سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 64

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی




اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم


سوال 1:

خلوت میں اور ریاض میں (یعنی مجاہدہ) کیا فرق ہے؟

جواب:

انسان کے ساتھ چونکہ نفس لگا ہوا ہے لہذا نفس کے مقامات جہاں سے وہ اثر لیتا ہے یا اثر دیتا ہے مثلاً دیکھنا، سننا، بولنا، محسوس کرنا، چھونا، یہ سب نفس کی حسیں ہیں۔ یہ خیر کے بھی ہو سکتی ہیں اور شر کی بھی ہو سکتی ہیں۔ پس ماحول میں جب شر غالب ہو تو اس وقت دل کو جو ماحول سے اثر ملتا ہے وہ شر کا ہوتا ہے۔ مثلاً انسان ادھر ادھر دیکھتا ہے نا محرم پہ نظر پڑ جاتی ہے۔ یہ آنکھوں کے ذریعے دل کی خرابی کا ذریعہ ہے اور کان ادھر ادھر کی آوازیں سنتے ہیں جس میں گانے، گالیاں، غیبتیں اور چغلیاں بھی ہوتی ہیں۔ یہ کان کے ذریعے سے دل کو خراب کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان بولنے میں بے احتیاطی کر لیتا ہے، جھوٹ بول لیتا ہے، غیبت کر لیتا ہے، چغلی کھا لیتا ہے یہ زبان کے ذریعے سے دل کو خراب کرنے کی چیزیں ہیں۔ اسی طریقے سے انسان کسی نا محرم کو چھو لے تو اس سے جو دل کا نقصان ہوتا ہے وہ بھی ظاہر ہے۔ ذہن سے سوچتا ہے اور کسی نا محرم کا خیال دل میں آ جائے، پرانی بات یا نئی بات تو اس سے بھی دل کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ باتیں انسان کے دل کو خراب کرنے والی ہیں۔ پس اگر انسان ماحول کے اندر رہے اور اپنے علاج کے لئے کوشش بھی کرتا رہے تو اس کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے کیونکہ مسلسل خرابی آ رہی ہے، خرابی کا آنا زیادہ رفتار سے ہے اور اس کو ٹھیک کرنے کی محنت اس کے مقابلے میں کم ہوتی ہے، نتیجتاً اس کا ٹھیک ہونا آسان نہیں ہوتا۔ صوفیاء کرام نے اس چیز کو جان کر اس کے لئے خلوت کا ماحول تجویز فرمایا ہے جو ایک حدیث شریف سے ماخوذ ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بری صحبت سے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ پس کچھ وقت کے لئے اگر ایک انسان اپنے آپ کو بری صحبت سے بچا لے تو اس وقت برائی کے ذرائع سے بھی بچ جاتا ہے۔ اور ذکر اللہ یا مراقبات کرتا ہے یا جو شیخ اس کو بتاتا ہے وہ یہ کرتا ہے تو اس سے اس کے دل کو صحت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے دل میں نور آتا ہے۔ ایک طرف ظلمت کا راستہ بند ہو گیا اور دوسری طرف نور آنا شروع ہو گیا۔ اس سے دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور دل کے اندر روحانی قوت آ جاتی ہے۔ پس یہ شخص اگر پھر باہر آتا ہے تو یہ زیادہ قوت کے ساتھ برائی کا مقابلہ کرتا ہے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

حضرت مولانا الیاس رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ میں جب میوات جاتا ہوں تو صلحاء کی جماعت کے ساتھ جاتا ہوں۔ یعنی اپنی صحبت کو اچھا رکھتے تھے۔ اس کے با وجود لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے میرے دل کی حالت بدل جاتی ہے۔ اس کو درست کرنے کے لئے میں رائے پور شریف جاتا ہوں یا سہارن پور شریف جاتا ہوں یا مسجد میں اعتکاف کرتا ہوں۔ معلوم ہوا ایک نیک کام کے اندر بھی ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ لوگوں کے ساتھ اختلاط ہو جاتا ہے۔ اس سے بھی اگر انسان کا دل بگڑتا ہے تو عام طور پر دنیاوی مجالس میں دل کتنا زیادہ بگڑے گا۔ مثلاً کالجوں میں، سکولوں میں، پارکوں میں، بازاروں میں۔ ویسے بھی حدیث شریف سے ثابت ہے کہ اللہ جل شانہ کے ہاں پسندیدہ جگہ مسجدیں ہیں اور نا پسندیدہ جگہ بازار ہیں۔ چنانچہ اپنے ماحول کو بدلنے کے لئے پہلا step یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے آپ کو برے ماحول سے کاٹ لے اور حدیث شریف میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب بکری انسان کی سب سے قیمتی متاع ہو گی، اس کو لے کر وہ ایک غار سے دوسرے غار میں جائے گا اور اپنے ایمان کو بچانے کی کوشش کرے گا۔ اصحاب کہف نے کیا کیا تھا؟ انہوں نے جہاد نہیں کیا تھا بلکہ صرف اپنے ایمان کو بچانے کے لئے خلوت اختیار کی تھی جو اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئی کہ وہ اولیاء اللہ میں شامل ہو گئے۔ اللہ جل شانہ نے ان کو دوسروں کو بتانے کے لئے ایک نمونہ بنا دیا۔ اس وجہ سے صوفیاء کے ہاں ہے جو خلوت ہے یہ عین قرآن و سنت کے مطابق ہے اور اس سے بڑے بڑے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ البتہ شیخ کی صحبت جو صحبت صالحین کا مرکزی نکتہ ہے، یہ صحبت خلوت سے یقیناً اچھی ہو گی۔

مجاہدہ در اصل نفس کی مخالفت کو کہتے ہیں۔ نفس جو چاہتا ہے وہ اس کو نہ کرنے دینا، مجاہدہ کہلاتا ہے۔ نفس آرام کرنا چاہتا ہے، آرام نہ کرنے دینا۔ جس کو قلت منام کہتے ہیں۔ نفس کھانا چاہتا ہے بلا انکار، تو اس کو پابند کرنا۔ اسی طریقے سے نفس لذائذ میں پڑنا چاہتا ہے تو لذات سے اس کو روکنا۔ نفس بولنا چاہتا ہے، بولنے سے اس کو روکنا اور نفس لوگوں کے ساتھ بغیر کنڑول کے ملنا جلنا چاہتا ہے تو اس کو پابند کرنا۔ یہ مجاہدات کہلاتے ہیں۔ اصل میں اللہ پاک نے نفس کے اندر یہ خاصیت رکھی ہے کہ اگر اس کی بات مانی جائے تو اس کا مطالبہ زور پکڑتا ہے اور یہ پھر مزید خرابی کے لئے پر تولنے لگتا ہے اور اگر اس کو دبا دیا جائے، اس کی بات نہ مانی جائے تو یہ ماننا شروع ہو جاتا ہے۔ جیسے ایک شخص بالکل نمازی نہ ہو اور نماز پڑھنا اس کے لئے بڑا ہی مشکل اور نا ممکن ہو، اگر اس کا کوئی جگری دوست آ جائے اور اس کو کوئی ایک نماز پڑھا ہی دے تو اگلی نماز پڑھنا اس کے لئے نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ دو نمازیں پڑھ لے گا تو تیسری نماز اس کے لئے اور آسان ہو جائے گی، چوتھی اور زیادہ آسان ہو جائے گی حتیٰ کہ جب چالیس دن مسلسل وہ نمازیں پڑھے گا تو یہ پکا نمازی ہو جاتا ہے حالانکہ پہلے وہ نماز پڑھ ہی نہیں سکتا تھا۔ اب وہ نماز چھوڑ نہیں سکتا۔ چالیس دن اس نے جو نفس کی مخالفت کی اس نے اس کو مختلف آدمی بنا دیا۔ معلوم ہوا مجاہدہ نفس کی تطہیر کے لئے، اصلاح کے لئے بہت زیادہ مفید طریقہ ہے۔ ہمارے چشتی حضرات کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب تک برتن صاف نہ ہو اس میں دودھ بھی ڈالیں گے تو نا پاک ہو جائے گا۔ اس لئے پہلے برتن کو صاف کرنا چاہیے پھر اس میں دودھ ڈالنا چاہیے۔ اس وجہ سے وہ پہلے رذائل سے چھڑاتے تھے اور اس کے بعد ذکر اذکار تلقین کرتے تھے۔ ان کا زیادہ زور رذائل کو دور کرنے پہ ہوتا تھا جس کے لئے وہ مجاہدے کا استعمال کرتے تھے۔ البتہ نقشبندی حضرات دل کی اصلاح پر زیادہ زور دیتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ جب روشنی آ جاتی ہے تو ظلمت اور تاریکی ختم ہو جاتی ہے۔ پس اگر دل ٹھیک ہو جائے تو سارے کام ٹھیک ہو جائیں گے۔ ان دونوں کو جمع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب دل ٹھیک ہو جاتا ہے تو سارا جسم ٹھیک ہو جاتا ہے اور قرآن پاک میں آتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)

ترجمہ: ”فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے اور نا مراد ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔“

پس اگر یہ بات ہم جانتے ہیں تو چشتیہ کا مسلک قرآن کے مطابق تھا اور نقشبندیہ کا مسلک حدیث شریف کے مطابق تھا۔ اگر ان دونوں کو جمع کیا جائے تو قرآن و حدیث دونوں پہ عمل ہو جائے گا۔ اس وجہ سے ہمارا مسلک یہی ہے کہ ہم نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدے کی ضرورت سمجھتے ہیں اور دل کی اصلاح کے لئے ذکر کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں مجاہدہ بھی ہوتا ہے اور دل کی اصلاح کے ذرائع بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ بس مجاہدہ اور خلوت کے درمیان فرق واضح ہو گیا کہ مجاہدہ نفس کی اصلاح کے لئے اور خلوت نفسانی خواہشات کے حصول کے ذرائع کو وقتی طور پر بند کرنے کا نام ہے۔ دونوں کا فائدہ سالک کو ملتا ہے اور یوں کہہ سکتے ہیں کہ خلوت بھی مجاہدے ہی کی ایک قسم ہے۔

سوال 2:

مَا الإِخْتِلَافُ فِی الطَّرِیْقَةِ القَادِرِیَّۃِ وَ النَّقْشبَنْدِیَّۃِ وَ غَیْرِ ہِمَا مِنَ السَّلَاسِلِ؟

جواب:

سَمِعْتُ عَنِ الشَّيْخِ الأَعْظَمِ مِنَ القَادِرِیَّۃِ، عِنْدَ الجِشْتِیَّۃِ وَ النَّقْشبَنْدِیَّۃِ الدَّقَائِقُ۔ وَ الْقَادِرِیَّۃِ کَالْمَظْرُوْفِ الْکَبِیْرِ وَ فِیْہِ مَیَاہٌ کَثِیرَۃٌ حَارۃٌ بِالنَّارِ، وَ لٰکِنْ ھٰذَا لَیْسَ بِسَہْلٍ فِی الأُوْلیٰ وَ لٰکِنْ ھٰذَا حَارٌ۔ ثُمَّ بَعْدَ ہَذَیْنِ اِذَا تَجْمَعُ مَیَاہٌ کَثِیْرَۃٌ اُخْرٰی، وَ ہِیَ اَیْضاً حَارَۃٌ، وَ السُّہْروَرْدِیَّۃُ لَا تَخْتَلِفُ کَثِیْراً عَنِ القَادِرِیَّۃِ مَا سِویٰ الإِخْتِلَافِ فِی الأَذْکَارِ۔

سوال 3:

مرید اور مراد کے بارے میں سوال ہے۔ مراد کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طریقے سے ایک شخص مراد تھا اور اس کو حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ آپ اولیاء میں سے ہیں۔ ان کو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کیونکہ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا لیکن اللہ جل شانہ نے ان کو چن لیا تھا۔ یہ مراد کی ایک explanation تھی۔

جواب:

در اصل مرید اس کو کہتے ہیں جو ارادہ کرتا ہے اور ارادہ اس کو کہتے ہیں جس کے ساتھ عمل ہو، جس ارادے کے ساتھ عمل نہ ہو اس کو تمنا کہتے ہیں اور تمنا پر کوئی فیصلہ نہیں ہے بلکہ ارادے پر فیصلہ ہے۔ جب ارادہ مضبوط ہوتا ہے تو اس کو عزم کہتے ہیں۔ چنانچہ جو مضبوط ارادہ کر لیتا ہے کہ میں نے اب ٹھیک ہونا ہے، میری اصلاح ہو جائے اور اپنی اصلاح کے لئے کسی شیخ کا ہاتھ پکڑ لے اور جیسے وہ کہتا جائے وہ کرتا جائے اور اس طریقے سے اپنی منزل تک پہنچ جائے۔ اس شخص کو کہتے ہیں مرید۔ مراد اس کو کہتے ہیں کہ اس کے اندر کوئی ایسا چھپا ہوا عمل ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہوتا ہے لیکن عام لوگوں کو اس کا پتا نہیں ہوتا، حتیٰ کہ اس کو خود بھی پتا نہیں ہوتا۔ اس چھپے ہوئے عمل کی وجہ سے اللہ جل شانہ اس کو چن لیتا ہے اور کھینچ لیتا ہے نتیجتاً وہ اس راستے پہ خود بخود چلنا شروع کر دیتا ہے جس پر لوگ چلنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ جہاں تک کام کرنے کا تعلق ہے تو وہ دونوں کو کرنا پڑتا ہے۔ مرید اپنے ارادے سے کام کرتا ہے اور بعد میں اس کو اللہ تعالیٰ کھینچ لیتا ہے۔ اس کی مثال ایک بزرگ نے یہ بیان فرمائی تھی کہ جیسے بچہ چھوٹا ہوتا ہے، والدین اس کو بلاتے ہیں کہ چلو! وہ چلنا نہیں جانتا تو اپنی زبان میں اس کو کہتے ہیں کہ آ جاؤ آ جاؤ وہ تھوڑا سا چلنا شروع کر دیتا ہے، پھر گر جاتا ہے۔ پھر تھوڑا سا چلنے کی کوشش کرتا ہے پھر گر جاتا ہے۔ پھر تھوڑا سا چلنے کی کوشش کرتا ہے پھر گر جاتا ہے اور رونا شروع کر دیتا ہے تو والدین کو اس پر محبت کی وجہ سے خیال آ جاتا ہے تو وہ اس کو اٹھا لیتے ہیں۔ اسی کو ہم جذب کہتے ہیں۔ یعنی ارادے کے بعد جذب۔ مرید ارادہ کرتا ہے، محنت کرتا ہے اور محنت میں نا کام ہوتا ہے پھر اس کے بعد محنت کرتا ہے پھر نا کام ہوتا ہے۔ پھر محنت کرتا ہے پھر نا کام ہوتا ہے تو پھر اللہ پاک کے سامنے رونا شروع کر دیتا ہے کہ میں تو ایسا ہوں، ویسا ہوں مجھ سے کچھ نہیں ہو رہا وغیرہ۔ یہ رونا جب دل اور طلب کے ساتھ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو پسند آ جاتا ہے اور اللہ جل شانہ اس کو آن کی آن میں وہ کچھ عطا فرماتے ہیں جو برسوں میں انسان کو نہیں مل سکتا۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ سلوک کے بعد جذب ہے۔ جب کہ پہلی صورت میں اس کو پہلے ہی سے جذب کرا دیتے ہیں اس کے بعد اس سے محنت لیتے ہیں اور عین ممکن ہے کہ وہ محنت مرید سے زیادہ ہو۔ لہذا فرق صرف اتنا ہے کہ ایک شخص نے خود ارادہ کیا اور دوسرے شخص کو اللہ نے چن لیا اور محنت دونوں نے کر لی۔ ایک نے پہلے کی دوسرے نے بعد میں کی، لہذا عملی طور پر کوئی فرق نہیں ہوا۔ اب صرف سوال یہ رہتا ہے کہ کیا ہونا چاہیے؟ میں کہوں گا کہ جو ہم کر سکتے ہیں وہ ہم کریں جو اللہ کرتا ہے وہ اللہ کرے، اللہ کے کام کو اللہ پہ چھوڑو اور اپنا کام خود کرو تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔ پھر اس میں مرید و مراد کا فرق ہی نہیں رہتا کیونکہ میں نے جو کام کرنا ہے وہ تو کرنا ہی ہے لیکن اللہ پاک جو کام کرتا ہے وہ اپنے وقت پہ کر لے گا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا مگر اللہ کے فضل سے جائے گا۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! ﷺ کیا آپ بھی اللہ کے فضل سے جائیں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں میں بھی اللہ کے فضل سے ہی جاؤں گا، لیکن اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل فرما دیں گے۔ آپ ﷺ تو یہ فرما سکتے تھے کہ مجھ پر فضل فرما دیں گے لیکن باقیوں کے لئے اخفاء میں ہے۔ لہذا اللہ پاک کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے، اللہ جل شانہ سے اچھی امید رکھتے ہوئے انسان جنتی اعمال کرے گا لیکن جنت فضل سے ملے گی عمل سے نہیں ملے گی۔ چونکہ مرید جو ارادہ کرتا ہے تو اس کو بھی بعد میں اللہ کے فضل سے ملتا ہے اور مراد کو جو اللہ چن لیتا ہے تو وہ بھی فضل سے ہی چنتا ہے۔ کچھ بھی فرق نہیں ہوا۔ جہاں تک افضل اور مفضول کی بات ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ فیصلہ اللہ پہ چھوڑنا چاہیے کیونکہ اللہ ہی اس کو بہتر جانتا ہے۔ مراد لوگوں میں بھی بڑے بڑے لوگ ہوئے ہیں اور مرید لوگوں میں بھی بڑے لوگ ہوئے ہیں۔ اگر مراد لوگوں میں عمر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں تو مرید لوگوں میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ بس ہم لوگ یہ فیصلہ نہیں کریں گے، یہ فیصلہ اللہ پہ چھوڑیں تو بہتر ہے۔

سوال 4:

زندہ شخص سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے یا فوت شدہ شخص سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے؟

جواب:

در اصل جو معروف شیخ ہوتا ہے وہ زندہ شیخ ہوتا ہے۔ البتہ اس میں قوت فوت شدہ شخص سے آتی ہے۔ جیسے میرے پاس یہ mic ہے۔ یہ میری آواز کو سن کر اس کو برقی لہروں میں تبدیل کر کے مزید طاقتور کر کے speaker کے ذریعے دور کے لوگوں کے کانوں کو بھی سنوا دیتا ہے۔ آواز موجود تھی پس amplifier نے یہ کام کیا کہ آواز کو بڑھا دیا۔ Loud speaker بڑا طاقتور ہو لیکن آواز موجود نہ ہو تو فائدہ نہیں ہو گا لیکن آواز موجود ہو speaker موجود نہ ہو تو تھوڑا فائدہ ہو جائے گا۔ چنانچہ اس کو ہم ”انتقالی نسبت“ کہتے ہیں۔ یہ زندہ کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اس نسبت کی تقویت مردہ شخص کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے۔ پس اگر کسی نے زندہ سے نسبت حاصل نہیں کی ہے تو وہ مردہ شیخ سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتا اور اگر کر بھی لے گا تو باقیوں کے لئے قابل استعمال نہیں ہو گا کیونکہ وہ مخفی ہو گا۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو شخص اپنے دوست کے راز کو راز نہ رکھ سکے وہ دوستی کے قابل نہیں اور چونکہ یہ چیزیں راز ہوتی ہیں لہذا ان کو باقیوں کو بتایا نہیں جا سکتا اور جو باقیوں کو نہ بتایا جائے اس سے باقیوں کو کیا فائدہ ہو گا؟ لیکن یہ عین ممکن ہے کہ اگر کوئی صاحب نسبت بزرگ کسی بڑے اللہ والے کے مزار پہ چلا جائے تو اس کو جو نسبت وہاں سے حاصل ہو گی اس سے اس نسبت میں قوت آ جائے گی جو اس کے پاس پہلے سے ہے اور پھر وہ لوگوں کو زیادہ خیر پہنچائے گا اور خود بھی اس کو زیادہ خیر پہنچے گی۔ حقیقی شیخ تو زندہ ہو گا لیکن اسی سلسلے کے ذریعے جو فوت شدہ ہیں زندہ شیخ میں برکت بھی آئے گی۔ جیسے پانی کا ایک tank ہے اس سے ایک نل آیا ہوا ہے اور نل کے آگے ٹونٹی لگی ہے۔ کوئی tank سے پانی لینا چاہے گا تو کہاں سے لے گا؟ ظاہر ہے وہ ٹونٹی سے لے گا۔ نل سے بھی نہیں لے سکتا اور tank سے بھی نہیں لے سکتا۔ پانی tank سے آتا ہے۔ پس اگر اس ٹونٹی کا نل کے ذریعے سے رابطہ نہ ہو اور نل کا tank کے ساتھ رابطہ نہ ہو تو ٹونٹی میں پانی نہیں آئے گا۔ لیکن رابطہ ہو تو ٹونٹی سے ملے گا۔ یہ ٹونٹی سلسلے کا آخری شیخ ہے جو زندہ ہے اور نل پوشیدہ مشائخ کا پورا سلسلہ ہے اور ٹینکی اللہ تعالیٰ کی لامتناہی خزانے کی طرف اشارہ ہے۔ ملتا اللہ سے ہے بذریعہ رسول کریم ﷺ اور مکمل سلسلے کے آخری شیخ سے جو زندہ ہے اور نام اسی کا لیا جائے گا۔ پس اگر یہ سلسلہ نہ ہو تو پھر نہ نقشبندیہ ہے، نہ چشتیہ ہے، نہ قادریہ ہے، نہ سہروردیہ ہے۔ صرف رسول اللہ ﷺ ہیں۔

سوال 5:

سالک کے منتہی ہونے پر شیخ بیچ میں سے نکل جاتا ہے۔ کیا شیخ سالک کی تربیت چھوڑ دیتا ہے، اس کی روحانی ترقی سالک پر چھوڑ دیتا ہے؟ کیا سالک کی شیخ سے فیض کے حصول کی نوعیت بدل جاتی ہے؟

جواب:

اس سوال میں کچھ تشریحات کی ضرورت ہے ورنہ گڑبڑ ہونے کا امکان ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ منتہی کس کو کہتے ہیں؟ منتہی کون کہتا ہے؟ منتہی کون سمجھتا ہے؟ یہ تینوں مختلف باتیں ہیں۔ جو سالک منتہی ہو گیا وہ اتنا فنا ہو جاتا ہے کہ پھر اپنے آپ کو منتہی نہیں مانتا۔ اور جو اپنے آپ کو منتہی مانتا ہے وہ ابھی فنا نہیں ہوا۔ پہلے کو شیخ منتہی کہے گا لیکن وہ اپنے آپ کو منتہی نہیں سمجھتا۔ چنانچہ اپنے شیخ کے ساتھ اپنا رابطہ بر قرار رکھتا ہے اور اپنے آپ کو مزید کا محتاج سمجھتا ہے۔ جیسے خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کہ 24 گھنٹے میں ان کو خلافت مل گئی لیکن 20 سال تک اپنے شیخ سے جدا نہیں ہوئے۔ اس سے پتا چلا کہ جو حقیقی طالب ہوتے ہیں سو دفعہ بھی ان کو کوئی کہہ دے کہ تم منتہی ہو، وہ کہیں گے کہ یہ آپ کا حسن ظن ہے اللہ تعالیٰ آپ کے ظن کے مطابق میرے ساتھ معاملہ کرے لیکن وہ اپنے آپ کو منتہی نہ کہتا ہے نہ سمجھتا ہے۔ البتہ بعد میں جو دوسروں کی تربیت کرتا ہے وہ امتثالِ امر کے طور پہ کرتا ہے، حکم سمجھ کر کرتا ہے، اپنے آپ کو قابل نہیں سمجھتا۔ اپنے آپ کو قابل نہ سمجھنے کی وجہ سے اس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے اپنے پر نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ کی اس کے ساتھ مدد ہوتی ہے۔ شیخ سالک کی روحانی تربیت نہیں چھوڑتے لیکن اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ پہلے شیخ سے صرف اپنے بارے میں بات کرتے تھے اب دوسروں کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں، ان کو مزید سیکھنا پڑتا ہے کیونکہ دوسرے لوگوں کا کام ان کے ذمے آ گیا ہے۔ جب تک شیخ حیات ہوتے ہیں وہ ان کے ساتھ اپنا رابطہ جوڑے رکھتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کرے، جب شیخ ہی دنیا سے رخصت ہو جائے تو پھر وہ اللہ پر توکل کر کے کام کرتا ہے اور اسی نسبت کو اپنے دل میں رکھ کر اللہ پاک سے زاری و فریاد کرتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ مدد فرمائے اور اللہ تعالیٰ اپنی مدد کے ذریعہ اس کی روحانی تربیت بھی کرتے ہیں اور اس سے کام بھی لیتے ہیں۔ میں نے اس لئے زیادہ تفصیل کے ساتھ یہ بات کی کہ ذرا سا بھی اپنے اوپر انسان کو نیک گمان ہو جائے تو یہ راستہ بند ہو جائے گا۔ اس وجہ سے حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلفاء میں تھے، ان کا ایک شعر ہے:

سمجھے جو خود کو منتہی ابھی وہ مبتدی نہیں

جو اپنے آپ کو منتہی سمجھ لے وہ تو ابھی مقتدی بھی نہیں ہے۔ لیکن چونکہ امتثال امر کے طور پر اس کو کام کرنا پڑتا ہے لہذا وہ سلسلے میں شیخ سے مشورہ بھی کرتا رہتا ہے اور کام بھی کرتا رہتا ہے۔ اللہ سے فریاد بھی کرتا ہے، زاری بھی کرتا ہے۔ اللہ پاک اس کی مدد بھی فرماتے ہیں اور کام چلتا جاتا ہے اور یہ اپنی نظروں میں گرتا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہی طے کرتے ہیں۔ ابھی چائنیز ساتھی نے اپنے سوال میں داتا دربار کا ذکر کیا تھا اور واقعہ سنایا تھا کہ کوئی صاحب حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے پاس گئے تھے انہوں نے خواب میں ان کو بتایا تھا کہ آپ اولیاء میں سے ہیں اور وہ صاحب چونکہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتے تھے اس لئے بار بار کہتے کہ میں کیسے ہو سکتا ہوں؟ یہ ایک انفرادی واقعہ ہے جس سے صرف یہ مراد تھی کہ مراد اور مرید کا فرق واضح ہو جائے۔ وہ شخص مراد تھا لہذا اس کو پہلے سے بتایا کہ تم اولیاء میں سے ہو حالانکہ وہ اس راستے سے ابھی نہیں گزرا تھا، وہ کسی کا مرید نہیں تھا۔ اس واقعے کی تفصیلات کی فی الحال ضرورت نہیں۔

سوال 6:

کیا اپنے شیخ کو اپنی حالت بتانے میں بھی تصنع ہو سکتا ہے اور اگر ہو سکتا ہے تو اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

جواب:

جی ہاں ہو سکتا ہے۔ تصنع دو قسم کا ہوتا ہے ایک کی اجازت ہے اور دوسرے کی اجازت نہیں ہے۔ جس کی اجازت ہے وہ یہ ہے کہ اپنے شیخ کے سامنے انسان زیادہ محتاط رہے اور کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو شیخ کو نا پسند ہے تاکہ اس کو کدورت نہ ہو جائے۔ یہ چیز اگرچہ وہ بے تکلف ہو کر رہا ہے اس معنی میں وہ تصنع میں آ سکتا ہے۔ لیکن سوال چونکہ اپنی اصلاح کی نیت سے کر رہا ہے اس وجہ سے اس کی اجازت ہے۔ اس کو ہم نہیں روکیں گے۔ لیکن وہ تصنع جس سے وہ اپنے احوال کے لحاظ سے مختلف نظر آئے اور ایسے احوال بتا دے جو شیخ کو پسند ہے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہ ہو تو اس کی اجازت نہیں ہے۔ جیسے ڈاکٹر کو کوئی اپنی غلط کیفیت بتائے گا تو اس کا علاج نہیں ہو سکے گا کیونکہ ڈاکٹر اس کی دوائی کا نسخہ اس کی بات سن کر ہی لکھتا ہے۔ اگر اس نے اس کو claforan دے دیا، injection لگا دیا اور اس کو فائدہ نہیں ہوا تو یہ بہت خطرناک بات ہے۔ کیونکہ وہ آخری ڈوزوں میں جاتا ہے۔ یہ کہتا ہے میں ٹھیک ہو گیا ہوں جبکہ وہ غرق ہو گیا۔ ڈاکٹر سمجھا claforan نے اثر دکھا دیا اور اس کو اثر ہوا نہیں تو یہ اس کو بہت خطرناک نتیجہ پہ لے جائے گا۔ ڈاکٹر بے فکر ہو جائے گا اور یہ تباہ ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی شیخ کو اپنے بارے میں غلط بات بتائے گا تو یہ اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ مثلاً اس کو تکبر سے شیخ نے روکا، ڈانٹا، بعد میں اس نے اپنی کچھ ایسی کیفیت بتا دی جو تکبر کے نہ ہونے کی علامت ہوتی ہے یا تواضع کی چیز ہوتی ہے اور شیخ سمجھا کہ یہ میری ڈانٹ سے صحیح ہو گیا حالانکہ تکبر اس میں باقی ہے تو یہ بے چارہ مارا گیا۔ یہ بڑا نقصان ہو گیا۔ ایسی صورت میں تصنع کی اجازت نہیں ہوتی۔

سوال 7:

دوسرا سوال یہ ہے کہ دفاتر کے ٹیلی فون سے اپنا ذاتی ٹیلی فون کر سکتے ہیں یا نہیں جب کہ وہ لوگ دفاتر میں موبائل بھی نہیں لے جانے دیتے اور سگنل بھی نہیں ہوتے۔

جواب:

جو ٹیلی فون پر مامور ہے اگر اس کو یہ condition دی گئی ہے کہ اس سے آپ ذاتی فون بھی کر سکتے ہیں تو پھر کوئی حرج نہیں ہے اور اکثر دفاتر والوں کو اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ذاتی فون رکھنے پر انہوں نے پابندی لگائی ہوتی ہے، چنانچہ یہی ایک ذریعہ ہوتا ہے۔ کوئی اپنے گھر فون کرنا چاہے گا تو کیسے کرے گا؟ اکثر گھر کے لئے بھی ان کو ٹیلی فون دئیے جاتے ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ ذاتی نمبر کی اجازت ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ باقی ہر شخص کے حالات الگ ہوتے ہیں اگر اس کے علاوہ کچھ اور بات ہے تو اس کے بارے میں فی الحال میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مفتیانِ کرام سے رابطہ کیا جائے۔

سوال 8:

کچھ سرکاری محکموں والے Toll plaza پر اپنا سروس کارڈ دکھا کر Toll tax نہیں دیتے جب کہ Toll plaza پر لکھا ہوتا ہے کہ صرف motorway والے اور آرمی کے تیر کے نشان والی گاڑیاں مستثنیٰ ہیں۔ کیا سرکاری محکمے والے ٹھیک کرتے ہیں یا غلط کرتے ہیں؟

جواب:

یہ چونکہ معاہدے کے حساب سے ہوتا ہے اور اَلاِعلَانُ کَالمُعَاہِدہ یعنی اعلان معاہدے کی طرح ہوتا ہے۔ پس اگر اعلان یہی ہے کہ صرف یہ دو مستثنیٰ ہیں تو پھر اپنے محکمے سے پوچھیں کہ وہ مستثنی ہیں یا نہیں؟ اگر وہ کہہ دے کہ ہم مستثنیٰ نہیں ہیں تو اس پر عمل کریں اور اگر وہ کہتا ہے آپ مستثنیٰ ہیں تو اس کو بتا دیں کہ فلاں جگہ پہ تو یہ لکھا ہوا تھا۔ اس کو ٹھیک کروا دیں۔ پھر وہ جانیں اور ان کا کام جانے۔ لیکن جب تک وہ اعلان نہیں ہٹا تو اس کو مستقل سمجھ کر اس پر عمل کریں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس یہ جاننے کا کوئی اور source ہے ہی نہیں لہذا ان کے اعلان پر عمل کرنا ضروری ہے۔ باقی تفصیلات مفتی صاحبان سے پوچھیں۔


سوال 9:

اگر کسی نے اس طرح کا کوئی خواب دیکھا جیسے علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ والے واقعے میں ہے تو کیا اس کو کسی اور کو بتانا ممنوع ہے؟

جواب:

اگر وہ شخص کسی کا مرید ہے تو اپنے شیخ کو بتانا چاہیے۔ اگر وہ کسی کا مرید نہیں ہے تو صرف اہل الرائے صالحین جن پر اعتماد کیا جا سکتا ہو کہ یہ ہمارے خیر خواہ ہیں ان کو بتا دیا جائے تاکہ اس کی صحیح صورت ان کو سمجھائی جائے۔ باقی عوام کو نہ بتائے کیونکہ اس سے نقصان یہ ہوتا ہے کہ اکثر جو انعامات ہوتے ہیں وہ بند ہو جاتے ہیں۔

سوال 10:

حضرت عام وظائف و ذکر میں زیادہ مقدار کی اہمیت ہے یا معیار کی، ایمان کے ساتھ کیا گیا ہے۔

جواب:

حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک تو دوام ہو چاہے تھوڑا ہو، اگر کوئی وظیفہ بنا لے تو اس کو مستقل طور پہ کر سکے۔ جہاں تک باقی اذکار کا تعلق ہے جن میں تعداد متعین نہیں ہے یا اس کو وظیفہ نہیں بنایا بلکہ اپنی مرضی پہ چھوڑ دیا اس میں دونوں کی ضرورت ہے۔ معیار کا بھی فائدہ ہے اور مقدار کا بھی فائدہ ہے۔ لیکن اگر مقدار کی وجہ سے معیار خراب ہوتا ہو تو پھر معیار کی اہمیت زیادہ ہے۔ کیونکہ مقدار کے لئے معیار کو خراب نہ کیا جائے۔ جیسے کوئی 100 رکعات نمازِ نفل پڑھے اور اس میں سجدے کے اور رکوع کے ہاتھ پیر توڑ دے تو وہ نماز زیادہ افضل ہے یا دو رکعات ایسے پڑھے جو تمام سنت اور مستحبات اور واجبات اور فرائض کی رعایت کے ساتھ ہو؟ ظاہر ہے یہ زیادہ اچھی ہے۔ معلوم ہوا معیار کے لحاظ سے جتنی زیادہ کوشش کر سکیں اتنا زیادہ مفید ہے۔

سوال 11:

ایک شخص فجر کے بعد نہیں سوتا کیونکہ اس وقت سونا مناسب نہیں بلکہ وہ ظہر سے کچھ قبل سو جاتا ہے لیکن کوئی شخص ساری رات کسی وجہ سے جاگا ہو اور فجر کے بعد اس نے سونا ہو لیکن فجر کے بعد سونا مناسب نہیں ہے، تو کیا وہ بھی ظہر سے پہلے سو سکتا ہے؟

جواب:

ایک عام حالات ہوتے ہیں اور ایک خاص حالات ہوتے ہیں۔ عام حالات میں تو ایسا ہی ہے البتہ خاص حالات میں جیسے ایک شخص مسافر ہے یا ایک شخص بیمار ہے یا کسی شخص کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ ساری رات کام کرتا ہے۔ آپ اس کو کہیں کہ صبح میں برکت ہے، آپ صبح کو نہ سوئیں تو وہ چند دن ہی برداشت کر سکے گا اس کے بعد بیمار ہو جائے گا۔ معلوم ہوا خاص حالات میں خاص ترتیب ہو گی لیکن عام حالات میں یہی ہے کہ جتنا سنت کے قریب ہو اتنا زیادہ بہتر ہے۔ اقرب الی السنۃ، ھذا ھو الافضل فی المستحبات۔

سوال 12:

بعض علماء کے اقوال سے واضح ہوتا ہے کہ مناظرہ اور مباحثہ نہیں کرنا چاہیے۔ تو کیا مناظرہ نہیں کرنا چاہیے؟

جواب:

جب انسان کسی آیت یا ایک حدیث کو معیار بنا کر فیصلہ کرتا ہے تو غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ اس میں نقصان ہو جاتا ہے۔ سارے قرآن کو سامنے رکھنا چاہیے، ساری احادیث کو سامنے رکھنا چاہیے پھر اس کے مجموعی تاثر سے اس کی حدود قائم ہو جاتی ہیں۔ من کل الوجوہ جب ہم آیات کریمہ اور احادیث شریفہ دیکھتے ہیں پھر سب پتا لگ چکا ہوتا ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے نجران والوں کے ساتھ مناظرہ کیا تھا، جوابات دئیے تھے۔ بلکہ مباہلہ ہوا تھا جو مناظرے سے بھی آگے کی بات ہے۔ لہذا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو مناظرہ کر رہے ہیں وہ غلط کر رہے ہیں۔ مناظرے کے وقت مناظرہ ٹھیک ہے، خاموشی کے وقت خاموشی ٹھیک ہے۔

ہمارا ایک نو مسلم جرمن دوست ہے جس کا نام Alfred ہے۔ وہ اکثر اسلام پر لیکچرز دینے کے لئے جایا کرتا تھا۔ ایک دن کہیں لکچر دینے جانے لگا تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے لیکچر کی تیاری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں! میں نے کہا: کیوں نہیں کی؟ اس نے کہا: Allah will send right words at right time or right silence at right time یعنی اللہ پاک صحیح الفاظ صحیح وقت پر بھیج دیں گے یا صحیح خاموشی صحیح وقت پر بھیج دیں گے۔ انبیاء بھی اسی کو دیکھتے تھے کہ اللہ پاک کی مرضی اس وقت کیا ہے؟ جس وقت خاموشی اللہ کی مرضی ہوتی تھی اس وقت خاموشی اور جس وقت جواب دینا اللہ کی مرضی ہوتی تھی اس وقت جواب دیتے تھے۔ جس وقت سختی کا موقع ہوتا تھا تو سختی کرتے تھے جیسے موسیٰ علیہ السلام۔ اور جس وقت نرمی کا حکم ہوتا تھا تو نرمی کرتے تھے جیسے عیسیٰ علیہ السلام۔ معلوم ہوا اس کے لئے ایک متعین قانون بنانا بہت مشکل ہے۔ انبیاء میں بھی کافی سختی کرنے والے حضرات بھی ہیں اور بہت نرم بھی ہیں۔ صحابہ میں بھی دونوں طرح کے حضرات موجود ہیں، جیسے نرمی والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سختی والے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ اولیاء کرام میں بھی ایسا ہی ہے۔ بعض لوگ جمالی ہوتے ہیں اور بعض لوگ جلالی ہوتے ہیں۔ یہ صرف اللہ تعالی کے آلے ہیں۔ بنیادی طور پر اپنے نفس کی فنا مطلوب ہے۔ انسان نفس کے شر سے نکل جائے۔ جو سختی نفس کے لئے ہے وہ جائز نہیں، جو نرمی نفس کے لئے ہے وہ جائز نہیں۔ جو سختی اللہ کے لئے ہے وہ جائز ہے، جو نرمی اللہ کے لئے ہے جائز ہے۔ پس ہمارا کام تو یہ ہے کہ اپنی اتنی اصلاح کر لیں کہ اپنے نفس کے شر سے نکل جائیں۔ اس کے بعد جو حالت ہمارے لئے مناسب ہو گی اللہ تعالیٰ ہم پر طاری فرما دیں گے۔ واللہ اعلم بالصواب


سوال 13:

حضرت کیا مرید اپنے شیخ کے راز پوچھ سکتے ہیں؟

جواب:

ہمارے مسلک میں جائز نہیں۔ ہمارے مسلک میں شیخ سے اس کے راز پوچھنا بے ادبی ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے ان کے معمولات پوچھے کہ آپ کا معمول کیا ہے؟ حضرت نے فرمایا: شیخ سے ان کے معمولات پوچھنا بے ادبی ہے۔ اگر معمولات پوچھنا بے ادبی ہے تو جن اسرار کا وہ امین ہے عند اللہ ان کا پوچھنا کتنی بڑی بے ادبی ہو گی؟ لہذا جو وہ خود بتا دیں اس پہ شکر کریں اور جس سے رک جائیں تو اس کو اپنے لئے مفید سمجھیں کہ یہی ٹھیک ہے۔

سوال 14:

حضرت مستحبات پر اگر استقامت ہو تو اس میں کوئی حرج تو نہیں؟ بقیہ فرائض و واجبات پر مستحبات کی وجہ سے کبھی کوئی خلل واقع ہوتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

نماز کے احکامات فرائض، واجبات، سنن موکدہ اور سنن زائدہ یعنی مستحبات یہ سب ہیں۔ پس فرائض تو سارے پورے ہونے چاہئیں ان کے بغیر چارہ نہیں، واجبات بھی نفس سے نکلنے کے لئے ضروری ہیں، سنن موکدہ ملامت سے نکلنے کے لئے ضروری ہیں۔ البتہ مستحبات کے اندر تفصیل ہے۔ اگر ایک شخص کسی ایک مستحب پر استقامت پیدا کرنے کے لئے پہلے عمل کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس ایک مستحب کے لئے باقی نماز کے فرائض و واجبات خطرے میں نہ ڈالے۔

سوال 15:

حضرت جیسے کہتے ہیں کہ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے۔ میں نے پانی پیا اللہ تعالیٰ نے پیاس بجھائی۔ دوائی لی اللہ پاک نے شفا دے دی۔ لیکن عام محاورے میں جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں ڈاکٹر سے دوائی لی، بہت اچھی دوائی تھی جس کے بعد مجھے شفا ملی۔ یہ بات ہماری پہلی بات کے خلاف ہوتی ہے۔ کیا اس طرح کہنا درست ہے؟

جواب:

اچھا سوال ہے اللہ تعالیٰ مجھے اس کا اچھا جواب نصیب فرمائے۔ مسلمان اور دہریہ میں فرق یہ ہے کہ مسلمان اسباب کو اللہ پاک کا حکم سمجھ کر مانتا ہے اور اس کی موثریت کو منجانب اللہ سمجھتا ہے لہذا وہ مسبب الاسباب کو نہیں بھولتا۔ جبکہ دہریہ اسباب کو موثر ذاتی سمجھتا ہے اور مسبب الاسباب کو نہیں مانتا۔ پس اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا ہے اور اس ڈاکٹر کو وہ منجانب اللہ ذریعہ سمجھتا ہے تو اس کے کہنے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ اللہ کو بھول کر اگر ڈاکٹر کی تعریف کرتا ہے تو پھر یہ غلط ہے۔ لیکن اس کا پتا کیسے چلے گا؟ لہذا دونوں باتیں جمع کر لے۔ دل میں کہہ دے اللہ کے فضل سے ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا آ گئی اور اللہ پاک نے اس کو شفا دلوائی۔ دونوں باتیں جمع ہو گئیں۔ پس باقی لوگوں کو بھی پتا چل گیا کہ مسبب الاسباب کو بھی مانتا ہے اور سبب کو بھی۔

وَ مَا عَلَيْنَآ إلَّا البَلَاغُ