سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 91

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

نماز میں خشوع کے تین درجے ہیں یا تین طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ آدمی کو اللّٰہ پاک کا استحضار ہو۔ دوسرا یہ ہے کہ بیت اللّٰہ شریف کا استحضار ہو اور تیسرا یہ ہے کہ بار بار اگر دھیان ٹوٹے تو اسے ٹھیک کرنا۔ یعنی کوشش کی جائے کہ دوسری تیسری آیت کے بعد استحضار ہوتا رہے تو اس کے لئے آسان طریقہ کیا ہے؟

جواب:

خشوع کے تین درجے نہیں ہیں، بلکہ خشوع حاصل کرنے کے تین طریقے ہیں۔ پہلا اور سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ انسان یہ تصور کرے کہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ یہ کیفیتِ احسان ہے، یعنی انسان یہ سوچے کہ میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوں، ایسے ہی یہ تصور کرے کہ میں اللّٰہ کو دیکھ رہا ہوں۔ دوسرا یہ ہے کہ یہ سوچے کہ اللّٰہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ بہترین طریقہ تو یہی ہے لیکن اس کو حاصل کرنے میں وقت لگتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو فرض کر لے کہ میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا ہوں۔ کیونکہ جس نے خانہ کعبہ دیکھا ہوتا ہے، اس کے لئے یہ آسان ہوتا ہے اور وہ اس کو تصور میں لا سکتا ہے کہ میں خانہ کعبہ کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں یا خانہ کعبہ کے فلاں حصے کے سامنے کھڑا ہوں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ انسان دل میں ہر ہر عمل کی علیحدہ علیحدہ نیت کر لے۔ مثلاً قیام کی نیت کر لے اور پھر رکوع کی نیت کر لے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ نماز میں اپنے آپ کو مشغول کر دے۔ کیونکہ خشوع نماز میں مشغولی کا نام ہے۔ بہرحال ارکان کے اندر اپنے آپ کو مشغول کر لے۔ پھر ایک طریقہ اور بھی ہے کہ انسان کچے حافظ کی طرح تلاوت کرے، پکے حافظ کی طرح نہیں کہ ایک دفعہ شروع ہو گیا تو چلتا جا رہا ہے، پتا بھی نہیں ہوتا کہ میں نے کیا پڑھا اور کیا نہیں پڑھا۔ لہٰذا کچے حافظ کی طرح ایک ایک چیز کو سمجھ کر پڑھے۔ بہرحال یہ مختلف طریقے ہیں، ان میں آسان طریقہ یہی ہے کہ ہر رکن میں نیت کرے۔ کیونکہ یہ اختیاری چیز ہے۔ اور جس چیز کی بھی نیت کرنا چاہے اس کی نیت کر سکتا ہے۔ یہ تصور نہیں حقیقت ہے۔ باقی چیزیں تو تصور ہیں جیسے خانہ کعبہ کی طرف تصور اور اللّٰہ جل شانہٗ کے سامنے ہونے کا تصور، یہ تصورات ہیں، اور تصور پر بعض لوگ قادر نہیں ہوتے۔ جب کہ نیت کرنے پر ہر ایک قادر ہو سکتا ہے، اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر اس طرح کر لے تو یہ میرے خیال میں سب سے آسان طریقہ ہے۔

سوال نمبر 2:

باقی جو دو طریقے ہیں وہ خود بخود حاصل ہوتے ہیں یا ان کے لئے پہلے کچھ کرنا پرتا ہے؟

جواب:

اصل میں جب کیفیتِ احسان حاصل ہوتی ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ کیفیات بھی حاصل ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ بندہ ہر عبادت پھر اس طرح کرے گا کہ میں اللّٰہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اور نماز تو بہت بہترین عبادت ہے، یقیناً اس کو بھی یہی سوچ کر کرے گا۔

سوال نمبر 3:

جس کو کیفیتِ احسان حاصل ہونی شروع ہو جائے تو شروع میں دھیان کٹ جاتا ہے، پھر کوشش کرنے سے بڑھنے لگ جاتا ہے۔

جواب:

ایسا ہونا ممکن ہے۔ مثلاً کوئی غیر اختیاری چیز غالب آ جائے اور اس کا ذہن اس طرف ہو جائے اور پھر یہ اختیاری طور پر اس میں شامل ہو جائے۔ یعنی پہلے تو غیر اختیاری طور پر خیال آ گیا لیکن پھر اس کے ساتھ الجھنا شروع کر دیا اور اس کی طرف دھیان دینا شروع کر دیا اور اس کے پیچھے پڑ گیا، تو پھر یہ چیز خشوع کے خلاف ہو جائے گی۔ لیکن اگر وسوسے وغیرہ آتے ہیں تو وہ خشوع کے خلاف نہیں ہیں۔ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے میں گاڑی پہ صدر جا رہا ہوں اور میری توجہ راستے کی طرف ہے اور مجھے پتا ہے کہ میں صدر جا رہا ہوں۔ راستے میں کوئی اور جگہ بھی آ رہی ہے، لیکن میں اپنے آپ کو اس سے بچاتا ہوں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز کے اندر ہے اور اسے نماز کے باہر کی چیزیں اپنی طرف مائل کر رہی ہیں، مگر وہ اپنے طور پر inputs دے رہا ہے کہ ان سے متاثر نہیں ہو رہا، البتہ تنگ ضرور ہو رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے، لیکن اس سے متاثر نہیں ہو رہا۔ یہ خشوع کے منافی نہیں ہے بلکہ اس پہ اجر ہو گا۔ بہرحال اگر انسان کیفیت احسان حاصل کر لے تو چونکہ خشوع کا بہترین طریقہ یہی ہے، اس میں پھر اگر درمیان میں خلل ہونے سے وقتی طور پہ ذہن آگے پیچھے چلا جاتا ہے اور پھر دوبارہ اپنے آپ کو واپس لے آتا ہے، تو نہ ہونے سے یقیناً بہتر ہے۔ پھر جب مستقل طور پر کیفیتِ احسان حاصل ہو جائے تو پھر اس کا ذہن دوسری طرف جائے گا ہی نہیں۔ مثلاً اللّٰہ پاک کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ وہ اللّٰہ پاک کی طرف ہی متوجہ ہو جائے، تو پھر وہ کسی اور طرف متوجہ کیوں ہو گا؟ چنانچہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ”يَا بِلَالُ، أَرِحْنَا بِالصَّلَاةِ“۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 23087)

ترجمہ: ”اے بلال! ہمیں نماز کے ذریعے سے راحت دلاؤ“۔

کیونکہ آپ ﷺ انتظار میں ہوتے تھے کہ کب میں نماز شروع کروں۔ پس انسان کو انتظار رہتا ہے کہ کب میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں گا۔ اور کب نماز کے ذریعے اللہ پاک سے ملاقات ہوتی ہے۔

سوال نمبر 4:

جب کیفیتِ احسان پختہ ہو جائے، تو پھر مسلسل دھیان اللّٰہ کی طرف لگا رہتا ہے یا پھر بھی ٹوٹتا ہے؟ اور دنیا کے کاموں کی طرف انسان توجہ کیسے کرتا ہے؟

جواب:

جب انسان دنیا میں رہ رہا ہوتا ہے تو دنیا کے حالات اس کو یاد ہوتے ہیں۔ اب اگر اس کو ان چیزوں کے ساتھ کسی طریقے سے محبت ہو تو وہ اس کو اپنی طرف متوجہ کریں گی اور وہ ان کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔ اگر محبت نہیں ہو گی تو وہ بالکل بھی متوجہ نہیں ہو گا۔ لیکن جب اس کے ساتھ محبت کا کوئی درجہ ہو گا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے۔ اور جتنی دیر وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا اتنا وقت وہ خشوع سے نکل گیا، پھر واپس آ گیا تو خشوع پھر دوبارہ شروع ہو جائے گا۔ بہرحال واجب خشوع تو اس کو پھر بھی حاصل رہتا ہے کیونکہ وہ نماز کے واجبات کی طرف دھیان رکھتا ہے اس لئے واجب خشوع چل رہا ہوتا ہے لیکن مستحب خشوع سے وہ نکل جاتا ہے۔

سوال نمبر 5:

میرا مطلب یہ تھا کہ نماز کے علاوہ جو باقی زندگی ہے اس میں دھیان کیسے رہتا ہے؟

جواب:

نماز سے باہر والی زندگی کیفیتِ احسان ہوتی ہے اور خشوع تو نماز میں ہوتا ہے۔

سوال نمبر 6:

کیفیتِ احسان میں انسان دنیا کے کاموں کی طرف کیسے متوجہ ہوتا ہے؟ یعنی جن لوگوں کی اللّٰہ کے ساتھ تعلق اور نسبت پختہ ہو جائے اور ان کا دھیان بھی اللّٰہ کی طرف لگا رہے۔ تو بیک وقت انسان کے دو ذہن ہو جاتے ہیں یا ایک ہی ذہن رہتا ہے؟

جواب:

دو ذہنوں والی بات نہیں ہوتی ہے۔ اصل میں نفس مکمل طور پر مرتا تو نہیں ہے بلکہ مضمحل ہو جاتا ہے یعنی کمزور ہو جاتا ہے۔ اگر اس کو اپنے موافق کوئی چیز مل جائے تو اس وقت سر اٹھا بھی سکتا ہے۔ جس وقت سر اٹھاتا ہے پریشان کر ہی دیتا ہے۔ لیکن جو منتہی ہوتا ہے اس کو اس پہ کنٹرول کرنا آتا ہے۔ جیسے کسی سے گاڑی unbalanced ہو جائے تو اگر اناڑی ہو گا تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ لیکن اگر ماہر ڈرائیور ہو تو بے شک کسی وقت گاڑی اس سے unbalanced ہو بھی جائے، لیکن وہ اس کو جلدی قابو کر لے گا۔ مثلاً بچے نے اسٹیرنگ کو ہاتھ لگا دیا تو گاڑی unbalanced ہو جائے گی، لیکن ماہر ڈرائور اس کو سنبھال لے گا۔ چنانچہ ایک اناڑی اور ایک ماہر میں فرق ہوتا ہے۔ اناڑی کے لئے تو یہ fetter ہے، گاڑی اس کے کنٹرول سے نکل جاتی ہے۔ لیکن ماہر اس کو کنٹرول کر لیتا ہے۔

ایک مرتبہ ہم فیصل آباد سڑک کے راستے جا رہے تھے۔ تو آج کل نوجوانوں میں یہ فضول شوق آیا ہے کہ موٹر سائیکلوں پہ بہت تیز ڈرائیونگ اور ویلنگ کرتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ چند لفنگے سڑک پر ہمارے ساتھ ساتھ جا رہے تھے۔ وہ موٹر سائیکل کے اوپر لیٹے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک کو تھوڑی سی پریشانی ہو گئی کیونکہ ایک اور موٹر سائیکل والا اس کے قریب آیا تھا، وہ بھی اسی کی طرح ماہر تھا۔ اب پہلے والے نے اس کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔ ان موٹر سائیکل سواروں کی رفتار اور ہماری رفتار برابر ہی تھی۔ تو جس کی وجہ سے پریشانی ہوئی تھی وہ موٹر سائیکل کے ایک طرف کھڑا اس بات کا جواب بھی دے رہا تھا اور موٹر سائیکل بھی چلا رہا تھا۔ بس یہ مہارت ہے۔ وہ اس سے نہیں unbalanced ہو رہا تھا۔ حالانکہ عام لوگ ایسی حالت میں موٹر سائیکل چلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے، لیکن ماہر کی بات الگ ہوتی ہے۔ بہرحال ماہر آدمی ہر حالت میں کنٹرول کر لیتا ہے۔ جب انسان میدانِ جنگ میں ہو تو وہاں بھی کنٹرول کر لیتا ہے۔ اسی طرح مراقبہ میں جو ماہر ہو گا تو اگر گاڑی کے ساتھ لٹک کے بھی جا رہا ہو گا تب بھی مراقبہ کر سکتا ہے۔ جبکہ غیر ماہر کے قریب سے کوئی چڑیا بھی گزر گئی تو اس کا مراقبہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کی کیفیتِ احسان پختہ ہو گئی تو اگر پریشان بھی ہو گا تو اس کے لئے واپس آنا آسان ہو گا۔ سازگار حالت میں تو شاید بہت سارے لوگ کر سکتے ہیں، لیکن نا سازگار حالات میں پتا چلتا ہے کہ ماہر کون ہے اور غیر ماہر کون ہے؟

سوال نمبر 7:

آپ نے پچھلے دنوں نفس اور روح کے بارے میں بات کی تھی۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ نفس کی اصلاح نہ ہوئی ہو اور دل کی اصلاح ہو چکی ہو؟ یا دل کی اصلاح نہ ہوئی ہو اور نفس کی ہو جائے۔

جواب:

بالکل ہو سکتا ہے۔ بعض دفعہ نفس کی اصلاح ہو چکی ہوتی ہے دل کی نہیں ہوتی، بعض دفعہ دل اصلاح ہو چکی ہوتی ہے نفس کی نہیں ہوتی۔ دونوں کے اپنے اپنے مسائل ہیں۔ لازمی یہ ہے کہ ہر وقت دونوں کی ہو تو پھر معاملہ ٹھیک رہتا ہے۔ مثلاً گاڑی ٹھیک ہو لیکن ڈرائیور ٹھیک نہ ہو یا ڈرائیور ٹھیک ہو گاڑی ٹھیک نہ ہو، تو دونوں صورتوں میں نقصان ہے۔ جب گاڑی بھی ٹھیک ہو اور ڈرائیور بھی ٹھیک ہو تو اس وقت صحیح صورت حال ہوتی ہے۔ اسی طرح دل کی اصلاح بھی ہو اور نفس کی بھی ہو۔ نفس گاڑی کی طرح ہے اور دل ڈرائیور کی طرح ہے۔ اگر دونوں کی اصلاح ہو تو پھر بات بنتی ہے۔

سوال نمبر 8:

دل کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟

جواب:

ذکر اذکار کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ جیسے حدیث شریف ہے کہ ہر چیز کے لئے صقالہ (صفائی کا آلہ) ہے اور دلوں کی صفائی کا آلہ ذکر اللّٰہ ہے اور نفس کی اصلاح مجاہدے سے ہوتی ہے۔ نفس کی نہ ماننا مجاہدہ ہے اور نفس کو نہ ماننے کے لئے تیار کرنا ریاضت ہے۔ مثلاً حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس ایک مہمان آیا، انہوں نے اس کو کھانا کھلانے میں بہت دیر کر دی۔ وہ انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی بھوک بہت زیادہ ہو گئی۔ پھر حضرت نے اسے سادہ سا مرچ، نمک والا سالن اور ساتھ میں بڑی سخت قسم کی روٹی پیش کی۔ چونکہ اسے بھوک بہت زیادہ تھی، لہذا کھانے میں اس کو بہت مزہ آیا۔ حضرت نے اس سے پوچھا کہ کھانا کیسا تھا؟ اس نے کہا کہ بہت مزے کا تھا، یہی کھانا مجھے ہر بار دیا کریں۔ یعنی نفس کو مجاہدہ کرا دیا تو اس کے لئے آسان ہو گیا۔ در اصل ایک یہ ہے کہ مجاہدہ اس وقت کرنا جب نفس کی requirement ہو اور ایک یہ ہے کہ مجاہدہ پہلے سے کرنا تاکہ نفس کے اوپر اتنا بوجھ آ جائے کہ normal بوجھ کو اٹھانا اس کے لئے مسئلہ نہ رہے۔ یہ ریاضت کہلاتا ہے۔ میں اکثر اس کی مثال یہ دیتا ہوں کہ جیسے سخت سردی میں نہانا اور سخت گرمی میں دھوپ میں رہنا اور بھوکا رہنا، اندھیرے میں رہنا، یہ سب ریاضت ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت جی مراقبہ میں کیا تصور کرنا چاہئے کہ انسان کی مختلف لطائف کے اوپر توجہ مضبوط ہو جائے۔

جواب:

ڈاکٹر بننے کے لئے میڈیکل کالج میں پڑھنا پڑتا ہے، یہ ساری بات دو لفظوں میں بتائی جا سکتی ہے۔ لیکن جو بات آپ نے پوچھی ہے یہ دو لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی، یہ تو پورا ایک process ہے جس کو مسلسل کوئی مکمل کرے گا تو مشق ہو گی۔ چنانچہ اگر شیخ کے ساتھ آپ کا تعلق اور رابطہ ہے اور وہ آپ کو بتاتا ہے کہ اب یہ کرو، اب یہ کرو۔ آپ اس طرح اس کو کرتے جاتے ہیں۔ جس میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ تعجیل نہ کرے، جلدی نہ مچائے۔ جیسے میڈیکل کالج میں جلدی نہیں مچا سکتے کہ میں دو سال کا کام میں ایک سال میں کر لوں۔ وہ پاگل ہو جائے گا۔ اسی طرح ہر چیز کا اپنا ایک طریقہ ہے اور اس کے مطابق اس کو کرنا پڑتا ہے۔ یعنی اطلاع و اتباع کی جب صورت بنتی ہے تو پھر جن چیزوں کو انسان پہلے خواب سمجھتا ہے وہ آہستہ آہستہ ہونے لگتی ہیں۔ اگر ابتدا میں اسے کہیں کہ ایسا ہو گا تو وہ شاید ماننے کے لئے بھی تیار نہ ہو۔ جیسے پہلے میں کسی کو کہہ دوں کہ تصور کر لو کہ جسم کا ہر حصہ اللّٰہ کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ وہ نہیں کر سکے گا۔ لیکن جب وہ ان تمام چیزوں سے گزرا ہو گا تو پھر کر لے گا۔ اس میں استعداد کی وجہ سے دیر سویر ہوتی ہے، کسی کی استعداد کم ہوتی ہے اور کسی کی زیادہ ہوتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ ہو ہی نہیں سکتی۔ بلکہ اپنے وقت پر ہو جاتی ہیں۔ شیخ کا کام یہی ہوتا ہے کہ جس کی جیسی طبیعت ہو اس کو اس طبیعت کے مطابق کھینچے گا۔

سوال نمبر 10:

دائمِ حضوری اور احسان ایک ہی چیز ہوتی ہے؟

جواب:

حضوری کا مطلب ہے اپنے آپ کو اللّٰہ پاک کے سامنے سمجھنا۔ اگر آپ کی مراد یہی ہے تو یہ کیفیتِ احسان کہلاتی ہے۔ کیونکہ حدیث شریف میں دو ہی چیزیں آئی ہیں: ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَمْ تَــکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّهٗ یَرَاکَ“ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 50)

ترجمہ: ’’تو اللہ کی عبادت ایسے کر جیسے تو اس کو دیکھ رہا ہے، اگر یہ ممکن نہیں ہے تو بے شک وہ تمہیں دیکھ رہا ہے‘‘۔

سوال نمبر 11:

دائمِ حضوری کے اندر انسان دنیاوی زندگی کے دوسرے کاموں میں کیسے رجوع کرتا ہو گا؟ بیک وقت دونوں طرف کیسے رہے گا؟

جواب:

اس کی مثال میں نے دی ہے ڈرائیور والی۔ ڈرائیور کا ایک خفیف سا تعلق راستے کے ساتھ مسلسل ہوتا ہے جو ایک سیکنڈ کے لئے بھی ٹوٹتا نہیں ہے۔ درمیان میں وہ باتیں بھی کرتا ہے، بعض دفعہ کھانا بھی کھا لیتا ہے، بعض دفعہ غصہ بھی کر لیتا ہے، لیکن وہ خفیف سا تعلق ٹوٹتا نہیں ہے، کیونکہ وہ ایک سیکنڈ کے لئے بھی ٹوٹے گا تو ایکسیڈنٹ ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ اس راستے میں مسلسل ہوتا ہے۔ For all practical purposes not for a practical purpose کے لئے ہوتا ہے۔ جیسے میں نے مثال دی کہ ڈرائیونگ کے دوران disturbances بھی ہو جائے تو اس کا experience ہوتا ہے کہ اس وقت اب کیا کرنا ہے، لہٰذا وہ سنبھال لیتا ہے۔

سوال نمبر 12:

جس کی اللّٰہ پاک کی طرف سے تربیت ہو رہی ہو تو پریشانی کی وجہ سے انسان کا دھیان بار بار خدا کی طرف چلا جائے، تو کیا پریشانیاں اس پہ لائی جاتی ہیں تاکہ اس کی تربیت صحیح طرح ہو جائے؟

جواب:

جو چیزیں انسان کے بس میں ہیں، وہ کرنی چاہئیں۔ جب وہ قبول ہو جاتی ہیں تو جو چیزیں اس کے بس میں نہیں ہیں، وہ کہاں رہ جاتی ہیں؟ انسان جس چیز کا مکلف ہے، جو اس کے اختیار میں ہے، وہ نہ چھوڑے۔ جو اختیار میں نہیں ہے، وہ اللّٰہ پاک کے علم میں ہے، وہ تو اللّٰہ کرے گا، وہ ہمارا کام نہیں ہے۔ اللّٰہ پاک اس کی جس طریقے سے بھی تربیت کرنا چاہے گا کر لے گا۔ شیخ کے دل میں کسی کے لئے کوئی بات آ رہی ہے، وہ بھی تو اللّٰہ ہی کی طرف سے ہے۔ جس کی شیخ کے ذریعے تربیت کروائی جا رہی ہے، وہ بھی اللّٰہ ہی کی طرف سے ہے۔ تربیت تو تربیت ہوتی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بڑی مشکل مشکل چیزیں بہت آسان طریقے سے سمجھائی ہیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اصلاح کے تین طریقے بتائے ہیں۔ ان طریقوں کو جان کر آدمی سمجھ لیتا ہے کہ کوئی شخص بھی غیر مکلف نہیں ہے۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان اچھے برے کا علم حاصل کرے، پھر willpower کے ساتھ اس پر عمل کرے، willpower سے ذریعے سے اپنے نفس کی مخالفت کرے، صحیح بات کرے اور غلط بات سے بچے۔ یہ اخیار کا طریقہ ہے اور یقیناً کامیابی کا راستہ ہے۔ لیکن یہ مشکل ہے، اس میں قدم قدم پر لڑنا پڑتا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ شیخ کو پکڑے اور اس کے experience کو استعمال کرے۔ اگرچہ اس صورت میں بھی willpower کے ذریعے سے ہی شیخ کی بات ہر عمل کرے گا۔ لیکن صحیح بات کا، صحیح وقت میں، صحیح طریقے سے بتانا شیخ کے ذریعے سے آسان ہو جاتا ہے۔ یہ شخص بھی وہی کرے گا جو پہلا کر رہا ہے، لیکن یہ آسانی سے کر لے گا۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ جس کو شیخ کے ساتھ محبت ہو جائے، ایسی محبت کہ اس کی بات کو ٹال ہی نہ سکے۔ فرماتے ہیں کہ پہلا طریقہ اخیار کا ہے، دوسرا ابرار کا ہے اور تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے جو سب سے زیادہ تیز ہے۔ تیز اس طرح کہ اسے کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، بلکہ یہ خود ڈھونڈ کر لائے گا کہ میرا شیخ کیا چاہتا ہے؟ اس کے لئے یہ مشکل نہیں ہو گا۔ وہ تو چاہتا ہو گا کہ شیخ مجھے کچھ دے اور میں کروں۔ جیسے میں یہ جنرل صاحب کو کبھی کبھی روکتا ہوں کہ آپ یہ نہ کریں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ یہ میرے لئے سب سے بڑی چیز ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب بات دل کو بھا گئی تو اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ بہرحال یہ سب سے زیادہ تیز طریقہ ہے۔ یعنی The fastest route of اصلاح is love of شیخ۔ اور یہ سب سے آسان طریقہ بھی ہے۔ راستہ ایک ہی ہے لیکن procedure تین ہیں۔ کوئی پیدل جا رہا ہے، کوئی سائیکل پہ جا رہا ہے، کوئی کار پہ جا رہا ہے۔ تینوں مسلسل کر رہے ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہے۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

بے خودی میں یعنی اپنے آپ کو فنا کرنے میں کوشش کرو تاکہ اپنے آپ کو پا لو۔ اپنے آپ کو کیسے پالو؟ جب اللّٰہ کے راستے میں اپنے آپ کو فنا کریں گے، تو اللّٰہ کے بن جائیں گے۔ ”مَن کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰہ لَهٗ“ کہ جو اللّٰہ پاک کا ہو گیا، اللّٰہ اس کا ہو گیا۔ جب اللّٰہ پاک آپ کا ہو گیا تو آپ کو کیا کمی ہے؟ پھر تم اپنی سب صلاحیتوں کو جان لو گے، پہچان لو گے اور مان لو گے کہ کام کیسے کرنا ہے۔ اگر نفس کے راستے سے کرو گے تو مکمل fail ہو جاؤ گے۔ اور اگر دل کے راستے سے کرو گے، تو مکمل کامیاب ہو جاؤ گے۔ نفس کے راستے سے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نفس کے راستے پہ اپنے آپ کو پانا چاہتے ہو۔ اپنے نفس کی بات مان رہے ہو، تو یہ مکمل fail ہے۔ اس کے ذریعے سے اپنے آپ کو نہیں کروا سکتے۔ اگر دل کے راستے سے کرو گے، تو مکمل کامیاب ہو جاؤ گے۔ حضرت نے فرمایا:

جہد کن در بیخودی خود را بیاب

زود تر واللّٰہ اعلم بالصواب

اپنے آپ کو فنا کرنے میں محنت کر لو، کوشش کر لو۔ تاکہ اپنے آپ کو پا لو۔ یہ سب سے آسان طریقہ ہے وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ اپنے آپ کو پانے کا مطلب ہی اپنے نفس کے اوپر سوار ہونا ہے۔ اپنے نفس کو مسخر کرنا ہے۔ یہ باتیں اللّٰہ تعالیٰ نے ان حضرات میں کھولی ہیں۔ ہم سوچتے رہتے ہیں اور وہ حضرات کام بھی کر گئے۔ سب کچھ کر کے گئے ہیں۔

کچھ غزلیں آئی تھیں، وہ میں سناتا ہوں۔

شہید کے لئے:

جو ہو شہید کہاں وہ مردہ ہے

بلکہ بے شک وہ ہمیشہ زندہ ہے

اس کو مردہ کبھی گماں نہ کرو

وہ بامراد ہے رخشندہ ہے

شہادت کیا ہے؟

شہادت کا رتبہ کسی کو ملے اگر

تو کیوں پھر نہ ہو بے حساب رشک اس پر

کہ قرباں اس نے یہ جاں اس پہ کر دی

ہے زندہ ہمیشہ محبت میں مر کر

کامیاب کون ہے؟

زندگی کا لمحہ لمحہ قیمتی ہے بے حساب

اس لئے ایک سانحہ اس کا کبھی نہ ہو خراب

ہاں اگر ایک مشکل سودا اس کا کرنا اگر ہے تو

سر لٹا دو اس کی راہ میں تو رہو پھر کامیاب

نماز کے بارے میں:

ذرا بتاؤ کچھ کہ کیا ہے نماز

خدا سے لینے کا راستہ ہے نماز

اس میں احسان کی کیفیت ہو نصیب

خوب رفعتوں کا پھر زینہ ہے نماز

مرید کے بارے میں کہ عاشق کیا ہوتا ہے:

عاشق محبوب کی باتوں میں کرے کیا تأویل

نہ وہ محبوب کو کہتا ہے کہ کریں تسہیل

اس عقیدت سے کہیں بالا ہی رکھتا ہے مقام

عشق نامراد کی سمجھ میں کہاں ہے قال اور قیل

تشریح:

عشق میں عاشق ہمیشہ نامراد ہی ہوتا ہے، اس کی satisfaction کبھی نہیں ہوتی۔

عشق کیا ہے؟

عشق اگر حق کے ساتھ ہو جائے

غلطیاں ساری اپنی دھو جائے

اب اس کے بعد سوچنا موقوف

اپنے محبوب ہی میں کھو جائے

شیخ زبان اور مرید کان:

چاہئے شیخ کو کہ زبان بنے

اور ہر مرید کو کہ کان بنے

بولنے اور سننے کی اس محفل سے

ایک معرفت کی پھر دوکان بنے

شیخ کی مرید کے لئے حیثیت:

ہے یقیناً بزرگوں سے ہے شنید

نبی کا نائب شیخ برائے مرید

مظہر اللّٰہ کے صفت ہادی کا

اور اخروی کامیابی کا نوید

اسباب اور مسبب الاسباب:

یہ حکم کہ اسباب کو کریں گے ہم اختیار

پر اس کے نتیجے میں نہ ہو ان پہ انحصار

ہو اس میں پھر مسبب الاسباب پہ بھروسہ

کر لے دعا کہ بیڑا ہمارا کرے وہ پار

دعا:

ہوشیاری ہے یہی کہ ہم ہر وقت دعا کریں

اور اس کے ذریعے سے ہم اس سے ملا کریں

﴿اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ کہلوا کے کہا یہ

ہم اس سے ہی ہر وقت ہر ایک چیز کہا کریں


آگے اقبال اور رومی کی آپس میں competitor ہے۔

اقبال کہتا ہے:

شناخت قوم کو اقبال نے دی ہے یہ عجیب

حق کھلا اس پہ کیسے بلند اس کے نصیب

یہ تجلی تھی کسی دل کی جو اس دل پہ پڑی

وہ فلسفی تھا مگر عشق ہوا کیسے قریب

یدِ بیضاء کے تصرف نے بدل ڈالا اسے

وہ تھا جو کچھ بھی مگر بن گیا وہ حق کا نقیب

کس طرح عشق رسول ان کو ہوا تھا حاصل

فکرِ فردا سے بنا امیر حرم کا عندلیب پیر

پیر رومی سے مستفید مریدی ہندی

بنا شبیر قلب و روح کے سوالوں کا مرید

رومی کے بارے میں:

طریقِ جذب کا ایک ترجمان رومی ہے

ایک معرفتِ الٰہی کا نشان رومی ہے

جو خود کو بیچ کے اللّٰہ کے پانے کا حریص

اپنے شیخ شمس تبریزی کی زباں رومی ہے

جو آگ تھی حبِ الہی کی شیخ کے دل میں روشن

اس آگ میں تپ کے ایک تیغِ فساں رومی ہے

وہ جو نعرہ دلِ اقبال سے زباں پہ آیا

غور کر لو تو اس میں بھی تو نہاں رومی ہے

اپنا دل دیکھ کے پرکھ لیں مثنوی تو شبیر

عالمِ جذب کے کیونکہ پیرمہا رومی ہے


آگے دو رباعیاں ہیں، ایک اقبال کے لئے اور ایک رومی کے لئے۔ اقبال کا خودی اور رومی کی بے خودی۔

اقبال کی خودی کے بارے میں ہے:

خودی ہے کلمۂ توحید سے محفوظ اگر

تو خود کو چھوڑ کے اس کا بننا اس کا اثر

خودی کے لفظوں کا تطبیق معنی سے ہے مشکل

اس میں ہم خواہ جو ہے تطبیق باطن ہو ظاہر

تشریح:

یعنی خودی سے عام طور پر لوگ جو مراد لیتے ہیں، وہ چیز نہیں ہے جو اقبال اس سے مراد لیتے ہیں، لہذا confusion ہے۔

رومی کی بے خودی:

بے نفسی کا مطلوب ہے رومی کی بے خودی

’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالَ‘‘ کا جو الہام ہے یہی

پس لفظ و معنی میں تفاوت نہیں رہا

ایک خاص کیفیت کی بھی تشریح ہو گئی

تشریح:

یعنی رومی کے concept عوام میں بھی clear ہے، اس سے عوام بھی وہی معنی لیتے ہیں جو رومی خود لے رہا ہے۔ لہٰذا نتیجے کے اعتبار سے یہ ایک ہی چیز ہے۔

اب آگے اس پہ comment کیا ہے۔

کہا اقبال نے جس کو خودی وہ بننا رب کا ہے

کہ اس کا سر نہاں خود ہی کہتے ہیں کہ کلمہ ہے

تشریح:

جیسے علامہ اقبال کہتے ہیں: خودی کا سرِ نہاں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘۔

بقول ان کے خودی کو جو بھی کرتے ہیں بلند ان سے

خدا پوچھتے ہیں ہر تقدیر میں ان کی رضا کیا ہے

تشریح:

جیسے علامہ اقبال نے کہا ہے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے


یہ دو چیزیں ہیں آ گئیں، اب اس سے result نکالنا ہے۔ result یہ ہے:

خدا کا بندہ بننے سے خدا بنتا ہے اپنا کہ

جو اللّٰہ کا بنے ازروئے قرآن اللّٰہ اس کا ہے

تشریح:

یہی چیز خودی سے بھی آ رہی ہے۔ اسی صورت میں یہ دو شعر satisfy ہو سکتے ہیں ورنہ نہیں ہو سکتے۔ جیسے:

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

تشریح:

اس میں بھی خودی ہے۔ اب اس کو کیا جائے گا کہ اللّٰہ پاک پوچھے کہ تیری رضا کیا ہے؟ وہ کون ہیں؟ اور دوسری صورت میں ہے:

خودی کا سر نہاں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘

خودی ہے تیغ فساں ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘

تشریح:

اب اس سے خودی کا مفہوم کیا آ سکتا ہے؟ چنانچہ اس سے ضرور یہ بات سمجھ آتی ہے کہ خودی وہ چیز ہے جس میں انسان اپنے آپ کو اللّٰہ کے سامنے surrender کرے۔ اس کو کہتے ہیں: ’’مَن کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰهُ لَهٗ‘‘ کہ جو اللہ کا ہو گیا اللہ اس کا ہو گیا۔ چنانچہ رومی بے خودی کے ذریعے اس کو لا رہا ہے اور اقبال خودی کے ذریعے سے لا رہا ہے۔ مگر عوام کس بات کو زیادہ صحیح سمجھے گی؟

تو رومی بے خودی کے واسطے کوشش کے قائل ہیں

کہ جو کوشش کرے اس کا وہ اپنے آپ کو پاتا ہے

خودی کا لفظ اور معنی جدا لگتے ہیں آپس میں

ذہن نا فہم لوگوں کا غلط سمت میں جاتا ہے

تشریح:

یعنی چونکہ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی، تو وہ کسی اور طرف نکل جاتے ہیں۔

تو کیوں نہ لفظ بھی لیں پیر رومی سے ہم اس واسطے

کہ لفظِ بے خودی معنًی اور لفظاً ایک آتا ہے

تشریح:

یعنی بے خودی معنًی اور لفظاً دونوں ایک ہی معنی میں آ رہا ہے۔

مریدِ ہندی کی تحقیقات میں لفظ بے خودی لانا

ہمیں قرآن و سنت سے سہولت سے ملاتا ہے

تشریح:

’’مَن کَانَ لِلّٰهِ کَانَ اللّٰه لَهٗ‘‘۔

آگے میں زبردست قسم کی مثال دے رہا ہوں۔

جب وحدت کے شہود کے ساتھ وجود کا ہے بدلنا درست

کوئی شبیر اس تغییر پہ کوئی شور کیوں مچاتا ہے

تشریح:

یعنی اگر concept کو درست کرنے کے لئے وحدۃ الوجود کو وحدۃ الشہود میں بدل دیا گیا، جس سے وحدۃ الوجود کے سارے مسئلے کے حل ہو گئے، تو اس پہ شور کیوں ہے؟ اگر خودی سے problem ہے تو بے خودی پہ آ جاؤ، خواہ مخواہ restrict کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

مقصود کا تعیُّن:

اقبال کے اشعار کا پیغام عالی

اب تو دلوں میں اس نے جگہ اپنی بنا لی

مشکل کوئی تعبیر اگر اس کی کوئی ہو

ہے اس کا جو مقصود تو رومی سے وہ پا لے

عورتوں کی تعلیم کے بارے میں:

تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر

تعلیم صرف وہی ہو اچھا جس کا ہو اثر

کیا وہ جو شریعت سے بھی آزاد کرے ہے

جانے وہ اپنے نفس کی ہر ایک بات معتبر

تعلیم جو اللّٰہ سے آزاد کرے

اور آدمی کے دل کو وہ برباد کرے ہے

تعلیم جو ایسی ہو جہالت اس سے اچھی

شیطان کو جس میں کوئی استاد کرے ہے

تشریح:

یعنی جو شیطانی قیادت کا چھوٹی supporter بن جائے، اس تعلم سے تو نکما اچھا ہے۔

دعا کے لئے:

اٹھا دیجئے ہاتھ دعا کے لئے

دعا مانگ لینا خدا کے لئے

پریشان ہم کتنے ہیں اس سے اب

نکلنا ہو نکلنا ہو تو ایسی راہ کے لئے

وہ رستہ طریقہ نبی ہی کا ہے

ہو سب کچھ صرف اس کی رضا کے لئے

یہ دنیا نہ مقصود اب اپنا ہو

تیاری ہو اپنی وہاں کے لئے

ہوئے پیدا ہم صرف اسی کے لئے

زماں کے لئے نہ مکاں کے لئے

یہ پیغام محبت کا ہو ہمیں قبول

پہنچے وہاں ہے جہاں کے لئے

تشریح:

یعنی اللّٰہ تعالیٰ اس کو وہاں پہنچا دے جہاں کے لئے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو رکھا ہے۔ آگے ہمارے شیخ کی کچھ نصیحتیں ہیں۔ فرمایا کہ ’’ہر جا کہ باشی باخدا باشی‘‘۔

رہیں اس کے ہی ہوں جہاں بھی شبیر

نصیحت ہے نصیحت پیر و جواں کے لئے

تشریح:

چاہے بوڑھا ہو چاہے جوان ہو، سب کے لئے ہمارے شیخ کی یہ نصیحت ہے۔

دیدارِ الہی کے بارے میں:

وہ کیا خوب نظارہ ہو گا

سامنے محبوب ہمارا ہو گا

ہم تو مر مر کی جینا چاہیں گے

اذن جینے کا جو پایا ہو گا

وہ کیا مدہوشی کا عالم ہو گا

ہو کا عالم ہی جو چھایا ہو گا

تشریح:

یہاں پر ’’ہو‘‘ بالکل صحیح معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جب کہ اردو میں غلط معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں ’’ہو کا عالم‘‘ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ کوئی نہیں تھا۔ اور یہ غلط بات ہے۔ اور یہاں پر بالکل ٹھیک ہے، کیونکہ اللّٰہ ہی ہو گا۔ یعنی سب لوگ مدہوش ہوں گے صرف اللّٰہ ہی ہو گا۔

وقت گزرنے کا تو احساس ختم

چہرہ اپنا جو دکھایا ہو گا

سمجھیں ہم کیا پھر اس عالم کو شبیرؔ

سب کیسے ہوں گے اور کیا ہو گا

اوہ کیا خوب نظارہ رہا ہو گا

سامنے محبوب ہمارا ہو گا

غزل (بہت):

فضل اس کا ہے بے حساب بہت

اپنی حالت بھی ہے خراب بہت

تشریح:

یعنی اللّٰہ پاک نے اتنا کچھ ہمیں دیا ہوا ہے، اس کے باوجود ہم خراب جا رہے ہیں۔

بار بار کرتا میں گڑبڑ تو ہوں

مجھ سے ہوتی ہے پیچ و تاب بہت

جب اس کی در کی طرف دیکھتا ہوں

کرم اس کا ہے لاجواب بہت

ہاں اس کی حلم پہ جرات بھی نہ ہو

کیونکہ ہے سخت اس کا عذاب بہت

خوف و امید کے درمیان ہوں شبیرؔ

صحیح طریق ہے یہ جناب بہت

غزل (چاہئے):

خدا کی محبت مجھے چاہئے

یہی ہم سے تو بھی اسے چاہئے

ہم اس کے ہیں اس کے ہی بس ہم رہیں

محبت کے یہ سلسلے چاہئے

محبت جو اس کی ہو دل پر رہے

اور اغیار سے دل پرے چاہئے

ہو تمغہ محبت کا حسنِ ازل سے

تو اس کے لئے دل کھلے چاہئے

انداز غزل احتیاط ہے شبیرؔ

یہ الفاظ میں پرے اور دھلے چاہئے

تشریح:

یعنی اس میں کوئی غلطی نہ ہو، کیونکہ اللّٰہ کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔

’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا تکرار:

زباں پہ جاری رہے ’’لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘

نہیں میرا کوئی مقصود مگر ایک خدا

میرا سب کچھ خدا کے واسطے ہو

میں بھی ساتھ میرا سب کچھ خدا کے واسطے ہو

مگر وہ کیسے سکھائیے محمد مصطفی

جب محمد کا طریقہ نہیں تو کچھ بھی نہیں

اور خدا کے لئے نہ ہو تو سب کچھ زائل ہوا

اسے طریقِ محمدی اسے طریقے محمدی چاہئے فقط

راستے بند ہیں سب ہی صرف یہی ہے رستہ کھلا

ہو محبت خدا کی دل میں مجتبیٰ کی طرح

کہ اتباع ہی سے اس کی بنیں گے ہم مجتبی

دل کو خالی کرو دنیا سے شبیر بالکل ہی

دل میں دنیا کی طلب ہو تو وہ نہیں آتا


وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ