اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
سوال نمبر1:
حضرت! بہت عرصہ پہلے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب جزا الأعمال کافی ہاتھوں میں نظر آتی تھی تو اس کے پڑھنے کا اتفاق ہوا، اب کافی عرصے سے وہ نظر نہیں آئی، کیا اس کو پڑھتے رہنا چاہیے؟
جواب:
در اصل جزاء الاعمال اور فضائلِ اعمال دونوں تقریباً ایک ہی رخ کی کتابیں ہیں، ان میں فرق صرف یہ ہے کہ بتانے کا طریقہ الگ الگ ہے۔ لیکن یاد رکھیں! فضائل اعمال یا جزاء الاعمال، اعمال کے لئے انجن کی طرح ہوتے ہیں، انسان جب کسی چیز کے فضائل سنتا ہے تو اس میں عمل کا شوق پیدا ہوتا ہے۔ لوگ بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن خیال نہ ہونے کی وجہ سے وہ محروم رہتے ہیں۔ اس کی ادنی سی مثال فضائل ذکر ہے، ذکر بہت آسان کام ہے اور بہت زیادہ اجر کا ذریعہ ہے لیکن بعض لوگ اس کے فضائل نہیں جانتے نتیجتاً وہ ذکر نہیں کر پاتے۔ لیکن جو لوگ ذکر کے فضائل جان لیتے ہیں وہ بہت آسانی سے ذکر کرتے رہتے ہیں۔ یہی حال باقی اعمال کا بھی ہے۔ اگر اس نیت سے اس کتاب کو پڑھا جائے تو یہ بہت مفید ہے۔
جزاء الاعمال کا خلاصہ دو ہی باتیں ہیں۔ گناہ کرنے پہ یہ ملے گا اور نیکی کرنے پہ یہ ملے گا۔ جبکہ فضائل اعمال میں جزا و سزا کے بجائے فضائل اور انعامات کی زیادہ بات کی گئی ہے۔ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے صرف مثبت رخ لیا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زیادہ توجہ دی ہے کہ انسان کو طاعات کا فائدہ کیا ہوتا ہے۔ ان کا طریقہ بھی ٹھیک ہے۔ جبکہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں رخ لئے ہیں، اوامر اور نواہی، یعنی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ اوامر کو پورا کرنے پہ ملتا کیا ہے اور نواہی کے ارتکاب سے نقصان کیا ہوتا ہے ۔
سوال نمبر2:
حضرت! آداب معاشرت میں ایک ادب یہ ہے کہ کسی کے گھر جائیں تو تین دفعہ دروازہ کھٹکھٹائیں، اگر دروازہ کھول دیا جائے تو ٹھیک ورنہ واپس پلٹ آئیں، لیکن آج کل عموماً گھروں میں گھنٹیاں بہت اونچی آواز والی لگی ہوتی ہیں، اس صورت میں کیا ضروری ہے کہ تین دفعہ ہی گھنٹی بجائیں یا ایک مرتبہ بجانا کافی ہے؟
جواب:
گھنٹی ایک ہی کافی ہوتی ہے کیونکہ یہ آنے کی اطلاع کا ایک ذریعہ ہے۔ وہ پوچھیں تو آپ بتا دیں کہ میں کون ہوں۔ اس وقت ایک اجازت بھی کافی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ تین بار ہی گھنٹی بجائی جائے۔
سوال نمبر3:
حضرت! یہ جو بتایا گیا ہے کہ تین سانسوں میں پانی پینا سنت ہے تو کیا ہر بار تین سانسیں ضروری ہیں؟ اگر ایک گھونٹ پانی پینا ہو تو پھر تین سانس کیسے لیں؟
جواب:
در اصل ایک سانس میں پینے سے ممانعت اس لئے کی گئی ہے کہ انسان اگر پانی کے اندر سانس لے تو اس سے پانی خراب ہو جاتا ہے، لیکن اگر سانس لے لے کر پانی پیتا رہے تو اس میں جراثیم نہیں آتے۔ بہر حال! سنت یہی ہے۔ اگر ایک گھونٹ پانی پینا ہو تو ظاہر ہے کہ اس میں یہ ضروری نہیں ہے کہ تین سانسوں میں ہی پیا جائے، البتہ زیادہ پینا ہو تو پھر تین سانسوں میں ہی پینا چاہیے۔
سوال نمبر4:
حضرت جی! "ہجیرہ" میں ایک ساتھی نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیسے پتا چلے گا کہ میرے دل میں تکبر، حسد، کینہ، بغض یا عجب ہے؟
جواب:
یہ بہت اچھا سوال ہے۔ در اصل ساری بات فکر کی ہے، اگر فکر ہو جائے تو بغیر بتائے بھی پتا چل جاتا ہے اور اگر بے فکری ہو تو بتانے سے بھی پتا نہیں چلے گا۔ انسان کو اگر اس بات کی فکر ہو جائے کہ میں کسی کے سامنے کھڑا ہوں، کوئی مجھے دیکھ رہا ہے اور یہ میں کر کیا رہا ہوں تو پتا چل جائے گا کہ میں کیا ہوں۔ اپنے اندر موجود روحانی بیماریوں کا ادراک نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اللہ پاک کی عظمت کا ادراک نہیں ہوتا۔ جب اللہ پاک کی عظمت کا ادراک ہو جائے تو پھر اگر کوئی تسلی بھی دے کہ آپ میں تکبر نہیں ہے تو انسان کہتا ہے کہ نہیں، مجھ میں تکبر ہے، کیونکہ اس کو اللہ کی عظمت کا ادراک ہو چکا ہوتا ہے۔ جس کو ادراک نہیں ہوتا اس کو لوگ کہہ بھی دیں کہ آپ میں تکبر ہے تو وہ کہتا ہے نہیں، مجھ میں تکبر نہیں ہے۔
یہ فکر پیدا کرنے کی ضرورت ہے، فکر پیدا ہو جائے گی تو خود ہی پتا چلنا شروع ہو جائے گا۔ اس پہ آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں، ایک بچی کی شادی ہو گئی، زچگی کا وقت قریب تھا، سب انتظار میں تھے۔ اس نے اپنی نانی سے کہا کہ نانی جان! جب وہ وقت آ جائے تو مجھے جگا دیجئے گا۔ نانی ہنس پڑیں اور کہا کہ جب وہ وقت آئے گا تو تم خود ہی سب کو جگاؤ گی۔ ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ جب فکر پیدا ہو جائے گی تو ساری بات معلوم ہو جائے گی۔
سوال نمبر5:
حضرت! یہ فکر پیدا کرنے کے لئے کیا کرنا چاہیے؟
جواب:
گھر بیٹھ کر کبھی کچھ حاصل نہیں ہوتا، اس کے لئے کچھ کرنا ہوتا ہے۔ یہ تصوف کا سلسلہ اسی بات پہ محنت ہے۔ اس میں شیخ کے ساتھ تعلق، ان کے ساتھ ملنا جلنا، وہ تمام اذکار جو وہ بتائیں وہ کرنا، جو مجاہدات بتائے جائیں ان پر عمل کرنا؛ ان سب چیزوں سے فکر پیدا ہوتی ہے۔ بغیر کچھ کئے خود بخود ساری چیزیں پیدا نہیں ہوتیں۔اگر اس طرح کچھ لوگوں میں یہ چیزیں پیدا ہو گئیں تو دوسرے لوگ کہیں گے کہ ہمیں یہ کیوں نہیں دی گئیں؟ حالانکہ اللہ پاک کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا، قانون سب کے لئے برابر ہے۔
سوال نمبر6:
حضرت! یہ بات تو اپنی فکر کے بارے میں ہو گئی کہ وہ شیخ کے ساتھ رابطہ رکھے جو معمولات و اذکار وہ بتائیں ان پہ عمل کرے۔ لیکن جس کو شروع سے اس بات کا پتا ہی نہیں اس کو بتانے کا صحیح طریقہ کیا ہے؟ اس کو کیسے گائیڈ کیا جائے؟
جواب:
یہ بات بالکل صحیح ہے۔ انہوں نے بہت اچھا سوال کیا ہے، اس کا جواب غور سے سن لیں۔ سوال بہت عمدہ ہے کہ یہ فکر اگر خود پیدا ہو جائے تو ٹھیک ہے لیکن اگر کسی کو بالکل پتا ہی نہیں تو اس میں یہ فکر کیسے پیدا ہو گی؟ تو دیکھیں! مشائخ دو قسم کے کام کرتے ہیں: ایک کام عمومی بیان ہوتا ہے اور دوسرا کام خصوصی خطاب ہوتا ہے۔ عمومی بیان کے اندر سب میں فکر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لئے جب اس قسم کا بیان ہو رہا ہو تو اس میں بیٹھ جائیں یا اس بیان میں ان لوگوں کو کو لے آئیں جن کو اس بارے میں کچھ پتا ہی نہیں ہے۔ اس طرح آتے جاتے آہستہ آہستہ ان کو سب کچھ پتا چل جائے گا کہ مجھ میں کیا کمی ہے اور میں کیا کر رہا ہوں۔ یہ جتنے بھی ساتھی آپ یہاں دیکھ رہے ہیں سب اسی طریقے سے آئے ہیں۔ گھر میں بیٹھ بیٹھ کر ان کو شوق نہیں ہوا کہ ہم ادھر چلے جائیں۔ یہ اسی طرح آئے ہیں۔ کسی بیان میں بیٹھے یا کسی کے ساتھ گفتگو کی تو آہستہ آہستہ ان کو احساس ہو گیا۔ پھر جیسے جیسے یہاں آتے گئے تو وقت کے ساتھ ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا۔ گویا کہ ابتدائی کام تبلیغی جماعت کے گشت کی طرح ہوتا ہے کہ پہلے اس میں غیر طالب کو طالب بنایا جاتا ہے۔ اس لئے میں تبلیغ کے کام کا بڑا قائل ہوں۔ اس سطح پہ غیر طالبوں کے اندر طلب پیدا کرنے کا یہ بہت اچھا طریقہ ہے۔ ان بے چاروں کو اگر اس کا احساس نہ ہو کہ اس کے بعد کیا کرنا چاہیے تو یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ لیکن اگر مشائخ کی تربیت کا کام اور تبلیغی جماعت کا غیر طالبوں کے اندر طلب پیدا کرنے کا کام دونوں اکٹھے ہو جائیں تو پھر تبلیغ کا اصل مقصد بھی پورا ہو جائے اور مشائخ کا کام بھی آسان ہو جائے گا۔
غیر طالبوں کے اندر طلب پیدا کرنے کا کام ان کا ہے جن کو فکر ہے کہ اور لوگ بھی اپنی اصلاح میں لگے۔ مشائخ اپنی جگہ پر بیٹھے رہیں کیونکہ اگر وہ چلنا پھرنا شروع کریں گے تو لوگوں کو کیسے سکھائیں گے؟ اس لئے ان کا اپنی جگہ پہ بیٹھنا زیادہ بہتر ہے تاکہ جن لوگوں کو طلب ہو وہ وہاں ان کے پاس پہنچ جائیں۔ دوسرے لوگوں کا کام چونکہ اصلاح نہیں ہوتا بلکہ لوگوں میں طلب پیدا کرنا ہوتا ہے لہذا ان کا چل پھر کر کام کرنا زیادہ بہتر ہے۔ تبلیغی جماعت کا یہی کام ہوتا ہے کہ لوگوں میں علم کی طلب پیدا ہو جائے، اصلاح کی طلب پیدا ہو جائے، دین کا سپاہی بننے کی طلب پیدا ہو جائے۔ یہ طلب پیدا کرنے کے لئے باقاعدہ گشتیں کی جاتی ہیں اور بیان کئے جاتے ہیں۔ جب وہ طلب پیدا ہو جائے تو پھر ان کو مشائخ کے پاس لے جاؤ، علماء کے پاس لے جاؤ تو ان شاء اللہ ان کو علم بھی حاصل ہو جائے گا اور ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔
سوال نمبر7:
حضرت! علماء کرام بیان شروع کرنے سے پہلے”نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا“ کیوں پڑھتے ہیں؟
جواب:
در اصل انسان اگرچہ کوئی اچھی بات کر رہا ہو لیکن اس دوران اگر اس کا نفس برا ہو جائے تو اس کے اپنے لئے اور دوسروں کے لئے وہ اچھی بات بھی نقصان دہ ہو جاتی ہے۔ اپنے لئے اس طرح کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہٹ جاتی ہے اور دوسروں کے لئے اس طرح کہ یہ جب غلط حرکتیں کرتا ہے تو دوسرے لوگ بھی دین سے بدک جاتے ہیں۔ علماء کرام چونکہ اس بات کو جانتے ہیں اس لئے وہ پہلے ”مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا“ کہہ کر اپنے نفس کے شرور اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں۔
سوال نمبر8:
حضرت! کیا عمومی طور پر عشاء کے بعد جلدی سونا چاہیے تاکہ فجر اور سحری میں جلدی اٹھ جائیں؟
جواب:
جی بالکل! مناسب طریقہ یہی ہے اِلّا یہ کہ کسی کا کوئی ایسا خصوصی کام ہو جس کے لئے رات کو جاگنا ضروری ہو جیسے چوکیدار وغیرہ کے لئے رات کا جاگنا ضروری ہے کیونکہ ان کا کام ہی رات کو ہوتا ہے، اسی طرح پولیس کا رات کو پہرہ دینے کا کام ہوتا ہے یا ڈاکٹروں کا کام یا medical کے شعبے میں کچھ لوگوں کے کام رات کے وقت ہی ہوتے ہیں تو ان لوگوں کو رات کو جاگنا پڑتا ہے لیکن باقی لوگوں کو سو جانا چاہیے تاکہ وہ رات کو آرام کر لیں۔ اللہ جل شانہٗ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے:
﴿وَّجَعَلۡنَا الَّيۡلَ لِبَاسًا وَّجَعَلۡنَا النَّهَارَ مَعَاشًا ﴾ (عبس: 9 10)
ترجمہ:”اور ہم نے رات کو بنا دیا آرام کی چیز اور دن کو بنا دیا معاش کا ذریعہ“۔
سوال نمبر9:
حضرت! فضائل اعمال میں لکھا ہے کہ زیادہ ہنسنے سے بچو کیونکہ اس سے چہرے کا نور جاتا رہتا ہے۔ کیا یہ بات درست ہے؟
جواب:
جی ہاں! یہ بات بالکل صحیح ہے۔ ہنسنا بے فکری کی علامت ہے۔ اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی عظمت، اپنے انجام اور اپنی اصلاح سے بے فکر ہو جاتا ہے۔ جب لوگ ہنستے ہیں تو اس کے روحانی اثرات پورے جسم کے اوپر پڑتے ہیں اور چونکہ انسان کا چہرہ زیادہ نمایاں ہے لہذا اس کے اوپر وہ اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں۔
سوال نمبر10:
حضرت! سنا ہے کہ دو راستے تھے، ایک راستے کے بارے میں آپ ﷺ کو بتایا گیا کہ اس پہ ڈاکو ہوتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مجھے اسی پہ لے چلو۔ جب ڈاکوؤں سے آمنا سامنا ہوا تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ کون لوگ ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم برے لوگ ہیں۔ آپ ﷺ نے اس کے مقابلے میں ان ڈاکوؤں کی کچھ اچھی باتیں بیان فرمائیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان بھلے جتنا بھی برا ہو کیا اس میں اچھا پہلو پھر بھی دیکھا جا سکتا ہے؟
جواب:
آپ ﷺ کی حدیث شریف ہے کہ:
”ظُنُّوْا بِالْمُوْمِنِیْنَ خَیْرًا“۔ (الدرالمنثور:674/10، دارھجر، مصر/ المعجم الکبیرللطبرانی:497/16)
ترجمہ: ”مومنین سے نیک گمان رکھو“۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ نے خواجہ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کو چند نصیحتیں کی تھیں۔ شیخ سعدی نے اپنے اشعار میں یہ بات لکھی ہے۔ ان میں سے ایک نصیحت یہ تھی کہ اپنے اوپر خوش گمان نہ ہو اور دوسرے کے اوپر بدگمان نہ ہو۔ اپنے ساتھ بد گمانی اچھی ہوتی ہے اور غیر کے ساتھ نیک گمانی اچھی ہوتی ہے۔
ایک دفعہ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ راستے پہ جا رہے تھے۔ ایک ڈاکو کو پھانسی دی گئی تھی وہ پھانسی کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔ حضرت نے اس کے پیر کو بوسہ دیا۔ مریدین بڑے حیران ہوئے اور دریافت کیا کہ حضرت! آپ نے ایک ڈاکو کے پاؤں کو کیوں چوما؟ حضرت نے فرمایا کہ واقعی یہ ڈاکو تھا لیکن اس میں اتنی استقامت تھی کہ حکومت نے اس کو راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی لیکن چونکہ اس کا ارادہ نہیں تھا تو وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے یہاں تک کہ یہ پھانسی تک جا پہنچا۔ کاش! اس کی یہ استقامت دین میں ہوتی۔
حضرت جنید بغدادی کی یہ خواہش ایسی ہی تھی جیسے کوئی اچھا ادیب دین کی دعوت کے لئے اچھی کتابیں لکھ سکتا ہو لیکن وہ جاسوسی ناول اور افسانے وغیرہ لکھنا شروع کر دے تو علماء کرام کہیں گے کہ کاش یہ اچھی کتابیں لکھتا تو لوگوں کو اس سے فائدہ ہو جاتا۔ اس لئے ان کی اچھی صلاحیت کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ وہ من جانب اللہ ہوتی ہے لیکن اس کے برے استعمال نے اس کو غلط راستے پہ لگا دیا۔ انسان کو کوشش کرنی چاہیے کہ اس کی صلاحیت صحیح استعمال ہو جائے۔ مشائخ بعض برے لوگوں کے اندر جھانک کر ان کی اچھی صلاحیتوں کو جان لیتے ہیں نتیجتاً ان کی قدر کرتے ہیں اور وہ لوگ شرما کر آہستہ آہستہ صحیح رستے پہ آنے لگتے ہیں اور ان کی وہ صلاحیتیں اچھے کاموں کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں۔
سوال نمبر11:
حضرت! سنا ہے کہ کسی مسلمان کے بارے میں کوئی نامناسب بات معلوم ہو تو اس کی طرف سے ستر عذر ڈھونڈنے چاہئیں؟
جواب:
یہ بات حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔ ایک دفعہ حضرت نے اپنے شاگردوں کو کچھ لوگوں کی صفات بیان کیں کہ اگر کوئی ایسا ایسا عقیدہ رکھے تو اس کا کیا حکم ہے؟ شاگردوں نے کہا کہ اس کے کافر ہونے میں کوئی شک نہیں کیونکہ اس کا ہر عقیدہ کفریہ ہے۔ پھر حضرت نے اس کی مختلف تعبیریں بتائیں کہ اگر یہ فلاں فلاں وجہ سے ہو تو کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ پھر کافر نہیں ہو گا۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ لوگوں نے جلدی کی، آپ کو غور و فکر کرنا چاہیے تھا اور ساری ممکنہ صورتیں ذہن میں رکھنی چاہیے تھیں۔ مثلاً ایک آدمی کو آپ کہتے ہیں کہ نماز پڑھو تو وہ کہتا ہے کہ میں نہیں پڑھتا۔ یہ بظاہر کفریہ کلمہ ہے لیکن ممکن ہے کہ اس وقت اس کو نہانے کی ضرورت ہو تو بغیر نہائے اگر نماز پڑھے گا تو کافر ہو جائے گا۔ یعنی اسے اپنی ضرورت کا ادراک ہے اور وہ اپنی بات میں سچا ہے لیکن چونکہ لوگوں کو پتا نہیں ہوتا تو اس کے بارے میں عذر فرض کر لینا چاہیے۔
سوال نمبر12:
حضرت! ایک مفتی صاحب بتا رہے تھے کہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ غیر عالم کے لئے بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے عام بندے کو ایسے بیان کرنے سے روکا ہے جس میں احکامات ہوں یا معاشرے کی اصلاح کی باتیں ہوں کیونکہ اصلاح ہر ایک کا کام نہیں ہے، ہر شخص کے لئے ایک ہی ڈھنگ سے بات نہیں ہوتی۔ عین ممکن ہے کہ آپ کسی شخص کو ایسی بات بتا دیں جو اس کے لئے مناسب نہ ہو۔ اس کے لئے عالم ہونا ضروری ہے۔ لیکن اگر آپ اعمال کے فضائل بیان کر رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ تو آپ ﷺ نے بیان فرما دیے ہیں۔ اس لئے تبلیغی جماعت میں مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ نے جو چھ نمبر جمع کئے ہیں ان میں علمی باتیں نہیں ہیں، یہ صرف فضائل ہیں۔ تبلیغی جماعت میں جو یہ سختی کی جاتی ہے کہ چھ نمبر سے باہر نہ نکلیں اس کی وجہ یہی ہے کہ لوگ اپنی طرف سے کچھ نہ کہیں کیونکہ اپنی طرف کہنے کے لئے علم کی ضرورت ہوتی ہے اور فضائل میں اوامر و نواہی نہیں ہوتے بلکہ نیک اعمال کے کرنے پر فضائل کا بیان ہوتا ہے۔ لیکن عام تبلیغیوں سے اگر یہ باتیں کہی جائیں تو وہ اس کو تبلیغ کی مخالفت سمجھتے ہیں۔
سوال نمبر13:
حضرت جی! جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو بندے کو پتہ چلتا ہے، جیسے بندے کو دل میں تکلیف ہو تو اس کو احساس ہوتا ہے کہ مجھے اب کسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ اگر کسی کا تعلق شیخ کے ساتھ نہیں ہے تو اس کو کیسے احساس ہو گا کہ مجھے کسی شیخ کے پاس جانا چاہیے؟
جواب:
میں اس کا جواب پہلے بھی دے چکا ہوں، اب دوسرے الفاظ میں دوبارہ وہی جواب دے دیتا ہوں کہ فکر پیدا کرنے کے لئے عمومی بیان ہوتے ہیں جبکہ خصوصی بیان اس شخص کے لئے ہوتے ہیں جو ان کو برداشت کر سکتا ہو۔ بعض لوگوں کو اگر آپ کہہ دیں کہ آپ میں یہ خرابی ہے تو وہ آپ سے لڑ پڑیں گے حالانکہ وہ بات صحیح ہو گی لیکن ان میں ابھی برداشت کا مادہ نہ ہونے کی وجہ سے الٹا نقصان ہو گا۔ اگر وہی بات آپ پانچ چھ آدمیوں کے سامنے کریں گے تو ہر ایک سمجھے گا کہ میرے بارے میں نہیں کہہ رہا عام بات کر رہا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔ اگر ایک آدمی کے سامنے بات کر رہے ہوں تو شیطان اس کو غیرت دلا کر اسے لڑنے پہ آمادہ کر لیتا ہے لہذا ایسی بات عمومی بیان میں کی جا سکتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ فکر پیدا کرنے کے لئے عمومی طور پر بہت سخت بیان بھی کیا جا سکتا ہے لیکن خصوصی بیان میں بہت نرمی برتی جاتی ہے کیونکہ عمومی بیان کی سختی لوگ برداشت کر لیتے ہیں۔ جب میں بیان کرتا ہوں تو بعض اوقات مجھے خواتین کی طرف سے یہ اطلاع آتی ہے کہ آپ سخت بیان کیا کریں اس سے ہمیں زیادہ فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر میں اگر کسی ایک خاص خاتون کو سخت بات بتاؤں تو عین ممکن ہے آئندہ اس طرف رخ بھی نہ کریں۔ اگر فکر پیدا ہو جائے تو اس کے بعد اس کو سخت سے سخت بات بھی کہہ لیں تو وہ اس کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے۔
سوال نمبر14:
حضرت! بیعت ہونے کے بعد بعض لوگ ایک دوسرے کو نصیحت کرتے ہیں اور تبلیغی جماعت میں بھی کہا جاتا ہے کہ گھر یا کسی اور جگہ پہ کبھی تنہائی میں نہیں رہنا۔کیا تنہائی کسی وقت انسان کو فائدہ دیتی ہے؟ اور کس level پہ دیتی ہے؟
جواب:
دیکھیں! تبلیغی جماعت کا mandate اصلاح نہیں ہے، اس جماعت کا mandate اصلاح کے لئے تیار کرنا ہے، فکر پیدا کرنا ہے۔ اسی وجہ سے مولانا مصطفی صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو رائیونڈ میں مقیم تھے، کار گزاری سنا کرتے تھے اور ہدایات دیا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ فرمایا کہ اگر کسی وقت آپ لوگ دیکھیں کہ جماعت میں کوئی نیا آدمی آ گیا ہے اور آپ کے دل میں شوق ہو کہ اس کی تربیت ہو جائے اور یہ سوچ کر اس کو کنوئیں سے پانی کے ڈول نکالنے پہ لگا دو کہ اس طرح اس کی اصلاح ہو جائے گی تو یہ غلط ہے، ہمارا کام اصلاح کرنا نہیں ہے، اصلاح تو مشائخ کرتے ہیں۔ ہمارا کام صرف اکرام کرنا ہے۔ ہم اکرام کریں گے اور اصلاح کے لئے مشائخ کے پاس لے جائیں گے۔ یہ بہت بڑی بات حضرت نے بات بیان فرمائی۔ اصل یہی چیز ہے کہ اصلاح ہر ایک نہیں کر سکتا۔ عین ممکن ہے کہ غلط بات کرنے سے وہ شخص ہمیشہ کے لئے بدک جائے۔ مشائخ کو اصلاح کا طریقہ آتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دل میں ایسی کشش رکھی ہوتی ہے کہ وہ زبان سے ڈانٹ رہے ہوتے ہیں لیکن دل سے اپنی طرف کھینچ رہے ہوتے ہیں۔ عام آدمی کو یہ چیز نہیں آتی، وہ زبان سے بھی ڈانٹ رہے ہوتے ہیں اور دل سے بھی دفع کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے دل پر کنٹرول نہیں ہوتا۔
حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ حضرت اگر میرا یہ کام نہ ہوا تو میں عیسائی ہو جاؤں گا۔ حضرت نے ایک زور دار تھپڑ اس کو لگایا کہ جاؤ عیسائی ہو جاؤ، اسلام کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تم کون ہوتے ہو اسلام کے اوپر احسان کرنے والے؟ اس نے کہا کہ حضرت اگر آپ کو مارنے کا شوق ہے تو اور بھی مار لیں لیکن میری اصلاح ہو گئی ہے، میں نے آپ کی بات مان لی۔ اصل بات یہی ہے کہ ان حضرات کو اللہ پاک نے یہ فن دیا ہوتا ہے، یہ ہر ایک کا کام نہیں ہے۔ تبلیغی جماعت کے حضرات مشائخ بھی جب جماعت میں چل رہے ہوں تو وہ لوگوں کی اصلاح نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصلاح ان کی کی جاتی ہے جو ان سے اصلاح کا تعلق رکھنا شروع کریں۔ مثلًا میرے پاس جو لوگ آتے ہیں میں عام طور پر ان کی اصلاح نہیں کرتا، ان کے ساتھ میں عام رویہ اختیار کرتا ہوں کیونکہ ان کی اصلاح میرے ذمے نہیں ہے۔ جب انہوں نے اپنے آپ کو اصلاح کے لئے پیش ہی نہیں کیا تو میں ان کی اصلاح کیسے کر سکتا ہوں؟ البتہ عمومی بیان کر سکتا ہوں۔ عمومی بیان میں اگر ان کو فائدہ ہوتا ہے تو یہ خوش قسمتی ہے لیکن میں ان کی اصلاح کا ذمہ دار نہیں ہوں۔ جو میرے پاس اصلاح کے لئے آئے گا اس کو میں اصلاح کی بات بتا سکتا ہوں، اس کی اصلاح کے بارے میں سوچ سکتا ہوں کیونکہ اس نے مجھے اس کا ذمہ دار بنا دیا ہے۔ اب اگر میں نہیں کروں گا تو اللہ پاک مجھ سے اس کے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔
سوال نمبر15:
حضرت! ایک خانقاہ میں ایک نعت خواں آئے، انہوں نے نعت شروع کرنے سے پہلے اعوذ باللہ پڑھی تو ان کو بتایا گیا کہ نعت سے پہلے اعوذ باللہ نہیں پڑھی جاتی، پھر ساتھ ہی ان کو بتایا گیا کہ چونکہ آپ خانقاہ میں آئے ہیں اس لئے آپ کی اصلاح ہو گئی۔ اب یہ دریافت کرنا ہے کہ جان لینے اور اصلاح ہونے میں کیا فرق ہے؟
جواب:
اصلاح ہو گئی سے مراد اگر یہ ہے کہ چونکہ وہ خانقاہ میں آئے ہیں اور خانقاہ میں لوگ اپنی اصلاح کے لئے آتے ہیں تو اس صورت میں جب انہوں نے ایک بات جان لی اور مان بھی لی تو اصلاح ہو گئی۔ لیکن جو صرف جان لیتا ہے اور مانتا نہیں ہے تو اس کی اصلاح ابھی نہیں ہوئی۔
سوال نمبر16:
حضرت! آپ کسی سے استغفار کے حوالے سے فرما رہے تھے کہ قرآن مجید میں ہے:
﴿اِستَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ﴾ (نوح: 10)
ترجمہ: ” اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو “۔
اسی جگہ آگے ﴿وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ﴾۔ (ترجمہ: ”اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دے گا“)(نوح: 12) ہے۔ اس بارے میں بعض علماء سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مال اولاد دے گا اور بعض سے سنا ہے کہ مال اور اولاد میں برکت عطا فرمائیں گے۔ اس کا اصل مطلب کیا ہے؟
جواب:
در اصل بعض اوقات کسی ایک بات کی مختلف تشریحات ہوتی ہیں چنانچہ یہاں فرمایا:
﴿وَيُمْدِدْكُم بِأَمْوَالٍ وَّبَنِيْنَ﴾ (نوح: 12)
یعنی بیٹوں اور مال کے ذریعے سے تمہاری مدد کی جائے گی یہ نہیں فرمایا کہ تمہیں دیں گے۔ اب مدد کی دو صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ پہلے نہیں تھے تو دے دیئے اور دوسری صورت یہ ہے کہ پہلے تھے لیکن ان میں برکت نہیں تھی یا صحیح استعمال نہیں ہو رہے تھے تو اب صحیح استعمال ہونے لگیں گے۔ تو اس کی دونوں صورتیں سکتی ہیں لہذا ہم کسی کی تشریح کے ساتھ اختلاف نہیں کرتے۔ دونوں اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔
سوال نمبر17:
حضرت! حدیث: "اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهٗ" کا کیا مطلب ہے؟
جواب:
اس حدیث شریف ”اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهٗ“ (ابن ماجة :4250) کا مطلب ہے کہ جو شخص گناہ کر چکا ہو اور پھر اس سے توبہ کر لے تو وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں کیونکہ توبہ سے وہ گناہ معاف ہو جاتا ہے۔
سوال نمبر18:
حضرت! نماز کے ارکان میں انتقال مثلًا رکوع سے سجدے میں جانا اور سجدے سے اٹھنا ان میں بعض لوگ سپیڈ سے جاتے ہیں اور بعض بہت ہی slow جاتے ہیں، اس میں کون سا طریقہ بہتر ہے؟
جواب:
دیکھیں! نماز کے اندر کچھ فرائض ہوتے ہیں، کچھ واجبات، کچھ سنتیں اور کچھ مستحبات ہوتے ہیں۔ ان میں طریقہ یہ ہے کہ نہ تو مستحب کو واجب بنایا جائے اور نہ واجب کو مستحب۔اس طرح نماز بالکل ٹھیک ٹھیک رہے گی۔ تعدیل ارکان یعنی اتنی دیر کے لئے بیٹھ جانا کہ آپ کے سارے اعضاء اپنی جگہ پہ آ جائیں واجب ہے۔ اس کے بعد بھلے آپ فوراً دوسرے رکن کے لئے روانہ ہو جائیں بہرحال تعدیل ارکان یعنی واجب ادا ہو گیا لیکن مستحب ابھی رہتا ہے اور وہ مستحب یہ ہے کہ آپ با وقار طریقے سے مثلًا جتنی دیر آپ قیام کر رہے ہیں اتنی ہی دیر آپ رکوع کو دیں، اتنی دیر پھر سجدے کو دیں، اتنی دیر پھر قعدہ کو دیں اور اتنی دیر پھر جلسے کو دیں۔ ساری چیزوں کو آپ اتنا اتنا وقت دیں تو یہ مستحب ہے، اس کا ثواب زیادہ ہے۔ لیکن اگر کسی کے پاس وقت تھوڑا ہو اور وہ صرف واجبات پر اکتفا کر لے اور سنتیں پوری کر لے اور مستحبات نہ کر سکے تو آپ اس کو ملامت نہ کریں کیونکہ تارک مستحب پر ملامت نہیں ہے بلکہ تارک مستحبات پر ملامت کرنا قابل ملامت ہے۔
سوال نمبر19:
حضرت! دو سجدوں کے درمیان کم از کم کتنی دیر بیٹھنا چاہیے؟
جواب:
اتنی دیر بیٹھنا کہ سارے جسم کے اعضاء اور کپڑے وغیرہ اپنی جگہ پہ واپس آ جائیں یہ واجب ہے۔ لیکن مزید آرام سے کرنا مستحب ہے۔
سوال نمبر20:
حضرت! سورہ قریش کا خلاصہ کیا ہے؟
جواب:
قریش کے اوپر اللہ تعالیٰ نے جو احسانات کیے سورۂ قریش میں ان احسانات کو بیان کیا گیا ہے جیسے اللہ جل شانہ نے یہودیوں پر کیے گئے احسانات بار بار مختلف موقع پہ قرآن پاک میں ان کو بتائے ہیں۔ اس طرح اس سورت میں اوّلًا احسانات کا ذکر کر کے قریش کو متوجہ کیا گیا ہے اور پھر دعوت دی گئی ہے کہ:
﴿فَلۡيَـعۡبُدُوۡا رَبَّ هٰذَا الۡبَيۡتِ﴾ (قریش: 3)
ترجمہ: ”اس لیے انھیں چاہیے کہ وہ اس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔ “
یعنی جس کی برکت سے تمہیں نعمتیں ملی ہیں اس رب کی عبادت کرو۔
سوال نمبر21:
حضرت! سورۃ نصر میں ہے:
﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ إِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا﴾ (النصر: 3)
ترجمہ: ” تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت مانگو۔ یقین جانو وہ بہت معاف کرنے والا ہے “
کیا اس کا خلاصہ یہ ہوا کہ تسبیح و تحمید کرو؟
جواب:
در اصل انبیاء کرام مسلسل ترقی کر رہے ہوتے ہیں اور جو مسلسل ترقی کر رہا ہو تو وہ اپنے اس گزشتہ مقام پر استغفار کرتا ہے جو موجودہ مقام سے نیچے تھا، گناہ پہ استغفار نہیں کرتا۔
سوال نمبر22:
حضرت! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے اور سلام بھیجنے میں فرق کیا فرق ہے؟
جواب:
درود و سلام دونوں ایک ہی ہیں۔ جیسے "صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" درود بھی ہے اور سلام بھی ہے۔ اس میں "صلی اللہ علیہ" درود ہے اور "و سلم" سلام ہے کیونکہ اس کا مطلب سلامتی ہے۔
سوال نمبر23:
حضرت! ہم یہ سنتے ہیں کہ اجتماعی عمل سمندر کی طرح ہوتا ہے جب کہ انفرادی عمل (مثلاً اِس وقت اگر کوئی آدمی نفل پڑھنا شروع کر دے وہ )ایک قطرے کی طرح ہے۔ اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔
جواب:
در اصل ہر چیز کو جس موقع کے لئے بیان کیا گیا ہے اسے اس کے لئے استعمال کیا جائے تو ٹھیک ہے لیکن اگر اس موقع سے ہٹ کے استعمال کیا جائے تو پھر وہ نقصان دہ ہوتی ہے۔ انفرادی اعمال کو اگر آپ اپنی اصلاح کے لحاظ سے دیکھیں تو وہ بہت اہم ہیں کیونکہ اصلاح کے بغیر آپ سارے اجتماعی اعمال کو گندہ کریں گے۔ اس کی ایک بہت اچھی مثال اللہ تعالیٰ نے ابھی ذہن میں ڈالی ہے کہ مثلًا میں آپ سب کو نماز سکھا رہا ہوں، نماز سیکھنا اس وقت آپ سب کے لئے اجتماعی عمل ہے۔ سیکھنے کے بعد جب آپ اپنے گھر یا مسجد میں پڑھیں گے تو یہ انفرادی عمل ہو گا۔ اب اگر آپ یہاں مسائل میں بیٹھ جائیں اور نماز غلط طریقے سے پڑھنے لگیں تو اس کو ہم قطرہ بھی نہیں کہیں گے کیونکہ جس مقصد کے لئے اجتماعی عمل ہوتا ہے اگر وہ مقصد ہی فوت ہو جائے تو اجتماعی عمل بے کار ہو جائے گا۔ اس لئے مقصدیت کو ختم نہ کریں، مقصدیت اپنی جگہ پر اہم ہے۔ اپنی اصلاح فرض عین ہے دوسروں کی اصلاح فرض کفایہ ہے۔ فرض کفایہ کی بجائے فرض عین زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہر بات ہر جگہ کے لئے نہیں ہوتی، یہ صرف اس موقع کے ساتھ خاص ہوتی ہے جس موقع کے لئے کہی گئی ہو۔ مثلًا میں ایک وقت میں صرف ایک کام کر سکوں گا یا انفرادی، یا اجتماعی اور اجتماعی اعمال مسلسل نہیں ہوتے بلکہ یہ تھوڑی دیر کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر مسلسل ہونے لگیں تو ان کو روک دیا جائے گا تاکہ انفرادی اعمال کے لئے وقت نکل آئے۔ جب اجتماعی عمل ہو رہا ہو تو چونکہ اس کے ساتھ سب کا فائدہ وابستہ ہے لہذا لوگوں کو کہا جائے کہ اپنے اپنے انفرادی عمل اس وقت روک دو اور یہاں اجتماعی عمل میں آ جاؤ۔ اس کا مطلب یہی تھا۔ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ انفرادی اعمال کو کرو ہی نہیں۔ کیونکہ جب انفرادی اعمال کو بالکل ترک کر دو گے تو اجتماعی اعمال کا فائدہ ختم ہو جائے گا۔ اس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
سوال نمبر24:
حضرت! ہم یہ سنتے ہیں کہ تذکرے سے یقین بدلا کرتے ہیں یعنی ایمان کے بول بولنے سے ایمان زیادہ ہوتا ہے۔
جواب:
قرآن پاک کی آیت ہے:
﴿وَ ذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرىٰ تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ (الذاریات: 55)
ترجمہ: " اور نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے۔ "
اس وقت ہم تذکرہ ہی کر رہے ہیں جو مومنین کو نفع دیتا ہے۔
سوال نمبر25:
حضرت! اس میں ہم جو انفرادی ذکر کرتے ہیں وہ بھی اپنی ذات کے حوالے سے یادہانی ہے؟
جواب:
شیخ اپنے مرید کو جو ذکر تلقین کرتا ہے وہ اس کے لئے تذکرہ ہے، اس سے مرید کو فائدہ ہو گا۔ اگر وہ تلقین کرنا چھوڑ دے گا تو مرید کو فائدہ نہیں ہو گا۔ اس لئے مشائخ فرماتے ہیں کہ شیخ کو زبان ہونا چاہیے اور مرید کو کان ہونا چاہیے یعنی مرید کان سے زیادہ کام لے اور شیخ زبان سے زیادہ کام لے۔ اب شیخ کو آپ کہہ دیں کہ تم بھی چپ ہو جاؤ تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ خاموشی بہت اچھی بات ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خلوت بری صحبت سے اچھی ہے اور اچھی مجلس خلوت سے اچھی ہے۔ بری بات سے خاموشی اچھی ہے اور اچھی بات خاموشی سے اچھی ہے۔ اسی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا کرنا چاہیے۔
سوال نمبر26:
حضرت! بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگر آپ ایمان و یقین کے بول نہیں بولیں گے تو آپ کا ایمان پیدا ہی نہیں ہو گا۔ بعض اوقات اگر کوئی آدمی کسی کو دعوت نہیں دیتا تو وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی کو دعوت نہیں دیتے اور صرف ذکر میں لگے ہوئے ہیں تو آپ میں ایمان پیدا نہیں ہو گا۔
جواب:
مجھے اس بات پر بہت زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ جماعت میں چلنے والے حضرات اپنی کتاب ”فضائل اعمال“ پوری کیوں نہیں پڑھتے؟ کاش! یہ حضرات ایک مرتبہ یہ کتاب پوری پڑھ لیتے تو اس میں اس کا جواب موجود تھا کہ دعوت الی اللہ کئی قسم کی ہے، صرف ایک قسم کی نہیں ہے۔ مؤذنین اذان کے ذریعے دعوت دیتے ہیں، مجاہدین تلوار کے ذریعے دعوت دیتے ہیں، علماء دلائل کے ذریعے دعوت دیتے ہیں اور مشائخ اعمال قلب کے ذریعے دعوت دیتے ہیں۔ یہ ساری اللہ کی طرف دعوت ہے لہذا صرف ایک طرح کی دعوت کو دعوت کہہ کر باقی کا دعوت ہونے سے انکار کرنا بہت بڑی جسارت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بہت جلدی خلاصی نصیب فرمائیں۔
سوال نمبر27:
حضرت! بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جو خلوت سے ملتا ہے وہ جلوت سے نہیں ملتا۔ اس سے کیا مراد ہے؟
جواب:
جلوت سے کیا مراد ہے؟ سینما کی جلوت؟ سینما کی جلوت سے تو گناہ ہوتا ہے۔ جلوت، جلوت کا فرق ہے، شیخ کے ساتھ جلوت، خلوت سے اچھی ہوتی ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ شیخ صحبت صالحین کا مرکز ہوتا ہے۔ شیخ کی مجلس مرید کے لئے صحبت صالحین کا مرکزی نقطہ یعنی focus point ہے اور صحبت صالحین کا حکم ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾ (توبہ: 119)
ترجمہ: ”سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو۔ “
جب قرآن کا حکم ہے تو کیا اس کی کوئی حیثیت نہیں؟ اگرچہ خلوت اپنی جگہ ضروری ہے مثلًا جب آپ کو شیخ کی مجلس میسر نہیں ہے اس وقت باقی مجلسوں میں جانے کی بجائے آپ کے لئے خلوت بہتر ہے لیکن شیخ کی مجلس خلوت سے بہتر ہے اور اس کا اپنا مقام ہے۔
سوال نمبر28:
حضرت! ایک آدمی پورا دن مسجد میں بیٹھا تسبیح پھیر رہا ہے لیکن اس کا دل غافل ہے اور دوسرا آدمی نوکری پہ گیا ہوا ہے یا کسی اور کام میں مشغول ہے لیکن وہ ایک لمحے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں ہے اب عام انسان کی نظر میں تو جو مسجد میں بیٹھا ہے وہ اللہ والا ہے اور دوسرا دنیا دار ہے۔
جواب:
جی بالکل عام آدمی اسی کو اللہ والا سمجھے گا۔ ڈاکٹر فدا صاحب دامت برکاتہم فرما رہے تھے کہ ایک صاحب کشف تھے، انہوں نے دیکھا کہ ایک شخص خانہ کعبہ کے غلاف کو پکڑ کر یا اللہ یا اللہ یا اللہ یا اللہ یا اللہ کر رہا ہے لیکن اس کا دل دنیا سے بھرا ہوا ہے۔ بعد میں جب وہ صاحب کشف بزرگ بازار گئے تو وہاں ایک صاحب کو دیکھا جو تھان پہ تھان بیچ رہا ہے لیکن اس کا دل اللہ پاک کی طرف لگا ہوا ہے۔
مثال کے طور پر ایک شخص تجارت کر رہا ہے اور اس تجارت سے اس کا ارادہ یہ ہے کہ بیواؤں، یتیموں، معذوروں اور بیماروں کو وہ پیسے مہیا کرے گا تو اس کا پورے کا پورا کاروبار عبادت ہے۔ اگرچہ لوگوں کی نظروں میں وہ بیوپاری اور دنیا دار ہے لیکن حقیقت میں وہ اللہ والا ہے۔ یہ تو اللہ کو پتا ہے کہ کون کدھر ہے۔ دوسری صورت میں ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے لیکن نماز پڑھنے سے اس کی مراد یہ ہے کہ فلاں مقدمہ میں جیت جاؤں یا فلاں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں یا میری دکان چل پڑے تو وہ دنیا دار ہے اگرچہ وہ عبادت کر رہا ہے۔ یعنی ایک دنیا سے اللہ پاک کو راضی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور دوسرا دین سے دنیا کو کمانے کا ارادہ رکھتا ہے تو فرق بالکل واضح ہے۔
سوال نمبر29:
حضرت! اپنے عیب کو چھپانے کے لئے دین کو ڈھال بنانا کیسا ہے؟ مثلًا میں کسی جگہ appointment میں اپنی وجہ سے لیٹ ہوا، لیکن وہاں جا کر کہا کہ نماز پڑھنی تھی اس لئے لیٹ ہو گیا۔
جواب:
اس میں دو بڑے گناہ ہیں: ایک یہ منافقت کی علامت ہے کہ منافق جھوٹ بولتا ہے، یعنی وہ کر کچھ رہا ہوتا ہے اور بتا کچھ رہا ہوتا ہے اور دوسرا یہ امانت کے خلاف ہے۔ اس نے وقت پر آنے کا عہد کیا تھا اور اس عہد کو پورا نہیں کیا۔ یہ دونوں ایمان کی کمزوری کی علامتیں ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے بچائے۔
سوال نمبر30:
حضرت دوسرے کے عیب نظر آ جائیں تو اپنے اندر کیا سوچنا چاہیے؟
جواب:
دوسرے کو خود سے فی المآل بہتر سمجھنا اور اپنے آپ کو فی الحال برا سمجھنا چاہیے۔انسان اس کا مکلف ہے کہ جو شخص آپ کی نظروں میں کسی عیب میں مبتلا ہے تو آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ عین ممکن ہے ابھی یہ توبہ کر لے اور مجھ سے بہت آگے نکل جائے۔ دوسرا یہ کہ انسان خود اپنے بارے میں تصور کرے کہ بھلے اس وقت میں اچھا کام کر رہا ہوں لیکن یہ اللہ پاک کی توفیق سے ہے، اگر خدانخواستہ میں نے اس پر عجب یا تکبر کیا تو یہ توفیق مجھ سے سلب ہو سکتی ہے۔
سوال نمبر31:
حضرت! گالی دینے اور لعنت بھیجنے کو کس طرح differentiate کریں گے؟ گالی کیا ہوتی ہے؟ جس طرح بعض لوگ پیار سے کہتے ہیں کہ اے خبیث ادھر آؤ۔ کیا اس کو گالی کہیں گے؟
جواب:
لعنت بد دعا ہے اور گالی تضحیک ہے۔ یعنی کسی کو نیچا دکھانا اور آپ اس کے ساتھ جو بد گمانی کر رہے ہیں اس کا ظاہری الفاظ میں اظہار کرنا گالی ہے۔ مثال کے طور پر کسی کے ماں باپ کو گالی دینا اس کے ماں باپ کی عزت کو خاک میں ملانا ہے۔ لعنت بد دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو جائے۔ یہ دونوں باتیں ٹھیک نہیں ہیں۔ گالی دینے سے انسان اللہ پاک کی نظروں سے گر جاتا ہے۔
سوال نمبر32:
ہمارے ہاں پاکستان میں تو یہ عام بات ہے، کیا گالیاں ہمارے ہاں تکیہ کلام بن گئی ہیں؟
جواب:
حدیث شریف میں ہے کہ جب آپس میں انسان گالی گلوچ عام طور پر اختیار کرنے لگیں گے تو اللہ پاک کی نظروں سے گر جائیں گے۔ اللہ کی نظروں سے گرنے کے بعد باقی کیا رہ جاتا ہے؟
ایک بڑے میاں گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے، لیکن ان کے پاس پیسے نہیں تھے، جب کنڈکٹر ان کے پاس پیسے لینے کے لئے آیا تو بجائے اس کے کہ اس کو کہتے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں آپ مجھے ویسے ہی لے چلیں یا بس سے اتار دیں، انہوں نے اسے گالی دے دی۔ کنڈکٹر نے کہا کہ اب تو میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا آپ کو نیچے اترنا ہی پڑے گا۔ یعنی انسان دوسرے کو گالی دے کر خوامخواہ اپنی عزت کو خاک میں ملا دیتا ہے۔ دوسرے کو گالی دینا اصل میں اپنی عزت کو خاک میں ملانا ہوتا ہے کیونکہ اس سے آدمی لوگوں کی نظروں سے بھی گر جاتا ہے۔
سوال نمبر33:
حضرت ایک آدمی میں سخاوت کی خصلت موجود تھی اور ذکر اذکار کی برکت سے وہ نکھر کے باہر آ گئی۔ دوسرے انسان کے اندر وہ خصلت موجود ہی نہیں تھی، اس سورت میں ذکر اذکار سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے، بالفاظ دیگر اس صفت کو پیدا کرنے کے لئے کیا process ہو گا؟
جواب:
ایک شخص میں سخاوت کا عنصر خود بخود موجود ہونا اور دوسرا یہ ہے کہ سخاوت تو نہیں ہے لیکن بخل ہے۔ یہ دونوں شخص جب ذکر اذکار کریں گے تو پہلے کی سخاوت بڑھے گی اور دوسرے کا بخل ختم ہوجائے گا۔ اس طرح زیرو سے تو دونوں ہی ہٹ گئے۔ یعنی مثبت کام دونوں نے کر لیا۔ جس کی سخاوت بڑھی وہ بھی فائدے میں اور جس کا بخل ختم ہوا وہ بھی فائدے میں رہا۔
سوال نمبر34:
حضرت! مثال کے طور پہ ایک آدمی کے اندر سخاوت نہیں تھی اس نے ذکر کرنا شروع کیا، ذکر کی برکت سے اس کے اندر سے بخل ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ایک نئی صفت یعنی سخاوت کیسے پیدا ہو گی۔
جواب:
ایک بات عرض کرتا ہوں اس کو اچھی طرح نوٹ کر لیں۔ انسان کا اچھا ہونا کسی خاص صفت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ چند مجموعی صفات کی وجہ سے ہوتا ہے صحابہ کرام کے اندر دیکھو۔ اللہ جل شانہ نے مختلف صحابہ کے اندر مختلف صفتیں رکھی تھیں۔ بنیادی طور پر گناہ سے تو سب کو بچایا تھا۔ ہر چیز میں زیرو سے تو سب plus تھے لیکن بعض صحابہ کی بعض چیزوں میں بعض صفات بہت زیادہ رکھی تھیں۔ ذکر سے یہی ہوتا ہے کہ جو جس صفت کے لئے پیدا کیا گیا تھا اس میں بہت اچھا ہو جاتا ہے اور باقی صفات میں عمومی طور پر اچھا ہو جاتا ہے۔ اللہ جل شانہ چونکہ کسی کا رشتہ دار نہیں ہے لہذا اس نے سب کو دیا ہوتا ہے۔ اپنی اپنی جگہ پر کسی کو ایک چیز دی ہوتی ہے دوسرے کو کوئی اور چیز زیادہ دی ہوتی ہے۔
سوال نمبر35:
حضرت جی ہم ذکر کرنے سے پہلے یہ نیت کرتے ہیں کہ یہ میں ذکر اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ اللہ پاک کی محبت میرے دل میں ہو تو مراقبہ کرنے سے پہلے کیا نیت کرنی چاہیے۔
جواب:
مراقبہ کرنے سے پہلے انسان یہ نیت کر لے کہ مجھے کیفیت احسان حاصل ہو جائے۔ کیونکہ مراقبہ کے ذریعہ آپ ”اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ“کی سیدھ میں چلنے کی ابتدا کر رہے ہیں۔
سوال نمبر36:
حضرت یہ تبلیغ کی لائن میں دنیا بھر کے لوگ ہیں۔ اور دنیا کے مختلف انسانوں میں مختلف صفات ہیں۔ جب ایک علاقے کے لوگ دوسرے علاقے کے لوگوں کے ساتھ آپس میں ملتے جلتے ہیں تو کیا وہ ایک دوسرے سے صفات لے سکتے ہیں؟
جواب:
جی یہ بات بالکل درست ہے کہ میل جول سے صفات ایک دوسرے میں منتقل ہوتی ہیں۔
سوال نمبر37:
حضرت قرآن مجید میں ایک آیت ہے:
﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ﴾ (البلد: 4)
ترجمہ :”ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ “
کیا اس مشقت سے زندگی کے ہر مرحلہ میں مشقت مراد ہے؟
جواب:
جی ہاں اس سے یہی مراد ہے کہ انسان زندگی کے ہر ہر phaseمیں مشقت اٹھاتا ہے۔ نفس کی مخالفت ایک مستقل مشقت ہے، یہ موت تک ہر انسان کے ساتھ رہے گی۔
سوال نمبر38:
حضرت ! قرآن مجید میں حکم دیا گیا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا﴾ (آل عمران: 103)
ترجمہ: ” اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھو “۔
اس کا عملی طریقہ کیا ہوسکتا ہے؟
جواب:
میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ دین کے سارے کام کرنے والے ایک دوسرے کو اچھا کہیں صرف اپنے آپ کو اچھا نہ کہیں۔ یہ اس آیت پر عمل کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
سوال نمبر39:
حضرت قلمی جہاد کے بارے میں ایک دفعہ سنا تھا کہ جس قلم کے پیچھے قدم کی طاقت ہو گی اس قلم کو توڑنے والے کا ملک توڑ دیا جائے گا لیکن جس قلم کے پیچھے قدم کی طاقت نہیں ہوتی اس کے وہ اثرات نہیں ہوتے۔ اس بارے میں کچھ رہنمائی فرما دیں۔
جواب:
یہ اس بات پر منحصر ہے کہ قدم سے کیا مراد ہے۔ کس قسم کا قدم؟ صرف ایک خاص کام میں قدم یا سارے دینی کاموں میں قدم۔ کوئی علم کے لئے سفر کر رہا ہے وہ اس میں شامل ہے یا نہیں ہے، قدم تو لگ رہے ہیں، کوئی شیخ کی تلاش میں سفر کر رہا ہے وہ اس میں شامل ہے یا نہیں ہے، کوئی جہاد میں سفر کر رہا ہے وہ اس میں شامل ہے یا نہیں ہے، کوئی بستر اٹھا کے چل رہا ہے وہ اس میں شامل ہے یا نہیں ہے۔ یہ سب شامل ہیں۔
سوال نمبر40:
حضرت جی! اللہ کے راستے میں نکلنے کے فضائل بیان کئے جاتے ہیں کہ بھئی اللہ کے راستے میں نکلو تو تمہیں ایک نماز پڑھنے کا اجر کئی گنا نمازوں جتنا ملے گا۔ اور یہ بندہ دوسروں کے اندر طلب پیدا کرنے کے لئے نکلا ہے اگر ایک بندہ اپنی فکر کے لئے نکلے گا تو اللہ پاک اس کو کتنا دیں گے۔
جواب:
میرا یقین ہے کہ آپ میرپور سے آئے ہیں یا ہجیرہ سے آئے ہیں ان شاء اللہ آپ کو بھی اجر مل رہا ہے۔ اس بات کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو یہ بھی ٹھیک ہے اگر یہ غلط ہے تو وہ بھی غلط ہے۔ میں اس پہ فتویٰ لے چکا ہوں۔ 4 جگہوں سے فتوے لئے ہیں۔ جن کے مطابق جو لوگ شیخ کی خدمت میں جا رہے ہیں ان کو اللہ کے راستہ میں جانے والا اجر ملے گا۔
سوال نمبر41:
شیخ کی صحبت اور تبلیغ کے اعمال کا آپس میں اگر بیک وقت مقابلہ آ جائےتو کس کو ترجیح دی جائے۔
جواب:
در اصل مقابلہ نہیں آتا لیکن کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مقابلہ آ جاتا ہے۔ ہر کام اپنے اپنے وقت پہ ہوتاہے۔ اب آپ سحری کے وقت روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں، اور آپ کو فجر کی نماز بھی پڑھنی ہے تو کیا دونوں کے درمیان مقابلہ آ گیا ؟ دونوں کام اپنے اپنے وقت پہ ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر شیخ آپ کو کہتا ہے کہ آپ ادھر آ جائیں پھر تو اسی میں فائدہ ہے اور اگر آپ کسی وقت تبلیغ میں جاتے ہیں کسی وقت شیخ کے پاس جاتے ہیں تو دونوں میں فرق ہے، دونوں اپنے وقت وقت پہ ہو سکتے ہیں،کوئی مسئلہ کی بات نہیں ہے۔ کیونکہ شیخ ہر وقت available نہیں ہوتا۔ جس وقت میں وہ available نہیں ہے اس وقت آپ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ میں عرض کرتا ہوں دیکھیں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ یاد آ جاتے ہیں کہ بیس سال تک وہ کیا کر رہے تھے کچھ بھی نہیں کر رہے تھے صرف یہی کر رہے تھے کہ شیخ کی خدمت میں موجود تھے اور وہ قبول ہو گئے۔ اگر وہ قبول نہیں ہوئے تو پھر کون قبول ہوئے۔ ان کی بیس سال کی مسلسل کی محنت اللہ پاک نے قبول فرمائی۔ یہ صرف اپنی اپنی سمجھ کی بات ہے اگر انسان صحیح طور پر سمجھ جائے تو مقابلہ والی کوئی صورت پیدا نہیں ہوتی۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن