اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال نمبر 1:
کچھ لوگ تصوف کو جہاد پر فوقیت دیتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟
جواب:
اگر میں اس سوال کے جواب میں اس طرح کہوں کہ کیا روح کو سر پر فوقیت حاصل ہے؟ تو اس کا کیا جواب ہوگا؟ ظاہر ہے کہ سر کے بغیر بھی تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا، لیکن اس طرح کے سوالات کا جواب کیا ہوگا کہ کیا روح کو دل پر فوقیت حاصل ہے؟ کیا روح کو گردوں پہ فوقیت حاصل ہے؟ پس یہ بھی اسی قسم کا سوال ہے۔ تصوف روح ہے، للّٰہیت تمام اعمال کی روح ہے، چاہے جہاد ہو، چاہے مدرسے کی تعلیم و تدریس ہو، چاہے تبلیغ ہو، چاہے کوئی دوسرا دینی کام ہو، سب میں للّٰہیت بنیاد ہے۔ اگر للّٰہیت نہ ہو، تو وہ کام قبول نہیں ہوتا۔ اس لحاظ سے تصوف چونکہ للّٰہیت کو پیدا کرتا ہے، اس لئے یہ تمام کاموں کی جان ہے۔ پس ہر شخص جو بھی دین کا کام کرتا ہو، تو اس کو اپنی اصلاحِ نفس ضرور کرنا پڑے گی، وہ اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ اس کو علیحدہ کام نہ سمجھا جائے، بلکہ اس کو سارے کاموں کا لازمی حصہ سمجھنا چاہئے۔ جہاد بھی کرنا ہو، تو پہلے اپنی اصلاحِ نفس کرو، پھر جہاد کرو۔ تعلیم و تدریس کرنی ہو، تو پہلے اپنے نفس کی اصلاح کرو، پھر تعلیم و تدریس کرو۔ آپ تبلیغی بننا چاہتے ہیں، تو پہلے اپنی اصلاحِ نفس کرو، پھر تبلیغ کر لو۔ مقصد یہ ہے کہ جو بھی دینی کام کوئی شخص کرنا چاہتا ہے، پہلے اس کے لیے اپنی اصلاح ضروری ہے۔ میرے خیال میں میں نے جہاد کی مخالفت نہیں کی، کیونکہ آج کل بہت نازک دور ہے، جو شخص بھی اس قسم کی بات کرتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ وہ فلاں چیز کے خلاف ہے۔
سوال نمبر 2:
حال اور قال میں سے کس کو فوقیت حاصل ہے؟
جواب:
یہ وہی بات ہے کہ روح اور جسم میں سے کس کو فوقیت حاصل ہے؟ جسم کے بغیر روح نہیں ٹھہر سکتی، لہذا جسم اس کے لیے ضروری ہے۔ اگر جسم نہیں ہوگا، تو روح کیسے ٹھہرے گی۔ مثلاً: روح پہلے بھی تھی، روح بعد میں بھی ہوگی، لیکن اس سے اعمال صادر نہیں ہوسکتے۔ صرف روح سے نہ پہلے اعمال صادر ہوسکتے تھے اور نہ آئندہ صادر ہوں گے۔ اعمال تب صادر ہوسکتے ہیں، جب روح اور جسم کا رشتہ آپس میں موجود رہے۔ اور روح کے بغیر جسم بھی لاش ہے۔ اسی طریقے سے قال عمل کے لیے علمِ ظاہری ہے، لیکن اس علم پر عمل تب ہوسکتا ہے اور اس عمل میں جان تب آسکتی ہے، جب حال موجود ہو، یعنی اللّٰہ کے ساتھ تعلق موجود ہو۔ اس لیے مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا:
قال را بگذار و مردِ حال شو
پیشِ مردِ کاملے پامال شو
یعنی قال کو ایک طرف کردو اور مردِ حال بن جاؤ۔ اس کے لئے کسی شیخِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کرو۔ میرے خیال میں مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ صاحب نے فتویٰ دے دیا ہے، اب اس کے بعد میرے جیسے آدمی کے فتوے کی ضرورت نہیں ہے۔
سوال نمبر 3:
کیا رمضان سے پہلے خانقاہ میں کسی مستند مفتی صاحب کا بیان سوالات و جوابات کے لئے ہوسکتا ہے، تاکہ خواتین و حضرات مستفید ہوسکیں۔
جواب:
بالکل ہوسکتا ہے۔ ہم مفتی خلیل صاحب سے درخواست کر لیں گے، وہ جوابات دے دیں گے۔ اللّٰہ کرے کہ حضرت کی طبیعت ٹھیک ہو۔
سوال نمبر 4:
جن خواتین کے چھوٹے بچے ہوں اور سنبھالنے والا کوئی نہ ہو، تو وہ عباداتِ رمضان یعنی تراویح وغیرہ کا اہتمام کیسے کریں؟
جواب:
جیسے گھر کے دوسرے کام ہوسکتے ہیں، اس طریقے سے عبادت بھی ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ دنیا میں جتنی بھی عورتیں ہیں، انہوں نے بچے بھی سنبھالے ہیں اور رمضان کی تراویح وغیرہ کو بھی ادا کیا ہے۔ ایسی کوئی بات تو ہے نہیں کہ رمضان کی عبادات مثلاً: تراویح وغیرہ کوئی نئی عبادات آئی ہیں یا اب خواتین کے بچے ہیں، پہلے ان کے بچے نہیں تھے۔ پس انسان کو طریقہ سیکھ لینا چاہئے۔ مشکل ضرور ہوتی ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ اور مشکل کا اجر ہے۔ لہٰذا اس وجہ سے سستی نہیں کرنی چاہئے۔
سوال نمبر 5:
غلطی اور بھول میں کیا فرق ہے؟
جواب:
بھول اسے کہتے ہیں کہ کسی کو کوئی چیز یاد نہ رہے۔ اور غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ کسی کو کسی چیز کی سمجھ نہ ہو۔ مثلاً: کسی کو مسئلہ معلوم نہ ہو، تو اس کو بھی ہم غلطی ہی کہیں گے کہ اس نے غلطی کی۔ البتہ بھول میں مسئلہ تو معلوم ہوتا ہے، لیکن یاد نہیں رہتا۔ روزے میں بھول ہوسکتی ہے کہ روزہ یاد نہ رہے۔ پس روزے میں یہ حکم ہے کہ اگر روزہ یاد نہ ہو اور کچھ کھا پی لیا، تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔ لیکن اعتکاف میں اس کی گنجائش نہیں ہے، اعتکاف کے دوران غلطی بھی اعتکاف کو توڑ دیتی ہے۔ یعنی اعتکاف کے دوران چاہے غلطی ہو یا بھول، اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ پس اعتکاف میں اور اسی طرح احرام میں Over alertness (زیادہ ہوشیاری) کی ضرورت ہے۔ یعنی انسان اپنے اوپر دل کی ایسی چوکیداری لگائے کہ وہ غلطی بھی نہ کر سکے۔ جیسے کسی طالب علم کا پیپر ہو اور اس نے تھوڑا سونا بھی ہو، ابھی پیپر کے وقت میں دو گھنٹے باقی ہوں، وہ سوچے کہ میں ایک گھنٹہ سو جاتا ہوں، پھر بیدار ہوجاؤں گا۔ پس وہ جس طرح الارم وغیرہ اور اپنے اٹھانے کے لئے لوگوں کو کہنے کا انتظام کرے گا، وہ سب آپ تصور کر لیں، وہی انسان کا overalert (زیادہ محتاط) ہونا ہے، تاکہ مجھ سے غلطی کا امکان ہی نہ ہو۔
سوال نمبر 6:
رضا بالقضاء پر کچھ فرمائیں۔
جواب:
قضاء تقدیر کو کہتے ہیں اور رضا راضی ہونے کو کہتے ہیں، پس تقدیر پر راضی ہونا رضا بالقضاء ہے۔ آپ عمل کریں، اسباب اختیار کریں اور نتیجہ اسباب کے بالکل الٹ سامنے آئے، تو آپ اس پر دل سے راضی رہیں کہ اسی میں میرا فائدہ ہوگا، اللّٰہ پاک کو بہتری منظور ہوگی۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ اللّٰہ کی مرضی۔ پس ان الفاظ میں جان پیدا کرنے کی ضرورت ہے، اسی کو رضا بالقضاء کہتے ہیں۔ زبان سے تو ہم کہتے ہیں کہ اللّٰہ کی مرضی، لیکن اگر ان الفاظ میں جان آجائے اور یہ دل کی کیفیت ہوجائے، تو یہ رضا بالقضاء ہے۔
سوال نمبر 7:
اگر کوئی شخص اعتکاف میں بیٹھے اور بیماری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے، تو کیا اس کی قضا اسی مسجد میں کرنا ضروری ہوگی یا کسی دوسری مسجد میں بھی کر سکتا ہے؟
جواب:
اسی مسجد میں قضا ضروری نہیں، کسی دوسری مسجد میں بھی کر سکتا ہے۔ بس ایک دن کی قضا کرنی پڑے گی اور اس کے ساتھ اسے روزہ بھی رکھنا پڑے گا۔
سوال نمبر 8:
رمضان میں تقلیلِ طعام کے علاوہ بھی کوئی مجاہدہ ہے؟ اگر ہے، تو کیا ہے؟
جواب:
حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے رمضان میں چاروں مجاہدے ثابت کئے ہیں۔ تقلیلِ طعام کو تو سب لوگ جانتے ہی ہیں، تقلیلِ منام بھی سب لوگ محسوس کر سکتے ہیں، کیونکہ رمضان شریف میں تراویح بھی پڑھنی پڑتی ہے، سحری کے لیے بھی اٹھنا ہوتا ہے، لہٰذا ابتدا میں بھی اور انتہاء میں بھی نیند کم ہوجاتی ہے، اس وجہ سے تقلیلِ منام کا مجاہدہ بھی رمضان میں موجود ہے۔ اور اگر ایک انسان صحیح روزہ رکھتا ہو، تو وہ باتیں بھی کم کرے گا، کیونکہ غلطی کا امکان زیادہ ہے۔ لہٰذا تقلیلِ کلام بھی پایا گیا۔ اور اگر اعتکاف کر لے، تو اس میں تو بہت زیادہ امکان ہے کہ تقلیلِ کلام بھی ہوجائے گا اور اس میں تقلیلِ خلط مع الانعام بھی ہوجائے گا۔ یعنی لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا کم ہوجائے گا، کیونکہ اعتکاف میں لوگوں سے ملنا جلنا نہیں ہوتا، بلکہ اپنے آپ کو عبادت میں مشغول کرنا ہوتا ہے۔ پس رمضان شریف میں چاروں مجاہدے پائے جاتے ہیں۔
سوال نمبر 9:
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
جواب:
اس طرح کا شعر تو مجھے یاد نہیں ہے۔ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" یہ ایک مصرعہ تو ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ مصرعہ (جو سوال میں اس کے ساتھ جوڑا گیا ہے) نہیں ہے، بلکہ کوئی دوسرا مصرعہ ہے۔ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی"۔ اگرچہ اس کا مفہوم صحیح ہے، مفہوم غلط نہیں ہے، لیکن شعر اس طرح نہیں ہے۔ کسی نے غلط کیا ہے کہ ان دو مصرعوں کو اکٹھا کردیا ہے۔ "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی" یہ غالب کے ایک شعر کا مصرعہ ہے۔ مذکورہ دونوں مصرعوں کا مطلب تو معلوم ہے، لیکن اس طرح اکٹھا شعر کی صورت میں ہمارے علم میں ہے۔
سوال نمبر 10:
نصاب پر سال مکمل ہونے کے بعد رمضان کی فضلیت حاصل کرنے کے لئے زکوۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرنا کیا درست ہے؟
جواب:
اگر کسی کا زکوۃ ادا کرنے کا وقت اتفاقاً رمضان شریف میں آرہا ہو، تو اچھا ہے، لیکن اگر کسی کا زکوۃ ادا کرنے کا وقت پہلے بن رہا ہو، تو اس کو تاخیر کرنے کی وجہ سے گناہ ہوگا، کیوں کہ زکوۃ کو فوراً ادا کرنا واجب ہے اور وہ واجب کو چھوڑ کر مستحب پر عمل کر رہا ہے۔ تو وہ اپنا نقصان کر رہا ہے۔
سوال نمبر 11:
حضرت! گورنمنٹ والے تو رمضان میں زکوٰۃ کاٹتے ہیں؟
جواب:
گورنمنٹ والے شریعت پر تو نہیں چل رہے، انہوں نے اپنی آسانی کے لیے ایسا کیا ہوا ہے، حالانکہ شرعاً ایسی بات نہیں ہے۔ آج ہی مجھے فرحان نامی ایک شخص نے زکوۃ کے بارے میں مسئلہ معلوم کرنے کے لئے فون کیا تھا، میں نے ان سے کہا کہ زکوٰۃ کا رمضان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، تم کب صاحبِ نصاب بنے تھے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے پتا نہیں۔ میں نے کہا کہ پھر پہلی دفعہ آپ کے پاس ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر مال جب آیا ہو، اس تاریخ کو آپ یاد رکھیں، اس تاریخ کو آپ صاحبِ نصاب ہوگئے۔ اس کے بعد جب بھی وہ قمری تاریخ آئے گی، تو آپ کے اوپر زکوٰۃ واجب ہوجائے گی۔ انہوں نے جب پیچھے Bank date check کی، تو غالباً یکم فروری 1991 میں ان کو دس ہزار روپے تنخواہ ملی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ اس وقت چاندی کی قیمت کیا تھی؟ پتا چلا کہ 100 روپے تولہ تھی۔ تو اس لحاظ سے ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ساڑھے باون سو بنتے تھے۔ جب وہ یکم فروری کو دس ہزار روپے کے مالک ہوگئے تھے، تو یکم فروی کا ہم نے حساب کیا، تو وہ 18 ذی القعدہ کا دن بنتا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب آپ 18 ذی القعدہ کو زکوۃ دے دیا کریں۔ 18 ذی القعدہ کو آپ کے پاس جتنے پیسے ہوں گے، اس کے اوپر ڈھائی فیصد آپ زکوۃ نکالیں گے۔ تاخیر کے گناہ کو لے کر رمضان کی برکت کو حاصل کرنا؛ یہ نفع کا سودا نہیں ہے، بلکہ نقصان کا سودا ہے۔
ہمارے ایک دوست ہیں، جو کافی سادہ ہیں اور ایک دوسرے دوست ہیں، جو کافی تیز ہیں۔ ایک دفعہ ہم گاڑی میں جا رہے تھے، تو وہ ان سے کہنے لگے کہ رمضان شریف میں جمعہ اور جماعت کا ثواب بہت زیادہ ہوجاتا ہے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ زیادہ ہوجاتا ہے۔ پھر 70 گنا ہوجاتا ہے۔ پھر انہوں نے ان سے کہا کہ پھر تو رمضان میں حج کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوگا۔ آگے سے انہوں نے کہا کہ ہاں! حج کا ثواب بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اب اس بیچارے کو دیکھ لو۔ یہ تو وہ والی بات ہوگئی کہ زبردستی کسی چیز پر کوئی چیز فٹ کردو۔ پس وہ رمضان کے ثواب پر حج کو بھی لے آئے۔
سوال نمبر 12:
اکثر لوگ quantity پر زیادہ فوکس کرتے ہیں کہ ہم اتنا پڑھ لیں۔ کیا یہ درست ہے؟
جواب:
اتنی تجوید کے ساتھ قرآن پاک پڑھنا کہ فرض کی ادائیگی ہوجائے، زبان سے کسی حرف کی ادائیگی اس طرح نہ ہو کہ جس سے تلاوت ہی ادا نہ ہو یا غلط ادا ہو، واجب اور لازم ہے۔ اگر ایسا نہیں کر رہے، تو پھر اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص جلدی جلدی صحیح پڑھ سکتا ہے یعنی اس کا حق ادا کر سکتا ہے، تو پھر ذوق پر ہے کہ اس کا ذوق quality کی طرف ہے یا اس کا ذوق quantity کی طرف ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے کسی نے پوچھا کہ درود شریف اگر چھوٹا پڑھوں گا، تو زیادہ پڑھ لوں گا اور اگر درودِ ابراہیمی پڑھوں گا، تو تھوڑی مقدار میں ہوگا، تو میں کیا کروں؟ حضرت نے فرمایا کہ اس کا مسئلہ ذوق پر ہے۔ اگر آپ زیادہ مستند اور زیادہ مقبول درود پڑھنا چاہتے ہو، تو پھر درودِ ابراہیمی پڑھ لو اور تعداد پہ نظر نہ کرو۔ اور اگر آپ زیادہ مقدار میں پڑھنا چاہتے ہو، تو چھوٹا درود پڑھ لو۔ لیکن اس میں کم از کم ایسی تلاوت کرنا کہ حروف کی ادائیگی صحیح ہو، یہ لازم ہے۔ یعنی اس طرح نہ ہو کہ ہم اس کو تلاوت میں بھی شامل نہ کر سکتے ہوں۔
سوالات کافی کم ہوتے جا رہے ہیں۔
سوال نمبر 13:
حضرت! رمضان میں خانقاہ کے معمولات کی کیا ترتیب ہوگی؟
جواب:
رمضان شریف میں ہماری خانقاہ کے معمولات اس طرح ہوں گے کہ جو عمل مغرب کے بعد ہوتا ہے، وہ عصر کے بعد ہوگا۔ باقی گیارہ سے لے کر بارہ بجے تک کا جو معمول ہے یعنی عورتوں کا بیان، وہ اپنے وقت پر جاری رہے گا اور عشاء کے بعد تراویح پڑھی جائے گی۔ عشاء کی نماز چوں کہ ہم مسجد میں پڑھتے ہیں اور نماز کے بعد تراویح کے لیے بھی جانا ہوتا ہے، اس لئے ہم تمام ساتھیوں سے درخوست کریں گے کہ وہ مسجد میں آخری صفوں میں کھڑے ہوں، تاکہ فرض نماز کی ادائیگی کے بعد فوراً یہاں پر آ کر تراویح میں شامل ہوسکیں اور لوگوں کی صفوں کو چیر کے نہ آنا پڑے۔ یہ ہمارا معمول ہوگا، ان شاء اللّٰہ۔ جوڑ بھی ہوگا۔ جوڑ میں جو لوگ ہوں گے، ظاہر ہے کہ وہ یہیں پر ہی ہوں گے، اس لئے ان کی سحری اور افطاری کا بند و بست بھی یہیں پر ہوگا۔ باقی! جوڑ کے جو معمولات ہیں، وہ تراویح کے ساتھ ہی ہوں گے۔ یعنی عصر سے شروع ہوں گے، پھر افطاری اور مغرب کے بعد انفرادی معمولات ہوں گے، پھر ان شاء اللّٰہ عشاء اور پھر سحری کے لیے اٹھنا۔ یہ جوڑ کے معمولات ہوں گے۔
جب سوالات نہیں ہیں، تو پھر متبادل نظام اختیار کرنا پڑے گا۔ سوالات کی فیصد آہستہ آہستہ کم ہوتی جا رہی ہے۔ میں بھی پھر مولانا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرح کروں گا کہ ایک ہی سوال پر پورا بیان ہوجائے گا۔ میرے خیال میں پھر یہی طریقہ کرنا پڑے گا۔ حضرت کا یہی انداز تھا کہ حضرت سے کوئی شخص ایک سوال کر لیتا تھا، حضرت اس پر پورا بیان کردیتے۔ اس دن کا بیان اس سوال پر ہوجاتا۔ ایک دفعہ حضرت نے حاضرین سے فرمایا کہ بھائی! کوئی بات چلائیے۔ ایک صاحب نے کہہ دیا کہ حضرت! إِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ کا کیا مطلب ہے؟ حضرت نے مسکرا کر فرمایا کہ آپ نے تو بات ختم کردی، اب میں کیا کہوں۔ پھر حضرت نے فرمایا کہ چلیں! ٹھیک ہے، میں بات کر لیتا ہوں۔ پھر اس پر بیان کردیا۔ پھر حضرت نے اس پر پورا بیان کردیا۔ یہ آج کا تازہ کلام ہے۔
پوٹلی ہی جل گئی
اک چوٹ دل پہ لگ گئی جو ضربِ دل بنی
میں نے کہا تیری خوشی ہماری ہی خوشی
کہنے کو اپنا حال ہے جو، الفاظ نہیں ہیں
تیری نظر پڑی تو زندگی بدل گئی
آغوش تیرا مل گیا دنیا سے کٹ گیا
تو مل گیا گزر گیا ہر راہ گزر سے ہی
کہہ دو وفورِ شوق سے مجھے عشق ہے تیرا
کتنا وہ خوش نصیب ہے کہ تیری ذات مل گئی
اس نور کی بارش نے مجھے کردیا بے کل
ایک چوٹ دل پہ لگ گئی چھری سی چل گئی
اب فکر ہے کوئی نہ کوئی غم مجھے شبیرؔ
دنیا کی خواہشات کی پوٹلی جل گئی
ہم کو دعوائے محبت ہے:
ہم کو دعوائے محبت ہے مگر کیا ہے یہ
نام ویسے زبان پر ہی بس چلا ہے یہ
ہے محبت جب خواہشیں ہماری پوری ہوں
اور ایسا نہ ہو کہتے ہیں جانے کیا ہے یہ
نا امیدی کے ہوں الفاظ زباں پر جاری
اور دل میں بھی رکھیں چھپ کے جو شکوہ ہے یہ
عشق کا نور شعلے آگ کے بجھا ہی دے
بیٹا قربان ہو عجب یہ کہ باپ چاہے یہ
کیسے معشوق کے الفاظ ترک کرے عاشق
ہو اگر ایسا، محض عشق کا دعوی ہے یہ
وہ ستر ماؤں سے بھی ہم کو چاہے زیادہ مگر
روک لیں کچھ تو کہیں ہم کیا ممتا ہے یہ
اپنا مقصد ہے زندگی کا اطاعت اس کی
بڑوں سے ہم نے شبیرؔ ایسا ہی سیکھا ہے یہ
الحمد للّٰہ! پیغامِ محبت کے مقابلے میں ہماری توقع کے خلاف اللّٰہ کا شکر ہے کہ شاہراہِ محبت جلدی مکمل ہوگیا۔ شاہراہِ محبت کو ہم نے صرف ان کلاموں کے لیے مخصوص کردیا ہے، جو حج اور عمرے کے دوران ہی منظوم ہوئے۔ جو کلام اس کے بعد ہوا، اس کو ہم نے پیغامِ محبت میں شامل کیا ہے۔ پیغامِ محبت کے شروع میں ہم نے ایک چھوٹا سا آرٹیکل بھی لکھا ہے، اس آرٹیکل کے لکھنے کی وجہ میں آپ کو بتا دوں، کیوں کہ یہ ایک سوال کا جواب بھی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں بڑا تیز کلام ہے اور تیز کلام اگر قوالوں کے ہاتھ لگ گیا، تو وہ تو اس کا حشر کردیں گے۔ اس وجہ سے ہم نے اس کے شروع میں لکھا کہ اگر کلام پڑھنے کی شرائط کو پورا نہیں کرتے، تو ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں۔ وہ شرائط بھی اس میں لکھ دی گئی ہیں۔
سوال نمبر: 14
حضرت! اسلام میں مال جمع کرنے کی ممانعت کہاں تک ہے؟ کیونکہ مال تو دینی خدمت میں بھی خرچ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح حبِ مال کیا مطلب ہے؟
جواب:
قرآن کریم میں اس کی نظیر موجود ہے۔ أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ﴿وَيۡلٌ لِّـكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ نِ الَّذِىۡ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَهٗ يَحۡسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخۡلَدَهٗ﴾ (الھمزۃ: 1,2,3)
ترجمہ: "بڑی خرابی ہے اس شخص کی جو پیٹھ پیچھے دوسروں پر عیب لگانے ولا (اور) منہ پر طعنے دینے کا عادی ہو۔ جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اسے گنتا رہتا ہو۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے ہمیشہ زندہ رکھے گا"۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
پس مال جمع کرنے میں جب یہ شرائط (یعنی مال کو جمع کرنا، اس کو مزے لے لینے کے لیے گننا اور یہ سمجھنا کہ یہ مال ہمیشہ کے لیے میرے پاس رہے گا) پائی جائیں گی، تو وہ حبِ مال میں آئے گا۔ لیکن اگر ضرورت کے طور پر انتظامی لحاظ سے کوئی شخص مال جمع کرتا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ ضروریات تو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں اور اسباب کو اختیار کرنے کا حکم بھی ہے۔ لیکن وہ موہوم خطرات جن کی بنیاد پہ لوگ بہت زیادہ مال جمع کرتے ہیں اور ان کی حرص کم ہی نہیں ہوتی کہ اگر یہ ہوگیا اور اگر یہ ہوگیا اور اگر یہ ہوگیا۔ ایسے لوگوں کی حرص کی تو کوئی انتہا نہیں ہوگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کسی کے پاس سونے کی ایک وادی ہو، تو وہ چاہے گا کہ اس کے پاس سونے کی دوسری وادی ہو۔ پس حبِ مال کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ انسان جتنا زیادہ مالدار ہوتا جائے، اگر اتنا زیادہ بخیل بنتا جائے، تو سمجھ لو کہ اس کے دل میں حبِ مال ہے۔ کیونکہ وہ بخیل اسی وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کو مال کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ مال میرے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ ہوجائے گا اور وہ ہوجائے گا۔ پس حبِ مال کے ساتھ مال جمع کرنا ٹھیک نہیں ہے، لیکن اگر ضرورت کے لیے کوئی شخص مال جمع کرتا ہے، تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
سوال نمبر: 15
اگر کوئی شخص سال مکمل ہونے سے پہلے زکوٰۃ ادا کرنا شروع کردے اور تھوڑی تھوڑی کر کے ادا کرتا رہے، تو کیا ایسا کرنا درست ہوگا؟
جواب:
بالکل ٹھیک ہے، پہلے ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ابھی اس کا سال پورا نہیں ہوا، لیکن وہ ابھی سے زکوٰۃ کی نیت سے پیسے ادا کرنا شروع کردے اور سال ختم ہونے پہ پوری زکوٰۃ ادا ہوجائے، تو کوئی حرج نہیں۔
سوال نمبر: 16
حضرت اگر ایک شخص کی زکوٰۃ کا سال رمضان کے بعد پورا ہورہا ہے، لیکن اگر وہ رمضان میں زکوٰۃ ادا کردے تو کا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب:
کوئی حرج نہیں ہے۔