سالکین کی تربیت، اصلاح، معمولات اور احوال سے متعلق سوالات کے جوابات

مجلس نمبر 63

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال نمبر 1:

اگر مجلس میں اپنے شیخ موجود ہوں تو کیا مجلس میں موجود دوسرے لوگوں کا اثر ہوتا ہے یا نہیں اور اس اثر سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟ اور اگر مجلس میں موجود سالکین ہوں تو کیا ان کے اثر سے بھی اپنے آپ کو بچانا چاہئے؟

جواب:

سوال اچھا ہے، لیکن بات نا سمجھی پہ موقوف ہے۔ اول یہ بات کہ جب اپنے شیخ کے ساتھ موجود ہوں تو دوسرے سالکین کے اثر سے کیسے بچیں؟ اس حوالے سے عرض ہے کہ: ’’اَلْحِکْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَحَيْثُ وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا‘‘ (ترمذی شریف: 2687)

ترجمہ: دانائی کی بات مؤمن کی گم شدہ میراث ہے، جہاں سے بھی پائے وہ حاصل کر لینے کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘

البتہ یہ ضروری ہے کہ اس سے وحدتِ مطلب میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ وحدتِ مطلب اسے کہتے ہیں کہ وہ اپنے لئے شیخ کو سب سے زیادہ مفید سمجھے بمقابلہ دوسروں سے۔ افضل کہنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انسان کو کیا پتا کہ میرا شیخ افضل ہے یا دوسرا افضل ہے۔ یہ تو اللّٰہ تعالیٰ کو پتا ہے یہ چھپی ہوئی بات ہے۔ لیکن یہ بات ضرور ہے کہ اس کے لئے اپنا ہی شیخ مفید ہوتا ہے جیسے باپ کا افضل ہونا ضروری نہیں ہے، جس طرح باپ مفید ہونا ضروری ہے، باپ مفید تو ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ کوئی بھی اپنے باپ کو افضل کہے۔ لیکن کہہ سکتا ہے کہ میرے باپ میرے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔ اسی طرح شیخ کا افضل ہونا ضروری نہیں ہے لیکن اس کے لئے مفید وہی ہوتا ہے۔ اس کے بعد تربیت میں کسی سے اثر نہیں لینا چاہئے، تربیت کا معاملہ صرف شیخ کے ساتھ ہونا چاہئے کسی اور کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے، نہ اپنا حال کسی پہ کھولنا چاہئے نہ اس کے بارے میں کسی سے استفسار کرنا چاہئے، یہ معاملہ صرف شیخ کے ساتھ ہے۔ باقی جہاں تک صحبتِ صالحین کا تعلق ہے تو انسان ہر صالح آدمی کی صحبت کو اختیار کر سکتا ہے۔ میں اپنے شیخ سے پوچھ لیتا کہ حضرت فلاں بزرگ کے ساتھ میری ملاقات ہوئی تو حضرت فرما دیتے کہ یہ صحبتِ صالحین ہے۔ لہذا صحبتِ صالحین کی نیت سے بیٹھنے میں تو کوئی حرج نہیں ہے، کوئی اور مسئلہ بھی نہیں ہے۔ لیکن اس کا اثر اتنا انسان کے اوپر نہیں آنا چاہئے کہ شیخ اس کے سامنے کم نظر آنے لگے۔ بلکہ ہمارے بزرگ فرماتے ہیں کہ جب کبھی کسی اور سے فائدہ محسوس ہو تو اس میں بھی یہ تصور کر لے اور سوچے کہ یہ میرے شیخ کا فیض ہے۔ مثال کے طور پر کسی شیخ کے تعلق ہونے کی وجہ سے انسان کی قبولیت ہو جائے تو اب اللّٰہ تعالیٰ اس کو کسی پتھر سے دلوا دے، کسی اینٹ سے دلوا دے، آسمان سے ویسے گرا دے، کسی آدمی سے دلوا دے، کسی خواب میں دیکھا دے، الغرض کسی بھی طریقے سے اس کو مل گیا تو بس وہ اللّٰہ تعالیٰ کے طریقے ہیں، جس طریقے سے بھی دلوانا چاہئے، لیکن برکت تو ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم جب تک اپنے شیخ سے بیعت نہیں تھے تو اس وقت ہمارے خاندان کے سارے بزرگ پہلے سے موجود تھے، ختم تو نہیں ہو گئے تھے، لیکن جس وقت ہم نے حضرت سے بیعت کی تو ان کے فیوض و برکات متوجہ ہو گئے۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اور دوسرے حضرات سب ما شاء اللّٰہ متوجہ ہو گئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ وغیرہ کی برکات موجود تو تھیں، لیکن ہم لوگ ان کے لینے کے اہل نہیں تھے، شیخ کی مجلس میں وہاں سے بھی حاصل ہونے لگا۔ اب اگر کسی کے اندر لوگوں سے لینے کی استعداد پیدا ہو جائے تو یہ اگر شیخ کی برکت ہے تو اس کو ہم یہی سمجھیں کہ یہ شیخ کی برکت سے مجھے مل رہا ہے۔ تو پھر شیخ سے توڑ بھی نہیں ہے۔

سوال کا اگلا حصہ ہے کہ کیا مجلس میں موجود دوسرے صالحین کے اثر سے بچنا چاہئے؟ بچانے کی کیا ضرورت ہے؟ بالکل نہیں بچانا چاہئے، یہ الگ بات ہے کہ اپنے شیخ سے ان کو افضل نہیں سمجھنا چاہئے۔

سوال نمبر2:

کسی ایسے شخص کی برائی کرنا جس کو مخاطب نہ جانتا ہو کیا یہ بھی غیبت میں داخل ہے اور اگر اس شخص کو پتا نہ چلے کہ میری برائی بیان کی ہے پھر بھی اس سے معافی مانگنی چاہئے؟

جواب:

برائی بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اگر انسان اس سے صرف نفس کا مزہ لیتا ہو، کسی کے ساتھ ذرا شکرنجی ہے اور اب اس کی برائی کرنے میں بھی بے شک نام نہ لیا جاتا ہو لیکن اس کو مزہ آتا ہو تو اس وقت نہ بیان کرے۔ لیکن اگر وہ اصلاح کے کسی کام میں مؤثر ہے، مثلاً کوئی بات کہہ دے کہ فلاں ایک جھوٹا آدمی تھا اس کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تھا۔ تو اب وہ اصلاح میں شامل ہو گیا، نام نہیں لیا گیا، لہذا اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا، لیکن بلا وجہ بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے، اگر وہ اپنے نفس کی خوشی کے لئے کر رہا ہے تو مناسب نہیں ہے اور اگر وہ اصلاح کے لئے کر رہا ہے تو اگر بغیر نام کے کر رہا ہے تو ٹھیک ہے اور جب تک بغیر نام کے کر رہا ہے تو وہ کینے میں تو شمار ہو سکتا ہے مگر غیبت میں شمار نہیں ہو گا۔ بہر حال اگر صرف اصلاح کے لئے کر رہا ہے تو وہ غیبت میں شمار نہیں ہو گا۔ ہاں اگر کسی ایسے مسئلے میں بات ہو جس سے نفس خوش ہو اور کینہ ہو تو پھرٹھیک نہیں ہے۔

سوال نمبر 3:

اپنے شیخ کے سامنے ادب کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا ایسا ہونا چاہئے جیسے عام حالت میں ہو اور نیت یہ ہو کہ غلطی ہو گی تو شیخ اصلاح کر دے گا۔

جواب:

اپنے شیخ کے سامنے قصداً غلطی تو نہیں کرنی چاہئے، یہ تو غلط بات ہے۔ البتہ اگر کمزوری کی وجہ سے غلطی ہوتی رہے تو اس کی وجہ سے شیخ کے سامنے بیٹھنا نہ چھوڑے، کیونکہ یہ سمجھے کہ چلو اگر میں ایسا ہوں تو ان کی برکت سے میری اصلاح ہو جائے گی، یہ نہیں کہ خود قصداً غلطی کرے، لیکن اس کی وجہ سے شیخ کی مجلس سے اپنے آپ کو محروم نہ کرے۔ اپنے آپ کو خواہ مخواہ شیخ کے سامنے نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ میں غلطی کروں، کیونکہ وہاں اور لوگ بھی ہوں گے، شیخ کو صرف بتانا تو نہیں ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے شیخ کے سامنے بیٹھنا نہ چھوڑے کیونکہ اگر یہ قدرتی انداز میں رہتا ہے اور کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس سے اصلاح ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ محتاط ہونا چاہئے، کیونکہ اللّٰہ جل شانہ کے سامنے بھی اگر انسان حیا کر لے تو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ تو شیخ کے سامنے حیا کرنا اگر اللّٰہ پاک سے حیا کا ذریعہ بن جائے تو یہ صحیح بات ہے۔

سوال نمبر 4:

آپ کے متعلقین میں جن کے پاس انٹرنیٹ موجود ہے اگر ایسے سوالات جن سے ان کی حالت بھی آپ کو معلوم ہو جائے وہ ای میل کے ذریعے سے آپ کو بھیجیں اور آپ ان کے سوالات کے جوابات پیر، منگل کے سوالات میں دے دیں تو یہ کیسا ہے؟ سوالات ایسے ہوں جو مجلس میں کیے جا سکتے ہیں لیکن مسائل کو باقی لوگوں سے مخفی رکھنا چاہتا ہوں، آسانی کے لئے ای میل میں عنوان کے ساتھ بھیج دیئے جائیں۔ مثلاً Questions for Monday and Tuesday وغیرہ۔

جواب:

بالکل مناسب ہے اور بعض ای میلز کے جواب میں بغیر نام لئے دیتا ہوں، کیونکہ اس سے عام لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ میں خطوط میں بھی بعض لوگوں کا نام نہیں لیتا، بغیر نام لئے جوابات دیتا ہوں، تو ایسے طریقے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح اگر کوئی سوالات کرتا ہے تو دوسرے لوگوں کا بھی اس میں فائدہ ہے۔

سوال نمبر 5:

استدراج سے کیا مراد ہے؟

جواب:

وہ کام جو عام طور پر نہ کیا جائے، عام حالات میں نا ممکن ہو تو اگر وہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ہے تو وہ معجزہ ہو گا اور اگر ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ہو تو وہ کرامت ہو گی۔ اور اگر وہ ولی کے ہاتھ پہ نہیں ہے بلکہ کسی ایسے آدمی کے ہاتھ پر ظاہر ہوا ہے جس کا عقیدہ صحیح نہیں ہے یا عمل صحیح نہیں تو وہ استدراج ہو گا۔

سوال نمبر 6:

اگر کوئی شخص بیعت نہیں ہے مگر وہ مجلس میں بیٹھتا ہے تو کیا اس کو فائدہ ہوتاہ ہے؟

جواب:

اگر کوئی شخص بیعت نہیں ہے اور وہ تعلیم کی نیت سے مجلس میں بیٹھتا ہے تو یقیناً اس کو صحبتِ صالحین کا فائدہ ہوتا ہے، لیکن سلسلے کی جو مخصوص برکات ہیں وہ اسے حاصل نہیں ہوتیں کیونکہ وہ بیعت کے ساتھ مخصوص ہیں، لہذا وہ برکات تو ان کو بیعت کے ساتھ ہی حاصل ہوں گی۔ البتہ صحبتِ صالحین کی برکات تو یقیناً حاصل ہوں گی، کیونکہ حکم صحبتِ صالحین کا ہے۔ ذمہ داری اس کی اپنی ہو گی کیونکہ وہ صحبتِ صالحین اپنی مرضی سے تلاش کر رہا ہے اور اس پر عمل بھی اپنی مرضی سے کر رہا ہے۔ میرے خیال میں میں نے اس پر تفصیل کے ساتھ بات کی تھی کہ بیعت کی ضرورت ہے، کیونکہ میں خود لوگوں کو کہتا رہا ہوں کہ بیعت سنت مستحبہ ہے، تو مجھے خود ایک قسم کی تنگی سی محسوس ہوئی کہ شاید یہ میں آج کل کے حالات کے لحاظ سے بات ٹھیک نہیں کر رہا ہوں، کیونکہ آج کل کے حالات کے لحاظ سے لوگوں کو بیعت سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیعت میں انسان یکسو ہو جاتا ہے اور یکسوئی کے بارے میں حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یکسوئی ہو چاہے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو‘‘ یعنی انسان یکسو جاتا ہے، پھر وہ کسی اور کے بارے میں سوچتا ہی نہیں کہ میں کسی اور سے پوچھوں گا یا کسی اور سے کہوں گا، اس کے بارے میں اس کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ اب سے میرا راستہ یہی ہے۔ اس لحاظ سے پھر زیادہ فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ یکسوئی کا جو اپنا اثر ہے وہ اس کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے، جو کہ فنی لحاظ سے بھی ہے، عملی لحاظ سے بھی ہے، لیکن برکت کے لحاظ سے بھی ہے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ سلاسل کے ذریعے سے جو برکت عطا فرمائی ہے وہ یقیناً ہوتی ہے۔ میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں۔ ایک خاتون نے مجھے خط لکھا کہ آپ خواب میں آئے ہیں اور کوئی خوشی کا موقع ہے تو آپ نے مجھے پانچ سو روپے کا ایک نوٹ دے دیا کہ یہ آپ لے لیں، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: یہ پانچ سو روپے کا نوٹ سلسلے کی طرف سے ہے۔ پھر آپ نے دوسرا پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور فرمایا کہ یہ پانچ سو روپے کا نوٹ میری طرف سے ہے۔ کہتی ہے میں نے خواہش ظاہر کی کہ حضرت آپ جو اپنی طرف سے دے رہے ہیں اس پہ اگر آپ دستخط کر دیں تو بہت فائدہ ہو گا۔ کہتی ہیں کہ جب میں نے آپ کو وہ دیا تو وہ سفید کاغذ بن گیا اور اس کے ایک کونے پر آپ نے اپنے دستخط کر دئیے، آپ کا وہ دستخط کرنا تھا کہ وہ پورا کاغذ دستخطوں سے بھر گیا، کچھ دستخط عربی میں تھے کچھ فارسی میں تھے۔ میں نے اس سے کہا یہ جو ہم نے آپ کو سلسلے کی طرف سے نوٹ دیا ہے یہ واقعی سلسلے کی طرف سے آپ کو فائدہ ہوا ہے اور دوسرا جو میں نے اپنی طرف سے آپ کو دیا ہے تو اصل میں آپ سادات میں سے ہیں اور میں بھی سید ہوں تو یہ سادات کی نسبت سے آپ کو ملا ہے۔ پھر آپ نے مجھے جو آٹو گراف کا کہا اور میں نے آٹو گراف دے دیا اور پھر اس کے ساتھ ہی بہت سارے دستخط بھی ہو گئے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ دستخط اِدھر تو شیخ کے ہوتے ہیں لیکن اُدھر پورا سلسلہ ساتھ ہوتا ہے، یہ باقی دستخط سلسلے کے ہیں، جتنے ہمارے بزرگ تھے ان سب نے دستخط کر دیے تھے کہ ٹھیک ہے۔ اب یہ چیز بغیر بیعت کے نہیں آئے گی۔

ڈاکٹر حمزہ خان صاحب تھوڑے سے شرارتی ہیں ڈاکٹر فدا صاحب چونکہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت نہیں تھے تو ان کو انہوں نے کہا کہ حضرت آپ جب بیٹھے ہوتے ہیں تو آپ کو تھوڑی دیر کے لئے انعکاسی فیض ملتا ہے اور اس کے بعد پھر ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہ ہمیں مستقل فیض ملتا ہے کیونکہ ہم تو بیعت ہیں۔ یہ انہوں نے کہیں پڑھا ہو گا حالانکہ وہ پنج پیری تھے۔ بہرحال واقعتاً شیخ کا جو فیض ہوتا ہے مرید کے لئے وہ بند نہیں ہوتا، بلکہ یہاں تک ہوتا ہے کہ شیخ مجلس میں موجود نہ بھی ہو، کسی اور جگہ ہو اور اس کو مرید کا خیال آ جائے تو اس سے بھی فائدہ ہوتا ہے، صرف خیال آ جائے اور اس طرف خیال چلا جائے کہ فلاں مرید ہے تو اس کا بھی فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ ایک پورا سلسلہ ہے اور سلسلے کی برکات ہیں۔ بہر حال میں نے تفصیل سے اس پر بات کی ہے، میں نے سوچا کہ کم از کم میں اپنی ذمہ داری پوری کر دوں، کیونکہ میں اکثر کہتا رہا ہوں اور اب بھی کہتا ہوں کہ یہ سنت مستحبہ ہے، یہ بات فن کے لحاظ سے تو صحیح ہے، ایسی ہی بات ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بیعت کو بے وقعت سمجھا جائے، کیونکہ بیعت اس اصلاح کی لائن کی اہم کڑی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے جتنے بھی ادارے ہیں ان میں سے آپ کو کوئی بھی ایسا نظر نہیں آئے گا جو بغیر بیعت کے پہنچا ہو، حالانکہ بڑے بڑے لوگ ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ہیں، ان کو بیعت کرنی پڑی، حضرت خواجہ چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کرنی پڑی، خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کرنی پڑی، حضرت مولانا مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کرنی پڑی، حضرت امام غزالی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو کرنی پڑی۔

یہ جتنے بھی اکابر ہیں یہ بیعت کے ذریعے آئے ہیں، بیعت کے بغیر ان میں سے کوئی نہیں ہے، کم از کم میری معلومات کے مطابق کوئی نہیں ہے۔ بلکہ آپ ﷺ نے خواب میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ کو میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس بھیجا۔ یہ چیزیں حقیقت ہیں۔ بہرحال صحبتِ صالحین کا انکار نہیں ہے، صحبتِ صالحین کا فائدہ تو بہرحال ملتا ہے، کتنا ملتا ہے؟ وہ اس کی طلب اور ظرف کے مطابق ملے گا، تاہم ملے گا ضرور۔

سوال نمبر 7:

سارا دار و مدار طلب پر ہے کہ جس میں جتنی طلب ہو گی اس کو اتنا ہی فائدہ ہو گا؟

جواب:

یہ تو بالکل پکی بات ہے کہ جتنا انسان طلب والا ہو اور اپنے آپ کو محتاج سمجھے، اتنا ہی زیادہ اس کو فائدہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک عالم آدمی آیا اور اس کو اپنی علمیت کا اندازہ ہے اور اس میں علمیت کا استحضار ہے لہذا وہ اس طرح بیٹھا ہوتا ہے جیسے عام آدمی ہوتا ہے، کوئی کام کی بات آ جائے تو سن لی ورنہ اتنا زیادہ متوجہ ہو کے نہیں بیٹھتا۔ لیکن اگر وہ عالم ہو اور طلب کے ساتھ آئے اور اس کے جو شیخ ہیں وہ عالم نہیں ہیں تو اس عالم کی ضرورت کے مطابق مشکل علمی باتیں اس کی زبان سے اللّٰہ پاک نکالے گا جن کو وہ عالم خود کھول رہا ہو گا، اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے۔ علماء کو اپنی شان کے مطابق ملتا ہے جیسے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اپنی شان کے مطابق مل رہا تھا۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اپنی شان کے مطابق ملتا تھا، حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنی شان کے مطابق ملتا تھا۔ حالانکہ حاجی صاحب عالم نہیں تھے لیکن چونکہ یہ حضرات عالم تھے تو ان کو آخر علماء کی طرح فائدہ ہوتا تھا۔ لیکن اگر وہ اپنے علمیت کا استحضار رکھتے تو یہ کیسے ہوتا۔ میں آپ کو اس پہ ایک واقعہ بتاتا ہوں جو ہمارے خاندان کا واقعہ ہے۔ حضرت احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے ایک بزرگ گزرے ہیں جیسے کہ آپ سب کو پتا ہے کہ اس وقت یہ عام رواج تھا کہ لوگ گروپ بن کر قافلے کی شکل میں شیخ کی تلاش میں دور دور جاتے تھے۔ ایک قافلے میں حضرت بھی تھے۔ ظاہر ہے گاڑیاں تو نہیں ہوتی تھیں پیدل جانا ہوتا تھا، کسی جگہ پر پڑاؤ کیا، وہاں پر ایک گائیوں کو چرانے والا گاؤبان تھا، وہ گائے چرا رہا تھا اور جہاں یہ بیٹھے ہوئے تھے، درخت کے نیچے سستا رہے تھے، انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے باتیں کیں کہ کہاں جانا چاہئے؟ وہاں اپنے اپنے تجربات بتا رہے تھے تاکہ متعین ہو، وہ جو گاؤبان صاحب تھے ان کی صورت اتنی اچھی نہیں تھی، انہوں نے زمین پہ ایک لکیر کھینچی اور فرمایا: اس زمین پر مجھ سے بڑا ولی کوئی نہیں ہے۔ باقی حضرات نے ان سے بیعت کر لی، تو احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ میں تھوڑی سی درویشی تھی اور عالم بھی تھے، جب سب بیعت کر رہے تھے تو انہوں نے سوچا کہ جب سب کر رہے ہیں تو میں اکیلے کدھر جاؤں؟ تو انہوں نے بھی بیعت کر لی۔ لیکن وہ بیعت دل سے نہیں کی۔ اب یہ حضرات جہاں سے تھے وہاں چلے گئے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق لینے لگے اور بڑے مقامات طے کرنے لگے اور احمد صاحب جو ہمارے سلسلے میں بڑے دادا ہیں، ان کو ترقی نہیں ہوئی۔ اب ان کو احساس ہوا کہ یہ تو گڑ بڑ ہوئی ہے، یہ میرے ساتھی اتنی جلدی جلدی ترقی کرنے لگے ہیں، میں ادھر کا ادھر ہوں، آخر کیا مسئلہ ہے، تو پھر انہوں نے واقعتاً دل سے بیعت کر لی اور دل سے ان کی طرف راغب ہو گئے، لیکن وہ فاصلہ کم ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا، وہ ابتدا والی بات کا اثر تھا، ان کو ذرا سا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس کے بعد مائی صاحبہ سے گزارش کی کہ میری سفارش کر دیں ذرا میرے اوپر بھی نظر کرم فرما دیں۔ انہوں نے ان کی سفارش کی لیکن پھر بھی کام نہیں ہوا۔ اب ان کی حالت پتلی ہو رہی تھی کہ کیا وجہ توجہ نہیں کر رہے، بالآخر اپنے آپ کو چٹائی میں لپیٹ لیا اور حضرت کے سامنے اپنے آپ کو گرا دیا کہ آئیں گے تو میرے اوپر قدم رکھیں گے اور متوجہ ہو جائیں گے، حضرت کو ٹھوکر لگی تو کہا: کون؟ انہوں نے کہا: احمد! جو زعمِ سیادت اور علمیت میں ابھی تک گرفتار تھا یعنی عالم ہونے کے تصور کی وجہ سے اور سید ہونے کے تصور کی وجہ سے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ کہتے ہیں یہ چیز حضرت کو اتنی پسند آئی کہ انہوں نے فوراً ان کو اٹھا لیا اور گلے لگا لیا اور اپنے ساتھ مسجد لے گئے، بڑی توجہ فرمائی، نظر کرم فرمائی، آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ وہ رکاوٹ صرف یہی تھی۔ چنانچہ بعض لوگوں کو احساس ہوتا ہے لہذا ان کو فائدہ ہوتا ہے، اسی مجلس میں بعض لوگ بیٹھے ہوتے ہیں ان کو فائدہ نہیں ہوتا۔ یہ سلسلے کی بات ہوتی ہے۔ اصل میں اگر درمیان میں کوئی مسئلہ نہ ہو تو جو فیض آ رہا ہوتا ہے وہ سب کو جا رہا ہوتا ہے، اس وجہ سے اپنے آپ کو خالی ذہن کر کے، اپنے آپ کو علم کے زعم سے بالکل فارغ کر کے بیٹھنا چاہئے۔ مفتی نعیم صاحب کو اکثر آپ نے یہاں دیکھا ہو گا حالانکہ وہ مفتی ہیں، مفتی کوئی معمولی آدمی تو نہیں ہوتا، یہاں آتے ہیں تو بالکل عاجزی کے ساتھ آتے ہیں، حتی کہ مسئلے کا جواب بھی نہیں دیتے، حالانکہ ان کو خوب مسئلے آتے ہیں۔ اس لحاظ سے پھر ان کو اللہ تعالیٰ وسعت دیتے ہیں۔ انہوں نے خود ہمارے ساتھیوں کو کہا تھا کہ میں شاہ صاحب سے زیادہ تصوف پڑھا ہوا ہوں لیکن سمجھ یہاں پر آئی ہے۔ بس اللّٰہ پاک نے ان کو دلوا دیا حالانکہ میں ان سے زیادہ تو نہیں جانتا۔ لیکن جب وہ ہوتے تو اس کی طاقت اپنی ہے۔ یہی بات ہے کہ اگر عارف بھی ہو تب بھی وہ اپنی علمیت کی طرف نہ دیکھے۔ سید ہو تو اپنے سید ہونے کی طرف نہ دیکھے، کسی میں کوئی اور خوبی ہو تو وہ اس کی طرف نہ دیکھے۔ بلکہ اپنے آپ کو سراپا محتاجی بنائے۔ مجھے حضرت میخ بند بابا جی کی زیارت کے لئے گئے تھے تو انہوں نے نصیحت فرمائی تھی، فرمایا: دیکھو اپنے شیخ کے سامنے نہ سید بنو یہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔

سوال نمبر 8:

شیخ کی بے ادبی کس قدر نقصان دہ ہے؟

جواب:

حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں، ان کے الفاظ ہیں، بڑے لوگوں کی بڑی بات ہوتی ہے۔ فرماتے ہیں: شیخ کی بے ادبی معصیت سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ اللّٰہ پاک صمد (بے نیاز) ہے، کوئی توبہ کر لے تو سب کچھ معاف ہو جاتا ہے، لیکن شیخ تو انسان ہے اس سے یہ توقع نہیں کرنی چاہئے۔ لہذا فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ شیخ کی معمولی بے ادبی سے اتنا نقصان ہوتا ہے کہ گناہوں سے توبہ کرنے سے گناہ فوراً معاف ہو جاتے ہیں شیخ کی بے ادبی بعض دفعہ میں بہت خطرناک ہوتی ہے۔ مثلاً حضرت کے پاس دو لڑکے آتے تھے حضرت کے پاس اکثر لوگ دعاؤں کے سلسلے میں آتے تھے۔ کہنے لگے کہ دعا کر دیجئے، حضرت نے دونوں کے لئے دعا کر دی، خدا کی شان، ایک کا کام ہو گیا جس کام نہیں ہوا اس نے کہا حضرت آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا: میں نے دونوں کے لئے دعا کی ہے۔ پھر اس نے کہا کہ حضرت آپ نے میرے لئے دعا نہیں کی۔ حضرت نے فرمایا میں نے دعا کی ہے اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے جس دعا کو قبول فرمائے اور جس کو قبول نہ فرمائے۔ اس طرح بار بار ہوا، حتی کہ حضرت کو جواب دینا پڑا کہ خاموش ہو جاؤ، تھوڑی دیر کے بعد اس کو خود احساس ہو گیا کہ میں نے غلط کیا ہے۔ اس نے حضرت سے معافی مانگی کہ مجھے معاف کر دیں۔ پھر ذرا تھوڑی سی تنبیہ ہو گئی، اس نے پھر حضرت سے کہا حضرت آپ معاف کر دیں مجھ سے غلطی ہو گئی میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ حتی کہ وہ رونے لگا، اب وہ معافی تو مانگ ہی رہا تھا حضرت بہت زیادہ معاف کرنے والے تھے، بہت زیادہ نرم مزاج تھے سختی تو حضرت کے قریب سے بھی نہیں گذری تھی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ شیخ کے معاملے میں محتاط ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ کے معاملے میں بھی بہت محتاط ہونا ضرروی ہے۔ بزرگوں نے فرمایا: باخدا دیوانہ باش و با محمدﷺ ہوشیار۔ ’’خدا کے سامنے تو بے شک دیوانہ بن جاؤ لیکن آپ ﷺ کے سامنے تو ہوش میں رہنا۔‘‘

سوال نمبر 9:

حضرت علم کے زعم میں صوفیاء کی بے ادبی کتنی خطرناک ہے؟

جواب:

بہت خطرناک ہوتا ہے۔ حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہوتی ہے کچی روٹی ایک ہوتی ہے جلی روٹی، کچی روٹی یہ ہے کہ جو لوگ نا سمجھی کی وجہ سے، جہل کی وجہ سے غلطیوں میں مبتلا ہیں اور وہ راستے سے گمراہ ہیں، ان کو علم حاصل ہو جائے گا، تھوڑی سی محبت حاصل ہو جائے گی تو ٹھیک ہو جائیں گے۔ لیکن جو علم کی وجہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں، علم کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں، عناد کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں، فرمایا: ان کا کوئی علاج نہیں ہے۔ گستاخی اور بے ادبی کا راستہ بڑا خطرناک ہوتا ہے اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰہ جس کو اللہ تعالیٰ بچا لے، مگر عموماً یہ راستہ بڑا خطرناک ہے۔ اس وجہ سے بے ادبی اور گستاخی نہیں کرنی چاہئے۔

سوال نمبر 10:

بیعت ہونے سے پہلے شیخ کو پرکھنا کرنا کیسا ہے؟

جواب:

جب تک کسی نے بیعت نہیں کی ہے اس وقت تک progress اور ٹیسٹ وغیرہ سب کچھ کر سکتے ہیں اگرچہ بے ادبی تو پھر بھی نہ کرے۔ لیکن جب ایک دفعہ بیعت کا فیصلہ کر لیں تو پھر شیخ کے جو آداب ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے، ان کی بات کو ماننا چاہئے۔

سوال نمبر 11:

اگر کوئی مجلس میں کچھ بے غرض ہو کر بیٹھے تو کیا نقصان ہے؟

جواب:

واقعتاً بعض دفعہ نہ جاننے کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے۔ جیسے میں نے پہلے ایک دن آپ سے عرض کیا تھا کہ ایک عالم صاحب مجلس میں بڑے بے غرض ہو کر بیٹھتے ہیں۔ اگرچہ ان کو تو کوئی مسئلہ نہیں ہے کیونکہ وہ تو بیعت نہیں ہیں، لیکن ان کو دیکھا دیکھی دوسروں کو نقصان ہو سکتا ہے وہ بھی ذرا لا پروا ہونا شروع ہو جائیں گے تو ان کو پھر وہ فائدہ نہیں ہو گا، اس وجہ سے میں نے آپ کو کہا کہ ان کو ذرا سمجھائیں کہ یہ خانقاہ ہے مسجد یا مدرسہ نہیں ہے اس میں خانقاہی آداب ضروری ہیں۔ جیسے پارلیمنٹ میں اسپیکر صاحب ہوتے ہیں اگر کوئی بہت زیادہ بولے تو وہ اس کو آڈر دیتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں ہوتا ہے وہاں کنٹریکٹ آف کورٹ ہوتا ہے ورنہ پھر لوگ فری ہونے کی کوشش کریں گے اس لئے ان کو باقاعدہ نظام بنایا پڑتا ہے۔

دعا:

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

میں سرِ مُو اس کے رستے سے ذرا بھی نہ ہٹوں

یعنی بال برابر بھی۔

میں سرِ مُو اس کے رستے سے ذرا بھی نہ ہٹوں

یہ میرا ذوق بنے ایسی طبیعت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

تو میرے دل میں رہے اور میرا دل اس کی طرف

تو ہی جب چاہے تو اس پر استقامت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

حق مجھے حق ہی نظر آئے اور باطل باطل

میرے بیدار ہوں نصیب وہ مجھے فراست دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

سامنے میرے ہمیشہ ہو تیرا حسن ازل

اسی میں مرنے کی تو نفرت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اپنے محبوب کی سیرت سے روشناس فرما

پھر اتباع میں اس کی حسن سیرت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

ہر ادا اس کی یقیناً تو تجھے پیاری ہے

اس کے پانے کی مجھے بھی تو سعادت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

تو نے ہی ڈالی تھی دل میں جو اس کی فکر امت

اس کے فیض سے مجھے بھی درد امت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

میرے مولا میں ہوں کمزور اور ناتواں انساں

میں تجھ کو راضی کروں اس کی تو قوت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

میں تجھے یاد کروں اور تو مجھے یاد رکھے

فہم قرآن ہو نصیب ذوق تلاوت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

میں اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

میں تیرے سامنے گھم سم کھڑا ہونا سیکھوں

تو مجھے دیکھ کے خوش ہو ایسی حالت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

مجھ سا ناچیز کبھی تیری ثنا کیا کر سکے

کچھ بھی ہو میرے خدایا قبولیت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اب جان و مال و وقت و اولاد ہو شبیر کی قبول

اس کے پیش کرنے کی مجھ کو تو استطاعت دے دے

اپنے محبوب کی یا رب تو محبت دے دے

اس کی سنت پہ چلوں اس کی تو ہمت دے دے

چوٹ:

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

جو ہے گم گشتہ منظرِ راہ سے

ان کو راستہ بھی دکھائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

غلطیاں اور گناہ جو کر لیں

ایک توبہ سے مٹائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

ہم کہیں ہم سے ہے مہربان زیادہ

خود سے خود سے ہی ملا ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

ہو کے ہر چیز میں ہے ظاہر بھی تو

کس طرح خود کو چھپائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

دل میرا تجھ پہ مر مٹا ہے تو

اس کو بھی کھینچ کے لائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

میں کسی اور کا کیا ذکر کروں

جب سے دل میں میرے آئے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

کر قبول اب یہ بندگی میری

بندہ اپنا جو بنائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

راستہ اپنے حبیب کا دے دے

اپنوں کو جس پہ چلائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

جاگنے دینا نہ ان کو تو کبھی

جن رذائل کو سلائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

اب کسی اور کی پروا کیا کروں

میرے دل میں جب سمائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود ہی بچائے ہے تو

کیا کہوں یہ جو ہیں اشعار شبیر

خود ہی تو سکھائے ہے تو

چوٹ پہ چوٹ کھلائے ہے تو

اور پھر خود سے ہی بچائے ہے تو

وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ