اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
غوث، قطب اور ابدال کے متعلق میں کچھ وضاحت فرما دیں۔
جواب:
دنیا میں دو قسم کے نظام پائے جاتے ہیں، ایک تشریعی نظام ہے اور دسرا تکوینی نظام ہے۔
تشریعی نظام قرآن و سنت پر مبنی نظام ہے کہ اللّٰہ پاک ہم سے کیا چاہتے ہیں، ہم کیا اعمال کریں، کون سا عمل فرض ہے، کون سا واجب، کون سا عمل سنت ہے، کون سا مستحب ہے؟ چاہے وہ عمل قلبی ہو چاہے وہ قالبی ہو، یعنی انسان کے یہ اعمال اور ان کی یہ نوعیتیں تشریعی نظام ہے، اس کے لئے قرآن و سنت میں احکامات موجود ہیں۔ ایسے نظاموں کو چلانے کے لئے علماء بھی ہیں اور مرشدین بھی ہیں، علماء مسئلہ بتاتے ہیں اور مرشدین اس پر عمل کرواتے ہیں اور دین پر چلنے کی صورتیں بتاتے ہیں، سمجھاتے ہیں، تربیت کرتے ہیں۔ یہ سب تشریعی نظام ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ قرآن و سنت سے جو پابندیاں ہمارے اوپر لگ رہی ہیں وہ تشریعی نظام ہے، انسان اس کا مکلف ہے اور اس پر چلنے کا پابند ہے۔
دوسرا تکوینی نظام ہے۔ تکوینی نظام اسے کہتے ہیں کہ یہ کام کیسے ہو رہے ہیں، بارشیں کیسے آتی ہیں اور اس طرح فصلیں کیسے اگتی ہیں، سیلاب، جنگیں، لوگوں کا پیدا ہونا اور مر جانا، یہ سب تکوینی نظام ہے۔ اس میں بھی پھر دو قسم کے نظام ہیں۔ ایک تو یہ ظاہری نظام ہے جس کو ہم سائنس کہتے ہیں، یعنی جو چیزیں سائنس کے مطابق ہوتی ہیں جیسے آگ میں کوئی ہاتھ ڈالتا ہے تو جل جاتا ہے، پانی آگ کے اوپر پڑتا ہے تو آگ بجھ جاتی ہے، اس طرح ہواؤں میں چیزیں اڑ جاتی ہیں، یہ سارے کے سارا سائنس کا نظام ہے اور تکوینی نظام کی بات ہے۔ لیکن اس سائنس کے نظام کے پیچھے ایک بڑا نظام ہے اور وہ اللّٰہ جل شانہ کے احکامات ان چیزوں تک پہنچانے کا نظام ہے۔ مثلاً فرشتے ہیں، کیونکہ فرشتے مامور ہیں، جیسے جبرئیل علیہ السلام کچھ کام کر رہے ہیں، میکائیل علیہ السلام بارشوں پر مامور ہیں، اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے، عزرائیل علیہ السلام ملک الموت ہیں یعنی موت کے لئے ذریعہ ہیں۔ اسی طرح پھر ان کے ساتھ اپنی اپنی فوج ہے، جیسے جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ لیلۃ القدر میں ’’فِیْ کَبْکَبَةٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ‘‘ یعنی ملائکہ کے جھرمٹ میں اترتے ہیں۔ عزرائیل علیہ السلام کے پاس اپنی فوج ہے، میکائیل علیہ السلام کے پاس اپنی فوج ہے۔ اسی طرح ہر ایک کے پاس اپنی اپنی فوج ہے۔ تو یہ تکوینی نظام ہے. یہ جو سامنے نظر آ رہا ہے یہ سائنس کا نظام ہے یہ تو نظر آتا ہے، لیکن اس کے پیچھے جو فرشتوں والا نظام ہے وہ نظر نہیں آتا، کوئی مسلمان اس سے انکار کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا۔ جس طرح فرشتوں کی خاص مخلوق اللّٰہ پاک نے اس مقصد کے لئے پیدا کی ہے اور جس طرح بعض انسانوں کو اللّٰہ پاک قبول فرماتے ہیں یعنی انہیں پیغمبر بناتے ہیں اسی طرح بعض لوگوں کو تکوینی امور کے لئے اللہ تعالیٰ قبول فرماتے ہیں، جس میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا بس اللّٰہ پاک جن کو چن لیں تو ان سے پھر کام لیتے ہیں۔ یہی کام جو میں نے بتائے ہیں، بڑے بڑے فیصلے کروائے جاتے ہیں فلاں جگہ پر یہ ہونا چاہئے، فلاں جگہ پر یہ ہونا چاہئے، جیسے سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت دی تھی ان کا تخت چلتا تھا اور موسی علیہ السلام خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے، خضر علیہ السلام کچھ کر رہے تھے جس کی موسی علیہ السلام کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مخفی نظام کو چلا رہے ہیں ان میں سے قطب، غوث، ابدال ہوتے ہیں، ان کی مخصوص تعداد ہوتی ہے، پوری دنیا چالیس ابدال ہوتے ہیں، اسی طرح ہر شہر میں کوئی قطب ہوتا ہے اور بالکل اس طرح سب جگہوں پر اس کا نظام پایا جاتا ہے۔ یہ نظام فرشتوں کے نظام کی طرح ہے کہ جیسے فرشتوں کو لوگ نہیں دیکھتے ان لوگوں کو بھی نہیں جانتے اور اگر یہ لوگ جانے جائیں تو پھر یہ وہاں سے چلے جاتے ہیں پھر وہاں ٹھہرتے نہیں ہیں، ان کو اللّٰہ تعالی نے کچھ صلاحیتیں دی ہوتی ہیں، جیسے ابدالوں کو اللّٰہ تعالی نے بڑی صلاحیتیں دی ہوتی ہیں وہ طے ارض کرتے ہیں، مثلاً ابھی ان کو امریکہ جانے کا حکم ہوا تو وہ امریکہ پہنچ جائیں گے ان کو جہاز کا ٹکٹ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہیں وہ انسان ہی، لیکن اللّٰہ پاک نے ان کو اس نظام کے لئے بنایا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہمیں انکار نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ حدیث شریف میں بھی اس کی طرف اشارے موجود ہیں اور ہمارے اکابر بھی اس کو مانتے ہیں، ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا گیا کہ فلاں صاحب کہتے ہیں کہ اس اس طرح ہوتا ہے، حضرت نے فرمایا کہ عام لوگوں میں یہ باتیں نہیں ہونی چاہئے لیکن انکار کوئی نہیں کر سکتا ہے موجود تو ہیں۔ لہذا ایسی چیزوں میں انکار کی گنجائش نہیں ہے، البتہ اس کو سمجھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ اللّٰہ پاک نے ہمیں اس کا مکلف نہیں بنایا، اگر سمجھنے کی ضرورت ہوتی تو سب کو سمجھا بھی دیا جاتا۔ جیسے فرشتوں کے کاموں کو ہم سمجھتے نہیں ہیں، لیکن وہ حقیقت ہیں ان سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔ بہر حال یہ کام لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا، اگر موسی علیہ السلام کو سمجھ نہیں آیا تو ہم میں سے کسی کو کیا سمجھ آئے گا۔ جب موسیٰ اور خضر علیھما السلام کا یہ واقعہ قرآن میں آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: کاش موسی علیہ السلام کچھ انتظار کر لیتے، کچھ صبر کر لیتے تو ہمیں کچھ اور باتیں بھی معلوم ہو جاتیں۔ یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’کچھ اور باتیں معلوم ہو جاتیں‘‘ اس میں بھی کچھ سبق ہے۔ بہر حال ہم لوگوں کو اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔
ہماری کتاب ’’تصوف کا خلاصہ‘‘ میں تقریباً ساڑھے چار سو سوالوں کے جوابات ہیں، میرے خیال میں اس میں پڑھنے کی چیزیں ہیں، اگر کوئی ضرورت سمجھتا ہے تو اس کو پڑھنا چاہئے۔ یہ جو سوال کیا گیا ہے اس کتاب میں اس کا جواب بھی موجود ہے۔
سوال نمبر 2:
اتباع صرف تشریعی نظام کی ہے؟
جواب:
جی ہاں! جیسے میں نے ابھی عرض کیا کہ تکوینی نظام کے سمجھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہم اس کے مکلف نہیں ہیں۔ اتباع صرف مرشد کی ہوتی ہے یا عالم کی ہوتی ہے، عالم کی اتباع مسئلہ سیکھنے کے لئے اور مرشد کی تربیت کے لئے۔ بعض لوگ مجذوبوں کے پیچھے بھاگتے ہیں کیونکہ مجذوبوں میں اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں، لیکن وہ دعا بھی کسی کے لئے نہیں کرتے، نہ کسی کی تربیت کرتے ہیں، نہ کسی کو مسئلہ بتاتے ہیں، پھر کس لئے ان کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ وہ تو گائیڈڈ میزائل کی طرح ہیں جس چیز کے پیچھے ان کو بھیج دیا جائے وہ وہاں چلے جائیں گے وہ کام کر لیں گے اور اس کے بعد پھر ختم۔ راکٹ کو کیا پتا کہ میں نے کیا کرنا ہے، اس کو تو بس صرف سمت دی گئی ہے لہذا جو لوگ مجازیب کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ بیچارے صرف سائے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ان مجازیب بزرگوں کے پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ عالم سے مسئلہ پوچھو، مرشد سے تربیت کرواؤ۔ ان دو کے ساتھ ہمارا کام ہے۔
سوال نمبر 3:
حضرت ورع کیا ہے؟
جواب:
ورع تقویٰ کو کہتے ہیں۔ متورّع متقی کو کہتے ہیں۔
سوال نمبر 4:
حضرت تمام مسائل کا حل اسی میں ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللّٰہ کے حوالے کر دے کہ بس جو ہے اللّٰہ کا ہے، بس اسی میں راضی ہوں۔ لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دعا کرنا بھی چھوڑ دیں۔
جواب:
یہ بالکل صحیح ہے کہ اللّٰہ پر سب کچھ چھوڑنا چاہئے، لیکن یہ تو نہیں کر سکتے کہ مسئلہ بھی ہمارے لئے اللّٰہ تعالی پوچھے، اور یہ کہ میں شیخ کے پاس نہ جاؤں میری تربیت بھی اللّٰہ تعالی خود ہی کر دے۔ کسی بھی چیز کے اسباب کو اختیار کیا جاتا ہے، اسباب کو اختیار کر کے نتیجہ اللّٰہ پہ چھوڑا جاتا ہے۔ میرے خیال میں اسی نتیجے کی بات میں دوسرے سوال کا جواب بھی ہو گیا کہ دعا ایک سبب ہے، اللّٰہ مسبب الاسباب ہے، سبب اختیار کر لو اور دعا کر لو، نتیجہ اللّٰہ پہ چھوڑ دو، اسی کو تفویض کہتے ہیں۔
سوال نمبر 5:
حضرت بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کسی جگہ پہ غصہ بہت زیادہ آتا ہے اور اس میں تیزی آ جاتی ہے۔
جواب:
غصہ یہ ایک امر طبعی ہے اور اس کو کنٹرول کرنے کا حکم ہے اور یہ ایک طاقت ہے اگر اس کو صحیح استعمال کیا جائے تو بڑا مفید ہے اور اگر غلط استعمال ہو تو بڑا نقصان دہ ہے۔ میں تو اکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ اگر غصہ ہی کرنا ہے تو آپ کو اپنے نفس پہ غصہ آنا چاہئے کیونکہ پہلوانی کرنی ہے تو اپنے نفس کے ساتھ کرو۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’اصل پہلوان وہ ہے جو اپنے نفس کو پچھاڑے۔‘‘ اس لئے غصہ تو بڑی اچھی چیز ہے لیکن نفس کے خلاف ہو نفس کے مطابق نہ ہو، نفس کی وجہ سے نہ ہو۔ غصہ کسی وجہ سے بھی آ سکتا ہے، طبیعت میں ذکر کی وجہ سے کچھ لطافت آ جاتی ہے اس لطافت کی وجہ سے چیزیں زیادہ محسوس ہونے لگتی ہیں، پہلے وہ محسوس نہیں ہو رہی ہوتیں اب محسوس ہو رہی ہیں، اگر وہ غلط ہوں تو غصہ تو آئے گا، لیکن اس کو نفس کے مطابق نہیں کرنا چاہئے، شریعت کے مطابق کرنا چاہئے، جس چیز پر غصہ ضروری ہو اس پر ہونا چاہئے اور جس چیز پر غصہ مناسب نہ ہو اس پر نہیں ہونا چاہئے، اور اتنا ہونا چاہئے جتنا کہ حکم ہے اس سے زیادہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔ جیسے ایک کیل کو ٹھوکنے کے لئے چھوٹی ہتھوڑی کی ضرورت ہے آپ ایک گُرز کے ذریعے سے اس کو ماریں گے تو نہ کیل رہے گا نہ وہ چیز رہے گی۔ اسی طرح اس میں جتنا زور ضروری ہو اتنا ہی دینا چاہئے۔ بچے کو سمجھانے کے لئے اتنا تھپڑ نہ لگاؤ کہ وہ بیچارہ بہرہ ہو جائے، اس کو اتنی سزا دو کہ وہ محسوس تو کرے لیکن اس کو کوئی نقصان نہ پہنچے، یہ بہت ضروری بات ہے۔ سزا و جزا سے انکار نہیں ہے لیکن ہر ایک چیز کی اپنی ایک حد ہوتی ہے۔
سوال نمبر 6:
ولی سے کیا مراد ہے؟
جواب:
ولی سے مراد اللّٰہ تعالی کا دوست ہے؟
سوال نمبر 7:
اولیاء اللّٰہ کی کتنی قسمیں ہیں؟
جواب:
اولیاء دو قسم کے ہوتے ہیں، تشریعی اولیاء اور تکوینی اولیاء۔ تشریعی اولیاء انبیاء کے نائب ہوتے ہیں اور لوگوں کی ہدایت پر مامور ہوتے ہیں، ان میں سب سے بڑے کو قطبِ ارشاد کہتے ہیں۔ تکوینی اولیاء فرشتوں کی طرح ہوتے ہیں ان کے ذمے جو کام ہوتے ہیں وہ کرتے رہتے ہیں، یہ عموماً خستہ حال ہوتے ہیں، اس لئے عام لوگ ان کو پہچان نہیں سکتے، ان میں سب سے بڑے کو قطبِ تکوین کہتے ہیں۔ بعض اولیاء کو اللّٰہ تعالی نے صرف اپنے لئے پیدا کیا ہے، وہ اللّٰہ کی محبت میں مست ہوتے ہیں، ان کو کسی اور چیز کی پروا نہیں ہوتی، ان میں سے بعض کو اللّٰہ تعالیٰ نے مخلوق کے اندر سے چھپایا ہوتا ہے، اس لئے ان کو کوئی اور شخص نہیں جانتا۔
سوال نمبر 8:
کہا جاتا ہے کہ اولیاء میں بعض مجذوب بھی ہوتے ہیں۔ یہ مجذوب کون ہوتے ہیں؟
جواب:
عوام مجذوب ان کو سمجھتے ہیں جو شریعت پر نہیں چلتے لیکن ان کا مرتبہ بہت بڑا ہوتا ہے، اس لئے لوگ ان کے پیچھے پیچھے ہوتے ہیں۔ اس بات کی اصلاح ہونی چاہئے۔ مجذوب اصل میں ان کو کہتے ہیں جن کو اللّٰہ تعالی اپنی طرف کھینچے۔ ان میں سے بعض کا ہوش و حواس بالکل ختم ہو جاتا ہے، جس سے وہ مرفوع القلم ہو جاتے ہیں، اس لئے ان پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے، ان حضرات کا مقام اللّٰہ تعالی کے نزدیک تو ہوتا ہے، لیکن لوگوں کے لئے یہ قابل تقلید نہیں ہوتے۔ اللّٰہ تعالی کے محبوب ہونے کی وجہ سے ان کی بے ادبی نہیں کرنی چاہئے، اس لئے اگر کبھی سامنے ہوں تو اللّٰہ تعالی کی خوشنودی کی خاطر ان کی خدمت بھی کرنی چاہئے، لیکن ان کی تقلید بالکل نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اس سے حضور ﷺ کی شریعت کی توہین ہو گی، جس کی قطعی اجازت نہیں ہے۔ بعض کا ہوش و حواس ختم تو نہیں ہوتا لیکن چونکہ راستہ ایک ہی جست میں طے کیا ہوتا ہے اس لئے یہ حضرات عموماً دوسروں کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ البتہ ان میں سے بعض کو بعد میں اصلاح کے طریقوں سے گزارا جاتا ہے جس سے ان کو راستہ بھی نظر آتا ہے، ان کو باقاعدہ سلوک طے کرایا جاتا ہے۔ ایسے حضرات کو مجذوب سالک کہتے ہیں ان کی تقلید میں بڑی برکت ہوتی ہے کیونکہ مقبول بھی ہوتے ہیں اور عارف بھی۔
سوال نمبر 9:
فنا فی الشیخ کسے کہتے ہیں؟
جواب:
یہ ایک اصطلاح ہے۔ فنا فی الشیخ کے کئی طریقے ہیں، ایک طریقہ سلوک کا ہے اور ایک طریقہ جذب کا ہے۔ جذب میں محبت کے ذریعے سے سارا کچھ طے کروایا جاتا ہے، بندے کو اللّٰہ کے ساتھ محبت ہوتی ہے اس لئے اللّٰہ پاک کے حکم کی کوئی خلاف ورزی اس سے نہیں ہوتی، وہ اللّٰہ کی محبت میں مست ہوتا ہے، لیکن اب اللّٰہ کے ساتھ محبت کیسے ہو؟ اس کے لئے پھر تین مرحلے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے اس کی ذات کا کوئی ادراک کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی باریکی کو جان سکتا ہے، اس کی قدرت تو سامنے ہے لیکن چونکہ وہ خود سامنے نہیں ہے لہذا اس کے ساتھ براہ راست محبت عموماً بہت مشکل ہوتی ہے۔ آپ ﷺ چونکہ لوگوں کے درمیان رہے ہیں لہذا آپ ﷺ کے واقعات موجود ہیں، سیرت موجود ہے، احادیث موجود ہیں اور آپ ﷺ کا روضہ اقدس موجود ہے، لہذا آپﷺ محسوسات کے قریب ہو جاتے ہیں اس لئے جس کو آپ ﷺ کے ساتھ بھی محبت ہے وہ نسبتاً اللّٰہ کے قریب جلدی ہو سکتا ہے کیونکہ آپﷺ محسوسات کے زمرے میں ہیں۔ لیکن شیخ چونکہ درمیان میں ہوتا ہے ان کو انسان دیکھتا ہے، ان سے ملتا ہے، ان کی چیزیں اس پہ کھلتی ہیں، لہذا یہ محسوسات کا سب سے زیادہ مظہر ہوتے ہیں، اس لئے شیخ کے ساتھ پہلے محبت کا ہونا زیادہ فطری ہے۔ لہذا فطری طریقے سے پہلے شیخ کے ساتھ محبت کی جاتی ہے اور جب شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے کہ انسان اپنے آپ کو بھول جائے، تو یہ فنا فی الشیخ ہے۔ میں اس کی تشریح یوں کرتا ہوں کہ شیخ کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر اتنا گم ہو جائے کہ اپنے تقاضے یاد نہ رہیں۔ چونکہ شیخ فنا فی الرسول ہوتا ہے، رسول اللّٰہ ﷺ کی سنت پہ چل رہا ہوتا ہے، آپ ﷺ کے طریقے پہ چل رہا ہوتا ہے، آپ ﷺ کی باتیں کر رہا ہوتا ہے لہذا شیخ کے ساتھ رہ رہ کر یہ محبت اس کو منتقل ہو جاتی ہے اور وہ فنا فی الرسول ہو جاتا ہے یعنی رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں اور سنت میں اپنے آپ کو بھول جاتا ہے یہ فنا فی الرسول ہوتا ہے۔ اور آپ ﷺ کی احادیث شریف اور آپ ﷺ کے طریقوں میں جب اللّٰہ کی بات بار بار آتی ہے اور اللّٰہ جل شانہ کا تذکرہ آتا ہے اور اللّٰہ پاک کے ساتھ محبت کی بات آتی ہے تو آپ ﷺ کی محبت سے ترقی کر کے آدمی فنا فی اللّٰہ ہو جاتا ہے، اللّٰہ کی محبت میں سب کچھ بھول جاتا ہے۔ تو یہ تین مرحلے ہیں: فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول اور فنا فی اللّٰہ۔ یہ انتظامی طور پر ہیں، تربیت کے طور پر ہیں، ورنہ مقصود فنا فی اللّٰہ ہونا ہی ہوتا ہے، اللّٰہ تعالی تک پہنچنا ہوتا ہے، اللّٰہ پاک کے ساتھ قرب حاصل کرنا ہوتا ہے، یہ باقی دو ذریعے ہیں، فنا فی الرسول فنا فی الشیخ سے بڑا ذریعہ ہے، لیکن فنا فی الشیخ پریکٹیکل ہے کہ انسان پہلے قریب سے فائدہ اٹھاتا ہے پھر اس کے بعد آگے جاتا ہے۔ ہمارے مشائخ نے ایسے ہی کیا ہے، سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بہت بڑے عالم گزرے ہیں، ان کو اللّٰہ جل شانہ نے جب حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے ذریعے سے فیض پہنچایا تو یہ اپنے شیخ میں ایسے گم ہو گئے کہ بس انہی کے ہو کے رہ گئے اور پھر ادھر سے ترقی کر کے اللّٰہ تعالی نے ان کو فنا فی اللّٰہ تک پہنچا دیا۔ یہ اللّٰہ کے ساتھ محبت کرنے والے حضرات میں ہیں، لیکن شیخ کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
کس نے بھر دی یہ صدائے دل نواز
ہر رگ جاں ساز اِلَّا اللّٰہ ہے
کوئی ہو آواز میرے کان میں
ہر صدا آواز اِلاَّ اللّٰہ ہے
تو یہ شیخ کے ذریعے اللّٰہ تک پہنچ رہے ہیں۔
شیخ کے بارے میں کہا:
ذکر حق سے ایسے قلع کامل ہوا
محو دل سے نقش ہر باطل ہوا
چاروں جانب بارشِ انوار ہے
جلوہ فروہ وہ میں ہے کامل ہوا
دولت کونین سے محروم ہے
جو بھی تیرے یاد سے غافل ہوا
آگے مقصود کی بات ہو رہی ہے۔
قیل و قال مدرسہ کو چھوڑ کر
شیخ جی رنگوں میں اب شامل ہوا
یعنی وہ اہل محبت میں شامل ہو گیا۔
آج ہی پایہ از مزا ایمان کا
جیسے قرآن آج ہی نازل ہوا
کیسے؟
ایسے کچھ انداز سے تقریر کی
پھر نہ پیدا شبۂ باطل ہوا
اپنے شیخ کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہوں ایسے انداز سے تقریر کی کہ سارے شبے ختم ہو گئے، بس لگتا ہے جیسے آج ہی قرآن نازل ہوا ہے۔
بزم میں دیکھا کہ اس ناز سے
جس طرف دیکھا نشانہ دل ہوا
بول کر کیا جانیے کیا دے دیے
حق سے اترا کہ شیدا دل ہوا
قید پائے حلقۂ پیری مغا
پھر نہ اٹھا جو یہاں داخل ہوا
اس لئے میں کہتا ہوں کہ ان چیزوں کو پریکٹیکل سمجھو۔ اب میں آپ کو بہت عجیب اشعار سنا رہا ہوں۔ اگر میں یہ تمہید نہ باندھتا تو شاید آپ لوگ مجھ پر فتویٰ لگاتے اور حضرت پر بھی لگا دیتے۔
پا کر تجھے اپنے کو میں کیا بھول گیا ہوں
یہ فنا فی الشیخ ہے یا نہیں ہے
پا کر تجھے اپنے کو میں کیا بھول گیا ہوں
ہر سود و زیا دوسرا بھول گیا ہوں
جس دن سے میرے دل میں تیری یاد بسی ہے
ہر ایک کو میں تیرے سوا بھول گیا ہوں
آتا بھی خدا بھی تیرے صدقے میں مجھے یاد
گویا کہ بظاہر میں خدا بھول گیا ہوں
اب دیکھیں یہ کیا ہے؟ یہ کون کہہ رہا ہے؟ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کہہ رہے ہیں جو اتنے بڑا عالم ہیں، علامہ ہیں۔
مقصد یہ ہے اللّٰہ کو بھولے کہاں ہیں، بھولے نہیں ہیں بلکہ وہ تیرے صدقے میں یاد آتے ہیں، گویا آپ میرے لئے ذریعہ ہیں۔ اللّٰہ پاک چونکہ وراء الوراء ہے وہ خود سے سمجھ میں نہیں آ سکتے، کسی کے سمجھانے سے آتے ہیں، کسی کے پانے سے آتے ہیں، چنانچہ حضرت یہی فرماتے ہیں:
ہر سمت نظر آتے ہیں ہر وقت وہ مجھ کو
دورئ مسافت کا گلہ بھول گیا ہوں
اب مسئلۂ وحدت و کثرت کو میں سمجھا
پا کر تجھے سب تیرے سوا بھول گیا ہوں
یہ فنا فی الشیخ والی بات ہے۔
سوال نمبر 10:
حضرت تدبیر اور تقدیر پر بات ہو سکتی ہے؟
جواب:
اگر آپ کو کسی نے تدبیر پر بات کرنے سے روکا ہے تو غلط کیا ہے۔ میرے خیال میں اس پر بات ہو سکتی ہے، بلکہ یہ سارے عالم میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ عالم تدبیر ہی ہے، سب لوگ تدبیریں ہی کر رہے ہیں، اسباب تدبیر ہی کی تو بات ہے، اسباب کے اندر تو ہم بات کر سکتے ہیں، تقدیر کے اندر بات نہیں کر سکتے۔ تقدیر اصل میں اللّٰہ پاک کی ایک صفت ہے، ہمارا اس پر ایمان ہے کہ سب کچھ اللّٰہ کو پہلے سے پتا تھا جو کچھ ہو رہا تھا، جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہو گا وہ سب اللّٰہ کو معلوم ہے، کون کافر، کون مسلمان، کون سخی، کون بخیل، یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کو معلوم ہیں۔ تفصیلات میں اس لئے نہیں جا سکتے کہ اس میں پھر بہت سارے ایسے سوالات اٹھتے ہیں جن کا جواب آپ اپنے محدود ذہن کے مطابق نہیں دے پائیں گے اور گمراہ ہو جائیں گے۔ اس وجہ سے اس کا اجمال عقیدے میں شامل ہے تفصیل ضروری نہیں ہے۔ جیسے امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ سے پوچھا گیا: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طہ: 5) کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا: ’’اَلْاِسْتِوَاءُ مَعْلُوْمٌ وَ الْکَیْفُ مَجْہُوْلٌ وَ السُّوَالُ عَنْہُ بِدْعَۃٌ‘‘ ’’استوا معلوم ہے، اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘
گویا یہ بھی اللّٰہ کی ایک صفت ہے لہذا اس کی کیفیت ہم نہیں جان سکتے۔ کون ہے جو دعوی کر سکتا ہے کہ اللّٰہ کو جان سکتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اپنے آپ کو بھی نہیں جان سکتے کہ آپ کے اندر کیا ہے، بہت سارے ڈاکٹر موجود ہیں ان سے پوچھو کہ کیا انسان کی Anatomy کی، Physiology کی یا psychology کی ساری چیزیں معلوم ہیں؟ تو جب انسان کو اپنے آپ کا پتا نہیں ہے، یہ میں ماہرین فن کی بات کر رہا ہوں، اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کی بات کر رہا ہوں، جب یہ ان کو معلوم نہیں ہے تو پھر اللّٰہ پاک کے بارے میں ساری باتیں کیسے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اب ایسی صورت میں ہم لوگوں کو کیا کرنا چاہئے؟ یہ کرنا چاہئے کہ جتنا بتا دیا جائے من و عن تسلیم کر کے ’سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں ہے‘ پہ عمل کرنا چاہئے۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔
سوال نمبر 11:
حضرت طریق سلوک طے کرنے کا جو دورانیہ ہے وہ کس چیز پر منحصر ہے اور اگر کوئی دو تین سال سے کم میں طے کر لے تو وہ کس چیز پر منحصر ہوتا ہے؟
جواب:
ایک اچھے ڈاکٹر کے پاس کوئی جاتا ہے وہ بڑا اچھا نسخہ بتاتا ہے، وہ آدمی کبھی یہ نسخہ استعمال کرتا ہے کبھی چھوڑ دیتا ہے، کبھی کوئی چیز بڑھا دیتے ہے کبھی کوئی کم کر دیتا ہے۔ اگلی دفعہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو ڈاکٹر اس سے پوچھتا ہے کہ کیا کیا؟ وہ کہتا ہے: ڈاکٹر صاحب مجھے معاف کر دیں۔ میں آپ کے نسخے کو تین دن تک استعمال نہیں کر سکا۔ وہ ڈاکٹر اس کو کہتا ہے: اگر آپ کو اس معافی سے کوئی فائدہ ہو تو میں آپ کو ایک کروڑ مرتبہ معاف کر سکتا ہوں۔ کیا ڈاکٹر کے ایک کروڑ دفعہ معاف کرنے سے مریض کو فائدہ ہو گا یا مریض کے ڈاکٹر سے معافی مانگنے سے کوئی فائدہ ہو گا؟ لہذا یہ طلب پر منحصر ہے، جس کے اندر طلب ہوتی ہے اس کو تو شاید بعض دفعہ سیکنڈ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، بس دیکھ لیا اور پہنچ گیا۔ ایسا بھی ہے، ایسا بھی ہوا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ برسوں ساتھ رہتے ہیں، سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن اپنی فطرت کے مطابق سستی، کاہلی، تنقید اور اعتراض کی وجہ سے سال گزار کر بھی یہ آدمی وہیں کا وہیں رہتا ہے۔ تو یہ پیر کے ارادے پر منحصر نہیں ہے بلکہ مرید کے ارادے پر منحصر ہے کیونکہ مرید ارادہ کرنے والے کا نام ہے، جب مرید میں طلب ہوتی ہے تو شیخ کے دل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جب مرید میں طلب نہیں ہوتی شیخ کے دل میں نہیں ڈالا جاتا، ڈالنے والے کون ہیں؟ اللّٰہ جل شانہ کی ذات۔ حتی کہ بعض دفعہ شیخ کسی اور وجہ سے کچھ دینا چاہتا ہے، مرید کی بے طلبی درمیان میں رکاوٹ بن جاتی ہے بس ایک پردہ گر جاتا ہے، سب ختم، نہیں دے سکتے۔ لہذا کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پردہ آ جاتا ہے اور بس معاملہ ختم۔ لہذا جو اس راستے کے طرق ہیں، اس راستے کے جو اسباب اور وسائل ہیں اور موانع ہیں، ان کو جاننا چاہئے۔ اسی کے لئے ہماری کتاب ’’زبدۃ التصوف‘‘ لکھی گئی ہے۔ آپ میں سے کتنوں نے ’’زبدۃ التصوف‘‘ پڑھی ہے۔ جو پہلے سے میرے مریدین ہیں ان میں سے کتنوں نے زبدۃ التصوف پڑھی ہے؟ حالانکہ پتا ہے کہ شیخ نے یہ کس مقصد کے لئے لکھی ہے، اس میں یہ ساری باتیں بتائی گئی ہیں، جو اس کے موانع ہیں، جن چیزوں کی وجہ سے انسان کو نقصان ہوتا ہے، جن چیزوں کی وجہ سے انسان کو فائدہ ہوتا ہے، کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا، یہ ساری چیزیں لکھی گئی ہیں۔ جس کو طلب ہو گی وہ پڑھے گا۔ میں پانچویں جماعت کا طالب علم تھا، معاشرتی علوم کی نئی کتاب آ گئی تھی، کسی نے مجھے کہا: معاشرتی علوم کی نئی کتاب آ گئی ہے، میں بچہ تھا پھر بھی وہاں سے چند کلومیٹر پر جہانگیرہ کے انڈسٹریل ایریا پہنچا، جس دکان دار کا بتایا گیا تھا اس کی دکان بند تھی، میں نے دکان داروں سے پوچھا کہ اس دکان دار کا گھر کدھر ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ فلاں جگہ اس کا گھر ہے، میں وہاں پر گیا، دوپہر کا وقت تھا اور وہ سو رہا تھا، میں نے اس کو جگایا، اس نے کہا کیا بات ہے؟ میں نے کہا: آپ کے پاس معاشرتی علوم کی کتاب ہے؟ کہتا ہے: ہے۔ میں نے کہا وہ مجھے چاہئے۔ وہ میرے ساتھ چل پڑا، دکان پر آ کر اس نے معاشرتی علوم کی ایک کتاب مجھے دے دی اور پھر چلا گیا۔ جیسے ہی میں نے کتاب لی، اسی وقت پڑھنا شروع کی اور گاؤں پہنچتے پہنچتے سو ڈیڑھ سو صفحات پڑھ چکا تھا۔ اس کو کہتے ہیں طلب، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ بعد میں مجھے معاشرتی علوم پڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ وہ اتنی جامع انداز میں لکھی گئی تھی کہ میٹرک تک مجھے پھر معاشرتی علوم پڑھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ اس کو کہتے ہیں طلب۔ جس کو طلب ہوتی ہے وہ نظر آ جاتی ہے۔ شیخ کی بھی نظر ان چیزوں پہ ہوتی ہے اور اللّٰہ کی نظر تو اس چیز پر سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اللّٰہ تو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ کس میں کتنی طلب ہے۔ اس کے حساب سے اللّٰہ دے دیتے ہیں، میں نے چند دن پہلے بتایا تھا کہ حضرت بابا زکریا ملتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے شیخ خواجہ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس گئے تو سترہ دن میں حضرت نے ان کو خلافت دے دی، لوگ چیخ اٹھے کہ حضرت یہ کیا بات ہے؟ یہ نوجوان لڑکا ہے اس کو آپ نے سترہ دن میں خلافت دے دی۔ انہوں نے کہا: سوکھی لکڑی بھی ہوتی ہے، گیلی لکڑی بھی ہوتی ہے، یہ سوکھی لکڑی تھی، جلدی آگ پکڑ لی۔ آپ لوگ گیلی لکڑیاں ہو، ابھی تو سلگتے رہو گے۔ یہ بھی ہوتا ہے۔ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ ابھی نوجوان تھے اپنے شیخ کے پاس پہنچ گئے چوبیس گھنٹے میں حضرت نے ان کو اجازت دے دی، لیکن طلب اتنی تھی کہ بیس سال حضرت سے جدا نہیں ہوئے۔ یہ باتیں حقیقت ہیں۔ تو ہمیں ایسے لوگوں کے پیچھے چلنا چاہئے، جن کے اندر طلب ہو تو طلب سے ملتا ہے۔ ’’مَنْ جَدَّ وَجَدَ‘‘ ’’جس نے کوشش کی اس نے پا لیا۔‘‘ لہذا جس میں طلب ہو اس کو اللّٰہ دلواتا ہے۔ میں نام نہیں لوں گا، کیونکہ نام لینے سے کام خراب ہوتا ہے۔ ہمارے پاس بھی چند لوگ ایسے آئے ہیں کہ جیسے انسان کے سامنے پکے ہوئے پھل گرتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ انسان کو طلب پیدا کرنی چاہئے۔ یہ اچھا سوال تھا، کیونکہ اس سے بہت ساری باتیں کھل گئیں۔
سوال نمبر 12:
سلطان باہوؒ صاحب کا شعر ہے:
مرشد دا دیدار ہے باہوؔؒ، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہو
جواب:
پتا نہیں سلطان باہو رحمۃ اللّٰہ علیہ کا شعر آپ کو سمجھ میں آئے یا نہ آئے، کیونکہ بزرگوں کے اشعار میں بڑے رمز ہوتے ہیں، میں آپ کو سادہ سا واقعہ بتاتا ہوں، جس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ مرشد کے دیدار سے کیا مراد ہے۔ تین بڑے اولیاء اللّٰہ اپنے شیخ کے پاس موجود تھے، یہ وہ اولیاء اللّٰہ تھے جو طے ارض والے تھے جہاں پہنچنا چاہیں فوراً پہنچ جائیں، عید کا دن آ گیا یعنی کل عید ہے، شیخ نے ایک سے پوچھا: عید کہاں منانی ہے؟ نماز کہاں پڑھنی ہے؟ کہا: حضرت مکۃ المکرمہ میں بیت اللّٰہ شریف میں۔ حضرت نے فرمایا: سبحان اللّٰہ سبحان اللّٰہ بہت زبردست، بہت اچھا سوچا ہے، اللّٰہ جل شانہ وہاں کی برکات نصیب فرما دیں، دعا فرمائی۔ دوسرے سے کہا: کہاں پر عید پڑھو گے؟ اس نے کہا میں تو مسجد نبوی میں روزہ رسول ﷺ میں عید پڑھوں گا۔ فرمایا ما شاء اللّٰہ ما شاء اللّٰہ! بہت اچھی بات ہے، اللّٰہ تعالی آپ کو وہاں کی برکات نصیب فرما دیں۔ تیسرے سے پوچھا، اس نے کہا: حضرت جہاں آپ ہوں گے وہاں آؤں گا فرمایا: ما شاء اللّٰہ تم جیت گئے دونوں سے۔ آپ مجھے بتائیں جس کو اللّٰہ پاک نے آپ کے لئے ٹونٹی بنا دیا، واٹرٹینک بنا دیا کہ اگر پینا ہے تو اس سے پی لو، اب اس کو کھولنے میں آپ کی خیر ہے یا دوسروں کی ٹونٹیاں کھولنے میں آپ کی خیر ہے؟ اسی طرح شیخ بھی اللّٰہ پاک کے دینے کا ایک دروازہ ہے، جتنا آپ اس دروازے کے قریب ہوں گے، جتنا آپ اس دروازے کی طرف محبت کی نگاہ سے دیکھیں گے، طلب کی نگاہ سے دیکھیں گے تو یوں سمجھ لیجئے کہ آپ نے جھولی اللّٰہ کے سامنے پھیلائی ہے اور جھولی اللّٰہ کے سامنے پھیلاؤ گے تو اللّٰہ دے گا۔ لوگ کہتے ہیں یہ تو شیخ کے سامنے جھولی پھیلائے ہوا ہے۔ حالانکہ اصل میں تو اس نے خدا کے سامنے جھولی پھیلائی ہوتی ہے، وہ لینا تو خدا سے چاہتا ہے لیکن ذریعہ اللّٰہ پاک نے شیخ کو بنایا ہوتا ہے۔ لیکن عقیدے کے لحاظ سے بات پکی ہونی چاہئے۔ اصل میں لوگ عقیدے اور مظہر میں فرق نہیں کرتے، نتیجتاً گمراہ ہو جاتے ہیں۔ شیخ کا پہلا کام یہ ہے کہ اس کو یہ سمجھائے کہ دینا اللّٰہ نے ہے، اللّٰہ پاک ہی دے گا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک واقعہ ہے جو مولوی نصیر الدین صاحب مرحوم نے خود ہمیں خود سنایا ہے، فرمایا: ہمارے پردادا کے پاس کوئی دیہاتی آدمی آ گیا اور آ کر کہا: حضرت تُسی دیسو (آپ دیں گے) حضرت نے فرمایا: یہ نہ کہو، کہو: کہ اللّٰہ دے سی (اللہ دے گا) اس نے کہا: نہیں حضرت تُسی دیسو۔ انہوں نے کہا: اللّٰہ دے سی۔ کہتے ہیں: حضرت نے ان کی گردن کو پکڑا اور نیچے لے گئے زمین کے ساتھ لگا دی اور پوچھا کِی (کیا) نظر آ رہا ہے؟ اس نے کہا ککھ (کچھ بھی نہیں) نظر آ رہا ہے۔ انہوں نے کہا: اللّٰہ دے سامنے میں ککھ وی نہیں سی۔ یہ ہے شیخ کا کام۔ شیخ اس کو یہی بتائے گا کہ اللّٰہ دے گا۔ لیکن اللّٰہ دے گا اس ذریعہ سے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک واٹر ٹینک ہے، اس کے ساتھ نل ہے، نل کے ساتھ ٹونٹی ہے، آپ پانی پینا چاہتے ہیں پانی ٹینکی سے آ رہا ہے، نل کے ذریعے سے آ رہا ہے، پانی کی ٹونٹی سے نکل رہا ہے۔ آپ پانی کہاں سے لیں گے؟ ٹونٹی سے۔ آپ کو پتا ہے پانی ٹینکی سے آ رہا ہے اور میں ٹینکی سے پانی لے رہا ہوں، یہ بات بالکل صحیح ہے لیکن ذریعہ کیا ہے؟ آپ ٹینکی کے ساتھ اپنی بالٹی لگاتے رہیں کیا پانی آئے گا؟ نل کے ساتھ لگائیں پانے آئے گا؟ بس آسان کام ہے بالٹی ٹونٹی کے سامنے رکھ دو، ٹونٹی کھولو۔ ٹونٹی کھولنے کا مطلب شیخ کے ساتھ محبت ہے، جتنی محبت آپ کو شیخ کے ساتھ ہو گی اتنا ہی اللّٰہ پاک دے گا، بس کام آسان ہو گیا۔ تو یہ مطلب ہے اس کروڑوں حجوں کے ثواب کا۔ اللّٰہ تعالی ان کے درجات بلند عطا فرمائے وہ یہ باتیں کہہ سکتے تھے۔ ہم لوگ کہیں تو لوگ ہماری چمڑی اتار دیں۔
سوال نمبر 13:
حضرت طریقِ سلوک میں تکمیل کا کیسے اندازہ ہو، اگر کسی کے شیخ دنیا سے پردہ فرما جائیں تو کیا ہو گا؟
جواب:
سید سلیمان ندوی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب فوت ہو گئے تو مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ روتے رہے کہ مجھے راستے میں چھوڑ گئے، حضرت نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا، ظاہر ہے وقت آ گیا تو وہ دنیا سے چلے گئے۔ پھر شاہ عبد العزیز دعا جو رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس پہنچ گئے، حضرت نے ابتدا ہی میں خلافت عطا فرما دی۔ فرمایا: بنے بنائے تو ادھر سے آئے ہو ہم نے تو صرف اس کا اظہار کر دیا۔ پھر فرمایا: خلافت تجھے میں دے رہا ہوں لیکن تم ہو سلیمانی۔ واقعتاً حضرت سلیمانی ہی رہے، حضرت کی کتاب کا نام ہے ’’سلوکِ سلیمانی‘‘ ’’سلوکِ عزیزی‘‘ نہیں ہے۔ بعض اوقات اس طرح ہوتا ہے کہ بعض حضرات کی تربیت کسی اور جگہ ہو جاتی ہے تکمیل کسی اور جگہ ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ سستی کی وجہ سے ہو تو ٹھیک نہیں ہے اور اگر من جانب اللّٰہ ہو تو ظاہر ہے اس کو حق ہے کیونکہ وہ بادشاہ ہے، ملک الملک ہے جو چاہے کرے۔
انسان کو اپنا مطلب اللّٰہ کے ساتھ صحیح رکھنا چاہئے کہ میں اللّٰہ کا بن جاؤں، تو وہ مقصود ہے، باقی چیزیں مقصود نہیں ہیں، بس وہ اگر مل گیا تو سبحان اللّٰہ! لیکن پتا کیسے چلے گا؟ کیا بڑے سے بڑے بزرگ کو پتا ہے کہ وہ جنتی ہیں؟ نہیں پتا۔ کیا خیال ہے چھوڑ دے سارا کام؟
سوال نمبر 14:
حضرت اپنے نفس پہ قابو پانے کا سب سے آسان طریقہ کیا ہے؟
جواب:
ایسا ہی سوال میں نے اپنے شیخ مولانا اشرف رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کیا تھا کہ حضرت اپنی اصلاح کا سب سے آسان طریقہ کیا ہے؟ حضرت کو پتا تھا کہ میں اٹامک انرجی میں ہوں، حضرت مسکرائے، حضرت بڑی خوش مزاج طبیعت کے مالک تھے۔ فرمایا: مجھے تم ایٹم بم بنانے کا آسان طریقہ بتاؤ میں تمہیں اصلاح کا آسان طریقہ بتاتا ہوں۔ بس میں چپ ہو گیا۔ میں نے سوچا: میرے ہاتھ سے بات نکل گئی۔ خیر حضرت مسکرائے اور فرمایا ٹھیک ہے بتاتا ہوں بتاتا ہوں بتاتا ہوں۔ پھر فرمایا: سیرت کی کتابیں پڑھو، لیکن عمل کی نیت سے پڑھو، ان شاء اللّٰہ فائدہ ہو جائے گا۔
سوال نمبر 15:
لطائف کسے کہتے ہیں؟
جواب:
لطائفِ ستہ۔ لطائف جمع ہے لطیفہ کی یعنی لطیف چیز، لطیف باریک چیز کو کہتے ہیں۔ اللّٰہ جل شانہ نے جسم کے اندر کچھ حساس مقامات بنائے ہوئے ہیں جہاں کچھ چیزیں محسوس ہو جاتی ہیں۔ یہ چونکہ کشفی امور سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ان میں اختلاف بھی پایا جاتا ہے، بہرحال نقشبندی حضرات کے ہاں اس پر بہت زیادہ مدار ہے، چشتی حضرات کے نزدیک صرف ایک لطیفہ ہے اور وہ لطیفہ قلب ہے اور نقشبندی حضرات کئی لطائف کے قائل ہیں، ان میں لطیفہ قلب، لطیفہ روح، لطیف سر، لطیفہ خفی، لطیفہ اخفی، لطیفہ نفس، یہ لطائف ہوتے ہیں۔ ان کو آہستہ آہستہ ترتیب کے ساتھ جگایا جاتا ہے، منور کیا جاتا ہے، روشن کیا جاتا ہے، چلایا جاتا ہے۔ اس کے اپنے انوارات اور برکات ہوتے ہیں، لیکن ان سب کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ محسوسات کا جو وراء الوراء کی ذات کے ساتھ تعلق ہے انسان کو وہ محسوس ہونا شروع ہو جائے۔ اب میں کہتا ہوں میرا دل اللّٰہ اللّٰہ کر رہا ہے، اب میرے دل پر میرا کوئی بس نہیں کرے یا نہ کرے۔ کیا کوئی بس ہے؟ نہیں ہے بس۔ لیکن مجھے حکم ہے اپنے دل کی طرف متوجہ رہوں کہ وہ اللّٰہ اللّٰہ کر رہا ہے، اللّٰہ اللّٰہ کر رہا ہے، اللّٰہ اللّٰہ کر رہا ہے، توجہ رکھو، توجہ رکھو، توجہ رکھو۔ اگر وہ کہے کہ نہیں ہو رہا، نہیں ہو رہا، نہیں ہو رہا۔ میں کہتا ہوں بھئی کرو کرو ہو جائے گا ہو جائے گا۔ آپ کہیں گے عجیب بات ہے۔ ابتدا میں نہیں پتا چلے گا اور درمیان میں کبھی کبھی تھوڑا تھوڑا ہوتا ہوا محسوس ہو گا لیکن تھوڑا تھوڑا اور کبھی کبھی۔ پھر شیخ کو آپ بتائیں گے حضرت تھوڑا تھوڑا کبھی کبھی ہو رہا ہے۔ شیخ کہے گا جاری رکھو جاری رکھو جاری رکھو، ہونا شروع ہو جائے گا۔ پھر ما شاء اللّٰہ کچھ تھوڑا سا زیادہ شروع ہو جائے گا، پھر تھوڑا سا اور زیادہ شروع ہو جائے گا، پھر سبحان اللّٰہ اچھلنے لگے گا، چل پڑے گا۔ پھر آپ کو کسی اور جگہ کا بتا دیں گے پھر کسی اور جگہ کا۔ یہ سب چیزیں آپ کے کنٹرول میں نہیں تھیں، آپ کے سمع و بصر کی پہنچ سے باہر ہیں، لیکن پھر بھی ہونا شروع ہو گیا۔ اس طرح اللّٰہ پاک کے ساتھ تعلق آپ کے سمع و بصر کے بس میں نہیں ہے، لیکن کیسے اللّٰہ کو محسوس کریں، کیسے کیفیتِ احسان پیدا کریں، یہ چیز کیسے کسی کو مل سکتی ہے؟ اس چیز کی مشق کے ذریعے سے سبحان اللّٰہ وہ بھی آہستہ آہستہ محسوس ہونے لگتا ہے، پھر ایسا محسوس ہو جاتا ہے کہ آدمی سمجھتا ہے کہ میں تو گویا اللّٰہ کے سامنے ہوں۔ جیسے حدیث میں آیا ہے کہ: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللہَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ (بخاری شریف: 50)
ترجمہ: ’’تو ایسے عبادت کر جیسے تو خدا کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے یہ کیفیت حاصل نہیں تو یہ تو لازم رکھو کہ بے شک خدا تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہ دوسرا عقلی تصور ہے، پہلا طبعی تصور ہے، پہلا طبعی تصور کسی کسی کے قابو میں آتا ہے، دوسرا ہر ایک کر سکتا ہے، اگر طبعی نہیں کر سکتے تو چلو عقلی پر گزارا کر لو۔ لیکن اس سے تو اب کم نہ ہو۔ کیونکہ حدیث شریف میں یہی ہے کہ: ’’أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ‘‘ کہ اگر تم اس میں بے بس ہو، نہیں کر سکتے ہو تو ’’فَإِنَّهٗ يَرَاكَ‘‘ کہ وہ تو بے شک تجھے دیکھ رہا ہے یہ تو سمجھ لو۔ یہ لطائف کی بات ہے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ