ہیں۔

سوال نمبر 16:

حضرت! میں محسوس کرتا ہوں کہ اس طریقے سے میری ترقی نہیں ہو رہی ہے۔

جواب:

آپ اس موضوع پر علیحدگی میں میرے ساتھ بات کریں، یہ General discussion (عام بحث) کی بات نہیں ہے، اس میں بہت مخفی قسم کی چیزیں ہوتی ہیں جو ہر انسان کو سمجھ نہیں آ سکتیں، البتہ یہ بات ہر ایک آدمی سمجھ سکتا ہے کہ طریقۂ تربیت ہمارے مشائخ کا علیحدہ علیحدہ رہا ہے، چنانچہ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا اپنا ایک طریقۂ تربیت ہے، اس کو ہم غلط تو نہیں کہیں گے۔

حضرت تنظیم الحق حلیمی صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ شیخ جس وقت کسی کو اجازت دیتا ہے تو وہ اجازت اجتہاد کی اجازت ہوتی ہے کہ اب تم اپنے اجتہاد کے مطابق کسی کی اصلاح کرو گے۔ ہر ایک شیخ کا طریقۂ تربیت اس کے اپنے اجتہاد کے مطابق ہوتا ہے، جیسے یقیناً حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے بزرگ تھے، اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ان سے بھی بڑے بزرگ تھے، لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا طریقۂ تربیت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالی کے طریقہ تربیت سے مختلف تھا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی کے طریقہ تربیت کو غلط تو نہیں کہیں گے، لیکن دوسرے کی بات بھی غیر اہم نہیں ہوگی، جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی بات کو کوئی غیر اہم تو نہیں کہہ سکتا لیکن اور حضرات کی بھی باتیں بھی بے فائدہ نہیں ہوں گی، یہ ایک اجتہادی بات ہے اور اس میں اختلاف ہوسکتا ہے، کیونکہ ذوقیات کا فرق ہوتا ہے، حالات کا فرق ہوتا ہے، اجتہادات کا فرق ہوتا ہے اور اس میں پھر انحصار شیخ پر ہوتا ہے اور وہ اپنے ذوق کے مطابق تربیت کرتا ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر حضرات آپس میں کرتے ہیں کہ table پر بیٹھ کر اپنے ساتھ بیٹھنے والے دوسرے ڈاکٹر کے ساتھ differ کرتے ہیں۔ مشائخ میں اس طرح کا معاملہ ہوتا ہے حالانکہ بالکل بعض دفعہ زمین، آسمان کا فرق ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا آپس میں اختلاف ہوتا ہے۔

سوال نمبر 17:

حضرت! ہم جو ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں، یہ ذکر کیا کسی ایک ہی سلسلے کا مجوزہ ہے یا مختلف سلاسل میں یہ کیا جاتا ہے؟

جواب:

مختلف سلاسل میں یہ ذکر کیا جاتا ہے، چنانچہ یہی طریقہ سلسلۂ صابریہ میں بھی ہے، یہی طریقہ سلسلۂ چشتیہ نظامیہ میں بھی ہے، یہی طریقہ سلسلۂ قادریہ میں بھی ہے، اور سلسلۂ سہروردیہ کے متعلق مجھے یاد نہیں کہ ان کے ہاں بھی یہ طریقہ ہے یا نہیں۔ بہرحال ان تین سلاسل کے حضرات کے نزدیک یہ طریقہ رائج ہے۔ چنانچہ سلاسل میں بعض اذکار common ہیں اور بعض اذکار میں ذرا فرق ہے، مثلاً: اللّٰهُ کا ذکر ہے، اور ھُوَ اللّٰهُ کا ذکر ہے، یہ ہمارا چشتیہ صابریہ میں نہیں ہے لیکن چشتیہ نظامیہ میں ہے، وہ حضرات یہ ذکر کرتے ہیں اور یہ قادریہ میں بھی ہے، بلکہ یہ سلسلۂ قادریہ میں تو بنیادی ذکر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ بعض اذکار بعض sets آپس میں common ہوجاتے ہیں۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ