سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 065 ذکر اور دعا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
مرحبا مسجد - ہائی وے لنک دربار روڈ، کری روڈ، راولپنڈی

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

نظر کی حفاظت مشکل ہو رہی ہے، کیا مراقبہ برائے حفاظتِ نظر کر لوں؟

جواب:

اصل میں ایسی چیزوں میں ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کسی نے کہا کہ حضرت! مجھ سے نظر کی حفاظت نہیں ہو رہی، میں نظر کی حفاظت کی بہت کوشش کرتا ہوں، لیکن پھر بھی نظر اٹھ ہی جاتی ہے۔ حضرت نے اس سے فرمایا کہ ہمت کرو، یہ ہمت سے ہوتا ہے۔ اس کو بات سمجھ نہ آئی۔ اس نے کہا کہ نہیں جی، مجھ سے نظر کی حفاظت ہو ہی نہیں رہی۔ میں کوشش کر رہا ہوں، لیکن نہیں ہو رہی۔ حضرت نے فرمایا کہ فرض کرو، جس کو آپ دیکھنا چاہتے ہیں یا جس کی طرف آپ دیکھ رہے ہیں، اگر اس کے والد آپ دونوں کو دیکھ رہے ہوں یا تیرے والد آپ کو دیکھ رہے ہوں، تو پھر بھی اس کی طرف نظر کرسکو گے؟ اس نے کہا کہ پھر تو میں نہیں دیکھ سکوں گا۔ فرمایا کہ یہی تو بات ہے کہ والدین کا تمہیں خیال ہے، لیکن خدا کا خیال نہیں۔ خدا تو تمہیں ہر وقت دیکھ رہا ہے، پھر کیسے تم بد نظری کرتے ہو۔ ظاہر ہے کہ اس بات کو ذہن میں نہیں لاتے، لہٰذا اس بات کو ذہن میں لانا چاہئے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت دیکھ رہے ہیں، اور بد نظری کی وعیدوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ ایک مراقبہ کر لیں کہ ایک طرف خدا ہے اور دوسری طرف یہ ہے، اگر میں اس کی طرف دیکھوں، تو خدا ناراض ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں کیا کروں؟ پس پتا چل جائے گا۔ پس ان لوگوں کا عذر لنگ ہے جو کہتے ہیں کہ ہم سے یہ کام ہو نہیں رہا۔ اگر بالکل نہیں ہو رہا، تو پھر وہی کام کریں، جو میں بتایا کرتا ہوں کہ آپ 5 منٹ کے لیے کمرے کے اندر سوچیں کہ میں نے اوپر نہیں دیکھنا، اور پھر پانچ منٹ کے لیے اوپر نہ دیکھیں۔ پھر اگلے دن 6 منٹ کے لیے نہ دیکھیں، پھر اگلے دن 7 منٹ کے لیے نہ دیکھیں، 15 دن تک ایک ایک منٹ کا اضافہ کر کے یہ مراقبہ کر لیں۔ اس طرح آپ اس کو 20 منٹ تک پہنچا دیں۔ پھر اس کے بعد مجلس میں آئیں، مجلس میں 5 منٹ نیچے دیکھیں، اوپر نہ دیکھیں۔ بات کریں، لیکن اوپر نہ دیکھیں۔ پھر اگلے دن چھ 6 منٹ، پھر اگلے دن 7 منٹ، اس طرح 15 دن میں آپ اس کو بھی 20 منٹ تک پہنچائیں۔ یہ ایک مہینے کا کورس ہے۔ پس اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے کہ مجھ سے ہو نہیں رہا۔ ڈاکٹر نے اگر کسی کو دوائی دے، ٹی بی ہو اور وہ آدمی رونا شروع کر لے کہ مجھ سے تو یہ دوائی نہیں کھائی جا رہی، تو ڈاکٹر یہی کہے گا کہ جاؤ، مر جاؤ۔ جب تمہیں اپنا علاج نہیں کرنا، بلکہ مرنا ہے، تو مر جاؤ۔ اگر مرنے کے لئے تیار ہو، تو مر جاؤ۔ یہاں پر مرنے کی بات ہے۔ لیکن ادھر مرنے کی بات نہیں، بلکہ جہنم میں جانے کی بات ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ مجھ سے نظر کی حفاظت نہیں ہوتی۔ کیوں نہیں ہوتی؟ صرف بے فکری کی بات ہے، اور کچھ بھی نہیں ہے۔

سوال نمبر 2:

اگر کوئی شخص اپنے شیخ سے اپنی اصلاح کے بارے میں کوئی سوال پوچھے اور شیخ فرمائے کہ جواب دے دوں گا۔ پھر کچھ دن تک جواب نہ دے سکیں، تو کیا سوال دوبارہ کرنا چاہیے یا یہ ادب کے خلاف ہے؟

جواب:

ایسی صورت میں سوال دوبارہ کر سکتے ہیں۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ میں نے اُس وقت یہ سوال کیا تھا۔ عام سوالوں کے انداز میں کر لے۔ اس طرح نہیں کہ راستے میں کھڑے کر کے ان کو کہہ دے کہ آپ جواب دیں۔ بلکہ جیسے دوسرے سوال آپ کرتے ہیں، اسی طرح یہ سوال بھی کر لیں کہ میں نے اس سوال کا جواب مانگا تھا، آپ نے فرمایا تھا کہ جواب دے دوں گا، اب آپ کا اس کے بارے میں کیا حکم ہے۔

سوال نمبر 3:

اگر کسی کو کوئی کہہ دے کہ فلاں بندہ آپ کی برائی کر رہا تھا اور ایسی بات کہہ رہا تھا، تو اگر پوری بات سن کر یہ کہہ دے کہ وہ تو صرف اتنی بات کہہ رہا تھا، میں تو اس سے بھی زیادہ برا ہوں، تو یہ جواب کیسا ہے؟

جواب:

اس کو discourage کرنے کے لیے بہت اچھا جواب ہے۔ اور واقعتاً اپنے آپ کو برا سمجھنا بھی چاہئے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے خاندان میں ان کے بڑے مخالفین تھے، ان کے خاندان میں سے ایک صاحب حضرت گنگوہی رحمہ اللّٰہ علیہ کے پاس آئے کہ ہم ان کو روکتے ہیں کہ آپ اپنے رشتہ داروں میں نہ جائیں، وہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے، لیکن یہ نہیں مانتے، چلے جاتے ہیں۔ حضرت مسکرا رہے تھے۔ دوبارہ بھی انہوں نے وہی بات کی کہ حضرت! وہ بالکل نہیں مانتے، آپ کچھ کریں۔ پھر بھی حضرت مسکرا رہے تھے۔ تین چار دفعہ انہوں نے یہ بات کہی۔ پھر جب انہوں نے ذرا زیادہ زور سے کہا کہ حضرت! میں آپ سے بار بار کہہ رہا ہوں، آپ اس کے لیے کچھ نہیں کر رہے۔ حضرت نے فرمایا: آپ تھوڑا سا سنبھل جائیں، آپ مولوی قاسم کے بارے میں کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ حضرت نے فرمایا کہ آپ کو پتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں سب سے زیادہ برا میں ہوں، مجھ سے زیادہ کوئی برا نہیں ہے۔ ایسے آدمی کو آپ کیا سمجھا سکتے ہیں۔ وہ تو اپنے آپ کو سب سے برا سمجھتا ہے۔ گویا ایسا بھی حال ہوتا ہے اور یہ بہت اچھا حال ہے۔ اگر کوئی شخص واقعی اپنے بارے میں سمجھ رہا ہے کہ میں اصل میں اس سے بھی زیادہ برا ہوں، تو یہ بہت اچھا ہے۔ اصل میں یہ نظر نظر کی بات ہے، کسی کو اپنی برائی نظر آتی ہے اور کسی کو نظر نہیں آتی۔ بہت سارے ایسے لوگ ہوتے ہیں، جو گناہوں میں لت پت ہوتے ہیں، اگر ان کو کوئی تکلیف آتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ پتا نہیں اللّٰہ نے کون سے گناہ میں پکڑ لیا۔ اور بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اللّٰہ والے ہوتے ہیں، وہ تھر تھر کانپ رہے ہوتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے اوپر پتھر کیوں نہیں برسے۔ بس نظر نظر کی اور سمجھ سمجھ کی بات ہے۔ جس کو سمجھ ہوتی ہے، وہ تو ایسا سوچتا ہے اور جس کو سمجھ نہیں ہوتی، وہ دوسری طرح سوچتا ہے۔ پس اگر اس طریقے سے کوئی اپنے بارے میں سوچ رہا ہو، تو یہ اچھی بات ہے۔

سوال نمبر 4:

مراقبہ کی محتضر تعریف کر دیجئے۔

جواب:

مراقبہ کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جیسے بلی چوہے کو پکڑنے کے لیے تاک میں بیٹھی ہوتی ہے اور اس کے تمام حواس اس وقت alert ہوتے ہیں، اس کی آنکھیں بھی، کان بھی، اعصاب بھی اور ذہن بھی کہ جیسے چوہا میرے سامنے آئے گا اور میری range میں آئے گا، میں تو اس کو دبک کر پکڑ لوں گی۔ انسان کے اندر ایسی حالت ہو، تو اس کو مراقبہ کہتے ہیں۔ مراقبہ کا لفظ تصوف میں اس لیے شروع ہوا کہ اس میں بھی انسان کسی روحانی وارد کے انتظار میں ہوتا ہے اور alert ہوتا ہے کہ جس وقت وہ مجھے ملے، مجھ سے lose نہ ہو۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ اس شعر میں اس کا جواب ہے۔

یک چشم زدن غافل ازاں شاہ نہ باشی

شاید کہ نگاہ کند آگاہ نہ باشی

یعنی کسی بھی حالت میں آپ غافل نہ ہوں، ممکن ہے کہ اللّٰہ آپ کی طرف اس وقت نظرِ رحمت کرنا چاہتا ہو اور آپ کو پتا بھی نہ ہو۔ پس جب آپ اللّٰہ کی طرف متوجہ ہوں گے، تو پھر آپ کو اپنا مقصود مل جائے گا، اس چیز کی practice کا نام مراقبہ ہے۔ یعنی اس میں آپ alert ہوتے ہیں کہ ایسا ہو کہ کوئی چیز اللہ کی طرف سے آ رہی ہو، تو میں اس کو miss نہ کروں۔ ابتدا میں ہم لوگ سکھانے کے لیے کہتے ہیں کہ آپ آنکھیں اور زبان بند کر کے قبلہ رخ بیٹھ کر تصور کریں کہ میرا دل ’’اَللہ اَللہ‘‘ کر رہا ہے۔ جس کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ہوتا، وہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اس کو سمجھانا ناممکن ہے۔ اس کو شروع میں اتنی تقلید تو کرنی پڑے گی کہ جیسے کہا جائے، بس اس طرح کرے۔ جب وہ اس طرح کرنا شروع کر دے گا، تو اللّٰہ پاک کا نظام activate ہوجائے گا، مگر وہ کس وقت activate ہوتا ہے، یہ اللّٰہ کو پتا ہے۔ کسی کے لئے سال میں ہوجاتا ہے، کسی کے لئے دو سال میں، کسی کے لئے 10 سال میں، کسی کے لئے ایک دن میں اور کسی کے لئے فوراً ہوجاتا ہے۔ یہ ہر ایک کے ساتھ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنا اپنا معاملہ ہے، لیکن جب بھی ہوگا، اس طرح ہی ہوگا۔ ہمارا کام اس کے لیے alert ہو کر بیٹھنا اور اس کے لیے سوچنا ہے، پھر جب اللّٰہ پاک اس کے بارے میں کرم فرمائیں گے، تو یہ چیز حاصل ہوجائے گی۔ اور جب حاصل ہوتی ہے، تو انسان کو پتا چل جاتا ہے۔ پھر وہ بڑھتے بڑھتے پتا نہیں کہاں تک پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ اتنے سریعُ الاثر ہوتے ہیں، جن میں خواتین زیادہ ہیں، کہ ان کو ایک لطیفہ کا ذکر بتا دیا جائے، تو ساتھ ہی ان کا اگلا لطیفہ شروع ہوجاتا ہے اور اس کو بتایا بھی نہیں ہوتا، وہ خود بخود شروع ہوجاتا ہے۔ وہ خود جگہ بتاتے ہیں کہ یہ تو فلاں جگہ بھی ہورہا ہے، پھر ان کو بتاتے ہیں کہ ہاں! یہ فلاں مسئلہ ہے۔ اس بارے میں اللّٰہ پاک کا اپنا نظام ہے۔ پہلے میں خواتین کو نقشبندی لطائف بنوری طریقہ سے تعلیم کرتا تھا، اس میں لطیفۂ قلب، روح اور سر؛ یہ تو سینے میں ہیں، خفی ماتھے پر ہے، اخفٰی ادھر ہے اور نفس زیرِ ناف ہے۔ میں پہلے خواتین کو اس طریقے سے تلقین کرتا تھا۔ ان دنوں جو خواتین میرے ساتھ وابستہ تھیں، ان میں سے بعض کا سر لطیفہ اخفیٰ پر ہلنے لگ جاتا تھا، کیونکہ سر میں جو ہوتا، تو سر بھی ان کے ساتھ vibrate کرنا شروع کرجاتا۔ خواتین کے لیے یہ چوں کہ عیب ہے، ان کے لئے مناسب نہیں تھا، تو اس وجہ سے جب میں نے اس پر سوچنا شروع کیا، تو اللّٰہ تعالیٰ نے دل میں ڈال دیا کہ معصومی طریقے سے جن میں پانچوں کے پانچوں لطیفے سینے میں ہیں، اس طریقے سے ان کو یہ لطائف بتائے جائیں۔ تو پھر میں نے اس طریقے سے بتانا شروع کر دیا۔ جب میں بنوریہ طریقے سے بتاتا تھا، تو بعض مرتبہ کوئی نئی خاتون ہوتی تھی، ظاہر ہے کہ اس کو تو پتا نہیں ہوتا تھا کہ بنوری طریقہ کیا ہوتا ہے، لیکن اس سے اگلا لطیفہ اگر میں سر کا بتا رہا ہوتا، تو ساتھ خفی کا ماتھے کا بھی شروع ہوجاتا تھا۔ پھر جب میں نے معصومی طریقہ سے بتانا شروع کیا، تو کسی کو میں نے سر کا لطیفہ بتایا، تو لطیفۂ خفی اس کے سینے پہ شروع ہوجاتا۔ اب بتائیں کہ اس کو آپ کیسے ثابت کریں گے؟ کیوں کہ پتا تو دونوں کو نہیں ہوتا تھا۔ اس سے پتا چلا کہ اصل لطیفے شیخ سے ہی ہوتے ہیں۔ جو لطیفے چل رہے ہوتے ہیں، تو اس کے حساب سے وہ ہو رہا ہوتا ہے، کیونکہ ظاہر ہے کہ شیخ کے لطیفے تو اس خاتون کو معلوم نہیں ہوتے تھے، لیکن اس کا اثر ہورہا تھا، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ بیٹھی ہو۔ یہاں سے پتا چلتا ہے کہ link کیا چیز ہے۔ فرماتے ہیں کہ لطائف میں انسان کے Sensing points تو body میں ہیں، لیکن اصل میں جسم میں نہیں ہیں، بلکہ ملأ اعلیٰ میں ہیں۔ بہرحال! مراقبات مختلف ہوتے ہیں، لطائف کے مراقبات ابتدائی ہیں، اصل مراقبات بعد میں شروع ہوتے ہیں۔ اور final مراقبہ کیفیت احسان والا ہے۔ حدیث میں ہے:

’’أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘۔ (صحیح مسلم: 97)

ترجمہ: ’’(احسان یہ ہے کہ) تو اللہ کی عبادت کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے، پس اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا، تو وہ تو تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔

یعنی تو اس طرح عبادت کر کہ جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو ایسا نہیں کر پا رہا، تو خدا تو تجھے دیکھ رہا ہے۔ پس Step by step اس تک پہنچنا ہے۔ اس کے علاوہ باقی جو مراقبات بتائے جا رہے ہیں، یہ اصل میں اس تک پہنچانے کے لیے ہیں۔ ابتدا میں لسانی ذکر ہے، پھر اس کے بعد قلبی ذکر ہے، پھر آہستہ آہستہ بڑھتا ہے حتی کہ کیفیتِ احسان تک بات پہنچ جاتی ہے۔ پس یہ مراقبہ کی وضاحت ہے۔ website پر ایمان کی حدیث ہے، اگر اس کو آپ explain کریں، تو اس میں ہے کہ ’’مَا الْإِيْمَانُ‘‘ یعنی ایمان کیا ہے؟ یہ سوال تھا۔ اس کے جواب میں ایمان کے شعبے بتائے گئے کہ ایمان یہ ہے: اللّٰہ پر ایمان لانا، رسولوں پر ایمان لانا، فرشتوں پر ایمان لانا، الی آخرہٖ۔ جس کو ہم ایمانِ مفصل اور ایمانِ مجمل کہتے ہیں۔ یہی ہمارے عقائد ہیں۔ اب جو ہمارے عقائد بتائے گئے ہیں، ان عقائد میں گناہ گار اور نبی برابر ہوتے ہیں، یعنی عقیدوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ نہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا عقیدہ کوئی اور عقیدہ تھا اور ہمارا کوئی اور ہے۔ عقیدے کے احکام میں گناہ گار آدمی بھی ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی طرح عقیدہ رکھنے کا مکلف ہے، ہاں عمل میں یا عمل کی قوت میں کمزوری آسکتی ہے۔ مثلاً نماز کی قوت میں ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ کی نماز الگ ہوگی اور ہماری نماز الگ ہوگی، لیکن عقیدے میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ہمارے سارے عقائد صحابہ کی طرح ہونے چاہئیں۔ اس لیے اللّٰہ پاک نے فرمایا:

﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِیْ شِقَاقٍ فَسَیَکْفِیْکَمُ اللہُ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (البقرہ: 137)

ترجمہ: ’’اس کے بعد اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جیسے تم ایمان لائے ہو تو یہ راہ راست پر آجائیں گے اور اگر یہ منہ موڑ لیں تو در حقیقت وہ دشمنی میں پڑ گئے ہیں۔ اب اللہ تمہاری حمایت میں عنقریب ان سے نمٹ لے گا اور وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے‘‘۔

سوال نمبر 5:

نفس کی بیماریاں بہت لطیف ہوتی ہیں، جیسے تکبر، ریا وغیرہ۔ سالک کی خود نظر نہیں ہوتی، تو کیا شیخ مرید میں تکبر ریا وغیرہ دیکھ کر بتاسکتا ہے؟ اور اگر نہ بتائے کہ کیا اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس میں یہ بیماری نہیں ہے؟

جواب:

نہیں، ایسا نہیں ہوتا۔ یہ چیزوں میں کشف میں تو معلوم ہوسکتی ہیں، لیکن ضروری نہیں کہ ہر ایک کو کشف ہوتا ہو۔ بعض عام لوگوں کو بھی کشف ہوسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ شیخ کو کشف ہو۔ لیکن اگر شیخ کو کشف نہ ہوتا ہو، تو مرید سے جو اعمال سرزد ہوتے ہیں، ان سے شیخ کو پتا چل جاتا ہے کہ اس میں تکبر ہے یا ریا ہے یا پھر اخلاص ہے۔ اعمال سے اندازہ ہوجاتا ہے۔ مثلاً: ایک شخص نماز بڑے شوق سے پڑھ رہا ہے، اس کا دل نماز پڑھنے کو چاہتا ہے، لمبے لمبے سجدے کر رہا ہے، تو آپ بھی سمجھتے ہیں کہ ما شاء اللّٰہ! بڑے خلوص کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے، لیکن اگر اس پہ قبض کی کیفیت آگئی اور اس کی وہ صلاحیت سلب ہوگئی، جس کی وجہ سے اب اس کا دل نماز پڑھنے کو نہیں چاہتا، تو اگر وہ نماز پڑھنا چھوڑ دے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نماز میں اس کو اخلاص حاصل نہیں تھا، کیوں کہ وہ مزے کے لیے پڑھ رہا تھا، جب مزا ختم ہوگیا، تو نماز بھی ختم ہوگئی۔ اور جو شخص اس حالت میں بھی نماز پڑھے گا، تو وہ مخلص ہوگا۔ پس پہلی حالت میں وہ کیسا تھا اور دوسری حالت میں کیسا ہے، اس سے اس کے اخلاص کا پتا چل گیا۔ اس لیے مشائخ کو ان چیزوں سے مثلاً: خط سے جو مرید لکھ لیتے ہیں یا Email کر دیتے ہیں، تو ان سے ان کو اندازہ ہوجاتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا یہ طریقہ تھا، ان کو خط سے معلوم ہوجاتا تھا کہ کس مرید میں کیا مسئلہ ہے، اس وجہ سے ایک قسم کا خط ہوتا، ایک کو مبارک باد دیتے اور دوسرے کو خوب ڈانٹ دیتے، حالانکہ الفاظ ایک قسم کے ہوتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو اس کی بصیرت دی تھی کہ خط سے اندازہ ہوجاتا تھا۔ سیاق و سباق کچھ ایسا ہوتا تھا کہ حضرت سمجھ جاتے کہ اصل مسئلہ کیا ہے۔ میں آپ کو ایک خط سنا دیتا ہوں، ایک شخص کا بیٹا فوت ہوگیا، تو وہ اپنی روئیداد حضرت کو بتا رہا تھا کہ حضرت! میرا بیٹا فوت ہوگیا اور یہ ہوگیا اور وہ ہوگیا۔ مجھ سے اپنی بہو کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ حضرت نے جواب میں لکھا کہ تم فوراً توبہ کرو، تمہارے دل میں چور ہے۔ فوراً اندازہ لگالیا۔ پس یہ بصیرت ہوتی ہے، جس سے ان چیزوں کا پتا چل جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی اپنی چیزیں ٹھیک کروانا چاہے، تو اپنے شیخ سے رابطہ بڑھائے، ان کو جلد سے جلد اپنے احوال لکھا کریں۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنے احوال بتانے سے اس لیے رکے رہتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ بس ہمیں پتا ہے کہ یہ بیماری ہے اور یہ گناہ ہے، لہٰذا مجھے اس سے رکنا چاہئے، اس کا شیخ کو بتانا کیا ضروری ہے۔ بھائی! تمہیں صرف اس کا پتا ہے کہ یہ بیماری ہے، یہ نہیں پتا کہ یہ بیماری کس وجہ سے ہے۔ اگر یہ تمہیں پتا ہوتا، تو ٹھیک نہ کرلیتے۔ پس تم شیخ کو اپنے احوال لکھو گے، تو اس کی نظر اس کے root میں جائے گی، صرف اس چیز پہ ان کی نظر نہیں ہوگی۔ صرف اس چیز پر تو عام آدمی کی بھی نظر جا رہی ہے۔ لہٰذا تم اپنی بیماریاں بتا دو، شیخ کی نظر اس کے root پر جائے گی کہ اس کو یہ مسئلہ کس وجہ سے ہے، تو شیخ اس کی جڑ کاٹ کر کے اس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر لے گا۔ لہٰذا یہ ایک بہت بڑی حماقت ہے کہ لوگ اس وجہ سے اپنے شیخ کو اپنی بیماری نہ بتائیں کہ یہ تو ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہ گناہ ہے، لہٰذا اس سے ہمیں رکنا چاہئے، اس میں شیخ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے، شیخ بھی کوئی مختلف چیز تو نہیں بتائے گا، وہ بھی یہی کہے گا کہ ٹھیک ہے، تم اس طرح کر لو۔ بھائی! وہ بتا بھی دے گا، اس کی الگ treatment ہے، لیکن جو Root cause ہے، اس پہ تو آپ کی نظر نہیں گئی۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ ایسے لوگوں کو اپنے احوال جلدی جلدی اپنے شیخ کو بتانے چاہئیں، تاکہ وہ جلدی جلدی صحیح point تک پہنچ جائیں، کیونکہ By process of elimination تو Medical line میں آج کل کا طریقہ ہے۔ مختلف طریقوں سے انسان check کرتا ہے کہ اگر یہ یہ ہے، تو پھر یہ ہوسکتا ہے اور یہ ہوسکتا ہے اور یہ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا ان میں سے ایک parameter change کرو، تو پھر دیکھو کہ اب کیا ہے۔ کیا خیال ہے کہ آپ One by one جا کے اپنے پیچھے result تک پہنچ سکتے ہیں؟ اس طرح تین چار steps میں بات اصل بات تک پہنچتی ہے اور ڈاکٹر ادھر تک پہنچ جاتا ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب مجھے اپنا واقعہ بتا رہے تھے کہ ایک عورت تھی، اس کے Lose motion رک نہیں رہے تھے، کئی قسم کی دوائیاں ان کو کھلائیں اور سب کچھ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت میں Medical student تھا، میرا اس وقت viva ہو رہا تھا، تو viva میں مجھے وہ کیس دے دیا گیا۔ viva میں case دے دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے جا کر اس کی history دیکھی کہ یہ دوائی بھی کھائی ہے، یہ دوائی بھی کھائی ہے اور یہ دوائی بھی کھائی ہے۔ اس سے بھی کچھ نہیں ہوا، اس سے بھی کچھ نہیں ہوا اور اس سے بھی کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس کی history پڑھ رہا تھا، اتنے میں ہمارے examiner آ گئے، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ کی کیا finding ہے؟ اگر آپ نے ٹھیک جواب دے دیا، تو آپ کے پورے نمبر ہوں گے اور اگر غلطی کی، تو یہ تو بڑا Tough viva ہے، لہٰذا آپ اس پہ غور کر لیں اور مجھے صحیح finding بتائیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے پورا غور کیا کہ antibiotics سے بھی ٹھیک نہیں ہوا، antibiotics سے بھی ٹھیک نہیں ہوا اس anti سے بھی ٹھیک نہیں ہوا اور اس سے بھی ٹھیک نہیں ہوا اور فلاں سے بھی ٹھیک نہیں ہوا۔ میں نے سوچا کہ ضرور کوئی مسئلہ ہے۔ پس میں نے کہا کہ Sir! parasitic cause ہے۔ انہوں نے کہا کہ بس پھر ایگزیمنر نے پورے نمبر دے دیئے۔ اور وہ جنرل تھے، انہوں نے پھر وہاں کے ڈاکٹر کو بڑا ڈانٹا کہ ایک student نے صحیح diagnose کی اور تم لوگوں سے کیوں نہیں ہوئی۔ تم دوائیوں پر دوائیاں دے رہے تھے اور یہ سوچ نہیں رہے تھے کہ یہ دوائیاں کام نہیں کر رہیں، تو اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ آپ کی نظر اس وقت تک اس وجہ تک کیوں نہیں گئی؟ بعد میں انہوں نے ان ڈاکٹرز کی خوب خبر لی۔ پس یہ بات ہوتی ہے کہ Cause of elimination کہ آپ جو ایک ایک کر کے معلوم کرتے ہیں کہ یہ بھی نہیں ہے، یہ بھی نہیں ہے اور یہ بھی نہیں ہے۔ اسی طریقے سے شیخ بھی کرتا ہے۔ وہ بھی آپ کے احوال سے ہی اندازہ لگاتا ہے، اس کو کوئی علمِ غیب نہیں ہوتا۔ لوگوں نے سمجھا کہ شاید شیخ کو علمِ غیب ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب سے کسی نے کہا کہ حضرت! اگر آپ دیکھیں کہ ہم میں کوئی بیماری ہے، تو آپ بتا دیں۔ حضرت نے فرمایا کہ میں آپ کے اوپر کوئی داروغہ مقرر نہیں ہوں کہ میں آپ کو یہ بتاتا رہوں اور میرا کوئی دوسرا کام نہیں ہوگا۔ میں دریافت کروں گا کہ تمہارے اندر کون کون سی بیماری ہے، تم اپنے احوال لکھا کرو، ان سے مجھے پتا چلتا جائے گا۔ میں تمہارے پیچھے پیچھے جاؤں گا؟ حضرت کا مزاج تو ایسا تھا، حضرت نے اس کی پوری خبر لی۔ اور صحیح بات بھی یہی ہے۔ دو نمبر پیروں نے لوگوں کو سر پہ چڑھایا ہوا ہے، وہ کہتے ہیں کہ بس ٹھیک ہے، نظر رکھیں۔ ’’نظر رکھیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ آپ کی ساری چیزیں خود بخود ٹھیک ہوجائیں گی، آپ نمازیں بھی پیر کی توجہ سے پڑھیں گے اور روزے بھی پیر کی توجہ سے رکھیں گے اور جنت بھی پیر کی توجہ سے جائیں گے۔ بس آپ کو کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ یہ خواہ مخواہ ڈھکوسلے ہیں، ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ یہ بالکل ایک Natural process ہے، ہمارے دین کو اللّٰہ نے بڑا transparent بنایا ہے، اس وجہ سے اس کی ہر چیز transparent ہے، ورنہ حدیث شریف دیکھ لیں۔ خواب میں اگر کوئی آپ ﷺ کی زیارت کر لے، تو وہ صحابی نہیں بنتا اور نہ اس خواب کی بات حدیث بنتی ہے، کیونکہ خواب transparent نہیں ہے۔ لیکن حدیث کے راویوں کا جو تسلسل ہے، اس سے حدیث بھی بنتی ہے، اس سے فقہ بھی بنتا ہے اور سب کچھ بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ transparency چاہئے۔ ایک دفعہ مودودی صاحب کی بات حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو پہنچی کہ مودودی صاحب نے کہا ہے کہ حدیث پر نظر کرتے کرتے ایک آدمی کا ایسا مقام ہوجاتا ہے کہ پھر باوجود اس کے کہ ایک حدیث روایت کے لحاظ سے بالکل صحیح کیوں نہ ہو، لیکن وہ کہتا ہے کہ نہیں، یہ میرے آقا کی بات نہیں ہوسکتی، اس کا شرح صدر ہوتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اس میں مودوی صاحب کو غلطی لگی ہے، اللّٰہ نے اس کو transparent بنایا ہے۔ اگر اس transparency کو ختم کر دیں، تو دین کی ساری بنیاد ختم ہوجائے گی، پھر غلام احمد قادیانی کو ہم حدیث ’’اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ کے بارے میں کیسے سمجھائیں گے؟ وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے تمہاری رائے مضبوط ہے، لیکن میرا شرح صدر ہے کہ یہ نبی کریم ﷺ کا کلام نہیں ہوسکتا، تو پھر آپ اس کو کیسے روکیں گے؟ پس ہمارا دین بہت مضبوط بنیادوں پہ قائم ہے، یہ کوئی گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں۔ مفتی جب فتوی دیتا ہے، تو اسے حوالہ دینا پڑتا ہے، reference دینا پڑتا ہے کہ میں فلاں جگہ سے کہہ رہا ہوں۔ جیسے سپریم کورٹ میں باقاعدہ وکیل کو reference دینا پڑتا ہے، جج کو بھی فیصلہ لکھنے میں reference دینا پڑتا ہے، اس طریقے سے ہر مفتی کو بھی حوالہ دینا پڑتا ہے۔ حوالے کے بغیر نہیں ہوتا۔ قانون بھی کہتا ہے کہ شفاف ہونا چاہئے، وہاں پر بھی requirement شفافیت کی ہے، اسی طرح یہاں پر بھی requirement شفافیت کی ہے، تاکہ کسی کے لئے انکار کا موقع نہ رہے، حتی کہ اللّٰہ جل شانہ نے اتنا شفاف نظام بنایا ہوا ہے کہ اللّٰہ پاک کو سارا کچھ معلوم ہے، لیکن پھر بھی کراما کاتبین کا الگ نظام بنایا ہوا ہے، ورنہ اللّٰہ پاک کو اس کی کیا ضرورت تھی؟ یہاں تک کہ اگر کوئی پھر بھی انکار کر دے، تو اس کی زبان پر مہر لگا دی جائے گی، اس کے کان بولیں گے، اس کی آنکھ بولے گی، ہر ایک اپنی کارگزاری بیان کرے گا۔ یہ حجت تمام کرنے کے لیے ہے کہ تم پر ویسے charges نہیں لگائے گئے، تمہارے اعضاء اس کی گواہی دے رہے ہیں۔ پس اللّٰہ پاک نے بھی اتنا نظام بنایا ہوا ہے، حالانکہ اللّٰہ پاک تو قادر مطلق ہے، وہ جو چاہے کرے، ان کے سامنے کوئی کچھ بھی کرسکتا ہے۔ پس یہ ساری چیزیں transparent ہیں، کسی سے یہ توقع نہیں کرنی چاہئے کہ خود بخود سارا کچھ ہوجائے گا، خود بخود کچھ نہیں ہوگا، آپ کو effort کرنا پڑے گا۔ یہ گپ شپ نہیں ہے۔

سوال نمبر 6:

Question: Doctors often get free samples of medicine and foreign trips from pharmaceutical or healthcare companies offering cash commissions for prescribing a particular brand drug, offering money for drug trial samples and promotional material and expenses for travel stay and even local site seeing or paid directly to the tour operator by the pharmaceutical company or travel tickets and recommendations are booked by the company in the name of the concerned doctor. The expenses of not only the doctor but also of their spouse and family by the pharmaceutical company. Is it right to use all of these?

جواب:

میرے خیال میں اگر دین پر نظر ہو، تو جواب بالکل صاف ہے۔ Pharmaceutical company کس کام کے عوض ان کو یہ چیزیں دیتی ہیں؟ وجہ یہ ہے کہ وہ ان سے یہ توقع کرتی ہیں کہ ان کے drugs وہ prescribe کریں۔ پس ان کے drugs prescribe کرنے میں اگر ڈاکٹر اس وجہ سے biased ہوجائے اور best کو چھوڑ کر Normal level پہ آجائے اور best declared کرنا شروع کر دے، تو یہ کیا ہوگا؟ technically اس کی کمزوریاں کھلی ہیں، اس کے Side effects ہیں، لیکن ڈاکٹر اس وجہ سے اس کو ignore کرے اور صرف اپنے ذاتی مفادات کو دیکھے، تو اس کا جواب تو واضح ہے۔ لیکن اگر سارے لوگ ایسے کر رہے ہوں اور ڈاکٹر اس کی وجہ سے biased نہ ہو، وہ اپنا opinion صحیح دے، جو سچ ہو، وہی بتائے prescribe کرنے میں، یعنی جو مریض کی لیے صحیح ہے، وہ کرے، تو پھر اس کی گنجائش نکل سکتی ہے، لیکن احتیاط کرنی چاہئے، یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر وہ صرف اس کو promotion کے طور پہ کہے کہ ہم تو صرف promote کر رہے ہیں، آپ کے سامنے لا رہے ہیں، باقی ہم آپ کو ویسے دے رہے ہیں، تو پھر اس کو اگر کوئی استعمال کر لے اور اس سے کوئی biased نہ ہو، وہ اپنا جو صحیح فیصلہ ہے، وہ change نہ کرے اور پھر بعد میں وہ لوگ ان کو نہیں دیں گے، تو خود ہی balance ہوجائے گا، تو پھر کوئی بات نہیں، لیکن ایسی صورت میں بھی احتیاط ہی اختیار کرے۔ لیکن بہرحال اس صورت میں اس کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ جائز نہیں۔ اصل میں دیکھیں! ایک آدمی کے ہاتھ میں کوئی post ہے، تو دوسرے لوگ جو ضرورت مند ہوتے ہیں، آج کل لوگوں میں کافی awareness ہے۔ ایسا آدمی اگر کسی جگہ جائے گا، تو وہ لوگ ادھر آئیں گے، اس کو شاید اپنے رشتہ داروں کا اتنا پتا نہ ہو، جتنا ان کو پتا ہوگا، اس کو اپنی ضرورتوں کا اتنا پتا نہ ہو، جتنا ان کو پتا ہوگا۔ اس کے گھر میں سوٹ بھی بھیجیں گے اور پتا نہیں کہ کیا کیا بھیجیں گے۔ ان کو بھی، ان کے دوستوں کو بھی اور ان کے رشتہ داروں کو بھی ہدایا بھیجیں گے۔ اس معاملے میں بیویاں بہت زیادہ استعمال ہوتی ہیں، ان کے گھر کی ساری چیزیں وہ اپنے گھر کی خواتین کے ذریعے سے معلوم کر کے ان کو ہدیہ میں بھیجتے رہتے ہیں، جس سے ان کے گھر کی خواتین oblige (پابند) ہوجاتی ہیں، پھر وہ اپنے خاوندوں کو کسی طریقے سے سمجھا دیتی ہیں۔ اور ان کے سامنے بہت اچھے اچھے لوگ جو رشوت بالکل نہیں لیتے، وہ 50 لاکھ کا انکار کر دیں گے اور ان کا کام 2 لاکھ میں ہوجائے گا۔ پس اس طریقے سے یہ چیزیں چلتی ہیں۔ پس اگر کوئی بہت ہوشیار ہوگا، تو وہ اس میں استعمال نہیں ہوگا۔

سوال نمبر 7:

اگر ایک انسان نظروں کا صحیح استعمال نہ کرتا ہو تو مراقبہ پر اس کا منفی اثر پڑے گا؟

جواب:

اصل میں انسان کا دل اور اس کی آنکھ، کان اور زبان کی جو interaction ہے، یہ bilateral ہے، یعنی اگر دل اچھا ہوگا، تو کان، آنکھ اور زبان بھی صحیح استعمال ہوں گے اور اگر یہ اعضاء صحیح استعمال ہوں گے، تو دل اچھا ہوتا جائے گا۔ یہ bilateral ہے۔ اس طریقے سے یہ بھی bilateral ہے کہ اگر ایک انسان احتیاط کرنا شروع کر دے اور ایسی چیزوں کو نہ دیکھے، جس سے اس کو مراقبہ میں تشویش ہوتی ہو، یعنی اپنی نظروں کی حفاظت کر لے، کان کی حفاظت کر لے، زبان کی حفاظت کر لے، تو پھر مراقبے میں اس کو تشویش نہیں ہوگی۔ جیسے جیسے یہ چیزیں آہستہ آہستہ کم ہوتی جائیں گی، تو ان پرہیزوں کے ساتھ مراقبہ بھی بہتر ہوجائے گا۔ اور جب مراقبہ بہتر ہوگا، تو یہ چیزیں بھی بہتر ہوتی جائیں گی، گویا کہ اس loop میں انسان کو آنا چاہئے، پھر وہ آہستہ آہستہ narrow ہوتا جائے گا۔ اور یہ Helical spring کی طرح narrow ہوتا ہے۔ اس circle کا radius کم ہوتا جائے گا، حتیٰ کہ کم ہوتے ہوتے Progress point پہ آ جائے گا اور یہی مراقبہ کا مقصد ہے This is a long process for some people but it has to be۔ پس آپ اس کو صرف اعصابی ہونے پہ نہیں چھوڑ سکتے۔

سوال نمبر 8:

السلام علیکم! حضرت مجھے ایسا لگتا ہے کہ شیطان میرے ساتھ ہو کر مجھے گناہ کرنے پر ابھارتا ہے۔ ایسی حالت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟

جواب:

ممکن ہے کہ یہ آپ کا تصور ہو، لیکن حدیث شریف میں جس طرح آتا ہے، وہ یہ ہے کہ شیطان مچھر کی طرح دل پر سونڈ پھیلا کر اس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہے، پس اگر بندہ غافل ہو، تو وہ دل میں سونڈ گھسیڑ دیتا ہے اور وساوس اس کے اندر inject کر دیتا ہے۔ اور اگر بندہ غافل نہ ہو، تو پھر پیچھے ہوجاتا ہے۔ پس یہ سلسلہ چل رہا ہوتا ہے۔

اصل میں دو channels ہیں اور دونوں ادھر ہی ہیں، ایک رحمانی channel ہے اور ایک شیطانی channel ہے۔ رحمانی channel سے الہام ہوتا رہتا ہے اور شیطانی channel سے وسوسہ آتا ہے۔ خیر کی بات بھی مسلسل آرہی ہوتی ہے، جب تک کہ اس کو negate نہ کیا جائے اور وساوس بھی مسلسل آ رہے ہوتے ہیں جب تک کہ ان سے بے پرواہی نہ برتی جائے۔ وساوس سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے کہ ان سے بے پرواہ ہو کر ان کو طاق میں ڈال دیں، ان کو زیرو سے ضرب دے دیں کہ وہ کچھ بھی نہیں ہیں۔ انسان بے پرواہی سے اس کے channel کو بند کرتا جائے گا اور اگر کوئی شخص ان کی پروا کرنا شروع کر دے، تو وہ مزید کھلتا جائے گا یہاں تک کہ اتنا کھل جائے گا کہ پھر وہ کنٹرول سے باہر ہوجائے گا۔ اور رحمانی channel سے آنے والے خیالات پر اگر کوئی شخص عمل کرنا شروع کر لے اور اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونا شروع ہوجائے، تو وہ بھی مزید کھلتا جائے گا یہاں تک کہ پورا دل منور ہوجائے گا۔ یہ دونوں channels اسی دل میں ہیں اور ہمارے response پر فیصلے ہوتے ہیں کہ ہم کس کو زیادہ response کرتے ہیں اور کس چیز کو نہیں کرتے۔ میں نے دل کے بارے میں ایک کلام میں کچھ لکھا ہے، وہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں، اس سے آپ کو دل کی اہمیت کا اندازہ ہوجائے گا۔

دل کی دنیا اگر بدل جائے

پھر آخرت کا کام چل جائے


دل ہے بادشاہ سارے اعضاء معصوم

سنتا نہ اس کی پھر سنبھل جائے


سارے پھر حکم شریعت پہ چلیں

صدر عدو پہ مونگ دل جائے


غیر محرم کو آنکھ دیکھ نہ سکے

اور شر کا بھی ٹل جائے


اور زبان سوچ سوچ کر بولے

سارا گند ذہن سے نکل جائے


نہ تیار مجاہدے کے لیے ہو

اور اس کے شر کا پر بھی جل جائے


حالت دل پہ فیصلہ ہے شبیرؔ

جو بھی میزان میں عمل جائے

تشریح:

دل اصل میں کسی چیز کو سمجھنے کے لئے main چیز ہے، نفس مشینری ہے، نفس میں سمجھ نہیں ہے، دل نفس کا driver ہے، اس کو سمجھانا پڑتا ہے۔ Machinery is controlled by driver and driver is controlled by transit.۔ یعنی اگر driver کے Concepts اور اس کے responses صحیح ہوں اور اس کا Decision power صحیح ہو، تو وہ صحیح فیصلے کرے گا۔ اس وجہ سے اس کی حقیقت تو دل پر ہے، لیکن وہ صرف driver ہے، وہ صرف گاڑی چلا سکتا ہے۔ اگر گاڑی خراب ہو، تو ڈرائیور اس کے ساتھ کیا کر لے گا۔

ایسے نفس کی اپنی افادیت اور اپنی روحانیت ہے، نفس کے اوپر الگ محنت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ اگر نفس کے اوپر محنت نہ ہو، تو driver یعنی دل اگرچہ بہت اچھا بھی ہو، پھر بھی کام ٹھیک نہیں ہوگا، اس وجہ سے نفس پر محنت کرنی پڑتی ہے، تاکہ وہ کام ہوسکے۔ یعنی یوں سمجھ لیجئے کہ driver جو instructions دے رہا ہے، مثلاً: گاڑی دائیں طرف موڑ رہا ہے، تو گاڑی کو دائیں طرف مڑ جانا چاہئے، لیکن اگر driver گاڑی کا سٹیرنگ دائیں طرف موڑے اور گاڑی بائیں طرف چلی جائے گی، تو پھر کیا ہوگا؟ جیسے میرا mouse ہے، اس کو آپ اس طرح الٹا کریں، اب میں اس کو اس طرف لے جا رہا ہوں، لیکن یہ اس طرف جا رہا ہے، اب آپ اس کو کنٹرول نہیں کرسکتے۔ ایسی صورت میں دماغ confuse ہوجاتا ہے کہ میں ادھر لے کے آیا ہوں، یہ ادھر جا رہا ہے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ نفس سسٹم کو ٹھیک کرنے کا سسٹم ہے، اور دل سسٹم کا کنٹرول سسٹم ہے، وہ حقیقتاً کنٹرول سسٹم نہیں ہے۔ پس یہ دونوں اپنے اپنے لحاظ سے ضروری ہیں۔ اور دونوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک channel ہے، ایک channel اللّٰہ کی طرف سے ہے اور ایک شیطان کی طرف سے ہے۔ شیطان نے جو کہا تھا کہ میں ان کے راستے میں بیٹھوں گا، دائیں طرف سے آؤں گا، بائیں طرف سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا اور پیچھے سے آؤں گا۔ تو وہ کہاں پر آئے گا؟ ظاہر ہے دل میں آئے گا۔ پس شیطان دل کے پاس آجاتا ہے اور دائیں، بائیں آگے اور پیچھے سے اس کو گھیر لیتا ہے اور اس کو کوئی پٹی پڑھا دیتا ہے، نتیجتاً وہ defact ہوجاتا ہے اور کچھ سے کچھ بن جاتا ہے۔ اس وجہ سے ایک تو یہ ضروری ہے کہ وہ دل کو ٹھیک کر لے کہ اس کا concept صحیح ہوجائے، کیوں کہ اس کے بعد وہ صحیح فیصلے کرتا ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ اپنے نفس کو ٹھیک کرے کہ دل اگر اس کو کوئی signal دے کہ یہ کرنا ہے، تو وہ اسے کرسکے۔ پس دل بہت اہم ہے، لیکن نفس کو چھوڑ کر نہیں، بلکہ نفس کی اصلاح کے ساتھ اہم ہے۔

سوال نمبر 9:

حضرت! جو باقی مسائل ہیں، جیسے تکبر ہے یا اس قسم کے دوسرے مسائل ہیں، تو ان کی کیا وجہ ہے؟

جواب:

یہ بڑا اچھا سوال ہے۔ اصل میں بات یہ ہے کہ وسوسہ اس میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ صرف وسوسہ بھی نہیں ہے، کیوں کہ ایک شخص کو اگر مال کے ساتھ محبت ہے، تو وہ نفس کی وجہ سے ہے، کیوں کہ دنیا کی محبت نفس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اب یہ ہے کہ نفس کو مال کا تقاضا ہے یعنی وہ زیادہ مال چاہتا ہے، تو شیطان اس میں وسوسے ڈالے گا۔ اگر وہ دودھ بیچتا ہے، تو شیطان کہے گا کہ دودھ میں پانی ڈال دو، اس سے پیسے بڑھ جائیں گے۔ اب چونکہ اس میں مال کی خواہش پہلے سے موجود ہے، اس وجہ سے وہ جال میں آجائے گا۔ وسوسہ دل میں ڈالا گیا، لیکن دل نفس کے تقاضے کی وجہ سے استعمال ہوگیا۔ یہی مطلب ہے کہ صرف وسوسہ نہیں ہوتا، اس کے پیچھے کچھ اور network اور infrastructure ہے، جب تک اس infrastructure کو آپ نہیں توڑیں گے، اس سے relevant وسوسہ بار بار آئے گا۔ بالکل اسی طرح کہ جیسے کسی کو کھانسی ہو، تو اس کی کھانسی ٹھیک نہیں ہوگی، وہ چلتی رہے گی، جب آپ اس کو کھانسی کی دوائیاں دینا شروع کریں گے، تو اس وقت رک جائے گی۔ یہ اسی طرح ہوتا رہے گا، جب تک کھانسی جس وجہ سے ہے، وہ وجہ موجود ہو۔ جب تک وہ reason پوری طرح نہیں دبے گی، اس وقت تک کھانسی ختم نہیں ہوگی۔ اس وجہ سے جب تک وہ بیماریاں اندر ہیں، جب تک وہ ختم نہیں ہوں گی، اس وقت تک کھانسی ختم نہیں ہوگی۔ آپ symptomatic چیز میں بے شک کر لیں، وقتی طور پر تو دب جائے گی، لیکن پھر شروع ہوجائے گی، جب تک آپ اس کی وجہ کو پوری طرح ختم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آپ کو ہر وقت بہت زیادہ alert ہونے کی ضرورت ہوگی کہ جیسے ہی کوئی response آئے، آپ فوراً اس کو دبا دیں، ورنہ آپ سے کچھ غلط کام ہوجائے گا۔ تربیت یا ریاضت اسی لیے ہوتی ہے کہ پیچھے جو infrastructure ہے، اس کو ختم کیا جائے۔ وسوسے والی بات تو بڑی simple ہے کہ آپ وسوسوں کو نہ مانیں۔ یہ بات تو بڑی simple ہے، لیکن ایسا کب تک ہوگا، عین ممکن ہے کہ وہ آپ کے سامنے ایسی format میں آجائے کہ آپ سوچ بھی نہ سکے اور کام ہوجائے۔ مثلاً: یہ تو میں نے آپ کو مال کی مثال دی ہے، اگر دوسری چیزوں میں جاؤں، تو اگر وہ چیزیں ہوں، تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے کتنی چیزیں input موجود ہیں، وہ input کسی وقت بھی ایسا کروا سکتے ہیں کہ آپ کو پتا بھی نہیں چل رہا ہوگا اور آپ آخری سٹیج میں پہنچ جائیں گے۔ لہٰذا جب تک پیچھے جو infrastructure ہے، وہ ختم نہیں ہوتا، اس وقت تک آپ خطرے میں ہیں۔ پس محنت اس چیز کی کرنی پڑتی ہے کہ اس بیماری کے infrastructure کو ختم کرنا ہوتا ہے۔ وسوسہ تو فوری response کر رہا ہے، لیکن وسوسہ پورے کا پورا باعث نہیں ہے۔ تین قسم کی محبتیں انسان کے اندر ہوتی ہیں: ایک جاہ کی محبت، یعنی بڑا بننے کا شوق اور ایک مال کی محبت اور ایک لذتوں کی محبت۔ ان میں سے جو بھی کسی میں ہوگی، وہ شیطان کے لیے اس کا متاع ہے، شیطان اس کے ذریعے سے اس کو گمراہ کرسکتا ہے۔ آپ صرف یہی کرسکتے ہیں کہ آپ ان تین چیزوں کو توڑنا شروع کر لیں، تاکہ اس کا متاع آپ کے پاس نہ ہو اور وہ آپ کو پھنسا نہ سکے۔ اس لیے قرآن پاک میں فرمایا گیا:

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا ۝ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس: 9-10)

ترجمہ: "فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔

اس کے اندر کسی اور چیز کا ذکر نہیں ہے، یہ نہیں فرمایا کہ اس نے اپنے شیطان کو مار دیا یا اس نے اپنے شیطان کو گالیاں دے دیں یا اس نے اپنے شیطان کو پچھاڑ دیا۔ قرآن پاک میں کہیں پر بھی اس کا ذکر نہیں ہے۔ نفس کا ذکر ہے کہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا، وہ کامیاب ہوگیا۔ کیونکہ نفس کا پاک ہوگیا، تو شیطان کے تمام ہاتھ پیر ٹوٹ گئے، اس کے بعد وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ وہ کس طریقے سے آپ کو ورغلائے گا، جب کہ ٹیلیفون کا تار ہی کٹ گیا۔ پھر وہ افسوس ہی کرے گا، اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں کرے گا۔ پس یہ چیز ہے، جس کی طرف انسان کو دیکھنا چاہئے۔ اپنے نفس کی اصلاح بہت important ہے۔ قرآن پاک میں فیصلہ نفس کے اصلاح پر ہے۔ اس پر میں نے نظم میں بھی کچھ کہا ہے۔

سات قسموں کے بعد اللّٰہ نے ایک بات کہی

نفس کو الہام کیا فجور اور تقوی بھی

تشریح:

یعنی سورت الشمس میں اللہ تعالی نے سات قسمیں کھائی ہیں۔ اور پھر فرمایا کہ نفس کو دو چیزیں الہام کی ہیں: فجور اور تقوی۔

اور پھر جزمتِ تشدید سے اعلان کیا

جو کرے نفس اپنا پاک ہے کامیاب وہی

تشریح:

قرآن میں ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا(الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

جو بد نصیب زندگی میں ایسا کر نہ سکے

تو تباہ حال ہے، خائف ہے اور خاسر بھی

تشریح:

﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس: 10)

ترجمہ: "اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے"۔

اس کی تشدید سے اصلاحِ نفس فرض ہوا

تشریح:

یعنی ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا کی تشدید سے۔

اس کی تشدید سے اصلاح نفس فرض ہوا

کوئی کام ٹھیک نہیں نفس نہ ہوجائے سہی

تشریح:

یعنی جب تک نفس صحیح نہیں ہوگا، اس وقت تک کوئی کام ٹھیک نہیں ہوسکتا۔

دیکھ شیطان کو بھی نفس نے دھوکا ہے دیا

منطقی بات جو ظالم نے اللہ سے کی

تشریح:

شیطان کو نفس نے دھوکہ دیا کہ اس نے اللہ کے سامنے منطقی بات کرنے اور logic بنانے کی کوشش کی۔

ایک طرف حکم خدا ہے براہ راست اس کو

ایک طرف علت کی بات اور یہ کج بحثی

تشریح:

اللّٰہ پاک اس کو براہِ راست حکم دے رہے ہیں کہ سجدہ کرو اور یہ کہتا ہے کہ میں کیسے سجدہ کروں، یہ تو یہ ہے اور یہ ایسا ہے۔

نفس کی اصلاح نہیں ہوتی مجاہدے کے بغیر

دل ہے driver اپنی منزل کا اور نفس گاڑی


نفس جب تک اپنے شیخ کے حوالے نہ کرو

اس کی اصلاح کسی صورت بھی نہیں ہے ہوتی


جو تیرا نفس کرے تجویز مجاہدہ وہ نہیں

مجاہدہ مخالفت ہے نفس کی بھائی

تشریح:

مجاہدہ نفس کی مخالفت کا نام ہے، نفس کی تجویز کردہ چیز کا نام مجاہدہ نہیں ہے۔

جو تیرا شیخ کہے نفس کو گوارا وہ نہ ہو

مجاہدہ ہے یہی اس میں ہے اصلاح تیری

تشریح:

آپ شیخ کے ساتھ گاڑی میں جانا چاہتے ہیں، شیخ کہتا ہے کہ نہیں، یہاں بیٹھو۔ تو یہ بڑی مشکل بات ہے، لیکن ماننا پڑے گا، یہی مجاہدہ ہے، کیوں کہ یہ طبیعت کے خلاف ہے۔ نفس کہتا ہے کہ میں شیخ کے ساتھ جاؤں گا، تو بڑا فائدہ ہوگا اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا۔ لیکن یہ ساری آپ کے نفس کی باتیں ہیں، اب جب شیخ نے کہہ دیا، تو بس یہیں پر بیٹھو، اب یہیں پر اجر ملے گا۔

جو تیرا شیخ کہے نفس کو گوارا وہ نہ ہو

مجاہدہ ہے یہی اس میں ہے اصلاح تیری


یہ قال سے حال کا لمبا سفر ہو کیسے طے

نفس پامال کرو پیشِ کامل یہی


خدا کو پیار اس اخلاص پہ آ جاتا ہے

جس نے شبیرؔ کیا یہ فلاح اس کو ملی

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ نفس کو صرف شیخ کی اطاعت درکار ہوتی ہے۔ شیخ کے ہاتھ میں آ کر نفس موم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ داؤد علیہ السلام کے لیے اللّٰہ پاک لوہے کو موم کر دیتے تھے، شیخ کے لیے اللّٰہ تعالیٰ نفس کو موم کر دیتا ہے۔ اس وجہ سے جو شیخ کی بات مانتا جاتا ہے، اس کا نفس درست ہوتا جاتا ہے، بے شک شیخ کچھ بھی نہ ہو۔ ہمارے حضرات جو صحیح سمجھ رکھتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ "پیر من خسس مارا بسس" یعنی "میرا پیر اگر تنکا بھی ہے پھر بھی میرے لئے کافی ہے" کیونکہ کرنے والی ذات اللّٰہ تعالیٰ کی ذات ہے، کرتا تو اللّٰہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن شیخ کے ذریعے سے کرتا ہے۔ پس دروازہ وہی ہے۔ یہ بات بہت اہم ہے، اگر یہ بات سمجھ میں آجائے، تو بات بالکل کلیئر ہوجاتی ہے۔ مثلاً حاجی امداد اللّٰہ مہاجر مکی رحمۃ اللّٰہ علیہ پڑھے ہوئے نہیں تھے یعنی امی تھے اور حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے عالم تھے۔ دوسری چیزوں میں تو کیا علمی باتوں میں بھی کوئی مشکل مسئلہ آجاتا، تو حضرت گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ دل میں سوچتے کہ میں حاجی صاحب سے پوچھوں، جیسے ہی انہوں نے ارادہ کر لیا، اللّٰہ پاک نے دل میں اس مشکل مسئلے کا حل القا فرما دیا۔ فرماتے ہیں کہ کبھی میں حضرت سے پوچھنے کے لئے اٹھنا چاہتا ہوں، تو جواب آ جاتا ہے، کبھی چل پڑتا ہوں، تو جواب آ جاتا ہے، کبھی وہاں پہنچ جاتا ہوں، تو پھر جواب آ جاتا ہے اور کبھی میں حاجی صاحب کے پاس پہنچ جاتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ حضرت! یہ مسئلہ ہے، حضرت فرماتے کہ رشید! یہ کوئی بات ہے! بس پھر بات ختم، دل میں جواب آ جاتا۔ پس دینے والے اللّٰہ ہیں، حضرت نہیں ہیں، لیکن ان کے لیے اللّٰہ نے ان کو دروازہ بنایا تھا۔ مجھے بتائیں کہ آپ خانہ کعبہ کو سجدہ کرتے ہیں یا اللّٰہ کو کرتے ہیں؟ سب مسلمان اللہ کو سجدہ کرتے ہیں، لیکن اگر خانہ کعبہ کے علاوہ کی طرف آپ سجدہ کریں، تو آپ کا سجدہ اللّٰہ کو ہوجائے گا؟ نہیں ہوگا، حالانکہ خانہ کعبہ خدا نہیں ہے، لیکن خدا کا حکم یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف سجدہ کرو۔

﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرہ: 144)

ترجمہ: ’’لو اپنا رخ مسجد حرام کی سمت کرلو‘‘۔

پس حکم یہ ہے کہ اس کی طرف سجدہ کرو۔ مسجد حرم میں چاروں طرف سے سب کا رخ خانہ کعبہ کی طرف ہوجائے گا، تھوڑے سے قدم پر آپ مڑ جائیں، تو پھر آپ کو چینج ہونا پڑے گا۔ وہاں پر یہ فرض ہے، لیکن یہاں پر فرض نہیں ہے، یہاں پر صرف سمت کی طرف رخ کرنا فرض ہے، اور وہاں پر عین خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنا فرض ہے۔ وہاں آپ کا ذرا بھر بھی سینہ خانہ کعبہ سے shift ہوگیا، تو نماز ٹوٹ جائے گی۔ یہ حکم وہاں تک ہے، جہاں تک خانہ کعبہ نظر آرہا ہو۔ پس یہ اللّٰہ کا حکم ہے۔ اسی طرح شیخ کی طرف جب انسان متوجہ ہوتا ہے، تو اللّٰہ پاک کا حکم پورا ہوتا ہے، اللّٰہ جل شانہٗ پھر شیخ کے دل میں وہ ساری چیزیں لے آتے ہیں، جو اس کے لیے مفید ہیں۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے میں نے بیعت کی، تو تین دن تک میرا یہ حال تھا کہ میں جس دن بھی جاتا، حضرت ان چیزوں پہ بات کرتے، جو میری بات ہوتی۔ میں کہتا کہ میں تو بڑا خوش نصیب ہوں کہ میں ایسے موقع پہ آ گیا کہ حضرت وہی باتیں کر رہے ہیں، جو میری باتیں ہیں۔ میں بڑا خوش تھا۔ دوسرے دن بھی آیا، تو یہی حال ہوا۔ میں سوچا کہ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ جب میں آیا، تو مولانا صاحب وہی باتیں کر رہے ہیں، جو میرے سوالات ہیں۔ تیسرے دن آیا، تو تیسرے دن بھی یہی ہو رہا تھا۔ میں نے ڈاکٹر شیخ حسن صاحب سے پوچھا۔ انہوں نے فرمایا کہ سب کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے، یہ معاملہ سب کے ساتھ ہے۔ پس اللّٰہ ہی دیتا ہے۔ اگر کسی کا اعتقاد صحیح ہو، تو کہتے ہیں کہ اگر کوئی مرید اپنے شیخ کو قطب مانے گا، تو اس کا شیخ بے شک قطب نہ ہو، اللّٰہ تعالیٰ اس کو قطب کا فیض دے گا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے water tank سے نل آتا ہے، نل کے ساتھ ٹونٹی لگی ہوئی ہے، آپ tank سے اس ٹونٹی کے علاوہ کسی اور ذریعے سے پانی نہیں لیتے، بے شک نل ٹینک کے ساتھ لگا ہوا ہے۔ اگر نل میں پانی نہیں ہوگا یعنی اگر نل tank کے ساتھ نہیں لگا ہوا ہوگا، تو ٹونٹی میں پانی نہیں آئے گا۔ پانی تو tank سے ہی آ رہا ہے، لیکن آپ کو نہ نل سے ملے گا اور نہ tank سے، آپ کو ٹونٹی سے ملے گا۔ پس شیخ کی مثال بھی ٹونٹی کی طرح ہے، آپ اس کو جتنا کھولنا چاہیں، کھول لیں۔ آپ ان کے ساتھ جتنی محبت کریں گے، اسی کے مطابق آپ کو فیض ملے گا۔

سمجھنا دین کا موقوف بصیرت پر ہے

تشریح:

ایک ایک چیز note کرتے جائیں، یہ ایک Flow chart ہے۔

سمجھنا دین کا موقوف بصیرت پر ہے

اور آگے اس کا حصول نفس کی تربیت پر ہے

تشریح:

بصیرت نہیں ہوگی، تو دین کی سمجھ نہیں آئے گی۔

سمجھ دین کی نہ ہو حاصل تو اسی حال میں پھر

بچت موقوف صالحین کی صحبت پر ہے

تشریح:

یعنی اگر آپ کو دین کی سمجھ نہیں، تو پھر جن کو سمجھ ہو، ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔

صحبت سوء سے بہتر خلوت از روئے حدیث

تشریح:

یعنی بری صحبت سے خلوت اچھی ہے۔


صحبت سوء سے بہتر خلوت از روئے حدیث

صحبتِ نیک کو فوقیت خلوت پر ہے۔

تشریح:

یعنی صرف خلوت پر نیک صحبت کو فوقیت ہے۔

صحبت شیخ صالحین کی صحبت کا اصل

اور اس سے اخذ پھر اپنی صلاحیت پر ہے

تشریح:

یعنی جس کی جتنی استعداد ہے، وہ اتنا اس سے حاصل کرے گا۔

یہ تو ٹونٹی ہے اسے کھول جتنا چاہے تو

لازماً نفع اس میں شیخ سے محبت پر ہے۔

تشریح:

یعنی شیخ کے ساتھ جتنی زیادہ محبت ہوگی، اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔

اور ہو شیخ سے محبت اور صلاحیت بھی

تو باقی کام منحصر سارا ہمت پر ہے

تشریح:

یعنی یہ دونوں چیزیں اگر ہوں، تو پھر اپنی صلاحیت کو استعمال کرنے کی ہمت ہونی چاہئے۔

تین نقطوں کی مستوی سب سے مضبوط تو ہو

تشریح:

اگر تین نقطوں والی مستوی ہو، تو جو plan گزرتا ہے، سب سے stable ہوتا ہے، یہ جیومیٹری کا مسئلہ ہے۔

تین نقطوں کی مستوی سب سے مضبوط تو ہو

فیصلہ اس کا پھر اللّٰہ کی مشیت پر ہے

تشریح:

اب جمع ہوگیا ہے، اب اللّٰہ کی مشیت ہے کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے۔

تمہارا کام تو اسباب جمع کرنا ہے

نتیجے ان کے پھر ان کی قبولیت پر ہے

تشریح:

اسباب جمع کر لو اور پھر مسبب الاسباب یعنی اللّٰہ پر چھوڑ دو۔

مسبب الاسباب کے در پہ پڑجانا

خود کو چھوڑ دل کو دیکھ یہ کس حالت پر ہے

تشریح:

یعنی دل کو دیکھو کہ تمہارا دل کس حالت پہ ہے، تاکہ وہ اسباب جو جمع ہیں، ان کو منظور بھی فرما لے

جمع اسباب دعا کر کہ یہ قبول بھی ہوں

ہوں قبول یہ مانگنے کی کیفیت پر ہے


نہ سمجھ خود کو کچھ ہو اس کی کریمی پہ نظر

نظر کریم کی تو اس کی مسکینیت پر ہے

تشریح:

یعنی اگر آپ نے سوچا کہ میں نے بہتر اسباب جمع کر لئے، اب مسئلہ حل ہونا چاہئے۔ پس نہیں ہوگا، کیونکہ اس کی مشیت نہیں ہے۔

نہ سمجھ خود کو کچھ ہو اس کی کریمی پہ نظر

نظر کریم کی تو اس کی مسکینیت پر ہے


اور پھر اچھی امید ہو اس پہ لازم ہے

کامیابی پھر بہرحال استقامت پر ہے

تشریح:

یعنی اللّٰہ تعالیٰ سے اچھی امید بھی رکھنی چاہئے اور استقامت بھی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔

ہوں میں شبیرؔ پر امید بھی ان سب کے لیے

طریق میں جس کی نظر اس نصیحت پر ہے

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس نصیحت پر عمل کرے گا، میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللّٰہ اس کا کام بن جائے گا۔

میرے خیال میں آپ کے سامنے سارا Flow chart آ گیا ہے، اس flow chart کو آپ لوگ استعمال کر لیں۔ جس چیز نے شیطان کو مار دیا، آپ بھی اسی چیز کے پیچھے پڑ گئے۔ شیطان Logical discussion میں پڑ گیا تھا، اسی لئے مارا گیا۔ شیطان ظالم میں مسکینی نہیں تھی۔ آپ ﷺ سے باقاعدہ ایک دعا منقول ہے کہ اے اللّٰہ! ہمیں مسکینوں کی صف میں اٹھا دے۔ ’’فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنَ‘‘ کا لفظ ہے۔ پس مسکینی بہت اہم چیز ہے، اگر کسی میں مسکینی ہو، تو کام بن جاتا ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ